فہرست مضامین
- کتنے موسم خواب ہوئے
- طارق بٹ
- کتنے موسم خواب ہوئے
- طارق بٹ
- انتساب
- خواجہ رضی حیدر
- نئے شعری اُفق کا متلاشی: طارق بٹ
- نوید صادق
- روز نئے پیرائے !!
- حق ادا کر سکے نہ ہم جس کا
- حرفِ آخر، نصیبِ ہر آغاز
- تا بہ حدِّ نگہ، ماورائے نظر
- اپنے تئیں کیا صفا سجایا نہیں
- آفریں کیوں نہ کہوں، اُس کی شکیبائی کو
- اسمِ احمدؐ ہمیں تمامی ہے
- آپؐ سے ہے، دینِ قیم، آپؐ کی نسبت سے ہم
- نقش گر نے کیا ہے یوں تصویر
- دیوار کھینچے جاتا ہے، در کر نہیں رہا
- دیا بھی نام کا اُن کے، جلا دیا گیا ہے
- تھی یوں بھی خونِ دل کی کشید، پھر اُس کے نشے میں چور بھی ہم
- چراغ بجھ گئے، سائے نصیب کے نہ گئے
- خِیرہ کر دے نگہ، خیال کی بھی
- نہ میں علم والا، نہ گیانی، نہ دھیانی
- نئے سے نیا گل، کھلاتا رہے گا
- نقش اُس کے ہیں، شش جہات لگے
- کس کو حاصل ہے، جاننا سارا
- آئنوں میں آئنہ، شہرِ حلب کا آئنہ
- ہاتھ جو، لمحۂ فراغ لگا
- یہ سفر، یہ ڈگر، رہے آباد
- جانے گزرا ہے، کس اذیّت سے
- نہ دُور ہونے دوں اُس کو، جو اَب کہیں مل جائے
- داستاں: داغ داغ میں، کیا ہے
- گفتگو: میرے باب میں کیا ہے
- آب ہے جو، سراب میں، کیا ہے
- کنارہ کر کے وہ دریا بدل گیا مجھ کو
- نواحِ دل سے، بگولہ ہزار اُٹھتا ہے
- رہیں غافل نہ، خفتگانِ خاک
- اس درد کی، وہ شکل و شباہت نہیں ہے اب
- خود کو آیا ہوں کُچلتا ہوا مَیں
- مجھ میں حیوانی کی وحشت سے، عجب
- ایک قصّہ تمھیں سنانا ہے
- نقش تیرا، میں جاں سے دھویا نئیں
- وجہِ بیگانگی، بتاتے نئیں
- اُسے جو کہنا تھا، وہ کہہ گیا ہے
- ہر جوئے تمنّا مری، دریا کے گئی ہے
- دل: کہ ہر غم کی، سجدہ گاہ بھی ہے
- میری چپ میں، یہ بولتا ہے کون
- بیٹھا ہوں، ایک ایک، ضرورت کا ہاتھ تھام
- آنکھ وہ جھلمل تاروں سی
- کوئی اب کیا کسی کو للکارے
- ابھی ہے گفتنی احوالِ جاں، سو کہہ سن لو
- سب کو سیلاب، کر گیا سیراب
- مست ہیں، اپنے ہی نظارے میں
- گفتگو کے، ہزار پیرائے
- اُدھر کو جائیں، جدھر آسمان پڑتا ہے
- جس دل کا بھید نہ پاؤ گے
- کام میں خوش، نہ کمائی میں ہے خوش
- تر و تازہ، پُر درد و فریاد رکھے
- گو یہ جانا، کہ سب ہی مایا ہے
- تو: کہ جانے ہے کس گماں میں یہاں
- صبح دم: دور سے آتی ہے، صدا سی کوئی
- رنگ: اُترتے جاتے ہیں
- پیار سے پیار نباہیں، پالیں روگ نہیں
- تیرگی کو مات، لکھی جا چکی ہے
- بہت دنوں میں جو آیا اِدھر سلام ترا
- ضیائے مہرِ تاباں مات ہو گی
- صورتِ ارض، سماوات میں اپنے لیے بھی
- خود پسندی کی انتہا پر ہو
- مجسم وہ مری تخئیل میں ہے
- داستاں آ کے سن، زبانی مری
- راز: ایسا نہیں ہے گہرا کوئی
- آئنہ رو نہ ہوں جو دل کے داغ
- سہ غزلہ
- قید کیا تھی، کسے رہائی ہوئی
- کسرِ شاں، ہم سے گر گدائی ہوئی
- دل کی رفتار، زلزلائی ہوئی
- کوئی اس درجہ کامران نہ تھا
- یہ زماں ہے، نہ یہ مکاں اپنا
- دیر تک دستک ہوئی، تا دیر آوازہ ہوا
- داستان لکھ رہا ہوں، دوری کی
- یہاں وہاں کچھ نہیں ہے یکساں، رہا ہے طغیانِ کم، زیادہ
- سینے میں دل چراغ کی صورت، دھرے ہوئے
- ایسا بھی کیا کہ اپنے ہی پیاروں سے کہیے حال
- ترکش میں جتنے تیر تھے اُن کے، پڑے ہوئے
- لب پہ، کیا کیا پروں کو تولتے ہیں
- یہ جاں کہ فرصتِ غم سے بھی ہاتھ دھو گئی ہے
- آنے جانے کی خبر دیتے رہو
- پہلی منزل، شکستہ پائی ہے
- نہ اندھیرے چھٹے اپنے، نہ اُجالے ہوئے ہیں
- وہ زیاں، لایا ہے دل
- یاد کی برف کو، پگھلاؤ نہیں
- نہ شرق و غرب، شمال و غروب جانے میں ہے
- آنکھ ہونے لگی ہے اب، مدّھم
- جو وہ نہ چاہے، تو کیا رنگ، اس فسانے میں ہے
- غرض یہاں جو کسی کو ترے بیاں سے ہے
- کتنے موسم، خواب ہوئے
- نظر انداز ترے، جانتے ہیں
- چل اِسی سائے سائے
- آج خود سے ہے سامنا اپنا
- نہ اضطراب، نہ آہٹ کوئی سکوں حاصل
- (پنجابی غزل)
- (اپنے ہم وطنوں کے نام)
- تروینی
- نظمیں
- مٹی
- انمول بول
- امر بیل
- نقش
- شب بیتی
- حرفِ آخر
- ڈاکٹر خورشید رضوی
کتنے موسم خواب ہوئے
طارق بٹ
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کتنے موسم خواب ہوئے
طارق بٹ
جملہ حقوق میرے بچوں کے نام محفوظ ہیں
سرورق تصویر: محمد عمر طارق
انتساب
اپنے پیاروں کے نام
یہی دل تھا، چمن آثار کبھی
آن بیٹھے ہو، تو اب جاؤ نہیں
خواجہ رضی حیدر
نئے شعری اُفق کا متلاشی: طارق بٹ
طارق بٹ ایک صاحبِ اسلوب اور تخلیقی موج سے بھرپور شاعر ہیں۔ لہٰذا اُن کے اب تک دو مجموعے طبع ہو چکے ہیں۔ اور تیسرے مجموعے ’’کتنے موسم خواب ہوئے‘‘ کا مسودہ میرے سامنے ہے۔ سامنے ہی نہیں بلکہ اس نے تو میری تفہیمی صلاحیتوں کو اس طرح آواز دی ہے کہ میں اس مجموعے میں شامل شاعری پر مسلسل غور کرتا رہا ہوں۔ ویسے اس غور و فکر کو ان کے ایک فقرے نے مزید مہمیز کیا ہے جو انھوں نے اپنے دوسرے مجموعے کے ابتدائیہ میں درج کیا تھا اور وہ یہ تھا: ’’میں اپنی حیرتوں کا اسیر رہا ہوں اور میں نے انھی حیرتوں سے کچھ رنگ لے کر اپنے شعر کا منظرنامہ تصویر کرنے کی بساط بھر کوشش کی ہے۔‘‘ اس فقرے کے تناظر میں مجھے ان کی شاعری ایک ایسی حیرت سرا میں لے گئی جہاں موضوعات اپنی نئی معنویت میں لپٹے اپنے قاری کو ایک ایسی فضا میں لے جاتے ہیں جہاں حیرتیں لفظ و معنیٰ میں پرواز کرتی اور اپنی تخلیقی وارفتگی کا اعلان کرتی ہیں۔۔ ۔ کسی شاعر کا اس انداز میں کلام کرنا اس امر کی دلیل ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف شاعر ہے بلکہ اپنی ایک علاحدہ تخلیقی جہت تک رسائی کے لیے سنجیدگی کے ساتھ کوشاں ہے۔ طارق بٹ کی شاعری صوتی اور معنوی لحاظ سے الفاظ کی ایک ایسی صناعی ہے جہاں انفس و آفاق سے متعلق تصویریں بکھری ہوئی ہیں۔ یہ شاعری توازن اور تناسب کی شاعری ہے۔ اس میں کلاسیک کا آہنگ بھی موجود ہے اور جدید حسیت کی رو بھی۔ انھوں نے لفظ کے تمام تر امکانات کو اُجاگر کرنے کی سعی کی ہے جس سے ان کی شاعری روشن اور واضح ہو گئی ہے۔ داخلی کیفیات کے ساتھ خارجی موضوعات کو بھی انھوں نے نہایت سلیقے سے اپنی شاعری کا جزو بنایا ہے۔ اس بنا پر ان کی شاعری لفظ و معنیٰ کے نئے شعری افق تلاش کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ مروجہ سطحی موضوعات سے گریز کرتے ہوئے انھوں نے خود کو ایک پرت کی شاعری سے بجا طور پر بچانے کی کوشش کی ہے لہٰذا ان کی شاعری میں گہرائی اور گیرائی کے ساتھ ہی ساتھ ایک نیا لہجہ ظہور کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ طارق بٹ کے ہاں لسانی تجربات اور تشکیلات بھی موجود ہیں لیکن اتنی کثرت سے نہیں کہ مروجہ شعری آہنگ پر غالب آ جائیں۔ مثلاً انھوں نے ’’آشنایا‘‘ ’’دھیاننا‘‘ضرور لکھا ہے لیکن ’’دھیان‘‘ اور ’’آشنائی‘‘ کی معنویت پر آنچ نہیں آنے دی۔ بہرحال اُن کے اس تازہ مجموعے میں ایک بات غالب اور قابلِ ذکر ہے کہ ان کی مجموعی شاعری میں فکری رچاؤ اور اظہارو بیان کی سلاست اور وسعت میں ترفع دکھائی دیتا ہے۔ یہ ترفع ہی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ شاعر نہ صرف اپنے تخلیقی رویہ میں سنجیدہ ہے بلکہ اپنی شعری روایت سے بھی جڑا ہوا ہے۔ وہ اپنے شاعرانہ اظہار میں کسی خارجی منطق کے پابند نہیں ہیں۔ وہ جیسا محسوس کرتے اور جیسا سوچتے ہیں اُسے ویسا ہی شعر کے قالب میں ڈھال دیتے ہیں۔ یہاں ایک بات اور عرض کرتا چلوں کہ شاعرانہ خیال کی تحریک اگرچہ غور و فکر، جذباتی ہیجان اور احساس کی شدت سے پیدا ہوتی ہے لیکن کسی بھی احساس یا جذبے کو شاعری کی اساس نہیں کہا جا سکتا۔ شاعری کے لیے تصوریت بھی ضروری ہوتی ہے کیونکہ جذبے، احساس اور تصوریت کے امتزاج سے ہی اچھی شاعری جنم لیتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ طارق بٹ کے ہاں جذبہ بھی ہے، غور و فکر بھی ہے، تصوریت بھی ہے اور فنی مقتضیات کا التزام بھی۔ اس لیے ان کی شاعری میں شاعری سوچتی اور بولتی ہوئی نظر آتی ہے گویا اپنا اعلان کرتی ہے۔ ویسے سلیم احمد نے ایک جگہ لکھا تھا کہ ’’تجارت اور شاعری دونوں میں قیمت تیار شدہ مال کی ہوتی ہے‘‘ اور طارق بٹ کی شاعری اس قیمت پر پوری اترتی ہے۔۔ ۔ خیر، بات دور نکل رہی ہے اس لیے میں یہاں طارق بٹ کے کچھ اشعار پیش کر دوں، تاکہ سلیم احمد کے تجزیے کی تصدیق ہو سکے:
تم جو شرر سا دیکھتے ہو میری راکھ میں
وہ شعلگی کی سمت، سفر کر نہیں رہا
وہ درد بن کے سلگتے رہے ہیں آنکھوں میں
بہت سے خواب کہ معنی جنھیں دیے نہ گئے
دل بھی کیا خوش طلب ہے، مانگتا ہے
حسبِ راحت، رسد ملال کی بھی
کہا تھا نہ کر دل کو صرفِ تماشا
کہا تھا ناں، ہاتھوں سے جاتا رہے گا
جوں بگولے کے سنگ ہو خاشاک
چلے جاتے ہیں تیرے ساتھ لگے
تم نہیں جانتے، میں جانتا ہوں
دکھ ہی دکھ ہے یہ جاننا سارا
وہ: جو با اِیں روز و شب بھی، صاحبِ کردار ہیں
اُن کے آگے کیا بھلا نام و نسب کا آئنہ
دیکھ: کتنی تیز ہے دنیا میں تبدیلی کی رو
دیکھ تیرے سامنے رکھا ہے کب کا آئنہ
جانے کس زندگی کی خواہش میں
ہم اِدھر، تم اُدھر رہے آباد
ایک آندھی سی روز چلتی ہے
ایسے میں کیا شجر رہے آباد
ہے ابھی اس میں خیرگی کی رمق
آنکھ پتھر ہوئی نہ حیرت سے
کیا ہے روشن چراغ سے باہر
جل گیا جو چراغ میں، کیا ہے
کبھی میں اپنے لیے اجنبی نہ تھا ایسا
کوئی ہے سارا کا سارا، بدل گیا مجھ کو
سنائی دینے لگے ہیں خزاں کے سازینے
لو اب چمن سے، جلوسِ بہار اٹھتا ہے
سوئے افلاک اڑا جاتا ہوں
خواب پر خواب بدلتا ہوا میں
طارق بٹ کی شاعری کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ فکر و احساس کے وسیلے سے ایک پُر گو شاعر ہیں۔ اُن کے ہاں کہیں کہیں، ان کے عصر کی آوازیں سنائی دیتی ہیں لیکن یہ آوازیں ان کے ہاں اپنا ایک علاحدہ سبھاؤ لے کر وارِد ہوئی ہیں، اسی لیے بلا تردّد کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی وضع کے ایک الگ شاعر ہیں۔ مصرع کی بنت سے لے کر خیال کی نرت تک، ان کے ایک ایسے شاعر ہونے پر گواہ ہے جو اپنے خیال و فکر کے زاویے الگ سے بنانے پر مصر ہے۔ وہ کسی بھی دھارے اور تحریک سے خود کو الگ کر کے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے تلازمات اور لفظیات اپنے پڑھنے والے کا دھیان کسی اور طرف نہیں لے جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی لفظیات بھی ان کی شاعری میں ہیجان خیز انداز میں وارِد نہیں ہوئی ہیں۔ روح کی سچائی اور عشق کی تابانی نے ان تلازموں کو، لفظیات کو اپنے اندر جذب کر کے نہ صرف شاعری بنا دیا ہے بلکہ ان تلازموں اور لفظیات کی معنویت کی محذوف جہتوں کو بڑی ہنر مندی سے آشکار کیا ہے۔
طارق بٹ کی شاعری کے اوصاف و کمالات پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے بلکہ ان کی شاعری کا، ان کے عصر کی شاعری سے تقابل اور موازنہ کر کے بہت سے نئے اور منفرد رُخ واضح کیے جا سکتے ہیں لیکن یہاں میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں، بلکہ طارق بٹ کی شاعری کے نئے گوشے اُجاگر کرنا ہے، لہٰذا طارق بٹ کے کچھ اور اشعار کی تفہیم میں میرے ساتھ شامل ہو جائیے:
اسی کا عکس دل کی ہر پرت میں
وہی اک رنگ تہہ در تہہ گیا ہے
نہیں، خود سے کہاں ملا میں بھی
اک تعارف سا غائبانہ ہے
کون سانچے میں ہوں ڈھلنے والا
آتش عشق پگھلتا ہوا میں
اُس نیم نگاہی میں شرابور پڑا ہوں
دو بوند کوئی چشم جو برسا کے گئی ہے
اے رویوں میں چاشنی کے امیں
تجھ میں اک شخص تلخ سا ہے کون
کوئی اب کیا کسی کو للکارے
سبھی بیٹھے ہوئے ہیں جی ہارے
کیا کروں ایسے خواب کی توضیح
جو ہے تعبیر کے خسارے میں
تھکن منزلوں کی، کسے جا سنائیں
چلے جاتے ہیں لب پہ فریاد رکھے
ہمیشہ ہی سرِ تسلیم خم کیے رکھا
علاوہ اس کے کرے کیا، کوئی غلام ترا
میرے سب بھید کہاں کھولے ہیں اس نے مجھ پر
ہیں نہاں خانے مری ذات میں، اپنے لیے بھی
کب یہ تلوارِ معلق احوال
آگے گردن پہ گرے، جانتے ہیں
عذر خواہی ہو کیا کہ اس دل کا
جو بھی جذبہ ہے، انتہائی ہے
کام آئی ہے دشمنوں کی طرح
کوئی پہچان، آزمائی ہوئی
طارق بٹ کے ہاں شاعرانہ تعلّی نہیں ہے اور اگر کہیں ہے تو وہ خود اپنی شناخت کے مثبت پہلوؤں کی تلاش ہے۔ وہ اپنی داخلی کیفیات کے اظہار پر توجہ دیتے ہیں، تاکہ ان کے اشعار ان کے طرز احساس کی نمائندگی کر سکیں۔ وہ جمالیاتی لطف اندوزی کے بھی زیادہ قائل نہیں، جس کی بنا پران کی شاعری میں جسم و جاں کے احوال اور عشق کی پُر فشار صورتحال میں بھی کوئی سوقیانہ اظہار راہ نہیں پاتا ہے۔ یہ کیا کسی شاعر کا کم کمال ہے کہ وہ خالص حسن سے لطف اندوزی کی مزکّی روایت کو عام کرے اور اپنے قاری کے جذباتی، نفسیاتی اور جمالیاتی رویوں کی تہذیب کرے، مگر یہ کام صرف وہی شاعر کر سکتا ہے جو اپنے اور قاری کی اجتماعی نفسیات اور افتادِ طبع سے مکمل واقفیت پر قادر ہو۔ طارق بٹ بلاشبہ ایک ایسے ہی شاعر ہیں۔
خواجہ رضی حیدر
۲۷ اپریل ۲۰۲۳ء
کراچی
نوید صادق
روز نئے پیرائے !!
شعر گوئی بھی خوب عمل ہے۔ اپنے تئیں کوئی کہیں کوئی کہیں۔ لیکن بات صرف یہاں تک رہتی تو شاید کب کی تمام ہو چکی ہوتی۔ شعر گوئی ایک ایسا عمل ہے۔ جس میں ٹھہراؤ، کوئی وقفہ‘ یونہی سانس بھر قیام۔ سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیتا ہے۔ شعر گوئی۔ بات کہاں سے شروع ہو اور کہاں۔ ختم تو خیر کہیں بھی نہیں ہو سکتی۔ اور پھر یہ عمل۔ اس قدر سادہ و یک پرت نہیں۔ لیکن اس سارے میں شاعر سے کہیں زیادہ مشکل عمل سے نقاد کو گزرنا ہوتا ہے۔۔ ۔ اور وہ یوں کہ شاعر تو یہ کہہ کر آگے بڑھ سکتا ہے کہ میں نے تو جو لکھنا تھا‘ لکھ دیا۔۔ جو کہہ گیا، کہہ گیا اب میرا کیا ہے۔ مجھے کیا معلوم اس سے کیا مفہوم برآمد ہوتا ہے۔ شعر جانے، قاری جانے۔ نقاد لگا رہے اس کی پرکھ پرچول میں۔ گویا فہمِ شعر ایک پیچیدہ۔ بلکہ از حد پیچیدہ عمل ہے۔
کہتے ہیں جانبداری انسانی فطرت کا خاصہ ہے اور فطرت سے مفر کس کو ہے۔ اب آئیے نقاد کی طرف۔ تو نقاد بھی انسان ہونے کے ناتے جانبداری جو اُس کے خمیر میں آسن مارے براجمان رہتی ہے۔ لیکن اس جانبداری کی کئی قسمیں ہیں۔ دیگر بہت سی اقسام کو تو وہ جانیں جن کا گزارا اِن جانبداریوں سے ہٹ کر ایک سانس بھی ممکن نہیں۔ میرے لیے تو جانب داری ذوقِ شعری کے راستے اپنے جلوے دکھاتی ملتی ہے۔ ذوقِ شعری بھی خوب شے ہے، فہمِ شعر، تحسینِ شعر کے معاملات میں گل کھِلاتی جانب داری طبعِ نقاد کا عکس بناتے بناتے شاعر کے دروں خانہ کے راز بھی افشا کرتی چلے جاتی ہے۔ اس معاملہ کو سائنسی طرز پر دیکھنے کی ضرورت ہے اور وہ یوں کہ شاعر اور نقاد کا چیزوں کو دیکھنے کا عمل۔ یقیناً اس عمل میں اشتراک کے پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اختلافِ نظر بھی موجود رہتا ہے۔ یہ جو عام طور پر کچھ جملے سننے میں آتے رہتے ہیں: فلاں شاعر پر میں لکھ نہیں پاتا، فلاں مجھے پسند نہیں۔ فلاں کی شاعری مجھے بہت مرغوب ہے، جی چاہتا ہے بار بار اس کو پڑھتا رہوں، اس پر لکھے جاؤں۔ موخر الذکر صورتِ احوال میں شاعر اور قاری یا نقاد کے ہاں اشتراک کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور کارفرما ہوتا ہے، اگر سائنس کی زبان میں بات کی جائے تو میں کہوں گا کہ شاعر اور نقاد یا قاری ایک فریکوئنسی Frequency پر کھڑے ہیں۔ اب یہ امید نہیں رکھنا چاہیے کہ ہر نقاد کی فریکونسی ہر شاعر کی فریکونسی سے مل سکتی ہے۔ جہاں دونوں کی فریکونسی ایک ہو جائے گی، اشتراک کا کوئی پہلو موجود ہو گا۔ بات آگے چل نکلے گی۔
مجھے یہ تمہید کچھ یوں باندھنا پڑی کہ مجھے اپنی اور طارق بٹ کی فریکونسی کئی مقامات پر ایک ہوتی محسوس ہوتی ہے اور یہ کوئی آج کا قصہ نہیں، یہ ہم آہنگی فکر و نظر کی سطح پر اس وقت بھی موجود تھی جب ہمارے بیچ ملاقاتوں کے سلسلہ کا وجود تک نہ تھا۔ ٹیلی فون اور فیس بک FACE BOOKسے آگے بڑھتے بڑھتے آج ہم دونوں ’’کتنے موسم خواب ہوئے‘‘ تک آ پہنچے ہیں۔ اس سفر میں ’’صدائے موسمِ گل‘‘ نے ’’بدلتی رتوں کی حیرتوں‘‘ سے بھی آشنا کیا۔ اس سارے میں ’’سہ ماہی کارواں‘‘، ’’مسافت‘‘ اور ’’ارتکاز‘‘ کو بھی دخل رہا۔ دلکش شخصی حوالوں نے آشنائی کے راستے پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جانے کے عمل کو آسان کیے رکھا۔ خیر شعر سے شخصیت اور شخصیت سے شعر۔ کوئی سی بھی صورت کو لے کر آگے بڑھا جائے، طارق بٹ اپنے پورے قد کے ساتھ فطرت کے ایقان افروز نظاروں کی صورت شاداں و فرحاں دکھائی دیتے ہیں۔
طارق بٹ کی شاعری کہیں بھی رسمی و روایتی حدود میں مقید نہیں۔ مجھے ’’کتنے موسم خواب ہوئے‘‘ میں ’’صدائے موسمِ گل‘‘ اور ’’بدلتی رتوں کی حیرت‘‘ سے کئی قدم آگے بڑھتی ایک نئی چمک دمک، ایک نیا اسلوب نظر آ رہا ہے۔ یہاں بات محض اسلوب یا فکر و نظر کی نہیں کہ دونوں میں ارتقا کی رفتار۔ یہ رفتار اس قدر تیز ہے کہ میں کہیں گرفت نہیں کر پا رہا، بات نہیں کر پا رہا، اور میرے نزدیک جو شعر قاری کو اپنے ساتھ کہیں دور بہا لے جائیں، ہر ہر قرأت میں اپنا سحر بڑھاتے چلے جائیں، حیران کیے جائیں، سوچنے دیں نہ بولنے دیں، چیزِ دیگر کے زمرے میں آتے ہیں۔ طارق بٹ کی زیرِ مطالعہ غزلوں کے اشعار بھی۔ بس یوں جانیے، دو رنگوں کے پانی ایک ہو کر ایک تیسرے رنگ کے وجود کا باعث بنتے ہیں۔ کہیں یہ تیسرا رنگ بہت نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے تو کہیں ایک رنگ دوسرے رنگ کو ذرا مدھم کرتا ملتا ہے۔ دوسری صورت میں یہ سوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ کون سا رنگ کس رنگ پر غالب آتا ہے۔ یہاں توازن کی سی صورتِ احوال عموماً پسندیدہ ٹھیرتی ہے۔ لیکن ایک بات دھیان میں رہے کہ یوں ہی کہیں کہیں، کبھی کبھار عدم توازن بھی لطف دیتا ہے اور وہ یوں کہ انسانی زندگی، میرے نزدیک عدم توازن کی ایک خوبصورت مثال ہے۔ یوں بھی اپنی بات کروں تو مجھے ترتیب و توازن کا احساس دلاتے باغوں سے جنگل زیادہ بھاتے ہیں کہ وہاں انسان نہیں، فطرت اپنے رنگ میں چیزوں کو رنگ رہی ہوتی ہے۔ فطرت کی اپنی ترتیب، اپنا لائحۂ کار ہوتا ہے۔ جو انسان کی سمجھ سے بسا اوقات بلکہ ہمیشہ بالا رہتا ہے۔
طارق بٹ کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے فطرت اور انسان کے طرزِ کار میں توازن پیدا کرنے کی عمدہ کوشش کی ہے۔ ’’کتنے موسم خواب ہوئے‘‘ میں مختلف ذائقے، مختلف انداز کے تجربات تکمیلی صورت میں قاری پر اپنا سحر پھونکتے ہیں۔ وہ مختلف کیفیات، مختلف اسالیب کو ایک دوسرے میں ضم کر کے نیا رنگ تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہیں اور میرے نزدیک وہ صد فیصد نہیں تو ننانوے فیصد اس کوشش میں کامیاب و کامران ٹھیرے ہیں۔ چند اشعار دیکھیے:
کارفرما کوئی تو ہے اس کا
خود بخود بج اٹھا نہ ہو گا ساز
وسعتِ آسماں کہاں تک ہے
کھول کر دیکھ تو پرِ پرواز
چشم و دامانِ دل و دستِ دعا
کیا تھا کشکول جو بنایا نہیں
درِ دل پر غضب تھی وہ دستک
بس: زمیں آسماں ہلایا نہیں
ایک احساسِ ناتمامی ہے
کیا ہے، کیوں ہے، یہ بُوجھ پایا نہیں
کیوں یہ لگتا ہے جیسے اس نے مجھے
کچھ بنایا ہے، کچھ بنایا نہیں
یہ اشعار کسی رائج طریقۂ اندراجِ شعر کہ جس میں کسی کو چھوٹا تو کسی کو بڑا ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے، پر چلتے ہوئے درج نہیں کیے گئے اور نہ ہی ان کے لیے مجھے کتاب بھر صفحات کھنگالنے کی ضرورت پیش آئی، یہ تو اس مجموعۂ کلام میں شامل حمد اور پہلی غزل سے لیے گئے ہیں اور ایسے اشعار ’’کتنے موسم خواب ہوئے‘‘ میں ہر ہر صفحے پر موجود ہیں جن میں سے چنیدہ اس مقالہ کا حصہ بھی بنیں گے۔
بات کچھ یوں ہے کہ حمد ہو، نعت ہو کہ غزل‘ نظم یا کوئی سی بھی صنفِ سخن۔ شاعر کا زاویۂ نگاہ انفراد کا پہلو رکھتا ہے۔ ایک احساسِ ناتمامی جیسے کہیں کچھ ہے بھی کہ نہیں۔ ایک احساسِ تشکیک کو راہ دیتا رویہ ہے اور اس تشکیک کے پہلو کو مبہم سے واضح صورت میں لانے کے لیے کہیں کوشش تو کہیں مزاج کو دخل ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسی آوازوں کو عموماً صوفیانہ کہہ کر جو آگے بڑھ جانے کی روش عام ہے، مجھے اس سے خاص کد ہے کہ لفظ ’’صوفی‘‘ جن معانی میں ہمارے ہاں بلکہ ایک ہمارے ہاں ہی کیوں، دنیا بھر کے مذاہب میں رائج ہے، (یہ بحث میرے دائرۂ کار سے باہر ہے کہ ہمارے دینِ مبین میں اس صوفی ازم کے لیے کوئی گنجایش نکلتی بھی ہے کہ نہیں ) ایک دائرہ کے اندر گردش کرتا رہتا ہے، اسے گرد و پیش سے آنے والی آوازیں اول تو سنائی ہی نہیں دیتیں اور اگر۔ پھر ایک ناٹک کی گنجایش تو ہر شعبہ ہائے زیست میں نکل ہی آتی ہے۔ اور جواز ہمیشہ یہ بُنا جاتا ہے۔ لیکن میں نہ کسی کے حق میں اور نہ ہی کسی کے خلاف مقدمہ کا حصہ ہوں۔ مجھے تو سرِ دست طارق بٹ کی غزل سے مطلب ہے۔ وہ غزل جو ایسے چھوٹے موٹے معاملات کو خاطر میں نہیں لاتی۔
طارق بٹ کے ہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتِ احوال کا سامنا ہے کہ بظاہر رائج معانی میں وہ صوفی لیکن میری نظر میں صوفی نہیں بلکہ ایسے دانش ور ٹھیرتے ہیں جن کے ہاں Submissive Attitude کے بجائے ایک جرأت، ایک حوصلہ کی نوید ہے۔ میرے ممدوح کے ہاں دنیا کی ناپسندیدہ آہٹوں پر دم بخود ہو کر بیٹھ رہنے کے بجائے آگے بڑھ کر سب پردے چاک کر ڈالنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ یہ آواز تو ایک ایسے دانش ور کی آواز ہے جس کی تخلیقات کا بنیادی وصف نہاں کو عیاں کرنا ہے۔ اور پراعتماد رویہ شعر کو محض شعر نہیں رہنے دیتا، شعرِ خاص بنا دیتا ہے۔ اور شعر کو اس مقام تک پہنچا دینا مشکل ہی نہیں بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس میں شاعر کا مشاہدہ، تجربہ اور چیزوں کو دیکھنے کا مخصوص انداز اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو پائے تو ایک کیا تمام اَدوار میں سامنے آنے والی تخلیقات ہو بہ ہو ایک دوسرے کی تصویر کی صورت ملیں اور تخلیقات کے بڑے بڑے ڈھیروں میں یہ پہچاننا، یہ بتانا مشکل ہو جائے کہ کس نے کیا کہا ہے، کیسے کہا ہے۔ گویا تنوع کی ایک شکل تو وہ ہے جو ایک ہی تخلیق کار کے ہاں اس کی مختلف تخلیقات میں دکھائی دیتی ہے لیکن ایک تنوع وہ بھی تو ہے جو ایک ہی عہد یا مختلف عہدوں میں لکھنے والوں کے ہاں پایا جاتا ہے۔ طارق بٹ نے ہر دو سطحوں پر تخلیقی تنوع سے بھرپور کام لیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ کہیں بھی شعر برائے شعر کے قائل نظر نہیں آتے۔ ان کے نزدیک شعر مقصد ہے۔ مقصدِ زیست۔ اور اس میں ان کا مشاہدہ اور تجربہ قدم قدم ان کی توانائیوں میں اضافہ کرتا ملتا ہے۔ چند اشعار دیکھیے:
لاؤ اب ساخت کوئی دل کی نئی
بے دھڑک سی، نپی نپائی ہوئی
سانس لیتی ہیں تیری تصویریں
کون تصویر میں، تو گویا نئیں
دیدنی تھی، تھکن بھی دل کی آج
کیا تماشے نہ اس نے دکھلائے
اِس سخن ساز دل کو، ہاتھ میں رکھ
کب، کہاں، کیا، یہ گل کھِلا جائے
نت نئی ہیں، بجھارتیں، تیری
بوجھتے جائیں گے، تھکیں گے نئیں
کچھ وسیلہ کرو کہ پار لگو
ورنہ پھر تم ہو اور آیتِ آب
دھواں ہے آج بھی، یادوں کے طاقچے، اِن سے
یہ جانے والے بھی، اپنے چراغ لے نہ گئے
دل بھی کیا خوش طلب ہے، مانگتا ہے
حسبِ راحت، رسد ملال کی بھی
کر لوں معاف خود کو، مگر تجھ سے اے عزیز!
لینا ہے، ایک ایک، شراکت کا انتقام
اے میرے قاری! یاد رہے، بلکہ میں کون ہوتا ہوں یاد دلانے والا ’’کتنے موسم خواب ہوئے‘‘ کا بالاستیعاب مطالعہ خود باور کروا دے گا کہ یہ محض خواب و خیال میں انگڑائیاں لینے والے کسی شاعر کے دنیا و مافیہا سے بے خبر اور بد دل کر دینے والے اشعار نہیں، یہ تو ایک بھرپور زندگی گزارنے والے صاحب رائے کے نتائجِ فکر کا حاصل ہیں:
جس قدر ہے گمان، اُتنا مان
کیا ضروری ہے ماننا سارا
دیکھ، کتنی تیز ہے دنیا میں تبدیلی کی رَو
دیکھ، تیرے سامنے رکھا ہے کب کا آئنہ
شوق کی انتہا کا پوچھتے ہو
اس سمندر کی کوئی تھاہ بھی ہے !
جدائی: اس قدر آساں نہ سمجھو
چلے آؤ کہ اس پر بات ہو گی
یہاں کروٹ پہ کروٹ، لہر لے گی
کہ یہ دریا ابھی تک جھیل میں ہے
رونے آتے ہیں سب، یہیں دکھڑے
رِستے رِستے بھی، دل ہوا تالاب
بات وہ، جس پہ دل ٹھہر جائے
اور کیا ہے گا، استخارے میں
خوش گمانوں کو خوش گماں ہی رکھ
بات چلنے دے، اُن کی سارے میں
یہ سلیقہ بلکہ یوں کہیے کہ یہ طرزِ فکر ایک خاص طرزِ زیست اپنائے بغیر گرفت میں آ ہی نہیں سکتا۔ کہ یہاں تخلیق کار سنی سنائی، پڑھی پڑھائی باتوں سے آگے بات نکالنے کی کوشش کر تو سکتا ہے لیکن اسے دلکش اور قابلِ جذب صورت میں پیش کرنے میں کامیاب ہو ہی نہیں ہو سکتا۔ پھر شعریت اور وہ خاص قسم کا رس جسے اردو غزل کا وصفِ خاص قرار دیا جاتا ہے۔ اردو شعر کی کلاسیکل روایت سے بھرپور آشنائی اور اس میں گم ہو جائے بغیر ممکن ہی نہیں۔ لیکن اس میں گم ہو کر واپسی بھی ضروری ہے۔ ورنہ تخلیق کار اپنے زمانے سے بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ مرزا غالب نواب علی بہادر مسند نشین باندہ کو خط میں نصیحت کرتے ہیں:
’’اگر رموزِ فن سے آگہی مقصود ہو تو ریختہ کہنے والوں میں میر و مرزا اور فارسی گویوں میں صائب، عرفی، نظیری اور حزیں کا کلام نظر میں رکھیے۔ نظر میں رکھنے سے مراد یہ ہے کہ جوہرِ لفظ اور فروغِ معنی پر غور کر کے خوب و ناخوب میں تمیز کرنی چاہیے۔‘‘
(ترجمہ: محمد عمر مہاجر)
اور میرے نزدیک اچھے اور لائقِ توجہ تخلیق کار وہ ہیں جو دیروز و امروز و فردا۔ تینوں زمانوں میں سانس لیتے نظر آتے ہیں۔ اور مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ طارق بٹ ان تمام معاملات میں سرخرو ٹھیرے ہیں۔ ان کے اشعار کا اسلوب، ان کی اردو شعر کی روایت سے قابلِ ستائش آشنائی بلکہ مجھے تو ان کے اشعار کا مطالعہ یہ کہنے پر مجبور کر رہا ہے کہ میں صاف کہہ دوں کہ انھوں نے اپنی شعری روایت کا صرف بھرپور مطالعہ ہی نہیں کیا، اس ماحول، اس فضا میں زندگی۔ ایک بھرپور زندگی بسر کی ہے اور واپسی کے سفر میں بھی سرخ رو ٹھیرے ہیں کہ امروز و فردا کو بھی تو شاملِ احوال رکھنا ہے۔ طارق بٹ کے اشعار کے مطالعہ کے دوران میں کہیں کہیں تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا رہا کہ میرے ممدوح نے ایک نہیں۔ بیک وقت تین زندگیاں بسر کی ہیں۔ اور یہ بات ان کے اشعار کی دلکشی میں اضافہ کا باعث بنتی نظر آتی ہے کہ کہیں عکسِ ماضی، تو کہیں عکسِ حال اور کہیں عکسِ مستقبل غالب آنے لگتا ہے۔ گویا تینوں عکس ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے چکر میں ہیں۔ اب اس کشمکش کو کوئی سا بھی نام دے لیجیے۔ جو تصویریں بنتی ہیں ان میں مختلف شیڈز معانی کی مختلف پرتوں سے آشنا کرتے ہیں۔ اور ایک بات اور کہ بعض مقامات پر طارق بٹ تینوں رنگوں۔ بس یوں جانیے کہ مختلف زمانوں میں سانس لیتے لیتے اچانک تینوں زندگیوں کو ایک کر ڈالتے ہیں۔ یہاں مجھے میرؔ صاحب کی یاد آنے لگتی ہے کہ جو سلیقہ، جو طرزِ فکر بٹ صاحب کے ہاں نمایاں ہے، اس کا اگر تاریخِ شعرِ اردو کے تناظر میں مطالعہ کیا جائے، اس کے ڈانڈے اُن ہی سے ملتے دکھائی دیتے ہیں۔ الفاظ کا پرتیں بدل بدل کر استعمال میرؔ صاحب سے خاص ہے اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ طارق بٹ کا مطمحِ نظر میر کے سے رنگ ڈھنگ میں گفتگو کو اپنا شعار کرنا ہے۔ اشعار ملاحظہ فرمائیے:
کیا ضروری تھا، گردشوں سے اٹا
آسماں، ہم پہ تاننا سارا
جانے کس زندگی کی خواہش میں
ہم اِدھر، تم اُدھر رہے آباد
ایک دل میں کہ تھے فسانے کئی
ہم بھی افسانہ بھر رہے آباد
وہ چراغاں رہا ہے پلکوں تلے
لگ گئی آنکھ بھی تو سویا نئیں
ہم تو بس دیکھتے ہی رہ گئے تھے
درد گزرا ہے جس فراغت سے
کیا ہے روشن، چراغ سے باہر
جل گیا جو، چراغ میں، کیا ہے
جتنا ہونا تھا، ہو چکا میں خراب
حکمت اب سدِ باب میں کیا ہے
جانتا ہوں، بتا نہیں سکتا
وہ جو دِکھتا ہے خواب میں، کیا ہے
خاک اڑانا یہ، اک ہنر سے ہے
جانتے ہیں یہ محرمانِ خاک
نہیں، خود سے کہاں ملا مَیں بھی
اک تعارف سا، غائبانہ ہے
کھو گیا ہے، سمے کی دھند میں تو
دل کے منظر نے، تجھ کو، کھویا نئیں
’آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل ہے،
ایسا سنتے تھے، ایسا ہویا نئیں
میں اگر خود میں کھویا رہتا ہوں
تو یہاں مجھ کو، پوچھتا ہے کون
دیکھ تو کیا دھواں دھواں ہُوا میں
مجھ میں یہ آج، جل بجھا ہے کون
ہلکے پھلکے تو جا لگے اُس پار
رہ گئے پیچھے ہم سے پشتارے
سیر کر تو بھی، کوچۂ دل کی
دیکھ یہ بام و در یہ گلیارے
خبر جو دے، مری اِس کِشتِ جاں کا گرد اور
کہ فصل، فصل، یہاں کیا لگان پڑتا ہے
جو منظر ڈوب گئے اُن پر
اب کون سا سورج لاؤ گے
کب اور کی پیڑا سہن تمھیں
کیا اپنی پیڑ سہاؤ گے
قول کی قدر سے، واقف ہی نہیں
ہر کہ بس: ہرزہ سرائی میں ہے خوش
کیف و کم، اس کا نہیں ہے معمول
دل: کہ جو اپنی سمائی میں ہے خوش
رنجِ بے چہرہ سے پوچھے کوئی
تو بھلا کون بھلائی میں ہے خوش
کچھ بھی سامان مہیا کرو اس دل کے لیے
ڈھونڈ لاتا ہے، کہیں رکھی اُداسی کوئی
ترے سوا ہے مرا کون، جس سے جا پوچھوں
کہ وحشتوں میں کہاں جائے خوش خرام ترا
خود پسندی کی انتہا پر ہو
کون خود ساختہ خدا پر ہو
عجز میں ہے توانگی دل کی
خیر سے لمحۂ دعا پر ہو
یہ تو میں خود نشاں کیا، خود کو
ورنہ کس کو تھی یاد آنی مری
سینے میں دل چراغ کی صورت دھرے ہوئے
ہم ہیں، تمام عشق کی لَو سے، بھرے ہوئے
میں اپنی ساری توانائی طارق بٹ کی غزل گوئی پر صرف کر بیٹھا تھا کہ کتاب میں شامل نظمیں اور تروینیاں سامنے آ گئیں۔ دل و دماغ نے کہا: نہیں۔ ابھی نہیں۔ ابھی اس مقالہ کا اختتام نا انصافی کی راہ ہموار کرے گا اور۔ ساری تھکن کافور ہوتی نظر آئی اور وہ یوں کہ طارق بٹ کی نظمیں ایک اور ہی جہانِ فکر و نظر پر گامزن کرتی محسوس ہوئیں۔ تعداد میں کم ہونے کے باوجود دیرپا نقش قائم کرنے کی صلاحیت سے بھرپور یہ نظمیں انھیں ایک کامیاب نظم گو کے طور پر سامنے لاتی ہیں۔ ’امر بیل‘ ’ان مول بول‘ اور ’نقش‘ بالخصوص لائقِ توجہ ہیں۔ لیکن ان کی سب سے توانا نظم ’شب بیتی‘ ہے جسے محض ایک نظم کہنے کے بجائے داستانِ حیات و حاصلِ سفر قرار دیا جا سکتا ہے۔
تروینی قدرے نئی صنفِ سخن ہے۔ ماہیا، ثلاثی، تثلیث، ہائیکو وغیرہ کے ہوتے اس صنفِ سخن نے اپنا جادو جگایا۔ اول اول گلزار نے اس صنفِ سخن کو ذریعۂ اظہار کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اردو دنیا میں ایک معتبر اور منفرد تجربہ کے طور پر شعرا کی کثیر تعداد اسے اختیار کرتی نظر آئی۔ طبعِ طارق کہ ہر عہد سے وابستہ رہنے کی تمنائی ہے، یہاں بھی بھرپور انداز میں سامنے آئی ہے۔
تروینی دیکھیے:
کیا سے کیا لوگ ہوئے جاتے ہیں
اُس کے لہجے کی حلاوت پہ نثار
ہم نے بھی زہر پیا ہے، برسوں
جان جو لیتا تو، کہہ دینے کا سکھ
شانت ہو جاتا ترے سینے کا شور
دیکھ: بادل کو برس کر جاتے
طارق بٹ کا شعری سفر بھرپور توانائی سے جاری ہے۔ اسلوب سے فکر تک کتنے رنگ، کتنے پیکر دامنِ دل کھینچتے ہیں۔ مَیں شاید چاہتے ہوئے بھی بیان نہیں کر پایا۔ اب یہ قاری پر ہے۔ قاری کے ذوقِ شعری پر ہے کہ وہ ان فضاؤں میں کہاں کہاں جاتا ہے۔ لیکن ایک بات میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں۔ بلکہ میں کیوں، طارق صاحب، مجھ سے کئی قدم آگے خود ہی سب کہے جا رہے ہیں:
رسمیں چھوٹ گئیں
رنگ نئے اپنائے
روز نئی وحشت
روز نئے پیرائے
نوید صادق ۵ جون ۲۰۲۳ء
حق ادا کر سکے نہ ہم جس کا
’خلیل جبران‘ نے کہیں کہا ہے، ’’تم وقت کو ماپتے ہو، ہر گاہ اسے ماپنا محال ہے، جو بیت گیا وہ دن ’آج‘ کا سراب ہے جو کل آئے گا وہ اس کا خواب ہے‘‘۔۔ خواب کیا ہے، اور سراب کیا، کوئی سمجھے، کوئی جانے ! میرے لیے تو ’کتنے موسم خواب ہوئے‘ میرے شعری سفر کی تیسری منزل ہے۔
اس سفر کا شعوری آغاز ۱۹۹۰ء سے ہوا، اس میں رب العزت نے ایسے ساتھ عطا فرمائے جنہوں نے، مجھ ایسے ایک غیر مجلسی انسان کو اُس کی کمیوں اور کوتاہیوں سمیت اپنے قریب رکھا اور یہ خضروی ساتھ مجھے آج بھی میسر ہیں۔ ان عزیزاں کی محبت اک نعمت فراواں ہے، کہ۔ ع حق ادا کر سکے نہ ہم جس کا
ہزار سجدہ شکر اس ربِ عظیم کی بارگاہ میں، جس نے ہر گام، زندگی کی راہیں میرے لیے کشادہ رکھیں۔۔ میرے والدین، میرے بیوی بچے، بہن بھائی اور دوست و بزرگ، میرے رب کی رحمت بن کر مجھے میسر آئے۔
؎ یوں تو کیا کچھ نہیں دیا تو نے
لب کو لذت مگر سوال کی بھی
کاشف غائر ایک عمدہ شاعر، ایک ادب دوست، بے لوث انسان ہے۔ مجھ ایسے متعدد گوشہ گیروں کی خبر گیری پر ہمیشہ مستعد رہنے والا۔ ’ کتنے موسم خواب ہوئے‘ کی اشاعت کے ہر مرحلے میں وہ میری ضرورت رہا۔ خدا اُسے عمرِ طویل عطا فرمائے اور ہر قدم شاداں و فرحاں رکھے آمین۔
اس پراگندہ خیال مجموعۂ سخن کو ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب، محترم خواجہ رضی حیدر اور برادرم نوید صادق نے جو نقدِ حرف عطا فرمائے، میرے پاس ممنونیت و سپاس گزاری کے لیے الفاظ نہیں، آپ نے اس بے مایہ کو جس طرح نوازا ہے، رب العالمین آپ کی عزت و توقیر میں اضافہ فرمائے آمین۔
خالقِ عظیم، جس نے حرفِ کن سے یہ کائنات خلق فرمائی اور پھر، الذِّی عَلَّم بِالقَلَم: عَلَّمَ الاِنسَانَ مَا لَم یَعلَم: اور پھر فکرِ انسانی کو وُرودِ ’ حرف‘ کا درد عطا کیا۔ اب وہی ہے
ع
جو سمندر کرے اِس درد کی دریائی کو
طارق بٹ
حرفِ آخر، نصیبِ ہر آغاز
اک ترا نام اک تری آواز
کوئی لمحہ کِیا گیا ہے دراز
ہے بس اتنا سا زندگی کا راز
حسن ہی حسن سارا بکھراؤ
حسن ہی حسن، یہ نشیب و فراز
کار فرما کوئی تو ہے اس کا
خود بخود بج اُٹھا نہ ہو گا ساز
اک تری ذات، بس! خبیر و بصیر
ہیچ ہر نکتہ رس و نکتہ طراز
کیا ہے نسخے میں دل کے لکھا گیا
کیا ہے، جز مایہ ہائے سوز و گداز
اتنا آساں سمجھ نہ اس کا وصال
سعی کچھ اور، اور کچھ تگ و تاز
وسعتِ آسماں کہاں تک ہے
کھول کر دیکھ تو پرِ پرواز
دستکِ تشنگی کو دائم رکھ
ہوتا جائے گا ایک اک در، باز
تا بہ حدِّ نگہ، ماورائے نظر
کبریائی تری، چار سو جلوہ گر
جس طرف جائیے، جس طرف آئیے
نو بہ نو منزلیں، نو بہ نو ہم سفر
آئنہ، تیری قدرت کا ہر اک نشاں
حرفِ کُن: کندہ ہر بابِ تخلیق پر
راز ہے، راز تھا، اور رہے گا سدا
تُو کہ ہے، خود نگہ، تُو کہ ہے، خود نگر
جلوہ گاہیں تری، منتظر ہیں مری
جادۂ عمرِ کوتاہ: لمبا سفر
تُو جو آساں کرے، راہ کی مشکلیں
منزلیں گرد ہوتی ہیں با یک نظر
جگمگاؤں ترے قرب کی تاب سے
ذرّۂ خاک ہوں، مجھ کو پُر نور کر
اپنے تئیں کیا صفا سجایا نہیں
دل کو وہ آئنہ بنایا نہیں
تخلیہ، تخلیہ، پکارا میں
سب گئے: پھر بھی آ، سمایا نہیں
چشم و دامانِ دل و دستِ دعا
کیا تھا، کشکول جو بنایا نہیں
درِ دل پر غضب تھی وہ دستک
بس: زمیں آسماں ہلایا نہیں
اُس نے ارزاں کیا خیال اپنا
میں ہنر کچھ بھی تو کمایا نہیں
دل ہی دل میں ہوئی ہیں سب باتیں
لب کو میں حرف آشنایا نہیں
تیری دوری کو میں جو قرب کیا
فاصلہ، کوئی گل کھلایا نہیں
کلمۂ لا اِلٰہ الآ ہُو
لب پہ آیا تو پھر بھلایا نہیں
ایک اک سُر کی سادھنا کرتے
دل نے کس راگ تجھ کو گایا نہیں
کیف آگیں ہے وہ خیال بھی کیا
جو ابھی دل کو گدگدایا نہیں
ایک احساسِ ناتمامی ہے
کیا ہے، کیوں ہے، یہ بُوجھ پایا نہیں
کیوں یہ لگتا ہے جیسے اُس نے مجھے
کچھ بنایا ہے، کچھ بنایا نہیں
غور کرنا ہے، سوچنا ہے وہ سب
جو بتایا گیا، بتایا نہیں
آفریں کیوں نہ کہوں، اُس کی شکیبائی کو
جس نے اک عمر نبھایا، مری کج رائی کو
میرے تنہا، مرے یکتا، یہ ترا اسم ہے جو
ہوا سر نامہ، مرے شجرۂ تنہائی کو
کب اُچھالے گا کوئی موج محبت والی
جو سمندر کرے اس درد کی دریائی کو
رقص کرتا ہُوا چل بامِ تمنّا کی طرف
کچھ تماشا تو دِکھا اپنے تماشائی کو
ق
ورنہ دم سادھ کے چپ چاپ بِتا دے رستہ
تجھ میں کیا گن ہے کہ آئے وہ پذیرائی کو
کیا بگولے سا سرِ دشت اُڑاتا ہے غبار
آ: بھرے شہر میں لا، شوق کی رسوائی کو
اُسے خوش آئی، مری شکوہ و آہ و زاری
یہ خموشی ہے، مری حوصلہ افزائی کو
کیوں نہ حیران ہو خود پر تری ارزانی سے
آج تک جس نے جیا ہے تری مہنگائی کو
تم سے گو ربط رہا کم ہی مگر جان گئے
سب روا رکھتے نہیں، داغِ شناسائی کو
مندمل زخموں کی بھی بات چلی تھی، لیکن
کچھ نیا بھی تھا، سنایا ہے جو پُروائی کو
جیسا دِکھتا ہے کوئی، ویسا سمجھ، آئنہ بن
کیوں پرکھتا ہے کسی رشتے کی سچائی کو
اسمِ احمدؐ ہمیں تمامی ہے
تا ابد آپؐ کی غلامی ہے
رحمتِ ایزدی کا ہے ساماں
تھام رکھا ہے آپؐ کا داماں
ذکرِ احمدؐ بھی بعد ذکرِ کریم
کلمۂ طیبہ سے ہے تعمیم
نسلِ آدم پہ آپؐ کا احساں
آج جو ہم ہیں صاحبِ ایماں
سانس کے ساتھ آئے، لب پہ دعا
شکر واجب ہے، کہیے صلِ علیٰ
یا حبیبِ کریم صلِ علیٰ
بابِ حلم و سلیم صلِ علیٰ
آپؐ سے ہے، دینِ قیم، آپؐ کی نسبت سے ہم
یہ نشاں قائم، تو کس کو عقبیٰ و دُنیا کا غم
یا رسول اللہؐ، محبت آپؐ کی دل پر رقم
یا رسول اللہؐ، محبت آپؐ کی دل کو نعم
یا رسول اللہؐ، ہے اُسوہ آپؐ کا دوزخ نجات
یا رسول اللہؐؐ، ہے اُسوہ آپؐ کا جنت قدم
یا نبیؐ، یا احمدِ مختارؐ، یا خیر البشرؐ
آپؐ کی نسبت سے امت کا لقب خیر الامم
دل کی ہر اک ضرب ہے، صلِ علیٰ، صلِ علیٰ
اور لب پر یا محمدؐ، یا محمدؐ دم بہ دم
نقش گر نے کیا ہے یوں تصویر
باندھ رکھی ہے پاؤں میں زنجیر
اور یہ زنجیر ہے محبت کی
وہ محبت جو ہم کو تھی تقدیر
حق ادا کر سکے نہ ہم جس کا
کی گئی ہے، وہ ہم پہ اب، تعزیر
ہے یہ تعزیر، دل عدالت سے
ایک لمحہ نہ جس میں ہو تاخیر
حکم ہے، پا بجولاں چلنا ہے
کھلنے پائیں نہ حلقۂ تزویر
باندھ رکھے ہیں جو اَنا نے تری
کر کے احساس کو ترے، نخچیر
خوار: گلیوں میں کو بکو پھریے
ڈھونڈیے کوئی، دل کا سچا فقیر
لے چلے جو نجات کی جانب
راستہ دے، دکھائے جو تنویر
یا وہ روزن تلاش کر دل میں
فاش ہو جس سے روشنی کی لکیر
دیوار کھینچے جاتا ہے، در کر نہیں رہا
کیا ہو گیا ہے دل کو، خبر کر نہیں رہا
تم جو شرر سا دیکھتے ہو، میری راکھ میں
وہ شعلگی کی سمت، سفر کر نہیں رہا
افسردۂ بہار ہُوا، ایسا یہ شجر
مدت گزر گئی ہے، ثمر کر نہیں رہا
اک دل رُبا نے چھوڑ دیے، نازِ دلبری
رہتا تھا مجھ میں کوئی سنور کر، نہیں رہا
احوال کہنے آتے ہیں، یارانِ خوش گماں
جیسے کہ زندگی میں بسر کر نہیں رہا
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے، کرتا ہوں اس سے بات
اپنی شکستگی سے میں ڈر کر نہیں رہا
دیا بھی نام کا اُن کے، جلا دیا گیا ہے
وہ جن کو بجھنے سے پہلے، بجھا دیا گیا ہے
کہ سرخ رو نہ ہوئی زندگی کبھی، جن سے
اُنھی کے پیچھے، زمانہ لگا دیا گیا ہے
قیامِ صبح تلک ہی تری ضرورت تھی
یہ کہہ کے، جانے کا رستہ بتا دیا گیا ہے
وہاں اندھیروں سے اُلجھا رہا دھواں تا دیر
جہاں کہیں بھی، دیوں کو بجھا دیا گیا ہے
ہوا کی تیغ پہ رقصاں، دیے کی لو کی قسم
نشانِ زندگی جس کو بنا دیا گیا ہے
ق
کہ جی رہے ہیں، مقدر کی تاب لاتے ہوئے
ستارہ سا ہمیں، جس جا، سجا دیا گیا ہے
ہمی سے رونقِ دنیا، ہمی سے بزمِ عدم
سبھا ہے اپنی، جہاں بھی، بٹھا دیا گیا ہے
جلائے دیتی ہے ہم کو، یہ زندگی کی لو
چراغِ جاں تہِ داماں، ہوا دیا گیا ہے
تھا حرف حرف ہی دامن کَشاں، پہ مصرعہ جاں
جہاں بھی بس میں ہوا ہے، سنا دیا گیا ہے
تھی یوں بھی خونِ دل کی کشید، پھر اُس کے نشے میں چور بھی ہم
بے دردا، تیری چاہت پر، مامور بھی تھے، مجبور بھی ہم
لائی تھی اُسے دانے کی ہوس، خود جال میں آیا تھا پنچھی
یہ سوچ سپاہ بھی اپنی تھی، اس گھیرے میں محصور بھی ہم
آئے تو بہت، پر خام گرے، اک شاخِ شجر کے سارے پھل
اِس شاخِ شجر کے پھلنے پر، مسرور بھی تھے، رنجور بھی ہم
اک لاگ کی آگ میں راکھ ہوئے، سب رشتے ناتے، نام و نسب
رہتی جو کوئی اک چنگاری، سرمد بھی تھے ہم، منصور بھی ہم
کس رنگ بیاں کی جائے گی، اِس ذرّۂ روشن کی تمثیل
اک پل کو جہاں ہم خاکی ہیں، اک پل کو وہیں ہیں، نور بھی ہم
ہو سینۂ سنگ کہ آنکھ کا تل، دونوں ہی ترے جلوے کے امیں
وہ برقِ تجلی تھی ہم پر، موسیٰ بھی ہمیں تھے، طور بھی ہم
ہر آن بدلتی رہتی ہے، جیون کی ندی دھارا اپنا
کہیں پیر گئے، کہیں ڈوب رہے، کسی موج بہے کچھ دور بھی ہم
چراغ بجھ گئے، سائے نصیب کے نہ گئے
جو ایک عمر سے جاں کے رقیب تھے، نہ گئے
بہت سے درد، بھلاوے میں وقت کے آئے
مگر وہ سنگی، وہ ساتھی، قریب کے، نہ گئے
وہ درد بن کے، سُلگتے رہے ہیں آنکھوں میں
بہت سے خواب، کہ معنی جنھیں دیے نہ گئے
دھواں ہیں آج بھی، یادوں کے طاقچے اِن سے
یہ جانے والے بھی، اپنے چراغ لے نہ گئے
تمام عمر بھٹکتے پھرے، لیے ہم کو
وہ ایک سمت، جدھر تُو تھا، راستے نہ گئے
رہے ہمیشہ، کسی خواب ہی کی صحبت میں
جدا ہوئے بھی جو پل بھر، بہت پرے نہ گئے
وہی ہے دشتِ تمنّا کی ہاؤ ہو، وہی ہم
سمے کے دھارے، ہمیں اپنے ساتھ، لے نہ گئے
رہی نہ خاک بھی، کچھ ایسے بے نشان ہوئے
مٹے جو تجھ پہ، فقط اپنی جان سے نہ گئے
کہانیاں بنے، قصّہ بنے، فسانہ ہوئے
وہ درد داغ بنے، جو کبھی کہے نہ گئے
خِیرہ کر دے نگہ، خیال کی بھی
کیا ہے تابش، ترے جمال کی بھی
تیری فرقت کی رونقیں بھی غضب!
گوشہ گیری، ترے وصال کی بھی
اپنا مقدور بھی نگاہ میں ہے
اور ہوس، قدرتِ کمال کی بھی
تیرے آگے، جو ڈال دی گردن
فکر دل سے گئی، مآل کی بھی
دن گزرتے پتا نہیں چلتا
کیا روانی ہے ماہ و سال کی بھی
دل بھی کیا خوش طلب ہے، مانگتا ہے
حسبِ راحت، رسد ملال کی بھی
حال، ناگفتنی نہیں اپنا
ہووے جرأت جو عرضِ حال کی بھی
انتہاؤں کی فکر مت رکھیو
پہلی سیڑھی ہے یہ، زوال کی بھی
یوں تو کیا کچھ نہیں دیا تو نے
لب کو لذت مگر سوال کی بھی!
نہ میں علم والا، نہ گیانی، نہ دھیانی
مگر بول اپنا ہے، ہر دل کی بانی
اُسی تاب و تب سے، تپاں ہوں میں اب تک
تھا انگار سا دل، بہ عہدِ جوانی
کہاں تک چلو گے، مرے ساتھ تم بھی
بڑی دُور تک جائے گی یہ کہانی
گلہ کیا کسی سے، جو کوئی نہ سمجھا
تھی تم پر عیاں کچھ! مری بے زبانی
ہے افتادِ پیہم، تری کم نگاہی
مری بے مکانی، مری بے زمانی
نئے سے نیا گل، کھلاتا رہے گا
یہ دل اپنا جلوہ، دکھاتا رہے گا
بُنے گا، رگ و پے میں، سرگم لہو کی
ترا دھیان بھی، گُنگُناتا رہے گا
جہاں گونج اُٹھی ہو، دل کی کھڑاؤں
وہ رستہ، مسافر کماتا رہے گا
کہا تھا، نہ کر دل کو صرفِ تماشا
کہا تھا ناں: ہاتھوں سے جاتا رہے گا
بصد تلخیِ نارسائی بھی کوئی
کسی در سے رشتہ، نبھاتا رہے گا
مسیحائی کر دیں، مرے درد منداں
جو کہہ دیں، ابھی درد جاتا رہے گا
روانہ ہو اے دل، تُو اپنے سفر پر
جسے آنا ہو گا، وہ آتا رہے گا
نقش اُس کے ہیں، شش جہات لگے
آنکھ حیراں ہے، کس سے بات لگے
تیغ ہے اور، خوش غلاف بھی ہے
بچ کے رہنا، کبھی جو ہات لگے
جوں بگولے کے سنگ ہو خاشاک
چلے جاتے ہیں تیرے ساتھ لگے
شور و شر، پوچھیں گے ہواؤں کا
کہیں رہ جائیں بھی، دو پات لگے
کون کافر ہے جو، کرے تکفیر
اُس کی ہر بات، دل کی بات لگے
عکس در عکس کائنات بنے
دل جوں آئینہ، ساتھ سات لگے
شعر کہتا ہوں، اور سوچتا ہوں
کیا ہے گر، اُس کے دل یہ بات لگے
کس کو حاصل ہے، جاننا سارا
خاکِ ہستی کا چھاننا سارا
بھید باہر کا اور بھیتر کا
دھیاننا اور گیاننا سارا
کیا ضروری تھا گردشوں سے اٹا
آسماں ہم پہ تاننا سارا
تم نہیں جانتے، میں جانتا ہوں
دکھ ہی دکھ ہے یہ، جاننا سارا
جس قدر ہے گمان، اُتنا مان
کیا ضروری ہے ماننا سارا
ہاں، اسی بعد عشق، وحشت میں
خود کو پڑتا ہے، ساننا سارا
کیا ملا اور کیا نہیں پایا
چھوڑ اب کیا، بکھاننا سارا
آئنوں میں آئنہ، شہرِ حلب کا آئنہ
لیکن اپنا دل بھی یارو، ہے غضب کا آئنہ
اپنا آئینہ کہاں خوش آئے ہر اک یار کو
ہم نے رکھا ہے بنا کر، اپنے ڈھب کا آئنہ
وہ: جو با اِیں روز و شب بھی، صاحبِ کردار ہیں
اُن کے آگے کیا بھلا، نام و نسب کا آئنہ
بے نیازانہ گزر جاتی جو اپنی زندگی
راستے میں رکھ دیا کس نے، طلب کا آئنہ
یہ اندھیرے، یہ اُجالے، زندگی کا روپ ہیں
ان ہی سے سجتا ہے اپنے روز و شب کا آئنہ
وہ دِکھاتا ہے مجھے ہر آن اک، جلوہ نیا
دیکھتا رہتا ہوں میں بھی، اُس کی چھب کا آئنہ
دیکھ: کتنی تیز ہے، دنیا میں تبدیلی کی رَو
دیکھ: تیرے سامنے رکھا ہے، کب کا آئنہ
ہاتھ جو، لمحۂ فراغ لگا
دل میں، بیتی رُتوں کا باغ لگا
بوٹا بوٹا ہی بے چراغ لگا
اک شبِ غم جو دل کا باغ لگا
کیسی کیسی نہ رُت پلٹ آئی
اک خوشی کا نہ بس: سراغ لگا
آنچ ہے، جانے دل کی لاگ میں کیا
دل کہ جس جا لگا، سو داغ لگا
دل مسافر ہُوا ہے کس رستے
درد چمکا ہے تو سراغ لگا
مست و مخمور ہی میں رہتا ہوں
ہاتھ: جب سے ہے دل ایاغ لگا
دل میں یہ کون یاد ہے روشن
ہے اُجالا عجب، سراغ لگا
میں ہی سُلجھاؤں، اُلجھنیں تیری
یار دل! تُو بھی کچھ دماغ لگا
یہ سفر، یہ ڈگر، رہے آباد
تُو بھی اے ہم سفر! رہے آباد
سینے آباد ہوں، اُمنگوں سے
خوابِ خوش سے، نظر رہے آباد
جانے کس زندگی کی خواہش میں
ہم اِدھر، تم اُدھر رہے آباد
ہائے ! کیا لوگ، دل کی گلیوں میں
آئے، اور عمر بھر رہے آباد
دل نہ ویراں، ہوا اُجڑ کر بھی
درد کے کچھ نگر، رہے آباد
کوئے غفلت شعاراں میں، یوں تو
دربدر تھے، مگر رہے آباد
ایک دل میں کہ تھے فسانے کئی
ہم بھی افسانہ بھر، رہے آباد
دل میں در آیا ہے جو سنّاٹا
دیکھیے: کس قدر رہے آباد
ایک آندھی سی روز چلتی ہے
ایسے میں کیا شجر رہے آباد
جانے والے، پلٹ کے آئے نہیں
اور نہ یہ بام و در، رہے آباد
میرے آبا کے خوں سے ہے بنیاد
میرے مولا! یہ گھر رہے آباد
جانے گزرا ہے، کس اذیّت سے
دل دھڑکتا نہیں، طبیعت سے
ہم تو بس، دیکھتے ہی رہ گئے تھے
درد گزرا ہے، جس فراغت سے
سبزہ اُگنے لگا ہے رستوں پر
کوئی آیا گیا نہ، مدّت سے
جس طرح سے گزار دی گئی ہے
زندگی دم بخود ہے، حیرت سے
اب سفر، کون سا رہا باقی
پاؤں جلتے ہیں، کیسی حدّت سے
آج: اچانک، ترا خیال آیا
اور آیا، بڑی ہی شدّت سے
مل کے ڈھونڈیں گے، گم شدہ رستے
کبھی آؤ، اِدھر جو، فرصت سے
ہے ابھی اس میں، خیرگی کی رمق
آنکھ پتھر ہوئی نہ حیرت سے
لہر اُٹھے گی جب، جدائی کی
ملنے والے، ملیں گے قسمت سے
نہ دُور ہونے دوں اُس کو، جو اَب کہیں مل جائے
جنون میں تھا جو شور و شغب، کہیں مل جائے
یہیں کہیں تھا، کسی منظرِ گذشتہ میں
وہ ایک عکس، جواں سا، جو اَب کہیں مل جائے
سخن گَزیدہ ہوں میں، تشنۂ سماعت بھی
کبھی کبھی کوئی شائستہ لب، کہیں مل جائے
ہوس کسے، تری نظّارگی ہمیشہ کی
بس ایک دید، جو تو سب کا سب: کہیں مل جائے
مآل کھلتا ذرا، کشتگانِ عشق کا بھی
محال کیا تھا، کوئی جاں بہ لب کہیں مل جائے
ہے کوئی ذات میاں، وحشت و جنوں کی بھی
تلاشیئے گا، جو نام و نسب کہیں مل جائے
ان آتے جاتے ہوئے موسموں کو دیکھتا رہ
تو جس کو ڈھونڈتا ہے، جانے کب کہیں مل جائے
داستاں: داغ داغ میں، کیا ہے
کیا کہوں، کس ایاغ میں، کیا ہے
کیا ہے روشن، چراغ سے باہر
جل گیا جو، چراغ میں، کیا ہے
جب نہیں ہے، نظارہ کش کوئی
دشت میں کیا ہے، باغ میں کیا ہے
جو بیک جرعہ، مست پھرتے ہیں
کیا بتائیں، ایاغ میں کیا ہے
جلنے والے تو، جل بجھے کب کے
یہ ہَوا اَب، سراغ میں کیا ہے
گفتگو: میرے باب میں کیا ہے
مجھ سوا، مجھ خراب میں، کیا ہے
جتنا ہونا تھا، ہو چکا میں خراب
حکمت اب سدِّ باب میں، کیا ہے
لوٹ کر پھر نہ آئے اپنی طرف
پاؤں رکھا، رکاب میں کیا ہے
جانتا ہوں، بتا نہیں سکتا
وہ جو دِکھتا ہے، خواب میں، کیا ہے
دیکھنا ہے، نہ دیکھنے کے لیے
اُف: یہ منظر، عذاب میں کیا ہے
جو بھی ہوتا ہے، کر دِکھایا ہے
عشق مضموں، کتاب میں کیا ہے !
ہاتھ سے جب، نکل گیا ہے وقت
پوچھنا کیا، حساب میں کیا ہے
آب ہے جو، سراب میں، کیا ہے
حق بظاہر، غیاب میں کیا ہے
دیکھیو، کس حساب میں کیا ہے
خوں کا رشتہ، نصاب میں کیا ہے
آج اپنے ہوئے، گریباں گیر
اب رہا ہی ثیاب میں، کیا ہے
خون کر دیں گے، خون کے رشتے
دل ابھی پیچ و تاب میں کیا ہے
اور ہمیں، آج بھی نہیں پہچان
کون یاں، کس نقاب میں، کیا ہے
فتنہ پرور، نگاہِ فتنہ طراز!
اب ترے، انتخاب میں کیا ہے
کنارہ کر کے وہ دریا بدل گیا مجھ کو
کہ بہتے وقت کا دھارا، بدل گیا مجھ کو
وہ ریت کر گیا آخر کو، دل کی دیواریں
بنا گیا مجھے صحرا، بدل گیا مجھ کو
کبھی میں اپنے لیے اجنبی نہ تھا ایسا
کوئی ہے سارے کا سارا، بدل گیا مجھ کو
میں جی رہا ہوں، بدلتی رُتوں کے عکس لیے
نظارہ کر، یہاں کیا کیا، بدل گیا مجھ کو
لکھا ہے دل پہ مرے، سب حساب، بیش و کم
جہاں تہاں، کوئی کتنا بدل گیا مجھ کو
نواحِ دل سے، بگولہ ہزار اُٹھتا ہے
رواں ہیں راہیں، سو گرد و غبار اُٹھتا ہے
جو رُکنے دے بھی کہیں، رہگزارِ شوق ہمیں
قدم بڑھائیے: کوئی پُکار اُٹھتا ہے
جو اِس کنار لگی ہے، اُدھر بھی ہو ایسی
سنیں کسی سے، دھواں دور پار اُٹھتا ہے
سنائی دینے لگے ہیں، خزاں کے سازینے
لو اب چمن سے، جلوسِ بہار اُٹھتا ہے
ترس گئی ہے مری خاک، بوند پانی کو
نفس نفس، مرے اندر، غبار اُٹھتا ہے
دلا! یہاں سے مرا ہاتھ چھوڑ دے تو بھی
کہ پاؤں اب مرا، بے اختیار اُٹھتا ہے
میں کھو گیا ہوں یہاں، خود میں ڈھونڈتا تجھ کو
مرے وجود کا بھی، اعتبار اُٹھتا ہے
کوئی نہ سمجھا مگر، دل کی بے نیازی کو
نہ لاگ ہو، تو کہاں انتظار اُٹھتا ہے
رہیں غافل نہ، خفتگانِ خاک
ابھی باقی ہے، امتحانِ خاک
مول بے مول، اُٹھ رہا ہے مال
جوں کی توں ہے مگر، دُکانِ خاک
مٹ گئے ہم، تو پھر نشاں کیسا
خاک پر رکھنا کیا، نشانِ خاک
کوئی لمحہ ہے، تم کہ دیکھو گے
خاک ہونے کو ہے جہانِ خاک
خاک میں خاک ہو گیا سب کچھ
خاک لکھوں میں، داستانِ خاک
خاک اُڑانا یہ، اک ہنر سے ہے
جانتے ہیں یہ، محرمانِ خاک
اس درد کی، وہ شکل و شباہت نہیں ہے اب
تم آشنا تھے جس کے، وہ صورت نہیں ہے اب
آئے ہو بعد مدتوں، کچھ تو کہو سنو
مانا، گئے دنوں کی سی، فرصت نہیں ہے اب
ہوتی تھی ہم میں، تم میں، محبت کی ایک رسم
آپس میں کوئی، شکوہ شکایت نہیں ہے اب
اپنے سوا کسی کو کسی کی خبر جو ہو
اِس حشر بعد اور، قیامت نہیں ہے اب
کچھ زخم، اُس نگاہ کے، تازہ ہیں آج بھی
کیا ہے، اُدھر جو شوقِ جراحت نہیں ہے اب
خود کو آیا ہوں کُچلتا ہوا مَیں
اپنے اندر سے نکلتا ہوا مَیں
سوئے افلاک اُڑا جاتا ہوں
خواب پر خواب، بدلتا ہوا مَیں
ساری سمتیں، سبھی منظر ہیں مرے
کہیں بڑھتا، کہیں ڈھلتا ہوا مَیں
وہی میں ہوں، وہی بچپن میرا
چاند چھونے کو، مچلتا ہوا مَیں
کھو گیا پھر اُسی منظر میں کہیں
ایک منظر سے نکلتا ہوا مَیں
کُن کی بوندوں سے نمو یاب ہوا
دستِ تقدیر میں پلتا ہوا مَیں
دیکھ: یہ جلوہ نمائی اپنی
طور کی طرح سے، جلتا ہوا مَیں
دیکھ: یہ مجھ میں اُترتا ہوا تو
دیکھ: یہ تجھ میں بدلتا ہوا مَیں
کون سانچے میں ہوں، ڈھلنے والا
آتشِ عشق، پگھلتا ہوا مَیں
آن پہنچا ہوں سرِ منزلِ دل
سوچ گلیوں سے، نکلتا ہوا مَیں
لوٹ آیا ہوں پلٹ کر، خود میں
نقشِ پا اپنے، کُچلتا ہوا مَیں
مجھ میں حیوانی کی وحشت سے، عجب
پڑا رہتا ہوں، دہلتا ہوا مَیں
آن پہنچوں گا کسی دن، تجھ میں
پاؤں پاؤں، یونہی چلتا ہوا مَیں
ہے پریشان! مجھے دیکھ کے تو
یونہی آ نکلا، ٹہلتا ہوا مَیں
ایک قصّہ تمھیں سنانا ہے
کچھ کہانی ہے، کچھ فسانہ ہے
داستاں گو: یہ کہہ رہا تھا، رات
وقت کا کیا، کوئی ٹھکانہ ہے
ق
کہنا سننا جو ہے، وہ کہہ سن لو
پھر کہاں، وقت ہاتھ آنا ہے
گو کہ کلفت ہے، جاں سہارنا بھی
اِسی کلفت سے، حظ اُٹھانا ہے
ساتھ لے کر ہی جائے گا یہ روگ
ہر روش اس کی، مشفقانہ ہے
میری واماندگی، پُکارتی ہے
اور اب کتنی دور جانا ہے
اور کو کیا، مری خبر ہو گی
کیا کبھی تم نے، مجھ کو جانا ہے
غیر سے، کیا گلہ کسی کو ہو
تم سے ہے، اور محرمانہ ہے
نہیں: خود سے کہاں ملا مَیں بھی
اک تعارف سا غائبانہ ہے
وہ جو اک لطفِ خسروانہ تھا
یاد آتا ہے، یاد آنا ہے
تم سے سیکھیں گے ڈھنگ، جینے کا
اب یہی نسخہ آزمانا ہے
نقش تیرا، میں جاں سے دھویا نئیں
خود پہ رویا ہوں، تجھ کو رویا نئیں
کھو گیا ہے، سمے کی دھند میں تُو
دل کے منظر نے، تجھ کو کھویا نئیں
’آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل ہے،
ایسا سنتے تھے، ایسا ہویا نئیں
سانس لیتی ہیں تیری تصویریں
کون تصویر میں، تُو گویا نئیں
اک ترا دھیان ہے، دشا اپنی
ہم نئی منزلوں کے، جویا نئیں
عمر بھر: عشق، انتساب رہا
ہم نے اس نام کو، ڈبویا نئیں
تُو کہ نشتر زنی پہ آمادہ
خار تک میں، کبھی چبھویا نئیں
سبز تھی یہ، زمینِ دل بھی کبھی
کیا سے کیا بیج، اس میں بویا نئیں
بار لائی، ہر ایک شاخِ ملال
اک ترا ہجر ہی، تو ڈھویا نئیں
وہ چراغاں رہا ہے پلکوں تلے
لگ گئی آنکھ بھی تو سویا نئیں
ہائے: ناسفتہ رہ گئے مرے خواب
ایک بھی ہار میں، پرویا نئیں
وجہِ بیگانگی، بتاتے نئیں
جو ہمارے ہیں اور، ہمارے نئیں
آپ: اور دوریاں مٹائیں گے
راستے ملنے کے، بناتے نئیں
چلیے، منزل شناس ہم نہ ہوئے
خیر سے، آپ بھی تو پہنچے نئیں
ہم نے ہر لمحہ، دل اُسارے ہیں
کر کے پیماں کسی سے، توڑے نئیں
اک تمھی اپنی داستاں میں ہو
اور کردار، ہم نے رکھے نئیں
نت نئی ہیں، بجھارتیں تیری
بوجھتے جائیں گے، تھکیں گے نئیں
آپ: کچھ بڑھ کے ہیں، خداؤں میں
ورنہ: ہم تو، انا کے بندے نئیں
کوئی، کچھ بھی، بنا ہو حرفوں کا
ہم پہ مشکل، کسی کے ہجے نئیں
ایک دنیا ہے کارِ وحشت میں
یعنی، رم خوردہ ہم، اکیلے نئیں
لمحے خوشیوں کے، بارہا آئے
دے کے دستک، ذرا بھی، ٹھیرے نئیں
یوں تو کیا کیا سخن زباں پر ہیں
بولتے نئیں، جو اِن میں رس کے نئیں
اُسے جو کہنا تھا، وہ کہہ گیا ہے
جو سننا چاہا میں، وہ رہ گیا ہے
ترے الفاظ، تیری بات کا رس
مرے کانوں تک آتے، بہہ گیا ہے
اُسی کا عکس، دل کی ہر پرت میں
وہی اک رنگ، تہہ در تہہ گیا ہے
کہاں تک کیجیے، اب دل کی پُرسش
اسے سہنا ہی تھا سب، سہہ گیا ہے
نہیں آباد، اب کوئی نظارہ
مرا ہر ایک منظر، ڈھہ گیا ہے
ہر جوئے تمنّا مری، دریا کے گئی ہے
جو لہر اُٹھی دل سے، غضب ڈھا کے گئی ہے
کچھ خواب، نئے ڈھب سے، ترشوا کے گئی ہے
یہ رُت بھی، گئی رُت ہی سا، ڈہکا کے گئی ہے
کل: ذکر ترا کرتی رہی بادِ شمالی
آئی تھی اِدھر، پھر مجھے بہلا کے گئی ہے
اُس نیم نگاہی میں، شرابور پڑا ہوں
دو بوند، کوئی چشم، جو برسا کے گئی ہے
اُس رُوپ کے منظر سے گئی دھوپ، مگر دیکھ
جو دام: شفق رنگ سا، پھیلا کے گئی ہے
کمھلا نہ سکی، یاد کے شاداب دریچے
سو بار خزاں آئی، قسم کھا کے گئی ہے
تھی تیز قدم عمرِ رواں، بوجھ تھا بھاری
سو، گردِ سفر سب، یہیں دفنا کے گئی ہے
دل: کہ ہر غم کی، سجدہ گاہ بھی ہے
یہیں، ہر درد کی، نگاہ بھی ہے
ایک محشر سا ہے، دل و جاں میں
ضبطِ غم بھی ہے، لب پہ آہ بھی ہے
تجھ کو روتے ہیں، خود پہ روتے ہیں
ایک غم ہے کہ بے پناہ بھی ہے
اشکِ تاباں سے، چشم ہے روشن
غم سے سینہ مگر، سیاہ بھی ہے
تجھ کو رخصت بھی، کر دیا: لیکن
تُو یہیں ہے، یہ اشتباہ بھی ہے
بھول جائیں گے، ہو نہیں سکتا
ذکر تیرا، کہ خوامخواہ بھی ہے
منہ اُٹھائے، یہ چل دیا ہے کدھر
دیکھ: اُس سمت کوئی، راہ بھی ہے
دل سے ہر بات پر، رہے تکرار
اور: اک عمر کا، نباہ بھی ہے
رگ و پے میں، لہو کو زہر نہ کر
التجا ہے: دل، انتباہ بھی ہے
تین حرفوں کی کل کتھا ہے عشق
خود پہ گزرے تو یہ اتھاہ بھی ہے
شوق کی انتہا کا پوچھتے ہو
اس سمندر کی کوئی تھاہ بھی ہے
میری چپ میں، یہ بولتا ہے کون
اِس سراپے میں، دوسرا ہے کون
میں اگر خود میں کھویا رہتا ہوں
تو یہاں مجھ کو، پوچھتا ہے کون
مجھ کو مجھ پر ہی منکشف کرتا
راز اپنے، بتا گیا ہے کون
اِس شب و روز کی، تگ و دو میں
دل دلاسا، بنا ہوا ہے کون
اے رویوں میں چاشنی کے امیں !
تجھ میں اک شخص، تلخ سا ہے کون
میں بھی ایسا کہاں کا، بھید بھرا
ہاں: پہ تجھ سا، کھلا ڈُلا ہے کون
ہے مری اصل ہی: مرا بہروپ
تم میں اِس کو، سمجھ سکا ہے کون
دیکھ تو: کیا، دھواں دھواں ہوا میں
مجھ میں یہ آج، جل بجھا ہے کون
بیٹھا ہوں، ایک ایک، ضرورت کا ہاتھ تھام
دیتا نہیں ہے راہ، رویّوں کا ازدحام
اے دل: کسے قبول، تری گوشہ گیریاں
اِس جا: تو ہے پکار یہی، نام، نام، نام
ہر بار، اُستوار ہوا ہوں، میں اور بھی
بنیاد میری لے نہ گیا، کوئی انہدام
یک طرفہ عشق تجھ سے، نہیں ایسا تو نہ تھا
اِس کعبہ میں، ترا بھی رہا، طوف و استلام
یہ تیری دین داری، سلامت جو ہے، تو یوں
کچھ فقہ کا تری ہمیں، اے بت تھا احترام
کر لوں معاف خود کو، مگر تجھ سے اے عزیز!
لینا ہے، ایک ایک، شراکت کا انتقام
ہاں: یہ مقامِ دل ہے، ذرا: دیکھ بھال کے
یاں: فاصلہ ہے مومن و مشرک بس ایک گام
بے وجہ تو گیا نہیں ہو گا یہ دل، اُدھر
کھلتا جو مجھ پہ حال، تو کرتا میں روک تھام
مانا کہ ہے، حریصِ تمنّائے شوق: دل
اب اس قدر بھی ہو نہ کوئی، حرص کا غلام
آنکھ وہ جھلمل تاروں سی
دور کے منظر زاروں سی
مست بھی ہے، ہشیار بھی وہ
گرم نظر، دلداروں سی
کھنچی کمان، بھویں ہیں کیا
اُڑتی کونج قطاروں سی
بھید سجھاتی آنکھوں میں
روک بھی ہے دیواروں سی
سیر کریں اور لوٹ آئیں
پلک تلے، تھک ہاروں سی
روپ کی نکھری نکھری دھوپ
صبح صبیح، بہاروں سی
میم، ملاحت چہرے کی
نون، نمک کہساروں سی
اُس کا روپ سروپ انوپ
خوش طبعی، گلزاروں سی
ایک نگہ کوئی کیا دیکھے
صورت: صد نظاروں سی
کوئی اب کیا کسی کو للکارے
سبھی بیٹھے ہوئے ہیں، جی ہارے
آؤ: چن لو، اِس آنکھ سے تارے
ابھی باقی ہیں، چند شہ پارے
ان کہی ہیں، کہانیاں جو بہت
زخمِ کہنہ بھی ہیں، نمک سارے
ایک دنیا کے، کھیل کے خاطر
کس نے کیا کیا، نہ روپ ہیں، دھارے
دوبدو ہیں، جو اپنے آپ سے آج
سب ہیں خاموش، درد کے مارے
ہلکے پھلکے، تو جا لگے، اُس پار
رہ گئے پیچھے، ہم سے پشتارے
یاد تو کر دلا: کہ فرصت میں
تجھ سے کیا کیا نہ تھے سخن، پیارے
دلِ روشن دلیل، کے آگے
اور: فکر و نظر کے اندھیارے
دن ہے ڈھلنے کو، اپنے گھر کی طرف
چلے آتے ہیں سب، تھکے ہارے
سیر کر تُو بھی، کوچۂ دل کی
دیکھ یہ بام و در، یہ گلیارے
اک طرف شور ہے، سلاسل کا
اک طرف بج رہے ہیں، نقارے
کھولے مژگاں جو ٹک، تو دیکھے تو
شہرِ میرؔ: آج بھی وہ نظارے
شہرِ سیلاب، بے در و دیوار
کوئی اب جا کے، سر کہاں مارے
ابھی ہے گفتنی احوالِ جاں، سو کہہ سن لو
کہ پھر نہ پاؤ گے ایسا سماں، سو کہہ سن لو
ہزار رنگ: بدلتا ہے، رنج کا موسم
نہ ہو گا، پہلے سا وہ بدگماں، سو کہہ سن لو
اگرچہ راکھ ہوئے ہیں، الاؤ یادوں کے
سلگتا پاؤ جو کچھ کچھ یہاں، سو کہہ سن لو
اگرچہ راہ، طرف دل کے، اب ہوئی مسدود
مگر، کہ ہو کوئی ربطِ نہاں، سو کہہ سن لو
ہیں وسوسے ترے، زندہ حقیقتیں کل کی
سمجھتا ہو جو کوئی یہ زباں، سو کہہ سن لو
سب کو سیلاب، کر گیا سیراب
شہر کے شہر، ہو گئے غرقاب
تُند امواج ہیں، حوادث کی
اور یہ دریا، کہیں نہیں پایاب
کچھ وسیلہ کرو کہ پار لگو
ورنہ پھر تم ہو اور آیتِ آب
پھر سے دُہرا، پڑھا لکھا اپنا
طاق پر دھر نہ، زندگی کی کتاب
بھائی! ہم کو تو سب ہی پانی ہے
کیسی امواج اور کیا گرداب
جستجو ہے، نہ اب ہے پیاس ہمیں
کیا لبھائیں، نظر کو خواب و سراب
رونے آ تے ہیں سب، یہیں دکھڑے
رِستے رِستے بھی، دل ہوا تالاب
مست ہیں، اپنے ہی نظارے میں
لوگ کیا جانیں، میرے بارے میں
کیا کروں: ایسے خواب کی توضیح
جو ہے تعبیر کے خسارے میں
جن کی گفتار میں، نہیں بُستار
بات ہے، اُن کے ہر اشارے میں
بات وہ، جس پہ دل ٹھہر جائے
اور کیا ہے گا، استخارے میں
کوئی کچھ بھی کہے، سو کہنے دے
میرے بارے میں، تیرے بارے میں
خوش گمانوں کو خوش گماں ہی رکھ
بات چلنے دے، اُن کی سارے میں
دیکھ: خوش منظری، نہ گہنائے
زندگی کے، کسی نظارے میں
کوئی کب تک، سنبھالتا دل کو
عشق دریا کے، تند دھارے میں
بیچ دریا بہے جو ہم، تو کھُلا
تھے عبث مبتلا، کنارے میں
گفتگو کے، ہزار پیرائے
کوئی کس طور، اُس کو سمجھائے
در نہیں رکھا، اُس سماعت نے
کوئی سر پھوڑے، جا کے کھٹکائے
وحشتیں، پھر سے دشت آرا ہیں
اے غزالو! کہاں سے ہو آئے
دیدنی تھی، تھکن بھی، دل کی آج
کیا تماشے، نہ اس نے دکھلائے
کھُل سکے کب، یہ عقدہ ہائے دل
کس جتن سے، اگرچہ سلجھائے
اِس سُخن ساز دل کو، ہاتھ میں رکھ
کب، کہاں، کیا، یہ گل کھلا جائے
اُس کے، کیا کیا کرم رہے، ہم پر
اک ہمی ہیں، کبھی نہ بھر پائے
ہم نے برہم نہ کی، تری محفل
دل بجھا، اور ہم نکل آئے
جب تلک لَو ہے، ساتھ دیں گے مرا
یہ مری روشنی کے ہم سائے
اُدھر کو جائیں، جدھر آسمان پڑتا ہے
اسی دِشا میں کہیں وہ جہان پڑتا ہے
ہمیشہ سچ نہیں ہوتا ہے، جانتے ہیں ہم
جو آنکھ دیکھتی ہے اور جو کان پڑ تا ہے
گزر ہوا ہے اِدھر سے، تو کوئی دم ٹھہرو
بس اگلے موڑ سے پہلے، مکان پڑتا ہے
نہ جانے کون سی منزل، شکار ہو جائیں
کہ آگے راہ میں، کیا کیا مچان پڑتا ہے
اُلجھتی ہے، کہیں سینے میں سانس کی ڈوری
عجیب سایہ سا کچھ، دل پہ آن پڑتا ہے
خبر جو دے، مری اِس کشتِ جاں کا گرداور
کہ فصل، فصل یہاں، کیا لگان پڑتا ہے
قریب ہو کہیں: اے ریگ زارِ عمرِ رواں
وہ جا: کہ تھک کے جہاں، کاروان پڑتا ہے
جس دل کا بھید نہ پاؤ گے
کیا اُس میں سیندھ لگاؤ گے
جو دور گئے اور بھول گئے
کیا اُن سے آس لگاؤ گے
اِن جاگتی آنکھوں کو، کب تک
تم سپنے اور دکھاؤ گئے
جو منظر ڈوب گئے، اُن پر
اب کون سا سورج لاؤ گئے
اِس مورکھ من کی بات میں آ
پچھتاؤ گے، پچھتاؤ گے
کب اور کی پیڑا سہن تمھیں
کیا اپنی پیڑ، سہاؤ گے
اک آہِ تپاں، بکھرا دے گی
اک آنسو میں، بہہ جاؤ گے
کام میں خوش، نہ کمائی میں ہے خوش
یہ معیشت، کہ گدائی میں ہے خوش
قول کی قدر سے، واقف ہی نہیں
ہر کہ بس: ہرزہ سرائی میں ہے خوش
دست گرداں ہے یہ دل، دھیان کسے
ہر کہ من چاہی، ادائی میں ہے خوش
کیف و کم، اس کا نہیں ہے معمول
دل: کہ جو اپنی سمائی میں ہے خوش
کوئی جس طور کرے، گھر دل میں
دل اُسی طرزِ رسائی میں ہے خوش
دلا: تجھ پر ہے کھلا، کیا ایسا
اک تو ہی، ساری خدائی میں ہے خوش
بو الہوس دل کا ہو، انجام بخیر
قید میں خوش، نہ رہائی میں ہے خوش
کر لے ہم کو بھی، خوشی میں شامل
تو اگر ہم سے، جدائی میں ہے خوش
رنجِ بے چہرہ سے، پوچھے کوئی
تو بھلا کون، بھلائی میں ہے خوش
تر و تازہ، پُر درد و فریاد رکھے
خدا چشمِ گریہ کو، آباد رکھے
یہی دولت و مایۂ غم ہے سب کچھ
جو طبعاً، ادھر دل بھی افتاد رکھے
کوئی حد نہ رکھی، حریفانِ خود کی
کہاں ہم نے دشمن، بہ تعداد رکھے
تھکن منزلوں کی، کسے جا سنائیں
چلے جاتے ہیں، لب پہ فریاد رکھے
کہاں جا رہیں، خانہ برباد تیرے
بتا دے، خدا تجھ کو آباد رکھے
ضروری ہے کچھ، رونقِ جاں بھی دل کو
کہاں تک کوئی خود کو، ناشاد رکھے
وہی بات رکھتی ہے، خُرسند سب کو
کشادہ دلی پر جو، بنیاد رکھے
تری میری خوشیاں بھی، اپنی جگہ پر
وہ کُل کا ہے مالک، جسے شاد رکھے
وہی: لَو سے دن کی، ہر اک شب نکالے
جو ہر صبحِ نو کو ہے، شب زاد رکھے
کمیں گاہیں اُس کی، سب اہداف اُس کے
وہی نامِ صید اور صیّاد رکھے
وہی رونقِ شہر، زنجیر کر دے
وہی وحشتِ دشت، آزاد رکھے
گو یہ جانا، کہ سب ہی مایا ہے
پھر بھی، ہونے کا حظ اُٹھایا ہے
لمحہ لمحہ، گِنا نہیں ہے وقت
لمحہ لمحہ، اُسے کمایا ہے
داد دیتی ہے، زندگی ہم کو
ہم نے جس ڈھب اُسے، اُٹھایا ہے
اپنا ہر بیت، اپنے دل کا سخن
اُس کا دھن ہے، اُسی کی مایا ہے
تیری خاطر ہوئے ہیں سہل: کہ ہم
خود کا انداز یہ، بنایا ہے
اِس خزاں میں، یہ سبز رُت کا پیام
ابر کیسا یہ، گھِر کے آیا ہے
آسماں سی ہوئی ہے، دل کی زمیں
اک ستارہ سا، جگمگایا ہے
کس پہ احوال کھل گیا، دل کا
کون یہ مجھ میں، آ: سمایا ہے
کیوں نہ قدموں پہ اُس کے، جاں واروں
اِس محبت سے ملنے آیا ہے
جانے تھی، کس خیال کی وحشت
دل جو لرزا ہے، تھرتھرایا ہے
سرِ مقتل ہے، جانتا ہی نہیں
دل میں ارماں، جو مسکرایا ہے
تو: کہ جانے ہے کس گماں میں یہاں
ایک دنیا ہے، امتحاں میں یہاں
پھر سے اک غارتِ جہاں کردار
لوٹ آیا ہے، داستاں میں یہاں
خالقا، مالکا، خبر ہے تجھے
خلق تیری، ہے کس زیاں میں یہاں
صف شکستہ ہوئیں جو سجدہ گہیں
خوف کی بندشیں، اذاں میں یہاں
یہ سماں تو، بہار ہونا تھا
کیسا پت جھڑ ہے، گلستاں میں یہاں
فصلِ گل اور، بے نقیبِ چمن
عندلیب اور، خستگاں میں یہاں
عفو اور عافیت کے دیون ہار
خیر دے، خیر ہو جہاں میں یہاں
صبح دم: دور سے آتی ہے، صدا سی کوئی
جانے پہچانے سے لہجے میں، دعا سی کوئی
اک تصور تھا، جو تصویر نہیں ہو پایا
کاوشوں میں نہ ہوئی، چہرہ نما سی کوئی
وہی معمولِ محبت، دل و دلدار میں تھے
یہ الگ بات، بنی اور فضا سی کوئی
یوں تو کیا کیا، سخن انداز ہیں، سنگھار ترے
بات کھولے جو مگر، رنگِ حنا سی کوئی
کچھ بھی سامان مہیا کرو اس دل کے لیے
ڈھونڈ لاتا ہے، کہیں رکھی اداسی کوئی
اِدھر اُکسائی ذرا بھی کسی امید نے لَو
چلنے لگتی وہیں دل میں، ہوا سی کوئی
اس کے آگے نہیں کچھ، سات سماوات کا نور
دل کی چھاگل جو بھری ہے یہ، ضیا سی کوئی
رنگ: اُترتے جاتے ہیں
روپ: بکھرتے جاتے ہیں
دھند ہوئی ہر یاد سبھا
نقش: بسرتے جاتے ہیں
عمر: گزرتی جاتی ہے
روگ: سنورتے جاتے ہیں
آنچ نہ دیں جو دل کے داغ
غم بھی مکرتے جاتے ہیں
بھیگتی جاتی ہیں آنکھیں
خواب: نتھرتے جاتے ہیں
روک سکا ہے کون انھیں
دن ہیں، گزرتے جاتے ہیں
ٹیڑھ کہیں رہ جائے، پہ ہم
یوں تو، سدھرتے جاتے ہیں
پیار سے پیار نباہیں، پالیں روگ نہیں
ہم بے صرفہ جینے والے لوگ نہیں
رویا ہوں میں دیر تلک، ترے ہجر کے ساتھ
لیکن یہ جینا تھا مرا، ترا سوگ نہیں
عمر گئی ہے: آس، امیدیں، گود لیے
آج بھی اِن میں کوئی، بیاہنے جوگ نہیں
ایک ہی در تھا، ایک ہی در ہے، ایک ہی در
در، در جا کے کوئی، کمایا جوگ نہیں
جس کو چاہا اس کو دوست بنایا بھی
اپنی کتھا میں کوئی روگ بروگ نہیں
سارے ربط، روابط، سارے سمبندھن
سکھ میں نہیں جو تن من، کچھ سنجوگ نہیں
کان لگا کر سن، کہے بات کوی طارق
سانجھ کیا اُن سے، من جن کے، اَروگ نہیں
تیرگی کو مات، لکھی جا چکی ہے
رخصتِ ظلمات، لکھی جا چکی ہے
جیت ہے یا مات، لکھی جا چکی ہے
راہ کی ہر گھات، لکھی جا چکی ہے
ذرّے ذرّے سے، ہویدا ہو رہے گی
آیتِ آیات، لکھی جا چکی ہے
ہونے والی بات تھی، ہو کر رہی ہے
فردِ کل آفات، لکھی جا چکی ہے
عمر گزری ہے، اُسے تصویر کرتے
جو کسی کے ہاتھ، لکھی جا چکی ہے
اُن سے ملنا ہے کہ جن سے ہر ملاقات
تشنۂ اوقات، لکھی جا چکی ہے
آ: کہ صحبت میں تری وہ بھی گزاریں
جو کسی کے ساتھ لکھی جا چکی ہے
بہت دنوں میں جو آیا اِدھر سلام ترا
میں لکھ کے بھول چکا تھا کہیں پہ نام ترا
نفس نفس ہے کشاکش، یہ زندگی جو اِدھر
تو سوچتا ہوں، اُدھر کیا ہو انتظام ترا
ہمیشہ ہی سرِ تسلیم خم کیے رکھا
علاوہ اِس کے کرے کیا، کوئی غلام ترا
وہی ستارے، وہی مہر و ماہ کی گردش
نظر میں گونج چکا ہے، یہ انتظام ترا
جِلا ہو اِس میں، کسی شعلۂ تغیر سے
کہ کند ہونے کو ہے، چرخِ نیلی فام ترا
کبھی کیا نہ تقاضا، نہ اب کریں گے ہم
مگر کہ ذکر رہے دل میں، صبح و شام ترا
ترے سوا ہے مرا کون، جس سے جا پوچھوں
کہ وحشتوں میں کہاں جائے، خوش خرام ترا
ضیائے مہرِ تاباں مات ہو گی
تو کیا، اب تیرگی اثبات ہو گی!
نہ لہرائے گا کیا اب، دن کا پرچم
سریر آرا سدا، کیا رات ہو گی
نواحِ شہرِ جاں، جو یہ سماں ہے
دروں: کیا صورتِ حالات ہو گی
بہ حالِ زارِ ما، اب لب کشائی
نہ ہووے گر، تو کیا ہی بات ہو گی
کھلے گا کس طرف سے رُخ ہوا کا
کہاں کی تازگی، سوغات ہو گی
جدائی: اِس قدر آساں نہ سمجھو
چلے آؤ، کہ اِس پر بات ہو گی
یہاں بس تھوڑی سی باقی بچی ہے
جو آگے ہے، وہ تیرے ساتھ ہو گی
کھلیں گے، نت نئے ابوابِ عالم
کلید اِس تشنگی کے ہاتھ ہو گی
صورتِ ارض، سماوات میں اپنے لیے بھی
اک ستارہ: کہیں اِس رات میں، اپنے لیے بھی
نگہ رہتی ہے ترے سولہ سنگھاروں کی طرف
ہو اشارہ جو کسی بات میں، اپنے لیے بھی
جانے کس روپ کرے گھات، عدوئے ازلی
سات کنکر ہیں مرے ہات میں، اپنے لیے بھی
کیا ہے اُس کے لیے، جب چاہے بدل دے قسمت
جیت رکھ دے جو کسی مات میں، اپنے لیے بھی
تم چلے آئے کہاں، جائے اماں کی دھُن میں
ایک دنیا ہے اِدھر، گھات میں، اپنے لیے بھی
اے مری عمر کی تنہائی، ترے ساتھ ہوں میں
ہاتھ تھاما ہے ترا ہات میں، اپنے لیے بھی
میرے سب بھید، کہاں کھولے ہیں اُس نے مجھ پر
ہیں نہاں خانے، مری ذات میں، اپنے لیے بھی
تیرے لہجے میں ابھی تک ہے، وہی قند و گلاب
اک سُخن لائے جو، سوغات میں، اپنے لیے بھی
’رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر‘
ایک بدلی کسی برسات میں اپنے لیے بھی
خود پسندی کی انتہا پر ہو
کون خود ساختہ، خدا پر ہو
عجز میں ہے، توانگی دل کی
خیر سے، لمحۂ دعا پر ہو
یہ نہ سمجھے، قصور کس کا ہے
اور نہ جانا، کہ تم خطا پر ہو
ہم نے کھولی نہیں ہے، بات کوئی
ایک تم ہو، کہ انتہا پر ہو
جب نہ خود پر ہی اعتماد رہے
کیا بھروسہ، ہما شما پر ہو
دل ہے وہ تشنہ کام، جس کی نگہ
ہمہ، اُمڈی ہوئی گھٹا پر ہو
داغِ نا ممکنات ہے، دل کو
فیصلہ ہو، تو کس بِنا پر ہو
آخرِ کار، خم سرِ تسلیم
جو عطا ہو، تری رضا پر ہو
مجسم وہ مری تخئیل میں ہے
ابھی جو عرصۂ تنزیل میں ہے
پڑھوں کیا، اِس حیاتِ مختصر میں
لکھا وہ اِس قدر تفصیل میں ہے
کھلا ہے جو، عجب حیرت کدہ ہے
ابھی کیا کچھ اُدھر، زنبیل میں ہے
کشادہ کرتا جاتا ہے، وہ رستے
سو ہر منزل یہاں، تحویل میں ہے
ہے شکر و کفر میں پیچا ازل سے
یہ وقتِ بے کراں کی ڈھیل میں ہے
سخن سنجی ہے، تسلیم و رضا بھی
سخن سازی جو، قال و قیل میں ہے
یہاں کروٹ پہ کروٹ، لہر لے گی
کہ یہ دریا، ابھی تک جھیل میں ہے
سراپا نور کر دے گا، بدن کو
دلِ روشن، جو اس قندیل میں ہے
داستاں آ کے سن، زبانی مری
کہنے سننے کی ہے، کہانی مری
جیسا چاہوں، بناتا ہوں خود کو
ہے تصور پہ حکمرانی مری
یہ تو میں خود نشاں کیا، خود کو
ورنہ کس کو تھی یاد آنی مری
لکھتا رہتا ہوں، پڑھتا رہتا ہوں
در حرف، بے معانی مری
وہم آسا سمجھ، وجود مرا
بے نشانی ہے، زندگانی مری
موجِ دریا بھی گم، ہوا بھی چپ
کس بہاؤ ہے، ’بادبانی‘ مری
کون آیا ہے، تجھ حدوں سے پرے
مجھ کو لے آئی، خوش گمانی مری
راز: ایسا نہیں ہے گہرا کوئی
بات پر بات کا ہے، پہرا کوئی
گرمیِ روزگارِ دل، مت پوچھ
درد پہنا، نہ غم، اِکہرا کوئی
سبھی اوراقِ زندگی ہیں، سیہ
لکھا جائے، ورق سنہرا کوئی
کوئی عالم ہے نفسانفسی کا
سن کے میری صدا، نہ ٹھہرا کوئی
روبرو آ: صدا لگائیں گے
کوئی اندھا ہے گر، جو بہرا کوئی
وہ تبسم: جو کر نہ دے، معدوم
زخم ایسا بھی کیا ہے، گہرا کوئی؟
کھینچ لے جائے، پھر سے اپنی طرف
روح میں اک صدا کا، لہرا کوئی
آئنہ رو نہ ہوں جو دل کے داغ
یاد رہتا کہاں ہے چہرا کوئی
سہ غزلہ
قید کیا تھی، کسے رہائی ہوئی
کھوئی دل نے، مراد پائی ہوئی
خود کو رکھا گرو، نہ جاں ہارے
اب کے بازار میں، صفائی ہوئی
اک ضرورت سے، تجھ کو یاد کیا
وضع اپنی بھی، روستائی ہوئی
کام آئی ہے، دشمنوں کی طرح
کوئی پہچان، آزمائی ہوئی
کیسے بے رہ روی کے عالم میں
تجھ اندھیرے سے، روشنائی ہوئی
جل بجھا ہوں، ستارہ سا لیکن
روشنی ہے، مری کمائی ہوئی
آج بھی دیکھتا ہوں حیرت سے
رُت جو آئے، سجی سجائی ہوئی
کسرِ شاں، ہم سے گر گدائی ہوئی
آپ سے بھی، نہ میرزائی ہوئی
چھوڑ جائیں گے ہم، بہانہ کوئی
تیرے در تک، نہ گر رسائی ہوئی
یاد کرتے ہیں، بھولنے والے
اچھا، اچھا، چلو، صفائی ہوئی
ہم تری راہ پر، چلے ہی کہاں
گمرہی میں ہے، راہ پائی ہوئی
یوں تو کھو دے گی زندگی خود کو
یہ جو پھرتی ہے، بوکھلائی ہوئی
دل کی رفتار، زلزلائی ہوئی
اپنے قدموں پہ، ڈگمگائی ہوئی
درد نے طرز ہے بنائی ہوئی
یہی بندش ہے، دل کو بھائی ہوئی
سوز خوانی، نہ سنیو سینے کی
آنکھ مت دیکھ، ڈبڈبائی ہوئی
لمحہ لمحہ، کریدتا گزرا
آہ: دیوارِ جاں یہ، ڈھائی ہوئی
لاؤ اب ساخت کوئی، دل کی نئی
بے دھڑک سی، نپی نپائی ہوئی
کوئی اس درجہ کامران نہ تھا
ہم جہاں تھے، وہ آسمان نہ تھا
کہیں بے انت تھا، نشاں اپنا
یہ زمان اور یہ مکان نہ تھا
کوئی تھا، میں تھا، یا کہ تو ہی تو
کیا تھا، جب کچھ بھی درمیان نہ تھا
آپ اپنا بیاں ہے، ہر موجود
سچ کسی لمحہ، بے زبان نہ تھا
تختۂ دار سا نہ تخت کوئی
جس نے پایا، اُسے گمان نہ تھا
یہ زماں ہے، نہ یہ مکاں اپنا
ہے کہیں اور ہی، نشاں اپنا
یہ علاقہ ہے، دلستاں اپنا
ورنہ، ہم اور یہ، زیاں اپنا
جانے اِس دائرے پہ ہستی کے
خطِ مماس ہے، کہاں اپنا
طبعِ روشن کے اِس چراغ تلے
یہ اندھیرا ہے، راز داں اپنا
اِس کا ہم پایہ، ہو تو ہو، کوئی
جس تشخص کا ہے، بیاں اپنا
دل دریچہ ہے، کون باغ کی سمت
ہے معطر، مشامِ جاں اپنا
گم ہوا ہے یہ، کس دھُندلکے میں
داغِ دل تھا جو، ضو فشاں اپنا
کبھی آیا اِدھر، تو پوچھیں گے
ہے کوئی آپ کا یہاں: اپنا
دیر تک دستک ہوئی، تا دیر آوازہ ہوا
جن دِلوں دیوار تھی، اُن میں نہ دروازہ ہوا
کل جو کچھ کا بغضِ باطن، چہرے کا غازہ ہوا
ربِّ کعبہ کی قسم، اپنا دروں تازہ ہوا
گم ہوئے جاتے ہیں اک اک کر کے سب رشتے یہاں
وہ جو بندھن تھا دلوں کا، کیا وہ شیرازہ ہوا
جانتا ہوں: کس طرح، وارد ہوئی احوال میں
جس شرر انگیزیِ دل کا، یہ خمیازہ ہوا
منکشف جوں جوں ہوا، احوالِ یارانِ کرم
ہم بھی کتنے خود گزیدہ ہیں، یہ اندازہ ہوا
آس کے اِس کھیل نے، کس جا نہیں رسوا کیا
جب کہیں دیوار کرنا چاہی، دروازہ ہوا
داستان لکھ رہا ہوں، دوری کی
آس: دل میں لیے، حضوری کی
ایک تو، وقت کی ہے پیمائش
اُس پہ صد عرصہ ہائے نوری کی
ٹال رکھی ہے، بات کیدو نے
ہیر، رانجھے کی اور چُوری کی
دل کو تھامے، اُدھر سے آئے ہو
بات جو کرنا تھی ضروری، کی؟
وہی عالم ہے، وحشتِ دل کا
وہی صورت ہے، ناصبوری کی
دو قدم پر ہے، بابِ رسوائی
جو قسم کھائی ہم نے، پوری کی
یہاں وہاں کچھ نہیں ہے یکساں، رہا ہے طغیانِ کم، زیادہ
نحیفِ نم ہے اِدھر جو صحرا، تو ہے چٹانوں میں چم زیادہ
عجب ہوا ہے، یہ کیا وبا ہے، کہ سانس لینا کٹھن ہوا ہے
گھٹن زدہ ہوتے جائیں رمنے، رہا نہ سینوں میں دم زیادہ
ہمیشہ دھڑکن کی تال پر ہی، رہا ہے رقصاں غزال دل کا
بڑھا جو دامانِ دشتِ ارماں، کیا ہے اِس نے بھی رم زیادہ
کوئی تو ہے لاگ، دل سے اِن کو، کھنچے چلے آتے ہیں اِدھر کو
اگر چہ یہ دل، خدا کا گھر ہے، بسے ہیں اِس میں صنم زیادہ
لکھا گیا تھا جو قیرِ دل سے، غضب تھا وہ نامۂ رقیباں
کہیں کہیں کم تھے ’ حرفِ روشن، کہیں کہیں پر رقم زیادہ
یہی دو اک موڑ کا ہے رستہ، یہی دو اک گام کا سفر ہے
ہے بارِ انفاسِ چند باقی، نہ ہم زیادہ نہ غم زیادہ
سینے میں دل چراغ کی صورت، دھرے ہوئے
ہم ہیں تمام، عشق کی لَو سے بھرے ہوئے
کل رات گنگناتے ہوئے، بھولے بسرے گیت
کیا کیا نہ زخم، یاد کی لَے میں، ہرے ہوئے
رگ رگ سے زندگی کی، رہے رس نچوڑتے
اک وقت میں، کہ ہم نہ تھے ایسے، مرے ہوئے
خالص تھا جن کے زر، نہ رہے کامران کیوں
کھوٹے تھے جن کے سکّے، یہاں کیوں کھرے ہوئے
کس خوف سے ہیں گنگ زبانیں، خبر کرو
کس بات سے ہیں لوگ، یہاں کے ڈرے ہوئے
ایسا بھی کیا کہ اپنے ہی پیاروں سے کہیے حال
پُرساں نہیں قمر تو، ستاروں سے کہیے حال
کیا کیجئے کہ ہر کوئی مصروف خود میں ہے
اور آپ چاہتے ہیں کہ یاروں سے کہیے حال
ہر جذبۂ دروں کو کہاں، حرف کی سبیل
قاصر ہے گر زبان، اشاروں سے کہیے حال
ہر چند ذی شعور ہیں، کُل دودمانِ خاک
اپنے ہی جیسے، درد کے ماروں سے کہیے حال
ملتا نہیں جو دوست کوئی، ڈھونڈیے عدو
اُس خوش بیاں کے گوش، ہزاروں سے کہیے حال
کوئی تو ہو گا، گوشِ نصیحت نیوش بھی
اک اک کو جا سنائیے، ساروں سے کہیے حال
ترکش میں جتنے تیر تھے اُن کے، پڑے ہوئے
سارے ہیں، میرے سینے کے اندر گڑے ہوئے
کیوں میرے آگے پیچھے نہ آ کر کھڑے ہوئے
ماں جائے میرے، جو مرے ہاتھوں بڑے ہوئے
قصے تمام ذات کے اپنی، گھڑے ہوئے
لے آئے ہیں، وہ بات پہ اپنی، اڑے ہوئے
لایا ہے وقت کیا، مری آنکھوں کے سامنے
پالے ہوئے یہ دن مرے، مجھ پر کڑے ہوئے
اجڑا ہے جس کا باغ، نظر بھر اُدھر بھی دیکھ
گنتا ہے اپنی شاخ کے پتے جھڑے ہوئے !
کیا دیکھتے ہو، راکھ سے اُڑتے ہوئے شرار
یہ سب نگیں تھے، سینے کے اندر جڑے ہوئے
کچھ مجتمع نہیں ہیں، سرابوں کے کارواں
بکھرے پڑے ہیں خواب بھی، دھوپوں سڑے ہوئے
لب پہ، کیا کیا پروں کو تولتے ہیں
ہم کہاں سارے حرف بولتے ہیں
ہاتھ آئے، کبھی کبھی کوئی حرف
ہیرے موتی سے، یوں تو رولتے ہیں
لب و لہجے کی ہے، مٹھاس میاں
رس: جو کانوں میں لفظ، گھولتے ہیں
عقدۂ دل ہی، وا نہ کر پائے
یار: کیا کیا گرہ، نہ کھولتے ہیں
وقت پر کوئی ہاتھ آتا نہیں
یوں تو کیا، آس پاس ڈولتے ہیں
یہ جاں کہ فرصتِ غم سے بھی ہاتھ دھو گئی ہے
بھلا چکی تھی تجھے، آج خود کو رو گئی ہے
ہمیں بھی تجھ سا، تغافل شعار بننا تھا
یہ بات کاش نہ ہوتی، مگر یہ ہو گئی ہے
بہت سے دن گئے، وہ رُت نہ لوٹ کر آئی
جو آئی جب کبھی، دامن بھگو بھگو گئی ہے
اُس اک نگہ نے کیا دل کو خانۂ بے نور
پلک پلک پہ جو اتنے چراغ، بو گئی ہے
میں ڈھونڈتا ہوں اُسے ہر کسی کی آنکھوں میں
وہ اک نگاہِ توجہ، کہیں جو کھو گئی ہے
چھلک پڑی جو کوئی آنکھ، اپنے غم پہ کبھی
تو جانے کتنے ہی چھاتی کے داغ، دھو گئی ہے
کہو کہ پرسشِ احوال، یوں بھی ہوتی ہے
اُچٹتی سی یہ نگہ، اس طرف جو ہو گئی ہے
(اقبال احمد قمرؔ کے لیے )
آنے جانے کی خبر دیتے رہو
کھونے پانے کی خبر دیتے رہو
عمر کے جو بھی مہ و سال بُنو
تانے بانے کی خبر دیتے رہو
تم جہاں بھی رہو، خوش باش رہو
بس: ٹھکانے کی خبر دیتے رہو
جن کے رہوار نہیں پہنچے، اُنہیں
آب و دانے کی خبر دیتے رہو
مانا: مصروف ہو، مشغول ہو تم
اس ’بہانے، کی خبر دیتے رہو
زر فشانی سہی مقسومِ قمر
زر لُٹانے کی خبر دیتے رہو
اپنا احوال بھی لکھتے رہنا
گو زمانے کی خبر دیتے رہو
پہلی منزل، شکستہ پائی ہے
دوسری، راہ سے جدائی ہے
عذر خواہی ہو کیا، کہ اس دل کا
جو بھی جذبہ ہے، انتہائی ہے
آپ ہی کچھ، خدا نہ بن پائے
ہم نے تو، بندگی نبھائی ہے
تم کہو، کون منزلوں پر ہو
کون رستوں سے اب، جدائی ہے
کن شگوفوں کے ہو، تمنائی
کتنے پھولوں سے آشنائی ہے
کوئی جانے، جو کوئی پہچانے
جس قدر ہم میں، خود نمائی ہے
لے چلو ہم کو اپنی راہ، کہ ہم
گم ہوئے ہیں، جو راہ پائی ہے
نہ اندھیرے چھٹے اپنے، نہ اُجالے ہوئے ہیں
یوں تو ہم گردشِ ایّام کے، پالے ہوئے ہیں
وہی تو دل کی معیشت کو ہیں سنبھالے ہوئے
حرفِ شیریں، جو ترے نطق کے ڈھالے ہوئے ہیں
تجھ سے بے تابیِ جاں کا، کہیں احوال تو کیا
کبھی آنسو، کبھی آہیں، کبھی نالے ہوئے ہیں
درد سے اٹ گئے ہیں، فرش و در و بام تمام
دل کے ایواں، جو ترے غم کے حوالے ہوئے ہیں
سرد ہو جائے یہ آتشکدۂ جاں، پہ ہمیں
کسی انہونی پہ، اس ہونی کو، ٹالے ہوئے ہیں
یہی جذبات، ڈبو دیں گے سفینہ دل کا
موج میں آ کے، جو اس دل کو اُچھالے ہوئے ہیں
ہم نے افشا نہیں کی ہے، تیرے غم کی خوشبو
بند کلیوں کی طرح اس کو، سنبھالے ہوئے ہیں
تم نے دیکھے تو بہت ہوں گے، پہ کم کم ہیں غزال
جن کے غمزے مری غزلوں کو غزالے ہوئے ہیں
اب تو اک حرف کہا جائے نہ اپنے دل کا
یادِ ایّام، مقالوں پہ مقالے ہوئے ہیں
وہ زیاں، لایا ہے دل
خود سے بھر پایا ہے دل
کس بھروسے پر جیا
کیسا پچھتایا ہے دل
کیا کہوں، کس کس گلی
ٹھوکریں، کھایا ہے دل
پوچھیے مت، اس گھڑی
کس نے کلپایا ہے دل
زخم ہے، خود ہی کہیں
اور کہیں، پھایا ہے دل
نقش ہے، اس پر تمام
کچھ جو، بسرایا ہے دل
بھولنا بھی ہے دوا
ایسا فرمایا ہے دل
سود ہے، جس کا زیاں
ایسا سرمایا ہے دل
عاقلاں کے مشورے
غور کر آیا ہے دل
جی میں آئی، ٹھان کر
رقص، فرمایا ہے دل
ہاتھ سے کیوں جانے دے
تجھ پہ گر، آیا ہے دل
درد ہے، اپنا سفر
کون: ہم پایا ہے دل
کیا رکھوں رختِ سفر
ساتھ جب، آیا ہے دل
یاد کی برف کو، پگھلاؤ نہیں
موسموں کا یہاں، برتاؤ نہیں
ہم نے برتا ہے بہر طور اسے
وقت کیا ہے، ہمیں سمجھاؤ نہیں
دل نہ سہ پائے گا، سمجھوتا کوئی
خود کو دھوکا نہ دو، بہکاؤ نہیں
ہم کو بس ہے، دلِ اندیشہ گر
کچھ تکلف، کوئی فرماؤ نہیں
صاف سیدھا ہے، وگرنہ رستہ
رہرووں کا ہی وہ، برتاؤ نہیں
جی اُمڈ آتا ہے، بیٹھے بیٹھے
گرچہ پہلا سا وہ، چھلکاؤ نہیں
حرفِ یک پُرسشِ احوال پہ کیا
بک ہی جائیں: نہیں، اس بھاؤ نہیں
بجھ تو جاؤں گا، دیا سا میں بھی
صبح ہو گی، کوئی پچھتاؤ نہیں
یار تو سب ہی محبت میں ہیں آگ
کچھ ہیں تنور، مگر تاؤ نہیں
یاد کر دن وہ، کبھی آگ تھے ہم
آگ اب کیا، یہاں سلگاؤ نہیں
دانتوں کھلتی ہے، لگی ہاتھوں کی
ایسی ویسی تو قسم کھاؤ نہیں
بازیِ عشق بھی، کیا خوب رہی
جیت ہی جاتے، پڑا داؤ نہیں
یہی دل تھا، چمن آثار کبھی
آن بیٹھے ہو، تو اب جاؤ نہیں
نہ شرق و غرب، شمال و غروب جانے میں ہے
سفر تو ذات کے اندر ہی، ڈوب جانے میں ہے
اک ابرِ خواب، گزرتا ہے روز، بن برسے
ہے خوب آنے میں اپنے، تو خوب جانے میں ہے
وہ اک مقام، جہاں گم ہوئی ہے ذات مری
شہود سے کہیں، سمتِ غیوب جانے میں ہے
نہ جان پاؤ گے، تم ذات کی فسوں سازی
جو بے خرام، قلوبِ شعوب جانے میں ہے
برس رہی ہے جو دل پر، ضیائے نور کوئی
ذرا سی دیر: یہ داغِ عیوب، جانے میں ہے
سمجھ گیا تو دلا، سیدھی راہ پر آ جا
کہ گمرہی، ترے ترکِ وجوب جانے میں ہے
یہ سرد ہوتی، بدن میں لہو کی کاریزیں
یہ کیفیت: ذرا اک دل کے اُوب جانے میں ہے
آنکھ ہونے لگی ہے اب، مدّھم
جاگ اُٹھا ہے، آستیں کا نم
کیا ہو، سینہ شگاف زخموں کا
اب نہ وہ ہاتھ، اب نہ وہ مرہم
کوئی پوچھے، نہ کوئی بتلائے
کیوں ہے خُم خانۂ سخن برہم
اپنی تائید یا مری تردید
تجھ میں کس بات کا ہے سُر پنچم
یہ بھی تجھ مہر کا کرشمہ ہے
ساتھ اب سایہ بھی نہیں ہمدم
مہرباں، قدر داں، محبت ہے
یک و تنہا کیا، نہیں ہے غم
میرے سینے ہی، پھڑپھڑائے کیوں
لشکرِ درد کا، ہر اک پرچم
جستہ جستہ جو زخم تھے، روشن
آج اک لَو میں، ہو گئے مدغم
یہ جو اک لَو ہے، قلب میں روشن
اس کے آ گے، ہواؤں کا دم خم!!
جو وہ نہ چاہے، تو کیا رنگ، اس فسانے میں ہے
کہ لطفِ داستاں: تو، اُس کو ہی سنانے میں ہے
جو کہہ گئے تھے، کسی آرزو کی وحشت میں
وہ حرف حرف، ابھی یاد کے خزانے میں ہے
اُدھیڑ بن میں، گزاری ہے زندگی ساری
خبر اُڑی تھی، کہ وحشت سی تانے بانے میں ہے
میں دے رہا ہوں، قبائے نیاز کو وسعت
یہ میرا شوق، مجھے پھر سے آزمانے میں ہے
کھلا ہے کوئی دریچہ، جو باغ کی جانب
گماں: کسی کو مگر، فصلِ گل کے آنے میں ہے
جو ابتدائے سفر میں، چھڑا گیا تھا ہاتھ
سنا ہے، پھر سے اِدھر راستہ بنانے میں ہے
بِسر نہ پائے، وہ کوچے وہ بام و در اب تک
خیال و خواب سہی، لطف آنے جانے میں ہے
غرض یہاں جو کسی کو ترے بیاں سے ہے
کنایہ اس کا، کسی اور داستاں سے ہے
یہ تیر: کیسا غضب آشنا ہے سینے کا
یہ زخم ساز: کسی اپنی ہی، کماں سے ہے
ثمر یہ شاخِ فلک پر، نیا نیا سا ہے
یہ تازہ تابِ نظر، کون کہکشاں سے ہے
صفا میں اپنی ہے جو، موج موج نور افشاں
یہ دُرِ یکتا، کسی بحرِ بے کراں سے ہے
رواں ہیں اس کے اشارے پہ کشتیاں اپنی
نہ موجِ بحر سے مطلب، نہ بادباں سے ہے
نشان: کرتے ہی رہتے ہیں، حضرتِ ابلیس
غرض جو ان کو، ہمارے ہی امتحاں سے ہے
لپیٹتے ہوئے چلتے ہیں، راستے کی تھکن
ازل گزاروں کو توفیق یہ، وہاں سے ہے
کہ ضرب دیتی ہے جس کی، ہر اک رگِ احساس
وہ ماورائے نظر ہے، تو کس گماں سے ہے
کتنے موسم، خواب ہوئے
کیا کیا خواب، گلاب ہوئے
دن بیتے، راتیں گزریں
ماہ و سال، حساب ہوئے
بھولے ہیں کیا لکھ کر ہم!
کل جو حرف، کتاب ہوئے
ہاتھ کے تھے، دریاب جو تھے
دیکھ تو: کیا، نایاب ہوئے
سوت سے سادا رشتے بھی
اطلس اور کمخواب ہوئے
ابتر اور ارذالِ جہاں
سرخیل و ارباب ہوئے
برسے ہیں، بادل کی طرح
جب جب، تنگ اعصاب ہوئے
دشت کی رکھی لاج کبھی
شہر کبھی سیراب ہوئے
نظر انداز ترے، جانتے ہیں
کہاں آ کر ہیں گھِرے، جانتے ہیں
گلیوں گلیوں ہی کوئی ذکر رہا
کوچہ کوچہ جو پھرے، جانتے ہیں
زمہریری ہیں، رویوں کے عذاب
تیری قربت کے ٹھِرے، جانتے ہیں
جڑ تو جاتے ہیں مگر، بارِ گرہ
ٹوٹے تاگوں کے سرے، جانتے ہیں
خوبیاں خامیاں، ساری میری
جاننے والے مرے، جانتے ہیں
کب یہ تلوارِ معلق احوال
آ کے گردن پہ گرے، جانتے ہیں
کیوں تری رہ کے، شناور سارے
اُلٹے قدموں ہیں پھرے، جانتے ہیں
باغِ دل تیرے، تناور اشجار
کیسے آروں سے چرے، جانتے ہیں
کج ہے گردن جو تری، کج ہے کلاہ
کس کے قدموں پہ گرے، جانتے ہیں
جی میں آئی، جو کہے جاتے ہیں
ہم سے پاگل ہیں نرے، جانتے ہیں
ہوش مندوں کو خبر کیا اس کی
راز جو مست ترے، جانتے ہیں
چل اِسی سائے سائے
شوق جہاں لے جائے
یاد کہاں نہیں آئے
بھُولے اور بھُلائے
ایک نگاہِ غلط
کیا کیا خواب دکھائے
ہار کے ہر بازی
بازی گر کہلائے
ایک اکیلا پن
ساتھ کہاں تک جائے
رسمیں چھوٹ گئیں
رنگ نئے اپنائے
روز نئی وحشت
روز نئے پیرائے
آج خود سے ہے سامنا اپنا
آہ، اک میں ہی دوست تھا اپنا
حرفِ حق ٹھہرے ناروا جس جا
ہو تو کیوں کر وہاں بھلا اپنا
کوئی کیوں جائے اور کے رستے
کیجیے دل کو رہنما اپنا
راز رکھے گئے تھے جو ہم سے
اُن کو دے آئے ہیں پتا اپنا
یوں ہی چپ چاپ اُٹھ نہیں آئے
پیچھے چھوڑ آئے ہیں کہا اپنا
نہ اضطراب، نہ آہٹ کوئی سکوں حاصل
خبر کوئی! کہ ٹھکانہ بدل گیا ہے دل
سوئے حرم ہی رہے تھے قدم، سدا دل کے
صلاتِ عشق ادا کر گیا، ہوا واصل
وہ اپنے آپ میں گم ہے، اُسے نہ ڈھونڈو تم
کہ جانے والا نہیں اپنی راہ سے غافل
خبر ہے شیشہ گراں، کچھ نزاکتِ دل کی
ہے چُور چُور یہ، اپنے مزاج کا حامل
دعا لو اِن کی اگر چاہو عشق رج رہنا
ہیں قبلہ دل مرے، ہجر و وصال میں کامل
(پنجابی غزل)
ہن تھک گیا پرچھاواں
دل کردا، منجی ڈاہواں
جد گلیاں ہویاں سنجیاں
کت راس رچاون چاہواں
فیر پیر نہ رکھن دین
تھک جاون جس پل راہواں
میں آپے اپنا بالن
میں آپ تنور دا تا واں
دن کھیڈن لکن میٹی
اے کھیڈ مکے تے جاواں
(اپنے ہم وطنوں کے نام)
راہ روو، یہ گردِ سفر ہے
گردِ سفر سے، کس کو مفر ہے
دیکھ رہا ہے، یوں تو زمانہ
کیا تجھ پر بھی، تیری نظر ہے
گردش میں ہے، سارا عالم
کیا ہے، تو جو خاک بسر ہے
آئینہ انجام نظر کر
آج جو ہے، کل سے بہتر ہے
ہم سے ہے یہ رنگِ زمانہ
جو ہے اپنا دست نگر ہے
پاؤں توڑ کے بیٹھ نہ راہی
منزل تک کچھ اور سفر ہے
عزم ترا پہچان ہے تیری
جہدِ مسلسل جس کا ثمر ہے
تروینی
O
کاش یوں ہوتا کہ ہم ساتھ نہ ہوتے اپنے
تو جو ملتا کہیں، تنہائی کا شکوہ کرتے
آج اک اور برس بیت گیا اپنے ہی ساتھ
O
اور دو چار قدم ہے جیون
ایک دو موڑ کی ہے اور کتھا
سانس رُک جائے تو آگے کو چلیں
O
جھوٹ سے جھوٹ جلا پاتا ہے
ہے یہ قرنوں سے زمانے کا چلن
سچ کی تنہائی سے باہر کبھی آ
O
میری تنہائیاں ہمراہ مرے رہتی ہیں
اور میں، ساتھ میں رہتا ہوں ہمیشہ ان کے
خوف تنہائی کا تنہا نہیں ہونے دیتا
O
رازِ سر بستہ ہے یہ تیری وفا، میرا خلوص
آ: اِسی لمحۂ غفلت میں بِتا دیں جیون
کس کو آیا ہے یہاں درد جگا کر جینا
O
یہی ڈر رہتا ہے ڈر جاؤں نہ اپنے سے کہیں
آئنہ ہونے نہیں دیتا ہوں، خود کو خود پر
آنکھ بھر کر جو کبھی دیکھا ہو، خود اپنی طرف
O
عشق میں ملتا ہے تسلیم و رضا کا مفہوم
عجز کے داؤ، یہاں رازِ خودی کھلتے ہیں
بھید دیتا ہے بھلا، جھوٹی انا کا کوئی!
O
جان جو لیتا تو، کہہ دینے کا سکھ
شانت ہو جاتا ترے سینے کا شور
دیکھ: بادل کو برس کر جاتے
O
طے نہ کر پایا، گمانوں کا سفر
لوٹ کر آیا نہ واپس بھی مگر
دوریاں دل میں پڑی تھیں اِتنی
O
کیا سے کیا لوگ، ہوئے جاتے ہیں
اُس کے لہجے کی حلاوت پہ نثار
ہم نے بھی زہر پیا ہے، برسوں
O
درد میں اب کے، عجب سا ہی، کرارا پن تھا
خستگی ایسی، کہ لفظوں میں بیاں ہو نہ سکے
زیرِ پا، سوکھی، چٹختی ہوئی، شاخوں کی قسم
O
رابطہ رکھنا نہیں چاہتا میں بھی، لیکن
دور تک کوئی بھی، دم ساز نظر آتا نہیں
سانس کی ڈور بندھی تجھ سے ہے، توڑوں کیسے
O
گزرنا ہو جو اِدھر سے، تو ملنے آؤ کبھی
کباب سینکنے ہیں کچھ، پرانی یادوں کے
تمھارے سینے، ذرا سی تو آنچ ہو گی ابھی
O
ساتھ اک عمر کا تھا، یار فرشتو تم سے !
لمحہ جاتا ہے، کیا ختم تھا سانسوں کا شمار
تم بہی کھاتہ لیے، آن کھڑے ہو سر پر
O
ابھی اُترا نہیں ہے، نور تمام
ابھی باقی ہے، زندگی کا قیام
دم بہ دم ہے، صدائے کُن فیکون
O
تیز نوکیلی ہیں سب، کانچ کے ٹکڑوں جیسی
دھیان سے چھونا انہیں آنکھوں سے، پڑھتے ہوئے تم
میں نے لکھی ہیں وہی باتیں، جو تم نے کی تھیں
O
دل کہ بے تال دھڑک اُٹھتا تھا، دیکھے سے جنہیں
نہ وہ دلدار، نہ وہ، دل ہی رہا سینے میں
ڈھول سا بجتا ہے یوں اب بھی، دھما دھم، دھم دھم
O
بدل گئی ہیں سبھی سُرخیاں، سرِ مژگاں
ضرور دل پہ نئی واردات گزری ہے
بجائے اشک، لہو کھنچ رہا ہے آنکھوں میں
O
دل کی بانی کو دو، جوانی نئی
روز لکھو میاں، کہانی نئی
یعنی جو بات، دل نے ٹھانی نئی
O
خوش گمانی کے اِن جزیروں میں
قید ہو کر ہی رہ نہ جاؤ کہیں
کشتیاں مت جلانا سب اپنی
O
چاند رہنے دے، اُس کے محور پر
رات دن کا سفر یہ، چلنے دے
ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھ، اُسے
O
ٹوٹ کر، خود پہ پیار آیا تھا
کرچیاں اپنی چن رہا ہوں میں
قہر ہے، خود پہ آئنہ ہونا
O
کیا سے کیا عکس ہیں، نہاں اِس میں
پوچھ مت، آئنہ صفت دل کی
عمرو عیار کی ہے، یہ زنبیل
O
تیر و تلوار سہی، وار ترے لہجے کا
کاٹ میں کم نہیں کچھ، سادہ بیانی اپنی
چار آئینہ تو، ملبوس نہیں تیرا بھی
O
کیا سے کیا نقشِ عرصۂ گزراں
چھب دکھاتے ہیں پردۂ دل پر
موند کر تو بھی دیکھ آنکھوں کو
O
پھرتے تھے میرؔ، خوار: کوئی پوچھتا نہ تھا
اک بار آئنے میں، نظرخود پہ پڑ گئی
بچھڑے ہوئے کو بڑھ کے، گلے سے لگا لیا
نظمیں
مٹی
میری مٹی، یہ میرا پاکستان
یہ مری جان، میری جائے امان
اسی مٹی سے، من ایاغ مرا
اسی مٹی سے، گھر چراغ مرا
اسی مٹی سے، نم اُٹھایا میں
اسی مٹی سے، تن جگایا میں
اسی مٹی کی، باس ہے مجھ میں
اسی مٹی کی، چاس ہے مجھ میں
یہی مٹی، غبارِ فن میرا
یہی مٹی، صفا سخن میرا
زندگی کا نصاب، یہ مٹی
سارا جیون حساب، یہ مٹی
انمول بول
بیتی آوازوں کی بوجھل گونج کو
سر سے اُتار
چپ کی گھاٹی سے گزر آ
اور سخن آغاز کر
نطق کو تازہ سخن کی داد دے
گیت گا
بندشوں سے ماورا
کھل کے جو کہنا ہے کہہ
تازہ لے کاری سے اپنی
روح میں پھر سے کھِلا
کچھ نئے انمول بول
امر بیل
ہوئے ہیں مضمحل قویٰ
بدن میں بل نہیں رہا
گرسنہ چشمِ بد نہاد
خواہشوں کی بیل جو
لپٹ رہی ہے
تن بدن سے آج بھی
امر ہے اپنی پیاس میں
ہے شاخ شاخ پر فشاں
نموئے نو کی تاک میں
نہ جانے کس قیاس میں
نقش
کہا ہوا ہی
لکھا گیا تھا
لکھا ہوا ہی
پڑھا گیا تھا
بنا نہ نقشِ یقین
جو کچھ
پڑھا گیا تھا
لکھا گیا تھا
کہا گیا تھا
گل ہے تو اور مہکے
شاخِ بدن پہ اپنی
کچھ روز اور چہکے
مضمحل زباں تیری
دکھ کی داستاں تیری
ثقل اُس سماعت کا
میں نے چہرہ دیکھا ہے
نیم وا دریچوں سے
جھانکتی اُداسی کا
تیری یاوہ گوئی کا
کیا جواب دوں تجھ کو
بک چکا تو، چپ ہو جا
میں: کہ جس رعایت سے
تم سے بات کرتا ہوں
تم سمجھ نہ پاؤ گے
ختم ہونے والا ہے
وقت کا تماشا بھی
دیکھتا گھڑی کیا ہے
دوڑے جا رہے ہو تم
اگلے موڑ سے پہلے
رُک کے سانس لے لینا
خیریت بتائی تھی
حال بھی کہا اُس نے
دل تھما تھا پل بھر کو
دس دن کے کرونا بن باس سے گھر واپسی پر
اپنے گھر میں ہوں
اپنی چہکاروں میں
اپنے بچوں پاس
چپ ہیں یوں کہ کیا کہیے
داغ ہے یہ گویائی
ہم نے دیکھ رکھی ہے
آئینے کی تنہائی
مجھ سے دور کیا ہے تجھ کو
تیری دنیا داری نے
آگ لگے اِس دنیا کو
کشید دل سے ہوئی، تیرے سوزِ غم کی تمام
کہ اب تو ایک بھی آنسو نہیں ہے آنکھوں میں
لہو رُلانے کا شاید کہ اب ارادہ ہو
شب بیتی
آنکھیں پڑھتی ہیں رات کو سپنے
دل کی اندھی کہانیاں، قصے
نیند کی جھیل میں تلاشتی ہیں
وقت نے جو اُچھالے ہیں سکے
رات کی خامشی میں سنتی ہیں
وقتِ گزراں کی آہٹوں میں کہیں
سانس لیتے بشارتی لمحے
اور یہ جلوے نہیں ہیں اک شب کے
روز: محشر بپا یہ ہوتا ہے
جمع ہوتے ہیں دیکھے، ان دیکھے
کچھ گزارے ہوئے، کچھ ان بیتے
سب قضیے، وہ چاہے، ان چاہے
شب گزراں کی کروٹوں میں کہیں
خواب در خواب، جھولتی آنکھیں
نیند کی پائنتی پہ جا پہنچیں
یا کسی خواب کی کگر سے گریں
دیر تک رہتی ہیں پڑی ششدر
اور پھر دن کی تابناکی میں
اپنے آئینہ خانۂ دل میں
ڈھونڈتی ہیں وہ
کھوئی تصویریں
کھولتی ہیں
کتابیں یادوں کی
ربط ان کے
تلاش کرتی ہیں
صفحہ صفحہ، ورق ورق، دن بھر
حرفِ آخر
ڈاکٹر خورشید رضوی
ہر فطری شاعر کی طرح طارق بٹ بھی روزِ اول ہی سے شاعر تھا، مگر اِس حیثیت سے اُس کا ظہور ۱۹۹۷ء میں ’’صدائے موسمِ گل‘‘ کی وساطت سے ہوا جو غزل کے جادۂ دیرینہ پر تازہ روی کی ایک مثال تھی۔ دس برس بعد ’’بدلتی رتوں کی حیرت‘‘ میں غزل کی برجستگی کے پہلو بہ پہلو آزاد نظم کی پختگی و تہ داری نے قارئین کو حیرت میں ڈالا۔
’’کتنے موسم خواب ہوئے‘‘ شاہراہِ سخن پر طارق بٹ کا اگلا نشان قدم ہے۔ یہاں پھر غزل کا غلبہ ہے مگر اختتام نظموں پر ہوتا ہے، جن میں وہ سہ مصرعی تجربہ بھی شامل ہے جسے ہمارے ہاں، ’’ثلاثی‘‘، ماہیا‘‘، ’’ہائیکو‘‘ اور ’’کوثریہ‘‘ کے مختلف عنوان دیئے گئے۔ طارق بٹ نے اِس کے لیے ’’تروینی‘‘ کا پرانا لفظ نئے مفہوم میں استعمال کیا ہے۔
اِس مجموعے میں آہنگ اور لفظ میں اک گونہ اجتہادی روش کا رجحان بھی ملتا ہے، مثلاً فکِّ اضافت کے علاوہ ’’کو‘‘، ’’میں‘‘ اور ’’نے‘‘ جیسے حروف کا حذف۔ تاہم طارق بٹ کے ہاں اساسی طور پر روایت سے بغاوت کا میلان نہیں ملتا۔ چنانچہ مذہبی و معاشرتی اقدار کا تسلسل اُس کے ہاں پائندہ نظر آتا ہے۔ فن میں اُس کا زاویۂ نگاہ، ہر رنگ میں وا ہو جانے سے عبارت ہے، جس کی آئینہ داری آپ کو ہر ہر صفحہ پر ملے گی۔
میاں ہم کو تو سب ہی پانی ہے
کیسی امواج اور کیا گرداب
میں طارق بٹ کے اِس تازہ مجموعے کا خیر مقدم آئندہ کے افق پر اُس کی طرف سے نو بہ نو توقعات کے ساتھ کرتا ہوں۔
(ڈاکٹر) خورشید رضوی
٭٭٭
تشکر: شاعر جنہوں نے فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں