FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

چٹھی جو تری آتی

امین خیال

جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید

گلیوں کے پھیرے ہیں
تُو جنہیں بھول گیا
ہم یار وہ تیرے ہیں
٭٭٭

تم کو نہ بھلا پاؤں
تم ہی کہو کیسے
میں یاد تمہیں آؤں
٭٭٭

دکھ بھول ہی جاتے ہیں
سُکھ کی گھڑیوں میں
جب تسکیں پاتے ہیں
٭٭٭

جب برف پگھلتی ہے
دل میں یادوں کی
اک فلم سی چلتی ہے
٭٭٭

شب بھر تڑپاتی ہے
یاد کی پرچھائیں
کب دل سے جاتی ہے
٭٭٭

کوئی چیز نہیں بھاتی
میرے دل سے کیوں
یاد اس کی نہیں جاتی
٭٭٭

نخرے ہیں، ادائیں ہیں
ساتھ جفاؤں کے
یاد آئیں وفائیں ہیں
٭٭٭

کوئی چٹھی تری آتی
دنیا میں جینے کی
امید تو بندھ جاتی
٭٭٭

کچھ چَین نہ پاتی ہے
خط پڑھ کر تیرا
بس روئے جاتی ہے
٭٭٭

اغیار کی چٹھیوں میں
نام ہمارا بھی
ہے یار کی چٹھیوں میں
٭٭٭

پیغام صبا لاتی
راحت مل جاتی
چٹھی جو تری آتی
٭٭٭

سانول من بھاتے ہیں
مل تو نہیں پائے
خط آتے، جاتے ہیں
٭٭٭

ہر بار ستاتی ہے
خود تو نہیں آتے
چٹھی آ جاتی ہے
٭٭٭

تفریق مٹاتے ہیں
خط مل جائیں تو
مرکز بن جاتے ہیں
٭٭٭

چٹھی مری لے جانا
درد مرا قاصد
رانجھن کو بتا آنا
٭٭٭

یہ دکھ بھی جھیلیں گے
خط جو لکھے تھے
سب واپس لے لیں گے
٭٭٭

اب ان سے کیا لینا
سارے خط میرے
بس واپس دے دینا
٭٭٭

تنہائی جنگل کی
چٹھی نہیں پہنچی
بھیجی ہوئی منگل کی
٭٭٭

اس دل کی دعا لینا
خط شط لکھنے کی
عادت نہ بھلا دینا
٭٭٭

کب رنج و ملال گیا
ایک ہی خط تیرا
خط دل پر ڈال گیا
٭٭٭

چٹھی جو تری آئی
دل کو سکون آیا
آنکھوں نے جِلا پائی
٭٭٭

کیا نیک شگون ملا
جب بھی یاد کیا
اس دل کو سکون ملا
٭٭٭

کیا رَس تھا باتوں میں
چاند ہے یادوں کا
اندھیاری راتوں میں
٭٭٭

یہ بھول نہ جانا تم
عہد ہوا ہے جو
وہ عہد نبھانا تم
٭٭٭

پھٹ کیوں کر سِلتا ہے
جو بھی بچھڑ جائے
قسمت سے ملتا ہے
٭٭٭

مرقد میں ستائے گا
داغ جدائی کا
مر کر بھی نہ جائے گا
٭٭٭

کیا شکل بنائی ہے
ہجر میں کیوں ایسی
آشفتہ نوائی ہے
٭٭٭

خوں دے کے پالے ہیں
زخم جو تو نے دئیے
دنیا سے نرالے ہیں
٭٭٭

کیوں اتنا ستاتے ہو
پہرے مجھ پر ہیں
تم کیوں نہیں آتے ہو
٭٭٭

ہو گا نہ میل کہیں
دیپ جلے کیسے
باتی، نہ تیل کہیں
٭٭٭

تقدیر سے لڑتے ہیں
دل مر جاتا ہے
جب یار بچھڑتے ہیں
٭٭٭

باتوں ہی باتوں میں
ہجر کی حدت سے
جل جاتے ہیں راتوں میں
٭٭٭

یہ ٹیس نہیں گھٹتی
رات جدائی کی
اب ہم سے نہیں کٹتی
٭٭٭

کیا ہجر میں روتی ہے
آنکھ یہ اپنی تو
موتی ہی پروتی ہے
٭٭٭

جب صبح سے شام ملے
ہجر کے موسم میں
دردوں کے پھول کھلے
٭٭٭

اب کچھ بھی نہیں بھاتا
تیری جدائی میں
دل چین نہیں پاتا
٭٭٭

کیا خوب ہے پھلواری
شوخ سے رنگوں میں
ہے کس کی چتر کاری
٭٭٭

جوڑے میں پھول لگا
اس کے مقابل میں
سب گلشن دھول لگا
٭٭٭

سہروں پہ سہرا ہے
پھول نہیں یہ تو
اُس یار کا چہرا ہے
٭٭٭

دیتا ہے صدا کیسے
پھول ان تتلیوں کو
لیتا ہے بلا کیسے
٭٭٭

یہ کیسی کرامت ہے
ہنس دے پھول جھڑیں
باتوں میں حلاوت ہے
٭٭٭

ہیں آم، بھرے رس کے
جیون کاٹ دیا
کچھ رو کے، کچھ ہنس کے
٭٭٭

پُر کیف فضائیں ہیں
پھولوں، کلیوں میں
دلبر کی ادائیں ہیں
٭٭٭

کوئی چاند کا ٹکڑا ہے
پھول گلاب نہیں،
اس یار کا مکھڑا ہے
٭٭٭

جور اور جفاؤں میں
پھول نہیں کھلتے
بے رحم خزاؤں میں
٭٭٭

جب جب بھی پھول کھلیں
کہہ دے کوئی ان سے
ایسے میں آن ملیں
٭٭٭

ہوئی گل افشانی ہے
لفظ مہکتے ہیں
معنوں میں روانی ہے
٭٭٭

ان پیار کے جھانسوں میں
مہک ہے چمبے کی
گوری کی سانسوں میں
٭٭٭

٭٭٭٭
ماخذ: ’عکاس‘ انٹر نیشنل، اسلام آباد ۔ مدیر: ارشد خالد
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید