FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

چُنیدہ

 

حصّہ چہارم

 

 

                مظفرؔ حنفی

 

 

 

 

 

 

 

بُوند بھر حدّت جو باقی دل کی چنگاری میں ہے

قطرہ قطرہ خون کا آندھی کی تیاری میں ہے

 

رقصِ بسمل کا تو مکّاری میں ہوتا ہے شمار

آپ کا خنجر چلانا بھی طرح داری میں ہے

 

ریت کا ہر ذرّہ میرا ہم سفر ہے دشت میں

جو بھی کانٹا ہے مرے چھالوں کی غم خواری میں ہے

 

َبج رہے ہیں سارے ہمسایوں کے گھر میں جلترنگ

اور اِک سیلاب میری چار دیواری میں ہے

 

تم بھی کرسکتے ہو دل پر چوٹ کھا کر تجربہ

اے مسیحاؤ ! مجھے آرام بیماری میں ہے

 

کوئی بھی چلنے پہ آمادہ نظر آتا نہیں

کارواں کا کارواں مصروف سالاری میں ہے

 

شعر کہتا ہے مظفرؔ داد سے بیگانہ وار

َپھل میں وہ لذّت کہاں ہے جو شجر کاری میں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

یہ ہُوا کہ تیرے خیال نے مرا دل سُرور سے بھر دیا

شبِ ہجر میں ترے درد نے مرا سینہ نُور سے بھر دیا

 

مجھے زندگی سے گلہ نہیں ، تری کج اَدائی کا شکریہ

دلِ داغ داغ نے ہر خلا نگہِ غیور سے بھر دیا

 

تجھے کچھ خبر بھی ہے بے خبر ترے سجدے جائیں گے بے اثر

کہ وفورِ صوم و صلوٰت نے ترا سر غرور سے بھر دیا

 

مری اِس سے بڑھ کے ہتک نہیں کہ وفا کا ذکر تلک نہیں

مری فردِ جرم کو آپ نے سطحی اُمور سے بھر دیا

 

کسی غیر کو نہ خبر ہوئی ترے اِلتفات و خلوص کی

سرِ انجمن تری آنکھ نے مرا جام دُور سے بھر دیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

لہو کے قطرے ہر اِک پھول پر معلّق ہیں

یہ کن کے سر ہیں جو ترِسول پر معلّق ہیں

 

مرا خلوص ، تری بدگمانیاں یعنی

تمام کرنیں مری دھُول پر معلّق ہیں

 

جنازے اُٹھ چکے منصور اور سرمد کے

ہمارے جسم کہ مستول پر معلّق ہیں

 

تری تلاش میں کب سے غبار بن کر ہم

ہر ایک جادۂ مقبول پر معلّق ہیں

 

کسی کو یاد کرو اور دل کو شاد کرو

کہ روز و شبِ اسی معمول پر معلّق ہیں

 

مظفرؔ آج بھی کچھ ناقدین عالی جاہ

فعول و فعلن و مفعول پر معلّق ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہر گام پر اَنا کے لیے تازیانہ کیوں

پھر میرے راستے میں ترا آستانہ کیوں

 

دُنیا کا وہ سلوک ، ہمارا وہ زہرِ خند

انمول آنسوؤں کا لٹاتے خزانہ کیوں

 

میرا بھی کوئی عکس کہ موجود ہوں یہاں

کو نین ایک تیرا ہی آئینہ خانہ کیوں

 

بس کہہ دیا کہ ہم نہ چلیں گے کسی کے ساتھ

پیچھے پلٹ کے دیکھ رہا ہے زمانہ کیوں

 

تھا ہاتھ کچھ ہَوا کا ہماری شگفت میں

کھِل کر بکھر گئے تو ہَوا کا بہانہ کیوں

 

یہ بات دُشمنوں سے نہیں دوستوں سے پُوچھ

یک لخت ہم پہ بند ہُوا آب و دانہ کیوں

 

اِک آگ کا حصار مظفرؔ کے گرد تھا

تخلیقِ شعر کرتے نہ پھر والہانہ کیوں

٭٭٭

 

 

 

 

سِتم اُس نے رویّہ کر لیا ہے

تو ہم نے بھی تہیّہ کر لیا ہے

 

عدُو کا نیک لگتا ہے اِرادہ

کہیں سے دل مہیّا کر لیا ہے

 

ہمیں بھی دیکھتا ہے مُسکرا کر

جفا گرنے تقیّہ کر لیا ہے

 

گہن کھاتی ہے تابانی ہماری

کہ ذرّوں کو ثریّا کر لیا ہے

 

خود اپنے آپ سے اُلجھتا ہے مظفرؔ

َعجب اپنا رویّہ کر لیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ترے نزدیک وحشت میں طرَح داری نکلتی ہے

یہاں پیروں کے ہر چھالے سے چنگاری نکلتی ہے

 

کبھی بیمار ہو جاتا ہے دل اُس کی نگاہوں کا

کبھی اس کی نظر سے دل کی بیماری نکلتی ہے

 

غزل یا نظم جس کو مصلحت کا زنگ لگ جائے

وہ بازاری سی لگتی ہے ، وہ درباری نکلتی ہے

 

مرے گھر کی طرف ہی اُنگلیاں اُٹھتی ہیں تہمت کی

سبب اس کا مرے بچّوں کی بیکاری نکلتی ہے

 

مرے احساس نے کانٹے چھپا رکھے ہیں دامن میں

دھُواں تتلی سے گل سے بُوئے بیزاری نکلتی ہے

 

ابھی تو چاند پر پہلا قدم رکھا ہے پستی نے

ابھی اے آسماں تجھ پر مری باری نکلتی ہے

 

مظفرؔ کھِل گئے لاکھوں شگُوفے زخم کی صورت

صبا صحنِ گلستاں سے تھکی ہاری نکلتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

مرے لہو میں اُتر کر حسابِ رنگ نہ کر

اَنا کے جذبۂ خود سر زیادہ تنگ نہ کر

 

ہمارے پیرِ طریقت نے پھر ہدایت کی

کہ اپنے سجدۂ سرکو حریفِ سنگ نہ کر

 

دَیارِ غیر نہیں ہے یہ دشتِ وحشت ہے

مزے میں گَرد اُڑا ، فکرِ نام و ننگ نہ کر

 

کہاں ہے تیرا قبیلہ کہ راہ دے پانی

عصا نہیں ہے تو جادُو گروں سے جنگ نہ کر

 

وہی ہُوا کہ کوئی کان تک نہیں دَھرتا

کہا تھا ہم نے کہ آواز کو دَبنگ نہ کر

 

یہ سنگلاخ زمین اور ایسے تازہ شعر

لہولہان مظفرؔ بس اب اُمنگ نہ کر

٭٭٭

 

 

 

 

 

نکتہ پوشیدہ ہے ہمسائے کے شر کرنے میں

شہرِ ہنگامہ بھڑکتا ہے خبر کرنے میں

 

جھلملانے لگے ہم آپ سِتارہ بن کر

خون کی آنچ سے لفظوں کو گُہر کرنے میں

 

اب نہیں رہ گئی سر میں کہیں گنجائشِ زخم

حال کیا ہو گیا دیوار کو در کرنے میں

 

ریت سی آنکھوں میں اُڑتی ہے مگر کیا =

خوَف آتا ہے انھیں آگ سے تر کرنے میں

 

ٹوٹتی رہتی ہے سینے میں نہ جانے کیا شئے

درد مشغول ہے راتوں کو سحر کرنے میں

 

کس لیے شعر کہیں ، کیسے لکھیں افسانے

ہاتھ کٹ جاتے ہیں اظہارِ ہُنر کرنے میں

 

کوئی منزل نہ اُسے روک سکی چلنے سے

عُمر بیتی ہے مظفرؔ کی سفر کرنے میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہم کہ مجرم دو ملاقاتوں کے ہیں

گھاؤ دل پر سیکڑوں باتوں کے ہیں

 

پھُول ، پتّے ، پھل ، سبھی مِٹّی ہوئے

پیڑ پر احسان برساتوں کے ہیں

 

کہکشاں پر ثبت ہیں میرے قدم

چاند پر دَھبّے مرے ہاتھوں کے ہیں

 

وہ مسافر آندھیوں سے خوف کھائیں

جن پہ سائے مہرباں چھاتوں کے ہیں

 

سال بھر کی گرد آئینے پہ ہے

سامنے انبار سوغاتوں کے ہیں

 

چودھویں کے چاند کی مانند ہم

اور مہماں ایک دو راتوں کے ہیں

 

دل دُکھاتے ہیں مظفرؔ شعر سے

مستحق ہم لوگ صلواتوں کے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ٹھوکر لگی تو خُود ہی سمجھ آ گئی ہمیں

اب ایک بوجھ لگتی ہے اپنی خودی ہمیں

 

چلنے میں آ رہا تھا مزا آبلوں کے ساتھ

منزل خود آ گئی کوئی عجلت نہ تھی ہمیں

 

دل پر ہمارا بس ہے نہ آنکھوں پہ اختیار

کب تک ہر ایک بات پہ آئے ہنسی ہمیں

 

پُوچھا کسی نے نام نہ دَر وَا ہُوا کوئی

پہچاننے لگی ہے تمھاری گلی ہمیں

 

اپنوں کے وار جھیلنے کیا غیر آتے ہیں

یلغار اپنے خون کی سہنی پڑی ہمیں

 

پینے کے بعد ہم سے کہا پارساؤں نے

کیا چیز تھی میاں ، بہت اچھی لگی ہمیں

 

صدیوں کریں گے راج مظفرؔ دِلوں پہ ہم

بخشی ہے سلطنت کی جگہ شاعری ہمیں

٭٭٭

 

 

 

 

مُدافعت میں بھی تلوار اگر اُٹھاتا ہوں

تو بے قصور نہیں مَیں کہ سر اُٹھتا ہوں

 

خفا ہیں اہلِ فلک میری چیرہ دستی پر

سِتارے بو کے زمیں سے ضرَر اُٹھاتا ہوں

 

مرا کمالِ ہُنر ، میری صاف گوئی ہے

صعوبتیں بھی اِسی بات پر اُٹھاتا ہوں

 

ابھی درخت پہ پتھر چلا رہا تھا مَیں

گِرے ہیں پھل تو انھیں چُوم کر اُٹھاتا ہوں

 

اگرچہ دل پہ ٹپکتی ہے یاد کی شبنم

خفیف ہوں کہ دھُواں رات بھر اُٹھاتا ہوں

 

گزر گیا وہ بگولہ ، وہ ریت بیٹھ گئی

میں بیٹھتا ہوں نہ رختِ سفر اُٹھاتا ہوں

 

سخن وروں میں مظفرؔ کی آبرو رکھیو

ترے حضور کفِ بے ہُنر اُٹھاتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

تجھے دیکھا تو پھر دل نے حسینوں کو نہیں دیکھا

مرے طارق نے بھی مڑ کر سفینوں کو نہیں دیکھا

 

تری روشن ضمیری مشتبہ ہے میری نظروں میں

کہ دِل کا نُور دیکھا آستینوں کو نہیں دیکھا

 

زمانے بھر کی شورش ان کے سینوں میں مقیّد ہے

ابھی پتھر نے نازُک آبگینوں کو نہیں دیکھا

 

اُٹھا بادل تو جَل تھل کر دِیے گھر بار لوگوں کے

مگر سُوکھی ہوئی بھُوکی زمینوں کو نہیں دیکھا

 

زمانہ تم کو پتھر دِل نہیں سمجھے تو کیا سمجھے

اگر بنگال رہ کر نازنینوں کو نہیں دیکھا

 

ہمیشہ داغِ سجدہ ڈھُونڈنے والی نِگاہوں نے

ہماری شرم آلودہ جبینوں کو نہیں دیکھا

 

نگہ، مرکوز رکھی نُدرت و مضمونِ تازہ پر

مظفرؔ نے غزل کے نکتہ چینوں کو نہیں دیکھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

لہو کو ذرا اور حِدّت ملے

کہ اشعار کو نشتریّت ملے

 

مجھے زندہ ہونے کا احساس ہو

اگر سانس لینے کی مہلت ملے

 

چلو بیچ منجدھار یا پار ہوں

کسی طور دریا سے فرصت ملے

 

نہ جانے متانت کا کیا حشر ہو

اگر راہ میں وہ قیامت ملے

 

چمن پر ہَوا بند کر دی گئی

بہت ہو چکا اب اِجازت ملے

 

گناہوں کو رحمت پہ ہے اعتبار

ّجہنم کے پردے میں جنّت ملے

 

مظفرؔ اگر خود کو پا جائیں ہم

ہر آئینے میں اس کی صورت ملے

٭٭٭

 

 

 

 

برسر پیکار تھے سب مشعل و خنجر سمیت

جل بجھے بستی کے سارے گھر ہمارے گھر سمیت

 

یہ تمھاری حق پرستی کا عجب انداز ہے

اِس قدر سجدے کیے بت گھس گئے پتھر سمیت

 

شام سے نازِل ہے بستی پر صفائی کی وَبا

سب اُٹھائے جائیں گے فٹ پاتھ سے بستر سمیت

 

ریڈیو پر سُن کے خبریں اِک فسادی شہر کی

گھر لرَزتا ہے ہمارا صحن و بام و دَر سمیت

 

تیری قسمت میں نہیں تھا یہ تماشہ دیکھنا

جل گیا اسٹیج سارا آج بازی گر سمیت

 

خُون لگتا ہے غزل کو ورنہ سب بیکار ہیں

عندلیب و گل سے لے کر بادہ و ساغر سمیت

 

لُوٹنے والے تو دونوں ہیں مگر کیا کیجیے

اے مظفرؔ کارواں ہے رہزن و رہبر سمیت

٭٭٭

 

 

 

 

موسم بہت خراب ہے ، تنہا کہاں چلا

ساحل پہ مجھ کو ڈال کے دریا کہاں چلا

 

کیا آنکھ دیکھ لی ہے کوئی موتیوں بھری

جھرمٹ سے ٹوٹ کر یہ ستارا کہاں چلا

 

ذرّے میں کائنات ہے اُٹھتے نہیں قدم

ایسے میں نقشِ پائے تمنّا کہاں چلا

 

پھر زرد و سبز پتوّں میں سرگوشیاں ہوئیں

یہ گرد باد ، جانبِ صحرا کہاں چلا

 

بے شک صلائے عام خلا کی طرف سے ہے

لیکن زمین چھوڑ کے پودا کہاں چلا

 

ہم ہیں فقیر ملکِ سخن ، تم امیرِ نقد

پھر بھی تمھارے نام کا سکّہ کہاں چلا

 

بجھتے ہوئے چراغ مظفرؔ بھڑک اُٹھے

جلتے ہوئے پروں سے پتنگا کہاں چلا

٭٭٭

 

 

 

 

 

نقش میں شوخیِ تحریر کہاں سے آئی

آج بن کر مری تقدیر کہاں سے آئی

 

چاندنی رات میں نہیں ، آپ مرے ساتھ نہیں

جھیل میں چاند کی تصویر کہاں سے آئی

 

تیر اس نے بھی کبھی کھائے ہیں دل پرور نہ

اُس کی باتوں میں یہ تاثیر کہاں سے آئی

 

ہم تو گہوارے میں بھی کھیل چکے ہیں اس سے

کیا بتائیں کہ یہ زنجیر کہاں سے آئی

 

لوگ تو پھُول بچھاتے تھے تری راہوں میں

پھر ترے ہاتھ میں شمشیر کہاں سے آئی

 

اے مظفرؔ تری اُفتاد جداگانہ ہے

شعر میں خستگیِ میرؔ کہاں سے آئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

حبابِ موجِ رواں کی طرح بہو تو سہی

تمھاری گھات میں پیکِ قضا نہ ہو تو سہی

 

پتہ چلے گا کہ مشکل بہت ہے سچ کہنا

کبھی نہیں سی نہیں ، ہاں سی ہاں کہو تو سہی

 

ہمارے گھر کے سلگنے پہ تالیاں نہ بجاؤ

تمھارے گھر میں بھی ہو گا یہی ، رہو تو سہی

 

قسم خدا کی کلیجہ نکل پڑے گا میاں

ہماری طرح کبھی ہنس کے دُکھ سہو تو سہی

 

خلوصِ قلب سے اِک دن پڑھو مظفرؔ کو

ہر ایک شعر پہ اِک زخم تازہ ہو تو سہی

٭٭٭

 

 

 

 

 

غریب دِل مرا پھر نرغۂ خرد میں ہے

چراغِ صبح نکیلی ہَوا کی زَد میں ہے

 

َپھلوں پہ میرے پڑوسی کا حق نکل آیا

اگرچہ شاخِ ثمر بار میری حد میں ہے

 

تو شرمسار رہو گے سدا زمانے میں

ذرا تمیز اگر تم کو نیک و بد میں ہے

 

عجیب فتح ہمارے نصیب میں آئی

کہ ریت مالِ غنیمت ، لہو رَسد میں ہے

 

تمھارے قامتِ بالا پہ ہم بھی نازاں ہیں

ہمارا شانہ بھی شامل تمھارے قد میں ہے

 

خیال یہ بھی نظریے کا ہم خیال نہیں

یہ قافیہ بھی سبب میں نہیں وَتد میں ہے

 

شمارِ سُود و زِیاں کیا کریں مظفرؔ ہم

کہ شعر گوئی ہماری نشے کی مَد میں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تمھارے خوَف سے سچ بات فریادی نہیں کہتے

اگر سچ بولتے ، بندِش کو آزادی نہیں کہتے

 

نہایت عام ہو کر بھی وہ خاص الخاص ہے دل کو

جسے ہم چاہتے ہیں اس کو شہزادی نہیں کہتے

 

یقیناً ظلم اِک پہچان ہے جلاد ہونے کی

تو کیوں احباب کی چالوں کو جلادی نہیں کہتے

 

جہاں اپنائیت کم ہو ، ہمارا جی نہیں لگتا

کہ لوگوں کے گھنے جنگل کو آبادی نہیں کہتے

 

سجی قبروں میں زندہ لڑکیوں کو دفن کرتے ہو

عزیز و وقتِ ماتم ہے ، اِسے شادی نہیں کہتے

 

تمھاری ہر غزل میں درجنوں پیوند ہوتے ہیں

اسے سرقہ کہا جاتا ہے اُستادی نہیں کہتے

 

مظفرؔ میرؔ کا دیوان غالبؔ کو نہ راس آتا

اگر ناسخؔ اسے کشمیر کی وادی نہیں کہتے

٭٭٭

 

 

 

 

عُریاں حقیقتوں میں کہانی کہیں نہیں

دریا چڑھا ہُوا ہے رَوانی کہیں نہیں

 

دَلدل پلک جھپکتے ہی گردن تک آ گئی

ہم سے کہا گیا تھا کہ پانی کہیں نہیں

 

دیکھو مجھے بھی لمحۂ موجُود کی طرح

زِندہ ہوں اور میری نشانی کہیں نہیں

 

محروم سیم و زَر سے مرا خانۂ خراب

تیرے محل میں رات کی رانی کہیں نہیں

 

آئینہ دیکھتے ہی گماں چُور ہو گیا

کہتے تھے لوگ آپ کا ثانی کہیں نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

آہوں کے لیے گنبدِ بے در نہیں کھلتا

جو ہے مرے دل میں وہ کسی پر نہیں کھلتا

 

بے مہریِ احباب کے احوال نہ پوچھو

بادل یہ گھر آتا ہے تو دن بھر نہیں کھلتا

 

کٹ جائیں یہ پیدل تو نکل آئیں گی راہیں

فرزیں کے لیے ورنہ کوئی گھر نہیں کھلتا

 

دیوانے ترے شہر کے ہشیار بہت ہیں

پتھّر تو برستے ہیں کوئی سر نہیں کھلتا

 

ہر سمت نظر آتے ہیں آثار خودی کے

اِس گھر کا دریچہ کوئی باہر نہیں کھلتا

 

موسم اگر اچھا ہے تو کیوں روکیے کشتی

دریا میں تلاطم ہے تو لنگر نہیں کھلتا

 

اشعار جلالو بھی تو ہوتے ہیں مظفرؔ

تنقید پہ ہر شعر کا جوہر نہیں کھلتا

٭٭٭

 

 

 

 

تتلی سی ہر اِک بُوند میں پر تول رہی تھی

وہ آنکھ مرے خُون میں کچھ گھول رہی تھی

 

رِسنے لگا ہر زخم، برسنے لگیں آنکھیں

کوئل کہیں آموں میں چھپی بول رہی تھی

 

افسوس خلا میں بھی غلط ہو گئی تعبیر

موتی مِرے خوابوں کے زمیں رول رہی تھی

 

رہ رہ کے نظر آتے تھے منجدھار میں دو ہاتھ

اِک ناؤ کنارے پہ بندھی ڈول رہی تھی

 

سچ بول، یہ مقطع ہے کہ پردہ ہے مظفرؔ

غزلوں کے دریچے یہ غزل کھول رہی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

کوئی یُوسفؑ نہیں ہے اور کاروبار پھیلا ہے

ہمارے سامنے اِک مصر کا بازار پھیلا ہے

 

اُمیدوں پر ہمیشہ اوس پڑتی ہے مری جا نب

اُدھر حدِّ نظر تک ابرِ گوہر بار پھیلا ہے

 

ہمارے صحن میں برچھی لیے کرنیں اُتر آئیں

پڑوسی آنگنوں میں سایۂ دیوار پھیلا ہے

 

سلاخوں سے لگا رکھّی ہیں آنکھیں اہلِ زنداں نے

جدھر بھی دیکھتے ہیں کوچۂ دلدار پھیلا ہے

 

سِمٹتی جا رہی ہے کہکشاں ، تارے لرزتے ہیں

ہمارا ہاتھ ، اُس کا طرۂ دستار پھیلا ہے

 

بالآخر مٹ گئی سرحد محبت اور نفرت کی

اُبلتا خون کچھ اِس پار ، کچھ اُس پار پھیلا ہے

 

مری طبعِ رواں منّت کشِ ساحل نہیں ہو گی

مظفرؔ بادبانِ آسماں بیکار پھیلا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دیکھتی ہی کچھ نہیں ہے چشمِ نم تیرے سوا

سوچ ہی سکتے نہیں کچھ اور ہم تیرے سوا

 

پڑ گیا ہے میرے سینے میں خلا تیرے بغیر

ہیچ اِس دُنیا کے سارے بیش و کم تیرے سوا

 

جھلملاتا ہے مرے اشکوں کی چلمن پر مدام

کہکشاں پر ثبت ہیں کس کے قدم تیرے سوا

 

جگمگاتا ہے مرا ہر جذبہ تیری یاد سے

ورنہ سب بیکار ، خوشیاں ہوں کہ غم ، تیرے سوا

 

تیرے ہر ارشاد پر آمین کہنا فرض ہے

کون کھاتا ہے مرے سرکی قسم تیرے سوا

 

ساری سرگرمی ہے تجھ سے باز رکھنے کے لیے

منجمد ہو جائیں گے ، دَیر و حرم تیرے سوا

 

اے مظفرؔ سرکشی اِس کی قیامت خیز ہے

کِس کے قابُو میں ہے رہوارِ قلم تیرے سوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ظاہر ہے جسم و جاں کا خسارا قریب ہے

اِک بلبلہ رواں ہے ، کنارا قریب ہے

 

ہر نقشِ پا میں بیج کسی گرد باد کا

اِس موڑ سے دیار ہمارا قریب ہے

 

بندوق کی نظر میں بھی قیمت ہے جان کی

سانبھر ہے فاصلے پہ ، چکارا قریب ہے

 

مستول کانپتا ہے کہ دریا ہے بے کنار

ّچپو کی تھپکیاں کہ سہارا قریب ہے

 

جگنو بھی نارسا ہے اگر خوف دل میں ہو

ہمّت بلند ہو تو ستارا قریب ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جلتی مِٹّی نیچے نَم ہے ، تم نے چھوکر دیکھا بھی

فصلیں کٹنے کے موسم میں پھوٹ رہا ہے انکھوا بھی

 

اُوپر بوڑھے ہاتھ اُٹھائے سُوکھتے تھے دو چار درخت

پہلے ان پر بجلی ٹُوٹی ، ویسے بادل برسا بھی

 

سوچو آخر ساری موجیں ، اپنے سرکیوں دھُنتی ہیں

ایسا کیا ہے ، کیوں ساحِل سے بھاگ رہا ہے دریا بھی

 

یہ با عزّت معمولی پن بہتر اُس اونچائی سے

جس پر اِک دن جم جاتا ہے جھاگ اُڑاتا جھرنا بھی

 

سُورج کو ڈھلنا تھا ڈھلتا ، ہم کو چلتے رہنا تھا

تارے جُگ جُگ باتیں کرتے ، پنکھے جھلتی پُروا بھی

 

جو پرچم نیچے آتا ہے ، جو پرچم لہراتا ہے

دونوں ہی پر صرف ہُوا ہے کافی خُون ہمارا بھی

 

گولی برسی خُوب مظفرؔ دہشت گردوں پر کل رات

مرنے والوں میں شامل ہے تین برس کا بچّہ بھی

٭٭٭

 

 

 

 

سرہی سر ترسولوں پر

آئے پھول ببولوں پر

 

موجو ! کہنا ساحل سے

ہم خوش ہیں مستولوں پر

 

مِٹّی نیچے آئے گی

کتنی دیر بگولوں پر

 

کانپ رہی ہے چنگاری

شبنم شبنم پھُولوں پر

 

دو پَل کو تم اُونچے ہو

پینگ بڑھا کر جھولوں پر

 

اور مظفرؔ سچا بن

چڑھ جا بھینٹ اصولوں پر

٭٭٭

 

 

 

 

تکلیف دیا کرتی ہے سچ بات ہمیشہ

کیوں سُرخ نکلتے ہیں ترے ہات ہمیشہ

 

منصُور بھی مجھ میں ہے بھگت سنگھ بھی مجھ میں

سُولی پہ لٹکتی ہے مری ذات ہمیشہ

 

وہ مالِ غنیمت ہو کہ خیراتِ محبت

مِلتی ہے ہمیں درد کی سوغات ہمیشہ

 

سورج بھی اُگے چاند بھی نکلے ترے در سے

پھر کیوں مرے حِصّے میں سِیہ رات ہمیشہ

 

تنہائی کہ دیوار بنا دیتی ہے دَر کو

دیوار کو در تیرے خیالات ہمیشہ

 

میں ریگِ تمنّا ہوں ، مجھے پیاس غضب ہے

تو ہے کہ سمندر ہی پہ برسات ہمیشہ

 

کھانے کے لیے ہوں کہ سجانے کے لیے ہوں

توڑے گئے شاخوں سے ہَرے پات ہمیشہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

کبھی ہَوا بھی توازُن بگاڑ دیتی ہے

چمن کو ایک ہی آندھی اُجاڑ دیتی ہے

 

یہ خاک رَوندتے رہتے ہو جس کو تم دِن رات

یہ رستموں کے بھی لنگر اُکھاڑ دیتی ہے

 

خلُوص نام کی ایک ہولناک بیماری

کسی کسی کو تو زِندہ ہی گاڑ دیتی ہے

 

بہت بلند ہے لیکن سرک نہیں سکتا

پہاڑ کو تو گلہری پچھاڑ دیتی ہے

 

میں ڈالتا ہوں جو دریا میں نیکیاں اپنی

تو ایک موج اُبھر کر لتاڑ دیتی ہے

 

ہمارے حبیب و گریباں پہ کچھ نہیں موقوف

بہار پھُولوں کے دامن بھی پھاڑ دیتی ہے

 

حدیثِ دل ہے مظفرؔ غزل کی نازُک صنف

یہ وقت پڑنے پہ خطبے بھی جھاڑ دیتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

چین سے دو گھڑی سستائیں ، اجازت ہو تو

ہم بھی سائے میں چلے آئیں ، اجازت ہو تو

 

تنگ ہے عرصۂ ، ہستی تو اِسی میں خوش ہیں

پاؤں ہم خوابوں میں پھیلائیں ، اجازت ہو تو

 

پرشکستہ ہیں تو کیا ، حسرتِ پرواز تو ہے

جال کو توڑ کے اُڑ جائیں ، اجازت ہو تو

 

آپ کے حکم سے لکھتے ہیں فرشتے احوال

ہر ستم آپ کا لکھوائیں اجازت ہو تو

 

شکریہ ! حکم دیا آپ نے جلنے کا ہمیں

کچھ دِیے آندھی سے ٹکرائیں اجازت ہو تو

 

آپ نے خون اُبالا ہے ، شرر بوئے ہیں

آپ پر ہم نہ ترس کھائیں اجازت ہو تو

 

تیر کھائے ہیں مظفرؔ نے تمھارے ہاتھوں

اب تمھیں شعروں سے تڑپائیں اجازت ہو تو

٭٭٭

 

 

 

 

آنگن میں کبوتر جو ہمارے اُتر آئے

ہمسائے کی آنکھوں میں شرارے اُتر آئے

 

لَو میرے چراغوں کی تراشی گئی جتنی

اُتنے مری آنکھوں میں ستارے اُتر آئے

 

مانجھی کے لیے پھر وہی منجدھار ، وہی ناؤ

ہم لوگ مسافر تھے ، کنارے اُتر آئے

 

صد شکر کہ جھرنوں کو سمندر نے بلایا

پستی میں سرافراز تمھارے اُتر آئے

 

انسان کھلونے سے نظر آتے تھے اُوپر

مینار سے ہم خوف کے مارے اُتر آئے

 

زینہ تو بلندی پہ پہنچنے کے لیے تھا

پاتال میں کیوں اس کے سہارے اُتر آئے

٭٭٭

 

 

 

 

پلٹ کے آ تو گئے اپنے گھر میں ہم لیکن

بَلا سے آج نہیں ہیں خطر میں ہم لیکن

 

نہیں ہے علم کسی کو ہماری نیت کا

گناہ گار ہیں سب کی نظر میں ہم لیکن

 

خلائیں پُر ہیں ہماری اُڑان کے ڈر سے

اُلجھ رہے ہیں ابھی بال و پَر ہم لیکن

 

ہَوا ہَوا ہے ، توازن بگاڑ سکتی ہے

اگرچہ ناؤ میں تم ہو ، بھنور میں ہم ، لیکن

 

نہ پوچھا نام ، نہ پتھر چلائے لڑکوں نے

برہنہ سرتو پھرے شہر بھر میں ہم ، لیکن

 

ہر ایک شاخ پہ جڑ دی گئی ہے یہ تختی

کہ آشیاں نہ بنائیں شجر میں ہم، لیکن

 

مظفرؔ اپنی حقیقت کو خوب جانتے ہیں

شمار ہوتے ہیں اہلِ ہُنر میں ہم ، لیکن

٭٭٭

 

 

 

 

ریت میں پڑ گئے گرداب تو کیا کیجیے گا

گھات میں ہیں اگر احباب تو کیا کیجیے گا

 

شہر میں بھڑکی ہوئی آگ بجھانے کے لیے

بڑھ کے آ جائے گا سیلاب تو کیا کیجیے گا

 

بات یہ ہے کہ سمندر میں بھی ہوتے ہیں سراب

کچھ بھی نکلا نہ تہِ آب تو کیا کیجیے گا

 

ہم نے خُون اپنا بچا رکھا ہے اُس دن کے لیے

ختم ہولے گی مئے ناب تو کیا کیجیے گا

 

جھلملاتے ہوئے اُس شخص سے پُوچھا جائے

جب رہے گی نہ تب و تاب تو کیا کیجیے گا

 

تشنگی میں کبھی شاخیں بھی نکل آتی ہیں

نہ ہوئے پی کے بھی سیراب تو کیا کیجیے گا

 

آنکھ نَم ہونے نہیں دیتے مظفرؔ صاحب

گھل گیا خون میں تیزاب تو کیا کیجیے گا

٭٭٭

 

 

 

 

مَیں شاعر ہوں ، مری پرچھائیں مستقبل پہ پڑتی ہے

مگر تاریخ کی ہر چوٹ میرے دل پہ پڑتی ہے

 

مری کشتی کو بھر دیتا ہے جلتی ریت سے ظالم

اگر پتوار سے اِک چھینٹ بھی ساحل پہ پڑتی ہے

 

سبھی کو جان پیاری ہے کوئی سمجھائے منصف کو

نظر کیوں پھیر لیتے ہیں اگر قاتل پہ پڑتی ہے

 

بگُولے کا سفر اندھا سہی لیکن بلندی سے

ہماری گم رہی کی گرد ہر منزل پہ پڑتی ہے

 

مظفرؔ دوستوں نے زخم پھر سے کر دیے تازہ

دِلاسہ کیا ہے اِک تلوار سی بسمل پہ پڑتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

حنفی صاحب ! کیوں کچھ دن سے کھوئے کھوئے رہتے ہو

ایسا کیا ہے دل ہی دل میں یہ کیسا دُکھ سہتے ہو

 

جیسی کرنی ویسی بھرنی ، یہ تو سب ہی کہتے ہیں

تخت پہ تم ہو میں تختے پر ، بولو تم کیا کہتے ہو

 

دُنیا سمجھی ہم لوگوں کو اِک دریا کے دو تیر اِک

میں دھارا کو کاٹ رہا ہوں تم دھارے میں بہتے ہو

 

سنتا ہوں ناراض ہو مجھ سے ، نام نہیں لیتے میرا

پھر کیوں میری تنہائی میں پھول کھلاتے رہتے ہو

 

اَب ہم مندر مسجد والے جو چاہیں کرسکتے ہیں

اچھا ہے یہ شوق مظفرؔ ، پیہم غزلیں کہتے ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

پھر ہوئے اُن کی پشیمانی پہ ہم شرمندہ

آج پھر تُو نے کیا دیدۂ نم شرمندہ

 

دل کے زخموں سے منوّر تھا یہ ماتم خانہ

میرے گھر آ کے ہوئی شامِ اَلم شرمندہ

 

عرش تا خاک تمنّا کا سفر جاری ہے

چاند پر بھی ہیں مرے نقشِ قدم شرمندہ

 

اُس کے چُلّو میں سمندر ، مرے ہونٹوں پہ سراب

میں پیاسا ہوں تو وہ بھی نہیں کم شرمندہ

 

ہم پِروتے رہے پلکوں میں گہر تاب آنسو

کہ نہ ہو جائے چراغِ شبِ غم شرمندہ

 

نُور مانگا تھا تو ناسُور ہے پیشانی پر

اور اِس پر بھی نہیں دیر و حرم شرمندہ

 

ہم پہ اس عمر میں بھی خاص کرَم ہے اُن کا

ہو گئے کھا کے مظفرؔ کی قسم شرمندہ

٭٭٭

 

 

 

 

مری زمین رہی آسماں پہ چھائی ہوئی

مگر غزل کی کمائی کوئی کمائی ہوئی

 

وہ اِک ستارہ ہے اپنی جگہ ہم اپنی جگہ

نہ جانے کون سی ساعت میں آشنائی ہوئی

 

کسی نے پیار کیا اور ہو گیا بدنام

کسی کی پیار نہ کرنے پہ جگ ہنسائی ہوئی

 

میں برگِ زرد کی مانند اُڑتا پھرتا ہوں

کچھ آندھیاں مرے سینے میں ہیں سمائی ہوئی

 

سلگ رہی ہیں مری اُنگلیاں زمانے سے

بجھی نہیں ہیں ابھی چٹھیاں جلائی ہوئی

 

عجیب رنگ اُڑائے بہار نے اِس بار

کہ تتلیاں بھی ملیں خُون میں نہائی ہوئی

 

پتہ چلا کہ بڑھا دی ہے قید کی میعاد

سمجھ رہے تھے مظفرؔ کہ اب رِہائی ہوئی

٭٭٭

 

 

 

 

آندھی غُرّاتی رہتی ہے میرے رَستے آنا مت

پتیّ تالی پیٹ رہے ہیں ساتھی رے گھبرانا مت

 

ٹھنڈی سانس نہ لینا ہرگز قاتل سن گن پا لیں گے

پہرے دار خفا ہوتے ہیں کوئی دِیپ جلانا مت

 

ہاتھ قلم کر دیتے ہیں وہ ، کون لکھے گا ان کے نام

ہونٹوں کو سی دیتے ہیں وہ ، گیت پیار کے گانا مت

 

بستی بستی گھوم رہے ہیں سینہ تانے جھوٹے لوگ

ایسے میں لازم ہے تم پر ، سچ کہنا ، شرمانا مت

 

دُور اندیشی اور بغاوت ساتھ کہاں چل سکتے ہیں

یہ پرچم آدھے نیزے پر دھوکے سے لہرانا مت

 

ہمدردی تو اور مظفرؔ کانٹے سی چبھ جاتی ہے

اتنے بھی مجبور نہیں ہم ، یہ تکلیف اُٹھانا مت

٭٭٭

 

 

 

 

وہ چاہتے تو جلا سکتے تھے شرَر بن کر

ترے قفس میں پڑے ہیں جو مشتِ پر بن کر

 

خوشا کہ میں ہمہ تن دل ہوں اور تم سیلاب

ڈُبونے آؤ کہ تّیار ہے یہ گھر بن کر

 

خبر ملی کہ چمکتی ہے کہکشاں کی طرح

ہمارے پاؤں کے چھالوں سے رہ گزر بن کر

 

مسافروں کے لیے چھاؤں اپنے سرپر دھُوپ

یہاں بھی کون سا آرام ہے شجر بن کر

 

تو اُس کو کچھ نہ نظر آیا ایک اپنے سوا

گھمائی آنکھ جو نر گس نے دیدہ وَر بن کر

 

خود اپنی ذات میں مصلُوب ہوں اَنا کی طرح

بدن کے نیزے پہ آویزاں ہوں میں سربن کر

 

غریقِ فن ہے مظفرؔ اُسے خبر تو کرو

کہ اس کے شعر بھی چھپنے لگے خبر بن کر

٭٭٭

 

 

 

 

درخشندہ ہے وہ لیکن ہمیں پیارا نہیں ہے وہ

علَم بردارِ شب ہے ، صبح کا تارا نہیں ہے وہ

 

پڑوسی کو ستا کر کس لیے مسرور ہوتے ہو

جسے مارا ہے تم نے نفسِ اَمّارہ نہیں ہے وہ

 

وہ برگِ زرد جس کو شاخ نے آزاد فرمایا

بگولے کی کلاہِ زَر ہے ، بیچارا نہیں ہے وہ

 

فرشتہ موت کا چپکے سے آ کر داب لیتا ہے

نظیرِؔ اکبر آبادی کا بنجارہ نہیں ہے وہ

 

اُسے مہہ پارا کہنا چاند ہی کے فائدے میں ہے

بخوبی جانتے ہیں ہم کہ مہہ پارہ نہیں ہے وہ

 

مظفرؔ کے لیے یہ کلمہ ہائے خیر کیا کم ہیں

کہ بے شک سربریدہ ہے مگر ہارا نہیں ہے وہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

زندگی ہو گئی مشکل تو خدا یاد آیا

نہ لگا اور کہیں دِل تو خدا یاد آیا

 

تیزگامی پہ بہت ناز کیا کرتے تھے

آج ناقہ ہے نہ محمل تو خدا یاد آیا

 

اپنے آپے میں نہ تھا کوئی جو محفل ہوئی گرم

اور برہم ہوئی محفل تو خدا یاد آیا

 

ناخداؤں کے سہارے پہ کیا دریا پار

اب ڈُبونے لگا ساحل تو خدا یاد آیا

ِ

قبضۂ تیغ تھا قبضے میں تو اُونچا تھا سر

سرپہ ہے خنجرِ قاتل تو خدا یاد آیا

 

آپ کی سہل پسندی نہیں بھاتی ہم کو

مِل گیا رہبرِ کامل تو خدا یاد آیا

ِ

اَے مظفرؔ ترے انجام سے خوف آتا ہے

نہ رہے کوئی مشاغل تو خدا یاد آیا

٭٭٭

 

 

 

 

نگاہِ گرم کوئی تازیانہ ہونے کو

تڑپ رہا ہے مرا دلِ دِوانہ ہونے کو

 

وہ گنگناتے ہوئے دِن وہ رَس بھری راتیں

برات یہ بھی سجی تھی رَوانہ ہونے کو

 

پھر ایک وقت وہ آیا ہماری آنکھوں پر

کہیں ستارے نہیں تھے نشانہ ہونے کو

 

ہر اِک جہاز کو اِک روز غرق ہونا ہے

بھرے گئے ہیں سمندر بہانہ ہونے کو

 

ہمارا نام کسی حافظے میں کانٹے سا

کسی کی یاد ہمارا خزانہ ہونے کو

 

پَلک جھپکنے میں صدیاں گزارنے والے

بہت ہے ایک ہی ساعت زمانہ ہونے کو

 

نظر پڑی جو مظفرؔ کی ایک چہرے پر

تو عرش و فرش ہیں آئینہ خانہ ہونے کو

٭٭٭

 

 

 

 

مجھے تخت و تاج کی آرزو ، نہ دُعا کہ عمرِ دراز دے

مرے سر کو اور بلند کر ، مرے دل کو اور گداز دے

 

مرا سینہ نور ہی نور ہو ، مرا جسم طور ہی طور ہو

کبھی اِلتفات کر اس قدر ، کبھی اس طرح بھی نواز دے

ِ

نہ جھکے کبھی وہ جبیں ملے ، نہ ہو ختم ایسا سفر کوئی

جو کثافتوں پہ جلا کرے وہ نگاہ آئینہ ساز دے

 

یہ سکوتِ پردۂ ساز کیا ، وہ پکارتا ہے اگر سنیں

ہمہ تن نگاہ بنے کوئی تو جھلک وہ شعبدہ باز دے

 

ترا نام وردِ زباں رہا ترا ذکر مشعلِ جاں رہا

مجھے کچھ تمیز نہیں رہی ، تو نیاز دے کہ مجاز دے

 

تری جستجو میں بگولا ہوں ، میں اگرچہ راستہ بھولا ہوں

کوئی سمت جس پہ نہ بند ہو ، وہی جذبۂ تگ و تاز دے

 

مرا شوق سرد نہ ہو کبھی ، مرا خون زرد نہ ہو کبھی

نئی فکر دستِ دراز دیے نئی طرزِ سحر طراز دے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کبھی تو صدقہ مرا خاک سے اُتارا جائے

مجھے بلندیِ اَفلاک سے اُتارا جائے

 

اِدھر بھی لاش تڑپتی ہے دفن ہونے کو

یہ سربھی نیزۂ سفّاک سے اُتارا جائے

 

نہ جانے کب سے زمیں گھومتی ہے محور پر

میں بن چکا ہوں ، مجھے چاک سے اُتارا جائے

 

مِلا یہ حُکم کہ سِسکاریاں نہ لے کوئی

کوئی بھی رنگ ہو پوشاک سے اُتارا جائے

 

قریب آؤ کہ مہندی رَچی ہتھیلی پر

ستارا دیدۂ نمناک سے اُتارا جائے

 

اَنا کے دَم سے ہی آباد ہے خرابۂ جاں

اِسی کو مسندِ ادراک سے اُتارا جائے

 

اُسے چھپاؤ مظفرؔ سخن کے پردے میں

غلاف کیوں حرمِ پاک سے اُتارا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

حبسِ دَم ہی میں مَزا ہے کہ ہَوا چاہتے ہو

پوچھا زنجیر نے زِندانیو! کیا چاہتے ہو

 

آگ دے کر کوئی شبنم نہیں مانگا کرتا

شعر کہتے ہو ، بزرگوں کی دُعا چاہتے ہو

 

کٹ گئی شاخِ زباں ، برگِ نوا کیسے آئے

راکھ مٹھی میں ہے ، تحریرِ حِنا چاہتے ہو

 

تم کو دَلدَل میں اُترنا ہے تو جاؤ اُس پار

اِس طرف آؤ جو طوفانِ بَلا چاہتے ہو

 

ہم تو مقتول ہیں اِنصاف طلب کرتے ہیں

خوب قاتل ہو میاں ، تم بھی جزا چاہتے ہو

 

دیکھو ، یہ بات خزاں تک بھی پہنچ سکتی ہے

کبھی بادل تو کبھی بادِ صبا چاہتے ہو

 

بات کیا ہے کہ مظفرؔ جسے دل کہتے ہیں

تم اُسی زخم پہ اِک تیر سدا چاہتے ہو

٭٭٭

 

 

 

 

وہ مُسکرا رہے تھے کہ تصویر کھینچ لی

کل رات ہم نے وقت کی زنجیر کھینچ لی

 

ہر بات خواب ، شدّتِ احساس کا یہ حال

ادراک وہ کہ خواب سے تعبیر کھینچ لی

 

اِک بھیڑ آ رہی تھی اُجالے لیے ہوئے

لیکن ہمارے یار نے شمشیر کھینچ لی

 

اِک سانس کی لگام بھی جس ہاتھ میں نہیں

اُس ہاتھ نے لکیر میں تقدیر کھینچ لی

 

میں نے کہا کہ ظلم کی رسی نہ کر دراز

اُس نے مری دعاؤں کی تاثیر کھینچ لی

٭٭٭

 

 

 

 

لگے ہیں غنچہ و گل کو شکار کرنے میں

ہمارا خُون بہا ہے بہار کرنے میں

 

تمھارا آنا تو اِک ثانوی مسرّت ہے

الگ مزا ہے میاں انتظار کرنے میں

 

ترا خیال مجھے پاک صاف کرتا رہا

ہزار ہاتھ مجھے داغ دار کرنے میں

 

انھیں تو نیزہ بہ نیزہ بلند ہونا تھا

بہت زمین لگی خاک سار کرنے میں

 

اِس ایک پہلو پہ خنجر چلا دیا میں نے

نظر جھکی تھی پڑوسی کی وار کرنے میں

 

میں اپنے دوست سے آنکھیں نہیں ملا سکتا

عدُو کے راہِ فرار اختیار کرنے میں

 

جنھیں قریب کا جگنو نظر نہیں آتا

وہ منہمک ہیں ستارے شمار کرنے میں

٭٭٭

 

 

 

 

بگُولے کو بتایا ریت نے کس درد مندی سے

کہ سُنیے تو کوئی آواز دیتا ہے بلندی سے

 

مجھے معلوم ہے لیکن زمانے سے نہیں کہتا

یہ ساری رونقیں ہیں ذات کی آئینہ بندی سے

 

ہمیشہ ، ہر جگہ ، اہلِ سیاست قتل کرتے ہیں

ہُنر کو سرد مہری سے ، وفا کو زہر خندی سے

 

ہزاروں جنتیں آباد ، لاکھوں دوزخیں پیدا

تمھاری خود نمائی سے ، ہماری خود پسندی سے

 

سزا دینی تھی موذی کو ، مظفرؔ دیکھیے آخر

اَنی پر ہے اَنا کا سر ، جنوں کی ہوش مندی سے

٭٭٭

 

کسی سرحد ، کسی بندِش کو ہَوا مانے کیا

آج وحشت کا اِرادہ ہے خدا جانے کیا

 

ناؤ منجدھار میں کیوں ساتھ چلی آتی ہے

کہہ دیا کان میں کچھ اس کے بھی دریا نے کیا

 

ایک ہی نام لکھا میں نے کئی زاویوں سے

میری غزلیں ،مری نظمیں ، مرے افسانے کیا

 

مصلحت ہے کہ عداوت ہے کہ سچائی ہے

سونقابوں میں ہے چہرہ ، کوئی پہچانے کیا

 

گھوم پھر کر وہی اِک بات کہ برحق ہو تم

سب سمجھتا ہوں ، مجھے آئے ہو سمجھانے کیا

 

دل جہاں آپ ہی جھکتا ہو مظفرؔ جھک جاؤ

آنکھ والوں کو حرم کیا ہے ، صنم خانے کیا

٭٭٭

 

 

 

 

ہر اِک سانس پابند کر دی گئی

پھر اِک دن ہَوا بند کر دی گئی

 

ّمحبت کے حق میں دُعا کیجیے

سُنا ہے دَوا بند کر دی گئی

 

سخاوت کا اب کوئی موقع نہیں

وہ مٹھی حِنا بند کر دی گئی

 

فَنا کے مسافر لگے چیخنے

جو کھڑکی ذرا بند کر دی گئی

 

کِسے مُنہ دِکھائیں کہاں جائیں ہم

ہماری سزا بند کر دی گئی

 

خدا پر نہ قابو چلا آپ کا

تو خلقِ خدا بند کر دی گئی

 

مظفرؔ سے حق گوئیوں کے سبب

سلام و دُعا بند کر دی گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

کبھی مذاق اُڑایا تھا آبگینے کا

مزاج پوچھ رہی ہے ہوا سفینے کا

ِ

صدا لگاتی ہیں کلیاں کہ آؤ اہلِ جہاں

ہُنر سکھائیں تمھیں مسکراکے جینے کا

 

غلط سمجھتا ہے گرداب اگر سمجھتا ہے

کہ ہم بھی زخم دِکھائیں گے اپنے سینے کا

 

گھلا ہے صبر نہیں جبر آنسوؤں کے ساتھ

یہ سلسلہ جو ہے اپنا ہی خون پینے کا

 

بلند ہو گے میاں خاکسار ہونے سے

شکستِ ذات ہی پہلا قدم ہے زینے کا

 

یہ نقشِ آب نہیں ، میرے گھر میں چاروں طرف

قصیدہ لکھا ہے برسات کے مہینے کا

 

غزل کے شعر مظفرؔ بھی خوب کہتا ہے

اگرچہ آدمی لگتا نہیں قرینے کا

٭٭٭

 

 

 

 

کسی کی نبض ، اس کی عظمتِ کردار گرتی ہے

مسیحا سامنے ہے حالتِ بیمار گرتی ہے

 

پڑوسی کی سیاست میں خسارہ میں اُٹھاتا ہوں

مرے آنگن میں اکثر ریت کی دیوار گرتی ہے

 

اگر تُم نُور کے مینار سے لپٹے رہے تو کیا

کہ اِس کی روشنی تو جھیل کے اُس پار گرتی ہے

 

ہم اپنے آبلوں سے راستے گلنار کرتے ہیں

ہمارے پاؤں پر قوسِ قزح بیکار گرتی ہے

 

اگر بجلی کو گرنا ہے ، گرے دشت و بیاباں میں

مرے پھلتے درختوں پر ہی کیوں ہر بار گرتی ہے

 

وہ ظالم دیکھ لیتا ہے تو دل پر تیر چلتے ہیں

پلک جھپکائے تو تلوار پر تلوار گرتی ہے

 

مظفرؔ وہ مرے فن کی بلندی دیکھتی کیسے

اِدھر تو دیکھ کر تنقید کی دستار گرتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

پھُول کس کام کا ، جس میں تری خوشبو ہی نہ ہو

اور ویرانہ ہے وہ شہر ، جہاں تو ہی نہ ہو

 

کون ہے جس کے تعاقب میں لہو دوڑتا ہے

دِل میں جو پھانس کھٹکتی ہے وہ آنسو ہی نہ ہو

 

اُن کے نرغے میں شب و روز بسر کرتا ہوں

جن خیالات میں تسکین کا پہلو ہی نہ ہو

 

ہائے دِل ، جس پہ کبھی آس نہیں رکھتی ہات

وائے سر ، جس کا سہارا کوئی زانو ہی نہ ہو

 

دیکھنے تھے مری فریاد کو ایسے دن بھی

جبکہ انصاف کے ہاتھوں میں ترازو ہی نہ ہو

 

مصلحت کا یہ تقاضہ ہے مظفرؔ حنفی

اور سب کچھ ہو ترے شعر میں اُردو ہی نہ ہو

٭٭٭

 

 

 

 

خُون چُرا کر چہرہ چہرہ ، مَل دیتا ہے زردی کون

سینے میں کرتا رہتا ہے پیہم دہشت گردی کون

 

َحبس بڑھے تو پیٹھ تھپکنے آ جاتی ہے اُس کی یاد

ورنہ سانسوں کے صحرا میں اپناتا پامردی کون

 

ہر بستی کو لُوٹ رہے ہیں ، کیسے ہیں یہ پہرے دار

آگ لگاتے ہیں خرمن کو پہنے کالی وردی کون

 

آتا کوئی تُند بگولا ان مفلُوج درختوں تک

لیکن ہم پیلے پتوّں سے رکھتا ہے ہمدردی کون

 

پھُول بچھے ہوں یا اَنگارے ، اُس نے بھیجا ہے پیغام

چلنا ہے فی الفوَر مظفرؔ ، دیکھے گرمی سردی کون

٭٭٭

 

 

 

 

جو ممکن ہو تو بچنا دل کو بیماری لگانے سے

بھڑک اُٹھتی ہے یہ بارود چنگاری لگانے سے

 

مرا سینہ ، تمھاری تیغ باہم جگمگاتے ہیں

کھلے دونوں کے جوہر ضربتِ کاری لگانے سے

 

اگر اندر ہی اندر آگ کے شعلے بھڑکتے ہیں

تو پھر کیا فائدہ آنگن میں پھلواری لگانے سے

 

کبھی سوچا کہ تیرے نام پر بھی حرف آتا ہے

ہماری ذات پر الزامِ غدّاری لگانے سے

 

خفا ہو جائے گا سیلاب ، دروازہ کھلا رکھنا

بپھر جائے گی آندھی کھڑکیاں ساری لگانے سے

 

مظفرؔ ہم گل و بلبل کی باتیں کر تو سکتے ہیں

بگڑتی ہے غزل مضمون بازاری لگانے سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

رَستے میں اب کہیں نہ رکو شام آ لگی

رفتار اور تیز کرو شام آ لگی

 

دن میں تو رہزنوں سے زیادہ خطر نہ تھا

اب راستے سے ہٹ کے چلو شام آ لگی

 

نرغے میں لے رکھا ہے مجھے خواہشات نے

سب میرے سامنے سے ہٹو شام آ لگی

 

پگھلی کسی طرح نہ تری بے حسی کی برف

سورج غروب ہو کہ نہ ہو شام آ لگی

 

موجیں ہمک رہی ہیں دَما دَم چلے چلو

ساحل پکارتا ہے سنو ، شام آ لگی

ِ

کہتے ہیں واپسی کا سفر اور سخت ہے

یارانِ سُست گام اُٹھو ، شام آ لگی

 

مقطع بھی ہو غزل کا مظفرؔ قرینے سے

دہلیز پر چراغ رکھو ، شام آ لگی

٭٭٭

 

 

 

 

غزل دَستے میں کیوں آواز کی پتّی لگاتے ہو

خدا نے پاؤں دے رکھے ہیں ، بیساکھی لگاتے ہو

 

تمھارے گھر میں ہوتی ہے ہمارے قتل کی سازِش

دِیے کی لَو بجھانے کے لیے آندھی لگاتے ہو

 

قدم کا تیز ہے ، دل میں خدا کا خوَف رکھتا ہے

تم اپنے رہنما پر تہمتیں اچھی لگاتے ہو

 

دِلاسہ دینے والوں سے کہو ، الفاظ ٹھنڈے ہیں

ذراسا خون بھی ، سرمایہ تو کافی لگاتے ہو

 

یہ کستُوری بھرا نافہ ہے میرا ، بانٹتے آنا

سنا ہے تم جدھر جاتے ہو چنگاری لگاتے ہو

 

مظفرؔ ہم نہیں مانے ، بہت یاروں نے سمجھایا

زمینِ شعر پر کیوں جان کی بازی لگاتے ہو

٭٭٭

 

 

 

 

شامیانے میری غیبت میں ہَوا تانتی ہے

گاؤں میں میرے نہ ہونے سے بڑی شانتی ہے

 

وہ بگُولہ ہے کہ اُڑنے پہ سدا آمادہ

میں جو مِٹّی ہوں تو مِٹّی بھی کہاں مانتی ہے

 

دیکھنا کیسے ہمکنے لگے سارے پتھر

میری وحشت کو تمھاری گلی پہچانتی ہے

 

پھُول بنتی ہے کلی ہنستے ہوئے ظاہر میں

اُس کے دل پر جو گزرتی ہے وہی جانتی ہے

 

میری کوشش ہے کہ دُنیا کو بنا دوں فردَوس

اور دُنیا مجھے ناکاروں میں گردانتی ہے

 

ہم کو اِک حال میں قسمت نہیں رہنے دیتی

کبھی مِٹّی میں مِلاتی ہے کبھی چھانتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

پھر اِک نیا ستم اِیجاد کرنے والا ہے

خوشا نصیب کوئی یاد کرنے والا ہے

 

تمھارا سجدۂ شکرانہ کیا ، شکایت کیا

وہی ملُول ، وہی شاد کرنے والا ہے

 

بس ایک آنچ سے دل کو گداز ہے ورنہ

زمانہ موم کو فولاد کرنے والا ہے

 

نہیں تو کیوں بھرے آتے ہیں آنکھ میں آنسو

اَب اِس کے بعد وہ آزاد کرنے والا ہے

 

یہ شہر یار دِلاسے جو دے رہا ہے میاں

یہی تو شہر کو برباد کرنے والا ہے

 

خدا کرے تری اِنسانیت نہ ہونا پید

شباب تجھ کو پری زاد کرنے والا ہے

 

سُنا ہے آپ ہتھیلی پہ جان رکھتے ہیں

مظفرؔ آپ کو اُستاد کرنے والا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اِلٰہی تابہ کے ماتم کریں دل پر اکیلے ہم

کہ جی ہلکان ہے بھاری ہیں محفل پر اکیلے ہم

 

بھرے مجمعے میں سچ کے دل پہ خنجر اُس نے مارا تھا

تو پھر اُنگلی اُٹھا دیں کیسے قاتل پر اکیلے ہم

 

رگوں میں جم رہی ہے برف ، ریت اُڑتی ہے آنکھوں میں

مقابِل آتشیں دریا ہے ، ساحل پر اکیلے ہم

 

چلے تھے کارواں کے ساتھ ، پھر مڑ کر نہیں دیکھا

پشیماں کِس قدر ہیں آ کے منزل پر اکیلے ہم

 

سرِمقتل تماشہ دیکھنے والی ہزار آنکھیں

مگر تصویرِ حیرت رقصِ بسمل پر ، اکیلے ہم

 

مظفرؔ پارسا بھی مانتے ہیں پارسا ہم کو

ہوئے ہیں معترِض ان کے مشاغل پر اکیلے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

کرتا کون ہمیں غرقاب

نِکلے دل دریا پایاب

 

بستی دھُو دھُو جلتی ہے

گھر میں سوتا ہے سیلاب

 

شوق نہیں تھا مرنے کا

لیکن کچھ مخلص احباب

 

آنکھوں میں ریت اُڑتی ہے

دیکھے ہیں کچھ ایسے خواب

 

دل پیہم سجدے میں ہے

کیسا منبر ، کیا محراب

 

اُردو پانچ منٹ کی تھی

خبریں ختم ہوئیں ، آداب

 

پڑھیو شعر مظفرؔ کے

جب جینا ہو جائے عذاب

٭٭٭

 

 

 

 

گاؤں چھوڑا تھا تو رنگین پروں والی تھیں

تتلیاں شہر سے لوٹ آئیں مگر کالی تھیں

 

جو کنارے پہ تھے دامن میں گہر تھے اُن کے

سیپیاں جتنی بھی دریا میں تھیں سب خالی تھیں

 

خواب سے خواب نکلتا ہی چلا آتا ہے

ہم نے تعبیریں تو آنکھوں میں مسل ڈالی تھیں

 

آپ کے ہاتھ کشادہ تھے ، کہاں کا خرمن

فصل بھی کاٹیے ، چڑیاں تو بہت پالی تھیں

 

سارا آواز کا جادو تھا مظفرؔ صاحب

ورنہ غزلیں تو کسی اور کی نقالی تھیں

٭٭٭

 

 

 

 

ہم اِک بنجر ہیں وہ ساون ہمارا

اُسی کی آگ سے کندن ہمارا

 

تمھارے شہرِ وعدہ میں مسلسل

َبنا کرتا ہے اِک مسکن ہمارا

 

ہمارا کیا ، مجسم پیاس ہیں ہم

وہی پانی، وہی برتن ہمارا

 

ابھی تتلی تھرکتی ہے رَگوں میں

ابھی گزرا نہیں بچپن ہمارا

 

ترس کھانے پہ آمادہ ہے بستی

جَلایا جائے گا گلشن ہمارا

 

بہار آنے سے پہلے ہی مظفرؔ

نِکل جائے گا پیراہن ہمارا

٭٭٭

 

 

 

 

غم ترا وقت کے دریا میں بہا جاتا ہے

میرا سایہ تو کنارے پہ رہا جاتا ہے

 

زندگی تھی کہ سجائی گئی آنسُو آنسُو

اور وہ شیش محل ہے کہ ڈہا جاتا ہے

 

گُونجنے لگتی ہیں کچھ گرم لہو کی بوندیں

دل ہو زخمی تو کہیں شعر کہا جاتا ہے

 

پیٹھ پر تیر چلے ہیں مجھے رونا ہو گا

دوست کا وار تو سینے پہ سہا جاتا ہے

 

ڈوبتے دل میں اُبھرتی ہے تری یاد کی لہر

اور پھر اوس میں یہ پھُول نہا جاتا ہے

 

شعر کہہ کر بھی مظفرؔ نے بہت رنج کیا

ہاتھ سے کیا گہرِ بیش بہا جاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اگرچہ خُوب سمجھتی ہے سرکٹانا ہے

کلی کا فرض بہرحال مسکرانا ہے

 

غضب خدا کا نمی تک نہیں ہے آنکھوں میں

سمجھ رہے تھے کہ آنسو نہیں خزانہ ہے

 

یہ اور بات کہ دَیر و حرم بھی راہ میں ہیں

مِیاں ہمیں تو کسی اور سمت جانا ہے

 

کبھی حسینؓ ، کبھی سرمدؒ اور اَب ہم بھی

َگلے سے تیغ کا رِشتہ بہت پرانا ہے

 

بس ایک ایڑ لگاتے تو پار تھے ہم لوگ

مگر یہ شرط کہ گھر لَوٹ کر بھی جانا ہے

 

ہمارا کام تھا اپنے وجُود کا اِظہار

کھلے تو بکھرے ، ہَوا کا تو اِک بہانا ہے

 

تو آج سے ہے تمھارا بھی آب و دانہ بند

سُنا ہے تم سے مظفرؔ کا دوستانہ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ہونے دو اگر وسعتِ صحرا ہے زیادہ

یُوں بھی مری وحشت کا تقاضا ہے زیادہ

 

تھامے رہیں دل جب کسی مصرَف کے نہیں ہاتھ

اور دل کی خطا یہ کہ تمنّا ہے زیادہ

 

لَوٹا جو مَیں کرنوں کی نئی پود اُگا کر

دیکھا کہ مرے گھر میں اندھیرا ہے زیادہ

 

َموجوں کے ہنڈولے میں چلو موج کریں ہم

ساحل ہے ، یہاں یورشِ دریا ہے زیادہ

 

مت سوچ کہ کو نین بضاعت نہیں رکھتی

ایسا ہے کہ دامن ترا میلا ہے زیادہ

 

خود اپنی حقیقت سے ہم آگاہ ہوئے ہیں

جس روز ترے باب میں سوچا ہے زیادہ

 

تنقید مظفرؔ کو ذرا غور سے دیکھے

لکھتا ہے زیادہ کہ سلگتا ہے زیادہ

٭٭٭

 

 

 

 

تیری دیوار تلے زخم سکھا لیتے ہیں

سنگ باری میں شب و روز مزا لیتے ہیں

 

کھڑکیاں بند کیے ڈر سے لرَزتے ہیں چراغ

ہم کہ جگنو ہیں ، جھمکتے ہیں ، ہَوا لیتے ہیں

 

کیسے مَر مَر کے چُکاتے ہیں ہر اِک سانس کے دام

لوگ جینے کے بہانے تو بنا لیتے ہیں

 

زندگی ! دیکھ ترے ناز اُٹھانے والے

سرپہ آ جائے تو تلوار اُٹھا لیتے ہیں

 

آج پھر چاٹ گیا جامۂ تن ، شعلۂ جاں

اور بازار سے فانُوس منگا لیتے ہیں

 

سوختہ شہر میں کیا قدر اکیلے گھر کی

آپ زحمت نہ کریں ہم ہی جلا لیتے ہیں

 

اے مظفرؔ مرے احباب کو دہشت کیا ہے

کیوں مجھے دیکھ کے آئینے چھپا لیتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

غزل کو سینچنے کا ، اِستعارے توڑنے کا

اُٹھو کہ وقت یہی ہے ستارے توڑنے کا

 

خود اپنے آپ کو پایاب کرتی رہتی ہے

عجب جنوں ہے ندی کو کنارے توڑنے کا

 

سفر کیا تھا سہاروں سے حوصلہ پا کر

پھر ایک مرحلہ آیا سہارے توڑنے کا

 

اَب اُن کے جسم سے کانٹے ہی کانٹے اُگتے ہیں

اِرادہ رکھتے تھے جو پھُول سارے توڑنے کا

 

مُبادا راہ نظر آئے کوئی بچنے کی

میں اپنا خواب نہیں ڈر کے مارے توڑنے کا

 

اُڑے چلو کہ خبر گرم ہے ہَواؤں نے

حلَف اُٹھایا ہے بازُو ہمارے توڑنے کا

 

ہُنر دِکھایا مظفرؔ نے اپنے شعروں میں

ہر ایک لفظ کے اندر شرارے توڑنے کا

٭٭٭

 

 

 

 

پر شکستوں کی نہ چھیڑو داستاں اس مرتبہ

بیٹھ جائے گا یہ خستہ آسماں اس مرتبہ

 

ڈھا چکی میرا خرابہ لیکن اے ریگِ رواں

اتنا غم تو لے جائے گی کہاں اس مرتبہ

 

بات کرنا جرم ہے اِمسال میرے شہر میں

اور زوروں پر مری طبعِ رواں اس مرتبہ

 

کیا خبر اب کے بھنور سے ہاتھ نکلے یا نہیں

دیکھیے کیا گل کھلائے بادباں اس مرتبہ

 

بے سلاخ اب ایک بھی کھڑکی نہیں رہ جائے گی

ہر طرف سے اُٹھ رہی ہیں آندھیاں اس مرتبہ

 

وہ دریچہ بند ہے پچھلے برس ایسا نہ تھا

دُور کتنی ہو گئی ہے کہکشاں اس مرتبہ

 

اے مظفرؔ جمع ہوں گے ساری بستی کے چراغ

آگ سے بچتا نہیں کوئی مکاں اِس مرتبہ

٭٭٭

 

 

 

 

جھلسے ہوئے شگوفوں نے رسوا نہیں کیا

لیکن نسیمِ صبح نے اچھا نہیں کیا

 

یہ جانتے ہوئے کہ فرشتہ نہیں کوئی

ہم نے کبھی ضمیر کا سودا نہیں کیا

 

اُس کی نگاہِ گرم نے خورشید کی طرح

کچھ امتیازِ قطرہ و دریا نہیں کیا

 

ہم ہیں تو خاکسار مگر بانکپن کے ساتھ

مِٹّی نے گرد باد کا پیچھا نہیں کیا

 

سلگے تھے سوچ کر کہ اُجالا ہو رات میں

پھر اس نے ضد میں آ کے سویرا نہیں کیا

 

ہم نا مراد ہاتھ بڑھاتے نہیں کبھی

دامن گلِ مراد سے میلا نہیں کیا

 

راتیں تباہ کی ہیں مظفرؔ نے بے شمار

اِک مصرعۂ غزل کے لیے کیا نہیں کیا

٭٭٭

 

 

 

 

پروا کے ہم راہی تو پانی برسائیں گے

ایسے ویسے بادل سرپر آفت لائیں گے

 

سرپر جب تک آسمان ہے ، اُڑنا ہی ہو گا

جب تک شیش محل ہیں ، پتھر پُوجے جائیں گے

 

اشکوں سے کچھ نم ، غم سے روشن رکھیے ان کو

روٹھ گئے تو پھر آنکھوں میں خواب نہ آئیں گے

 

ایک ذرا تعمیر تو ہولے ارمانوں کی نہر

دریا ریگستان سے بچ کر بھاگ نہ پائیں گے

 

قومی یکجہتی کی اینٹیں لینے آئے ہیں

گھر جا کر بٹوارے کی دیوار اُٹھائیں گے

 

پتھر کو پانی کر کے تخلیق دِکھائے گی

پانی کو بھاری کرنا نقاد سکھائیں گے

 

لگنے والی ہے آنگن میں بھیڑ چراغوں کی

آج مظفرؔ اپنے گھر کو آگ لگائیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

 

سُورج پہ کیسے آنکھ ٹھہرتی زمانے کی

مَلتا ہے منہ پہ خاک ترے آستانے کی

 

َسیلاب اس کو ڈھائے کہ نفرت اُسے جلائے

عادت سی پڑ گئی ہے ہمیں گھر بنانے کی

 

سچ بولنے لگے ہیں کئی لوگ شہر میں

دیواریں اُٹھ رہی ہیں نئے قید خانے کی

 

بے خواب رات ہو کہ شکنجے میں ہات ہو

کوشش تو ہم کریں گے ستارے اُگانے کی

 

اس بار لوٹ آئیں گے گھر ، جیتنے کے بعد

اب رسم توڑنی ہے سفینے جلانے کی

 

اِس رنگ میں ، تھرکتے ہوئے ، پھُول چوم کر

تتلی کو آرزو ہے ترے پاس آنے کی

 

کوئی عصا نہیں ہے مظفرؔ کے ہاتھ میں

دریا چڑھا ہوا ہے ،گھڑی پار جانے کی

٭٭٭

 

 

 

 

 

کب تک اُڑتی ، بیٹھ گئی

سرکش مِٹّی ، بیٹھ گئی

 

بستی میں آیا سیلاب

تُربت میری بیٹھ گئی

 

گھر اپنا تھا ، پہلو میں

کِس کی برچھی بیٹھ گئی

 

جتنی شاخیں پھلتی تھیں

اُن پر بجلی بیٹھ گئی

 

حاکم چپ ہیں ،ظالم خوش

آخر چوڑی بیٹھ گئی

 

طاق بنایا سینے میں

پھر تاریکی بیٹھ گئی

 

شعر مظفرؔ خُوب کہے

لیکن چھاتی بیٹھ گئی

٭٭٭

 

 

 

 

جسم کی ساری شادابیاں کیا ہوئیں ، خُون کی سب حرارت کہاں اُڑ گئی

تیری بِلّور دیواریں کب گر گئیں ، وہ ستاروں بھری چھت کہاں اُڑ گئی

 

وہ بھی دن تھے کہ زِنداں کی دیوار کو ، اپنے شہپر کا سایہ سمجھتے تھے ہم

اَب کہ اُڑنے کو موجود ہے آسماں ، پر ہلانے کی طاقت کہاں اُڑ گئی

 

بھائی کس مُنہ سے جا کر محبت کرے ، اس کی بہنوں کو رِشتے میسر نہیں

باپ کے دل میں بے روزگاری کا غم ، ماں کو حیرَت کہ برکت کہاں اُڑ گئی

 

ہر طرف گونجتی تھی صدائے جرس ، چل پڑے ہم بھی سُود و زِیاں بھول کر

پھر نہ سوچا کہ خوشبو کہاں لُٹ گئی ، کچھ نہ دیکھا کہ رنگت کہاں اُڑ گئی

 

اُن تناور درختوں سے قطعِ نظر ، جن کو آندھی نے اُلٹا دیا خاک پر

میری مِٹّی کو دیکھو جو پامال تھی ، حوصلے کی بدولت کہاں اُڑ گئی

 

ایک محروم جذبے نے انگڑائی لی ، چل پڑی پھر مظفرؔ کی طبعِ رواں

یوں بھی چکّر بگولے کے پیروں میں تھا ، اور یہ گردِ وحشت کہاں اُڑ گئی

٭٭٭

 

 

 

 

ہَوا کو شوق ڈبونے کا اِک زمانے سے

مگر سکون بھی ملتا ہے ڈُوب جانے سے

 

یہ سطحِ آب پہ بہتے چراغوں جیسے لوگ

کہ یہ تو اور خفا ہوتے ہیں منانے سے

 

لگا ہے شہر میں کرفیو تو اُن سے کیا مطلب

اُڑا ہے رنگ پرندوں کے چہچہانے سے

 

اُبل رہا تھا ہمارا لہو تماشے میں

اُچھل رہا ہے تمھارے قریب آنے سے

 

کسی بھی گھر کو لگے آگ ساری بستی میں

دھُواں اُٹھے گا ہمارے غریب خانے سے

 

ہمارے چاروں طرف تنگ ہو رہی تھی زمیں

ہمارا کام بنا آسماں گرانے سے

 

قلم کو تیز ، مظفرؔ ، غزل کو تیغ کرو

نہ باز آئے گی دُنیا تمھیں ستانے سے

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ دن سے موقع بے موقع آنسو پھُوٹ نکلتے ہیں

ضبط کرو تو خون کے قطرے دو دو ہاتھ اُچھلتے ہیں

 

جذبہ سیر نہیں ہو پاتا اور اُبل پڑتے ہیں شعر

بچّے ماں کی اُنگلی کھینچے آگے آگے چلتے ہیں

 

دِل پر یادوں کی دستک سے رات جواں ہو جاتی ہے

پھر چاند انگڑائی لیتا ہے تارے آنکھیں مَلتے ہیں

 

اِک چٹکی بھر پیار کرن سے جگمگ ہو جاتے ہیں شہر

نفرت کی اِک چنگاری سے لاکھوں کے گھر جلتے ہیں

 

ذرّہ ہوں ، اوقات میں رہ کر اِتنا تو کہہ سکتا ہوں

تم چڑھتا سورج ہو ، چڑھتے سورج ہی تو ڈھلتے ہیں

 

اندر لاوا کھول رہا ہے ، برف جمی ہے چوٹی پر

پربت سے جھرنے بہتے ہیں ، پربت آگ اُگلتے ہیں

 

جیسے غزلوں میں شامل ہو ہر پڑھنے والے کی سوچ

یہ فانوس مظفرؔ صاحب کیا کیا رنگ بدلتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

سب سے مہان مَیں ہوں ، بلند آسمان مَیں

بہکا رہے تھے آپ ، مگر بھائی جان ، مَیں

 

میرا لہو رگوں میں تمھارے لیے رواں

میری نماز تم ہو ، تمھاری اذان ، مَیں

 

تنکا ہوں ، آئے آگ دِکھائے کوئی مجھے

آندھی اُدھر کھڑی ہے ، اِدھر دھان پان ، مَیں

 

میری جبیں پہ خاک ترے آستانے کی

چھوڑ آیا کہکشاں پہ قدم کے نشان ، مَیں

 

بس ایک آنچ کی ہے کسر ، جل چکے ہیں پَر

اے میرے شب چراغ ، مرے مہربان ، مَیں

 

حاجت مرے بدن کو ترے خون کی نہیں

اے دوست لے رہا تھا ترا امتحان ، مَیں

 

مقطع مدد کو آئے مظفرؔ کنارے سے

گردابِ شعر چار طرف ، درمیان ، مَیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

بے پر و بالی میں سچ کہنا ہے

یا پَر و بال میں چپ رہنا ہے

 

تیز ہے نوک ہر اِک نیزے کی

سرفرازوں کو یہ دُکھ سہنا ہے

 

نِیو رکھنی ہے بہرحال ہمیں

اور دریا کو وہیں بہنا ہے

 

دفن کر دیجیے اس کو فوراً

اِس نے مشکل سے کفن پہنا ہے

 

چند سَو سال کے وقفے سے سہی

کِس عمارت کو نہیں ڈھنا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

چلو طُوفان کو لنگر اُٹھا کر دیکھ لیتے ہیں

رہا گرداب تو نزدیک جا کر دیکھ لیتے ہیں

 

ہمیں وہ ڈھونڈتا پھرتا ہے ساتوں آسمانوں میں

اُسے ہم آنکھ سے مِٹّی لگا کر دیکھ لیتے ہیں

 

خدا محفوظ رکھے اس محلّے کو تعصب سے

یہاں ہمسائے مجھ کو مسکرا کر دیکھ لیتے ہیں

 

سرافرازی کی یہ پہچان کتنی خوبصورت ہے

وہ پہلے سرکو نیزے پر گھما کر دیکھ لیتے ہیں

 

میاں بے وجہ تم کیوں ڈُوب جاتے ہو پسینے میں

اگر کچھ لوگ تم کو تیر کھا کر دیکھ لیتے ہیں

 

اِدھر سے ہوکے جائے جو طوافِ کعبہ کو جائے

تمھارے راستے میں گھر بنا کر دیکھ لیتے ہیں

 

مظفرؔ کو نہایت فکر ہے انجام کی ، چلیے

ندی میں ناؤ کاغذ کی بہا کر دیکھ لیتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

نعرہ زن ، ہاتھ میں تلوار، عدو ہے کہ اَخی

دیکھنا برسرِپیکار عدو ہے کہ اَخی

 

تاک میں لشکرِ دُشمن ہے کہ احباب مرے

گھات میں در پئے آزار عدو ہے کہ اَخی

 

جب سفر پر تمھیں جانا ہے تو پھر سوچنا کیا

آج کل قافلہ سالار عدو ہے کہ اَخی

 

کون برساتا ہے یہ تیر کمیں گاہوں سے

پشت پروار لگاتار ، عدو ہے کہ اَخی

 

زندگی اتنی زیادہ بھی نہیں مجھ کو عزیز

سامنے آنہ مرے یار! عدو ہے کہ اَخی

 

َلیس ہے تہمت و دشنام کے ہتھیاروں سے

اور زد پر مرا کردار، عدو ہے کہ اَخی

 

اے مظفرؔ ترے اشعار لہو میں تَر ہیں

سوچ پر خون کی بوچھار، عدو ہے کہ اَخی

٭٭٭

 

 

 

 

دریا کو اور کوئی بہانہ تو ہے نہیں

کہتا ہے چل کہ تیرا ٹھکانہ تو ہے نہیں

 

اب کہہ دیا تو بات نبھائیں گے عمر بھر

حالانکہ دوستی کا زمانہ تو ہے نہیں

 

لاوا سا کھولتا ہے سدا اندرونِ ذات

آتش فشانِ غم کا دہانہ تو ہے نہیں

 

دیوانہ ہے جو اُس سے توقع رکھے کوئی

آخر وہ رہنُما ہے ، دِوانہ تو ہے نہیں

 

تھوڑی سی روشنی ہے اسے جو بھی لُوٹ لے

جگنو میاں کے پاس خزانہ تو ہے نہیں

 

سب جائے حادثہ سے بہت دُور ہو گئے

زخمی کی چیخ کوئی ترانہ تو ہے نہیں

 

چبھ جائیں جانے کس کو مظفرؔ ہمارے شعر

اپنا بھی کوئی خاص نشانہ تو ہے نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اِس کو مرہم ، اُس کا غازہ میرے شعر

کھٹیّ میٹھے ، تازہ تازہ میرے شعر

 

میں دل سے باتیں کرتا ہوں لیکن رات

لکھتی رہتی ہے غمّازہ میرے شعر

 

پانی کر کے پتھر جیسے احساسات

کھولیں گے دل کا دروازہ میرے شعر

 

دریا دریا دو مصرعوں کے کُوزے میں

حَدبندی میں بے اندازہ میرے شعر

 

شامل رہتے ہیں دُنیا کے دُکھ سکھ میں

تیرے زخموں کا خمیازہ میرے شعر

 

جذبوں کا ٹکراؤ ، مظفرؔ، باطن میں

شعلہ و شبنم کا شیرازہ میرے شعر

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو دہشت گرد کہہ کر بے خطا پروار کرتے ہیں

زمانے کو بغاوت کے لیے تیار کرتے ہیں

 

ہمارے شہر میں جِدّت طرازی کا یہ عالم ہے

مسیحا تندرستوں کو یہاں بیمار کرتے ہیں

 

ہمیں بھی جان پیاری ہے ، مگر اتنی نہیں پیاری

یزیدِ وقت کی بیعت سے ہم انکار کرتے ہیں

 

اُٹھو لوگو ،زمانہ چال چلتا ہے قیامت کی

مؤذّن خوابِ غفلت سے تمھیں بیدار کرتے ہیں

 

یقیناً سیکڑوں کو آج بے گھربار ہونا ہے

سُنا ہے آج عالی جاہ پھر دربار کرتے ہیں

 

اگر خاموش رہتے ہیں تو سَر جاتا ہے کاندھے سے

ہماری جان جاتی ہے اگر تکرار کرتے ہیں

 

مظفرؔ ، زخم نشتر سے زیادہ قیمتی شئے ہے

جنُوں کی ناز برداری مرے اشعار کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

سب کی آواز میں آواز ملا دی اپنی

اس طرح آپ نے پہچان مٹا دی اپنی

 

ہم جو دو پل کے لیے بیٹھ گئے سائے میں

جل کے ہمسائے نے دیوار گرا دی اپنی

 

لوگ شہرت کے لیے جان دیا کرتے ہیں

اور اِک ہم ہیں کہ مٹّی بھی اُڑا دی اپنی

 

خود پہ حد درجہ ترس کھانے کا انجام ہے یہ

اس طرح آپ نے سب آگ بجھا دی اپنی

 

دلبری کا عجب انداز نکالا اُس نے

چاند کے پردے پہ تصویر بنا دی اپنی

 

میرے اشعار مظفرؔ نہیں مرنے والے

میں نے ہر شعر میں اِک چیخ چھپا دی اپنی

٭٭٭

 

 

 

 

 

بغاوت کا علَم کاندھے پہ سودا سَر میں رکھ دیتے

نہیں تھمتا اگر طُوفان میرے گھر میں رکھ دیتے

 

چمن بندی سلیقے سے نہیں کی آپ نے صاحب

کوئی قمری کوئی بھونرا بھی پس منظر میں رکھ دیتے

 

مجھے کیا فرق پڑتا ہے وہ صحرا ہو کہ دریا ہو

یہی شوریدگی ہوتی کسی پیکر میں رکھ دیتے

 

چمکتی ہے جو سُوکھی پتیوں میں اور کانٹوں پر

یہ چنگاری گلوں پر ، تتلیوں کے پَر میں رکھ دیتے

 

چھاکوں گُونجتا آفاق کا سرد آئنہ خانہ

مرے دل کی جگہ یہ غم اگر پتھر میں رکھ دیتے

 

سفر کو واقعی آرام دہ تم نے بنایا تھا

خرد مندو ذراسی نیند بھی بستر میں رکھ دیتے

 

مظفرؔ خوب کام آئی ہماری خانہ فرسائی

نہیں تو ہاتھ ہم بھی قبضۂ خنجر میں رکھ دیتے

٭٭٭

 

 

 

 

تھامی تو دونوں ہاتھوں سے پھر بھی نہیں تھمی

اُستاد تیرے سرپہ بھی پگڑی نہیں تھمی

 

احسان کرنے والے بہت ، شرمسار ہم

اِس درجہ سرنگوں تھے کہ گٹھری نہیں تھمی

 

ہم جیسے بے دماغ جلاتے رہے چراغ

شاید یہی سبب ہے کہ آندھی نہیں تھمی

 

لبریز ہو رہا تھا خرابی سے میں تمام

بھاری تھا ڈول ، سانس کی رسّی نہیں تھمی

 

اُس کو بھی ڈوبنے کا غضب اشتیاق تھا

سَیلاب چیختا رہا ،کشتی نہیں تھمی

 

تحت الثرّیٰ میں کوئی خوشی سے نہیں گیا

ڈھلوان راستے میں سواری نہیں تھمی

 

تنقید کہہ رہی تھی ، مظفرؔ بہت ہُوا

اِک آبشار تھا کہ روانی نہیں تھمی

٭٭٭

 

 

 

 

یہ نظارے چار دن کے ہیں

کھیل سارے چار دن کے ہیں

 

کہہ رہی ہے ہم سے کالی رات

چاند تارے چار دن کے ہیں

 

مور کی مانند کم پرواز

پر ہمارے چار دن کے ہیں

 

آبگینے ، چاندنی ، شبنم

استعارے چار دن کے ہیں

 

گھس رہی ہے ڈور سانسوں کی

ہم بھی پیارے چار دن کے ہیں

 

اے مظفرؔ ماسوائے درد

سب سہارے چار دن کے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ویرانی کو کم کرتے ہیں قریہ قریہ ، دریا دریا

َپیہم وحشت ہم کرتے ہیں قریہ قریہ ، دریا دریا

 

نرَغے میں وحشی کو لے کر ، جھرنے ، طُوفان اور بگولے

مِل جل کر ماتم کرتے ہیں قریہ قریہ ، دریا دریا

 

ندیاں ریگستانی ہم سے ، صحرا میں طغیانی ہم سے

آب و گل مدغم کرتے ہیں قریہ قریہ ، دریا دریا

 

برپا ہے طوفانِ محبت ، خشکی میں بھی پانی میں بھی

تقلیدِ آدمؑ کرتے ہیں قریہ قریہ ، دریا دریا

 

چار طرف ہنگامہ کیوں ہے خُون میں تر یہ خامہ کیوں ہے

سچ کے ہاتھ قلم کرتے ہیں قریہ قریہ ، دریا دریا

 

کچھ شیطان فرشتے بن کر نُورانی ملبوس پہن کر

مِٹّی پانی کم کرتے ہیں قریہ قریہ ، دریا دریا

 

َموجوں کو شمشیر بنا کر ، آندھی کا پرچم لہرا کر

خوب مظفرؔ رَم کرتے ہیں قریہ قریہ ، دریا دریا

٭٭٭

 

 

 

 

مقتل شباب پر ہے ، کسی کو اماں نہیں

خنجر کی دھار تیز بہت ہے ، میاں نہیں

 

تیرے نصیب میں ہے کنارا لکھا ہوا

کشتی خرید لی ہے تو دریا رواں نہیں

 

پہلُو بدل رہا ہے تڑپ کر زمانہ کیوں

یہ بھی ثبُوت ہے کہ غزل رائیگاں نہیں

 

غنچوں کا کیا قصور اگر کھل نہیں سکے

اپنی ہَوا سے پُوچھ کہاں ہے کہاں نہیں

 

میری زباں سے سن کے اِسے بے مزہ نہ ہو

تیری ہی داستاں ہے مری داستاں نہیں

 

کرتے رہیں گے عشق مظفرؔ ، بقولِ میرؔ

اِک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ریت اُڑاتی آنکھوں نے دی بوند بوند چنگاری

اب کے برکھا رت میں برسی بوند بوند چنگاری

 

غالب۱؎ نے پتھر کی رگ میں خُون رواں دیکھا تھا

میری رگ رگ میں ہے جاری بوند بوند چنگاری

 

غنچہ غنچہ گُونج رہا ہے شکوہ رنگ صدا کا

شبنم شبنم کِس نے بوئی بوند بوند چنگاری

 

اندھی راتوں میں کیا کرتے میرے ٹھنڈے آنسُو

چاند کرن اے کاش پروتی بوند بوند چنگاری

 

دریا دریا جنگل جنگل تم بھی وحشت کرتے

ہے پتّے پتّے میں آندھی بوند بوند چنگاری

 

موتی سا وہ جھلمل پانی وہ یخ بستہ موسم

میں ڈُوبا تو بنی جھیل کی بوند بوند چنگاری

 

سب مومی الفاظ مظفرؔ ، بے حس تھے گُونگے تھے

دِل کی آنچ مِلی تو نکلی بوند بوند چنگاری

۱؎ رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا

٭٭٭

 

 

 

 

خار ہی خار ہمارے آگے

تیرہ و تار ہمارے آگے

 

سرفرازوں کے قصیدے کی طرح

رَسن و دار ہمارے آگے

 

آسمانوں نے زمیں چومی ہے

سیکڑوں بار ہمارے آگے

 

چشمِ گریاں نے سمندر سے کہا

ڈِینگ مت مار ہمارے آگے

 

شعر کہتے ہیں ، تڑپ لیتے ہیں

تیر بیکار ہمارے آگے

 

ایک انبار گناہوں کا ہے

نیکیاں چار ہمارے آگے

 

دُور جانا ہے مظفرؔ ہم کو

اور دیوار ہمارے آگے

٭٭٭

 

 

 

 

تھوڑا سا اِلتفات ، میاں ، یار بادشاہ

دینے لگے ہیں زخم دھُواں یار بادشاہ

 

ہے کون دستگیر مرا آپ کے سوا

َسیلاب میں ہے قریۂ جاں یار بادشاہ

 

لازم ہے دل میں تیر کی مانند آئیے

اب جسم ہو گیا ہے کماں یار بادشاہ

 

سمجھے تھے جس کو زیست وہی نیست ، الاماں

اِتنا بڑا فریب ، فغاں ، یار بادشاہ

 

معلوم یہ ہوا کہ وہاں آپ ہیں مقیم

ہم نے کیا قیام جہاں ، یار بادشاہ

 

ایسی کوئی نگاہ کہ سر میں نہیں رہیں

اندیشہ ہائے سُود و زِیاں یار بادشاہ

 

یہ سوز یہ گداز مظفرؔ کے شعر میں

صحرا میں گونجتی ہے اذاں یار بادشاہ

٭٭٭

 

 

 

 

تن مِٹّی کی چادر میں ہو

سر دُشمن کے لشکر میں ہو

 

آگ لگی ہے بستی بھر میں

تم اب تک اپنے گھر میں ہو

 

ہم آرام نہیں کر پاتے

جیسے بچھو بستر میں ہو

 

ایک گِرَہ مرنے کا حیلہ

دل میں ہو یا شہپر میں ہو

 

ہم کو تو وحشت کرنی ہے

ذرّو ، تم کس چکر میں ہو

 

دو شرطیں بنیادی رکھّیں

غم دل میں ، سَودا سر میں ہو

 

دن میں ستّر شعر مظفرؔ

یا مصرع ہفتے بھر میں ہو

٭٭٭

 

 

 

 

یہ وہ ہیں جنھیں کام دھندہ نہیں

لہو چاہیے اِن کو ، چندہ نہیں

 

خدا جانے قاتل کہ مقتول ہے

کوئی نام کتبے پہ کندہ نہیں

 

نہ ڈر گرم بازاریِ مَوت سے

ّمحبت کا بازار مندہ نہیں

 

اگر اس نے جگنو بھی لوٹا دیے

سِتارے تو ایجادِ بندہ نہیں

 

ہمیں اِک نیا حوصلہ چاہیے

پُرانے عقیدوں پہ رَندہ نہیں

 

مظفرؔ کے لہجے نے ثابت کیا

غزل قافیوں کا پلندہ نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ہم تو جلتے ہیں یہاں رونقِ مجلس کے لیے

رات بھر اوس ٹپکتی ہے اُدھر کے لیے

 

دولتِ درد عطا کی ہے کرو سجدۂ شکر

کہ فرشتے بھی ترستے ہیں مِیاں اس کے لیے

 

باغ میں دیدۂ بینا کے لیے کافی رنگ

آپ روتے رہیں بے نوریِ نرِگس کے لیے

 

مجھ کو ہر شکل میں آتی ہے تری شکل نظر

اِک ترا نام بہت ہے مری فہرِس کے لیے

 

میں کہ ظلمت ہوں ، مجھے دیکھ نہیں پاتا وہ

چاند تاروں کو درخشندہ کیا جس کے لیے

 

اِتنا سچ راس نہیں آتا مظفرؔ صاحب

سرہتھیلی پہ لیے پھرتے ہو جِس تِس کے لیے

٭٭٭

 

 

 

 

یوں ملے آ کے دونوں دھارے بیچ

من و تو اب نہیں ہمارے بیچ

 

تو ازل تا ابد ہے ، میں بھی ہوں

اس کنارے سے اُس کنارے بیچ

 

کس پہ کھینچے ہے تیر قوسِ قزح

یہ تڑپتا ہے کون پارے بیچ

 

میں اُسے دیکھنے نہیں پاتا

اِک نظر ، سیکڑوں نظارے بیچ

 

اوس کی بوند میں جڑا ہوں میں

جھلملاتا ہے وہ ستارے بیچ

 

آپ میری نگاہ سے روشن

شعر کا حسن استعارے بیچ

 

قحطِ عشق آج بھی دمشق میں ہے

ایک ہندو نہیں بخارے بیچ

٭٭٭

 

 

 

 

مرتبے رنگ نے ، خوشبو نے ، ہَوا نے پائے

خار تھے ہم ، ترے نزدیک نہ آنے پائے

 

آج بستی میں بپھرتا ہوا سَیلاب آیا

کہ گھروں کو نہ کوئی آگ لگانے پائے

 

ہم بھی جاتے ہیں کلیجے سے لگائے غم کو

دیکھیے حال وہاں کون سنانے پائے

 

ہر قدم ساتھ رہا پاسِ ادب صحرا میں

گردِ وحشت بھی نہ جی بھر کے اُڑانے پائے

 

اُن سے کیا پوچھیے جو خاک میں آسُودہ ہیں

آسمانوں کو جھکاتے تھے ، جھکانے پائے

 

گل بھی کر دے مجھے آندھی تو نہ گھبرانا تُو

روشنی ! دیکھ ، مری بات نہ جانے پائے

 

شہر بھر میں نہیں اِک باغ مظفرؔ صاحب

غول چڑیوں کا جہاں شور مچانے پائے

٭٭٭

 

 

 

 

اتنی بڑی دنیا پئے تسخیر پڑی ہے

یاں پاؤں میں احساس کی زنجیر پڑی ہے

 

جگنُو سی چمکتی ہے ہر اِک بُوند لہو کی

ظلمات کی گردن پہ جو شمشیر پڑی ہے

 

اِک سانس بھی میں چین سے لینے نہیں پاتا

کیوں جان کے پیچھے مری تشہیر پڑی ہے

 

سینے میں جو خنجر کی طرح تیر گیا تھا

سرہانے اسی شخص کی تصویر پڑی ہے

 

یہ راز نہ پہنچے گا وراثت میں کسی تک

خط ہیں کہ مری سوختہ جاگیر پڑی ہے

 

ویسے تو سبھی خواب سنہرے تھے مظفرؔ

الٹی مرے ہر خواب کی تعبیر پڑی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ اس طرح خوشی کو مجسم اُٹھا لیا

جو مِل رہا تھا اس سے ذرا کم اُٹھا لیا

 

تقسیم ہو رہے تھے چمن میں گلِ مراد

میں نے بھی اِک نگینۂ شبنم اُٹھا لیا

 

بھاری تھا دوجہاں پہ مگر جھومتے ہوئے

نوکِ پلک پہ میں نے ترا غم اُٹھا لیا

 

شوریدگی کا حکم چلے گا زمانے میں

ذرّوں نے گردباد کا پرچم اُٹھا لیا

 

زخموں کے واسطے ہے نمکدان ہی بہت

میرے ستم ظریف نے مرہم اُٹھا لیا

 

اِک جھر جھری سی دُور تلک لی زمین نے

بچیّ نے شاخِ گل سے بندھا بم اُٹھا لیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

طوفان کھلکھلاتا ہے گرداب کھل گیا

دریا اُچھل رہا ہے مظفرؔ جو مِل گیا

 

احباب دے رہے تھے دلاسے کچھ اس طرح

انگُور آرہے تھے کہ پھر زخم چھل گیا

 

دیکھا تو اس کے پاس کوئی پنکھڑی نہ تھی

جو پھول کہہ رہا تھا مرا چاک سِل گیا

 

تم سے ملے تو جیسے تپکتا ہوا آبلہ

ہم اس گمان میں تھے کہ اب دردِ دل گیا

 

سینے میں ہر دلیر کے ناسُور پڑ گئے

بچیّ کی ایک چیخ سے میدان ہِل گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

جھول اُن کی ہمہ دانی میں نظر آتے ہیں

طاق وہ چرب زبانی میں نظر آتے ہیں

 

وضع داروں کی بہت قدر کرو ایسے لوگ

آج کل صرف کہانی میں نظر آتے ہیں

 

کوئی گستاخ پرندوں کو نہیں سمجھاتا

آشیاں رات کی رانی میں نظر آتے ہیں

 

آپ محفوظ کنارے سے تماشا دیکھیں

گھر سلگتے ہوئے پانی میں نظر آتے ہیں

 

اَمن کا جن کو پرستار کہا جاتا ہے

منہمک شعلہ بیانی میں نظر آتے ہیں

 

کیوں پُر اُمّید ہیں دنیا سے مظفرؔ صاحب

ایسے سپنے تو جوانی میں نظر آتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

سانس لی تھی کہ ہَوا بھر گئی غبّاروں میں

میں چمکتا ہوں کبھی چاند کبھی تاروں میں

 

اب کھلا گردشِ آفاق کا محور میں ہوں

عقل بیکار گھماتی پھری سیاروں میں

 

اِک تڑپتے ہوئے جھرنے سی مری بے صبری

دھُند جیسا کوئی پھیلا ہوا کہساروں میں

 

ہم نے ہر دور میں تعمیر کیے تاج محل

اور ہم روز چنے جاتے ہیں دیواروں میں

 

یہ زمیں روز نگلتی ہے طرح داروں کو

آج کل آپ کی گنتی ہے طرحداروں میں

 

مجھ پہ ارزاں تھی یہ دولت کہ قلم روشن تھا

خوب تقسیم کیا نور غزل پاروں میں

 

شہر در شہر مظفرؔ کی غزل پھیل گئی

نرس اُمّید جگاتی رہی بیماروں میں

٭٭٭

 

 

 

 

تقسیم کیا کرتا ہے اِک آبلہ پا رنگ

سرشار ملے خار تو شبنم کا اُڑا رنگ

 

ہر پھول کی جھولی تری خوشبو سے بھری ہے

غنچے کی کٹوری سے چھلکتا ہے ترا رنگ

 

کم ظرف حریفوں سے خدا جنگ نہ ڈالے

سورج کی شہادت پہ ستاروں میں بنٹا رنگ

 

ہر دامنِ سادہ پہ اُڑائی گئی بوچھار

ہاں خرچ ہوا خون مگر خُوب چلا رنگ

 

حلقوم بریدہ تھا، بدن رقص میں مصروف

محفل میں سوا اس کے کسی کا نہ جما رنگ

 

غزلیں بھی دکھاتی ہیں اثر سنگدلوں پر

پتھر پہ گھسی جانے سے لاتی ہے حِنا رنگ

 

تنقید اُنھیں مانے مظفرؔ کو نہ مانے

کیا کہتے ہیں اس باب میں فاروقی و نارنگ

٭٭٭

 

 

 

 

کِس لیے صحن میں دیوار ہے پوچھو اُن سے

کون بٹوارے پہ تیار ہے پوچھو اُن سے

 

جو بھی تحریک چلاتا ہے ملنساری کی

کیا وہ غالبؔ کا طرفدار ہے پوچھو اُن سے

 

دل دہلتا ہے مکانوں سے نکلتے ہوئے کیوں

ہَول کیسا سرِ بازار ہے پوچھو اُن سے

 

سانس لیتے ہیں تو نشتر سے اُتر جاتے ہیں

کیوں یہ ماحول دھُواں دھار ہے پوچھو اُن سے

 

بے گناہی کی سزائیں بھی ہوا کرتی ہیں

لاڈلا جن کا گرفتار ہے پوچھو اُن سے

 

کیا ہوئے طور طریقے وہ مدینے والے

وہ مہاجر ہے وہ انصار ہے پوچھو اُن سے

 

پھول جو نیزہ بہ نیزہ ہے مظفرؔ صاحب

پارسا ہے کہ گنہگار ہے پوچھو اُن سے

٭٭٭

 

 

 

 

کاٹے گی مہاجر کو قرینے سے کراچی

ہے دُور بہت دُور مدینے سے کراچی

 

اُنچاس برس گزرے مگر سیر نہ ہو پائی

خون اپنی ہی اولاد کا پینے سے کراچی

 

جو نصف صدی سے ہے کراچی میں مہاجر

شاداب اسی خون پسینے سے کراچی

 

تجھ پر ترس آتا ہے مہاجر ہو کہ انصار

خوش ہے ترے مرنے سے نہ جینے سے کراچی

 

ہاں دوست کے سینے پہ چلا دیتی ہے خنجر

دشمن کو لگا لیتی ہے سینے سے کراچی

 

اچھا ہے مظفرؔ کہ نکل جائے ہر اِک پھانس

معدوم ہوئی دل کے نگینے سے کراچی

٭٭٭

 

 

 

 

حقیقت ہے کہ خوش اخلاق ہو تم مہرباں تم ہو

مگر دل کے بڑے دشمن نصیبِ دشمناں تم ہو

 

سہارے کے لیے تنکا بنے ہم پاس ہی ہوں گے

ابھی تو پھول کی مانند دریا میں رواں تم ہو

 

ہمیں ہیں جو ازل سے کہکشانی گرد اُڑاتے ہیں

تمِھیں دیکھو ہماری خاکساری آسماں تم ہو

 

یہاں ٹھنڈی ہوا میں بھی بکس جاتے ہیں اکثر ہم

سُنا ہے آگ میں بھی پھول کھلتے ہیں جہاں تم ہو

 

ہمیں بھی پیاس لگتی ہے ہمیں بھی سانس لینی ہے

سمندر پر تمھیں قابو ہوا پر حکمراں تم ہو

 

اگر پیچھے پلٹتے ہیں تو پتھرا جائیں گے ہم بھی

عدو پر وار بھی ممکن نہیں ہے درمیاں تم ہو

 

تمھارا نام ہرسُو گونجتا ہے قریۂ جاں میں

مظفرؔ ایک صحرا اور صحرا کی اذاں تم ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

اوّل تو شخصیت ہی اِکہری لگی مجھے

پھر اس کی کوئی بات نہ گہری لگی مجھے

 

منبر پہ جیسے شیخ نہیں کوتوال ہو

یوں ہے کہ خانقاہ کچہری لگی مجھے

 

قسمت میں تھا انار کی مانند چھوٹنا

ایسا ہُوا کہ آگ سنہری لگی مجھے

 

میں اتنا کھُردرا بھی نہیں اپنی ذات میں

لیکن وہ کچھ زیادہ ہی شہری لگی مجھے

 

شہروں میں زیست کی ہے مظفرؔ کچھ اس طرح

صوفہ لگا مجھے نہ مسہری لگی مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

ساحل نے دیوار کھڑی کی کشتی نے منجدھار بنایا

آخر میں نے بھی جھلا کر چپو کو تلوار بنایا

 

ذرّے سے لے کر تارے تک سب کے راز اُتارے مجھ پر

خود اپنا ہی بھید نہ پاؤں اِتنا پراسرار بنایا

 

کل تک جس سے یارانہ تھا اب وہ اُن سے ہی ڈرتا ہے

دَم سادھے سوچا کرتا ہے شیش محل بیکار بنایا

 

میری سنتے اپنی کہتے میری دیدہ و دِل میں رہتے

لیکن تم نے اپنا مسکن سات سمندر پار بنایا

 

غزلوں پر غزلیں کہتا ہوں جذبہ تشنہ کا تشنہ ہے

وحشت کب رہنے دیتی ہے گھر پچیسوں بار بنایا

 

اِک ظالم کی دلداری پر ہنستا بھی ہوں روتا بھی ہوں

پہلے میری خاک اُڑائی پھر مجھ کو دلدار بنایا

 

دل کے سکّے کو ڈھالا ہے تم نے خوب مظفر صاحب

اس پہلو ویرانی رکھی اُس رخ پر بازار بنایا

٭٭٭

 

 

 

 

پھر سُنا جاتا ہے نخلستان صحرا ہوے گا

کانپتا بیٹھا ہے دیوانہ کہ اب کیا ہوے گا

 

تُو نے کس دل سے مٹایا نقش اس کا آئنے!

اُس کو تیری چشمِ حیرت نے بھی دیکھا ہوے گا

 

چاندنی سی جگمگی ہو گی جہاں وہ ہوئیں گے

ہوئیں گے ہم جس جگہ، بادل برستا ہوے گا

 

ہر کس و نا کس تو ہوسکتا نہیں رمز آشنا

زرد ہوں گے اُس نے جن پھولوں کو چُوما ہوے گا

 

سرد ہو جائے گا دل جیسے کوئی ٹھنڈا چراغ

ہم تو مر جائیں گے جس دن زخم اچھا ہوے گا

 

پاؤں سے کیوں خود بخود زنجیر لپٹی جائے ہے

کیوں بہکتی ہے ہَوا گلزار دہکا ہوئے گا

 

اِک ستارہ ٹُوٹ کر آیا مظفرؔ کی طرف

آپ نے شاید اُسے پیغام بھیجا ہوے گا

٭٭٭

تشکر: پرویز مظفر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید