فہرست مضامین
- کلیاتِ میر
- دیوان ششم
- ردیف الف
- ردیف ب
- ردیف ت
- ردیف چ
- ردیف ر
- ردیف ک
- ردیف ل
- ردیف م
- ردیف ن
- ردیف و
- ردیف ہ
- ردیف ی
کلیاتِ میر
میر تقی میرؔ
دیوان ششم
ردیف الف
(۱۸۸۴)
فلک نے پیس کر سرمہ بنایا
نظر میں اس کی میں تو بھی نہ آیا
زمانے میں مرے شور جنوں نے
قیامت کا سا ہنگامہ اٹھایا
۱۲۸۲۰
بلا تھی کوفت کچھ سوز جگر سے
ہمیں تو کوٹ کوٹ ان نے جلایا
تمامی عمر جس کی جستجو کی
اسے پاس اپنے اک دم بھی نہ پایا
نہ تھی بیگانگی معلوم اس کی
نہ سمجھے ہم اسی سے دل لگایا
قریب دیر خضر آیا تھا لیکن
ہمیں رستہ نہ کعبے کا بتایا
حق صحبت نہ طیروں کو رہا یاد
کوئی دو پھول اسیروں تک نہ لایا
۱۲۸۲۵
غرور حسن اس کا دس گنا ہے
ہمارا عشق اسے کن نے جتایا
عجب نقشہ ہے نقاش ازل نے
کوئی ایسا نہ چہرہ پھر بنایا
علاقہ میرؔ تھا خنجر سے اس کے
ندان اپنا گلا ہم نے کٹایا
(۱۸۸۵)
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
بے دماغی سے با خطاب رہا
ہو کے بے پردہ ملتفت بھی ہوا
ناکسی سے ہمیں حجاب رہا
۱۲۸۳۰
نہ اٹھا لطف کچھ جوانی کا
کم بہت موسم شباب رہا
کارواں ہائے صبح ہوتے گیا
میں ستم دیدہ محو خواب رہا
ہجر میں جی ڈھہا گرے ہی رہے
ضعف سے حال دل خراب رہا
گھر سے آئے گلی میں سو باری
یار بن دیر اضطراب رہا
ہم سے سلجھے نہ اس کے الجھے بال
جان کو اپنی پیچ و تاب رہا
۱۲۸۳۵
پردے میں کام یاں ہوا آخر
واں سدا چہرے پر نقاب رہا
سوزش سینہ اپنے ساتھ گئی
خاک میں بھی ہمیں عذاب رہا
حیف ہے میرؔ کی جناب سے میاں
ہم کو ان سمجھے اجتناب رہا
(۱۸۸۶)
بے طاقتی نے دل کی گرفتار کر دیا
اندوہ و درد عشق نے بیمار کر دیا
دروازے پر کھڑا ہوں کئی دن سے یار کے
حیرت نے حسن کی مجھے دیوار کر دیا
۱۲۸۴۰
سائے کو اس کے دیکھ کے وحشت بلا ہوئی
دیوانہ مجھ کو جیسے پریدار کر دیا
نسبت ہوئی گناہوں کی از بس مری طرف
بے جرم ان نے مجھ کو گنہگار کر دیا
دن رات اس کو ڈھونڈے ہے دل شوق نے مجھے
نایاب کس گہر کا طلبگار کر دیا
دور اس سے زار زار جو روتا رہا ہوں میں
لوگوں کو میری زاری نے بیزار کر دیا
خوبی سے بخت بد کی اسے عشق سے مرے
یاروں نے رفتہ رفتہ خبردار کر دیا
۱۲۸۴۵
جس کے لگائی جی میں نہ اس کے ہوس رہی
یعنی کہ ایک وار ہی میں پار کر دیا
پہلو میں دل نے لوٹ کے آتش سے شوق کی
پایان کار آنکھوں کو خونبار کر دیا
کیا جانوں عشق جان سے کیا چاہتا ہے میرؔ
خوں ریزی کا مجھے تو سزاوار کر دیا
(۱۸۸۸)
موئے ہم جس کی خاطر بے وفا تھا
نہ جانا ان نے تو یوں بھی کہ کیا تھا
معالج کی نہیں تقصیر ہرگز
مرض ہی عاشقی کا لا دوا تھا
۱۲۸۵۰
نہ خود سر کیونکے ہوں ہم یار اپنا
خود آرا خودپسند و خودستا تھا
رکھا تھا منھ کبھو اس کنج لب پر
ہمارے ذوق میں اب تک مزہ تھا
نہ ملیو چاہنے والوں سے اپنے
نہ جانا تجھ سے یہ کن نے کہا تھا
پریشاں کر گئی فریاد بلبل
کسو سے دل ہمارا پھر لگا تھا
ملے برسوں وہی بیگانگی تھی
ہمارے زعم میں وہ آشنا تھا
۱۲۸۵۵
نہ دیوانے تھے ہم سے قیس و فرہاد
ہمارا طور عشق ان سے جدا تھا
بدن میں صبح سے تھی سنسناہٹ
انھیں سنّاہٹوں میں جی جلا تھا
صنم خانے سے اٹھ کعبے گئے ہم
کوئی آخر ہمارا بھی خدا تھا
بدن میں اس کے ہے ہر جائے دلکش
جہاں اٹکا کسو کا دل بجا تھا
کوئی عنقا سے پوچھے نام تیرا
کہاں تھا جب کہ میں رسوا ہوا تھا
۱۲۸۶۰
چڑھی تیوری چمن میں میرؔ آیا
کلک خسپ آج شاید کچھ خفا تھا
(۱۸۸۸)
سوز دروں سے مجھ پہ ستم برملا ہوا
ٹکڑا جگر کا آنکھوں سے نکلا جلا ہوا
بدحال ہوکے چاہ میں مرنے کا لطف کیا
دل لگتے جو موا کوئی عاشق بھلا ہوا
نکلا گیا نہ دام سے پر پیچ زلف کے
اے وائے یہ بلا زدہ دل مبتلا ہوا
کیا اور لکھیے کیسی خجالت مجھے ہوئی
سر کو جھکائے آیا جو قاصد چلا ہوا
۱۲۸۶۵
رہتا نہیں تڑپنے سے ٹک ہاتھ کے تلے
کیا جانوں میرؔ دل کو مرے کیا بلا ہوا
(۱۸۸۸)
جمع اس کے نکلے عالم ہو گیا
جب تلک ہم جائیں اودھم ہو گیا
گو پریشاں ہو گئے گیسوئے یار
حال ہی اپنا تو درہم ہو گیا
کیا کہوں کیا طرح بدلی یار نے
چاؤ تھا دل میں سو اب غم ہو گیا
کیا لکھوں مشکل ہوئی تحریر حال
خط کا کاغذ رونے سے نم ہو گیا
۱۲۸۸۰
دم دیے بہتیرے یاروں نے ولے
خشک نے سا شیخ بے دم ہو گیا
کیوں نہ درہم برہم اپنا ہو مزاج
بات کہتے یار برہم ہو گیا
باغ جیسے راغ وحشت گاہ ہے
یاں سے شاید گل کا موسم ہو گیا
کیا نماز اے میرؔ اس اوقات کی
جب کہ قد محراب سا خم ہو گیا
(۱۸۸۰)
وہ دیکھنے ہمیں ٹک بیماری میں نہ آیا
سو بار آنکھیں کھولیں بالیں سے سر اٹھایا
۱۲۸۸۵
گلشن کے طائروں نے کیا بے مروتی کی
یک برگ گل قفس میں ہم تک نہ کوئی لایا
بے ہیچ اس کا غصہ یارو بلائے جاں ہے
ہرگز منا نہ ہم سے بہتیرا ہی منایا
قد بلند اگرچہ بے لطف بھی نہیں ہے
سرو چمن میں لیکن انداز وہ نہ پایا
انگڑاتے خوبرو یاں حسرت سے پیش و پس ہیں
اینڈا پھرے ہے ہر سو جب اس پری کا سایا
نقشہ عجب ہے اس کا نقاش نے ازل کے
مطبوع ایسا چہرہ کوئی نہ پھر بنایا
۱۲۸۸۰
شب کو نشے میں باہم تھی گفتگوئے درہم
اس مست نے جھنکایا یعنی بہت چھکایا
دل بستگی میں کھلنا اس کا نہ اس سے دیکھا
بخت نگوں کو ہم نے سو بار آزمایا
عاشق جہاں ہوا ہے بے ڈھنگیاں ہی کی ہیں
اس میرؔ بے خرد نے کب ڈھب سے دل لگایا
(۱۸۸۱)
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا
پڑھتے کسو کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا
سعی و تلاش بہت سی رہے گی اس انداز کے کہنے کی
صحبت میں علما فضلا کی جا کر پڑھیے گنیے گا
۱۲۸۸۵
دل کی تسلی جب کہ نہ ہو گی گفت و شنود سے لوگوں کی
آگ پھنکے گی غم کی بدن میں اس میں جلیے بھنیے گا
گرم اشعار میرؔ درو نہ داغوں سے یہ بھر دیں گے
زرد رو شہر میں پھریے گا گلیوں میں نے گل چنیے گا
(۱۸۸۲)
تھا اندوہ گرہ مدت سے دل میں خوں ہو درد ہوا
چاہ نے بدلے رنگ کئی اب جسم سراسر زرد ہوا
وعدہ خلافی اس ظالم کی کھا گئی میری جان غمیں
گرمی کرے وہ مجھ سے جب تک تب تک میں ہی سرد ہوا
گرد و غبار و دشت و وادی گریے سے میرے یک سو ہیں
رونے کے آگے ان کے تو دریا بھی میرؔ اب گرد ہوا ۱۲۸۸۰
(۱۸۸۳)
میں رنج عشق کھینچے بہت ناتواں ہوا
مرنا تمام ہو نہ سکا نیم جاں ہوا
بستر سے اپنے اٹھ نہ سکا شب ہزار حیف
بیمار عشق چار ہی دن میں گراں ہوا
شاید کہ دل تڑپنے سے زخم دروں پھٹا
خونناب میری آنکھوں سے منھ پر رواں ہوا
غیر از خدا کی ذات مرے گھر میں کچھ نہیں
یعنی کہ اب مکان مرا لامکاں ہوا
مستوں میں اس کی کیسی تعین سے ہے نشست
شیشہ ہوا نہ کیف کا پیر مغاں ہوا
۱۲۸۸۵
سائے میں تاک کے مجھے رکھا اسیر کر
صیاد کے کرم سے قفس آشیاں ہوا
ہم نے نہ دیکھا اس کو سو نقصان جاں کیا
ان نے جو اک نگاہ کی اس کا زیاں ہوا
ٹک رکھ لے ہاتھ تن میں نہیں اور جائے زخم
بس میرے دل کا یار جی اب امتحاں ہوا
وے تو کھڑے کھڑے مرے گھر آ کے پھر گئے
میں بے دیار و بیدل و بے خانماں ہوا
گردش نے آسماں کی عجائب کیا سلوک
پیر کبیر جب میں ہوا وہ جواں ہوا
۱۲۸۰۰
مرغ چمن کی نالہ کشی کچھ خنک سی تھی
میں آگ دی چمن کو جو گرم فغاں ہوا
دو پھول لاکے پھینک دیے میری گور پر
یوں خاک میں ملا کے مجھے مہرباں ہوا
سر کھینچا دود دل نے جہاں تیرہ ہو گیا
دم بھر میں صبح زیر فلک کیا سماں ہوا
کہتے ہیں میرؔ سے کہیں اوباش لڑ گئے
ہنگامہ ان سے ایسا الٰہی کہاں ہوا
(۱۸۸۴)
جس رفتنی کو عشق کا آزار ہو گیا
دوچار دن میں برسوں کا بیمار ہو گیا
۱۲۸۰۵
نسبت بہت گناہوں کی میری طرف ہوئی
نا کردہ جرم میں تو گنہگار ہو گیا
حیرت زدہ میں عشق کے کاموں کا یار کے
دروازے پر کھڑے کھڑے دیوار ہو گیا
پھیلے شگاف سینے کے اطراف درد سے
کوچہ ہر ایک زخم کا بازار ہو گیا
بازار میں جہان کے ہے حسن کیا متاع
سو جی سے جس نے دیکھا خریدار ہو گیا
دل لے کے میری جان کا دشمن ہوا ندان
جس بے وفا سے اپنے تئیں پیار ہو گیا
۱۲۸۱۰
عاشق کو اس کی تیغ سے ہے لاگ کھنچتے ہی
یہ کشتنی بھی مرنے کو تیار ہو گیا
مرتے موا رہا نہ ہوا تنگ ہی رہا
پھندے میں عشق کے جو گرفتار ہو گیا
کیا جرم تھا کسو پہ نہ معلوم کچھ ہوا
جو میرؔ کشت و خوں کا سزاوار ہو گیا
(۱۸۸۵)
دشمن ہو جی کا گاہک ہوتا ہے جس کو چاہا
کی دوستی کہ یارو اک روگ میں بساہا
جی ہے جہاں قیامت درد و الم رہا واں
بیمار عاشقی میں شب صبح تک کراہا
۱۲۸۱۵
تازہ جھمک تھی شب کو تاروں میں آسماں کے
اس آسیا کو شاید پھر کر کنھوں نے راہا
خمیازہ کش ہوں اس کی مدت سے اس ادا کا
لگ کر گلے سے میرے انگڑائی لے جماہا
جانا کہ منھ کھلا ہے آتش کدے کا شاید
سینے کے زخم سے جو سرکا ہے ٹک بھی پھاہا
آنکھیں مری لگو ہیں بے جا نہیں لگیں ہیں
دیکھا ہے جن نے اس کو اس نے مجھے سراہا
میں راہ عشق میں تو آگے ہی دو دلا تھا
پرپیچ پیش آیا ان زلفوں کا دوراہا
۱۲۸۲۰
کرنا وفا نہیں ہے آسان عاشقی میں
پتھر کیا جگر کو تب چاہ کو نباہا
کہتے تو تھے نہ دیکھو اس سے لگے نہ جاؤ
سمجھے نہ دیدہ و دل اب کیا کہوں الٰہا
یا مرتضیٰ علیؓ ہے تیرا گدائے در یہ
کر حال میرؔ پر بھی ٹک التفات شاہا
(۱۸۸۶)
بلبل کا شور سن کے نہ مجھ سے رہا گیا
میں بے دماغ باغ سے اٹھ کر چلا گیا
لوگوں نے پائی راکھ کی ڈھیری مری جگہ
اک شعلہ میرے دل سے اٹھا تھا چلا گیا
۱۲۸۲۵
چہرے پہ بال بکھرے رہے سب شب وصال
یعنی کہ بے مروتی سے منھ چھپا گیا
چلنا ہوا تو قافلۂ روزگار سے
میں جوں صدا جرس کی اکیلا جدا گیا
کیا بات رہ گئی ہے مرے اشتیاق سے
رقعے کے لکھتے لکھتے ترسل لکھا گیا
سب زخم صدر ان نے نمک بند خود کیے
صحبت جو بگڑی اپنے میں سارا مزہ گیا
سارے حواس میرے پریشاں ہیں عشق میں
اس راہ میں یہ قافلہ سارا لٹا گیا
۱۲۸۳۰
بادل گرج گرج کے سناتا ہے یعنی یاں
نوبت سے اپنی ہر کوئی نوبت بجا گیا
وے محو ناز ہی رہے آئے نہ اس طرف
میں منتظر تو جی سے گیا ان کا کیا گیا
دل دے کے جان میرؔ نے پایان کار دی
یہ سادہ لوح طرح نئی دل لگا گیا
(۱۸۸۸)
میں ہوں خاک افتادہ جس آزار کا
عشق بھی اس کا ہے نام اک پیار کا
بیچتا سرکیوں نہ گلیوں میں پھروں
میں ہوں خواہاں لطف تہ بازار کا
۱۲۸۳۵
خون کر کے ٹک نہ دل ان نے لیا
کشتہ و مردہ ہوں اس اصرار کا
گھر سے وہ معمار کا جو اٹھ گیا
حال ابتر ہو گیا گھر بار کا
نقل اس کی بے وفائی کی ہے اصل
کب وفاداری ہے شیوہ یار کا
سر جو دے دے مارتے گھر میں پھرے
رنگ دیگر ہے در و دیوار کا
اک گدائے در ہے سیلاب بہار
غم کشوں کے دیدۂ خونبار کا
۱۲۸۴۰
دلبراں دل جنس ہے گنجائشی
اس میں کچھ نقصاں نہیں سرکار کا
عشق کا مارا ہے کیا پنپے گا میرؔ
حال ہے بدحال اس بیمار کا
(۱۸۸۸)
جو تو ہی صنم ہم سے بیزار ہو گا
تو جینا ہمیں اپنا دشوار ہو گا
غم ہجر رکھے گا بیتاب دل کو
ہمیں کڑھتے کڑھتے کچھ آزار ہو گا
جو افراط الفت ہے ایسا تو عاشق
کوئی دن میں برسوں کا بیمار ہو گا
۱۲۸۴۵
اچٹتی ملاقات کب تک رہے گی
کبھو تو تہ دل سے بھی یار ہو گا
تجھے دیکھ کر لگ گیا دل نہ جانا
کہ اس سنگدل سے ہمیں پیار ہو گا
لگا کرنے ہجران سختی سی سختی
خدا جانے کیا آخر کار ہو گا
یہی ہو گا کیا ہو گا میرؔ ہی نہ ہوں گے
جو تو ہو گا بے یار و غم خوار ہو گا
(۱۸۸۸)
دیر بد عہد وہ جو یار آیا
دور سے دیکھتے ہی پیار آیا
۱۲۸۵۰
بیقراری نے مار رکھا ہمیں
اب تو اس کے تئیں قرار آیا
گرد رہ اس کی اب اٹھو نہ اٹھو
میری آنکھوں ہی پر غبار آیا
اک خزاں میں نہ طیر بھی بولا
میں چمن میں بہت پکار آیا
ہار کر میں تو کاٹتا تھا گلا
وہ قماری گلے کا ہار آیا
طائر عمر کو نظر میں رکھ
غیب سے ہاتھ یہ شکار آیا
۱۲۸۵۵
موسم آیا تو نخل دار میں میرؔ
سر منصور ہی کا بار آیا
(۱۸۰۰)
زمانہ ہجر کا آسان کیا بسر آیا
ہزار مرتبہ منھ تک مرے جگر آیا
رہیں جو منتظر آنکھیں غبار لائیں ولے
وہ انتظار کشوں کو نہ ٹک نظر آیا
ہزار طرح سے آوے گھڑی جدائی میں
ملاپ جس سے ہو ایسا نہ یک ہنر آیا
ملا جو عشق کے جنگل میں خضر میں نے کہا
کہ خوف شیر ہے مخدوم یاں کدھر آیا
۱۲۸۶۰
یہ لہر آئی گئی روز کالے پانی تک
محیط اس مرے رونے کو دیکھ تر آیا
نثار کیا کریں ہم خانماں خراب اس پر
کہ گھر لٹا چکے جب یار اپنے گھر آیا
نہ روؤں کیونکے علی الاتصال اس بن میں
کہ جی کے رندھنے سے جوں ابر دل بھی بھر آیا
جوان مارے ہیں بے ڈھنگی ہی سے ان نے بہت
ستم کی مشق کی پر خون اسے نہ کر آیا
لچک کمر کی جو یاد آئی اس کی بہ آوے
کہ پانی میرؔ کے اشکوں کا تا کمر آیا
۱۲۸۶۵
(۱۸۰۱)
ہو کوئی اس بے وفا دلدار سے کیا آشنا
آشنا رہ برسوں جو اک دم میں ہو ناآشنا
قدر جانو کچھ ہماری ورنہ پچھتاؤ گے تم
پھر نہیں ملنے کا تم کو کوئی ہم سا آشنا
باغ کو بے لالہ و گل دیکھ کہتے تھے طیور
جھڑ گئے پت جھڑ میں اب کے ہائے کیا کیا آشنا
اب تو تو لڑکا نہیں عشق و ہوس میں کر تمیز
آشنا سے فرق ہوتا ہے بہت تا آشنا
ملتے ملتے منھ چھپانا بھی لطیفہ ہے نیا
آشنائی یا نہ کریے ہو جیے یا آشنا
۱۲۸۸۰
تھا جنوں کا لطف مجنوں سے سو دنیا سے گیا
مغفرت ہو اس کو وحشی ہم سے بھی تھا آشنا
اب جو ہاتھ آئے ہیں ہم مت مفت کھو دیجو ہمیں
پھر نہ ہو گا تم کو ایسا کوئی پیدا آشنا
کیسا ہی پانی ہو اس کو پیری میں جانا ہے پیر
تھا جوانی میں مگر تو میرؔ دانا آشنا
(۱۸۰۲)
گئے تھے سیر چمن کو اٹھ کر گلوں میں ٹک جی لگا نہ اپنا
تلاش جوش بہار میں کی نگار گلشن میں تھا نہ اپنا
ملا تو تھا وہ بخواہش دل مزہ بھی پاتے ملے سے لیکن
پھریں جو مستی میں اس کی آنکھیں سو ہوش ہم کو رہا نہ اپنا
۱۲۸۸۵
جہاں کا دریائے بیکراں تو سراب پایان کار نکلا
جو لوگ تہ سے کچھ آشنا تھے انھوں نے لب تر کیا نہ اپنا
نکالی سرکش نے چال ایسی کہ دیکھ حیرت سے رہ گئے ہم
دلوں میں کیا کیا ہمارے آیا کریں سو کیا بس چلا نہ اپنا
کہے بھی کوئی تو اس سے جس میں سخن کسو کا اثر کرے کچھ
بکا کیے ہم ہمیشہ مانا کسو دن ان نے کہا نہ اپنا
نہ ہوش ہم کو نہ صبر دل کو نہ شور سر میں نہ زور پا میں
جو روویں کس کس کو روویں اب ہم وفا میں کیا کیا گیا نہ اپنا
جہاں میں رہنے کو جی بہت تھا نہ کرسکے میرؔ کچھ توقف
بنا تھی ناپائدار اس کی اسی سے رہنا بنا نہ اپنا
۱۲۸۸۰
(۱۸۰۳)
پڑا تھا شور جیسا ہر طرف اس لا ابالی کا
رہا ویسا ہی ہنگامہ مری بھی زار نالی کا
رہے بدحال صوفی حال کرتے دیر مجلس میں
مغنی سے سنا مصرع جو میرے شعر حالی کا
نظر بھر دیکھتا کوئی تو تم آنکھیں چھپا لیتے
سماں اب یاد ہو گا کب تمھیں وہ خورد سالی کا
چمک یاقوت کی چلتی ہے اتنی دور کاہے کو
اچنبھا ہے نظر بازوں کو ان ہونٹوں کی لالی کا
پھرے بستی میں رویت کچھ نہیں افلاس سے اپنی
الہٰی ہووے منھ کالا شتاب اس دست خالی کا
۱۲۸۸۵
دماغ اپنا تو اپنی فکر ہی میں ہو چکا یکسر
خیال اب کس کو ہے اے ہمنشیں نازک خیالی کا
ذلیل و خوار ہیں ہم آگے خوباں کے ہمیشہ سے
پریکھا کچھ نہیں ہے ہم کو ان کی جھڑکی گالی کا
ڈرو چونکو جو چسپاں اختلاطی تم سے ہو مجھ کو
تشتّت کیا ہے میری دور کی اس دیکھا بھالی کا
نہ پہنچی جو دعائے میرؔ واں تک تو عجب کیا ہے
علوئے مرتبہ ہے بسکہ اس درگاہ عالی کا
(۱۸۰۴)
دل جو ناگاہ بے قرار ہوا
اس سے کیا جانوں کیا قرار ہوا
۱۲۸۸۰
شب کا پہنا جو دن تلک ہے مگر
ہار اس کے گلے کا ہار ہوا
گرد سر اس کے جو پھرا میں بہت
رفتہ رفتہ مجھے دوار ہوا
بستر خواب سے جو اس کے اٹھا
گل تر سوکھ سوکھ خار ہوا
مجھ سے لینے لگے ہیں عبرت لوگ
عاشقی میں یہ اعتبار ہوا
روز و شب روتے کڑھتے گذرے ہے
اب یہی اپنا روزگار ہوا
۱۲۸۸۵
روؤں کیا اپنی سادگی کو میرؔ
میں نے جانا کہ مجھ سے یار ہوا
(۱۸۰۵)
جس ستم دیدہ کو اس عشق کا آزار ہوا
اک دو دن ہی میں وہ زار و زبوں خوار ہوا
روز بازار میں عالم کے عجب شے ہے حسن
بک گیا آپ ہی جو اس کا خریدار ہوا
دھوپ میں آگے کھڑا اس کے جلا کرتا ہوں
چاہ کر اس کے تئیں میں تو گنہگار ہوا
ہوش کچھ جن کے سروں میں تھا شتابی چیتے
حیف صد حیف کہ میں دیر خبردار ہوا
۱۳۰۰۰
ہو بخود تو کسو کو ڈھونڈ نکالے کوئی
وہی خود گم ہوا جو اس کا طلبگار ہوا
مرغ دل کی ہے رہائی سے مرا دل اب جمع
پرشکن بالوں میں وہ اس کے گرفتار ہوا
پیار کی دیکھی جو چتون کسو کی میں جانا
کہ یہ اب سادہ و پرکار مرا یار ہوا
تکیہ اس پر جو کیا تھا سو گرا بستر پر
یعنی میں شوق کے افراط سے بیمار ہوا
کیونکے سب عمر صعوبت میں کٹی تیری میرؔ
اپنا جینا تو کوئی دن ہمیں دشوار ہوا
۱۳۰۰۵
(۱۸۰۶)
آج اس خوش پرکار جواں مطلوب حسین نے لطف کیا
پیر فقیر اس بے دنداں کو ان نے دنداں مزد دیا
آنسو کی بوند آنکھوں سے دونوں اب تو نکلتی ایک نہیں
دل کے طپیدن روز و شب نے خوب جگر کا لوہو پیا
مرتے جیسے صبر کیا تھا ویسی ہی بے صبری کی
ہائے دریغ افسوس کوئی دن اور نہ یہ بیمار جیا
ہاتھ رکھے رہتا ہوں دل پر برسوں گذرے ہجراں میں
ایک دن ان نے گلے سے مل کر ہاتھ میں میرا دل نہ لیا
(۱۸۰۸)
اب یار دوپہر کو کھڑا ٹک جو یاں رہا
حیرت سے آفتاب جہاں کا تہاں رہا
۱۳۰۱۰
جو قافلے گئے تھے انھوں کی اٹھی بھی گرد
کیا جانیے غبار ہمارا کہاں رہا
سوکھی پڑی ہیں آنکھیں مری دیر سے جو اب
سیلاب ان ہی رخنوں سے مدت رواں رہا
اعضا گداز عشق سے ایک ایک بہ گئے
اب کیا رہا ہے مجھ میں جو میں نیم جاں رہا
منعم کا گھر تمادی ایام میں بنا
سو آپ ایک رات ہی واں میہماں رہا
اس کے فریب لطف پہ مت جا کہ ہمنشیں
وہ دیر میرے حال پہ بھی مہرباں رہا
۱۳۰۱۵
اب در پہ اس کے گھر کے گرا ہوں وگر نہ میں
مدت خرابہ گرد ہی بے خانماں رہا
ہے جان تو جہان ہے مشہور ہے مثل
کیا ہے گئے پہ جان کے گو پھر جہاں رہا
ترک شراب خانہ ہے پیری میں ورنہ میرؔ
ترسا بچوں ہی میں رہا جب تک جواں رہا
(۱۸۰۸)
سخن مشتاق ہے عالم ہمارا
بہت عالم کرے گا غم ہمارا
پڑھیں گے شعر رو رو لوگ بیٹھے
رہے گا دیر تک ماتم ہمارا
۱۳۰۲۰
نہیں ہے مرجع آدم اگر خاک
کدھر جاتا ہے قد خم ہمارا
زمین و آسماں زیر و زبر ہے
نہیں کم حشر سے اودھم ہمارا
کسو کے بال درہم دیکھتے میرؔ
ہوا ہے کام دل برہم ہمارا
ردیف ب
(۱۸۰۸)
ہے عشق میں جو حال بتر تو ہے کیا عجب
مر جائے کوئی خستہ جگر تو ہے کیا عجب
لے جا کے نامے کتنے کبوتر ہوئے ہیں ذبح
اڑتی سی ہم کو آوے خبر تو ہے کیا عجب
۱۳۰۲۵
شبہائے تار و تیرہ زمانے میں دن ہوئیں
شب ہجر کی بھی ہووے سحر تو ہے کیا عجب
جیسے ہے رخنہ رخنہ یہ چرخ اثیر سب
اس آہ کا ہو اس میں اثر تو ہے کیا عجب
جاتی ہے چشم شوخ کسی کی ہزار جا
آوے ادھر بھی اس کی نظر تو ہے کیا عجب
لغزش ملک سے ہووے لچک اس کمر کی دیکھ
عاشق سے جو بندھے نہ کمر تو ہے کیا عجب
ترک وطن کیا ہے عزیزوں نے چاہ میں
کر جائے کوئی رفتہ سفر تو ہے کیا عجب
۱۳۰۳۰
برسوں سے ہاتھ مارتے ہیں سر پہ اس بغیر
ہووے بھی ہم سے دست بسر تو ہے کیا عجب
معلوم سودمندی عشاق عشق میں
پہنچے ہے اس سے ہم کو ضرر تو ہے کیا عجب
گھر بار میں لٹا کے گیا گھر سے بھی نکل
اب آوے وہ کبھو مرے گھر تو ہے کیا عجب
ملتی نہیں ہے آنکھ اس آئینہ رو کی میرؔ
وہ دل جو لے کے جاوے مکر تو ہے کیا عجب
(۱۸۱۰)
آیا ہے شیب سر پہ گیا ہے شباب اب
کرنا جو کچھ ہو تم کو سو کر لو شتاب اب
۱۳۰۳۵
بگڑا بنا ہوں عشق سے سو بار عاقبت
پایا قرار یہ کہ رہوں میں خراب اب
خوں ریزی عاشقوں کی ہے ظالم اگر ثواب
تو تو ہوا ہے تجھ کو بہت سا ثواب اب
بھڑکی دروں میں آتش سوزندہ عشق کی
دل رہ گیا ہے پہلو میں ہو کر کباب اب
ہوں اس بہشتی رو سے جدا میں جحیم میں
رہتا ہے میری خاک کو ہر دم عذاب اب
قاصد جو آیا چپ ہے نشاں خط کا کچھ نہیں
دیکھیں جو لاوے باد کوئی کیا جواب اب
۱۳۰۴۰
کیا رنج و غم کو آگے ترے میں کروں شمار
یاں خود حسابی میری تو ہے بے حساب اب
جھپکی ہیں آنکھیں اور جھکی آتی ہیں بہت
نزدیک شاید آیا ہے ہنگام خواب اب
آرام کریے میری کہانی بھی ہو چکی
کرنے لگو گے ورنہ عتاب و خطاب اب
جانا سبھوں نے یہ کہ تو معشوق میرؔ ہے
خلع العذار سے نہ گیا ہے حجاب اب
(۱۸۱۱)
منھ دھوتے اس کے آتا تو ہے اکثر آفتاب
کھاوے گا آفتابہ کوئی خودسر آفتاب
۱۳۰۴۵
سر صدقے تیرے ہونے کی خاطر بہت ہے گرم
مارا کرے ہے شام و سحر چکر آفتاب
ہر خانہ کیوں نہ صبح جہاں میں ہو پر فروغ
پھرتا ہے جھانکتا اسی کو گھر گھر آفتاب
تجرید کا فراغ ہے یک دولت عظیم
بھاگے ہے اپنے سائے سے بھی خوشتر آفتاب
نازک مزاج ہے تو کہیں گھر سے مت نکل
ہوتا ہے دوپہر کے تئیں سر پر آفتاب
پیدا ہے روز مشرق نو کی نمود سی
آئے ہے کوئے یار سے بچ بچ کر آفتاب
۱۳۰۵۰
ہو پست اس کے نور کا زیر زمیں گیا
ہر چند سب ستاروں سے تھا برتر آفتاب
اس رخ کی روشنی میں نہ معلوم کچھ ہوا
مہ گم کدھر ہوا ہے گیا کیدھر آفتاب
کس زور کش کی قوس قزح ہے کمان پاک
جس کی اٹھا سکا نہ کبھو سیسر آفتاب
روشن ہے یہ کہ خوف ہے اس غصہ ور کا میرؔ
نکلے ہے صبح کانپتا جو تھر تھر آفتاب
(۱۸۱۲)
آئینہ سا جو کوئی یاں آشنا صورت ہے اب
بے مروت اس زمانے میں ہمہ حیرت ہے اب
۱۳۰۵۵
کیا کوئی یاری کسو سے کر کے ہووے شاد کام
دوستی ہے دشمنی الفت نہیں کلفت ہے اب
چاہتا ہے درد دل کرنا کسو سے دل دماغ
سو دماغ اپنا ضعیف اور قلب بے طاقت ہے اب
کیونکے دنیا دنیا رسوائی مری موقوف ہو
عالم عالم مجھ پہ اس کے عشق کی تہمت ہے اب
اشک نومیدا نہ پھرتے ہیں مری آنکھوں کے بیچ
میرؔ یہ دے ہے دکھائی جان کی رخصت ہے اب
(۱۸۱۳)
مارے ہی ڈالے ہے جس کا زندگی میں اضطراب
ساتھ میرے دل گڑا تو آ چکا مرنے کا خواب
۱۳۰۶۰
ٹک ٹھہرتا بھی تو کہتے تھا کسو بجلی کی تاب
یا کہ نکہت گل کی تھا آیا گیا عہد شباب
کی نماز صبح کو کھو کر نماز اشراق کی
ہو گیا مجھ پر ستم اچٹا نہ ٹک مستی میں خواب
دیکھنا منھ یار کا اس وجہ سے ہوتا نہیں
یا الٰہی دے زمانے سے اٹھا رسم نقاب
ضعف ہے اس کے مرض اور اس کے غم سے الغرض
دل بدن میں آدمی کے ایک ہے خانہ خراب
یار میں ہم میں پڑا پردہ جو ہے ہستی ہے یہ
بیچ سے اٹھ جائے تو ہووے ابھی رفع حجاب
۱۳۰۶۵
صورت دیوار سے مدت کھڑے در پر رہے
پر کبھو صحبت میں اس کی ہم ہوئے نہ باریاب
مے سے توبہ کرتے ہی معقول اگر ہم جانتے
ہم پہ شیخ شہر برسوں سے کرے ہے احتساب
جمع تھے خوباں بہت لیکن پسند اس کو کیا
کیا غلط میں نے کیا اے میرؔ وقت انتخاب
(۱۸۱۴)
اس مغل زا سے نہ تھی ہر بات کی تکرار خوب
بدزبانی بھی کی ان نے تو کہا بسیار خوب
لگ نہیں پڑتے ہیں لے کر ہاتھ میں شمشیر تیز
بے کسوں کے قتل میں اتنا نہیں اصرار خوب
۱۳۰۸۰
آخر ان خوباں نے عاشق جان کر مارا مجھے
چاہ کا اپنی نہ کرنا ان سے تھا اظہار خوب
آج کل سے مجھ کو بیتابی و بدحالی ہے کیا
مجھ مریض عشق کے کب سے نہ تھے آثار خوب
کیا کریمی اس کی کہیے جنت دربستہ دی
ورنہ مفلس غم زدوں کے کچھ نہ تھے کردار خوب
مخترع جور و ستم میں بھی ہوا وہ نوجواں
ظلم تب کرتا ہے جب ہو کوئی منت دار خوب
دہر میں پستی بلندی برسوں تک دیکھی ہے میں
جب لٹا پامالی سے میں تب ہوا ہموار خوب
۱۳۰۸۵
کیا کسو سے آشنائی کی رکھے کوئی امید
کم پہنچتا ہے بہم دنیا میں یارو یار خوب
کہتے تھے افعی کے سے اے میرؔ مت کھا پیچ و تاب
آخر اس کوچے میں جا کھائی نہ تو نے مار خوب
ردیف ت
(۱۸۱۵)
جو کوئی اس بے وفا سے دل لگاتا ہے بہت
وہ ستمگر اس ستم کش کو ستاتا ہے بہت
اس کے سونے سے بدن سے کس قدر چسپاں ہے ہائے
جامہ کبریتی کسو کا جی جلاتا ہے بہت
کیا پس از چندے مری آوارگی منظور ہے
مو پریشاں اب جو شب مجھ پاس آتا ہے بہت
۱۳۰۸۰
چاہ میں بھی بیشتر جانے سے کم ہوتا ہے وقر
اس لیے جاتا ہوں تب جب وہ بلاتا ہے بہت
گرچہ کم جاتا ہوں پر دل پر نہیں کچھ اختیار
وہ کجی سے سیدھیاں مجھ کو سناتا ہے بہت
بھول جاوے گا سخن پردازی اس کے سامنے
شاعری سے جو کوئی باتیں بناتا ہے بہت
بامزہ معشوق کیا کم ہیں پر اس کو کیا کروں
ناز و انداز اس ہی کا جو مجھ کو بھاتا ہے بہت
وہ نہیں ہجراں میں اس بن خواب خوش آوے مجھے
اب خیال اس کی طرف ہر لحظہ جاتا ہے بہت
۱۳۰۸۵
کیا کروں کہنے لگا ایدھر نہ آنے پائے وہ
بد کہیں ہنگامہ آرا میرؔ آتا ہے بہت
(۱۸۱۶)
منھ پہ رکھتا ہے وہ نقاب بہت
ہم سے کرتا ہے اب حجاب بہت
چشمک گل کا لطف بھی نہ اٹھا
کم رہا موسم شباب بہت
دیر بھی کچھ لگی نہ مرتے ہمیں
عمر جاتی رہی شتاب بہت
ڈھونڈتے اس کو کوچے کوچے پھرے
دل نے ہم کو کیا خراب بہت
۱۳۰۸۰
چلنا اپنا قریب ہے شاید
جاں کرے ہے اب اضطراب بہت
توبہ مے سے بہار میں نہ کروں
گو کرے شیخ احتساب بہت
اس غصیلے سے کیا کسو کی نبھے
مہربانی ہے کم عتاب بہت
کشتن مردماں اگر ہے ثواب
تو ہوا ہے اسے ثواب بہت
دیر تک کعبے میں تھے شب بے ہوش
پی گئے میرؔ جی شراب بہت
۱۳۰۸۵
(۱۸۱۸)
کیا کہیں ہے حال دل درہم بہت
کڑھتے ہیں دن رات اس پر ہم بہت
رہتا ہے ہجراں میں غم غصے سے کام
اور وے بھی سن کے ہیں برہم بہت
اضطراب اس کا نہیں ہوتا ہے کم
ہاتھ بھی رکھتے ہیں دل پر ہم بہت
اس گلی سے جی اچٹتا ٹک نہیں
دل جگر کرتے ہیں پتھر ہم بہت
میرؔ کی بدحالی شب مذکور تھی
کڑھ گئے یہ حال سن کر ہم بہت
۱۳۱۰۰
(۱۸۱۸)
باہر چلنے میں آبادی سے کر نہ تغافل یار بہت
دشتی وحش و طیر آئے ہیں ہونے تیرے شکار بہت
دعویٰ عاشق بیچارے کا کون سنے گا محشر میں
خیل ملائک واں بھی ہوں گے اس کے خاطر دار بہت
خشکی لب کی زردی رخ کی نمناکی دو آنکھوں کی
جو دیکھے ہے کہے ہے ان نے کھینچا ہے آزار بہت
جسم کی حالت جی کی طاقت نبض سے کر معلوم طبیب
کہنے لگا جانبر کیا ہو گا یہ تو ہے بیمار بہت
چار طرف ابرو کے اشارے اس ظالم کے زمانے میں
ٹھہرے کیا عاشق بیکس یاں چلتی ہے تلوار بہت
۱۳۱۰۵
پیش گئی نہ کچھ چاہت میں کافر و مسلم دونوں کی
سینکڑوں سبحے پھینکے گئے اور ٹوٹے ہیں زنار بہت
جی کے لگاؤ کہے سے ہم نے جی ہی جاتے دیکھے ہیں
اس پہ نہ جانا آہ برا ہے الفت کا آزار بہت
کس کو دماغ سیر چمن ہے کیا ہجراں میں واشد ہو
کم گلزار میں اس بن جا کر آتا ہوں بیزار بہت
میرؔ دعا کر حق میں میرے تو بھی فقیر ہے مدت سے
اب جو کبھو دیکھوں اس کو تو مجھ کو نہ آوے پیار بہت
ردیف چ
(۱۸۱۸)
لطف جیسے ہیں اس کی چاہ کے بیچ
رنج ویسے ہی ہیں نباہ کے بیچ
۱۳۱۱۰
ذوق صید اس کو تھا تو خیل ملک
دھوم رکھتے تھے دام گاہ کے بیچ
کب مزہ ہے نماز صبح میں وہ
جو صبوحی کے ہے گناہ کے بیچ
اس غصیلے کی سرخ آنکھیں دیکھ
اٹھے آشوب خانقاہ کے بیچ
جان و دل دونوں کر گئے تھے غش
دیکھ اس رشک مہ کو راہ کے بیچ
اس کی چشم سیہ ہے وہ جس نے
کتنے جی مارے اک نگاہ کے بیچ
۱۳۱۱۵
سانجھ ہی رہتی پھر اگر ہوتا
کچھ اثر نالۂ پگاہ کے بیچ
کیا رہیں جور سے بتوں کے ہم
رکھ لے اپنی خدا پناہ کے بیچ
منھ کی دو جھائیوں سے مت شرما
جھائیں ہوتی ہے روئے ماہ کے بیچ
میرؔ بیمار ہے کہ فرق نہیں
متصل اس کے آہ آہ کے بیچ
(۱۸۲۰)
وامق و فرہاد و مجنوں کون ہے یاروں کے بیچ
جو کہوں میں کوئی ہے میرے بھی غمخواروں کے بیچ
۱۳۱۲۰
جمع خوباں میں مرا محبوب اس مانند ہے
جوں مہ تابندہ آتا ہے کبھو تاروں کے بیچ
جو جفا عاشق پہ ہے سو اور لوگوں پر نہیں
اس سے پیدا ہے کہ میں ہی ہوں گنہگاروں کے بیچ
مر گئے بہتیرے صاحب دل ہوس کس کو ہوئی
ایسے مرنے جینے کی ان عشق کے ماروں کے بیچ
رونا کڑھنا عشق میں دیکھا مرا جن نے کہا
کیا جیے گا یہ ستم دیدہ ان آزاروں کے بیچ
منتظر برسوں رہے افسوس آخر مر گئے
دیدنی تھے لوگ اس ظالم کے بیماروں کے بیچ
۱۳۱۲۵
خاک تربت کیوں نہ اپنی دلبرانہ اٹھ چلے
ہم بھی تھے اس نازنیں کے ناز برداروں کے بیچ
صاف میداں لامکاں سا ہو تو میرا دل کھلے
تنگ ہوں معمورۂ دنیا کی دیواروں کے بیچ
باغ میں تھے شب گل مہتاب میرے آس پاس
یار بن یعنی رہا میں میرؔ انگاروں کے بیچ
(۱۸۲۱)
دل یہی ہے جس کو دل کہتے ہیں اس عالم کے بیچ
کاش یہ آفت نہ ہوتی قالب آدم کے بیچ
چھاتی کٹتی سنگ ہی سے دل کے جانے میں نہیں
نعل سینوں پر جڑے جاتے ہیں اس ماتم کے بیچ
۱۳۱۳۰
نقشہ اس کا مردم دیدہ میں میرے نقش ہے
یعنی صورت اس ہی کی پھرتی ہے چشم نم کے بیچ
شاد وے جو اب جواں تازہ ہوئے ہیں شہر میں
دل زدہ ہم شیب میں رہتے ہیں اپنے غم کے بیچ
دل نہ ایسا کر کہ پشت چشم وہ نازک کرے
سو بلائیں ہیں یہاں ان ابروؤں کے خم کے بیچ
حد سے افزوں اس گلی میں شور ہے عشاق کا
کون سنتا ہے کسو کی بات اس اودھم کے بیچ
رونق آبادی ملک سخن ہے اس تلک
ہوں ہزاروں دم الٰہی میرؔ کے اک دم کے بیچ ۱۳۱۳۵
ردیف ر
(۱۸۲۲)
دل گئے آفت آئی جانوں پر
یہ فسانہ رہا زبانوں پر
عشق میں ہوش و صبر سنتے تھے
رکھ گئے ہاتھ سو تو کانوں پر
گرچہ انسان ہیں زمینی ولے
ہیں دماغ ان کے آسمانوں پر
شہر کے شوخ سادہ رو لڑکے
ظلم کرتے ہیں کیا جوانوں پر
عرش و دل دونوں کا ہے پایہ بلند
سیر رہتی ہے ان مکانوں پر
۱۳۱۴۰
جب سے بازار میں ہے تجھ سی متاع
بھیڑ ہی رہتی ہے دکانوں پر
لوگ سر دیتے جاتے ہیں کب سے
یار کے پاؤں کے نشانوں پر
کجی اوباش کی ہے وہ دربند
ڈالے پھرتا ہے بند شانوں پر
کوئی بولا نہ قتل میں میرے
مہر کی تھی مگر دہانوں پر
یاد میں اس کے ساق سیمیں کی
دے دے ماروں ہوں ہاتھ رانوں پر
۱۳۱۴۵
تھے زمانے میں خرچی جن کی روپے
ٹھانسا کرتے ہیں ان کو آنوں پر
غم و غصہ ہے حصے میں میرے
اب معیشت ہے ان ہی کھانوں پر
قصے دنیا میں میرؔ بہت سنے
نہ رکھو گوش ان فسانوں پر
(۱۸۲۳)
آئے ہو گھر سے اٹھ کر میرے مکاں کے اوپر
کی تم نے مہربانی بے خانماں کے اوپر
پھولوں سے اٹھ نگاہیں مکھڑے پہ اس کے ٹھہریں
وہ گل فروش کا جو آیا دکاں کے اوپر
۱۳۱۵۰
برسات اب کے گذری خوف و خطر میں ساری
چشمک زناں رہی ہے برق آشیاں کے اوپر
رخسار سا کسو کے کاہے کو ہے فروزاں
ہر چند ماہ تاباں ہے آسماں کے اوپر
بے سدھ پڑا رہوں ہوں بستر پہ رات دن میں
کیا آفت آ گئی ہے اس نیم جاں کے اوپر
عشق و ہوس میں کچھ تو آخر تمیز ہو گی
آئی طبیعت اس کی گر امتحاں کے اوپر
الفت کی کلفتوں میں معلوم ہے ہوئی وہ
تھا اعتماد کلی تاب و تواں کے اوپر
۱۳۱۵۵
محو دعا تھا اکثر غیرت سے لیک گاہے
آیا نہ نام اس کا میری زباں کے اوپر
وہ جان و دل کی خواہش آیا نہیں جہاں میں
آئی ہے اک قیامت اہل جہاں کے اوپر
کیا لوگ ہیں محباں سودائے عاشقی میں
اغماض کرتے ہیں سب جی کے زیاں کے اوپر
حیرت سے اس کے روکی چپ لگ گئی ہے ایسی
گویا کہ مہر کی ہے میرے دہاں کے اوپر
جو راہ دوستی میں اے میرؔ مر گئے ہیں
سر دیں گے لوگ ان کے پا کے نشاں کے اوپر
۱۳۱۶۰
(۱۸۲۴)
آیا جو اپنے گھر سے وہ شوخ پان کھا کر
کی بات ان نے کوئی سو کیا چبا چبا کر
شاید کہ منھ پھرا ہے بندوں سے کچھ خدا کا
نکلے ہے کام اپنا کوئی خدا خدا کر
کان اس طرف نہ رکھے اس حرف ناشنو نے
کہتے رہے بہت ہم اس کو سنا سنا کر
کہتے تھے ہم کسو کو دیکھا کرو نہ اتنا
دل خوں کیا نہ اپنا آنکھیں لڑا لڑا کر
آگے ہی مر رہے ہیں ہم عشق میں بتاں کے
تلوار کھینچتے ہو ہم کو دکھا دکھا کر
۱۳۱۶۵
وہ بے وفا نہ آیا بالیں پہ وقت رفتن
سو بار ہم نے دیکھا سر کو اٹھا اٹھا کر
جلتے تھے ہولے ہولے ہم یوں تو عاشقی میں
پر ان نے جی ہی مارا آخر جلا جلا کر
سوتے نہ لگ چل اس سے اے باد تو نے ظالم
بہتیروں کو سلایا اس کو جگا جگا کر
مدت ہوئی ہمیں ہے واں سے جواب مطلق
دفتر کیے روانہ لکھ لکھ لکھا لکھا کر
کیا دور میرؔ منزل مقصود کی ہے اپنے
اب تھک گئے ہیں اودھر قاصد چلا چلا کر
۱۳۱۸۰
(۱۸۲۵)
آیا ہے ابر قبلہ چلا خانقاہ پر
صوفی ہوا کو دیکھ کے کاش آوے راہ پر
وہ آنکھ اٹھا کے شرم سے کب دیکھے ہے ولے
ہوتے ہیں خون نیچی بھی اس کی نگاہ پر
بالفرض چاہتا ہے گنہ لیک میری جاں
واجب ہے خون کرنا کہاں اس گناہ پر
کیا بحث میرے وقر سے میں ہوں فقیر محض
ہے اس گلی میں حرف و سخن عز شاہ پر
تہ سے سخن کے لوگ نہ تھے آشنا عبث
جاگہ سے تم گئے انھوں کی واہ واہ پر
۱۳۱۸۵
ڈر چشم شور چرخ سے گل پھول یک طرف
آنکھ اس دنی کی دوڑے ہے اک برگ کاہ پر
دیکھی ہے جن نے یار کے رخسار کی جھمک
اس کی نظر گئی نہ شب مہ میں ماہ پر
ہم جاں بہ لب پتنگوں کی سدھ لیجیو شتاب
موقوف اپنا جانا ہے اب ایک آہ پر
کہتے تو ہیں کہ ہم بھی تمھیں چاہتے ہیں میرؔ
پر اعتماد کس کو ہے خوباں کی چاہ پر
(۱۸۲۶)
میلان دلربا ہو کیونکر وفا کے اوپر
دیتا ہے جان عالم اس کی جفا کے اوپر
۱۳۱۸۰
کشتہ ہوں اس حیا کا کٹوائے بہتوں کے سر
پر آنکھیں اس کی وونہیں تھیں پشت پا کے اوپر
مہندی لگا کے ہرگز گھر سے تو مت نکلیو
ہوتے ہیں خون تیرے رنگ حنا کے اوپر
ہوں کو بہ کو صبا سا پر کچھ نہیں ہے حاصل
شاید برات اپنی لکھی ہوا کے اوپر
بندوں سے کام تیرا اے میرؔ کچھ نہ نکلا
موقوف مطلب اپنا اب رکھ خدا کے اوپر
(۱۸۲۸)
زانو پہ سر ہے اکثر مت فکر اس قدر کر
دل کوئی لے گیا ہے تو میرؔ ٹک جگر کر
۱۳۱۸۵
خورشید و ماہ دونوں آخر نہ دل سے نکلے
آنکھوں میں پھر نہ آئے جی سے مرے اتر کر
یوسف عزیز دلہا جا مصر میں ہوا تھا
ذلت جو ہو وطن میں تو کوئی دن سفر کر
اے ہمنشیں غشی ہے میں ہوش میں نہیں ہوں
مجھ کو مری زبانی سو بار اب خبر کر
کیا حال زار عاشق کریے بیاں نہ پوچھو
کرتا ہے بات کوئی دل کی تو چشم تر کر
دیتے نہیں ہیں سونے ٹک آہ و نالے اس کے
یارب شب جدائی عاشق کی بھی سحر کر
۱۳۱۸۰
اتنا ہی منھ چھپایا شوخ اس کے محرموں نے
جو بچھ گئی ہیں زلفیں اس چہرے پر بکھر کر
کیا پھیر پھیر گردن باتیں کرے ہے سب میں
جاتے ہیں غش کیے ہم مشتاق منھ ادھر کر
بن دیکھے تیرے میں تو بیمار ہو گیا ہوں
حال تبہ میں میرے تو بھی تو ٹک نظر کر
رخنے کیے جو تو نے پتھر کی سل میں تو کیا
اے آہ اس صنم کے دل میں بھی ٹک اثر کر
مارے سے غل کیے سے جاتا نہیں ہے ہرگز
نکلے گا اس گلی سے شاید کہ میرؔ مر کر
۱۳۱۸۵
(۱۸۲۸)
باندھے کمر سحرگہ آیا ہے میرے کیں پر
جو حادثہ فلک سے نازل ہوا زمیں پر
اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی خوبی
ہوتا ہے شوق غالب اس کی نہیں نہیں پر
کنج قفس میں جوں توں کاٹیں گے ہم اسیراں
سیر چمن کے شایاں اپنے رہے نہیں پر
جوں آب گیری کردہ شمشیر کی جراحت
ہے ہر خراش ناخن رخسارہ و جبیں پر
آخر کو ہے خدا بھی تو اے میاں جہاں میں
بندے کے کام کچھ کیا موقوف ہیں تمھیں پر
۱۳۲۰۰
غصے میں عالم اس کا کیا کیا نظر پڑا ہے
تلواریں کھنچتیاں تھیں اس کی جبیں کی چیں پر
تھے چشم خوں فشاں پر شاید کہ دست و دامن
ہیں میرؔ داغ خوں کے پیراہن آستیں پر
(۱۸۲۸)
گل کیا جسے کہیں کہ گلے کا تو ہار کر
ہم پھینک دیں اسے ترے منھ پر نثار کر
آغوشیں جیسے موجیں الٰہی کشادہ ہیں
دریائے حسن اس کا کہیں ہم کنار کر
یاں چلتے دیر کچھ نہیں لگتی ہے میری جاں
رخت سفر کو اپنے شتابی سے بار کر
۱۳۲۰۵
مختار رونے ہنسنے میں تجھ کو اگر کریں
تو اختیار گریۂ بے اختیار کر
مشق ستم ہوئی ہے بہت صاف یار کی
پشتے لگائے ان نے جوانوں کو مار کر
صیادی میں علوئے تقدس تو اس کا دیکھ
روح القدس کو مار رکھا ہے شکار کر
بہنے لگی ہے تیغ کی جدول تو تیری تیز
دشمن کا کام وار میں پہلے ہی پار کر
میں بیقرار خاک میں کب تک ملا کروں
کچھ ملنے کا نہ ملنے کا تو بھی قرار کر
۱۳۲۱۰
میں رفتہ میرؔ مجلس تصویر کا گیا
تو بیٹھا میرا حشر تک اب انتظار کر
ردیف ک
(۱۸۳۰)
جب کہتے تھے تب تم نے تو گوش ہوش نہ کھولے ٹک
چپکے چپکے کسو کو چاہا پوچھا بھی تو نہ بولے ٹک
اب جو چھاتی جلی فی الواقع لطف نہیں ہے شکایت کا
صبر کرو کیا ہوتا ہے یوں پھوڑے دل کے پھپھولے ٹک
نالہ کشی میں مرغ چمن بکتا ہے پر ہم تب جانیں
نعرہ زناں جب صبح سے آ کے ساتھ ہمارے بولے ٹک
اس کی قامت موزوں سے کیا کوئی سرو برابر ہو
ناموزوں ہی نکلے گا سنجیدہ کوئی جو بولے ٹک
۱۳۲۱۵
آنکھیں جو کھولیں سوتے سے تو حال ہی کہتے مجھ کو کہا
ساری رات کہانی کہی ہے تو بھی اٹھ کر سولے ٹک
مشکل ہے دلداری عاشق وہ برسوں بیتاب رہے
بے طاقت اس دل کو میرے ہاتھ میں اپنے تو لے ٹک
آنکھیں کھولیں حال کے کہتے دیر ہوئی ہے بس یعنی
ساری رات کہانی کہی ہے میرؔ اب چل کر سولے ٹک
ایسے درد دل کرنے کو میرؔ کہاں سے جگر آوے
گرم سخن لوگوں میں ہو کوئی بات کرے تو رولے ٹک
(۱۸۳۱)
رہے ہے غش و درد دو دو پہر تک
سر زخم پہنچا ہے شاید جگر تک
۱۳۲۲۰
ہوئے ہیں حواس اور ہوش و خرد گم
خبر کچھ تو آئی ہے اس بے خبر تک
زمیں گرد اس مہ کے میرے ہیں عاشق
ستارے فلک کے رہے ہیں ادھر تک
قیامت ہے مشتاق لوگوں کی کثرت
پہنچنا ہے مشکل ہمیں اس کے گھر تک
کہاں تک اسے سر سے مارا کروں میں
نہ پہنچا مرا ہاتھ اس کی کمر تک
بہار آئی پر ایک پتی بھی گل کی
نہ آئی اسیران بے بال و پر تک
۱۳۲۲۵
بہت میرؔ برہم جہاں میں رہیں گے
اگر رہ گئے آج شب کی سحر تک
(۱۸۳۲)
وہ تو نہیں کہ اودھم رہتا تھا آشیاں تک
آشوب نالہ اب تو پہنچا ہے آسماں تک
لبریز جلوہ اس کا سارا جہاں ہے یعنی
ساری ہے وہ حقیقت جاوے نظر جہاں تک
ہجراں کی سختیوں سے پتھر دل و جگر ہیں
صبر اس کی عاشقی میں کوئی کرے کہاں تک
سودائے عاشقی میں نقصاں ہے جی کا لیکن
ہم راضی ہو رہے ہیں اپنے زیان جاں تک
۱۳۲۳۰
وا ماندہ نقش پا سے یک دشت ہم ہیں بیکس
دشوار ہے پہنچنا اب اپنا کارواں تک
جی مارتے ہیں دلبر عاشق کا اس خطر سے
حرف وفا نہ آیا اپنی کبھو زباں تک
دل دھڑکے ہے جو بجلی چمکے ہے سوئے گلشن
پہنچے مبادا میری خاشاک آشیاں تک
دیواروں سے بھی مارا پتھروں سے پھوڑ ڈالا
پہنچا نہ سر ہمارا حیف اس کے آستاں تک
یہ تنگی و نزاکت اس رنگ سے کہاں ہے
گل برگ و غنچے پہنچیں کب ان لب و دہاں تک
۱۳۲۳۵
ان جلتی ہڈیوں پر ہرگز ہما نہ بیٹھے
پہنچی ہے عشق کی تب اے میرؔ استخواں تک
(۱۸۳۳)
اس کی رہے گی گرمی بازار کب تلک
وہ بیچتا رہے گا خریدار کب تلک
عہد و وعید حشر قیامت ہے دیکھیے
جیتے رہیں گے طالب دیدار کب تلک
دل کا جگر کا لوہو تو غم نے سکھا دیا
آنکھیں رہیں گی دیکھیے خونبار کب تلک
نسبت بہت گناہوں کی کرتا ہے اس طرف
بے جرم ہم رہیں گے گنہگار کب تلک
۱۳۲۴۰
اس کی نگاہ مست ہے اکثر سوئے رباط
صوفی رہیں گے حال سے ہشیار کب تلک
دیوار و در بڑے تھے جہاں واں نشاں نہیں
یاں خانوادوں کے رہیں آثار کب تلک
مہمان کوئی دن کا ہے وارفتہ عشق کا
ظاہر ہے حال سے کہ یہ بیمار کب تلک
ترسا کے مارنے میں عذاب شدید ہے
اک کھینچ کر نہ مارو گے تلوار کب تلک
صیاد اسیر کر کے جسے اٹھ گیا ہو میرؔ
وہ دام کی شکن میں گرفتار کب تلک
۱۳۲۴۵
ردیف ل
(۱۸۳۴)
چپ رہ اب نالوں سے اے بلبل نہ کر آزار دل
کم دماغی ہے بہت مجھ کو کہ ہوں بیمار دل
ابتدائے خبط میں ہوتا تدارک کچھ تو تھا
اب کوئی سنبھلے ہے مجھ سے وحشت بسیار دل
یک توجہ میں رہے ہے سیر اس کی عرش پر
عقل میں آتے نہیں ہیں طرفہ طرفہ کار دل
باغ سے لے دشت تک رکھتے ہیں اک شور عجب
ہم اسیران قفس کے نالہ ہائے زار دل
اس سبک روحی پہ جوں باد سحر در در پھرے
زندگی اب یار بن اپنی ہوئی ہے بار دل
۱۳۲۵۰
تنگی و وسعت سے اس کی اے عبارت ساز فہم
میرؔ کچھ سمجھے گئے نہ معنی اسرار دل
(۱۸۳۵)
زنہار گلستاں میں نہ کر منھ کو سوئے گل
چڑھ جائے مغز میں نہ کہیں گرد بوئے گل
موسم گئے نشاں بھی کہیں پتے کا نہ تھا
کی شوق کشتگاں نے عبث جستجوئے گل
تڑپے خزاں میں اتنے کہ مرمر گئے طیور
جاوے گی ساتھ جی کے مگر آرزوئے گل
آئے نظر بہار میں پائیز میں گئے
ہے بے وفائی کرنے کی ہر سال خوئے گل
۱۳۲۵۵
مدت ہوئی کہ دیکھا تھا سیر چمن میں میرؔ
پھرتا ہے اب تلک مری آنکھوں میں روئے گل
(۱۸۳۶)
طریق عشق میں ہے رہنما دل
پیمبر دل ہے قبلہ دل خدا دل
قیامت تھا مروت آشنا دل
موئے پر بھی مرا اس میں رہا دل
رکا اتنا خفا اتنا ہوا تھا
کہ آخر خون ہو ہو کر بہا دل
جسے مارا اسے پھر کر نہ دیکھا
ہمارا طرفہ ظالم سے لگا دل
۱۳۲۶۰
نہ تھی سہل استقامت اس کی لیکن
خرام ناز دلبر لے گیا دل
بدن میں اس کے تھی ہر جائے دلکش
بجا بے جا ہوا ہے جا بجا دل
گئے وحشت سے باغ و راغ میں تھے
کہیں ٹھہرا نہ دنیا سے اٹھا دل
اسیری میں تو کچھ واشد کبھو تھی
رہا غمگیں ہوا جب سے رہا دل
ہمہ تن میں الم تھا سو نہ جانا
گرہ یہ درد ہے پہلو میں یا دل
۱۳۲۶۵
خموشی مجھ کو حیرت سے ہے ورنہ
بھرے ہیں لب سے لے کر شکوے تا دل
نہ پوچھا ان سے جس بن خوں ہوا سب
نہ سمجھا اس کے کینے کی ادا دل
ہوا پژمردہ و بے صبر و بے تاب
کرے گا اس طرح کب تک وفا دل
ہوئی پروا نہ واں دلبر کو یاں میرؔ
اٹھا کر ہو چکا جور و جفا دل
ردیف م
(۱۸۳۸)
کھا گئی یاں کی فکر سو موہوم
واں گئے کیا ہو کچھ نہیں معلوم
۱۳۲۸۰
وصل کیونکر ہو اس خوش اختر کا
جذب ناقص ہے اور طالع شوم
نہ ہوئے تھے ابھی جواں افسوس
صبر مغفور و طاقت مرحوم
جب غبار اپنے دل کا نکلے ہے
دیر رہتی ہے آندھی کی سی دھوم
بھیگی اس کی مسوں کی خوبی سے
بے حواسی ہے ہم کو جوں مسموم
ہے عبث یہ تردد و تشویش
پہنچے ہے وقت پر جو ہے مقسوم
۱۳۲۸۵
ہاتھ سے وے گئے جو سیمیں ساق
ہم رہے سر بہ زانوئے مغموم
صاحب اپنا ہے بندہ پرور میرؔ
ہم جہاں سے نہ جائیں گے محروم
(۱۸۳۸)
عشق کیا ہے اس گل کا یا آفت لائے سرپرہم
جھانکتے اس کو ساتھ صبا کے صبح پھریں ہیں گھر گھر ہم
روز و شب کو اپنے یارب کیونکے کریں گے روز و شب
ہاتھ رکھے رہتے ہیں دل پر بیتابی میں اکثر ہم
پوچھتے راہ شکستہ دل کی جا نکلے تھے کعبے میں
سوچ وہاں تو گذرا جی میں آئے کدھر سے کیدھر ہم
۱۳۲۸۰
شام سے کرتا منزل آ کر گھر کو ہمارے صدر نشیں
رکھتے ستارہ اس مہ وش کی چاہ میں گربد اختر ہم
برسوں خس و خاشاک پہ سوئے مدت گلخن تابی کی
بخت نہ جاگے جو اس سے ہوں ایک بھی شب ہم بستر ہم
روز بتر ہے حالت عشقی جیسے ہوں بیمار اجل
ہے نہ دوا نے کوئی معالج کیونکر ہوں گے بہتر ہم
اس کی جناب سے رحمت ہو تو جی بچتا ہے دنیا میں
اس جانب سے تو بیٹھے ہیں مرنا کر کے مقرر ہم
اب تو ہماری طرف سے اتنا دل کو پتھر مت کریو
سختی سے ایام کی اب تک جیتے رہے ہیں مر مر ہم
۱۳۲۸۵
آہ معیشت روز و شب کی ساتھ اندوہ کے ٹھہری ہے
روتے کڑھتے رہا کرتے ہیں غم سے ہوئے ہیں خوگر ہم
شعلہ ایک اٹھا تھا دل سے آہ عالم سوز کا میرؔ
ڈھیری ہوئی ہے خاکستر کی جیسی شب میں جل کر ہم
(۱۸۳۸)
کڑھتے جو رہے ہجر میں بیمار ہوئے ہم
بستر پہ گرے رہتے ہیں ناچار ہوئے ہم
بہلانے کو دل باغ میں آئے تھے سو بلبل
چلانے لگی ایسے کہ بیزار ہوئے ہم
جلتے ہیں کھڑے دھوپ میں جب جاتے ہیں اودھر
عاشق نہ ہوئے اس کے گنہگار ہوئے ہم
۱۳۲۸۰
اک عمر دعا کرتے رہے یار کو دن رات
دشنام کے اب اس کے سزاوار ہوئے ہم
ہم دام بہت وحشی طبیعت تھے اٹھے سب
تھی چوٹ جو دل پر سو گرفتار ہوئے ہم
چیتے ہوئے لوگوں کی بھلی یا بری گذری
افسوس بہت دیر خبردار ہوئے ہم
کیا کیا متمول گئے بک دیکھتے جس پر
بیعانگی میں اس کے خریدار ہوئے ہم
کچھ پاس نہیں یاری کا ان خوش پسروں کو
اس دشمن جانہا سے عبث یار ہوئے ہم
۱۳۲۸۵
گھٹ گھٹ کے جہاں میں رہے جب میرؔ سے مرتے
تب یاں کے کچھ اک واقف اسرار ہوئے ہم
(۱۸۴۰)
وے ہم ہیں جن کو کہیے آزار دیدہ مردم
الفت گزیدہ مردم کلفت کشیدہ مردم
ہے حال اپنا درہم تس پر ہے عشق کا غم
رہتے ہیں دم بخود ہم آفت رسیدہ مردم
وہ دیکھے ہم کو آ کر جن نے نہ دیکھے ہوویں
آزردہ دل شکستہ خاطر کبیدہ مردم
جو ہے سو لوہو مائل بے طور اور جاہل
اہل جہاں ہیں سارے صحبت نہ دیدہ مردم
۱۳۳۰۰
جاتے ہیں اس کی جانب مانند تیر سیدھے
مثل کمان حلقہ قامت خمیدہ مردم
اوباش بھی ہمارا کتنا ہے ٹیڑھا بانکا
دیکھ اس کو ہو گئے ہیں کیا کیا کشیدہ مردم
مت خاک عاشقاں پر پھر آب زندگی سا
جاگیں کہیں نہ سوتے یہ آرمیدہ مردم
لے لے کے منھ میں تنکا ملتے ہیں عاجزانہ
مغرور سے ہمارے بر خویش چیدہ مردم
تھے دست بستہ حاضر خدمت میں میرؔ گویا
سیمیں تنوں کے عاشق ہیں زر خریدہ مردم
۱۳۳۰۵
(۱۸۴۱)
کیا زمانہ تھا کہ تھے دلدار کے یاروں میں ہم
شہرۂ عالم تھے اس کے ناز برداروں میں ہم
اجڑی اجڑی بستی میں دنیا کی جی لگتا نہیں
تنگ آئے ہیں بہت ان چار دیواروں میں ہم
جو یہی ہے غم الم رنج و قلق ہجراں کا تو
زندگی سے بے توقع ہیں ان آزاروں میں ہم
شاید آوے حال پرسی کرنے اس امید پر
کب سے ہیں دار الشفا میں اس کے بیماروں میں ہم
دھوپ میں جلتے ہیں پہروں آگے اس کے میرؔ جی
رفتگی سے دل کی ٹھہرے ہیں گنہگاروں میں ہم
۱۳۳۱۰
ردیف ن
(۱۸۴۲)
سر سے ایسی لگی ہے اب کہ جلے جاتے ہیں
متصل شمع سے روتے ہیں گلے جاتے ہیں
اس گلستاں میں نمود اپنی ہے جوں آب رواں
دم بہ دم مرتبے سے اپنے چلے جاتے ہیں
تن بدن ہجر میں کیا کہیے کہ کیسا سوکھا
ہلکی بھی باؤ میں تنکے سے ہلے جاتے ہیں
رہتے دکھلائی نہیں دیتے بلاکش اس کے
جی کھپے جاتے ہیں دل اپنے دلے جاتے ہیں
پھر بخود آئے نہ بدحالی میں بیخود جو ہوئے
آپ سے جاتے ہیں ہم بھی تو بھلے جاتے ہیں
۱۳۳۱۵
خاک پا اس کی ہے شاید کسو کا سرمۂ چشم
خاک میں اہل نظر اس سے رلے جاتے ہیں
گرم ہیں اس کی طرف جانے کو ہم لیکن میرؔ
ہر قدم ضعف محبت سے ڈھلے جاتے ہیں
(۱۸۴۳)
ایسے دیکھے ہیں اندھے لوگ کہیں
پھوٹی سہتے ہیں آنجی سہتے نہیں
مر گئے ناامید ہم مہجور
خواہشیں جی کی اپنے جی میں رہیں
دیر دریا کنارہ کرتا رہا
عشق میں آنکھیں اپنی زور بہیں
۱۳۳۲۰
مرتے تھے اس گلی میں لاکھوں جہاں
ہم بھی مارے گئے ندان وہیں
دیر سے میرؔ اٹھ کے کعبے گئے
کہیے کیا نکلے جا کہیں کے کہیں
(۱۸۴۴)
رابطہ باہم ہے کوئی دن کا یاں
پھر زمانے میں کہاں تم ہم کہاں
گم ہوا ہوں یاں سے جا کر میں جہاں
کچھ نہیں پیدا کہاں میرا نشاں
پیری میں ہے طفل مکتب سا جہول
ہے فلک کرنے کے قابل آسماں
۱۳۳۲۵
تو کہے واں ناگہاں بجلی گری
وہ نگاہ تند کرتا ہے جہاں
بھولے بھی میں یک نظر دیکھا نہیں
اس پہ ہے وہ بے دماغ و بدگماں
عشق نے تکلیف کی مالایطاق
بار امانت کا گراں میں ناتواں
کام کچھ آئی نہ دل کی بھی کشش
کھنچ رہا ہے ہم سے وہ ابرو کماں
کیا چھپی ہیں باتیں میرے عشق کی
داستاں در داستاں ہے داستاں
۱۳۳۳۰
عشق میں کیونکر بسر کریے گا عمر
دل لگا ہے جس سے سو نامہرباں
جو زمیں پالغز تھی شاید کہ میرؔ
ہو وہیں مسجود اس کا آستاں
(۱۸۴۵)
اس سے گھبرا کے جو کچھ کہنے کو آ جاتا ہوں
دل کی پھر دل میں لیے چپکا چلا جاتا ہوں
سعی دشمن کو نہیں دخل مری ایذا میں
رنج سے عشق کے میں آپھی کھپا جاتا ہوں
گرچہ کھویا سا گیا ہوں پہ تہ حرف و سخن
اس فریبندۂ عشاق کی پا جاتا ہوں
۱۳۳۳۵
خشم کیوں بے مزگی کاہے کو بے لطفی کیا
بد بر اتنا بھی نہ ہو مجھ سے بھلا جاتا ہوں
استقامت سے ہوں جوں کوہ قوی دل لیکن
ضعف سے عشق کے ڈھہتا ہوں گرا جاتا ہوں
مجلس یار میں تو بار نہیں پاتا میں
در و دیوار کو احوال سنا جاتا ہوں
گاہ باشد کہ سمجھ جائے مجھے رفتۂ عشق
دور سے رنگ شکستہ کو دکھا جاتا ہوں
یک بیاباں ہے مری بیکسی و بیتابی
مثل آواز جرس سب سے جدا جاتا ہوں
۱۳۳۴۰
تنگ آوے گا کہاں تک نہ مرا قلب سلیم
بگڑی صحبت کے تئیں روز بنا جاتا ہوں
گرمی عشق ہے ہلکی ابھی ہمدم دل میں
روز و شب شام و سحر میں تو جلا جاتا ہوں
(۱۸۴۶)
تری راہ میں گرچہ اے ماہ ہوں
پہ یہ غم ہے میں بھی سر راہ ہوں
مرے در پئے خون ناحق ہے تو
نہ خوندار ہوں میں نہ خونخواہ ہوں
تری دوستی سے جو دشمن ہیں سب
انھوں کے بھی خوں تک میں ہمراہ ہوں
۱۳۳۴۵
نہ سمجھو مجھے بے خبر اس قدر
تہ دل سے لوگوں کے آگاہ ہوں
مری کجروی سادگی سے ہے میرؔ
بہت اس رویے پہ گمراہ ہوں
(۱۸۴۸)
بہار آئی مزاجوں کی سبھی تدبیر کرتے ہیں
جوانوں کو انھیں ایام میں زنجیر کرتے ہیں
برہمن زادگان ہند کیا پرکار سادے ہیں
مسلمانوں کی یارانے ہی میں تکفیر کرتے ہیں
موئے پر اور بھی کچھ بڑھ گئی رسوائی عاشق کی
کہ اس کی نعش کو اب شہر میں تشہیر کرتے ہیں
۱۳۳۵۰
ہمارے حیرت عشقی سے چپ رہ جانے کی اس سے
مخالف مدعی کس کس طرح تقریر کرتے ہیں
تماشا دیکھنا منظور ہو تو مل فقیروں سے
کہ چٹکی خاک کو لے ہاتھ میں اکسیر کرتے ہیں
نہ لکھتے تھے کبھو یک حرف اسے جو ہاتھ سے اپنے
سو کاغذ دستے کے دستے ہم اب تحریر کرتے ہیں
در و دیوار افتادہ کو بھی کاش اک نظر دیکھیں
عمارت ساز مردم گھر جو اب تعمیر کرتے ہیں
خدا نا کردہ رک جاؤں جہاں رک جائے گا سارا
غلط کرتے ہیں لڑکے جو مجھے دلگیر کرتے ہیں
۱۳۳۵۵
اسے اصرار خوں ریزی پہ ہے ناچار ہیں اس میں
وگرنہ عجز تابی تو بہت سی میرؔ کرتے ہیں
(۱۸۴۸)
اب دیکھیں آہ کیا ہو ہم وے جدا ہوئے ہیں
بے یار و بے دیار و بے آشنا ہوئے ہیں
غیرت سے نام اس کا آیا نہیں زباں پر
آگے خدا کے جب ہم محو دعا ہوئے ہیں
اہل چمن سے کیونکر اپنی ہو روشناسی
برسوں اسیر رہ کر اب ہم رہا ہوئے ہیں
بے عشق خوب رویاں اپنی نہیں گذرتی
اے وائے کس بلا میں ہم مبتلا ہوئے ہیں
۱۳۳۶۰
جانا کہ تن میں ہر جا نازک ہے اور دلکش
ہم رفتۂ سراپا اس کے بجا ہوئے ہیں
تھے غنچے جتنے زیر دیوار باغ طائر
شب باشی چمن سے شاید خفا ہوئے ہیں
صرفہ قمیص کا ہے کیا وقر اس گلی میں
ترک لباس کر واں شاہاں گدا ہوئے ہیں
خاموش اس کے در پر ہو کر فقیر بیٹھے
یعنی کہ عاشقی میں ہم بے نوا ہوئے ہیں
عہد شباب گذرا شرب مدام ہی میں
ہم کہنہ سال ہو کر اب پارسا ہوئے ہیں
۱۳۳۶۵
اظہار کم فراغی ہر دم کی بے دماغی
ان روزوں میرؔ صاحب کچھ میرزا ہوئے ہیں
(۱۸۴۸)
بیکار مجھ کو مت کہہ میں کارآمدہ ہوں
بیگانہ وضع تو ہوں پر آشنا زدہ ہوں
میں منھ نہیں لگایا بنت العنب کو گاہے
تب تھا جوان صالح اب پیر میکدہ ہوں
(۱۸۵۰)
اسرار دل کے کہتے ہیں پیر و جوان میں
مطلق نہیں ہے بند ہماری زبان میں
رنگینی زمانہ سے خاطر نہ جمع رکھ
سو رنگ بدلے جاتے ہیں یاں ایک آن میں
۱۳۳۸۰
شاید بہار آئی ہے دیوانہ ہے جوان
زنجیر کی سی آتی ہے جھنکار کان میں
بے وقفہ اس ضعیف پہ جور و ستم نہ کر
طاقت تعب کی کم ہے بہت میری جان میں
اس کے لبوں کے آگے کنھوں نے نہ بات کی
آئی ہے کسر شہد مصفا کی شان میں
چہرہ ہی یار کا رہے ہے چت چڑھا سدا
خورشید و ماہ آتے ہیں کب میرے دھیان میں
اب میرے اس کے عہد میں شاید کہ اٹھ گئی
آگے جو رسم دوستی کی تھی جہان میں
۱۳۳۸۵
تارے تو یہ نہیں مری آہوں سے رات کی
سوراخ پڑ گئے ہیں تمام آسمان میں
ابرو کی طرح اس کی چڑھی ہی رہے ہے میرؔ
نکلی ہے شاخ تازہ کوئی کیا کمان میں
(۱۸۵۱)
آئے ہیں میرؔ کافر ہو کر خدا کے گھر میں
پیشانی پر ہے قشقہ زنار ہے کمر میں
نازک بدن ہے کتنا وہ شوخ چشم دلبر
جان اس کے تن کے آگے آتی نہیں نظر میں
سینے میں تیر اس کے ٹوٹے ہیں بے نہایت
سوراخ پڑ گئے ہیں سارے مرے جگر میں
۱۳۳۸۰
آئندہ شام کو ہم رویا کڑھا کریں گے
مطلق اثر نہ دیکھا نالیدن سحر میں
بے سدھ پڑا رہوں ہوں اس مست ناز بن میں
آتا ہے ہوش مجھ کو اب تو پہر پہر میں
سیرت سے گفتگو ہے کیا معتبر ہے صورت
ہے ایک سوکھی لکڑی جو بو نہ ہو اگر میں
ہمسایۂ مغاں میں مدت سے ہوں چنانچہ
اک شیرہ خانے کی ہے دیوار میرے گھر میں
اب صبح و شام شاید گریے پہ رنگ آوے
رہتا ہے کچھ جھمکتا خونناب چشم تر میں
۱۳۳۸۵
عالم میں آب و گل کے کیونکر نباہ ہو گا
اسباب گر پڑا ہے سارا مرا سفر میں
(۱۸۵۲)
آنکھ لگی ہے جب سے اس سے آنکھ لگی زنہار نہیں
نیند آتی ہے دل جمعی میں سو تو دل کو قرار نہیں
وصل میں اس کے روز و شب کیا خوب گذرتی تھی اپنی
ہجراں کا کچھ اور سماں ہے اب وہ لیل و نہار نہیں
خالی پڑے ہیں دام کہیں یا صید دشتی صید ہوئے
یا جس صید افگن کے لیے تھے اس کو ذوق شکار نہیں
سبزہ خط کا گرد گل رو بڑھ کانوں کے پار ہوا
دل کی لاگ اب اپنی ہو کیونکر وہ اس منھ پہ بہار نہیں
۱۳۳۸۰
لطف عمیم اس کا ہی ہمدم کیوں نہ غنیمت جانیں ہم
ربط خاص کسو سے اسے ہو یہ تو طور یار نہیں
عشق میں اس بے چشم و رو کے طرفہ رویت پیدا کی
کس دن اودھر سے اب ہم پر گالی جھڑکی مار نہیں
مشتاق اس کے راہ گذر پر برسوں کیوں نہ بیٹھیں میرؔ
ان نے راہ اب اور نکالی ایدھر اس کا گذار نہیں
(۱۸۵۳)
طرفہ خوش رو دم خوں ریز ادا کرتے ہیں
وار جب کرتے ہیں منھ پھیر لیا کرتے ہیں
عشق کرنا نہیں آسان بہت مشکل ہے
چھاتی پتھر کی ہے ان کی جو وفا کرتے ہیں
۱۳۳۸۵
شوخ چشمی تری پردے میں ہے جب تک تب تک
ہم نظر باز بھی آنکھوں کی حیا کرتے ہیں
نفع بیماری عشقی کو کرے سو معلوم
یار مقدور تلک اپنی دوا کرتے ہیں
آگ کا لائحہ ظاہر نہیں کچھ لیکن ہم
شمع تصویر سے دن رات جلا کرتے ہیں
اس کے قربانیوں کی سب سے جدا ہے رہ و رسم
اول وعدہ دل و جان فدا کرتے ہیں
رشک ایک آدھ کا جی مارتا ہے عاشق کا
ہر طرف اس کو تو دو چار دعا کرتے ہیں
۱۳۴۰۰
بندبند ان کے جدا دیکھوں الٰہی میں بھی
میرے صاحب کو جو بندے سے جدا کرتے ہیں
دل کو جانا تھا گیا رہ گیا ہے افسانہ
روز و شب ہم بھی کہانی سی کہا کرتے ہیں
واں سے یک حرف و حکایت بھی نہیں لایا کوئی
یاں سے طومار کے طومار چلا کرتے ہیں
بود و باش ایسے زمانے میں کوئی کیونکے کرے
اپنی بد خواہی جو کرتے ہیں بھلا کرتے ہیں
حوصلہ چاہیے جو عشق کے آزار کھنچیں
ہر ستم ظلم پہ ہم صبر کیا کرتے ہیں
۱۳۴۰۵
میرؔ کیا جانے کسے کہتے ہیں واشد وے تو
غنچہ خاطر ہی گلستاں میں رہا کرتے ہیں
(۱۸۵۴)
ناآشنا کے اپنے جیسے ہم آشنا ہیں
اس طور اس طرح کے ایسے کم آشنا ہیں
باہم جو یاریاں ہیں اور آشنائیاں ہیں
سب ہیں نظر میں اپنی ہم عالم آشنا ہیں
ماتم کدہ ہے تکیہ کیا تازہ کچھ ہمارا
یک جا فقیر کب سے ہم سب غم آشنا ہیں
تحریر راز دل کی مشکل ہے کیونکے کریے
کاغذ قلم ہمارے کب محرم آشنا ہیں
۱۳۴۱۰
یاری جہانیوں کی کیا میرؔ معتبر ہے
ناآشنا ہیں یک دم یہ اک دم آشنا ہیں
(۱۸۵۵)
دم ہے مہلت شیب میں جانے کا اپنے غم کہاں
تم ہوئے رعنا جواں بالفرض لیکن ہم کہاں
عالم عالم جمع تھے خوباں جہاں صافا ہوا
گرچہ عالم اور ہے اب واں پہ وہ عالم کہاں
تھی بلا شوخی شرارت یار کی ہنگامہ ساز
شور یوں تو اوروں کا بھی ہے پہ وہ اودھم کہاں
کیا جنوں ہے تم کو جو تم طالب ویرانہ ہو
جس کو فردوس بریں کہتے ہیں واں آدم کہاں
۱۳۴۱۵
حبس دم میں شیخ جو کرتا نہیں حرف و سخن
حق طرف ہے اس کے اس بیہودہ گو میں دم کہاں
ہو سو ہو میں میرؔ اب تو دم بخود ہوں ہجر میں
کیا لکھوں تہ دل کی باتیں کاغذ و محرم کہاں
(۱۸۵۶)
گر روزگار ہے یہی ہجران یار میں
تو کیا رہیں گے جیتے ہم اس روزگار میں
کچھ ڈر نہیں جو داغ جنوں ہو گئے سیاہ
ڈر دل کے اضطراب کا ہے اس بہار میں
کیا بیقرار دل کی تسلی کرے کوئی
کچھ بھی ثبات ہے ترے عہد و قرار میں
۱۳۴۲۰
بیتاب دل نہ دفن ہو اے کاش میرے ساتھ
رہنے نہ دے گا لاش کوئی دن مزار میں
وہ سنگ دل نہ آیا بہت دیکھی اس کی راہ
پتھرا چلی ہیں آنکھیں مری انتظار میں
تھمتا نہیں ہے رونا علی الاتصال کا
کیا اختیار گریۂ بے اختیار میں
مربوط کیسے کیسے کہے ریختے ولے
سمجھا نہ کوئی میری زباں اس دیار میں
تھی بزم شعر رات کو شاعر بہت تھے جمع
دو باتیں ہم نے ایسے نہ کیں چار چار میں
۱۳۴۲۵
دنبالہ گردی قیس نے بہتیری کی ولے
آیا نظر نہ محمل لیلیٰ غبار میں
اب ذوق صید اس کو نہیں ورنہ پیش ازیں
اودھم تھا وحش و طیر سے اس کے شکار میں
ق
منھ چاہیے جو کوئی کسو سے حساب لے
ناکس سے گفتگو نہیں روز شمار میں
گنتی کے لوگوں کی وہاں صف ہووے گی کھڑی
تو میرؔ کس شمار میں ہے کس قطار میں
(۱۸۵۸)
گو کہ بت خانے جا رہا ہوں میں
بہ خدا با خدا رہا ہوں میں
۱۳۴۳۰
سب گئے دل دماغ تاب و تواں
میں رہا ہوں سو کیا رہا ہوں میں
برق تو میں نہ تھا کہ جل بجھتا
ابر تر ہوں کہ چھا رہا ہوں میں
اس کی بیگانہ وضعی ہے معلوم
برسوں تک آشنا رہا ہوں میں
دیکھو کب تیغ اس کی آ بیٹھے
دیر سے سر اٹھا رہا ہوں میں
اس کی گرد سمند کا مشتاق
آنکھیں ہر سو لگا رہا ہوں میں
۱۳۴۳۵
دور کے لوگ جن نے مارے قریب
اس کے ہمسائے آ رہا ہوں میں
مجھ کو بدحال رہنے دیں اے کاش
بے دوا کچھ بھلا رہا ہوں میں
دل جلوں کو خدا جہاں میں رکھے
یا شقائق ہے یا رہا ہوں میں
کچھ رہا ہی نہیں ہے مجھ میں میرؔ
جب سے ان سے جدا رہا ہوں میں
ردیف و
(۱۸۵۸)
زمانے نے دشمن کیا یار کو
سلایا مرے خوں میں تلوار کو
۱۳۴۴۰
کھلی رہتی ہے چشم آئینہ ساں
کہاں خواب مشتاق دیدار کو
مجھے عشق اس پاس یوں لے گیا
کوئی لاوے جیسے گنہگار کو
محبت میں دشوار دینی ہے جاں
نہ جاتے سنا سہل آزار کو
کوئی دن کرے زندگی عشق میں
جو دم لینے دیں دل کے بیمار کو
بکا میں تو بازار خوبی میں جا
کہ واں بیچتے تھے خریدار کو
۱۳۴۴۵
مرے منھ پہ رکھا ہے رنگ اب تلک
ہزار آفریں چشم خونبار کو
تب اک جرعہ مے دیں مجھے مغبچے
گرو جب کروں رخت و دستار کو
کرو مت درنگ اٹھتے اس پینٹھ میں
چلو مول لو میرؔ بازار کو
(۱۸۵۸)
کن نے کہا کہ مجھ سے بہت کم ملا کرو
منت بھی میں کروں تو نہ ہرگز منا کرو
بندے سے کی ہے جن نے یہ خصمی خدا کرے
اس سے بھی تم خصومت جانی رکھا کرو
۱۳۴۵۰
عنقا سا شہرہ ہوں پہ حقیقت میں کچھ نہیں
تم دور ہی سے نام کو میرے سنا کرو
بیماری جگر کی شفا سے تو دل ہے جمع
اب دوستی سے مصلحتاً کچھ دوا کرو
ہم بے خودان مجلس تصویر اب گئے
تم بیٹھے انتظار ہمارا کیا کرو
جی مارتے ہیں ناز و کرشمہ بالاتفاق
جینا مرا جو چاہو تو ان کو جدا کرو
میں نے کہا کہ پھنک رہی ہے تن بدن میں آگ
بولا کہ عشق ہے نہ پڑے اب جلا کرو
۱۳۴۵۵
دل جانے کا فسانہ زبانوں پہ رہ گیا
اب بیٹھے دور سے یہ کہانی کہا کرو
اب دیکھوں اس کو میں تو مرا جی نہ چل پڑے
تم ہو فقیر میرؔ کبھو یہ دعا کرو
(۱۸۶۰)
کیونکے نیچے ہاتھ کے رکھا دل بیتاب کو
وہ جو تڑپا لے گیا آسودگی و خواب کو
کم نہیں ہے سحر سے یہ بھی تصرف عشق کا
پانی کر آنکھوں میں لایا دل کے خون ناب کو
تھا یہی سرمایۂ بحر بلا پچھلے دنوں
چشم کم سے دیکھو مت اس دیدۂ پرآب کو
۱۳۴۶۰
تو کہے تھی برق خاطف ناگہاں آ کر گری
اک نگہ سے مار رکھا ان نے شیخ و شاب کو
کیا سفیدی دیکھی اس کی آستیں کے چاک سے
جس کے آگے رو نہ تھا کچھ پرتو مہتاب کو
چاہتا ہے جب مسبب آپھی ہوتا ہے سبب
دخل اس عالم میں کیا ہے عالم اسباب کو
دم بخود رہتا ہوں اکثر سر رکھے زانو پہ میرؔ
حال کہہ کر کیا کروں آزردہ اور احباب کو
(۱۸۶۱)
چھوڑا جنوں کے دور میں رسم و رہ اسلام کو
تہ کر صنم خانے چلا ہوں جامۂ احرام کو
۱۳۴۶۵
مرتا مرو جیتا جیو آؤ کوئی جاؤ کوئی
ہے کام ہم لوگوں سے کیا اس دلبر خود کام کو
جس خود نما تک جاؤں ہوں اس سے سنوں ہوں دور دور
کیا منھ لگاوے اب کوئی اس رو سیہ بدنام کو
بے چین بستر پر رہا بے خواب خاکستر پہ ہوں
صبر و سکوں جب سے گئے پایا نہیں آرام کو
آسائش و راحت سے جو پوچھے کوئی تو کیا کہوں
میں عمر بھر کھینچا کیا رنج و غم و آلام کو
میرؔ اب بھلا کیا ابتدائے عشق کو روتا ہے تو
کر فکر جو پاوے بھی اس آغاز کے انجام کو ۱۳۴۸۰
(۱۸۶۲)
اگلے سب چاہتے تھے ہم سے وفاداروں کو
کچھ تمھیں پیار نہیں کرتے جفا ماروں کو
شہر تو عشق میں ہے اس کے شفا خانہ تمام
وہ نہیں آتا کبھو دیکھنے بیماروں کو
مستی میں خوب گذرتی ہے کہ غفلت ہے ہمیں
مشکل اس مصطبے میں کام ہے ہشیاروں کو
فکر سے اپنے گذرتا ہے زمیں کاوی میں دن
رات جاتی ہے ہمیں گنتے ہوئے تاروں کو
خوب کرتے ہیں جو خوباں نہیں رو دیتے ہیں
منھ لگاتا ہے کوئی خوں کے سزاواروں کو
۱۳۴۸۵
حسن بازار جہاں میں ہے متاع دلکش
صاحب اس کا ٹھگے جاتا ہے خریداروں کو
وامق و کوہکن و قیس نہیں ہے کوئی
بھکھ گیا عشق کا اژدر مرے غمخواروں کو
زندگی کرتے ہیں مرنے کے لیے اہل جہاں
واقعہ میرؔ ہے درپیش عجب یاروں کو
(۱۸۶۳)
ہاتھ بے سبحہ ٹک رہا نہ کبھو
دل کا منکا ولے پھرا نہ کبھو
کیونکے عرفان ہو گیا سب کو
اپنے ڈھب پر تو وہ چڑھا نہ کبھو
۱۳۴۸۰
روز دفتر لکھے گئے یاں سے
ان نے یک حرف بھی لکھا نہ کبھو
گو شگفتہ چمن چمن تھے گل
غنچۂ دل تو وا ہوا نہ کبھو
طور کی سی تھی صحبت اس کی مری
جھمکی دکھلا کے پھر ملا نہ کبھو
غیرت اپنی تھی یہ کہ بعد نماز
اس کا لے نام کی دعا نہ کبھو
ابتدا ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی پائی انتہا نہ کبھو
۱۳۴۸۵
وہ سخن گو فریبی چشم یار
ہم سے گویا تھی آشنا نہ کبھو
(۱۸۶۴)
ٹک نقاب الٹو مت عتاب کرو
کھولو منھ کو کہ پھر خطاب کرو
آنکھیں غصے میں ہو گئی ہیں لال
سر کو چھاتی پہ رکھ کے خواب کرو
فرصت بود و باش یاں کم ہے
کام جو کچھ کرو شتاب کرو
محو صورت نہ آرسی میں رہو
اہل معنی سے ٹک حجاب کرو
۱۳۴۸۰
جھوٹ اس کا نشاں نہ دو یارو
ہم خرابوں کو مت خراب کرو
منھ کھلے اس کے چاندنی چھٹکی
دوستو سیر ماہتاب کرو
میرؔ جی راز عشق ہو گا فاش
چشم ہر لحظہ مت پر آب کرو
(۱۸۶۵)
بس اب بن چکے رو و موئے سمن بو
گری ہو کے بے ہوش مشاطہ یک سو
نہ سمجھا گیا کھیل قدرت کا ہم سے
کیا اس کو بد خو بنا کر نکورو
۱۳۴۸۵
نہ درگیر کیونکر ہو آپس میں صحبت
کہ میں بوریا پوش وہ آتشیں خو
ہوا ابر و سبزے میں چشمک ہے گل کی
کریں ساز ہم برگ عیش لب جو
بہار آئی گل پھول سر جوڑے نکلے
رہیں باغ میں کاش اس رنگ ہم تو
رہے آبرو میرؔ تو ہے غنیمت
کہ غارت میں دل کی ہے ایمائے ابرو
(۱۸۶۶)
لکھے ہے کچھ تو کج کر چشم و ابرو
برات عاشقاں بر شاخ آہو
۱۳۵۰۰
گیا وہ ساتھ سوتے لے کے کروٹ
لگا بستر سے پھر اپنا نہ پہلو
اڑے ہے خاک سی سارے چمن میں
پھرا ہے آہ کس کا واں سے گل رو
جدھر پھرتے تھے چنتے پھول ہنستے
ادھر ٹپکے ہیں اب تک میرے آنسو
جدا ہوتے ہی گل خنداں ہوا میرؔ
کیا تھا اس کا گل تکیہ جو بازو
(۱۸۶۸)
چاہت میں خوبرویوں کی کیا جانے کیا نہ ہو
بیتاب دل کا مرگ کہیں مدعا نہ ہو
۱۳۵۰۵
بے لاگ عشق بازی میں مفلس کا ہے ضرر
کیا کھیلے وہ جوا جسے کچھ آسرا نہ ہو
کرتے دعا مجھے وہ دغا باز دیکھ کر
بولا کہ اس فقیر کے دل میں دغا نہ ہو
آزاد پرشکستہ کو صد رنگ قید ہے
یارب اسیر ایسا قفس سے رہا نہ ہو
دوری مہ سے کبک ہیں کہسار میں خراب
دلبر سے اپنے کوئی الٰہی جدا نہ ہو
کھولے ہے آنکھ اس کے گل رو پہ ہر سحر
غالب کہ میری آئینے کی اب صفا نہ ہو
۱۳۵۱۰
آہوں کے میری دود سے گھر بھر گیا ہے سب
سدھ ہمنشیں لے دل کی کہیں وہ جلا نہ ہو
ہم گر جگر نکال رکھیں اس کے زیر پا
بے دید کی ادھر سے نظر آشنا نہ ہو
رہتے ہیں میرؔ بے خود و وارفتہ ان دنوں
پوچھو کنایۃً کسو سے دل لگا نہ ہو
ردیف ہ
(۱۸۶۸)
ہر چند جذب عشق سے تشریف یاں بھی لائے وہ
پر خود گم ایسا میں نہیں جو سہل مجھ کو پائے وہ
خوبی و رعنائی ادھر بدحالی و خواری ادھر
اے وائے ہم اے وائے ہم اے ہائے وہ اے ہائے وہ
۱۳۵۱۵
مارا ہوا چاہت کا جو آوارہ گھر سے اپنے ہو
حیراں پریشاں پھر کے پھر کیا جانے کیدھر جائے وہ
جی کتنا محو و رفتہ کا جو ہو طرف دیکھے تجھے
تو کج کرے ابرو اگر پل مارتے مرجائے وہ
الفت نہیں مجھ سے اسے کلفت کا میری غم نہیں
پائے غرض ہو درمیاں تو چل کے یاں بھی آئے وہ
عاشق کا کتنا حوصلہ یہ معجزہ ہے عشق کا
جو خستہ جاں پارہ جگر سو داغ دل پر کھائے وہ
مشکل عجائب میرؔ ہے دیدار جوئی یار کی
دیکھے کوئی کیا اس کو جو آنکھیں لڑے شرمائے وہ
۱۳۵۲۰
(۱۸۶۸)
اب دل خزاں میں رہتا ہے جی کی رکن کے ساتھ
جانا ہی تھا ہمیں بھی بہار چمن کے ساتھ
کب تک خراب شہر میں اس کے پھرا کریں
اب جاویں یاں سے کوئی غریب الوطن کے ساتھ
ہم باغ سے خزاں میں گئے پر ہزار حیف
جانا بنا نہ اپنا گل و یاسمن کے ساتھ
لکنت سے کیا نکلتی نہیں اس کے منھ سے بات
چپکا ہے حرف یار کے شیریں دہن کے ساتھ
جی خواب مرگ لے گئی حسرت ہی میں ندان
اک شب نہ سوئے ہم کسو گل پیرہن کے ساتھ
جی پھٹ گیا ہے رشک سے چسپاں لباس کے
کیا تنگ جامہ لپٹا ہے اس کے بدن کے ساتھ
۱۳۵۲۵
کیا جانیں لوگ عشق کا راز و نیاز میرؔ
اک بات اس سے ہو گئی دو دو بچن کے ساتھ
(۱۸۸۰)
مرتے ہیں ہم تو اس صنم خود نما کے ساتھ
جیتے ہیں وے ہی لوگ جو تھے کچھ خدا کے ساتھ
دیکھیں تو کار بستہ کی کب تک کھلے گرہ
دل بستگی ہے یار کے بند قبا کے ساتھ
اے کاش فصل گل میں گئی ہوتی اپنی جان
مل جاتی یہ ہوا کوئی دن اس ہوا کے ساتھ
۱۳۵۳۰
مدت ہوئی موئے گئے ہم کو پر اب تلک
اڑتی پھرے ہے خاک ہماری صبا کے ساتھ
ہم رہتے اس کے محو تو وہ کرتا ہم کو سہو
ہرگز وفا نہ کرنی تھی اس بے وفا کے ساتھ
کیفیت آشنا نہیں اس مست ناز کی
معشوق ورنہ کون ہے اب اس ادا کے ساتھ
منھ اپنا ان نے عکس سے اپنے چھپا لیا
دیکھا نہ کوئی آئینہ رو اس حیا کے ساتھ
ٹھہرا ہے رونا آٹھ پہر کا مرا علاج
تسکین دل ہے یعنی کچھ اب اس دوا کے ساتھ
۱۳۵۳۵
تھا جذب آگے عشق سے جو ہر نفس میں میرؔ
اب وہ کشش نہیں ہے سحر کی دعا کے ساتھ
(۱۸۸۱)
نظر آیا تھا صبح دور سے وہ
پھر چھپا خور سا اپنے نور سے وہ
جز برادر عزیز یوسف کو
نہیں لکھتا کبھو غرور سے وہ
دیکھیں عاشق کا جی بھی ہے کہ نہیں
تنگ ہے جان ناصبور سے وہ
کیا تصور میں پھیرے ہے صورت
کہ سرکتا نہیں حضور سے وہ
۱۳۵۴۰
خوبی اس خوبی سے بشر میں کہاں
خوب تر ہے پری و حور سے وہ
دل لیا جس غمیں کا تو نے شوخ
دے گیا جی ہی اک سرور سے وہ
ـخوش ہیں دیوانگی میرؔ سے سب
کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ
(۱۸۸۲)
آزار کش کو اس کے آزار ہے ہمیشہ
آزردہ دل کسو کا بیمار ہے ہمیشہ
مختار عشق اس کا مجبور ہی ہے یعنی
یک رہ دو چار ہو کر ناچار ہے ہمیشہ
۱۳۵۴۵
کب سہل عاشقی میں اوقات گذرے ہے یاں
کام اپنا اس پر اس بن دشوار ہے ہمیشہ
عالم کا عین اسی کو معلوم کر چکے ہیں
اس وجہ سے اب اس کا دیدار ہے ہمیشہ
اس سے حصول مطلب اپنا ہوا نہ ہو گا
با آنکہ کام دل کا اظہار ہے ہمیشہ
پروائے نفع و نقصاں مطلق نہیں ہے اس کو
اس کی تو لا ابالی سرکار ہے ہمیشہ
ملنا نہ ملنا ٹھہرے تو دل بھی ٹھہرے اپنا
اقرار ہے ہمیشہ انکار ہے ہمیشہ
۱۳۵۵۰
آمادۂ فنا کچھ کیا میرؔ اب ہوا ہے
جی مفت دینے کو وہ تیار ہے ہمیشہ
(۱۸۸۳)
دل ہے میری بغل میں صد پارہ
اور ہر پارہ اس کا آوارہ
عرق شرم رو سے دلبر کے
رفتہ ثابت گذشتہ سیارہ
خواری عشق اپنی عزت ہے
کی ہے ہموار ہم نے ہموارہ
کام اس سے پکڑ کمر نہ لیا
ہیچ کارہ بھی ہے یہ ناکارہ
۱۳۵۵۵
ٹوٹتیں پھوٹتیں نہ کاش آنکھیں
کرتے ان رخنوں ہی سے نظارہ
گو مسیحا مزاج آوے طبیب
عشق میں مرگ بن نہیں چارہ
کیا بنے اس سے میرؔ میں مسکین
وہ جفا پیشہ و ستم کارہ
(۱۸۸۴)
مکتوب دیر پہنچا پر دو طرف سے سادہ
کیا شوخ طبع ہے وہ پرکار سادہ سادہ
جب میکدے گئے ہیں پابوس ہی کیا ہے
ہے مغبچہ ہمارا گویا کہ پیرزادہ
۱۳۵۶۰
سائے میں تاک کے ہم خوش بیٹھے ہیں اب اپنا
اس سلسلے میں بیعت کرنے کا ہے ارادہ
دل اس قدر نہ رکتا گھبراتا جی نہ اپنا
چھاتی لگا جو رہتا وہ سینۂ کشادہ
شیشہ کنار جو ہے پنبہ دہان و رعنا
مینائے مے چمن میں اک سرو ہے پیادہ
پڑتی ہیں اس کی آنکھیں چاروں طرف نشے میں
جوں راہ میں بہکتے ہوں ترک مست بادہ
جو شہرہ نامور تھے یارب کہاں گئے وے
آباد کم رہا ہے یاں کوئی خانوادہ
۱۳۵۶۵
مت دم کشی کر اتنی ہنگام صبح بلبل
فریاد خونچکاں ہے منھ سے ترے زیادہ
کیا خاک سے اٹھوں میں نقش قدم سا بیٹھا
اب مٹ ہی جانا میرا ہے پیش پا فتادہ
حالات عشق رنج و درد و بلا مصیبت
دل دادہ میرؔ جانے کیا جانے کوئی ندادہ
ردیف ی
(۱۸۸۵)
کہتے ہیں مرنے والے یاں سے گئے
سب یہیں رہ گئے کہاں سے گئے
دم میں دم جب تلک تھا سوچ رہا
سانس کے ساتھ سارے سانسے گئے
۱۳۵۸۰
آنکھ کھلتے ہی گھر گئے وے تو
ہم ستم دیدہ خانماں سے گئے
واں گئے کرتے وے خرام ناز
یاں جواں کیسے کیسے جاں سے گئے
اس گلی سے جو اٹھ گئے بے صبر
میرؔ گویا کہ وے جہاں سے گئے
(۱۸۸۶)
کچھ نہ کی ان نے جس کو چاہا ہے
جوں توں اپنا کیا نباہا ہے
سدھ خبر اپنے غمزدے کی لے
صبح تک رات کو کراہا ہے
۱۳۵۸۵
یا علیؓ ہے گا میرؔ پیر فقیر
اب سزاوار لطف شاہا ہے
(۱۸۸۸)
عشق میں ہم نے جاں کنی کی ہے
کیا محبت نے دشمنی کی ہے
کیسی سرخ و سفید نکلی تھی
مے مگر دختر ارمنی کی ہے
بید سا کیوں نہ سوکھ جاؤں میں
دیر مجنوں سے ہم فنی کی ہے
اس پریشان کو نشانہ کر
یار نے جمع افگنی کی ہے
۱۳۵۸۰
کر دیا خاک آسماں نے ہمیں
یہ بھی ہمت اسی دنی کی ہے
تکیہ ویراں فقیر کا بھی ہو
یاں خرابی بہت غنی کی ہے
قافلہ لٹ گیا جو آنسو کا
عشق نے میرؔ رہزنی کی ہے
(۱۸۸۸)
میں ہوں تو ہے درمیاں شمشیر ہے
سفک دم میں میرے اب کیا دیر ہے
خضر دشت عشق میں مت جا کہ واں
ہر قدم مخدوم خوف شیر ہے
۱۳۵۸۵
راہ تک تک کر ہوئے ہیں جاں بہ لب
پر وہی اب تک بھی یاں اوسیر ہے
جو گرسنہ دل تھا اس دیدار کا
اپنے جینے ہی سے وہ اب سیر ہے
کچھ نہیں جاں ان کے پیش تار مو
گھر میں شمعی رنگوں کے اندھیر ہے
پاک ہی ہوتی رہی کشتی خلق
ہر زبردست اس جواں کا زیر ہے
طائروں نے گل فشاں کی میری گور
سامنے پھولوں کا گویا ڈھیر ہے
۱۳۵۸۰
آشنا ڈوبے بہت اس دور میں
گرچہ جامہ یار کا کم گھیر ہے
آنچل اس دامن کا ہاتھ آتا نہیں
میرؔ دریا کا سا اس کا پھیر ہے
(۱۸۸۸)
جو جنون و عشق کی تدبیر ہے
سو نہ یاں شمشیر نے زنجیر ہے
وصف اس کا باغ میں کرنا نہ تھا
گل ہمارا اب گریباں گیر ہے
دیکھ رہتا ہے جو دیکھے ہے اسے
دلربا آئینہ رو تصویر ہے
۱۳۵۸۵
پائے گیر اس کے نہ ہوں کیوں درد مند
حلقہ حلقہ زلف وہ زنجیر ہے
صید کے تن پر ہیں سب گلہ اے زخم
کس قدر خوش کار اس کا تیر ہے
مدت ہجراں نے کی نے کچھ کمی
میرے طول عمر کی تقصیر ہے
خط نہ لکھتے تھے سو تاب دل گئی
دفتروں کی اکثر اب تحریر ہے
رکھ نظر میں بھی خراب آبادیاں
اے کہ تجھ کو کچھ غم تعمیر ہے
۱۳۶۰۰
سخت کافر ہیں برہمن زادگاں
مسلموں کی ان کے ہاں تکفیر ہے
گفتگو میں رہتے تھے آگے خموش
ہر سخن کی اب مرے تقریر ہے
نظم محسنؔ کی رہی سرمشق دیر
اس مرے بھی شعر میں تاثیر ہے
مر گئے پر بھی نہ رسوائی گئی
شہر میں اب نعش بھی تشہیر ہے
کیا ستم ہے یہ کہ ہوتے تیغ و طشت
ذبح کرنے میں مرے تاخیر ہے
۱۳۶۰۵
میرؔ کو ہے کیا جوانی میں صلاح
اب تو سارے میکدے کا پیر ہے
(۱۸۸۰)
دل غم سے خوں ہوا تو بس اب زندگی ہوئی
جان امیدوار سے شرمندگی ہوئی
خدمت میں اس صنم کے گئی عمر پر ہمیں
گویا کہ روز اس سے نئی بندگی ہوئی
گریے کا میرے جوش جو دیکھا تو شرم سے
سیلاب کو بھی دیر سر افگندگی ہوئی
تھا دو دلا وصال میں بھی میں کہ ہجر میں
پانچوں حواس کی تو پراگندگی ہوئی
۱۳۶۱۰
اب صبر میرؔ ہو نہیں سکتا فراق میں
یک عمر جان و دل کی فریبندگی ہوئی
(۱۸۸۱)
یار نے ہم سے بے ادائی کی
وصل کی رات میں لڑائی کی
بال و پر بھی گئے بہار کے ساتھ
اب توقع نہیں رہائی کی
کلفت رنج عشق کم نہ ہوئی
میں دوا کی بہت شفائی کی
طرفہ رفتار کے ہیں رفتہ سب
دھوم ہے اس کی رہگرائی کی
۱۳۶۱۵
خندۂ یار سے طرف ہو کر
برق نے اپنی جگ ہنسائی کی
کچھ مروت نہ تھی ان آنکھوں میں
دیکھ کر کیا یہ آشنائی کی
وصل کے دن کو کار جاں نہ کھنچا
شب نہ آخر ہوئی جدائی کی
منھ لگایا نہ دختر رز کو
میں جوانی میں پارسائی کی
جور اس سنگ دل کے سب نہ کھنچے
عمر نے سخت بے وفائی کی
۱۳۶۲۰
کوہکن کیا پہاڑ توڑے گا
عشق نے زور آزمائی کی
چپکے اس کی گلی میں پھرتے رہے
دیر واں ہم نے بے نوائی کی
اک نگہ میں ہزار جی مارے
ساحری کی کہ دلربائی کی
نسبت اس آستاں سے کچھ نہ ہوئی
برسوں تک ہم نے جبہ سائی کی
میرؔ کی بندگی میں جانبازی
سیر سی ہو گئی خدائی کی
۱۳۶۲۵
(۱۸۸۲)
زمیں اور ہے آسماں اور ہے
تب آناً فآناً سماں اور ہے
نہ وے لوگ ہیں اب نہ اجماع وہ
جہاں وہ نہیں یہ جہاں اور ہے
نہ ان لوگوں کی بات سمجھی گئی
یہ خلق اور ان کی زباں اور ہے
تجھے گو کہ صد رنگ ہو مجھ سے کیں
مری اور اک مہرباں اور ہے
ہوا رنگ بدلے ہے ہر آن میرؔ
زمین و زماں ہر زماں اور ہے
۱۳۶۳۰
(۱۸۸۳)
کہو تو کب تئیں یوں ساتھ تیرے پیار رہے
کہ دیکھا جب تجھے تب جی کو مار مار رہے
ادا و ناز سے دل لے چلا تو ہنس کے کہا
کہ میرے پاس تمھارا بھی یادگار رہے
ہم آپ سے جو گئے ہیں گئے ہیں مدت کے
الٰہی اپنا ہمیں کب تک انتظار رہے
ہوس اسیروں کے ٹک دل کی نکلے کچھ شاید
کوئی دن اور اگر موسم بہار رہے
اٹھا جو باغ سے میں بے دماغ تو نہ پھرا
ہزار مرغ گلستاں مجھے پکار رہے
۱۳۶۳۵
لیا تو جاوے بھلا نام منھ سے یاری کا
جو ہم ستم زدوں سے یار کچھ بھی یار رہے
وصال ہجر ٹھہر جاوے کچھ نہ کچھ آخر
جو بیقرار مرے دل کو بھی قرار رہے
کریں گے چھاتی کو گلزار ہم جلا کر داغ
جو گل کے سینے میں ایسا ہی خار خار رہے
تکوں ہوں ایک سا میں گرد راہ کو اس کی
نہ کیونکے دونوں مری آنکھوں میں غبار رہے
نہ کریے گریۂ بے اختیار ہرگز میرؔ
جو عشق کرنے میں دل پر کچھ اختیار رہے
۱۳۶۴۰
(۱۸۸۴)
بے لطف یار ہم کو کچھ آسرا نہیں ہے
سو کوئی دن جو ہے تو پھر سالہا نہیں ہے
سن عشق جو اطبا کرتے ہیں چشم پوشی
جانکاہ اس مرض کی شاید دوا نہیں ہے
جس آنکھ سے دیا تھا ان نے فریب دل کو
اس آنکھ کو جو دیکھا اب آشنا نہیں ہے
جب دیکھو آئینے کو تب روبرو ہے اس کے
بے چشم و رو اسے کچھ شرم و حیا نہیں ہے
میں برگ بند اگرچہ زیر شجر رہا ہوں
فقر مکب سے لیکن برگ و نوا نہیں ہے
۱۳۶۴۵
شیریں نمک لبوں بن اس کے نہیں حلاوت
اس تلخ زندگی میں اب کچھ مزہ نہیں ہے
اعضا گداز ہو کر سب بہ گئے ہیں میرے
ہجراں میں اس کے مجھ میں اب کچھ رہا نہیں ہے
سن سانحات عشقی ہنس کیوں نہ دو پیارے
کیا جانو تم کسو سے دل ٹک لگا نہیں ہے
دل خوں جگر کے ٹکڑے جب میرؔ دیکھتا ہوں
اب تک زباں سے اپنی میں کچھ کہا نہیں ہے
(۱۸۸۵)
لاکھوں فلک کی آنکھیں سب مند گئیں ادھر سے
نکلے نہ ناامیدی کیونکر مری نظر سے
۱۳۶۵۰
برسے ہے عشق یاں تو دیوار اور در سے
روتا گیا ہے ہر اک جوں ابر میرے گھر سے
جو لوگ چلتے پھرتے یاں چھوڑ کر گئے تھے
دیکھا نہ ان کو اب کے آئے جو ہم سفر سے
قاصد کسو نے مارا خط راہ میں سے پایا
جب سے سنا ہے ہم نے وحشت ہے اس خبر سے
سو بار ہم تو تم بن گھر چھوڑ چھوڑ نکلے
تم ایک بار یاں تک آئے نہ اپنے گھر سے
چھاتی کے جلنے سے ہی شاید کہ آگ سلگی
اٹھنے لگا دھواں اب میرے دل و جگر سے
۱۳۶۵۵
نکلا سو سب جلا ہے نومید ہی چلا ہے
اپنا نہال خواہش برگ و گل و ثمر سے
جھڑ باندھنے کا ہم بھی دیں گے دکھا تماشا
ٹک ابر قبلہ آ کر آگے ہمارے برسے
سو نامہ بر کبوتر کر ذبح ان نے کھائے
خط چاک اڑے پھریں ہیں اس کی گلی میں پر سے
آخر گرسنہ چشم نظارہ ہو گئے ہم
ٹک دیکھنے کو اس کے برسوں مہینوں ترسے
اپنا وصول مطلب اور ہی کسی سے ہو گا
منزل پہنچ رہیں گے ہم ایسے رہگذر سے
۱۳۶۶۰
سر دے دے مارتے ہیں ہجراں میں میرؔ صاحب
یارب چھڑا تو ان کو چاہت کے درد سر سے
(۱۸۸۶)
کافر بتوں سے مل کے مسلمان کیا رہے
ہو مختلط جو ان سے تو ایمان کیا رہے
شمشیر اس کی حصہ برابر کرے ہے دو
ایسی لگی ہے ایک تو ارمان کیا رہے
ہے سر کے ساتھ مال و منال آدمی کا سب
جاتا رہے جو سر ہی تو سامان کیا رہے
ویرانی بدن سے مرا جی بھی ہے اداس
منزل خراب ہووے تو مہمان کیا رہے
۱۳۶۶۵
اہل چمن میں میں نے نہ جانا کسو کے تیں
مدت میں ہو ملاپ تو پہچان کیا رہے
حال خراب جسم ہے جی جانے کی دلیل
جب تن میں حال کچھ نہ رہے جان کیا رہے
جب سے جہاں ہے تب سے خرابی یہی ہے میرؔ
تم دیکھ کر زمانے کو حیران کیا رہے
(۱۸۸۸)
وہ اب ہوا ہے اتنا کہ جور و جفا کرے
افسوس ہے جو عمر نہ میری وفا کرے
ہجران یار ایک مصیبت ہے ہم نشیں
مرنے کے حال سے کوئی کب تک جیا کرے
۱۳۶۸۰
صورت ہو ایسی کوئی تو کچھ میری قدر ہو
مشتاق یار کو بھی کسو کا خدا کرے
مرنا قبول ہے نہیں زنہار یہ قبول
منت سے آن کر جو معالج دوا کرے
مستی شراب کی ہی سی ہے آمد شباب
ایسا نہ ہو کہ تم کو جوانی نشہ کرے
یارب نسیم لطف سے تیری کہیں کھلے
دل اس چمن میں غنچہ سا کب تک رہا کرے
میں نے کہا کہ آتش غم میں جلے ہے دل
وہ سردمہر گرم ہو بولا جلا کرے
۱۳۶۸۵
رکنے سے میرے رات کے سارا جہاں رکا
آئے نسیم صبح کہ اک دم ہوا کرے
برسوں کیا کرے مری تربت کو گل فشاں
مرغ چمن اگر حق صحبت ادا کرے
عارف ہے میرؔ اس سے ملا بیشتر کرو
شاید کہ وقت خاص میں تم کو دعا کرے
(۱۸۸۸)
مدت سے تو دلوں کی ملاقات بھی گئی
ظاہر کا پاس تھا سو مدارات بھی گئی
کتنے دنوں میں آئی تھی اس کی شب وصال
باہم رہی لڑائی سو وہ رات بھی گئی
۱۳۶۸۰
کچھ کہتے آ کے ہم تو سنا کرتے وے خموش
اب ہر سخن پہ بحث ہے وہ بات بھی گئی
نکلی جو تھی تو بنت عنب عاصمہ ہی تھی
اب تو خراب ہو کے خرابات بھی گئی
عمامہ جانماز گئے لے کے مغبچے
واعظ کی اب لباسی کرامات بھی گئی
پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
(۱۸۸۸)
گل نے بہت کہا کہ چمن سے نہ جائیے
گلگشت کو جو آئیے آنکھوں پہ آئیے
۱۳۶۸۵
میں بے دماغ کر کے تغافل چلا گیا
وہ دل کہاں کہ ناز کسو کے اٹھائیے
صحبت عجب طرح کی پڑی اتفاق ہائے
کھو بیٹھیے جو آپ کو تو اس کو پائیے
رنجیدگی ہماری تو پر سہل ہے ولے
آزردہ دل کسو کو نہ اتنا ستائیے
خاطر ہی کے علاقے کی سب ہیں خرابیاں
اپنا ہو بس تو دل نہ کسو سے لگائیے
اے ہمدم ابتدا سے ہے آدم کشی میں عشق
طبع شریف اپنی نہ ایدھر کو لائیے
۱۳۶۸۰
اتنی بھی کیا ہے دیدہ درائی کہ غیر سے
آنکھیں لڑائیے ہمیں آنکھیں دکھائیے
مچلا ہے وہ تو دیکھ کے لیتا ہے آنکھیں موند
سوتا پڑا ہو کوئی تو اس کو جگائیے
جان غیور پر ہے ستم سا ستم کہ میرؔ
بگڑا جنھوں سے چاہیے ان سے بنائیے
(۱۸۸۰)
لے عشق میں گئے دل پر اپنی جان سے
خالی ہوا جہاں جو گئے ہم جہان سے
دل میں مسودے تھے بہت پر حضور یار
نکلا نہ ایک حرف بھی میری زبان سے
۱۳۶۸۵
ٹک دل سے آؤ آنکھوں میں ہے دید کی جگہ
بہتر نہیں مکان کوئی اس مکان سے
اول زمینیوں میں ہو مائل مری طرف
جو حادثہ نزول کرے آسمان سے
یہ وہم ہے کہ آنکھیں مری لگ گئیں کہیں
تم مار ڈالیو نہ مجھے اس گمان سے
کھل جائیں گی تب آنکھیں جو مرجاو ے گا کوئی
تم باز نئیں ہو آتے مرے امتحان سے
نا مہربانی نے تو تمھاری کیا ہلاک
اب لگ چلیں گے اور کسی مہربان سے
۱۳۸۰۰
زنبور خانہ چھاتی غم دوری سے ہوئی
وے ہم تلک نہ آئے کبھو کسر شان سے
تاثیر کیا کرے سخن میرؔ یار میں
جب دیکھو لگ رہا ہے کوئی اس کے کان سے
(۱۸۸۱)
کہو سو کریے علاج اپنا طپیدن دل بلائے جاں ہے
نہ شب کو مہلت نہ دن کو فرصت دمادم آنکھوں سے خوں رواں ہے
تلاش دل کی جو دلبری سے ہمارے پاس آ تمھیں رہے ہے
ستم رسیدہ شکستہ وہ دل گیا بھی خوں ہوکے یاں کہاں ہے
کڑھا کریں ہیں ہوا ہے مورد جہان اجسام جب سے اپنا
غم جدائی جہان جاں کا ہمارے دل میں جہاں جہاں ہے
۱۳۸۰۵
نہیں جو دیکھا ہے ہم نے اس کو ہوا ہے نقصان جان اپنا
ادھر نہ دیکھے ہے وہ کبھو تو نگہ کا اس کی مگر زیاں ہے
بجا بھی ہے جو نہ ہووے مائل نگار سیر چمن کا ہرگز
گلوں میں ہمدم ہو کوئی اس کا سو کس کا ایسا لب و دہاں ہے
کسے ہے رنج و غم و الم سے دماغ سر کے اٹھانے کا اب
مصیبت اس کے زمانے میں تو ہمارے اوپر زماں زماں ہے
نہیں ہے اب میرؔ پیر اتنا جو ذکر حق سے تو منھ چھپاوے
پگاہ نعرہ زنی کیا کر ابھی تو نام خدا جواں ہے
(۱۸۸۲)
سر راہ چند انتظاری رہے
بھلا کب تلک بیقراری رہے
۱۳۸۱۰
رہا ہی کئے آنسو پلکوں پہ شب
کہاں تک ستارہ شماری رہے
کہا بوسہ دے کر سفر جب چلا
کہ میری بھی یہ یادگاری رہے
کہیں خشک ہو چشمۂ چشم بھی
لہو منھ پہ تا چند جاری رہے
بس اب رہ چکی جان غمناک بھی
جو ایسی ہی تن کی نزاری رہے
تسلی نہ ہو دل اگر یار سے
ہمیں سالہا ہم کناری رہے
۱۳۸۱۵
ترے ہیں دعاگو سنا خوب ہی
فقیروں کی گر گوش داری رہے
شب وصل تھی یا شب تیغ تھی
کہ لڑتے ہی وے رات ساری رہے
کریں خواب ہمسائے کیونکر کہ یاں
بلا شور و فریاد و زاری رہے
پھرا کرتے ہیں خوار گلیوں میں ہم
کہاں تک یہ بے اعتباری رہے
کج ابرو ان اطفال میں ہے عجب
جو میرؔ آبرو بھی تمھاری رہے
۱۳۸۲۰
(۱۸۸۳)
کیا منھ لگے گلوں کے شگفتہ دماغ ہے
پھولا پھرے ہے مرغ چمن باغ باغ ہے
وہ دل نہیں رہا ہے نہ اب وہ دماغ ہے
جی تن میں اپنے بجھتا سا کوئی چراغ ہے
قامت سے اس کی سرنگوں رہتے ہیں سرو و گل
خوبی سے اس کی لالۂ صد برگ داغ ہے
یارب رکھیں گے پنبہ و مرہم کہاں کہاں
سوز دروں سے ہائے بدن داغ داغ ہے
مدت ہوئی کہ زانو سے اٹھتا نہیں ہے سر
کڑھنے سے رات دن کے ہمیں کب فراغ ہے
۱۳۸۲۵
گھر گھر پھرے ہے جھانکتی ہر صبح جو نسیم
پردے میں کوئی ہے کہ یہ اس کا سراغ ہے
صولت فقیری کی نہ گئی مر گئے پہ بھی
اب چشم شیر گور کا میری چراغ ہے
لگ نکلی ہے کسو کی مگر بکھری زلف سے
آنے میں باد صبح کے یاں اک دماغ ہے
نابخردی سے مرغ دل ناتواں پہ میرؔ
اس شوخ لڑکے سے مجھے باہم جناغ ہے
(۱۸۸۴)
طبیعت نے عجب کل یہ ادا کی
کہ ساری رات وحشت ہی رہا کی
۱۳۸۳۰
نمائش داغ سودا کی ہے سر سے
بہار اب ہے جنوں کی ابتدا کی
نہ ہو گلشن ہمارا کیونکے بلبل
ہمیں گلزار میں مدت سنا کی
مجھی کو ملنے کا ڈھب کچھ نہ آیا
نہیں تقصیر اس ناآشنا کی
گئے جل حر عشقی سے جگر دل
رہی تھی جان سو برسوں جلا کی
انھیں نے پردے میں کی شوخ چشمی
بہت ہم نے تو آنکھوں کی حیا کی
۱۳۸۳۵
ہوا طالع جہاں خورشید دن ہے
تردد کیا ہے ہستی میں خدا کی
ق
پیام اس گل کو پہنچا پھر نہ آئی
نہ خوش آئی میاں گیری صبا کی
سبب حیرت کا ہے اس کا توقف
سبک پا واں یہ اب تک کیا کیا کی
جفائیں سہیے گا کہتے تھے اکثر
ہماری عمر نے پھر گر وفا کی
جواں ہونے کی اس کے آرزو تھی
سو اب بارے ہمیں سے یہ جفا کی
۱۳۸۴۰
ق
گیا تھا رات دروازے پر اس کے
فقیرانہ دعا کر جو صدا کی
لگا کہنے کہ یہ تو ہم نشیناں
صدا ہے دل خراش اس ہی گدا کی
ق
رہا تھا دیکھ پہلے جو نگہ کر
ہمارے میرؔ دل میں ان نے جا کی
ملا اب تو نہ وہ ملنا تھا اس کا
نہ ہم سے دیر آنکھ اس کی ملا کی
(۱۸۸۵)
ہم رو رو کے درد دل دیوانہ کہیں گے
جی میں ہے کہوں حال غریبانہ کہیں گے
۱۳۸۴۵
سودائی و رسوا و شکستہ دل و خستہ
اب لوگ ہمیں عشق میں کیا کیا نہ کہیں گے
دیکھے سو کہے کوئی نہیں جرم کسو کا
کہتے ہیں بجا لوگ بھی بیجا نہ کہیں گے
ہوں دربدر و خاک بسر چاک گریباں
اس طور سے کیونکر مجھے رسوا نہ کہیں گے
ویرانے کو مدت کے کوئی کیا کرے تعمیر
اجڑی ہوئی آبادی کو ویرانہ کہیں گے
میں رویا کڑھا کرتا ہوں دن رات جو درویش
من بعد مرے تکیے کو غم خانہ کہیں گے
۱۳۸۵۰
موقوف غم میرؔ کہ شب ہو چکی ہمدم
کل رات کو پھر باقی یہ افسانہ کہیں گے
(۱۸۸۶)
مدت پائے چنار رہے ہیں مدت گلخن تابی کی
برسوں ہوئے ہیں گھر سے نکلے عشق نے خانہ خرابی کی
مشق نوشتن جن کی رسا ہے وے بھی چپ ہیں حیرت سے
نقل کروں میں خوبی خط کیا اس کے چہرے کتابی کی
وہ نہیں سنتا سچی بھی میری تین میں میں ہوں نہ تیرہ میں
گنتی میں کچھ ہوں تو میری قدر ہو حرف حسابی کی
دیر جوانی کچھ رہتی تو اس کی جفا کا اٹھتا مزہ
عمر نے میری گذر جانے میں ہائے دریغ شتابی کی
۱۳۸۵۵
جام گلوں کے خزاں میں نگوں ہیں نکہت خوش بھی چمن سے گئی
مے شاید کہ تمام ہوئی ہے ہر غنچے کی گلابی کی
جیتے جاگتے اب تک تو ہیں لیکن جیسے مردہ ہیں
یعنی بے دم سست بہت ہیں حسرت سے بے خوابی کی
اچھی ہی ہے یہ جنس وفا یاں لیک نہ پائی ہم نے کہیں
داغ ہوئی ہے جان ہماری اس شے کی نایابی کی
جیب و دامن تر رہتے ہیں آٹھ پہر کے رونے سے
قدر نہیں ہے ہم کو ہرگز اپنے جامۂ آبی کی
ننگ خلق کیا ہے ہم کو آخر دست خالی نے
عالم میں اسباب کے ہے کیا شورش بے اسبابی کی
۱۳۸۶۰
عشق میرؔ کسو سے اتنا اب تک ظاہر ہم پہ نہ تھا
حرف یار جو منھ سے نکلا ان نے بلا بیتابی کی
(۱۸۸۸)
خم ہوا قد کماں سا پیر ہوئے
سو ہم اس کے نشان تیر ہوئے
اب نہ حسرت رہے گی مرنے تک
موسم گل میں ہم اسیر ہوئے
میں ہی درویش خوار و زار نہیں
عشق میں بادشہ فقیر ہوئے
ہے شرارت کا وقت عہد شباب
تم لڑکپن ہی سے شریر ہوئے
۱۳۸۶۵
گھر کو اس کے خراب ہی دیکھا
جس کے یہ چشم و دل مشیر ہوئے
شور جن کے سروں میں عشق کا تھا
وے جواں سارے پائے گیر ہوئے
یاں کی خلقت کی ہے زباں الٹی
کہتے ہیں اندھوں کو بصیر ہوئے
نہ ہوئے ہم نظیریؔ سے یوں تو
شعر کے فن میں بے نظیر ہوئے
بات کا ہم سے ان کو کب ہے دماغ
میرؔ درویشی میں امیر ہوئے
۱۳۸۸۰
(۱۸۸۸)
آؤ کبھو تو پاس ہمارے بھی ناز سے
کرنا سلوک خوب ہے اہل نیاز سے
پھرتے ہو کیا درختوں کے سائے میں دور دور
کر لو موافقت کسو بے برگ و ساز سے
ہجراں میں اس کے زندگی کرنا بھلا نہ تھا
کوتاہی جو نہ ہووے یہ عمر دراز سے
مانند سبحہ عقدے نہ دل کے کبھو کھلے
جی اپنا کیونکے اچٹے نہ روزے نماز سے
کرتا ہے چھید چھید ہمارا جگر تمام
وہ دیکھنا ترا مژۂ نیم باز سے
۱۳۸۸۵
دل پر ہو اختیار تو ہرگز نہ کریے عشق
پرہیز کریے اس مرض جاں گداز سے
آگے بچھا کے نطع کو لاتے تھے تیغ و طشت
کرتے تھے یعنی خون تو اک امتیاز سے
مانع ہوں کیونکے گریۂ خونیں کے عشق میں
ہے ربط خاص چشم کو اف اے شراز سے
شاید شراب خانے میں شب کو رہے تھے میرؔ
کھیلے تھا ایک مغبچہ مہر نماز سے
(۱۸۸۸)
رشک شمشیر ابرو کا خم ہے
تیر و نشتر سے کیا پلک کم ہے
۱۳۸۸۰
تم کرو شاد زندگی کہ مجھے
دل کے خوں ہونے کا بہت غم ہے
جب سے عالم میں جلوہ گر ہے تو
مہلکے میں تمام عالم ہے
حبس دم پر نہ جائیو ان کے
شیخ صاحب کا یہ بھی اک دم ہے
زال دنیا کو جن نے چھوڑ دیا
وہی نزدیک اپنے رستم ہے
سرو و طوبیٰ کا ناز ہے بیجا
اس کے قد کا سا کب خم و چم ہے
۱۳۸۸۵
کچھ تو نسبت ہے اس کے بالوں سے
یوں ہی کیا حال میرؔ درہم ہے
(۱۸۰۰)
جو لوگ آسماں نے یاں خاک کر اڑائے
بے عبرتوں نے لے کر خاک ان کی گھر بنائے
رہنے کی کوئی جاگہ شاید نہ تھی انھوں کی
جو یاں سے اٹھ گئے ہیں وے پھر کبھو نہ آئے
ق
لڑکے برہمنوں کے صندل بھری جبینیں
ہندوستاں میں دیکھے سو ان سے دل لگائے
ہر اک صنم کدہ کیا کافر جگہ ہے ہم نے
قشقے بھی یاں کھنچائے زنار بھی بندھائے
۱۳۸۸۰
پامال لوگ کیا کیا آگے ہوئے ہیں تم سے
اس پر بھی تم جو آئے یاں تم نے سر اٹھائے
کیا گھورتے ہو ہر دم ڈرتے نہیں ہیں کچھ ہم
جن آنکھوں پر ہیں عاشق ان آنکھوں کے دکھائے
آہ شرر فشاں جو نکلے ہے منھ سے ہر دم
روشن ہے میرؔ غم نے قلب و کبد جلائے
(۱۸۰۱)
ہم کبھو غم سے آہ کرتے تھے
آسماں تک سیاہ کرتے تھے
اے خوشا حال اس کا جس کا وے
حال عمداً تباہ کرتے تھے
۱۳۸۸۵
برسوں رہتے تھے راہ میں اس کی
تب کچھ اک اس سے راہ کرتے تھے
نیچی آنکھیں ہم اس کو دیکھا کیے
کبھو اونچی نگاہ کرتے تھے
ہے جوانی کہ موسم گل میں
جائے طاعت گناہ کرتے تھے
کیا زمانہ تھا وہ جو گذرا میرؔ
ہم دگر لوگ چاہ کرتے تھے
(۱۸۰۲)
وے سیہ موئی و گرفتاری
دزد غمزوں کی ویسی عیاری
۱۳۸۰۰
اب کے دل ان سے بچ گیا تو کیا
چور جاتے رہے کہ اندھیاری
اچھا ہونا نہیں مریض عشق
ساتھ جی کے ہے دل کی بیماری
کیوں نہ ابر بہار پر ہو رنگ
برسوں دیکھی ہے میری خوں باری
شور و فریاد و زاری شب سے
شہریوں کو ہے مجھ سے بیزاری
چلے جاتے ہیں رات دن آنسو
دیدۂ تر کی خیر ہے جاری
۱۳۸۰۵
مر رہیں اس میں یا رہیں جیتے
شیوہ اپنا تو ہے وفاداری
کیونکے راہ فنا میں بیٹھیے گا
جرم بے حد سے ہے گراں باری
واں سے خشم و خطاب و ناز و عتاب
یاں سے اخلاص و دوستی یاری
میرؔ چلنے سے کیوں ہو غافل تم
سب کے ہاں ہو رہی ہے تیاری
(۱۸۰۳)
جمع افگنی سے ان نے ترکش کیے ہیں خالی
کس مرتبے میں ہو گی سینوں کی خستہ حالی
۱۳۸۱۰
درگیر کیونکے ہو گی اس سفلہ خو سے صحبت
دیوانگی یہ اتنی وہ اتنا لا ابالی
بے اختیار شاید آہ اس سے کھنچ گئی ہو
جب صورت ایسی تیری نقاش نے نکالی
اتنی سڈول دیہی دیکھی نہ ہم سنی ہے
ترکیب اس کی گویا سانچے میں گئی ہے ڈھالی
وصل و فراق دونوں بے حالی ہی میں گذرے
اب تک مزاج کی میں پاتا نہیں بحالی
میں خاکسار ان تک پہنچی دعا نہ میری
وے ہفتم آسماں پر ان کا دماغ عالی
۱۳۸۱۵
آنکھیں فلک کی لاکھوں تب جھپتیاں ہی دیکھیں
مانند برق خاطف تیغ ان نے جب نکالی
کل فتنہ زیر سر تھے جو لوگ کٹ گئے سب
پھر بھی زمین سر پر یاروں نے آج اٹھا لی
طفلی میں ٹیڑھی سیدھی ٹوپی کا ہوش کب تھا
پگڑی ہی پھیر رکھی ان نے جو سدھ سنبھالی
معقول اگر سمجھتے تو میرؔ بھی نہ کرتے
لڑکوں سے عشق بازی ہنگام کہنہ سالی
(۱۸۰۴)
دوستی نے تو ہماری جاں گدازی خوب کی
آہ اس دشمن نے یہ عاشق نوازی خوب کی
۱۳۸۲۰
گور پر آیا سمند ناز کو جولاں کیے
اس سپاہی زادے نے کیا ترک تازی خوب کی
عاشقوں کی خستگی بدحالی کی پروا نہیں
اے سراپا ناز تو نے بے نیازی خوب کی
تنگ چولی نے تو مارا تنگ درزی سے ہمیں
خاک بھی برباد کی دامن درازی خوب کی
سان مارا اور کشتوں میں مرے کشتے کو بھی
اس کشندے لڑکے نے بے امتیازی خوب کی
چھوڑ کر معمورۂ دنیا کو جنگل جا بسے
ہم جہان آب و گل میں خانہ سازی خوب کی
۱۳۸۲۵
کھیل لڑکوں کا سمجھ کر چاہ کو آخر گئے
میرؔ پیری میں تو تم نے عشق بازی خوب کی
(۱۸۰۵)
اے عشق بے محابا تو نے تو جان مارے
ٹک حسن کی طرف ہو کیا کیا جوان مارے
(۱۸۰۶)
طائر فریب کتنا ہے وہ شکار پیشہ
مرغان باغ سارے گویا ہیں اس کے مارے
(۱۸۰۸)
اس سخن رس سے اگر شب کی ملاقات رہے
بات رہ جائے نہ یہ دن رہیں نے رات رہے
فخر سے ہم تو کلہ اپنی فلک پر پھینکیں
اس کے سگ سے جو ملاقات مساوات رہے
۱۳۸۳۰
مغبچے لے گئے سجادہ و عمامہ اچک
شیخ کی میکدے میں کیونکے کرامات رہے
دھجیاں جامے کی کر دوں گا جنوں میں اب کے
گر گریباں دری کا کام مرے ہاتھ رہے
خاک کا پتلا ہے آدم جو کوئی اچھی کہے
عالم خاک میں برسوں تئیں وہ بات رہے
بات واعظ کی موثر ہو دلوں میں کیونکر
دن کو طامات رہے شب کو مناجات رہے
تنگ ہوں میرؔ جی بے طاقتی دل سے بہت
کیونکے یہ ہاتھ تلے قبلۂ حاجات رہے
۱۳۸۳۵
(۱۸۰۸)
کیا عشق بے محابا ستھراؤ کر رہا ہے
میداں بزن گہوں کے کشتوں سے بھر رہا ہے
غیرت سے دلبری کی ڈر چاندنی نہ دیکھی
مہتابی ہی رخ اس کا پیش نظر رہا ہے
خوں ریز ناتواں میں اتنا نہ کوئی بولا
کیا مارتا ہے اس کو یہ آپھی مر رہا ہے
پائیز کب کرے ہے افسردہ خستہ اتنا
تو بھی جدا کسو سے اے گل مگر رہا ہے
خجلت سے آج کل کیا ان نے کیا کنارہ
دریا ہمیشہ میرے گریے سے تر رہا ہے
۱۳۸۴۰
میں اک نگاہ گاہے خوش رو کوئی نہ دیکھا
الفت رہی ہے جس سے اس ہی کا ڈر رہا ہے
رہتا نہیں ہے رکھے تھمتا نہیں تھمائے
دل اب تڑپ تڑپ کر اک ظلم کر رہا ہے
یہ کارواں سرا تو رہنے کی گوں نہ نکلی
ہر صبح یاں سے ہم کو عزم سفر رہا ہے
بعد از نماز سجدہ اس شکر کا کروں ہوں
روزوں کا چاند پیدا سب بے خبر رہا ہے
کیا پھر نظر چڑھا ہے اے میرؔ کوئی خوش رو
یہ زرد زرد چہرہ تیرا اتر رہ ہے
۱۳۸۴۵
(۱۸۰۸)
کیا طرح ہے یاں جو آئے ہو تو شرمائے ہوئے
بات مخفی کہتے ہو غصے سے جھنجھلائے ہوئے
اس مرے نوباوۂ گلزار خوبی کے حضور
اور خوباں جوں خزاں کے گل ہیں مرجھائے ہوئے
چھپ کے دیکھا ہمرہاں نے اس کو سو غش آ گیا
حیف بیخود ہو گئے ہم پھر بخود آئے ہوئے
ہر زماں لے لے اٹھو ہو تیغ بیٹھا مجھ کو دیکھ
آئے ہو مستانہ کس دشمن کے بہکائے ہوئے
گھر میں جی لگتا نہیں اس بن تو ہم ہو کر اداس
دور جاتے ہیں نکل ہجراں سے گھبرائے ہوئے
۱۳۸۵۰
ایک دن موئے دراز اس کے کہیں دیکھے تھے میں
ہیں گلے کے ہار اب وے بال بل کھائے ہوئے
دشمنی سے سایۂ عاشق کو جو مارے ہے تیر
اس کماں ابرو کے جا کر میرؔ ہمسائے ہوئے
(۱۸۱۰)
چرخ پر اپنا مدار دیکھیے کب تک رہے
ایسی طرح روزگار دیکھیے کب تک رہے
سہرے کہاں تک پڑیں آنسوؤں کے چہرے پر
گریہ گلے ہی کا ہار دیکھیے کب تک رہے
ضعف سے آنکھیں مندیں کھل نہ گئیں پھر شتاب
غش یہ ہمیں اب کی بار دیکھیے کب تک رہے
۱۳۸۵۵
لب پہ مرے آن کر بارہا پھر پھر گئی
جان کو یہ اضطرار دیکھیے کب تک رہے
اس سے تو عہد و قرار کچھ بھی نہیں درمیاں
دل ہے مرا بے قرار دیکھیے کب تک رہے
اس سرے سے اس سرے داغ ہی ہیں صدر میں
ان بھی گلوں کی بہار دیکھیے کب تک رہے
آنکھیں تو پتھرا گئیں تکتے ہوئے اس کی راہ
شام و سحر انتظار دیکھیے کب تک رہے
آنکھ ملاتا نہیں ان دنوں وہ شوخ ٹک
بے مزہ ہے ہم سے یار دیکھیے کب تک رہے
۱۳۸۶۰
روئے سخن سب کا ہے میری غزل کی طرف
شعر ہی میرا شعار دیکھیے کب تک رہے
گیسو و رخسار یار آنکھوں ہی میں پھرتے ہیں
میرؔ یہ لیل و نہار دیکھیے کب تک رہے
(۱۸۱۱)
فلک کرنے کے قابل آسماں ہے
کہ یہ پیرانہ سر جاہل جواں ہے
گئے ان قافلوں سے بھی اٹھی گرد
ہماری خاک کیا جانیں کہاں ہے
بہت نامہرباں رہتا ہے یعنی
ہمارے حال پر کچھ مہرباں ہے
۱۳۸۶۵
ہمیں جس جائے کل غش آ گیا تھا
وہیں شاید کہ اس کا آستاں ہے
مژہ ہر اک ہے اس کی تیز ناوک
خمیدہ بھوں جو ہے زوریں کماں ہے
اسے جب تک ہے تیر اندازی کا شوق
زبونی پر مری خاطر نشاں ہے
چلی جاتی ہے دھڑکوں ہی میں جاں بھی
یہیں سے کہتے ہیں جاں کو رواں ہے
اسی کا دم بھرا کرتے رہیں گے
بدن میں اپنے جب تک نیم جاں ہے
۱۳۸۸۰
پڑا ہے پھول گھر میں کاہے کو میرؔ
جھمک ہے گل کی برق آشیاں ہے
(۱۸۱۲)
ہم رہن بادہ جامۂ احرام کر چکے
مستی کی دیر میں قسم اقسام کر چکے
جامہ ہی وجہ مے میں ہمارا نہیں گیا
دستار و رخت سب گرو جام کر چکے
زنار پہنا سبحہ کے رشتے کے تار توڑ
ترک نماز و روزہ و اسلام کر چکے
جپ کرنے بیٹھے مالا لیے پیش روئے بت
کفر اختیار کرنے میں ابرام کر چکے
۱۳۸۸۵
صندل کے قشقے دیکھ برہمن بچوں کے صبح
عاشق ہوئے سو آپ کو بدنام کر چکے
واسوختہ ہو دیر سے کعبے کو پھر گئے
سو بار اضطراب سے پیغام کر چکے
شکر و گلہ صنم کدے کا حرف حرف میرؔ
کعبے کے رہنے والوں کو ارقام کر چکے
(۱۸۱۳)
عشق کیا کوئی اختیار کرے
وہی جی مارے جس کو پیار کرے
غنچہ ہے سر پہ داغ سودا کا
دیکھیں کب تک یہ گل بہار کرے
۱۳۸۸۰
آنکھیں پتھرائیں چھاتی پتھر ہے
وہ ہی جانے جو انتظار کرے
سہل وہ آشنا نہیں ہوتا
دیر میں کوئی اس کو یار کرے
کنج میں دامگہ کے ہوں شاید
صید لاغر کو بھی شکار کرے
کبھو سچے بھی ہو کوئی کب تک
جھوٹے وعدوں کو اعتبار کرے
پھول کیا میرؔ جی کو وہ محبوب
سر چڑھاوے گلے کا ہار کرے
۱۳۸۸۵
(۱۸۱۴)
سب کام سونپ اس کو جو کچھ کام بھی چلے
جپ نام اس کا صبح کو تا نام بھی چلے
گل بکھرے لال میرے قفس پر خزاں کی باؤ
شاید کہ اب بہار کے ایام بھی چلے
خط نکلے پر بھی یار نہ لکھتا تھا کوئی حرف
سو اس کو اب تو لوگوں کے پیغام بھی چلے
سایہ سی اس کے پیچھے لگی پھرتی ہے پری
وہ کیا جو آگے یار کے دو گام بھی چلے
پھر صعوہ کے خرام کی بے لطفی دیکھیو
جب راہ دو قدم وہ گل اندام بھی چلے
۱۳۸۸۰
اب وہ نہیں کہ تھامے تھمے اضطرار ہے
اک عمر ہم تو ہاتھ سے دل تھام بھی چلے
یہ راہ دور عشق نہیں ہوتی میرؔ طے
ہم صبح بھی چلے گئے ہیں شام بھی چلے
(۱۸۱۵)
اب دشت عشق میں ہیں بتنگ آئے جان سے
آنکھیں ہماری لگ رہی ہیں آسمان سے
پڑتا ہے پھول برق سے گلزار کی طرف
دھڑکے ہے جی قفس میں غم آشیان سے
یک دست جوں صدائے جرس بیکسی کے ساتھ
میں ہر طرف گیا ہوں جدا کاروان سے
۱۳۸۸۵
تم کو تو التفات نہیں حال زار پر
اب ہم ملیں گے اور کسو مہربان سے
تم ہم سے صرفہ ایک نگہ کا کیا کیے
اغماض ہم کو اپنے ہے جی کے زیان سے
جاتے ہیں اس کی اور تو عشاق تیر سے
قامت خمیدہ ان کے اگر ہیں کمان سے
دلکش قد اس کا آنکھوں تلے ہی پھرا کیا
صورت گئی نہ اس کی ہمارے دھیان سے
آتا نہیں خیال میں خوش رو کوئی کبھو
تو مار ڈالیو نہ مجھے اس گمان سے
۱۳۸۰۰
آنکھوں میں آ کے دل سے نہ ٹھہرا تو ایک دم
جاتا ہے کوئی دید کے ایسے مکان سے
دیں گالیاں انھیں نے وہی بے دماغ ہیں
میں میرؔ کچھ کہا نہیں اپنی زبان سے
(۱۸۱۶)
گلبرگ سی زباں سے بلبل نے کیا فغاں کی
سب جیسے اڑ گئی ہے رنگینی گلستاں کی
مطلوب گم کیا ہے تب اور بھی پھرے ہے
بے وجہ کچھ نہیں ہے گردش یہ آسماں کی
مائل ستم کے ہونا جور و جفا بھی کرنا
انصاف سے یہ کہنا یہ رسم ہے کہاں کی
۱۳۸۰۵
ہے سبزۂ لب جو اس لطف سے چمن میں
جوں بھیگتی مسیں ہوں کوئی سرو نوجواں کی
میں گھر جہاں میں اپنے لڑکوں کے سے بنائے
جب چاہا تب مٹایا بنیاد کیا جہاں کی
صوم و صلوٰۃ یکسو میخانے میں جو تھے ہم
آواز بھی نہ آئی کانوں میں یاں اذاں کی
جب سامنے گئے ہم ہم نے اسے دعا دی
شکل ان ے دیکھتے ہی غصہ کیا زباں کی
دیکھیں تو میرؔ کیونکر ہجراں میں ہم جیے ہیں
ہے اضطراب دل کا بے طاقتی ہے جاں کی
۱۳۸۱۰
٭٭٭
تشکر: تصنیف حیدر جنہوں نے فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید