فہرست مضامین
- چند ایام ٹیپو سلطانؒ کے دیار میں
- مقدمہ
- کلمات با برکات
- عرض مرتب
- چند ایام ٹیپو سلطانؒ کے دیار میں
- تمہید
- شہر بنگلور پر ایک نظر
- بنگلورکا پہلا سفر
- بنگلورکا دوسراسفر
- بنگلور کا تیسرا یادگار و خوشگوار سفر
- بنگلور کا تازہ سفر اور اس کی مناسبت
- آغاز سفر
- کُنداپور
- منگلور
- رام نگرم
- جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور
- مفتی سعادت اللہ خاں صاحب کی قیامگاہ پر
- جامعہ کا نظام تعلیم و تربیت
- حضرت مولانا شعیب اللہ خاں مفتاحی دامت برکاتہم سے ملاقات
- مولانا کا تعارف
- شہر بنگلور کے دیگر اہم اداروں کی زیارت
- ٹمکور کا سفر
- ٹمکور سے واپسی
- سفر میسور
- میسور پیلیس کی سیر
- سری رنگا پٹنم کی زیارت
- مسجد اعلی
- ٹیپو سلطان شہیدؒ کی قبر پر
- دار الامور کی حاضری
- دار الامور کا تعارف
- واپسی کا سفر
چند ایام ٹیپو سلطانؒ کے دیار میں
محمد حماد کریمی ندوی
ڈاؤن لوڈ کریں
مقدمہ
از: جناب مولانا محمد حسین صاحب گیما جامعی مد ظلہ العالی
الحمد للّٰہ وکفیٰ، وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ، أما بعد !
اللہ نے کائنات کو انسان کی خدمت کے لئے پیدا کیا، اور انسان کو اپنا حقیقی بندہ بن کر زندگی گزارنے کی دعوت دی، اور دنیا کے اسفار کو ذریعۂ عبرت بنایا۔
اس وقت میرے سامنے ایک ننھے مگر عظیم علمی مسافر مولوی محمد حماد کریمی ندوی کا سفر نامہ بعنوان ’’چند ایام ٹیپو سلطان کے دیار میں ‘‘ کا مسودہ ہے، اللہ نے مصنف کو عظیم صلاحیتوں سے نوازا ہے، اللّٰہم زد فزد، مصنف کا پہلا سفر نامہ حج بھی ایمان افروز ہے۔
مذکورہ مسودہ میں اپنے الفاظ کے ذریعہ پورے نقشہ کولا کر سامنے رکھ دیا ہے، جنوبی ہند کے دو مشہور شہروں کی تاریخ اور علمی مراکز کی سیر کرا دی ہے، یہ عزیز موصوف کی بہترین کاوش ہے، ان کے قلم سے نکلی ہوئی تحریریں زیادہ مستند اور مفید ہوتی ہیں، اس طرح اپنی تحقیقات کے نتائج کو عوام کے سامنے پیش کرنا زیادہ سود مند کام ہے، اور تبلیغ دین حنیف کا اسلوب ہے۔
بس امید ہے کہ اس ننھے مگر عظیم مصنف کی تصانیف کو دیکھ کر بڑے دعا ؤں سے سرفراز کریں گے، اور دوست واحباب کی نظر پڑے گی تو دادِ تحسین دیں گے۔
احقر کی دلی دعا ہے کہ عزیز موصوف اپنی زندگی میں تقریر وتحریر وعملی میدانوں کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔
احقر العباد محمد حسین گیما
۲۶؍ ذی الحجہ ھ
کلمات با برکات
از: حضرت مولانا رضوان الدین معروفی
شیخ الحدیث جامعہ اشاعت العلوم، اکل کوا، مہاراشٹرا
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم، حامداً ومصلّیاً ومسلّماً، أمابعد!
’’الناس معادن کمعادن الذھب والفضۃ‘‘ یہ جملہ ایک حدیث پاک کا ٹکڑا ہے، جس کو امام مسلمؒ نے اپنی صحیح میں نقل فرمایا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح سونا چاندی کی کانیں ہوا کرتی ہیں، ان میں سونا چاندی پوشیدہ ہوتے ہیں، دریافت کرنے سے یافت میں آ جاتے ہیں، اسی طرح انسانوں کی دنیا بھی انسانی کانوں سے وابستہ ہیں، جس کے اندرون میں ہزاروں باکمال، با صلاحیت افراد مخفی ہوتے ہیں، جو کسی صاحبِ نظر کی نظر اور کسی صاحبِ فکر کی فکر کے نتیجہ میں اُبھر آتے ہیں۔
اس وقت ہمارے سامنے اسی نوع کا ایک حسین نمونہ موجود ہے، جو اس تحریر کا عنوان ہے، اور ان سطور کے لئے وہی محرک اور سبب بھی ہے، میری مراد اس سے برادرم مولانا محمد حماد کریمی ندوی کی ذات با توفیق ہے، موصوف کی زندگی میں کئی اوصاف قابل تحسین وتبریک ہیں، مثلاً:
۱) روشن دماغ اور پختہ قوت حافظہ کا من جانب اللہ نصیب ہو جانا کہ جس کی برکت سے محض ۵۱؍ دن میں آپ نے مکمل قرآن مجید حفظ کر لیا،
۲) تمام تعلیمی مراحل میں از ابتداء تا انتہاء ممتاز کامیابی حاصل کرنا،
۳) بہت ہی کم عمری میں بہت کچھ دینی وعلمی کام کرجانا، ابھی موصوف کی عمر صرف ۲۴ سال ہے، اس مختصر سی عمر میں موصوف کے قلم سے ۲۳ چھوٹی بڑی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں، جن میں بعض اردو زبان میں، بعض عربی میں اور بعض دونوں میں ہیں، اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً حالات زمانہ کے پیش نظر اپنے احساسات و خیالات پر مشتمل مختلف تحریریں امت کو پیش کرتے رہتے ہیں، اسی کے ساتھ انتہائی قابل ذکر امر یہ ہے کہ عربی زبان میں ’’النصیحۃ‘‘ نامی ایک سہ ماہی مجلہ بھی آپ کی ادارت میں تقریباً ڈیڑھ سال سے برابر مکمل حسن وجمال اور فضل و کمال کے ساتھ نکل رہا ہے، جو خود اپنی جگہ بہت ہی مفید و مقبول ہے، ملک اور بیرون ملک مثلاً سعودیہ عربیہ، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت، مسقط، یمن، لیبیا، ایران، اردن، سری لنکا اور پاکستان وغیرہ میں بہت دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے، اہل علم و اصحاب فضل کے نیک تاثرات اور حوصلہ افزا کلمات اس مجلہ کی افادیت و مقبولیت پر شاہد ہیں۔
الغرض مولانا حماد کریمی کی شخصیت انہی اوصاف کریمہ کی بنا پر بہتوں کے لئے قابل رشک بن گئی ہے، جن سے مستقبل میں بہت ہی نیک توقعات وابستہ ہیں، اور دین و ملت کی جلیل خدمات متوقع ہیں، اللہ تعالیٰ موصوف کو مزید ترقیات سے ہمکنار فرمائے، اور للآخرۃ خیر من الأولی کا مصداق بنائے، آمین
یہاں ساتھ ہی یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ دنیا دار الاسباب ہے، ہرشئی کسی سبب سے مسبب ہے، ایک نوجوان کا اس کم عمری میں ان صفات کا حامل ہونا ظاہر ہے کسی سبب سے مسبب ہو گا، تتبع و جستجو سے معلوم ہوا کہ موصوف کی یہ ساری خوبیاں ان کے والد گرامی کی غیر معمولی تربیت کی رہین منت ہیں، مولانا کے والد حضرت مولانا محمد شرف عالم صاحب قاسمی ہیں، جو دار العلوم دیوبند کے باکمال فضلاء میں ہیں، انہوں نے اپنے فرزند ارجمند کی نشو و نما اور تربیت پر ابتدا ہی سے خاص توجہ دی، زمانہ کے اکابر و اولیاء سے ملاقات کروائی، ان سے دعائیں دلوائیں، بچپن ہی سے اکابر ہند مثلاً شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ عبد العزیز دہلوی، سید احمد شہید رائے بریلوی، حضرت نانوتوی، حضرت گنگوہی، حضرت شیخ الہند، حضرت تھانوی، شیخ ابو الحسن علی الندوی رحمہم اللہ اور ان جیسے مشائخ کے مبارک تذکروں کے سایہ تلے ان کو پالا پوسا، یہی نہیں بلکہ ہمیشہ اپنی نیک تمناؤں، قلبی صداؤں اور زریں حوصلہ افزائیوں کے ذریعہ علمی رہ نوردی میں نشانِ منزل کا پتہ بتلاتے رہے، اور منزل تک رسائی پر مسرتوں اور خوشیوں کی سوغات پیش کرتے رہے، جس کا ثمرہ یہ ظاہر ہوا کہ اب وہ بجا طور پریہ کہہ سکتے ہیں، بلکہ کہہ رہے ہیں: ع
قیاس کنز گلستان من بہار مرا
مبارک ہے وہ والد جس کی گود میں ایسے مولود کی پرورش ہوئی۔
اور مبارک ہے وہ مولود جس کو ایسے فکر مند اور خوش نصیب والد کی گود میسر ہوئی۔
اللہ تعالیٰ دونوں کو ہمیشہ آباد و شاداب رکھے، اور زمانہ کی مسموم فضاؤں اور مسموم ہواؤں سے نا ا آشنا رکھے، آمین
والسلام
محمد رضوان الدین معروفی
خادم جامعہ و طلبہ اکل کو، مہاراشٹرا
نزیل جامعہ اسلامیہ بنجاری، ایم پی
۲۹؍ ربیع الاول ۱۴۳۸ھ
عرض مرتب
بسم اللّٰہ، و الحمد للّٰہ، و الصلوۃ و السلام علی رسول اللّٰہ، و من و الاہ، أمابعد!
محض اللہ کے فضل اور اس کی توفیق سے حضرت ٹیپو سلطان شہیدؒ کے دیار کا سفر نامہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے، اس امید کے ساتھ ٹیپو کا وہ جذبۂ ایمانی اور ولولۂ دینی پھر سے امت مسلمہ میں بیدار ہو، جس کے تخیل ہی سے باطل قوتیں کانپنے لگتی تھیں، نیز نسل نو ہندستان کی تاریخ کے اس زریں باب کو ہمیشہ یاد رکھے جس کو احسان کش طبقہ فراموش کرنے کی سعی مذموم کر رہا ہے، اور خود مسلمان بھی بھولے پن کا شکار ہو کر اس پر آمنّا و صدّقنا کہنے لگے ہیں۔
بہر کیف جب اس سفر نامہ کو بھٹکل کے مشہور و معروف خبر رساں ادارہ ’’فکر و خبر‘‘ نے شائع کیا، تو بہت سے قارئین نے اس پر اپنے ہمت افزا تاثرات پیش کئے، خصوصاً استاذِ محترم جناب مولانا الیاس صاحب ندوی بھٹکلی نے ان الفاظ میں اپنے نیک جذبات کا اظہار کیا: ’’آپ کا سفر نامہ کل فکر و خبر میں پڑھا، ماشاء اللہ بہت خوب اور قابل مطالعہ ہے، اللہ تعالیٰ آپ سے مزید علمی کام لے ‘‘۔
اسی طرح جب راقم کے محسن و کرم فرما اور اس سفر کے داعی و محرک جناب مولانا محمد حسین صاحب گیما جامعی کو اس سفر نامہ کے بارے میں علم ہوا، تو انہوں نے خود اپنی طرف سے اس کی طباعت کی پیش کش کی، اور قیمتی مقدمہ بھی تحریر فرمایا۔
میں ان تمام حضرات کا ممنون و مشکور ہوں، اور خدائے ذو الجلال کی بارگاہ میں دست بدعا ہوں، کہ اللہ جلد از جلد پھر وہ دن دکھائے، جب اسلام کا ہر سو بول بالا ہو، کلمۂ حق کا اجالا ہو، اور باطل کا منہ کالا ہو، آمین یا رب العالمین
محمد حماد کریمی ندوی
چند ایام ٹیپو سلطانؒ کے دیار میں
تمہید
بسم اللّٰہ، والحمد للّٰہ، والصلوۃ والسلام علی رسول اللّٰہ، ومن والاہ، أما بعد !
وطن عزیز ہندستان کے مرد مجاہد، تحریک آزادی کے داعی، جانباز سپاہی، ٹیپو سلطان شہید اور ان کی سلطنت خداداد کی قدر و قیمت اور اہمیت سے کون ہندی مسلمان بلکہ کون ہندستانی ہے ؟ جو ناواقف ہو گا!!!(یہ الگ بات ہے کہ بہت سے لوگ جان کر انجان بنتے ہیں اور تجاہل عارفانہ برتتے ہیں، جو کہ گھر کی کھڑکیوں اور دروازوں کو بند کر کے سورج کی روشنی کا انکار کرنے کے مترادف ہے )، آزادیِ ہند میں ان کا جو کارنامہ رہا ہے، اور انگریزوں سے مقابلہ کے لئے انہوں نے جو قربانیاں دی ہیں، وہ محتاجِ بیان نہیں، بقول اختر شیرانی:
عشق و آزادی بہارِ زیست کا سامان ہے
عشق میری زندگی، آزادی میرا ایمان ہے
عشق پر کر دوں فدا میں اپنی ساری زندگی
لیکن آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے
اسی کو شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے اپنے اشعار میں یوں واضح کیا ہے:
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
اور داغ کی زبانی:
ہم سا جانباز زمانے میں نہ پاؤ گے
لاکھ ڈھونڈو گے چراغِ رخِ زیبا لے کر
یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے دیار کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈی کرے، آزادی کے تعلق سے اپنی سرد انگیٹھیوں کو پھر سے گرم کرے، ایمانی جذبات کو تازہ اور دین و وطن کے لئے تن، من، دھن کی قربانی کے عزائم کوزیادہ کرے۔
شہر بنگلور پر ایک نظر
بنگلور کسی زمانہ میں نواب حیدر علی اور سلطان ٹیپو کی سلطنت خداد کا حصہ تھا، اور اب ریاست کرناٹک کا صدر مقام ہے، نہایت سرسبز و شاداب اور خوبی و خوبصورتی میں لاجواب ہونے کی وجہ سے ’’شہر گلستان‘‘ کہلاتا ہے، قدرے بلندی پر ہونے کی بنا پر یہاں کا موسم بھی عام طور سے بڑا خوشگوار اور خنک ہوتا ہے، تمدنی اعتبار سے بھی یہ ہندستان کے چند ان بڑے شہروں میں سے ہے جو تیز رفتاری سے ترقی کر رہے ہیں، خاص طور پر انفارمیشن ٹکنالوجی میں یہ شہر بہت مشہور ہے، شہر کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے، اور ان میں مسلمانوں کا تناسب لگ بھگ پچیس فیصد ہے، کہا جاتا ہے کہ ضلع بنگلور میں تقریباً نو سو مسجدیں ہیں، جن میں سے اکثر بڑی خوش ذوقی اور حسن و خوبی سے بنائی گئی ہیں، یہاں تجارت کے علاوہ سرکاری ملازمتوں میں بھی مسلمانوں کا حصہ قابل لحاظ اور لائق شکر ہے۔
بنگلورکا پہلا سفر
راقم کو ہندستان کے مشہور شہر، کرناٹک کے پایہ تخت بنگلور کے سفر کا بارہا اتفاق ہوا، لیکن وہ تمام اسفار یا تو بہت ہی مختصر ہوتے، یا پھر رشتہ داروں سے ملاقات اور چند پارکوں اور باغات کی سیر تک محدود ہوتے، ہوش و حواس سنبھالنے کے بعد بنگلور کا پہلا سفر بذریعہ بس جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں تعلیم کے دوران ۱۴۲۹ ھ مطابق ۲۰۰۸ ء کوششماہی کی چھٹیوں میں ہوا، جو اصلاً بنگلور سے ایک عزیز برادر مکرم جناب مولانا افتخار ندوی ( مقیم عراق )کے ہمراہ آبائی وطن مظفرپور، بہار جانے کے لئے تھا، لیکن بس کے پہنچنے میں اتنی تاخیر ہوئی کہ ٹرین چھوٹ گئی، اور ایک ہفتہ اپنے ایک بزرگ و کرم فرما جناب انظار صاحب کے گھر پر رہنے کا اتفاق ہوا۔
جناب انظار صاحب کئی سالوں سے بغرض تجارت یہاں مقیم ہیں، بلکہ یہیں منتقل ہو چکے ہیں، ملک و بیرون ملک ان کے لوہے کے کئی کارخانہ ہیں، علم و اہلِ علم کے قدرداں ہیں، مظفر پور میں والد ماجد جناب مولانا شرف عالم صاحب کے قائم کردہ جامعہ ربانیہ اشفاقیہ میں اشفاقیہ کی نسبت انہیں کے وا الد جناب حافظ اشفاق صاحب کی طرف ہے، مدرسہ سے متعلق زمینوں میں سے ایک بڑا حصہ انہیں کا عطا کردہ ہے۔
غرض یہ کہ اس طرح ایک ہفتہ شہر گلستاں بنگلور میں قیام کا موقع ملا، کم سنی، حالت اضطراری اور سفر کی فکر مندی کی وجہ سے بس قیام ہی رہا، کسی خاص جگہ جانے کا موقعہ نہ ملا۔
بنگلورکا دوسراسفر
دوسرا سفر اسی کے ایک سال بعد ۱۴۳۰ ھ مطابق ۲۰۰۹ ء کوجناب انضار صاحب ہی کی والد صاحب کو دی گئی دعوت پر ان کے ایک ہوٹل Royal Residencyکے افتتاح کے موقعہ پرمع اہل خانہ کے ہوا تھا، اس موقعہ پر سفر مختصر تھا، جس کی وجہ سے صرف چند جگہوں ہی پر جانا ہو سکا، جن میں ایک اہم لال باغ کی سیر رہی، اس زمانے میں لال باغ کا نام بہت ہی مشہور تھا، بچے اس کی سیر کو فخر سے بیان کرتے تھے، جنوری کا مہینہ ہونے کی وجہ سے پورا باغ ہرا بھرا اور سجا ہوا تھا، اسی موقعہ پر پہلی مرتبہ بہت سے رنگ برنگے پھولوں، مختلف قسم کے پھلوں اور سبزیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔
بنگلور کا تیسرا یادگار و خوشگوار سفر
پھر اسی کے ایک سال بعد ۱۴۳۱ ھ مطابق ۲۰۱۰ ء کوجامعہ اسلامیہ بھٹکل کے اختتامی تعلیمی سال کے آخری ایام میں بھی ایک سفر کا اللہ تعالیٰ نے قابل شکر موقع عطا کیا،، وہ اگر چہ اور بھی مختصر تھا، لیکن وہ میری زندگی کے یادگار اسفار میں سے ایک سفر بن گیا، وہ سفر والد ماجد کے حکم اور ان کی معیت میں عالم اسلام کے مشہور و معروف عالم دین جناب مولانا مفتی تقی عثمانی مد ظلہ العالی کی زیارت اور ان کے جلسوں میں شرکت کے لئے ہوا، اس سفر کی عجیب داستان ہے، پہلے یہ مشہور ہوا تھا کہ ان کا جلسہ تمل ناڈو میں ہو گا، لہٰذا ہم مینگلور ہوتے ہوئے وہاں پہنچے، تو پتہ چلا کہ یہاں کے جلسے مختصر کر دیئے گئے ہیں، اب کچھ جلسے بنگلور میں ہوں گے، لہٰذا بھاگے بھاگے ہم لوگ بنگلور پہنچے، اور مجھے اس اجلاس میں شرکت کا موقع ملا جو علماء کے لئے مختص تھا، جس میں مفتی صاحب نے خطاب کے بعد اپنی حدیث کی سند بھی سب کو عطا کی، یہ جلسہ شہر بنگلور کی عظیم دینی درسگاہ شاہ ولی اللہ سے متصل ایک بہت بڑے میدان میں رکھا گیا تھا، حاضرین کی تعداد کا اندازہ دس ہزار سے زیادہ تھا، جو سب کے سب علماء تھے، بہر کیف جلسہ کے اختتام کے تھوڑی دیر بعد واپسی ہوئی۔
چونکہ یہ تمام اسفار صرف اور صرف بنگلور شہر کے تھے، اس لئے آرزو تھی کہ کچھ وقت نکال کر شہر بنگلور کے اطراف کا ایک تفصیلی سفر کیا جائے، جس میں خاص طور پر سلطنت خداداد کے پایۂ تخت میسور بھی حاضری دی جائے۔
لیکن جامعہ اسلامیہ بھٹکل سے فراغت کے بعد جب اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے دار العلوم ندوۃ العلماء جانا ہوا، اور فراغت کے بعد بھی کئی سالوں تک وہیں رہنا ہوا، تو بیرونی ممالک کے ساتھ شمالی ہند کے مختلف علاقوں کے سفر کا موقع ملا، لیکن جنوبی ہند کے کسی خاص سفر کا اتفاق نہیں ہوا، حالانکہ بعض اوقات کیرالہ و حیدرآباد کے سفر کا شدید تقاضہ ہوا، لیکن وہ اس وقت پورا نہ ہو سکا۔
بنگلور کا تازہ سفر اور اس کی مناسبت
اس مرتبہ بنگلور کے سفر کے کئی اسباب یکجا ہو گئے تو ارادہ ہوا کہ اس بار کچھ زیادہ وقت اس سفر کے لئے نکالا جائے، تاکہ تمام کام بھی پورے ہو جائیں، اور ایک دیرینہ آرزو کی بھی تکمیل ہو جائے، اسی کے پیش نظر ۲۱؍ جنوری ۲۰۱۶ ء کا ٹرین کا ٹکٹ مرڈیشور سے بنگلور تک کا بنایا گیا، اس سے پہلے جتنے سفر ہوئے تھے سب بذریعہ بس ہی تھے، کیونکہ یہاں سے بنگلور تک کے لئے کوئی ٹرین نہیں تھی، ادھر کچھ عرصہ سے یہ ٹرین چلائی گئی ہے۔
آغاز سفر
بہر کیف ۲۱؍ جنوری ۲۰۱۶ ء بروز جمعرات بعد نماز عصر گھر سے اسٹیشن کے لئے روانہ ہوئے، رخصت کرنے کے لئے تمام اہل خانہ اسٹیشن تک آئے ہوئے تھے، جیسے ہی اسٹیشن پر پہنچے راقم کے محسن و کرم فرما جناب مولانا محمد حسین صاحب کے فرزند ارجمند حافظ حمید اللہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بتایا کہ والد صاحب بھی اسٹیشن پر ہیں، اور وہ بھی اسی ٹرین سے میسور جا رہے ہیں، اندر داخل ہوتے ہی مولانا سے بھی ملاقات ہوئی، مولانا کے ساتھ ان کی اہلیہ اور بھی کچھ لوگ تھے، رخصت کرنے کے لئے مولانا کے ایک اور فرزند برادرم حافظ نعمت اللہ (استاذ مدرسہ تنویر الاسلام مرڈیشور، بھٹکل) بھی آئے ہوئے تھے، ان تمام حضرات سے ملاقات ہوئی۔
ٹرین الحمد للہ وقت پر تھی، اللہ کا نام لے کر ٹرین پر سوار ہوئے، ساتھ میں ہمشیرہ سلمہا اور بھانجہ عزیزم محمد انس سلمہ اللہ و رعاہ تھے، ان کے متعلق خدشہ تھا کہ کہیں ٹرین پر رونے نہ لگیں، لیکن پورے سفر الحمد للہ پرسکون رہے، بلکہ ٹرین چلتی تو سوتے رہتے، اور رکتے ہی بیدار ہو جاتے۔
کُنداپور
کچھ دیر کے بعد جب ٹرین کنداپور اسٹیشن پر رکی، تو میں عزیزم محمد انس حفظہ اللہ کو لے کر ٹہلنے لگا، کچھ آگے بڑھا تو بھٹکل سے سوار ہونے والے متعدد افراد سے ملاقات ہوئی، جن میں خصوصاً جناب مولانا اسحاق صاحب (استاذ مدرسہ تعلیم القرآن، تینگنگنڈی، بھٹکل) جناب حافظ قاسم صاحب (استاذ شعبۂ حفظ جامعہ اسلامیہ، بھٹکل) جناب مولانا نور الامین صاحب، جناب مولانا ازہر صاحب قابل ذکر ہیں، یہ تمام حضرات استاذ محترم جناب مولانا عبد الباری صاحب ندوی (جن کا ابھی کچھ ماہ عرصہ انتقال ہو گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون، اللہ غریق رحمت فرمائے ) کی عیادت کے لئے جا رہے تھے، ان حضرات کی ملاقات سے مولانا سے لوگوں کو جو محبت اور عقیدت تھی اس کا ہلکا سا اندازہ ہوا، سب کو ایک ہی غم تھا، مولانا کی بیماری کا، اور سب کے لبوں پر ان کے لئے دعا اور خدا کے حضور ایک ہی قلبی صدا تھی کہ خدا جلد از جلد ان کو شفاء عطا فرمائے۔
منگلور
کنداپور سے مزید ایک گھنٹہ کے سفر کے بعد کرناٹک کے مشہور ساحلی شہر منگلور پہنچنا ہوا، یہاں ٹرین تقریباً ایک گھنٹہ رکتی ہے، وضو وغیرہ کر کے نماز سے فارغ ہوئے، راقم نے اپنے ایک درسی ساتھی جناب مولانا عثمان غنی آدم صاحب کو اطلاع کر دی تھی، وہ منگلور کے مشہور ادارہ ’’اقرأ‘‘ میں مدرس ہیں، وہ تشریف لائے، ماشاء اللہ ان سے دلچسپ ملاقات رہی، نو بجے پھر سفر شروع ہوا، اور الحمد للہ ہم لوگ کھا نے سے فارغ ہو کر نیند کی آغوش میں چلے گئے۔
رام نگرم
رات بھر ٹرین مختلف مقامات سے گزرتی رہی، جن میں کچھ مقامات جانے پہچانے تھے جیسے: ہاسن، منڈیا، میسور وغیرہ۔ تو بہت سے ایسے تھے جو پردۂ سماعت سے پہلی بار ٹکرا رہے تھے، صبح جب پو پھٹی تو ٹرین بنگلور کے مضافات میں داخل ہو چکی تھی، کچھ دیر بعد ایک اسٹیشن سے ٹرین گذری، جس پر ’’رام نگرم‘‘ لکھا تھا، ذہن پر زور دیا تو یاد آیا کہ یہ جانا پہچانا شہر ہے، اس لئے کہ مشہور عالمی تحریک دعوت و تبلیغ، کرناٹک کے ذمہ دار جناب مولانا قاسم قریشی صاحبؒ (افسوس کہ ۲۳؍ جولائی ۲۰۱۶ ء کو مولانا اس دار فانی سے دار آخرت کی طرف کوچ کر گئے) اسی شہر سے تعلق رکھتے تھے، الحمد للہ راقم کو جماعت دعوت و تبلیغ کے سلسلہ میں کچھ دنوں یہاں قیام کا بھی اتفاق ہوا ہے، اس دوران مولانا سے خصوصی ملاقات کا بھی شرف حاصل ہوا تھا، یہاں کی اکثر مسجدوں میں مولانا ہی کے فرزندان امامت و خطابت کے فرائض انجام دیتے ہیں، تمام فرزندان ماشاء اللہ حافظ قرآن اور اکثر عالم دین بھی ہیں، سب دین کی خدمت میں بڑی لگن کے ساتھ ہمہ تن مگن ہیں، یہاں ریشم کا کام وسیع پیمانہ پر ہوتا ہے، اس موقعہ پر اس کام کوبھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔
تقریباً نو بجے کے قریب ٹرین بنگلور اسٹیشن پر پہنچی، راقم کے بہنوئی جناب مولانا مفتی مرشد صاحب زید لطفہ ابھی نہیں پہنچے تھے، سامان وغیرہ اتار کر ایک طرف رکھا گیا، اور ان کا انتظار کیا جانے لگا، اور الحمد للہ عند الانتظار الاستغفار کا مصداق بننے کا موقع ملا۔
تھوڑی دیر کے بعد مولانا مرشد صاحب اپنے ایک شاگرد علم مولوی افضل کے ہمراہ تشریف لائے، پھر ہم لوگ اپنی منزل مقصود کی طرف روانہ ہوئے۔
جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور
ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد شہر بنگلور سے باہر واقع جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم کے صدر دروازہ پر پہنچے، یہ جامعہ ۱۴۰۴ ھ مطابق ۱۹۸۴ ء میں قائم ہوا، یہاں سے اب تک سو سے زائد علماء فارغ ہو کر ہندستان کے مختلف خطوں میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں، اور تین سو سے زائد نونہالانِ امت حفظ قرآن مکمل کر چکے ہیں، تقریباً دو سو پچاس طلبہ طعام و قیام و دیگر تمام سہولیات کے ساتھ زیر تعلیم ہیں، ۲۵؍ مدرسین تدریسی و تربیتی خدمات انجام دے رہے ہیں، یہاں تعلیم کے ساتھ طلبہ کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، اس وقت اس جامعہ کا شمار ہندستان کے عظیم و ممتاز مدارس میں ہوتا ہے، جامعہ کا تعلیمی معیار بلند اور اکابر کی نظر میں مقبول ہے، پہلے یہ بنگلور شہر میں ہی واقع تھا، اب کچھ سالوں قبل جگہ کی قلت کی بناء پر شہر سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے، تعمیراتی کام ابھی جاری ہے، سال کے اختتام تک تکمیل کی توقع ہے۔
مفتی سعادت اللہ خاں صاحب کی قیامگاہ پر
جمعہ کا دن ہونے کی وجہ سے طلباء نہانے دھونے میں مشغول تھے، راقم کا سامان دار الاساتذہ میں رکھوایا گیا، اور ناشتہ کے لئے مدرسہ کے ایک موقر استاذ جناب مولانا مفتی سعادت اللہ خان صاحب مد ظلہ کی قیام گاہ پر تشریف لے گئے، مولانا اصلاً ہندستان کے صوبہ آسام سے تعلق رکھتے ہیں، کئی سالوں سے یہاں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں، اس کے علاوہ افتاء کی بھی ذمہ داری آپ پر ہے، نیز جامعہ میں خطبۂ جمعہ کے بھی فرائض بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں، نہایت ہی خوش اخلاق، متواضع اور ملنسار ہیں، حد درجہ شفیق اور دوسروں کا خیال رکھنے والے ہیں، مولانا کے یہاں ناشتہ کے بعد غسل وغیرہ سے فارغ ہو کر نماز جمعہ کے لئے حاضر ہوئے۔
بعد نماز جمعہ مدرسہ میں قیام کرنے والے اساتذہ سے ملاقات ہوئی، اور ان سے تعارف ہوا، یہاں ماشاء اللہ مختلف علاقوں کے اساتذہ خدمات انجام دے رہے ہیں، آج جمعہ ہونے کی وجہ سے بس یہی چند تعارفی ملاقاتیں ہو سکیں۔
جامعہ کا نظام تعلیم و تربیت
دوسرے دن صبح ناشتہ سے فراغت کے بعد ترانہ کے وقت مدرسہ پہنچے، ترانہ میں حضرت اقدس مولانا مفتی تقی عثمانی مد ظلہ العالی کے آسان ترجمۂ قرآن سے ایک دو رکوع پڑھا جاتا ہے، پھر ایک مناجات کے چند اشعار پڑھے جاتے ہیں، ترانہ کے بعد درجات کے نظام کو بھی دیکھنے کا موقع ملا، یہاں درسِ نظامی کے مطابق تکمیل تک تعلیم ہوتی ہے، تعلیم کا نظام اچھا ہے، گو تعمیراتی کام کی وجہ سے کچھ دقت ضرور ہے، شہر سے آنے والے اساتذہ سے بھی ملاقات ہوئی، جامعہ کا کتب خانہ بھی دیکھنے کا موقعہ ملا، مختلف علوم و فنون پر مشتمل کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ یہاں موجود ہے، شہر بنگلور سے متعلق کچھ اہم اور نادر کتابیں بھی نظر سے گذریں، صبح سات بجے تعلیم کا آغاز ہوتا ہے، صبح چھ گھنٹے اور بعد نماز ظہر تین گھنٹے ہوتے ہیں، سوا نو بجے ناشتہ کے لئے وقفہ ہوتا ہے، بعد نماز ظہر بانی و مہتمم جامعہ جناب مولانا مفتی شعیب اللہ خان مفتاحی زیدت محاسنہم کی تربیتی و اصلاحی مجلس ہوتی ہے، جس سے طلباء و اساتذہ مستفید ہوتے ہیں، بعد نماز مغرب تا گیارہ بجے رات اساتذہ کی نگرانی میں تعلیم ہوتی ہے، فجر سے کچھ قبل طلباء کو بیدار کیا جاتا ہے، نماز فجر سے دس منٹ قبل تک ذکر جہری اور مراقبہ کیا جاتا ہے، جس سے ایمان و ایقان تازہ و بے اندازہ زیادہ ہوتا ہے، غرض تعلیم و تربیت کا مکمل نظام ہے، اساتذہ بھی باصلاحیت اور مخلص ہیں، ہمہ وقت طلبہ کی تعلیم و تربیت اور جامعہ کی ترقی کی فکر میں رہتے ہیں، اکثر گفتگو کا موضوع طلبہ اور کتابیں ہی ہوتی ہیں، جو بڑی خوش آئند بات اور قابل تقلید عمل ہے۔
حضرت مولانا شعیب اللہ خاں مفتاحی دامت برکاتہم سے ملاقات
صبح وقفہ کے دوران بانی و مہتمم جامعہ حضرت مولانا شعیب اللہ خان مفتاحی دامت برکاتہم سے ملاقات ہوئی، راقم نے اپنی مطبوعہ کتابیں مولانا کی خدمت میں پیش کیں، اور زیر طبع کتاب ’’روشن چراغ‘‘ پر مقدمہ لکھنے کی درخواست کی، مولانا نے بڑی خوش دلی سے قبول کیا۔ ( ’’روشن چراغ‘‘ اب الحمد للہ لکھنؤ کے مشہور کتب خانہ مکتبہ شباب سے شائع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہے، اور ماشاء اللہ امید سے زیادہ مقبول ہوئی، جس کا اجرا شارجہ، دبئی میں ہوا، مولانا کی مصروفیات کی وجہ سے مقدمہ موصول نہ ہو سکا، جس کا افسوس رہا، امید کہ ان شاء اللہ آئندہ ایڈیشن یا اگلا حصہ مولانا کے مقدمہ سے مزین ہو گا)۔
مولانا کا تعارف
مولانا کی پیدائش ۱۳؍ رجب ۱۳۸۱ ھ کو شہر بنگلور کے محلہ بیدواڑی میں ہوئی، دسویں تک عصری تعلیم کے حصول کے بعد حضرت اقدس مولانا مسیح اللہ خانؒ کے مدرسہ جامعہ مفتاح العلوم جلال آباد میں دینی تعلیم کی ابتدا کی، عصری تعلیم ہی کے دوران حفظ کی بھی تکمیل کر لی، کچھ سالوں کے لئے اشرف العلوم گنگوہ بھی تشریف لے گئے، پھر جامعہ مفتاح العلوم ہی سے فراغت حاصل کی اور تکمیل افتاء بھی کیا، زمانہ طالب علمی ہی سے اپنے وقت کے اکابر علماء سے وابستہ رہے، اور اجازت و خلافت سے بھی سرفراز کئے گئے۔
کتابوں سے، نہ وعظوں سے، نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
آپ جہاں جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم کے ذریعہ دین و شریعت کی خدمت کر رہے ہیں، وہیں اپنے محلہ میں امامت و خطابت کے ذریعہ عوام کی اصلاح کی بھی کوشش کر رہے ہیں، نیز وعظ و ارشاد کے لئے ہندستان کے مختلف علاقوں کا سفر بھی کرتے رہتے ہیں، آپ کی ادارت میں اردو ماہنامہ ’’ تکبیر مسلسل‘‘ اور انگریزی ماہنامہ ’’اسلامک ویزن‘‘ بھی نکلتا ہے، اس کے علاوہ عصری اسکولوں کے قیام، عصری اسکولوں کے طلباء کے لئے دینی تعلیم کے نظام، طالبات کے لئے دینی تعلیم کے انتظام، فتوی نویسی کے ذریعہ امت کی صحیح رہنمائی وغیرہ کام بھی آپ کی زندگی کا اہم حصہ ہیں، جس کے لئے آپ ہر وقت فکر مند رہتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ آپ کے قلم سے کئی کتابیں شائع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں، جن کی تعداد سو سے زیادہ ہے، جن میں سے کچھ بے حد مقبول عام و خاص ہوئی ہے، غرض یہ کہ مولانا مختلف جہات سے دین کی خدمت اور ملت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں، اور ان اشعار کے مصداق بنے ہوئے ہیں:
حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
شہر بنگلور کے دیگر اہم اداروں کی زیارت
ان دو دنوں میں الحمد للہ جامعہ کے شب و روز سے مکمل واقفیت ہوئی، تو ارادہ ہوا کہ بنگلور کے اور بھی دیگر اہم مدارس کی زیارت کر لی جائے، اس کے لئے مولانا مرشد صاحب نے اپنے ایک ساتھی مولانا اسمعیل صاحب کو فون کیا، تو انہوں نے کہا کہ اتوار کو مجھے چھٹی ہوتی ہے، اس لئے اتوار کی صبح کا وقت مناسب ہو گا، لہٰذا میں اتوار کی صبح جامعہ سے بذریعہ بس شہر بنگلور کے مشہور علاقہ فریزر ٹاؤن پہنچا، وہاں مولانا اسمعیل صاحب اپنی موٹر سائیکل لے کر آ گئے، پھر ان کے ساتھ شہر بنگلور کے اہم اداروں جامعہ شاہ ولی اللہ، جامعہ سبیل الرشاد اور اہم مسجدوں میں مسجد اسمعیل سیٹ اور مسجد قادریہ وغیرہ دیکھنے کا موقعہ ملا۔
ٹمکور کا سفر
ظہر کے کھانے کا نظم مولانا اسمعیل صاحب کے گھر پر تھا، ظہرانہ سے فراغت کے کچھ دیر بعد راقم بذریعہ ٹرین بنگلور سے متصل ایک اہم شہر ٹمکور کے لئے روانہ ہوا، ریاست کرناٹک کے اہم شہروں میں سے ایک شہر ٹمکور بھی ہے، یہاں ندوہ کے ایک جید فاضل جناب مولانا خالد بیگ صاحب ایک متحرک اور فعال شخص ہیں، مختلف جہات اور طریقوں سے دین کی خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کے فرزند جناب مولانا اسامہ صاحب کے ساتھ ندوہ میں کئی سال مولانا عبد العزیز صاحب بھٹکلی ندوی (نائب مہتمم دار العلوم ندوۃ العلمائ، لکھنؤ) کے دسترخوان پر ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا، اگر چہ وہ مجھ سے جونیئر تھے، لیکن ساتھ رہنے کی وجہ سے اکثر و بیشتر دینی کاموں اور علمی چیزوں سے متعلق تبادلۂ خیال ہوتا رہتا تھا، اسی دوران وہ اپنے والد کے کاموں کا تعارف بھی کیا کرتے تھے، اور وہاں آنے کی دعوت بھی دیتے تھے، ارادہ ہوا کہ اس موقع پر یہاں کا بھی سفر ہو جائے، سفر سے قبل فون کیا تو انہوں نے میرے ارادہ کی پر زور تائید کی، اور ضرور آنے کے لئے کہا، لہٰذا میں بنگلور سے بذریعہ ٹرین ٹمکور کے لئے روانہ ہوا، ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد ٹمکور پہنچا، مولوی اسامہ صاحب اسٹیشن آئے ہوئے تھے، ان کے ہمراہ سب سے پہلے ان کے والد کے قائم کردہ اسکول دار الارقم کے دفتر پہنچے، یہیں ان کے والد صاحب سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی، راقم نے اپنی کتابیں ان کی خدمت میں پیش کیں، جس کو انہوں نے قبول کیا، ایک نظر دیکھ کر مفید مشوروں سے نوازا، اور دعائیں دیں۔
رات دیر گئے مولانا اسامہ صاحب یہاں کے کاموں کا تعارف کراتے رہے، جس کو دیکھ کر خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی، ان کے کام کے مختلف میدان ہیں:
۱) دینی بنیادوں پر عصری اسکولوں کا قیام، اب تک ہندستان کے مختلف علاقوں میں ان کے پچاس سے زائد اسکولوں کا قیام عمل میں آ چکا ہے، اورمستقل کام جاری ہے۔
۲) غیرمسلموں میں دعوت کا کام، ابھی کچھ دنوں قبل غیر مسلموں کے لئے سیرت نگاری کا ایک مسابقہ رکھا گیا، جس میں اندازہ سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی، اور اچھے تاثرات کا اظہار فرمایا۔
۳) مسلم علاقوں میں ترقیاتی کام۔
اس کے ساتھ ساتھ مولانا اسامہ صاحب نے اپنی مشغولیات سے بھی واقف کرایا، جس میں خاص طور پر ڈیجیٹل لائبریری پر ان کا کام بہت جلد منظر عام پر آنے والا ہے، اللہ مقبولیت و محبوبیت سے نوزے، آمین۔
رات ان کے مہمان خانہ میں قیام رہا، صبح ناشتہ کے بعد ان کے اسکول کا تفصیلی تعارف حاصل ہوا، نیز درجوں کے نظام کو بھی دیکھنے کا موقعہ ملا۔
ٹمکور سے واپسی
بعد نمازِ ظہر کھانے سے فراغت کے بعد راقم ٹمکور سے بنگلور کے لئے بذریعہ بس روانہ ہوا، اور دس بجے کے قریب جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم پہنچا، رات وہیں قیام رہا، صبح نو بجے وہاں کے اساتذہ سے ملاقات کے بعد میسور کے لئے رخت سفر باندھا۔
سفر میسور
میسور یا میسورو ہند کی ریاست کرناٹک میں واقع مشہور شہر ہے، یہ سلطنت خداداد کا پایہ تخت تھا، اور اب ریاست کرناٹک کا دوسرا بڑا شہر مانا جاتا ہے، یہ ایک سیاحتی مقام بھی ہے، کرناٹک کا پرانا نام میسور تھا، میسور ’’ محلوں کے شہر ‘‘کے نام سے بھی معروف ہے۔
میرے اس سفر کے اصل مقاصد میں سے ایک اہم اور بنیادی مقصد میسور جانا بھی تھا، اتفاق یہ کہ مولانا محمد حسین صاحب جامعی مرڈیشوری دامت برکاتہم بھی آج کل یہیں تھے، اور انہوں نے دعوت بھی دی تھی، نیز میسور سے قریبی علاقہ سری رنگا پٹنم میں ٹیپو سلطان سے متعلق اہم علاقوں کی زیارت کے ساتھ وہاں کے مشہور ادارہ دار الامور بھی حاضری کا ارادہ تھا، ان سب وجوہات کے پیش نظر بنگلور سے بذریعہ ٹرین میسور کے لئے روانہ ہوا، دو بجے کے قریب میسور اسٹیشن پہنچا، میرے مشفق و مخلص مولانا محمد حسین صاحب مد ظلہ گاڑی لے کر آئے ہوئے تھے، ان کے ہمراہ ان کے گھر جانا ہوا، مولانا، ان کی اہلیہ اور ان کے پورے خاندان کا راقم کے گھرانہ سے بڑا گہرا اور قدیم تعلق ہے، میری پیدائش کے وقت مولانا محترم اور ان کے اہل خانہ خصوصاً ان کی والدہ ماجدہ اور ان کی زوجہ محترمہ نے میری والدہ محترمہ اور میرے والد محترم کا بڑا مخلصانہ و مومنانہ ساتھ دیا تھا، جس کا والد ماجد ہمیشہ تذکرہ کرتے رہتے ہیں، اللہ اپنی شایان شان ان تماموں کو اس کا بہتر صلہ عطا فرمائے، آمین
جناب مولانا محمد حسین صاحب جامعی بھٹکل سے متصل شہر مرڈیشور کے جید عالم دین ہیں، جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے ابتدائی فارغین میں سے ہیں، مدرسہ تنویر الاسلام مرڈیشور کے لئے آپ کی خدمات مسلم ہیں، کئی سالوں تک آپ اس کے اہتمام کے منصب پر بھی فائز رہے، انتظامی صلاحیتوں کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ نے زورِ خطابت اور پُر اثر اندازِ بیاں سے بھی نوازا ہے، اور ان اشعار کا مصداق بنایا ہے:
کیوں زیاں کار بنوں، سُود فراموش بنوں
فکرِ فردا نہ کروں، محوِ غم دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہمنوا! میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
کئی سالوں تک جامع مسجد مرڈیشور اور مسجد نور مرڈیشور میں خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے، نیز محکمہ شرعیہ کے ذریعہ عوام کے مسائل کو حل کرنے کی بھی کوشش کرتے رہے، اپنے علاقہ کے عوام کی اصلاح، نوجوانوں کی ذہنی و فکری تربیت، معاشرہ میں پائی جانے والی بدعات و خرافات کے ازالہ اور نوجوانوں کو ایک نیا رخ دینے میں آپ کا اہم رول ہے، آپ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے رکن شوری اور اس کی تعلیمی کمیٹی کے رکن بھی ہیں، مرڈیشور و میسور میں مختلف اداروں کی سرپرستی اور تعلیمی رہنمائی کے ذریعہ دین کی قابل قدر خدمت انجام دے رہے ہیں۔
میسور پیلیس کی سیر
ظہرانہ و قیلولہ کے بعد مولانا کے فرزند برادر عزیز حافظ عبد النور اور نواسہ عزیزم عبد اللہ سلمہ کے ہمراہ میسور کے مشہور تاریخی مقامات کی سیر کے لئے روانہ ہوئے، خصوصاً میسور محل (Mysore Palace) کو تفصیل سے دیکھنے کا موقعہ ملا، اٹھارویں صدی کے اختتام پر اس محل کی تعمیر شروع کی گئی تھی، جو آج بھی نہایت ہی قابل دید عمارت ہے، اس کا انتظام حکومت کرناٹک نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے، اسی وجہ سے اس کے دونوں دربار ہال کا تعمیراتی حسن آج بھی عام آدمی کو مسحور کر دیتا ہے، اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابھی کچھ دیر قبل دربار ختم ہوا ہے، وہاں سے واپسی پر اس علاقہ میں قائم مختلف طلباء و طالبات کے اداروں میں جانا ہوا، مولانا کے داماد مولانا ابراہیم صاحب ندوی سے بھی ملاقات ہوئی، جو میرے والد گرامی کے شاگرد خاص اور رفیق با اخلاص ہیں، ان کی ذہانت و فطانت اور بیت بازی میں ان کی مہارت کا والد صاحب کبھی کبھی تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔
سری رنگا پٹنم کی زیارت
دوسرے دن صبح وہ وقت آ گیا، جس کا شدت سے انتظار تھا، یعنی ان علاقوں کا سفر جو آزادیِ ہند کے بلند پایہ قائد، عظیم مجاہد ٹیپو سلطان شہید کی یادگار ہیں، اتفاق سے محمود خان محمود بنگلوری کی کتاب ’’سلطنت خداداد‘‘ مولانا کے یہاں دستیاب ہوئی، جس کے جستہ جستہ مطالعہ سے بہت سی معلومات حاصل ہوئیں، غرضیکہ گیارہ بجے کے قریب بذریعہ کار ہم لوگ سری رنگا پٹنم کے لئے روانہ ہوئے، برادر عزیزحافظ عبد النور گاڑی چلا رہے تھے، سب سے پہلے ہم لوگ ٹیپو سلطان کے محل سے گذرتے ہوئے محل کے اس حصہ میں پہنچے جس کے پیچھے دریا بہہ رہا ہے، اسی حصہ میں ایک عمارت ہے جس سے متعلق کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کو یہیں قید کیا جاتا تھا، یہاں سے متعلق بہت سے واقعات وابستہ ہیں، جن میں خاص طور پر ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی صاحب کا یہ واقعہ کہ جب ان کے خلاف راجہ کے دربار میں سازش کی گئی تو یہیں سے دریا کے راستہ تیرتے ہوئے بنگلور پہنچے، پھر وہاں سے اپنی فوج کو منظم کر کے حملہ کیا، اور حکومت کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لی، وہاں پہنچتے ہی یہ سب واقعات ذہن میں گردش کرنے لگے، انہیں واقعات کا تصور کرتے ہوئے قلعہ کے مختلف علاقوں سے گذرتے ہوئے، اس تاریخی مسجد کے پاس پہنچے جو مسجد اعلیٰ کے نام سے موسوم ہے۔
مسجد اعلی
یہ بڑی پرشکوہ اور نہایت مضبوط تعمیر شدہ مسجد ہے، جس کے مینار دور سے نظر آتے ہیں، عمارت کے دو حصے ہیں، نیچے والے حصہ میں وضو خانہ وغیرہ ہے، اور اوپر کے حصہ میں مسجد ہے، جس تک پہنچنے کے لئے سیڑھیاں ہیں، حضرت مولانا تقی عثمانی مد ظلہ العالی نے اپنے ہندستان کے سفرنامے میں اس مسجد کی زیارت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’ بعض تواریخ میں یہ مذکور ہے کہ جب یہ مسجد تیار ہوئی تو یہ طے کیا گیا تھا کہ اس میں پہلی نماز کی امامت کوئی ایسا شخص کرے گا جو صاحب ترتیب ہو، یعنی اس کے ذمے کوئی قضا نماز نہ ہو، مسجد کے افتتاح کے وقت بہت سے علماء اور صلحاء موجود تھے، لیکن کوئی اپنے بارے میں یقین سے یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ صاحب ترتیب ہے، آخر کار خود سلطان ٹیپوؒ نے بتایا کہ وہ صاحب ترتیب ہے، اور پھر انہوں نے ہی نماز پڑھائی۔
اس کے بعد سلطان مرحوم پانچوں وقت کی نمازیں اسی مسجد میں پڑھا کرتے تھے، اور شہادت کے دن بھی فجر کی نماز انہوں نے یہیں ادا کی تھی، مسجد کے صحن میں ایک دھوپ گھڑی بھی نصب ہے، جس سے نمازوں کے اوقات کا تعین کیا جاتا تھا، صحن میں کھڑے ہو کر سری رنگا پٹنم کے قلعے کی کچھ دیواریں بھی نظر آتی ہیں، مسجد کے شرق میں ایک چھوٹی سی سڑک ہے، جس پر تقریباً ایک ڈیڑھ کلو میٹر چلیں تو دائیں جانب ایک احاطہ سا بنا ہوا ہے، جس میں ایک کتبہ لگا ہوا ہے، اور اس پر انگریزی میں لکھا ہے کہ سلطان ٹیپو کی لاش یہاں پائی گئی تھی، گویا یہ جگہ ان کا مقام شہادت ہے۔ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ (سفر در سفر، ص: ۳۵۲)
اندر داخل ہوئے تو سامنے برآمدہ میں میزوں پر کتابیں رکھی ہوئی تھیں، اور طلباء مسجد کے پچھلے حصہ میں نہا رہے تھے، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ آج چھٹی ہے، اور اساتذہ سب باہر ہیں، خیر مسجد کے اوپری منزل پر چڑھے، اندرونی حصہ بند تھا، برآمدہ میں دو رکعت نماز ادا کی، پھر وہاں سے ٹیپو سلطان کے مقبرہ کے لئے روانہ ہوئے، اس علاقے میں اور بھی بہت سی تاریخی جگہیں ہیں، لیکن وقت کی کمی کی بناء پر ہر جگہ جانا نہ ہو سکا، جس کی حسرت رہی، جن میں خاص طور پر دریا دولت باغ، غوثیہ گھاٹ اور کاویری سنگم قابل ذکر ہیں۔ (تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو استاذ محترم جناب مولانا محمد الیاس صاحب ندوی بھٹکلی کی محققانہ تصنیف: ’’سیرت ٹیپو سلطان شہیدؒ‘‘، شائع کردہ: مجلس تحقیقات و نشریات اسلام، لکھنؤ)
ٹیپو سلطان شہیدؒ کی قبر پر
وہیں پر گنبد کے نام سے ایک تاریخی جگہ ہے، جہاں ایک گنبد نما عمارت کے نیچے ٹیپو سلطان مع اپنے والدین کے ہمراہ آرام فرما ہیں، اسی کے مغربی جانب مسجد اقصی ہے، احاطہ میں اور بھی بہت سی قبریں ہیں، جن پر نام بھی لکھے ہوئے ہیں، قبر مبارک پر حاضری ہوئی، اور کچھ دیر تک تصورات کی دنیا میں وہ منظر قائم ہو گیا، جب انگریز مائیں اپنے بچوں کو ٹیپو کے نام سے ڈرا کر سلایا کرتی تھیں، دعائے مغفرت کے بعد مسجد میں نماز ظہر ادا کی گئی، اور علامہ اقبال کی زبانی ٹیپو سلطان شہیدؒ کی وصیت اور ان کا یہ پیغام اپنے ساتھ لے کر آئے:
تو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلی بھی ہمنشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کہ ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو، تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میں
محفل گداز گرمیِ محفل نہ کر قبول
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے، حق لاشریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول
دار الامور کی حاضری
پھر ہم لوگ وہاں سے دار الامور کے لئے روانہ ہوئے، سفر سے قبل وہاں کے ذمہ دار جناب مولانا حاذق صاحب ندوی سے فون پر گفتگو ہوئی تھی، اور استاذِ محترم جناب مولانا نذر الحفیظ صاحب نے بھی ان کو اطلاع کر دی تھی، لیکن اتفاق یہ کہ وہ سفر پر تھے، البتہ وہاں کے ایک دوسرے ذمہ دار جناب مولانا شاہد صاحب نے ہماراپرخلوص استقبال کیا، مکمل معائنہ اور تعارف کراتے ہوئے تعارف نامہ پیش کیا، ادارہ بڑے پرسکون مقام پر قائم کیا گیا ہے، اس وقت طلبہ کا کمپیوٹر کلاس چل رہا تھا، مختصر معائنہ کے بعد قیام گاہ واپسی ہوئی۔
دار الامور کا تعارف
۱۷۸۰ ء کے دہے میں حضرت ٹیپو سلطان شہیدؒ (جو کہ اس وقت سلطنت خداداد کے بادشاہ تھے ) نے ’’دار الامور‘‘ کے نام سے ایک ایسے جامعہ کے قیام کا آغاز کیا تھا، جوجدید و قدیم کی مصنوعی تقسیم سے بالا تر ہو کر علوم شرعیہ وعصریہ کا حسین سنگم تھا، جہاں عقیدہ کی پختگی کے ساتھ ساتھ آفاق و انفس میں غور و فکر کی تعلیم دی جاتی تھی، اور ملک و ملت کی خدمت کا جذبہ سکھایا جاتا تھا، مگر ۱۷۹۹ ء میں سلطان کی شہادت کے ساتھ جہاں سلطنت خداداد کا خاتمہ ہوا وہیں اس ادارے کو بھی بند ہونا پڑا، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو کام اخلاص و للہیت کے ساتھ شروع کئے جاتے ہیں، وہ کبھی ختم نہیں ہوتے، بلکہ وقتی طور پر رک جاتے ہیں، اور جب حالات معتدل ہو جاتے ہیں، تو دوبارہ چل پڑتے ہیں، چنانچہ اس ادارہ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔
الحمد للہ ۱۹۹۷ ء میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی کے ہاتھوں سر زمین ٹیپو سلطان شہید سری رنگ پٹن گنجام میں دار الامور کی از سر نو سنگ بنیاد ڈالی گئی، اس ادارہ کے بانی ایک مخلص، عالی ہمت شخص جناب سید ضیاء اللہ شریف صاحب ہیں، اس ادارہ کاباقاعدہ افتتاح ۲۰۰۲ ء میں ہوا، اور اسی سال سے تعلیم شروع ہوئی۔
واپسی کا سفر
ظہرانہ سے فراغت کے بعد راقم بذریعہ بس ریاست کرناٹک کے ایک تجارتی شہر ویراجپیٹ کے ایک قصبہ گونی کوپل کے لئے روانہ ہوا، یہاں راقم کے درسی ساتھی جناب مولانا الیاس صاحب ندوی سیدا پوری امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں، انہوں نے آنے کی دعوت بھی دی تھی، مغرب سے کچھ قبل ان کے یہاں پہنچنا ہوا، بعد نماز عشاء یہاں کے تبلیغی ذمہ داران سے ملاقات ہوئی، خصوصاً مرڈیشور سے تعلق رکھنے والے جناب سعادت صاحب سے اچھی ملاقات رہی، بعد نماز فجر مکتب کی تعلیم ہوتی ہے، جس میں دینیات کا نصاب پڑھایا جاتا ہے، کچھ دیر تعلیم کے بعد طلباء سے کچھ بات کرنے کا موقعہ ملا، پھر طلباء نے اپنے اپنے ماحول کے مطابق سوالات کئے، جس کا تشفی بخش جواب دینے کی کوشش کی گئی۔
صبح دس بجے کے قریب واپسی کا سفر شروع ہوا، مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے شام سات بجے کے قریب منگلور پہنچا، پھر وہیں سے مرڈیشور کا سفر شروع ہوا، اور رات دس بجے کے قریب یہ سفر بخیر و عافیت تمام ہوا۔
گونی کوپل سے منگلور تک کا پورا سفر بل کھاتی ہوئی سڑکوں کے ذریعہ ہوا، سڑک کے دونوں طرف مختلف قسم کے باغات سفر کو خوشگوار بنارہے تھے، خصوصاً کافی کے باغات تا حد نگاہ پھیلے ہوئے تھے، اکثر و بیشتر شہروں میں مسلمانوں کی خاصی تعداد آباد ہے، اور مسجدوں کے طویل مینارے دور سے مسلمانوں کی موجودگی کی اطلاع دیتے تھے، غرض یہ کہ ایک ہفتہ کا یہ سفر خداکے فضل سے مکمل ہوا، جس میں بہت کچھ سیکھنے اور دیکھنے کا موقع ملا، اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس سفر کو میرے لئے اور سب کے لئے باعث خیر و برکت بنائے، اور مسلمان سلاطین کی عظمت رفتہ پھر بحال ہو۔ آمین
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں