FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

چالیس(۴۰) کے عدد کی کرشمہ سازیاں

(معلومات عامہ)

 

 

 

               ڈاکٹر قرۃالعین طاہرہ

 

 

 

 

 

انتساب

 

دانش، سرمد، فارد، آمنہ، ماریہ، مدیحہ،

بلال، رابعہ، قدسیہ، حسن، ورع، یاسر، لائبہ

عرشمان، رائم، نوفل اور عمائر کے نام

 

 

 

This is a book of general knowledge describing the word/digit of “forty” with all its historical, idiomatical, geographical, linguistical and religious approaches. It creates interest and wonder that implication of digit “forty” is so vast, that can cover a book. This has been described in the shape of family dialogue, which in itself coaches the reader to create such a debate on anything apparently seems very simple; but means so deep with different situations and approaches. The publication has been funded by National Book Foundation, Government of Pakistan as a prominent contribution to children literature.

 

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

جواز

 

اردو میں بچوں کے ادب کی کمی کا شکوہ روز اوّل ہی سے موجود ہے، بچوں کو نظر انداز کر دینے کا رجحان یا یہ نقطۂ نظر کہ بچوں کے لیے لکھنے کے لیے وقت نہیں یا اسے اپنے مرتبے سے کم درجے کا کام شمار کر کے اس کی جانب سے عدم توجہی یا ہمارے دانشور، ادیب اور شاعر زبان و بیان کی اس سطح تک پہنچ چکے ہیں کہ اب ان کے لیے بچوں کی ذہنی سطح اور علمی مدارج تک آنا مشکل محسوس ہوتا ہے یا یہ سوچ کہ بچوں کا ادب خود بچے ہی تخلیق کرتے اچھے لگتے ہیں۔ وجہ کوئی بھی ہو اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ ہم نے اس پہلو پر زیادہ توجہ نہ دی، بے شک اردو ادب کی تاریخ بھی بہت پرانی نہیں، بچوں کے ادب کے سلسلے میں ہمیں پہلے پہل مغلیہ سلطنت کے ابتدائی دور میں بچوں کے لیے کہی گئی حمد و نعت اور اخلاقی مضامین پر مشتمل ضیا الدین خسرو کی تخلیق ’’ خالق باری ‘‘ جو۱۰۳۱ ؁ میں شائع ہوئی، ملتی ہے اور پھر اس کے تتبع میں لکھی گئی اللہ باری، رازق باری، ا یزدباری، صفت باری، حمد باری، بالک باری، فیض جاری وغیرہ اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں – نظیر اکبرآبادی، عوامی شاعر کہلائے، بچوں کی نفسیات سے بخوبی آگاہ تھے۔ ریچھ کا بچہ، گلہری کا بچہ، ہنس نامہ جیسی نظمیں لکھیں جو بچوں کے لئے باعث تفریح تھیں۔ غالب ایک جہت ساز شخصیت تھے۔ نثر اور شعر میں ان کے ادبی مرتبے کے سبھی قائل ہیں، بچوں کے ادب میں بھی انھوں نے جو کام کیا وہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اپنے جواں مرگ بھانجے عارف کے بچوں باقر علی خاں اور حسین علی خاں کو فارسی سکھانے کے لیے بہت آسان اور رواں انداز میں منظوم صورت میں ’’قادر نامہ‘‘ تحریر کیا۔ ہماری نسل اردو سے ہی دور ہوتی جا رہی ہے ورنہ فارسی زبان سیکھنے کے لیے یہ ایک بہت اچھی کاوش ہے۔

تیغ کی ہندی اگر تلوار ہے

فارسی پگڑی کی بھی دستار ہے

چاہ کو ہندی میں کہتے ہیں کنواں

دود کو ہندی میں کہتے ہیں دھواں

پھر سرسید کا اصلاحی دور آیا۔ بچوں کے ادب پر بھی کام ہوا چنانچہ آزاد، حالی، ڈپٹی نذیر احمد، اسمعیل میرٹھی، علامہ ا قبال اور راجہ مہدی علی خان وغیرہ کی کہانیوں اور منظومات نے بچوں کے اخلاق کے سدھار اور ذہنی تفریح میں اہم کردار ادا کیا۔ ادھر پاکستان کے قیام کے بعد بچوں کے لیے جو اور جتنا کام ہوا اسے دیکھ کر ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا سبب ہے کہ صوفی تبسم اور ان کے تشکیل کردہ کر دار ہی آئندہ سو برسوں تک ہمارے نونہالوں کا جی بہلائیں گے، انھیں اپنی زبان اور تہذیب سے روشناس کرائیں گے۔ اگر اس وقت تک ہماری تہذیب، ہماری زبان باقی رہی تو … ہم پر امید قوم ہیں ہمیں یقین ہے کہ مغربی زبان اور تہذیب کا یہ سیلاب جلد ہی اتر جائے گا اور ہم پھر اپنی اقدار اور اپنے اخلاقی معیار کے ہمراہ با وقار انداز میں کھڑے ہوں گے۔

اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے اداروں کی نہیں ان جذبوں کی ضرورت ہے جو عوام کے اندر سے پھوٹتے ہیں۔ ویسے بھی ہمیں ان اداروں پر نکتہ چینی کی عادت ہے اور فروغ ادب کے سلسلے میں اگر وہ کوئی کام کرتے بھی ہیں تو یا تو اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا اس پر شدید تنقید کر کے کام کرنے والوں کو احساس دلایا جاتا ہے کہ یہ کام ان کے بس کا نہیں، نیشنل بک فاؤنڈیشن ایک ایسا ادارہ ہے جو اپنی دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے فروغ ادب میں گذشتہ کئی برسوں سے مصروف عمل ہے۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی ڈپٹی ڈائریکٹر محترمہ افشاں ساجدبچوں کے ادب کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں جو کام کر رہی ہیں، اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ انھیں اور ان کے ادارے کو احساس ہے کہ بچوں کے لیے لکھی گئی کتابیں علم کے حصول کے لیے، روحانی، دینی و اخلاقی راہ ہدایت کے لیے، تنہائی دور کرنے کے لیے، تفریح کے لیے، وقت کے بہتر استعمال کے لیے، ذوق مطالعہ میں اضافہ کے لیے، زبان کو وسعت دینے کے لیے، ذہن کی کشادگی کے لیے بچے کی مدد گار ہیں۔ یہ کہانیاں اور نظمیں ہی ہیں جو ان ننھے ذہنوں کو باہر کی دنیا سے رابطے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ کہانی کی دنیا کا ماحول ہو یا انسانی و غیر انسانی کردار، بچے کی دنیا ان کی موجودگی کے سبب روز بروز وسعت پاتی جاتی ہے۔ وہ نیکی سے محبت اور بدی سے نفرت کرنا سیکھتا ہے اور اچھے برے کی یہ پہچان ا س کی روزمرہ زندگی میں کام آتی ہے۔ اپنی قوم کا درد، اپنے وطن سے محبت، اپنی مٹی کی اہمیت اور اپنے مذہب کے لیے جان کی بازی لگا دینے کا جذبہ غیر محسوس طریقے سے اس کے خون میں سرایت کر جا تا ہے۔ کتاب سے محبت اسے زندگی سے محبت سکھاتی ہے۔

میری خواہش ہوا کرتی ہے کہ اردو زبان میں بچوں کے لیے ادب کا وہ زاویہ پیش کیا جائے جن سے ان کے علم میں بھی اضافہ ہو اور وہ اپنی زبان میں دلچسپی لینے پر مجبور ہوں، اس کے لیے کو شش کی گئی ہے کہ زبان سادہ رواں اور سلیس ہو اور چند ایک الفاظ سے قطع نظر آٹھ دس سال کے بچے بھی اسے پڑھ اور سمجھ سکیں اور جہاں انھیں مشکل پیش آئے وہاں اپنے بڑوں سے رابطہ کریں یا لغت کے استعمال کی عادت اپنائیں۔ مکالمے کا انداز بھی اسی لیے اپنا یا گیا ہے کہ ایک تو یہ کہ اس کتاب کا آغاز واقعی مکالمے کی صورت میں ہوا تھا دوسرے اسے بوجھل فضا کے بجائے ایک مکمل بے تکلفی کا ماحول عطا کیا جائے۔ بچوں کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں مذہب بنیادی کردار ادا کرتا ہے، اس کتاب میں موجود معلومات ممکن ہے کہ بچوں میں اسی موضوع کے متعلق مزید جاننے کی خواہش پیدا کرے، یوں ان میں اسلامی کتب کے مطالعے کا شوق پروان چڑھ سکتا ہے۔ ادبی و سماجی حوالے سے بھی کچھ معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ کتاب کا فونٹ بھی مناسب ہو تاکہ بچے مطالعے میں دقت محسوس نہ کریں۔ کتاب کا موضوع بہت وسیع ہے لیکن وقت محدود، ا نشا اللہ اس موضوع پر تحقیق جاری رہے گی۔ احتیاط کے باوجود غلطیوں کا امکان رہتا ہے، قارئین سے استدعا ہے کہ ان کی نشان دہی کی جائے تاکہ آئندہ اشاعت میں ان کا ازالہ کیا جا سکے۔ شاہد صاحب کے لیے کیا کہوں کہ اب تو انھیں بھی اور مجھے بھی عادت ہو گئی ہے کہ میں کچھ بھی لکھ کر ان کے حوالے کر کے پر سکون ہو جاتی ہوں اب وہ جانیں اور ان کا کام، اور یہ ان کا کام ہی ہے کہ آپ اس کتاب کو مطبوعہ انداز میں دیکھ رہے ہیں۔ دوران تحریر بھی ان کی رائے اور مشورے میرے پیش نظر رہے ہیں۔

دانش، سرمد اور فارد بھی اس بات کے عادی ہیں کہ ان کے حصے کا وقت ہمیشہ کتابیں لے جاتی ہیں۔

قرۃالعین طاہرہ

۱۴ اگست ۲۰۰۶؁

 

 

 

 

چالیس(۴۰ ) کے عدد کی کرشمہ سازیاں

 

امی:      سرمد ہم لوگ آپا صفیہ کے چالیسویں میں جا رہے ہیں اپنا اور گھر کا خیال رکھنا۔

سرمد:   ٹھیک ہے امی، لیکن یہ تو بتائیں، یہ فوت ہونے والوں کا چالیسواں ہی کیوں ہوتا ہے، پینتیسواں یا پینتالیسواں کیوں نہیں ہوتا۔ ہاں یاد آیا، آج ہی تو سر نے کلاس میں ایک نئی بحث کا آغاز کیا ہے، وہ کہہَ رہے تھے کہ چالیس کا عددایک اہم عدد ہے۔ آئندہ ہفتے آپ سے میں اس عدد کے حوالے سے کوئی اہم بات، کوئی اہم واقعہ پوچھوں گا۔ میرے لیے تو ایک یہی پوائنٹ ہو گیا۔

فارد :    بھائی یہ کون سی مشکل بات ہے۔ وہ شعر ہے نا

وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں

اک روز چمکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں

سرمد :  بھائی میرے یہ بات تو سب نے بیک زبان کہَ دی تھی کہ حضورﷺ کوچالیس برس کی عمر میں نبوت ملی تھی۔ اس کے بعد سارے طالب علم سوچ میں پڑ گئے تو سر نے کہا تھا کہ تم اس بارے میں سوچ لو، تحقیق کر لو آئندہ ہفتے اس موضوع پربا ت ہو گی۔ اس عدد سے متعلق ایک بات تو یہی چالیسویں والی ہو گئی۔

امی:      بیٹا ایسا کرو کہ یہ سب باتیں اگلی نشست کے لیے اٹھا رکھو۔ چار چھ دن تم بھی تحقیق کر لو، کچھ میں بھی دیکھ لوں گی، اس کے بعد بات کریں گے، اب ہمیں بھی دیر ہو رہی ہے۔

پانچ چھ دن بعد جو محفل جمی اس میں چالیس کے عدد کی کرشمہ سازیوں کے ایسے ایسے انکشاف ہوئے کہ عقل دنگ رہ گئی۔

سرمد:   اب پتہ چلے گا نا، آج امی کا امتحان ہو جائے گا۔

امی:      اگر ایسی بات ہے تو امی پرچہ ہی نہیں دے رہی … کر لو جو کر نا ہے۔

فارد :     بھائی انسان بنو، امی کو ناراض کر دیا تو یونیورسٹی میں تمھاری کچی ہو جائے گی، انڈر اسینڈ، بس اسٹینڈ، سائیکل اسٹینڈ۔

ابو :       فارد بھئی اب بات کرنے بھی دو گے یا اپنی ہی ہانکتے رہو گے۔ میرا خیال ہے کہ چالیس کے ہندسے کے سلسلے میں بات حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کی جائے، کہ انھیں ابو ابشر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ تم سب جانتے ہو، آدم علیہ السلا م مٹی سے بنے تھے۔ کیا تمھیں یہ علم ہے کہ یہ مٹی کس جگہ سے حاصل کی گئی تھی ؟

دانش:   ابو جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، جب اﷲ تعالیٰ نے زمین پر اپنا نائب مقرر کرنا چاہا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ زمین پر جاؤ اور ایک مُٹھی مٹی، سفید، سرخ، سیاہ، شور، شیریں، نرم، سخت، لے آؤ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام زمین پر آئے تو ز مین نے درخواست کی کہ ایسا نہ کیا جائے، اگر یہ مخلوق باغی و سرکش ہوئی تو اﷲ تعالیٰ ان پر یعنی مجھ پر عذاب نازل فرمائے گا۔ اﷲ کا واسطہ یہ کام نہ کرو۔ چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تہی دست واپس آ گئے۔ حضرت میکائیل علیہ السلام اور پھر حضرت اسرافیل علیہ السلام کو بھیجا گیا وہ بھی زمین کی منت سماجت کے بعد خالی ہاتھ لوٹے۔ اب کے حضرت عزرائیل علیہ السلام کو بھیجا گیا، انھوں نے زمین کی ایک نہ سنی۔ مُٹھی بھر مٹی اکٹھا کی اور اﷲ کے حضور پیش کر دی اﷲ تعالیٰ نے وہ مٹی مکہ اور طائف کے درمیان رکھ دی، بارش برسی، پھر اﷲ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی تجسیم کی۔ یوں حضرت آدم علیہ السلام، باوا آدم کے روپ میں کائنات کے پردے پر ظہور پذیر ہوئے۔

ابو:       شاباش بیٹا ! ساری بات تم نے بتا دی لیکن اصل نقطہ بھول گئے اور وہ یہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے حکم دیا کہ یہ مٹی مکہ مکرمہ کے مقام پر رکھو، جہاں ا س مٹی پر چالیس دن بارش برسائی گئی۔ غم کی انتالیس دن اور ایک دن خوشی کی بارش برسائی گئی، جب گیلی مٹی سے آدم علیہ السلام کا پُتلا بنایا تو فوراً ہی اس کو زندگی عطا نہیں کر دی گئی بلکہ چالیس سال تک وہ پتلا بے حس و حرکت، بغیر کسی روح کے، زندگی کے، وہیں پڑا رہا، پھر جب وہ اچھی طرح خشک ہو گیا تب یعنی تخلیق آدم علیہ السلام کے چالیس سال بعد اس میں روح پھونکی گئی۔ روح کے لیے یہ مقام نیا تھا، تنگ و تاریک تھا … لیکن حکم خدا … وہ جیسے ہی اس میں داخل ہوئی، بتدریج وہ گوشت پوست میں ڈھلتا گیا یوں حضرت آدم علیہ السلام کو زندگی عطا ہوئی اور وہ پہلے انسان کی حیثیت سے زمین پر بھیجے گئے اور یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کے باعث شیطان کے بہکاوے میں آ کر زمین پر بھیجے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ جب آدم علیہ السلام کو زمین پر اتارا گیا تو چالیس دن تک رنج و غم میں کچھ نہ کھایا پیا اور تین سو سال گریہ و زاری کرتے رہے۔ اللہ نے آپ کی توبہ قبول فرمائی۔ حضرت آدم علیہ السلام سری لنکا سے عرفات تشریف لائے حضرت حوا علیہ السلام بھی جدہ سے عرفات پہنچ گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ہر قسم کی صنعت و زراعت سے آگاہ کیا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے چالیس بچے ہوئے، جوڑا جوڑا، جن سے نسل انسانی چلی۔ جب وہ تمام روحیں جنھیں وجود میں آنا تھا، حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے ظاہر ہو رہی تھیں، تو ایک شخص کے چہرے پر بہت زیادہ روشنی تھی۔ آپ علیہ السلام نے دریافت کیا۔ یہ کون ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ یہ داؤد علیہ السلام ہیں۔ آپؑ نے پوچھا، ان کی عمر کیا ہے ؟ جواب ملا، ساٹھ برس، حضرت آدم علیہ السلام نے کہا میں نے اپنی عمر کے چالیس سال اسے عطا کیے، جب حضرت آدم علیہ السلام کا آخر وقت آیا، آپ علیہ السلام نے ملک الموت سے کہا، کہ ابھی تو میری عمر کے چالیس سال باقی ہیں تو انھیں یاد دلایا گیا کہ وہ آپ علیہ السلام اپنے پسندیدہ بیٹے داؤد علیہ السلام کو عطیہ کر چکے ہیں۔ یہی بھول چوک نسل انسانی کو بھی ورثے میں ملی۔

فارد:     حضرت آدم کی اتنی اولاد تھی لیکن آدم ثانی کا لقب حضرت نوح علیہ السلام ہی کو ملا۔ ان کی زندگی میں بھی چالیس کے ہندسے کی کوئی نہ کوئی کار فرمائی ضرور رہی ہو گی۔

دانش:   ہاں ایسا ہی ہے۔ جب حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نافرمانی و سرکشی میں حد سے بڑھ گئی اور حضرت نوح علیہ السلام پران کے ظلم و ستم شدت اختیار کر گئے، تو حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور اﷲ کی طرف سے عطا کردہ ایک شاخ آپ کو دی۔ حضرت نوح علیہ السلام نے وہ شاخ زمین سے لگائی ہی تھی کہ وہ کفار کی آئندہ نسلوں کے خاتمے کا سبب بن گئی۔ یہاں تک کہ چالیس برسوں کے دوران میں وہ ایک مختصر سی شاخ ایک تن آور ہی نہیں بلکہ انتہائی طویل یعنی چھ سو گز لمبے درخت کی شکل اختیار کر گئی۔ ان چالیس برسوں میں کسی کافر کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی- پھر بھی کفار کو اپنی غلطیوں اور کج فہمیوں کا کوئی احساس نہ ہوا، صدیوں کی تبلیغ اور کد و کاوش کے بعد، صرف چالیس مرد اور چالیس عورتوں نے آپ علیہ السلام کے دین پر لبیک کہا۔

سرمد :   یہ تو مجھے بھی معلوم ہے کہ نافرمان قوم پر طوفان نازل کیا گیا، مسلسل چالیس دن اور چالیس راتیں شدید بارش ہوتی رہی۔ پھر کئی جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ سیلاب اس قدر شدید تھا کہ کہ وہ سبھی کچھ بہا کر لے گیا اور پانی کی سطح بلند ترین پہاڑوں سے بھی چالیس گز بلند ہو گئی۔ اﷲ تعالیٰ ظالموں کے لیے اپنی رسی دراز کیے رکھتا ہے کہ شاید انھیں عقل آ جائے لیکن جب وہ سیدھے راستے پر نہیں آتے تو وہ ان پر عذاب نازل کرتا ہے اور اہل ایمان کو صاف بچا لے جاتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو آنے والے عذاب سے آگاہ کر دیا تھا لیکن وہ ایمان نہ لائے۔ حضرت نوح علیہ السلام کو لکڑیاں کاٹ کر کشتی بنانے کا حکم ہوا، جو ایک سال میں تیار ہوئی۔ طول اسی ہاتھ اور عرض چالیس ہاتھ تھا، کشتی میں تمام جانداروں کا جوڑا جوڑا سوار کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ کشتی میں سوار اہل ایمان میں چالیس مرد اور چالیس عورتیں شامل تھیں۔ خود حضرت نوح علیہ السلا م کا بیٹا اور بیوی نافرمان ہی رہے۔ آپ آخر وقت تک انھیں دین کی طرف بلاتے رہے لیکن وہ نہ مانے اور حضرت نوح علیہ السلام کی آنکھوں کے سامنے سیلاب کی نذر ہو گئے۔ کشتی پانیوں پر سفر کرتی رہی اور پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کا رخ مکہ مکرمہ کی جانب ہو گیا۔ اور وہ چالیس روز تک بیت اللہ کا طواف کرتی رہی۔ اللہ کے حکم سے بارش رکی، زمین نے پانی نگل لیا۔ تفسیر عزیزی میں رقم ہے کہ طوفان کا پانی چالیس دن زمین سے ابلتا رہا اور آسمان سے برستا رہا، چالیس دن پانی طغیانی میں تھا پھر پانی آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا، چھ مہینے بعد پھر زمین نمودار ہوئی، کشتی چھ مہینے کوہ جودی پر ٹھہری رہی۔ انہی باقی رہ جانے افراد سے نسل انسانی بڑھی۔

طوفان نوح کا پتا ہمیں قران کریم، انجیل اور تورات سے ہی نہیں چلتا بلکہ دیگر مذاہب کی مذہبی اور قدیم ادبی کتابوں میں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اس کا ذکر موجود ہے، چنانچہ یونان، مصر، چین اور ہندوستان میں حضرت نوح اور طوفان نوح کے واضح اشارے ملتے ہیں۔

ابو :       بیٹا تم بالکل ٹھیک کہہَ رہے ہو۔ اب یہ بتاؤ کہ طوفان نوح سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے

فارد:     یہی کہ اللہ کی نافرمانی کی سزا مل کر ہی رہتی ہے۔ اللہ اپنی مخلوق کو بچانا چاہتا ہے، انہیں سیدھی راہ پر چلنے کے بہت مواقع فراہم کرتا ہے لیکن جب لوگ گمراہ ہو چکے ہوں تو اللہ کا عذاب انھیں تباہ برباد کر دیتا ہے۔

دانش:   ایک بات اور ، راہ راست پر نہ آنے والوں میں چاہے بیوی ہو یا پیارا بیٹا، کسی کا لحاظ نہیں رکھا جاتا، اسلام میں یہی انصاف ہے کہ وہ سب انسانوں کو برابر کا درجہ دیتا ہے۔

ابو:       نمرود کا قصہ تو تم سب جانتے ہی ہو کیا شان و شوکت اور کر و فر والا بادشاہ تھا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب نمرود کو دعوت حق دی تو اس نے نہایت گستاخی سے جواب دیا۔ آپ کے اصرار پر کہا کہ میں اپنا لشکر اکٹھا کرتا ہو ں، تو اپنے اﷲ کا لشکر جمع کر، دیکھتے ہیں اس مقابلے میں کون کامیاب رہتا ہے، نمرود نے مشرق و مغرب سے اپنی تمام فوجیں بلا لیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا سے دعا کی کہ تیری کمزور ترین مخلوق مچھر ہے، تو اس ساٹھ لاکھ کے زرہ پوش لشکر کے مقابلے کے لیے اسے بھیج۔ اﷲ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور ساٹھ لاکھ مچھروں کو میدان جنگ میں بھیج دیا گیا۔ ہر سوار کے سر پر ایک ایک مچھر بیٹھ گیا اور اتنی شدت اور تیزی کے ساتھ اپنے ڈنک سے وار کیے کہ کچھ ہی دیر میں ان کا سارا مغز چٹ کر گئے۔ نمرود نے جو یہ حشر دیکھا تو بھاگ کھڑا ہوا۔ مچھروں کے سردار نے اﷲ سے اسے ہلاک کرنے کی دعا مانگی جو قبول ہوئی۔ وہ اس کی ناک کے ذریعے اس کے دماغ میں جا گھسا اور اسے چاٹنے لگا۔ نمرود شدید تکلیف سے تڑپتا رہا۔ جب نمرود کے خادم اسے جوتا یا ڈنڈا مارتے تو اسے چند لمحوں کے لیے آرام آ جاتا۔

اس واقعے کے چالیس روز بعد اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ جاؤ نمرود کو ایک مرتبہ پھر راہ راست پر لانے کی کوشش کرو۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام گئے، لیکن راہ ہدایت اس کے نصیب میں نہ تھی۔ وہ انکار کرتا رہا۔ ادھر مچھر اس کے دماغ کو چاٹتا رہا۔ وہ درد سے تڑپتا رہا اور خادموں سے اور زور زور سے مارنے کو کہتا رہا اس سے اسے لمحہ بھر کے لیے آرام مل جاتا تھا۔ نوکر بھی اس کار بے کاراں سے تنگ آچکے تھے۔ ایک خادم نے اس کے حکم پر زور سے ڈنڈا رسید کیا۔ غرور و تکبر سے لبریز دماغ باہر جا پڑا۔ یوں وہ لعین اس دنیا سے گزرا۔ یہ وہی نمرود تھا جس نے حضرت ابراہیم کو دہکتی آگ میں پھینکنے کا حکم دیا تھا۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ آپؑ چالیس یا پچاس دن آگ میں رہے۔ آگ اللہ کے حکم سے گلزار بن گئی تھی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کو یہ شرف حاصل ہوا کہ انھوں نے اللہ کے حکم سے بیت اللہ کی بنیادیں دریافت کیں اور اللہ کے اس گھر کو از سر نو بنایا، باقی یہ تو تم جانتے ہو کہ حدیث پاکﷺ ہے کہ بیت اللہ کو اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات سے چالیس سال پہلے تخلیق کیا تھا۔ اللہ کا یہ پہلا گھر رحمت ہی رحمت ہے۔ خانہ کعبہ ساتویں زمین سے لے کر بیت المعمور تک حرم ہے، ایک رات میں اس پر ایک سو بیس رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ ساٹھ طواف کرنے والوں کے لیے، چالیس نماز پڑھنے والوں کے لیے اور بیس صرف دیکھنے والوں کے لیے کہ کعبہ کو دیکھنا بھی ایک عبادت ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مناسک حج سکھائے تھے۔

فارد :     یہ جو ہم بقر عید پر قربانی کرتے ہیں، یہ بھی تو سنت ابراہیمی ہے۔ آپ نے اللہ کے حکم سے اپنی سب سے عزیز شے یعنی اپنے بیٹے کی قربانی اللہ کے حضور پیش کی۔ اللہ نے آپ کی قربانی قبول کی اور ان کے بیٹے حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کی جگہ ایک دنبہ بھیج دیا۔

ابو :      حضرت عباسؓ فرماتے ہیں کہ یہ دنبہ چالیس سال تک جنت میں رہا تھا اور حضرت جبرائیل علیہ السلام اسے لے کر اترے تھے کہ اے ابراہیم علیہ السلام اللہ نے تیری قربانی قبول کی اپنے بیٹے کے بجائے اس کو ذبح کر۔

سرمد:   پیغمبروں پر ہی اتنی آزمائشیں کیوں آتی ہیں۔ ؟ نافرمان اور سرکش ظلم و ستم کی انتہا کر دیتے ہیں اور پھر بھی پھلتے پھولتے رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟

دانش:   ابھی یہی تو بات ہو رہی تھی کہ اﷲ انھیں زیادہ سے زیادہ مواقع دینا چاہتا ہے کہ شاید راہ ہدایت پا جائیں، لیکن جب وہ نہیں سمجھتے تو رسی کھینچ لیتا ہے۔

امی:      یہ سب ٹھیک ہے لیکن یہ بھی تو ہے نا کہ ہر پیغمبر پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے ہیں۔ شاید اﷲ ان کی قوت برداشت آزماتا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام ہی کو لے لو، ان کے پیارے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کو ان سے جدا کر دیا گیا اور چالیس سال تک وہ ان کے غم میں گریہ زاری کرتے رہے۔ تڑپتے رہے۔ خطا کیا تھی ان کی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بھوکا فقیر ان کے دروازے پر آیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا تم بیٹھو، میں ابھی تمھارے لیے کھانا لے کر آتا ہو ں۔ گھر میں گئے اور کسی کام میں مشغول ہو گئے۔ خیال ہی نہ رہا کہ کسی کو منتظر چھوڑ آیا ہوں۔ فقیر کافی دیر انتظار کرتا رہا۔ بھوک برداشت سے باہر ہوئی تو ہونٹوں پر یہ کلمات آ گئے، اے اﷲ اس کی خوشیوں اور خواہشوں کو اس سے دور کر دے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے اپنے سوتیلے بھائی یوسف علیہ السلام کو ساتھ لے جانے کی ضد کرنے لگے، آپ انکار کرتے رہے، ان کا اصرار بڑھتا گیا تو آپ نے ان کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ بڑے بیٹے کو بار بار اس کی حفاظت کی تاکید کرتے رہے۔ ’’ میں اسے تمھارے حوالے کرتا ہو ں، اس کا دھیان رکھنا‘‘ تو اﷲ تعالیٰ کو یہ کلمہ ناپسند ہوا، کہ اس نے یوسف کو ہمارے حوالے کرنے کے بجائے اپنے بیٹے کے حوالے کیا ہے، اس ایک کلمے کے باعث جو اضطراری حالت میں ان کے منہ سے بار بار ادا ہوا۔ اﷲ نے ان کی گرفت کی اور وہ چالیس سال تک بیٹے کی جدائی میں تڑپتے رہے۔

دانش:   حضرت یونس علیہ السلام بھی اپنی قوم کو چالیس برس تک دعوت حق دیتے رہے، ’’اے قوم کہو لا الہ الا اﷲ یونس نبی اﷲ ‘‘ لیکن وہ کافر کبھی اس کلمے کو زبان پرنہ لائے۔ آپ کو جھٹلاتے رہے۔ آپ کا مذاق اڑاتے رہے۔

حضرت یونس علیہ السلام کو کہا گیا کہ آپ کچھ مدت مقرر کر لیں، کہ اگر اس دوران ایمان نہ لائے تو ہلاک کر دیے جاؤ گے۔ آپ نے چالیس دن کی مہلت دی، آپؑ نے دعا کی کہ اے میرے رب تو میرے وعدے کو سچا کر ورنہ میں ان کے نزدیک رسوا ہو جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، تو جلدی نہ کر، صبر سے کام لے، ان کے نصیب میں ایمان رقم ہے۔ ایک ماہ تک جب ان میں ایمان کے کوئی آثار ظاہر نہ ہوئے تو پریشانی میں آپ علیہ السلام عذاب کی بد دعا دیتے ہوئے شہر سے باہر نکل گئے۔ تیسرے دن عذاب ناز ل ہوا، آسمان سے آگ اور دھواں برسنا شروع ہوا، لوگ پریشان ہو کر گھروں سے نکل گئے۔ قوم کو ہوش آیا، حضرت یونس علیہ السلا م کو بہت تلاش کیا لیکن وہ نہ ملے، عذاب الہٰی سے گھبرا کر کسی عابد کے پاس پہنچے، انھوں نے ایک دعا لکھ کر دی، چالیس دن تک قوم نے آہ و زاری اور فریاد کی، بہت توبہ استغفار کی۔ توبہ قبول ہوئی، عذاب ٹل گیا، شیطان نے حضرت یونس علیہ السلام کو سرزنش کی وہ قوم تو اتنی اچھی ہے، ان پر تو عذاب نہ آیا آپ خواہ مخواہ انھیں زجر و توبیخ کرتے رہتے تھے۔ یہ سن کر حضرت یونس علیہ السلام کے دل میں وسوسہ پیدا ہوا کہ اﷲ نے مجھے اپنی قوم کے سامنے جھوٹا کیا۔ اس خفگی میں چل پڑے۔ راہ میں دریا آیاتو کشتی میں جا سوار ہوئے۔ تین روز آرم سے گزرے، چوتھے روز طوفان نے آ لیا۔ چہار جانب سے مچھلیاں گھیرنے لگیں۔ مسافروں نے کہا کوئی گنہ گار، کوئی بھاگا ہوا غلام اس کشتی میں سوار ہے، جو کشتی یوں ہچکولے کھا رہی ہے۔ کوئی دم میں الٹ کر رہ جائے گی۔

حضرت یونس علیہ السلام جان گئے انھوں نے کہا میں ہی گنہگار اپنے مالک کے حکم سے رو گردانی کرتے ہوئے یہاں آ پہنچا ہوں۔ مسافروں نے آپ کی بزرگی و متانت دیکھتے ہوئے یہ بات تسلیم نہ کی، بہر حال قرعہ پر بات ٹھہری۔ تین مرتبہ قرعہ ڈالا گیا۔ ہر مرتبہ آپ ہی کا نام نکلا، ناچار آپ کو دریا برد کرد یا گیا۔ مچھلی نے آپ کو نگل لیا۔ مچھلی حضرت یونس علیہ السلام سے گویا ہوئی، کہ مجھے اﷲ کے حکم سے آپ کو بغیر کسی اذیت کے اپنے پیٹ میں رکھنا ہے کہ یہی آپ کا زندان مقرر ہوا ہے، چنانچہ چالیس دن تک مچھلی نے اپنا منہ کھلا رکھا، چالیس دن تک حضرت یونس علیہ السلام نے کچھ کھایا پیا نہیں، تمام وقت عبادت الٰہی اور ذکر و دعا میں مشغول رہتے۔ اﷲ نے آپ علیہ السلام کی دعا قبول کی۔ چالیس دن بعد مچھلی نے آپ علیہ السلام کو ساحل پر اگل دیا، آپ چالیس دن مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکے تھے کھا پی بھی نہ سکتے تھے۔ چلنا پھرنا محال تھا، اﷲ کے فضل سے وہیں ایک کدو کا درخت، بیل نمو دار ہوئی، جس نے آپ علیہ السلام پرسایہ کیا۔ بعض مقامات پر درج ہے کہ آپ بیل پر لگنے والے کدو کھاتے رہے۔ پھر اﷲ کے حکم سے ایک بکری بھی آتی رہی، وہ دن میں دو مرتبہ آپ کو دودھ پلا جاتی۔ چالیس دن تک آپ کدو کی بیل کے نیچے پڑے رہے یہاں تک کہ آپ کے جسم میں کسی قدر توانائی آئی۔ چنانچہ آپ اپنی قوم میں واپس آئے۔ وہ لوگ آپ کے متلاشی تھے۔ آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ایمان لے آئے۔ اﷲ نے انھیں صاحب حوت فرمایا، یعنی مچھلی کے یار۔

سرمد:   اگر ہم پیغمبروں پر نازل ہونے والے مصائب اور آزمائشوں اور ان آزمائشوں پر پورا اترنے کی بات کرتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام سر فہرست ہوں گے۔

فارد :     اسی لیے تو صبر ایوب علیہ السلام مشہور ہے کہ انھوں نے ہر حال میں اﷲ کا شکر ادا کیا ہر امتحان میں پورے اترے، صبر کی ایسی مثال قائم کی جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔

ابو:       حضر ت ایو ب علیہ السلام خدا کے نہایت پسندیدہ و برگزیدہ پیغمبر تھے۔ ہمہ وقت اللہ کی حمد و ثنا میں مصروف رہتے۔ اللہ نے انھیں بہت سی نعمتوں سے نواز رکھا تھا۔ ایک مرتبہ شیطان نے یہ کہا کہ حضرت ایوب علیہ السلام تیری اس لیے عبادت کرتے ہیں، اتنا صبر و شکر کر تے ہیں، انھیں تو نے مال و دولت اور فرزند عطا کیے ہیں۔ تو ان سے یہ سب کچھ چھین لے تو پھر ہم دیکھیں گے کہ یہ ا تنی عبادت و اطاعت اور صبر و شکر کیسے کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسانہیں ہے۔ اس کی عبادت و شکر گزاری خاص میرے لیے ہے۔ وہ ہر حال میں صابر و شاکر ہے۔ میں جانتا ہوں۔ آزمائش و مصیبت میں اس سے کہیں زیادہ کلمہ ء شکر ادا کرے گا۔ کہا جاتا ہے کہ حضر ت ایوب علیہ السلام نے خود ہی اللہ تعالیٰ سے آزمائش مانگی کیونکہ انھیں خود پر بھروسا تھا کہ تب بھی ان کی اطاعت و بندگی اور احساس تشکر اور صبر و برداشت میں کوئی فرق نہ پڑے گا اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی یہ دعا قبول کی۔ چھت گری۔ ساری اولاد چھت تلے دب کر مر گئی۔ چالیس ہزار بھیڑ بکریاں، ہاتھی گھوڑے، اونٹ بیل، سب جل مرے۔ ہر ایک کی بربادی کی خبر پر رضائے الٰہی کہہ کر عبادت میں مشغول رہتے۔ صرف ایک بیوی مونس و غم خوار ہمراہ رہ گئیں۔ جسم میں کیڑے پڑ گئے، لیکن کلمہ ء تشکر نہ بھولے۔ اٹھارہ برس بعد ان کے دن پھرے۔ اولاد گھر بار مال دولت، چالیس ہزار مال مویشی، اس صبر و شکر کے انعام میں صحیح سلامت انھیں واپس مل گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ ان کا نعم البدل پہلے سے کہیں بہتر انداز میں ملا۔

دانش:   اﷲ ہر شے پر قادر ہے، خدائی کے دعوے دار فرعون نے نجومیوں کی بات پر اعتبار کرتے ہوئے منادی کرا دی کہ کوئی بچہ زندہ نہ رہنے پائے، اور اﷲ کی قدرت کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ا سی کے محل میں پرورش پائی۔

امی: جسے اﷲ رکھے اسے کون چکھے، فرعون کو جب علم ہوا کہ ایک بچہ موجود ہے تو اس نے کوتوال پر سختی کی، کوتوال نے آپ کے گھر بلا اطلاع پیادے بھجوا دیے۔ اس وقت آپ علیہ السلام اپنی بہن کی گود میں تھے اس نے گھبراہٹ میں آپ کو جلتے تنور میں ڈال دیا۔ پیادے اچھی طرح تلاشی لے چکے، انھیں کچھ نہ ملا تو مایوس لوٹ گئے۔ ماں نے بیٹی سے آپ علیہ السلام کے بارے میں دریافت کیا یہ معلوم ہونے پر کہ بچی نے آپ علیہ السلام کو دہکتے تنور میں ڈال دیا تھا، صدمے کی شدت نے آپ کو جاں بلب کر دیا کہ اچانک تنور سے آواز آئی کہ میں محفوظ ہوں جس طرح اﷲ تعالیٰ نے نار نمرود سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو محفوظ رکھا تھا اسی طرح یہ آگ میرے لیے بھی سرد کر دی گئی۔ آپ علیہ السلام کو صحیح سلامت تنور سے نکالا گیا، اس وقت آپ علیہ السلام کی عمر چالیس دن تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ واقعہ بھی تمھیں یاد ہو گا۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر پہنچے تو حکم الٰہی ہوا۔ اے موسیٰ تیس دن کا روزہ رکھ کہ میں تجھ پہ تورات نازل کروں گا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تیس دن کا روزہ رکھا، پھر اپنی قوم کو نوید دی کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر تورات نازل کرے گا۔ نافرمان قوم نے کہا کہ ہم بن دیکھے کیسے یقین کر لیں، چنانچہ آپ اپنی قوم کے ستر سرداروں کو لے کر کوہ طور پر گئے اور ایک پتا توڑ کر چبانے لگے۔ حکم الٰہی ہوا۔ اے موسیٰ میں نے تجھے روزے رکھنے کو کہا تھا میری رضا کے بغیر روزہ کیوں کھولا۔ آپ نے فرمایا، میں نے تیرے حکم پر تیس روزے مکمل کیے پھر بوئے دہن سے گھبرا کر پتا چبایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اے موسیٰ روزہ دار کے منہ کی بو مجھے مشک و عنبر سے عزیز تر ہے، کیوں تو نے بے اجازت روزہ افطار کیا۔ اس کے کفارے میں مزید دس روزے رکھنے کو کہا گیا، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دس محرم تک چالیس روزے پورے کیے۔ آپ نے اللہ سے جلوہ دکھانے کی استدعا کی۔ اصرار پہ اللہ نے ذرا سی تجلی دکھائی۔ پہاڑ تاب نہ لا سکا، ریزہ ریزہ ہو گیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش آیا تو کہا۔ پاک ہے تیری ذات۔ میں نے توبہ کی اور تجھ پر ایمان لایا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام جنت سے لوحین زمرد لائے، قدرت کے قلم کو توریت تحریر کرنے کا حکم ہوا، حضرت موسیٰ علیہ السلام حکم الٰہی پر حضرت محمدﷺ پر ایمان لائے کہ امر ربی یہی تھا کہ اے موسیٰ تمھاری پیغمبری اسی وقت معتبر ٹھہرے گی جب تم میرے آخری نبی پر ایمان لاؤ گے۔ پھر آپ ان ستر سرداروں کی طرف متوجہ ہوئے، جو کوہ طور پر آپ کے ہمراہ آئے تھے۔ آپ نے دیکھا کہ ستر کے ستر سردار نو ر تجلی کے سبب جل مرے ہیں۔ حضرت موسیٰ نے خدا کے حضور مناجات کی۔ اے میرے رب میری قوم تو ویسے ہی ضعیف الاعتقاد ہے جب وہ اپنے سرداروں کی موت کے متعلق سنے گی، مجھ سے پرسش کرے گی تو میں انھیں کیا جواب دوں گا۔ ممکن ہے وہ میرے دین سے ہی پھر جائے۔ چنانچہ وہ ستر سردار حکم ربی سے زندہ ہوئے، حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کے ستر سردار توریت لے کر کوہ طورسے چالیس دن کے بعد مصر تشریف لائے۔ توریت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ چالیس شتر کا بوجھ تھی، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے حفظ کر رکھا تھا۔

دانش :  حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل کے چالیس برس تک صحراؤں میں بھٹکنے والا واقعہ کیا تھا۔

ابو :      وہ ایسا ہوا تھا کہ اللہ نے بنی اسرائیل سے فرمایا تھا کہ جہاد کرو اور عمالقہ جبار سے ملک شام حاصل کر لو، وہ تمھارا ملک ہے۔ انھوں نے اس حکم سے روگردانی کی۔ بنی اسرائیل نے شام کے بجائے مصر کی طرف ارادہ کر لیا۔ ساری رات چلتے رہے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ فجر ہو چکی ہے اور ابھی تک وہ اسی میدان میں ہیں۔ ہر روز یہی صورت احوال رہی۔ ساراسفردائرہ در دائرہ ہی رہا۔ یوشع بن نون کو خیال آیا کہ یہ سارا اثر موسیٰ علیہ السلام کی بد دعا کا ہے، اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہو اور توبہ استغفار کرو، جب تک کہ حضرت موسیٰ ملک شام فتح کر کے نہیں آ جاتے۔ یوں تیہ کے صحراؤں میں چھ لاکھ سے زیادہ بنی اسرائیل چالیس برس تک محبوس رہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تشریف لانے پرآپ نے انھیں ملک شام چلنے کو کہا۔ تمام رات سفر میں گزاری صبح ہوئی تو وہی میدان۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نادم ہو کر اللہ سے ان کے لیے دعا کی جو مستجاب ہوئی، انھیں قید سے رہائی ہوئی۔ بنی اسرائیل جہاد میں شریک ہوئے۔

امی :     یہ وہی جگہ ہے کہ جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے اللہ نے من و سلویٰ کی نعمت نازل کی تھی۔

فارد:     من و سلویٰ، بھنے ہوئے مرغ اور بٹیر تھے نا۔

امی :     من ایک باریک سی دھنیا کی طرح کی چیز کا نام ہے، جو رات بھر آسمان سے گرتا رہتا تھا۔ بہت مزے کا میٹھا میٹھا سا۔ بنی اسرائیل صبح اسے چن چن کر کھا لیتے۔ سلویٰ ایک مرغ کا نام تھا۔ عصر کے وقت بیشمار سلویٰ ان کے قریب آ بیٹھتے، جیسے ہی رات کا اندھیرا بڑھتا، وہ انھیں شکار کر کے کباب بناتے، بھونتے اور مزے لے لے کر کھاتے، لیکن اشرف المخلوقات یکسانیت سے اکتا گئے۔ اس بہترین کھانے کے بجائے ان میں مسور، لہسن، پیاز، گیہوں، ککڑی اور ساگ کی طلب جاگی جو پوری کی گئی۔ تیس برس اسی میدان میں گزرے۔ حضرت موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون نے انتقال فرمایا۔ چالیس برس بعد بنی اسرائیل بھی فنا ہوئے۔ صرف یوشع، جالوت اور بنی اسرائیل کی وہ اولاد جو مصر سے نکلنے کے بعد پیدا ہوئی تھی، وہ زندہ رہی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت یوشع علیہ السلام پیغمبر ہوئے۔ مشہور مالدار شخص قارون آپ کا چچا زاد بھائی تھا لیکن زکوٰۃ دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ ایک مرتبہ اس نے آپ علیہ السلام پر بہتان باندھا جس کے نتیجے میں اپنے خزانے سمیت زمین میں دھنس گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے خزانوں کی چابیا ں ہی چالیس اونٹوں پر لا دی جاتی تھیں۔

دانش: بنی ایلیا چالیس دن تک بے آب و دانہ رہے تھے انھیں چالیس روز تک کوؤں نے غذا پہنچائی تھی۔ یہودا کے چالیس سالہ گناہ کی یاد میں ایلیا چالیس دن تک داہنی کروٹ سے لیٹے رہے تھے۔

ابو :      حضرت داؤد علیہ السلام کے لحن کے متعلق تو تم سب جانتے ہی ہو۔ وہ۷۲ الحان سے زبور کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ جب وہ تلاوت کرتے تووحوش و طیور، چرند پرند ساکت ہو جاتے، درختوں کی پتیاں زرد ہو جا تیں، پتھر موم ہو جاتے، پہاڑ وجد میں آ جاتے۔ زبور پڑھتے تو ان کی آواز چالیس فرسنگ تک سنی جاتی۔ انھیں زعم تھا کہ انھوں نے اپنا نظام الاوقات اس طرح مرتب کیا ہوا تھا کہ دن کا کوئی لمحہ ایسا نہ تھا کہ وہ یا ان کے خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد عبادت میں مصروف نہ ہو۔ ایک مرتبہ ان کی عبادت گاہ میں اللہ تعالیٰ نے دو فریق لڑتے ہوئے بھیج کر ان کا امتحان لیا، یہ وقت آپ کا عبادت کا تھا اور آپ کے خاندان کا کوئی فرد عبادت میں مصروف نہ تھا۔ آپ ان دونوں کے فیصلہ میں مصروف ہوئے کہ ایک، اپنی ننانوے دنبیوں کے ہوتے ہوئے بھی دوسرے کی واحد دنبی کا طلب گار تھا، دراصل یہ ایک علامتی مسئلہ تھا۔ جلد ہی انھیں احساس ہو گیا، حضرت داؤد اپنی لغزش پر پشیمان ہوئے، اسی وقت سجدے میں گرے، گریہ و زاری اور استغفار کرتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ چالیس دن تک ان کی یہی حالت رہی بھوک پیاس سب موقوف ہو چکی تھی۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ان کی لغزش معاف فرمائی۔

حضر ت سلیمان علیہ السلام جن وانس اور وحوش و طیور پر حکمران تھے۔ ہوا آپ کے تابع تھی۔ تخت سلیمان ایک ماہ کی مسافت آدھے دن میں طے کر لیتا تھا۔ آپ کا چالیس سالہ دور حکومت ان گنت محیرالعقول واقعات اور معجزات سے بھر اپڑا ہے۔ ایک روایت کے مطابق، بیت المقدس کی تعمیر بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے بیت اللہ کی تعمیر سے چالیس سال بعد ہوئی تھی۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو بیت ا لمقدس کی تعمیر کی تھی، یہ بھی بیت اللہ کی طرح نئی اور ابتدائی تعمیر نہ تھی بلکہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بنائے ابراہیمی پر اس کی تجدید کی تھی۔

ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت ابراہیم جن کا انتقال ایک سو پچھتر برس کی عمر میں ہوا تھا، کی وفات کے چالیس سال بعد آپ کے پوتے حضرت یعقوب علیہ السلام نے بیت المقدس میں بیت ایل کے مقام پر ایک مذبح خانہ تعمیر کرایا تھا، یہی وہ مقام ہے جہاں بعد ازاں حضرت سلیمان نے ہیکل سلیمانی تعمیر کیا۔

دانش:   بیت المقدس وہ قدیم شہر ہے کہ جہاں کے باشندوں کو شاید بیس برس بھی امن و سکون کا سانس لینے کا مو قع نہ ملا ہو۔ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لیے یکساں مقدس اس شہر کا قدیم نام ’’جیبوس ‘‘ تھا۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے اسے یروشلم کے نام سے پکارا کہ یہی نام حضرت داؤد نے دیا تھا۔ ’’یرو ‘‘ اور ’’شلیم‘‘ دو عبرانی الفاظ کے ملانے سے بنا ہے، جس کے معنی امن کا ورثہ کے ہیں اور یہ شہر اسی ورثہ سے ہمیشہ محروم رہا ہے، حضرت سلیمان کے دور میں بیت المقدس خوب صورت ترین شہر بنا۔ پانی کی فراہمی کے لیے بے شمار حوض اور نہریں تعمیر کی گئیں۔ تجارتی روابط بڑھے تو شہر کی خوشحالی میں مزید اضافہ ہوا۔ چالیس سالہ دور حکومت کے بعد ۹۷۵ ق م میں آپ کا انتقال ہوا۔ اسرائیلی سلطنت دو حصوں میں منقسم ہوئی، یوں شمالی اور جنوبی سلطنت کی ریشہ دوانیوں نے بیت المقدس کو نقصان پہنچایا۔ بابل کے بادشاہ بخت نصر نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ بیت المقدس پر حملہ آور ہوا۔ ہیکل سلیما نی کو جلا کر راکھ کر دیا۔ بعد ازاں رہی سہی کسر قیصر روم نے پوری کر دی، بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی کو اس طرح تباہ و برباد کیا کہ اس کے نشانات و آثار بھی ناپید ہو گئے۔ عیسائیوں کا خیال ہے کہ یہ سزا اس لیے ملی تھی کہ اس واقعے سے ٹھیک چالیس سال قبل حضرت عیسیٰؑ کو مصلوب کیا گیا تھا۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کی طرح حضرت یوشع نے بھی چالیس سال حکمرانی کی۔

کہا جاتا ہے کہ چالیس برس کی عمر سنجیدگی اور متانت اور عقل و فراست اور قوت فیصلہ کے لیے بہترین ہوا کرتی ہے۔ حضرت عیسیٰؑ علیہ السلام پیدائشی نبی تھے، انھوں نے شیر خواری کے زمانے میں ہی اللہ کی طرف سے نبوت اور کتاب ملنے کی بشارت دی تھی، یعنی اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا کہ انھیں نبوت سے سرفراز کیا جائے گا، بالکل ایسے ہی جیسے، حضرت آدم کی پیدائش سے پہلے ہی آپﷺ کو نبوت عطا کر دی گئی تھی۔ حضرت اسحاق کے بیٹے حضرت یحییٰ کے متعلق بھی تو سورت مریم آیت 12 میں ارشاد ہے اے یحییٰ کتاب کو مضبوطی سے تھام لو اور ہم نے اسے بچپن ہی سے نبوت و دانائی دے دی۔

امی:      دیگر تمام انبیا کو چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی کہ یہی عمر ذہنی و جسمانی قوت برداشت اور فہم و ادراک کے لیے بہترین ہے۔ سورہ احقاف میں بھی اربعین یعنی چالیس سال کی عمر کو پختگی کا زمانہ ظاہر کیا گیا ہے۔

سعدی خود کو سرزنش کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

چہل سال عمر عزیز گذشت

ہنوز از مزاج تو طفلی نہ رفت

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے چالیس دن بعد حضرت مریم علیہ السلام    نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معبد میں پیش کیا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر زندہ اٹھا لیا گیا تھا۔ احیائے ثانی کے چالیس دن بعد آسمان پر لے جائے گئے تھے۔ مصلوب ہونے کے بعدچالیس گھنٹے مقید رہے۔ آپ علیہ السلام امام مہدی کے دور میں دجال کی جنگ کے وقت اتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے کفر کا خاتمہ ہو گا عدل و انصاف کا دور دورہ ہو گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دین محمدیﷺ پر چالیس سال رہیں گے۔ اس کے بعد قیامت برپا ہو جائے گی۔

ایک مرتبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کی خواہش پر ا ﷲ سے دعا فرمائی، اﷲ نے شرف قبولیت بخشا اور آسمان سے خوان نازل فرمایا، لیکن اس تنبیہ کے ساتھ کہ اگر کوئی ناشکری کرے گا تو میں اسے سخت سزا دوں گا۔ یہ خوان بیک وقت چا ر ہزار آدمیوں کے لیے کافی ہوتا، جب لوگ زیادہ ہوتے گئے تو باری مقرر کی گئی۔ آدھے ایک روز کھاتے۔ باقی آدھے دوسرے روز۔ چالیس روز اسی طرح گزرے، اﷲ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ یہ کھانا فقرا و مساکین کے لیے ہے، امیروں کے لیے نہیں، مالدار لوگ اس بات پر خفا ہو گئے۔ غلط باتیں پھیلانے لگے اور مائدہ کا ذخیرہ کرنے لگے۔ اﷲ نے ان تکذیب کرنے اور ذخیرہ کرنے والوں کے لیے یہ سزا مقرر کی کہ انھیں خنزیر کی شکل کا کر دیا جو گندگی میں پھرتے، آخر کار عبرت ناک موت کا شکار ہوئے۔

دانش: موت پر یاد آیا، مصرِ قدیم میں لاش کی مومیائی کے لیے   چالیس دن مقرر تھے۔   حضرت یعقوب علیہ السلام کی لاش کو بھی حنوط کرنے کے لیے چالیس دن درکار ہوئے۔

ابو :       اچھا اب ایک بات اور بتاؤ۔ اسلامی دنیا میں کون کون ے شہر ہیں جنھیں ہم مسلمان مقدس اور حرمت والے شہر سمجھتے ہیں۔

فارد:     یہ تو سب کو پتا ہے مکہ، مدینہ اور بیت المقدس۔

ابو :      بھئی چند ایک شہر اور بھی ہیں، جن میں سے ایک بغداد بھی ہے، یہ تو تم جانتے ہو کہ عراق کو انبیا کی سرزمین کہتے ہیں بغداد اسی کا دارالحکومت ہے، کہا جاتا ہے کہ پہلے یہ باغ داد تھا یعنی وہ مشہور باغ کہ جہاں مشہور عادل بادشاہ نوشیروان مظلوموں کی داد رسی کیا کرتا تھا ابتدا میں بغداد ایک قلعہ کی طرز پر قائم کیا گیا تھا جس کے گرد گہری خندق کھودی گئی تھی۔ یہ شہر اپنی عمارات، تجارتی روابط اور دولت و ثروت میں اپنی مثال آپ تھا۔ مضبوط طریقے پر تعمیر کردہ شہر کو بیرونی حملہ آوروں سے قطع نظر، امین الرشید اور مامون الرشید کی باہمی جنگ سے شدید نقصان پہنچا۔ مامون نے ازسر نو اسے تعمیر کیا۔ ترکوں کے ہنگاموں نے اسے پھر تباہ و برباد کیا۔ ۸۹۱؁ میں معتمد اور اس کے پیش روؤں نے اس پر خصوسی توجہ دی اور ایک بین الاقوامی شہر کے طور پر متعارف کرایا۔ آج تک بغداد کی تاریخ اسی طرح تعمیر و تخریب سے دوچار رہی۔ بغداد اسلامی آثار کے لیے ہی نہیں اپنے علم و فضل کے لیے بھی بہت مشہور رہا ہے۔ قرآن، تفسیر، فقہ، حدیث، قانون، فلسفہ اور دیگر دینی اور دنیاوی علوم کی تعلیم و تدریس نے نامور فقیہہ اور علما پیدا کیے۔ بغداد اہل تصوف کا مرکز و مرجع رہا ہے۔ امام موسیٰ کاظم رضا اور امام ابو حنیفہ کے معتقد ین اس شہر میں ایک بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہیں۔ دریائے دجلہ کے کنارے شہر بغداد دو حصوں میں منقسم ہے جو انھی بزرگوں کے نام نامی کاظمیہ اور اعظمیہ سے منسوب ہے۔ بغداد امام ابو حنیفہ ہی کے عہد میں تعمیر ہوا اور آپ نے عام مزدوروں کے ساتھ مل کر اس کی تعمیر میں مدد دی۔ ا مام ابو حنیفہ، فقہ حنفی کے بانی ہیں۔ آپ متقی و حق پرست ہونے کے علاوہ دینی علوم میں مہارت رکھتے تھے اور آپ نے اجتہاد سے کام لیتے ہوئے فقہ، حدیث، معنی و تفسیر اور کلام کی تشریح و توضیح کی۔ آپ کلمۃ اعلائے حق کے لیے بھی مشہور ہیں۔ سلطان وقت المنصور نے آپ کو قاضی کا عہدہ پیش کیا۔ آپ نے انکار کیا اور کہا میں خود کو اس عہدے کے قابل نہیں سمجھتا، خلیفہ نے کہا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ آپ نے برجستہ جواب دیا کہ ایک جھوٹا شخص اس منصب عدل کا کس طرح حق دار ہو سکتا ہے۔ نا فرمانی پر انہیں قید کر دیا گیا حالت اسیری میں ہی انھیں زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔ ہمارے سیاسی مہرے اپنے اکابر کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے آئے ہیں۔ یہ وہی اسلامی تصور عدل و انصاف کے شارح تھے جن کی تصانیف میں فقہ اکبر، العالم و المتعلم اور مسند شامل ہیں جو آج تک ہماری رہنمائی کر رہی ہیں۔

دانش:   اور ابو انھوں نے بارہ لاکھ نوے ہزار سے زیادہ مسائل بھی تو مدون کیے تھے۔ ہاں یہ بات درست ہے۔ میں ان کا ایک اور اہم کار نامہ بتانا چاہ رہا تھا اور وہ یہ کہ انھوں نے اپنے ذہین و فطین چالیس شاگردوں کی ایک ایسی جماعت کی تشکیل کی جو دین اسلامی پر عبور رکھتے تھے، یہ وہ ادارہ تھا کہ جہاں سے جاری ہونے والے فتاویٰ فوراً تمام مملکت اسلامیہ میں پھیل کر قبولیت حاصل کر لیتے تھے۔

امی:      حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا مزار بھی بغداد میں ہے۔ آپ سلسلہ قادریہ کے بانی حنبلی عالم اور واعظ تھے۔ اٹھارہ سال کی عمر تحصیل علم کے لیے بغداد آئے۔ کہا جا تا ہے کہ ان کے وعظ سے متاثر ہو کر بہت سے عیسائی اور یہودی مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ نہ صرف تصوف کی باریکیوں سے آگاہ تھے بلکہ ان کے سائنسی انکشافات سے بعد ازاں مغرب کے سائنس دانوں نے بہت فائدہ اٹھایا۔ آپ نے بغداد شہر میں ایک عظیم الشان کتب خانہ بھی تعمیر کرایا، اس کتب خانے میں چالیس ہزار مخطوطات اور نایاب و نادر کتب تھیں۔ حالیہ تباہی میں نا جانے اس کا کیا حشر ہوا۔

سرمد:   شیخ عبد القادر جیلانی کی کہانی ہم سبھی جانتے ہیں ماں نے آپ کو سچ بولنے کی تاکید کی اور آپ نے یہ بات گرہ میں باندھ لی، ایک مرتبہ سفر پر جانے لگے ماں نے چالیس درہم لباس میں سی دیے۔ راستے میں ڈاکوؤں نے آ لیا، انھوں نے پوچھا تو سچ بتا دیا کہ میرے پاس چالیس درہم ہیں، ڈاکو بہت حیران ہوئے۔ اپنے سردار کے پاس لے گئے، اس کے پوچھنے پر آپ نے بتا دیا کہ میری ماں نے سچ بولنے کا حکم دیا تھا۔ ڈاکو اور ان کا سردار بہت پشیمان ہوئے کہ یہ اپنی ماں کا حکم نہیں ٹال سکتا اور ہم اپنے خالق کے حکم سے رو گردانی کرتے ہوئے اس کی مخلوق کو پریشان کرتے رہے۔ وہ سبھی تائب ہوئے۔ ایک بچے کی سچائی انھیں راہ راست پر لے آئی۔

دانش:   اسلامی تاریخ میں شہر دمشق بھی بہت اہم ہے، یہیں پر کہف آدم ہے یعنی وہ مقام جہاں ہابیل کا قتل ہوا تھا۔ پھر چالیس پیغمبروں کی زیارت گاہ کے متعلق بھی کہا جا تا ہے کہ یہیں ہے، جنھوں نے اپنی نافر مان قوم کے ہاتھوں بھوک سے تڑپ تڑپ کر جان دے دی تھی۔ دمشق میں ہی ایک مقام ’’مقام اربعین‘‘ کہلاتا ہے جو چالیس ابدالوں سے منسوب ہے۔ یہیں وہ مقام ہے کہ جہاں حضرت ابراہیمؑ نے چاند، سورج اور ستاروں کے طلوع و غروب دیکھ کر اس ان دیکھی ہستی کا یقین کیا تھا جو نظام کائنات چلا رہی ہے۔

سرمد:   بات حضورﷺ سے شروع ہوئی تھی، درمیان میں دیگر اہم واقعات آ گئے۔     حضورﷺ کی زندگی میں بھی چالیس کے ہندسے کی بہت اہمیت رہی۔ اسلام میں رزق حلال کی اہمیت سب پر واضح ہے۔ حدیث نبوی ہے ’’جس نے چالیس دن رزق حلال کھایا، اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو منور کر دے گا اور اس سے حکمت کے سرچشمے پھوٹیں گے۔ ‘‘

کہا جاتا ہے کہ جسے چالیس احادیث حفظ ہوں گی وہ عالم بن کر اٹھے گا اور اسے حضورﷺ کی شفاعت نصیب ہو گی۔

آپﷺ سے عقد مبارک کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر چالیس برس تھی۔ دین اسلام میں بھی اس ہندسہ کا کردار رہا، حج اسلام کا پانچواں رکن، ہر صاحب حیثیت مسلمان پر فرض، اسلام کے ابتدائی عہد کا منظر، ۹ ہجری کا حج اسلامی طریقے پر ادا کیا گیا۔ امیر حج حضرت ابو بکر صدیقؓ تھے جب آپؓ اپنے ہمراہیوں کو لے کر مکہ پہنچے تو ان کے پیچھے حضرت علی کو نقیب بنا کر بھیجا گیا کہ سورت البرات کی ابتدائی چالیس آیات سب کو سنا دیں، ساتھ ہی یہ اعلان کر دیا کہ کوئی مشرک حرم میں داخل نہ ہو سکے گا۔ کعبہ کا طواف مستور ہو کر کیا جائے گا اور جتنے معاہدے مشرکین کے ساتھ ہو چکے ہیں وہ ان کے نقص عہد کی بنا پر چار ماہ بعد ختم تصور کیے جائیں گے۔

ابو:       بھئی، مقام ابراہیم کے بارے میں تو تم جانتے ہی ہو، یہ وہ پتھر ہے کہ جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کعبہ کی-ضرورت کے مطابق یہ پتھر بلند ہوتا رہتا۔ حفاظت کے خیال سے۱۳۸۷ء تک یہ ایک بند صندوق میں مقفل کمرے میں رکھا رہا زائرین اس کی زیارت سے محروم تھے، پھر اسے شیشے کی ایک قبہ نما فریم میں بند کر دیا گیا شیشے کی حفاظت کے لیے سنہرے کام کی مسدس جالی کا جنگلہ لگا دیا گیا، پہلے یہ پتھر خانہ کعبہ کی دیوار سے متصل رکھا گیا تھا۔ ۱۷ھ ؁ میں مکہ میں بہت شدید سیلاب آیا، حضرت عمر کو خبر ہوئی تو مدینہ سے تشریف لائے، مقام ابراہیم خانۂ کعبہ سے تقریباً چالیس فٹ دور موجودہ مقام پر رکھوا دیا، یہ جگہ مطاف میں شامل ہے ہر طواف یا عمرے کی ادائگی کے بعد مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز نفل کی ادائیگی فرض ہے، بھیڑ کی صورت میں یہ نفل کہیں بھی ادا کیے جا سکتے ہیں۔ کسی بھی حاجی کے لیے حج کے تمام ارکان کی تکمیل کے ساتھ ساتھ مسجد نبوی کی زیارت اور وہاں نماز کی ادائگی باعث تسکین و تشفی ہے۔ ہاں، ایک بات اور یاد رکھو نماز کی ادائگی کے دوران میں نمازی کے آگے سے گزرنے کی سخت ممانعت ہے۔ سنن سنائی میں درج ہے : اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو اس کا عذاب معلوم ہو جائے تو وہ چالیسسال تک   نمازی کی نماز ختم ہونے کے انتظار میں کھڑا رہنے کو ترجیح دے گا۔ صرف مسجدِ حرام اور مسجد نبوی میں اس کی اجازت ہے۔ مسجد نبوی میں ادا کی گئی ہر نماز کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے برابر بتایا گیا ہے۔ ایک روایت کے مطابق مسجد نبوی میں چالیس نمازوں کی ادائگی لازم ہے، یہ صحیح نہیں ہے۔ چالیس نمازیں ادا کرنے کی فضیلت اپنی جگہ، لیکن اگر کسی کی کوئی نماز مسجد نبوی میں ادا نہیں ہو پاتی تو اس کے لیے یہ کہنا کہ بقیہ نمازوں کے ثواب میں کمی واقع ہوئی یا اب اسے از سر نو چالیس نمازیں پڑھنا ہوں گی، درست نہیں۔ مسند احمد بن حنبل میں ہے کہ حضور پاک کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے میری مسجد میں چالیس نمازیں ادا کیں تو اس کے لیے آگ، عذاب اور نفاق سے بیزاری لکھی جائے گی۔ حدیث پاک ہے ’’جو شخص مسجد نبوی میں چالیس نمازیں ادا کرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔ ‘‘ حضور کے کے ان ارشادات کو اس روشنی میں دیکھا جائے تو مناسب ہو گا کہ ایک مرتبہ یہاں تسلسل کے ساتھ چالیس نمازیں ادا کرنے والا اپنی آئندہ ز ندگی میں نماز کا پابند ہو جائے گا، یہی وجہ ہے کہ حج کے موقع پر مسجد نبوی میں ہر حاجی کے لیے چالیس نمازوں کی ادائگی کا پروگرام ترتیب دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی بالعموم سنی جاتی ہے کہ بزرگ اپنے بچوں کو کہتے ہیں کہ بالجبر، کوشش کر کے چالیس نمازیں ادا کر لو، اس کے بعد ایسی عادت ہو جائے گی کہ نماز کا وقت ہوتے ہی انسان خود کو نماز کے لیے تیار پائے گا۔

سرمد:   حج کے سلسلے میں یہ بات یاد آئی کہ جب آپ حج کرنے گئے تھے تو وہاں آپ کا قیام بھی چالیس روز کا تھا۔

امی:      حکومت ہر امر کو مد نظر رکھتے ہوئے نظام الاوقات بناتی ہے۔ آٹھ دس روز تو مدینہ میں گزر جاتے ہیں۔ پانچ چھ روز حج کے لیے مخصوص ہوتے ہیں جو منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں گزرتے ہیں۔ حرم پاک کے لیے بیس پچیس دن بچتے ہیں جو دیکھا جائے تو کافی ہیں لیکن دل بھرتا ہے نہ نیت۔ پھر جہاز کی پروازوں کا مسئلہ بھی ہوتا ہے۔   حکومت کے پاس اتنے جہاز نہیں کہ وہ مسافروں کو   اس سے کم مدت میں لانے، لے جانے کا بند وبست کر سکے۔   چالیس دن تو اسے رکنا ہی پڑتا ہے۔

فارد:     یہ تو اچھی بات ہے کیونکہ ہر حاجی حج سے واپس آتے ہی پھر وہاں جانے کے لیے تڑپتا ہے اور ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ حاجی کی دعا حج کے بعد بھی چالیس دنوں تک جلد قبولیت کے مراحل طے کرتی ہے اسی لیے ہم جب بھی کسی حاجی کو حج کی مبارک دینے جاتے ہیں تو یہ کہنا نہیں بھولتے کہ آپ نے ہمارے لیے حرم پاک میں بھی بلاوے کی دعا کی تھی، اب بھی ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے۔

ابو :       زکوٰۃ کے سلسلے میں بھی چالیس کا ہندسہ بہت اہم ہے۔ اسلام میں زکوٰۃ کی اہمیت، فضیلت و فرضیت سب پر عیاں ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی ایک افضل عمل ہے کہ جس کی بنا پر متوازن معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ حضرت اسد الرحمن کی مرتب کردہ کتاب شرعۃ المتین میں بھی تفصیل کے ساتھ زکوٰۃ کے نصاب پر بحث کی گئی ہے آپ لکھتے ہیں کہ زر نقد میں چالیسواں حصہ زکوٰۃ واجب ہے۔ ز ر خالص میں چاندی سونا اور سکہ رائج الوقت شامل ہے۔ ہر ملک اور ہر عہد میں زر نقد کا نرخ بدلتا رہتا ہے۔ اس لیے چاندی کو اصل اصول قرار دے کر زر نقد کی زکوٰۃ اداکی جائے۔ ساڑھے باون تولہ چاندی کی حاضر الوقت قیمت کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ ادا کی جائے گی اور اس قیمت کا سونا یا رائج کرنسی، جس کی ملکیت ہو چالیسواں حصہ زکوٰ ۃ ادا کرے جانوروں میں چالیس بھیڑ بکری پر ایک مینڈھا یا بکرا … چالیس گائے اور بھینس پر ایک بچھڑا… پانچ اونٹ پر ایک بکرا … تجارتی گھوڑوں، خچروں اور گدھوں پر ان کی حاضر الوقت قیمت کا اندازہ کر کے چالیسواں حصہ نقد رقم زکوٰۃ ادا کی جائے گی … پیداوار ارضی میں معدنیات بھی شامل ہیں جن میں حجرات و فلزات کے کے علاوہ سیال اور منجمد اشیا بھی شامل ہیں۔ پیداوار ارضی کی زرعی اقسام میں دسواں حصہ زکوٰۃ ہے اور غیر زرعی اقسام پر چالیسواں حصہ زکوٰۃ ہے … چالیساونٹوں پر ایک اونٹ زکوٰۃ ہے۔

فارد :    ابو اب اونٹوں کے زمانے گئے۔ اب تو بی ایم ڈبلیو کی بات کریں، فراری کی بات کریں۔

ابو :       بیٹا اصل اصول کبھی نہیں بدلتے اور اسلام تو وہ مذہب ہے کہ جو قیامت تک کے لیے باعث رہنمائی ہے۔

امی :     ہم آج بھی خلافت راشدہ کی آرزو کرتے ہیں خلافت راشدہ کا زمانہ بھی کم و بیش چالیس سال ہی بنتا ہے۔

دانش:   خُلفائے راشدین تو چار ہی ہیں لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیز کو ان کے انداز خلافت اور اصول اسلام کی سختی سے پاسداری کے سبب ان میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

ابو:       تیسرے خلیفہ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا شمار عشرہ مبشرہ اور ان چھ اکابر صحابہ میں ہوتا ہے جن سے حضور تمام زندگی خوش رہے، آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا لقب ذو النورین تھا کہ آپﷺ کی دو صاحب زادیوں کا نکاح یکے بعد دیگرے حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہوا تھا۔ ابن الاثیر نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور اکرمﷺ فرماتے تھے کہ اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں انھیں یکے بعد دیگرے حضرت عثمان سے بیاہ دیتا۔

امی: حضرت عثمان کا خلافت کا زمانہ عظیم الشان فتوحات کا زمانہ تھا۔ اسلامی جغرافیائی حدود میں وسعت ہوئی۔ بحری قوت کو منظم کیا گیا۔ تہذیب و تمدن صنعت و حرفت تجارت تعمیرات علوم و فنون میں بے انتہا ترقی ہوئی۔ قرآن پاک کو لکھوا کر تمام اسلامی ممالک میں اس کی اشاعت آپ کا بڑا کارنامہ ہے۔ آپ جامع القران کے لقب سے بھی مشہور ہیں۔ حضورﷺ کی پسندیدہ شخصیت اور ایک بہترین خلیفہ ہونے کے باوجود آپ کی زندگی کے آخری ایام نہایت تکلیف دہ تھے۔ اپنے اور غیروں کی سازشوں نے وہ صورتِ حال پیدا کی جس کی کوئی توقع نہ کر سکتا تھا۔ ۴۳؁ میں جب بیشتر اہل مدینہ حج کے لیئے مکہ جا چکے تھے۔ باغیوں نے آپ کے مکان کا محاصرہ کر لیا جو کم و بیش چالیس دن جاری رہا۔ اس گھراؤ جلاؤ پتھراؤ کا مقابلہ آپ نے جس صبر و استقال سے کیا۔ اس کی مثال نہیں ملتی کہ آپ نے اپنے ساتھیوں کو جوا بی کاروائی کی اجازت نہ دی -وہ جس نے اہل مدینہ کے لئے بیئر رومہ خرید کر وقف کیا۔ خود اس پر پانی بند کر دیا گیا۔ ۱۸ ذوالحجہ ۳۵ہجری کو اس وقت شہید کر دیا گیا جب آپ تلاوت کلام پاک میں مصروف تھے۔

سرمد :  چوتھے خلیفہ حضرت علی کرم اﷲ وجہ سے بھی آپ بے انتہا محبت فرماتے، لیکن ہم مسلمانوں کی بدقسمتی رہی ہے کہ ہم بہترین انسانوں کو برداشت نہیں کر پاتے خواہ وہ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہوں یا حضرت علی کرم اﷲ وجہ۔ حکمرانی کی خواہش انسان کو کتنا گرا دیتی ہے۔ ۲۰ رمضان ۴۰ھ(۶۶۱؁) میں ابن ملجم نے فجر کی نماز کے وقت حالت نماز میں آپ کرم اﷲ وجہ کو شہید کر دیا یوں شیر خدا، باب علم اور رشد و ہدایت کا سورج غروب ہوا۔

دانش:   اسلام میں علم اور عالم کی اہمیت سبھی پر عیاں ہے اور اسلام ہی وہ مذہب ہے کہ جس میں اس بات پر ایمان بھی لازم ہے کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے کسی بھی جن و بشر اور فرشتے کو مستقبل کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ انھیں اگلے لمحے کی خبر سے بھی بے خبر رکھا گیا ہے، لیکن انسان ہر لمحے اپنی آئندہ زندگی کے بارے میں متجسس رہتا ہے۔ اس کے لیےاس نے مختلف علوم کا سہارا لیا ہے، علم نجوم، دست شناسی، اس کے اس جذبے کی تسکین فراہم کرتے ہیں، حالات کا مارا بے بس انسان بہتر مستقبل کی نوید سننے کی خواہش میں ان ’’عالموں‘‘ کے گرد گھومنے لگتا ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں حضور کا ارشاد پاک ہے۔ ’’جو شخص کسی ’’ اعراف ‘‘ کے پاس گیا اور اس سے کوئی بات دریافت کی تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ ہو گی ‘‘

سفلی عمل بھی چالیس دن کا ہوا کرتا ہے۔

سرمد :   لیکن اکثر صوفی بزرگ، پیر فقیر بھی تو چالیس دن کا ہی چلہ کھینچتے ہیں۔ سورج یا چاند کا اتار چڑھاؤ دو مرتبہ چالیس دنوں میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اکثر وظائف بھی چالیس دن کے ہوا کرتے ہیں۔

فارد :     عیسائیوں کے روزے بھی تو چالیس ہوتے ہیں۔

ابو :      چہل ابدال بھی تو مشہور ہیں، ابدال جن کی تعداد چالیس ہے، جنھیں اللہ نے انتظام و انصرام کی دیکھ بھال کے لیے مقرر کیا اور جو مخلوق خدا کی خدمت پر مامور ہیں۔

دانش:   چہل کاف، ایک دعا ہے کہ جس میں چالیس کاف ہو تے ہیں۔

فارد :     امی آپ کے پاس ایک چھوٹی سی کتاب بھی تو ہے، ’’چالیس قرآنی دعائیں ‘‘ جو آپ افطار سے پہلے پڑھتی ہیں۔

امی :     بیٹا پڑھنی توہر روز چا ہییں، لیکن ہم مصروفیت یا سستی کے مارے لوگ ایسا کر نہیں پاتے۔

ابو :      شراب اسلام میں حرام ہے۔ شراب پینے والے کی دعا چالیس روز تک قبول نہیں ہوتی۔ جدید سائنس کی تحقیق کے مطابق یہ بات ثابت ہے کہ شراب پینے والے کے خون میں چالیس روز تک خون کے اثرات موجود رہتے ہیں۔

سرمد:   اسلام میں حقوق ہمسایہ پر بھی بہت زور دیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ محلے میں موجود چالیس گھر آپ کے ہمسائے شمار ہوتے ہیں۔

امی :     زندگی کے مذہبی پہلو کے علاوہ بھی چالیس کے ہندسے کی کارفرمائیاں، روز مرہ کی زندگی میں جاری و ساری ہیں۔ قرار داد پاکستان بھی تو ۱۹۴۰؁ میں منظور ہوئی تھی، جس کے سبب آج ہم سب ایک آزاد وطن کے شہری ہیں۔

ابو :      بات تاریخ کی ہو رہی ہے تو ۱۸۴۰ ؁ء کا ہولناک قحط بھی ناقابل فراموش ہے۔

فارد :    اسی لیے تو امی ہر وقت کہتی رہتی ہیں کہ رزق کی قدر کرو، جو ملے صبر شکر کر کے کھا لیا کرو، پھر امی کو واک کا بھی تو کتنا شوق ہے، ہم ہر رات کھانا کھانے کے بعد چہل قدمی کے لیے نکلتے ہیں کہ یہ صحت کے لیے ضروری ہے۔

دانش :  شطرنج کی چالیس چالیں بھی مشہور ہیں۔

امی :     اور وہ جو نظر کے لیے بھی تو یہ نسخہ آزمایا جاتا ہے کہ بادام اور کالی مرچیں اس طرح کھائی جائیں کہ پہلے روز ایک، دوسرے دن دو، تیسرے دن تین اور اسی طرح چالیس روز تک بڑھاتے جائیں اور پھر اسی طرح واپس آئیں۔

فارد:     آخری دنوں میں تو کھانے والوں کا بیڑا غرق ہو جائے گا۔

امی: نظر سے یاد آیا کہ چالیسا، نظر کے اس دھندلے پن کو بھی کہتے ہیں جو عام طور پر چالیس سال کی عمر کا ہونے پر پیدا ہو جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ جب انسان اڑتالیس یا پچاس برس کا ہوتا ہے تو یہ خود بخود دور ہو جاتا ہے۔

دانش :   عمارتوں کے سلسلے میں بھی چالیس کا ہندسہ اہمیت رکھتا ہے۔ بابر نے قندھار فتح کیا تو حکم دے دیا تھا کہ ایک بلند ٹیلے پر بطور یادگار ایک عمارت تعمیر کر کے اس پر کتبہ کندہ کرایا جائے اور ٹیلے پر چڑھنے کے لیے چالیس پائے بنائے جائیں۔ یہ عمارت چہل زینہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ پھر چہل ستون کے نام سے بھی ایک عمارت موجود تھی۔ قلعہ الہ آباد میں شاہی محل کے قریب یہ سہ منزلہ عمارت ہے۔ جس پر ایک برج بنا ہوا ہے۔ پوری عمارت نہایت خوب صورت ہے۔ ہر منزل پر ایک بڑا مکان ہے اور اردگرد غلام گردشیں۔ باہر کے رخ گیلریاں بنی ہوئیں ہیں۔ یہ عمارت اکبر بادشاہ کے حکم سے تعمیر ہوئی۔ ادھر ایران میں بھی ایک محل چہل ستون کے نام سے شہرت رکھتا ہے۔ میں سید ذو الفقار علی شاہ کا سفرنامہ ’’ یاد یار مہرباں ‘‘ پڑھ رہا تھا اس میں وہ بتاتے ہیں کہ ایران کے مشہور شہر اصفہان میں شاہ عباس دوم کا محل ’’ کاخ چہل ستون ‘‘ ۶۵ ہزار مربع میٹر رقبہ پر ایک وسیع و عریض اور نہایت خوب صورت باغ کے درمیان قائم کیا گیا ہے۔ عمارت کا آغاز ایک طویل منقش برآمدے سے ہوتا ہے، جس کے بیس ستون ہیں، جو سالم چنار کے درخت سے بنائے گئے ہیں۔ کھنڈر بتاتے ہیں کہ عمارت بہت شاندار تھی اور شاہی مہمان خانہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی، محل کے سامنے سفید سنگ مر مر کا حوض بنایا گیا تھا۔ چاروں کونوں پر مجسمے نصب تھے، جنھوں نے شیروں کے سر نما برتن اٹھا رکھے تھے، ان سے پانی کے فوارے رواں تھے۔ محل کے بیس ستونوں کا عکس پانی میں اتنا شفاف دکھائی دیتا ہے کہ ستون بیس نہیں چالیس معلوم ہوتے ہیں۔ محلات اور عمارتوں کی آرائش کے سلسلے میں چہل چراغ بھی شہرت رکھتے ہیں، یہ حوض، تالاب یا کنویں کے کنارے چالیس چراغ جلانے کے لیے بنایا گیا فانوس ہے، جس سے پانی میں عجیب و غریب روشنیاں منعکس ہوا کرتیں اور انتہائی خوب صورت منظر پیش کرتیں۔

ابو: انگلستان کے عہدِ وسطیٰ میں قتلِ   انسان کے جرمانے کی ادائگی کے چالیس دن مقرر تھے۔   جنگ کے دوران فریقین کو آرام لینے کے لیے بھی چالیس دن کا وقفہ ملتا تھا دار العوام کے التوا کے بعد   پارلیمنٹ کے اراکین کو چالیس دن کی مہلت ملتی تھی۔

امی:      فکشن میں بھی اس عدد کا بہت حصہ ہے۔ علی بابا، چالیس چور ہر بچے کی پسندیدہ کہانی ہے۔ اردو زبان میں بھی اس عدد کا عمل دخل کافی ہے، چالیس سیری تول پورے تول کو کہتے ہیں جس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو۔ چالیس سیری بات جچی تلی بات کو کہتے ہیں۔ چالیس سیرا اوت بھی ایک مقولہ ہے اور یہ اس شخص کو کہا جاتا ہے جسے احمق اور نہایت بے وقوف سمجھا جاتا ہو۔ اچھا یہ تو بتاؤ، خطوط غالب میں تم نے رسم مشایعت کے متعلق ضرور پڑھا ہو گا، ذرا اس کے معنی تو بتاؤ۔

دانش:   مہمان کو رخصت کرتے ہوئے چند قدم ساتھ چلنا۔

امی :     بالکل درست، چالیس قدم ساتھ آنا، محاور ہ، کچھ دور ساتھ جانا کے معنوں میں مستعمل ہے۔ عموماً جنازے کے ساتھ کم اِ ز کم چا لیس قدم جاتے ہیں، پھر یہ بات بھی تم نے سنی ہو گی کہ جب میت کو قبر کے حوالے کر کے اس کے احباب ابھی چالیس قدم ہی دور جاتے ہیں کہ منکر نکیر حساب کتاب کے لیے آ جاتے ہیں … اور چالیسویں پتا ہے کسے کہتے ہیں ؟ اس مقام کو جہاں کسی شخص کا انتقال ہوتا ہے تو گھر والے اس جگہ کو چالیس دن تک اکیلا نہیں چھوڑتے۔ یہ مقام چالیسویں کہلاتا ہے۔

پھر اردو لغت میں چالیسا کے کئی مفاہیم بیان کیے گئے ہیں۔ چالیس برس کی عمر کا آدمی، وہ پہلوان جس نے چالیس پہلوانوں کو شکست دی ہو۔ ایک چورن بھی چالیسا کہلاتا ہے۔ جس میں چالیس دوائیں استعمال کی گئی ہوں۔

ابو : بھئی چالیس شعروں کی نظم یا کتاب کو بھی تو چالیسا کہتے ہیں۔

دانش :   بھئی چالیس کے ہندسہ نے تو ہمیں حیران کر دیا۔

ابو:       بیٹا اب بہت رات ہو گئی ہے، چالیس کی مزید کرشمہ سازیوں پر اگلی نشست میں بات ہو گی۔
٭٭٭

 

 

 

 

کتابیات

 

۱۔   احمد دہلوی، سید، مولوی، فرہنگِ آصفیہ، جلد اول، دہلی، دفتر فرہنگِ آصفیہ، ۱۹۱۸ء

۲۔        آزاد، ابو الکلام، انبیائے کرام، لاہور، شیَخ غلام علی اینڈ سنز۔

۳۔        ابنِ کثیر، علامہ، تفسیر ابن کثیر، کراچی، نور محمد کارخانہ تجارت، آرام باغ۔

۴۔        اسد الرحمٰن، مولانا، مرتب:شرعۃ المتین۔

۵۔        ذوالفقار علی شاہ، سید۔ یادِ یار مہرباں، لاہور، ابلاغ میاں مارکیٹ اردو بازار، ۱۹۹۴ء

۶۔        راؤ، سرور منیر، میں نے بغداد جلتے دیکھا، اسلام آباد، نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۲۰۰۶ء

۷۔        فرمان فتح پوری، ڈاکٹر، اردو لغت(تاریخی اصول پر)، کراچی،      اردو لغت بورڈ ترقی اردو بورڈ۱۹۸۶ء

۸۔        قاسم محمود، سید، مرتب:شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا، لاہور، مکتبۂ شاہکار،   ۷۷۔ ۱۹۷۶ ء

۹۔         غلام نبی بن عنایت اللہ راجن پوری، مولانا، مرتب: قصص الانبیا، کتب خانہ شان اسلام ، س۔ ن۔

۱۰۔       غلام مرتضیٰ، ڈاکٹر، انوار القرآن، راولپنڈی، سروسز کلب، ۱۹۹۸ء

۱۱۔        محمد حفیظ الرحمٰن، سیوہاروی، مولانا، قصص القرآن، حصہ دوم،   ترجمہ: کراچی دارالاشاعت مولوی مسافر خانہ، اردو بازار،   ، س۔ ن

رسائل

سیارہ ڈائجسٹ، انبیائے کرام نمبر، لاہور، اللہ والا پرنٹرز، س۔ ن

نیاز فتح پوری، ۱۹۷۶ء، ماہنامہ نگار، مارچ، کراچی ایجوکیشنل پریس، قمر کتاب گھر۔

٭٭٭

تشکر: مصنفہ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید