فہرست مضامین
- چراغِ ہجر
- حسن رضوی
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
- آپ کہتے ہیں بے وفا ہیں ہم
- روشن روشن آنکھیں اس کی ڈمپل والے گال
- ایسے ہوئے برباد ترے شہر میں آ کر
- وہ جو ہم کو بھلائے بیٹھے ہیں
- ڈھل چکی شب چلو آرام کریں
- دیکھی ہیں جب سے ہم نے نذریں اتاریاں ہیں
- ہوا کے رخ پر چراغ الفت کی لو بڑھا کر چلا گیا ہے !
- ہم کو تنہا چھوڑ گیا وہ
- کلی دل کی اچانک کھل گئی ہے
- جیسا جسے چاہا کبھی ویسا نہیں ہوتا
- کھلنے لگے ہیں پھول تو پتے ہرے ہوئے
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
- حسن رضوی
- نئی رُت
چراغِ ہجر
حسن رضوی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
آپ کہتے ہیں بے وفا ہیں ہم
ہاں مگر آپ سے تو ہیں کم کم
اک نہ اک دن وہ لوٹ آئیں گے
صبر کر صبر کر مرے ہمدم
میرے گیتوں میں کون بولے ہے
کس کی آواز کا ہے زیر و بم
ہر کلی پہ ہیں شبنمی قطرے
رات تاروں نے کیا کیا ماتم؟
ہم نے تو کچھ کہا نہیں جانی
آپ کیوں ہو رہے ہیں یوں برہم
وہ بلائیں گے کیا فقیروں کو
وہ جو رکھتے ہیں پاس جامِ جم
اس لیے ہم اداس رہتے کہیں
آپ ملتے ہیں جو ہمیں کم کم
بھولنے والے بھول کر پھر بھی
یاد کرتا ہوں میں تجھے ہر دم
دیکھ کر آپ کو حسن رضوی
دور ہیں اب تو ہم سے سارے ہم
٭٭٭
روشن روشن آنکھیں اس کی ڈمپل والے گال
چاند کی صورت کھلتا چہرہ ہرنی جیسی چال
نرم و نازک پھول نگر کی تتلی تھی وہ شوخ
جس کی حسرت سے تکتی تھی میرے دل کی ڈال
جس کی وصل کی خواہش میں دل خود کو بھول گیا
کل ہی اس کو دیکھا میں نے ہجر کی اوڑھے شال
میں نے اس کا حال جو پوچھا پہلے وہ شرمائی
پھر بولی وہ دھیرے دھیرے ملیں گے اگلے سال
یہ سن کر خاموش رہا میں کچھ بھی نہیں بولا
اگلے سال امید دلا کر بات گئی وہ ٹال
٭٭٭
ایسے ہوئے برباد ترے شہر میں آ کر
کچھ بھی نہ رہا یاد ترے شہر میں آ کر
کیا دن تھے چہکتے ہوئے اڑتے تھے پرندے
اب کون ہے آزاد ترے شہر میں آ کر
یہ دن ہیں کہ چھپتے ہوئے بھرتے ہیں سرِ شام
سب لوگ ہیں ناشاد ترے شہر میں آ کر
حالات نے یوں تجھ سے جدا مجھ کو کیا ہے
ہو پائے نہ آباد ترے شہر میں آ کر
جو زخم جدائی ہے اس کس کو دکھائیں
اب کس سے ہو فریاد ترے شہر میں آ کر
اب شعر سنانے کا مزا بھی نہیں آتا
بے داد ہوئی داد ترے شہر میں آ کر
ان شوخ نگاہوں سے حسن طرز تکلم
ہم نے کیا ایجاد ترے شہر میں آ کر
٭٭٭
وہ جو ہم کو بھلائے بیٹھے ہیں
دل انہیں سے لگائے بیٹھے ہیں
اک نہ اک شب تو لوٹ آئیں گے
لو دیے کی بڑھائے بیٹھے ہیں
آج بھی ان پہ جاں چھڑکتے ہیں
وہ جو نظریں چرائے بیٹھے ہیں
ان کی آنکھوں میں ڈوبنے کو حسن
اپنا سب کچھ گنوائے بیٹھے ہیں
٭٭٭
ڈھل چکی شب چلو آرام کریں
سو گئے سب چلو آرام کریں
تم جو بچھڑے تھے ہرے ساون میں
آ ملے اب چلو آرام کریں
پھر گھٹاؤں کے نظر آتے ہیں
چپ ہوئے لب چلو آرام کریں
جانے والوں میں سے بس ہم تنہا
رہ گئے جب چلو آرام کریں
مدتوں بعد ہے دیکھی ہم نے
چاند کی چھب چلو آرام کریں
اس کے کوچے میں حسن جانے ہم
جائیں گے کب چلو آرام کریں
٭٭٭
دیکھی ہیں جب سے ہم نے نذریں اتاریاں ہیں
سارے جہاں سے اچھی آنکھیں تمہاریاں ہیں
گل رنگ مہ وشوں پہ آتا ہے رشک ہم کو
یہ صورتیں الٰہی کسی نے سنواریاں ہیں
اک بار تو کبھی تم ہلکی سی چھب دکھا دو
اس آرزو میں ہم نے عمریں گزاریاں ہیں
چہرے پہ کالی زلفیں ڈھاتی قیامتیں ہیں
مصری کی طرح میٹھی باتیں تمہاریاں ہیں
تم بن یہاں پہ جینا، جینا ہی کیسا جینا
یہ رونقیں جہاں کی تم سے ہی ساریاں ہیں
جن کو حسن ابھی تک ہم نے نہیں بھلایا
وہ جھیل جیسی آنکھیں غزلیں ہماریاں ہیں
٭٭٭
ہوا کے رخ پر چراغ الفت کی لو بڑھا کر چلا گیا ہے !
وہ اک دیے سے نہ جانے کتنے دیے جلا کر چلا گیا ہے
ہم اس کی باتوں کی بارشوں میں ہر ایک موسم میں بھیگتے ہیں
وہ اپنی چاہت کے سارے منظر ہمیں دکھا کر چلا گیا ہے
اسی کے بارے میں حرف لکھے اسی پہ ہم نے غزل کہی
جو کجلی آنکھوں سے میرے دل میں نقب لگا کر چلا گیا ہے
متاع جاں بھی اسی پہ واری اسی کے دم سے ہے سانس جاری
مرے بدن میں جو خوشبوؤں کی ہوا بسا کر چلا گیا ہے
یہ فصل فکر و خیال اپنی اسی کے دم سے ہری بھری ہے
جو کچے کوٹھوں کے آنگنوں سے دھواں اٹھا کر چلا گیا ہے
ہماری آنکھوں میں رت جگے کی جھڑی لگی ہے اسی گھڑی سے
کہ جب سے کوئی غزال اپنی جھلک دکھا کر چلا گیا ہے
ہرن محبت کے سبزہ زاروں میں جانے کب چوکڑی بھریں گے
وہ جاتے جاتے سوال ایسا حسن اٹھا کر چلا گیا ہے
٭٭٭
ہم کو تنہا چھوڑ گیا وہ
جانے رخ کیوں موڑ گیا وہ
اک ذرا سی بات کی خاطر
سارے رشتے توڑ گیا وہ
وصل کی شب وہ پیار جتا کر
ہجر سے ناطہ جوڑ گیا وہ
جانے کس کس بات پہ کل پھر
اپنی قسمت پھوڑ گیا وہ
گیلے کپڑے کی صورت ہیں
دھوپ میں ہم کو چھوڑ گیا وہ
جانے کون حسن شاخوں پر
اپنا خون نچوڑ گیا وہ
٭٭٭
کلی دل کی اچانک کھل گئی ہے
کوئی کھوئی ہوئی شے مل گئی ہے
یہ کس انداز سے دیکھا ہے تو نے
زمیں پاؤں تلے سے ہل گئی ہے
میں اس کی ہر ادا پر مر مٹا ہوں
لگائے گال پر جو تل گئی ہے
یہ کس نے چوڑیاں پہنائیں آ کر
تری ساری کلائی چھِل گئی ہے
کہاں اب پھول سرسوں کے کھلیں گے
کہاں اب وہ ہوائے دل گئی ہے
حسن اک شوخ کی خوشبو کی صورت
ہمیں دولت جہاں کی مل گئی ہے
٭٭٭
جیسا جسے چاہا کبھی ویسا نہیں ہوتا
دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہوتا
ملنے کو تو ملتے ہیں بہت لوگ جہاں میں
پر ان میں کوئی بھی ترے جیسا نہیں ہوتا
دولت سے کبھی پیار کو تولا نہیں جاتا
معیار محبت کبھی پیسہ نہیں ہوتا
جینے کا مزا لیتے ہیں یوں تو سبھی یاں
لیکن یہ مزا پیار کی شے سا نہیں ہوتا
اک بار ہی ہوتا ہے حسن پیار کسی سے
یہ پیار کا نشہ کبھی مے سا نہیں ہوتا
٭٭٭
کھلنے لگے ہیں پھول تو پتے ہرے ہوئے
لگتے ہیں پیڑ سارے کے سارے بھرے ہوئے
سورج نے آنکھ کھول کے دیکھا زمین کو
سائے اندھیری رات کے جھٹ سے پرے ہوئے
آزادی وطن کا یہ اعجاز ہے کہ پھول
سوتے ہیں لوگ اپنے سرہانے دھرے ہوئے
مل کر کریں وہ کام جو پہلے کئے گئے !
عرصہ ہوا ہے کام بھی ایسے کرے ہوئے
کیسی عجیب رت ہے پرندے گھروں سے اب
نکلے نہیں ہیں خوف کے مارے ڈرے ہوئے
آتا ہے روز خواب میں اک پیکر جمال
آنکھوں کی گاگروں کو حیا سے بھرے ہوئے
پھر سے کسی پہ ظلم کسی نے کیا ہے آج
دیکھے ہیں گھونسلوں میں پرندے مرے ہوئے
مشعل لئے ہوئے کوئی آئے گا اب حسن
بیٹھے ہیں کب سے طاق میں آنکھیں دھرے ہوئے
٭٭٭
نئی رُت
وہ جو بکھرے بکھرے تھے قافلے
وہ جو دربدر کے تھے فاصلے
انہی قافلوں کے غبار میں
انہیں فاصلوں کے خمار میں
کئی جلتے بجھے چراغ تھے
نئے زخم تھے نئے داغ تھے
نہ شبوں میں دل کو قرار تھا
نہ دنوں کا چہرہ بہار تھا
نہ تھیں چاند، چاند وہ صورتیں
سبھی ماند ماند سی مورتیں
جو تھیں گرد ہی میں اٹی ہوئیں
نئی سرزمیں کی تلاش میں
شب تیرگی میں رواں دواں
لئے دل میں اپنے نیا جہاں
وہ جہاں جو ان کا نصیب تھا
وہ جہاں جو ان کا حبیب تھا
اسی اک جہان کی آرزو
لئے دل میں ایک نئی جستجو
نئے اس جہان میں آ گئیں
یہ جہان میری یہ سرزمیں
نہیں اس سے بڑھ کے کوئی حسیں
اسی سرزمین حسین نے
جو غبار چہرہ بہ چہرہ تھا
نئے پانیوں سے مٹا دیا
ہمیں زندگی کے محاذ پر
نئی زندگی کا پتہ دیا
مرے چار سو ہیں وہ صورتیں
وہی چاند، چاند سی مورتیں
اسی سرزمین حسین پر
نئی زندگی کی بہار میں
مرے دیس کا یہ سنگھار ہیں
٭٭٭
کوئی موسم بھی ہم کو راس نہیں
وہ نہیں ہے تو کچھ بھی پاس نہیں
ایک مدت سے دل کے پاس ہے وہ
ایک مدت سے دل اداس نہیں
جب سے دیکھا ہے شام آنکھوں میں
تب سے قائم مرے حواس نہیں
میرے لہجے میں اس کی خوشبو ہے
اس کی باتوں میں میری باس نہیں
جتنا شفاف ہے ترا آنچل
اتنا اجلا مرا لباس نہیں
سامنے میرے ایک دریا ہے
ہونٹ سوکھے ہیں پھر بھی پیاس نہیں
جس کو چاہا ہے جان و دل سے حسن
جانے وہ کیوں نظر شناس نہیں
٭٭٭
پیار کرنے والوں کا بس یہی فسانہ ہے
اک دیا تو روشن ہے اک دیا جلانا ہے
ان کو بھول جائیں ہم دیکھ بھی نہ پائیں ہم
یہ بھی کیسے ممکن ہے ایسا کس نے مانا ہے
بارشوں کے موسم میں ہم کو یاد آتے ہیں
وہ جو اب نہیں ملتے ان کو یہ بتانا ہے
بس انہیں پہ مرتے ہیں جن سے پیار کرتے ہیں
پیار کرنے والوں کو جانتا زمانہ ہے
اس طرح تو ہوتا ہے پیار کرنے والوں میں
اک کو یاد رکھنا ہے اک کو بھول جانا ہے
صبح کے پرندے بھی اب تو لوٹ آئے ہیں
شام سر پہ آئی ہے اور گھر بھی جانا ہے
شام کے اُجالے میں کیوں خموش پھرتے ہو
آج سخت سردی ہے رت بھی عاشقانہ ہے
گیت ہم سناتے ہیں روز وہ بلاتے ہیں
ان سے بات کرنے کا اک یہی بہانہ ہے
دوستی نبھانے کا اک یہی سلیقہ ہے
ایک بات کرنی ہے ایک کو چھپانا ہے
پیار کا زمانہ بھی کیا حسن زمانہ تھا
اس غزل کے مقطع میں بس یہی بتانا ہے
٭٭٭
پیار کے دن اب بیت گئے ہیں
ہم ہارے وہ جیت گئے ہیں
سارے موسم ایک ہوئے ہیں
چھوڑ کے جب سے میت گئے ہیں
لے اور سُر کی بات کریں کیا!
سنگ ان کے سب گیت گئے ہیں
ان کی جفائیں یاد آتی ہیں
چھوڑ کے جو یہ ریت گئے ہیں
ان سے بچھڑ کے یوں لگتا ہے
کئی زمانے بیت گئے ہیں
٭٭٭
پھر نئے خواب بُنیں پھر نئی رنگت چاہیں
زندہ رہنے کے لیے پھر کوئی صورت چاہیں
نئے موسم میں کریں پھر سے کوئی عہدِ وفا
عشق کرنے کے لیے اور بھی شدت چاہیں
اک وہ ہیں کہ نظر بھر کے نہ دیکھیں ہم کو
ایک ہم ہیں کہ فقط ان کی ہی صورت چاہیں
بات سننے کے لیے حوصلہ دل میں رکھیں
بات کہنے کے لیے حرف صداقت چاہیں
ان کو پانے کے لیے تیشہ فرہاد بنیں
قیس بننے کے لیے قیس سی وحشت چاہیں
سانس قربان کر دیں دیس پہ اک دن ہم بھی
ایسی تقدیر ملے ایسی سعادت چاہیں
ہم ملیں ایسے کہ جوں رنگ ملے پانی میں
ان کی قربت میں حسن ایسی رفاقت چاہیں
٭٭٭
تیرے جانے کے بعد یہ کیا ہوا ہرے آسماں کو ترس گئے
گھرے ہم بھنور میں کچھ اسطرح کھلے بادباں کو ترس گئے
مرے شہر کے جو چراغ تھے انہیں آندھیوں نے بجھا دیا
چلی ایسی اب کے ہوائے دل کہ مکیں مکاں کو ترس گئے
یہ عجیب خوف و ہراس ہے کوئی دور ہے کوئی پاس ہے
وہ جو آشیاں کے تھے پاسباں وہی آشیاں کو ترس گئے
جنہیں پیار پر رہی دسترس وہی دور ہم سے ہیں اس برس
اے بہار تیری بہار میں درِ دوستاں کو ترس گئے
تھے جو کل تلک مرے آشنا سبھی یار نکلے وہ بے وفا
سدا خوش رہیں مرے خوش نوا بھلے ہم زباں کو ترس گئے
وہ جو جان سے بھی عزیز تھے وہی لوگ میرے رقیب تھے
بھلا کیسے اپنے نصیب تھے کہ کہاں کہاں کو ترس گئے
نہ وہ راگ ہے نہ وہ راگنی نہ وہ چاند ہے نہ وہ چاندنی
مری خواہشوں کے جو تیر تھے وہ کڑی کماں کو ترس گئے
نہ ہی تذکرہ یہاں ہیر کا نہ ہی ذکر مصرعۂ میر کا
حسن ایسے کتنے ہی بے نوا شب داستاں کو ترس گئے
٭٭٭
ٹھہرے پانی کو وہی ریت پرانی دے دے
میرے مولا میرے دریا کو روانی دے دے
آج کے دن کریں تجدید وفا دھرتی سے
پھر وہی صبح وہی شام سہانی دے دے
تیری مٹی سے مرا بھی تو خمیر اٹھا ہے
میری دھرتی تو مجھے میری کہانی دے دے
وہ محبت جسے ہم بھول چکے برسوں سے !
اس کی خوشبو ہی بطور ایک نشانی دے دے
تپتے صحراؤں پہ ہو لطف و کرم کی بارش
خشک چشموں کے کناروں کو بھی پانی دے دے
دیدۂ دل جسے اب یاد کیا کرتے ہیں !
وہی چہرہ وہی آنکھیں وہ جوانی دے دے
جس کی چاہت میں حسن آنکھیں بچھی جاتی ہیں
میری آنکھوں کو وہی لعل یمانی دے دے
٭٭٭
یہ قسمت کے دھارے سدا ایک سے ہیں
سمندر کنارے سدا ایک سے ہیں
مرے دل کے اک اک ورق پر لکھا ہے
یہ تیور تمہارے سدا ایک سے ہیں
مقدر میں دونوں کے ہیں ہجر گھڑیاں
ستارے ہمارے سدا ایک سے ہیں
حقیقت یہی ہے محبت کی رہ میں
سبھی غم کے مارے سدا ایک سے ہیں
تری کہکشائیں سبھی مختلف ہیں
مرے چاند تارے سدا ایک سے ہیں
ستارہ جبیں چشم آہو سے تیری
کنایے اشارے سدا ایک سے ہیں
حسن بے رُخی پر میں حیراں نہیں ہوں
جفا کار سارے سدا ایک سے ہیں
٭٭٭
وہ باخبر ہے کبھی بے خبر نہیں ہوتا
ہماری بات کا جس پر اثر نہیں ہوتا
مثال نکہت صبح وصال ہوتا ہے
بنا ترے کوئی لمحہ بسر نہیں ہوتا
چراغ ہجر مسلسل جلائے بیٹھے ہیں
کبھی ہوا کا ادھر سے گزر نہیں ہوتا
خود اپنے واسطے جینا بھی کوئی جینا ہے
سفر حیات کا کیوں مختصر نہیں ہوتا
خود اپنے دیس کی مٹی مرا تشخص ہے
دیارِ غیر کا گھر اپنا گھر نہیں ہوتا
حسن یہ عشق کی سوغات بھی عجب شے ہے
یہ وہ شجر ہے کہ جس کا ثمر نہیں ہوتا
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید