فہرست مضامین
کار، کابلی والا اور الہ دین بے چراغ
مشتاق احمد یوسفی
ڈاؤن لوڈ کریں
آبِ گم ۔۔۔ حصہ سوم
حصہ اول: حویلی (بشمول ’غنودیم غنودیم)
حصہ دوم، سکول ماسٹر کا خواب
حصہ سوم: کار، کابلی والا اور الہ دین بے چراغ
حصہ چہارم: شہرِ دو قصہ
حصہ پنجم: دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ
کار، کابلی والا اور الہ دین بے چراغ
۱
اعصاب پر گھوڑا ہے سوار
علامہ اقبال نے ان شاعروں، صورت نگاروں اور افسانہ نویسوں پر بڑا ترس کھایا ہے جن کے اعصاب پر عورت سوار ہے۔ مگر ہمارے حبیبِ لبیب اور ممدوح بشارت فاروقی ان بدنصیبوں میں تھے جن کی بے داغ جوانی اس شاعر کے کلام کی طرح تھی جس کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ موصوف کا کلام غلطیوں اور لطف دونوں سے پاک ہے! بشارت کی ٹریجیڈی شاعروں، آرٹسٹوں اور افسانہ نویسوں سے کہیں زیادہ گھور گھمبیر تھی۔ اس لئے کہ دُکھیا کے اعصاب پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی سوار رہا۔ سوائے عورت کے۔ اس دور میں جسے ناحق جوانی دیوانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔، ان کے اعصاب پر بالترتیب مُلا، ناصح بزرگ، ماسٹر فاخر حسین، مولوی مظفر، داغ دہلوی، سیگل اور خُسر بزرگوار سوار رہے۔ خدا خدا کر کے وہ اسی ترتیب سے اُن پر سے اُترے تو گھوڑا سوار ہو گیا، جس کا قصہ ہم ” اسکول ماسٹر کا خواب ” میں بیان کر چکے ہیں۔ وہ سبز قدم ان کے خواب، ذہنی سکون اور گھریلو بجٹ پر جھاڑو پھیر گیا۔ روز روز کے چالان، جرمانے اور رشوت سے وہ اتنے عاجز آ چکے تھے کہ اکثر کہتے تھے کہ اگر مجھے چوائس دی جائے کہ تم گھوڑا بننا پسند کرو گے یا اس کا مالک یا اس کا کوچوان تو میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے SPCA کا انسپکٹر بننا پسند کروں گا جو اُن تینوں کا چالان کرتا ہے۔
سنگین غلطی کرنے کے بعد پس بینی hindsight کا مظاہرہ کرنے والوں کی طرح اس کابلی والا (برصغیر کی تقسیم سے قبل تقریباً ہر بڑے شہر میں سُود پر قرضہ دینے والے افغانی بکثرت نظر آتے تھے۔ اُن کی شرحِ سُود بالعموم سو فی صد سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔ اور وصولی کے طریقے اُس سے بھی زیادہ ظالمانہ۔ قرض لینے والے عموماً غریب غُربا اور نوکری پیشہ لوگ ہوتے تھے۔ جس نے اُن سے ایک دفعہ قرض لیا، وہ تا دمِ مرگ سُود ہی ادا کرتا رہتا تھا۔ اور تا دمِ مرگ زرِ اصل اور خان صاحب سر پر جُوں کے تُوں کھڑے رہتے تھے۔ بنگال اور بعض دوسرے علاقوں میں بھی، بیاج پر روپیہ چلانے والے افغانیوں کو کابلی والا کہتے تھے۔ ٹیگور نے اسی عنوان سے ایک خوبصورت کہانی لکھی ہے، جس کا ہمارے قضئے نما قصّے سے کوئی تعلق نہیں۔)
اس زمانے میں چوائس کی بہت بات کرتے تھے۔ مگر چوائس ہے کہاں؟ مہاتما بدھ نے تو دو ٹوک بات کہہ دی کہ اگر چوائس دی جاتی تو وہ پیدا ہونے سے ہی انکار کر دیتے۔ لیکن ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ گھوڑے کو اگر چوائس دی جائے تو وہ اگلے جنم میں بھی گھوڑا ہی بننا پسند کرے گا۔ مہاتما بدھ بننا ہرگز پسند نہیں کرے گا، کیونکہ وہ گھوڑیوں کے ساتھ ایسا سلوک روا نہیں رکھ سکتا جیسے گوتم بدھ نے یشودھرا کے ساتھ کیا۔ یعنی انہیں غافل سوتا چھوڑ کر بیاباں کو نکل جائے یا کسی جاکی کے ساتھ بھاگ جائے۔ گھوڑا کبھی اپنے گھوڑے پن سے شرمندہ نہیں ہو سکتا۔ نہ کبھی اس غریب کو فلک کج رفتار سے شکوہ ہو گا۔ نہ اپنے سوارگردوں رکاب سے کوئی شکایت۔ نہ تن بہ تدبیر، بیسار جُو ماداؤں کے ہرجائی پن کا کوئی گلہ۔ یہ تو آدمی ہی ہے جو ہر دم اپنے آدمی پن سے نادم و نالاں رہتا ہے۔ اوراس کی فکر میں غلطاں کہ۔۔۔
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا تو میں کیا ہوتا
گھوڑا تانگا رکھنے اور اُسے ٹھکانے لگانے کے بعد بشارت میں بظاہر دو متضاد تبدیلیاں رُو نما ہوئیں۔ پہلی تو یہ کہ گھوڑے اور اس کے دور نزدیک کے تمام متعلقات سے ہمیشہ کے لئے نفرت ہو گئی۔ تنہا ایک لنگڑے گھوڑے نے انہیں جتنا نقصان پہنچایا اتنا تمام ہاتھیوں نے مل کر پورس کو نہیں پہنچایا ہو گا۔ دوسری تبدیلی یہ آئی کہ اب وہ سواری کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ آدمی کو ایک دفعہ سواری کی عادت پڑ جائے تو پھر اپنی ٹانگوں سے ان کا فطری کام لینے میں توہین کے علاوہ نقاہت بھی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ان کی لکڑی کی بزنس اب کافی پھیل گئی تھی جسے وہ کبھی اپنی دوڑ دھوپ کا پھل اور کبھی اپنے والدِ بزرگوار کی جوتیوں کا طفیل بتاتے تھے، جبکہ خود والدِ بزرگوار اسے بھاگوان گھوڑے کے قدموں کی برکت پر محمول کرتے تھے۔ بہر صورت، قابلِ غور بات یہ تھی کہ ان کی ترقی کا محرک اور سبب کبھی پیروں اور جوتیوں کی سطح سے اُوپر نہیں گیا۔ کسی نے بلکہ خود انہوں نے بھی ذہانت اور فراست کو اس کا کریڈٹ نہیں دیا۔ لکڑی کی بِکری بڑھی تو دفتروں کے چکر بھی بڑھے۔ اسی قدر سواری کی ضرورت میں اضافہ ہوا۔ اس زمانے میں کمپنیوں میں رشوت نہیں چلتی تھی۔ لہذا کام نکالنے کہیں زیادہ ذلت و خواری ہوتی تھی۔ ہمارے ہاں ایماندار افسر کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ جب تک بے جا سختی، خوردہ گیری اور اڑیل اور سڑیل پن سے سب کو اپنی ایمان داری سے عاجز نہ کر دے، وہ اپنی ملازمت کو پکا اور خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ بے ایمان افسر سے بزنس میں بآسانی نمٹ لیتا ہے، ایمان دار افسر سے اسے ہول آتا ہے۔ چنانچہ صورت یہ تھی کہ کمپنی سے لکڑی اور کھوکھوں کا آرڈر لینے کے لئے پانچ چکر لگائیں تو بل کی وصولی لے لئے دس چکر لگانے پڑتے تھے۔ جب سے کمپنی لیچڑ ہوئیں، انہوں نے دس پہروں کا کرایہ اور محنت بھی لاگت میں شامل کر کے قیمتیں بڑھا دیں۔ ادھر کمپنیوں نے ان کی نئی قیمتوں کو لٹس قرار دے کر دس فیصد کٹوتی شروع کر دی۔ بات وہیں کی وہیں رہی۔ فرق صرف اتنا پڑا کہ ہر دو فریق ایک دوسرے کو لالچی، کائیاں اور چور سمجھ کر لین دین کرنے لگے۔ اور یہ چوکس اور کامیاب بزنس مین کا بنیادی اُصول ہے۔
اب بغیر سواری کے گذر نہیں ہو سکتی تھی۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کون سی سواری موزوں رہے گی۔ ٹیکسی ابھی عام نہیں ہوئی تھی۔ اُس زمانے میں ٹیکسی صرف خاص خاص موقعوں پر استعمال ہوتی تھی۔ مثلاً ہارٹ اٹیک کے مریض کو اسپتال لے جانے، اغوا کرنے، ڈاکہ ڈالنے اور پولیس والوں کو لفٹ دینے کے لیئے۔ اور یہ جو ہم نے کہا کہ مریض کو ٹیکسی میں ڈال کر اسپتال لے جاتے تھے۔ تو فقط یہ معلوم کرنے لے لئے جاتے تھے کہ زندہ ہے کہ مر گیا کیونکہ اُس زمانے میں بھی جناح اور سول اسپتال میں اُنہی مریضوں کا داخلہ ملتا تھا جو پہلے اسی ہسپتال کی کسی ڈاکٹر کے پرائیویٹ کلینک میں Preparatory (ابتدائی) علاج کروا کر اپنی حالت اتنی غیر کر لیں کہ اسی ڈاکٹر کے توسط سے اسپتال میں آخری منزل آسان کرنے کے لئے داخلہ مل سکے۔ ہم اسپتال میں مرنے کے خلاف نہیں۔ ویسے تو مرنے کے لئے کوئی بھی جگہ نا موزوں نہیں، لیکن پرائیویٹ اسپتال اور کلنک میں مرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ مرحوم کی جائیداد، جمع جتھا اور بیکن بیلنس کے بٹوارے پر پسماندگان کے درمیان خون خرابا نہیں ہوتا۔ کیوں کہ وہ سب ڈاکٹروں کے حصے میں آ جاتے ہیں۔ افسوس! شاہ جہاں کے عہد میں پرائیوٹ اسپتال نہ تھے۔ وہ ان میں داخلہ لے لیتا تو قلعہ آگرہ میں اتنی مدّت تک اسیر رہنے اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جینے سے صاف بچ جاتا۔ اور اس کے چاروں بیٹے تخت نشینی کی جنگ میں ایک دوسرے کا سر قلم کرنے کے جتن میں سارے ہندوستان میں آنکھ مچولی کھیلتے نہ پھرتے۔ کیونکہ فساد کی جڑ یعنی سلطنت و خزانہ تو بلوں کی ادائیگی میں نہایت پُر امن طریقے سے جائز وارثوں یعنی ڈاکٹروں کو منتقل ہو جاتا۔ بلکہ انتقالِ اقتدار کے لئے فرسودہ ایشیائی رسم یعنی بادشاہ کے بھی انتقال کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ اس لئے جیتے جی تو ہر حکمران انتقالِ اقتدار کو اپنا ذاتی انتقال سمجھتا ہے۔
چلی سمتِ غرب سے ایک ہوا
بِلوں کی وصولی کے سلسلے میں وہ کئی بار سائیکل رکشا سے بھی گئے۔ لیکن طبیعت ہر بات منغّص ہوئی۔ پیڈل رکشا چلانے والے کو اپنے سے دُگنی راس ڈھونی پڑتی تھی۔ جب کہ خود سواری کو اس سے بھی زیادہ بھاری بوجھ اُٹھانا پڑتا تھا کہ وہ اپنے ضمیر سے بوجھوں مرتی تھی۔ ہمارے خیال میں آدمی کو آدمی ڈھونے کی اجازت صرف دو صورتوں میں ملنی چاہئے۔ اوّل اُس موقعے پر جب دونوں میں ایک وفات پا چکا ہو۔ دوسرے، اُس صورت میں جب دونوں میں سے ایک اُردو نقّاد ہو۔ جس پر مُردے ڈھونا فرض ہی نہیں ذریعہ معاش اور وجہ شہرت بھی ہو۔ دو دفعہ بسوں کی ہڑتال کے دوران بشارت کو سائیکل پر بھی جانا پڑا۔ ان پر انکشاف ہوا کہ کراچی میں بارہ ماسی بادۂ مخالف کے سبب سائیکل اور سیاست دس قدم بھی نہیں چل سکتی۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوا گویا سارا شہر ایک بگولے کی آنکھ میں بسا دیا گیا ہے۔ اب اسے مغرب سے چلنے والی سمندری ہوا کی کینہ پروری کہئے یا کراچی والوں کی شومیِ قسمت، آپ سیاست میں، یا سائیکل پر کسی بھی سمت نکل جائیں، آپ کو ہوا ہمیشہ مخالف ہی ملے گی۔ ہر دو عمل ایسے ہی ہیں جیسے کوئی آندھی میں پتنگ اُڑانے کی کوشش کرے۔
خود کشی غریبوں کی دسترس سے باہر
ایک آدھ دفعہ خیال آیا کہ بسوں میں دھکے کھانے اور اسٹرپ ٹیز کروانے سے تو بہتر ہے کہ آدمی موٹر سائیکل خرید لے۔ موٹر سائیکل رکشا کا خیال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے کہ تین پہیوں پر خود کشی کا یہ سہل اور شرطیہ طریقہ ابھی رائج نہیں ہوا تھا۔ اس زمانے میں عام آدمی کو خود کشی کے لئے طرح طرح کی صعوبتیں اُٹھانا اور کھکھیڑ اُٹھانی پڑتی تھیں۔ گھروں کا یہ نقشہ تھا کہ ایک ایک کمرے میں دس دس اس طرح ٹھُنسے ہوتے کہ ایک دوسرے کی آنتوں کی قراقر تک سُن سکتے تھے۔ ایسے میں اتنا تخلیہ کہاں نصیب کہ آدمی پھانسی کا پھندا کڑے میں باندھ کر تنہا سکون سے لٹک جائے۔ علاوہ ازیں، کمرے میں ایک ہی کڑا ہوتا تھا جس میں پہلے ہی ایک پنکھا لٹکا ہوتا تھا۔ گرم کمرے کے مکین اس جگہ کسی اور کو لٹکنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ رہے پستول اور بندوق، تو اُن کے لائسنس کی شرط تھی۔ جو صرف امیروں، وڈیروں اور افسروں کو ملتے تھے۔ چنانچہ خودکشی کرنے والے ریل کی پٹری پر دن بھر بھر لیٹے رہتے کہ ٹرین بیس بیس گھنٹے لیٹ ہوتی تھی۔ آخر غریب موت سے مایوس ہو کر کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑے ہوتے۔
موٹر سائیکل میں بشارت کو سب سے بڑی قباحت یہ نظر آئی کہ موٹر سائیکل والا سڑک کے کسی بھی حصے پر موٹر سائیکل چلائے، محسوس یہی ہو گا کہ وہ غلط جا رہا ہے۔ ٹریفک کے حادثات کے اعداد و شمار پر ریسرچ کرنے کے بعد ہم بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارے ہاں پیدل چلنے والے اور موٹر سائیکل چلانے والے کا نارمل مقام ٹرک اور منی بس کے نیچے ہے۔ دوسری مصیبت یہ ہے کہ ہم نے آج تک کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو پانچ سال سے کراچی میں موٹر سائیکل چلا رہا ہو اور کسی حادثے میں ہڈی پسلی نہ تڑوا چکا ہو۔ مگر ٹھہریئے۔ خوب یاد آیا۔ ایک شخص بے شک ایسا ملا جو سات سال سے کراچی میں بغیر ایکسیڈنٹ کے موٹر سائیکل چلا رہا تھا۔ مگر وہ صرف موت کے کنویں (Well Of Death) میں چلاتا تھا۔ تیسری قباحت اُنہیں یہ نظر آئی کہ میں ہول بناتے وقت کراچی میونسپل کارپوریشن دو باتوں کا ضرور لحاظ رکھتی ہے۔ اوّل یہ کہ وہ ہمیشہ کھُلے رہیں تاکہ ڈھکنا دیکھ کر چوروں اور اُچکوں کو خواہ مخواہ یہ تجسّس نہ ہو کہ نہ جانے اندر کیا ہے۔ دوم، دہانہ اتنا چوڑا ہو کہ موٹر سائیکل چلانے والا اس میں اندر تک بغیر کسی رُکاوٹ کے چلا جائے۔ آسانی کے ساتھ۔ تیز رفتاری کے ساتھ۔ پیچھے بیٹھی سواری کے ساتھ۔
خر گزشت
ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال اُٹھے کہ جب ہر سواری کے ساتھ حسن و قبح پر باقاعدہ غور اور آپ سے مشورہ کیا گیا تو گدھے اور گدھا گاڑی کو کیوں چھوڑ دیا گیا۔ ایک وجہ تو وہی ہے جو معاً آپ کے ذہن میں آئی۔ دوسری یہ کہ جب سے ہم نے گدھے پر چیسٹرنن کی معرکہ آرا نظم پڑھی ہم نے اس جانور پر ہنسنا اور اسے حقیر سمجھنا چھوڑ دیا۔ گیارہ برس لندن میں رہنے کے بعد ہم پر بالکل واضع ہو گیا کہ مغرب میں گدھے اور الّو کو گالی نہیں سمجھا جاتا۔ بالخصوص الّو تو علوئے فکر اور دانائی کا سمبل ہے۔ یہاں اوّل تو کوئی ایسا نہیں ملے گا جو صحیح معنوں میں الّو کہلوانے کا مستحق ہو۔ لیکن اگر کسی کو الّو کہہ دیا جائے وہ اپنے جامے بلکہ اپنے پروں میں پھُولا نہ سمائے گا۔ لندن کے چڑیا گھر میں الّوؤں کے کچھ نہیں تو پندرہ پنجرے ضرور ہوں گے۔ ہر بڑے مغربی ملک کا نمائندہ الّو موجود ہے۔ ہر پنجرہ اتنا بڑا جتنا اپنے یہاں شیر کا ہوتا ہے۔ اور ہر الّو اتنا بڑا جتنا اپنے یہاں کا گدھا۔ اپنے یہاں کا الّو تو ان کے سامنے بالکل ہی الّو معلوم ہوتا ہے۔ انگلینڈ میں عینک سازوں کی سب سے بڑی کمپنی Donald Aitcheson کا logo (تجارتی نشان) الّو ہے جو اُن کے سائن بورڈ۔ لیٹر ہیڈ اور بلوں پر بنا ہوتا ہے۔ اسی طرح امریکہ کے ایک بڑے اسٹاک بروکر کا ” لوگو” الّو ہے۔ یہ محض سُنی سُنائی بات نہیں ہم نے خود ڈانلڈ ایچسن کی عینک لگا کر اسٹاک بروکر مذکور کے مشورے اور پیش گوئی کے مطابق کمپنی شیئرز (حصص) اور بونڈ کے تین چار "فارورڈ” سودے کیے، جن کے بعد ہماری صورت دونوں کے لوگو سے ملنے لگی۔
سابق پریسیڈنٹ کارٹر کی ڈیمو کریٹک پارٹی کا نشان گدھا تھا۔ بلکہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ پارٹی پرچم پر بھی یہی بنا ہوتا ہے۔ اسی پرچم تلے پُوری امریکن قوم ایران کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی رہی۔ ہمارا مطلب ہے بے حس و حرکت۔ مغرب کو گدھے میں کوئی مضحکہ خیز بات نظر نہیں آتی۔ فرانسیسی مفّکر اور انشائیہ نگار مونتین تو اس جانور کے اوصافِ حمیدہ کا اس قدر معترف اور معرّف تھا کہ ایک جگہ لکھتا ہے کہ "روئے زمین پر گدھے سے زیادہ پُر اعتماد، مستقل مزاج، گمبھیر، دنیا کو حقارت سے دیکھنے والا اور اپنے ہی دھیان اور دھُن میں مگن رہنے والا اور کوئی ذی روح نہیں ملے گا۔” ہم ایشیائی در اصل گدھے کو اس لئے ذلیل سمجھتے ہیں کہ اس میں کچھ انسانی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ اپنی سہار اور بساط سے زیادہ بوجھ اُٹھاتا ہے اور جتنا زیادہ پٹتا اور بھوکوں مرتا ہے۔ اتنا ہی اپنے آقا کا مطیع و فرماں بردار اور شُکر گذار ہوتا ہے۔
بے کار مباش
سواریوں کے حسن و قبح پر مدلّل بحث سے صرف یہ دکھانا مقصود تھا کہ بشارت نے ظاہر یہ کیا کہ وہ فقط استدلال اور ردّ و قبول کے عمل سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کار خریدنا، کاروباری ضرورت سے زیادہ ایک منطقی تقاضا ہے اور خدا نخواستہ نہ خریدی تو کاروبار تو ٹھپ ہو گا سو ہو گا۔ منطق کا خون ہو جائے گا اور ارسطو کی روح جنت میں۔ یا جہاں کہیں بھی وہ ہے، تڑپ اُٹھے گی۔ جب کہ حقیقت اس کے بر عکس تھی۔ انہیں زندگی میں جس شے کی کمی شدّت سے محسوس ہونے لگی تھی، وہ در اصل کار نہیں اسٹیٹس سمبل تھا۔ جب کوئی شخص دوسروں کو قائل کرنے کے لئے زور شور سے فلسفہ اور منطق بگھارنے لگے تو سمجھ جایئے کہ اندر سے وہ بے چارہ خود بھی ڈھلمل ہے، اور کسی ایسے جذباتی اور نا معقول فیصلے کا عقلی جواز اور توجیہ تلاش کر رہا ہے جو وہ بہت پہلے کر چکا ہے۔ ہنری ہشتم نے تو محض اپنی ملکہ کو طلاق دینے اور دوسری عورت سے شادی رچانے کی خاطر پاپائے روم سے قطع تعلق کر کے ایک نئے مذہب کی داغ بیل ڈال دی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انگلینڈ کے مذہب یعنی چرچ آف انگلینڈ کی بنیاد ایک طلاق پر رکھی گئی تھی۔ مرزا کہتے ہیں کہ فی زمانہ نئے مذہب کی ایجاد کا اس سے زیادہ معقول جواز اور ہو بھی نہیں سکتا۔
۲
بیوہ میم کی مسکراہٹ کی قیمت
بشارت کافی عرصے سے سیکنڈ ہینڈ کار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے کہ ایک دن خبر ملی کہ ایک برٹش کمپنی کے ایک انگریز افسر کی چھ سلینڈر کی بہت بڑی کار بکاؤ ہے۔ افسر کا دو مہینے پہلے قبل اچانک انتقال ہو گیا تھا اور اب اس کی جوان بیوہ اسے اونے پونے ٹھکانے لگانا چاہتی تھی۔ بشارت نے بیوہ کو ایک نظر دیکھتے ہی فیصلہ کر لیا کہ وہ اس کار کو جسے انہوں نے ہنوز دور سے بھی دیکھا نہیں تھا۔ خرید لیں گے۔ وہ اس کمپنی کو تین سال سے چیز کے پیکنگ کیس اور لکڑی سپلائی کر رہے تھے۔ کمپنی کے پارسی چیف اکاؤنٹنٹ نے کہا کہ آپ یہ کار 11۔ 10۔ 3483 روپے میں لے جایئے۔ ممکن ہے پڑھنے والوں کو یہ رقم اور آخری پائی تک کی باریکی عجیب لگے، مگر بشارت کو عجیب نہیں لگی۔ اس لئے وہ رقم تھی جو کمپنی ایک عرصے سے اس بہانے سے دبائے بیٹھی تھی کہ انہوں نے ناقص کھوکھے سپلائی کیے جس کی وجہ سے چنیوٹ اور سیالکوٹ میں سیلاب کے دوران کمپنی کے سارے مال کی لگدی بن گئی، بشارت کہتے تھے کہ میں نے بارہ بارہ آنے میں چیڑ کے کھوکھے سپلائی کیے تھے، آبدوز یا کشتیِ نوح نہیں۔ کمپنی کے کھسیانے افسر Act Of God (آفت سماوی) کا الزام عاجز پر لگا رہے تھے۔
خوبصورت میم نے، جس کے بیوہ ہونے سے وہ نا خوش تھے۔ لیکن جسے بیوہ کہتے ہوئے ان کا کلیجہ منہ کو آتا تھا، یہ پخ اور لگا دی کہ تین مہینے بعد جب وہ Batori جہاز سے لندن جائے گی تو اس کے سامان کی پیکنگ کے لیے مفت کریٹ مع کیلوں اور ترکھان کے سپلائی کرنے ہوں گے۔ اس شرط کو انہوں نے نہ صرف منظور کیا، بلکہ اپنی طرف سے یہ اور بھی اضافہ کیا کہ میں روزانہ آپ کے بنگلے میں آ آ کر آپ کی اور اپنی نگرانی میں خود بنفسِ نفیس (بنفس نفسانی؟) پیکنگ کراؤں گا۔ بشارت نے چیف اکاؤنٹنٹ سے کہا کہ کار بہت پرانی ہے۔ 2500 میں مجھے دے دو۔ اس نے جواب دیا کہ منظور، بشرطیکہ آپ اپنے ناقص کھوکھوں کا بل گھٹا کر 2500 کر دیں۔ بشارت نے میم سے فریاد کی کہ "قیمت بہت زیادہ ہے۔ کہہ سن کے کچھ کم کرا دو” اس کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے اتنی حاشیہ آرائی اور کر دی کہ "غریب آدمی ہوں۔ تلے اوپر کے سات آٹھ بچے ہیں۔ ان کے علاوہ تیرہ بھائی بہن مجھ سے چھوٹے ہیں۔”
یہ سُنتے ہی میم کے چہرے پر حیرت، ہمدردی اور ستائش کا ملا جلا ایکسپریشن آیا۔ کہنے لگی۔
” Oh! dear, dear I see what you mean , your parents too were poor but passionate.”
اس پر انہیں بہت طیش آیا۔ جواباً یہ کہنا چاہتے تھے کہ تم میرے باپ تک کیوں جاتی ہو؟ لیکن اس جملے کی با محاورہ انگریزی نہیں بنی اور جو لفظی ترجمہ معاً ان کی زبان پر آتا آتا رہ گیا۔، اس پر انہیں خود ہنسی آ گئی۔ انہوں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ اب کبھی اپنے بچوں اور بھائی بہنوں کی تعداد بتانے میں مبالغے سے کام نہیں لیں گے، سوائے راشن کارڈ بنواتے وقت۔ اتنے میں میم بولی کہ "ان داموں میں یہ کار مہنگی نہیں۔ اس سے تو زیادہ میرے شوہر کے ٹیک (ساگوان) کے تابوت کی لاگت آئی تھی”۔ اس پر سیلزمین شپ کے جوش میں بشارت کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا کہ ” میڈم! آئندہ آپ بالکل یہ چیز ہم سے آدھے داموں میں لے لیجیے گا” میم مُسکرا دی اور سودا پکا ہو گیا۔ یعنی 3483 روپے، دس آنے اور گیارہ پائی میں کار ان کی ہو گئی۔
اس واقعے کا دل پر ایسا اثر ہوا کہ آئندہ کسی گاہک کے نام کے بل بناتے تو یہ لحاظ ضرور رکھتے کہ کم سے کم قیمت پر مال بیچیں تاکہ کم سے کم رقم ڈُوبے۔ اور اگر مرحوم نا دہند کی حسین بیوہ سے رقم کے عوض کوئی چیز لینی پڑے تو کم سے کم داموں میں ہاتھ لگے جائے۔
میں خود نہیں آئی، لائی گئی ہوں!
بشارت اس زعم میں مبتلا تھے کہ انہوں مے سستے داموں میں کار خریدی ہے جب کہ حقیقت یہ تھی کہ انہوں نے اپنے کھوکھے گھاٹ سے بچائے تھے۔ لیکن خوش فہمی اور مغالطے سے دل خوش ہو جائے تو کیا حرج ہے۔ مرزا اسی بات کو اپنے بقراطی انداز میں یوں کہتے ہیں کہ ہم نے باون گز گہرے ایسے اندھے کنویں بھی دیکھے ہیں جو سمجھے تھے کہ وہ خود کو اوندھا دیں یعنی سر کے بل اُلٹے کھڑے ہو جائیں تو باون گز کے مینار بن جائیں۔ بہر کیف، بشارت نے Beige رنگ کی کار خرید لی۔ وہ انتہائی منکسر مزاج ہیں۔ چنانچہ دوستوں سے یہ تو نہیں کہا کہ ہم بھی کار والے ہو گئے۔ البتہ اب ایک ایک سے کہتے پھر رہے ہیں کہ آپ نے بیژ رنگ دیکھا ہے؟ ہر شخص نفی میں گردن ہلا دیتا۔ فرماتے، "صاحب انگریز نے عجب رنگ ایجاد کیا ہے۔ اُردو میں بھی کوئی نام نہیں۔ نمونہ حاضرِ خدمت کروں گا۔”
کار خریدتے ہی وہ بے حد سوشل ہو گئے۔ اور ایسے لوگوں کے گھر بھی بیژ رنگ کا نمونہ دکھانے کے لئے لے جانے لگے جن سے وہ عید بقر عید پر بھی ملنے کے روادار نہیں تھے۔ جو دوست احباب یہ عجوبہ ان کے گھر دیکھنے آتے، انہیں مٹھائی کھلائے بغیر نہیں جانے دیتے تھے۔ اسی مبارک سلامتی میں ایک مہینہ گذر گیا۔ ایک دن ایک دوست کے ہاں کار کی رُو نمائی کروانے جا رہے تھے کہ وہ آدھے راستے میں ہچکولے کھانے لگی۔ پھر اس پر کالی کھانسی کا دورہ پڑا۔ حبسِ دم کے سبب دھڑکن ہلکی ہلکی سنائی دیتی۔ کبھی بالکل غائب۔ خیال ہوا مَکر کیے پڑی ہے۔ دفعتاً سنبھالا لیا۔ ہیڈ لائیٹ میں ایک لحظے کے لیے روشنی آئی۔ ہارن نے کچھ بولنا چاہا، مگر نقاہت مانع ہوئی۔ چند لمحوں بعد دھکڑ دھکڑ دھک دھک دھوں کر کے جہاں کھڑی تھی وہیں انجر پنجر بکھیر کر ڈھیر ہو گی۔ Radiator کے ایک سرے سے بھاپ اور دوسرے سے تلل تلل پانی نکلنے لگا۔ گدھا گاڑی سے کھنچوا کر گھر لائے۔ مستری کو بُلا کر دکھایا۔ اس نے بونٹ کھولتے ہی تین دفعہ دائیں ہاتھ سے اپنا ما تھا پیٹا۔ بشارت نے پوچھا، خیر تو ہے؟ بولا بہت دیر کر دی۔ اس میں تو کچھ نہیں رہا۔ سب پرزے جواب دے چکے ہیں۔ آپ کو مجھے چھ مہینے پہلے بُلانا چاہئے تھا۔ بشارت نے جواب دیا کہ بلاتا کہاں سے۔ خریدے ہوئے کل ایک مہینہ ہوا ہے۔ بولا، تو پھر خریدتے وقت پوچھنا ہوتا۔ آدمی صراحی بھی خریدتا ہے تو پہلے ٹن ٹن بجا کر دیکھ لیتا ہے۔ یہ تو کار ہے۔ آپ زیادہ خرچ نہیں کرنا چاہتے تو فی الحال کام چلاؤ۔ مرمت کیے دیتا ہوں۔ بزرگ کہہ گئے ہیں کہ آنکھوں گوڈوں میں پانی اُتر آئے تو معجون اور چمپی مالش کارگر نہیں ہوتی۔ پھر تو لاٹھی بیساکھی چاہئے۔ بشارت کو یہ بے تکلفی بہت ناگوار گذری، مگر غرض مند صرف آئینے کا منہ چڑا سکتا تھا۔
اس کے بعد کار مستقل خراب رہنے لگی۔ کوئی پرزہ درست نہیں ہوتا تھا۔ صرفRear View Mirror یعنی پیچھے آنے والا ٹریفک دکھانے والا آئینہ صحیح کام کر رہا تھا۔ بعض اوقات کار کی رفتار گدھا گاڑی سے بھی زیادہ سُست ہو جاتی، جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اسی میں باندھ کر کشاں کشاں لائی جاتی تھی۔
میں خود نہیں آئی، لائی گئی ہوں
کار اسٹارٹ کرنے سے پہلے وہ گدھا گاڑی کا کرایہ اور باندھنے کے لئے رسی وغیرہ ضرور رکھ لیتے تھے۔ اس مشینی جنازے کو گلیوں میں کھنچنے پھرنے کا عمل جسے وہTow کرنا کہتے تھے، اس کثرت سے دہرایا گیا کہ گھر میں کسی نیفے میں کمر بند اور چارپائی میں ادوان نہ رہی۔ اور ثانی الذکر پر سونے والے رات بھر کروٹ کروٹ جھولا جھولنے لگے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک دن بنارس خاں چوکیدار کی بکری کی زنجیر کھول لائے۔ مرزا کہتے ہی رہ گئے کہ جو زنجیر بالشت بھر کی بکری کو، جو تین دفعہ "ہری” (اُمید سے) ہو چکی ہے، قابو نہ رکھ سکی، جو تمہاری بے کہی کار کو کیا خاک باندھ کر کے رکھے گی۔
۳
ہر فن (مست) مولا: الٰہ دین بے چراغ
(الہ دین بے چراغ: بشارت کے ضعیف اور دائم المرض والد کو نام یاد نہیں رہتے تھے۔ لہٰذا وہ ہر نوکر کو الٰہ دین کہہ کر بلاتے تھے۔ یہ الٰہ دین نہم تھا، جس کا مفصًل تعارف ہم "اسکول ماسٹر کا خواب” میں کرا چکے ہیں۔ خود کو ہر فن میں طاق سمجھتا تھا۔ مگر اس کا نام بگڑ جاتا تھا۔ اکثر کہتا تھا کہ میرے ہاتھ میں جادو ہے۔ سونے کو چھولوں تو پیتل ہو جائے۔ مرزا اسے طنزاً الٰہ دین بے چراغ کہتے تھے۔)
ڈرائیور کا مسئلہ خود بخود اس طرح حل ہو گیا کہ مرزا وحید الزماں بیگ عرف خلیفہ نے جو کچھ عرصے پہلے ان کا تانگا چلا چکا تھا، (جس کا مفصّل حال ہم "اسکول ماسٹر کا خواب” میں بیان کر چکے ہیں) خود کو اس خدمت پر مامور کر لیا۔ تنخواہ البتہ دُگنی مانگی جس کا جواز یہ پیش کیا کہ پہلے آدھی تنخواہ پر اس لیے کام کرتا تھا کہ گھوڑے کا دانہ چارا خود بازار سے لاتا تھا۔ پہلے پہل کار دیکھی تو بہت خوش ہوا، اس لیے کہ اس کی لمبائی گھوڑے سے تین ہاتھ زیادہ تھی۔ دوسرے، اس پر صبح شام کھریرا کرنے کا جھنجھٹ نہیں تھا۔ آبائی پیشہ حجامی، لیکن وہ ہر فن مولا نہیں، ہر فن مست مولا تھا۔ دنیا کا کوئی کام ایسا نہیں تھا جو اُس نے نہ کیا ہو اور بگاڑا نہ ہو۔ کہتا تھا جس زمانے میں وہ برما فرنٹ پر جاپانیوں کو شکست دے رہا تھا، تو ان کی سرکوبی سے جو وقت بچتا، جو کہ بہت کم بچتا تھا، اس میں فوجی ڈرائیونگ کیا کرتا تھا۔ اس کی سواریوں نے کبھی اس کی ڈرائیونگ پر ناک بھوں نہیں چڑھائی۔ بڑے سے بڑا ایکسیڈنٹ بھی ہوا تو کسی سواری کی موت واقع نہیں ہوئی، جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ گوروں کی میّت گاڑی چلاتا تھا۔ جو شیخی بھری کہانیاں وہ سناتا تھا ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ رجمنٹ کے مرنے والوں کو اتھلی قبر تک پہچانے اور جو فی الحال نہیں مرے تھے ان کی حجامت کے فرائض اس نے اپنی جان پر کھیل کھیل کر انجام دیئے۔ اس بہادری کے صلے میں اسے ایک کانسی کا میڈل ملا تھا جو 1947 ء کے ہنگاموں میں ایک سردار جی نے کرپان دکھا کر چھین لیا۔
ایسے اَنا بھرے غباروں میں سوئی چبھونا چنداں ضروری نہیں۔ البتہ اتنی تصدیق ہم بھی کر سکتے ہیں کہ جب سے اُس نے سُنا ہے کہ بشارت کار خریدنے والے ہیں، اس نے گل بادشاہ خان ٹرک ڈرائیور سے کار چلانی سیکھ لی۔ مگر یہ ایسا ہی تھا جیسے کوئی لوہار کی شاگردی اختیار کر کے سنار کا کام شروع کر دے۔ ڈرائیونگ ٹیسٹ اس زمانے میں ایک اینگلو انڈین سارجنٹ لیا کرتا تھا جس کے سارے کنبے کے بال وہ پانچ چھ سال سے کاٹ رہا تھا۔ خلیفہ کا اپنا بیان تھا کہ ” سارجنٹ نے جناح کورٹ کے پاس والے میدان میں میرا ٹیسٹ لیا، ٹیسٹ کیا تھا، فقط ضابطے کی خانہ پری کہیے۔ بولا , Well Caliph! کار سے انگلش کا Figure of 8 بنا کر دکھاؤ۔ صرف اس ایریا میں، جہاں ہم یہ لال جھنڈی لیے کھڑا ہے۔ اس لائن کو کراس نئیں کرنا۔ 8 ایک دم ریورس میں بنانا مانگٹا۔ یہ سنتے ہی میں بھچک رہ گیا۔ ریورس کرنا میں نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ گل خان بادشاہ سے میں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ استاد مجھے ریورس میں چلانا سیکھا دو۔ وہ کہنے لگا کہ یہ میرے اُستاد نے نہیں سکھایا۔ نہ کبھی اس کی ضرورت پڑی۔ میرا استاد چنار گل خان بولتا تھا کہ شیر۔ ہوائی جہاز، گولی، ٹرک اور پٹھان ریورس گئیر میں چل ہی نہیں سکتے۔
میں نے اپنے دل میں کہا کہ چقندر کی دُم! میں انگلش کا 8 کا ہندسہ بنا سکتا تو تیرے جیسے بھالو کی حجامت کائے کو کرتا۔ غلام محمد گورنر جنرل کی چمپی مالش کرتا۔ کیا بتاؤں۔ اس گُنے گار نے کیسے کیسے پاپڑ بیلے ہیں۔ جی جی ہاؤس میں مالی کا کام بھی کیا ہے۔ ہتھیلی پر سرسوں تو نہیں اُگائی، البتہ کرانچی میں، کیا نام اس کا۔ ٹیولپ اُگا کر دکھایا ہے۔ پر بڑے آدمیوں کی کوٹھیوں میں پھولوں کو کوئی نگاہ بھر کر نہیں دیکھتا۔ بس مالی خود ہی پھول اگاتے ہیں اور خود ہی دیکھ دیکھ کر خوش ہو لیتے ہیں۔ ہدایت اللہ بیرا میرے کو بولتا تھا کہ جی جی صاحب کا ہر عضو مفلوج ہو گیا ہے۔ زبان بھی۔ اس حالیت میں ہر آئے گئے کو مادر پدر کرتا رہتا ہے۔ پر آدمی ہے نر۔ چھوٹوں پر گالی ضائع نہیں کرتا۔ جیسے جیسے طاقت جواب دے رہی ہے، گالی اور زبان اور موٹی ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی بات اب صرف اس کا خدمت گار بیرا اس کے منہ سے اپنا کان بھڑا کر سنتا اور سمجھتا ہے۔ وہی اس کی پنجابی گالی کا دلّی والوں کی اردو میں تجرمہ کر کے قدرۃ اللہ شہاب صاحب کو بتاتا ہے۔ وہ فٹافٹ اس کا انگریزی تجرمہ کر کے جی جی کی امریکی سکریٹری مس روتھ مورل کو بتاتے ہیں۔ پھر وہ پٹاخہ، فارینر لوگوں اور وزیروں سفیروں کو کولھے مٹکا مٹکا کر بتاتی ہے کہ جی جی صاحب کہہ رہے ہیں کہ آپ سے مل کر بہت جی خوش ہوا۔ کئی دفعہ چاہا کہ جی جی کو اپنی مالش سے ٹھیک کر دوں۔ دو منٹ میں ناف اور رگ پٹھے ایسے بٹھا دوں کہ ہرن کے موافق قلانچیں بھرتا پھرے۔ پر یہ سوچ کے چپ ہو رہا کہ کل کلاں کو وہ فوت ہو گیا، جو کہ اسے ہونا ہے، تو مجھے جیل، اور تیل کی بوتل کو معائنے کے لئے بھیج دیں گے۔”
تو جنابِ عالی سارجنٹ نے اپنے بُوٹ سے زمین پر 8 بنا کر دکھایا۔ لاحول ولا قوۃ! میں بے فضول ڈر گیا تھا۔ اب پتا چلا کہ سائیسی میں اٹیرن کہتے ہیں اسے انگریزی میں فگر آف 8 کہتے ہیں۔ جنگلی گھوڑے کو سدھانے اور اس کی ساری مستی نکالنے کے لئے اسے تیزی سے دو گھری پرت چکر دینے کو اٹیرن کہتے ہیں۔ تو گویا ڈرائیونگ ٹیسٹ کا یہ مقصد ہے! پر میں کچھ نہیں بولا۔ بس جل تو جلال تو کہہ کے ریورس میں 8 کے بجائے کسے ہوئے ازار بند کی گرہ بنانے لگا کہ یکایک پیچھے سے سارجنٹ کے چیخنے چلانے کی آوازیں آئیں۔ اسٹاپ! اسٹاپ! یو ایڈیٹ! وہ اپنی جان بچانے کے لئے کار کے بمپر پہ لال جھنڈی لیے چڑھ گیا تھا، ازار بند کی گرہ میں لپٹتے لپٹتے یعنی کار کے نیچے آتے آتے بچا۔ میں نے کہا، سر دوبارہ ٹیسٹ کے لئے آ جاؤں؟ مگر اس نے دوبارہ ٹیسٹ لینا مناسب نہ سمجھا۔ دوسرے دن آپ کے غلام کو لائسنس مل گیا۔”
"آپ کی جوتیوں کے طفیل ہر فن میں طاق ہوں مجھے کیا نہیں آتا۔ جراحی بھی کی ہے۔ ایک آپریشن بگڑ گیا تو کان پکڑے۔ ہوا یوں کہ میرا دوست الّن اپنی ماموں زاد بہن پر دل و جان سے فریفتہ تھا۔ پر وہ کسی طور شادی پر رضا مند نہیں ہوتی تھی۔ نہ جانے کیوں الّن کو یہ وہم ہو گیا کہ اس کی بائیں ران پر جو مسّا ہے۔ اس کی وجہ سے شادی نہیں ہو رہی۔ میں نے وہ مسّا کاٹ دیا۔ ناسور بن گیا۔ وہ لنگڑا ہو گیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، میں نے سرجری نہیں کی۔ وہ لڑکی آخر کے تئیں میری زوجہ بنی۔ میری دائیں ٹانگ پر مسّا ہے۔
ماحول پر لاحول اور مارکونی[1] کی قبر پر
کار متعدّد اندرونی و غیر اندرونی، خفیہ اور اعلانیہ امراض میں مبتلا تھی۔ ایک پُرزے کی مرمت کرواتے تو دوسرا جواب دے دیتا۔ جتنا پیٹرول جلتا، اتنا موبل آئل۔ اور ان دونوں سے دُگنا اُن کا اپنا خون جلتا۔ آج کلچ پلیٹ جل گئی تو کل ڈائی نمو بیٹھ گیا۔ اور پرسوں گئیر بکس بدلوا کر لائے تو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی سیٹ کے نیچے کدال چلا رہا ہے۔ خلیفہ نے تشخیص کی کہ صاب! اب یونیورسل اڑی کر رہا ہے۔ پھر بریک گڑبڑ کرنے لگے۔ مستری نے کہا، ماڈل بہت پُرانا ہے۔ پُرزے بننا بند ہو گئے۔ آپ کہتے ہیں تو مرمت کر دوں گا، مگر مرمت کے بعد بریک یا تو مستقل لگا رہے گا۔ یا مستقل کھُلا رہے گا۔ سوچ کر دونوں میں سے چوز کر لیجئے۔ دو ہفتے بعد خلیفہ نے اطلاع دی کہ کار کے Shock Observers ختم ہو گئے ہیں۔ وہ Shock Absorbers کو Shock Observers کہتا تھا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اب وہ شاک روکنے کے لائق نہیں رہے تھے۔ جہاں دیدہ بڑے بوڑھے کی مانند ہو گئے تھے جو کسی نیم تاریک کونے یا زینے کے نیچے والی تکونی بخاری میں پڑے پڑے صرف Observe کر سکتے ہیں۔ جو نا خلف دکھائیں سو نا چار دیکھنا۔ یہ مقام خود شناسی اور دانائی کا ہے۔ جب انسان بچشمِ خود لغو سے لغو حرکت اور کرتوت دیکھ کر نہ آزردہ ہو، نہ طیش میں آئے اور نہ ماحول پر لاحول پڑھے تو اس کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں۔ پہلے ہم دوسری وجہ بیان کریں گے۔ وہ یہ کہ اب وہ جہاں دیدہ بردبار اور در گزر کرنے والا ہو گیا ہے۔ اور پہلی وجہ یہ کہ وہ حرکت اسں کی اپنی ہی ہو۔
ایک دن گیارہ بجے دن کو ظریف جبل پوری کے مکان واقع ایلومینیم کوارٹرز سے واپسی میں گورا قبرستان کے سامنے سے گذر رہے تھے کہ اچانک ہارن کی آواز میں رعشہ پیدا ہوا۔ گھنگرو سا بولنے لگا۔ خود اُن کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا کہ ہیڈ لائیٹ کی روشنی جا چکی تھی۔ خلیفہ نے کہا ” جنابِ عالی! بیٹری جواب دے رہی ہے ” انہیں تعجب ہوا، اس لئے کہ وہ روزانہ اپنی لکڑی کی دُکان پر پہنچتے ہی بیٹری کو گاڑی سے نکال کر آرا مشین سے جوڑ دیتے تھے تاکہ آٹھ گھنٹے تک چارج ہوتی رہے۔ شام کو گھر پہنچتے ہی اسے نکال کر اپنے ریڈیو سے جوڑ دیتے۔ جو صرف کار بیٹری2 سے چلتا تھا۔ پھر رات کو بارہ ایک بجے جب ریڈیو پروگرام ختم ہو جاتے تو اُسے ریڈیو سے علیحدہ کر کے واپس کار میں لگا دیتے تاکہ صبح خلیفہ ٹر ٹر نہ کرے۔ اس طرح بیٹری آٹھ آٹھ گھنٹے کی تین شفٹوں میں تین مختلف چیزوں سے جُڑی رہتی تھی۔ جواب نہ دیتی تو کیا کرتی۔ بالکل کنفیوز ہو جاتی تھی۔ ہم نے خود دیکھا کہ ان کے ریڈیو میں چھُپے ہوئے پروگرام کے بجائے اکثر آرا مشین کی آوازیں نشر ہوتی رہتی تھیں، جنہیں وہ پکا راگ سمجھ کر ایک عرصے تک سر دھُنا کیے۔ اسی طرح کار کے انجن سے موسم کی خرابی کی ریڈیائی آوازیں آنے لگتی تھیں۔ عجیب گھپلا تھا۔ رات کو پچھلے پہر کے سناٹے میں جب اچانک عجیب و غریب آوازیں آنے لگتیں تو گھر والے یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ وہ ریڈیو کی آوازیں ہیں، یا آرا مشین میں کوئی قوال پھنس گیا ہے۔ اور ان بیچاروں کی معافی قابلِ معافی تھی۔ اس لئے کہ ان آوازوں کا مخرج در اصل وہ گلا تھا جس سے بشارت خراٹے لے رہے ہوتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی ریڈیو سے میرے گلے میں مستقل خراش پڑ گئی ہے۔ ایک اور عذاب یہ کہ جب تک ریڈیو اسٹیشن بند نہیں ہو جاتا، تین چار پڑوسی ان کی چھاتی پر سوار ہو کر پروگرام سُنتے رہتے۔ اب بشارت اس مردم آزار ایجاد سے سخت متنفر ہو گئے تھے۔ غالباً ایسے ہی حالات اور ایسے ہی بلیک موڈ میں عصرِ حاضر کے سب سے بڑے انگریزی شاعر فلپ لارکن نے کہا تھا کہ مارکونی کی قبر پر پبلک ٹائلٹ بنا دینا چاہیے۔
سَوداوی اور صوبائی مزاج کے چار پہئے
چند روز سے جب گرمی نے شدت پکڑی تو چاروں پہیوں کا مزاج سودادی و صوبائی ہو گیا۔ مطلب یہ چاروں پہیّے چار مختلف سمتوں میں جانا چاہتے اور اسٹیئرنگ وہیل سے روٹھے رہتے تھے۔ یہی نہیں، بعض اوقات خود اسٹیئرنگ وہیل پہیّوں کی مرضی کے مطابق گھومنے لگتا تھا۔ خلیفہ سے پُوچھا "اب یہ کیا ہو رہا ہے؟” اس نے مطلع کیا "حضور! ببلنگ (wobbling) کہتے ہیں” انہوں نے اطمینان کا لمبا سانس لیا۔ مرض کا نام معلوم ہو جائے تو تکلیف دور نہیں ہوتی اُلجھن دور ہو جاتی ہے۔ ذرا دیر بعد یہ سوچ کر مسکرا دیئے کہ کار یہ چال چلے wobbling۔ راج ہینس چلے تو waddling ناگن چلے تو wriggling تو ناری چلے تو wiggling۔
یہ کنارا چلا کہ ناؤ چلی
کہیے کیا بات دھیان میں آئی
اس دفعہ وہ خود بھی ورکشاپ گئے۔ مستری نے کہا، زنگ سے سائلنسر بھی جھڑنے والا ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ "کراچی کی ہوا میں اتنی رطوبت اور دلوں میں اتنی رقت ہے کہ کھلے میں ہاتھ پھیلا کر اور آنکھیں موند کر کھڑے ہو جاؤ تو پانچ منٹ میں چلّو بھر پانی اور ہتھیلی بھر پیسے جمع ہو جائیں گے۔ اور اگر چھ منٹ تک ہاتھ پھیلائے اور آنکھیں موندے رہو تو پیسے غائب ہو جائیں گے۔ یہاں بال، سائلنسر اور لچھن قبل از وقت جھڑ جاتے ہیں۔ لاہور میں کم از کم اتنا تو ہے کہ سائی لینسر نہیں جھڑتے۔” مستری نے مشورہ دیا کہ "اگلے مہینے جب نیا ہارن فٹ کرائیں تو سائی لینسر بھی بدلوا لیں۔ اس وقت تو یہ اچھا خاصا ہارن کا کام دے رہا ہے۔” بشارت نے جھنجھلا کر پوچھا "اس کا کوئی پُرزہ کام بھی کر رہا ہے کہ نہیں؟” مستری پہلے تو سوچ میں پڑ گیا۔ پھر جواب دیا کہ "Mileometer دُگنی رفتار سے کام کر رہا ہے!” در اصل اب کار کی کار کردگی بلکہ نا کاردگی Murphy’s Law (Murphy’s Law: Any thing that can go wrong will go wrong) کے عین مطابق ہو گئی تھی، یعنی اس کی ہر وہ چیز جو بگڑ سکتی تھی بگڑ گئی تھی۔ اس صورت میں حکومت تو چل سکتی تھی، کار نہیں چل سکتی۔
شُتر ترانہ
متواتر مرمت کے باوجود بریک ٹھیک نہیں ہوئے۔ لیکن اب ان کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے کہ ان کے استعمال کی نوبت ہی نہیں آتی تھی۔ جس جگہ بریک لگانا ہو، کار اس سے ایک میل پہلے رُک جاتی تھی۔ اور بشارت نے تو جب سے ڈرائیونگ سیکھنی شروع کی، وہ بجلی کے کھمبوں سے بریک کا کام لے رہے تھے۔ کھمبوں کے استعمال پر ان کا کئی کتوں سے جھگڑا بھی ہوا۔ مگر اب بعض کتوں نے چمکتی وہیل کیپ سے کھمبے کا کام لینا شروع کر دیا تھا۔ وہ اس عمل کے دوران گردن موڑ موڑ کر وہیل کیپ میں دیکھتے جاتے تھے۔ حال ہی میں بشارت نے یہ بھی نوٹس کیا کہ کار کچھ زیادہ ہی زود رنج اور حساس ہو گئی ہے۔ سڑک کراس کرنے والے کی گالی سے بھی رُکنے لگتی ہے۔ بشرطیکہ انگریزی میں ہو۔ وہ بتدریج خوش خرامی سے سُبک خرامی اور مست خرامی، پھر آہستہ خرامی اور مخرامی کی منزلوں سے گذر کر اب نری نمک حرامی پر اُتر آئی تھی۔ اس کی چال اب ان اڑیل مٹھے اونٹوں سے ملنے لگی جس کی تصویر رڈیارڈ کپلنگ نے اونٹوں کے Marching Song میں کھینچی ہے، جس کی تان اس پر ٹوٹتی ہے۔
Can’t! Don’t! Shan’t! Won’t
بلاشبہ یہ تان حقیقت ترجمان اس لائق ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک، جو کسی طور سے آگے بڑھنا نہیں چاہتے، اسے اپنا قومی ترانہ بنا لیں۔
"اسٹوپڈ کاؤ” سے مکالمہ
ڈھائی تین مہینے تک بشارت کا تمام وقت، محنت، کمائی، دعائیں اور گالیاں ناکارہ کار پر صرف ہوتی رہیں۔ ابھی اسپِ نابکار (بلبن) کا زخم پوری طرح نہیں بھرا تھا کہ یہ فوپا[2] ہو گیا۔
بقول اُستاد قمر جلالوی کے:
ابھی کھا کے ٹھوکر سنبھلنے نہ پائے
کہ پھر کھائی ٹھوکر سنبھلتے سنبھلتے
کار اپنی مرضی کی مالک ہو گئی تھی۔ جہاں چلنا چاہئے وہاں ڈھٹائی سے کھڑی ہو جاتی اور جہاں رُکنا ہو ادبدا کر چلتی۔ مطلب یہ کہ چورا ہے اور سپاہی کے اشارتی سگنل پر کھڑی ہو جاتی، لیکن بمپر کے سامنے کوئی راہ گیر آ جائے تو اسے صرفِ نظر کرتی ہوئی آگے بڑھ جاتی۔ جس سڑک پر نکل جاتی، اس کا سارا ٹریفک اس کے خرام و قیام کا تابع ہو جاتا جو اب فیض کے مصرعے سے اُلٹ ہو گیا تھا۔
جو چلے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو رُکے تو جاں سے گذر گئے
تھک ہار کے بشارت اسی میم کے پاس گئے اور منت سماجت کی خدارا! پانچ سو کم میں ہی یہ کار واپس لے لو۔ وہ کسی طرح نہ مانی۔ انہوں نے اپنا فرضی مفلوک الحالی اور اس نے اپنی بیوگی کا واسطہ دیا۔ انصاف کی توقع اُٹھ گئی تو رحم کی اپیل میں زور پیدا کرنے کے لئے دونوں خود کو ایک دوسرے سے زیادہ مسکین اور بے آسرا ثابت کرنے لگے۔ دونوں پریشان تھے۔ دونوں دُکھی اور مصیبت زدہ تھے۔ لیکن دونوں ایک دوسرے کے لئے پتھر کا دل رکھتے تھے۔ بشارت نے اپنی آواز میں مصنوعی رقت پیدا کرنے کی کوشش کی اور بار بار رو مال سے ناک پونچھی۔ جواب میں میم سچ مُچ رو پڑی۔ اب بشارت نے جلدی جلدی پلکیں پٹ پٹا کر آنکھوں میں آنسو لانے چاہے مگر اُلٹی ہنسی آنے لگی۔ بدرجہ مجبوری دو تین انتہائی درد ناک مگر بالکل فرضی منظر (مثلاً اپنے مکان اور دکان کی قرقی اور نیلامی کا منظر۔ ٹریفک کے حادثے میں اپنی بے وقت موت اور اس کی خبر ملتے ہی بیگم کا جھٹ سے موٹی ململ کا دوپٹہ اوڑھ کر چھن چھن چوڑیاں توڑنا اور رو رو کر اپنی آنکھیں سُجا لینا) آنکھوں میں بھر کر رقت طاری کرنے کی کوشش کی۔ مگر دل نہ پسیجا نہ آنکھ سے آنسو ٹپکا۔ زندگی میں پہلی مرتبہ انہیں اپنے سَنی ہونے پر غصہ آیا۔ دفعتاً انہیں اپنے انکم ٹیکس کے نوٹس کا خیال آیا اور ان کی گھگھی بند گئی۔ انہوں نے گڑگڑاتے ہوئے کہا کہ ” میں آپ سے سچ عرض کرتا ہوں، اگر یہ کار کچھ دن اور میرے پاس رہ گئی تو میں پاگل ہو جاؤں گا یا بے موت مارا جاؤں گا۔
یہ سُنتے ہی میم پگھل گئی۔ آنکھوں میں دوبارہ آنسو بھر کر بولی۔ آپ کے بچوں کا کیا بنے گا، جن کی صحیح تعداد کے بارے میں بھی آپ کو شک ہے کہ سات ہیں کہ آٹھ۔ سچ تو یہ ہے کہ میرے میاں کی ہارٹ اٹیک سے موت بھی اس منحوس کار کی وجہ سے ہوئی اور اسی میں۔۔۔ اسٹیئرنگ وہیل پر دم توڑا۔
ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ اس سے تو بہتر تھا کہ میں گھوڑے کے ساتھ ہی گذارا کر لیتا۔ اس پر وہ عفیفہ چونکی اور مشتاقانہ بے صبری سے پُوچھنے لگی۔
” You mean a real horse”
” Yes . of course! Why ”
میرے پہلے شوہر کی موت گھوڑے پر سے گرنے سے واقع ہوئی تھی۔ وہ بھلا چنگا پولو کھیل رہا تھا کہ گھوڑے کا ہارٹ فیل ہو گیا گھوڑا اس پر گرا۔ وہ مجھے پیار سے Stupid Cow کہتا تھا۔ اس کی اینگلو سیکسن بلو گرے آنکھوں میں سچ مچ آنسو تیر رہے تھے۔
ویسے بشارت رقیق القلب واقع ہوئے تھے۔ جوان عورت کو اس طرح آبدیدہ دیکھ کر ان کے دل میں اس کے آنسوؤں کو ریشمی رو مال سے پونچھنے اور اس کی حالتِ بیوگی کو فی الفور ختم کرنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی۔ یہ کہنا تو کسرِ بیانی ہو گی کہ ان کے نہاں خانہ دل کی کسی منزل میں خوبصورت عورت کے لئے ایک نرم گوشہ تھا، اس لئے یہاں تو تمام منزلیں، سارے کا سارا خانۂ ویرانہ
انتظارِ صید میں ایک دیدہ خواب تھا
۔۔۔ کہ بنے ہیں دوست ناصح
انسان کا کوئی کام بگڑ جائے تو ناکامی سے اتنی کوفت نہیں ہوتی جتنی بن مانگے مشوروں اور نصیحتوں سے ہوتی ہے۔ جن سے ہر وہ شخص نوازتا ہے جس نے کبھی اس کام کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ کسی دانا نے کیسی پتے کی بات کہی ہے کہ کامیابی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کو کوئی مشورہ دینے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ ہم اپنے چھوٹے منہ سے بڑی بات نہیں کہہ سکتے۔ نہ چھوٹی۔ لہٰذا یہ نہیں بتا سکتے کہ ہم کامیاب ہیں یا ناکام۔ لیکن اتنا اتا پتا بتائے دیتے ہیں کہ اگر ہمارے اسکرو اور ڈھبریاں لگی ہوتیں تو ہمارے تمام دوست، احباب اور بہی خواہ سارے کام دھندے چھوڑ چھاڑ اپنے اپنے پیچ کَش اور پانے (Spanners) لے کر ہم پر پل پڑتے۔ ایک اپنے چوکور پانے سے ہماری گول ڈھبری کھولنے کی کوشش کرتا۔ دوسرا تیل دینے کے سوراخ میں ہتھوڑے سے اسکرو ٹھونک دیتا۔ تیسرا شبانہ روز کی محنت سے ہمارے تمام اسکرو "ٹائٹ” کرتا۔ اور آخر میں سب مل کر ہمارے سارے اسکرو اور ڈھبریاں کھول کر پھینک دیتے۔ محض یہ دیکھنے کے لئے کہ ہم ان کے بغیر بھی فقط دوستوں کی قوتِ ارادی سے چل پھر اور چر چگ سکتے ہیں یا نہیں۔ ہماری اور ان کی ساری عمر اسی کھڑ پیچ میں تمام ہو جاتی۔ کچھ ایسا ہی حال میاں بشارت کا ہوا۔ کار کے ہر بریک ڈاؤن کے بعد انہیں بکثرت ایسی نصیحتیں سُننی پڑتیں جن میں کار کی خرابیوں کے بجائے ان کی اپنی خامیوں کی طرف ایسے بلیغ اشارے ہوتے تھے جنہیں سمجھنے کے لیے عاقل ہونا ضروری نہیں۔ ادھر پیدل چلنے والے بشارت کو دیکھ دیکھ کر شکر کرتے کہ ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ کار نہیں رکھتے۔
نصیحت کرنے والوں میں صرف حاجی عبدالرحمٰن علی محمد بانٹوا والے نے کام کی بات کہی۔ اس نے نصیحت کی کہ کبھی کسی بزرگ کے مزار، انکم ٹیکس کے دفتر یا ڈاکٹر کے پرائیوٹ کلینک میں جانا ہو تو کار ایک میل دور کھڑی کر دو۔ ایک ہفتے پان کھانے کے بعد دانت صاف کرنا بند کر دو۔ دہانے کے دونوں طرف ریکھوں میں پِیک کے بریکٹ لگے رہنے دو۔ اور فیکٹری کے مالک ہو تو ریڑھی والے کا سا حلیہ بنا لو۔ نئیں تو سالا لوگ ایک دم چمڑی اُتار لیں گا اور کورے بدن پر نمک مرچی مالش کر کے ہوا بندر کو بھیج دیں گا۔ تم اکھا (تمام) عمر تراہ تراہ کرتا پھریں گا۔ اے بھائی! ہم تمہارے کو بولتا ہے۔ کبھی انکم ٹیکس آفیسر، پولیس، جوان جورو اور پیر فقیر کے پاس جاؤ تو سولجر کی مافک کھالی ہاتھ ہلاتے، ڈبل مارچ کرتے نئیں جاؤ۔ ہمیش کوئی ڈالی کچھ مال پانی، کچھ نجر نجرانہ لے کے جاؤ۔ نئیں تو سالا لوگ کھڑے کھڑے کھال کھنچوا کے اس میں ڈان اخبار کی ردی بھروا دیں گا۔ سبجا ( سبزہ۔ سو روپے کا نوٹ) دیکھ کے جس کی آنکھ میں ٹو ہنڈرڈ کینڈل پاور کا چمکارا نئیں آئے تو سمجھو سالا سولہ آنے کلر بلائنڈ ہے یا اولیا اللہ بنے لا (بن گیا) ہے، نئیں تو پھر ہوئے نہ ہوئے اسٹیٹ بنک کا گورنر ہے جو نوٹوں پر وسکھت (دستخط) کرتا ہے۔
۴
مکالمہ دَر مذمّتِ نیم
کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کار کے عیبوں پر سے پردہ اُٹھاتے اُٹھاتے خلیفہ اپنا نامۂ اعمال کھول کر بیٹھ جاتا، اور اپنے کرتوت کو کرامات کی طرح بیان کرنے لگتا۔ یہ تو کوئی مزاج داں ہی بتا سکتا تھا کہ حقیقت بیان کر رہا ہے یا حسرتوں کے میدان میں خیالی گھوڑے دوڑا رہا ہے۔ ایک دن فقیر محمد خانساماں سے کہنے لگا "آج تو سعید منزل کے سامنے ہماری گھوڑی (کار) بالکل باؤلی ہو گئی۔ ہر پُرزہ انا الحق کہنے لگا۔ پہلے تو انجن گرم ہوا۔ پھر Radiator جس کے لِیک (Leak) کو میں نے صابن کی لگدی سے بند کر رکھا تھا، پھٹ گیا۔ پھر پچھلا ٹائر لِیک کرنے لگا۔ میں نے ہوا بھرنے کے لئے کار کا ہم عمر پمپ نکالا تو معلوم ہے کہ کیا ہوا؟ پتا چلا کہ پمپ میں سے ہوا لِیک کر رہی ہے! فین بیلٹ بھی گرمی سے ٹُوٹ گئی۔ انگریز کی سواری میں رہنے سے اس کا مزاج بھی سودادی ہو گیا ہے، حکیم فہیم الدین آگرے والے کہا کرتے تھے کہ عورت سَودادی مزاج کی ہو تو مرد آتشی مزاج کا چاہئے ہی چاہئے۔ عبدالرزاق چھیلا کو، ابے وہی چھیلا ناز سنیما کا گیٹ کیپر، آتشک ہو گئی ہے۔ سالا اپنے کیفرِ کرتوت کو پہنچا۔ کہتا ہے انگلش فلم دیکھنے اور گڑ کی گزک کھانے اور نور جہاں کے گانوں سے خون گرمی کھا گیا ہے۔ پُرانے زمانے میں ہمارے یہاں دستور تھا، پتا نہیں تیری طرف تھا کہ نہیں، کہ تماش بینی کے چکر میں کسی کو آبلۂ فرنگ[3] یا بادِ فرنگ V.D ہو جائے تو اسے ٹخنوں سے ایک بالش اونچا تہمد بندھوا کے نیم کی ٹہنی ہاتھ میں تھما دیتے تھے۔ جوانی میں، میں نے اچھے اچھے اشرافوں کو محلے میں ہری جھنڈی لئے پھرتے دیکھا۔ مشہور تھا کہ نیم کی ٹہنی سے چھُوت کی بیماری نہیں لگتی۔ پر میرے خیال میں تو فقط ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے یہ ڈھونگ رچائے جاتے تھے۔ خون اور طبعیت صاف کرنے کے لیے مریض کو ایسا کڑوا چرائتہ پلایا جاتا کہ حلق سے ایک گھونٹ اترتے ہی پتلیاں اوپر چڑھ جاتیں، اگلے وقتوں میں خود علاج کے اندر سزا پوشیدہ ہوتی تھی۔ مولوی یعقوب علی نقش بندی کہا کرتے تھے کہ اسی لیے دیسی (یونانی) علاج کو حکمت کہتے ہیں۔
یار! ان دنوں سالے نیم نے بھی جان عذاب میں کر رکھی تھی۔ غریب غُربا کو یہ رئیسوں کا روگ لگ جائے یا معمولی پھوڑے پھُنسیاں نکل آئیں تو گاؤں قصبے کے جرّاح شروع سے اخیّر دم تلک نیم ہی سے علاج کرتے تھے۔ ساری ادویاتیں نیم ہی سے بنتی تھیں۔ نیم کے صابن سے نہلواتے۔ نیم کی نبولی اور بکّل کا لیپ بتاتے۔ نیم کا مرہم لگاتے۔ نیم کی سینکوں اور خشک پتوں کی دھُونی دیتے۔ جوان خون زیادہ گرمی دکھائے تو نیم کے بور اور کونپلوں کا عرق پلاتے۔ نیم کے گوند کا لعوق بنا کر چٹاتے۔ نبولی کی گری کا سفوف مار کراتے۔ ہر کھانے سے پہلے نیم کی مسواک کرواتے تاکہ ہر کھانے میں اسی کا مزا آئے۔ فاسد مادوں کو نکالنے کے بہانے جونکوں کو آئے دم سیروں خون پلوا دیتے، یہاں تک کہ اگلا چُسا آم ہو جاتا اور حرمزدگی تو درکنار دو رکعت نماز بھی پڑھتا تو گھٹنے چٹ چٹ چٹخنے لگتے۔ ناسور کو نیم کے اونٹتے پانی سے دھارتے تاکہ مرض کے جراثیم مر جائیں۔ اور اگر مریض جراثیم سے پہلے ہی جرّاح کو پیارا ہو جائے تو گھڑے میں نیم کے پتے اُبال، غُسلِ میّت دے کے جنازہ نیم تلے رکھ دیتے۔ پھر تازہ ترین قبر پر تین ڈول پانی چھڑک کے سرہانے نیم کی ٹہنی گاڑ دیتے۔ دفنا کر گھر آتے تو مرنے والی کی بیوہ کی سونے کی لونگ اُتروا کر اسی نیم کی سینک ناک میں پہنا دی جاتی جس میں جھولا ڈال کر وہ کبھی ساون میں جھُولا کرتی تھی۔ پھر اسے سفید ڈوپٹہ اُڑھاتے اور ایک ہاتھ میں سروتہ اور دوسرے میں کوے کو اڑانے کے لیے نیم کی قمچی تھما کر نیم کی چھاؤں تلے بیٹھا دیتے۔
"جب میں نے واہگہ باڈر کراس کر کے ہجرت کی تو یقین جان میرے پاس تن کے دو کپڑوں اور ایک اُسترے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہ جو تُو مجھے اس حالیت میں دیکھ رہا ہے تو یہ مولا کا فضل ہے اور پاکستان کی دین ہے۔ دوسرے روز میں اپنے یارِ جانی محمد حسین کی میّت (معیت) میں شالیمار باغ دیکھنے گیا تو اُس نے بتایا کہ پاکستان میں نیم نہیں ہوتا! خدا کی قسم! مجھے پاکستان پر بہت پیار آیا اور میں وہیں مغلیہ پھواڑے (فوارے) کے پاس سجدۂ شکر بجا لایا۔”
خلیفہ کی پاپ بیتی
خلیفہ کی مصیبت یہ تھی کہ ایک دفعہ شروع ہو جائے تو رُکنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ بوڑھا ہو چلا تھا، مگر ڈینگوں سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بڑھاپے نے فینٹسی اور خواہشِ نفس کو بھی حقیقتِ نفس الامری بنا دیا ہے۔ اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ ایک پُرانی مثل ہے کہ بڑھاپے میں انسان کی شہوانی قوت زبان پر آ جاتی ہے۔ اس کی مشخیت بھر داستان سچی ہو یا نہ ہو، داستان کہنے کا انداز سچا اور کھرا تھا۔ اس کے سادہ دل سُننے والے ایسے ہپنا ٹائز ہوتے کہ یہ خیال ہی نہیں آتا، سچ بول رہا ہے یا جھوٹ۔ بس جی چاہتا یونہی بولے چلا جائے۔ خلیفہ کی کہانی اسی کی زبانی جاری ہے۔ ہم نے صرف نئی سُرخی لگا دی ہے:
” اوئے یار فقیرا! گُلبیانٹنی[4] تو جانو آگ بھری چھچھوندر (چھچھوندر: ایک قسم کی چھوٹی آتش بازی جو فرش پر گھوم گھوم کر بڑی بے قراری سے چلتی ہے۔) تھی۔ اچنتی سی بھی نظر پڑ جائے تو جھٹ ہاتھ میں نیم کی ٹہنی تھما دیتی تھی۔ یار! جھوٹ نہیں بولوں گا۔ روزِ قیامت کے دن حشر کے میدان میں اللہ میاں کے علاوہ والد صاحب کو بھی منہ دکھانا ہے۔ اب تجھ سے کیا پردہ۔ میں کوئی پیر پیمبر تو نہیں ہوں، گوش پوس کا انسان ہوں۔ اور جیسا کہ مولوی حشمت اللہ کہتے ہیں، انسان خطائے نسوان کا پُتلا ہے۔ تو یار! واقعہ یہ ہے کہ نیم کی ٹہنی مجھے بھی لہرانی پڑی۔ میٹھا برس بھی نہیں لگا تھا۔ سترھواں چل رہا تھا کہ فضیحتا ہو گیا۔ پر یقین جانو، تمیزن ایک نمبر اشراف عورت تھی۔ ایسی ویسی نہیں۔ بیاہی تیاہی تھی۔ پڑوس میں رہتی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے جوانی اور پڑوسی کے گھر میں ایک ساتھ ہی قدم رکھا۔ عمر میں مجھ سے بیس نہیں تو پندرہ برس ضرور بڑی ہو گی۔ پر بدن جیسے کَسی کسائی ڈھولک۔ ہوا بھی چھو جائے تو بجنے لگے۔ میں اس کی مکان کی چھت پر پتنگ اُڑانے جایا کرتا تھا، وہ مجھے آتے جاتے کبھی گڑک، کبھی اپنے ہاتھ کا حلوا کھلاتی۔ جاڑے کے دن تھے۔ اس کا میاں جو اس سے عمر میں بیس نہیں تو پندرہ برس بالضرور بڑا ہو گا، اولاد کا تعویذ لینے فرید آباد گیا تھا۔ کھی کھی کھی کھی۔ میں چار پتنگیں کٹوا کر چرخی بغل میں دبائے چھت پر سے اُترا تو دیکھا وہ چھدرے بانوں کی چارپائی کی آڑ کر کے نہا رہی ہے۔ آنکھوں میں اب تلک بان کی جالیوں کی پیچھے کا سماں بسا ہوا ہے۔ مجھے آتے دیکھ کر ایک دَم الف کھڑی ہو گئی۔ یار! تجھے کیا بتاؤں۔ میرے رگ رگ میں پھلجھڑیاں پھوٹنے لگیں۔ گھڑی بھر میں موزے کی طرح اُلٹ کر رکھ دیا۔ گزک کی خاصیت گرم ہوتی ہے۔
میرے مرض کا بھانڈا پھُوٹا تو والد صاحب، اللہ ان کی بال بال مغفرت کرے، آپے سے باہر ہو گئے۔ جوتا تان کھڑے ہو گئے۔ کہنے لگے "تُو میرا نطفہ نہیں! سامنے سے ہٹ جا۔ نہیں تو ابھی گردن اُڑا دوں گا”۔ حالانکہ تلوار تو درکنار، گھر میں بھونٹی (کُند) چھری تلک نہ تھی جس سے نکٹے کی ناک کٹ سکے۔ پھر میں ان سے قد میں ڈیڑھ بالش بڑا تھا! پر ان کا اتنا رُعاب تھا کہ میں اپنے رنگین تہمد میں تھر تھر کانپ رہا تھا۔ ماں میرے اور ان کے درمیان ڈھال بن کے کھڑی ہو گئی اور ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔ مجھے ایک ایک بات یاد ہے۔ بیچ بچاؤ کرانے میں چوڑیاں ٹُوٹنے سے ماں کی کلائی سے خون ٹپکنے لگا۔ رات دن محنت مزدوری کرتی تھی۔ جہاں تک میری چھٹپن کی یاداش کام کرتی ہے میں نے ان کے چہرے پر ہمیشہ جھریاں ہی دیکھیں۔ آنسو ان کی آنکھوں سے ریکھ ریکھ بہہ رہے تھے۔ مجھے آج بھی ایسا لگتا ہے جیسے ماں کے آنسو میرے گالوں پر بہہ رہے ہیں۔ وہ کہنے لگی ” اللہ قسم! میرے لال پر دشمنوں نے بہتان لگایا ہے۔ ” میں نے والد صاحب سے بہتیرا کہا کہ ” پرانے باجرے کی کھچڑی اور پال کے آم سے گرمی چڑھ گئی ہے۔ سُنیے تو سہی۔ مُشکی گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر چڑھنے سے مجھے یہ موذی مرض لگا ہے۔ تکھ مریاں[5] سے حدّت نکل جائے گی "۔ پر وہ بھلا ماننے والے تھے۔ کہنے لگے "ابے تکھ مریاں کے بچے! میں نے گڑییں نہیں کھیلی ہیں۔ تُو نے نائیوں کی عزت خاک میں ملا دی۔ بزرگوں کی ناک کٹوا دی ” ماں کے سوا کسی نے میری بات پر یقین نہیں کیا۔ چھوٹے بھائی روز مجھ سے جھگڑنے لگے۔ اس لئے کہ ماں نے ان کے اور والد کے آم اور گھی میں ترتراتی کھچڑی بند کر دی تھی۔ یار فقیر! کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر اللہ میاں کو اپنے بندوں سے اتنی بھی محبت ہوئی جتنی میری اَن پڑھ ماں کو مجھ سے تھی تو اپنا بیڑا پار جانو۔ حشر کے دن سارے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور مولویوں کی کھچڑی اور آم بند ہو جائیں گے! انشاءاللہ!”
"خیر۔ اور تو جو کچھ ہوا سو ہوا، پر میرے فرشتوں کو بھی پتا نہیں تھا کہ تمیزن پر میرے چچا جان قبلہ کسی زمانے میں مہربان رہ چکے ہیں۔ جوانی قسم! ذرا بھی شک گزرتا تو میں اپنا دل مار کے بیٹھ رہتا۔ بزرگوں کی شان میں گستاخی نہ کرتا۔ یار! جوانی میں یہ حالیت تھی کہ نبض پہ اُنگلی رکھو تو ہتھوڑے کی طرح ضرب لگاتی تھی۔ شکل بھی میری اچھی تھی۔ طاقت کا یہ حال کہ کسی لڑکی کی کلائی پکڑ لوں تو اُس کا چھڑانے کو جی نہ چاہے۔ خیر وہ دن ہوّا ہوئے۔ میں یہ کہہ رہا تھا کہ علاج مرض سے کہیں زیادہ جان لیوا تھا۔ بعد کو گرمی چھانٹنے کے لیے مجھے دن میں تین دفعہ قدحے کے قدحے ٹھنڈائی اور دھنیے کے عرق اور کتیرا گوند کے پلائے جاتے۔ اور دو وقتہ پھیکی روٹی، کوتھمیر (ہرا دھنیہ) کی بے نمک مرچ کی چٹنی کے ساتھ کھلائی جاتی۔ اسی زمانے سے میرا نام بھیّا کوتھمیر پڑ گیا۔ والد صاحب کو اس وقوعے سے بہت صدمہ پہنچا۔ شکی مزاج آدمی تو تھے ہی۔ کبھی خبر آتی کہ شہر میں فلاں جگہ ناجائز بچّہ پڑا ملا ہے، تو والد صاحب مجھی کو آگ بھبھوکا نظروں سے دیکھتے۔ اُنھیں محلے میں کوئی لڑکی تیز تیز قدموں سے جاتی نظر آ جائے تو سمجھو کہ ہو نہ ہو میں در پئے آزار ہوں۔ اُن کی صحت تیزی سے گرنے لگی۔ دشمنوں نے مشہور کر دیا کہ تمیزن نے ایک ہی رات میں داڑھی سفید کر دی۔ خود اُن کا بھی یہی خیال تھا۔ اُنھوں نے مجھے ذلیل کرنے کے لیے ریلوائی گارڈ کی جھنڈی سے بھی زیادہ لہولہان رنگ کا تہمد بندھوایا اور ٹہنی کے بجائے نیم کا پورا گدّا___ میرے قد سے بھی بڑا____ مجھے تھما دیا۔ میں نے شنکرات کے دن اُس سے آٹھ پتنگیں لوٹیں۔ لڑکپن بادشاہی کا زمانہ ہوتا ہے۔ اُس زمانے میں کوئی مجھے حضرت سلیمان کا تخت ہدہد اور ملکہ سبا بھی دے دیتا تو وہ خوشی نہیں ہوتی جو ایک پتنگ لوٹنے سے ہوتی تھی۔ یار! کسی دن تلے مکھانے تو کھلا دے۔ مدتّیں ہوئیں۔ مزہ تک یاد نہیں رہا۔ ماں بڑے مزے کے بناتی تھی۔ فقیرا میں نے اپنی ماں کو بڑا دُکھ دیا۔”
خلیفہ اپنی ماں کو یاد کر کے آبدیدہ ہو گیا۔
بزرگوں کا قتلِ عام
خلیفہ اپنے موجودہ منصب اور فرائض کے لحاظ سے کچھ بھی ہو، اُس کا دل ابھی تک گھوڑے میں اٹکا ہوا تھا۔
ابھی آتی ہے بو بالش سے اس کی اسپِ مشکی کی[6]
ایک دن وہ دکان کے مینیجر مولانا کرامت حسین سے کہنے لگا کہ ” مولانا ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ جس بچّے کے چپت اور جس سواری کے چابک نہ مار سکو وہ روزِ قیامت کے دن تلک قابو میں نہیں آنے کی۔ نادر شاہ بادشاہ تو اسی واسطے ہاتھی کے ہودے سے کود پڑا اور جھونجل میں آ کے قتلِ عام کرنے لگا۔ ہمارے سارے بزرگ قتلِ عام میں گاجر مولی کی طرح کٹ گئے۔ گود کے بچّوں تک کو بلّم سے چھید کر ایک طرف پھینک دیا۔ ایک مرد زندہ نہیں چھوڑا۔ "مولانا نے ناک کی نوک پر رکھی ہوئی عینک کے اوپر سے دیکھتے ہوئے پوچھا "خلیفہ! پچھلے پانچ سو سال میں کوئی لڑائی ایسی نہیں ہوئی جس میں تم اپنے بزرگوں کو چن چن کر نہ مروا چکے ہو۔ جب قتلِ عام میں تمہارا بیج ہی مارا گیا، جب تمہارے سارے بزرگ ایکو ایک قتل کر دیے گئے تو اگلی نسل کیوں کر پیدا ہوئی؟” بولا "اپ جیسے اللہ لوگ کی دعاؤں سے!”
بزرگوں میں سب سے زیادہ فخر وہ اپنے دادا پر کرتا تھا، جس کی ساری زندگی کا واحد کارنامہ یہ معلوم ہوا تھا کہ پچاسی سال کی عمر میں سوئی میں تاگا پرو لیتا تھا۔ خلیفہ اس کارنامے سے اس درجہ مطمئن بلکہ مرعوب تھا کہ یہ تک نہیں بتاتا تھا کہ سوئی پرونے کے بعد دادا اس سے کیا کرتا تھا۔
۵
کار کی کایا پلٹ
ایک دن رابسن روڈ کے ترا ہے کے پاس رسالہ افکار کے دفتر کے قریب کار کا بریک ڈاؤن ہوا۔ اُسی وقت اس میں گدھا گاڑی جوت کر لارنس روڈ لے گئے۔ اس دفعہ مستری کو بھی رحم آ گیا۔ کہنے لگا ” آپ شریف آدمی ہیں۔ کب تک برباد ہوتے رہیں گے۔ اوچھی پونجی بیوپاری کو اور منحوس سواری، مالک کو کھا جاتی ہے۔ کار تلے آ کر آدمی مرتے تو ہم نے بھی سنے تھے۔ لیکن یہ ڈائن تو اندر بیٹھے آدمی کو کھا گئی! میرا کہنا مانیں۔ اس کی باڈی کٹوا کر ٹرک کی باڈی فٹ کروا لیں۔ لکڑی لانے لے جانے کے کام آئے گی۔ میرے سالے نے باڈی بنانے کا کارخانہ نیا نیا کھولا ہے۔ آدھے داموں میں آپ کا کام ہو جائے گا۔ دو سو روپے میں انجن کی reboring میں کر دوں گا۔ اوروں سے میں پونے سات سو لیتا ہوں۔ کایا پلٹ کے بعد آپ پہچان نہیں سکیں گے۔
اور یہ اُس نے کچھ غلط نہیں کہا تھا۔ نئی باڈی فٹ ہونے کے بعد کوئی پہچان نہیں سکتا تھا کہ یہ ہے کیا۔ ملزموں کو حوالات میں لے جانے والی حوالاتی ویگن؟ کتّے پکڑنے والی گاڑی؟ مذبح خانے سے تھلتھلاتی رانیں لانے والا خونی ٹرک؟ اس شکل کی یا اس سے دور پرے کی مشابہت رکھتی ہوئی کوئی شے اُنھوں نے آج تک نہیں دیکھی تھی۔ مستری نے یقین دلایا کہ آپ اسے دو تین مہینے صبح و شام مسلسل دیکھتے رہیں گے تو انی بری معلوم نہیں ہو گی۔ اس پر مرزا بولے کہ تم بھی کمال کرتے ہو۔ یہ کوئی بیوی تھوڑی ہے! سابق کار یعنی موجودہ ترل کی پشت پر تازہ پینٹ کی ہوئی ہدایت "چل رے چھکڑے تینوں رب دی آس” پر اُنھوں نے اسی وقت پچارا پھروا دیا۔ دوسرے فقرے پر بھی اُنھیں اعتراض تھا۔ اُس میں جگت یار یعنی "بیوپار” کو ہدایت کی گئی تھی کہ تنگ نہ کرے۔ چودھری کرم دین پینٹر نے سمجھوتے کے لہجے میں کہا کہ جنابِ عالی، اگر آپ کو یہ نام پسند نہیں تو بیشک اپنی طرف کا کوئی دل پسند نام لکھوا لیجیے۔ اسی طرح اُنھوں نے اس رسوائے زمانہ شعر پر بھی سفیدہ پھروا دیا:
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
اس حذف و اصلاح کے بعد بھی جو کچھ باقی رہ گیا وہ وہ خدا کو منظور ہو تو ہو، اُنھیں قطعاً منظور نہیں تھا۔
لیکن بے ہنگم باڈی سے قطع نظر، ری بورنگ کے بعد جب وہ چلی گئی تو ساری کوفت دور ہو گئی۔ اب وہ سٹارٹ ہونے اور چلنے میں ایسی غیر ضروری اور بے محل پھرتی اور نمائشی چستی دکھانے لگی جیسے ریٹائرڈ لوگ ملازمت میں توسیع سے پہلے یا بعض بڈّھے دوسری شادی کے بعد دکھاتے ہیں۔ باتھ روم میں جاگنگ کرتے ہوئے جاتے ہیں۔ زینے پر دو دو سیڑھیاں پھلانگتے ہیں۔ پہلے دن صبح نو بجے سے شام کے چھ بجے تک اس ٹرک نُما کار یا کار نُما ٹرک سے لکڑی کی ڈلیوری ہوتی رہی۔ کار کی دن بھر کی آمدن یعنی ۴۵ روپے (جو آج کے ۴۵۰ روپے برابر تھے ) کو پہلے اُنھوں نے ۳۰ دن اور بعد میں ۳۶۵ سے ضرب دیا تو حاصل ضرب ۱۶۴۲۵ روپے نکلا۔ دل نے کہا "جب کہ کار کی کل قیمت ۳۴۸۳ رُپلّی ہے! پگلے! اسے حاصلِ ضرب نہ کہو، حاصلِ زندگی کہو” وہ بڑی دیر تک پچھتایا کیے کہ کیسی حماقت کی، اس سے بہت پہلے کار کو ٹرک میں کیوں نہ تبدیل کروا لیا۔ مگر ہر حماقت کا ایک وقت معیّن ہے۔ معاً "وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے ” اُن کے ذہن میں آیا اور وہ بے ساختہ مسکرا دیے۔
میرا بھی تو ہے!
تین چار ہفتے گاڑی لشتم پشتم چلی گو کہ وہ روح کو انشراح بخشنے والا اوسط نہ رہا۔ تو اس مرتبہ ورکشاپ بھیجنی پڑی۔ مستری نے پورے ایک مہینے کی گارنٹی دی تھی۔ البتہ گدھا گاڑی کا کرایہ خود دینا پڑتا تھا۔ گدھا گاڑی والا روزانہ صبح دریافت کرنے آتا تھا کہ آج کہاں اور کس وقت آؤں۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ بشارت نے اُس پر دو گاہکوں کی خریدی ہوئی سات ہزار روپے کی لکڑی لدوا کر خلیفہ کو ڈلیوری کے لیے روانہ کر دیا۔ کوئی دس بجے ہوں گے کہ وہ ہانپتا کانپتا آیا۔ بار بار انگوچھے سے آنکھیں پونچھ کر ناک سے سُڑ سُڑ کر رہا تھا۔ کہنے لگا "سرکار! میں لُٹ گیا۔ برباد ہو گیا۔ اللہ مجھے اُٹھا لے” بشارت سمجھ گئے کہ اس کی دائم المرض بیوی کا انتقال ہو گیا ہے۔ اُسے تلقین کرنے لگے کہ "مشیّتِ ایزدی میں کس کا دخل ہے، صبر سے کام لو۔ وہی ہوتا جو ___” لیکن جب اُس نے کہا کہ "کوک کروں تو جگ ہنسے، چپکے لاگے گھاؤ۔ سرکار میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔” تو بشارت کا تردّد کچھ کم ہوا کہ جو شخص انتہائی حزن و غم کے موقعے پر بھی شعر اور محاورے کے ساتھ گریہ کرے وہ آپ کی ہمدردی نہیں، اپنی زبان دانی کی داد چاہتا ہے۔ جب خلیفہ انگوچھا منہ پر ڈال کر زور زور سے بکھان کرنے لگا تو اُنھیں دفعتاً خیال آیا کہ نقصان اس حرامخور کا نہیں میرا ہوا ہے! کہنے لگے "ابے کچھ تو بول۔ اس دفعہ میرا کیا نقصان ہوا ہے؟”
بناوٹی سسکیوں کے درمیان اُس نے "میرا بھی تو ہے” اس طرح کہا جیسے حبیب بینک کے اشتہار میں جب ہر عمر اور ہر صوبے کا آدمی اپنے لہجے میں حبیب بینک کو اپنا چکتا ہے تو ایک بچّہ تتلا کر کہتا ہے "میلا بھی تو ہے ” پھر اُس نے ساری روداد بیان کی۔ گاڑی بہت "اوور لوڈ” تھی۔ فرسٹ گیئر میں بھی بار بار دم توڑ رہی تھی۔ سڑک کے موڑ تک وہ جیسے تیسے لونڈوں کے دھکوں اور وظیفوں کے زور سے لے گیا۔ لیکن چورا ہے پر اسپرنگ جواب دینے لگے۔ اُس نے بوجھ ہلکا کرنے کے لیے آدھی لکڑی اُتار کر مسجد کی سیڑھیوں کے پاس بڑے قرینے سے چُن دی۔ اور بقیہ مال کی ڈلیوری دینے ناظم آباد نمبر ۴ چلا گیا۔ وہاں پلاٹ پر کوئی موجود نہیں تھا۔ ڈلیوری دیے بغیر واپس مسجد آیا تو لکڑی غائب! "سرکار! میں دن دہاڑے لُٹ گیا! برباد ہو گیا!”
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو
اب انھیں خود اپنی حماقت پر بھی افسوس ہونے لگا کہ ساڑھے تین ہزار کی کھٹارا کار میں دُگنی مالیّت یعنی سات ہزار کا مال بھیجنا کہاں کی دانائی ہے۔ کاش! چور لکڑی کے بجائے کار لے جاتا۔ جان چھوٹتی۔ انھیں یقین تھا کہ خلیفہ عادت سے باز نہیں آیا ہو گا۔ بھری گاڑی کھڑی کر کے کہیں حجامت بنانے، ختنہ کرنے یا کسی جیجمان سے شادی بیاہ کی بدھائی وصول کرنے چلا گیا ہو گا۔ بارہا ایسی حرکت کر چکا تھا۔ جبل گردد، جبلّی نہ گردد (پہاڑ کا ٹلنا ممکن ہے، عادت کا بدلنا ممکن نہیں ) والی کہاوت معاً اُن کی زبان پر آئی۔ اور یہ بھی یاد آیا کہ یہ کہاوت اپنے حوالے سے اُنھوں نے پہلی مرتبہ ماسٹر فاخر حسین سے سنی تھی۔ کلاس میں شرارت کرنے پر ماسٹر فاخرحسین نے اُن کو بوزنہ قرار دینے کے بعد اسی فارسی ضرب المثل کی صلیب پر اُلٹا لٹکا دیا تھا۔ بوزنہ کہنے کا جب اُن پر خاطر خواہ اثر نہیں ہوا تو ماسٹر صاحب نے اُن سے بوزنہ کے معنی پوچھے۔ پھر باری باری سب لڑکوں سے پوچھے۔ کسی کو معلوم نہیں تھے۔ لہذا ساری کلاس کو بنچ پر کھڑا کر کے کہنے لگے۔ "نالائقو میرا نام ڈبوؤ گے۔۔۔۔ بوزنہ۔۔۔۔ ب۔۔۔۔ و۔۔۔۔۔ ز۔۔۔۔ ن۔۔۔۔۔۔ ہ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہائے ہائے والی ہ۔۔۔۔۔۔ حلوے اور حرام خور والی ح نہیں۔ بوزنہ بندر کو کہتے ہیں۔ سمجھے؟ "ہائے! کیسے زمانے اور کیسے اُستاد تھے! لغو سے لغو بات کے بھی لغوی معنی بتاتے تھے۔ طیش میں بھی تعلیمی تقاضوں کا لحاظ رکھتے تھے۔ فقط گالی ہی نہیں دیتے تھے، اُس کا املا اور مطلب بھی بتاتے تھے۔ پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ۔
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد بشارت کہنے لگے "اور ہاں! خوب یاد آیا۔ ایک دفعہ اُنھوں نے اردو کے گھنٹے میں املا لکھوایا۔ میں نے ایک جملہ کچھ اس طرح لکھا:
علماء و فضلہ کو ہمارے یہاں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔
ماسٹر فاخر حسین بڑی دیر تلک ہاتھ سے پیٹ پکڑ کے ہنستے رہے۔ پھر اسی ہاتھ سے میرا کان پکڑ کے حکم دیا کہ بلیک بورڈ پر لڑکوں کو لکھ کر دکھاؤ کہ تم نے فاضل کی جمع فضلا کیسے لکھی ہے۔ میں لکھ چکا تو پانچ فٹ لمبے پائنٹر کی نوک فضلہ کی ہ پر رکھ کر فرمایا، برخوردار! آج تمہیں بنچ پر کھڑا نہیں کروں گا۔ اس واسطے کہ تم لڑکپن ہی میں علماء کی کنہ تک پہنچ گئے ہو۔ صاحب! بات کی تہ تک پہنچنے اور حقیقت کو کنہ کہنا میں نے ماسٹر فاخر حسین ہی سے سیکھا۔ ”
۶
۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور اپنا نکلا آیا
وہ سیدھے بولٹن مارکیٹ پولیس اسٹیشن رپٹ لکھوانے گئے۔ افسر انچارج نے کہا، یہ تھانا نہیں لگتا۔ آپ جہاں سکونت رکھتے ہیں اس کے متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر درج کرائیے۔ وہاں پہنچے تو جواب ملا کہ جنابِ عالی! جرم کی رپٹ آپ کی جائے سکونت والے تھانے میں بے شک درج کی جا سکتی ہے بشرطیکہ جرم آپ نے کیا ہو۔ آپ رپٹ جائے واردات کے تھانا متعلقہ میں لکھوائیے۔ وہاں پہنچے تو کہا گیا کہ جائے واردات دو تھانوں کے سنگم پر واقع ہے۔ مسجد کی عمارت بے شک ہمارے تھانے میں ہے لیکن اس کی سیڑھیوں کی تلیٹی کا علاقہ ملحقہ تھانے میں لگتا ہے۔ ملحقہ تھانے تو وہاں کسی کو نہ پایا سوائے ایک شخص کے جس کی پیشانی سے خون بہہ رہا تھا۔ دائیں ہاتھ میں کمپاؤنڈ فریکچر تھا اور بائیں آنکھ سوج کر بند ہو چکی تھی۔ وہ کہنے لگا کہ میں دفعہ ۳۲۴ کی رپٹ لکھوانے آیا ہوں۔ دو گھنٹے سے انتظار کر رہا ہوں۔ اندھیر ہے۔ سول اسپتال والے کہتے ہیں کہ جب تک تھانے والے ایف آئی آر درج کر کے پرچہ نہ کاٹ دیں ہم تمہارا آپریشن نہیں کر سکتے۔ مجروح بڑے فاتحانہ انداز سے وہ چھینا ہوا آلۂ ضرب یعنی شام چڑھی لاٹھی پکڑے بیٹھا تھا جس سے اُس کا سر پھاڑا گیا تھا۔ اُس کے ساتھ اُس کا چچا تھا جو کسی وکیل دیوانی کا منشی تھا۔ وہ بھتیجے کو دلاسہ دے رہا تھا کہ ملزم نے لاٹھی اور قانون اپنے ہاتھ میں لے کر ثانی الذکر اور تمہارے کا سۂ سر کو بیک ضرب توڑا ہے۔ اس حرام زادے کو ہتھکڑی نہ پہنوا دوں تو مجھے نطفۂ بے تحقیق سمجھنا۔ اُس نے تو خیر سنگین جرم کیا ہے۔ میں نے تو کئیوں کو بغیر جرم کے جیل کی ہوا کھلوا دی ہے! اُس نے بشارت کو قانونی مشورہ دیا کہ آپ کو در اصل اُس تھانے سے رجوع کرنا چاہیے جس کی حدود میں سرقہ کرنے والے یعنی چور کا مکان مسکونہ واقع ہوا ہے۔ دیوانی مقدّمات میں اسی طرح نالش داغی جاتی ہے۔ بشارت اُس سے اُلجھنے لگے۔ دورانِ بحث معلوم ہوا کہ اس وقت SHO کی دُخترِ نیک اختر کی منگنی کی رسم ہو رہی ہے۔ بیشتر عملہ وہیں تعینات ہے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد آئیں گے۔ اسسٹنٹ سب انسپکٹر دوپہر سے سڑک پر حفاظتی ڈیوٹی اور اسکول کی لڑکیوں کو جمع کر کے سڑک پر دو رویہ کھڑا کرنے میں لگا ہے، اس لیے کہ پرائم منسٹر ایک دفتر سے دوسرے دفتر جا رہا ہے۔ ہیڈ کانسٹیبل دَوش پر نکلا ہوا ہے۔
کوئی دو گھنٹے بعد ایس ایچ او نے ایک وکیل کی کار میں نزولِ اجلال فرمایا۔ وکیل کا بریف کیس جس پر خاکی زین کا غلاف چڑھا تھا ایک ملزم نما موکل اُٹھائے ہوئے تھا۔ خود وکیل کے ہاتھ میں منگنی کی مٹھائی کے ڈبّے تھے جو اُس نے عملے میں تقسیم کیے۔ ایک ڈبّا بشارت کو بھی دیا۔ ایس ایچ او کے آتے ہی سارا عملہ نہ جانے کہاں کہاں سے بھاگم بھاگ نکل کر اکٹھا ہو گیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے سب تمام وقت یہیں سر جھکائے اپنے اپنے کام میں جتے ہوئے تھے۔ ایس ایچ او نے بشارت سے سرسری روداد سن کر کہا، آپ ذرا باہر انتظار کیجیے۔ اصل رپورٹ کنندہ ڈرائیور ہے۔ اُس سے استفسار کرنا ہے۔ گھنٹے بھر تک اُس سے نہ جانے کیا اُلٹی سیدھی تفتیش کرتا رہا۔ خلیفہ باہر نکلا تو اُس کا صرف منہ ہی لٹکا ہوا نہیں تھا، وہ خود سارا کا سارا لٹکا ہوا نظر آ رہا تھا۔ اُس کے بعد ایس ایچ او نے بشارت کو اندر بلایا تو اُس کے تیور بالکل بدلے ہوئے تھے۔ کرسی پر بیٹھنے کو بھی نہیں کہا۔ سوالوں کی بھرمار کر دی۔ تھوڑی دیر کے لیے تو بشارت کو خیال ہوا کہ شاید اُسے مغالطہ ہوا ہے اور وہ اُنھیں ملزم سمجھ بیٹھا ہے۔ لیکن جب اُس نے کچھ ایسے چبھتے ہوئے سوال کیے جو صرف انکم ٹیکس افسر کو کرنے چاہییں تو اُن کا اپنا مغالطہ دور ہو گیا۔ مثلاً جب آپ نے مسروقہ چوب عمارتی بیچی تو روکڑ بہی میں اندراج کیا یا بالا ہی بالا کیش ڈکار گئے؟ ڈرائیور کو جو تنخواہ دیتے ہیں تو رسید اتنی ہی رقم کی لیتے ہیں یا زیادہ کی؟ گودام سے لکڑی بغیر ڈلیوری آرڈر کے نکلتی ہے! آپ خود بغیر Learner’s License کے ٹرک کیسے چلاتے ہیں؟ لکڑی کے تختے جب مبینہ ٹرک میں ناظم آباد لے جانے کے لیے رکھے گئے تھے تو کیا آپ نے حسبِ قانون مجریہ سن اُنیس سو کچھ پیچھے سرخ جھنڈی لگائی تھی؟ اور ہاں ناظم آباد پر یاد آیا کہ میرا مکان پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں "پلنتھ لیول” تک آ گیا ہے۔ کتنے فٹ لکڑی درکار ہو گی؟ تخمینہ لگا کر بتائیے۔ چھ سو گز کا ویسٹ اوپن[7] کارنر پلاٹ ہے۔ آپ کے ہاں جو ریڈیو ہے اُس کا لائسنس آپ نے بنوایا؟ کیا یہ صحیح ہے کہ آپ کی فرم میں آپ کے پچھتر سالہ والد اور دودھ پیتا بیٹا بھی پارٹنر ہیں؟ لکڑی جب لی مارکیٹ سے ناظم آباد لے جانی تھی تو رنچھوڑ لائن کا طواف کرنے کی حاجت کیوں پیش آئی؟ کیا یہ صحیح ہے کہ آپ پنج وقتہ نماز پڑھتے ہیں اور ہار مونیم بجاتے ہیں؟ (جواب میں بشارت نے وضاحت کی کہ نماز میں پڑھتا ہوں۔ ہارمونیم والد صاحب بجاتے ہیں۔ اس جواب پر ایس ایچ او نے دیر تک ہتھکڑی بجائی اور پہلی بار مسکراتے ہوئے بولا ہوں! سنا منشی جی؟ گویا عذر گناہ لذیذ تراز گناہ!) لکڑی مبیّنہ طور پر عین مسجد کے دروازے پر رکھی گئی! تو کیا اس سے نمازیوں کی آزمائش منظور تھی؟ ڈرائیور سے آپ کا سارا ٹبرّ حجامت بنواتا ہے۔ قورمہ پکواتا ہے۔ اُس نے آپ کے جونئیر پارٹنر کے ختنے بھی کیے۔ میری مراد آپ کے نو مولود صاحبزادے سے ہے۔ آپ نے اُس سے گھوڑا تانگہ بھی چلوایا۔ یہی اپ کے گھوڑے اور والد کا بالترتیب کھریرا اور مالش کرتا تھا۔ یہ لیبر لاز کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کیا یہ صحیح ہے کہ کچھ عرصے پہلے ایک آرا کش کی آنکھ میں لکڑی کی چھپٹی اچٹ کر پڑنے سے بینائی جاتی رہی تو اپ نے اسپنسر آئی ہاسپٹل سے اُس کی پٹّی کروا کے گھر بھیج دیا؟ کوئی معاوضہ نہیں دیا۔ اور آپ نے دُگنی قیمت پر لکڑی کیسے بیچی؟ اندھیر ہے۔ مجھے اپنے مکان کے لیے آدھے داموں مل رہی ہے! کھلے بھاؤ۔
تعزیرات و ضابطۂ فوجداری سے چھیڑ خانی
جب بشارت ہر سوال کا غیر تسلی بخش جواب دے چکے تو ایس ایچ او نے کہا، میں اسی وقت معائنہ موقع کروں گا۔ کل اتوار ہے۔ تھانے نہیں آؤں گا۔ سواری ہے؟ بشارت نے کہا، ہاں! ہے گی۔ اور اسے گاڑی تک لے آئے۔
"مگر یہ ہے کیا” ایس ایچ او نے بڑی حیرت سے پوچھا۔
"اسی میں لکڑی گئی تھی”
"مگر یہ ہے کیا”
اس نے چوری سے بچ جانے والے ان تختوں کو چھو چھو کر دیکھا جو اس میں چنے ہوئے تھے۔ پھر گاڑی کے گرد چکر لگا کر ان کی لمبائی کا تخمینہ لگایا۔ اس کے بعد وہ یک لخت بپھر گیا۔ کیسی جائے واردات اور کیسا معائنہ موقع۔ الٹے دھر لیے گئے۔ ایس ایچ او بکتا جھکتا واپس تھانے میں لے گیا۔ جیسے ہی وہ اپنے کڈھب سوال سے انہیں چاروں خانے چت کرتا، ویسے ہی اس کا خوشامدی اسسٹنٹ اپنے سینگوں پر اٹھا کر دوبارہ زمین پر پٹخ دیتا۔ ایک سوال ہو تو۔ پسنجر کار کو کس کی اجازت سے ٹرک میں تبدیل کیا گیا۔ جس گلی سے اس کا گزرتا بیان کیا جاتا ہے وہ تو ون وے ہے! اس کی انشورنس پالیسی تو کبھی کی lapse ہو چکی۔ وہیل ٹیکس ایک سال سے نہیں بھرا گیا۔ آپ کے ڈرائیور نے ابھی خود اقبالِ جرم کیا ہے کہ بریک نہ ہونے کے سبب گاڑی گئیر کے ذریعے روکتا ہے۔ اسی وجہ سے چند روز پہلے گارڈن ایسٹ کی جھگیوں کے سامنے ایک مرغی کار کے نیچے آ گئی، جس کا ہرجانہ خلیفہ کے پاس نہیں تھا۔ جھگی والوں نے رات بھر کار impound کیے رکھی اور مرغی کے بدلے خلیفہ کو یرغمال بنا لیا، ہر چند کہ وہ چیختا رہا کہ قصور کار کا نہیں۔ مرغی خود اُڑ کر اُس کے نیچے آئی تھی۔ طلوعِ آفتاب کے بعد خلیفہ نے بطور تاوان مرغی کے مالک کے ڈیڑھ دو درجن بیٹوں، بھتیجوں اور دامادوں اور دور نزدیک کے پڑوسیوں کی حجامت بنائی۔ تب کہیں جا کر گلو خلاصی ہوئی۔ ایک پڑوسی تو اپنے پانچ سالہ بیٹے کو گوٹے والی ٹوپی پہنا کر لے آیا کہ ذرا اس کے ختنے کر دو۔ اس مشقّت سے فارغ ہو کر ڈیڑھ دو بجے آپ کے پاس پہنچا تو اس کا صلہ آپ نے یہ دیا کہ اُس پر الزام لگایا کہ تم کار کے ٹول بکس میں قینچی اور اُسترا رکھے حجامتیں بناتے پھرتے ہو۔ اور ایک دن کی تنخواہ کاٹنے کی دھمکی دی۔ خیر، یہ ایک علاحدہ تفتیش طلب مسئلہ ہے۔ لیکن یہ بتائیے کہ آپ کی کار چمنی کی طرح دھواں کیوں دیتی ہے؟ سڑک پر ہر کہیں کھڑی ہو جاتی ہے۔ منشی جی! اماں سُن رہے ہیں منشی جی؟ شارعِ عام پر رُکاوٹ پیدا کرنے کی کَے مہینے کی ہے؟ محض؟ یا با مشقّت؟ اور جنابِ والا! اگر یہ صحیح ہے تو اس میں آپ کا پورا خاندان کچرگھان کیوں ٹنگا پھرتا ہے؟ اور منشی جی! ان کو؟ ذرا اوور لوڈنگ کی دفعہ تو پڑھ کر سُنا دیجیے۔
مختصر یہ کہ تعزیراتِ پاکستان اور ضابطۂ فوجداری کی کوئی دفعہ ایسی نہیں بچی جسے توڑ کر وہ اُس وقت رنگے ہاتھوں نہ پکڑے گئے ہوں۔ اُن کا ہر فعل کسی نہ کسی دفعہ کی لپیٹ میں آ رہا تھا۔ اور اُنھیں ایسا محسوس ہوا جیسے اُن کی ساری زندگی تعزیراتِ پاکستان اور ضابطۂ فوجداری سے چھیڑ خانی میں گزری ہے۔ پہلے تو اُنھیں اس پر حیرت ہوئی کہ ایس ایچ او کو ان کی تمام قانون شکنیوں کا القا کیسے ہوا۔ پھر وہ بار بار خلیفہ کو کچّا چبا جانے نظروں سے دیکھنے لگے۔ جیسے ہی آنکھیں چار ہوتیں خلیفہ جھٹ سے ہاتھ جوڑ لیتا۔
اتنے میں ایس ایچ او نے آنکھ سے کچھ اشارہ کیا اور ایک کانسٹیبل نے آگے بڑھ کر خلیفہ کے ہتھکڑی ڈال دی۔ ہیڈ کانسٹیبل بشارت کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُنھیں دوسرے کمرے میں لے گیا۔ "پہلے آپ کے خلاف پرچہ کٹے گا۔ از بسکہ محولہ بالا vehicle خود ناجائز ہے، لہذا بمعہ مال محمولہ، بشمول چوبِ مسروقہ، قابلِ ضبطی ہے۔ منشی جی! سپرد نامہ تیار کیجیے۔ شکایت کنندہ سے خود بہت سے ارتکابات ہوئے ہیں، لہذا۔۔۔۔۔۔ ”
بشارت کو چکر آنے لگا۔ وہ اس وقت مال بردار ٹرک محولہ بالا، مالِ محمولہ، چوب مشمولہ اور مسروقہ میں کوئی تمیز نہیں کر سکتے تھے۔
کچھ احوال حوالات کا
تھانے کی حوالات یا جیل میں، آدمی چار گھنٹے بھی گزار لے تو زندگی اور حضرتِ انسان کے بارے میں اتنا کچھ سیکھ لے گا کہ یونیورسٹی میں چالیس برس رہ کر بھی نہیں سکتا۔ بشارت پر چودہ طبق سے بڑھ کر بھی کچھ روشن ہو گیا اور وہ دہل کر رہ گئے۔ سب سے زیادہ تعجب اُنھیں اس زبان پر ہوا جو تھانوں میں لکھی اور بولی جاتی ہے۔ رپٹ کنندگان کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن منشی جی ایک شخص کو (جس پر نابالغ لڑکی کے ساتھ زبردستی نکاح پڑھوانے کا الزام تھا) عقد بالجبر کنندہ کہہ رہے تھے۔ عملے کی آپس کی گفتگو سے اُنھیں اندازہ ہو کہ تھانا ہٰذا نے بنی نوع انسان کو دو حصّوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ایک وہ جو سزا یافتہ ہیں۔ دوسرے وہ جو نہیں ہیں، مگر ہونے چاہییں۔ مُلک میں اکثریت غیر سزا یافتہ لوگوں کی ہے اور یہی بِنائے فتور و فساد ہے۔ گفتگو میں جس کسی کا بھی ذکر آیا، وہ کچھ نہ کچھ "یافتہ” یا "شدہ” ضرور تھا۔ "حجرہ مزاج پُرسی” میں جو شخص وقفے وقفے سے چیخیں مار رہا تھا وہ سابق سزا یافتہ اور مچلکے شدہ تھا۔ شارعِ عام پر بوس و کنار کے الزام میں جن دو عورتوں کو گرفتار کیا گیا تھا، اُن میں سے ایک کو اے ایس آئی شادی شدہ اور دوسری کو محض شدہ یعنی گئی گزری بتا رہا تھا۔ ہیڈ کانسٹیبل جو خود انعام یافتہ تھا، کسی وفات یافتہ کا بیانِ نزعی پڑھ کر سُنا رہا تھا۔ ایک پرچے میں کسی غنڈے کے غیر قابو یافتہ چال چلن کی تفصیلات درج تھیں۔ ایک جگہ آتش زدہ مکان مسکونہ کے علاوہ علاوہ برباد شدہ اسباب اور تباہ شدہ شہرت کے بھی حوالے تھے۔ اے ایس آئی ایک رپورٹ کنندہ سے دورانِ تفتیش پوچھ رہا تھا کہ شخص مذکورہ الصّدر کی وفات شدگی کا علم تمہیں کب ہوا۔ یہاں ہر فعل فارسی میں ہو رہا تھا۔ مثلاً سمن کی تعمیل بذریعہ چسپاندگی، متوفی کی وجہِ فوتیدگی، عدم استعمال اور زنگ خوردگی کے باعث جملہ رائفل ہائے تھانا ہذا بمعہ کارتوس ہائے پارینہ کی مرورِ ایّام سے خلاص شدگی اور عملے کی حیرانگی!
اس تھانے میں ہتھیار کی صرف دو قسمیں تھیں۔ دھار دار اور غیر دھار دار۔ جس ہتھیارسے گواہ استغاثہ کے سرُین پر نیل پڑے اور کاسۂ سر متورم ہوا، اس کے بارے میں روزنامچے میں مرقوم تھا کہ ڈاکٹری معائنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ گواہ مذکور کو بیچ بازار میں غیر دھار دار آلے سے مضروب کیا گیا۔ مراد اس کا جوتا تھا رات کے دس بجے "حجرہ مزاج پُرسی” میں ایک شخص سے جوتے کے ذریعے سچ بلوایا جا رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ جوتے کھا کر نا کردہ جرم کا اقبال کرنے والے سُلطانی گواہ کہتے ہیں۔ وہ شخص بڑی دیر سے زور زور سے چیخے جا رہا تھا، جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ہنوز جوتے کھانے کو جھوٹ بولنے پر ترجیح دے رہا ہے۔ جوتے کے اس extra- curricular (بالائے نصاب) استعمال کو پنجابی میں چھترول کہتے ہیں۔ تھانے میں آمد و رفت کچھ کم ہوئی تو تین کانسٹیبل صبح درج لیے ہوئے زنا بالجبر کے کیس کے ایک عینی گواہ کو آٹھویں دفعہ لے کر بیٹھ گئے جو اس وقت اس واقعے کو اس طرح بیان کر رہا تھا جیسے بچّے اپنے والدین کے دوستوں کو اِترا اِترا کر نرسری رہائم سُناتے ہیں۔ ہر دفعہ وہ نئی جزئیات سے اس واردات میں اپنی مجرمانہ حسرتوں کا رنگ بھرتا چلا جاتا۔
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے۔
تینوں کانسٹیبل سر جوڑے اسے اچھے شعر کی طرح سُن رہے تھے۔ اور بیچ بیچ میں ملزم کو رشک بھری داد اور داد بھری گالیاں دیتے جاتے۔ صبح جب بند کمرے میں مستغیثہ کے اظہار لیے جا رہے تھے تو سب کے ____ حتیٰ کہ حوالات میں بند ملزموں کے بھی ____ کان دیوار سے لگے تھے۔
یہاں ہر واردات مبیّنہ طور پر ہو رہی تھی۔ مثلاً "ملزم اپنی جائے رہائش سے نکل کر گواہانِ استغاثہ پر جھپٹا اور اپنے آگے کے دندان سے مسماتہ نذیراں کے مبیّنہ عاشق مسمّی شیر دل خاں کی ناک بقدر دو انچ بقیہ جسم سے علاحدہ کر دی اور مبیّنہ طور پر Exhibit A یعنی موجودہ ناک کے غائب شدہ حصّے کو نگل گیا۔ منحرف گواہ مسماتہ نذیراں بنتِ نا معلوم نے پہلے تو اے ایس آئی صاحب کے مواجہ میں ب۔ س۔ ص۔ ت کرنے سے انکار کر دیا لیکن بعد ازاں بلا تخویف، نشانِ انگشت چُپ سے ب۔ س۔ ص۔ ت کرنے پر رضامند ہو گئی۔” یہ مخفف تھا: "بیان سُن کر صحت تسلیم کی۔” نو بجے ایک شام کے اخبار کا جرائم رپورٹر آیا جس کے اخبار کا سرکولیشن کسی طرح بڑھ کر نہیں دے رہا تھا۔ اے ایس آئی سے کہنے لگا "اُستاد! دو ہفتوں سے خالی جا رہا ہوں۔ یہ تھانا ہے یا گورِ غریباں۔ تمہارے علاقے کے سبھی غنڈے یا تو تائب ہو گئے ہیں یا پولیس میں بھرتی ہو گئے۔ چندے یہی حال رہا تو ہم دونوں کے گھروں میں چوہے قلا بازیاں کھائیں گے۔” اُس نے جواب دیا "جانِ من! بیٹھو تو سہی۔ آج ایک گلے میں گھنٹی باندھ دی ہے۔ ایسا اسکوپ برسوں میں نصیب ہوتا ہے۔ بغل والے کمرے میں عینی گواہ دسویں دفعہ آموختہ سُنا رہا ہے۔ تم بھی جا کے سُن لو۔ اور یار! چار دن سے تو نے میرے تبادلے کے خلاف ایک بھی لیٹر ٹو دی ایڈیٹر نہیں چھپوایا۔ ہمیں جب نہ ہوں گے تو تجھے کون ہتھیلی پہ بٹھائے گا؟ اوئے بشیرے! دو چاء سلیمانی۔ فٹافٹ۔ لبالب۔ بلائی (بالائی) ایسی دبا دب ڈلوائیو کہ چاء میں پینسل کھڑی ہو جائے۔ اور بھائی فیروز دین! اس حجرے والے انقلابیے کو چپکا کرو۔ سرِ شام ہی سے سالے کے دردیں اُٹھنے لگیں۔ ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا۔ چیختے، ڈکراتے گلا بیٹھ گیا ہے۔ جنابِ عالی! مرد کے رونے سے زیادہ ذلیل چیز دُنیا میں نہیں۔ سالا خود کو حسن ناصر سے کم نہیں سمجھتا۔ میں نے پانچ بجے اسے آئس کولڈ بیئر کے چار مگ پلا دیے۔ بہت خوش ہوا۔ تیسرے مگ کے بعد مجھے، جی ہاں مجھے، "ستونِ دار پہ رکھے چلو سروں کے چراغ” کا مطلب سمجھانے لگا! چوتھا پی چکا تو میں نے ٹوائلٹ جانے کی مناہی کر دی۔ چنانچہ تین دفعہ کھڑے کھڑے پتلون میں ہی چراغ جلا چکا ہے۔ جنابِ عالی! ہم تو حکم کے تابع ہیں۔ ابھی تو لاہور کے شاہی قلعے میں اس کی آرتی اُترے گی۔ وہ سب کچھ قبلوا لیتے ہیں۔ اس سالے کی ٹریجیڈی یہ ہے کہ اس کے پاس قبولنے کو کچھ ہے نہیں۔ لہذا زیادہ پِٹے گا۔
شاملِ واردات
تازہ واردات کی خبر سُن کر رپورٹر کی باچھیں کھِل گئیں۔ اس خوشی میں اُس نے ایک سگریٹ اور دو میٹھے پانوں کا آرڈر دے دیا۔ جیب سے پیپر منٹ اور نوٹ بُک نکالی۔ بڑی مدّت بعد ایک چٹ پٹی خبر ہاتھ لگی تھی۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کیس کا پلاٹ اپنے افسانہ نویس دوست سلطان خاور کو بخش دے گا جو روز "رئیل لائف ڈرامہ” کا تقاضہ کرتا ہے۔ آبرو ریزی کے اس کیس کی تفصیلات سُننے سے پہلے ہی ذہن میں سُرخیاں سنسانے لگیں۔ اب کی دفعہ سُرخی میں ہی کاغذ پر کلیجہ نکال کر رکھ دوں گا۔ اُس نے دل میں تہیّہ کیا۔ "ستّر سالہ بوڑھے نے سات سال کی لڑکی سے منہ کالا کیا۔” یہ سُرخی جمانے کی خاطر پچھلے سال اسے لڑکی کی عمر سے دس سال نکال کر بوڑھے کی عمر میں جوڑنے پڑے تھے تاکہ اسی تناسب سے جرم میں سنگینی اور قاری کی دلچسپی میں اضافہ ہو جائے۔ مرزا عبد الودود بیگ کہتے ہیں کہ یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ سیدھے سادے اور سپاٹ لفظ rape کے جتنے بھی مترادفات ہمارے ہاں رائج ہیں، اُن میں ایک بھی ایسا نہیں جس میں خود لذّیت کا عنصر نہ ہو۔ کوئی سُرخی، کوئی سا فقرہ اُٹھا کر دیکھ لیجیے، جنسی لذّت کشی کا فشردہ نظر آئے گا۔ "ملزم نے خوبرو دوشیزہ کا دامنِ عصمت تار تار کر دیا۔” "ستّر سالہ بوڑھا رات کی تاریکی میں منہ کالا کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔” "پینسٹھ سالہ بوڑھا شب بھر کمسن دوشیزہ کی عصمت سے کھیلتا رہا۔” گویا اصل اعتراض پینسٹھ برس پر ہے، جس میں ملزم کا کوئی قصور نہیں۔ (در اصل اس سُرخی میں اخلاقیات، استعجاب، کرید اور حسد کی بحصّۂ مساوی آمیزش ہے۔ مطلب یہ کہ اخلاقیات صرف۴ /۱)۔ "چاروں ملزموں نے نو خیز حسینہ کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا”۔ "درندہ صفت ملزم وقفے وقفے سے پستول دکھا کر عصمت پر ڈاکہ ڈالتا رہا۔ پولیس کے آنے تک دھمکیوں کا سلسلہ برابر جاری رہا۔” یہ سُرخیاں اور عبارتیں ہم نے اخبارات سے حرف بحرف نقل کی ہیں۔ بعض بیانیہ اصطلاحیں اور فقرے کے فقرے، جنھیں ہم نقل کرنے سے بوجوہ قاصر ہیں، ایسے ہوتے ہیں جن سے لگتا ہے کہ بیان کرنے والا voyeur[8] خود بنفسِ حریص شاملِ واردات ہونا چاہتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ پڑھنے والے کی قانونی ہمدردیاں دوشیزہ کے ساتھ مگر دل ملزم کے ساتھ ہوتا ہے۔
سمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہو جہاں ہمارا
کوئلے کی اس کان سے مزید نمونے برآمد کرنا چنداں ضروری نہیں کہ ہاتھ کالے کرنے کے لیے یہی کافی ہیں۔ مختصراً اتنا عرض کر دیں کہ ذرا کھرچیے تو آپ کو جنسی جرائم سے متعلق کوئی فقرہ لذّت اندوزی سے خالی نہیں ملے گا۔ ہر لفظ سسکی اور ہر فقرہ چسکی لیتا دکھائی دے گا۔ انگریزی میں اس اسلوب کی بہترین مثال روسی نژاد مصنف نابوکوف کے ہاں ملتی ہے جو ہر لفظ کے غبارے کو رال میں لتھڑے ہوئے ہونٹوں میں دبا کر آخری لفظ نقطۂ تلذذ تک پھُلا پھُلا کر دیکھتا اور پھر اپنے قاری پر چھوڑتا چلا جاتا ہے۔
کتّا کیوں کاٹتا ہے
کافی دیر تک تو بشارت کو یقین نہیں آیا کہ یہ سب سچ ہو سکتا ہے۔ کراچی ہے کوئی رجواڑہ تو نہیں۔ اچھی خاصی farce معلوم ہوتی تھی۔ لیکن جب رات کے نو بج گئے تو معاملہ سچ مچ گمبھیر نظر آنے لگا۔ اے ایس آئی نے کہا "آج رات اور کل کا دن اور رات آپ کو حوالات میں گزارنے پڑیں گے۔ کل اتوار پڑ گیا۔ پرسوں سے پہلے آپ کی ضمانت نہیں ہو سکتی۔ ” اُنھوں نے پوچھا "کس بات کی ضمانت؟ ” جواب ملا "یہ عدالت بتائے گی۔ ” اُنھیں فون بھی نہیں کرنے دیا۔ ادھر حوالات کی کوٹھری میں جس کے جنگلے سے پیشاب کی کھراہند بھَک بھَک آ رہی تھی، خلیفہ وقفے وقفے سے ہتھکڑی والا ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھاتا اور ہی ہی، ہی ہی کر کے اس طرح روتا کہ ہنسی کا گُمان ہوتا۔ بشارت کا غصّہ اب ایک اپاہج اور گونگے کا غصّہ تھا۔ اتنے میں تھانے کے منشی جی چٹائی کی جا نماز پر عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر اُن کے پاس آئے۔ سُوکھ کر ٹڈا ہو گئے تھے، مگر عینک تلے آنکھوں میں بلا کی چمک تھی۔ لہجے میں شفقت اور مٹھاس گھُلی ہوئی۔ ایک بوتل لیمونیڈ کی اپنے ہاتھ سے گلاس میں اُنڈیل کر پلائی۔ اس کے بعد دونوں نے ایک دوسرے کو اپنی اپنی ڈبیا سے پان نکال کر کھلایا۔
منشی جی نے بڑے نرم اور پُر خلوص لہجے میں کہا کہ ہمارے سرکار (ایس ایچ او) بڑے بھلے آدمی ہیں۔ شریفوں کے ساتھ شریف اور بد معاشوں کے حق میں ہلاکو۔ یہ میری گارنٹی ہے کہ آپ کا چوری شدہ مال تین دن میں برآمد کرا دیا جائے گا۔ سرکار انتڑیوں میں سے کھینچ کر نکال لاتے ہیں۔ علاقے کے ہسٹری شیئر ان کے نام سے تھر تھر کانپتے ہیں۔ وہ ریڈیو گرام، زیورات اور ساریاں جو اس کمرے میں آپ نے دیکھیں، ان کی بازیابی آج صبح ہی ہوئی ہے۔ معروضہ یہ ہے کہ حضور کی گاڑی میں جو لکڑی پڑی ہے، وہ سرکار کے پلاٹ پر ڈلوا دیجیے۔ آپ کی اسی مالیّت کی مسروقہ لکڑی سرکار تین دن میں برآمد کروا دیں گے۔ گویا آپ کی گرہ سے تو کچھ نہیں گیا۔ میں نے ابھی ان سے ذکر نہیں کیا۔ ممکن ہے سُن کر خفا ہو جائیں۔ بس یوں ہی آپ کا عندیہ لے رہا ہوں۔ سرکار کی صاحبزادی کا رشتہ خُدا خُدا کر کے طے ہوا ہے۔ بٹیا تیس سال کی ہو گئی۔ بہت نیک اور سُگھڑ ہے۔ آنکھ میں خفیف سی کجی ہے۔ لڑکے والے جہیز میں کار، فرنیچر، ریڈیو گرام اور ویسٹ اوپن7 پلاٹ پر بنگلہ مانگتے ہیں۔ کھڑکی کے دروازے عمدہ لکڑی کے ہوں۔ بَر چوک جائے تو پھر یہ سب کچھ بھوگنا بھگتنا پڑتا ہے۔ ورنہ ہمارے سرکار اس قسم کے آدمی نہیں۔ آج کل بہت پریشان اور چڑچڑے ہو رہے ہیں۔ یہ تو سب دیکھتے ہیں کہ باؤلا کتّا ہر ایک کو کاٹتا پھرتا ہے۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ وہ اپنی مرضی سے باؤلا تھوڑا ہی ہوا ہے۔ آپ نے خود دو چار فقروں سے اندازہ کر لیا ہو گا کہ سرکار نے کیسی شگفتہ اور موزوں طبیعت پائی ہے۔ تین برس پہلے تک شعر کہتے تھے۔ شام کو تھانے میں شاعروں کا ایسا ازدحام ہوتا تھا کہ بعض اوقات حوالات میں کُرسیاں ڈلوانی پڑتی تھیں۔ ایک شام بلکہ رات کا ذکر ہے۔ گھمسان کا مشاعرہ ہو رہا تھا۔ سرکار ترنّم سے تازہ غزل پڑھ رہے تھے۔ سارا عملہ داد دینے میں جُٹا ہوا تھا۔ مقطعے پر پہنچے تو سنتری زردار خان نے تھری ناٹ تھری رائفل چلا دی۔ حاضرین سمجھے شاید قبائلی طریقے سے داد رہا ہے۔ مگر جب وہ واویلا مچانے لگا تو معلوم ہو کہ دورانِ غزل جب مشاعرہ اپنے شباب پر پہنچا تو ڈکیتی کیس میں ماخوذ ایک ملزم جو حوالات کا جنگلہ بجا بجا کے داد دے رہا تھا، بھاگ گیا۔ شاعروں نے اس کا تعاقب کیا۔ مگر اسے تو کیا پکڑ کے لاتے، خود بھی نہیں لوٹے۔ اللہ جانے پولیس کانسٹیبلان نے پکڑنے میں تساہل برتی یا ملزم نے "پکڑائی” نہیں دی مگر سرکار نے ہمت نہیں ہاری۔ راتوں رات اسی نام کے بستہ الف کے اک چھٹے ہوئے بدمعاش کو پکڑ کر حوالات میں بند کر دیا۔ کاغذات میں مفرور ملزم کی ولدیت بدل دی مگر اس کے بعد شعر نہیں کہا۔ تین برس سے سرکار کی ترقی اور شعر کی آمد بند ہے۔ عدم صاحب سے یاری ہے۔ پچھلے برس اپنے معصوم بچوں کے حلق پہ چھری پھیر کر حکام بالا کو ڈیڑھ لاکھ کی نذر گزرائی تو "لائن حاضری” سے چھٹکارا ملا اور اس تھانے میں تعیناتی ہوئی۔ اب سرکار کوئی ولی اللہ تو ہیں نہیں کہ سلام پھیر کر جا نماز کا کونا الٹ کر دیکھیں تو ڈیڑھ لاکھ کے نوٹ از غیبی دھرے ملیں۔ دودھ تو آخر تھنوں ہی سے نکالنا پڑتا ہے۔ بھینس دستیاب نہ ہو تو کبھی کبھی چوہیا ہی کو پکڑ دوہنا پڑتا ہے۔
بشارت کو نقصانِ مایہ سے زیادہ اس ذلت آمیز مثال پر غصہ آیا۔ بکری بھی کہہ دیتا تو غنیمت تھا (گو کہ چھوٹی ہے ذات بکری کی) لیکن صورتحال کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی۔ انہوں نے کہا، میں اپنی رپٹ واپس لیتا ہوں۔ اے ایس آئی نے جواب دیا کہ دن دہاڑے سرقہ ناقابلِ راضی نامہ جرم ہے یعنی قابل دست اندازی پولیس ہے۔ آپ رپٹ واپس لینے والے کون ہوتے ہیں؟ اگر آپ نے والیس لینے پر اصرار کیا تو جھوٹی رپٹ درج کرانے پر آپ کا یہیں آن دی سپاٹ چالان کر دوں گا۔ عزت کے لالے پڑ جائیں گے۔ اگر آپ کا وکیل بہت لائق فائق ہوا تو تین مہینے کی ہو گی۔ ایس ایچ او صاحب پیر کو فیصلہ کریں گے کہ آپ کن کن دفعات کے تحت ماخوذ ہیں۔
انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے ان کا ہر فعل، ان کی ساری زندگی قابل دست اندازی ہی نہیں، قابلِ دست درازی پولیس رہی ہے۔ اور یہ سراسر پولیس کی غفلت کا نتیجہ تھا کہ وہ اب عزت آبرو سے بسر کر رہے تھے۔
انہوں نے طیش میں آ کر دھمکی دی کہ مجھے حبس بے جا میں رکھا گیا ہے۔ یہ غیر قانونی حراست ہے۔ میں ہائی کورٹ میں Habeas Corpus Petition پیش کروں گا۔ اے ایس آئی بولا، آپ پیٹیشن کیا پیش کریں گے، ہم خود آپ کو ہتھیلی پہ دھر کے عدالت میں پیش کریں گے۔ دھڑ لے سے دس دن کا جسمانی ریمانڈ لیں گے۔ دیکھتے جائیے۔
آپ بیتی لکھنے کی خاطر جیل جانے والے
ای ایس آئی یہ دھمکی دے کر چلا گیا۔ چند منٹ بعد اس کا باس ایس ایچ او بھی اپنا ڈنڈا بغل میں دبائے اہم عہم عاحم کھانستا کھنکارتا اپنے گھر چلا گیا۔ عین اسی وقت مٹھائی والا وکیل نہ جانے کہاں سے دوبارہ آن ٹپکا۔ رات کے گیارہ بجے بھی اس نے کالا کوٹ اور سفید پتلون پہن رکھی تھی۔ وکیلوں کا مخصوص کلف دار سفید کالر بھی لگائے ہوئے تھا۔ کہنے لگا، برادر! ہر چند کہ میرا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں، محض انسانی ہمدردی کی بنا پر کہہ رہا ہوں کہ آپ متعدد جرائم میں ملوث کیے جا سکتے ہیں۔ خدا نخواستہ ابھی دفعہ ۶۱ ضابطۂ فوجداری کے تحت آپ کے ڈرائیور کا اقبالِ جرم قلم بند ہو جائے تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ آپ صورت سے بال بچے دار آدمی معلوم ہوتے ہیں آپ لیڈر تو ہیں نہیں جو سیاسی کیریئر بنانے اور سوانح عمری لکھنے کے لالچ میں جیل جائیں۔ پارٹیشن سے پہلے کی بات اور تھی۔ لیڈر باغیانہ تقریر کر کے جیل جاتا تھا تو جناب والا! سارا ملک انتظار میں رہتا تھا کہ دو تین سال بعد چھوٹیں گے تو کوئی تفسیر، کوئی آپ بیتی، کوئی تصنیف مکمل کر کے نکلیں گے۔ بد قسمتی سے انگریزوں نے مولانا ابو الکلام آزاد کو جیل سے قبل از وقت رہا کر دیا تو تفسیر ادھوری رہ گئی۔ بہرحال، وہ زمانے اور تھے۔ آج کل والا حال نہیں تھا کہ تقریر کرنے سے پہلے ہی دھر لیے گئے اور چھوٹے تو جیل کے دروازے پر کوئی ہار پھول پہنانے والا تک نہیں۔ نے چراغے، نے گلے والا مضمون! بخدا! میں یہ بحث نہیں کر رہا کہ آپ مجھے وکیل کر لیں، گو کہ میں آپ کو منع بھی نہیں کر سکتا۔ محض آپ کے بھلے کو کہہ رہا ہوں۔ مجھے پریکٹس کرتے پچیس سال ایک مہینہ ہوا۔ میں نے آج تک کوئی قانونی گتھی ایسی نہیں دیکھی جسے نانواں (روپیہ) نہ سلجھا سکے۔ سارے سم سم اسی سے کھلتے ہیں۔ آگے آپ کو اختیار ہے۔ البتہ اتنا فوڈ فار تھاٹ (Food for thought) شب گزاری کے لیے چھوڑے جاتا ہوں کہ اس وقت رات کے ساڑھے گیارہ بجا چاہتے ہیں۔ آپ نے ان آٹھ گھنٹوں میں پولیس کا کیا بگاڑ لیا جو آئندہ آٹھ گھنٹوں میں بگاڑ لیں گے۔ کل اتوار ہے۔ آپ اسی طرح حوالات میں اکڑوں بیٹھے اپنے کانسٹی ٹیوشنل رائٹس اور ضابطہ فوجداری کے حوالے دیتے رہیں گے۔ عدالت زیادہ سے زیادہ یہی تو تیر مار لے گی کہ آپ کو پیر کے دن رہا کر دے گی۔ سو ہم تو جناب والا پیر سے پہلے ہی آپ کو اس چوہے دان کے باہر دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ زیر حراست ہیں۔ اچھا۔ بہت رات ہو گئی۔ شب بخیر! منشی جی کو میرے گھر کا فون نمبر معلوم ہے۔
وکیل کے جانے کے بعد ہیڈ کانسٹیبل ایک چٹائی، ایلومینیم کا لوٹا اور کھجور کا دستی پنکھا لے آیا اور خلیفہ والی حوالات کی طرف اشارہ کر کے بشارت سے کہنے لگا "دن بھر بیٹھے بیٹھے آپ کی کمر تختہ ہو گئی ہو گی۔ اب آپ یہ بچھا کر وہاں لیٹ جائیے۔ مجھے جنگلے میں تالا لگانا ہے۔ مچھر بے پناہ ہیں۔ یہ کمبل اوڑھ لیجیے گا۔ زیادہ گرمی لگے تو یہ پنکھا ہے۔ رات کو استنجا آئے تو بے شک وہیں۔۔۔۔۔ بارہ بجے کے بعد حوالات کا تالا نہیں کھولا جا سکتا۔” اُس نے بتیاں بجھانی شروع کر دیں۔
مگر قارورہ کچھ اور کہتا ہے!
بتیاں بجھنے لگیں تو خلیفہ زور زور سے "سرکار! سرکار!” کر کے رونے لگا۔ حوالات کی دیواروں پر کھٹملوں کی قطاریں رینگنے لگیں۔ اور چہرے کے گرد خون کے پیاسے مچھروں کا ہالہ گردش کرنے لگا۔ اس مرحلے پر منشی جی دفعتاً پھر نمودار ہوئے۔ اور ملباری ہوٹل سے منگوایا ہوا قیمہ، جس میں پڑی ہوئی ہری مرچوں اور ہرے دھنیے کی الگ سے خوشبو آ رہی تھی۔ اور تنور سے اُترتی نان بشارت کے سامنے رکھی۔ گرم نان سے اشتہا کو باؤلا کر دینے والی وہ لپٹ آ رہی تھی جو ہزار ہا سال قبل انسان کو آگ دریافت کرنے کے بعد گیہوں سے آئی ہو گی۔ اسے کھانے سے انکار کرنے کے لیے بشارت نے کچھ کہنا چاہا تو کہہ نہ سکے کہ بھوک سے بُرا حال تھا اور سارا منہ رال سے بھر گیا تھا۔ ہاتھ کے ایک لجلجے سے اشارے سے انکار کیا اور ناک دوسری طرف پھیر کر بیٹھ گئے۔ اس پر منشی جی بولے، قسم خُدا کی! میں بھی نہیں کھاؤں گا۔ اس کا عذاب آپ کی گردن پر۔ تین بجے ایک ‘بن’ چاء میں ڈبو کے کھایا تھا۔ بس۔ ڈاکٹر آنتوں کی ٹی بی بتاتا ہے۔ مگر پیر الٰہی بخش کالونی والے حکیم شفاء الملک کہنے لگے کہ یہ بیماری زیادہ کھانے سے ہوتی ہے۔ لو اور سُنو! میں نے کہا، حکیم صاحب! میرا جُثہ جسامت تو دیکھیے۔ بولے، مگر قارورہ کچھ اور کہتا ہے!
یکبارگی منشی جی نے بات کا رُخ موڑا۔ بشارت کے گھُٹنے چھُو کر کہنے لگے، میں آپ کے پیروں کی خاک ہوں۔ پر دُنیا دیکھی ہے۔ آپ عزت دار آدمی ہیں۔ مگر معاملے کی نزاکت کو نہیں سمججھ رہے ہیں کہ قارورہ کیا کہہ رہا ہے۔ میں آپ کے خُسر کا محلّے دار اور ادنیٰ نیاز مند رہ چکا ہوں۔ دیکھیے، عزت کا صدقہ مال ہوتا ہے۔ لکڑی دے دلا کے رفع دفع کیجیے۔ کلہم دو تین ہزار کی تو بات ہے۔ یہ تو دیکھیے آپ ہیں کہاں! پھر یہ غور فرمائیے کہ ساڑھے تین ہزار کی اس لکڑی کے عوض آپ کو ساڑھے تین ہزار کی دوسری لاٹ مل جائے گی۔ پھر جھگڑا کس بات کا؟ سرکار شیر کے منہ سے شکار ہی نہیں چھینتے، اُس کے دانت بھی اُکھاڑ لاتے ہیں۔ علاقے میں کہیں کوئی واردات ہو، سرکار کو گویا القا ہو جاتا ہے کہ کس کا کام ہے۔ بعضے بعضے کو تو محض قیافے پر ہی دھر لیتے ہیں جیسا کہ، معاف کیجیے، حضور کے ساتھ ہوا۔ پچھلے سال انھی دنوں کی بات ہے۔ سرکار نے ایک شخص کو گالی گلوچ سے شارع عام پر رُکاوٹ پیدا کرنے پر گرفتار کیا۔ بظاہر ذرا سی بات تھی۔ مگر قارورہ کچھ اور کہہ رہا تھا۔ سب کو تعجب ہوا۔ مگر دو گھنٹے بعد سرکار نے اس کے گھر سے وہائٹ ہارس وہسکی کی تین سو بوتلیں، دو گھوڑا بوسکی کے تھان، مسروقہ زیورات، درجنوں ریڈیو گرام اور دنیا بھر کا چوری کا مال بر آمد کر لیا۔ گھر میں ہر چیز چوری کی تھی۔ ایک چیز بھی ذاتی نہیں نکلی۔ سوائے والد کے جس نے کہا کہ میں اس نا خلف کو عاق کرتا ہوں۔ مگر ہمارے سرکار دل کے بہت اچھے ہیں۔ پچھلے سال اسی زمانے میں میری بیٹی کی شادی ہوئی۔ سارے اخراجات سرکار نے خود برداشت کیے۔ انھیں میں کا ایک ریڈیو گرام بھی جہیز میں دیا۔ میں اس کی گارنٹی دیتا ہوں کہ مسروقہ لکڑی اور ٹرک کی رجسٹریشن بک آپ کو تین دن کے اندر اندر دُکان پر ہی ڈلیور ہو جائے گی۔ میری مان جائیے۔ ویسے بھی بیٹی کی شادی کے لیے رشوت لینے اور دینے کا شمار نیگ نیوتے میں کرنا چاہیے۔ آپ سمجھ رہے ہیں؟
روٹی میری کاٹھ دی، لاون میری بھکھ دا[9]
اب پیاز کے سب چھلکے ایک ایک کر کے اُتر چکے تھے۔ بس آنکھوں میں ہلکی ہلکی سوزش باقی رہ گئی تھی۔ خواری کا اصل سبب سمجھ میں آ جائے تو جھنجھلاہٹ جاتی رہتی ہے۔ پھر انسان کو چپ لگ جاتی ہے۔ منشی جی اب انھیں اپنے ہی آدمی لگنے لگے۔
"منشی جی! یہاں سبھی؟”
"حضور! سبھی”
"وکیل صاحب بھی”
"منشی جی! پھر آپ۔۔۔۔۔۔؟”
"حضور میرے سات بچّے ہیں۔ بڑا بیٹا انٹر میں ہے۔ بیوی کو ٹی بی بتائی ہے۔ دن میں دو تین دفعہ خون ڈالتی ہے – ڈاکٹر کہتا ہے مری یا کوئٹہ کے سینی ٹوریم لے جاؤ۔ تنخواہ اس سال کی ترقّی ملا کر اٹھائیس روپے پانچ آنے بنتی ہے[10]” بشارت نے ٹرک میں لدی ہوئی لکڑی ایس ایچ او کو نذر کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی۔ آدھی رات اِدھر، آدھی رات اُدھر، بارہ بجے خلیفہ کی ہتھکڑی کھُلی تو وہیں یعنی موری کے منبع و مخرج کے درمیان سجدے میں چلا گیا۔ شُکرانے کے سجدے سے ابھی پوری طرح نہیں اُٹھا تھا کہ ہاتھ پھیلا کر ہیڈ کانسٹیبل سے بیڑی مانگ کر پی۔ ادھر بشارت کو بھی کمرے سے باہر نکلنے کی اجازت ملی۔ منشی جی نے مبارک باد دی اور اپنی پیتل کی ڈبیا سے نکال کر دوبارہ پان کی کترن یہ کہہ کر پیش کی کہ یہ گلوریاں آپ کی بھابی نے صُبح بطورِ خاص بنائی تھیں۔ ہیڈ کانسٹیبل نے بشارت کو علاحدہ لے جا کر مبارک باد دیتے ہوئے کہا "خوشی کا موقعہ ہے۔ منشی جی کو پچیس روپے دے دیجیے۔ غریب عیال دار، ایمان دار آدمی ہے۔ اور جنابِ عالی! اب ہم سب کا منہ میٹھا کرائیے۔ ایسے خوشی کے موقعے بار بار تھوڑا ہی آتے ہیں۔ آپ بے شک گھر پر فون کر لیں۔ گھر والے پریشان ہوں گے کہ سرکار اب تک کیوں نہیں لوٹے۔ ایکسیڈنٹ تو نہیں ہو گیا۔ ڈھنڈیا مچ رہی ہو گی۔ اسپتالوں کے کیژولٹی وارڈ میں ہر مُردے کی چادر ہٹا ہٹا کے دیکھ رہے ہوں گے اور مایوس لوٹ رہے ہوں گے۔” بشارت نے سو روپے جیب سے نکال کر مٹھائی کے لیے دیے۔ تھڑی دیر بعد ایس ایچ او کے کمرے سے وہی وکیل صاحب مٹھائی کے ویسے ہی چار ڈبّوں کا مینار گود میں اُٹھائے اور ٹھوڑی کی ٹھونگ سے اسے بیلنس کرتے ہوئے نمودار ہوئے۔ اُنھوں نے بھی بڑی گرم جوشی سے مبارک باد دی اور اُن کی معاملہ فہمی اور سمجھ داری کو سراہا۔ تین ڈبّے عملے میں تقسیم کیے اور چوتھا بشارت کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے، یہ ہماری طرف سے بھابی صاحبہ اور بچّوں کو دے دیجیے گا۔ ڈبّا حوالے کرنے کے بعد اُنھوں نے اپنا کلف دار کالر اُتار دیا اور سیاہ کوٹ اُتار کر ہاتھ پر لٹکا لیا۔
بھکاری کون؟
وکیل صاحب نے مشورہ دیا کہ لگے ہاتھوں لکڑی ایس ایچ او صاحب کے پلاٹ پر ڈالتے جائیے۔ نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہئیے۔ ایک رائفل بردار کانسٹیبل خلیفہ کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ خلیفہ نے اس دفعہ "پدر سوختہ” کہہ کر ایک ہی گالی سے گاڑی سٹارٹ کر دی۔ کوئی بہت پڑھا لکھا یا معزز آدمی پاس بیٹھا ہو تو وہ گاڑی کو فارسی میں گالی دیتا تھا۔ گالی دیتے وقت اُس کے چہرے پر ایسا ایکسپریشن آتا کہ گالی کا مفہوم مصّور ہو کر سامنے آ جاتا۔ تھانے والوں نے ایک گیس کی لالٹین ساتھ کر دی تاکہ اندھیرے میں پلاٹ پر مال اُتروانے میں آسانی رہے۔ گاڑی کے پچھلے حصّے میں لکڑی کے تختوں پر لالٹین ہاتھ میں لیے بشارت بیٹھ گئے۔ جھٹکوں سے مینٹل جھڑ جانے کے ڈر سے اُنھوں نے لالٹین ہاتھ میں اَدھر اُٹھا رکھی تھی۔ خلیفہ ایسا بن رہا تھا جیسے گاڑی ہمیشہ اتنی ہی آہستہ چلاتا ہے۔ کانسٹیبل نے جھنجھلاتے ہوئے اُسے دو دفعہ ڈانٹا "ابے ٹرک چلا رہا ہے یا اپنی زوجہ کے جنازے کا جلوس نکال رہا ہے؟” بشارت کی آنکھیں نیند سے بند ہو چلی تھیں، مگر کراچی کی سڑکیں جاگ رہی تھیں۔ سینما کا آخری شو ابھی ختم ہوا ہی تھا۔ کاروں کے شیشوں پر اوس کے ریلے بہہ رہے تھے اور اُن کی قمیض بھیگ چلی تھی۔ پیلس سینما کے پاس بجلی کے کھمبے کے نیچے ایک جوان نیم برہنہ پاگل عورت اپنے بچّے کو دودھ پلا رہی تھی۔ بچّے کی آنکھیں دُکھنے آئی ہوئی تھیں اور سُوجن اور چیپڑوں سے بالکل بند ہو چکی تھیں۔ ننگی چھاتیوں پر بچّے نے دودھ ڈال دیا تھا جس پر مکھیوں نے چھاؤنی چھا رکھی تھی۔ ہر گزرنے والا ان حصّوں کو جو مکھیوں سے بچ رہے تھے نہ صرف غور سے دیکھتا بلکہ مُڑ مُڑ کے ایسی نظروں سے گھُورتا چلا جاتا کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا در اصل بھکاری کون ہے۔ پاس ہی ایلومینیم کے بے دھُلے پیالے میں منہ ڈالے ایک کُتّا اُسے زبان سے چاٹ چاٹ کر صاف کر رہا تھا۔ اس سے ذرا دور ایک سات آٹھ سال کا لڑکا ابھی تک موتیا کے گجرے بیچ رہا تھا۔ اُنھوں نے ترس کھا کر ایک گجرا خرید لیا اور کانسٹیبل کو دے دیا۔ اُس نے اُسے رائفل کی ناٹ پر لپیٹ لیا۔ بشارت سر جھکائے، خیالات میں گُم، بندر روڈ، عید گاہ، صدر اور نرسری ہوتے ہوئے پی ای سی ایچ ایس پہنچے تو ایک کا عمل ہو گا۔ اُنہوں نے لالٹین گاڑی کے بونٹ پر رکھ دی اور اُس کی روشنی میں وہ لکڑی جو چوری سے بچ گئی تھی، اپنے ہاتھوں سے تھانے دار کے پلاٹ پر ڈال آئے۔
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر؟
طوطے کی پیش گوئی
ڈھائی بجے رات جب وہ گھر پہنچے تو وہ فیصلہ کر چکے تھے کہ اس آٹو میٹک چھکڑے کو اونے پونے ٹھکانے لگا دیں گے۔ گھر، گھوڑے، گھر والی، سواری اور انگوٹھی کے پتھر کے معاملے میں وہ سعد اور نحس کے قائل تھے۔ اُنھیں یاد آیا کہ ۱۹۵۳ء میں موٹر سائیکل رکشا کے حادثے میں زخمی ہونے کے بعد جب وہ بندر روڈ پر میونسپل کارپوریشن کے سامنے بیٹھنے والے نجومی کے پاس گئے تو اُس نے اپنے سُدھائے ہوئے طوطے سے ایک لفافہ نکلوا کر پیش گوئی کی تھی کہ تمہاری قسمت میں ایک بیوی اور تین حج ہیں۔ تعداد کی ترتیب اس کے برعکس ہوتی تو کیا اچھا ہوتا، اُنھوں نے دل میں کہا: ویسے بھی حج زندگی میں ایک ہی دفعہ فرض ہے۔ ثواب لوٹنے کے معاملے میں وہ لالچی بالکل نہیں تھے۔ نجومی نے زائچہ بنا کر اور ہاتھ کی لکیریں محدّب شیشے سے دیکھ کر کہا کہ دو تین اور چار پہیّوں والی گاڑیاں تمہارے لیے نحس ثابت ہوں گی۔ یہ بات وہ زائچے اور محدّب شیشے کے بغیر، صرف اُن کے ہاتھ اور گردن پر بندھی ہوئی پٹیاں دیکھ کر بھی کہہ سکتا تھا۔ بہر حال اب وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ جب تک ایک یا پانچ پہیّوں کی گاڑیاں ایجاد نہ ہو، انھیں اپنی ٹانگوں پر ہی گزارا کرنا پڑے گا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس گاڑی کو خریدنے کا اصل مقصد لکڑی کو چوروں اور ایس ایچ او تک بحفاظت تمام پہچانا تھا جو بحمد للہ بغیر رُکاوٹ کے تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔
۷
بنگال ٹائیگر گیا، ببّر شیر آ گیا
صبح جب اُنھوں نے خلیفہ کو مطلع کیا کہ اب وہ اس کی خدمات سے استفادہ کرنے کے لائق نہیں رہے تو وہ بہت رویا گایا۔ پہلے تو کہا، میں گاڑی کو اکیلا چھوڑ کر کیسے جاؤں؟ پھر کہنے لگا، کہاں جاؤں؟ بعد ازاں اُس نے آقا اور ملازم کے اٹوٹ رشتے اور نمک کھانے کے دُور رس نتائج پر تقریر کی جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ اُسے اپنی غلطی کا احساس ہے۔ اور جو بھاری نقصان اُن کو پہنچا ہے، اس کی تلافی وہ اس طرح کرنا چاہے گا کہ سال بھر میں ان کی حجامت کی جو اُجرت بنتی ہے، اس میں سے وہ لکڑی کی رقم مجرا کر لیں۔ اس پر وہ چیخے کہ خلیفے! تو سمجھتا ہے کہ میں ساڑھے تین ہزار سالانہ کی حجامت بنواتا ہوں؟ خلیفہ نے دوبارہ اپنی غلطی کا خندہ پیشانی سے اعتراف کیا اور ساتھ ہی گاڑی کو گشتی ہیئر کٹنگ سیلون بنانے کی پُر حماقت تجویز پیش کی جو اتنی ہی حقارت سے رد کر دی گئی۔ زچ ہو کر اس نے یہاں تک کہا کہ وہ تمام عمر۔۔۔۔ یعنی گاڑی کی یا اس کی اپنی عمرِ طبعی تک، جو بھی پہلے دغا دے جائے۔۔۔۔۔۔ بالکل مفت ڈرائیوری کرنے کے لیے تیار ہے۔ گویا جو نقصان پہلے تنخواہ لے کر پہنچاتا تھا۔۔۔۔ بلا تنخواہ پہنچائے گا۔ غرض کہ خلیفہ دیر تک اسی قسم کی تجویزوں سے اُن کے زخموں پر پھٹکری چھڑکتا رہا۔
وہ کسی طرح نہ مانے تو خلیفہ نے ہتھیار ڈال دیے، مگر اُسترا اُٹھا لیا۔ مطلب یہ کہ آخری خواہش یہ ظاہر کی کہ اس قطعِ تعلق کے باوجود، اسے کم از کم حجامت کے لیے آنے کی تو اجازت دی جائے، جو بشارت نے صرف اس شرط پر دی کہ اگر میں آئندہ کوئی سواری۔۔۔۔۔ کسی بھی قسم کی سواری۔۔۔۔۔۔۔ رکھوں تو حرام خور تم نہیں چلاؤ گے۔
کچھ دن بعد خلیفہ یہ خبر دینے آیا کہ صاحب جی! یوں میرے دل میں اُچنگ ہوئی کہ ذرا تھانیدار صاحب بہادر کے پلاٹ کی طرف ہوتا چلوں۔ میں تو دیکھ کے بھونچکا رہ گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اپنی رشوت میں دی ہوئی لکڑی کے پاس اپنی چوری شدہ لکڑی پڑی ہے! پہلو بہ پہلو! ہمارا مال ایک شیر دوسرے شیر کے منہ میں سے نکال کر ڈکار گیا۔ ہمیں کیا فرق پڑتا ہے کہ دھاری دار شیر (Bengal Tiger) چلا گیا اور ببّر شیر آ گیا۔ میرا اعتبار نہیں تو خود جا کے ملاحظہ کر لیجیے۔ خلیفہ ہنسنے لگا۔ اُسے اپنی ہی بات پر بے محل، بے اختیار اور مسلسل ہنسنے کی بُری عادت تھی۔ سانس ٹوٹ جاتا تو ذرا دم لے کر پھر سے ہنسنا شروع کر دیتا۔ وہ ہنسی الاپتا تھا۔ دَم لینے کے وقفے میں آنکھ مار جاتا۔ سامنے کا ایک دانت ٹوٹا ہوا تھا۔ اس وقت وہ اپنی ہنسی کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا اور بالکل کلاؤن معلوم ہو رہا تھا۔
ٹرک ہٰذا بکاؤ ہے
گاڑی ایک مہینے تک بیکار کھڑی رہی۔ کسی نے جھوٹوں بھی دام نہ لگائے۔ تضحیک و توہین کے پہلو سے بچنے کی خاطر ہم نے اسے گاڑی کہا ہے۔ بشارت بے حد حسّاس ہو گئے تھے۔ کوئی اسے کار کہتا تو اُنھیں خیال ہوتا کہ طنز کر رہا ہے اور ٹرک کہتا تو اس میں توہین کا پہلو نظر آتا۔ وہ خود Vehicle کہنے لگے تھے۔ وہ مایوس ہو چلے تھے کہ دفعتاً ایک ایک دن کے وقفے سے اکٹھی تین ” آفرز” آ گئیں۔ پڑوس میں سیمنٹ کے ڈپو کے مالک نے اس ترپال کے جو کبھی گاڑی پر چڑھا رہتا تھا، تیرہ روپے لگائے، جب کہ ایک گدھا گاڑی والے نے بارہ روپے کے عوض چاروں پہیّے نکال کر لے جانے کی آفر دی۔ اُنھوں نے اس جاہل کو بُری طرح لتاڑا کہ یہ بھی ایک ہی رہی۔ تیرا خیال ہے کہ یہ گاڑی پہیّوں کے بغیر چل سکتی ہے! اُس نے جواب دیا، سائیں! یہ پہیّوں کے ہوتے ہوئے کون سی چل رہی ہے! رقم کے لحاظ سے تیسری آفر سب سے اچھی تھی۔ یہ ایک ایسے شخص نے دی جو حلیے سے اسمگلر لگتا تھا۔ اُس نے گاڑی کی نمبر پلیٹ کے دو سو روپے لگائے۔
ان اہانت آمیز آفرز کے بعد بشارت نے گاڑی پر ترپال چڑھا دیا اور توبہ کی کہ آئندہ کبھی کار نہیں خریدیں گے۔ آگے چل کر مالی حالت اور طبیعت کی چونچالی بحال ہوئی تو اس توبہ میں اتنی سی ترمیم کر لی کہ آئندہ کسی آنجہانی گورے کی گاڑی نہیں خریدیں گے خواہ اُس کی بیوہ میم کتنی ہی خوب صورت کیوں نہ ہو۔ مرزا نے مشورہ دیا کہ اگر تمہاری کسی سے دُشمنی ہے تو گاڑی اُسے تحفتہً دے دو۔ بشارت نے کہا، نذر ہے۔ چند روز بعد اُنھوں نے ترپال اُتار دیا اور ایک گتّے پر "برائے فروخت” نہایت خوشخط لکھوا کر گاڑی پر ٹانگ دیا۔ دو تین دن میں گاڑی اور گتّے پر گرد اور آرا مشین سے اُڑتے ہوئے بُرادے کی دبیز تہیں چڑھ گئیں۔ مولانا کرامت حسین نے جو اَب فرم کے مینجر کہلاتے تھے، ونڈ اسکرین کی گرد پر انگلی سے "خوش آمدید” اور”ٹرک ہٰذا بکاؤ ہے” لکھ دیا جو دور سے نظر آتا تھا۔ روزانہ ظہر کے وضو کے بعد حروف پر گیلی انگلی پھیر کر اُنھیں روشن کر دیتے۔ نمازِ با جماعت کے بعد مسجد سے آ کر گاڑی پر دَم کرتے۔ فرماتے تھے، ایسا جلالی وظیفہ پڑھ رہا ہوں کہ جس چیز پر بھی پھونک مار دی جائے وہ یا تو چالیس دن کے اندر اندر بِک جائے گی، ورنہ وظیفہ پڑھنے والا خود اندھا ہو جائے گا۔ دن میں تین چار دفعہ اپنی آنکھوں کے سامنے ہاتھی کی کبھی دو کبھی تین یا چار انگلیاں دائیں بائیں گھماتے۔ یہ تحقیق کرنے کے لیے کہ بینائی جاتی تو نہیں رہی۔ وظیفے کے بعد مسجد سے دُکان تک، راستے بھر جلالی پھونک کو اپنے منہ میں بڑی احتیاط سے بھرے رکھتے کہ ” لیک” ہو کر غلطی سے کسی اور چیز پر نہ پڑ جائے۔
۸۔
حاجی اورنگ زیب خاں سوداگران و آڑھتیان چوب ہائے عمارتی
پتلا شوربہ اور سُوجی کا حلوہ
ابھی مولانا کرامت حسین کے وظیفے کو چالیس دن نہیں ہوئے تھے کہ بشارت ایک اور قضیے میں اُلجھ گئے، جو کچھ اس طرح تھا کہ حاجی اورنگ زیب خان، آڑھتیان و سوداگران چوب ہائے عمارتی، پشاوران سے رقم وصول کرنے آ دھمکے۔ اُنھوں نے کوئی ایک سال قبل اعلیٰ درجے کی لکڑی پنجاب کے ایک آڑھتی کی معرفت بشارت کو سپلائی کی تھی۔ یہ داغدار نکلی۔ جب یہ سال بھر تک نہیں بکی تو بشارت نے گھاٹے سے سات ہزار میں فروخت کر دی۔ یہ وہی لکڑی تھی، جس کی چوری، بازیابی اور غتربود ہونے کا حال ہم پچھلے صفحات میں بیان کر چکے ہیں۔ بشارت کا موقف تھا کہ میں نے یہ لکڑی سات ہزار میں گھاٹے سے بیچی ہے۔ خان صاحب فرماتے تھے کہ آپ کی آدھی لکڑی تو چور لے گئے۔ آدھی پولیس والوں نے ہتھیا لی۔ آپ اسے بیچنا کہتے ہیں۔ اس کے لیے تو پشتو میں بہت بُرا لفظ ہے۔
بشارت کے تخمینے کے مطابق لکڑی کی مالیّت کسی طرح سات ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ ادھر حاجی اورنگ خان اصولی طور پر ایک پائی بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے، جس کا مطلب یہ تھا کہ بشارت بقیہ رقم یعنی ۳۔ ۹۔ ۲۵۷۳ روپے اپنی گرہ سے بھریں۔ (یہ رقم آج کے پندرہ ہزار روپے کے برابر تھی) خان صاحب کہتے تھے کہ آپ نے مال بیچنے میں شیطانی عجلت سے کام لیا۔ جلدی کا کام شیطان کا۔ ” صیب! یہ لکڑی تھی، بالغ لڑکی تو نہیں جس کی جلد از جلد رُخصتی کرنا کارِ ثواب ہو۔”
ایک مدّت سے اس رقم کے بارے میں خط و کتابت ہو رہی تھی۔ ایک دن خان صاحب کے دل میں نہ جانے کیا آئی کہ قانونی نوٹس کی رجسٹری کرائی اور پشاور جنرل پوسٹ آفس سے سیدھے گھر آئے۔ سامان باندھا اور نوٹس سے پہلے خود کراچی پہنچ گئے۔ نوٹس ان کی آمد کے تین دن بعد ان کی موجودگی میں اس طرح موصول ہوا کہ رجسٹری خود انھوں نے ڈاکیے کے ہاتھ سے چھین کر کھولی۔ نوٹس نکال کر پھاڑ دیا اور لفافہ بشارت کو تھما دیا۔ قیام بھی انہیں کے ہاں کیا۔ اُس زمانے میں دستور تھا کہ آڑھتی یا تھوک بیوپاری آئے تو اُسے گھر پر ہی ٹھہرایا جاتا تھا۔ یوں بھی بشارت کی خان صاحب سے خوب بنتی تھی۔ بشارت خان صاحب کے خلوص و مدارات کے گرویدہ اور خان صاحب ان کی لچھے دار باتوں کے دلدادہ۔
دن بھر ایک دوسرے کے ساتھی جھائیں جھائیں کرنے کے بعد، شام کو خان صاحب بشارت کے ساتھ اُن کے گھر چلے جاتے، جہاں اُن کی اس طرح خاطر مدارات ہوتی جیسے دن میں کچھ ہوا ہی نہیں۔ گھر والے ان کی خاطر داریاں کرتے کرتے تنگ آ چکے تھے۔ اس کے باوجود خان صاحب شاکی تھے کہ کراچی میں پتلے شوربے کا سالن کھا کھا کے میری نظر کمزور ہو گئی ہے۔ قدرے لنگڑا کر چلنے لگے تھے۔ فرماتے تھے، گھٹنوں میں شوربہ اُتر آیا ہے رات کے کھانے کے بعد سُوجی کا حلوہ ضرور طلب کرتے۔ فرماتے تھے، حلوہ نہ کھاؤں تو بزرگوں کی روحیں خواب میں آ آ کر ڈانٹتی ہیں۔ اکثر اُن سالم رانوں کو یاد کر کے آہیں بھرتے جو اُن کے دستر خوان کی زینت ہوا کرتی تھیں۔ ان کا پیٹ اعلیٰ نسل کے بروں (دُنبوں) کا قبرستان تھا، جس کے وہ مجاور تھے۔ بشارت نے دوپہر کو ان کے لیے فرنٹیئر ہوٹل سے ران اور چپلی کباب منگانے شروع کیے۔ مرزا نے کئی مرتبہ کہا کہ اس سے تو بہتر ہے کہ ۳۔ ۹۔ ۲۵۷۳ روپے دے کر اپنا پنڈ چھڑاؤ۔ یہ پھر بھی سستا پڑے گا۔ مگر بشارت کہتے تھے کہ سوال روپے کا نہیں، اصول کا ہے۔ خان صاحب بھی اسے اپنی انا اور اصول کا مسئلہ بنائے ہوئے تھے۔
اولیا اللہ جس یکسوئی اور استغراق سے مراقبہ اور خدا کی عبادت کرتے ہیں، خان صاحب اس سے زیادہ یکسوئی اور استغراق غذا پر صَرف کرتے تھے۔ اکثر فرماتے تھے کہ نماز، نیند، کھانے اور گالی دینے کے دوران کوئی مخل ہو جائے تو اُسے گولی مار دوں گا۔ کسی اجنبی یا دشمن یا ناقابلِ اعتبار دوست سے ملنے جاتے تو گلے میں 38 بور کا ریوالور حمائل کر لیتے۔ مشہور تھا کہ خانہ کعبہ کے طواف کے دوران بھی ریوالور احرام میں چھُپا رکھا تھا۔ واللہ اعلم۔ دس سیر سُوجی روئے دار بطورِ سوغات کراچی لائے تھے۔ اسی کا حلوہ بنوا بنوا کر کھا رہے تھے۔ بشارت روز سُوجی کی بوری دیکھتے اور دہل جاتے اس لیے کہ ابھی تو اس کے ختم ہونے میں بہت دیر تھی۔ خان صاحب فرماتے تھے کہ اگلی دفعہ مردان شوگر ملز سے تازہ گُڑ کی بوری لاؤں گا۔ سفید چینی کھانے سے خون پتلا پڑ جاتا ہے۔ ایک دن بشارت نے اندیشہ ہائے قریب سے گھبرا کر باتوں باتوں میں ٹوہ لینا چاہی۔ پوچھا "خان صاحب! گُڑ سے کیا کیا بنتا ہے؟” سُوجی کے حلوے کا گولہ حلق میں پھنساتے ہوئے بولے "بھابی سے پوچھ لینا۔ اس وقت دماغ حاضر نہیں۔ بات یہ ہے کہ گھاٹے اور جھگڑے سے، اور گُڑ سے۔۔۔۔۔۔ اور روزے سے بھی۔۔۔۔۔۔ ہمارے دماغ کو ایک دم گرمی چڑھ جاتا ہے۔ ہم صرف رمضان میں ہا تھا پائی کرتا ہے۔ اس واسطے کہ روزے میں گالی دینا منع ہے۔”
ٹانگیں اور پائے
خان صاحب کے اپنے دستر خوان اور خاطر مدارات کا کیا کہنا۔ بشارت کو پشاور میں ان کے ہاں مہمان رہنے کا اتفاق ہوا۔ ہر کھانے پر بکری یا دُنبے کی مسلّم ران سامنے رکھ دیتے۔ ناشتے اور چائے پر البتہ مرغی کی ٹانگ پر اکتفا کرتے۔ ان کے دستر خوان پر ران اور ٹانگ کے سوا کسی اور حصّے کا گوشت نہیں دیکھا۔ نہ کبھی سبزی یا مچھلی دیکھی، جس کی وجہ بظاہر یہی معلوم ہوتی تھی کہ بینگن اور مچھلی کی ٹانگیں نہیں ہوتیں۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ پیرس کے Folies Bergere اور Lido کی کورس گرلز کا Leg Show دیکھ کر خان صاحب پشتو میں کیا ارشاد فرماتے، لیکن اتنا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ انھیں ایسی ٹانگوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی جنھیں روسٹ کر کے وہ کھا اور کھلا نہ سکیں۔
ٹانگ کے گوشت سے رغبت کے باوجود خان صاحب کو کراچی کی بونگ کی نہاری اور سری پایوں سے سخت چڑ تھی۔ ایک مرتبہ فرمایا: مجھ سے تو مویشی کے گندے، گوبر میں بسے ہوئے کھروں کا آبِ جوش نہیں کھایا جاتا۔ ہمارے فرنٹیئر میں تو کوئی بڈھا کسی کچّی عمر کی دوشیزہ سے شادی کر لے تو حکیم اور پڑوسی اُسے ایسا ہی آتش گیر مادّہ کھلاتے ہیں۔ اس سے وہ انتڑیوں کی بیماری میں مبتلا ہو کر وفات پا جاتا ہے۔ سنا ہے ولایت میں تو کھروں سے سالن کے بجائے سریش بناتے ہیں۔ آپ بھی کمال کرتے ہیں! بکری کے پائے، بھیڑ کے پائے، دُنبے کے پائے، گائے کے پائے، بیل کے پائے، بھینسے کے پائے، میں تو جانوں چارپائی کے پائے آپ محض اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ صاف ہوتے ہیں۔
پچھلی صدی کا اسٹیچو
خان صاحب وجیہہ اور بھاری بھرکم آدمی تھے۔ اُن کی لغو بات میں بھی وزن محسوس ہوتا تھا۔ قد تقریباً ساڑھے چھ فٹ، جسے کلاہ اور طرّے سے ساڑھے سات فٹ بنا رکھا تھا، مگر آٹھ فٹ کے لگتے تھے اور یہی سمجھ کر بات کرتے تھے۔ صحت اور کاٹھی اتنی اچھی کہ عمر کچھ بھی ہو سکتی تھی۔ تن و توش کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہتھے والی کرسی پر جیسے تیسے ٹھس کر بیٹھ تو جاتے، لیکن جب اُٹھتے تو کرسی بھی ساتھ اُٹھتی۔ سنہری مونچھیں اور ہلکی براؤن آنکھیں۔ بائیں رخسار پر زخم کا ہلالی نشان جو اگر نہ ہوتا تو چہرہ ادھورا دکھائی دیتا۔ انگشتِ شہادت دوسری پور سے کٹی ہوئی۔ کسی نابکار کو خبر کرنا ہو یا آسمان کو کسی قضیے میں اپنا گواہ بنانا مقصود ہو (جس کی ضرورت دن میں کئی بار پڑتی تھی) تو یہ نیم انگشتِ انتباہ اُٹھا کر خطاب کرتے۔ ان کی کٹی انگلی بھی ہماری ثابت انگلی سے بڑی تھی۔ پاس اور دور کی نظر خاصی کمزور تھی، لیکن عینک لگاتے سے حتی الامکان احتراز کرتے۔ صرف چیک پر دستخط کرنے اور گالی دینے کے بعد معتوب کے چہرے پر اس کے اثرات دیکھنے کے لیے پاس کی عینک لگا لیتے۔ اور اتارنے سے پہلے جلدی جلدی اسی سے دور کی چیزیں دیکھنے کی کوشش کرتے۔ یہ معلومات ان کی دن بھر کی جغرافیائی ضروریات کے لیے کافی ہوتی تھیں۔ آنکھوں میں شوخی کی ہلکی سی تحریر۔ کھل کر ہنستے تو چہرہ انار دانہ ہو جاتا۔ چہرے پر ہنسی ختم ہونے کے بعد اس کی اندرونی لہروں سے پیٹ دیر تک ہچکولے کھاتا رہا۔ اصلی زری کی کلاہ پر پگڑی کا ہاتھ بھر اونچا کلف دار طرہ زخمی انگوٹھے کی طرح ہمہ وقت کھڑا ہی رہتا تھا۔ گہرا براؤن ٹرکش کوٹ، "تلے” کا پشاوری چپل جس میں ہمارے دونوں پیر آگے پیچھے آ جائیں۔ لامتناہی گھیر کی سفید شلوار۔ خان صاحب نہایت با رعب جامہ زیب پچھلی صدی کے آدمی دکھلائی دیتے تھے۔ قصیدے، کیری کیچور[11] اور اسٹیچو (مجسمہ) کے لیے یہ ازبس لازم ہے کہ کم از کم ڈیوڑھے ہوں۔ لائف سائز نہ ہوں۔ خان صاحب اپنا اسٹیچو آپ تھے۔
واسکٹ کی جیب میں جو طلائی گھڑی رکھتے تھے اس کی زنجیر دو فٹ لمبی ضرور ہو گی۔ اس لیے کہ واسکٹ کی ایک جیب سے دوسری جیب کا فاصلہ اتنا ہی تھا۔ جتنی دیر میں خان صاحب کی شلوار میں کمر بند ڈلتا، اتنی دیر میں آدمی حیدر آباد ہو کر آ سکتا تھا۔ اعصاب اس حد تک مضبوط تھے کہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تھے ہی نہیں۔ معمولی تکلیف اور نا راحتی کا ان کو احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ ایک دفعہ دھوبی نے ان کی میلی شلوار کے نیفے میں سے پنسل کے ٹکڑے بر آمد کیے۔ پر خور تھے۔ دورانِ طعام، کلام سے پرہیز کرتے اور پانی نہیں پیتے تھے کہ خواہ مخواہ جگہ گھیرتا ہے۔ دال کو ہندوانہ بدعت اور سبزی کھانے کو مویشیوں کی صریح حق تلفی سمجھتے تھے۔
کڑاہی گوشت کا مطلب صرف یہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ کڑاہی گوشت کھائیں گے بلکہ کڑاہی بھر کر کھائیں گے۔ خیریت گزری کہ اس زمانے میں بالٹی گوشت کا رواج نہیں تھا ورنہ وہ یقیناً بالٹی کو کڑاہی پر ترجیح دیتے۔ تیتر بٹیر کی ہڈیوں، انگور، مالٹے اور تربوز کے بیج تھوکنے کو زنانی نزاکتوں میں شمار کرتے تھے۔ اپنے تن توش اور ہیئت کذائی (جسے ہیبتِ غذائی کہنا بہتر ہو گا) سے خود عاجز تھے۔ گھومنے پھرنے اور چہل قدمی کے شوقین، مگر اس شرط پر کہ ہر چالیس قدم کے بعد سستانے اور کچھ پیٹ میں ڈالنے کے لیے توقف فرمائیں گے تاکہ تازہ دم ہو کر آگے بڑھیں۔ یعنی اگلے چالیس قدم۔ مانا کہ خان صاحب میں اتنی پھرتی اور چلت پھرت نہ تھی کہ بڑھ کر دشمن پر حملہ کر سکیں لیکن ہنگامِ قتال اگر وہ اس پر صرف گر پڑتے تو وہ پانی نہ مانگتا۔ ہاتھ پاؤں مارے بغیر وہیں دم گھٹ کے ڈھیر ہو جاتا۔ کراچی اگاہی کے لیے تشریف لاتے تو کارتوسوں کی پیٹی نہیں باندھتے تھے۔ فرماتے تھے اس کے بغیر ہی کام چل جاتا ہے۔ سینے اور پیٹ پر پیٹی کے نشان سے ایک ڈایاگنل (اریب لکیر) بن گئی تھی جو دھڑ کو دو مساوی مثلثوں میں آڑا تقسیم کرتی تھی۔ فرماتے تھے، جہاں کوہستانی ہوائیں اور بندوق کی آواز نہ آئے وہاں مردوں کو نیند نہیں آتی۔
ان کی کٹی ہوئی انگشتِ شہادت کا قصہ یہ ہے کہ ان کا لڑکپن تھا، لڑکوں میں لیمو نیڈ کی گولی والی بوتل کو انگلی سے کھولنے کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ خان صاحب نے اس کی گولی پر انگشتِ شہادت رکھ کر دوسرے ہاتھ سے پوری طاقت سے مکا مارا جس سے فی الفور بوتل اور ہڈی ٹوٹ گئی۔ بوتل کی گردن ان کی انگلی میں منگنی کی انگوٹھی کی طرح پھنس کر رہ گئی۔ ہتھوڑے سے توڑنی پڑی۔ انگلی سیپٹک ہو گئی۔ دو ہفتے بعد کٹوانی پڑی۔ کلوروفارم سونگھنے کو وہ مردوں کی شان کے خلاف سمجھتے تھے لہذا بغیر کلورو فارم کے آپریشن کرایا۔ آپریشن سے پہلے کہا کہ میرے منہ پر کس کے ڈھاٹا باندھ دو۔
اپنی دانست میں کوئی بہت عالمانہ نکتہ بیان کرنا ہوتا تو بات میں وزن اور وقار پیدا کرنے کی غرض سے پہلے اپنی ٹھوڑی پر اس طرح ہاتھ پھیرتے گویا وہاں ٹیگور جیسی داڑھی ہے جو منت پذیر شانہ ہے۔ پھر نیم بریدہ انگشتِ شہادت سوئے فلک اٹھاتے اور پڑھنے کی عینک لگا کر جملہ شروع کرتے لیکن گمبھیر اور گنجلک جملے کے ادھ بیچ میں کوئی شوخ بات یا چنچل فقرہ اچانک ذہن میں کوند جاتا تو اسے ادا کرنے سے پہلے آنکھ مارتے اور آنکھ مارنے سے پہلے عینک اتار لیتے تاکہ دیکھنے والوں کو صاف نظر آئے۔
ان کی ہنسی کی تصویر کھینچنا بہت مشکل ہے یوں لگتا تھا جیسے وہ بڑے زور سے ایک لمبا قہقہہ لگانا چاہتے ہیں مگر بوجوہ اسے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نتیجتاً ان کے منھ سے بڑی دیر تک ایسی آواز نکلتی رہتیں جیسے بیٹری خلاص ہونے کے بعد کار کو بار بار سٹارٹ کرنے سے نکلتی ہیں۔ ہنسنے سے پہلے بالعموم اپنی واسکٹ کے بٹن کھول دیتے تھے، کہتے تھے پردیس میں روز روز کس سے بٹن ٹکواؤں۔
شادی ایک ہی کی۔ یک گیر و محکم گیر کے قائل تھے۔ بیوی نے عاجز آ کر کئی بار ان سے کہا کہ دوسری کر لو تاکہ اوروں کو بھی چانس ملے۔
لنگڑے کاکروچ سے شیخ سعدی تک
آپ چاہیں تو خان صاحب کو ان پڑھ کہہ سکتے ہیں مگر ان گھڑ یا جاہل ہرگز نہیں۔ رچی بسی طبیعت، بلا کی سُوجھ بوجھ اور نظر رکھتے تھے جو فوراً بات کی تہہ تک پہنچ جاتی تھی۔ صحیح معنوں میں شائستہ حیات تھے کہ انھوں نے انسان اور زندگی کو ہر رنگ میں سہا اور برتا تھا۔ کتاب کے مسخائینے[12] اور آرٹ کے آرائشی فریم میں نہیں دیکھا تھا۔ خود زندگی جو کچھ دکھاتی، سکھاتی اور پڑھاتی ہے وہ سیدھا دل پر رقم ہوتا ہے:
نظیر سیکھے سے علمِ رسمی بشر کی ہوتی ہیں چار آنکھیں
پڑھے سے جس کے ہوں لاکھ آنکھیں وہ علم دل کی کتاب میں ہے
عرفی نے اپنے آپ کو”آموزگار خود” کہا تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی کہا تھا۔ خان صاحب مدرسۂ حیات کے منتہیوں اور فارغین میں سے تھے۔
خان صاحب برسوں چیک پر انگوٹھا لگاتے رہے۔ لیکن جس دن اُن کا بینک بیلنس ایک لاکھ ہو گیا، اُنھوں نے اردو میں دستخط کرنے سیکھ لیے۔ فرماتے تھے، انگوٹھا لگا لگا کے سُود خور بینکوں سے اوور ڈرافٹ لینے میں تو کوئی حرج نہیں، پر حلال کی کمائی کی رقم سوچ سمجھ کر نکالنی چاہیے۔ دستخط کیا تھے، لگتا تھا کوئی لنگڑا کاکروچ دوات میں غسل کر کے کاغذ پر سے گزر گیا ہے۔ دستخط کے دوران ان کا ہاتھ ایسی توڑا مروڑی سے گزرتا اور ہر چھوٹا بڑا دائرہ بناتے وقت ان کے کھلے ہوئے منہ کی گولائی اس طرح گھٹی بڑھتی کہ ایک ہی دستخط کے بعد ان کے ہاتھ اور دیکھنے والے کی آنکھ میں باؤٹا آ جاتا! اس زمانے میں خان صاحب کا اکاؤنٹ مسلم کمرشل بینک، چوک یادگار برانچ میں تھا، جہاں اردو میں دستخط کرنے والوں کو اسٹامپ کاغذ پر یہ توہین آمیز indemnity (ضمانت) دینی پڑتی تھی کہ اگر ان کے اکاؤنٹ جعلی دستخطوں کے سبب کوئی فراڈ ہو جائے تو بینک ذمہ دار نہ ہو گا۔ بلکہ اگر اس کے نتیجے میں بینک کو کوئی نقصان بالواسطہ یا بلاواسطہ پہنچے تو اُسے بھی وہی بھریں گے۔ خاں صاحب کو جب اس کا مطلب پشتو میں سمجھایا گیا تو مشتعل ہو گئے۔ اردو بولنے والے اکاؤنٹنٹ سے کہنے لگے کہ ایسی بیہودہ شرط ماننے والے کے لیے پشتو میں بہت بُرا لفظ ہے، ہمارا دل بہت خفا ہے۔ بکتے جھکتے بینک کے منیجر مسٹر اے میکلین (جو راقم الحروف کا باس رہ چکا تھا) کے پاس احتجاج کرنے گئے۔ کہنے لگے کہ میرے دستخط اتنے خراب ہیں کہ کوئی تعلیم یافتہ آدمی بنا ہی نہیں سکتا۔ جب میں خود اپنے دستخط اتنی مصیبت سے کرتا ہوں تو دوسرا کیسے بنا سکتا ہے؟ آپ کے سٹاف میں دو درجن آدمی تو ہوں گے۔ سب کے سب شکل سے چور، اُچکّے اور نو سر باز لگتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی میرے دستخط بنا کر دکھا دے تو فوراً ایک ہزار انعام دوں گا۔ پھر گولی سے اُڑا دوں گا۔ مسٹر میکلین نے کہا کہ میں بینک کے قوانین نہیں بدل سکتا۔ گرنڈلیز بینک میں بھی یہی قاعدہ ہے۔ ہم نے سارے فارم اسی سے نقل کیے ہیں۔ نقل کیا، مکھی پہ مکھی ماری ہے۔ بلکہ اس فارم پر تو پرنٹر کی لا پروائی سے نام بھی گرنڈلیز بینک ہی کا چھَپا ہے۔ خان! تم ورنا کیولر کے بجائے انگریزی میں دستخط کرنے سیکھ لو تو اس جھمیلے سے خود بخود نجات مل جائے گی۔ اپنے حکم میں التجا کا رنگ پیدا کرنے کی غرض سے اُس نے خان صاحب کی چائے اور پیسٹری سے تواضع کی۔ بامتثالِ امر، خان صاحب دو مہینے تک انگریزی دستخطوں کی مشق کرتے رہے۔ جب بالکل رواں اور پختہ ہو گئے تو چق اُٹھا کر سیدھے مسٹر میکلین کے کمرے میں داخل ہوئے اور روبرو دستخط کر کے دکھائے۔ وہ اس طرح کہ پہلے ہاتھ اونچا کر کے چار پانچ دفعہ ہوا میں دستخط کیے اور پھر یکلخت کاغذ قلم پر رکھ کر فراٹے سے دستخط کر دیے۔ اس نے ترنت ایک سلپ پر اکاؤنٹنٹ کو حکم دیا کہ ان کی انڈمنٹی منسوخ تصّور کی جائے۔ میں ان کے انگریزی دستخط کی جو انھوں نے میری موجودگی میں اس کارڈ پر کیے ہیں تصدیق کرتا ہوں۔
ہوا صرف اتنا تھا کہ خان صاحب نے ان دو مہینوں میں اپنے اردو دستخط کو دائیں سے بائیں کرنے کے بجائے بائیں سے دائیں کرنے کی مشق و مہارت بہم پہنچائی جس کے دوران نقطے اور مرکز غائب ہو گئے۔ مسٹر میکلین کے سامنے انھوں نے یہی دستخط بائیں سے دائیں کیے اور تمام عمر اسی انگلش روش پر قائم رہے۔ چیک اور کاروباری کاغذات پر اسی طرح دستخط کرتے۔ لیکن اگر کسی دوست یا رشتہ دار کو خط لکھواتے یا کوئی حلف نامہ داخل کرواتے جس میں سچ بولنا ضروری ہو تو آخر میں اردو میں دستخط کرتے۔ مطلب یہ کہ قلم دائیں سے بائیں چلتا۔ خان صاحب کو دستخط کرنے کے فن پر اب اتنی قدرت حاصل ہو گئی تھی اگر جاپانی میں دستخط کرنے کے لیے کہا جاتا تو وہ اسی لیٹے ہوئے کاکروچ کو مونچھیں پکڑ کے سر کے بل کھڑا کر دیتے۔
خان صاحب کو کبھی بعجلت اتمام حجت کرنا مقصود ہوتا، یا مخالف و مخاطب کو محض بوجھوں مارنا ہوتا تو فرماتے کہ شیخ سعدی نے فرمایا ہے کہ۔۔۔۔۔ وہ اپنے تمام زریں و غیر زریں اقوال سے شیخ سعدی کے حق میں دستبردار ہو گئے تھے۔ ہمیں یقین ہے کہ شیخ سعدی اگر ان اقوال کو سُن لیتے تو وہ خود بھی دستبردار ہو جاتے۔
بات کتنی ہی غیر متعلق اور چھوٹی سی ہو، خان صاحب اس کی پچ میں بڑے سے بڑا نقصان اٹھا کے لیے تیار رہتے تھے۔
در گزر اور سمجھوتے کو اُنھوں نے ہمیشہ شیوہ مردانگی کے خلاف جانا۔ اکثر فرماتے تھے کہ جو شخص خون خرابہ ہونے سے پہلے ہی سمجھوتہ کر لے، اُس کے لیے پشتو میں بہت بُرا لفظ ہے۔ اس خرخشے کے بعد بشارت کو ایک مرتبہ بنّوں میں ان کے آبائی گاؤں میں ٹھہرنے کا اتفّاق ہوا۔ دیکھا کہ خان صاحب کسی گھمسان کے بحث مباحثے میں جیت جاتے یا کسی خوشگوار واقعے پر بہت خوش ہوتے تو فوراً باہر جا کر گھوڑے پر چڑھ جاتے اور اپنے کسی دشمن کے گھر کا چکر لگا کر واپس آ جاتے۔ پھر ملازم سے اپنے سر پر ایک آفتابہ ٹھنڈے پانی کا ڈلواتے کہ غرور اللہ کو پسند نہیں۔
۹
خان صاحب نے اپنے حال پر مگر مچھ کے آنسو بہائے
خان صاحب دن میں دو تین مرتبہ بشارت کو یہ دھمکی ضرور دیتے کہ "ایک پائی بھی نہیں چھوڑوں گا۔ خواہ مجھے ایک سال تمہارے ہاں مہمان رہنا پڑے۔” وقتاً فوقتاً یہ بھی کان میں ڈالتے رہتے کہ قبائلی آدابِ میزبانی کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ اگر آپ عزیز مہمان سے یہ پوچھ بیٹھیں کہ تم کب جاؤ گے اور اس پر وہ آپ کا خون نہ کر دے تو اس کی شرافت، پختو[13] اور ولدیت میں شبہ ہو گا۔
صبح سے شام تک دونوں بارہ سنگھے اپنے سینگ پھنسائے پھنکاریں مارتے رہتے۔ خوش معاملگی کا واسطہ، بیوپار بیوہار کی رِیت رسم، رحم کی اپیل اور ایک دوسرے کو ظلم اور دھاندلی سے باز رکھنے کی وارننگ کے علاوہ کوئی اوچھا ہتھیار نہ تھا جو اس جھگڑے میں بے دریغ استعمال نہ کیا گیا ہو۔ مثلاً خان صاحب اپنے بے پڑھے لکھے ہونے کا واسطہ دیتے۔ جواب میں بشارت خود کو دیدہ عبرت نگاہ سے دکھواتے کہ میں شاعر ہوں۔ بی اے ہوں۔ فارسی پڑھی ہے اور لکڑی بیچ رہا ہوں! خان صاحب اپنے بزنس میں گھاٹے کا ذکر کرتے تو بشارت کہتے، ارے صاحب یہاں تو سرے سے بزنس ہی نہیں۔ گرہ کا کھا رہے ہیں۔ بشارت تو خیر بیوہ میم کے ساتھ اپنی فرضی مسکینی، کثیر الاولادی اور اور مفلوک الحالی کا ریہرسل کر چکے تھے، لیکن خان صاحب بھی بوقتِ ضرورت اپنے حال پر مگر مچھ کے آنسو بہا سکتے تھے۔ ایک دن تو ان کی ایکٹنگ اتنی مکمل تھی کہ سیدھی آنکھ سے ایک سچ مچ کا آنسو سری لنکا کے نقشے کی طرح لٹک رہا تھا۔ سائز بھی وہی۔ ایک دفعہ خان صاحب نے اپنی فرضی مظلومیت کا تُرپ پھینکا کہ میرے حصّے کی نصف زمینوں پر چچا نے نصف صدی سے قبضہ کر رکھا ہے۔ بشارت نے اس کو اس طرح کاٹا کہ اپنے پیٹ کے السر پر ہاتھ رکھ کر حلفیہ کہا کہ وہ اتنی ہی مدّت سے ضعفِ معدہ میں مبتلا ہیں۔ غذا نہیں پچتی۔ پیٹ میں دوا اور ہوا تک نہیں ٹھہرتی۔ خان صاحب بولے، اوہوہو! پچاس سال سے پیٹ خراب ہے۔ آپ تو پوتڑوں کے مریض نکلے! ویسے ان چونچوں میں بالعموم بشارت ہی کا پلّہ بھاری رہتا۔ لیکن ایک دن جب خان صاحب نے نیم آبدیدہ[14] ہو کر کہا کہ میرے تو والد بھی فوت ہو چکے ہیں تو بشارت کو اپنے بزرگوار پر بہت غصّہ آیا کہ انھیں بھی اسی وقت جینا تھا۔
لفظوں کی جنگ میں فتح کسی بھی فریق کی ہو، شہید صرف سچائی ہوتی ہے
خان صاحب کسی طرح رقم چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔ بشارت نے عاجز آ کر یہاں تک کہا کہ کون صحیح ہے، کون غلط، اس کو بھول جائیے۔ یہ دیکھیے کہ آپ کا ہمارا بیوپار بیوہار آئندہ بھی رہے گا۔ پھر کبھی کسر نکال لیجیے گا۔ خدا نخواستہ یہ آخری سَودا تو ہے نہیں۔ اس پر خان صاحب بولے کہ خان سنگِ مرجان خان نے مجھے نصیحت کی تھی کہ دوست سے ملو تو اس طرح ملو جیسے آخری ملاقات ہے۔ اب کے بچھڑے پھر نہیں ملیں گے۔ اور کسی سے سَودا کرو تو یہ سمجھ کے کرو کہ آخری سَودا ہے۔ دوبارہ یہ "دلا” نہیں آنے کا! شیخ سعدی کہتے ہیں کہ باؤلے سے باولا کتّا بھی یہ اُمید نہیں رکھ سکتا کہ جسے اُس نے کاٹا ہے وہ خود کو پھر کٹوانے کے لیے دوبارہ سہ بارہ آئے گا۔
ایک دفعہ بشارت کا لہجہ کچھ تلخ ہو گیا اور اُنھوں نے بار بار” خان صاحب! خان صاحب ” کہہ کر لعن طعن کی تو کہنے لگے، دیکھو صیب! گالی گُفتار کرنی ہے تو مجھے خان صاحب مت کہو۔ حاجی صاحب کہہ کے گالی دو، تاکہ مجھے اور تمہیں دونوں کو کچھ غیرت تو آئے۔
بشارت نے اُن کے گلے میں بانہیں ڈال کر پیشانی چوم لی۔
عرب پتی اور کراچی کی پانچ سوغاتیں
ڈوبی ہوئی رقموں کی وصولی کے سلسلے میں کراچی کے پھیروں نے خان صاحب کو ہفت زبان بنا دیا تھا۔ ہمارا مطلب ہے اردو، فارسی اور گجراتی کے علاوہ چاروں علاقائی زبانوں میں رَوانی سے گالی دے سکتے تھے۔ حتی الدشنام، اپنے معتوب کے درجات اُسی کی مادری زبان میں بلند کرتے۔ البتہ کہیں عجز و بیان یا جھول محسوس فرماتے یا مخاطب زیادہ بے حیا ہوتا تو آخر میں اُس کے تابوت میں پشتو کی میخ ایسی ٹھونکتے کہ کئی پُشتوں کے آر پار ہو جاتی۔ اس میں شک نہیں کہ جیسی کوک شاستر گالیاں ہمارے ہاں رائج ہیں، ان کے سامنے انگریزی اور دیگر زبانوں کی گالیاں پھولوں کی چھڑیاں اور بچّوں کی غاؤں غاؤں معلوم ہوتی ہیں ان سے کچّے دودھ کی بُو آتی ہے۔ آرکے نرائن کے ناول انگلینڈ اور امریکہ کے پڑھنے والوں کے لیے جو خاص دلکشی رکھتے ہیں، اس میں ان دیسی گالیوں کو بھی دخل ہے جن کا وہ انگریزی میں لفظی ترجمہ کر کے ڈائیلاگ میں بارودی سُرنگیں بچھاتا چلا جاتا ہے۔ ہماری گالیوں میں جو ندرتِ بیان، زور آوری، جغرافیائی تصویر کشی اور جنسی آرزو مندی کوٹ کوٹ کر، بلکہ ثابت وسالم بھری ہے اس کا صحیح اندازہ ہمیں 1975 میں دبئی میں ہوا۔ وہاں کے گلّے داری برادران کا شمار عرب امارت اور مشرقِ وسطی کے ارب پتیوں میں ہوتا تھا۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ امیر ترین ارب پتیوں میں ہوتا تھا، کیوں کہ ارب پتی تو وہاں سبھی ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہماری تجویز ہے کہ ارب پتی کا املا بدل کر عرب پتی کر دینا چاہیے۔ عبدالوہاب گلّہ داری اور عبد اللطیف گلّہ داری جو عرب ہیں اور جن کی مادری زبان عربی ہے، بہتر تعلیم اور بدتر تربیت کے سلسلے میں کچھ عرصے کراچی رہ چکے ہیں۔ ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ہم نے دیکھا کہ وہ کسی سے خفا ہوتے ہیں، یا کسی عرب سے اُن کا جھگڑا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اور کوئی عرب ایسا نہیں ہے جس سے ان کا جھگڑا نہ ہوا ہو۔۔۔۔۔ تو عربی بولتے بولتے اردو میں گالی دینے لگتے ہیں جو عربی کے مقدّس سیاق و سباق میں اور بھی غلیظ لگتی ہے۔ وہ پہلے عرب ہیں جو بیک وقت ع، ح، ض، ڈ، ٹھ اورڑ صحیح مخرج سے ادا کرتے ہیں۔ عبد اللطیف گلّہ داری کا قول ہے کہ کراچی کی پانچ چیزوں کا کم از کم اس دنیا میں تو جواب نہیں۔ جڑاؤ زیورات، قوّالی، بریانی، گالی اور عود کا عطر۔ 1983 ء میں جب ان کا بینک بزنس کا دوالا نکلا تو زیور، قوّالی، بریانی اور عود کا عطر تو دشمنوں کے حصّے میں آ گئے۔ اب صرف پانچویں چیز پر گزارا ہے۔ سو اس دولتِ دشنام کو زوال نہیں۔ جتنی دیتے ہیں لوگ اس کی سات گنی لوٹا دیتے ہیں۔
کباب پراٹھے اور وسیع حلقۂ دشمنی
خان صاحب مخلص، مجلسی اور محبتی آدمی تھے۔ بحث میں کتنی ہی گرما گرمی ہو جائے، دل میں ذرا میل نہیں رکھتے تھے۔ مذاق مذاق میں دوستوں کو چھیڑنے اور طیش دلانے میں انھیں بڑا مزہ آتا۔ ناشتے میں تین ترتراتے پراٹھے اور شامی کباب کھاتے اور لسّی کے دو گلاس پینے کے بعد دن بھر غنودگی کے عالم میں نیم باز آنکھوں سے دنیا اور اہلِ دینا کو دیکھتے رہتے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آنکھوں کو محض چشم پوشی کے لیے استعمال کرتے اور کٹ حجتی کا جواب جماہی اور ڈکار سے دیتے۔ ایسے غشی آور ناشتے کے بعد آدمی مراقبہ کر سکتا ہے۔ البسٹریکٹ پینٹنگ کر سکتا ہے۔ اسٹریم آف کانشس نیس والا ناول لکھ سکتا ہے۔ حکومت کا پنج سالہ منصوبہ بنا سکتا ہے۔ لیکن دماغی کام نہیں کر سکتا۔ نہ ڈھنگ سے بحثا بحثی کر سکتا ہے۔ خان صاحب کو دوسرے دن یہ یاد نہیں رہتا کہ کل کیا کہا تھا۔ لہٰذا از سرِ نو حجت کا آغاز کرتے۔ گویا اس سے پہلے اس مسئلے پر کبھی بات ہی نہیں ہوئی۔ فیض کے دلآویز مصرعے میں "اُلفت” کی جگہ حجت جڑ دیں تو ان کے طریقہ واردات پر صادق آتا ہے:
وہ جب ملے تو اُن سے ہر بار کی ہے "حجت” نئے سِرے سے
کسی سے زیادہ دیر خفا یا کبیدہ خاطر نہیں رہ سکتے تھے۔ شاعری سے تنفّر کے باوجود اکثر یہ بیت پڑھتے، مگر بعض لفظوں کو اتنا کھینچ کر یا سُکیڑ کر پڑھتے کہ مصرع وزن اور بحر سے خارج ہو کر نثر بن جاتا:
انسان کو انسان سے کینہ نہیں اچھا
جس سینے میں کینہ ہو وہ سینہ نہیں اچھا
اور اس پر اضافہ یہ فرماتے ہیں کہ مُسلمان سے کینہ رکھنا اُس پر ظلم ہے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ اُسے قتل کر دیا جائے۔ یہ بھی فخریہ فرماتے کہ ہم تو آزاد قبائلی آدمی ہیں۔ اردو تو ہم نے ڈوبی ہوئی "رقوماتوں” کی وصولی کے لیے، کراچی کے بیوپاریوں سے لڑائی دنگے کے دوران سیکھ لی ہے۔ چنانچہ ان کی ساری Vocabulary (لفظیات) حالتِ امن میں بالکل نکمّی اور ناکارہ ہو جاتی تھی۔ رانا سانگا کے جسم کی طرح ان کی لڑاکا اردو پر بھی 72 زخموں کے نشان تھے۔ ان کی اردو کا تجزیہ کرنے سے پتا چلتا تھا کہ کہاں کہاں کے اور کس کس صوبے کے آدمی نے ان کی رقم دبائی ہے اور
کس کس کی مہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی
ان کی زبان سے گجراتی، حیدر آبادی اور دلّی کی کرخنداری زبان کے ٹھیٹ الفاظ سُن کر اندازہ ہوتا تھا کہ ان کے حلقۂ تکرار و تصادم کے ڈانڈے کہاں کہاں ملتے ہیں۔
لوک لہجہ
خان صاحب کے رابطے اور مچیٹے کی زبان پر تو خیر نادہندوں کی چھاپ تھی، لیکن بولتے اپنے ہی کھرے، کھنکتے پشتون لہجے میں تھے جو کانوں کو بھلا لگتا تھا۔ اس کے مقابلے میں بشارت کو اپنا لہجہ بالکل سپاٹ اور بے نمک لگا۔ پشتون اردو لہجے میں ایک تنگ ایجاد اور تند و تیز مہکار ہے جو کسی مگھم اورذ و معنی بات کی روا دار نہیں۔ یہ کوندتا، للکارتا لہجہ مشکوک سرگوشیوں کا لہجہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح پنجابی اردو لہجے میں ایک کشادگی، گرم جوشی اور گھلاوٹ کا احساس ہوتا ہے۔ اس میں میدانی دریاؤں کا پاٹ دار اور دھیرج اور دل دریا پار کَمک ہے۔ اور سہج سہج راستہ بنانے کے لیے اپنی لہری کگر کاٹ پر پورا اعتماد۔ بلوچ لہجے میں ایک ہوک سی، ایک ہمکتی پہاڑی گونج اور دل آویز خشمگیں کیفیت کے علاوہ ایک چوکنّا پن بھی ہے جو سنگلاخ کوہ اور دشتِ بے آب اپنے آزادوں کو بخش دیتے ہیں۔ سندھی اردو لہجہ، لہراتا لیریکل (Lyrical) لہجہ ہے۔ ایک للک، ایک مہران موج جو اپنے آپ کو چوم چوم کر آگے بڑھتی ہے۔ اردو کے علاقائی لہجوں میں وہ لوک ٹھاٹ، مٹھاس اور رَس جَس ہے جِس کا ہمارے گھسے پٹے ٹکسالی اور شہری لہجے میں دور دور شائبہ نہیں ملتا۔ لوک لہجے کی آمیزش سے جو نیا اردو لہجہ اُبھرا ہے اس میں بڑی توانائی، تازگی، لوچ اور سمائی ہے۔
بھرے ہیں یہاں چار سمتوں سے دریا
شہرِ آشوب اور نیاز مندانِ بنّوں
بحث و تکرار کے انٹرول میں خان صاحب پیدل سیر کو نکل جاتے۔ کوہاٹ اور بنّوں کے دس پندرہ نیاز مند جو سارے دن واسکٹوں میں پستول رکھے، باہر انتظار میں بیٹھے ہوتے، ان کی اردلی میں چلتے۔ یہ خان صاحب کی حواری اور مصاحب تو تھے ہی، کمانڈوز بھی تھے جو اُن کی کٹی ہوئی انگلی کے نصف اشارے پر اپنی کمر بارود باندھ کر آتشِ نمرود میں بے خطر کود پڑنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ خان صاحب نے ان کے لیٹنے بیٹھنے اور تواضع کے لیے باہر تین چار پائیاں اور ایک کابلی سماوار رکھوا دیا تھا۔ اس میں دن بھر چائے اونٹتی رہتی، جس کے اخراج کے لیے بشارت کو ٹین کی نالی دار چادروں کا ایک عارضی کاکوس (ٹائلٹ) بنوانا پڑا۔ اس میں وہ استعمال شدہ بلاٹنگ پیپر رکھوا دیتے تھے۔ لوگوں نے کراچی کی کچی روشنائی کی شکایت کی تو اُنھوں نے گزشتہ دن کا ایک اخبار رکھوانا شروع کر دیا جو حکومتِ وقت کا طرف دار رہا تھا۔ اب یہ ٹائلٹ پیپر کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ اس میں کم از کم اخبار کے ساتھ زیادتی نہیں تھی۔ دن بھر گپیں، چہلیں اور وزن اُٹھانے کے مقابلے ہوتے رہتے۔ جوان اپنے روز گار، کھیل کود، مہنگائی، سنیما، کھانے پینے اور نشانہ بازی کی باتیں کرتے۔ جب کہ ادھیڑ عمر والے زیادہ چینی کی چائے اور فحش لطیفوں سے خود کو ری چارج کرتے رہتے۔ دونوں کی گرمی سے گھڑی بھر کے لیے گلابی بڑھاپے کی ٹھر دور ہو جاتی تو ٹھرک[15] سر پہ چڑھ کے ایسی دوانی باتیں کرنے لگتے کہ جوان سُن کے شرما جاتے۔ جس کی مونچھ میں جتنے زیادہ سفید بال ہوتے، یا کمر جتنی زیادہ خمیدہ ہوتی، اس کا لطیفہ اتنا ہی دور مار اور سہ آتشہ ہوتا۔ اس پر مرزا نے ایک دفعہ پھبتی کسی
کماں چنداں کہ خم گردد خند کش تیز تر گردد[16]
خان صاحب کو کبھی کوئی زیادہ ہی لذیذ حکایت سُنانی ہوتی تو کلّے میں گُڑ یا مصری کی ڈلی دبا کر سی سی کرتے ہوئے چائے پیتے جاتے۔ جھومتے ہوئے فرماتے، یارا جی! سمر قند اور فرغانہ میں اسی طرح پی جاتی ہے۔
فرصت کا تمام وقت خان صاحب کراچی اور کراچی والوں کو دیکھنے اور جو کچھ دیکھتے اس پر لاحول پڑھنے اور پڑھوانے میں گزارتے۔ فرماتے تھے "کراچی میں سانس لینے کے لیے بھی ذاتی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ قبائلی علاقے کی ہوا ہلکی اور شفاف ہوتی ہے۔ خود بخود گولی کی طرح اندر داخل ہو جاتی ہے، خصوصاً جاڑے میں۔ صبح کراچی ریڈیو کہہ رہا تھا کہ ہوا میں رطوبت کا تناسب 90 فی صد ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کراچی کے دودھ والے ہوا میں صرف دس فی صد دودھ ملا کر دودھ بنا لیتے ہیں۔ آپ جن موقعوں پر نعرے، شعر اور وظیفے کا ورد کرنے لگتے ہیں وہاں ہم ٹھائیں سے گولی مار دیتے ہیں۔ میں اتنے دن سے یہاں ہوں، شہر میں ایک آدمی کے ہاتھ میں بندوق نہیں دیکھی۔ ہمارے یہاں تو نکاح کے وقت بھی پستول ساتھ رکھتے ہیں کہ پتا نہیں مہر پر گولی کی نوبت آ جائے۔ بعضی دُلہن کا والد اور رشتے دار ایک دم خبیث، خسیس اور دیوث نکلتا ہے۔ میں تو احتیاطاً چھوٹی مشین گن لے گیا تھا۔ اس سے میرے ماموں نے 1937ء میں خیسورہ کے نزدیک کاطوری خیل علاقے میں ایک پہاڑی کھوہ کی کمیں گاہ سے تین گورے مار گرائے تھے، جن میں ایک کپتان تھا۔ اُس کی صورت بُل ڈاگ جیسی تھی۔ اُس خنزیر کے بچّے نے فقیرا ہپی کے بے شمار مرید شہید کیے تھے۔ ماموں نے اُس کے ناک اور کان کاٹ کر چیل کوؤں کو کھلا دی۔ دوسرے گورے کی جیب سے جو معمولی سپاہی تھا اُس کی خمیدہ کمر ضعیف ماں اور ایک سال کی بڑی پیاری سی بچّی کے فوٹو نکلے۔ بچّی کے ہاتھ میں گُڑیا تھی۔ فوٹو دیکھ کر میرا ماموں بہت رویا۔ لاش کے ہاتھ پر سے جو سونے کی گھڑی اُس نے اُتار لی تھی وہ واپس باندھ دی۔ میّت کو سائے میں کر کے واپس جا رہا تھا کہ چند قدم بعد کچھ خیال آیا۔ وہ پلٹا اور اپنی چادر اُتار کر اُس پر ڈال دی۔
"تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ میں ماموں کی مشین گن سے مسلح ہو کر گیا تھا۔ سوائے بچّوں، قاضی اور نائی کے اور کوئی نہتا نہیں تھا۔ عین نکاح کے وقت لڑکی والے پسر گئے۔ کہنے لگے مہر ایک لاکھ کا ہو گا۔ اس پر ماموں جھگڑا کرنے لگا۔ وہ شرعی مہر یعنی پونے تین روپے بھر چاندی پر مُصر تھا، جس کے تیرہ روپے ساڑھے پانچ آنے سکّہ رائج الوقت بنتے تھے۔ قبیلے کے ایک دانا بزرگ نے تجویز پیش کی کہ کچھ لڑکی والے کم کریں، کچھ لڑکے والے مہر بڑھائیں۔ دونوں فریق درمیانی اوسط رقم پہ سمجھوتا کر لیں۔ اس پر ایک دوسرا دانا بولا، "سردار! ہوش کرو۔ تیرہ روپے ساڑھے پانچ آنے اور ایک لاکھ کے درمیان کوئی اوسط رقم نہیں ہوتی۔ ایسے میں اوسط تلوار سے نکلتا ہے۔”
"راڑزولا بڑھا تو میں نے سہرا ہٹا کر بآوازِ بلند کہا، میں تو پانچ لاکھ کا مہر باندھوں گا۔ اس سے کم میں میرے خاندان کی توہین ہو گی۔” یہ سُن کر ماموں سنّاٹے میں آ گیا۔ میرے کان میں کہنے لگا، کیا تو آج پوست پی کے آیا ہے؟ پانچ لاکھ میں تو کلکتے کی گوہر جان اور ایک سو ایک رنڈیوں کا ناچ ہو سکتا ہے، میں نے کہا، ماموں! تو بیچ میں مت بول۔ تو نے زندگی میں بائیں آنکھ میچ کر، دائیں آنکھ سے رائفل کی شست باندھ کر فقط اپنے دشمن کو دیکھا ہے۔ یا پھر کلدار روپوں پر کوئن وکٹوریہ کا چہرہ دیکھا ہے۔ تو نے دنیا نہیں دیکھی۔ نہ تجھے مردوں کی ‘پختو‘ کا کچھ خیال ہے۔ اگر مجھے نادہند ہی ہونا ہے تو بڑی رقم ماروں گا۔ چھوٹی چھوٹی رقم مارنا رذیلوں اور دیوثوں کا کام ہے۔”
مجھے آئے ہوئے اتنے دن ہو گئے، کراچی میں ایک بھی دنگا فساد نہیں ہوا[17]۔ کیا یہاں رشتے دار نہیں رہتے؟ کیا یہاں سب ایک دوسرے کو یتیم، لا وارث سمجھ کے معاف کر دیتے ہیں؟ پرسوں کا واقعہ ہے۔ میں ایک دوست سے ملنے لانڈھی گیا۔ بس کنڈیکٹر نے میری ریزگاری نہیں لوٹائی۔ میں نے اُترتے وقت گالی دی تو سُنی ان سُنی کر گیا۔ میں نے دل میں کہا، بد بختا میں نے گالی دی ہے۔ نصیحت تو نہیں کی جو یوں ایک کان سے سُن کر دوسرے سے نکال دی۔”
اس لطیفے کے بعد بڑی دیر تک ان کے حلق سے کمزور بیٹری والی کار کو بار بار سٹارٹ کرنے کی آوازیں نکلتی رہیں اور جسم جیلی کی طرح تھلتھلاتا رہا۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ خان صاحب کو کراچی قطعاً پسند نہیں آیا۔ فرماتے تھے، کراچی میں اگر کراچی والے نہ ہوں اور سمندر ڈیڑھ دو میل پرے ہٹ جائے تو ٹرک اور گھڑے دوڑانے کے لیے یہ شہر برا نہیں۔ کراچی کے کچھ حصّے انھیں بے حد پسند آئے۔ یہ کچی بستیوں کے وہ علاقے تھے جو تحصیل کوہاٹ سے مشابہت رکھتے تھے جہاں ایک زمانے میں اُن کی جوانی نے، بقول ان کے، پوری تحصیل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
اے گُل بتو خورسندم تو بوئے کسے داری
یار زندہ فضیحت باقی
بشارت اور خان صاحب کے مابین حجت و تکرار صرف میں دفتری اوقات میں یعنی نوسے پانچ بجے تک ہوتی، جو ہار جیت کا فیصلہ ہوئے بغیر کل تک لیے ملتوی ہو جاتی، تاکہ تازہ دَم ہو کر لڑ سکیں۔
صلح ہے اک مہلتِ سامانِ جنگ
کرتے ہیں بھرنے کو یاں خالی تفنگ
سُنا ہے اگلے وقتوں میں پڑوسنیں اسی طرح لڑتی تھیں۔ لڑتے لڑتے گلا بیٹھ جاتا اور شام پڑتے ہی وہ مرد گھر لوٹنے لگتے جو دن بھر معرضِ دشنام میں آیا کیے تو دونوں مکانوں کی سرحد یعنی مشترکہ دیوار پر ایک ہانڈی اُلٹی کر کے رکھ دی جاتی تھی، جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اندھیرے کے سبب عارضی دشنام بندی ہو گئی ہے۔ کل پھر ہو گی۔ بات یہ ہے کہ جب تک فریق کا چہرہ نظر نہ آئے، گالی میں third dimension (ابعادِ ثلاثی) پیدا نہیں ہوتی۔ جس دکان میں ہمہ وقت جھگڑے اور دنگل کا سماں ہو اور باہر ایک فریق کے دس پندرہ مسٹنڈے حمایتی سماوار کے گرد پڑاؤ ڈالے ہوں، اس کے گاہک بد کیں نہیں تو اور کیا کریں۔ بقول ہمارے اُستادِ اوّل، مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی کے، جن کے "ریڈر” سے ہم نے دفاع اور آداب کا پہلا سبق سیکھا:
جب کہ دو موڈیوں میں ہو کھٹ پٹ
اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ
کوئی گاہک مارے باندھے ٹھہر بھی جاتا تو خان صاحب اس کے سامنے اپنی ڈوبی ہوئی رقم کو اس طرح یاد کرتے کہ وہ حسبِ توفیق خوف زدہ یا آبدیدہ ہو کر بھاگ جاتا۔ بحثا بحثی کا اثر خان صاحب کی تندرستی پر نہایت خوشگوار ثابت ہوا۔ ان کی زبان اور اشتہا روز بروز کھلتی جا رہی تھی۔ وہ کسی طور لکڑی کی قیمت کم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس لیے کہ انھیں گھر میں اتنے ہی کی پڑی تھی۔ ادھر بشارت بار بار کہتے کہ ” اوّل، لکڑی داغی اور کھَٹل تھی۔ اس پر تیز سے تیز آری کھَٹل ہو گئی۔ دوم، سیزن بھی نہیں ہوئی تھی۔ کئی تختوں میں بَل آ گیا تھا۔ کوئی بے داغ نہیں نکلا۔ سوم، چھچت[18] بہت ہوئی۔ چہارم، جگہ جگہ کیڑا لگا ہوا تھا۔ ”
خان صاحب نے لقمہ دیا "پنجم یہ لکڑی چوری ہو گئی۔ یہ بھی میرا ہی قصور ہے۔ ششم یہ کہ ہم نے آپ کو لکڑی دی تھی۔ لڑکی تو نہیں دی کہ آپ اُس کے جہیز میں ہزار کیڑے نکالنے بیٹھ جائیں۔ آپ تو پان کھا کھا کے بالکل زنانیوں کی طرح لڑنے لگتے ہیں۔” بشارت نے "زنانوں” سُنا اور سمجھا۔ تڑ سے جواب دیا "آپ بھی تو کابلی والا سے کم نہیں۔”
"یہ کیا ہوتا ہے صیب؟”
بشارت نے کابلی والا کا مطلب بتایا تو وہ غضب ناک ہو گئے۔ کہنے لگے "ہمارے قبیلے میں آج تک کسی نے سُود لیا نہ سُود دیا۔ خنزیر برابر سمجھتے ہیں۔ جب کہ آپ علانیہ سُود دیتے بھی ہیں اور کھاتے بھی ہیں۔ آپ کے گھر کا تو شوربہ بھی حرام ہے۔ اس میں آدھا پانی، آدھی مرچیں اور آدھا سُود ہوتا ہے! اگر آئندہ یہ لفظ منہ سے نکالا تو ٹھیک نہ ہو گا۔”
یہ کہہ کر عالمِ غیظ میں میز پر اتنے زور سے مکّا مارا کہ اس پر رکھے ہوئے کپ، چمچے، پن اور تلے ہوئے مٹر ہوا میں ایک ایک بالشت اونچے اُچھلے اور میز پر رکھے ہوئے ٹائم پیس کا الارم بجنے لگا۔ پھر اُنھوں نے منہ سے تو کچھ نہیں کہا، ٹرکش کوٹ کی جیب سے بھرا ہوا ریوالور نکال کر میز پر رکھ دیا۔ مگر تھوڑی دیر بعد نال کا رُخ پھیر کر اپنی طرف کر لیا۔ بشارت سہم گئے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ زہر میں بجھے ہوئے اس تیر کو جو نہ صرف کمان سے نکل چکا تھا، بلکہ مہمانِ عزیز کے سینے میں ترازو ہو چکا تھا، اب کیسے واپس لائیں۔ خان صاحب نے اسی وقت اپنے ایک کمانڈو کو حکم دیا کہ فوراً جا کر پشاور کا ٹکٹ لاؤ۔ دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا۔ بشارت منّت سماجت کرتے رہے۔ خان صاحب بار بار بپھر کر دفتر سے باہر جاتے مگر اس انداز سے کہ ہر قدم پر
مڑ کے تکتے تھے کہ اب کوئی منا کر لے جائے
بشارت نے چار بجے اُن کے پیر پکڑ لیے تو وہ گھر چلنے کے لیے اس شرط پر رضا مند ہوئے کہ پہلے اپنے ہاتھ سے مجھے پان کھلاؤ!
لیکن اس کے بعد خان صاحب کے رویّے میں ایک خوشگوار تبدیلی آ گئی۔ بشارت تو خیر اپنے کہے پر نادم تھے ہی، بلکہ انگریزی محاورے کے مطابق اپنے ہی عرق میں غرق ہوئے جا رہے تھے لیکن خان صاحب بھی اپنے شدید ردّ عمل پر کچھ کم خجل نہ تھے۔ طرح طرح سے تلافی اور اشک شوئی کی کوشش کرتے۔ مثلاً بشارت کبھی اداس یا مضمحل نظر آتے یا گھمسان کی بحث میں اچانک ایسے بزدلانہ طریقے سے میدان چھوڑ کر بھاگ جاتے کہ خان صاحب ڈان کیوٹے کی طرح اکیلے ہوا میں تلوار چلاتے رہ جاتے، تو ایسے موقعے پر وہ ایک ادائے دلنوازی سے کہتے "حضورِ والا! کابلی والا بعد ادائے آداب کے عرض کرتا ہے ہے کہ پان کی طلب ہو رہی ہے۔ پان کھلائیے۔” اُنھوں نے اس سے پہلے پان کبھی چکھا بھی نہیں تھا۔ بشارت ندامت سے زمین میں گڑ جاتے۔ کبھی قدرے کھسیانے، کبھی mock۔ serious انداز (استہزائیہ سنجیدگی) سے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جاتے، کبھی گھٹنے چھوتے۔ اور کبھی یوں بھی ہوتا کہ خان صاحب ان کے ہاتھ چوم کر آنکھوں سے لگا لیتے۔
۱۰
پلنگ زیب خاں
شام کو وہ کھلے صحن میں پلنگ بچھوا کر اس پر مچھر دانی لگواتے۔ کچھ دنوں سے کرسی پر بیٹھنا چھوڑ دیا تھا۔ بشارت سے کہتے تھے کہ تم نے مہمان کی شلوار کے لیے کرسیوں کی کیلوں کو ننگا کر رکھا ہے۔ اپنے پلنگ سے مؤدب فاصلے پر ملاقاتیوں کے بیٹھنے کے لیے چار چارپائیاں مع مچھر دانی بچھواتے۔ فرماتے تھے کہ اگر فرنٹیر کے بچھوؤں کے پر لگ جائیں تو کراچی کے مچھر بن جائیں گے۔ ساری گفتگو اور بحث مباحثے مچھر دانیوں کے اندر بیٹھے بیٹھے ہوتے۔ البتہ کسی کو دورانِ تقریر جوش آ جاتا تو وہ مچھر دانی اس طرح ہٹاتا جیسے دولہا نکاح کے بعد سہرا اُلٹ دیتا ہے۔ کراچی کی دور دراز بستیوں سے ان کے پٹھان دوست، گرائیں اور معتقدین جوق در جوق ملنے آتے۔ اُن کی خاطر تواضع اس طرح کرتے گویا یہ سب کچھ اپنے ہی حجرے میں ہو رہا ہے۔ رات گئے تک تام چینی کی چیچک زدہ چینکیں اور حقّے گردش میں رہتے۔ چائے کے رسیا اونٹتی چورا چائے میں مردان کے گڑ کے علاوہ خشخاش کا چورا بھی ڈلواتے۔ جو بھی آتا خان صاحب کے لیے کچھ نہ کچھ نذر ضرور لاتا۔ اخروٹ، چلغوزے، پشاور کے کالے گلاب جامن، شہد کے چھتّے، تلا گنگ اور ڈیرہ اسمٰعیل خان کا سفید تمباکو، قراقلی اور جوان اصیل مرغ[19] جنھیں خان صاحب بڑی رغبت سے کھاتے تھے۔ دن بھر گھر میں درجنوں اصیل مُرغ چھپتے پھرتے۔ سرخ سیمنٹ کے فرش پر سبز بیٹ اور بھی کھَلتی تھی۔ (کھَلتی کو زیر کے ساتھ پڑھیں تب بھی مزہ دے گی) جو مُرغ بے وقت یا زیادہ سے زیادہ اذان دیتا، اُسے خان صاحب سب سے پہلے ذبح کرتے۔ صبح جب سب مُرغ با جماعت اذان دیتے تو سارے محلّے کو کلغی پہ اُٹھا لیتے۔ ایک دن ایک مہمند نوجوان غلطی سے مُرغی دے گیا۔ اُس دن مُرغ آپس میں بڑی خونخواری سے لڑے۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ مُرغ کسی واضح اور معقول مقصد کی خاطر لڑے، ورنہ روزانہ بے مقصد اور بلا وجہ ایک دوسرے بلکہ تیسرے پر بھی جھپٹتے اور کٹتے مرتے رہتے۔ کوئی انھیں لڑنے سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کرتا تھا، اس لیے کہ جب وہ آپس میں نہیں لڑتے تھے تو گھر والوں کو کاٹنے لگتے تھے۔ اکلوتی مُرغی پر لڑ لڑ کر وہ ایسے لہو لہان ہوئے کہ صبح اذان دینے کے لائق بھی نہ رہے۔ دڑبے میں چپکے پڑے ملّا کی اذان سُنا کیے۔
خان صاحب اتوار کو سارے دن پلنگ پر نیم دراز ہو کر قبائلی تنازعوں اور کوہاٹ کی زمینوں کے فیصلے کرتے۔ اب وہ اورنگ زیب خان کے بجائے پلنگ زیب خان زیادہ معلوم ہوتے تھے۔ رات کو البتہ فرش پر سوتے تھے کہ اس سے تکبّر اور کمر کا درد دور ہو جاتا ہے۔ ہمارے فرنٹیر میں جاڑے میں شوقین لوگ پیال (باریک خشک گھاس) پر سوتے ہیں۔ پیال سے رات بھر جنگلوں اور پہاڑوں کی خوشبو آتی رہتی ہے۔ جس آدمی کو جنگل کی خوشبو آتی اور بھاتی رہے وہ کبھی کسی کی غلامی اور محکومی قبول نہیں کرے گا۔
اُس دن یعنی اتوار کو لنچ کے بعد ظہر کی نماز ادا کرتے۔ اگر کھانا بد مزہ ہو یا مرچیں زیادہ ہوں تو موڈ بگڑ جاتا۔ نماز قضا کر دیتے۔ فرماتے کہ دل کا حال جاننے والے کے سامنے مجھ سے تو جھوٹ نہیں بولا جاتا۔ کس دل سے بارہ مرتبہ الحمد للہ کہوں؟ کمرے میں محفلِ تکرار و غیبت بدستور گرم رہتی اور وہ تنہا ایک کونے میں جا نماز بچھا کر نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ مگر کان اسی طرف لگے رہتے۔ دورانِ نماز کوئی شخص آپس میں ایسی بات کہہ دیتا جو خان صاحب کے مزاج یا مؤقف کے خلاف ہوتی تو فوراً۔۔۔۔ عین سجدے کی حالت میں ہوں تب بھی۔۔۔۔۔ نیت توڑ کر اُسے پشتو میں گالی دے دیتے اور پھر سے نیت باندھ کر اور اسی طرف کان لگا کر نماز پڑھنے لگتے۔
نماز کے بعد کُرتا اُتار کر اجلاس فرماتے۔ بیشتر بنیانوں میں بڑے بڑے چھید ہو گئے تھے۔ فرماتے تھے، کیا کروں، میرے سائز کا بنیان صرف روس سے اسمگل ہو کے آتا ہے۔ کبھی کبھار لنڈی کوتل میں مل جاتا ہے تو عیش آ جاتے ہیں۔ کوئی کوئی بنیان تو اتنا خوبصورت ہوتا ہے کہ کُرتے کے اوپر پہننے کو جی چاہتا ہے۔ خان صاحب گہرا سانس لیتے یا ہنسی کا دورہ پڑتا تو چونّی برابر سُوراخ پھیل کر پنگ پانگ کی گیند کے برابر ہو جاتے۔ ان پھیلتی سُکڑتی جھانکیوں میں سے فربہ بدن گھٹتے بڑھتے پھوڑوں کی طرح اُبلا پڑتا تھا۔ کیس بھی گرمی ہو، کُرتا اُتارنے کے بعد بھی کلاہ نہیں اُتارتے تھے۔ فرماتے تھے، جب تک کلاہ سر پر ہے بندہ خود کو ننگا اور بے حیا محسوس نہیں کرتا۔ انگریز اسی لیے تو عورتوں کو دیکھتے ہی ہیٹ اُتار دیتے ہیں۔
ایک رات حاضر باشوں کی چارپائی اوور لوڈنگ کے سبب دس بارہ سواریوں سمیت زمیں بوس ہو گئی۔ پانچ چھ منٹ تک خوانین مچھر دانی اور بانوں کے جال سے خود کو آزاد نہ کرا سکے۔ اُس کے اندر ہی مچھلیوں کی طرح ایک دوسرے پر اُچھلتے پھدکتے کلبلاتے رہے۔ چارپائی کا ایک پایہ اور پٹی اور ایک کوہاٹی خان کی کلائی ٹوٹ گئی۔ جیسے ہی یہ معلوم ہوا کہ کلائی ٹوٹ گئی ہے اس کوہاٹی خان نے شکر ادا کیا کہ خدا نے بڑی خیر کی۔ گھڑی بچ گئی۔ دوسرے دن اورنگ زیب خان نے اپنے کمرے میں چاندنی بچھوا دی اور اپنے بستر کو گول کر کے گاؤ تکیہ بنا لیا۔ یہ چاندنی اُن مشاعروں کے لیے مخصوص تھی جو بشارت کے ہاں اتوار کے اتوار بڑی پابندی سے ہوتے تھے۔ خان صاحب بھی دو مشاعروں میں شریک ہوئے۔ شعر میں ذرا بھی اپچ پیچ ہوتا تو پاس بیٹھنے والے سے دریافت فرماتے کہ یہ کیا کہنا چاہتا ہے؟ وہ سرگوشیوں میں مطلب بیان کر دیتا تو بآواز بلند فرماتے، لاحول ولا قوۃ!
پھٹی چاندنی اور اضافت خور
دوسرے مشاعرے کے بعد خان صاحب نے بڑی حیرت سے پوچھا، کیا یہاں ہر دفعہ یہی ہوتا ہے؟ جواب ملا، اور کیا! بولے، خدا کی قسم! اس چاندنی پر اتنا جھوٹ بولا گیا ہے کہ اس پر نماز جائز نہیں! ایسے جھوٹے شاعروں کی میّت کو تو حقّے کے پانی سے غسل دینا چاہیے تاکہ قبر میں کم از کم تین دن تک تو منکر و نکیر نہ آئیں۔ چاندنی ہر جہاں جہاں شعرائے کرام نے سگریٹ بجھائے تھے وہاں چھوٹے چھوٹے سُوراخ ہو گئے تھے، جنھیں بعد میں فکرِ شعر اور دادِ سُخن کے دوران اُنگلی ڈال ڈال کر بڑا کیا گیا تھا۔ چاندنی کئی جگہ سے پھٹ بھی گئی تھی۔ خان صاحب نے اس پر نماز کا مسئلہ چھیڑا تو مرزا نے ایک اور ہی فتویٰ دیا۔ کہنے لگے، دریدہ دامن یوسف پر تو صرف زلیخا ہی نماز پڑھ سکتی ہے! اس پر خان صاحب بولے کہ زلیخا کے خاوند کے لیے پشتو میں بہت برا لفظ ہے۔ خان صاحب کے لیے شاعروں کا اتنا بڑا اجتماع ایک عجوبہ سے کم نہ تھا۔ کہنے لگے، اگر قبائلی علاقے میں کسی شخص کے گھر کے سامنے ایسے مجمع لگے تو اس کے دو سبب ہو سکتے ہیں۔ یا تو اس کے چال چلن پر جرگہ بیٹھا ہے۔ یا اس کا والد فوت ہو گیا ہے۔
کبھی کوئی شعر پسند آ جائے، گو کہ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا تھا، تو "وئی” کہہ کر فرطِ سرور سے آنکھیں بند کر لیتے اور جھومنے لگتے، شاعر وہ شعر مکرر پڑھنے لگتا تو اسے ہاتھ کے درشت اشارے سے روک دیتے کہ اس سے اک کے لطف میں خلل واقع ہوتا ہے۔
ایک دن ایک نوجوان شاعر نے دوسرے سے باز پُرس کی کہ تم نے میری زمین میں غزل کیوں کہی؟ اُس نے کہا، سودا کی زمین ہے۔ تمہارے باپ کی نہیں! اُس شاعر پہ یہ الزام بھی لگایا کہ وہ اضافت بہت کھاتا ہے۔ اس پر دونوں میں کافی تلخ کلامی ہوئی۔ شروع میں تو خان صاحب کی سمجھ میں ہی نہ آیا کہ جھگڑا کس بات کا ہے۔ اگر زرعی زمین کا تنازعہ ہے تو زبانی کیوں لڑ رہے ہیں؟ ہم نے جب ردیف، قافیے اور اضافت کا مطلب سمجھایا تو خان صاحب دنگ رہ گئے۔ کہنے لگے "لاحول ولا میں تو جاہل آدمی ہوں۔ میں سمجھا اضافت خور شاید رشوت یا خنزیر کھانے والے کو کہتے ہیں۔ پھر سوچا نہیں۔ باپ کو گالی دی ہے، اس پر لڑ رہے ہیں۔ فرضی زمینوں پر جوتم پیزار پوتے ہم نے آج ہی دیکھی! کیا یہ اپنی اولاد کے لیے یہ ہی زمینیں ترکے میں چھوڑ کے مریں گے کہ برخوردارو! ہم تو چلے۔ اب تم ان آبائی مربعوں کی چوکیداری کرنا۔ ان میں قافیوں کی پنیری لگانا اور اضافتوں کا مربّا بنا بنا کے کھانا! پشتو میں اس کے لیے بہت برا لفظ ہے۔”
نہ ہوئی غالب اگر عمر طبیعی نہ سہی
اُنھیں خوشی کے عالم میں بارہا، گاتے گنگناتے بھی دیکھا۔ لہراتی، گُٹکری لیتی آواز میں طنبورے کے تار کا سا کھرج کا ایک اچل (قائم) سُر بھی تھا جو کانون کو بھلا معلوم ہوتا تھا۔ اپنے زمانے میں ٹنگ ٹگور[20] کے رسیا رہ چکے تھے۔ مطلب یہ کہ اس حد تک موسیقی میں درک وہ بخوبی جانتے تھے کہ خود بھی بے سُرا گاتے ہیں۔ اکثر فرماتے کہ ہمارے ہاں شرفا میں اچھے گانے کو عیب سمجھا جاتا ہے۔ میں بگاڑ کے گاتا ہوں۔ بے نقس گائیکی کو صرف گویّوں، طوائف، میراثی اور لختئی[21] کے کیس میں قابلِ معافی سمجھے جاتے تھے۔ انھیں بے شمار ٹپّے یاد تھے۔ مگر ایک پشتو گیت ان کا فیورٹ تھا جس کا روزِ اَبرو شبِ ماہتاب میں خون کرتے تھے۔ اس کا مکھڑا کچھ اس طرح تھا کہ دیکھ دلدارا! میں نے تیری محبّت میں رقیب کو ننگی تلوار سے قتل کر ڈالا۔ کانوں پہ ہاتھ رکھ کر "یا قُربان” کے الاپ کے بعد جس والہانہ انداز سے وہ گاتے تھے اس سے تو یہی ٹپکتا تھا کہ موصوف کو جو لذّت قتل میں ملی، وصل میں اُس کا عشرِ عشیر بھی نہ ملا۔ اس بول کی ادائیگی میں وہ ایسے پہلوانی جوش اور اندھا دھند وارفتگی سے کرتے کہ شلوار میں ہَوا بھر بھر جاتی۔
فرماتے تھے کہ دُشمنی اور انتقام کے بغیر مرد کی زندگی بے مقصد، لا حاصل اور مہمل ہو کر رہ جاتی ہے۔ گویا
زیست مہمل ہے اسے اور بھی مہمل نہ بنا
ایک نہ ایک دُشمن ضرور ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ دُشمن نہ ہو گا تو انتقام کس سے لیں گے؟ پھر برسوں منہ اندھیرے ورزش کرنے، بالٹیوں دودھ پینے اور تکیے کے نیچے پستول رکھ کر سونے سے کیا فائدہ؟ سارے آبائی اور قیمتی ہتھیار بے کار ہو جائیں گے۔ نتیجہ یہ کہ شیر دلیر لوگ با عزّت موت کے بجائے دمے اور قے ودست میں فوت ہونے لگیں گے! عمرِ طبیعی تک تو صرف کوّے، کچھوے، گدھ، گدھے اور وہ جانور پہنچتے ہیں جن کا کھانا شرعاً حرام ہے! خان صاحب یہ بھی فرماتے کہ جب تک آپ کا کوئی بزرگ بے دردی سے قتل نہ ہو، آپ انتقام کی لذّت سے واقف نہیں ہو سکتے۔ صرف منگتوں، ملّاؤں، زنانوں، میراثیوں، لا ولدوں اور شاعروں کو کوئی قتل نہیں کرتا۔ اگر آپ کا دشمن آپ کو لائقِ قتل نہیں گردانتا تو اس سے زیادہ نے عزّتی کی بات نہیں ہو سکتی۔ اس پر تو خون ہو جاتے ہیں۔ ایمان سے! ایسے بے غیرت آدمی کے لیے پشتو میں بہت برا لفظ ہے۔ وَپشتو کانڑے پہ او بو کے نہ ورستیدی (پشتو کا پتھر پانی میں نہیں گھستا۔)
گھوڑا، غلیل اور انکسار
"یوں میرا دادا بڑا جلالی تھا۔ اُس نے چھ خون کیے۔ اور چھ ہی حج کیے۔ پھر قتل سے توبہ کر لی۔ کہتا تھا اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔ اب مجھ سے بار بار حج نہیں ہوتا۔ وہ پچانوے سال کی عمر میں برضا اور رغبت فوت ہوا۔ جب تک آخری دشمن فوت نہیں ہو گیا، اُس نے خود کو فوت نہیں ہونے دیا۔ کہتا تھا، میں کسی دُشمن کو اپنے جنازے کو کندھا نہیں دینے دوں گا۔ نہ میں اپنی زوجہ کا سُہاگ لُٹتے دیکھ سکتا ہوں۔ دادا واقعی بڑے ڈیل ڈول اور رعب داب کا آدمی تھا۔ پیدل بھی چلتا تو یوں لگتا جیسے گھوڑے پر آ رہا ہے۔ وہ بڑا جہاں دیدہ اور دانا تھا۔ اس وقت وہ مجھے گھوڑے کے ذکر پر یاد آیا۔ وہ کہتا تھا کہ سب سے اعلیٰ سواری اپنی ٹانگیں ہیں۔ گھوڑے کی ٹانگوں کا استعمال صرف دو صورتوں میں جائز ہے۔ اوّل، میدانِ جنگ میں دُشمن پر تیز رفتاری سے حملہ کرنے کے لیے۔ دوم۔ حملہ ناکام ہو تو میدانِ جنگ سے دگنی تیز رفتاری سے بھاگنے کے لیے! مذاق اپنی جگہ، میرا دادا قازقستانی شہسواروں کی طرح تیز دوڑتے ہوئے گھوڑے کی زین کو چھوڑ کر اس کے پیٹ کے گرد چکر لگاتا ہوا دوسری طرف سے دوبارہ زین پر بیٹھ جاتا تھا! میرے پاس اُس کی تلوار اور مرصّع پیش قبض ہے۔ ان میں وہی فولاد استعمال ہوا ہے جس سے نادر شاہ کی تلوار ڈھالی گئی تھی۔ ہمارے خاندان میں سو سال کے عرصے میں، میں پہلا آدمی ہوں جس نے قتل نہیں کیا۔۔۔ کم از کم اب تک۔ الحمد للہ میرے تایا نے بھی قتل نہیں کیا تھا۔ اس لیے کہ وہ جوانی میں ہی قتل کر دیا گیا۔ ”
"خان صاحب گھوڑوں سے بے پناہ شغف رکھتے تھے۔ سیاہ گھوڑا اُن کی کمزوری تھی۔ بنّوں میں پانچ چھ گھوڑے اصطبل میں بیکار کھڑے کھاتے تھے۔ سب مشکی۔ کسی کا تحفتاً دیا ہوا ایک اعلیٰ نسل کا سمندِ سیاہ زانو، (بادامی رنگ کا گھوڑا جس کی دم اور زانو سیاہ ہوں) بھی تھا۔ لیکن اسے صرف زانوں اور دُم کی حد تک پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اکثر فرماتے، ہمارے قبیلے میں جس مرد کا نشانہ خطا ہوتا ہو، یا جس کے شجرہ نسب میں صرف مقتولین ہوں، یا جس کو گھوڑا بار بار زمین پر پٹخ دیتا ہو، اپس سے نکاح جائز نہیں۔ گھوڑا میں نے ہمیشہ رکھا۔ اُس زمانے میں بھی بے انتہا تنگی تھی اور میں بغیر بریک کی سائیکل پر آتا جاتا تھا، باہر ایک مشکی کھڑا ہنہناتا رہتا تھا۔” کسی نے پوچھا "اس میں کون سی تک تھی، خان صاحب؟” فرمایا "اوّل تو اپنے گاؤں میں گھوڑے پر ٹنگے ٹنگے پھرنا غرور و نخوت کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔ دویم، گھوڑا ضعیف تھا۔ والد صاحب کی آخری نشانی۔ مجھے میرے دادا نے پالا۔ وہ تکبر اور رعونت کے بہت خلاف تھا۔ کہتا تھا ہمیشہ گردن جھکا کر چلو۔ یہی کھرے پختونوں کا شیوہ ہے۔ میری اُٹھتی جوانی، گرم خون تھا۔ ایک دن میں سینہ تانے، اور گردن کو اتنا اکڑائے کہ صرف آسمان نظر آتا تھا۔ اپس کے سامنے سے گزرا تو اُس نے مجھے روک لیا۔ میرے چھوٹے بھائی کے پاتھ سے غلیل چھین کر اُس نے دو شاخے کو میری گدّی میں پیچھے سے پھنسا کر گردن کو اتنا جھکایا کہ مجھے اپنی ایڑی نظر آنے لگی۔ میں نے عہد کیا کہ آئندہ کبھی گردن اکڑا کے نہیں چلوں گا۔ پھر غلیل گردن سے علاحدہ کر کے بھائی کو واپس کرنا چاہی تو دادا نے سختی سے منع کر دیا کہنے لگا، اسے سنبھال کے رکھ لے۔ کام آئے گی۔ بڑھاپے میں اسے دوسری طرف سے استعمال کرنا۔ تھوڑی کے نیچے لگا کر گردن کھڑی کر لینا۔”
اہلِ خانہ بدوش
خان صاحب اپنے اہالی موالی کی معیت میں جب کچی آبادیوں اور پٹھان بستیوں کا دورہ کرتے اور راستے میں کوئی بھاری پتھر پڑا نظر آ جاتا تو کھِل اُٹھتے۔ وہیں رک جاتے۔ جوانوں کو اشارہ کرتے کہ اسے اُٹھا کر دکھاؤ تو جانیں۔ اگر کسی سے نہ اُٹھتا تو آستین چڑھا کر آگے بڑھتے اور یا علی کہہ کر سر سے اونچا اُٹھا کر دکھاتے۔ راہ چلتے لوگ اور محلے کے بچّے تماشہ دیکھنے کھڑے ہو جاتے۔ کبھی کراچی کی خوش حال اور ساف ستھری بستیوں، مثلاً پی ای سی ایچ ایس، باتھ آئی لینڈ اور کے ڈی اے ون، سے سواری بادِ بہاری گزرتی تو افسوس کرتے کہ خا! یہ کیسی جھاڑو پھری خانہ خراب بستی ہے کہ ایک پتھر پڑا نظر نہیں آتا جسے کوئی مرد بچّہ اُٹھا سکے۔ میرے بچپن میں گاؤں میں جگہ جگہ بڑے بڑے پتھر اور چٹانیں پڑی ہوتی تھیں جن پر کھڑے ہو کر آپ دُشمن کو گالی دے سکتے تھے۔ ٹیک لگا کر سستا سکتے تھے۔ انھی پتھروں پر جاڑے میں بڑے بوڑھے سلیٹی رنگ کا کمبل اس طرح اوڑھ کے بیٹھتے تھے کہ صرف دو آنکھیں دکھائی دیتی تھیں۔ دھوپ سینکنے کے بہانے وہ ان آنکھوں سے نوجوانوں کے چال چلن پر نظر رکھتے تھے۔ ادھر جب کنواری لڑکیاں جن کے سفید بازو اُتھلے پانی کی مچھلیوں کی مانند کسی طرح گرفت میں نہیں آتے، گودر (پنگھٹ) سے اپنے سروں پر گھڑے اُٹھائے گزرتیں تو انھی پتھروں پر بیٹھے گبرو جوان اپنی نظریں اُٹھائے بغیر فقط چال سے بتا دیتے تھے کہ کس کا گھڑا لبا لب بھرا ہے اور کس کا آدھا خالی۔ اور کون گھونگھٹ میں مسکرا رہی ہے۔ کوئی لڑکی مہٹی چادر کے نیچے پھنسا پھنسا کُرتا پہن کر یا دانتوں پر اخروٹ کا تازہ دنداسہ لگا کر آتی، تب بھی چال میں فرق آ جاتا تھا۔ جوان لڑکی کی ایڑی میں بھی آنکھیں ہوتی ہیں۔ وہ چلتی ہے تو اُسے پتا ہوتا ہے کہ پیچھے کون کیسی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ گاوں کے چو حدّے پر ملک جہانگیر خان کی بُرجی کے پاس ایک تکونا سا پتھر آدھا زمین میں دھنسا، آدھا دیو کے پنجے کی طرح باہر نکلا تھا۔ اُس پر ابھی تک اُن گولیوں کے نشان ہیں جو پچاس سال پہلے عید کے دن میں نے نشانہ بازی کے دوران چلائی تھیں۔ ایک گولی کا ٹکڑا پتھر سے ٹکرا کر اچٹتا ہوا نصیر گل کی ران میں پیوست ہو گیا۔ وہ کچی عمر کا خوش شکل لڑکا تھا۔ لوگوں نے طرح طرح کی باتیں بنائیں۔ اُس کا باپ کہنے لگا کہ منحوس کے بچّے! میں تیری دونوں جانگوں میں گولی سے ایسا درّہ کھولوں گا کہ ایک لحاف کی روئی سے بھی موسلا دھار خون بند نہیں ہو گا۔ گاؤں میں کبھی سنّاٹے میں فائر ہوتا تو زمین دیر تک کانپتی رہتی اور دل دہل جاتے۔ عورتیں اپنے مرد کے لیے خیر کی دعائیں کرتی تھیں کہ خدا خیر سے لوٹائے۔
محبّت اور نفرت دونوں کا اظہار خان صاحب”ویٹ لفٹنگ” سے کرتے۔ مطلب یہ کہ بحث میں ہار جائیں تو حریف کو اُٹھا کر زمین پر پٹخ دیتے۔ اور اگر مدّت کے بچھڑے دوست مل جائیں یا ہم جیسے ناقابلِ رشک قد و قامت والے نیاز مند سلام کریں تو معانقے کے دوران ہمیں اس طرح ہلاتے اور جھنجھوڑتے جیسے پھل دار درخت کی شاخ کو جھڑجھڑاتے ہیں۔ پھر فرطِ محبّت سے ہمیں زمین سے ادھر اُٹھا لیتے۔ ہماری پیشانی کو اپنی lip level تک لاتے اور چوم کر وہیں ہوا میں نیوٹن کے سیب کی مانند گرنے کے لیے چھوڑ دیتے۔
اسی طرح ان کے ایک دلپسند ٹپّے سے جو اکثر گاتے اور گنگناتے تھے یہی ترشح ہوتا تھا کہ محبوب بھی انھیں صرف اسی لیے بھاتا ہے کہ اسے دونوں ہاتھوں سے اُٹھا کر گھڑے کی طرح سر پر رکھا جا سکتا ہے:
راشہ زماذ ملیگ منگے شہ
چہ و سینہ پہ لار دے سر تہ خیرہ ومہ
مطلب یہ کہ "جاناں آ میرے پہلو کا گھڑا بن جا کہ تجھے سینے کے راستے سے سر پر چڑھا لوں۔” گاتے میں کٹی انگلی سے اپنے سینے پر گداز گھڑے کے عمودی سفر کا ایسا نقشہ کھینچتے کہ
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے سر پہ ہے
محبوب کا وزن کے علاوہ ہیئت کذائی میں بھی گھڑے سے مشابہ ہونا اگرچہ لازمی شرط نہیں، لیکن اضافی کوالیفیکیشن ضرور معلوم ہوتی تھی۔ گھڑے کو اپنے گرمائے ہوئے پہلو سے جدا کر کے سر پر رکھ لینے سے غالباً عفتِ نگاہ و نکاح کا یہ پہلو دکھانا مقصود تھا کہ خوبصورت گھڑے کو ہمہ وقت سر پر اُٹھائے پھرنے والا اہلِ خانہ بدوش خود کبھی اس کا پانی نہیں پی سکتا۔ اس دکھیا کی ساری عمر گھڑے کو سر پر بیلنس کرنے اور لونڈوں کی غلیل سے بچانے میں ہی گزرے گی۔
۱۱ آداب عرض!
سچار
سچ بات کہنے میں خان صاحب اتنے ہی بے بس تھے جتے نے ہم آپ چھینک کے معاملے میں۔ منہ پر آئی ہوئی بات اور ڈکار کو بالکل نہیں روکتے تھے۔ اگر ان کی کسی بات سے دوسرا آزردہ یا مشتعل ہو جائے تو انھیں پوری طرح اطمینان ہو جاتا تھا کہ سچ بولا ہے۔ انھیں سچ اس طرح لگتا تھا جیسے ہما شُما کو ہچکی یا شاعروں کو تازہ غزل لگتی ہے۔ اِترا اِترا کر لکھنے والوں کو لِکھار اور کھُل کھیلنے والی کو کھلاڑ کہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح بات بے بات سچ بولنے والے کو سندھی میں "سچار” کہتے ہیں۔ خان صاحب اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، مثلاً ایک دفعہ خان صاحب سے ان کا تعارف کرایا گیا۔ چھوٹتے ہی پوچھنے لگے "ایسی مونچھیں رکھ کر آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ ” وہ صاحب برا مان گئے تو کہنے لگے "معاف کرنا! میں جاہل آدمی ہوں۔ یوں ہی اپنا علم بڑھانے کے لیے پوچھ لیا تھا۔ ” خلیل احمد خان رند سے دریافت فرمایا "معاف کرنا، آپ کی صحت پیدائشی خراب ہے یا بقلم خود خراب کی ہے؟ کیا آپ کے والد بھی نام کے آگے خان لکھتے تھے؟” وہ صاحب کہ روہیل کھنڈ کے اکھڑ پٹھان تھے، سچ مچ بگڑ گئے۔ کہنے لگے "کیا مطلب؟” بولے "ہم نے تو ویسے ہی پوچھ لیا۔ اس واسطے کہ بارہ سنگھا ماں کے پیٹ سے سینگوں کے جھاڑ سمیت پیدا نہیں ہوتا۔” ایک دفعہ بشارت سے پوچھا "آپ ریشمی ازاربند استعمال کرتے ہیں۔ کھل کھل جانے کے علاوہ اس کے اور کیا فوائد ہیں؟” ایک اور موقعے پر تین چار دوستوں کی موجودگی میں بشارت کو بڑی سختی سے ٹوکا "یارا جی! معاف کرنا۔ میں تو جاہل آدمی ہوں۔ مگر یہ آپ دن بھر، آداب عرض! آداب عرض! تسلیمات عرض ہے! کیا کرتے رہتے ہیں۔ کیا السّلام و علیکم کہنے سے لوگ برا مان جائیں گے؟”
غارِ ہراس پر غارِ حرا کا گمان (نعوذ باللہ)
اس سے پہلے بشارت نے اس پہلو پر کبھی غور ہی نہیں کیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ادھر ہمارا بھی خیال ہی نہیں گیا تھا۔ بشارت نے اپنے والد کو ہمیشہ آداب، تسلیمات ہی کہتے سُنا تھا۔ اور اس میں انھیں بڑی ملائمت اور نفاست محسوس ہوتی تھی۔ خان صاحب نے دوسری مرتبہ بھری محفل میں ٹوکا تو وہ سوچ میں پڑ گئے۔ اب جو پلٹ کر پیچھے دیکھا تو نظروں کے سامنے ایک منظر کے بعد دوسرا منظر آتا چلا گیا۔
1۔ کیا دیکھتے ہیں کہ مغل تاجداروں نے کلاہِ تیموری اور تاشقندی عمامے اُتار پھینکے اور راجپوتی کھڑکی دار پگڑیاں پہن لیں۔ ظلِ سبحانی ماتھے پہ تلک لگائے فتح پور سیکری کے عبادت خانے میں بیٹھے فیضی سے فارسی رامائن کا پاٹ سُن رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد پنڈتوں اور ملاؤں کے مناظرے میں وہ شور و غوغا ہوا کہ یوں لگتا تھا جیسے مست خچر بھڑوں کے چھتے چبا رہے ہیں۔ اکبرِ اعظم مذہب سے اتنا مایوس اور بیزار ہوا کہ ایک نیا مذہب ایجاد کر ڈالا۔ وہ اپنی رعایا کو جلد از جلد خوش اور رام کرنے کی غرض سے بھی اپنے آبائی دین سے بیزاری اور لاتعلقی ظاہر کرنا چاہتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بایں جاہ و حشم و شریعت سے بر گشتہ، ملاؤں سے مایوس اور اپنی رعیّت کی اکثریت سے خوف زدہ تھا۔ رفتہ رفتہ دیں پناہ کو اپنے غارِ ہراس پر غارِ حرا کا گمان ہونے لگا اور اس نے نبوت کا دعویٰ[22] کر دیا جس پر اس کی اپنی ملکہ جودھا بائی اور ملّا دو پیازہ تک ایمان نہ لائے۔ اُس نے سب کو خوش کرنے لیے سب مذاہب کا ایک کاک ٹیل بنایا جسے سب نے اسی بنا پر ٹھکرا دیا۔
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی
2۔ پھر دیکھا کہ سمندِ شب رنگ کی ننگی پیٹھ پر شبا شب منزلیں مارنے اور ملکوں ملکوں جھنڈا گاڑنے والے مغل سورما اب جمنا کنارے راجپوتی طرز کے درشن جھروکے میں اور لال عماری اور پیچ رنگ مستک والے فیلِ گراں ڈیل پر براجمان نظر آتے ہیں۔ لُو کے تھپیڑوں نے فرغانہ کے فرغل اُتروا دیے۔ ململ کے ہوا دار انگرکھوں نے زرّہ بکتر کی جگہ لے لی۔ رفتہ رفتہ فاتحین نے اپنی مادری زبانیں عربی، ترکی اور فارسی ترک کر کے ایک نئی زبان اردو وضع کی جو ابتداءً خود ان کے لیے بھی اتنی ہی بدیسی اور اجنبی تھی جتنی ہندوؤں کے لیے فارسی یا ترکی۔ مکمل عسکری فتح کے بعد حکمران قوم نے اپنی اصل زبان سے دست بردار ہو کر خوش دلی سے ایک نوع کی ثقافتی شکست مان لی، تاکہ ہارنے والے یہ نہ سمجھیں کہ وہ اپنے سکّے کے ساتھ اپنی مادری زبان بھی مستقلاً رائج کرنا چاہتے ہیں۔ مسجدوں اور خانقاہوں کے دروازوں اور محرابوں پر ہندوؤں کے مقدّس پھول۔۔۔۔ کنول سے منبت کاری ہونے لگی۔ معرکہ آراؤں کی محفلوں میں تاجکستانی رقص کا وفور و خروش اور سمر قند و بخارا کے شعلہ در گلو نغمے پھر کبھی سُنائی نہ دیے کہ وقت نے لئے ہی نہیں، نَے و نغمہ بھی بدل کے رکھ دیے۔ ماورائے ہند کے صاحبِ کمال رامش گر اور اقصائے فارس کے نادر نوا زندگان سبک دست اپنے بربط و چنگ و رباب بغلوں میں دبائے مدّتیں گزریں رخصت ہو گئے۔ ان کے جانے پر نہ آسمان رویا نہ ہمالیہ کی چھاتی شق ہوئی کہ ان کے قدردانوں نے اب ستار، سارنگی اور مردنگ پر ہندی راگ راگنیوں سے دلوں کو گرمانا سیکھ لیا تھا۔
گنگا جمنی کام
3۔ لکھنے والی انگلی جو لکھتی چلی جاتی ہے، ثقافتی سمجھوتے کے مرقعے کا ایک اور ورق پلٹ کر دکھاتی ہے۔ دریائے گومتی کے روپ کنارے رہس کا رسیا، اودھ کا آخری تاجدار پیروں میں گھنگرو باندھے اسٹیج پر اپنی ہی بنائی ہوئی ہندی دھُن پر نرت بھاؤ بتا رہا ہے۔ ایک ورق اور پلٹیے تو جمنا کنارے ایک اور ہی منظر نگاہ کے سامنے آتا ہے چند متقّی، پرہیز گار اور باریش بزرگ مسند کی ٹیک لگائے اسبابِ زوالِ امّت، احیائے دین اور ضرورتِ جہاد پر عربی اور فارسی میں رسالے تحریر کر رہے ہیں، لیکن جب سلام کرنا ہو تو دہرے ہو ہو کر ایک دوسرے کو کورنش، آداب و تسلیمات، بندگی اور مجرا بجا لاتے ہیں۔ السّلام و علیکم کہنے سے احتراز کرتے ہیں کہ یہ رواج (جو بارہ سو سال سے مسلمانوں کا شعار اسی طرح رہا تھا جیسے "شلوم” امّتِ موسوی کی یا "جے رام جی کی” اور "نمسکار” اہلِ ہنود کی پہچان رہی ہے) اب بالکل متروک ہو چکا تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ خانوادے نے بھی السّلام وعلیکم کہنا ترک کر دیا۔ مؤلف امیر الروایات لکھتا ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ کے خاندان کے لوگ جب سلام کرتے تھے تو کہتے تھے عبد القادر[23] تسلیمات عرض کرتا ہے۔ رفیع الدین[24] تسلیمات عرض کرتا ہے۔ جب حضرت سیّد احمد بریلوی بیعت کے لیے حضرت شاہ ولی اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ پہلے شخص تھے جس نے اُنھیں السّلام و علیکم کہا![25]
یہ سب ثقافتی سمجھوتے تسخیر و تالیفِ قلوب کی خاطر قرن بہ قرن ہوا کیے، مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ دل کو سمجھانے والی بات تھی۔ آداب عرض اور آہنگِ خسروی آنے والی رستاخیز میں کسی کی جان و مال کو۔۔۔۔۔ حتیٰ کہ خود سمجھوتے کی زبان کو بھی۔۔۔۔ نہ بچا سکے۔ وقت نے ایسے تمام دل خوش کن اور آرائشی سمجھوتوں کو خونابہ برد کر دیا۔ مخمل و کمخواب کے غلاف گرتی ہوئی دیواروں کو گرنے سے نہیں روک سکتے۔ چنانچہ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ زبانِ یار تو قلم کر دی جائے، اخلاص و رواداری کا پرچم سر نگوں ہو جائے، مگر کلچر کا کام کار و فتح یاب ہو۔
بشارت اکثر کہتے ہیں کہ میں یہ کبھی نہیں بھولوں گا کہ پشاور کے ایک اَن پڑھ پٹھان کے طعنے نے چار پُشتوں کا پالا پوسا آداب چھڑوا دیا!
۱۲
کراچی والے کسی چوزے کو مُرغا نہیں بننے دیتے
خان صاحب بحث کے دوران ہر بات اور ہر صورتِ حال کے عموماً دو سبب بتاتے تھے، جن میں سے ایک کی حیثیت محض پخ کی ہوتی تھی۔ مثلاً ایک دن بشارت نے شکایت کی "کراچی کی صُبح کیسی گدلی گدلی اور مضمحل ہوتی ہے۔ خود سورج کو نکلنے میں آلکسی آتی ہے۔ صُبح اُٹھنے کو جی نہیں چاہتا۔ بدن ایسا دُکھتا ہے جیسے کسی باکسر نے رات بھر اس پر مشق کی ہو۔ میں کانپور میں مُرغ کی پہلی ہی اذان پر اس طرح اُٹھ بیٹھتا تھا گویا کسی نے اسپرنگ لگا دیا ہو۔ ” خان صاحب اپنی بریدہ انگشتِ شہادت ان کے گھٹنے کی طرف اُٹھاتے ہوئے بولے کہ "اس کے دو سبب ہیں۔ پہلا تو یہ کہ کراچی والے کسی چوزے کو مُرغا نہیں بننے دیتے۔ اذان دینے سے پہلے ہی اُس کا قصّہ تمام کر دیتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ آپ کے اسپرنگ کو گٹھیا ہو گئی ہے۔ چالیس دن تک دانہ میتھی کی بھجیا کھاؤ اور بوڑھے گھٹنے پر گودر (پنگھٹ) کے پودے کا لیپ لگاؤ۔ ہمارا پشتو شاعر کہہ گیا ہے کہ پنگھٹ کا ہر پودا دوا ہوتا ہے، کیوں کہ کنواریوں کے پلّو اسے چھوتے رہتے ہیں۔ میں تو جن بھی کراچی آتا ہوں، حیران پریشان رہتا ہوں۔ جس سے ملو، جس سے بولو، کراچی سے کچھ نہ کچھ گلہ ضرور رکھتا ہے۔ ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جو اپنے شہر پر فخر کرتا ہو۔ اس کے دو سبب ہیں۔ پہلا تو یہ کہ یہاں فخر کے لائق کوئی چیز نہیں۔ دوسرا یہ کہ۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
دیوارِ گریہ
دوسرا سبب بتانے کے لیے اُنھوں نے اپنی انگشتِ شہادت ابھی سُوئے فلک بلند کی ہی تھی کہ مرزا عبدالودود بیگ بیچ میں کود پڑے۔ کہنے لگے "صاحب! دوسرا سبب یہ کہ مہاجر، پنجابی، سندھی، بلوچ، پٹھان۔۔۔۔ سب اپنے رب کا فضل تلاش کرنے کے لیے یہاں آ آ کر آباد ہوئے۔ کڑی دھوپ پڑ رہی تھی۔ سب کے سروں پر کراچی نے مادرِ مہربان کی طرح اپنی پھٹی پرانی چادر کا سائبان تان دیا۔ اُن پر بھی جو بسر کرنے کے لیے فقط ٹھیا ٹھکانہ مانگتے تھے۔ پھر پسرتے چلے گئے۔ لیکن سب شاکی، سب آزردہ خاطر، سب برہم۔ مہاجر ہی کو لیجیے۔ دلّی، لکھنؤ، بمبئی، بارہ بنکی، جونا گڑھ حد یہ کہ اُجاڑ جھنجھنوں (جے پور۔ راقم الحروف کی طرف اشارہ) کو یاد کر کے آہیں بھرتا ہے۔ اسے یہ احساس نہیں کہ جنھیں یاد کر کر کے وہ خود پر دائمی رقّت طاری کیے رہتا ہے وہ چھوڑا پوا شہر نہیں، بلکہ اُس کی رُوٹھی جوانی ہے جو لوٹ کر نہیں آ سکتی۔ ارے صاحب! اصل رونا جغرافیہ کا نہیں جوانی اور بیتے سَمے کا ہے جو آبِ حیاتِ امروز میں زہر گھول دیتا ہے۔ پنجابی جنھیں سب سے پہلے سر سیّد احمد خان نے "زندہ دلانِ پنجاب” کا لقب دیا تھا، جنّت میں پہنچ کر بھی "لہور لہور اے ” پکاریں گے۔ کیں ریساں شہر لہور دیاں۔ انھیں کراچی ذرا نہیں بھاتا۔ وہ سندھ کے چتی دار کیلے، چیکو اور پپیتے میں ملتان کے آم اور منٹگمری کے مالٹے کا مزہ نہ پا کر سچ مچ اُداس ہو جاتے ہیں۔ فرنٹیر کا گل زمان خان چوکیدار شیر شاہ کالونی کے جونگڑہ[26] میں اپنے وطن کے کوہ و دشت و دریا مانگتا ہے۔
کوئی نہیں جو اُٹھا لائے گھر میں صحرا کو
وہ صبح دلّی کی نہاری کھاتا ہے۔ سہ پہر کو سیٹھ کی کوٹھی کے ایک اوجھل کونے میں مکئی کے بے موسم پودے کو بڑے لاڈ سے پانی دیتا ہے۔
پردے وطن پہ ہر چا غم دی
ماپہ پردی وطن کر لی دی گلونہ[27]
وہ دن بھر پشتو لہجے میں بمبیا اردو بولنے کے بعد شام کو ٹرانزسٹر پر پشتو گانوں سے دل پشوری کرتا ہے اور رات کو پشاور ریلوے اسٹیشن کو آنکھوں میں بھر کے سڑک کے کنارے جھگی میں سو جاتا ہے۔ سڑک پر رات بھر پٹاخے چھوڑتی موٹر سائیکل رکشائیں اور دھڑ دھڑاتے ٹرک گزرتے رہتے ہیں۔ پر اسے خواب میں ڈول سُرنا اور رباب گھڑے پر ٹپّے سُنائی دیتے ہیں۔ ادھر کوئٹہ اور زیارت سے آیا ہوا بلوچ کراچی کا نیلا سمندر دیکھتا ہے اور بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور ان فربہ دُنبوں کو یاد کر کے آبدیدہ ہو جاتا ہے جن کے وہ بڑے خستہ سجی کباب بنا سکتا تھا۔ اب رہا پرانا سندھی، تو وہ غریب اُس زمانے کو یاد کر کے آہیں بھرتا ہے جب یہ چاروں حضرات کراچی تشریف نہیں لائے تھے۔”
اس مرحلے پر بھی آخری کیل خان صاحب ہی نے ٹھونکی۔ کہنے لگے، خا! اس کے دو سبب ہیں۔ پہلا یہ کہ شیخ سعدی کہہ گئے ہیں کہ جس گاؤں کا ہر باشندہ اُٹھتے بیٹھتے، سوت جاگتے، کسی دوسرے گاؤں کی یاد میں تڑپتا رہے، اُس گاؤں کا خانہ خراب ہووے ہی ہووے۔ ہمارے "ملک” میں اگر کوئی دوسری شادی کے بعد اپنے پہلے خاوند کو اس طرح یاد کرے تو دوسرا خاوند دونوں کی ناک کاٹ کے ایک دوسرے کی ہتھیلی پہ رکھ دے گا۔ ملّا کرم علی کہتا تھا کہ جو عورت اپنے پہلے خاوند کو بہت یاد کرے اُسے حنانہ کہتے ہیں۔ ایسی عورت کے دوسرے خاوند کے لیے پشتو میں بہت برا لفظ ہے۔”
خان صاحب دقیق مسائل اور زندگی کی گتھیوں کو کبھی کبھی اپنی نا خواندہ سوجھ بوجھ سے اس طرح پانی کر دیتے
کہ کتاب عقل کی طاق میں جوں دھری تھی توں ہی دھری رہی۔
اصولوں کے مُرغے اور جنگِ زرگری
معاف کیجئے بیچ میں یہ صفحہ ہائے معترضہ آن پڑے۔ لیکن ان سے فریقین کا مزاج اور قضیے کی نوعیت سمجھنے میں آسانی ہو گی جو اب اتنا طول کھینچ گیا تھا کہ دونوں ایک دوسرے کو اپنے دلائل کا آموختہ سُناتے ہوئے کبھی کبھی مسکرا دیتے تھے۔ اب یہ کوئی معمولی کاروباری جھگڑا نہیں رہا تھا۔ دونوں فریق اپنے اپنے اصولوں کو منطق کی پالی میں مُرغوں کی طرح لڑا رہے تھے۔ اس شرط کے ساتھ کہ جس کا مُرغا جیت جائے گا اُسے ذبح کر کے دونوں مل کے کھائیں گے یہ ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ خان صاحب اکثر فرماتے تھے کہ ہارا ہوا مُرغا کھانے سے آدمی اتنا بودا ہو جاتا ہے کہ حکومت کی ہر بات درست معلوم ہونے لگتی ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ خان صاحب محض تفننِ طبع اور خوش وقتی کے لیے معاملے کو طول دے رہے ہیں، وگرنہ وہ سیرچشم، دوست نواز، وسیع القلب اور فراخ دست آدمی تھے۔ بشارت کو اس کا بخوبی احساس تھا۔ اور اس کا بھی کہ خان صاحب انھیں جی جان سے چاہتے ہیں اور ان کی بذلہ سنجی سے بے حد محظوظ ہوتے ہیں۔ دو سال قبل بھی وہ بشارت سے پشاور میں کہہ چکے تھے کہ میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کو سامنے بٹھا کر اسی طرح مہینوں آپ کی باتیں سنتا رہوں۔ بشارت خود بھی خان صاحب کے گرویدہ تھے۔ دہکتے سرخ انگارہ فولاد سے چنگاریاں اُڑتی دیکھنے میں انھیں بہت مزہ آتا تھا۔
ایک طرف تو خان صاحب کی حساب فہمی کی یہ انتہا کہ ایک پائی چھوڑنے میں ان کی پختو پر حرف آتا تھا۔ دوسری طرف محبّت و پاس داری کا یہ عالم کہ جہاں بشارت کا پسینہ گرے وہاں اُن کے دُشمن کا خون بہانے کے لیے تیار۔ بشارت کی دُکان سے ایک ایکسائز انسپکٹر چار سال قبل دس ہزار روپے کی لکڑی اُدھار لے گیا اور ہنوز رقم دبائے بیٹھا تھا۔ تین سال ہوئے ایک پرونوٹ (تمسک) لکھ دیا تھا۔ مگر اب کہتا تھا کہ جاؤ نہیں دیتے۔ نالش کر کے دیکھ لو۔ پرونوٹ کبھی کا خارج المیعاد ہو چکا۔ بشارت نے منجملہ اپنی اور پریشانیوں کے اس نقصان کا بھی ذکر کیا۔ دوسرے دن شام کو بعد مغرب خان صاحب اپنے پچیس تیس کمانڈو کی نفری لے کر اُس کے گھر پہنچ گئے۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ انسپکٹر نے کھولا اور سببِ نزول دریافت کیا تو خان صاحب نے کہا کہ ہم وہ کھڑکی دروازے اُکھاڑ کر لے جانے کے لیے آئے ہیں جن میں ہمارے بشارت بھائی کی لکڑی استعمال ہوئی ہے۔ یہ کہہ کر اُنھوں نے ایک ہی جھٹکے سے دروازے کو قبضے، اسکرو اور ہینڈل سمیت اُکھاڑ کر اس طرح بغل میں دبا لیا جیسے مکتب کے بھگوڑے لڑکے تختی بغل میں دبائے پھرتے ہیں۔ دیوار پر سے انسپکٹر کے دادا مرحوم کا فوٹو جس کے بارے میں اُنھیں شبہ گزرا کہ اس فریم میں وہی لکڑی استعمال ہوئی ہے، کیل سمیت نوچ کر اپنے ایک لیفٹیننٹ کو تھما دیا۔ انسپکٹر ایک گھاگ تھا۔ موقعے کی نزاکت سمجھ گیا۔ کہنے لگا، خان صاحب! بندہ ایک معروضہ گوش گزار کرنا چاہتا ہے۔ خان صاحب بولے، زہ پرہ![28] اب وہ کسی خرگوش کے گوش گزار کرنا۔۔۔۔ معروضہ شعروضہ کبھی کا خارج المیعاد ہو چکا۔ بھرا ہوا پیٹ فارسیاں بولتا ہے۔ ہوش میں آؤ۔ رقم نکالو۔
رات کے بارہ بجنے میں ابھی چار پانچ منٹ باقی تھے کہ خان صاحب نے دس ہزار کے نئے نوٹوں کی دس گڈیاں لا کر بشارت کے حوالے کر دیں۔ ان میں سے سات پر ولیکا ٹیکسٹائل ملز کی مہر تھی جو اس انسپکٹر کے حلقۂ رشوت ستانی میں پڑتا تھا۔ یہی نہیں، اُنھوں نے اس سے اپنے پہلوان کمانڈوز کی رکشاؤں کا کرایہ اور دودھ کے پیسے بھی بحساب ایک سیر فی کس وصول کر لیے۔
خان صاحب گھر والوں میں ایسے گھل مل گئے کہ اکثر شام کو بچّوں کے لیے جو انھیں چچا کہنے لگے تھے، مٹھائی، کپڑے اور کھلونے لے کر جاتے۔ سب سے چھوٹے کو بہلانے کے لیے، پلنگ پر چت لیٹ جاتے اور پیٹ کو دھونکنی کی طرح پھلا اور پچکا کر اس پر بچّے کو اُچھالتے۔ پڑوس کے بچّے انھیں دیکھتے ہی ان کے پیٹ کے لیے مچلنے لگتے اور ماؤں کے سر ہو جاتے۔ خان صاحب نے اب بشارت کے ساتھ ان کے رشتے داروں کی شادی بیاہ، غمی اور سالگرہ کی تقریبوں میں بھی جانا شروع کر دیا۔ لیکن بشارت نے کچھ عرصے بعد اس سلسلے کو یکلخت بند کر دیا، اس لیے کہ انھیں خارجی ذرائع سے معلوم ہوا کہ ان کے (بشارت کے) رشتے داروں کی تمام تر ہمدردیاں خان صاحب کے ساتھ ہیں! اور ایک دن تو وہ یہ سُن کر بھونچکے رہ گئے کہ ایک ایسے شرّی رشتے دار نے خان صاحب کو بالا بالا مدعو کیا ہے، جس سے ایک عرصے سے بشارت کے تعلقات کشیدہ بلکہ منقطع تھے۔
بشارت کو کسی مخبر نے یہ بھی خبر دی کہ خان صاحب دو تین دفعہ چوری چھپے تھانے بھی جا چکے ہیں۔ اور ایس ایچ او کو قراقلی ٹوپی، ایک بوری اخروٹ، اصلی شہد اور درّے کے بنے ہوئے بغیر لائسنس کے ریوالور کا تحفہ بھی دے آئے ہیں! وہ گھبرائے۔ اب یہ کوئی نیا پھڈا ہے۔ اس کے بھی دو سبب ہو سکتے ہیں اُنھوں نے سوچا۔
۱۳
روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر
خان صاحب نے اب خود شیو کرنا اور شلوار میں کمر بند ڈالنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ جیسا ہم پہلے کہیں بیان کر چکے ہیں، خلیفی سائیسی، کوچوانی، ڈرائیوری، کھانا پکانا، بیرا گیری، حجامت، باغبانی، پلمبنگ۔۔۔۔۔ یہ کہیے کیا نہیں آتا تھا۔ اس فن میں بھی طاق تھا جو ان سب سے فائدہ مند ہے۔۔۔ مصاحبی اور خوشامد۔ جب سب ضمنی دھندے ٹھپ ہو جاتے تو خلیفہ اپنے بنیادی پیشے کی طرف رجوع کرتا۔ اپنے بیٹے کو جو آبائی پیشے سے متنفر و محجوب تھا، اکثر نصیحت کرتا تھا کہ بیٹا حجّام کبھی بے روزگار نہیں رہ سکتا۔ حجّام کی ضرورت ساری دنیا کو رہے گی۔ تا وقتے کہ ساری دنیا سِکھ مذہب اختیار نہ کر لے! اور سِکھ یہ کبھی نہیں ہونے دیں گے۔ خلیفہ دن رات خان صاحب کی خدمت میں جُتا رہتا۔ شام کو ان کے دوستوں کا غول کوہستانی ڈیرے ڈالتا تو لپک جھپک اندر سے قہوہ اور چلّم بھر بھر کے لاتا۔ ایک دفعہ اپنے گھر سے چار اصیل مُرغوں کی۔ جنھوں نے اذان دینی نئی نئی سیکھی تھی، بریانی بنا کر لایا۔ اُن کے متعلق اُس کا دعویٰ تھا کہ جب یہ پٹھے علی الصبح گردن پھُلا پھُلا کر اذان دیتے تو سارے محلّے کی مرغیاں بے قرار ہو کر باہر نکل پڑتی تھیں۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ جب وہ گورنر جنرل ہاؤس میں مالی کے عہدے پر فائز تھا تو اُس نے اپنی آنکھوں سے خواجہ ناظم الدین کو متوفّین کے والد کا روسٹ کھاتے دیکھا۔ پرائم منسٹر محمّد علی بوگرہ نے عالیہ سے (دوسری) شادی کے بعد متوفّی مُرغ کی سوگوار بیوگان کے انڈوں کا مقوی حلوہ بنا کر نوش کیا۔ ایک دن کوہاٹ کی اراضی کا ایک تنازع طے ہونے کی خوشی میں وہ فریقین کے لیے مسلّم بھیڑ روسٹ کر کے لایا۔ ثبوت میں بکرے کی کٹی ہوئی دُم بھی اُٹھا لایا تاکہ خان صاحب کو شبہ نہ گزرے کہ بکرے کی بجائے سستی بھیڑ بھون کے بھیڑ دی (اس رعایتِ لفظی پر وہ دل ہی دل میں بہت خوش ہوا) خان صاحب اُسے دیکھتے ہی بولے کہ اتنی چھوٹی ران والے بکرے کی اتنی بڑی دُم نہیں ہو سکتی! دُم کے اس پہلو پر خلیفہ کی نظر نہیں گئی تھی۔ چنانچہ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ پھر خان صاحب کے گھٹنے پکڑ لیے اور جھوم جھوم کر ٹانگ دبانے لگا۔ اُنھوں نے یہ کہہ کر چھُڑائی کہ بد بختا! گھٹنا پکڑتے پکڑتے اب میری ران کیوں ٹٹول رہا ہے؟
خان صاحب کو خلیفہ کے پکائے ہوئے کھانوں سے زیادہ اُس کی لچھے دار باتوں میں آتا تھا۔ فرماتے تھے، جس بات کو کہنے والا اور سُننے والا دونوں ہی جھوٹ سمجھیں، اُس کا گناہ نہیں ہوتا۔ وہ اس کی شیخی کو بڑھاوا دیتے۔ وہ ہر دوسرے تیسرے دن، اُن کے تلوؤں پر روغنِ بادام کی مالش کرتا۔ کہتا تھا، اس سے دماغ کو تراوٹ پہنچتی ہے۔ ایک دن اچانک خان صاحب کو کچھ خیال آ گیا۔ کہنے لگے، کیا تیرے خیال میں میرا مغز میرے تلوؤں میں اُتر آیا ہے؟ لیکن خلیفہ ٹھیک ہی کہتا تھا، اس لیے کہ سات آٹھ منٹ بعد ہی خان صاحب ریوالور تکیے کے نیچے رکھے، زور زور سے خرّاٹے لینے لگتے۔ ہر تین چار منٹ بعد چونکتے اور خرّاٹوں میں نیا سُر لگا کر پھر سے سو جاتے۔ ایک دن وہ بڑے اونچے سُر میں خرّاٹے لے رہے تھے کہ پیر دباتے دباتے خلیفہ کا ہاتھ نہ جانے کیوں اُن کی واسکٹ کی جیب پر پڑ گیا۔ آنکھیں کھولے بغیر کہنے لگے کہ بد بختا! نقدی تو میرے کوٹ کی جیب میں ہے!
در اصل وہ اُن کے منہ لگ گیا تھا۔ خدمت گار، درباری، چلّم بھرنے والا، حجّام، داستان گو، میر مطبخ، اردلی، گائیڈ، مخبر، مشیر۔۔۔۔۔ وہ اُن کا سبھی کچھ تھا۔ تین چار دب سے آپس میں نہ جانے کیا مسکوٹ ہو رہی تھی۔ روزانہ شام کو بھی کی نہ کسی بہانے سے بشارت کے ہاں آ جاتا۔ ان کی بیگم نے دو تین دفعہ کہا کہ اس کا آنا مصلحت اور نحوست سے خالی نہیں۔
آدم خور شیر کو پہچاننے کی آسان ترکیب
ایک دن صبح اُٹھتے ہی خان صاحب نے اچانک یہ تجویز پیش کی کہ اب تک جو رقم آپ نے دی ہے اسی منھا کرنے کے بعد جو رقم واجب الادا بنتی ہے اس کے عوض یہ گاڑی جو عرصۂ دراز سے بیکار کھڑی ہے مجھے دے دیجیے۔ بشارت نے کہا، لکڑی کی اصل مالیت کسی طرح سات ہزار سے زائد نہیں، جبکہ اس گاڑی کی قیمت، مع نئی باڈی اور نئے پرزوں کے کسی طرح نو ہزار سے کم نہیں۔ مزید بر آں جس انگریز کی سواری میں یہ رہتی تھی اُسے سر کا خطاب ملنے والا تھا۔ خان صاحب نے جواب دیا، آپ کی گاڑی بہت سے بہت پانچ ہزار کی ہو گی، جبکہ میری لکڑی نو ہزار کی تھی۔ آپ نے تو پٹرول اور پنکچر جوڑنے کا تمام خرچہ، خلیفہ کی تنخواہ اور اُس کی زوجہ کا دین مہر بھی کار کی قیمت میں جوڑ دیا۔ بہت کچھ بحثا بحثی اور”گھڑ سودے بازی” کے بعد واجب الادا رقم کا فرق گھٹ کر وہیں آ گیا جہاں سے قضیہ شروع ہوا تھا۔ یعنی 3۔ 9۔ 2513 اب خان صاحب اس کلیم کے عوض یہ گاڑی چاہتے تھے۔
"خان صاحب آپ بزنس کر رہے ہیں یا بارٹر (barter)” بشارت نے جھنجھلا کر پوچھا۔
"یہ کیا ہوتا ہے صیب؟”
"وہی جو آپ کرنا چاہتے ہیں۔”
"پشتو میں اس کے لیے بہت برا لفظ ہے۔”
وہ جب پشتو کا حوالہ دے دیں تو پھر کسی کی ہمّت نہیں ہوتی تھی کہ اصل یا ترجمے کی فرمائش کرے۔ اکثر فرماتے تھے کہ پشتو منّت و زاری اور فریاد و فغاں کی زبان نہیں۔ نر آدمی کی للکار ہے۔ مطلب یہ تھا کہ ڈنکے کی چوٹ پر بات کرنے، کچھار میں غافل سوتے ہوئے شیر کی مونچھیں پکڑ کر جگانے اور پھر اس سے ڈائیلاگ بولنے کی زبان ہے۔ مرزا اُس زمانے میں کہتے تھے کہ خان صاحب اُن لوگوں میں سے ہیں جو شیر کی مونچھیں اُکھاڑنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ اُس کے منہ میں اپنا سر دے کر یہ علمی تحقیق کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ویجی ٹیرین ہے یا آدم خورا۔
"وٹّہ سٹّہ”
بشارت نے خان صاحب کی آسانی کے لیے بارٹر کو تبادلۂ جنس کہنا شروع کر دیا۔ پھر اس کا مفہوم سمجھایا۔ طول طویل تشریح سُن کر بولے "یارا جی! تو پھر سیدھا سیدھا وٹّہ سٹّہ کیوں نہیں کہتے جس میں ہر فریق یہی سمجھتا ہے کہ وہ گھاٹے میں رہا۔ ”
اور یہی بھونڈی مثال برہانِ قاطع ثابت ہوئی۔ اسی پر تصفیہ ہو گیا۔ خان صاحب نے بڑی خوشی اور فخر سے اعلان کیا کہ وہ "جنسی تبادلے” کے لیے تیار ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی اور اس طرح گلے ملے جس طرح دو دکھیارے ملتے ہیں جو ایک دوسرے کے بہنوئی بھی ہوتے ہیں۔ اور سالے بھی۔
لیکن بشارت دل ہی دل میں خوش تھے کہ کھٹارا گاڑی سات ہزار میں بک گئی۔ خان صاحب اب سے بھی زیادہ خوش کہ دلدر لکڑی کے عوض نو ہزار کی کار ہتھیا لی۔ دونوں فریق اس صورتِ حال کو حق کی فتح سمجھ رہے تھے، حالانکہ ہم سے دل کی بات پوچھیں تو باطل نے باطل کو پچھاڑا تھا۔ اور کوڑے کرکٹ کا تبادلہ کوڑے کرکٹ سے ہوا تھا۔ خان صاحب کار کو چمکارتے ہوئے کہنے لگے "ہم اس کو طورخم لنڈی کوتل کا سیر کرائے گا۔ اخروٹ کے درخت کے سائے میں کھڑا کرے گا۔ اس میں کابل سے قراقلی، قالین اور چلغوزے بھر کے لائے گا۔ کابل کے شمال کے ایک چلغوزے میں، ایمان سے، نکاح کے دس چھوہاروں کے برابر طاقت ہوتا ہے!”
تصفیہ ہوتے ہی خان صاحب نے تازہ تازی سیکھی ہوئی لکھنؤی اردو اور کانپوری لہجے کے شکنجے سے خود کو ایک ہی جھٹکے میں آزاد کرا لیا۔ چرب زبان دشمن پر فتح پانے کے بعد "کیمو فلاژ” کی ضرورت نہ رہی۔
ازبس کہ خان صاحب کے نزدیک مشکی سے بہتر دنیا بلکہ پل صراط پر بھی کوئی سواری نہیں ہو سکتی تھی، وہ اس کار کو جو اب اُن کی ہو چکی تھی، مشکی کہنے لگے تھے۔
تاریخِ بالو شاہی
بشارت نے چوری چھپے دو رکعت نماز شکرانہ ادا کی۔ مگر خان صاحب سے اپنی خوشی چھپائے نہ چھپ رہی تھی۔ وہ ہرچند رائے روڈ پر سے گزرتے ہوئے ٹانگوں کے گھوڑوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ یہ لمحہ غلبہ و نصرت کا تھا۔ دشمن کے گھر کے چو گرد گھوڑے پر شہ گام[29] نکلنے کی گھڑی تھی۔ ضبط نہ ہو سکا تو سرِ دست مشکی کے زانو یعنی کار کے مڈ گارڈ کو تھپتھپا کر دل کے حوصلے نکالے۔ انجن کی تھوتھنی پر ہاتھ رکھ کر شاباشی دی۔ اُن کا بس چلتا تو اُسے گھاس دانہ کھلا کر اپنے ہاتھ سے کھریرا کرتے۔ کچھ دیر بعد جیسے ہی ایک تانگے والے نے اسپنسر آئی ہسپتال کے سامنے درخت کے سائے میں گھوڑا کھولا، وہ لپک کر اُس پر جا چڑھے۔ اور بشارت کی دکان کے دکان کے دو چکر لگائے۔ پھر بشارت ہی سے ٹھنڈا پانی منگوایا اور سر پر اس کے تریروں کے بعد سات سیر بالو شاہی منگوا کر تقسیم کی۔ بشارت کے ترین رشتے داروں کے حصّے لگا کر خود پہنچوائے۔ بشارت دنگ رہ گئے۔ حد ہو گئی۔ انتہائی بد گُمانی کے عالم میں بھی انھیں کبھی ان تینوں پر شبہ نہیں گزرا تھا ایسے مثئنی اور منافق نکلیں گے۔ در پردہ خان صاحب سے مل جائیں گے۔ بہر کیف بالو شاہی کے ذریعے منافقت کا بھانڈا پھوٹنے کی تاریخ میں یہ پہلی مثال تھی۔ ہمارا مطلب ہے بالو شاہیوں کی تاریخ میں!
نیاز مندانِ بنّوں نے رائفلیں چلا چلا کر اعلانِ صلح کیا۔ ایک پڑوسی دکاندار دوڑا دوڑا بشارت کو مبارک باد دینے آیا۔ وہ یہ سمجھا کہ ان کے ہاں ایک اور بیٹا ہوا ہے۔
ایک ٹرک ڈرائیور سے جو دکان پر پڑتل لکڑی کی ڈلیوری لینے آیا تھا، خان صاحب نے خواہش ظاہر کی کہ ذرا ہمیں ہماری کار میں گوردھن داس مارکیٹ تک سیر تو کروا دو۔ تمہارے چائے پانی کا بندوبست ہو جائے گا۔ کچھ دیر بعد لوٹے تو کار کی کار کردگی سے بے انتہا خوش تھے۔ کہنے لگے خدا کی قسم! بالکل والد کے مشکی کی طرح ہے!
ایک پینٹر کو بلا کر راتوں رات کار پار سیاہ اسپرے پینٹ کروایا تاکہ عادات کے علاوہ شکلاً بھی مشکی سے مشابہت مکمل ہو جائے۔
"Et, tu, Brute!"
دوسرے دن بشارت دکان کے شٹر بند کروا رہے تھے کہ سامنے ایک ٹرک آ کر رکا جس میں ڈرائیور کے پہلو میں تھانے کے منشی جی بیٹھے تھے اور پیچھے ان کی چوری شدہ لکڑی کے علاوہ رشوت میں پیش کردہ لکڑی بھی لدی تھی۔ تختوں پر وہی رائفل بردار کانسٹیبل ٹنگا تھا۔ خان صاحب نے ایک ڈی ایس پی کے توسط سے جو بنّوں کا رہنے والا، ان کا گرائیں تھا، نہ صرف سارا مال شیر کے منہ سے نکلوا لیا تھا بلکہ اُس کے دانت بھی تبرکاً نکال لائے تھے۔ ٹرک کے پیچھے پیچھے ایک ٹیکسی میں (جو شارع عام پر اپنی عقب میں مقر رہ مقدار سے زیادہ دھواں خارج کرنے کی بنا پر ابھی ابھی پکڑی گئی تھی) وکیل صاحب پہنچے، تاکہ باہمی صلح صفائی ہو جائے اور معاملہ رفع دفع ہو جائے۔ ان سے چند قدم کے فاصلے پر وہی ملزم نما موکل ایک ہاتھ میں ان کا بریف کیس تھامے اور دوسرے میں قانون کی کتابیں اُٹھائے پیچھے چل رہا تھا۔ وکیل صاحب کے ہاتھ میں مٹھائی کے دو ڈبّے تھے۔ ایک خان صاحب کو پیش کیا ور دوسرے کے بارے میں بشارت سے فرمایا کہ میری جانب سے بھابی اور بچّوں کو دے دیجیے گا۔
تھانے کے منشی جی نے پوچھا ہمارا خلیفہ کہاں ہے؟ بشارت کو یہ معلوم کر کے بڑا شاک ہوا کہ پولیس لاک اپ میں رات گزارنے کے بعد سے خلیفہ مہینے میں دو بار تھانے جاتا رہا ہے۔ اور ایس ایچ او سے لے کر زیرِ حراست ملزموں تک کی حجامت بناتا رہا ہے! تھانے کے اسٹاف میں یا کسی حوالاتی ملزم کے ہاں مستقبیلِ قریب یا بعید میں ولادت ہونے والی ہو، یا تھانے کے نواحی علاقے کی جھگیوں میں کوئی عورت بھاری قدموں سے چھلتی ہوئی نظر آ جائے تو اُس سے پکّا وعدہ کر لیتا کہ اگر لڑکا ہوا تو ختنے میں کروں گا۔ اس کے والد مرحوم کی وصّیت تھی کہ بیٹا اگر تم بادشاہ بھی بن جاؤ تو اپنے آبائی پیشے کو نہ چھوڑنا۔ دوم جس کسی سے ملو اس کو ہمیشہ کے لیے اپنا کر رکھو یا اُس کے ہو رہو۔ سو وہ غریب سب کا ہو رہا۔
خان صاحب رات کے دو بجے تک قرضوں اور "پولا” توڑ کر کھیتوں کو پانی دینے کے سرسری مقدّمات، جن میں گالی گلوچ کی آمیزش سے پیچیدگیاں پیدا ہو گئی تھیں، نمٹاتے رہے۔ اثنائے سماعت و انفصالِ مقدّمات میں لوگ جوق در جوق ان کو خدا حافظ کہنے آتے رہے۔ عدالت ہر ایک کو میلمہ راغلے پخیر کہہ کر چائے، چلّم، چلغوزے اور بالو شاہی سے تواضع کرتی رہی۔ صبح چار بجے سے خان صاحب نے اپنا سامان باندھنا شروع کر دیا۔ فجر کی اذان کے بعد ایک اصیل مُرغ کو قبلہ رو کر کے قربانی کی۔ اُس کا سر بلّی اور باقیات گھر والوں کو ناشتے پر کھلائیں۔ دل خود چبایا۔ مسکراتے ہوئے فرمایا کہ کسی بڑے موذی پر فتح حاصل ہو تو تو ہمارے قبیلے کا دستور ہے کہ گائے ذبح کرتے ہیں۔ دشمن گیا گزرا ہو تو دُنبے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ ناشتے پر ہی اعلان کیا کہ مشکی، مال گاڑی سے نہیں جائے گی بلکہ میں اسے پنجاب کی سیر کراتا، دریاؤں کا پانی پلاتا، "بائی روڈ” لے کر جاؤں گا۔ بچّے اُن کے جانے سے بہت اُداس تھے۔ اُنھوں نے خود بھی اقرار کیا کہ میرا بھی جانے کو جی نہیں چاہتا۔ مگر کیا کروں، لکڑی کا کاروبار وہیں ہے۔ اگر کراچی میں جنگلات ہوتے تو خدا کی قسم تم لوگوں کو چھوڑ کر ہرگز نہ جاتا۔ پھر اُنھوں نے ڈھارس بندھائی کہ انشاءاللہ دو مہینے بعد پھر آؤں گا۔ ایک بوہری سیٹھ سے وصولی کرنی ہے۔ اکیلا آدمی ہوں۔ ایک وقت میں ایک ہی بے ایمان سے نمٹ سکتا ہوں۔
بشارت کو مسکراتا دیکھ کر خود بھی مسکرا دیے۔ ارشاد فرمایا، کراچی میں اُدھار پر بزنس بیوپار کرنا ایسا ہی ہے جیسے کماد (گنّے) کے کھیت میں کبڈّی کھیلنا، جتنا بڑا شہر ہو گا اُتنا ہی بڑا گھپلا اور پھڈّا ہو گا۔ جس کی چھت زیادہ بڑی ہے اُس پر برف بھی زیادہ گرے گی۔
پھر سب سے چھوٹے بچّے کو بہلانے کے لیے چارپائی پر لیٹ گئے۔
چلتے وقت اُنھوں نے بشارت کی بیٹی منیزہ کو جو اُن کی چہیتی ہو گئی تھی پانچ سو روپے دیے۔ یہ اُس کی پانچویں سالگرہ کا تحفہ تھا جو آٹھ دن بعد منائی جانے والی تھی۔
3۔ 9۔ 73 روپے نوکروں میں تقسیم کیے۔ اس سے قبل، گزشتہ شب وہ ایک پٹھان نوجوان گل داؤد خان کو دو ہزار روپے دے چکے تھے تاکہ وہ اپنے چچا پر جس نے اُس کی زمینوں پر قبضہ غاصبانہ کر رکھا تھا کوہاٹ جا کر فوجداری مقدّمہ دائر کرے اور اس دلّے کو یتیموں کی جائیداد پر قبضہ کرنے کی ایسی سزا دلوائے کہ سب چچاؤں کو عبرت ہو۔ ان تینوں رقموں کا حاصل جمع 3۔ 9۔ 2573 بنتا ہے۔ اور یہی وہ رقم تھی جس کا سارا جھگڑا تھا اور جس کی وصولی کے لیے اُنھوں نے اپنے کمانڈوز اور بہیرو بنگاہ سمیت لشکر کشی کی تھی۔ بلکہ بقول مرزا، غنیم کے قلعے کے قلب میں تمبو تان کر بھنگڑا ڈال رکھا تھا۔
اس قضیے کو تیس سال پونے کو آئے۔ ہماری ساری عمر حساب کتاب، میں ہی گزری ہے۔ مگر ہم آج بھی یہ نہیں بتا سکتے کہ در حقیقت کس کی کس پر کتنی رقم نکلتی تھی اور آخر میں جیت کس کی رہی۔ ہماری ہی سمجھ کا قصور تھا۔ جنہیں ہم حریف سمجھے، وہ در اصل حلیف اور دوست نکلے اور۔۔۔ حسابِ دوستاں در دِل[30]۔
خان صاحب نوکروں کو دے دلا کر بشارت کے والد کو خدا حافظ کہہ رہے تھے کہ بشارت کیا دیکھتا ہے کہ ٹھیک نو بجے ایک شخص چلا آ رہا ہے جس کا صرف چہرہ خلیفہ سے ملتا ہے۔ تنگ موری کے پاجامے، ململ کے کُرتے اور مخمل کی ٹوپی کی بجائے ملیشیا کی شلوار اور کُرتا۔ سر پر زری کی کلاہ پر مشہدی پگڑی، کامدار واسکٹ۔ پیرمیں ٹایر کے تلے والی پشاوری چپل۔ واسکٹ اور کلاہ بالترتیب تین سائز بڑی اور چھوٹی تھی۔ کوٹ کی آستین پر امام ضامن۔ ہاتھ میں بلبن[31] گھوڑے کی لگام۔ خان صاحب نے مطلع کیا کہ بلبن بھی ایک ٹرک میں بنّوں جا رہا ہے۔ اُن کے اصطبل میں جہاں پانچ گھوڑے بیکار کھڑے ہنہنا رہے ہیں وہاں ایک اور سہی۔ ہر جانور اپنے حصّے کا رزق ساتھ لاتا ہے۔
خان صاحب نے اعلان کیا کہ مشکی کو خلیفہ ڈرائیو کر کے پشاور لے جائے گا اور تا قیامت واپس نہیں آئے گا، جس کے دو سبب ہیں۔ پہلا تو یہ کہا اس کے بزرگ قندھار سے براہِ پشاور واردِ ہندوستان ہوئے تھے۔ زادِ سفر میں ننگی تلوار کے سوا کچھ نہ تھا۔ سو یہ بھی کثرتِ استعمال سے گھِس گھِسا کر اُسترا بن گئی! دوسرا یہ کہ اُنھوں نے اس نمک حلال کو ملازم رکھ لیا ہے۔
بشارت کا منہ پھٹا کا پھٹا رہ گیا۔
"خلیفے! تم۔۔۔۔۔۔!”
"سرکار! ۔۔۔۔۔ ” اُس نے اس انداز سے ہاتھ جوڑ کر گھگیاتے ہوئے کہا کہ کسی عذر و وضاحت کی ضرورت نہ رہی۔ اس میں خجالت بھی تھی۔ لجاجت بھی۔ اور بہر طور روٹی کما کھانے کا حوصلہ بھی۔
۱۴
جب عمر کی نقدی ختم ہوئی
خان صاحب کے جانے کے کوئی چھ سات ہفتے بعد ان کا املا کرایا ہوا ایک خط موصول ہوا۔ لکھا تھا کہ
"بفضلِ خداوندی یہاں ہر طرح سے خیریت ہے۔ دیگر احوال یہ کہ میں نے اپنے دورانِ قیام میں آپ کو بتانا مناسب نہ سمجھا کہ ناحق آپ ترددّ کرتے اور صحبت کا سارا لطف کر کرا ہو جاتا۔ پشاور سے میری روانگی سے تین ہفتے پیشتر ڈاکٹروں نے مجھے جگر کا سروسس بتایا تھا۔ دوسرے درجے میں، جس کا کوئی علاج نہیں۔ جناح ہسپتال والوں نے بھی یہی تشخیص کی۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ ہر وقت اپنا دل پشوری کرتے رہو۔ خود کو خوش رکھو اور ایسے خوش باش لوگوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارو جن کی صحبت تمہیں بشاش رکھے۔ بش یہی تمہارا علاج اور خاب ژوند (میٹھی زندگی) کا نسخہ ہے۔ یارا جی! میں بچّہ نہیں ہوں۔ جو اُنھوں نے کہا وہ میں سمجھ گیا اور جو نہیں کہا وہ بھی بخوبی سمجھ گیا۔ یہ مشورہ تو کوئی طبلہ بجانے والا بھی مفت دے سکتا تھا۔ اس کے لیے ایم آر سی پی اور ایف آر سی ایس ہونے اور جگہ بے جگہ ٹونٹی لگا کر دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ”
"میں نے لنڈی کوتل سے لانڈھی تک نگاہ ڈالی۔ آپ سے زیادہ محبّتی، خود خرسند رہنے اور دوسروں کا دل شاد کرنے والا کوئی بندہ نظر نہیں آیا۔ چنانچہ میں ٹکٹ لے کر آپ کے پاس آ گیا۔ باقی جو کچھ ہوا وہ طبیعت کی زنگ اُتارنے کا بہانہ تھا۔ جتنے دن آپ کے ساتھ گزرے اتنے دنوں سے میری زندگی بڑھ گئی۔ خدا آپ کو اسی طرح شادمان اور مجھ پر مہربان رکھے۔ آپ کو میری وجہ سے جو تکلیف ہوئی اُس کی معافی مانگنا لکھنؤی تکلّفات میں شامل ہو گا، جو مجھ جیسے جاہل کے بس کا کام نہیں۔ مگر دوستی میں تو یہی کچھ ہوتا ہے۔ میرا دادا کہتا تھا کہ فارسی میں ایک مثل ہے کہ یا تو ہاتھی بالوں سے دوستی مت کرو۔ اور اگر کر لی ہے تو پھر اپنا مکان ایسا بنواؤ جو ہاتھیوں کی ٹکر سہہ سکے۔ ”
” ایک ٹرک والے کے ہمراہ مردان کا دس سیر تازہ گُڑ جس میں نئی فصل کے اخروٹوں سے مغز کاری کی گئی ہے، سوات کے شہد کے تین چھتّے قدرتی حالت میں بمعہ مومِ اصلی۔ مگسِ مروہ اور ایک صراحی دار گردن والی ٹوکری میں بیس فضلی بٹیرے روانہ کر رہا ہوں۔ یوسفی صاحب کے لیے اُن کا پسندیدہ پشاور کینٹ والی دُکان کا دو سیر تازہ پنیر اور پنڈی کا پنٹرز بیف ایک نازک سی ہوا دار ٹوکری میں ہے۔ چلتے وقت اُنھوں نے گندھارا تہذیب کے دو تین اعلیٰ نمونوں کی فرمائش کی تھی۔ کچھ تو روانگی کی افراتفری پھر میں جاہل آدمی۔ یہاں اپنے ہی جیسے دو تین دوستوں سے پوچھا۔ اُنھوں نے مجھے گندھارا کے دفتر بھیج دیا۔ وہ بولے ہم تو نہایت اعلیٰ ٹرک اور genuine پارٹس بیچتے ہیں۔ تمہیں کس کا نمونہ درکار ہے؟ دو شنبہ کو ایک ٹھیکے دار کا منشی چار سنگِ سیاہ کی مورتیاں، نہایت خوبصورت تخت بھائی مردان کی کھدائی سے چادر میں چھپا کر لایا تھا۔ مگر ایک جاننے والے نے جو قدِ آدم سے بھی بڑی مورتیاں اسمگل کر کے امریکہ بھیجتا رہتا ہے، مجھے بتایا کہ یہ بدھ کی نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے چپڑقنات (اس کے لیے پشتو میں بہت برا لفظ ہے ) چیلوں چانٹوں کی ہیں۔ بدھ اتنا تگڑا کبھی تھا ہی نہیں۔ افواہاً سنا ہے، نروان کے بعد بدھ کی صحت اور پسلیاں یوسفی صاحب جیسی ہو گئی تھیں۔ بہرحال تلاش جاری ہے۔ بعد سلام اُن سے عرض کیجیے گا کہ اس سے تو بہتر ہو گا کہ دیوار پر کابلی والا کا فوٹو ٹانگ لیں۔[32]”
بشارت پہلی ٹرین سے پشاور روانہ ہو گئے۔
٭٭٭
حوالے
ڈاؤن لوڈ کریں
[1] مارکونی: ریڈیو کا موجد
[2] فوپا: (پنجابی) میرا خیال ہے کہ اس کا اصل ماخذ faux pas ہے، جس کا تلفظ اور معنی بعنیہ وہیں ہیں۔
[3] آبلۂ فرنگ، بادِ فرنگ: یعنی ارمغانِ فرنگ، ان معنوں میں کہ ان اصطلاحات سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آلو، تمباکو، ریلوے، ریس، یورپین پھُول، شیکسپیئر، جن اینڈ ٹانک، چائے، کرکٹ اور دوسرے بے شمار تحفوں کے ساتھ ان امراض کی سوغات بھی انگریز اپنے ساتھ لائے۔ واللہ اعلم۔
[4] گُلبیانٹنی: نچلے درجے کی کسبی جو نکھیائی کہلاتی تھی۔ کیوں کہ اس کے پاس جو آتے تھے وہ ٹکے سے زیادہ کی استعاعت نہیں رکھتے تھے۔ گویا اصل وجہ تضحیک و تذلیل نہیں قلیل اُجرت ہے۔
[5] تکھ مریاں: تخمِ ریحاں۔ گرمیوں میں فالودے میں ڈال کر پیتے ہیں۔
[6] یہ مصرع در اصل گھوڑے سے نہیں، معشوق سے متعلق تھا۔ ہم نے صرف اتنا تصرّف کیا ہے کہ "زلفِ مشکیں” کے بجائے اسپِ مشکی جڑ دیا۔ اس سے غزل کی لچک، بتانِ ہزار شیوہ کی طرفگی اور وزن سے ہماری نا واقفیت ثابت ہوتی ہے۔ بے شمار اشعار ہماری نظر سے ایسے گزرے ہیں کہ اگر یہ نہ بتایا جائے کہ ممدوح کون ہے تو خیال ادبدا کر گھوڑے کی طرف جاتا ہے، جب کہ وہ معشوق کے بارے میں ہوتے ہیں۔
[7] ویسٹ اوپن: کراچی میں کیونکہ شام کو ٹھنڈی ہوا سمندر یعنی مغرب کی سمت سے چلتی ہے، اس لیے مغربی رویہ مکانوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے۔
[8] محض جنسی نظارہ بازی سے لذّت لینے والا۔ Peeping Tom
[9] میری روٹی کاٹھ کی ہے اور بھوک میری لگاون۔ بابا فرید۔
[10] کانسٹیبل کی تنخواہ اُس زمانے میں سترہ روپے ہوتی تھی۔ اور ASI کی ستر روپے جو بینک کے چپراسی کی تنخواہ کے برابر تھی۔
[11] caricature: ہم اس کا ترجمہ مسخاکہ کریں گے یعنی مسخ خاکہ
[12] مسخائینہ: مسخ کرنے والا آئینہ Distorting Mirror کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
[13] پختو: غیرت۔ آن
[14] نیم آبدیدہ اس لیے کہ اُن کی دوسری آنکھ مسکرا رہی تھی
[15] ٹھرک: (پنجابی) "معذور ہوس کی آنکھوں میں تو دم ہے” والی منزل۔ ہوکا۔ ہُڑک اُٹھنا
[16] کمان جتنی زیادہ خمیدہ ہو گی اُس کا تیر اُتنا زیادہ ہی تیز جائے گا۔
[17] یہ بات پُرانی ہوئی۔ افسوس! کراچی کو اپنی ہی نظر لگ گئی۔
[18] چھچت: کاٹ چھانٹ یا لادنے اور اُتارنے سے مال میں کمی واقع ہونا۔
[19] اصیل مُرغ: سرخٰ مائل گہرے براؤن رنگ کا مُرغ۔ بہت لڑاکا اور خونخوار ہوتا ہے۔ اس کا گوشت بہت مقوی سمجھا جاتا تھا۔ مولانا عبدالحلیم شرر لکھتے ہیں کہ "دنیا میں اصیل مُرغ سے زیادہ بہادر کوئی جانور نہیں ہے۔ مُرغ کی سی بہادری در حقیقت شیر میں بھی نہیں۔ وہ مر جاتا ہے مگر لڑائی سے منہ نہیں موڑتا۔ ” ان کی تحقیق کے مطابق اس کی نسل عرب سے ہندوستان امپورٹ کی گئی جب کہ "بٹیر بازی کا شوق لکھنؤ میں پنجاب سے آیا۔ ” معلوم ہوتا ہے بٹیر بازی سے متعلق مولانا نے کوئی ضعیف روایت نقل کر دی۔ ہم نے تو آج تک اہلِ پنجاب کو بٹیروں کو ایک دوسرے سے لڑوا کر بے رحمی سے زخٌمی یا ہلاک کرواتے نہیں دیکھا۔ اپنے ہاتھ سے حلال کر کے کھاتے ہیں۔
[20] ٹنگ ٹگور: (پشتو) راگ رنگ
[21] لختئی: ناچنے والے خوبصورت لڑکے
[22] اسلام کے پانچ ارکان ہیں۔ دین الٰہی میں اخلاصِ چارگانہ کی شمولیت کی شرط تھی۔ یعنی ترکِ آل، ترکِ جان، ترکِ دین اور ترکِ ناموس۔ اس دین میں پانچواں رکن اس لیے نہیں تھا کہ چوتھے یعنی ترکِ ناموس کے بعد کچھ رہ نہیں جاتا۔
[23] حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی رحمت اللہ علیہ۔
[24] حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی رحمت اللہ علیہ۔
[25] حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ان کے السّلام و علیکم کہنے سے بہت خوش ہوئے اور حکم دیا کہ آئندہ سلام بطریقِ مسنون کیا جائے۔ (امیر الروایات)
[26] جونگڑہ (پشتو) جھونپڑی۔ جھگی
[27] مطلب یہ کہ یوں تو پردیس میں ہر شخص غمگین ہوتا ہے، مگر مجھے دیکھو کہ میں نے پرائی زمین میں اپنے پھول کھلا دیے ہیں۔
[28] زہ پرہ (پشتو) چھوڑو بھی یار گولی مارو
[29] شہ گام: بھٹی مختار مسعود صاحب نے کہ صاحبِ طرز انشا پرواز ہونے کے علاوہ شہ سواری میں بھی پائے طولی رکھتے ہیں، ہمیں بتایا کہ یہ وہ با وقار اور ceremonial چال ہے جو گھوڑا اُس وقت چلتا ہے جب بادشاہ اس پر سوارہو۔ پیٹ کا (بادشاہ کے ) پانی نہیں ہلنے پاتا۔ ہمارے جن نوجوان پڑھنے والوں نے کبھی کوئی بادشاہ، شاہی گھوڑا یا خود جناب مختار مسعود کی چال نہیں دیکھی وہ "آواز دوست” میں ان کے الوب قلم کا طرزِ خرام ملاحظہ فرمائیں۔ اس پر سوار لیلِ معنی کے پیٹ کا پانی نہیں ہلنے دیتے۔ البتہ قاری گھنٹوں ہلتا رہتا ہے۔
[30] مرزا عبدالودود بیگ کہ دوستوں کو قرض دے دے کر رقم اور دوست دونوں سے بار بار ہاتھ دھو چکے ہیں۔ قدرے تصّرف کے ساتھ حسابِ دوستاں دردِ دل کہتے ہیں۔
[31] بلبن: ملاحظہ ہو "اسکول ماسٹر کا خواب”
[32] تیس سال بعد وصیت کی تعمیل کر رہا ہوں۔ نگار خانۂ دل میں جو تصویر وہ آویزاں کر گئے اُس کا دھندلا سا عکس پیش خدمت ہے۔
"اس بیماری کا خانہ خراب ہو۔ عمر کا پیمانہ لبریز ہونے سے پہلے ہی چھلکا جا رہا ہے۔ خط لکھوانے میں بھی سانس اکھڑ جاتی ہے۔ ڈر کے مارے ٹھیک سے کھانس بھی نہیں سکتا۔ آپ کی بھابی رونے لگتی ہے۔ مجھ سے چھپ کر وقفے وقفے سے گرم چمک کے ساتھ اشک باری کرتی ہے۔ بہتیرا سمجھاتا ہوں کہ بختاور! جب تک بالکل بے ہوش نہ ہو جاؤں، میں بیماری سے ہار ماننے والا آدمی نہیں۔ بشارت بھائی! ایسے آدمی کے لیے پشتو میں بہت برا لفظ ہے۔ گزشتہ ہفتے یونیورسٹی روڈ پر ایک نیا مکان بنوانا شروع کر دیا ہے۔ دالان میں پشاور کے پچاس یا کراچی کے سو مشاعروں کے دو زانو بیٹھنے کی گنجائش ہو گی۔
باقی سب خیریت ہے۔ خلیفہ دست بستہ سلام عرض کرتا ہے۔ میں نے اسے مسلم کمرشل بینک میں چپراسی لگوا دیا ہے۔ روزانہ شام کو اور چھٹی کے دن مشکی وہی چلاتا ہے۔ بہت چنگا ہے۔ مشکی کو پشتو میں روانی سے گالی دینے لگا ہے۔ مگر ابھی پشتو مذکر مونث کی تمیز پیدا نہیں ہوئی۔ سننے والے ٹھٹھے لگاتے ہیں۔ کل ہی میں نے اسے گر بتایا ہے کہ جسے تو ہمیشہ مذکر سمجھتا آیا ہے اب اسے مونث بول، پھر تجھے پشتو آ جائے گی۔ سب کو درجہ بدرجہ سلام، دعا، پیار اور ڈانٹ ڈپٹ۔
آپ کا چاہنے والا
کابلی والا
"مکرر آنکہ، یہاں آ کر پرانے حسابات دیکھے تو پتا چلا کہ ابھی متفرق مدات میں کچھ لینا دینا باقی ہے۔ مجھے سفر منع ہے۔ آپ کسی طرح فرصت نکال کر یہاں شتابی آ جائیں تو حسابِ دوستاں بیباک (لکھنے والے نے اسی طرح لکھا تھا اور کیا خوب لکھا تھا) ہو جائے اور آپ کے کابلی والا کو تھوڑی سی زندگی اور ادھار مل جائے۔
نیز، اب نئے مکان اور دالان کا انتظار کون کرے۔ میں نے آپ کے لیے سرِ دست ایک عدد بے چھید چاندنی اور پانچ شاعروں کا انتظام کر لیا ہے۔ والسلام۔ "