فہرست مضامین
- چُنیدہ
- رباعیات
- حمد
- غزلیات
- کوئی شیشہ ہے کہ ہاتھ آ کر نہ شرمائے ہمیں
- ہنگامہ ہائے شعلہ و شبنم سفر سفر
- سُونے سُونے ہیں بام و در سب کے
- پانی پناہ دے نہ ہَوا راہ میں پڑے
- رفعتوں کا یہ سفر زینہ بہ زینہ کیسا
- َکٹ گیا ہاتھ ریکھا کی گہرائی سے
- موجۂ خوں تا کجا نیزہ اُچھالے جائے گا
- مت پوچھیے کہ راہ میں بھٹکا کہاں کہاں
- مرنا برحق ہے جب چھپ کر تیر چلائے تو
- کوئی مجھ سا نہیں ، نا قدر دانی دیکھنا میری
- میں تو چلتا ، مگر اے موجِ رواں جانے دے
- کون ہمارا سرکاٹے گا
- بانکپن چھوڑ دیا سرنے تو خم ہے وہ بھی
- یہ اضطراب دیکھنا یہ انتشار دیکھنا
- پھر برف کی چوٹی سے اُگی آگ مرے بھائی
- گردشِ پا سفر سفر پاؤں قرار میں نہیں
- تو یہ مرحلہ نہیں کام کا
- چراغِ صبح سا لرزے میں ہوں ٹھنڈی ہوا سے ہی
- پکار خود ہی ترے جسم و جاں سے آئی تھی
- جتنی متاعِ درد تھی ہم نے سمیٹ لی
- محنت کسی کی ، نام کسی کا ہُوا بلند
- دامن پھیلانے سے پہلے وہ بھی بہہ نکلا
- تاروں کے چلے تیر لگاتار ہمیں پر
- ہر گھر سلگ رہا ہے کدھر جائے گا دھُواں
- آندھی اولے طوفانوں کی باتیں مت سوچو
- ہم تو زندہ ہیں اُجالے کو اندھیرا مان کر
- شاہ رگ پر وہی درد کا ہات ہے
- آنگن آنگن دھُوپ کٹیلی اندر اندر چھاؤں
- تخت پر بیٹھتے ہی یہ پرچا لگا
- ڈان کو بہنا تھا وہ بہتا رہا
- خودی اچھی مگر اُس کا نتیجہ
- سیروں لہو بڑھا اِدھر اٹھتی کمان دیکھ کر
- کھل گیا تو سرپھری موجیں اُچھالیں گی تجھے
- میں نے کہا حیات کے کٹنے کا حل بتا کہ یُوں
- ہر طرف گرداب ہے یا موجِ خود سر اور ہم
- کھلی آنکھوں پہ رکھ لے ہات ، سوجا
- پتنگ جیسا نہ تھا زور دست و پا میں کوئی
- یہ تو برزخ ہے ، نہ شورش نہ سکوں ، آگے چل
- ستارہ ہے نیزہ سنبھالے ہوئے
- بلندیوں سے جو اپنے مکان کو دیکھا
- بچا ہے خون کم ، آہستہ بولو
- بھول میں صاحبقراں مارا گیا
- خدا کرے نکل آئے نئی زمین کوئی
- گردِ سفر ، لغزشِ پا دُور تک
- رات کہتی ہے کہ اب کون ادھر آئے گا
- طلسمِ جسم و ادا ، شعلۂ صدا کیا تھا
- دریا عرق عرق تھا کنارا دھُواں دھُواں
- مری بساط ہی کیا فکرِ نارسا کتنی
- خود سے موازنے کی جسارت نہ کرسکے
- حیران ہوں کہ جاؤں کدھر ، کس طرف نہیں
- بجھنے کو ہے چراغ ، ہوائیں نہ دیجیے
- جی ٹھکانے نہیں پاؤں چکّر میں ہے
- جھرنا بنے ہوئے ہو کوئی تم سے کیا ملے
- مشین عہدِ رواں کی خدا فریب فریب
- ارادہ نیک ہے میرا ، سرشت سے بد ہوں
- جھوٹ کہتے ہو کہ اُونچا ہے تمھارا آسماں
- اگر یہ سرد لاوا میرے اندر سے نکل آئے
- یہ معرکہ ہے بڑا صبر آزما بھائی
- ایک میرا دوست ، جس کا آخری دَم تھا لہُو
- دردِ سر ، دردِ سر ، بیستوں کم نہیں
- یہ جانتے ہیں کہ جائے اماں کہیں بھی نہیں
- ہم کو جو کہنا تھا طرزِ بے بدل میں کہہ دیا
- اجازت ملے میں چلا یا اخی
- نقشِ پا خون اگلتا ہے جہاں تک چلنا
- بڑھا ہوا ہاتھ پان جیسا
- سینے کے بَل گھسٹ کے سہی چل کسی طرح
- یادوں کے جگنو اُڑتے ہیں ، شامِ غم ہے
- وہ کمرے میں آنا شب کا
- چار سمتیں سوچتی ہیں اب کدھر جاتا ہے سایہ
- جہاں دُلہن کا سہرا بہہ رہا ہے
- فرات و کربلا سے پار ہو جا
- ہر اِک رت میں شکستہ آرزُو کا گھر ٹپکتا تھا
- تالاب سے نکل کے سمندر میں آ گیا
- چار سمتیں ہوں گی پگڈنڈی بدلتی جائے گی
- دامن دامن چاک صدف کا موتی موتی عریاں ہے
- فنکار پہ اب یورشِ آفات کہاں ہے
- ادھر آئیں جنھیں دعویٰ بہت ہے ہوشمندی کا
- آتے جاتے ہر دم ٹوکا کرتے تھے کھڑکی دروازے
- سفینہ سانس کا تھمتا نہیں روانی میں
- بھیڑیے اور اشتراک شدہ
- سفرِ امروز کا ہے ہم قدم فردا میں رکھتے ہیں
- سحر ہو رہی تھی ، ہوا تیز تھی
- مری ہستی کا پیچیدہ معمہ حل نہیں کرتا
- اِس طرف کانٹے ، اُدھر وحشت کا تلوا سُرخ ہے
- اقامت شہر میں دِل گاؤں میں ہے
- بوندوں بوندوں بڑھا سمندر
- بے سبب روٹھ کے جانے کے لیے آئے تھے
- ایسے نازک جذبے جن سے پتھر بولے چھن
- فسانہ چھیڑتی ہے شام اُس کا
- غم بہت ہوں ، خدا کم نہیں ہے
- ساتوں ہی آسمان پکارے ابھی نہیں
- بدن کی فصیلوں کو مسمار کر
- بادلوں کا سفر دیکھتے رہ گئے
- شہرِ تمنّا سے جنگل میں کیا کیا لے کر آتا ہوں
- سمتِ ممنوعہ بلاتی ہے کہاں جاتے ہو
- کرّۂ خاکی ہوں سیّاروں کے بیچ
- جَلا تُو کیسے ، بجھا کہاں سے
- پھر وہی صورت ، کہ میں نظریں جھکا کر رہ گیا
- سرسراتے ہیں یہاں مارِ قضا سنتے ہو
- اندھیرا چھٹا تو اُجالا ہُوا
- کوئی شاخ پھولوں سے خالی نہ تھی
چُنیدہ
حصّہ اوّل
مظفرؔ حنفی
رباعیات
آفت ہے یہ الحاد مظفرؔ صاحب
خودساختہ بے داد مظفرؔ صاحب
مشکل میں خدا کو یاد کرتے ہیں لوگ
ہم کس کو کریں یاد مظفرؔ صاحب
٭٭
گر خود کو سنبھالوں نہ میں آنسو کی طرح
یہ فن بھی ہے تاثیر میں جادو کی طرح
دن رات گھمائے مجھے صحرا صحرا
خوشبوئے سخن ، نافۂ آہو کی طرح
٭٭
بھڑکی ہوئی اِک مشعلِ غم رکھتا ہوں
شبنم کی طرح دیدۂ نم رکھتا ہوں
دُکھتی ہوئی رگ اپنی چھپا لے دنیا
مجبور ہوں کاغذ پہ قلم رکھتا ہوں
٭٭
اِک دل میں نہاں سیکڑوں غم رکھتا ہوں
شعلہ ہوں مگر آنکھوں کو نم رکھتا ہوں
دُنیا مرے زخموں پہ چھڑکتی ہے نمک
مجبور ہوں کاغذ پہ قلم رکھتا ہوں
٭٭
شعلہ ہے ، اُسے چوم رہا ہوں پھر بھی
خالی ہے سبو ، جھوم رہا ہوں پھر بھی
وہ مجھ سے گریزاں ہے ہوا کی مانند
پنکھے کی طرح گھوم رہا ہوں پھر بھی
٭٭
بادل تو جمائے تھے پہاڑوں پہ نگاہ
دریاؤں کو جانا تھا سمندر کی راہ
یوں حدّتِ صحرا کو پسینے آئے
گرتے ہوئے شبنم نے کہا بسم اللہ
٭٭
موسم کے تقاضے پہ ذرا سوچو نا
انجام ہے مطلع کا مکدّر ہونا
کھانے کی کوئی چیز اُگا لو پہلے
پھر شوق سے کھیتوں میں ستارے بونا
٭٭
کمرے میں سُبک رنگ بکھر جائیں گے
بے ساز کے نغمات سنائی دیں گے
بستر پہ مرے آ کے تماشہ دیکھو
چادر پہ کڑھے پھول مہک اُٹھیں گے
٭٭
میں دھار سے کٹ جاؤں گا دھیرے دھیرے
ذرّات میں بٹ جاؤں گا دھیرے دھیرے
ڈھلوان پہ بہنے میں ہے دریا کی موت
مخرج کو پلٹ جاؤں گا دھیرے دھیرے
٭٭
موتی نہ تھے دریا میں تو ہم کیا کرتے
آنسو ہی نہیں آنکھ میں ، غم کیا کرتے
ہاتھ آئے وہی کھوکھلے لفظوں کے صدف
گہرائی کی روداد رقم کیا کرتے
٭٭
تقدیر پہ الزام نہیں دھرسکتے
خاکے میں سیہ رنگ نہیں بھرسکتے
ہر لوح پہ تحریر ہے جینا ہے حرام
آواز لگا دو کہ نہیں مرسکتے
٭٭
ہاتھوں میں لیے تیغ وسناں بیٹھا ہے
ہمزاد نہیں دشمنِ جاں بیٹھا ہے
جس جا بھی متاعِ فکر لے کر بیٹھوں
لگتا ہے کوئی اور وہاں بیٹھا ہے
٭٭
محدود فضاؤں میں کدھر جاؤں میں
میں کہیں گھٹ کے نہ مر جاؤں میں
لازم ہے پر وبال سنبھالے رکھنا
ایسا نہ ہو آپے سے گزر جاؤں میں
٭٭
یکساں ہے مرے واسطے جینا مرنا
کیوں سرپہ پھر احسان کسی کا دھرنا
اے موت مرا ہاتھ نہ تھام ، آگے بڑھ
میں ڈوب رہا ہوں تو تجھے کیا کرنا
٭٭
سچ ہے کہ ابھی عمر پڑی ہے مجھ کو
دھُن زود نویسی کی بُری ہے مجھ کو
ڈرتا ہوں قلم کو بھی مرے چاٹ نہ جائے
احساس کی دیمک جو لگی ہے مجھ کو
٭٭
وحشت کی ذرا چوٹ پڑی ، ٹوٹ گئی
زنجیر کی ایک ایک کڑی ٹوٹ گئی
انگڑائی ابھی لی تھی رِہائی پاکر
اتنے میں وہ موتی کی لڑی ٹوٹ گئی
٭٭
جس روز بھی دھوکے سے چڑھا لیتا ہوں
احساس کی لَو اور بڑھا لیتا ہوں
اس طرح بہکتا ہوں کہ اپنے اوپر
شیطان سے لاحول پڑھا لیتا ہوں
٭٭
یہ موسمِ گل اور یہ لو کے جھکڑ
پر نُور فضاؤں میں یہ کالے اندھڑ
اس چاند کی چودہ کو لگا ہے کرفیو
چلنے لگی بندوق کہیں تڑ تڑ تڑ
٭٭
بھوکا تھا مگر چھوڑ دیا روٹی کو
کس ڈھنگ سے سمجھاؤں میں اپنے جی کو
غلّے کے تقاضے پہ اُلجھ کر آخر
ہمسائے نے پھر پیٹ دیا بیوی کو
٭٭
لفظوں میں نہ وسعت ہے نہ گرمی نہ عمق
ترسیل کو ہر گام پہ سو سو خندق
کہنے کو بہت ، اور کہا جائے نہ کچھ
جذبہ ہے کہ احساس میں پھولی ہے شفق
٭٭
ہر چند کہ فنکار کہا جاتا ہوں
میں وقت کے دریا میں بہا جاتا ہوں
کیا کیا نہ لکھا جائے گا میرے پیچھے
افسوس کہ محروم رہا جاتا ہوں
٭٭
سمٹے ہوئے کوزے میں سمندر جیسے
اِک تار میں گوندھے ہوئے گوہر جیسے
آموختہ پڑھتے ہوئے چنچل بچّے
پر جوڑ کے بیٹھے ہوں کبوتر جیسے
٭٭
حمد
بے کسوں کے لیے سہارا تُو
ڈوبتوں کے لیے کنارا تُو
ایک کے واسطے فرازِ صلیب
ایک کو طور کا نظارا تُو
بُو تری دامنِ صبا میں ہے
ہر شگوفے سے آشکارا تُو
ہم سے تیرے لیے کروروں ہیں
اور لے دے کے اِک ہمارا تُو
دِن میں راتوں کی یاد ہے تجھ سے
رات میں صبح کا ستارا تُو
اُس طرف ہولناک طوفاں ہے
اِس طرف نور کا منارا تُو
تھک گئے ہم گناہ کر کر کے
رحم کرتے ہوئے نہ ہارا تُو
ہے مظفرؔ تمام خواہشِ مرگ
زندگی کا ہے استعارہ تو
٭٭٭
غزلیات
کوئی شیشہ ہے کہ ہاتھ آ کر نہ شرمائے ہمیں
ہے کوئی پتھر کہ اپنا سرنہ یاد آئے ہمیں
دِل نہیں کہتا کہ اُس کا بھی کنارا ہے کوئی
ہم نہ مانیں گے سمندر لاکھ سمجھائے ہمیں
ختم ہونے کو نہیں آتا ہمارا ٹُوٹنا
ڈُوبنے والا ستارہ دیکھتا جائے ہمیں
فاصلہ کیسے گھٹے ، شرما رہا ہے وہ اُدھر
خود شناسی اِس طرف آئینہ دِکھلائے ہمیں
آندھیوں نے شاخ سے پہنچا دیا ساحل کے پاس
دیکھیے سیلاب کس منزل پہ پہنچائے ہمیں
کھل گیا عقدہ کہ خود مرنے سے ملتی ہے بہشت
وہ کرمفرما نہ اب ممنون فرمائے ہمیں
اے مظفرؔ اِس گھنی کالی گھٹا کو کیا کہیں
جو سرابوں کی طرح پانی کو ترسائے ہمیں
٭٭٭
ہنگامہ ہائے شعلہ و شبنم سفر سفر
پرچھائیاں ، تکان ، شبِ غم سفر سفر
ہر پیش رَو کا نقشِ کفِ پا مٹائیے
پھر گمرہی کے نام پہ ماتم سفر سفر
خوش آمدید کہتے ہوئے برگِ لب ملے
سایہ فگن ہیں گیسوئے پُر خم سفر سفر
ملتے رہے ہیں خاک میں رہرَو قدم قدم
اُونچا رہا غبار کا پرچم سفر سفر
لیکن ہلاکِ منزلِ مقصود کون ہے
میرے لیے سراب کا عالم سفر سفر
بے دست و پائی کا تو یہی اِک علاج ہے
آوازۂ جرس پہ دما دم سفر سفر
سرحد کا کچھ نشاں ہے نہ پہچان سمت کی
لوحِ طلسم کہتی ہے پیہم سفر سفر
بیٹھے کہیں تو ریت ہمیں چاٹ جائے گی
چلیے تو ایک چشمۂ زمزم سفر سفر
کچھ اور تیز گام ، مظفرؔ کچھ اور تیز
آتا ہے آبلوں سے لہو کم ، سفر سفر
٭٭٭
سُونے سُونے ہیں بام و در سب کے
میرے گھر کی طرح ہیں گھر سب کے
خوف یاروں سے کھائیے دِن میں
دیکھیے خواب رات بھر سب کے
کس قدر تیز چل رہی ہے ہَوا
ٹُوٹ جائیں گے بال و پر سب کے
ہے الگ سب سے راستہ اپنا
ہم نہیں ہوں گے ہم سفر سب کے
اور ہم سب کو سرفراز کرو
نیزہ نیزہ گھماؤ سر سب کے
اِس طرف بند ہے مری مٹھی
ہاتھ پھیلے ہوئے اُدھر سب کے
غور سے دیکھ اپنی تصویریں
پھیکے پھیکے سے ہیں کلر سب کے
٭٭٭
پانی پناہ دے نہ ہَوا راہ میں پڑے
ایسے مقامِ کرب و بلا راہ میں پڑے
جب طے کیا نظر نے ترے جسم کا سفر
لاکھوں طلسمِ ہوش ربا راہ میں پڑے
کیوں ڈگمگا رہے ہیں قدم بات بات پر
ایسا نہ ہو مکان ترا راہ میں پڑے
چاروں طرف پکارتا پھرتا ہوں یا اخی
اے کاش آج کوہِ ندا راہ میں پڑے
بڑھتے ہیں فتح یاب ہتھیلی پہ لے کے سر
روتے رہیں گے آبلہ پا راہ میں پڑے
تعمیل لازمی ہے اگر یاد وہ کریں
لیکن اگر خلیجِ فنا راہ میں پڑے
ہونٹوں پہ اپنے قفلِ خموشی لگاؤں گا
بتلائیو جو بابِ دُعا راہ میں پڑے
٭٭٭
رفعتوں کا یہ سفر زینہ بہ زینہ کیسا
خوَف سے پھیل گیا دیدۂ بینا کیسا
یہ جو ہالہ سا مرے گِرد ہے محرومی کا
اس انگوٹھی میں دمکتا ہے نگینہ کیسا
جی رہے ہیں کہ یہی شرط ہے مرنے کے لیے
سانس چلتی ہوئی تلوار ہے ، جینا کیسا
مجھ کو ہر موڑ پہ رہ رہ کے خیال آتا ہے
راہِ پر پیچ میں زُلفوں کا قرینہ کیسا
گفتگو حق پہ نہیں دخل تصوّف میں نہیں
بے محل تذکرۂ ساغر و مینا کیسا
چھین لی مجھ سے بصیرت نے عقیدت میری
بادبانوں نے ڈُبویا ہے سفینہ کیسا
اب میں کس طرح لکھوں اپنے سفر کی روداد
پیشِ تحریر ورق پر یہ پسینا کیسا
اے مظفرؔ اسے اشعار میں ڈَھل جانے دے
آنکھ تک آئے ہوئے خُون کو پینا کیسا
٭٭٭
َکٹ گیا ہاتھ ریکھا کی گہرائی سے
آنکھ جاتی رہی زُود بینائی سے
ایک تصویر سے دوسری میں نہ جا
فائدہ مت اٹھا میری تنہائی سے
بھیڑ میں میری پہچان جاتی رہی
کیا مِلا مجھ کو تیری شناسائی سے
چار سمتوں میں کوئی بھی رنجش نہ تھی
فاصلے بڑھ گئے دشت پیمائی سے
دوسروں کی عنایت سے مرنا غلط
کھود لے قبر اپنی خود آرائی سے
کیجیے اِک سفر پھر برائے سفر
اِک نئی راہ پھر آبلہ پائی سے
چونکہ کوتاہ نظروں کی بستی میں ہوں
خوف کھاتا ہوں خود اپنی اُونچائی سے
اے مظفرؔ طبیعت روانی میں رکھ
بہتے پانی کو خطرہ نہیں کائی سے
٭٭٭
موجۂ خوں تا کجا نیزہ اُچھالے جائے گا
وہ کب آئے گا جو سوئے کربلا لے جائے گا
درد کی خواہش کہ ہم آنکھیں نچوڑیں رات بھر
ضبط کہتا ہے صدف موتی بچا لے جائے گا
ہر قدم پر چار سمتوں کا تعیّن کس لیے
یوں ہی چلتا جا کہیں تو راستا لے جائے گا
موج آئے گی کوئی ، تجھ کو بہا لے جائے گی
ایک جھونکا آئے گا، مجھ کو اُڑا لے جائے گا
یوں بھی چن لے گا کوئی صاحبقراں آ کر ہمیں
بچ رہے تو پنجۂ ساحر اُٹھا لے جائے گا
گرد چہرے پر جمی ہے ، آنکھ پتھرائی ہوئی
زخم سُوکھے ہیں ، وہاں سوغات کیا لے جائے گا
اے مظفرؔ لاکھ تو ٹھپّہ لگا ہر شعر پر
دُزدِ فن تو آنکھ سے کاجل چرا لے جائے گا
٭٭٭
مت پوچھیے کہ راہ میں بھٹکا کہاں کہاں
روشن ہیں میرے نقشِ کفِ پا کہاں کہاں
تِریاق اپنے زہر کا اپنے ہی پاس تھا
ہم ڈھونڈھتے پھرے ہیں مداوا کہاں کہاں
لمحوں کے آبشار میں اِک بُلبُلہ ہوں میں
کیا سوچنا کہ جائے گا جھرنا کہاں کہاں
تکیے پہ محوِ خواب ، تہِ تیغ ہے کہیں
لَو دے رہا ہے شعر ہمارا کہاں کہاں
پَرسوختہ ہیں ، رات بڑی ، فاصلے بہت
لاکھوں چراغ ، ایک پتنگا کہاں کہاں
سائے میں بیٹھنے کی جگہ سوچتے ہیں ہم
پہنچا نہیں درخت کا سایا کہاں کہاں
چُوڑی کا ایک ریزہ چبھا تھا کہیں اُسے
میں ایک زخم چُوم رہا تھا کہاں کہاں
تھے ہر صدف میں اشکِ ندامت بھرے ہوئے
کاٹے گئے ہیں دستِ تمنّا کہاں کہاں
اِک گردِ باد ہے کہ مظفرؔ مری اَنا
مجھ کو اُڑائے گا یہ بگولا کہاں کہاں
٭٭٭
مرنا برحق ہے جب چھپ کر تیر چلائے تو
لاکھوں تیر انداز ہیں لیکن میرے سائے تو!
کمیابی پر شرمندہ ہیں سینے کے یہ پھول
میں چوٹیں کھا کر جیتا ہوں کیوں شرمائے تو
دشمن پیچھے سے آ لیں گے دھیمے چلنے میں
تیز چلوں تو ڈر لگتا ہے چھوٹ نہ جائے تو
پنکھ جٹا کر آتا ہوں میں دِھیرج سے لے کام
ایسے ہی کچھ بیٹھے رہیو جال بچھائے تو
یہ سکھ سپنا دیکھ رہا ہوں کتنے یُگ میں آج
دَم سادھے ہوں پھر جانے یاد آئے نہ آئے تو
میں سرتا پا لمس کی خواہش ، لو دیتا ہے خون
اور اُدھر میلا ہوتا ہے ہاتھ لگائے تو
میرے پیروں سے لپٹی ہے مریادا کی ڈور
سچ کہتا ہوں ، میں چاہوں تو بھاگ نہ پائے تو
جی بھرکر خوش ہولے جب تک مٹھی میں ہے رات
کل مجھ کو واپس جانا ہے ، لاکھ منائے تو
گھور اندھیرے میں نکلے گا اپنے گھر سے کون
بیٹھا ہے بیکار مظفرؔ دِیپ جلائے تو
٭٭٭
کوئی مجھ سا نہیں ، نا قدر دانی دیکھنا میری
خدا سے بھی خفا ہوں سرگرانی دیکھنا میری
ابھی تو برف جیسا ، سرفرازی کی فضا میں ہوں
معلّق آبشاروں میں روانی دیکھنا میری
خود اپنی باز گشتوں میں کسی کی کون سنتا ہے
مسلسل چپ ہوں ، شائستہ بیانی دیکھنا میری
اُڑا کر خاک ، میری خانہ ویرانی سمجھ لینا
اُٹھا کر قطرۂ شبنم ، نشانی دیکھنا میری
ہوائیں ریت کا پیغام صحراؤں سے لائی تھیں
سمندر نے کہا تشنہ دہانی دیکھنا میری
مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے چُور کر ڈالا
لکھا تھا آئینے پر ، لن ترانی دیکھنا میری
مظفرؔ میری غزلوں میں انھیں کے عکس ملتے ہیں
ہر اِک نامہرباں پر مہربانی دیکھنا میری
٭٭٭
میں تو چلتا ، مگر اے موجِ رواں جانے دے
جب مجھے دستِ تہِ سنگِ گراں جانے دے
توڑ دے سلکِ تعلّق مرے سائے تُو بھی
ڈھونڈھ لوں میں بھی کوئی جائے اماں جانے دے
ہاتھ مت روک ، گلِ زخم ہے نا آسودہ
اور کچھ دُور ابھی نوکِ سناں جانے دے
’’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘
اِس میں جاتا ہے اگر لطفِ زباں جانے دے
کربلا مجھ کو بلاتی ہے ، مری راہ نہ روک
ہاتھ آئی ہے بگولے کی عناں ، جانے دے
راہ تکتی ہے وہاں وادیِ ظلمت میری
دیکھ روشن ہے ابھی شعلۂ جاں جانے دے
تجھ کو اچھی نہیں لگتی جو مظفرؔ کی غزل
سر چڑھائیں گے اُسے غم زدگاں ، جانے دے
٭٭٭
مانگی تھی اِک کرن شبِ تنہائی کے لیے
اب روشنی عذاب ہے بینائی کے لیے
ہم گردبادیوں سے یہ اُمیّد ہے فضول
دریاؤں کی کمی ہے جبیں سائی کے لیے
حاضر ہے خُون آبلہ پایانِ شوق کا
تھوڑی سی دھول چشمِ تماشائی کے لیے
دَلدل گلے گلے ہے ، ستاروں کا اشتیاق
اندھی گپھا میں قید ہوں اُونچائی کے لیے
بے دست و پا بنا کے خلائے بسیط میں
بکھرا دیے ہیں رنگ تمنّائی کے لیے
کھوئے گئے ہم آپ ہی اپنی تلاش میں
فُرصت کہاں ہے بادیہ پیمائی کے لیے
َلوکس طرح گھٹاؤں یہ نافہ کہاں چھپاؤں
چلنے لگی ہَوا مری رسوائی کے لیے
تخلیق میں مگن ہوں ، مظفرؔ نہیں کوئی
میری طرف سے حاشیہ آرائی کے لیے
٭٭٭
کون ہمارا سرکاٹے گا
اپنا ہی خنجر کاٹے گا
آوارہ بادل بن برسے
جھیلوں کے چکّر کاٹے گا
لمبے کالے پنکھوں والی
جگنو تیرے پَر کاٹے گا
سوچ کے نیکی کرتا ہے وہ
بدلے میں ستّر کاٹے گا
بونے والے بھول رہے ہیں
فصلیں تو لشکر کاٹے گا
اندر والا ، اُونچے سر کو
اندر ہی اندر کاٹے گا
کچھ بھی ہوں دلّی کے کوچے
تجھ بن مجھ کو گھر کاٹے گا
طبعِ رواں ہے اور مظفرؔ
پانی سے پتھر کاٹے گا
٭٭٭
بانکپن چھوڑ دیا سرنے تو خم ہے وہ بھی
ہاتھ روکا تو لکیروں سے قلم ہے وہ بھی
ظرف میرا ہے جو شبنم سے بھی شرماتا ہوں
تشنگی ہے کہ سمندر ہو تو کم ہے وہ بھی
دِل کا یہ حال کہ ہر قطرۂ خُوں مصرعہ ہے
اور کاغذ کو یہ انکار کہ نم ہے وہ بھی
جستجو اپنی لیے پھرتی ہے ہر سمت مجھے
چاند کو دیکھ مرا نقشِ قدم ہے وہ بھی
چھت میں سوراخ کہ اندازِ نظر بالا ہو
دشت یاد آئے تو آنگن میں بہم ہے وہ بھی
اپنی حسّاس طبیعت کو کہاں لے جاؤں
کوئی مائل بہ کرم ہو تو ستم ہے وہ بھی
دفعتاً چونک پڑی سوئی ہوئی محرومی
یہ جو اِک بوند مسرّت کی ہے غم ہے وہ بھی
دیوتاؤں سے بھی دس ہاتھ بلندی پر ہے
اُس کو انساں نہ کہو پہلوئے ذم ہے وہ بھی
لوگ ہر شعر پہ طوفان اٹھا دیتے ہیں
آپ چپ ہیں تو مظفرؔ پہ کرم ہے وہ بھی
٭٭٭
یہ اضطراب دیکھنا یہ انتشار دیکھنا
سحر نہ ہو کہیں ذرا پسِ غبار دیکھنا
یہ خستگی کا فیض ہے کہ جس نے آنکھ موند کر
سکھا دیا مجھے بدن کے آر پار دیکھنا
شکست کھا چکے ہیں ہم مگر عزیز فاتحو!
ہمارے قد سے کم نہ ہو فرازِ دار دیکھنا
خود اپنے اِرد گرد جال بن کے اُڑ رہا ہوں میں
مری اُڑان دیکھنا ، مرا حصار دیکھنا
گزر گئی جو موج اس کی یاد ہی فضول ہے
مگر وہ اُس کا مڑکے مجھ کو بار بار دیکھنا
مرا خلوص دیکھنا کہ محوِ انتظار ہوں
اُسے بھلا چکا ہوں کیفِ انتظار دیکھنا
گھٹن مٹا رہا ہوں میں کٹی پھٹی زبان سے
کھلی فضا ملے تو میرا شاہکار دیکھنا
٭٭٭
پھر برف کی چوٹی سے اُگی آگ مرے بھائی
زنجیر ہلاتی ہے ہوا ، جاگ مرے بھائی
فردوس کی تخلیق میں اُلجھے ہیں ترے ہاتھ
لپٹا ہے مرے جسم سے اِک ناگ مرے بھائی
پرچھائیاں دم سادھے ہوئے رینگ رہی تھیں
گرتے ہوئے پتوّں نے کہا بھاگ مرے بھائی
فُرصت ہی کسے ہے کہ سنے پیار کے نغمات
تُو نے بھی کہاں چھیڑ دیا راگ مرے بھائی
آ اور قریب اور قریب اور قریب آ
باقی نہ رہے اور کوئی لاگ مرے بھائی
کہتے ہیں درِ توبہ ابھی بند نہیں ہے
اس بات پہ بوتل سے اُڑے کاگ مرے بھائی
کل تک تو مظفرؔ نے غزل اوڑھ رکھی تھی
اب کون سمیٹے گا یہ کھٹراگ مرے بھائی
٭٭٭
گردشِ پا سفر سفر پاؤں قرار میں نہیں
پھر یہ سزا کہ آفتاب میرے مدار میں نہیں
وہم و گماں نے آپ ہی کھینچ لیے ہیں دائرے
تنگ ہے آرزو کا ہاتھ ، زور حصار میں نہیں
وقت مجھے بکھیر کر کہتا ہوا نکل گیا
ایک شرار بھی تری مشتِ غبار میں نہیں
اپنے ہی خوں کی زد پہ ہوں ، یارو مجھے بچائیو
جائے اماں مرے لیے میرے دیار میں نہیں
آج بھی جھوٹ کے تلے خیر سے دن گزر گیا
آج بھی آپ کا گلو حلقۂ دار میں نہیں
سایوں سے سائے مل گئے ہونٹوں سے ہونٹ سل گئے
موقع بھی تھا کہ روشنی قُرب و جوار میں نہیں
ہے جو مظفرؔ آج کل ترچھی جناب کی اُڑان
آپ کو کیوں کریں شمار آپ قطار میں نہیں
٭٭٭
تو یہ مرحلہ نہیں کام کا
کوئی تیر ہے مرے نام کا
نہ لعین ہوں نہ شہید ہوں
نہ یزید کا نہ امام کا
مری لو بلند نہ ہوسکی
مرے سرپہ بوجھ تھا شام کا
مرے بازوؤں میں گرہ نہ دے
یہ خیال دانہ و دام کا
میں قتیل اس کی صدا کا ہوں
وہ نشانہ میرے کلام کا
ہے رواں غزل میں لہو مرا
مرے فن میں درد عوام کا
نہ بدن میں آگ نہ آنکھ تر
یہ صلہ ہے جذبۂ خام کا
٭٭٭
چراغِ صبح سا لرزے میں ہوں ٹھنڈی ہوا سے ہی
بھڑکتا ہوں خود اپنے دل دھڑکنے کی صدا سے ہی
خزانہ کب ملے گا عصرِ نو کے سِند بادوں کو
سفر کے زعم میں پتھر اٹھا لائے خلا سے ہی
زمانے میں کوئی اپنا نظر آتا نہیں مجھ کو
مری بیچارگی دیکھو شکایت ہے خدا سے ہی
کدھر جاؤں مجھے پہچاننے والے ہزاروں ہیں
َچھٹی حس کانپ اٹھتی ہے نگاہِ آشنا سے ہی
فنا کے غار سے بچ کر نکلنا غیر ممکن ہے
تمھارے پاؤں لغزیدہ رہے ہیں ابتدا سے ہی
مجھے گمراہ کہتے جاؤ لیکن قافلے والو
یہ سارے راستے نکلے ہیں میرے نقشِ پا سے ہی
سزا کا خوف تم کو تجربوں سے باز رکھتا ہے
غزل نے رنگ بدلا ہے مظفرؔ کی خطا سے ہی
٭٭٭
پکار خود ہی ترے جسم و جاں سے آئی تھی
نہیں تو مجھ میں یہ جرأت کہاں سے آئی تھی
ملی نہ اتنی بھی مہلت کہ اس کو پڑھ لیتا
کتاب میرے لیے آسماں سے آئی تھی
جب اپنی ناؤ کی تختی اُکھاڑتے تھے ہم
تو اِک عجیب صدا بادباں سے آئی تھی
ہماری فکر کی ہر موج خود منوّر ہے
ترے خیال کی لو کہکشاں سے آئی تھی
تمام شہر کو گھیرے میں لے لیا بڑھ کر
یہ آگ میرے شکستہ مکاں سے آئی تھی
کوئی شمار نہیں ڈائری میں پھولوں کا
ورق وہ چاک ہے خوشبو جہاں سے آئی تھی
پھر اس کے بعد کسی شعر میں مزا نہ رہا
لہو کی بوند مظفرؔ زباں سے آئی تھی
٭٭٭
جتنی متاعِ درد تھی ہم نے سمیٹ لی
چادر پھر اس کے دستِ کرم نے سمیٹ لی
لازم ہیں برگ و بار پہ لاؤں کہاں سے میں
ساری نمی تو دیدۂ نم نے سمیٹ لی
چلنے میں منہمک ہوں مجھے کچھ خبر نہیں
کتنی زمین نقشِ قدم نے سمیٹ لی
جب خاکدانِ دل سے رِہا کر دیا گیا
سب کائنات آتشِ غم نے سمیٹ لی
شہ رگ مری کھلی تھی سخی ہاتھ کی طرح
جو بُوند گر پڑی وہ قلم نے سمیٹ لی
لوگوں کے پاس دولتِ کونین ہے تو ہو
ّمٹھی میں ریت میرے بھرم نے سمیٹ لی
بے شک جہاں نمائی کرے گی مری غزل
جاگیر تھی کہ ساغرِ جم نے سمیٹ لی
٭٭٭
محنت کسی کی ، نام کسی کا ہُوا بلند
ذرّے سمٹ گئے تو بگولا ہُوا بلند
ٹھہرے تو ہر طرف سے ہَوا کھینچنے لگی
چلتے ہی آفتاب کا نیزہ ہُوا بلند
ایسا ہوا کہ دستِ طلب کھو گئے مرے
کچھ اِس قدر غبارِ تمنّا ہُوا بلند
منہ دیکھتے ہی قاز کا روغن ملا گیا
منہ پھیرتے ہی شورِ تبرّا ہُوا بلند
اس راستے کو آج مرا آخری سلام
پھر پیش رو کا نقشِ کفِ پا ہُوا بلند
احباب شرمسار ہیں اور نکتہ چیں خموش
مرنے کے بعد میرا ستارہ ہُوا بلند
نوبت بہ ایں رسید ، مظفرؔ غزل غزل
یعنی عصائے حضرتِ موٰسیؑ ہوا بلند
٭٭٭
دامن پھیلانے سے پہلے وہ بھی بہہ نکلا
میں بیچارا ڈھونڈ رہا تھا قطرے میں دریا
ٹانگ پسارے وہ اپنے کمرے میں لیٹا تھا
اس کی شہرت گھوم رہی تھی صحرا در صحرا
سارا خون نچوڑو تب ہو خواہش کی تکمیل
نو من تیل جٹا سکتے ہو ، ناچے گی رادھا
گردن نیچی کی تو اپنے اندر ٹُوٹا کچھ
جب اُوپر دیکھا تو کوئی تارا ٹُوٹ گیا
اس چھن چھن کا کیا مطلب ہے بتلا اے قاموس
آئینے سے پوچھا تھا یہ سایہ ہے کس کا
کیا چلتے گھنگھور گھٹا میں سوجھ نہ پائی راہ
چاروں جانب دَلدل تھی جب مطلع صاف ہوا
اُوپر تارے نیچے پیڑ جماہی لیتے ہیں
اونگھ رہی ہے رات مظفرؔ اب تو بھی سوجا
٭٭٭
تاروں کے چلے تیر لگاتار ہمیں پر
اَرّا کے گری رات کی دیوار ہمیں پر
نمرود کریں آگ کی بوچھار ہمیں پر
رحمت نہ کشادہ کرے گلزار ہمیں پر
آئندہ کے خدشات کا ہر وار ہمیں پر
بیتے ہوئے لمحات کی یلغار ہمیں پر
ہاں سینہ سپر ہم تھے اندھیروں کے مقابل
چلتی رہی خورشید کی تلوار ہمیں پر
ہاتھوں کی لکیروں نے بُنا جال ہمارا
اپنے ہی جواں خون کی پھٹکار ہمیں پر
مستول پہ لہرا کے ہمیں ناؤ چلائیں
بپھری ہوئی آندھی کی کڑی مار ہمیں پر
یاروں کے لیے ہم تو صلیبوں سے نہ جھجکے
یاروں نے مگر کھینچ دیے دار ہمیں پر
چبھتی ہے کرن آ کے تو سینے میں ہمارے
گرتی ہوئی شبنم ہے گراں بار ہمیں پر
تخلیق کی دھُن میں کبھی سوچا نہ مظفرؔ
برسائیں گے شعلے یہی اشعار ہمیں پر
٭٭٭
ہر گھر سلگ رہا ہے کدھر جائے گا دھُواں
گھٹ گھٹ کے اپنے آپ ہی مر جائے گا دھُواں
لب سی دیے گئے تو لہو دے رہا ہے لَو
لوکٹ گئی تو لے کے خبر جائے گا دھُواں
گرنے دو برف ، آگ نہ سلگاؤ اس جگہ
دیوار و در خراب نہ کر جائے گا دھُواں
اتنا بھی احتجاج سے رکنا نہ چاہیے
ورنہ ترے بدن میں اُتر جائے گا دھُواں
میری کشادگی پہ سمندر کرے گا رشک
میری گھٹن کو دیکھ کے ڈر جائے گا دھُواں
بارود چیختی ہے ابھی کان بند رکھ
پلکیں نہ کھول ، آنکھ میں بھر جائے گا دھُواں
پیکر تراشتا ہے دھُواں چپ رہو ذرا
چٹکی بجاؤ گے تو بکھر جائے گا دھُواں
٭٭٭
آندھی اولے طوفانوں کی باتیں مت سوچو
اب ہم نے پر کھول دیے ہیں ہونے دو جو ہو
اوپر نیچے ، آگے پیچھے ، آزو بازو روک
چنتا کی لچھمن ریکھاؤ ، آگے جانے دو
کیوں اوڑھے بیٹھے ہو بیتے دن کا پشچاتاپ
بھور ہوئے یُگ بیت چکا ہے ، کھڑکی تو کھولو
اس کلجگ میں گھر کی لنکا ڈھانی ہو گی رام
پہلے خود اپنے اندر کے راون کو مارو
دھرتی کی بھی آخر کوئی سیما ہوتی ہے
میری فوجوں نے تنگ آ کر گھیر لیا مجھ کو
پگڈنڈی تو ہاتھ ہلا کر نیچے کود گئی
ّپتھر بن جانے کا ڈر ہے پیچھے پلٹے تو
گھائل کی گت گھائل جانے اور نہ جانے کوئی
لایا ہے رومال مظفرؔ دیکھ کبیراؔ رو
٭٭٭
ہم تو زندہ ہیں اُجالے کو اندھیرا مان کر
تم بھی استعمال کرنا روشنی کو چھان کر
رات کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکا کیا
صبح نے ٹھوکر لگائی مجھ کو پتھر جان کر
سوچتے ہیں کیا کریں گے ہم کہ تھوڑی دیر میں
دشت بھی سوجائے گا کہرے کی چادر تان کر
پیاس کی شدّت سے ہونٹوں پر جمی ہے ریت سی
آبِ دریا بھاگ جاتا ہے مجھے پہچان کر
سرحدوں پر سرٹپکتی ہے مری لاسمتیت
وسعتِ ارض و سما مشکل مری آسان کر
میری آنکھوں پر چھٹی حس زنگ بن کر جم گئی
بھائی میرے جا ، کسی آئینے کو حیران کر
لفظ و معنی مل گئے ترسیل سے جس رنگ میں
اے مظفرؔ ختم ہے وہ رنگ تجھ پر آن کر
٭٭٭
شاہ رگ پر وہی درد کا ہات ہے
آج پھر چاند کی چودھویں رات ہے
کچھ سبکساریاں ، کچھ طرح داریاں
میری بیچارگی میں بھی اِک بات ہے
شاہِ شطرنج پیچھے ہٹا لیجیے
اِس طرح ایک ہی چال میں مات ہے
دیکھتے ہیں پلٹ کر جو ماضی کو ہم
دُور تک منتشر گردِ حالات ہے
اُس کی پہچان کے مختلف روپ ہیں
آپ سے کس طرح کی ملاقات ہے
لامکاں سے پرے ایک ہی جست میں
یہ مری گمرہی کی کرامات ہے
کچھ دھُندلکا سا ہے بستیوں کی طرف
کون جانے دھُواں ہے کہ برسات ہے
رقص کرنے لگے قطرہ ہائے لہو
زخمِ تازہ کی خاطر مدارات ہے
کیا بتاؤں کسے ڈھونڈتا رہ گیا
جس طرف دیکھتا ہوں مری ذات ہے
زخم بخشے گئے ہیں مظفرؔ تمھیں
سب کے دامن میں پھولوں کی سوغات ہے
٭٭٭
آنگن آنگن دھُوپ کٹیلی اندر اندر چھاؤں
دروازے سے لوٹ گئی شرمندہ ہو کر چھاؤں
سینے کے بل رینگ رہے ہیں کاش ہمیں مل جائے
ایک ہَوا کا ٹھنڈا جھونکا یا مٹھی بھر چھاؤں
اور کریں کیا ہم بیچارے سائے جیسے لوگ
چھت گیری سی تان رکھی ہے اپنے اُوپر چھاؤں
نخلستاں نے چوس لیا جب میرا سارا خون
تب میرے حصّے میں آئی کالی بنجر چھاؤں
تصویروں نے تیاگ دیے ہیں اپنے سارے رنگ
بادل جیسی ڈول رہی ہے منظر منظر چھاؤں
مایوسی کے اس جنگل میں جائیں تو کس اور
بھاگی دھُوپ چھڑا کر دامن لوٹ گئی گھر چھاؤں
بند کیے کھڑکی دروازے گھر میں بیٹھا ہوں
سورج میری مٹھی میں ہے بھٹکے دَر دَر چھاؤں
سات سمندر پار کھڑی آئینہ جیسی دھُوپ
پاس لگے پر ہاتھ نہ آئے ایسی پتھر چھاؤں
شیش چڑھاؤں سینے سے لپٹاؤں یا روندوں
باون گز کا قد ہے میرا ہاتھ برابر چھاؤں
فن سے اس کی وہ نسبت ہے جیسے جل میں مین
شعر مظفرؔ کا پیکر ہے اور مظفرؔ چھاؤں
٭٭٭
تخت پر بیٹھتے ہی یہ پرچا لگا
تیغ کو بھائی کا خون میٹھا لگا
بیکرانی ہماری نگاہوں میں تھی
جس سمندر کو دیکھا وہ قطرہ لگا
خیریت کہہ کے اتنا بتا دیجیو
ڈُوبتا ہوں کنارے سے جب آ لگا
َ
موت آئی تو رومانیت مر گئی
اس کا مکھڑا بھی دیکھا ہُوا سا لگا
ورنہ بستی نگاہوں سے کھا جائے گی
اپنے چہرے پہ کوئی مکھوٹا لگا
سخت لہجہ مگر بات بھیگی ہوئی
دوست کا خط مجھے شعر اپنا لگا
گر پڑیں گے معانی ، لغت تان دے
بھاگ جائیں گے الفاظ ، چشمہ لگا
فون سے گرم باتیں اُبلتی ہوئی
تار کو چھو کے دیکھا تو ٹھنڈا لگا
آڑی ترچھی زمینوں میں فکرِ سخن
اے مظفرؔ تجھے خوب چَسکا لگا
٭٭٭
ڈان کو بہنا تھا وہ بہتا رہا
ریڈیو کچھ اور ہی کہتا رہا
پھول سے جذبات مرجھائے رہے
میں شناسائی کے دُکھ سہتا رہا
رات بھر سنتے رہے ہم آنکھ سے
چاند اپنی داستاں کہتا رہا
سُرخیوں پر سُرخیاں جمتی گئیں
خامہ و سر سے لہو بہتا رہا
ابرِ گوہر بار نے مارا مجھے
دھُوپ کی یلغار تو سہتا رہا
٭٭٭
خودی اچھی مگر اُس کا نتیجہ
وہی نیزے پہ سر اُس کا نتیجہ
نکل آئے مری شہرت کے شہپر
پھرائے دربدر اُس کا نتیجہ
اُسی سے عشق کرنے جا رہا ہوں
اُسی سے پوچھ کر اُس کا نتیجہ
سڑک پر بے خبر سوئے ہوئے تھے
پھر اِک تازہ خبر اُس کا نتیجہ
صداقت بر سرِ منبر ، حماقت
فرازِ دار پر اس کا نتیجہ
چلا پھر آئینے سے ایک پتھر
اِدھر وہ ہے اُدھر اُس کا نتیجہ
کسی کے واسطے رونا بُرا ہے
نہ بھول اے چشمِ تراس کا نتیجہ
مظفرؔ اوڑھ کر تازہ زمینیں
بھُگتیے رات بھر اُس کا نتیجہ
٭٭٭
سیروں لہو بڑھا اِدھر اٹھتی کمان دیکھ کر
اِس طرف آنکھ میں چمک سُوکھی زبان دیکھ کر
سُرخ زمین تھی وہاں ، رات مکین تھی وہاں
تیز گزر گئی ہَوا ، میرا مکان دیکھ کر
کائی کی تہہ میں موج کی موت پہ غمزدہ نہیں
خوش ہیں سبھی تماش بیں پانی پہ لان دیکھ کر
زندہ دِلوں پہ رائفل شوق سے قہقہے لگائے
اور قریب آ گیا شیر مچان دیکھ کر
ایسے بھی ہیں کئی کہ جو رنگ مرا اُڑا گئے
کچھ نے بدل دیا بیان میرا بیان دیکھ کر
بھیڑ سے بچ کے ہولیا میں جو مظفرؔ اِک طرف
مجھ پہ جھپٹ پڑے عقاب ترچھی اُڑان دیکھ کر
٭٭٭
کھل گیا تو سرپھری موجیں اُچھالیں گی تجھے
ورنہ دیواریں صدف کی پیس ڈالیں گی تجھے
اے خودی کے دلربا عفریت ، میری خامیاں
آستیں میں سانپ کی مانند پا لیں گی تجھے
تُو خود اپنی ذات میں اِک انجمن ہے ، بھول جا
پھر تری تنہائیاں خود ہی منا لیں گی تجھے
ڈولتی ہیں تیرے گھر میں ہر طرف پرچھائیاں
کل یہی پرچھائیاں باہر نکالیں گی تجھے
آندھیاں ہی توڑ پھینکیں گی کسی دن شاخ سے
پھر وہی آ کر کلیجے سے لگا لیں گی تجھے
جھرّیاں تو مٹ نہ جائیں گی ترے چہرے سے یار
کچھ حسینائیں جو البم میں سجا لیں گی تجھے
اے مظفرؔ ایک دن مرنا تو برحق ہے مگر
َموت کی زد سے تری غزلیں بچا لیں گی تجھے
٭٭٭
میں نے کہا حیات کے کٹنے کا حل بتا کہ یُوں
بولا زبانِ حال سے بجھتے ہوئے دِیا ، کہ یُوں
پوچھا کہ قیدِ سنگ سے چھوٹے شرار کس طرح
پھول بکھر گیا کہ یوں ، چلنے لگی ہوا کہ یُوں
شاخ سے گرکے وا کیا عقدۂ مرگ و زیست جب
پتوّں کو گرد باد نے سر پہ اٹھا لیا ، کہ یُوں
کیسے سفر کرے کوئی ، ہو جو عروج میں جمود
سر کو جھکا کے آبشار صاف نکل گیا کہ یُوں
بھول چکے تھے ہم سفر پیش روؤں کا احترام
توڑ دی میں نے چوم کر بندشِ نقشِ پا کہ یُوں
آخرش آئی داستاں ، جھیل میں خود کشی کے پاس
رات نے آنکھ موند لی ، چاند نے جب کہا کہ یُوں
٭٭٭
ہر طرف گرداب ہے یا موجِ خود سر اور ہم
آج کل ہے ذات کا گہرا سمندر اور ہم
َکھل گیا سب کو ہمارا آئینے جیسا وجود
ہر تماشائی کے ہاتھوں میں ہے پتھر اور ہم
جسم میں شہہ رگ ہماری یوں کھٹکتی ہے کہ بس
کیسے ہم رِشتہ ہوئے ہیں نوکِ خنجر اور ہم
وسعتیں آواز دیتی ہیں کہ موقع ہے یہی
حسرتِ پرواز ہے ، ٹُوٹے ہوئے پر اور ہم
آمدِ محبوب پر غالبؔ کی حیرت یاد ہے
یہ بھی قدرت ہے خدا کی ، آپ کا گھر اور ہم
آنسوؤں کا ہر خزانہ لُٹ گیا ، یادش بخیر
تھے کبھی ہمراز و ہمدم ، دیدۂ تر اور ہم
تجرباتِ باہمی سے جوڑ لیتے ہیں غزل
رات کو مِل بیٹھتے ہیں جب مظفرؔ اور ہم
٭٭٭
کھلی آنکھوں پہ رکھ لے ہات ، سوجا
بہت کم رہ گئی ہے رات ، سوجا
ابھی تو سینکڑوں باتیں پڑی ہیں
مگر سوبات کی اِک بات ، سوجا
جہاں لاکھوں ستارے جل بجھے ہوں
وہاں کیا ہے تری اوقات ، سوجا
گری پھر بوند پیشانی پہ آ کر
مقدّر میں ہے یہ برسات ، سوجا
کسے فرصت مشینوں کے نگر میں
سُنے گا کون یہ نغمات ، سوجا
تجھے تنہائی کا احساس کیوں ہے
کہ تنہا ہے خدا کی ذات ، سوجا
بالآخر بے حسی آلے گی تجھ کو
چھپا کر اپنے احساسات ، سوجا
نہ سوچو کچھ تو غم کوئی نہیں ہے
نہیں تو سیکڑوں آفات ، سوجا
مظفرؔ صبح دم پھر جاگنا ہے
غزل پر بھیج کر صلوات ، سوجا
٭٭٭
پتنگ جیسا نہ تھا زور دست و پا میں کوئی
مگر ہمیں بھی اُڑاتا رہا ہَوا میں کوئی
بدن کے غار میں جگنو سا کیا چمکتا ہے
چھپا ہوا ہے کہیں گنبدِ اَنا میں کوئی
تو کیوں فرات میں سُرخی نظر نہیں آتی
اگر حسینؓ ہے اطرافِ کربلا میں کوئی
فریب کھائے ہیں اپنی تلاش میں کیا کیا
فرازِ طور پہ پہنچا کوئی ، حرا میں کوئی
ہر ایک شخص مجھے آئینہ دکھاتا ہے
نہیں ہے سنگ مرے دستِ نارسا میں کوئی
لہو کی دھار پہ بہتے چلے گئے سب لوگ
قدم جما نہ سکا راہِ ارتقا میں کوئی
مرے تئیں تو مظفرؔ غزل غزل ہی نہیں
اگر خیال نہ ہو ندرتِ ادا میں کوئی
٭٭٭
یہ تو برزخ ہے ، نہ شورش نہ سکوں ، آگے چل
پھر پڑی روح پہ اِک ضربتِ خوں آگے چل
آندھیاں ہاتھ ہلاتی ہیں ، ادھر مت آنا
اُس طرف سے متقاضی ہے جنوں ، آگے چل
تند و منہ زور ہَواؤں پہ کسی کی نہ چلی
مجھ سے اِصرار بہ ایں حالِ زبوں ، آگے چل
جاں بہ لب وادیِ ظلمت کے قریب آ پہنچا
اب تو سایہ بھی نہیں ہے کہ کہوں آگے چل
دھُوپ شبنم کے لیے لائی سمندر کا پیام
آبِ دریا نے کہا جھوم کے ، یوں آگے چل
موجِ ساحل پھر اِک آئی کہ ابھی اچھّا ہے
کیسے گرداب کو مایوس کروں ، آگے چل
سراُٹھاتے ہی زمینوں نے کہا ، یہ کیا ہے
آسماں چیخ پڑے ، سربہ نگوں آگے چل
تیری بستی میں سبھی کو ہے شکایت مجھ سے
میں پریشان ہوں کس کس کی سنوں آگے چل
ہستیِ تیز قدم جا مجھے سستانے دے
اور کب تک میں ترے ساتھ چلوں ، آگے چل
٭٭٭
ستارہ ہے نیزہ سنبھالے ہوئے
اندھیرے زبانیں نکالے ہوئے
اُدھر ریگزاروں پہ شبنم گری
یہاں میرے سینے پہ چھالے ہوئے
مکینوں کا دم گھونٹ کر رکھ دیا
مکانات مکڑی کے جالے ہوئے
کھلی چھت پہ کل چاند ٹہلا کیا
مرے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے
ہزاروں بنے اہرمن کا ہدف
بقیّہ خدا کے حوالے ہوئے
مزے لے کے تنقید چٹ کر گئی
مرے شعر بھی تَر نوالے ہوئے
مظفرؔ ہماری نظر جل بجھی
بیک وقت اِتنے اجالے ہوئے
٭٭٭
بلندیوں سے جو اپنے مکان کو دیکھا
پلٹ کے پھر نہ کبھی آسمان کو دیکھا
تو اپنا ساتھ وہیں چھوٹ جائے گا یارو
اگر کسی نے قدم کے نشان کو دیکھا
اُلٹ پلٹ کے ہر اِک زاویے سے موجوں نے
قطب نما کو کبھی بادبان کو دیکھا
لگائے آنکھ فراتِ سراب سے کوئی
کسی کی تشنہ لبی نے کمان کو دیکھا
بتائے دیتا ہوں پتھر ہیں میرے ہاتھوں میں
جس آئنے نے مرے مہربان کو دیکھا
مرا شمار ہے لغزیدہ سنگ میلوں میں
غبار نے مری ترچھی اُڑان کو دیکھا
وہ قتلِ عام جسے نقدِ شعر کہتے ہیں
غزل کے باب میں چنگیز خان کو دیکھا
زمیں ہے تنگ مظفرؔ مرے زمانے میں
سبھی بلاؤں نے ہندوستان کو دیکھا
٭٭٭
بچا ہے خون کم ، آہستہ بولو
مری گردن ہے خم آہستہ بولو
اُدھر لشکر پڑا ہے بے حسی کا
پسِ دیوارِ غم ، آہستہ بولو
اُگا ہے چاند جذبے کے اُفق پر
دھڑکتا ہے قلم ، آہستہ بولو
اگر ہمدرد بننا چاہتے ہو
تو از راہِ کرم ، آہستہ بولو
نہیں ، ہم نقشِ فریادی نہیں ہیں
بکھر جائیں گے ہم ، آہستہ بولو
صدا کا زنگ لگ جائے گا دل کو
یہ آئینہ ہے نم ، آہستہ بولو
مظفرؔ کو زباں نے مار ڈالا
مظفرؔ کی قسم ، آہستہ بولو
٭٭٭
بھول میں صاحبقراں مارا گیا
تب تو ہر خورد و کلاں مارا گیا
بین کرتی ہیں ہَوائیں دشت میں
آج پھر اِک بے نشاں مارا گیا
چاند پر پھینکی تھی دھرتی نے کمند
دوستی میں آسماں مارا گیا
رہ گیا ہر نقش پا دم سادھ کر
کارواں کا کارواں مارا گیا
اس کی الماری میں ’’پانی کی زبان‘‘
پھول سے چنگیز خاں مارا گیا
ہائے کوئی میرا قاتل بھی نہیں
وائے میں ، جو نوجواں مارا گیا
کچھ مظفرؔ کا پتہ ہے دوستو
کس لیے ، کیسے ، کہاں مارا گیا
٭٭٭
خدا کرے نکل آئے نئی زمین کوئی
تمام شہر میں باقی نہیں حسین کوئی
اب اور ہاتھ کشادہ نہ کر تمنّا کے
نکل نہ جائے سرے ہی سے آستین کوئی
وفورِ خوف سے فریاد بھی نہیں کرتے
ہمارے گھر سے چرا لے گیا یقین کوئی
جسے بھی دیکھیے اکھڑا ہوا سالگتا ہے
معاشرہ ہے کہ بگڑی ہوئی مشین کوئی
جھلک نہ جائے کہیں روشنی چھپاؤ اسے
ہماری سمت لگائے ہے دوربین کوئی
کہاں شمار مظفرؔ کا خاص لوگوں میں
جہاں عظیم ہے کوئی تو بہترین کوئی
٭٭٭
گردِ سفر ، لغزشِ پا دُور تک
کوئی تماشائی نہ تھا دُور تک
کام کی اِک بات نہ کی راہ میں
چاند مرے ساتھ چلا دُور تک
جانے وہ نشتر تھا کہ غم لہر تھی
خون میں کچھ تیر گیا دُور تک
شہرِ تمنّا کی صداؤں میں ہے
سلسلۂ کوہِ ندا دُور تک
شاخ ہی جب چھوٹ رہی ہے تو پھر
بادِ صبا ! بادِ صبا ! دُور تک
باندھ اٹھائے گئے جذبات پر
خون بہا اور بہا دُور تک
رات گھنی اور گھنی ہو گئی
پھیل گیا ایک دِیا دُور تک
خود کو سمیٹے ہے مظفرؔ بہت
اور لیے جائے ہوا دُور تک
٭٭٭
رات کہتی ہے کہ اب کون ادھر آئے گا
کوئی تعبیر نہ ہو ، خواب مگر آئے گا
فکرِ سیلابِ بلا ورثۂ غالبؔ ہے مجھے
میں تو زندہ ہوں ابھی ، وہ مرے گھر آئے گا
آئینہ بن کے نہ بستی میں نکلیے صاحب!
ورنہ ہر شخص تماشائی نظر آئے گا
ابر ہوں میں تو برسنا ہی پڑے گا اِک دن
ریت اُلجھے گی ، بگولہ مرے سر آئے گا
ایک پت جھڑ ہے کہ برسوں سے چلی آتی ہے
جانے کب شاخِ تمنّا پہ ثمر آئے گا
رفتہ رفتہ وہ مری بات کے قائل ہوں گے
پھول میں باغ کی مٹّی کا اثر آئے گا
اس قدر تنگ نہ کر اپنے خدا کو دن رات
دیکھ ماتھے پہ ترے داغ اُبھر آئے گا
آمدِ طبع بڑی شئے ہے مظفرؔ صاحب
پیشوائی کے لیے مصرعِ تر آئے گا
٭٭٭
طلسمِ جسم و ادا ، شعلۂ صدا کیا تھا
حواس ہوں تو بتائے کوئی ہُوا کیا تھا
بہت قریب تھا گرداب ، سوچتے کیسے
بُلا رہی تھی ہر اِک موج ، دیکھنا کیا تھا
لرز رہی ہے مری تشنگی کنارے پر
کہ چشمِ آبِ رواں میں غبار سا کیا تھا
کوئی دبوچ کے گہرائیوں میں لایا ہے
مجھے خبر بھی نہیں ، بادبان تھا کیا تھا
غضب کیا کہ اسے ہمسفر کیا تم نے
خود آگہی سے بڑا پیرِتسمہ پا کیا تھا
بجا کہ موم کے پتلے پگھل گئے لیکن
قصور اس میں ترے اِلتفات کا کیا تھا
بھڑاس جی کی بجھانی تھی ورنہ جل بجھتے
غزل شعار نہ کرتے تو راستہ کیا تھا
٭٭٭
دریا عرق عرق تھا کنارا دھُواں دھُواں
ڈوبا جو میں تو دُور تلک تھا دھُواں دھُواں
جلنے کی آرزو میں رہا گھر مرے سبب
میرے قدم سے وسعتِ صحرا دھُواں دھُواں
ہم خون سے کشید کریں سات سات رنگ
تم کھینچتے ہو نقشِ تمنّا دھُواں دھُواں
کانوں میں گونجتا ہے وہی شعلۂ صدا
دیوار پر ہے ایک سراپا دھُواں دھُواں
لیٹے ہیں برف پر کہ مقدّر میں ہے جمود
شعلوں کو چھیڑیے تو تماشا دھُواں دھُواں
مٹّی میں مِل کے پھول کھلاتا رہا کوئی
گلدان میں ہے رنگ کسی کا دھُواں دھُواں
رنگیں ہے آستین مظفرؔ کے خُون سے
میرے معاشرے کا ہے چہرا دھُواں دھُواں
٭٭٭
مری بساط ہی کیا فکرِ نارسا کتنی
نہ پوچھیے کہ ملی ہے مجھے سزا کتنی
لہو رگوں میں نہیں ہے تو پوچھتے کیا ہو
کہ تشنہ لب ہے ابھی خاکِ کربلا کتنی
نہیں تو کس کو زمانے میں اتنی فرصت ہے
اگر سنو تو مری عرضِ مدّعا کتنی
وہ پاس آ کے مہکتی ہے کس قدر یارو
وہ دُور سے نظر آتی ہے دل ربا کتنی
سبک قدم تھا کبھی راہِ دشتِ امکاں میں
اُٹھائیے نہ مجھے ، عمرِ نقشِ پا کتنی
عجیب کشمکش آرزو میں الجھا ہوں
یہ گردِ راہ بھی ہے صبر آزما کتنی
جواز پیش کرے گی غزل مظفرؔ کی
جدید رنگ میں ہے ندرتِ ادا کتنی
٭٭٭
خود سے موازنے کی جسارت نہ کرسکے
دنیا میں ہم کسی سے حقارت نہ کرسکے
کچھ اعتقاد اپنے پجاری سے مانگ لیں
وہ دیوتا جو اپنی زیارت نہ کرسکے
اُن کے خیال میں وہ کشش ہی نہیں رہی
یاد آئے اور سکون کو غارت نہ کرسکے
وہ کامیاب ہوکے بھی ناکامیاب ہے
جو اپنی کوششوں کو اکارت نہ کرسکے
آئینہ ہو رہا تھا میں سر سے قدم تلک
ّپتھر ہی میرے سر کی مدارت نہ کرسکے
ہم پر خدا کے قہر کہ رحمت کا ہو نزول
ہستی کو نیستی سے عبارت نہ کرسکے
ایسی غزل سناؤ مظفرؔ ، کہ طیش میں
رجعت مشاعرے کی صدارت نہ کرسکے
٭٭٭
حیران ہوں کہ جاؤں کدھر ، کس طرف نہیں
چاروں طرف ہے گردِ سفر ، کس طرف نہیں
وہ پھول چہرہ لوگ نہ جانے کہاں گئے
میری دھُواں دھُواں سی نظر کس طرف نہیں
قدموں تلے زمین سلامت رہے مری
سرپر ہے آسمان تو گھر کس طرف نہیں
ہر برگِ زرد خوش ہے یہی سوچ سوچ کر
ان سُرخ آندھیوں کا اثر کس طرف نہیں
تھم جائیے تو سر پہ کڑی دھُوپ جھیلیے
چلیے تو سایہ دار شجر کس طرف نہیں
ایک آدھ چھینٹ ہو تو نیا دَور بے قصور
یہ آستین خون سے ترکس طرف نہیں
کوری نکل نہ جائے مظفرؔ کی یہ غزل
دیکھو بغور زیر و زبر کس طرف نہیں
٭٭٭
بجھنے کو ہے چراغ ، ہوائیں نہ دیجیے
شوریدہ سر ہوا کو صدائیں نہ دیجیے
اتنی سی عرض ہے کہ ذرا جرم دیکھ کر
یہ کون کہہ رہا ہے ، سزائیں نہ دیجیے
اندیشہ ہے کہ ایک ہی انگڑائی کا نہ ہو
کم ظرف آئنے کو ادائیں نہ دیجیے
مرنے کی آرزو میں سسکنے سے فائدہ
جینے کی ہولناک دعائیں نہ دیجیے
تھوڑی سی چاہیے خلشِ نوکِ خار بھی
خوشبو کو شوخ رنگ قبائیں نہ دیجیے
دل کا قصور شدّتِ احساس ہی تو ہے
اس کا علاج یہ ، کہ دوائیں نہ دیجیے
٭٭٭
جی ٹھکانے نہیں پاؤں چکّر میں ہے
پھر بھی سودائے تخلیقِ فن سر میں ہے
اپنے ہاتھوں سے بھی اعتماد اُٹھ گیا
اور کیا کیا نہ جانے مقدّر میں ہے
کوئی صحرا مجھے یاد آتا نہیں
آج بھی اتنی وسعت مرے گھر میں ہے
آپ مقراض کو سان دے لیجیے
پھر تمنّائے بالیدگی پَر میں ہے
جانے بارات گزری کہ میّت کوئی
پھول بکھرا ہوا راستے بھر میں ہے
فلسفہ اور تغزّل نہیں ہے نہ ہو
بات پھر بھی کلامِ مظفرؔ میں ہے
٭٭٭
جھرنا بنے ہوئے ہو کوئی تم سے کیا ملے
اُترے پہاڑ سے تو سمندر سے جا ملے
اقدار کی خلا میں معلّق نہیں ہوں میں
لیکن کوئی سِرا تو مری ذات کا ملے
پہچان لے جو مدِّ مقابل کو واقعی
ہر آئینے سے خون اُبلتا ہوا ملے
چھوٹا سا ایک نیم کا پودا کرے تو کیا
ہر بیل چاہتی ہے اسے آسرا ملے
پیشانیاں ٹٹول ، فرشتے ملیں اگر
مِٹّی کا پاؤں دیکھ اگر دیوتا ملے
٭٭٭
مشین عہدِ رواں کی خدا فریب فریب
یہ ارتقا ہے کہ تحت الثرّیٰ فریب فریب
مجھے بھی مارا ، مرا نام تھا اَنا جادو
طلسمِ ذات شکستہ ہُوا فریب فریب
پکارتا تھا کوئی مجھ کو یا اخی کہہ کر
کوئی دریچہ نہ مجھ پر کھلا ، فریب فریب
کھلی جو آنکھ تو اِک حجرۂ بلا میں ہوں
نہ وہ فضا ہے نہ وہ مہ لقا فریب فریب
جسے تلاش کیا عمر بھر خلاؤں میں
وہی تو میرے تعاقب میں تھا فریب فریب
محاصرہ جو کیا آستیں کے سانپوں نے
مرا عصا نہ بنا اژدہا فریب فریب
نہ پوچھیے کہ مظفرؔ کو کیا مِلا فن سے
لہو ٹھکانے لگا اور کیا فریب فریب
٭٭٭
ارادہ نیک ہے میرا ، سرشت سے بد ہوں
میں نقشِ پائے تمنّا کی آخری حد ہوں
مجھے کوئی نہیں سنتا کہ خوفِ جاں ہے بہت
جمودِ عہدِ رواں میں نوائے سرمد ہوں
اُسی کے نُور سے روشن ہے میری پیشانی
تری حکایتِ نا گفتنی کا مرقد ہوں
زمانہ سمجھا مجھے انتہا نگارش کی
خود آگہی نے بتایا کہ حرفِ ابجد ہوں
ہمیشہ سنگِ ملامت چلائے ہیں تُو نے
بُرا نہ مان کہ میں باز گشتِ گنبد ہوں
بھڑک رہا ہوں مظفرؔ تو لَو بڑھا دیجے
بجھائیے نہ مجھے صبحِ نو کی آمد ہوں
٭٭٭
جھوٹ کہتے ہو کہ اُونچا ہے تمھارا آسماں
اِبتدا ہی سے مرے سرپر نہیں تھا آسماں
گھر ملا ہے جسم کے جنگل میں چودہ سال بعد
جس میں دو مٹھی ہَوا ہے ہاتھ بھر کا آسماں
وہ مرا دن کے سمندر کو بلونا اور زہر
رات ہے ، کف درد ہن ہُوں اور نیلا آسماں
کھینچ لیں میں نے طنابیں ورنہ برہم تھی زمیں
میں نہ ہوتا تو زمیں پر ٹوٹ پڑتا آسماں
چار سُو ہیں سرد چٹّانیں ، نکیلی، سنگلاخ
ہر طرف بیزار کن ، ہموار ، بھورا آسماں
ریت پر بکھرے پڑے ہیں اَن گنت خالی صدف
اور سرپر موتیوں کے تھال جیسا آسماں
کیوں مظفرؔ کس لیے بھوپال یاد آنے لگا
کیا سمجھتے تھے کہ دلّی میں نہ ہو گا آسماں
٭٭٭
اگر یہ سرد لاوا میرے اندر سے نکل آئے
سوا نیزے پہ اِک سورج اسی گھر سے نکل آئے
نہ آزر ہوں نہ تیشہ ہاتھ میں ہے ، سوچتا یہ ہوں
کہ از خود نقشِ جذبہ سنگِ مَرمَر سے نکل آئے
چمکتی نرم ٹھنڈی ریت ساحل سے بلاتی تھی
ہزاروں العطش کہہ کر سمندرسے نکل آئے
ہمارے زخمِ سر کو ناخنِ وحشت ہی کیا کم تھے
کہ عصری آگہی کے سینگ بھی سر سے نکل آئے
وتیرہ سَر بلندی، سنگساری اس کا ثمرہ ہے
ہمارا سرجھکے تو خون پتھر سے نکل آئے
نہ پوچھو کس طرح جیتے ہیں ، بس وہ حال ہے جس میں
ستارے ہاتھ میں ہوں پاؤں چادر سے نکل آئے
مظفرؔ پُر تکلّف محفلوں میں گھٹ رہا تھا دم
قلم ہاتھوں میں آتے ہی مرے پر سے نکل آئے
٭٭٭
یہ معرکہ ہے بڑا صبر آزما بھائی
کسی کو ٹھیس نہ لگ جائے دیکھنا بھائی
اِک اور وار کہ شہہ رگ نہیں ہوئی سیراب
مرے عزیز مرے ویر آشنا بھائی
تجھے پتہ ہے کنارے نہیں رہے محفوظ
بہاؤ تیز ہے مجھ سے نہ دُور جا بھائی
ہمیں کہ دولتِ آفاق بھی زیادہ نہیں
جو ہوسکے تو بس اِک سانس بھر ہَوا بھائی
یہ اور بات کہ ترکش میں تیر ہی کم ہیں
ترے سوا مرا دُنیا میں کون تھا بھائی
ہر اِک طرف سے سمندر مجھے بلاتا ہے
میں ریت ہی میں کہیں ڈوب جاؤں گا بھائی
ہم اپنے آپ پہ تلوار جب اُٹھاتے ہیں
لہو سپید نکلتا ہے ہاتھ لا بھائی
٭٭٭
ایک میرا دوست ، جس کا آخری دَم تھا لہُو
اور میں مجبُور ، میرے پاس بھی کم تھا لہُو
ہر طرف یلغار کرتے آئنہ در دست لوگ
حیف وہ محصور ، جس کا سُرخ پرچم تھا لہُو
دل نہ کیسے ڈوبتا ، آنکھوں پہ قابو ہی نہ تھا
دل ہی باغی ہو رہا تھا ، کس طرح تھمتا لہُو
ہم اِدھر کف در دہن تھے ، چار سُو دریائے خُوں
ہم لہو سے سرگراں تھے ، ہم سے برہم تھا لہُو
عمر بھر ہم پھول کی مانند کاغذ پر کھلے
آگ سینے میں نہاں تھی آنکھ میں نم تھا لہُو
اے مظفرؔ آگہی کی بندشوں کے باوجود
نشّۂ ہستی ، کہ مجھ کو بادۂ غم تھا لہُو
٭٭٭
دردِ سر ، دردِ سر ، بیستوں کم نہیں
ڈوبنا ہو تو دریائے خوں کم نہیں
آئنہ دار ہوں اُس کی تکمیل کا
میں کہ جتنا بھی موجود ہوں کم نہیں
ساتواں در نہ جانے کہاں کھو گیا
اِک بیاباں سے اپنا جنوں کم نہیں
دُور تک سارا منظر گلابی سا ہے
ایک ہی قطرۂ واژگوں کم نہیں
تم سفینے میں طوفان اُٹھاتے رہو
ہم کو طوفان میں بھی سکوں کم نہیں
تلخ حالات میں مجھ سے بد ظن نہ ہو
میں بھی ایسے میں جو سوچ لوں کم نہیں
اے مظفرؔ ، چٹکتی کلی کی طرح
تیری غزلوں میں سوزِ دروں کم نہیں
٭٭٭
یہ جانتے ہیں کہ جائے اماں کہیں بھی نہیں
اسی لیے تو ہمارا مکاں کہیں بھی نہیں
وہ آفتاب ٹھہرتی نہ تھی نگہ جس پر
ہُوا غروب تو نام و نشاں کہیں بھی نہیں
بھڑاس جی کی مٹاتا ہوں شعر کہہ کہہ کر
اگرچہ میرا کوئی ہم زباں کہیں بھی نہیں
حروفِ زر سے ہر اِک برگِ زرد کے اوپر
شجر شجر پہ لکھا ہے خزاں کہیں بھی نہیں
ہم اپنے ہم سفروں کو بتائے دیتے ہیں
کہ ریگ زار میں آباد یاں کہیں بھی نہیں
کوئی نجات کا رستہ نظر نہیں آتا
کسی کا نقش کفِ پا یہاں کہیں بھی نہیں
طلسمِ ذات مظفرؔ سراب ہے یکسر
مری غزل میں مری داستاں کہیں بھی نہیں
٭٭٭
ہم کو جو کہنا تھا طرزِ بے بدل میں کہہ دیا
گفتنی ناگفتنی سب کچھ غزل میں کہہ دیا
سینکڑوں قضیے سر تسلیم سے طے کر دیے
ایک دفتر تھا سکوتِ برمحل میں کہہ دیا
یوں ملیں آنکھوں سے آنکھیں جیسے تالی بج گئی
رات بھر کا ماجرا تھا ایک پل میں کہہ دیا
میں نے اُس کے کان میں اِک بات چھوٹی سی کہی
اور برق و باد نے دشت و جبل سے کہہ دیا
ہم نے پیشانی نہ جھکنے دی کہ لو دے جائے گی
راز داں اُٹھے تو سجدوں کے عمل میں کہہ دیا
کس لیے اپنا گریباں دیکھتا ہے بار بار
کیا مظفرؔ نے اُسے ضرب المثل میں کہہ دیا
٭٭٭
اجازت ملے میں چلا یا اخی
بلاتا ہے کوہِ ندا یا اخی
دریچہ کھلا ہے ہمارے لیے
مگر یہ تجھے کیا ہوا یا اخی
یہیں دل کی پہنائیوں میں کہیں
چھپا ہے کوئی ، دیکھنا یا اخی
نہیں ختم ہونے کا یہ ہفت خواں
پھر اپنا ہی گھر آ گیا یا اخی
کسی کا سہارا نہیں چاہیے
بس اِک بار کہہ تو دِیا اخی
مجھے اتنی اونچائی پر مت بلا
بلندی ہے تحت الثرّیٰ یا اخی
اَنا تھی مظفرؔ پہ خنجر بہ کف
وہاں اور کوئی نہ تھا اخی
٭٭٭
نقشِ پا خون اگلتا ہے جہاں تک چلنا
اب چلے ہو تو کسی جائے اماں تک چلنا
موجۂ درد کا تھمنا تو کنارے دل کے
اور چلنا تو سواد رگِ جاں تک چلنا
مجھ کو خود ہی نہیں معلوم تو اے ریگِ رواں
کیا بتاؤں کہ مرے ساتھ کہاں تک چلنا
راہِ ظلمات میں وحشت مری اُنگلی تھامے
روشنی کا مرے قدموں کے نشاں تک چلنا
ایک مدّت سے اُسے حسرتِ ہنگامہ ہے
آج اے سیلِ بلا میرے مکاں تک چلنا
وقت کے ہاتھ کا تیشہ ہوں مجھے مت روکو
مجھ کو ہے سلسلۂ کوہِ گراں تک چلنا
ایک تھا باغِ سخن اور مظفرؔ اُس میں
یار لوگوں کا بہاروں سے خزاں تک چلنا
٭٭٭
بڑھا ہوا ہاتھ پان جیسا
نظر میں کچھ آسمان جیسا
دھُواں دھُواں رات ، راکھ ٹھنڈی
ستارہ اونچی اُڑان جیسا
وہ پھول چہرے ، وہ تیر آنکھیں
وجود ٹوٹی کمان جیسا
ادا ادا بے نیازیاں سی
خفا خفا مہربان جیسا
بدن میں چمکار گونجتی ہے
نگاہ سے بدگمان جیسا
بیاض کوری پڑی ہوئی ہے
ورق ورق داستان جیسا
نگر نگر میں بھٹک رہا ہوں
تھکا تھکا فاہیان جیسا
بشر مظفرؔ گناہ پیکر
غزل کا لہجہ اذان جیسا
٭٭٭
سینے کے بَل گھسٹ کے سہی چل کسی طرح
ہاتھ آ گیا ہے کوچۂ مقتل کسی طرح
َپھیلا رہی ہے ہاتھ ستاروں کی آرزو
پیروں کو چھوڑتی نہیں دلدل کسی طرح
کیسے کہوں کہ راس نہیں آ رہا مجھے
تیرا جہانِ غیر مکمل کسی طرح
سب اُنگلیوں سے خُون ٹپکتا ہے بوند بوند
اَب اور کیا ہے ، شمعِ سخن جل کسی طرح
پتھرا چکی ہے آنکھ ، بدن سرد ہو چکا
روشن ہے انتظار کی مشعل کسی طرح
ماحول سازگار نہیں سخت ہے زمیں
پھر بھی نکالنی تو ہے کونپل کسی طرح
تسلیم کر رہی ہے مظفرؔ کو مصلحت
آتا نہیں ہے بس میں یہ پاگل کسی طرح
٭٭٭
یادوں کے جگنو اُڑتے ہیں ، شامِ غم ہے
زخموں کی اِک فصل اُگا لے ، مٹّی نم ہے
پَل میں راون ، پَل میں رام ، نہ جانے کیا ہوں
میرے اندر نور و ظلمت کا سنگم ہے
جھوٹے موتی ہنستے ہیں سچیّ موتی پر
شہرت میں فردوسیؔ سے آگے رستم ہے
یوں ہی بیٹھے رہیے پھولوں کے جھرمٹ میں
غالبؔ کی مانند ابھی آنکھوں میں دَم ہے
نیزے پر آویزاں ہو کر دیکھ رہا ہوں
میری سرافرازی پر دُنیا برہم ہے
پیروں سے لپٹی ہیں زنجیریں مِٹّی کی
ہاتھوں میں منہ زور ہواؤں کا پرچم ہے
اور مظفرؔ دنیا سے کیا لینا دینا
اب تو غزلیں کہنے کی بھی فرصت کم ہے
٭٭٭
وہ کمرے میں آنا شب کا
پھر پتھر بن جانا شب کا
کلکاری بھرتے تاروں سے
بُنتا ہوں افسانہ شب کا
روشنیوں کے کانٹے چن کر
چھاتی سے لپٹانا شب کا
دِن کا گنبد گُونج رہا ہے
ٹُوٹا تانا بانا شب کا
شبنم ، تارے ، طائر، غنچے
کس نے کہنا مانا شب کا
ٹُوٹی کشتی ، ہم خوابیدہ
ساحل پر تھرانا شب کا
آنا سورج کا نیزے پر
سینے میں لہرانا شب کا
اور مظفرؔ سے مت بولو
وہ تو ہے دیوانہ شب کا
٭٭٭
چار سمتیں سوچتی ہیں اب کدھر جاتا ہے سایہ
اور چپکے سے مرے اندر اُتر جاتا ہے سایہ
دھُوپ ڈھلنے کے لیے ، سورج اُترنے کے لیے ہے
آدمی سانسیں لیا کرتا ہے ، مر جاتا ہے سایہ
لوٹ آیا ، راستے میں چاندنی لیٹی ہوئی تھی
میرے بستر سے نکل کر کس کے گھر جاتا ہے سایہ
کارتِک کی دھُوپ میں اس ابرِ یک لمحہ کی رحمت
اس طرح تو اور کچھ بے چین کر جاتا ہے سایہ
چاند میری پشت پر ہے ، آرزو شوریدہ سر ہے
میں جدھر جاؤں تری دیوار پر جاتا ہے سایہ
یاد آ جاتے ہیں جب فرصت کے لمحے دوپہر میں
جسم میں ٹھنڈی ہوا ، آنکھوں میں بھر جاتا ہے سایہ
اے مظفرؔ آس کا ایک آدھ جگنو ہی بہت ہے
روشنی کے دائرے میں تو بکھر جاتا ہے سایہ
٭٭٭
جہاں دُلہن کا سہرا بہہ رہا ہے
اُسی جمنا میں مُردا بہہ رہا ہے
بشر تنکا قدم کیسے جمائے
سَمے کا تیز دھارا بہہ رہا ہے
نظر کے سامنے ہریالیاں ہیں
بدن زخمی پسینہ بہہ رہا ہے
لطیفہ ہے کہ ڈوبیں گے تو سب ہی
مگر ہر ایک تنہا بہہ رہا ہے
یہاں چاروں طرف تھی ریت ہی ریت
چڑھا دریا تو کیا کیا بہہ رہا ہے
مرے اندر زمینیں کٹ رہی ہیں
لہو کمبخت اُلٹا بہہ رہا ہے
کنارے رہ گئے گرداب ہو کر
ابھی جو بادباں تھا بہہ رہا ہے
سبھی ہمعصر سرچشمے ہوئے خشک
مظفرؔ ہے کہ دریا بہہ رہا ہے
٭٭٭
فرات و کربلا سے پار ہو جا
شہادت کے لیے تیار ہو جا
سِسکتا رہ ، اگر وہ چاہتا ہے
کرے مسمار تو مسمار ہو جا
ّمحبت ہو تو اُس کے گھر میں تکیہ
عقیدت ہے تو یارِ غار ہو جا
اگر کردار بکنے کے لیے ہے
تو بہتر ہے کہ بے کردار ہو جا
نہ آنکھوں سے ٹپک میری بلا سے
رگ و پیَ کے لیے تلوار ہو جا
کسی کو یاد کر کے موند لے آنکھ
کسی کو دیکھ لے سرشار ہو جا
کئی نقاد عظمت بانٹتے ہیں
مظفرؔ سربسر انکار ہو جا
٭٭٭
ہر اِک رت میں شکستہ آرزُو کا گھر ٹپکتا تھا
ہمارے آسماں پر درد کا سورج چمکتا تھا
بندھی مٹھّی میں کچھ یادوں کے جگنو جھلملاتے ہیں
رگِ جاں میں کسی کے جسم کا شعلہ لپکتا تھا
وہاں بھی ہم تمھاری یاد سے غافل نہیں گزرے
جہاں رہ کر فرشتہ بھی خدا کو بھول سکتا تھا
خود اپنی ذات پر ہم سو طرح کے ظلم ڈھاتے تھے
ہمارے صبر کا پیمانہ اندر ہی چھلکتا تھا
مظفرؔ سربہ زانو دَم بخود بیٹھے رہے ہم تو
اِدھر یلغار لفظوں کی ، اُدھر جذبہ ہمکتا تھا
٭٭٭
تالاب سے نکل کے سمندر میں آ گیا
اس بار سند باد مرے گھر میں آ گیا
بے چہرہ گردنوں کی شکایت فضول ہے
معصوم ہاتھ قبضۂ خنجر میں آ گیا
دیکھا ہی تھا پلٹ کے خلا سے زمین کو
ہر قطرۂ لہو مرے شہپر میں آ گیا
دریا کے لاکھ ہاتھ مجھے روکتے رہے
میں نے لگام اُٹھائی ، بہتّر میں آ گیا
ایسی بلندیوں کی تمنّا کبھی نہ تھی
ذرّہ ہوں گردباد کے چکّر میں آ گیا
سرپر گناہگار کے پھینکا نہیں ابھی
دھبّہ کہاں سے ہاتھ کے پتھر میں آ گیا
اِس عہد میں جہاں بھی ہَوا تیز و تند ہو
طوفان سا بیاضِ مظفرؔ میں آ گیا
٭٭٭
چار سمتیں ہوں گی پگڈنڈی بدلتی جائے گی
یوں ہی چلتا جا کوئی صورت نکلتی جائے گی
فطرتاً سورج کو جلنا ہے ، سو جلتا جائے گا
برف اپنے آپ گرمی سے پگھلتی جائے گی
ایک ریلے کی گسر ہے ایک جھونکے کی کمی
تا کجا یہ مشتِ خاکستر اُچھلتی جائے گی
ہاتھ میں زیتون کی ڈالی ہے ، سرپر فاختہ
اندر اندر خون کی تلوار چلتی جائے گی
حسرتِ تعمیر رہ جائے گی مٹھّی بھینچ کر
ریت آخر ریت ہے وہ تو پھلستی جائے گی
گردِ شہرت نے مرے چہرے کو دھُندلا کر دیا
جس قدر سایہ بڑھے گا ، دھُوپ ڈھلتی جائے گی
وادیِ ظلمات میں چھیڑو مظفرؔ کی غزل
روشنی افکارِ تازہ سے اُبلتی جائے گی
٭٭٭
دامن دامن چاک صدف کا موتی موتی عریاں ہے
ساحد ساحل پابندی ہے ، دریا دریا طوفاں ہے
میرے اندر کی بے چینی آخر کیسے ظاہر ہو
میں پابستہ اور بگولہ صحرا میں سرگرداں ہے
چاروں جانب جال بچھائے نقشِ تمنّا بیٹھے ہیں
اب جس کے پیروں میں دَم ہو یہ تو دشتِ امکاں ہے
اُس کی خوشبو کیسے آئی وہ تو میرے پاس نہ تھا
اس کا عکس کہاں سے آیا ، آئینہ خود حیراں ہے
جیسے ہاتھوں میں آ جائے آشا کی نازک سی ڈور
برکھا رت کی اندھیاری میں ایک ستارہ لرزاں ہے
میں اپنی پہچان کی تختی پیشانی پر جڑتا ہوں
شہرِ تمنّا میں تو یار و سب کا چہرہ یکساں ہے
انسانوں کے پاس مظفر انساں کب تک پہنچے گا
اس کی گردِ سفر تو اب تک سیّاروں میں رقصاں ہے
٭٭٭
فنکار پہ اب یورشِ آفات کہاں ہے
اللہ ! مرا ہات مرا ہات کہاں ہے
اُس پار پہنچنا ہے ہمیں پر نہ سمیٹو
ہلکا سا دھُندلکا ہے ابھی رات کہاں ہے
ہم لوگ چھٹی حس کے سوا اور نہیں کچھ
معلوم نہیں گردشِ حالات کہاں ہے
اس بحرِ بلا خیز میں شامل ہے ہر اِک موج
اب کون بتائے کہ مری ذات کہاں ہے
وہ مملکتِ روز میں کس طرح نظر آئیں
سُورج سے ستاروں کی ملاقات کہاں ہے
خطرے کے نشانات وہاں ڈوب چکے ہیں
ہم تشنہ دہن بیٹھے ہیں ، برسات کہاں ہے
بے وجہ مظفرؔ کی غزل سے نہ خفا ہو
ہم سب کی کہانی ہے تری بات کہاں ہے
٭٭٭
ادھر آئیں جنھیں دعویٰ بہت ہے ہوشمندی کا
کہ ہم اندازہ کر لیتے ہیں پستی سے بلندی کا
وہی میں دائرہ در دائرہ ہر سمت پھیلا ہوں
طلسمِ ذات بھی اِک نقش ہے آئینہ بندی کا
ہماری نسل کی فطرت شتر گربہ کی حامِل ہے
تمنّا شہریاری کی ، وتیرہ گوسفندی کا
خبر یہ ہے کہ خود ہی مبتلا ہیں نرگسیّت میں
جنھیں شکوہ بہت رہتا ہے میری خود پسندی کا
مظفرؔ سرنگوں ہیں آبشاروں طرح لیکن
بگُولہ داستاں گو ہے ہماری سربلندی کا
٭٭٭
آتے جاتے ہر دم ٹوکا کرتے تھے کھڑکی دروازے
جھلا کر آزاد ہَوا نے توڑ دیے کھڑکی دروازے
سنتے ہیں گھوما کرتی ہے بستی میں آوارہ خوشبو
یاروایسے میں لازم ہے وا رکھیے کھڑکی دروازے
ہمسایوں سے مل کر موسم بنیادوں کو چاٹ رہے ہیں
دیواریں اندر بیٹھی ہیں ، بند کیے کھڑکی دروازے
باہر جانے کی ہر کوشش مجھ کو اندر لے جاتی ہے
سب کھڑکی دروازے ، بھول بھُلیّاں کے کھڑکی دروازے
بالآخر وہ رت بھی آئی جب مٹھی بھر دھُوپ کی خاطر
کھول دیے ہیں شیش محل نے بھی اپنے کھڑکی دروازے
روشنیاں دستک دیتی ہیں دہشت میں لپٹے جاتے ہیں
کھڑکی دروازوں سے پردے ، پردوں سے کھڑکی دروازے
بنجارے کا کام مظفرؔ ، چلتے جانا چلتے جانا
قریہ قریہ اپنے دامن پھیلائے کھڑکی دروازے
٭٭٭
سفینہ سانس کا تھمتا نہیں روانی میں
بہے چلو کہ مزا آ رہا ہے پانی میں
پتہ چلا کہ بصارت فریب ہیں سمتیں
تو پَر سمیٹ لیے ہم نے بیکرانی میں
تمھیں زبان میسر ہے تجربہ غائب
طلسمِ ہو شربا میری بے زبانی میں
نہ زندگی کا مزا فلسفے کے شہر میں ہے
نہ خوابناک فضا مرگِ ناگہانی میں
ہر ایک شخص کی روداد ہے مری روداد
عجیب قسم کی تکنیک ہے کہانی میں
ہر اِک شگوفے کے منہ سے لہو ٹپکتا ہے
مشاہدے کو نہ رکھیے غلط بیانی میں
وہ ایک موجِ ہَوا یاد ہے مظفرؔ کو
اگرچہ اُس کی جوانی نہ تھی جوانی میں
٭٭٭
بھیڑیے اور اشتراک شدہ
بیچ میں اِک ہرن ہلاک شدہ
یوں بھی دلّی میں لوگ رہتے ہیں
جیسے دیوانِ میرؔ چاک شدہ
قطرہ ہائے لہو تمام ہوئے
دوستوں کا حساب پاک شدہ
زلزلہ بال و پَر میں آیا ہے
اور اِک آسمان خاک شدہ
دن ملائم ہوا ہے زخموں سے
رات اشکوں سے تابناک شدہ
اے مظفرؔ ، سبھی ہیں بستی میں
ناوکِ غم سے انسلاک شدہ
٭٭٭
سفرِ امروز کا ہے ہم قدم فردا میں رکھتے ہیں
کہیں اتنی روانی خون کے دریا میں رکھتے ہیں
ہمیں معلوم ہے کیوں پیش رَو چلتے ہیں تھم تھم کر
ہمارے واسطے کانٹے نقوش پا میں رکھتے ہیں
ہماری خانماں بربادیوں پر جی نہ میلا کر
ترے وحشی ابھی اِک اور گھر صحرا میں رکھتے ہیں
وہ اپنی سرد مہری کو بھی گنتے ہیں عنایت میں
ہماری ہر شکایت شکوۂ بیجا میں رکھتے ہیں
’’عمل سے زندگی بنتی ہے جنّت بھی جہنّم بھی‘‘
مگر کچھ لوگ دلچسپی بہت عقبیٰ میں رکھتے ہیں
اگر غالبؔ کو اس کا حق پہنچتا تھا تغزل میں
تو پھر ہم بھی تصوّف بادہ و مینا میں رکھتے ہیں
بغاوت کرنے والوں کے لیے تازہ روایت ہے
مظفرؔ شعر میں معنی ، اثر معنیٰ میں رکھتے ہیں
٭٭٭
سحر ہو رہی تھی ، ہوا تیز تھی
ادھر میری لَو بھی ذرا تیز تھی
کوئی آئنے میں تڑپتا رہا
مگر خون کی اشتہا تیز تھی
وہاں گل کھلانے کا موقع نہ تھا
چرا لائی خوشبو ، صبا تیز تھی
کہیں روشنی ہے نہ کوئی چراغ
پتنگوں کی یلغار کیا تیز تھی
وہی یا اخی ! یا اخی ! یا اخی!
مسلسل صدا تھی ، صدا تیز تھی
ہمارے سفر میں تو ایسا ہوا
قدم سُست ، بانگِ درا تیز تھی
اُدھر لب ، اِدھر ہاتھ سن ہو گئے
طلب تھی کہ حد سے سِوا تیز تھی
سسکتے رہو ، تلملاتے رہو
مظفرؔ سناں سے اَنا تیز تھی
٭٭٭
مری ہستی کا پیچیدہ معمہ حل نہیں کرتا
بھری بستی میں آئینے کوئی صیقل نہیں کرتا
وہی صورت کہ آنکھیں تر ہیں سینہ آبلوں سے پُر
کوئی سیلاب ریگستان کو جل تھل نہیں کرتا
بس اِک احساس ، جیسے پر نکل آئے ہوں جذبے کے
خیال اس کا مرے جذبات کو بوجھل نہیں کرتا
کبھی وہ ریشمی کرنیں ادھر مائل نہیں ہوتیں
کبھی رخ اس طرف کو وہ سیہ بادل نہیں کرتا
ہمارے بے عقیدہ عہد کے جتنے بھی رہرَو ہیں
کسی کی راہ میں سایہ کوئی آنچل نہیں کرتا
مری خود آگہی اس طرح آئینہ دکھاتی ہے
اَنا کا جذبۂ خودسَر مجھے پاگل نہیں کرتا
مظفرؔ دل بھی مجھ کو تابعِ مہمل نہیں سمجھے
اگر میں دل کو اپنا تابعِ مہمل نہیں کرتا
٭٭٭
اِس طرف کانٹے ، اُدھر وحشت کا تلوا سُرخ ہے
سمتِ ممنوعہ کا ہر اِک پھول کیسا سُرخ ہے
پوچھیے تو رَہروِ دشتِ بلا کوئی نہیں
دَر حقیقت دُور تک دامانِ صحرا سُرخ ہے
آج دریا بُرد کر کے کچھ حسینوں کے خطوط
دیکھتا کیا ہوں کہ سطحِ آبِ دریا سُرخ ہے
یُوں تو جس کو آپ فرما دیں وہی ہے بے گناہ
ورنہ اِک معیار ، جس کا ہاتھ جتنا سُرخ ہے
آنکھ سے دامن تک آنے میں یہ حالت ہو گئی
خون کا قطرہ بھی آدھا زرد آدھا سُرخ ہے
اُس نے لہجہ سان پر رکھ صفائی پیش کی
سامنے آئے اگر دامن کسی کا سُرخ ہے
جس کی شادابی مظفرؔ تھی کبھی ضرب المثل
اُس تناور پیڑ کا ہر ایک پتّا سُرخ ہے
٭٭٭
اقامت شہر میں دِل گاؤں میں ہے
بہرصورت مسافر چھاؤں میں ہے
کوئی بھی غم سما سکتا ہے اس میں
بڑی وسعت مری آشاؤں میں ہے
پُلوں کے اَینٹھنے پر کہہ رہا ہوں
بہت پانی ابھی دریاؤں میں ہے
بڑی رونق ہے اِن آبادیوں میں
مگر جو دِل کشی صحراؤں میں ہے
سُنو لوگو کہ بوسیدہ ہے ہر سمت
ابھی تک میرا چکّر پاؤں میں ہے
ہمیں تحریصِ مئے نوشی نہ دیجے
خودی ساکیف کن صہباؤں میں ہے
غزل میں ورنہ یہ ندرت نہ ہوتی
مظفرؔ بھی کسی کے داؤں میں ہے
٭٭٭
بوندوں بوندوں بڑھا سمندر
گردن تک آ گیا سمندر
سات سفر پورے کرنے ہیں
یارب کوئی نیا سمندر
کہنے کو ہم بھی کہتے تھے
لیکن اتنا بڑا سمندر
من موجی گہرے پانی میں
معمولی سی ادا سمندر
دل دریا پایاب بہت ہے
آنکھیں ہوں تو بنا سمندر
ِ
اُس کی رحمت بادل جیسی
میری ہر اِک خطا سمندر
ہم کو ساحل پر لا پھینکا
یہ تو نے کیا کیا سمندر
مقطع کہہ کر سوچ مظفرؔ
کتنا باقی بچا سمندر
٭٭٭
بے سبب روٹھ کے جانے کے لیے آئے تھے
آپ تو ہم کو منانے کے لیے آئے تھے
اختلافوں کو عقیدوں کا نیا نام نہ دو
تم یہ دیوار گرانے کے لیے آئے تھے
ہم کو معلوم تھا دریا میں نہیں ہے پانی
سر کو نیزے پہ چڑھانے کے لیے آئے تھے
یہ جو کچھ لوگ خمیدہ ہیں کماں کی مانند
آسمانوں کو جھکانے کے لیے آئے تھے
ڈھونڈتے بیٹھے ہیں اب سنگِ نشاں ، نقشِ قدم
راستے پر جو لگانے کے لیے آئے تھے
ہے کوئی سمت کہ برسائے نہ پتھر ہم پر
ہم یہاں پھول کھلانے کے لیے آئے تھے
ہاتھ کی برف نہ پگھلے تو مظفرؔ کیا ہو
وہ مری آگ چرانے کے لیے آئے تھے
٭٭٭
ایسے نازک جذبے جن سے پتھر بولے چھن
ان سے ناتا ٹُوٹ نہ جائے رے بیراگی من
اُس کی خفگی یاد دلائے بھیگی بھیگی دھُوپ
جھیلیں اُس کی آنکھیں ، جھرنے اُس کا الھڑ پن
کچھ ایسے انداز سے جھٹکا اُس نے بالوں کو
میری آنکھوں میں در آیا پورا کجلی بن
اُلفت کے اظہار پہ اُس کے ہونٹوں پر مسکان
پیشانی پر بے چینی سی ، آنکھوں میں اُلجھن
جس کی یادیں دوڑ رہی میں میری رگ رگ میں
مرجھائی مرجھائی سی ہے وہ میرے کارَن
دِل میں کھب کر رہ جاتی ہے اُس کی میٹھی گات
ہاتھوں میں آ کر رہ جائے ایسا چور بدن
کیسے تیرے شعروں میں ہو جاتے ہیں آمیز
ّپتھر کا یہ دَور مظفرؔ اور غزل کا فن
٭٭٭
فسانہ چھیڑتی ہے شام اُس کا
خلا میں گونجتا ہے نام اُس کا
تہی دستی مقدّر ہے تو میری
اگر لبریز ہے تو جام اُس کا
وہ چوتھی سمت ہو یا ساتواں دَر
َچھٹی حس نے لیا ہے نام اُس کا
مسلسل اِک صدا کوہِ ندا سے
مجھے ملتا رہا پیغام اُس کا
لہو سے آبیاری ہم کریں گے
چمن میں گل کھلانا کام اُس کا
ہماری بے گناہی نے ہمیشہ
سر آنکھوں پر لیا الزام اُس کا
مری آنکھوں میں اِک صورت بسی ہے
مرے دامن میں ہے انعام اُس کا
مظفرؔ لفظ مل کر سوچتے ہیں
چلو غارت کریں آرام اُس کا
٭٭٭
غم بہت ہوں ، خدا کم نہیں ہے
سانس لیں تو ہَوا کم نہیں ہے
خشک لب ریگزاروں سے پوچھو
اوس کا آسرا کم نہیں ہے
سچ کہا ہے کہ دَم گھٹ رہا تھا
جانتا ہوں سزا کم نہیں ہے
کیا خلاؤں میں پرواز کرتا
میرے اندر خلا کم نہیں ہے
سانپ اصلی ہیں جادو گروں کے
ورنہ میرا عصا کم نہیں ہے
شوق ہم کو بھی تھا ڈوبنے کا
بادباں کی خطا کم نہیں ہے
لوگ پہلے میں کھوئے ہیں
دوسرا نقشِ پا کم نہیں ہے
اے مظفرؔ غزل بھی نہ ہو تو
رات کا جاگنا کم نہیں ہے
٭٭٭
ساتوں ہی آسمان پکارے ابھی نہیں
گدرائے تک نہیں یہ ستارے ابھی نہیں
دوچار ہاتھ اور کہ گرداب پاس ہے
خود ہم کو ڈھونڈ لیں گے کنارے ابھی نہیں
وادی میں گونجتی ہے صدا اور اِک قدم
اوپر سے ہو رہے ہیں اشارے ابھی نہیں
سریرغمالِ رزق ہے سوچیں تو کس طرح
کیسے لکھیں کہ ہاتھ ہمارے ابھی نہیں
ہے جسم پارہ پارہ ، مگر گرم ہے لہو
نیزے پہ سربلند ہے ہارے ابھی نہیں
پہلے ذرا حساب چکا لوں زمانے سے
مرنا تو ایک روز ہے بارے ابھی نہیں
عجلت میں سچ نہ بول مظفرؔ کے ساتھ ساتھ
کچھ اور سوچ کر مرے پیارے ابھی نہیں
٭٭٭
بدن کی فصیلوں کو مسمار کر
لہو جوش کھاتا ہے یلغار کر
خدا کے نہ ہونے پہ اصرار ہے
تو اپنی خودی سے بھی انکار کر
توقع لگائے ہیں منجدھار سے
پلٹ آئے ساحل سے سرمارکر
کہیں کچھ نہیں زخمِ سر کے لیے
بیاباں میں دیوار دیوار کر
چھپا ہے غنیموں کا لشکر وہاں
خود اپنے گریباں میں دیدار کر
صلیبیں اِدھر ہیں صلیبیں اُدھر
شش و پنچ کا ہے کا ، اقرار کر
عقیدت کے بعد آگہی کی خلیج
اِسے بھی کسی طور سے پار کر
نہ ہاتھوں میں دم تھا نہ تلوار تھی
مظفرؔ قلم ہو گیا ہار کر
٭٭٭
بادلوں کا سفر دیکھتے رہ گئے
کھیت سُوکھے تھے سُوکھے پڑے رہ گئے
جن کے دامن میں موتی نہ تھے وہ صدف
اپنی آنکھوں میں آنسو بھرے رہ گئے
ختم ہونے کو ہے زندگی کا سفر
پھر بھی کچھ پاؤں کے آبلے رہ گئے
صبحِ نو کی تر و تازہ ٹھنڈی ہَوا
اِس طرف دیکھ ہم بن کھلے رہ گئے
جاگتے جاگتے آنکھ پتھرا گئی
اور کتنے برس رات کے رہ گئے
کھائی کو پاٹنے والا کوئی نہ تھا
ہم ہی لے دے کے اس کے لیے رہ گئے
رہ گزر اتنی پُر پیچ و دُشوار تھی
اِس میں جتنے سبک گام تھے، رہ گئے
تھی مظفرؔ پہ یلغار الفاظ کی
ایک مقطع ، پرے کے پرے رہ گئے
٭٭٭
شہرِ تمنّا سے جنگل میں کیا کیا لے کر آتا ہوں
ہاتھوں میں مِٹّی ، چہرے پر سونا لے کر آتا ہوں
اوس کا اِک چھینٹا ہوں ، دھُوپ لیے جاتی ہے اپنے ساتھ
ریگستانوں سے کہہ دینا دریا لے کر آتا ہوں
چاند نگر کے باسی مجھ پر ہنستے ہیں تو ہنسنے دو
ظلمت سے آتا ہوں اور اُجالا لے کر آتا ہوں
تازہ دن کی خوشبو لے کر نکلا تھا دروازے سے
شام ہوئی تو زخموں کا گلدستہ لے کر آتا ہوں
آخر اُس کی بینائی تک چاٹ گئی ممنوعہ سمت
کہتا تھا میں ایک سنہرا سپنا لے کر آتا ہوں
کھڑکی سے کیوں جھانک رہے ہو ہمسائے کے آنگن میں
اچھی صورت ہو تو میں بھی چشمہ لے کر آتا ہوں
جگ بیتی کو چھوڑ مظفرؔ کچھ اپنی روداد سُنا
ورنہ میں بھی قصّہ طوطا مینا لے کر آتا ہوں
٭٭٭
سمتِ ممنوعہ بلاتی ہے کہاں جاتے ہو
رات اُمڈی چلی آتی ہے کہاں جاتے ہو
ہے عجب راہ کہ بڑھنے نہیں دیتی آگے
لوٹتا ہوں تو مناتی ہے کہاں جاتے ہو
رہگزاروں نے صدا دی کہ وہاں خطرہ ہے
ناؤ بھی دھول اُڑاتی ہے کہاں جاتے ہو
کھڑکیاں گود پسارے ہیں کہ آ جاؤ نا!
گیلری آنکھ دکھاتی ہے ، کہاں جاتے ہو
ہر کلی پھیل گئی دستِ زلیخا کی طرح
ورنہ الزام لگاتی ہے ، کہاں جاتے ہو
جھیل میں دائرہ درد دائرہ رقصاں کرنیں
چاندنی بین بجاتی ہے ، کہاں جاتے ہو
اے مظفرؔ وہ غزل ہونٹ نہ کھولے پھر بھی
ہر ادا شعر سناتی ہے ، کہاں جاتے ہو
٭٭٭
کرّۂ خاکی ہوں سیّاروں کے بیچ
آئنہ سا آئنہ داروں کے بیچ
بازگشتو! راستے مسدود ہیں
ایک گنبد چار میناروں کے بیچ
آسرا دیتے ہیں خوش فہمی کے ہاتھ
پھول کھلتے آئے ہیں خاروں کے بیچ
وسعتوں کی بے کرانی دیکھ کر
راہ طے کرتا ہوں دیواروں کے بیچ
مطمئن ہوں دُشمنوں کے بیچ میں
تم کشاکش میں مددگاروں کے بیچ
اِن مسائل سے کہاں دو چار تھے
جب رہا کرتے تھے ہم غاروں کے بیچ
اے مظفرؔ بزم میں تیری غزل
جیسے کوئی نرس بیماروں کے بیچ
٭٭٭
جَلا تُو کیسے ، بجھا کہاں سے
نہ جانے آئی ہَوا کہاں سے
یہ شہر در شہر تشنگی کیوں
فرات میں کربلا کہاں سے
وہ سَرسے پاتک تمام شعلہ
اُسے کوئی چومتا کہاں سے
نقوشِ پا جال بن چکے ہیں
چلا ہے یہ سلسلہ کہاں سے
نجات کی آرزو نہیں کی
معاف ہو گی سزا کہاں سے
غزل کے ہر باب میں مظفرؔ
تمھارا نام آ گیا کہاں سے
٭٭٭
پھر وہی صورت ، کہ میں نظریں جھکا کر رہ گیا
جسم کے اندر فرشتہ پھڑپھڑا کر رہ گیا
جذبہ تھا شوریدہ سر ، دل تشنگی کا دشت ہے
اور اصغر حرملہ کا تیر کھا کر رہ گیا
پھر اُڑے ظلماتِ جاں میں درد جگنو ہر طرف
آنکھ میں کیا کیا ستارہ جھلملا کر رہ گیا
بازگشتوں کے نگر میں کون تھا پُرسانِ حال
بولتا کیا ، ہونٹ دانتوں میں دَبا کر رہ گیا
بند کلیوں سے کبھی احوال میرا پوچھنا
میں کہ رونے کی جگہ بھی مسکرا کر رہ گیا
آبِ نیساں تھا صدف کی گود بھرنی تھی مجھے
موج تھرّائی ، کنارا ہاتھ اُٹھا کر رہ گیا
لوگ ’دیپک راگ‘ سے جلتے ہیں ، جلنے تھے چراغ
اے مظفرؔ ، تُو بھی کیا غزلیں سنا کر رہ گیا
٭٭٭
سرسراتے ہیں یہاں مارِ قضا سنتے ہو
پھر بُلاتا ہے ہمیں کوہِ ندا سنتے ہو
کس طرف جائیں ، مقفل ہیں دریچے سارے
دَر تک آ پہنچا ہے ، سیلاب بلا سنتے ہو
تشنگی اور بڑھانے کے لیے ہم سب کی
پھر گرجتی ہوئی آتی ہے گھٹا سنتے ہو
اِک ستارہ سا کہیں ٹُوٹ گیا پہلو میں
ہجر کی رات نے چپکے سے کہا سنتے ہو
بزمِ احباب نے اتنا بھی نہ پوچھا ہم سے
نقشِ پاکی طرح بیٹھے ہوئے کیا سنتے ہو
ہم ہی کمھلائے شتابی سے ، مگر اب کیا ہے
دوستو ! بادِ صبا ! باد صبا ! سنتے ہو
یہ نتیجہ ہے اُسے مہر بہ لب کرنے کا
تم جو خوابوں میں مظفرؔ کی نوا سنتے ہو
٭٭٭
اندھیرا چھٹا تو اُجالا ہُوا
ہر اِک روئے پُر نور کالا ہُوا
ّجہنم اُٹھا لے گیا ساتھ میں
وہ جنت سے تیرا نکالا ہُوا
تراشا گیا جس قدر بھی اُسے
شہیدوں کا قد اور بالا ہُوا
ترا نام لیتے ہی ہر مرتبہ
مرے منہ میں ایک اور چھالا ہُوا
بھری بے پر و بال میں نے اُڑان
تو ناراض ہر اُڑنے والا ہُوا
ستاروں نے نفرت سے دیکھا جہاں
ہر اِک ذرّہ بڑھ کر ہمالا ہُوا
یدِ بیضا کاغذ ، عصا ہے قلم
مظفرؔ غریبی کا پالا ہُوا
٭٭٭
کوئی شاخ پھولوں سے خالی نہ تھی
مگر ایک پودے پہ بالی نہ تھی
سِسکنے لگیں کھوکھلی سیپیاں
ابھی ہم نے حسرت نکالی نہ تھی
کئی پھول کھلنے سے کیوں رہ گئے
ہَوا فطرتاً لا اُبالی نہ تھی
کماں دار کا حکم ہی آ گیا
سِپَر اب تلک ہم نے ڈالی نہ تھی
لٹاتا رہا نقدِ جاں چار سُو
مرے در پہ دُنیا سوالی نہ تھی
بلاوجہ تُو کیوں خفا ہو گیا
محّبت ، مرے یار گالی نہ تھی
مظفرؔ گہن کھا گیا اس لیے
کہ سورج پہ کیچڑ اُچھالی نہ تھی
٭٭٭
تشکر: پرویز مظفر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید