فہرست مضامین
- چاندنی کا دریا
- رسا چغتائی
- جمع و ترتیب: محمد احمد
- دل کہ تھا درد آشنا تنہا
- کچھ خانماں برباد تو سائے میں کھڑے ہیں
- کل یوں ہی تیرا تذکرہ نکلا
- کیسے کیسے خواب دیکھے، دربدر کیسے ہوئے
- تیرے آنے کا انتظار رہا
- پاس اپنے اک جان ہے سائیں
- رشتۂ جسم و جاں بھی ہوتا ہے
- خواب اُس کے ہیں جو چُرا لے جائے
- سامنے جی سنبھال کر رکھنا
- رات درکار تھا سنبھالا مجھے
- دل نے اپنی زباں کا پاس کیا
- دیدنی اک جہان ہے، پر کیا
- خاک اُڑتی ہے اس جہان میں کیا
- جمع و ترتیب: محمد احمد
- رسا چغتائی
- متفرق اشعار
چاندنی کا دریا
رسا چغتائی
جمع و ترتیب: محمد احمد
دل کہ تھا درد آشنا تنہا
جل بجھا اک چراغ تنہا
تجھ سے کیا کیا ہمیں امیدیں تھیں
تُو بھی آئی ہے کیا صبا تنہا
رات کی بیکراں خموشی میں
گیت بُنتی رہی ہوا تنہا
یہ تو اپنا شعار ہے ورنہ
کون کرتا ہے یوں وفا تنہا
دشت سا دشتِ تنہائی ہے رسا
پھِر رہا ہوں غبار سا تنہا
٭٭٭
کچھ خانماں برباد تو سائے میں کھڑے ہیں
اس دور کے انساں سے تو یہ پیڑ بھلے ہیں
چیونٹی کی طرح رینگتے لمحوں کو نہ دیکھو
اے ہمسفرو! رات ہے اور کوس کڑے ہیں
پتھر ہیں تو رستےسے ہٹا کیوں نہیں دیتے
رہرو ہیں تو کیوں صورتِ دیوار کھڑے ہیں
میں، ہیچ سخن، ہیچ مداں، ہیچ عبارت
کہتا یوں تو کہتے ہیں کہ الفاظ بڑے ہیں
تاریخ بتائے گی کہ ہم اہلِ قلم ہی
آزادیِ انساں کے لیے جنگ لڑے ہیں
٭٭٭
کل یوں ہی تیرا تذکرہ نکلا
پھر جو یادوں کا سلسلہ نکلا
لوگ کب کب کے آشنا نکلے
وقت کتنا گریز پا نکلا
عشق میں بھی سیاستیں نکلیں
قربتوں میں بھی فاصلہ نکلا
رات بھی آج بیکراں نکلی
چاند بھی آج غمزدہ نکلا
سُنتے آئے تھے قصۂ مجنوں
اب جو دیکھا تو واقعہ نکلا
ہم نے مانا وہ بے وفا ہی سہی
کیا کرو گے جو با وفا نکلا
مختصر تھیں فراق کی گھڑیاں
پھیر لیکن حساب کا نکلا
٭٭٭
کیسے کیسے خواب دیکھے، دربدر کیسے ہوئے
کیا بتائیں روز و شب اپنے بسر کیسے ہوئے
نیند کب آنکھوں میں آئی، کب ہوا ایسی چلی
سائباں کیسے اُڑے، ویراں نگر کیسے ہوئے
کیا کہیں وہ زُلفِ سرکش کس طرح ہم پر کھلی
ہم طرف دار ہوائے راہگُزر کیسے ہوئے
حادثے ہوتے ہی رہتے ہیں مگر یہ حادثے
اک ذرا سی زندگی میں، اس قدر کیسے ہوئے
ایک تھی منزل ہماری، ایک تھی راہِ سفر
چلتے چلتے تم اُدھر، اور ہم اِدھر کیسے ہوئے
٭٭٭
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسمِ بہار رہا
پا بہ زنجیر، زلفِ یار رہی
دل اسیرِ خیالِ یار رہا
ساتھ اپنے غموں کی دھوپ رہی
ساتھ اک سروِ سایہ دار رہا
میں پریشان حال آشفتہ
صورتِ رنگِ روزگار رہا
آئینہ آئینہ رہا پھر بھی
لاکھ در پردۂ غبار رہا
کب ہوائیں تہہِ کمند آئیں
کب نگاہوں پہ اختیار رہا
تجھ سے ملنے کو بے قرار تھا دل
تجھ سے مل کر بھی بے قرار رہا
٭٭٭
پاس اپنے اک جان ہے سائیں
باقی یہ دیوان ہے سائیں
جس کا کوئی مول نہ گاہک
کیسی یہ دوکان ہے سائیں
آنسو اور پلک تک آئے
آنسو اگنی بان ہے سائیں
جوگی سے اور جگ کی باتیں
جوگی کا اپمان ہے سائیں
میں جھوٹا تو دنیا جھوٹی
میرا یہ ایمان ہے سائیں
جیسا ہوں جس حال میں ہوں میں
اللہ کا احسان ہے سائیں
٭٭٭
رشتۂ جسم و جاں بھی ہوتا ہے
ٹوٹنے کا گماں بھی ہوتا ہے
اس توہم کے کارخانے میں
کارِ شیشہ گراں بھی ہوتا ہے
ہم سے عزلت نشیں بھی ہوتے ہیں
عرصۂ لامکاں بھی ہوتا ہے
ہم بھی ہوتے ہیں اُس کی محفل میں
رقصِ سیّارگاں بھی ہوتا ہے
بادِ صحرائے جاں بھی ہوتی ہے
نغمۂ سارباں بھی ہوتا ہے
جوئے آبِ رواں بھی ہوتی ہے
عکسِ سروِ رواں بھی ہوتا ہے
پھول کھلتے بھی ہیں سرِ مژگاں
چاندنی کا سماں بھی ہوتا ہے
لوگ مل کر بچھڑ بھی جاتے ہیں
اور یہ ناگہاں بھی ہوتا ہے
چشمِ آئینہ ساز میں شاید
آئینہ کا گماں بھی ہوتا ہے
٭٭٭
خواب اُس کے ہیں جو چُرا لے جائے
نیند اُس کی ہے جو اُڑا لے جائے
زُلف اُس کی ہے جو اُسے چھولے
بات اُس کی ہے جو بنا لے جائے
تیغ اُس کی ہے شاخِ گُل اُس کی
جو اُسے کھینچتا ہوا لے جائے
یوں تو اُس پاس کیا نہیں پھر بھی
ایک درویش کی دعا لے جائے
زخم ہو تو کوئی دہائی دے
تیر ہو تو کوئی اُٹھا لے جائے
قرض ہو تو کوئی ادا کر دے
ہاتھ ہو تو کوئی چُھڑا لے جائے
لَو دیے کی نگاہ میں رکھنا
جانے کس سمت راستہ لے جائے
دل میں آباد ہیں جو صدیوں سے
ان بُتوں کو کہاں خدا لے جائے
خواب ایسا کہ دیکھتے رہیے
یاد ایسی کہ حافظہ لے جائے
میں غریب الدّیار، میرا کیا
موج لے جائے یا ہَوا لے جائے
خاک ہونا ہی جب مقدّر ہے
اب جہاں بختِ نارسا لے جائے
٭٭٭
سامنے جی سنبھال کر رکھنا
پھر وہی اپنا حال کر رکھنا
آ گئے ہو تو اِس خرابے میں
اب قدم دیکھ بھال کر رکھنا
شام ہی سے برس رہی ہے رات
رنگ اپنے سنبھال کر رکھنا
عشق کارِ پیمبرانہ ہے
جس کو چھُونا مثال کر رکھنا
کشت کرنا محبتیں اور پھر
خود اُسے پائمال کر رکھنا
روز جانا اُداس گلیوں میں
روز خود کو نڈھال کر رکھنا
اس کو آتا ہے موجِ مے کی طرح
ساغرِ لب اُچھال کر رکھنا
سخت مشکل ہے آئینوں سے رساؔ
واہموں کو نکال کر رکھنا
٭٭٭
رات درکار تھا سنبھالا مجھے
دیکھتا ہی رہا پیالہ مجھے
جانے کس شام کا ستارہ ہوں
جانے کس آنکھ نے اُجالا مجھے
میرے دل سے اُتار دے نہ کہیں
ایک دن یہ ترا حوالہ مجھے
کس طرح میں زمیں کا رزق ہوا
کس طرح اس زمیں نے پالا مجھے
اور کتنی ہے زندگی میری
اور کرنا ہے کیا ازالہ مجھے
اس سے پہلے نظر نہیں آیا
اس طرح چاند کا یہ ہالا مجھے
آدمی کس کمال کا ہوگا
جس نے تصویر سے نکالا مجھے
میں تجھے آنکھ بھر کے دیکھ سکوں
اتنا کافی ہے بس اُجالا مجھے
اُس نے منظر بدل دیا یکسر
چاہیے تھا ذرا سنبھالا مجھے
اور کچھ یوں ہوا کہ بچوں نے
چھینا جھپٹی میں توڑ ڈالا مجھے
یاد ہیں آج بھی رساؔ وہ ہاتھ
اور روٹی کا وہ نوالہ مجھے
٭٭٭
دل نے اپنی زباں کا پاس کیا
آنکھ نے جانے کیا قیاس کیا
کیا کہا بادِ صبح گاہی نے
کیا چراغوں نے التماس کیا
کچھ عجب طور زندگانی کی
گھر سے نکلے نہ گھر کا پاس کیا
عشق جی جان سے کیا ہم نے
اور بے خوف و بے ہراس کیا
رات آئی ادھر ستاروں نے
شبنمی پیرہن لباس کیا
سایۂ گل تو میں نہیں جس نے
گُل کو دیکھا نہ گُل کو باس کیا
بال تو دھوپ میں سفید کیے
زرد کس چھاؤں میں لباس کیا
کیا ترا اعتبار تھا تو نے
کیا غضب شہرِ ناسپاس کیا
کیا بتاؤں سبب اُداسی کا
بے سبب میں اسے اُداس کیا
زندگی اک کتاب ہے جس سے
جس نے جتنا بھی اقتباس کیا
جب بھی ذکرِ غزل چھڑا اُس نے
ذکر میرا بطورِ خاص کیا
٭٭٭
بات بھی تول رہا ہے پیارے
یا یونہی بول رہا ہے پیارے
شہر میں ڈھونڈ پڑی ہے تیری
تو یہاں ڈول رہا ہے پیارے
اپنے لہجے میں انا کا اپنی
زہر کیوں گھول رہا ہے پیارے
دھوپ رخصت ہوئی دیواروں سے
سایہ پر تول رہا ہے پیارے
جب بھی پہنی ہے قبائے دنیا
کچھ نہ کچھ جھول رہا ہے پیارے
ہم رسا جھول رہے ہیں جھولا
یا فلک ڈول رہا ہے پیارے
٭٭٭
دیدنی اک جہان ہے، پر کیا
اُس کے در سے اُٹھائیے سر کیا
اک معمّا ہے گنبدِ بے در
اک کہانی ہے ساتواں در کیا
شہر کا شہر سیلِ آب میں ہے
رہ میں مجھ غریب کا گھر کیا
ایک مجذوب کی ولایت میں
پتھروں سے بچائیے سر کیا
شام آتے ہی اژدھے کی طرح
سرسراتی ہے بادِ صر صر کیا
میرے اُٹھنے سے جاگ اُٹھے گا
کوئی سویا ہوا مُقدر کیا
عمر بھر گردِ رہ گزر کی طرح
کاٹیے اُس گلی کے چکر کیا
روز یادوں کے سائبان تلے
باندھیے آنسوؤں کی جھالر کیا
سر پہ کیوں آسماں مسلط ہے
قرض ہے اس زمیں کے اُوپر کیا
جو بھی اب راستے میں آ جائے
کوہ کیا، دشت کیا، سمندر کیا
پاس دارانِ حرف کے آگے
چل رہی ہے زبانِ خنجر کیا
کوئی کہتا نہیں خدا لگتی
آدمی ہو گیا ہے پتھر کیا
ان لبوں کے سوا بھی ہوتی ہے
کوئی تعریفِ مصرعۂ تر کیا
اس کھلے آسمان کے نیچے
یاد آتا نہیں رساؔ گھر کیا
٭٭٭
خاک اُڑتی ہے اس جہان میں کیا
پھول کھلتے ہیں آسمان میں کیا
عشق تیرے خیال میں کیا ہے
زندگی ہے ترے گُمان میں کیا
میں جو حیرت زدہ سا رہتا ہوں
بات آتی ہے تیرے دھیان میں کیا
نیند آرام کر رہی ہے ابھی
تیری پلکوں کے سائبان میں کیا
کیا ہوئے وہ شکست خوردہ لوگ
آ گئے سب تری امان میں کیا
تجھ سے یہ تیرے حاشیہ بردار
اور کہتے بھی میری شان میں کیا
پوچھتا ہے مکاں کا سناٹا
میں ہی رہتا ہوں اس مکان میں کیا
ہم ہیں خود آپ رو برو اپنے
اور ہیں خود ہی درمیان میں کیا
وہ جو کھڑکی کھلی سی رہتی ہے
جھانکتی ہے مرے مکان میں کیا
حال اپنا بھی کیا یہی ہو گا
ذکر آئے گا داستان میں کیا
جب کیے دُکھ بیاں اُسی سے کیے
بات ایسی ہے اس چٹان میں کیا
اچھے لگتے ہیں آن بان کے لوگ
جانے ہوتا ہے آن بان میں کیا
دل سے جب دل کلام کرتا ہے
لفظ آتے ہیں درمیان میں کیا
کیا ہوئے میرے خاندان کے لوگ
ایک میں ہی تھا خاندان میں کیا
جمع کیجے نہ درد و غم تو رساؔ
کیجیے اور اس جہان میں کیا
٭٭٭
متفرق اشعار
میں نہ تھا اور وہ گھر آیا تھا
ہائے کیا خواب نظر آیا تھا
*****
زندگی کا سفر کٹا تنہا
اک کہانی سی رہگزر نے کہی
*****
جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو
میں اُن آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں
*****
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسمِ بہار رہا
تجھ سے ملنے کو بے قرار تھا دل
تجھ سے مل کر بھی بے قرار رہا
*****
پھول کھلنے کا عجب موسم تھا
آئینہ دیکھ رہا تھا میں بھی
*****
سنتے آئے تھے قصۂ مجنوں
اب جو دیکھا تو واقعہ نکلا
*****
یا ابھی بادباں نہیں کھولے
یا سمندر ابھی نہیں آیا
*****
وہ جو اک شخص مرے ساتھ چلا تھا گھر سے
راہ میں چھوڑ گیا ہے مجھے تنہا کیسا
*****
زندگی اک کتاب ہے جس سے
جس نے جتنا بھی اقتباس کیا
جب بھی ذکرِ غزل چھڑا اُس نے
ذکر میرا بطورِ خاص کیا
*****
کون دل کی زباں سمجھتا ہے
دل مگر یہ کہاں سمجھتا ہے
*****
لوٹ آئے طیور آوارہ
اور رساؔ گھر ابھی نہیں آیا
*****
عجب میرا قبیلہ ہے کہ جس میں
کوئی میرے قبیلے کا نہیں ہے
*****
خواب اُس کے ہیں جو چُرا لے جائے
نیند اُس کی ہے جو اُڑا لے جائے
خواب ایسا کہ دیکھتے رہئے
یاد ایسی کہ حافظہ لے جائے
*****
حسن اک چاندنی کا دریا ہے
اور ہر نقش اک کنول جیسے
٭٭٭
ٹائپنگ: محمد احمد
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید