FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

چڑیوں کے ساتھ

 

                مینا اگروال

رسم الخط کی تبدیلی/ترجمہ: اعجاز عبید

 

 

 

 

1

 

گھر کا سونا آنگن

اور اکیلی بیٹھی میں

بکھرے ہیں سوال ہی سوال

جن میں الجھا

میرا من اور تن !

اچانک چھوٹی سی گوریّا پھدکتی ہوئی آئی

نہ تو وہ جھجکی، اور نہ شرمائی،

آ کر بیٹھ گئی پاس رکھے البم پر

شاید دے رہی تھی سہارا

اداس من کو !

میں نے البم اٹھائی

اور پلٹنے لگی دھندلے ماضی کو

کھولتی رہی ورق ورق

ڈوبتی رہی پرانی یادوں میں !

مجھے یاد آئیں اپنی دادی

جن کی شخصیت تھی سیدھا سادہ

پر ڈسپلن تھا سخت

ان کے ہاتھوں میں رہتی تھی

ہماری من کی پتنگ کی ڈور

جن کے راج میں

لڑکیوں کو نہیں تھی

پڑھنے لکھنے کی یا پھر کھیلنے کی آزادی

جب بھی پڑھتے لکھتے دیکھتیں

پاس آتیں اور سمجھاتیں

’’اپنے ان انمول لمحوں کو مت کرو بیکار

کیونکہ زیادہ پڑھنے لکھنے کا

بیٹی کی زندگی میں نہیں ہے کوئی معنی،

اور پھر پڑھ لکھ کر

ولایت تو جائے گی نہیں

گھر میں ہی بیٹھ کر

بس روٹیاں پکائے گی!‘‘

لیکن میں چپکے چپکے

چھپ چھپ کر پڑھتی رہی

آگے بڑھتی رہی

اور ایک دن چلی گئی

دور دراز ممالک کے سفر پر

دادی آج نہیں ہیں

پر سن رہی ہوں گی میری باتیں

وہ اپنی تیز نگاہ سے

دیکھ رہی ہوں گی میری سوغاتیں !

چڑیا اڑی اور

بیٹھ گئی منڈیر پر

دینے لگی دانا

اپنے ننھے ننھے بچوں کو !

 

 

 

2

 

البم کا دوسرا پنا پلٹا

یاد آیا دادی کا غصہ

اور چشمے سے جھانکتیں

دادی کی بڑی بڑی آنکھیں

لڑکیوں کا آرام سے لیٹنا

یا کتاب لے کر بیٹھنا

ان کو پسند نہیں تھا

یہ سب دیکھ کر

انہیں بہت غصّہ آتا تھا !

پنکھا بند تاکہ ہم

پسینے میں نہائیں

بجلی بند تاکہ ہم

کتاب میں نہ جھانک پائیں !

اس وقت

ان کے سخت گیرسلوک سے

نا قابلِ برداشت تکلیف ہوتی!

ٹوٹے پیڑ کی طرح بے سہارا مَیں

جھر جھر بہتے آنسؤں سے ہی

من کی پیڑا دھو لیتی !

پر آج سوچتی ہوں کہ اس سمے

دادی کی ڈانٹ اور سختی

اگر صحیح نہ ہوتی تو

آج نہیں مل پاتی اتنی پختہ بنیاد

کہ سسرال آ کر جھیل پاتی آفتوں کو

دادی نہیں ہیں

پر ان کی موجودگی آج بھی بھِگوتی ہے تن من

انکی سنجیدہ آواز گونجتی ہے گھر آنگن میں

من کرتا ہے سلام بار بار

ان کے اصولوں کو

کیونکہ بنایا ہے انہوں نے

موم سے تن من کو فولادی

کہ چل سکوں کانٹوں پر بھی بغیر ڈگمگائے

ڈھو سکوں پتھر جیسے رشتوں کو مضبوطی سے

اور زندگی کی راہ میں

مضبوطی سے کھڑے ہو کر

اگر لڑنا بھی پڑے تو لڑ سکوں

لڑائی اپنی شناخت کی !

 

 

 

3

 

گوریا پھر سے اڑ گئی

آکاش کی اور بادلوں سے باتیں کرنے

خیالوں کی رو ٹوٹی

البم کا تیسرا پنا کھولا

ڈوب گئی پرانی نرم

معصوم یادوں میں !

جب میں صرف ساڑھے سات سال کی تھی

ماں گئی تھیں یاترا پر

یاترا تھی بڑی لمبی اور کٹھن

وداع کے وقت بھجن اور منگل گیتوں سے

بھیگا پر اداس ماحول

سہما سہما سا گھر کا آنگن

سونی گھر کی ڈیوڑھی

دادی کے منہ سے

دعاؤں کی لگاتار بہتی دھارا

آکھوں سے چھلکتے آنسو

بھائی بہنوں کی ماں کو دیکھتیں اداس،خاموش اور پر نم آنکھیں

کہہ رہی تھیں

اپنی ہی بولی میں کچھ کچھ !

ماں کی آنکھوں نے پڑھا ہمارے من کو

پاس آ کر سہلایا، دلارا

جاتے وقت ماں نے دیا

مجھے اور میری بڑی بہن کو

آٹھ آنے کا ایک ایک سکہ

اور میوے سے بھرا

ہرے رنگ کا ٹین کا چھوٹا ڈبہ ،

میوے کے ساتھ ساتھ

بھرا تھا جس میں

ماں کا پیار دلار

اور ماں کی انگنت یادیں!

ایک ریشمی رومال

جس میں بندھا تھا ڈبہ

اس پر چھَپا ہوا تھا

سن انیس سو اڑتیس کے بارہ مہینوں کا کلینڈر !

ڈبہ اور رومال

میرے انمول خزانے میں آج بھی ہیں محفوظ!

آج بھی ماں کے الفاظ

گونج رہے ہیں کانوں میں ۔۔۔۔

‘ بیٹی ! جب من چاہے

دونوں بہنیں میوہ کھا لینا

پیسوں سے کچھ لے لینا

پر ہاں ! دادی کو مت بتانا،

کسی کو پریشان بھی مت کرنا،

میں جلدی ہی یاترا سے آ جاؤں گی!’

سوا سال کی میری چھوٹی بہن گئی تھی

ماں کے ساتھ یاترا پر

میرا من بھی ڈولا ساتھ جانے کو

پر مجھے چھوڑ کر چلی گئیں ماں !

جانے کے بعد

کبھی لوٹ کر نہیں آئیں

اڑ گئیں ہریل طوطے کی طرح،

ظالم نصیب نے

چھین لیا ماں کا دلار،

کر دیا بن ماں کے یتیم!

آج جب بھی آتی ہے

ماں کی یاد

ڈبڈ باتی ہیں آنکھیں

ڈگمگاتے ہیں قدم

لڑکھڑاتا ہے من

لیکن ماں کے دیئے

میوہ کے ڈبے کی ہریالی

کر دیتی ہے من کو ہرا،

اور جب بھی کھولتی ہوں اسے

تو یادوں کے بادل

اڑنے لگتے ہیں میرے ارد گرد

وہ تھپتھپاتے ہیں مجھے

دکھاتے ہیں راہ

جگاتے ہیں ہمت

مشکلوں میں جینے کی !

جب دیکھتی ہوں رومال

تو ماں کی میٹھی میٹھی یادیں لگتی ہیں گدگدانے

وقت کی مار جھیلتے جھیلتے ہو گئے ہیں

رومال میں انگنت چھید

میں ان چھوٹے چھوٹے چھیدوں سے

نہیں رسنے دیتی ہوں

ریت بنی اپنی معصوم یادوں کو

اور پھر رکھ لیتی ہوں سہیج کر

اپنے من کی الماری میں!

 

 

 

4

 

البم کے اگلے پنے پر

میں ہوں اور میرے بڑے بھائی

پھر من لوٹ گیا

ماضی کی تنگ پگڈنڈیوں پر

یاد آئی بھائی کی

جو سخت ڈسپلن والے تھے

بات بات پر ڈانٹنا مارنا

یا پھر دھتکارنا

اس میں نہیں تھا

ان کا کوئی دوش

یہ تو تھا شائد

اس زمانے کے

سماجی نظام کا کھوٹ،

جو بیٹے اور بیٹی میں

رکھتی تھی تفریق کی نظر

دادی کے لاڑ پیار نے

بنا دیا تھا بھائیوں کو

کچھ ایسا ہی!

ہر مشکل کی حالت کا

ہمت سے مقابلہ کرنا

عادت بن گئی تھی ہماری !

ہم نے سمجھایا من کو

کہ ہر سخت مشکل کا

ہمت سے کریں مقابلہ

اور نہ ٹوٹنے دیں خود کو !

 

5

 

اگلا پنا پلٹا

دیکھا، گھونگھٹ نکالے

دلہن بنی نادان سی

نازک سی

میں آئی ہوں سسرال

جہاں مجھے جاننا تھا سب کو

من میں تھی ایک آس

بننے کی ایک آدرش ! کیں کوششیں

سہا بھی سب کچھ

جٹی رہی پڑھائی میں

جھاڑو پونچھا، کپڑے دھونا، کھانا بنانا،

کوئلے توڑ کر انگیٹھی سلگانا

چولہے میں روٹی سیکنا

بڑوں کی سیوا کرنا

ساتھ میں پڑھائی کی سیڑھیاں چڑھنا !

سب کچھ کیا پتہ نہیں سب کو

مطمئن کر پائی یا نہیں

سسرال میں سبھی کو دے پائی

مسرت یا نہیں ؟

آج بھی یہ سوال من میں کوندھتا ہے !

 

 

 

6

 

 

البم کے آگے کے پنے پر

بیٹیوں کی تصویریں تھیں

جو بول رہی تھیں خاموشی سے

سن رہی تھیں من کی باتیں

ان کی مسکراہٹ

گھول رہی تھی مصری سی من میں !

میٹھے دنوں کی میٹھی مٹھاس

آج بھی دیتی ہے تشنگی کا احساس

میں خود بھی پڑھتی رہی

اور بیٹیوں کو بھی پڑھاتی رہی

جتنا جانتی تھی اس سے کہیں زیادہ

سکھانے کی کوشش کرتی رہی،

محدود سادھنوں میں بھی

بانٹتی رہی سکھ کی خوشبو،

بیٹیوں کے من میں

بھرتی رہی نئی آس،

نئی خوشیاں اور نیا وشواس !

کہیں ان سے من کی باتیں

ان کی بھی سنیں،

دونوں کی دھوم دھام سے شادی بھی کر دی !

بیٹیوں کی وداع کے بعد

رہ گئی اکیلی

جب بھی ہوتی تھوڑا اداس

بیٹیاں سمجھاتیں ۔۔۔

’ماں ! کہاں ہو تم اکیلی، تمہارے ساتھ ہے

تمہاری قلم سہیلی !’

تب سے اب تک

تنہائی کی رات ہو

یا پھر اوب بھرا دن،

گرم دوپہری ہو یا ہو سرمئی شام،

یا پھر تڑپتی اندھیاری رات

بنا لیتی ہوں میں قلم کو

اپنی پیاری سکھی!

کرتی ہوں اس سے لگاتار باتیں

کیونکہ بیٹیوں کی طرح ہی

قلم بھی دیتا ہے ٹھنڈک

بھر دیتا ہے سونا پن!

بیٹیوں کے مدھر بول کی طرح

دیتا ہے سہارا ٹوٹے من کو،

سمیٹ دیتا ہے بکھرے جیون کو،

شانت کرتا ہے

من میں اٹھنے والے طوفاں کو!

آج بھی جب کبھی سنتی ہوں کوئی سخت بول

ٹوٹ جاتی ہوں پوری طرح

من ہونے لگتا ہے تار تار

آنکھیں روتی ہیں زار زار

من کو بٹورتی ہوں،

سنبھالتی ہوں اور پھر

اٹھا لیتی ہوں قلم

یاد آتے ہیں دادی کے

کٹھور پر اپنائیت بھرے لفظ

پھر سوچتی ہوں اور سمجھاتی ہوں خود کو

سیکھو سہنا ،

متھنا سیکھو اپنے اندر

پر کبھی کبھی

من ٹوٹتا ہے اتنا

کہ سنتا ہی نہیں کوئی بات

یاد آتی ہیں بیٹیاں

ان کی ہی مانتا ہے من !

سمجھاتی ہیں وہ ہی، دلارتی ہیں وہ ہی ،

ٹوٹے،کھوئے سونےمن کو

اور تنہا تن کو !

گوریا جو دیکھ رہی تھی ٹک ٹک

پھدک رہی تھی ادھر ادھر

پھر سے اڑ کر بیٹھ گئی

پیڑ کی ہری ڈال پر،

پھدک رہی تھی

ایک ڈال سے دوسری ڈال پر

کبھی اٹھاتی تنکا

جوڑتی اپنے گھر میں ایک اینٹ اور !

اس طرح وہ ہو جاتی مست اور مصروف!

ماں کی خوشبو پاکر

بچے لگتے چہچہانے،

چڑیا انہیں چگاتی دانا،

بچوں کے ساتھ ساتھ

جھوم جھوم اٹھتی، جیسے کہہ رہی ہو سیکھو جھیلنا

وقت کی مار کو،

سیکھو مسکرانا

اداس زندگی میں بھی!

آنسوؤں سے کہتی ہوں بار بار مت کرو

اپنے آپ کو ریت،

تھامے رہو آشا کی ڈور،

کبھی گیلے نہ ہوں

نینوں کے کنارے

اگر بھگونا ہی ہے

تو بھگوؤ اپنے اندرون کے ان احساسات کو

جو ہیں کٹھور،

جو پڑے ہیں دبے کچلے

کسی کونے میں،

احساسات کو بھگو کر

کر دو سب کو احساسات سے پُر

بس پکڑے رہو زندگی کا کنارا!

جب بھی ہوتی ہوں اداس

یا ہوتی ہوں اکیلی ،

بلا لیتی ہوں اپنی سکھی کو

کیونکہ اس کا وجود

سہلاتا ہے بکھرے من کو !

پھر میں ہو کر بے خوف

پھیلا کر احساسات کے پنکھ

اڑتی ہوں اونچے اونچے

کلپنا کے آکاش میں،

اور اڑتی ہی رہتی ہوں چڑیوں کے ساتھ ساتھ !

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی شکیل: اعجاز عبید