FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

چاند تاروں کا بن

 

 

               مخدوم محی الدین

 

ترتیب اور تدوین: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

روح فغفور

 

 

وہ شب اندام وہ قبر کی تیرگی

میرے گھر میں وہ کل یک بیک گھس گئی

ناچتی کودتی، شور کرتی ہوئی

میری خوشیوں سے جیبوں کو بھرتی ہوئی

پرچم غم ہوا میں لہراتی ہوئی

مسکراتی ہوئی، کھلکھلاتی ہوئی

ایڑیوں سے دلوں کو کچلتی ہوئی

خون پی پی کے گرتی ابھرتی ہوئی

پشت گیتی پہ میں بھی تو ناسور ہوں

دیکھ تو کون ہوں، روح فغفور ہوں

٭٭٭

رقص

 

 

وہ روپ رنگ راگ کا پیام لے کے آ گیا

وہ کام دیو کی کمان جام لے کے آ گیا

وہ چاندنی کی نرم نرم آنچ میں تپی ہوئی

سمندروں کے جھاگ کی بینی ہوئی جوانیاں

ہر ہری روش پہ ہم قدم بھی ہم کلام بھی

بدن، مہک مہک کے چل

مکر، لچک لچک کے چل

قدم، بہک بہک کے چل

وہ روپ رنگ راگ کا پیام لے کے آ گیا

وہ کام دیو کی کمان جام لے کے آ گیا

الہٰی یہ بساطِ رقص اور بھی بسیط ہو

صدائے تیشہ کامراں ہو، کوہکن کی جیت ہو

٭٭٭

سب کا خواب

 

 

وہ جو میرا خواب کہلاتا تھا

میرا ہی نہ تھا

وہ تو سب کا خواب تھا

سایۂ گیسو میں بس جانے کے ارماں دل میں تھے

میرے دل میں ہی نہ تھے

وہ تو سب کا خواب تھا

لاکھ دل ہوتے تھے لیکن

جب دھڑکتے تھے تو اک دل کی طرح

آپ میں اک گرمی احساس ہوتی تھی

نہیں معلوم وہ کیا ہو گئی

چاندنی سی میرے دل کے پار ہوتی تھی

نہیں معلوم وہ کیا ہو گئی

٭٭٭

 

 

 

 

اندھیرا

 

رات کے ہاتھ میں اک کاسۂ دریوزہ گری

یہ چمکتے ہوئے تارے، یہ دمکتا ہوا چاند

بھیک کے نور میں، مانگے کے اجالے میں مگن

یہی ملبوس عروسی ہے، یہی ان کا کفن

اس اندھیرے میں وہ مرتے ہوئے جسموں کی کراہ

وہ عزازیل کے کتوں کی کمیں گاہ

وہ تہذیب کے زخم

خندقیں،

باڑھ کے تار

باڑھ کے تاروں میں الجھے ہوئے انسانوں کے جسم

اور انسانوں کے جسموں پہ وہ بیٹھے ہوئے گدھ

وہ تڑختے ہوئے سر

میتیں ہاتھ کٹی، پاؤں کٹی

لاش کے ڈھانچے کے اس پار سے پار تلک

سرد ہوا

نوحہ و نالہ و فریاد کناں

شب کے سناٹے میں رونے کی صدا

کبھی بچوں کی، کبھی ماؤں کی

چاند کے، تاروں کے ماتم کی صدا

رات کے ماتھے پہ آزردہ ستاروں کا ہجوم

صرف خورشیدِ درخشاں کے نکلنے تک ہے

رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں

٭٭٭

 

بلّور

 

 

منور خموشی کے بِلّور چھنکے

کرن مر مریں فرش پر چھن سے ٹوٹی

کلی چٹکی ، آواز کے پھول مہکے

رنگوں کے سروں کی کوئی کہکشاں

کھل کھلاتی ہوئی گود میں آ پڑی ہے

خموشی کے گہرے سمندر کی تہہ سے

کسی جل پری نے مجھے جیسے آواز دی ہو

اندھیرے کے پردے ہلے ، ساز چونکے

کئی نور کی انگلیاں جگمگائیں

شفق در شفق رنگ در رنگ

عارض کا حیرت کدہ سامنے ہے

وہ ہنستا ہوا میکدہ سامنے ہے

دھنک سامنے ہے

کسی کو یہ قصہ سناؤں تو کیسے

قدم اور آگے بڑھاؤں تو کیسے

٭٭٭

 

حویلی

 

 

ایک بوسیدہ حویلی یعنی فرسودہ سماج

لے رہی ہے نزع کے عالم میں مردوں سے خراج

ایک مسلسل کرب میں ڈوبے ہوئے سب بام و در

جس طرف دیکھو اندھیرا، جس طرف دیکھو کھنڈر

مار و کژدم کا ٹھکانا جس کی دیواروں کے چاک

اف یہ رخنے کس قدر تاریک کتنے ہولناک

جن میں رہتے ہیں مہاجن، جن میں بستے ہیں امیر

جن میں کاشی کے برہمن، جن میں کعبے کے فقیر

رہزنوں کا قصرِ شوریٰ، قاتلوں کی خواب گاہ

کھلکھلاتے ہیں جرائم، جگمگاتے ہیں گناہ

جس جگہ کٹتا ہے سر انصاف کا ایمان کا

روز و شب نیلا ہوتا ہے جہاں انسان کا

زیست کو درسِ اجل دیتی ہے جس کی بارگاہ

قہقہہ بن کر نکلتی ہے جہاں ہر ایک آہ

سیم و زر کا دیوتا جس جا کبھی سوتا نہیں

زندگی کا بھول کر جس جا گزر ہوتا نہیں

ہنس رہا ہے زندگی پر اس طرح ماضی کا حال

خندہ زن ہو جس طرح عصمت پہ قحبہ کا جمال

ایک جانب ہیں وہیں ان بے نواؤں کے گروہ

ہاں انھیں بے نان و بے پوشش گداؤں کے گروہ

جن کے دل کچلے ہوئے جن کی تمنا پائمال

جھانکتا ہے جن کی آنکھوں سے جہنم کا جلال

اے خدائے دوجہاں اے وہ جو ہر اک دل میں ہے

دیکھ تیرے ہاتھ کا شہکار کس منزل میں ہے

جانتا ہوں موت کا ہم ساز و ہمدم کون ہے

کون ہے پروردگارِ بزمِ ماتم کون ہے

کوڑھ کے دھبے چھپا سکتا نہیں ملبوسِ دیں

بھوک کے شعلے بجھا سکتا نہیں روح الا میں

اے جواں سالِ جہاں، جانِ جہانِ زندگی

ساربان زندگی روح روان زندگی

بجلیاں جس کی کنیزیں زلزلے جس کے سفیر

جس کا دل خیبر شکن جس کی نظر ارجن کا تیر

 

ہاں وہ نغمہ چھیڑ جس سے مسکرائے زندگی

تو بجائے سازِ اُلفت اور گائے زندگی

آ انھیں کھنڈروں پہ آزادی کا پرچم کھول دیں

آ انھیں کھنڈروں پہ آزادی کا پرچم کھول دیں

٭٭٭

چاند تاروں کا بن

 

موم کی طرح جلتے رہے، ہم شہیدوں کے تن

رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن

رات بھر جگمگاتا رہا چاند تاروں کا بن

 

تشنگی تھی مگر

تشنگی میں بھی سرشار تھے ہم

پیاسی آنکھوں کے خالی کٹورے لیے

منتظر مرد و زن

مستیاں ختم، مدہوشیاں ختم تھیں، ختم تھا بانکپن

رات کے جگمگاتے دہکتے بدن

صبح دم ایک دیوارِ غم بن گئے

خارزارِ الم بن گئے

رات کی شہ رگوں کا اچھلتا لہو

جوئے خون بن گیا

کچھ امامانِ صد مکر و فن

ان کی سانسوں میں افعی کی پھنکار تھی

ان کے سینے میں نفرت کا کالا دھواں

اک کمیں گاہ سے

پھینک کر اپنی نوکِ زباں

خونِ نور سحر پی گئے

رات کی تلچھٹیں ہیں اندھیرا بھی ہے

صبح کا کچھ اجالا اجالا بھی ہے

 

ہمدمو ہاتھ میں ہاتھ دو

سوئے منزل چلو

منزلیں پیار کی

منزلیں دار کی

کوئے دلدار کی منزلیں

دوش پر اپنی اپنی صلیبیں اٹھائے چلو

٭٭٭

 

جانے والے سپاہی سے پوچھو

 

جانے والے سپاہی سے پوچھو

وہ کہاں جا رہا ہے

کون دکھیا ہے جو گا رہی ہے

بھوکے بچوں کو بہلا رہی ہے

لاش جلنے کی بو آ رہی ہے

زندگی ہے کہ چلا رہی ہے

جانے والے سپاہی سے پوچھو

٭٭٭

 

 

 

یہ جنگ ہے جنگِ آزادی

 

 

یہ جنگ ہے جنگِ آزادی

آزادی کے پرچم کے تلے

ہم ہند کے رہنے والوں کی

محکوموں کی مجبوروں کی

آزادی کے متوالوں کی

دہقانوں کی مزدوروں کی

لو سرخ سویرا آتا ہے

آزادی کا آزادی کا

گلنار ترانہ گاتا ہے

آزادی کا آزادی کا

دیکھو پرچم لہراتا ہے

آزادی کا آزادی کا

یہ جنگ ہے جنگِ آزادی

آزادی کے پرچم کے تلے

 

سارا سنسار ہمارا ہے

پورب پچھم، اتر دکن

ہم افرنگی، ہم امریکی

ہم چینی جانبازانِ وطن

ہم سرخ سپاہی، ظلم شکن

آہن پیکر، فولاد بدن

یہ جنگ ہے جنگِ آزادی

آزادی کے پرچم کے تلے

٭٭٭

 

چارہ گر

 

اک چنبیلی کے منڈوے تلے

مے کدے سے ذرا دور اس موڑ پر

دو بدن / پیار کی آگ میں جل گئے

پیار حرف وفا

پیار ان کا خدا

پیار ان کی چتا

 

دو بدن

اوس میں بھیگتے

چاندنی میں نہاتے ہوئے

جیسے دو تازہ رو تازہ دم پھول پچھلے پہر

ٹھنڈی ٹھنڈی سبک رو چمن کی ہوا

صرف ماتم ہوئی

کالی کالی لٹوں سے لپٹ گرم رخسار پر

ایک پل کے لیے رک گئی

ہم نے دیکھا انھیں

دن میں اور رات میں

نور و ظلمات میں

مسجدوں کے مناروں نے دیکھا نہیں

مندروں کے کواڑوں نے دیکھا انھیں

مے کدے کی دراڑوں نے دیکھا انھیں

از ازل تا ابد

یہ بتا چارہ گر

تیری زنبیل میں

نسخۂ کیمیائے محبت بھی ہے ؟

کچھ علاج و مداوائے الفت بھی ہے ؟

٭٭٭

انتظار

 

رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے

سانس کی طرح سے آپ آتے رہے جاتے رہے

خوش تھے ہم اپنی تمناؤں کا خواب آئے گا

اپنا ارمان برافگندہ نقاب آئے گا

نظریں نیچی کیے شرمائے ہوئے آئے گا

کاکلیں چہرے پر بکھرائے ہوئے آئے گا

آ گئی تھی دلِ مضطر میں شکیبائی سی

بج رہی تھی مرے غم خانے میں شہنائی سی

پتیاں کھڑکیں تو سمجھا کہ لو آپ آ بھی گئے

سجدے مسرور کہ مسجود کو ہم پا بھی گئے

شب کے جاگے ہوئے تاروں کو بھی نیند آنے لگی

آپ کے آنے کی اک آس تھی اب جانے لگی

صبح نے سیچ سے اٹھتے ہوئے لی انگڑائی

اور صبا تو بھی جو آئی تو اکیلی آئی

میرے محبوب مری نیند اڑانے والے

میرے مسجود مری روح پہ چھانے والے

آ بھی جا، تاکہ مرے سجدوں کا ارماں نکلے

آ بھی جا تا ترے قدموں پہ مری جاں نکلے

٭٭٭

قید

 

رات ہے رات کی تاریکی ہے تنہائی ہے

دور محبس کی فصیلوں سے بہت دور کہیں

سینۂ شہر کی گہرائی سے گھنٹوں کی صدا آتی ہے

چونک جاتا ہے دماغ

جھلملا جاتی ہے انفاس کی رو

جاگ اٹھتی ہے مری شمعِ شبستانِ حیات

زندگانی کی اک اک بات کی یاد آتی ہے

 

قید ہے، قید کی میعاد نہیں

جو رہے، جور کی فریاد نہیں، داد نہیں

رات ہے، رات کی خاموشی ہے، تنہائی ہے

دور محبس کی فصیلوں سے بہت دور کہیں

سینۂ شہر کی گہرائی سے گھنٹوں کی صدا آتی ہے

جھلملا جاتی ہے انفاس کی لو

جاگ اٹھتی ہے مری شمعِ شبستانِ خیال

 

سیکڑوں لاکھوں عوام

سیکڑوں لاکھوں قدم

سیکڑوں لاکھوں، دھڑکتے ہوئے انسانوں کے دل

جبر شاہی سے غمیں، جور سیاست سے نڈھال

جانے کس موڑ پہ وہ دھم سے دھماکا بن جائیں

 

سالہا سال کی افسردہ و مجبور جوانی کی امنگ

طوق و زنجیر سے لپٹی ہوئی سو جاتی ہے

کروٹیں لینے میں زنجیر کی جھنکار کا شور

خواب میں زیست کی شورش کا پتا دیتا ہے

مجھ کو غم ہے کہ مرا گنجِ گراں مایۂ عمر

نذرِ زنداں ہوا

نذرِ آزادی زندانِ وطن کیوں نہ ہوا؟

٭٭٭

 

چپ نہ رہو

 

شب کی تاریکی میں، اک اور ستارہ ٹوٹا

طوق توڑے گئے ٹوٹی زنجیر

جگمگانے لگا ترشے ہوئے ہیرے کی طرح

آدمیت کا ضمیر

پھر اندھیرے میں کسی ہاتھ میں خنجر چمکا

شب کے سناٹے میں پھر خون کے دریا چمکے

صبح دم جب مرے دروازے سے گزری ہے صبا

اپنے چہرے پہ ملے خونِ سحر گزری ہے

٭٭٭

 

وقت بے درد مسیحا ہے

 

درد کی رات ہے

چپ چاپ گزر جانے دو

درد کو مرہم نہ بناؤ

دل کو آواز نہ دو

نورِ سحر کو نہ جگاؤ

زخم سوتے ہیں تو سو رہنے دو

درد کی رات ہے

چپ چاپ گزر جانے دو

درد کو مرہم نہ بناؤ

دل کو آواز نہ دو

نورِ سحر کو نہ جگاؤ

زخم سوتے ہیں تو سو رہنے دو

وقت بے درد مسیحا ہے

بیک حکم جگا دینا جِلا دیتا ہے

رات اک سائل بے فیض کی مانند گزرتی ہے

گزر جانے دو

وقت ۔

وقت۔

او مشفق و محسن و قاتل

رات کی نبض پہ نشتر رکھ دے

رات کا خون ہے

بہہ جاتا ہے

بہہ جانے دے

وقت بے درد مسیحا ہے

بہ یک حکم جگا دیتا ہے جلا دیتا ہے

 

قبر سے اٹھ کے نکل آئی ملاقات کی شام

ہلکا ہلکا سا وہ اڑتا ہوا گالوں کا گلال

بھینی بھینی سی وہ خوشبو کسی پیراہن کی

٭٭٭

 

 

انقلاب

 

اے جانِ نغمہ جہاں سوگوار کب سے ہے

ترے لیے یہ زمیں بے قرار کب سے ہے

ہجومِ شوق سر رہ گزار کب سے ہے

گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے

 

رخ حیات پہ کاکل کی برہمی ہی نہیں

نگارِ دہر میں انداز مریمی ہی نہیں

مسیح و خضر کی کہنے کو کچھ کمی ہی نہیں

گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے

 

حیات بخش ترانے اسیر ہیں کب سے

گلوئے زہرہ میں پیوست تیر ہیں کب سے

قفس میں بند ترے ہم صفیر ہیں کب سے

گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے

 

حرم کے دوش پہ عقبیٰ کا دام ہے اب تک

سروں میں دین کا سودائے خام ہے اب تک

توہمات کا آدم غلام ہے اب تک

گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے

٭٭٭

 

خواہشیں

 

خواہشیں، لال پیلی ہری چادریں اوڑھ کر

تھرتھراتی تھرکتی ہوئی جاگ اٹھیں

جاگ اُٹھی دل کی اندر سبھا

دل کی نیلم پری جاگ اُٹھی

دل کی پکھراج لیتی ہے انگڑائیاں جام میں

جام میں تیرے ماتھے کا سایہ گرا

گھل گیا۔

٭٭٭

 

وادیِ فردا

 

رات ہی رات ہے سناٹا ہی سناٹا ہے

کوئی ساحل بھی نہیں

کوئی کنارہ بھی نہیں

کوئی جگنو بھی نہیں

کوئی ستارہ بھی نہیں

میری اس وادیِ فردا کے او خوش پر طائر

یہ اندھیرا ہی تری راہ گزر

اس فضا میں کوئی دروازہ نہ دہلیز نہ در

تری پرواز ہی بن جاتی ہے سامانِ سفر

٭٭٭

ستارے

 

جاؤ جاؤ چھپ جاؤ ستارو

جاؤ جاؤ تم چھپ جاؤ

رات رات بھر جاگ جاگ کر

کس کو گیت سناتے ہو

چپ چپ رہ کر جھلمل جھلمل

کس بھاشا میں گاتے ہو

ہم جس نگری میں رہتے ہیں

وہ نگری کیا دیکھو گے

غم جس بستی میں بستے ہیں

وہ بستی کیا دیکھو گے

جاؤ جاؤ چھپ جاؤ ستارو

جاؤ جاؤ تم چھپ جاؤ

٭٭٭

آج کی رات نہ جا

 

رات آئی ہے، بہت راتوں کے بعد آئی ہے

دیر سے، دور سے آئی ہے، مگر آئی ہے

مرمریں صبح کے ہاتھوں میں چھلکتا ہوا جام آئے گا

رات ٹوٹے گی اجالوں کا پیام آئے گا

آج کی رات نہ جا

 

زندگی لطف بھی ہے زندگی آزاد بھی ہے

ساز و آہنگ بھی زنجیر کی جھنکار بھی ہے

زندگی دید بھی ہے حسرتِ دیدار بھی ہے

زہر بھی، آبِ حیاتِ لب و رخسار بھی ہے

زندگی دار بھی ہے زندگی دلدار بھی ہے

آج کی رات نہ جا

 

 

رت

 

دل کا سامان اٹھاؤ

جان کو نیلام کرو

اور چلو

درد کا چاند سر شام نکل آئے گا

کیا مداوا ہے

چلو درد پیو

چاند کو پیمانہ بناؤ

رت کی آنکھوں سے ٹپکنے لگے کالے آنسو

رت سے کہہ دو

کہ وہ پھر آئے

چلو

اس گل اندام کی چاہت میں بھی کیا کیا نہ ہوا

درد پیدا ہوا، درماں کوئی پیدا نہ ہوا

٭٭٭

 

 

سناٹا

 

 

کوئی دھڑکن

نہ کوئی چاپ

نہ سنچل

نہ کوئی موج

نہ کسی سانس کی گرمی

نہ بدن

ایسے سناٹے میں اک آدھ تو پتا کھڑکے

کوئی پگھلا ہوا موتی

کوئی آنسو

کوئی دل

کچھ بھی نہیں

کتنی سنسان ہے یہ راہ گزر

کوئی رخسار تو چمکے

کوئی بجلی تو گرے

٭٭٭


 

 

زخم

 

کوئی کسی کو بتاتا نہیں کہ کیا کھویا

کسی کو یاد نہیں ہے کہ دل پہ کیا گزری

دلوں میں بند ہیں تلخابۂ حیات کے خم

کوئی زبان سے کہتا نہیں کہ غم کیا ہے

 

ہر ایک زخم کے اندر ہے زخم، درد میں درد

کسی کی آنکھ میں کانٹے کسی کی آنکھ میں پھول

کہیں گلاب کہیں کیوڑے کی بستی ہے

یہ سر زمین اک اک بوند کو ترستی ہے

٭٭٭

 

تیرے دیوانے تری چشم و نظر سے پہلے

دار سے گزرے تری راہ گزر سے پہلے

 

بزم ہے دور وہ گاتا رہا تنہا تنہا

سو گیا ساز پہ سر رکھ کے سحر سے پہلے

 

اس اندھیرے میں اجالوں کا گماں تک بھی نہ تھا

شعلہ رو، شعلہ نوا، شعلہ نظر سے پہلے

 

کون جانے کہ ہو کیا رنگ سحر رنگ چمن

مے کدہ رقص میں ہے، پچھلے پہر سے پہلے

 

نکہت یار سے آباد ہے ہر کنجِ قفس

مل کے آئی ہے صبا اس گل تر سے پہلے

٭٭٭

 

 

 

روشن ہے بزم شعلہ رخاں دیکھتے چلیں

اٹھیں وہ ایک نور جہاں دیکھتے چلیں

 

وا ہو رہی ہے مے کدہ نیم شب کی آنکھ

انگڑائی لے رہا ہے جہاں دیکھتے چلیں

 

سرگوشیوں کی رات ہے رخسار و لب کی رات

اب ہو رہی ہے رات جواں دیکھتے چلیں

 

دل میں اتر کے سیر دل رہرواں کریں

آہوں میں ڈھل کے ضبط فغاں دیکھتے چلیں

 

کیسے ہی خانقاہ میں اربابِ خانقاہ

کس حال میں ہے پیر مغاں دیکھتے چلیں

 

ماضی کی یادگار سہی یاد دل تو ہے

طرزِ نشاط نوحہ گراں دیکھتے چلیں

 

سب وسوسے ہی گرد رہ کارواں کے ساتھ

آگے ہے مشعلوں کا دھواں دیکھتے چلیں

 

آنچل سے اڑ رہے ہیں، فضاؤں میں دور دور

شاید وہیں ہو جان بتاں دیکھتے چلیں

 

آ ہی گئے ہیں رقص گہِ گلرخاں میں ہم

کچھ رنگ و بو کا سیل رواں دیکھتے چلیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

پھر چھڑی رات ، بات پھولوں کی

رات ہے یاں بارات پھولوں کی

 

پھول کے ہار ، پھول کے گجرے

شام پھولوں کی ، رات پھولوں کی

 

آپ کا ساتھ ، ساتھ پھولوں کا

آپ کی بات ، بات پھولوں کی

 

پھول کھلتے رہیں گے دنیا میں

روز نکلے گی بات پھولوں کی

 

نظریں ملتی ہیں ، جام ملتے ہیں

مل رہی ہے حیات پھولوں کی

 

یہ مہکتی ہوئی غزل مخدوم

جیسے سہرا میں رات پھولوں کی

٭٭٭

 

 

 

 

عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے

دل کے انگار کو دہکاؤ کہ کچھ رات کٹے

 

ہجر میں ملنے شبِ ماہ کے غم آئے ہیں

چارہ سازوں کو بھی بلواؤ کہ کچھ رات کٹے

 

کوئی جلتا ہی نہیں ، کوئی پگھلتا ہی نہیں

موم بن جاؤ ، پگھل جاؤ کہ کچھ رات کٹے

 

چشم و رخسار کے اذکار کو جاری رکھو

پیار کے نغموں کو  دہراؤ کہ کچھ رات کٹے

 

آج ہو جانے دو ہر ایک کو بدمست و خراب

آج اک ایک کو پلواؤ کہ کچھ رات کٹے

 

کوہِ غم اور گراں ، اور گراں ، اور گراں

غم زد و تیشے کو چمکاؤ کہ کچھ رات کٹے

٭٭٭

 

زندگی موتیوں کی ڈھلکتی لڑی  زندگی رنگِ گل کا بیاں دوستو

گاہ ہنستی ہوئی گاہ روتی ہوئی میری آنکھیں ہیں افسانہ خواں دوستو

 

سن رہا ہوں حوادث کی آواز کو پا رہا ہوں زمانے کے ہر راز کو

دوستو، اٹھ رہا ہے دلوں سے دھواں آنکھ لینے لگی ہچکیاں دوستو!

 

اک بہکتی بہکتی ہوئی رات ہے لڑکھڑاتی نگاہوں کی سوغات ہے

پنکھڑی کی زباں پھول کی داستاں اس کے ہونٹوں کی پرچھائیاں دوستو

٭٭٭

 

 

 

 

بڑھ گیا بادۂ گلگوں کا مزہ آخرِ شب

اور بھی سرخ ہے رخسار حیا آخرِ شب

 

کھٹ کھٹا جاتا ہے زنجیر درِ مے خانہ

کوئی،دیوانہ کوئی،آبلہ پا آخر شب

 

اس انداز سے پھر صبح کا آنچل ڈھلکے

اسی انداز سے چل، باد صبا آخر شب

 

منزلیں عشق کی آساں ہوئیں چلتے چلتے

اور چمکا ترا نقشِ کفِ پا آخر شب

 

بڑھ گیا بادۂ گلگوں کا مزہ آخرِ شب

اور بھی سرخ ہے رخسارِ حیا آخرِ شب

 

گل ہے قندیل حرم، گل ہیں کلیسا کے چراغ

سوئے مے خانہ بڑھے دست دعا آخر شب

٭٭٭

 

 

دلوں کی تشنگی جتنی، دلوں کا غم جتنا

اسی قدر ہے زمانے میں حسنِ یار کی بات

 

جہاں بھی بیٹھے ہیں جس جا بھی رات مے پی ہے

انھیں کی آنکھوں کے قصے، انھیں کے پیار کی بات

 

تمام عمر چلی ہے تمام عمر چلے

الہٰی ختم نہ ہو بار غم گسار کی بات

 

یہ زرد زرد اجالے یہ رات رات کا درد

یہی تو رہ گئی اب جانِ بے قرار کی بات

٭٭٭

 

سیماب وشی، تشنہ لبی، باخبری ہے

اس دشت میں گر رختِ سفر ہے تو یہی ہے

 

اک شہر میں اک آہوئے خوش چشم سے ہم کو

کم کم ہی سہی نسبتِ پیمانہ رہی ہے

 

بے صحبت رخسار اندھیرا ہی اندھیرا

گو جام وہی مئے وہی مئے خانہ وہی ہے

٭٭٭

تیرے دیوانے تری چشم و نظر سے پہلے

دار سے گزرے تری راہ گزر سے پہلے

 

اس اندھیرے میں اجالے کا گماں تک بھی نہ تھا

شعلہ رو، شعلہ نوا، شعلہ نظر سے پہلے

 

کون جانے کہ ہو کیا رنگ سحر رنگ چمن

مے کدہ رقص میں ہے پچھلے پہر سے پہلے

٭٭٭


 

اسی چمن میں چلیں، جشنِ یادِ یار کریں

دلوں کو چاک، گریباں کو تار تار کریں

 

شمیمِ پیرہنِ یار کیا نثار کریں

تجھی کو دل سے لگائیں تجھی سے پیار کریں

 

سناتی پھرتی ہیں آنکھیں کہانیاں کیا کیا

اب اور کیا کہیں کس کس کو سوگوار کریں

 

اٹھو کہ فرصت دیوانگی غنیمت ہے

قفس کو لے کے اڑیں گل کو ہم کنار کریں

 

کمانِ ابروئے خوباں کا بانکپن ہے غزل

تمام رات غزل گائیں دید یار کریں

٭٭٭

 

پھر بلا بھیجا ہے پھولوں نے گلستانوں سے

تم بھی آ جاؤ کہ باتیں کریں پیمانوں سے

 

آج تو تلخی دوراں بھی بہت ہلکی ہے

گھول دو ہجر کی راتوں کو بھی پیمانوں میں

 

ہم تو کھلتے ہوئے غنچوں کا تبسم ہیں ندیم

مسکراتے ہوئے ٹکراتے ہیں طوفانوں سے

 

تحفہ برگ و گل باد بہاراں لے کر

قافلے عشق کے نکلے ہیں بیابانوں سے

 

شہر میں دھوم ہے اک شعلہ نوا کی مخدوم

تذکرے رستوں میں چرچے ہیں پری خانوں میں

٭٭٭


 

متفرق اشعار

 

 

روشن ہے بزمِ شعلۂ رخاں دیکھتے چلیں

اس میں وہ ایک نورِ جہاں دیکھتے چلیں

 

سب وسوسے ہیں گردِ رہِ کارواں کے ساتھ

آگے ہے مشعلوں کا دھواں دیکھتے چلیں

٭٭٭

 

زندگی موتیوں کی ڈھلکتی لڑی

زندگی رنگِ گل کا بیاں دوستو

 

گاہ ہنستی ہوئی گاہ روتی ہوئی

میری آنکھیں ہیں افسانہ خواں دوستو

٭٭٭

ہجومِ بادہ و گل میں ہجومِ یاراں میں

کسی نگاہ نے جھک کر مرے سلام لیے

 

کسی خیال کی خوش بو کسی بدن کی مہک

در قفس پہ کھڑی ہے صبا پیام لیے

٭٭٭

 

ساز آہستہ ذرا گردش جام آہستہ

جانے کیا آئے نگاہوں کا پیام آہستہ

 

یہ تمنا ہے کہ اڑتی ہوئی منزل کا غبار

صبح کے پردے میں یا آ گئی شام آہستہ

٭٭٭

 

مخدوم محی الدین کے آخری اشعار

 

محترمہ جمال النساء کے کاغذات میں مخدوم کے ان اشعار کی فوٹو کاپی دستیاب ہوئی۔ اس پر تاریخ ہُبلی ۱۷/ مئی ۱۹۶۹ درج ہے۔ یہ اشعار ان کی کلیات میں شامل نہیں ہیں

 

کوئی ہو جاتا ہے باتوں میں خفا کس سے کہیں

کوئی پاتا ہے وفاؤں کی سزا کس سے کہیں

 

کس سے پوچھیں کہ یہ اندازِ تغافل کیا ہے

برہمی کیوں ہے بہ اندازِ جفا کس سے کہیں

٭٭٭

 

ماخذ: ’مخدوم‘ مخدوم صدی  کے موقع پر شائع شدہ ساونیر

تشکر: پروفیسر رحمت یوسف زئی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید