FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

پارٹ ٹائم شاعری

 

 

 

 

                ارشد خالد

 

 

 

 

انتساب

 

اپنے والد صاحب

محمد شریف مرحوم کے نام

 

 

 

انتساب

 

یہ جو لفظ ہیں

میری نظم کے

میرے رہ نما

ترے نام ہیں

٭٭٭

 

 

اپنی بات

 

۱۹۸۱ء میں عکاس کو جاری کرتے وقت ادب کا ذوق اور شوق کام کر رہا تھا۔ خان پور کے محدود ادبی ماحول میں حیدر قریشی نے جدید ادب کا اجرا کر کے ایک ہلچل سی پیدا کر دی تھی۔ اسی ہلچل کے نتیجہ میں خان پور/رحیم یار خاں سے کئی ادبی رسالے نکلنا شروع ہوئے۔ عموماً یہ رسالے حیدر قریشی اور جدید ادب سے مخاصمت کی بنیاد پر نکلے اور بہت زیادہ دھوم دھڑکے کے باوجود سب کے سب ایک دو شماروں کے بعد اپنے انجام کو پہنچ گئے۔

عکاس کا اجرا جدید ادب یا حیدر قریشی سے مخاصمت کی بنیاد پر نہیں بلکہ حیدر قریشی کے موقف کو تقویت دینے کے لیے کیا گیا۔ اس دوران جو ادبی سرگرمیاں ہوتی رہیں ان سے تحریک پا کر میں نے آزاد نظمیں کہنا شروع کیں۔ لیکن میری نظم نگاری پارٹ ٹائم شاعری سے زیادہ کچھ نہ تھی۔ سو زندگی بھر ہوتے رہنے والی یہ پارٹ ٹائم شاعری اب اتنی ہو گئی ہے کہ اس کا مجموعہ شائع کر رہا ہوں۔

کسی دعوے کے بغیر اور کسی تقاضے کے بغیر نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ اپنا یہ مجموعہ ادبی دنیا کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ قارئین کو کچھ پسندآ جائے تو یہ ان کی مہربانی ہو گی۔ جو پسند نہ آئے اس کے لیے درگزر سے کام لیں۔

 

ارشد خالد

(اسلام آباد)

 

ہوائیں، نباتات اور آسماں پر اِدھرسے اُدھر آتے جاتے ہوئے چند بادل

یہ کیا ہیں ؟

یہی تو زمانہ ہے، یہ اک تسلسل کا جھولا رواں ہے

یہ میں کہہ رہا ہوں

یہ بستی، یہ جنگل، یہ رستے، یہ دریا، یہ پربت، عمارت، مجاور۔ مسافر

ہوائیں، نباتات اور آسماں پر اِدھرسے اُدھر آتے جاتے ہوئے چند بادل

یہ سب کچھ، یہ ہر شے مرے ہی گھرانے سے آئی ہوئی ہے

زمانہ ہوں میں، میرے ہی دَم سے اَن مٹ تسلسل کا جھولا رواں ہے

مگر مجھ میں کوئی برائی نہیں ہے

کہ مجھ میں فنا اور بقا دونوں آ کر ملے ہیں !

(میرا جی کی نظم ’’یگانگت‘‘ کا اختتامی حصہ)

 

 

 

 

ارشد خالد کی زندگی کی سچائیوں سے بھر پور دلچسپ پارٹ ٹائم شاعری

 

 

                عبداللہ جاوید ـ ( کنیڈا)

 

ایک جانب دنیا چھوٹی سے چھوٹی ہوتی جا رہی ہے تو دوسری جانب اس کی گردش تیز سے تیز تر۔ اشیاء اپنی شکلیں بدل رہی ہیں اور شاید اپنی ماہیتیں بھی۔ قریب قریب ہر چیز کمو ڈیٹی اور  ’’ برائے فروخت‘‘ کی فہرست شامل میں ہو چکی ہے۔ شعر و ادب بھی۔ شاعر اور ادیب بھی۔

جب سے مشینوں کی ریل پیل بڑھی ہے آدمی بھی مشین ہونے لگا۔ اس کا جسم ہی نہیں روح بھی مشینی ہونے لگی۔ میرؔ صاحب کے زمانے میں برسوں فلک پھرا کرتا تھا تو خاک کے پردے سے انسان نکلتا تھا۔ اب شاید صدیوں کی گردش سے انسان جنم لے گا۔

ارشد خالد کی ’’ پارٹ ٹائم‘‘ نظمیں عصرِ موجود کی بھاگ دوڑ اور بدلا بدلی کی غماز ہیں۔ ان نظموں کی تخلیق زندگی کی بھاگ دوڑ کے دوران ہوئی ہے۔ ان نظموں میں آج کی سرعت کے ساتھ بدلتی ہوئی زندگی کے اثر سے بدلاؤ بھی آیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نظمیں ’آج ‘کی نظمیں ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر ’آج‘ میں گزرا ہوا ’کل‘ دیروز اور آنے والا ’ کل‘ فردا، مان نہ مان میں تیرا مہمان بن کر شامل ہو جاتا ہے۔

ارشد خالد کی ان ’آج ‘کی نظموں میں، جہاں تک میں نے غور کیا ہے۔ گزرا ہوا کل ’دیروز‘ بہت کم ہے اور آنے والا کل یعنی ’فردا‘ کا قیاس کرنا کارِ عبث لگتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے ان نظموں میں روایتی نظموں کا محض شائبہ سا ملتا ہے۔ یہ نظمیں جدی دیت سے لبریز ہیں۔

ان نظموں میں موجود جدت نہیں بلکہ جدیدیت کو اختصار سے بیان کرنے کی کوشش کر کے دیکھتے ہیں۔

۱۔ ان نظموں کے شاعر نے اپنی نظموں کو ویسا ہی کہا اور تحریر کیا جیسی وہ دورانِ تخلیق اس کے ذہن میں آئیں یا دل سے نکلیں۔ ان پر کم سے کم کام کیا اور نظر ثانی سے محروم رکھا۔ ان کو پختگی سے دوچار نہیں ہونے دیا۔ نا پختہ، کچا، خام {RAW] رکھا۔

۲۔ ان نظموں کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا یہ محض ’ تجربہ‘ ہیں۔ تجربے کے طور پر ایسی دو ایک نظمیں ہی کافی ہوتی ہیں۔ کتاب بھر نظموں کی ضرورت کیوں پڑ گئی۔ ؟

۳۔ یہ نظمیں مغربی مصوری اور آرٹ کے اس عہد کی یاد دلاتی ہیں جس میں آرٹسٹ اپنے شہکاروں میں ان کے ابتدائی خاکوں کی لائنوں کو باقی رہنے دیتے تھے تاکہ دیکھنے والے یہ دیکھ سکیں کہ تصویر یا منظر تکمیل سے قبل کیا تھا۔

۴۔ ان نظموں کا رشتہ پوپ موسیقی، یاکسی پوپ ادب سے نہیں اگرچہ بیشتر نظمیں انتہائی مختصر ہیں۔

۵۔ یہ نظمیں مجموعی طور پر کسی مغربی یا مشرقی ادبی تحریک کا شاخسانہ نہیں ہیں۔

۶۔ یہ نظمیں کسی ایک فارمیٹ، پیٹرن یا سانچے پر استوار نہیں ہیں بلکہ بے حد متنوع ہیں۔ ہر نظم اپنے جانچنے کا جدا پیمانہ مانگتی ہے۔

۷۔ چند ایک نظمیں ’ نرسری رائمز‘ جیسی ہیں۔ چند نثری نظموں جیسی ہیں۔ کچھ اوزان مفاعیل کی جھلکیوں سے معمور ہیں۔

جب ہم ان نظموں کی معنوی مشمولات کی جانب آتے ہیں تو ہم حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے کیونکہ یہ چھوٹی چھوٹی نظمیں اچانک بڑی معلوم ہونے لگتی ہیں۔ اتنی بڑی جتنی بڑی زندگی ہے۔ ان نظموں کا شاعر ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کسی سالکِ راہِ حقیقی کے روپ میں عرفان، آگہی اور خبر کی منازل طے کرتا نظر آتا ہے۔ یہ اور بات کہ وہ کوئی صوفی، سنت، فقیر، درویش، بھگت کے طور پر ہمارے سامنے نہیں آتا۔ حیران آنکھوں سے اپنی چاروں اَور دیکھنے والا بچہ ہی رہتا ہے۔

ارشد خالد کی نظموں سے ان کی شخصیت کے بارے میں یہ آگاہی بہم ہوتی ہے کہ انہوں نے زندگی کو خوب بھگتا ہے۔ زندگی کے تلخ و شیریں ذائقوں سے آشنائی پیدا کی ہے۔ وہ علم و حکمت سے بہرہ ور ہو کر بھی عقیدے، متھ (Myth) سے جڑے ہوئے ہیں۔ ذات اور کائنات سے آگے ربِ کائنات کی جانب ان کا ذہنی اور قلبی جھکاؤ ہے۔ ناکامیوں، محرومیوں، دکھوں اور زندگی کی کرب ناکیوں کو انہوں نے لوازمات کے طور پر لیا اور کسی مرحلے پر نہ تو ہراساں ہوئے نہ ہی شکست خوردہ۔ زندگی کے تجربات کو انہوں نے چھوٹے چھوٹے دانشمندانہ نتائج کی صورت دی۔ اور اپنی ‘‘ پارٹ ٹائم شاعری ’’ میں نہایت اختصار لیکن ارتکاز سے ابلاغ کر دیا۔

آئیے ان کی چند نظمیں پڑھتے ہیں۔

چلو ہم ساتھ چلتے ہیں

مجھے جینا نہیں آتا

تمہیں مرنے کی جلدی ہے

چلو ہم ساتھ چلتے ہیں

٭٭٭

الوداع

شہرِ سلامتی میں تو

سب ہی امیر شہر تھے

پھر بھی جب امیر الامراء

باہر سے منگوایا گیا

شہر میں اک فقیر تھا

وہ بھی کہیں چلا گیا

٭٭٭

الجھن

مجھے معجزوں پر یقیں نہیں

میں حقیقتوں پہ بھی معترض

جو میں دیکھتا ہوں، وہ ہے نہیں

جو نظر ہی آتا نہیں کہیں

ہوں اسی کی کھوج میں آج تک

٭٭٭

مجھے تم یاد کر لینا

سنو، جب عہدِ فردا میں کوئی مشکل

تمہارے در پہ دستک دے

کوئی کہنہ خلش دل کی

ابھر آئے نگاہوں میں

کوئی اندوہِ پنہاں جب

بکھر جائے فضاؤں میں

مجھے تم یاد کر لینا

٭٭٭

خواب اور کتا بیں

رکھ دئیے تھے رات میں نے

خواب سارے

شیلف میں

کروٹیں لیتا رہا بستر پہ میں بھی

رات بھر

رات بھر سوئی نہیں

شیلف میں رکھی کتابیں بھی مری!

٭٭٭

مستقبل

پہلے تو اوزون سے ٹپکی

رستے میں زہریلی دھوپ ہٹاؤں

پھر میں اپنے بچوں کے رستے میں

ہریالی اور پیڑ اُگاؤں !بکھری

٭٭٭

ایک کیفیت

فرقت کی شب جو دل میں

اندھیرا سا بھر گیا

آنکھوں سے جگنوؤں بھرے

آنسو ٹپک پڑے

٭٭٭

شاخِ ادراک پر

شاخِ ادراک پر غم مچلنے لگے

شکل و آواز میں لفظ ڈھلنے لگے

سوچ وادی میں الفاظ و جذبات جب

ساتھ چلنے لگے

سوچ وادی بھی الفاظ و جذبات کے

ساتھ چلنے لگی

اک نئی نظم میں

آپ ہی آپ،

حرفوں میں، لفظوں میں ڈھلنے لگی!!

٭٭٭     ارشد خالد نے اپنی نظمیں اپنے فارغ وقت (Part Time) میں کہی ہیں لیکن اس میں سموئی ہوئی شاعری اپنی فطرت، مزاج اور ادبی قدر کے لحاظ سے فارغ وقتی ( پارٹ ٹائم ) نہیں ہے۔ یہ ذہن اور قلب پر دیرپا اثرات مرتب کرنے والی زندگی کی سچائیوں سے بھر پور اور دلچسب شاعری ہے۔ پڑھ دیکھئیے۔

عبداللہ جاوید

۵ جنوری ۲۰۱۶ء

مسی ساگا۔ کنیڈا۔

 

 

 

اسمِ محمدؐ

 

میں جب اسمِ محمدؐ

لوحِ دل پر پیارسے

تحریر کرتا ہوں

تو پھر فرطِ عقیدت سے

میں اس کو چوم لیتا ہوں

اے میرے محمدؐ

آپؐ میرے واسطے

دونوں جہانوں میں

بڑی نعمت ہیں

وہ نعمت۔ ۔ ۔

کہ جس کو کائناتِ عقل و دانش

خود بخود تسلیم کرتی ہے

بڑی تعظیم کرتی ہے

٭٭٭

مودّت

 

 

محبت میں ذرا آگے کو بڑھتا ہوں

مودّت میں بدلتا ہوں

تو اک معصوم ہستی کا

لبوں پر نام آتا ہے

کہ جس کے نام سے

’’خیر کثیر‘‘ آتا ہی جاتا ہے

تو میں بھی اب مودت میں

اسی کا نام لیتا ہوں

اسی کا نام جپتا ہوں

٭٭٭

 

ثقلین

 

ایک پیارا، رہبر ہمارا

اس دھرتی پر آیا جب

پیاری پیاری باتیں لے کر

خوشبو خوشبو سوچیں لے کر

جاتے جاتے اس دنیا سے

کہنے لگا تھا۔ ۔ ۔

دیکھو لوگو !

سن لو۔ ۔ ۔ لوگو !

دو چیزیں میں چھوڑ چلا ہوں

دونوں چیزیں بہت ہی بھاری

دونوں میں ہے گاڑھی یاری

اک دوجے بن جی نہیں پاتے

 

تم بھی دامن تھام کے ان کا

راہ پہ ان کی چلنا سیکھو

غم بھی تم سے دور رہے گا

اونچے نیچے رستوں پر بھی

ٹھوکر سے بچ جاؤ گے اور

میرے پاس چلے آؤ گے

٭٭٭

 

غدیر خم

آگے والو!

پیچھے آؤ

پیچھے والو۔ ۔ ۔ دوڑ کے پہنچو

ساتھی میرے تم رک جاؤ

حکم خدا کا آ پہنچا ہے

علیؑ کہاں ہے

اسے بلاؤ

میرے ساتھی، میرے لوگو

غور سے دیکھو،

غور سے سن لو

حکم خدا کا آ پہنچا ہے

یاد رکھو سب

بات یہ میری

آنے والی نسلوں کو بھی

تم یہ بتانا۔ ۔ ۔

علیؑ  ہے مولا۔ ۔ سب کا مولا

حکم خدا کا آ پہنچا ہے

٭٭٭

 

 

منزلیں یقین کی

 

 

عجیب سی ہیں منزلیں

یقین کی

نواسۂ رسولؐ جب

ہوئے سوار دوش پر

توجیسے رُک کے رہ گئے

وقت بھی، نماز بھی

خطۂ حجاز بھی!

٭٭٭

مجھے اب کربلا جانا پڑے گا

 

مرے چاروں طرف، باہر کی جانب

کسی سفاک کا جبرِ مسلسل

نہاں خانۂ دل میں اک مدینہ

کوئی مہکا ہوا پُر نُور منظر

منور ہے مِرا تن من یہیں پر

مِرے دن رات بھی مہکے ہوئے ہیں

مگر الجھی ہوئی اس زندگی کی

میں ہر اک سانس گن کر رکھ رہا ہوں

مجھے معلوم ہے اپنا مقدر

مرے مولا سے جو وعدہ ہے میرا

اُسے اب تو نبھانا ہی پڑے گا

مجھے اب کربلا جانا پڑے گا!

٭٭٭

 

 

ایک منظر

 

 

ایک منظر ہے

کہ جس میں دور تلک

اڑتی ہوئی اور آگ برساتی ہوئی

پھیلی ہوئی سی ریت ہے

اور ریت ہی بس ریت ہے

اور اس دہکتی ریت پر چلتا ہوا

کوئی پیاسا شخص۔ ۔ ۔ ۔

گذرے اور موجودہ زمانے

کی جبیں پر

کربلا تحریر کرنے میں مگن ہے

اور اس تحریر سے

ہر بار لفظِ کربلا سے

عشق کے دریا نکلتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

دعا

 

کچھ ایسا کرب ہے

کچھ بھی۔ ۔ ۔

سجھائی ہی نہیں دیتا

دکھائی ہی نہیں دیتا

مرے مولا، میرے آقا

مجھے اُس حرف کی دولت عطا کر دے

جو میری سوچ کے

بجھتے چراغوں میں

نظر بھر دے

٭٭٭

 

 

 

لہو کہانی

 

اک لہو کہانی کو

یوں بھی لکھنا پڑتا ہے

حبس کی زد میں موسم ہے

روشنی گلابوں کی

دور تک۔ ۔ قیامت تک

رہنمائی کرتی ہے

اک حسین رستے کی

۔ ۔ ۔ ۔

تیرگی بھیانک ہے

اونچے نیچے نیزوں پر

پھول رُت کی فصلیں ہیں

دور تک اداسی ہے

راکھ ہوتی دھرتی پر

خواب ہیں نئے دن کے

دور تک۔ ۔ قیامت تک

پھول پھول لوگوں کی

سُرخ رنگ یادیں ہیں !

٭٭٭

 

 

 

 

 دعائیہ نظم

 

 

میرے مالک میرے مولا

مجھ پہ تُو اک کرم کما دے

اِس منظر سے اُس منظر تک

جتنے لمحے جاگ رہے ہوں

جتنے لمحے سوئے ہوئے ہوں

ان کو دیکھوں

دیکھ کے رو لوں

رونے والی آنکھ میں مولا

حرف صداقت، صبر و رضا کی

ایک تمنا روشن کر دے

میرے مالک میرے مولا

اِس منظر سے اُس منظر تک

دیکھنے والی آنکھ تُو دے دے۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

نیا سویرا

 

زوالِ وقت سے پہلے

محبت کھینچ لائی ہے

نواحِ کربلا میں

کربلا والوں کا یہ اعجاز تو دیکھو

کہ باطل کی شبِ تاریک سے

سورج صداقت کا نکل آیا!

٭٭٭

 

 

 

مرشد کے نام

 

جب بھی آنکھیں بند کروں تو

من کی آنکھیں کھل جاتی ہیں

آنکھوں میں اک پیارا منظر

اور منظر میں اک آنگن

آنگن میں اک گھنا گھنیرا

برگد ہے

جس کا سایہ ہر سو پھیلا ہوا ہے، بلکہ

میرے من کی جھیل کے اندر تک بھی

اُس کا سایہ اُترا ہوا ہے

سائے میں اک تکیہ جیسا بستر ہے

بستر پر بیٹھی اک صورت

سوہنی اور من موہنی مورت

جن آتے جاتے لمحوں کو

ہاتھ میں لے کر دیکھ لے وہ

ایک اک لمحہ سونا بن کر

وقت کے روپ میں ڈھلتا جائے

ساتھ ہوا کے اُڑتا جائے

لمحہ بن کر میں بھی جب جب

ہاتھ میں اس کے آتا ہوں

روشن سونا ہو جاتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

دیکھ سمندر

 

دیکھ سمندر !

تیرے اندر

کتنے دریا بہتے ہیں

کتنی خلقت رہتی تجھ میں

دیکھ سمندر !

میں نے مانا

اتنے خزانے تیری تہہ کے اندر ہیں

جو گنتی سے باہر ہیں

دیکھ سمندر !

میرا دل بھی ایک خزانہ، ایک سمندر

تجھ سے بڑا سمندر ہے

میرا رب بھی

میرے دل کے اندر ہے !

٭٭٭

 

 

 

ہم جہاں اترے۔ ۔ ۔

 

ہم جہاں اترے

وہاں پر دور تک پھیلے اداسی کے مناظر ہی

ہمارے منتظر تھے

درختوں کی مغموم شاخوں سے لپٹی

پرندوں کی ساری تھکن بھی وہاں سو رہی تھی

شام کی منتظر آنکھیں جیسے

کڑی دھوپ سہتے ہوئے

پتھر اسی گئی تھیں

بے بسی اپنی عریانی اوڑھے ہوئے رو رہی تھی

کوئی ملبوس زادہ کسی کوکھ میں

خواہشیں بو چکا تھا

اداسی کے ٹھہرے ہوئے یہ مناظر،

یہ شاخوں سے لپٹی ہوئی سی تھکن،

اور موسم کی شدت سے

بے نور آنکھوں سے نکلے ہوئے

خشک آنسو۔ ۔ ۔ یہ سب

اب تو ہم میں اُٹھانے کی ہمت نہیں تھی

سو ہم کل جہاں اترے تھے

وہاں سے تو کل ہی

پلٹ آئے تھے !

٭٭٭

 

 

 

اپنے لئے ایک نظم

 

نعمتیں ’’اتمام‘‘ ہونے کا

حسیں منظر

مِرے دل کے نہاں خانے میں کیا آیا

کہ میری زندگی میں جیسے ہلچل مچ گئی اور میں

کسی روشن ستارے کے قریں

اک معطر رہگذر پر

اب مرے دل میں کسی کرب و بلا کا ڈر نہیں

اب میں اپنے رب کے گھر میں ہوں

سو میں بے گھر نہیں !

٭٭٭

 

 

 

 

قاتل لمحے

 

 

 

لمحوں کی تم بات نہ کرنا

لمحے قاتل بن جاتے ہیں

دھوپ اور چھاؤں جیسے منظر

دکھ اور سکھ کی ساری گھڑیاں

لمحوں کی محتاج رہی ہیں

اونچے نیچے رستوں پر بھی

چلتے چلتے ساتھ ہمارے

پل میں ساتھی کھو جاتے ہیں

جھاگ اُڑاتی لہریں اور پھر

صحرا، اڑتے ریت بگولے

منظر دھندلا کر جاتے ہیں

لمحوں کی تم بات نہ کرنا

لمحے قاتل بن جاتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

علینہؔ مجھ سے کہتی ہے

 

 

علینہؔ مجھ سے کہتی ہے

یہ کیسا شخص ہے فرشیؔ!

مجھے نظموں میں اپنی قید رکھتا ہے

اسے کہہ دو مجھے آزاد کر دیکھے

کہ اس کی نظم سے مجھ کو

گھٹن محسوس ہوتی ہے

تھکن محسوس ہوتی ہے

علینہؔ مجھ سے کہتی ہے

مجھے اب روشنی بن کر

ستاروں میں چمکنا ہے

دھنک رنگوں میں کھو کر

دور افق پر پھیل جانا ہے

علینہ مجھ سے کہتی ہے

مجھے اب گھر بھی جانا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

صبح ازل کی ہمکتی ہوئی لَو

 

 

 

اے صبح ازل کی ہمکتی ہوئی لَو

تجھے میں بچاؤں توکیسے بچاؤں ؟

کہ سورج تو حدت کی شدت لیے اب

میرے گھر کے در سے سوا نیزے پر آ کھڑا ہے

میرے ساتھ اک شب

تو ماضی کے ابواب پڑھتی رہی ہے

تو لَو بن کے آنکھوں کی پتلی پہ ٹھہری رہی ہے

مگر میری جاں !

تو ہی اب کچھ بتا

تجھے میں بچاؤں تو کیسے بچاؤں ؟

کہ سورج تو حدت کی شدت لیے اب

میرے گھر کے در سے سوا نیزے پر آ کھڑا ہے !

٭٭٭

 

 

 

 

ایک نظم

(اسلم کولسری کے نام)

 

 

روشنی تصور کی

سرد، ڈھلتی راتوں میں

دل کے شیلف میں رکھی

پیار کی کتابوں پر

کچھ کتابی چہروں پر

اس طرح اترتی ہے

لفظ جاگ اُٹھتے ہیں

پہلے گنگناتے، پھر

شورسا مچاتے ہیں

خوب ہنستے گاتے ہیں

اور ہنسنے گانے میں اشک بہہ نکلتے ہیں

شعر ہونے لگتے ہیں !

٭٭٭

 

 

 

قلم اور آنکھیں

 

قلم سے لکھنا

پیار کے قصے

ہم نے کب کا چھوڑ دیا

اب تو ساری پیار کی باتیں

پیار کے قصے

آنکھوں سے ہم لکھتے ہیں

اور

آنکھوں سے ہی سنتے ہیں !

٭٭٭

 

 

بوجھل آنکھیں

 

ٹی وی چینل پر چلتے

یہ دنیا بھر کے منظر

ہلکی سی آہٹ پر

آنکھوں میں کھو جاتے ہیں

اور یہ میری بوجھل آنکھیں

اور بھی بوجھل ہو جاتی ہیں

رنگوں کے سارے لہریے

روشنیوں کی ساری لہریں

آنکھوں میں یوں کھو جاتی ہیں

ڈوبتے دل اور خالی ذہن میں

سوچیں گم سُم ہو جاتی ہیں

بوجھل آنکھیں سو جاتی ہیں !

٭٭٭

 

جستجو

 

مجھے جستجو تھی کہ اس در کو دیکھوں

کہ جس در کے باہر تھیں لمبی قطاریں

لئے گجرے ہاتھوں میں کب سے نہ جانے

وہ جیسے ہوں جنت کے باغوں کی حوریں

تھی خوشبو کی پریاں بھی، گرد ان کے رقصاں

بڑا دل نے چاہا

کہ اس در پہ جا کر

بچھا کر میں چوکھٹ پہ اپنی یہ آنکھیں

تمنا کا لوبان دل میں جلا کر

کبھی اپنے ہاتھوں سے اس در کو کھولوں

کہ جس در کے باہر تھے انبار گل کے

سنہری تھی کلیاں

تھے پنچھی سریلے

جو در نہ کھلا تھا میری دستکوں سے

وہ در جب کھلا تو

وہاں پر

کوئی بھی نہیں تھا

فقط میں ہی تنہا کھڑا تھا!

٭٭٭

 

 

 

دیوانگی کا سفر

 

دیوانگی کی حد سے جب آگے نکل گئے

جنگل، پہاڑ، دشت سے دریا سے ہم رکاب

سورج بھی، چاند، تارے بھی

سب ساتھ ساتھ تھے

دیکھا پلٹ کے جب تو

اندھیرا بھی ساتھ تھا!

٭٭٭

 

 

 

فحاشی؟

 

’’خزاں آ رہی ہے ‘‘

یہ سنتے ہی بد مست ہو کر

ہوا چل پڑی

اورسرسبز پودے، ہرے پیڑ

سب دیکھتے دیکھتے ننگے ہوتے گئے !

٭٭٭

 

 

 

افضل چوہان کی نذر

 

کس طرح میں دور رہوں

تیرے گھر کے رستے سے

تیرا گھر تو پڑتا ہے

میرے گھر کے رستے میں !

٭٭٭

 

 

 

مستقبل

 

پہلے تو اوزون سے ٹپکی

رستے میں بکھری

زہریلی دھوپ ہٹاؤں

پھر میں اپنے بچوں کے رستے میں

ہریالی اور پیڑ اُگاؤں !

٭٭٭

 

 

 

 

تمنا

 

تمنا خواب کی وادی میں

جب بیدار ہو کر

نیم وا آنکھوں سے دیکھے گی

جواں انگڑائیوں کے سارے موسم بھی

بدن آنگن میں اتریں گے !

٭٭٭

 

 

 

خواب اور کتابیں

 

رکھ دیئے تھے

رات میں نے

خواب سارے شلف میں

کروٹیں لیتا رہا بسترپہ

میں بھی رات بھر

رات بھر سوئی نہیں

شلف میں رکھی کتابیں بھی مری!

٭٭٭

 

 

 

 لمحۂ آزار

 

جانے کس لمحۂ آزار کی

آمد ہے یہاں ؟

رات ہی رات میں

کتنے ہی پرندوں نے

مرے شہر سے ہجرت کر لی

پھر بھی گھر بھر میں اک امید کی لو روشن ہے

اور آنگن کی ہر اک شاخ سے

لپٹی ہوئی بے نام اداسی نے

یہ پوچھا ہم سے

موسم گل نے بھلا واقعی اب

آنے کی حامی بھر لی؟

٭٭٭

 

 

اے مِرے کوزہ گر

 

اے مِرے کوزہ گر

گیلی مٹی ہوں میں چاک پر تیرے رکھی ہوئی

آشنا ہوں تری انگلیوں کے ہر انداز سے

مجھ کو بے کارسانچوں میں مت ڈھال اب

اپنے اَن دیکھے خوابوں کی دنیا میں جا

اور وہاں کے کسی ایسے پیکر کو تصویر کر

جو جہانِ ہنر میں

ترے اور مٹی کے رشتے کی تجدید ہو

پھر مجھے تو بنا، چاہے جو بھی بنا،

تا، ترے میرے رشتے کی تکمیل ہو!

٭٭٭

 

 

میری آنکھیں

 

میری آنکھیں

فقط آنکھیں نہیں ہیں

یہ دروازے ہیں

تہہ خانۂ دل کے

جہاں پر میں نے اپنی عمر بھر کے

محبت کے فسانے، اور

یادوں کے خزانے

زندگی بھر کے زمانے

قید رکھے ہیں !

٭٭٭

 

 

 

شہرِ تمنا

 

شہرِ تمنا !

اب تو ساری

راہیں بھی مسدود ہوئیں

دکھ کی ساری فصلیں جیسے

اُگ آئی ہیں چہروں پر!

٭٭٭

 

 

 

 

تبدیلی

 

کیوں پریشان ہوتے ہو بابا؟

وقت اب ایسے ہی گزرنا ہے

اب وفا کے صلے نہیں ملتے !

٭٭٭

 

 

 

شاخِ ادراک پر

 

شاخِ ادراک پر غم مچلنے لگے

شکل و آواز میں لفظ ڈھلنے لگے

سوچ وادی میں الفاظ و جذبات جب

ساتھ چلنے لگے

سوچ وادی بھی الفاظ و جذبات کے

ساتھ چلنے لگی

اک نئی نظم میں

آپ ہی آپ

حرفوں میں، لفظوں میں ڈھلنے لگی

٭٭٭

 

 

 

تمہیں بھلا دوں۔ ۔

 

تمہیں بھلا دوں

یہ میں نے سوچا

تمہاری یادیں، تمہاری باتیں

تمہارے ہمراہ گذرے لمحے

ہر ایک کو جب بھلا چکا تو

یہ میں نے دیکھا

تمہیں بھلانے کے ساتھ ہی جیسے

خود کو بھی میں بھلا چکا تھا

٭٭٭

 

 

 

الجھن

 

مجھے معجزوں پہ یقیں نہیں

میں حقیقتوں پہ بھی معترض

جو میں دیکھتا ہوں، وہ ہے نہیں

جو نظر ہی آتا نہیں کہیں

ہوں اسی کی کھوج میں آج تک

٭٭٭

 

 

واہمہ

 

اک عکسِ بے مثال سا بن کر ملا تھا وہ

چاہت بھری نگاہ سے تکتے ہوئے مجھے

وہ دیر تک سناتا رہا اپنے دل کا حال

اس حال سے چھلکتے تھے منظر بہار کے

وارفتگی سناتی تھی احوال پیار کے،

میرے گلے میں ڈال کے بانہوں کے ہار کو

کہنے لگا کہ پھول سے خوشبو جدا نہیں !

میں آج تک ہوں اُس کے کہے پر اَڑا ہوا

٭٭٭

 

 

 

چلو ہم ساتھ چلتے ہیں

 

مجھے جینا نہیں آتا

تمہیں مرنے کی جلدی ہے

چلو ہم ساتھ چلتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

جنت کے گھر

 

 

ہم اپنے بچپنے میں ساحل دریا پہ جا کے

پیروں کو بھر کے ریت سے

کچھ خوشنما سے گھر بناتے تھے

پھر اپنے پھول ہاتھوں سے

انہیں مسمار کر تے تھے

یہ لگتا ہے بڑے ہو کر بھی ہم اب تک۔ ۔ ۔

ابھی تک بچپنے میں ہیں

کہ اپنی خواہشوں کی جنتیں پانے کی خاطر

نیکیوں کے نام پر

جنت کے گھر تعمیر کرتے ہیں

پھر ان جنت گھروں کو خود جہنم زار کرتے ہیں

ہر اپنی خوشنما تعمیر اپنے ہاتھ سے مسمار کرتے ہیں

فقط نادانیوں سے پیار کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

یہ لمبی رات دسمبر کی

 

 

یہ لمبی رات دسمبر کی

مجھے ماں جیسی کیوں لگتی ہے ؟

میں اس کی گود میں جا کر جب آنکھوں کو موند کے لیٹا ہوں

دن بھر کی تھکن کچھ دیر میں زائل ہو گئی ہے

ماضی کے تکیے کے نیچے یادوں کی مہکتی پوٹلی ہے

آنکھوں کو موندے دیکھتا ہوں اور سنتا ہوں

اس بند مہکتی پوٹلی میں، کیسی کیسی آوازیں ہیں

اور کیسے کیسے منظر ہیں

ماں صدقے واری جاتی ہے اور ہنستی ہے،

تواس کی ہنسی

تاروں کی طرح میری آنکھوں میں چمکتی ہے

پھر گالوں پر قطرہ قطرہ وہ نور اترتا جاتا ہے

رم جھم رم جھم سی ہوتی ہے تو لگتا ہے

ماں میرے بچپن سے جوانی تک کے زمانے

ساتھ لیے آج آئی ہے

اپنی عمر کے ساٹھویں سال کی لمبی رات کے

اک خاموش سے کونے میں

میں سوتا جاگتا، لیٹا ہوں

اک رات میں جانے کتنے زمانے گزرے ہیں

اور ابھی تک جیسے گزرے جاتے ہیں

یہ لمبی رات دسمبر کی

مجھے ماں جیسی کیوں لگتی ہے ؟

٭٭٭

 

 

 

اسے کہنا

 

اسے کہنا

محبت رقص کرتی ہے

کبھی گنجان سڑکوں پر

کبھی سنسان رستوں پر

ّّّ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اسے کہنا

محبت پھول اُگاتی ہے

کبھی بنجر زمینوں میں

کبھی غم ناک چہروں پر

َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

اسے کہنا

محبت خواب بُنتی ہے

کبھی پُر نور سینوں میں

کبھی بو جھل سی آنکھوں میں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

اسے کہنا

محبت کم نہیں ہوتی

کسی کے دور جانے سے

کسی کے روٹھ جانے سے

٭٭٭

 

 

 

ابھی کچھ دیر باقی ہے

 

تمہارے خواب آنکھوں سے اتر کر

صحن میں

ٹھہرے نہیں اب تک

فلک سے توستارے بھی

اترنے میں

بہت سا وقت لیتے ہیں

ابھی کچھ دیر باقی ہے

ابھی کچھ رت جگے آنکھوں میں

بھرتے ہیں

ابھی کچھ دیر باقی ہے

محبت۔ ۔ خواب آنے میں

٭٭٭

 

 نصیحت

 

محبتوں کے سفر پہ نکلو

تو یاد رکھنا!

محبتوں کا نشانِ منزل کوئی نہیں ہے

کہ بن سنور کر گھروں سے نکلے تھے لوگ جتنے بھی اس سفر پر

وہ راستوں میں بچھڑ گئے تھے، اجڑ گئے تھے،

اور آخرش گردِ راہ بن کر بکھر گئے تھے

محبتوں کے سفر میں

رستوں کی دھول بننا گوارا ہو تو

ضرور ایسے سفر پہ نکلو

٭٭٭

 

 

 

سنگ میل

 

’’یہ سنگِ میل ہے

ٹھہرو یہیں، میں لوٹ آتی ہوں

ابھی میں لوٹ آتی ہوں ـــــــ، ،

 

وہ اس کی نقرئی آواز کی پرچھائیاں اب بھی

میرے کانوں سے لپٹی ہیں

پرے پھیلے دھندلکے میں بدن گم ہو چکا اس کا

مگر اب بھی یہ لگتا ہے

کہ جیسے کہہ رہی ہے وہ

’’ یہ سنگِ میل ہے

ٹھہرو یہیں، میں لوٹ آتی ہوں، ،

 

اور اس کی راہ تکتے تکتے

اب تویوں لگنے لگا جیسے

میں سنگِ میل ہوں خود ہی!

٭٭٭

 

 

 

جنّت

 

اَن گنت نعمتوں سے سجا کر اسے

اس میں اک شجرِ ممنوعہ بھی رکھ دیا

میرے مولا بتا!

بھید ہے اس میں کیا؟

٭٭٭

 

 

 

مجھے تم یاد کر لینا

 

سنو!جب عہدِ فردا میں کوئی مشکل

تمہارے در پہ دستک دے

کوئی کہنہ خلش دل کی

ابھر آئے نگاہوں میں

کوئی اندوہِ پنہاں جب

بکھر جائے فضاؤں میں

مجھے تم یاد کر لینا

٭٭٭

 

 

 

زادِ سفر

 

ذرا ٹھہرو!

میں اپنا زادِ سفر ساتھ لے لوں

وہ کمرے میں خوشبو کی مانند پھیلا ہوا

ماں کا بوسہ جسے میرے بچپن میں

ماں نے

مرے ماتھے پہ ثبت اک دن کیا تھا

اسے ساتھ لے لوں

ذرا ٹھہرو!

ماں کی دعاؤں کا پر نور ہالہ

جو میری حفاظت پہ مامور ہے،

اس کو بھی ساتھ لے لوں

٭٭٭

 

 

 

دنیا

 

دنیا۔ ۔

میں تجھے سمجھ گیا ہوں

تُو اتنی اچھی ہوتی!۔ تو

میرے مولاؑ تجھے

تین طلاقیں کیوں دیتے ؟

٭٭٭

 

 

 

انتظار

 

جبر کا موسم

جب گزرے گا

تب سوچیں گے

شاخِ تمنا کے اُگنے میں

کتنی صدیاں لگتی ہیں

٭٭٭

 

 

 

تیری یاد سے

 

کئی خواب تھے

کئی دل لبھاتے خیال جو

تھے جڑے ہوئے تری یاد سے

تری یاد جب سے بچھڑ گئی

تووہ خواب اور وہ خیال بھی

مرے دل سے جیسے اتر گئے !

٭٭٭

 

 

 

دو صحرائی نظمیں

 

(۱)

 

صحرا کی پیاس سی

مرے دل میں اتار کر

چلتا ہے ساتھ ساتھ وہ

دریا لئے ہوئے !

٭٭٭

 

 

(۲)

اکتا کے پانیوں کی مسافت سے

ہم نے جب

صحرا نورد ہونے کا سوچا ہی تھا ابھی

دریا اترنے لگ گئے

صحرا کی آنکھ سے !

٭٭٭

 

 

 

 ازل سے ابد

 

ازل سے ابد

دونوں اک ساتھ تھے

دونوں چلتے گئے

حدِ امکان سے بھی پرے۔ ۔ ۔

کہ روش پھر زمانے کی تبدیل ہونے لگی

پھول کھلنے لگے، ساری سمتیں مہکنے لگیں

کھنکھناتی ہوئی۔ ۔ ۔ گیلی مِٹی

عجب ایک پیکرِ میں ڈھلنے لگی

پھر ملائک۔ ۔ ۔ ۔

سبھی سجدہ ریز تھے

لیکن اک کے سوا

تب ازل سے ابد بھی

وہیں پرہی رخصت ہوا

پھر سے ملنے کی امید رکھے ہوئے

حدِ امکان سے۔ ۔ ۔

اک طرف اک گیا

اک طرف دوسرا

٭٭٭

 

 

کچھ ازالہ تو ہو

 

تیرے نام اور تیرے پاک تصور کو

مسندِشوق پہ بٹھلاؤں اور پیش کروں

اپنی محبت اور موّدت کے سب پھول

اپنی نظموں کے سب حرف

نچھاور کر دوں

تیرے قدموں میں ہی بیٹھے بیٹھے، اپنی

باقی عمر کا ہر پل سرشاری میں گزاروں

اب تو یہی تمنا ہے کہ جیسے بھی ہو

میرے پیارے !تُو مجھ سے راضی ہو جائے

میری اس بے معنی اور بے کار زندگی میں

کچھ تو معنی بھر جائیں

اور کچھ تو ازالہ ہو جائے !

٭٭٭

 

 

لا= انسان

( نثری نظم)

 

وہ اپنے آقا کو ملنا چاہ رہا ہے،

آقا ہے کہ اسے کہیں نظر نہیں آتا

وہ تھک ہار کر لا مکان کی دیوار کے ساتھ

ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا ہے

اسے ایسے لگا جیسے کوئی لا مکان کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا ہو

وہ اس کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتا ہے

’’آقا ‘‘ ’’ آقا ‘‘ کی آوازیں لگاتا ہوا

لا مکاں کے چاروں جانب چکر کاٹتا ہے

مگر آقا اسے کہیں نظر نہیں آتا

اور لا مکاں کے چاروں جانب تیز ہوا کا اتنا شور ہے

کہ اس کی اپنی آواز تیز ہوا کے شور میں دب جاتی ہے

اور اسے یوں لگتا ہے

جیسے اس کی اپنی آواز پلٹ کر اس کی سماعت سے ٹکرا رہی ہو۔ ۔

اور پھر وہ آہستہ آہستہ اپنی پلٹتی ہوئی آواز کی لہروں میں

تحلیل ہو جا تا ہے۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

المیہ

 

بچے کو خواب دے کر

ماں نے سکول بھیجا

اک کار حادثے میں

دونوں ہی مر گئے ہیں

اور ماں کے خواب سارے

پل میں بکھر گئے ہیں !

٭٭٭

 

 

 

 

خواب چرانے والی

 

خوابوں کی تعبیر سے

جس نے

خواب چرا کر بیچے تھے

آج وہ لڑکی

تنہا تنہا

رسموں کی زنجیر میں جکڑی

بوجھل بوجھل قدموں سے

شہر میں واپس آئی ہے !

٭٭٭

 

 

 

ایک بے شرم نظم

 

شجر ممنوعہ کو تم نے چھو لیا

تو تم پہ کھل جائیں گے

اپنی زندگی کی

شرم کے سارے مقام

پھر نہ کہنا زندگی نے کس قدر رسوا کیا

پھر نہ کہنا اس کا سارا مجھ پہ ہی الزام ہے

حالانکہ یہ سب بنانے والے کا ہی کام ہے !

٭٭٭

 

 

 

الوداع

 

شہرِ سلامتی میں تو

سب ہی امیرِ شہر تھے

پھر بھی جب امیر الامراء

باہر سے منگوایا گیا

شہر میں اک فقیر تھا

وہ بھی کہیں چلا گیا

٭٭٭

 

 

 

انکشاف

 

تمہیں معلوم کیا

ان خوشنما بنگلوں میں

اور ان بنگلوں کے حسن و جاہ سے لبریز

کمروں میں تو

مردہ لوگ رہتے ہیں

اور ان کے روگ رہتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 ایک کیفیت

 

فرقت کی شب جو دل میں

اندھیراسا بھر گیا

آنکھوں سے جگنوؤں بھرے

آنسو ٹپک پڑے

٭٭٭

 

 

 

 

دکھ

 

میرے اُس کے

سارے رشتے

ٹوٹ گئے ہیں !

٭٭٭

 

 

 

حیرتِ آئنہ

 

آئنہ بن کے اس کو دیکھا تھا

اور حیرت سے دیکھتا ہی رہا

مجھ میں سارا سما گیا تھا وہ

پھر بھی اس کو میں چھو نہیں پایا

حیرتِ آئنہ کبھی دیکھو

مجھ میں سارا سما کے بھی کیسے

وہ میری دسترس سے باہر ہے !

٭٭٭

 

 

 

باطن کی روشنی

 

سنو، ہم

چاند، تارے اور سورج کس لیے بوئیں

کہ ایسا کرنے سے باطن میں کوئی

روشنی ہر گز نہیں اگتی

بجا کہ چاند، تارے اورسورج

روشنی کے استعارے ہیں

مگر یہ روشنی باہر کی دنیا تک ہی رہتی ہے

ہمیں اس وقت باطن کے لیے

ازلی حرارت کی ضرورت ہے

حرارت، جس سے باطن،

معرفت کی روشنی سے جگمگا جائے

کوئی آئے

جو آ کر معرفت کی روشنی ہم میں اُگا جائے

کوئی آئے۔ ۔ ۔

خدارا اب تو کوئی لازماً آئے !

٭٭٭

 

 

 

انتساب

 

یہ جو لفظ ہیں

میری نظم کے

میرے رہنما

ترے نام ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

مشورہ

 

اتنا تیز نہ بھاگو لڑکی

گر جاؤ گی ٹھو کر کھا کر

پیار کی الجھی راہوں میں !

٭٭٭

 

 

 

 

تبادلہ

 

میرے سکھ اس نے لئے

اپنے دکھ مجھ کو دیئے

سونہ سکی وہ رات بھر

اور میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جاگ رہا ہوں آج تک!

٭٭٭

 

 

 

ماضی

 

ہاتھ نہ رکھ تو دکھتی رگ پر

ناچ اٹھے گی تیری پائل

اور میں ترا، اک ازلی گھائل۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پھر سے بے کل ہو جاؤں گا!

٭٭٭

 

 

 

 

قسمت

 

کیا کرتے ہم

ہاتھ کھلے تھے جب تک اپنے

بند مٹھی کی ریکھائیں

دَم توڑ چکی تھیں

سب خوشیاں منہ موڑ چکی تھیں !

٭٭٭

 

 

 

خزاں

 

دل نگری کے سارے بوٹے

اک اک کر کے

سوکھ گئے ہیں

پیار آنگن میں بسنے والے

سارے اپنے روٹھ گئے ہیں !

٭٭٭

 

 

 

بے نیازی

 

تیری اداؤں کا شاخسانہ

خزاں رتوں میں بلا کے ہم کو

بہار موسم میں روٹھ جانا!

٭٭٭

 

 

 

اختتام

 

شور نے اپنی حد سے بڑھ کر

خاموشی کو مار دیا ہے

میں نے جیون

ہار دیا ہے !

٭٭٭

 

 

 

 

 

                 پنجابی نظمیں

 

 صدمہ

 

اس دھرتی دے سارے واسی

اپنے اپنے خول دے اندر

لُک گئے نے

کہ مر گئے نے !

٭٭٭

 

 

آس دے جگنو

 

آس دے جگنو

مر جاندے نے

ٹٹ جاندی اے

پیار دی پینگ

جدوں کوئی سجن بیلی

منہنوں دوجے پاسے کر کے

بوہے مرے دے اگوں دی لنگھے

٭٭٭

 

نویں راہ

 

من ترے تے لیکاں لگیاں

تن تیرے تے دھبے

خورے کیریاں سدھراں وچوں

لنگھ کے توں سی آیا

ہن میں تینوں کول بٹھا کے

مٹھیاں گلاں پیار تیرے دیاں

جھولی پاکے

ریجھاں لاہ کے

اک نویں راہ تے پایا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 ’’پارٹ ٹائم شاعری‘‘۔ ایک تاثر

 

                ایوب خاور

(لاہور)

 

ارشد خالد سے میری ٹیلی فونک ملاقات حیدر قریشی کے ذریعے ہوئی۔ حیدر قریشی سے میری تقریباً تیس سال کی دوستی ہے جو بہت عرصے سے جرمنی میں مقیم ہیں۔ جدید ادب کے نام سے ایک معروف ادبی مجلہ اور ای میل کی دنیا میں اردو ادب کے حوالے سے ہونے والے مختلف واقعات اور علمی مباحث کی صورتحال اکثر و بیشتر انھی کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہے۔ حیدر قریشی شاعر و افسانہ نگار اور نقاد بھی ہیں۔ ارشد خالد کے ساتھ اُن کے دیرینہ مراسم ہیں۔ اور راولپنڈی اسلام آباد سے شائع ہونے والا ادبی رسالہ ’’عکاس‘‘ جو بڑے تواتر سے شائع ہوتا ہے وہ ارشد خالد اور حیدر قریشی کی مشترکہ محنت اور توجہ ہی کا نتیجہ ہے۔

ارشد خالد ان شعرا میں سے ہیں جو ’’عکاس‘‘ کے ذریعے اپنی پروجیکشن کی بجائے معاصر ادب پر توجہ دیتے ہیں۔ اسی لیے شاید انھوں نے اپنے مجموعے کا نام ’’پارٹ ٹائم شاعری‘‘ رکھا ہے۔ پارٹ ٹائم کو عمومی طور پر لوگ ایسا وقت سمجھتے ہیں جس میں لوگ کم اہمیت کے حامل کاموں کو انجام دیتے ہیں۔ مگر ارشد خالد کی نظمیں بتاتی ہیں کہ یہ پارٹ ٹائم میں کیے جانے والے کاموں میں سے نہیں ہیں۔ ان نظموں کو پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ یہ شبانہ روز کے تخلیقی ارتکاز کا نتیجہ ہیں۔ یہ نظمیں ان شاعروں کی شاعری کی طرح نہیں ہیں جو لمحہ بہ لمحہ کوئی نہ کوئی غزل لکھ کر فیس بک پر نشر کرتے ہیں یا شام کی محفلوں کو گرمانے کے لیے سنانا ضروری سمجھتے ہیں۔

ارشد خالد بنیادی طور پر ایک بینکار ہیں اور انھوں نے اپنی ملازمت کے عرصے کو بہت سنجیدگی سے نبھایا ہے۔ اس دوران چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے شاعری ان کے رگ و پے میں سانس لیتی رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی کئی نظمیں لکھنے سے پہلے مصرع مصرع ان کے دماغ میں پکتی رہی ہوں گی اور کاغذ پر آنے سے پہلے مکمل نظم ان کو یاد ہو جایا کرتی ہو گی۔ اور فرصت ملنے پر وہ اسے کاغذ پر منتقل کرتے ہوں۔ اگر میں یہ کہوں کہ ان کی نظمیں درخت کی شاخوں پر موسم کی دھوپ میں پکے ہوئے آموں کی طرح ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ ان کی ایک نظم ’’منزلیں یقین کی‘‘ ملاحظہ کریں :

عجیب سی ہیں منزلیں یقین کی

نواسۂ رسول جب ہوئے سوار دوش پر

تو جیسے رک کے رہ گئے

وقت بھی، نماز بھی

خطۂ حجاز بھی

لگتا ہے ناں کہ ایک سانس میں کہی گئی نظم ہے۔ جتنا وقت اس نظم کو پڑھنے میں لگتا ہے اتنا ہی وقت اسے دماغ سے کاغذ پر اترنے میں لگا ہو گا۔

ارشد خالد کے دل میں پنجتن پاک کی محبت صبح و شام دھڑکن کی طرح دھڑکتی ہے۔ ’’پارٹ ٹائم شاعری‘‘ کی ابتدا میں کئی نظمیں خانوادۂ رسول کی محبت سے سرشار ہیں۔ ’’مؤدت‘‘ کے عنوان سے ایک اور نظم ملاحظہ کریں :

 

مؤدت میں ذرا آگے کو بڑھتا ہوں

مؤدت میں بدلتا ہوں

تو ایک معصوم ہستی کا لبوں پر نام آتا ہے

کہ جس کے نام سے خیر کثیر آتا ہی جاتا ہے

تو میں بھی اب مؤدت میں

اسی کا نام لیتا ہوں

اسی کا نام جپتا ہوں

شخصی اعتبار سے ارشد خالد بہت دھیمے آدمی ہیں۔ ان سے میری پہلی ملاقات جیو ٹی وی کے دفتر میں امین خیال صاحب کے ہمراہ ہوئی تھی۔ اُس دن ہم دونوں کو حیدر قریشی نے دوستی کی جس ڈور میں باندھا تھا اس کی گرہ اور مضبوط ہو گئی۔ وہ بھی ایک مختصر ملاقات تھی۔ ان کی مختصر نظموں کی طرح مضبوط اور پُر تاثیر۔ ’’پارٹ ٹائم شاعری‘‘ کی بیس پچیس نظمیں جو انھوں نے مجھے بھیجی تھیں ان میں سے ایک نظم کا عنوان پڑھ کر میں چونکا کہ علی محمد فرشی کی ’’علینہ ‘‘ اِن کے پاس کہاں سے آ گئی۔ مگر جب نظم پڑھی تو پتا چلا کہ ارشد خالد نے ’’علینہ‘‘ کو اغوا نہیں کیا، وہ خود اُس کے پاس آئی یہ کہنے کے لیے کہ فرشی سے کہو کہ اب مجھے آزاد کر دے اب مجھے گھر بھی جانا ہے۔ مگر بھائی ارشد خالد ’’علینہ‘‘ تو بھائی فرشی کے شخصی خاکے کے بنیادی خطوط کی روشنائی ہے۔ ایک نظم میں اسے لکھو کہ فرشی کا دل ہی اب تمھارا گھر ہے۔

ارشد خالد نے کچھ صحرائی نظمیں بھی لکھی ہیں۔ ان کی ایک مختصر ترین نظم ملاحظہ کریں :

صحرا کی پیاس کو میرے دل میں اتار کر

چلتا ہے ساتھ ساتھ

وہ دریا لیے ہوئے

ارشد خالد کی نظموں کا ایک عام پہلو یہ بھی ہے کہ اُن کی نظموں کو پڑھ پڑھ کر پڑھنے والا تھکتا نہیں ہے بلکہ ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ ارشد خالد ’’عکاس‘‘ کے ساتھ ساتھ ان نظموں کو بھی تواتر کے ساتھ اپنے پڑھنے والوں تک پہنچاتا رہے تاکہ اس کی متنوع نظموں کی تاثیر دور دور تک پہنچے۔

٭٭٭

 

 

 

تاثرات

 

                حیدر قریشی

(جرمنی)

 

ارشد خالد کی نظمیں اپنے اختصار کے باعث ان تخلیقی اصناف کی ہم مزاج ہیں جو اپنے مختصر سائزمیں پوری بات کر لینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ شاعری میں رباعی، ماہیا، ہائیکو اور نثر میں افسانچہ ایسی ادبی اصناف ہیں جو کم سے کم الفاظ میں اپنی بات کی ترسیل مکمل کر لیتی ہیں۔ غزل کے شعر کی بات الگ ہے کہ وہاں تو دریا کو کوزے میں بند کیا جاتا ہے۔ ارشد خالد کی ساری مختصر مختصر نظمیں اپنے آپ میں ایک پوری کہانی بیان کر جاتی ہیں۔

ارشد خالد کی بعض نظمیں ایسی شاندار ہیں کہ میں نے سچ مچ دل میں خواہش کی کہ کاش یہ خیال مجھے سوجھتا اور میں اسے اپنے انداز میں کہہ سکتا۔ ایسی نظموں میں ’’دیکھ سمندر‘‘اور ’’جنت کے گھر‘‘ کا بطور خاص نام لوں گا۔ ویسے ’’چلو ہم ساتھ چلتے ہیں ‘‘، ’’دیوانگی کا سفر‘‘، ’’میری آنکھیں ‘‘، ’’تبدیلی‘‘، ’’الجھن‘‘، ’’جنّت‘‘، ’’دو صحرائی نظمیں ‘‘اور ’’دکھ‘‘ اور ان جیسی بعض دوسری مختصر اور سادہ نظمیں اپنی سادگی میں ایک انوکھی کشش رکھتی ہیں۔ انہیں پڑھتے ہوئے احساس و  فکر کی کسی نئی دنیا میں پہنچ جانے کا گمان ہوتا ہے۔

مجھے امید ہے کہ ’’پارٹ ٹائم شاعری‘‘ کے نام سے ارشد خالد کی نظموں کا یہ مجموعہ نظم کے قارئین میں توجہ کے ساتھ پڑھا جائے گا اور پسند کیا جائے گا۔

٭٭٭

 

 

رائے

 

                فرحت نواز

(رحیم یار خاں )

 

’’پارٹ ٹائم شاعری‘‘ ارشد خالد کی نظموں کا مجموعہ ہے۔ اس میں شامل نظمیں نئی نظم کی روایت اور مزاج کے مطابق ہیں۔ تاہم جدید نظم کی عمومی فضاسے ہم آہنگ ہونے کے باوجود یہ ارشد خالد کی ایسی پیش کش ہے جو اپنا الگ انداز رکھتی ہے۔ اس مجموعہ کا نام بھی اسی انفرادیت کا مظہر ہے۔ اس مجموعہ کی کئی نظمیں میں نے دلچسپی کے ساتھ پڑھی ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

ارشد خالد کی ’’پارٹ ٹائم شاعری‘‘

چند نظموں کا تجزیہ

 

                شہناز خانم عابدی

( کنیڈا)

 

ارشد خالد نے اپنی کتاب کا نام ’’ پارٹ ٹائم شاعری ‘‘رکھا ہے۔ شاید اس لئے کہ وقت نہ ملنے کے سبب فرصت کی کچھ گھڑیاں چرا چرا کر وہ شاعری کرتے رہے۔ اور انہوں نے ایمانداری کے ساتھ اس کتاب کا نام ’’پارٹ ٹائم شاعری‘‘ رکھا۔ کتاب کے اندر چھوٹی چھوٹی نظمیں بھی اس بات کا ثبوت ہیں۔

ارشد خالد کی یہ چھوٹی چھوٹی نظمیں ان کے جذبات اور احساسات کی ترجمان ہیں۔ ان کی شاعری سچی شاعری لگتی ہے۔ کتاب میں پہلی نظم ’’ اسم محمدؐ ــــ ‘‘ کے عنوان سے ہے جو محبت، عقیدت، ادب اور احترام کے جذبے سے معمور ہے۔ بلا شبہ نبی کریمﷺ ساری انسانیت کے لئے ایک نعمتِ خداوندی ہیں۔

’’ مودّت‘‘ نو (۹) چھوٹے چھوٹے مصرعوں پر مشتمل ایک ایسی نظم ہے جو در حقیقت ’’مودّت اور محبت‘‘ دو گہرے جذبوں سے مل کر تشکیل پاتی ہے۔

’’ ثقلین‘‘ سادہ سی زبان میں، طفلانہ معصومیت سے بھر پور ایک ایسی نظم ہے جس کا رشتہ نرسری رہمس (Rhymes) سے ملتا ہے۔

’’ ایک پیارا، رہبر ہمارا

اس دھرتی پر آیا جب

پیاری پیاری باتیں لے کر

خوشبو خوشبو سوچیں لے کر ‘‘

’’ غدیر خم ‘‘ اس نظم میں ارشد خالد کے دل کے سچے جذبے کا اظہار ہوتا ہے۔

’’ مجھے اب کربلا جانا پڑے گا ‘‘ زیارت کربلا کے بارے میں جو کچھ اس نظم میں کہا گیا ہے وہ ارشد خالد کے سوا شاید ہی کسی نے سوچا ہو گا یا کہا ہو گا۔ اس طرح یہ نظم عقیدت کی شاعری سے قدرے مختلف بھی ہو جاتی ہے اور لائق قدر بھی۔

’’ دعا‘‘ اس نظم میں شاعر بارگاہِ رب العزت میں دعا گو ہے کہ اس کو دیدۂ بیدار کی دولت عطا ہو اور ایسی سوچ جو سچ کی جستجو میں کامیابی کی منزل سے بہرہ ور ہو۔ زندگی کے غم اور کرب نے شاعر کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، جس سے اس کے حواس خمسہ کی صلاحیتیں ماند پڑنے لگی۔ شاعر اس کی دعا نہیں مانگتا کہ اس کو غم اور کرب سے نجات مل جائے بلکہ یہ دعا مانگتا ہے کہ غم اور کرب کے انداز بدل جائیں اور وہ منفی سے مثبت روپ اختیار کر لیں۔

’’ کچھ ایسا کرب ہے

کچھ بھی۔ ۔ ۔ ۔

سجھائی ہی نہیں دیتا

دکھائی ہی نہیں دیتا

میرے مولا میرے آقا

مجھے اس حرف کی دولت عطا کر دے

جو میری سوچ کے

بجھتے چراغوں

میں نظر بھر دے ! ‘‘

’’ لہو کہانی‘‘ ایک کامیاب امیج (Image) کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ اس امیج میں وقت لمحۂ موجود سے لے کر لمحۂ آخر تک پھیلا ہوا ہے۔ شاعر نے انتہائی چابک دستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وقت کو رواں دواں رکھا ہے اور ساکت بلکہ منجمد بھی۔ ازل سے ابد ایک صرف ایک ہی وقت ہے اور ایک ہی منظر ہے۔ ایک ایسا منظر جس میں نیزوں کی نوکوں پر پھولوں کی فصلیں کاشت ہوتی ہیں۔ اس امیج میں ازل سے ابد تک ایسے لوگوں کی یادیں موجود ہیں جو پھول جیسے معصوم، خوبصورت اور مہکنے والی شخصیتوں کی حامل تھیں۔ اس میں سرخ، گلابی اور زرد رنگ موجود ہے۔ اس امیج (Image) کو خاک کے اشارے کی مدد سے دنیا کو جوڑا گیا ہے۔ مگر ایسی خاک جو راکھ بھی ہو سکتی ہے۔ جہاں تک تاثر کا تعلق ہے اس ( Image) امیج کی خصوصیت یہ ہے کہ قنوطیت کی لپیٹ میں نہیں آتا۔ مجموعی تاثر رجائیت کا حامل ہے اور کشمکش اور سعی کی تصویر بناتا ہے۔ زندگی کے دوسرے کنارے پر حشر ہے جو اس پورے امیج کو معنویت سے معمور کر دیتا ہے۔ یعنی جو کچھ ہو گیا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ لا یعنی نہیں ہے۔ بلکہ سزا بھی ہے اور جزا بھی ہے۔ کچھ بھی بے کار نہیں جانے والا، مکافاتِ عمل یقینی ہے۔

’’ اک لہو کہانی کو

یوں بھی لکھنا پڑتا ہے

حبس کی زد میں موسم ہے

روشنی گلابوں کی

دور تک۔ ۔ ۔ ۔ قیامت تک

رہنمائی کرتی ہے

اک حسین رستے کی

تیرگی بھیانک ہے

اونچے نیچے نیزوں پر

پھول رُت کی فصلیں ہیں

دور تک اداسی ہے

راکھ ہوتی دھرتی پر

خواب ہیں نئے دن کے

دور تک۔ ۔ ۔ قیامت تک

پھول پھول لوگوں کی

سرخ رنگ یادیں ہیں ! ‘‘

’’ نیا سویرا ‘‘ باطل کا اندھیرا جب گہرا ہو جاتا ہے تو کربلا واقع ہوتی ہے۔ اور شہیدانِ کربلا اپنے سروں کا نذرانہ دے کر حق کا آفتاب طلوع کرتے ہیں۔

’’ زوالِ وقت سے پہلے

محبت کھینچ لائی ہے

نواحِ کربلا میں

کربلا والوں کا یہ اعجاز تو دیکھو

کہ باطل کی شبِ تاریک سے

سورج صداقت کا نکل آیا۔ ‘‘

’’ اپنے لئے ایک نظم ‘‘ میں ارشد خالد ’’ اتمام ‘‘ کی بات کر رہے ہیں۔ زندگی جو غم اور خوشی کا حسین و جمیل آمیزہ ہے اس کو بھی ایک دن اپنے خاتمے تک پہنچنا ہے۔ فرد کی زندگی کا تعلق گھر سے ہے لیکن اکثر اوقات فرد کو بے گھری سے دو چار ہونا پڑتا ہے اور بعض اوقات بے گھری کے علاوہ ہجرت بھی سہنی پڑتی ہے۔ مولانا روم کے ہاں دنیا کو سرائے سے تعبیر کیا گیا ہے، سرائے جو آدمی کا ٹھکانہ ہونے کے باوجود گھر نہیں ہوتی۔ سرائے عارضی قیام گاہ ہوتی ہے اسے چھوڑ کر جانا ہی ہوتا ہے۔ ارشد خالد نے زندگی کے خاتمے کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے پورا ہونے کی منزل سے تعبیر کیا ہے۔ نعمتوں کے ’’ اتمام‘‘ کے ساتھ سرائے کی عارضی قیام گاہ، بے گھری اور ہجرت وغیرہ کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے اور بندہ اپنے مالک کے گھر میں دائمی رہائش اختیار کر لیتا ہے۔

’’۔ ۔ ۔ ۔ اب میرے دل میں کسی کرب و بلا کا ڈر نہیں

اب میں اپنے رب کے گھر میں ہوں

سو میں بے گھر نہیں ! ’’

’’ قاتل لمحے ‘‘ اس نظم کا مرکزی خیال وقت سے جڑا ہوا ہے۔ زندگی کے راستے میں چلنے والے ہم سفر بچھڑ جاتے ہیں۔ بہتا پانی، جھاگ اڑاتی لہریں، صحرا، ریت اور ریت کے بگولے سب کچھ پیچھے چھوٹ جاتے ہیں۔ دکھ اور سکھ کو علیحدہ کر دیا جائے تو جو کچھ قاری کے پیشِ نظر کیا گیا ہے وہ بصری محسوسات سے تعلق رکھتا ہے۔ زندگی کے ہم سفر کا جدا ہو جانا اور شاعر کا زندگی کے دکھوں اور سکھوں کو بھوگنا اس نظم کو داخلیت کی معنویت عطا کرتا ہے۔ خارجہ مظاہر داخلی مظاہر سے ہم آمیز ہو کر زندگی کے تجربے کو حقیقت کا رنگ دیتے ہیں۔ شاعر نے اس طرح بطور استعارہ گزرتے ہوئے لمحوں کو ’’ قاتل لمحوں ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔

’’۔ ۔ صحرا اڑتے ریت بگولے

منظر دھندلا کر جاتے ہیں

لمحوں کی تم بات نہ کرنا

لمحے قاتل بن جاتے ہیں ْ ‘‘

’’ بو جھل آنکھیں ‘‘ اس نظم میں ٹی وی واچنگ (watching)کا کلچر بڑی مہارت سے پیش کیا گیا ہے۔

’’ ٹی وی چینل پر چلتے

یہ دنیا بھر کے منظر

ہلکی ہلکی آہٹ پر

آنکھوں میں کھو جاتے ہیں

اور میری یہ بوجھل آنکھیں

اور بھی بوجھل ہو جاتی ہیں۔ ‘‘

’’ جستجو ‘‘ خواہشات کے پیچھے دوڑنے والے آدمی کو ساری تگ و دو سے اگر کچھ ملتا ہے تو وہ خود ہوتا ہے۔

’’ جو در نہ کھلا تھا میری دستکوں سے

وہ در جب کھلا تو

وہاں پر

کوئی بھی نہیں تھا

فقط میں ہی تنہا کھڑا تھا ‘‘

’’ دیوانگی کا سفر ‘‘ ایک کامیاب اور معنویت سے لبریز نظم ہے۔ اس کا مرکزی خیال اہمیت رکھتا ہے۔ آدمی کتنی بھی کوشش کرے کہ خود کو اور اپنی زندگی کو مثبت اقدار سے معمور رکھے لیکن منفی اقدار سے فرار نا ممکن ہے۔ دنیاوی زندگی سے جو ملتا ہے وہ مجموعۂ اضداد کی صورت میں ملتا ہے۔

’’ دیوانگی کی حد سے جب آگے نکل گئے

جنگل پہاڑ دشت سے۔ دریا سے ہم رکاب

سورج بھی چاند تارے بھی

سب ساتھ ساتھ تھے

دیکھا پلٹ کے جب تو

اندھیرا بھی ساتھ تھا۔ ‘‘

’’ مستقبل ‘‘ اس نظم میں شاعر نے آدمی کی زندگی ( جو حال، ماضی اور مستقبل کے مجموعے سے تعبیر کی جاتی ہے ) کی جبریت کو ماورائیت سے وابستہ کر دیا ہے۔ اس نظم کو مادرِ ارض کی سوچ سے تعبیر کیا جائے تو نظم کا مفہوم یکسر بدل جاتا ہے،

’’ پہلے تو اوزون سے ٹپکی

رستے میں بکھری

زہریلی دھوپ ہٹاؤں

پھر میں اپنے بچوں کے رستے میں

ہریالی اور پیڑ اُگاؤں۔ !‘‘

’’تمنا‘‘ ایک کامیاب اور خوبصورت نظم ہے۔

’’ تمنا خواب وادی میں

جب بیدار ہو کر

نیم وا آنکھوں سے دیکھے گی

جواں انگڑائیوں کے سارے موسم بھی

بدن آنگن میں اتریں گے !

’’ خواب اور کتابیں ‘‘ کتابوں کی دنیا میں رہنے والوں کے لئے کتابیں ہی سب کچھ ہوتی ہیں پھر ایک ایسا مرحلہ بھی آتا ہے کہ خواب اور کتابیں آمیز ہو جاتی ہیں اور کتابوں کا متوالا خواب کو بھی کتابوں کے ساتھ شیلف میں رکھتا ہے۔ جس رات وہ سو نہیں پاتا تو اس کے خواب بھی نہیں سوتے، کتابیں بھی نہیں سوتی۔ اس کے ساتھ رات رات بھر جاگتی ہیں۔

’’۔ ۔ ۔ کرو ٹیں لیتا رہا بستر پہ

میں بھی رات بھر

رات بھر سوئی نہیں

شیلف میں رکھی کتابیں بھی مری ! ‘‘

’’ میری آنکھیں ‘‘ اس نظم کو استعا راتی تصویر کشی کے اثاث پر ’’ نثری نظم‘‘ کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک لائق تحسین نظم ہے۔

’’ میری آنکھیں

فقط میری آنکھیں نہیں ہیں

یہ دروازے ہیں

تہہ خانۂ دل کے ‘‘

’’ جنت کے گھر‘‘ انسان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انسان خطاؤں کا مرکب ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر خطا کو انسان کی انسانیت کی اساس بھی قرار دیا گیا ہے۔ انگریزی محاورے کے مطابق ’’ To err is human‘‘ تسلیم کر لیا گیا ہے۔ شاعر نے خطا کرنے کو نادانی سے جوڑ دیا ہے۔ بچے ساحل کی گیلی مٹی میں گھروندے بناتے ہیں اور خود ہی توڑ دیتے ہیں۔ اس کو بچوں کی نادانی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بڑے ہو کر یہی بچے نیک اعمال اس خیال سے کرتے ہیں کہ ان نیکیوں کے بدلے میں ان کو جنت کے گھر ملیں گے لیکن بڑے ہونے کے با وجود بچپن کی نادان فطرت ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی اور اپنی نادانی سے بد اعمالیوں کے مرتکب ہو جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جنت میں جو گھر تعمیر کئے جا رہے تھے وہ مسمار ہو جاتے ہیں۔ آدمی کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو جائے مگر تمام عمر طفلِ نادان ہی رہتا ہے۔

ارشد خالد اپنی اس نظم میں اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے معلوم دیتے ہیں۔

’’۔ ۔ ۔ سب نیکیوں کے نام پر

جنت کے گھر تعمیر کرتے ہیں

پھر ان جنت گھروں کو خود جہنم زار کرتے ہیں۔

ہر اپنی خوش نما تعمیر اپنے ہاتھ سے مسمار کرتے ہیں۔

فقط نادانیوں سے پیار کرتے ہیں۔ ‘‘

’’ یہ لمبی رات دسمبر کی‘‘ ماں کے موضوع پر ایک اچھی نظم ہے۔ اس نظم میں اولاد کی محبت ماں کے لئے۔ ۔ ۔ اس کے وجود کی وابستگی کا اظہار ماں کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے کہ یہ نظم دل میں اترتی جاتی ہے اور قاری ماں کی محبت کے حصار میں کھو جاتا ہے۔

ماں کے لئے بچے، بچے ہی رہتے ہیں خواہ وہ بوڑھے ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ماں اپنی اولاد کے ساتھ رابطہ میں رہتی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ آج بھی جب وہ ساٹھویں سال میں ہے، ماں دسمبر کی ایک لمبی رات میں بچپن سے جوانی تک کے زمانے اسے لوٹانے آئی ہے۔ ماں کبھی حقیقت میں کبھی بصورتِ یاد آدمی کے ماضی، حال، اور مستقبل پر محیط رہتی ہے۔

’’ابھی کچھ دیر باقی ہے ‘‘ یہ ایک نثری تحریر ہے جو خود کلامی پر مبنی ہونے کے باوجود مکالمے کا انداز بھی رکھتی ہے۔ اس کو انشائیہ کہیں گے، مکالمہ، یا خود کلامی۔ ۔ ۔ ـ؟

’’ تمہارے خواب آنکھوں سے اتر کر

صحن میں

ٹھہرے نہیں اب تک

فلک سے تو ستارے بھی

اترنے میں

بہت سا وقت لیتے ہیں۔

ابھی کچھ دیر باقی ہے

ابھی کچھ رتجگے آنکھوں میں

بھرتے ہیں

ابھی کچھ دیر باقی ہے

محبت خواب آنے میں۔ ‘‘

’’ دنیا‘‘ اس نظم کو نظم میں شمار نہیں کیا جا سکتا البتہ میکرو سٹوری کے طور پر لکھا جا سکتا ہے۔

’’ دنیا۔ ۔

میں تجھے سمجھ گیا ہوں

تو اتنی اچھی ہوتی !۔ تو

میرے مولاؑ تجھے

تین طلاقیں کیوں دیتے۔ ‘‘

’’ تیری یاد سے ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ حسرت موہانی کہتے ہیں ؎

نہیں آتی تو یاد اُن کی مہینوں تک نہیں آتی

مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

فراق گورکھپوری کہتے ہیں ؎

مدتیں گزریں تیری یاد بھی آئی نہ ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

ارشد خالد کی نظم ’’ تیری یاد سے ‘‘ ان دو بڑے شاعروں کے اشعار سے مختلف بات کہہ رہی ہے۔ شاید یہ نئے زمانے کی دین ہے جس میں حسن اور عشق دونوں اشیائے صرف کمو ڈیٹیز (Commodities ) تصور کی جانے لگی ہیں۔

’’ کئی خواب تھے

کئی دل لبھاتے خیال جو

تھے جڑے ہوئے تیری یاد سے

تیری یاد جب سے بچھڑ گئی

تو وہ خواب اور وہ خیال بھی

مرے دل سے جیسے اتر گئے۔ ‘‘

’’ ازل سے ابد ‘‘ اس نظم میں موضوعاتی ندرت نہ صرف موجود ہے بلکہ حیران کرتی ہے۔ شاعر نے ازل سے ابد کے بارے میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ پہلے یعنی تخلیق آدم سے پہلے ازل اور ابد ایک تھے بعد میں یہ سارے معاملات سامنے آئے۔ یوں بھی وقت کی رفتار کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔ جیسے آواز کی رفتار، روشنی کی رفتار۔ ۔ ۔ کون جانے کہ ربِ کائنات کے ہاں وقت کی رفتار کیا ہے اور کیا نہیں۔ وقت ایک ہے یا وقت لمحات میں منقسم ہے۔ وقت موجِ آب یا موجِ ہوا کی طرح بہتا ہے یا ایک لمحے سے دوسرے لمحے کی جانب چھلانگ لگاتا ہے۔ یہ سب ہنوز زیرِ تحقیق ہے۔

شاعر نے کھنکھناتی ہوئی گیلی مٹی سے تخلیقِ آدم کی جانب قاری کی توجہ مبذول کی ہے اور اس واقعے کی جانب اشارہ کیا ہے جس کے بموجب تخلیقِ آدم سے فارغ ہو کر ربِ کائنات نے حکم صادر فرمایا کہ خاک کے اس پتلے کو سجدہ کیا جائے کیونکہ وہ خاک کا پتلا معمولی پتلا نہیں رہا۔ ربِ کائنات نے اس کے اندر ایک ایسی روح پھونک دی تھی جو اس کو دنیا میں اللہ کا فرستادہ خلیفہ بنانے والی تھی۔ فرشتوں نے تھوڑی سی منطق کے بعد آدمؑ کو سجدہ کیا کیونکہ وہ ربِ کائنات کی خلاف ورزی بھی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ابلیس جو فرشتہ نہیں تھا، جن تھا، جس کی خلقت آگ کے شعلے کے مرکزسے ہوئی تھی۔ آدم کو اپنے سے کم تر قرار دیتا تھا۔ کیونکہ آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی۔ ابلیس نے آدم کو سجدہ کرنے سے ان کار کیا۔ اپنی تخلیقی ماہیت پر فخر کیا اور ابد تک کے لئے راندۂ درگاہِ ربِ کریم ہو گیا۔

ازل سے ابد تک کا درمیانی وقفہ جاری ہے اور ابد وہ مرحلہ ہے جس میں ازل سے ابد تک کے سارے معاملات کو ’’اتمام ‘‘ تک پہنچایا جائے گا۔

نظم ’’ لا= انسان‘‘ ایک سیدھی سادی منطقی اور فلسفیانہ مزاج کی تحریر ہے۔

’’ انکشاف‘‘ یہ نظم ایک امیج (Image ) پر مشتمل ہے۔ کسی پوش (Posh ) علاقے کا امیج جو تضاد اساسی ہے۔ شاندار کمرے، خوبصورت کمرے زندگی کے ظاہری اور خارجی رخ کی تصویر کشی جس کا اندرون بالکل متضاد ہے، خوبصورت اور شاندار کمروں کے اندر رہتے بستے لوگ اپنی انسانی شناخت کھو چکے ہیں۔ معاشی اور مشینی زندگی کی لپیٹ میں آ کر وہ بے جان اور مردہ ہو چکے ہیں۔

ان لوگوں کو قسم قسم کے روگ لگے ہوتے ہیں، منافقت، تصنع، دکھاوا، زندگی کی بے مصرف دوڑ دھوپ وغیرہ۔ ۔ ۔ اس نظم کے آخری دو مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف کپ لٹ (Couplet ) ہیں۔

’’ تمہیں معلوم کیا

ان خوشنما بنگلوں میں

اور ان بنگلوں کے حسن و جاہ سے لبریز

کمروں میں تو

مردہ لوگ رہتے ہیں

اور ان کے روگ رہتے ہیں۔ ‘‘

’’ ایک کیفیت ‘‘ کے عنوان سے ارشد خالد نے شبِ فراق کو ایک چھوٹے سے امیج میں مصور کیا ہے اور اس امیج کی جزئیات کچھ اس طرح ہیں، شبِ فراق، محبوب کی یاد، شدتِ غم، رات کی تیرگی کا دل میں اترنا اور دل کو اندھیرے سے بھر دینا، اس اندھیرے کا دل سے آنکھوں کی جانب سفر اور اس سفر میں راستے کو روشن کرنے والے آ نسوؤں کے جگنو۔

’’ فرقت کی شب جو دل میں

اندھیرا سا بھر گیا

آنکھوں سے جگنوؤں بھرے

آنسو ٹپک پڑے

’’ دکھ ‘‘ اس نظم کا موضوع ہے محبوب کی جدائی، اور دائمی تعلق کا ٹوٹنا۔ اس جدائی اور تعلق ٹوٹنے کی وجہ سے شاعر کو جو دکھ اور صدمہ پہنچا ہے اس چھوٹی سی نظم میں اس کا اظہار ہے۔

’’ میرے اس کے

سارے رشتے

ٹوٹ گئے ہیں ‘‘

’’ حیرت آئینہ ‘‘ اس نظم کا موضوع بھی اسرارِ معرفت سے متعلق ہے۔ عشق حقیقی میں اکثر اوقات مقامِ حیرت سے آدمی آگے نہیں بڑھتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’ حیرتِ آئینہ کبھی دیکھو

مجھ میں سارا سما کے بھی جیسے

وہ میری دسترس سے باہر ہے۔ ‘‘

’’باطن کی روشنی ‘‘ یہ نظم معنوی اعتبار سے تصوف کے موضوع سے متعلق ہے۔ سالکِ راہِ حقیقت عام طور پر، سلوک کے راستے پر کسی روحانی رہبر کی ہدایات کے بموجب راستے طے کرتا ہے۔ اس نظم کا شاعر راہِ سلوک پر چلنا چاہتا ہے لیکن چلے تو کیسے چلے اسے کوئی رہبرِ راہِ طریقت ہی میسر نہیں جو اس کی زندگی میں آئے اور معرفت کے راستے پر لے چلے۔

’’ بجا ہے چاند، تارے اور سورج

روشنی کے استعارے ہیں

مگر یہ روشنی، باہر کی دنیا تک ہی رہتی ہے

ہمیں اس وقت باطن کے لئے

ازلی حرارت کی ضرورت ہے

حرارت، جس سے باطن

معرفت کی روشنی سے جگمگا جائے

کوئی آئے

جو معرفت کی روشنی ہم میں اُگا جائے۔ ‘‘

’’ تبادلہ ‘‘ اس نظم کا موضوع ایک انوکھی شبِ وصال ہے۔ ایک ایسی رات جس میں محبوبہ جاگتی ہے۔ شاعر کو جگاتی ہے، رات بھر اپنا دکھڑا سناتی ہے۔ اپنے دکھ شاعر کو دیتی ہے اور شاعر کے سکھ خود لیتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ محبوبہ تو ایک ہی رات جاگتی ہے لیکن شاعر اس رات کے بعد کبھی نہیں سوتا۔ محبوبہ کے دکھ اسے سونے نہیں دیتے۔

’’ میرے سکھ اس نے لئے

اپنے دکھ مجھ کو دئیے

سو نہ سکی وہ رات بھر

اور میں۔ ۔ ۔

جاگ رہا ہوں آج تک‘‘

’’ قسمت ‘‘ اس چھوٹی سی نظم میں مسئلہ جبر و قدر کو موضوع بنایا گیا ہے۔

’’کیا کرتے ہم

ہاتھ کھلے تھے جب تک اپنے

بند مٹھی کی ریکھائیں

دم توڑ چکی تھیں

سب خوشیاں منہ موڑ چکی تھیں۔ ‘‘

’’ خزاں ‘‘۔ خزاں جب آتی ہے تو سارے گل، بوٹے سوکھ کر جھڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح اکثر پیارے لوگ جو شاعر کی زندگی میں شریک تھے بچھڑ گئے ہیں۔ اور زندگی کسی خزاں زدہ باغ کی مانند خشک اور ویران ہو گئی ہے۔

یہ نظم تین لائنوں میں بھی ہو سکتی تھی لیکن اس کو آزاد نظم کے فارم میں پانچ لائنوں میں لکھا ہے۔

’’ دل نگری کے سارے بوٹے

اک اک کر کے

سوکھ گئے ہیں

پیار آنگن میں بسنے والے

سارے اپنے روٹھ گئے ہیں۔ ‘‘

’’ اختتام ‘‘ شاعر نے اس نظم کو چار مصرعوں میں لکھا ہے۔ یہ نظم نثری نظم میں شمار نہیں کی جا سکتی۔ معنویت کے اعتبار سے شور کا اپنی حد تک بڑھنا اور خاموشی کو مار دینا، قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ خاموشی کی اس موت سے شاعر کی موت کا تعلق بڑا ہی مبہم ہے۔ مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ شاعر کی زندگی کا دارو مدار خاموشی پر تھا۔ زندگی کے شور و غوغا نے شاعر کی زندگی کے سکون کو اتنا درہم برہم کر دیا ہے کہ شاعر برداشت نہ کر سکا اور اس کی موت واقع ہو گئی یا خود اس نے اپنے آپ کو ختم کر دیا۔ یہ حد سے بڑھا ہوا شور محبوبہ کی شادی کا بھی ہو سکتا ہے۔

’’ شور نے اپنی حد سے بڑھ کر

خاموشی کو مار دیا ہے

میں نے جیون

ہار دیا ہے۔ ‘‘

ارشد خالد کی شاعری کا انداز منفرد ہے۔ وہ ایک مختلف اسلوب اور لہجے کے شاعر ہیں۔ ان کے سچے جذبات کی جھلک ان کی نظموں میں نمایاں ہے۔

٭٭٭

تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید