FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

عجالۂ نافعہ

 

               حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ

 

ترجمہ: مولانا محمد عبد الحلیم چشتی

ترتیب و پیشکش: محمد حماد کریمی ندوی

 

 

 

 

 

 

عجالۂ نافعہ، ایک تحفۂ بے بہا!

 

               (مولانا) نورالحسن راشد کاندھلوی

 

مذہب اسلام اور قوانین شریعت، دونوں کے دو بنیادی مآخذ و مراجع ہیں، قرآن کریم اور احادیث نبویہ شریفہ۔ قرآن کریم کتابِ الٰہی ہے، جس کی نقل و روایت میں انسانوں، قراء، حفاظ، مفسرین، مترجمین، اور خادمان قرآن [علمائے کرام]کا بیشک بہت بڑا حصہ ہے، لیکن اس کی حفاظت و صیانت کی ذمہ داری، خود صاحب کتاب نے لی ہوئی ہے، اس لئے کم سے کم قرآن مجید کی صحیح نقل و ترتیب اور اس کے متن کے بارے میں، کوئی سوال اور شک و شبہ نہیں ہوسکتا، اسی لئے اس کی شرح وتفسیر بھی وہی معتبر ہے۔ جو اولاً، القرآن یفسربعضہا بعضاً پر مبنی ہو۔ دوسرے: حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شرح و معانی کی رہنمائی فرمائی ہو۔ تیسرے:حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا حلِّ مطالب اور معانی و مقاصد کی تفہیم و ترجمانی ہے۔

لیکن احادیث شریفہ کی نوعیت اس سے کسی قدر مختلف ہے۔ اگرچہ اس کے بارے میں بھی :وَمَایَنْطِقُ عَنِ الہَویٰ اِنْ ہُو اِلاَّ وَحْیٌ یُوحٰی کا صاف صاف اعلان فرما دیا گیا ہے، اور احادیث شریفہ کا ایک حصہ ایساہے، جس کی براہ راست حق تعالیٰ سے نسبت ہے، ان کو حدیث قدسی کہا جاتا ہے، لیکن اس سب کے باوجود، احادیث شریفہ کے متعلق بے شمار مباحث وسوالات، ان کی صحت و عدم صحت کے مدارج، ان کے نقل کرنے والوں کے نام، ان کی نسبتیں، ان کے باہمی امتیازات، اور پھر ان میں سے، ہر ایک کی نقل کی ہوئی روایات کی حیثیت، خاص طور سے، احادیث شریفہ کے جو مجموعے مرتب کئے گئے اور معروف ہیں، ان کے راویوں کے ناموں، نسبتوں اور ان کے متعلقات میں، وسیع و کثیر اختلافات ہیں، اختلافات بھی ایسے کہ حدیث کی صحت اور درجہ معلوم کرنے، یا اس روایات کے نقل کرنے والے کے، نام ونسب میں معمولی سا فرق اور ایک دوسرے کے نام میں مغالطہ و متشابہ لگنے سے، اور بے ترتیبی ہو جانے کی وجہ سے، تمام معاملہ اور استدلال بدل جاتا ہے۔ اس لئے اول تو حضرت محدثین کرام نے، حدیث شریف کے، تمام چھوٹے بڑے راویوں کے نام، ان کے حالات اور ان کے باہمی امتیازات، دیانت، سچائی، احتیاط، بے احتیاطی، نقل روایت میں کمزوری یا کسی طرح کی بھی فروگذاشت کے تذکرے کو نظر انداز نہیں کیا اور ہر چھوٹی بڑی بات جو معلوم تھی، وہ کاغذ پر بغیر کسی کی رعایت کئے، بے کم وکاست رقم کر دی۔ جس کا پوری امت کو قیامت تک بہت بڑا نفع ہوتا رہے گا، اور اس تحقیق کے بعد، احادیث شریفہ میں انسانی مداخلت اور صحت و ضعف کے قواعد میں، ترمیم ممکن نہیں رہی۔

لیکن اس سمندر جیسے وسیع اور ہزار ہا ہزار موتیوں و منافع پر، مشتمل جہان معانی سے استفادہ کرنے کے لئے، بہت اعلیٰ درجہ کی صلاحیت، بہت بڑی گہری نظر، نہایت طاقتور حافظہ، بڑی قوت اخذ واستنباط اور خاص بصیرت چاہئے۔ اس لئے علمائے کرام نے، بیسوں بلکہ پچاسوں ایسی معتبر اور عمدہ کتابیں تصنیف فرمائیں اور ان میں احادیث شریفہ کے مدارج و مراتب، فہم حدیث کے لئے کام آنے والے تمام قواعد، اصول، ضوابط اور نکات، محفوظ و مرتب فرما دئیے ہیں۔

اس طرح کی تالیفات و کتب میں، ہندوستانی علماء اور محدثین کرام کا بھی قابل قدر حصہ ہے۔ ایسی ہی نہایت مفید اور علمی رہنمائی سے پر، ایک تالیف، حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی ’’عجالۂ نافعہ‘‘ بھی ہے۔ عجالۂ نافعہ اپنے موضوع کا ایک چھوٹا سا رسالہ ہے، جس کو دریا بہ کوزہ کی ایک عمدہ مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔

اس مختصر سی کتاب میں، شاہ صاحب نے سب سے پہلے، حدیث کی کتابوں کا تذکرہ کیا ہے کہ، حدیث کی کتابیں کس کس طرح، مرتب و تالیف کی گئیں، مختلف ترمیمات پر مرتب مجموعوں کو کیا کیا نام دئیے گئے، اس تالیف کی، ایک بہت بڑی اہم اور خاص بات، جس کا حدیث کی کتابوں کی تعلیم و مطالعہ میں، خیال رکھنا بے حد ضروری ہے، وہ ان کتابوں میں درج احادیث کے راویوں کے نام، صحیح جاننے اور پڑھنے کی ترتیب ہے۔

اگرچہ اس کے لئے قدیم ائمہ فن اور محدثین نے، بڑی بڑی تحقیقات کی ہیں اور چھوٹی چھوٹی نادر باتوں کی صحیح واقفیت، ان کی نسبتوں اور ان کے متعلقات کو، بلا مغالطہ کے جاننے کے لئے، بے حد کاوشیں فرمائی ہیں، ان میں سے کچھ اہم باتوں کا، حضرت شاہ صاحب نے بھی، اپنی اس مختصر تالیف میں تذکرہ فرما دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ راویان حدیث میں کون سے نام کو، کس لفظ کو کس طرح پڑھا جائے گا۔ مثلاً فرماتے ہیں، کہ مؤطا اور صحیحین میں جہاں لفظ ’’بَسِر‘‘ آئے اس کو با کے زبر اور سین کے زیرسے، پڑھنا چاہئے، مگر چار راویوں کے نام، ب کے پیش اور سین بلا نقطہ سے آئے ہیں۔

کتب حدیث کے الفاظ اور سندوں میں اس قسم کی اور بہت سی نزاکتیں اور باریک پہلو ہیں، جن کا، حدیث کے ابتدائی طالب علموں کو، ہمیشہ بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔ احادیث شریفہ اور ان کی سندوں میں کئی موقعوں پر، بظاہر بہت معمولی سا فرق ہے، مگر اس فرق کو نہ جاننے راوی کو صحیح طورسے نہ پہنچانے، یا زیر و زبر کی غلطی سے، بات کہیں سے کہیں چلی جاتی ہے، اس لئے ایسے تمام لاحقوں، ناموں اور نسبتوں کا صحیح جاننا، پڑھنا بے حد ضروری ہے۔

اس رسالہ:’’ عجالۂ نافعہ ‘‘کا، حضرت شاہ عبد العزیز کے درس اور ان کے خاندان میں، سبقاًسبقاً پڑھنے پڑھانے کا مستقل معمول تھا، اور استاذ بھی اپنے شاگردوں کو پڑھاتے رہے، ادھر ایک عرصہ سے، اس کے باقاعدہ درس کا تو معمول نہیں ہے، لیکن طلبائے حدیث کے لئے اس کی افادیت و اہمیت اسی طرح باقی ہے اور باقی رہے گی۔

عجالۂ نافعہ، مطبع مصطفائی کان پور سے، جمادی الاخریٰ۱۲۵۵ھ؁[اگست، ستمبر۱۸۳۹ء] پہلی مرتبہ چھپا تھا، اس کی نقلیں کثرت سے تیار ہوئیں، طباعت کاسلسلہ بھی جاری رہا۔

چالیس پچاس سال پہلے تک، مدرسوں کے طلباء اور ہندوستان میں، حدیث شریف کی تعلیم وتدریس سے وابستہ اصحاب، عموماً فارسی کا ذوق رکھتے تھے، اس لئے اس کے ترجمہ کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، اب عرصہ سے فارسی کا پڑھنا پڑھانا ختم ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے اس طرح کی کتابوں کے اردو ترجموں کاسلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اسی خیال سے تقریباً پچاس سال پہلے، حدیث کے محقق عالم، مولانا عبد الحلیم صاحب چشتی نے، اس کا اردو میں ترجمہ کیا تھا، اور ’’فوائد جامعہ‘‘ کے نام سے اس کی بہت مفصل پر از معلومات، جامع شرح لکھی تھی۔ جو ۱۳۸۳ھ؁ [۱۹۶۴ئ] میں پہلی مرتبہ کراچی سے چھپی تھی، بعد میں ہندوستان میں بھی طبع ہو گئی تھی، اب یہ دونوں ہی طباعتیں کم یاب ہیں۔ فوائد جامعہ بڑی کتاب ہے، اس کی اشاعت ایک مستقل کام ہے لیکن اصل رسالہ ’’عجالۂ نافعہ‘‘ کی افادیت کا تقاضہ تھا اس کو بار بار شائع کیا جائے اور حدیث شریف کے اسباق اور تعلیم سے وابستہ اہل علم اس کو برابر مطالعہ میں رکھیں۔ مولوی حماد کریمی ندوی صاحب نے اس ضرورت کا خیال کیا اور وہ مولانا عبد الحلیم چشتی کے ترجمۂ عجالہ نافعہ، فوائد جامعہ سے علیحدہ کر کے شائع کر رہے ہیں۔ جزاہ اللّٰہ تعالیٰ وبارک فی علمہ۔

امید ہے کہ حدیث شریف کے طلبہ اس سوغات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے، حماد کریمی صاحب نے کتاب کے شروع میں حضرت شاہ عبد العزیز کے حالات خاصے تفصیل سے لکھ دئیے ہیں، اگرچہ اس کی بعض اطلاعات درست نہیں، تاہم امید ہے کہ آئندہ اشاعتوں میں اس کو نظر ثانی کے درست اور زیادہ مفید بنا دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ عجالہ نافعہ کی اس پیشکش کو قبول فرمائے اور اس سے سب کو استفادہ کا موقع بخشے۔

نورالحسن راشد کاندھلوی

مولویان۔ کاندھلہ، ضلع شاملی، یوپی انڈیا

۔۔۔۔۔

(۱)یہ نسخہ چھتیس صفحات پر مشتمل ہے، اور صحت کے علاوہ حسن طباعت میں بھی بے نظیر ہے، اسی کے ساتھ رسالہ اصول حدیث، شیخ عبد الحق محدث بھی چھپا تھا، اس طباعت کا ایک نسخہ ہمارے ذخیرہ میں موجود ہے۔

 

 

 

 

تمہید

 

سرزمین ہند میں یوں تو بے شمار علماء و فقہا، نیز اصحابِ درس و افتاء اور اربابِ سیف و قلم پیدا ہوئے، مگر ہندوستان کی پوری علمی تاریخ میں حضرت شاہ ولی اللہؒ (م ۱۱۷۶؁ھ) اور ان کی اولاد و احفاد کو جو امتیاز حاصل ہوا، اور ان کے ذریعہ جتنا اور جیسا فیض پہنچا وہ کسی اور کے حصہ میں نہ آسکا، حضرت شاہ ولی اللہؒ کا پورا خاندان ہی ’’ایں خانہ ہمہ آفتاب است ‘‘ کا مصداق ہے۔ (مضمون مولانا برہان الدین صاحب سنبھلی، بعنوان: تکملۂ تفسیر فتح العزیز—ایک تعارف، ص:۲۰۲، پیش کردہ خدا بخش سمینار، ۱۹۸۹ء)

اس خانوادے کے جس قدر احسانات مسلمانانِ ہند پر ہیں اسلامی ہند کی تاریخ انھیں کبھی فراموش نہیں کر سکتی، آج ہندوستان کے جس خطے اور طبقے میں بھی ’’قال اللّٰہ وقال الرسول وعن فلان وعن فلان‘‘ کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں وہ اسی خوش قسمت گھرانے کی صدائے باز گشت ہیں، اندرونِ ملک کے جملہ مکاتب فکر اسی علمی خانوادے کے رہین منت ہیں اور بالعموم حدیث کا سلسلہ اسناد اسی مقدس گھرانے کے افراد پر منتہی ہوتا ہے۔ (شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، حیات اور کارنامے، مضمون مولانا عبد اللہ معروفی صاحب، ص:۴۵)

نواب صدیق حسن خان والیِ بھوپال اپنی کتاب’’ اتحاف النبلاء‘‘ میں فرماتے ہیں :

’’ہندوستان کے علم و عمل کا سلسلہ ان (شاہ عبد العزیز) تک اور ان کے بھائیوں تک پہنچتا ہے، ہند و بیرونِ ہند کے علماء میں کم ایسے ہوں گے جنہیں شاگردی یا استفادۂ باطنی کی نسبت اس خاندان سے حاصل نہ ہو، ان کی شاگردی بڑے بڑے علماء کے لئے باعثِ صد افتخار ہے اور ان کی تصانیف باکمال اہلِ علم کی معتمد علیہ ہے‘‘۔ ( ص: ۲۹۶۔ ۲۹۷)

لیکن ان میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کے فرزندِ اکبر حضرت شاہ عبد العزیز قدس سرہ العزیز کی حیثیت بلاشبہ ستاروں میں آفتاب کی سی ہے، نہ صرف اس لئے کہ اسی چراغ سے خانوادۂ ولی اللّٰہی کے تمام چراغ روشن ہوئے بلکہ اسی سراج منیر سے پورے ہندوستان میں علم کا (بالخصوص علم حدیث کا) چراغاں ہوا، شاید اسی بناء پر انھیں ’’سراج الہند‘‘ کا لقب دیا گیا، ان کو تمام علوم متداولہ میں مہارت تامہ اور کامل دستگاہ حاصل تھی، جن کا دائرہ تاریخ و تذکرہ سے لے کر ریاضی و علم ہیئت تک پھیلا ہوا تھا۔ ( مولانا برہان الدین صاحب، ص:۲۰۲)

ہندوستان میں درسِ حدیث کو عام کرنے والے حضرت شاہ ولی اللہؒ کے بعد سب سے پہلی اور مضبوط کڑی حضرت شاہ عبد العزیزؒ کی ہے، شاہ صاحبؒ نے نصوصِ قرآن و احادیث کی توضیح و تشریح، ان کے مطالب و مفاہیم کو عوام میں پھیلانے اور عمل بالحدیث کی ترویج و اشاعت کا جو شجرۂ طوبی لگایا تھا، آپ کے فرزندِ ارجمند حضرت شاہ عبد العزیزؒ نے اس کی خوب خوب آبیاری کی، اسے پروان چڑھایا اور اس قدر ثمر آور بنا دیا کہ آج تک لوگ اس سے خوشہ چینی کر رہے ہیں، اور اس دریائے علم کے آبِ زلال سے اپنی تشنگی بجھا رہے ہیں، آپ کے دور میں ہندوستان کی دینی، معاشرتی اور تمدنی پستی کس حد کو پہنچ گئی تھی، امراء و اربابِ اقتدار بوالہوسی و ہواء پرستی کے جارحانہ پنجوں میں کس قدر جکڑ بند تھے؟ عوام و خواص ہر ایک میں بدعات و خرافات اور بدعقیدگیوں کے نفوذ کی داستان تاریخ ہمیں بڑی تفصیل سے سناتی ہے، پورا اسلامی معاشرہ غیر اسلامی توہمات میں اس طرح جکڑا ہوا تھا کہ اس کے خلاف آواز بلند کرنا مشکلات و مصائب کو دعوت دینا تھا، ایسے ماحول میں اصلاح و تجدید کی کوشش قرآن وسنت کی تعلیمات کا احیاء درس وتدریس کے ذریعہ، تصنیف و تالیف کے ذریعہ اور وعظ و تلقین کے ذریعہ یقیناً افضل جہاد کا حکم رکھتا تھا۔

شاہ عبد العزیزؒ نے ساری زندگی اسی جہاد میں گزاری جس کی وجہ سے ابتلاء و آزمائش کی پر خار وادیوں سے بارہا گزرنا پڑا، لیکن پائے استقامت میں کوئی جنبش نہیں آئی، اور نہ آگے بڑھا ہوا قدم پیچھے ہٹا، اسلامی تاریخ کا یہ ناقابل فراموش واقعہ ہے، مگر بدقسمتی سے حضرت شاہ صاحبؒ اور ان کے کارناموں سے روشناس کرانے پر جوتوجہ کی گئی وہ ان کی بے لوث خدمات کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہے، اس کتاب کے شروع میں آپ کے حالاتِ زندگی اور کارناموں پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔

 

 

 

حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ: مختصر حالات اور اصلاحی و تجدیدی خدمات

 

ولادت باسعادت

 

حضرت شاہ ولی اللہؒ کی دو شادیاں ہوئی تھیں، پہلی شادی شاہ عبید اللہ پھلتی کی صاحبزادی اور شاہ محمد عاشق کی بہن سے ۱۱۳۸؁ھ مطابق ۱۷۱۷؁ء میں ہوئی تھی، ان کے وصال کے بعد آپ کا دوسرا عقد سیدہ ارادت بنت سید ثناء اللہ سونی پتی سے ۱۱۵۷؁ھ مطابق ۱۷۴۶؁ء میں ہوا، ان کے بطن سے چار صاحبزادے اور ایک صاحبزادی پیدا ہوئیں، سب سے بڑے شاہ عبد العزیزؒ تھے۔

آپ کی ولادت ۲۵؍ رمضان المبارک ۱۱۵۹؁ھ مطابق ۱۰؍ اکتوبر ۱۷۴۶؁ء کو بہ وقت سحر ہوئی، خود حضرت شاہ عبد العزیز صاحب اپنی ولادت کے متعلق فرماتے ہیں :’’مجھ سے پہلے میرے والدین کے بہت سے بچے اللہ کو پیارے ہو گئے تھے، اس لئے والدین اور اعزہ کو اولاد کی بڑی آرزو تھی، چنانچہ میری ولادت کے وقت بہت سے اولیاء اور بزرگ مسجد میں معتکف تھے، جب میں پیدا ہوا تو غسل کے بعد مسجد کی محراب میں ڈال دیا گیا گویا خدا کی نذر کر دیا گیا، پھر ان معتکف بزرگوں نے مجھے محراب سے اٹھا کر اللہ تعالی کی طرف سے میرے والدین کو بخش دیا۔ (ملفوظات، ص:۱۰۹)

 

نام ونسب اور لقب

 

والد بزرگوار نے آپ کا نام عبد العزیز رکھا، لیکن بعض احباب اور رفقاء نے ’’غلام حلیم‘‘ تاریخی نام نکالا، جس سے ۱۱۵۹؁ھ برآمد ہوتا ہے۔

چونتیسویں پشت پر آپ کا سلسلۂ نسب فاروق اعظم عمر بن الخطابؓ سے جا ملتا ہے، آپ کے والد ماجد حضرت شاہ ولی اللہؒ اور جدِ امجد شاہ عبد الرحیمؒ تھے، حضرت شاہ عبد العزیزؒ کی مہر پر یہ نسب نامہ یوں ثبت تھا، ’’ھو العبد العزیز الولی الرحیم‘‘۔

 

حلیہ

 

تذکرہ نگاروں کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب کا قد لمبا، جسم کمزور، رنگ گندمی، آنکھیں نیلگوں اور داڑھی خوب گھنی تھی، بیماریوں سے سابقہ پڑنے کے بعد سے بینائی جاتی رہی۔ (رودِ کوثر، ص:۵۹۰و تذکرہ مفسرین ہند :۲؍۱۷۰)

 

شاہ صاحب کا بچپن

 

شاہ صاحبؒ نے اپنے والد ماجد کی آغوش محبت میں بڑی خوش اسلوبی سے پرورش پائی، اور بچپن کا زمانہ شاہ ولی اللہؒ کے سایۂ عاطفت میں بسر کیا، گو اس وقت تک علم کے جھونکوں نے آپ کے دماغ کو معطر نہ کیا تھا، لیکن آپ کی طبیعت میں چونکہ فطری طور پر علمی ذوق موجود تھا، لہٰذا جوں جوں آپ بڑے ہوتے گئے علمی دنیا کی طرف قدم بڑھاتے گئے۔ (حیات ولی، ص:۵۷۶)

 

تعلیم و تربیت

 

تعلیم و تربیت والد ماجد کی نگرانی میں ہوئی، جو آپ کی ہر نقل و حرکت اور نشست وبرخاست پر کڑی نگاہ رکھتے تھے، شفقت کا یہ عالم تھا کہ بغیر ان کے کھانا نہیں کھاتے تھے، چچا شاہ اہل اللہ بن شاہ عبد الرحیمؒ بھی آپ کی تربیت میں حصہ لیتے تھے، مریضوں کو دیکھنے گھر سے باہر جاتے تو ان کو ساتھ لے لیتے۔ (ملفوظات، ص:۳و۱۳)

جب آپ پانچ سال کے ہوئے تو قرآن مجید پڑھنا شروع کیا، چونکہ آپ کو قدرتی طور پر علم سے زیادہ دلچسپی تھی، اور آپ فطرتاً نہایت ہی تیز ذہن، سلیم الطبع اور خوش فہم تھے، اس لئے بہت ہی مختصر عرصہ میں قرآن شریف پڑھ کر فارغ ہو گئے۔

جب شاہ صاحبؒ قرآن پڑھ کر فارغ ہو گئے تو فارسی کے مختصر رسالوں کی تعلیم آپ کو دی جانے لگی، شاید گیارہ بارہ سال کی عمر ہو گی کہ آپ کو باقاعدہ تعلیم ملنے لگی، اور تیرہ برس کے تھے کہ آپ کو صرف، نحو، فقہ، اصول، منطق، کلام، عقائد، ہندسہ، ہیئت، ریاضی وغیرہ وغیرہ میں کامل مہارت اور عمدہ لیاقت حاصل ہو گئی تھی۔ ( حیاتِ ولی، ص:۵۸۸)

تعلیم کا سلسلہ ابھی چل ہی رہا تھا کہ والد بزرگوار نے دار البقاء کے لئے رختِ سفر باندھا اور سایۂ پدری سر سے اٹھ گیا، تعلیم تقریباً تکمیل کو پہنچ چکی تھی، کچھ تھوڑی بہت رسماً اگر کمی تھی تو اسے اپنے والد ماجد کے اجلۂ تلامذہ شیخ نور اللہ بڈھانوی، شیخ محمد امین کشمیری اور شاہ محمد عاشق پھلتی کے پاس پوری کر لی۔ (مضمون مولانا عبد اللہ معروفی صاحب، ص:۴۸)

 

تعلیم سے فراغت

 

شاہ صاحبؒ جملہ علوم کی تحصیل سے چودہ پندرہ یا سولہ برس کی عمر میں فارغ ہو گئے، اور اسی چھوٹی سی عمر میں پیشوائے مذہبی اور مقتدائے علماء تسلیم کئے گئے، اور حکیم الامت شاہ ولی اللہؒ جیسی جلیل القدر شخصیت کی قائم مقامی کا شرف حاصل ہوا۔ (مضمون مولانا عبد اللہ معروفی صاحب، ص:۵۰)

 

امراض کا ہجوم

 

شاہ صاحبؒ پر والد ماجد کی وفات کے بعد مختلف ذمہ داریوں کا بوجھ ہی کیا کم تھے کہ اللہ کی طرف سے اور ایک آزمائش یہ ہوئی کہ پچیس برس کی عمر ہی میں وہ متعدد موذی امراض کے شکار ہو گئے، اور آخر عمر تک اس میں گرفتار رہے۔ (تذکرۂ مفسرین ہند: ۲/۱۶۸)

مولانا عبد الحیِ حسنی فرماتے ہیں :

’’پچیس برس کی نوعمری ہی میں ان پر متعدد موذی بیماریوں کا حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں ان کو مراق، جذام اور برص ہو گیا، اور بصارت بھی جاتی رہی، غرض چودہ قسم کے موذی امراض میں وہ مبتلا تھے‘‘۔ (نزھۃ الخواطر:۷/۲۷۰)

 

ذکاوت و طباعی

 

آپ کا حافظہ غضب کا تھا، آپ کے واقعات و احوال کا تفصیلی مطالعہ کرنے والا جب آپ کی قوت حفظ اور یادداشت کے حیرت انگیز واقعات پڑھتا ہے، تو اس کے ذہن میں امام بخاریؒ اور دیگر حفاظِ حدیث کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ (مضمون مولانا عبد اللہ معروفی صاحب، ص:۵۰)

آپ کے حافظہ کی کیفیت سر سید احمد دہلویؒ نے ان الفاظ میں بیان کی ہے:

’’حافظہ آپ کا نسخہ لوح تقدیر تھا، بارہا ایسا ہوا کہ کتبِ غیر مشہورہ کی اکثر طویل عبارات اپنی یاد کے اعتماد پر طلبہ کو لکھوا دیں اور جب اتفاقاً کتابیں دستیاب ہوئیں تو دیکھا گیا کہ جو عبارات آپ نے لکھوا دی تھی اس میں من و عن کا فرق نہ تھا‘‘۔ (آثار الصنادید، ص:۴۰)

شاہ صاحب کے ملفوظات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بڑے زندہ دل، بیدار مغز اور حاضر جواب تھے، آپ کے زمانہ میں شیعہ سنی مباحثے زوروں پر تھے، اور عیسائیوں اور مسلمانوں کے مباحثے شروع ہو گئے تھے، آپ کے پاس بھی لوگ اپنے اعتراضات و اشکالات کی گتھیاں سلجھانے آتے تھے جنہیں آپ ٹھوس دلائل سے رد کرنے کے بجائے اس طرح چٹکیوں میں حل کر دیتے تھے کہ معترض قائل بھی ہو جاتے تھے اور لا جواب بھی۔ (مضمون مولانا عبد اللہ معروفی صاحب، ص:۵۰)

چند ایک نمونے ملاحظہ ہوں :

۱۔ ایک دفعہ ایک پادری صاحب شاہ صاحب کی خدمت میں آئے اور سوال کیا کہ کیا آپ کے پیغمبر حبیب اللہ ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ہاں ! وہ کہنے لگا تو پھر انھوں نے بوقتِ قتلِ امام حسین فریاد نہ کی؟ یا یہ فریاد سنی نہ گئی؟ شاہ صاحب نے فرمایا کہ نبی صاحب نے فریاد تو کی، لیکن انہیں جواب آیا کہ تمھارے نواسے کو قوم نے ظلم سے شہید کیا ہے لیکن اس وقت ہمیں اپنے بیٹے عیسیٰ کا صلیب پر چڑھنا یاد آ رہا ہے، پادری صاحب مبہوت رہ گئے، اور دو ہزار روپئے شرط کے ادا کئے۔ (کمالات عزیزی، ص: ۳)

۲۔ ایک شخص آپ کے پاس کسی مصور کی کھینچی ہوئی ایک تصویر لایا اور کہنے لگا کہ یہ تصویر جناب رسالت مآبﷺ کی ہے، اسے کیا کرنا چاہئے؟ آپ نے کہا کہ پیغمبرﷺ باقاعدہ غسل کرتے تھے اس تصویر کو بھی غسل دے کر دھو ڈالو۔ (کمالات عزیزی، ص:۴)

۳۔ ایک دفعہ ایک ہندو گاڑی بان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میری ایک بات بتلاؤ کہ خدا ہندو ہے یا مسلمان؟ آپ نے فرمایا کہ جو میں کہوں اسے خوب سوچ لینا اور وہ یہ ہے کہ اگر خدا ہندو ہوتا تو گؤ ہتھیا کبھی نہ ہوتی۔ (کمالات عزیزی، ص: ۵۲)

اس بیدار مغزی اور ذکاوت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی فراست و نبض شناسی کا ملکہ بھی عطا فرمایا تھا، چناں چہ تعبیر خواب میں آپ کو یکتائی و انفرادیت حاصل تھی، بسا اوقات کسی خواب کی تعبیر ایسی دیتے کہ ماہرین تعبیر بھی حیران رہ جاتے، اس واقعہ سے آپ کے اس کمال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ایک صاحب نے خواب دیکھا کہ جناب رسول اللہﷺ میرے مکان میں تشریف لائے ہیں، اور فلاں کمرہ میں بیٹھے ہیں، اس کی تعبیر میں شاہ عبد العزیز صاحب نے فرمایا کہ تم فوراً جا کر اپنا تمام سامان اس کمرہ سے نکال لو، اور اس کو بالکل خالی کر دو، انھوں نے ایسا ہی کیا، اس کے بعد وہ کمرہ فوراً گر گیا، اور اس کو یہ تعبیر سمجھ میں نہیں آئی، کیونکہ ہزاروں لوگ جناب رسول اللہﷺ کو خواب میں دیکھتے ہیں اور کچھ بھی ضرر نہیں ہوتا، آپ نے فرمایا کہ اس وقت بے اختیار یہ آیت ذہن میں آ گئی تھی {ان الملوک اذا دخلوا قریۃ افسدوھا}(امیر الروایات، ص: ۳۹)

 

زور تقریر

ابتدا ہی سے آپ کی تقریر شستہ اور منجھی ہوئی تھی، جسے سن کر بڑے بڑے فضلاء محوِ حیرت ہو جاتے، اور جناب شاہ ولی اللہؒ سمیت تمام حاضرینِ درس کی متعجبانہ نظریں آپ کی پر مغز اور قیمتی تقریر پر پڑتیں۔ (حیاتِ ولی، ص: ۵۹۰)

آپ کی تقریر میں جادو تھا، جس کا مخالف و موافق پر یکساں اثر پڑتا تھا، آپ کی شیوا بیانی اور سلجھی ہوئی تقریر کی تمام ہندوستان میں دھوم مچی ہوئی تھی، اور یہ بات تمام لوگوں میں مشہور تھی کہ شاہ عبد العزیز صاحبؒ نے وہ طرزِ بیان اختیار کیا ہے کہ ان کی مجلسِ وعظ سے ہر مذہب و ملت کا شخص خوش ہو کر اٹھتا ہے، متعصب اور ہٹ دھرم لوگ بھی آپ کی بات بلا تردد تسلیم کرتے اور حسنِ تقریر کے آگے فوراً سر جھکا دیتے تھے۔

 

شاہ صاحب بحیثیت مؤرخ و جغرافیہ داں

 

شاہ عبد العزیز صاحبؒ کے خاندان میں علوم نقلیہ کے ساتھ ساتھ علوم عقلیہ کا بھی رواج تھا، اور جناب شاہ ولی اللہ صاحبؒ کی درس گاہ میں جہاں حدیث وتفسیر کو بڑے زور و شور سے پڑھایا جاتا تھا، وہیں منطق و ریاضی کی بھی تعلیم دی جاتی تھی، یہی وجہ تھی کہ شاہ عبد العزیز صاحبؒ چھوٹی سی عمر میں ایک لائق ریاضی داں اور قابل منطقی بن گئے تھے، اور تاریخ و جغرافیہ میں بھی وہ بے نظیر تھے۔ (حیاتِ ولی، ص: ۵۹۲)

 

تبحر علمی

آپ کی معلومات بے حد وسیع تھیں، اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ دیگر علوم میں بھی مہارت تامہ رکھتے تھے، خود فرماتے ہیں : ’’جو علوم میں نے مطالعہ کئے ہیں اور اپنی استعداد کے مطابق مجھے یاد بھی ہیں، ان کی تعداد ایک سو پچاس ہے، ان میں نصف کے قریب ایسے علوم ہیں جو امت اسلامی کی تخلیق ہیں، اور باقی نصف دوسری امتوں کے۔ ‘‘(نظام تعلیم و تربیت:۵۶)

آپ علمِ تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت اور تاریخ میں شہرۂ آفاق تھے اور ہیئت، ہندسہ، مناظرہ، اصطرلاب، جر ثقیل، طبیعیات، الٰہیات، منطق، اتفاق و اختلاف، ملل و نحل، قیافہ، تاویل، تعبیر، تطبیقِ مختلف اور تفریقِ مشتبہ میں یکتائے زمانہ تھے۔ (علم و عمل: ۲/۲۴۶)

شاہ صاحبؒ کی فراوانی علوم و فنون کے باعث تمام اہلِ علم، سلاطین و امراء اور شیعہ وسنی حضرات ان کی مدح سرائی میں رطب اللسان رہتے تھے، بلا شبہ وہ میدان علم و فضل کے نامور شہسوار اور جامعیت میں اپنی مثال آپ تھے۔ (شاہ عبد العزیز دہلوی اور ان کی علمی خدمات، ص:۱۰۴)

 

شاہ صاحب زبان و ادب کے میدان میں

 

شاہ صاحبؒ کے عہد میں اردو زبان خاصی مقبول ہو چکی تھی، اس دور کے نامور شعراء کے نزدیک شاہ صاحبؒ نہایت عزت و وقار کا مقام رکھتے تھے، شاہ عبد العزیزؒ اور آپ کے بھائی شاہ عبد القادرؒ اردو زبان سیکھنے کے لئے خواجہ میر درد کی خدمت میں جایا کرتے تھے، اور ان کی مجلس میں بیٹھ کر اردو کے محاور ات پوری توجہ سے سنتے تھے، شاہ ولی اللہؒ اس فن (اصولِ زبان ) کے بارے میں اپنے بچوں سے فرمایا کرتے تھے کہ ’’جس طرح اصولِ حدیث اور اصولِ فقہ فن ہیں، اسی طرح اصولِ زبان بھی ایک فن ہے، اور اردو زبان کے موجد اور مجتہد میر درد ہیں، آپ کی صحبت کو اس فن کے واسطے غنیمت سمجھو‘‘ (لال قلعہ کی ایک جھلک، ص: ۸۸ و شاہ عبد العزیز دہلوی اور ان کی علمی خدمات، ص: ۱۰۴)

شاہ صاحب اپنے دور کے اردو ادب پر بہت اچھی نگاہ رکھتے تھے، اس دور کے بڑے بڑے اردو دان اور شعراء و فصحاء اپنے کلام کی اصلاح کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔   (شاہ عبد العزیز دہلوی اور ان کی علمی خدمات، ص:۱۰۵)

اس سلسلہ میں آپ کی عظمت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ جب شاہ نصیرؔ دہلویؒ نے ذوق کی غزل درست کرنے سے انکار کر دیا تو ذوق دہلی کے سب اساتذہ کو چھوڑ کر آپ ہی کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور جب آپ نے اس کے متعلق تسلی کر دی تو ذوق نے کسی سے اصلاح لئے بغیر بے دھڑک مشاعرے میں پڑھ دیا۔

اس زمانے کے شعرائے کرام تو شاہ صاحبؒ کی زبان دانی کے معترف تھے ہی، اس دور کے امراء اور شہزادے بھی آپ کی علمی لیاقت کی شہرت و ناموری سے متاثر ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔

اردو زبان کے ساتھ ساتھ شاہ عبد العزیزؒ فارسی زبان میں بھی خاص دلچسپی رکھتے تھے، شاہ صاحبؒ نے قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد فارسی کے مختصر رسائل بھی تھوڑے عرصے میں پڑھ لیے تھے، (شاہ عبد العزیز دہلوی اور ان کی علمی خدمات، ص: ۱۰۶)

خود شاہ عبد العزیزؒ فارسی زبان سیکھنے اور اس پر قدرت رکھنے کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں :

’’میرے والد ماجد کے متوسلین میں سے ایک عورت لاڈلی خانم تھی، ہم (بچوں ) سے اس کو بہت محبت تھی، ہم بھی اس سے فارسی قصوں کی فرمائش کرتے تھے، اور ہم نے فارسی زبان اس عورت سے سیکھی ہے ‘‘ (ملفوظات، ص: ۵۶)

عربی زبان پر بھی شاہ صاحب کو مکمل دسترس حاصل تھی، اور حفظِ قرآن سے فراغت کے بعد اپنی جولانیِ طبع اور تیزیِ ذہن کے باعث گیارہ سال کی عمر میں فارسی کتب کے ساتھ ساتھ عربی زبان کی ابتدائی کتابوں پر بھی عبور حاصل کر لیا تھا، آپ کے تذکرہ نگاروں میں سے اکثر نے بطور نمونہ کچھ نہ کچھ عربی اشعار اور نظموں کا ضرور ذکر کیا ہے۔

شاہ عبد العزیز صاحب عبرانی زبان بھی جانتے تھے، ان کے ملفوظات میں خود ان کی زبانی یہ الفاظ درج کئے گئے ہیں : ’’اکابر علماء میں سے عبرانی جاننے والے ایک فاضل میرے پاس آئے، میں نے ان سے توریت کی تحقیق کی جو عبرانی زبان میں ہے، چنانچہ انھوں نے توریت کی چند آیتیں معہ ترجمہ کے پڑھ کر سنائیں ‘‘۔ (ملفوظات، ص:۲۷)

اس سلسلہ میں اس بات کا ذکر بے جا نہ ہو گا کہ شاہ صاحب کے نزدیک انگریزی پڑھنے اور لکھنے اور سیکھنے میں کچھ بھی قباحت نہیں تھی، چنانچہ جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے دہلی میں کالج قائم کیا اور مسلمان اس کالج میں تعلیم حاصل کرنے پر آمادہ نہ ہوئے تو شاہ صاحب نے ان کے شکوک و شبہات کو رفع کر کے دہلی کالج سے استفادہ کرنے کی تلقین کی۔ (شاہ عبد العزیز دہلوی اور ان کی علمی خدمات، ص:۱۲۸)

 

شاہ صاحب اور علم موسیقی

 

شاہ عبد العزیزؒ ان تمام علوم میں مہارت تامہ رکھنے کے علاوہ علم موسیقی میں بھی یگانۂ روزگار تھے، آپ کو یہ فن دوسرے علوم و فنون کی طرح اپنے والد بزرگوار سے وراثتاً ملا تھا، شاہ ولی اللہ کے فن موسیقی میں ذوق ودلچسپی کا اندازہ ان کی تصنیف ’’الفوز الکبیر‘‘ سے ہوتا ہے، جس میں وہ یونانیوں کے گانوں کے طریقے اور قواعد بھی بیان کرتے ہیں، اور اہلِ ہند کے مختلف راگوں سے اخذ کردہ راگوں اور راگنیوں کا تذکرہ بھی خاص انداز میں کرتے ہیں۔

صاحب نزھۃ الخواطر حضرت شاہ عبد العزیزؒ کے اس فن کے بارے میں فرماتے ہیں :’’ ان کو تیر اندازی، گھڑسواری اور موسیقی میں مہارت حاصل تھی‘‘۔ (نزہۃ الخواطر:۷/۲۶۹)

 

درس وتدریس اور افادۂ عام

 

اوائل عمر ہیں کثرتِ امراض کے باوجود شاہ صاحبؒ نے مدۃ العمر درس و افادہ کا بازار گرم رکھا، اور اپنے والد کے جانشین مقرر ہوئے، بیماریوں سے نڈھال ہو کر مدرسہ کی ذمہ داری اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں شاہ رفیع الدین اور شاہ عبد القادر کے سپرد کر دی مگر خود بھی اس سے وابستہ رہے۔ (تذکرۂ مفسرین ہند:۲/۱۶۸)

صاحب نزھۃ الخواطر کا بیان ہے کہ :

’’(بیماریوں )کے سبب سے اپنے مدرسہ میں درس تدریس کا باضابطہ مشغلہ اپنے دونوں بھائیوں شاہ رفیع الدین اور شاہ عبد القادر کے سپرد کر دیا، مگر خود بھی درس وتدریس، تصنیف و تالیف اور وعظ و افتا میں مشغول رہتے تھے‘‘۔ (نزھۃالخواطر: ۷/ ۲۷۰)

آپ کے مدرسہ کی روحانی کیفیت، تشنگانِ علوم کی پروانہ وار آمد اور شاہ صاحبؒ کی ان مہمانان رسول کی خدمت کا نقشہ مصنف ’’حیات ولیؒ ‘‘ نے بڑے اچھے انداز میں کھینچا ہے، فرماتے ہیں :

’’جناب شاہ ولی اللہؒ کے انتقال کے وقت آپ کی عمر سترہ برس کی تھی، اس چھوٹی سی عمر میں لوگ آپ کے پاس تعلیم پانے کے لئے آنے لگے اور سب نے آپ کو مقتدا تسلیم کر لیا، آپ نے والد کی جگہ بیٹھ کر نہایت مستعدی اور سرگرمی کے ساتھ طلبہ کو پڑھانا شروع کیا، اور حدیث وتفسیر کے علاوہ دیگر مروجہ علوم کا درس دینے لگے، شوقین طلبہ دور دور سے آتے اور آپ کی درسگاہ میں داخل ہونے کو ذریعۂ فخر سمجھتے، چوں کہ آپ طلبہ کے ساتھ نہایت مہربانی اور کریمانہ اخلاق کے ساتھ پیش آنے کے علاوہ بڑی محنت اور جانکاہی سے پڑھاتے تھے، اس لیے اب یہ مدرسہ انتہا درجہ شہرت پکڑ گیا تھا، ہر وقت آپ کی درسگاہ اور مکان کے دروازہ پر طلبہ کا ہجوم رہتا اور لوگ جوق جوق حاضر ہوتے۔ (حیاتِ ولی، ص:۳۲۴)

درس میں انہماک کا عالم یہ تھا کہ کثرتِ امراض کے باوجود محض طلبہ کی فلاح و کامرانی کے پیش نظر عین بیماری کی حالت میں بھی یہ سلسلہ جاری رہتا، مولانا مناظرا حسن گیلانیؒ لکھتے ہیں :

’’بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت شاہ عبد العزیز قدس سرہ کو چوبیس گھنٹے میں تھوڑی دیر کے لئے اختلاج کا دورہ جونہی شروع ہوتا، شاہ صاحب قبلہ مکان سے باہر نکل کر جامع مسجد تک ٹہلتے تھے، لیکن اس ٹہلنے کے زمانے میں بھی ثقات سے سنا گیا ہے کہ ادب کی مشہور کتاب مقاماتِ حریری کا درس بحالت مشی جاری رہتا، حریری کے پڑھنے کا وقت ہی یہ مقرر تھا، خم خانوں کو جن پینے والوں نے خالی کیا یہ وہ لوگ تھے۔ آہ !

اب ا نہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر‘‘۔   (نظام تعلیم و تربیت، ص :۴۴۲)

طلبہ کے علاوہ عوام الناس کے افادے کے لیے ہفتہ میں دو مرتبہ سہ شنبہ اور جمعہ کو درس گاہ میں مجلسِ وعظ منعقد فرماتے تھے، جس میں بے شمار شائقین شریک ہوتے تھے۔   ( دائرۂ معارف:۱۱/۶۴۵)

آثار الصنادید اور حیات ولی کے مصنفین نے آپ کی مجلس وعظ کا ذکر اس طرح کیا ہے :

’’ہفتہ میں دو بار دہلی کوچہ چیلان پرانے مدرسہ میں مجلس وعظ منعقد ہوتی تھی، جس میں خواص و عوام جمع ہوتے تھے، آپ کی معجزانہ تقریر میں وہ اثر ہوتا تھا کہ مخالفین گھروں سے اعتراض کا ارادہ کر کے چلتے لیکن وہاں بجز سکوت اور تسلیم کے کسی کو دم مارنے کی گنجائش نہ ہوتی۔ (آثار الصنادید، ص: ۴۱و حیاتِ ولی، ص:۵۹۸)

شاہ عبد العزیزؒ کو قرآن مجید کے درس سے خاص شغف تھا، ان کے نواسے اسحاق بن افضل روزانہ ایک رکوع قرآن مجید ان کی مجلس میں تلاوت کرتے تھے، جس کی تفسیر شاہ صاحب بیان کرتے تھے، درس قرآن کا یہ سلسلہ شاہ ولی اللہؒ کے زمانے سے چلا آ رہا تھا، مقالات طریقت کی روایت کے مطابق شاہ ولی اللہ کا آخری درس سورۂ مائدہ کی آیت ’’اعدلوا ھو اقرب للتقویٰ‘‘ پر تھا، وہیں سے شاہ عبد العزیزؒ نے اپنا درس شروع کیا، اس کا اختتام سورۂ حجرات کی آیت ’’ان اکرمکم عنداللّٰہ اتقاکم‘‘ پر ہوا، ان کی وفات کے بعد اس سلسلہ کو ان کے نواسے شاہ اسحاق بن افضل نے مکمل کیا۔ (تذکرہ مفسرین ہند: ۲؍ ۱۶۹)

عوام تک قرآن مجید کو پہنچانے اور اس کے ذریعہ عقائد باطلہ ورسوم فاسدہ کی اصلاح اور خلق خدا کو اس کے مالک حقیقی سے جوڑنے کا جو عظیم اصلاحی کارنامہ شاہ صاحب نے انجام دیا ہے، اس کی کوئی نظیر نہیں۔ (مضمون مولانا عبد اللہ معروفی صاحب، ص:۵۹)

حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ اپنی کتاب ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں :

’’قرآن مجید کے ذریعے تطہیر عقائد اصلاح اعمال و اخلاق کی سب سے طویل، سنجیدہ و عمیق اور مؤثر و وقیع کوشش خاندان ولی اللٰہی کے سب سے بڑے فرد اور حضرت شاہ ولی اللہؒ کے کاموں کی توسیع و تکمیل کی سعادت حاصل کرنے والے بزرگ شاہ عبد العزیزؒ کے ذریعے انجام پائی، جنہوں نے تقریباً ۶۲۔ ۶۳ سال تک دہلی جیسے مرکزی شہر اور تیرہویں صدی ہجری جیسے زمانے میں درسِ قرآن کا سلسلہ جاری رکھا، اس کو خواص و عوام میں جو مقبولیت حاصل ہوئی، اور اس سے اصلاح عقائد کا جو عظیم الشان کام انجام پایا ہمارے علم میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی‘‘۔ (تاریخ دعوت و عزیمت: ۵؍۱۵۰)

شاہ صاحب کے عہد میں قرآن پاک عام طور پر بیماروں کی جھاڑ پھونک کے لئے کھولا جاتا تھا، قرآن سے اس بے توجہی اور بے رخی کو دور کرنے اور اس کی طرف شوق اور رغبت دلانے کے لئے شاہ ولی اللہ نے اس کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا، پھر شاہ عبد القادر اور شاہ رفیع الدین نے قرآن کے اردو تراجم کئے، اور شاہ عبد العزیز دہلوی نے ایک طرف قرآن کا درس دیا تو دوسری طرف اس کی بے نظیر تفسیر لکھی، ان کوششوں کے باعث لوگوں میں قرآن پڑھنے اور سمجھنے کا شوق پیدا ہوا، اور قرآن پاک کی تعلیم کا میلان و رجحان اس حد تک بڑھا کہ مسجدوں اور خانقاہوں میں مدارس اور مکاتب قائم ہو گئے۔ (شاہ عبد العزیز دہلوی اور ان کی علمی خدمات، ص:۱۱۰)

 

درس حدیث

 

یوں تو حضرت شاہ صاحبؒ کے یہاں تمام عقلی و نقلی علوم کے پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ جاری تھا، مگر خاص طور سے درسِ حدیث کو امتیازی شان حاصل رہی ہے، اس زمانہ میں بہت سے طلبہ دوسری جگہوں سے وہاں کے مقامی علماء کے پاس متوسطات کی تعلیم حاصل کر کے خاص طور پر علم حدیث کے لئے دہلی کا سفر کرتے تھے، اور شاہ صاحبؒ کے اسباق میں حاضر ہو کر حدیث کی اجازت حاصل کرتے تھے، اس دور میں کسی فاضل علم دین کے مستند ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ اس نے شاہ عبد العزیزؒ سے بلاواسطہ یا بالواسطہ حدیث پڑھی ہے۔

آپ کا درسِ حدیث نہ صرف اندرون ملک مشہور تھا، بلکہ حجاز ویمن کے محدثین بھی آپ سے متاثر تھے، اور ان کے تلامذہ کو خواہ وہ بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ بے چوں و چرا اپنی سند سے روایت حدیث کی اجازت دے دیا کرتے تھے، مولانا محمد قاسم نانوتوی کا واقعہ ہے کہ سفرِ حج میں ان کی ایک یمنی ضعیف العمر محدث سے ملاقات ہوئی، مولانا نے ان سے حدیث کی اجازت طلب کی، انھوں نے دریافت کیا: تم نے کس سے حدیث پڑھی ہے؟ مولانا نے فرمایا: کہ شاہ عبد الغنی مجددیؒ سے، وہ شاہ عبد الغنیؒ سے ناواقف تھے، اس لئے پوچھا :انھوں نے کس سے پڑھی ؟ مولانا نے فرمایا: شاہ اسحاقؒ سے، وہ شاہ اسحقؒ سے بھی ناواقف تھے، پھر پوچھا: انہوں نے کس سے پڑھی؟فرمایا کہ حضرت شاہ عبد العزیزؒ سے، محدث نے جب ان کا نام سنا تو فرمایا کہ اب میں تم کو سند دے دوں گا۔ (مضمون مولانا عبد اللہ معروفی صاحب، ص:۶۲)

 

اجلۂ تلامذہ

 

درسِ حدیث کی عظیم الشان خدمت کے نتیجے میں آپ نے حدیث کے ایسے اساتذۂ کاملین اور تلامذہ راشدین پیدا کئے، جنہوں نے ہندوستان ہی نہیں حجاز میں بھی درسِ حدیث کا فیض عام کیا، اور ایک عالَم کو مستفید کیا، جن میں ۱۔ مولانا شاہ رفیع الدین ۲۔ شاہ عبد القادر ۳۔ شاہ عبد الغنی (برادران حضرت شاہ عبد العزیزؒ) ۴۔ شاہ محمد اسحق (نواسہ حضرت شاہ عبد العزیزؒ) ۵۔ شاہ محمد یعقوب (برادر شاہ محمد اسحق) ۶۔ مفتی الٰہی بخش کاندھلوی ۷۔ شاہ اسماعیل شہید ۸۔ سید احمد شہید ۹۔ مولانا عبد الحی بڈھانوی (داماد حضرت شاہ عبد العزیزؒ) وغیرہ حضرات قابل ذکر ہیں۔

 

اخلاق و عادات

 

شاہ عبد العزیزؒ صاحبِ تسلیم و رضا اور صبر و شکر کے مجسم پیکر تھے، اوائل عمری سے وہ مختلف امراض وعلل میں مبتلا ہو گئے تھے، مگر اس کے باوجود طلبہ کی تعلیم و تربیت میں برابر مشغول رہے، ان کی زندگی میں ان کے تینوں برادرانِ خورد فوت ہو گئے، جن کی تعلیم و تربیت خود شاہ صاحب کے ہاتھوں انجام پائی تھی، ان کا غم ہی کیا کم تھا کہ اس پر مزید ان کی تینوں صاحبزادیاں ان کے سامنے سپرد خاک کی گئیں، مگر ان تمام حوادث کے باوجود شاہ صاحب نے طلبہ و عوام کے افادے کا سلسلہ مستقل جاری رکھا اور نہایت بشاشت اور وسیع القلبی کے ساتھ اس مقدس فریضہ کی ادائیگی میں مشغول رہے۔ (تذکرۂ مفسرین ہند: ۲؍۱۷۰)

 

جرات و بے باکی اور تدبیر و حکمت عملی

 

حضرت شاہ عبد العزیزؒ کا زمانہ بڑا ہی پر آشوب تھا، اس میں دین حق کی تبلیغ اور برائیوں کے خلاف جہاد بڑے دل گردے کا کام تھا، اور بڑی حکمت عملی اور حزم و تدبر کی ضرورت تھی، اللہ تعالی نے آپ کو علمی لیاقت و صلاحیت کے ساتھ ساتھ حکمتِ عملی، جرات و بے باکی اور حزم و تدبر کی دولت سے بھی نوازا تھا، آپ نے اس کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اعلائے کلمۃ الحق کا مشن جاری رکھا، ذیل کے دو واقعات سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اس زمانے میں ایک طرف روافض و شیعیت کا فتنہ شباب پر تھا، جو اپنے باطل عقائد اور خطرناک نظریات کی سیاہ چادر کاخِ فقیری سے لے کر قصرِ شاہی تک تانے ہوئے تھا، تو دوسری طرف انگریزوں نے مسلمانوں کو سیاسی و معاشی طور پر کمزور کرنے کے بعد ان کے مذہبی شعائر میں دخل اندازی شروع کر دی تھی، حضرت شاہ عبد العزیزؒ نے دونوں کے خلاف محاذ قائم کیا، اور اس سلسلے میں کارہائے نمایاں انجام دئیے۔

مولانا عبد اللہ معروفی صاحب اس پہلے کارنامہ کے متعلق فرماتے ہیں :

’’ رفض و شیعیت کے طوفانِ بلا خیز کا مقابلہ اور صحابۂ کرام اور قرآنِ کریم کو مجروح کرنے والی ناپاک سازشوں کو کچلنے کی طرح تو حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ہی نے ’’ازالۃ الخفاء‘‘ لکھ کر ڈال دی تھی، شاہ عبد العزیزؒ نے جانشینی کا حق ادا کرتے ہوئے اس کی تکمیل و تقویت اپنی اس نادرۂ روزگار تصنیف ’’تحفۂ اثنا عشریہ‘‘ سے کر دی ‘‘۔ (مولانا عبد اللہ معروفی صاحب، ص:۶۹)

مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ نے بجا فرمایا ہے :

’’جس طرح ملا محب اللہ بہاری کی تصانیف (سلم العلوم) اور (مسلم الثبوت ) نے تقریباً سو برس تک علمائے ہند کو اپنی شرح و تحشیہ میں مشغول رکھا اور ان کی بہترین توانائیوں اور ذہانتوں کو مرکوز کر لیا، اسی طرح اس کتاب کے جواب نے ممتاز ترین شیعہ علماء کو تصنیف و تالیف میں مشغول کر دیا‘‘۔ (تاریخ دعوت و عزیمت:۵/۳۶۱ )

دوسرے کارنامہ کے متعلق ’’شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ اور ان کی علمی خدمات ‘‘ کی مصنفہ لکھتی ہیں :

’’شاہ صاحبؒ کا بہت بڑا کارنامہ فتوی دار الحرب ہے، شاہ عبد العزیزؒ کے زمانے میں انگریز اپنا اثرو رسوخ بڑھانے اور عروج و اقتدار قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے، آپ کے دور میں تو دہلی پر انگریزوں کے قبضے اور ان کے ظلم وستم سے حالات مزید خراب ہوتے گئے، ان حالات میں شاہ ولی اللہؒ نے خواص اور امراء کے ذریعے پابندیِ مذہب اور اصلاحِ احوال کے لئے جو انقلابی کوششیں کیں شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے ان کے اس سلسلے کی مساعی ٔ جمیلہ کو عوام الناس کے ذریعے پایۂ تکمیل کو پہنچایا۔

انگریزی حکومت نے ہندوستانی عوام کو فوج میں بھرتی کرنے کے علاوہ دیگر محکموں میں بھی ملازمتیں دینا شروع کر دی تھیں، انگریزوں کا یہ قدم بظاہر رعایا کی فلاح و بہبود کے لئے تھا، لیکن حقیقتاً وہ اسلام اور مسلمانوں کو تباہ وبرباد کرنے کے درپے تھے، شاہ عبد العزیزؒ اور دیگر اربابِ بصیرت انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی ان عیاریوں اور مکاریوں سے بخوبی آگاہ تھے، ان کے زیرِ تربیت بے شمار مشائخ و علماء انگریزوں کے خلاف محاذ آرائی پر اتر آئے، اسی دوران میں شاہ صاحبؒ کی خدمت میں ایک استفتاء پیش ہوا، شاہ صاحبؒ نے انگریزوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اپنی دور اندیشی اور تبحر علمی سے انگریزی حلقۂ اقتدار کو دار الحرب سے تعبیر کیا اور انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا ہر مسلمان کا اولین فرض قرار دیا۔

مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ انگریز حکومت کی طرف سے شاہ صاحب کی حویلی کی ضبطی کے احکام جاری ہوئے تھے، اس کے پس منظر کی مکمل تحقیق تو نہ ہوسکی، غالب گمان یہ ہے کہ مذکورہ دونوں واقعات ہی میں سے کوئی ایک اس کا سبب ہوا تھا۔

 

وفات

 

شاہ صاحب کو اپنے تمام بھائیوں کے مقابلہ میں لمبی عمر نصیب ہوئی، آپ بہت قلیل غذا ، کثیر الامراض تھے، وفات سے کچھ قبل غذا بالکل ترک کر دی تھی، ابتدا میں آپ کو خفیف سی تبخیر ہوئی، پھر آہستہ آہستہ طبیعت کچھ بحال ہوئی، لیکن وقتاً فوقتاً مرض شدت اختیار کر لیتا تھا، اس اضطراری کیفیت میں بھی فرائض وسنن ان کے صحیح اوقات میں ادا کرتے تھے، چنانچہ وعظ کے دن انھوں نے حاضرین سے فرمایا کہ مجھے اٹھا کر بٹھا دو اور دو آدمی میرے مونڈھے پکڑے رہو لیکن جب بیان کرنا شروع کروں تو چھوڑ دو، چنانچہ آپ کے ارشاد کی فوراً تعمیل ہوئی، چنانچہ آپ کمزوری کی اس حالت میں اطمینان سے وعظ فرماتے رہے، وعظ کے بعد ہاتھ اٹھا کر تمام مسلمانوں کے لئے رب ذوالجلال کے حضور نہایت خشوع و خضوع سے دعا کی، اس کے بعد آیت {ذوی القربیٰ والیتٰمیٰ والمساکین وابن السبیل } کی تلاوت فرمائی، پھر آپ کے ارشاد کی تعمیل میں تمام نقد وجنس اور مال واسباب ایک جگہ جمع کر دیا گیا، اور مذکورہ بالا آیت کے مطابق تمام جائز وارثوں کے حصے اپنے ہاتھ سے تقسیم کئے، بعد ازاں معرفتِ الٰہی کے رنگ میں ڈوبے ہوئے چند عربی اور فارسی اشعار نہایت دردناک لہجے میں پڑھے، پھر اپنی تجہیز و تکفین کے بارے میں کچھ ضروری ہدایات دیں کہ مجھے اسی کپڑے کا کفن پہنایا جائے، جس کو میں پہنتا ہوں، نیز غسل کے وقت ارکان غسل میں سے کوئی رکن ترک نہ ہو، سلطانِ وقت کو میری نمازِ جنازہ اور جنازے میں شمولیت کے لئے مدعو نہ کیا جائے، اس کے بعد ذکر و دعا میں مصروف ہو گئے، جس وقت روح نے جسم سے مفارقت کی یہ الفاظ زبان مبارک پر جاری تھے، {توفنی مسلماً والحقنی بالصالحین}اور بالآخر ہندوستان کا یہ آفتابِ علم و حکمت بروز اتوار ۹؍ شوال ۱۲۳۹؁ھ مطابق ۱۸۲۳؁ء کو بعد نماز فجر غروب ہو گیا۔

اس جلیل القدر خاندان کی قابل و لائق، فخر روزگار، فرید العصر اور یگانۂ روزگار شخصیت کی وفات پر تمام لوگوں نے اور خصوصاً اہلِ خانہ نے صبر و استقلال کا پورا مظاہرہ کیا۔

خبر کے پھیلتے ہی ہر طرف کہرام مچ گیا، ہر شخص جنازے کو کندھا دینے میں پہل کئے جا رہا تھا، شاہ محمد اسحق نے ترکمان کے دروازے کے باہر آپ کی نماز جنازہ پڑھائی، پچپن مرتبہ آپ کی نماز جنازہ پڑھی گئی اور پورے ملک سے جوق در جوق لوگ اس میں شامل ہوئے، ’’ انا للہ وانا الیہ راجعون ‘‘، مومن خاں مومن نے آپ کی وفات پر ایک پُر درد اور پُرسوز مرثیہ تحریر کیا، جس کے چند اشعار مندرجہ ذیل ہیں، اور آخری مصرع سے آپ کی تاریخ وفات نکلتی ہے۔

انتخاب نسخۂ دیں مولوی عبد العزیز

بے عدیل و بے نظیر بے مثال و بے مثال

جانب ملک عدم تشریف فرما کیوں ہوئے

آ گیا تھا کہیں مُردوں کے ایمان کے خلل

دست بیداد اجل سے بے سروپا ہو گئے

فقر و دین، فضل و ہنر، لطف و کرم، علم و عمل

 

اولاد

 

شاہ صاحب کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی، صرف تین صاحبزادیاں تھیں جو سب صاحب اولاد تھیں، لیکن شاہ صاحب کی زندگی ہی میں انتقال کر گئیں، بڑی صاحبزادی شاہ صاحب کے برادرِ خورد شاہ رفیع الدین صاحب کے فرزند محمد عیسیٰ سے منسوب تھیں، اور منجھلی شیخ محمد افضل کے نکاح میں تھیں، جن کے بطن سے مولانا محمد اسحٰق صاحب تولد ہوئے جو بعد میں شاہ صاحب کے جانشین قرار پائے، اور تیسری صاحبزادی مولوی عبد الحی بڈھانوی صاحب کے عقد نکاح میں تھیں جن کو حضرت سید احمد شہیدؒ کی معیت و رفاقت کا شرف حاصل ہوا۔

 

عام مقبولیت

 

شاہ صاحب کے فضائل و کمالات اور آپ کے اخلاق عالیہ کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کو آپ سے وہی تعلق تھا جو پروانوں کو شمع کے ساتھ ہوتا ہے، آپ کی ذات والا صفات سے لوگوں کو والہانہ عقیدت و محبت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ آپ کے جنازہ کی نماز پچپن مرتبہ پڑھی گئی، ملک کے گوشے گوشے میں آپ کو محبت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، آپ کو کلکتہ میں کمپنی کے مدرسہ کے لئے علامہ تفضیل حسین کی وساطت سے بلایا گیا جب کہ دہلی میں آپ کے روزگار کا کوئی مستقل سلسلہ نہ تھا، لیکن پھر بھی آپ نے سادہ زندگی اور علوم اسلامی کی اشاعت زیادہ عزیز سمجھی۔

اندرون ہند کو چھوڑیئے دیگر اسلامی ممالک میں آپ کے علم و فضل کا سکہ اس قدر رائج ہو چکا تھا کہ جس مسئلے میں مکہ مدینہ کے علماء میں جھگڑا پڑتا تھا وہ ثالث بالخیر، شاہ ولی اللہ اور شاہ عبد العزیز کو بناتے تھے، چنانچہ ملا رشید مدنی اور شاہ عبد العزیز کے مابین جو خط و کتابت ہوئی ہے اس سے ہم اپنے دعوے کی سندپیش کر سکتے ہیں، ایک خط میں ملا رشیدی نے یہ لکھا ہے:

’’آپ کا کچھ ایسا اثر بلادِ اسلامیہ میں ہوا ہے کہ جب کوئی فتوی دیا جاتا ہے اور علماء اس پر اپنی مہریں کرتے ہیں تو ہر شخص فتوی میں آپ کی مہر کا متلاشی رہتا ہے، اور وہ فتوی جب تک آپ کی مہر ثبت نہ ہو زیادہ وقعت کی نظر سے دیکھا نہیں جاتا، اگر آپ یہاں تشریف لے آئیں تو ہم لوگوں کے لئے بڑے افتخار کی بات ہے اور سلطان ٹرکی بھی آپ کی بڑی عزت کریں ‘‘۔ (مضمون مولانا عبد اللہ معروفی ص:۸۱)

 

تصنیفات و تالیفات

 

ویسے تو حضرت شاہ صاحب کی بیشتر توجہات درس وتدریس اور وعظ و تلقین کے ذریعہ علوم قرآن و حدیث وغیرہ کو زیادہ سے زیادہ سینوں میں منتقل کرنے پر تھیں، لیکن زمانے کے احوال و ظروف نے بسا اوقات مجبور کیا کہ قلم سنبھالیں اور خزانۂ علم کو صرف سینوں میں نہیں بلکہ سفینوں میں بھی منتقل کریں، چنانچہ موقع بموقع مختلف موضوعات پر چھوٹی بڑی کتابیں آپ نے تصنیف فرمائیں، عام طور پر لوگ ان کی تصنیفات سے ناواقف ہیں، جس کی وجہ سے ان کی صحیح قدرو قیمت لوگوں سے پوشیدہ ہے۔

ذیل میں شاہ صاحب کی تصنیفات مع مختصر تعارف کے ذکر کی جاتی ہیں :

۱)تفسیر فتح القدیر : اس کا دوسرا نام ’’بستان التفاسیر‘‘ اور تیسرا نام ’’تفسیر عزیزی‘‘ بھی ہے، یہ حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کی مستقل تصنیف ہے، جسے آپ نے شدت مرض اور ضعف کی حالت میں املا کرایا تھا، اس وقت اس تفسیر کی صرف تین جلدیں عام طور سے دستیاب ہیں۔

کتاب کی اصل زبان فارسی ہے، اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، جتنی جلدیں دستیاب ہیں ان کا ترجمہ بھی اردو زبان میں کئی حضرات نے کیا ہے۔

یہ بیش قیمت جوہر اپنے اندر گوناگوں خصوصیات رکھتا ہے، یہ ان تمام تفاسیر کا لب لباب ہے اور عطر ہے جو کہ نایاب ہیں، حقائق و معارف کا گنجینہ اور بلاغت و معانی کا بے مثال نمونہ ہے، اس میں مخالفین اسلام کے دندان شکن جواب کے ساتھ ساتھ جملہ عقلی و نقلی علوم موجود ہیں۔ (مضمون مولانا عبد اللہ معروفی ص:۶۳-۶۵)

۲) تحفۂ اثنا عشریہ: یہ حضرت شاہ صاحب کی شہرۂ آفاق اور متداول تصنیف ہے، جو علمی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں، یہ کتاب درحقیقت فتنۂ رفض و تشیع کی سرکوبی اور ان کے کفریہ عقائد و اعمال سے حفاظت کے واسطے حضرت شاہ صاحبؒ کی جانب سے امت اسلامیہ کو ایک بیش قیمت تحفہ ہے، جس سے کسی طرح بھی استغنا نہیں برتا جا سکتا، ’’الیانع الجنی‘‘ کے مصنف کتاب کا تعارف کراتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’باریک بیں ماہرینِ فن اور بحث و مناظرہ سے شغل رکھنے والوں کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ کتاب اپنے موضوع پر سب سے ممتاز اور نرالی تصنیف ہے‘‘۔ شاہ صاحب نے اس کتاب میں خالص مثبت انداز میں نفس الامر اور واقع کا اظہار اور مقصودِ اصل کی نشاندہی کی ہے۔

چنانچہ سب سے پہلے شیعیت کے معرضِ وجود میں آنے کا پس منظر اور اس کے مختلف فرقوں اور جماعتوں کا بیان ہے، پھر مذہب شیعہ کے اسلاف وعلماء اور ان کی کتابوں کا تعارف کراتے ہوئے ان طریقوں اور حیلوں کو گنایا گیا ہے جن سے دوسروں کو گمراہ کیا جاتا ہے، اور اپنے خیالات کی ترویج و اشاعت کی جاتی ہے، اس کے بعد خلافت کی بحث اور مطاعنِ صحابہ اور ان کے جوابات پر اکتفا کرنے کے بجائے اصولی مسائل الٰہیات، نبوت، معاد اور امامت پر مستقل ابواب تحریر کئے گئے ہیں، پھر خلفائے ثلاثہ اور ام المؤمنین حضرت عائشہؓ اور دوسرے صحابہ پر شیعوں کی طرف سے جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کا تفصیل سے جواب دیا گیا ہے، پھر شیعہ مذہب کے خواص ومجتھدین کے اوہام و تعصبات اور ان کی غلطیوں اور غلط فہمیوں پر تبصرہ ہے، جو دس قیمتی مقدمات پر مبنی ہے، یہ بحث خاص طور سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔

خود شیعہ علماء کو بھی کتاب کی اس سحر انگیزی، فصاحت وبلاغت اور شاہ صاحب کی فارسی ادبیت کا اعتراف ہے۔ امیر الروایات میں ہے :

’’خانصاحب نے فرمایا کہ جب شاہ صاحب کا تحفہ لکھنؤ میں پہنچا ہے تو لکھنؤ کے نواب نے جو اس وقت برسرِ حکومت تھا مجتہدین شیعہ سے درخواست کی کہ اس کا جواب لکھ دیاجائے، مجتہدین میں سے دلدار علی خاں نے جواب کا بیڑا اٹھایا، لیکن چونکہ تحفہ کی زبان بے نظیر تھی اس لئے مرزا قتیل سے درخواست کی گئی کہ مضامین قبلہ وکعبہ لکھیں اور آپ ان کو اپنی عبارت میں ادا کریں تاکہ مضامین کا جواب مضامین سے اور عبارت کا جواب عبارت سے ہو جائے، مگر قتیل نے عذر کیا اور کہا کہ میں شاہ صاحب کی سی فارسی لکھنے پر قادر نہیں ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب قتیل نے عذر کیا تو ناچار قبلہ وکعبہ نے خود ہی جواب لکھا، اسے نواب نے مرزا قتیل کے سامنے پیش کیا اور پوچھا کہ بتلائیے کیسا جواب ہے؟ مرزا نے کہا کہ اگرناگوار خاطر نہ ہوتو عرض کروں، اجازت ملنے پر عرض کیا کہ سچ تو یہ ہے کہ قبلہ وکعبہ کو کتاب کا نام بھی رکھنا نہ آیا، شاہ صاحب تو تحفہ پیش کر رہے ہیں اور قبلہ وکعبہ اس کا جواب تلوار سے دے رہے ہیں ‘‘(اس کا نام ذوالفقار تھا)۔ (مضمون عبد اللہ معروفی صاحب، ص :۷۴)

۳) بستان المحدثین :یہ شاہ صاحبؒ کی ایک لاجواب تصنیف ہے، جو محدثین کے حالات کا ایک جامع مجموعہ ہے، اس کتاب میں شاہ صاحبؒ نے تقریباً ایک سو کتبِ حدیث کا تعارف کراتے ہوئے ان کے مصنفین کی سوانح عمریاں نہایت تفصیل سے بیان کی ہیں، صاحب ’’حیات ولی‘‘ کا دعوی ہے کہ : ’’بارہویں صدی کے بعد جو کتابیں سلف کی یادگار میں لکھی گئی ہیں وہ سب اسی سے اخذ کی گئی ہیں ‘‘۔

یہ کتاب مصنف کی دینی وعلمی تحقیقات اور تاریخ پر ان کے عبور ومہارت پر دلالت کرتی ہے، نیز دلکش اور خوبصورت اندازِ بیان کی وجہ سے یہ بے نظیر اور لاجواب تصنیف ہے۔

شاہ عبد العزیزؒ نے کتاب کے آغاز میں اس کا مقصدِ تالیف بیان فرمایا ہے کہ’’ اکثر رسائل و تصنیفات میں ایسی کتابوں سے احادیث نقل کی جاتی ہیں کہ ان (احادیث) کا مطالعہ کرنے والے متعلقہ کتب کے پردۂ تاریکی میں ہونے کے باعث حیرت واستعجاب کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں، چنانچہ ان کتابوں کے تذکرہ کے ساتھ ہی ان مصنفین کی شہرت کی وجہ سے ان کے حالاتِ زندگی کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے، علم حدیث کے مطالعہ سے قبل اس کتاب کا بنظر غائر مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ محدثین اور ان کی تصانیف کے بارے میں معلومات حاصل ہوسکیں۔ (شاہ عبد العزیز دہلوی اور ان کی علمی خدمات، ص:۲۶۴)

۴)فتاوی عزیزی : شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کی مذہبی اور علمی جواہر ریزوں پر مشتمل فارسی تصنیف ’’فتاویٰ عزیزی‘‘ کی دو جلدیں آپ کے تبحر علمی کا نچوڑ اور دینی معلومات کا وقیع سرمایہ ہیں، فقہ و عقائد، تفسیر و تشریح اور تصوف و کلام کے اس مقبول و معروف دینی و علمی مجموعے سے ملت اسلامیہ کے تمام طبقات کے علماء وطلباء اور متلاشیانِ حق ہر دور میں مستفید ہوسکتے ہیں، شرعی احکام اور عجیب و غریب مسائل دینیہ کے تحقیقی جوابات پر مشتمل آپ کا یہ بیش بہا علمی خزانہ آپ کے تبحر علمی کا واضح ثبوت ہے، شاہ صاحب اپنے زمانے میں ہمیشہ ہندوستانی مسلمانوں کے درس وتدریس، افتاء و فصل خصومات اور ان کی تعلیم و تربیت میں مصروف رہے، علاوہ ازیں مسلمانوں کے وسیع پیمانے پر سوالوں کے جواب دینا آپ کی تمام علوم ظاہری و باطنی میں کامل مہارت کی ایک پختہ دلیل ہے۔

۵) ما یجب حفظہ للناظر : عربی زبان میں صرف دو صفحوں کا مختصر رسالہ ہے، جو طلبۂ حدیث کے لئے ایک ضروری یادداشت کے طور پر لکھا گیا ہے، اس میں صرف کتب حدیث کے طبقات بالترتیب بیان کئے گئے ہیں۔ (یہ رسالہ بھی اس کتاب کے اخیر میں شامل کیا گیا ہے۔ )

۶) عزیز الاقتباس فی فضائل اخیار الناس: عربی زبان میں فنِ تاریخ سے متعلق یہ ایک عدیم النظیر تصنیف ہے، جو خلفائے اربعہ کے فضائل میں بڑی تحقیق سے لکھی گئی ہے، مصنف حیاتِ ولی کا کہنا ہے کہ ’’خلفائے اربعہ کی سوانح عمریاں اور ان کے تاریخی حالات جس قدر اب تک لکھے گئے، غالباً اسی کتاب سے اقتباس کئے گئے ہیں ‘‘۔

۷) عجالۂ نافعہ : اس کے متعلق ہم آئندہ صفحات میں قدرے تفصیل سے گفتگو کریں گے۔

ان کتابوں کے علاوہ اور بھی بہت سی کتابیں ہیں، مثلاً :’’میزان البلاغۃ‘‘ علم بلاغت کا ایک بہترین متن ہے، اسی طرح ’’میزان الکلام‘‘ علم کلام میں ایک متن ہے، ایک رسالہ ’’السر الجلیل فی مسئلۃ التفضیل ‘‘ ہے، جس میں خلفائے راشدین کے فرق مراتب پر گفتگو ہے، ایک رسالہ ’’سر الشھادتین‘‘ جو شہادت حضرت حسینؓ کے بیان میں ایک عمدہ رسالہ ہے، ایک رسالہ انساب میں ہے، ایک رسالہ ’’تعبیر رؤیا‘‘ پر ہے، ان کے علاوہ اور بھی رسائل ہیں، منطق و حکمت کی کتابوں میں ’’حاشیۃ ملا کوسج‘‘ پر ’’عزیزیہ‘‘ کے نام سے آپ کا حاشیہ ہے، صدر شیرازی کی ’’شرح ہدایۃ الحکمۃ‘‘ پر بھی آپ کا حاشیہ ہے، ’’ارجوزۂ اصمعی‘‘ کی شرح بھی لکھی ہے، علماء و ادباء کے نام سے آپ کے بہت سے خطوط بھی ہیں، آپ نے والد ماجد کے قصائد بائیہ و ہمزیہ کی نفیس تخمیس بھی کی ہے، اسی طرح حاشیہ ’’القول الجمیل‘‘،  ’’وسیلۃ النجاۃ‘‘، ’’فیضِ عام‘‘، ’’اصول مذہب حنفی‘‘، ’’ملفوظات عزیزی‘‘، ’’اعجاز البلاغۃ‘‘، ’’نظام العقائد‘‘، ’’الاحادیث الموضوعۃ‘‘، ’’ماۃ مسائل‘‘ وغیرہ کتب ورسائل خصوصیت کے حامل ہیں، نظم میں ایک عربی دیوان بھی آپ کی تالیف ہے، جو قوت تحریر اور حسنِ انشاء اور خوبیِ تعبیر میں اپنی مثال آپ ہیں۔

 

شاہ صاحبؒ کے تجدیدی کارناموں پر ایک نظر

 

تاریخ دعوت و عزیمت کے مصنف مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :

شاہ صاحب کے تجدیدی کارنامہ کو ہم پانچ شعبوں میں تقسیم کر سکتے ہیں :

۱) قرآن مجید کی ترجمانی، مسلمانوں میں اس کی تعلیمات و مضامین کی اشاعتِ عام، اس کے ذریعہ سے عقائد کی اصلاح اور دینِ خالص سے عوام کے براہِ راست ربط و تعلق کی سعی جمیل۔

۲)حدیث کی نشر و اشاعت، اس کے درس و اجازت کے سلسلے کا احیاء، اس کے حلقہائے درس کا اجراء اور اساتذۂ حدیث، اور شارحینِ کتب حدیث کی تربیت۔

۳)فتنۂ رفض وتشیع کا مقابلہ، صحابۂ کرامؓ اور قرآنِ عظیم کو مجروح و مشکوک بنانے والی کوششوں اور سازشوں کا سد باب۔

۴) جہاد فی سبیل اللہ کا احیاء اور ہندوستان میں اسلامی اقتدار اور مسلمانوں کی آزادی کے لئے سب سے بڑے خطرے اور چیلنج کا مقابلہ۔

۵) ان مردانِ کار کی تربیت جو حالات اور وقت کے تقاضوں اور دین کے حقیقی مطالبوں کے مطابق دعوت و اصلاح کا کام انجام دیں۔ (تاریخ دعوت و عزیمت :۵؍۳۵۴)

 

 

 

عجالۂ نافعہ ۔ ایک تعارف

 

شاہ صاحب کی جملہ تصانیف میں ایک جامع اور مختصر تصنیف ’’عجالۂ نافعہ‘‘ ہے۔

’’یہ فارسی زبان میں ایک مختصر رسالہ ہے، جو اصولِ حدیث کے موضوع پر قلمبند کیا گیا ہے، علمِ حدیث سے شغل رکھنے والوں کے لئے یہ رسالہ ایک متاع گرانمایہ ہے، چنانچہ وقتِ تالیف سے لے کر آج تک علماء حدیث اس سے استفادہ کرتے رہے ہیں ‘‘۔ (مضمون مولانا عبد اللہ معروفی، ص:۷۶)

شاہ صاحب اس رسالے کی تالیف کا سبب مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں :

’’یہ رسالہ جو بہت مفید اور عمدہ ہے، علمِ حدیث کے فوائد کے متعلق ہے، اس کی وجہِ تحریر برادرِ عالی سید قمر الدین حسینی کی خواہش ہے‘‘۔ (عجالۂ نافعہ، ص:۳۹)

پھر فرماتے ہیں :

’’اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ جو کوئی اس رسالے کے مضامین پیش نظر رکھ کر فنونِ حدیث میں غور و فکر کرے گا، وہ ان شاء اللہ تعالیٰ غلطی اور خطا سے محفوظ اور تصحیف وتحریف سے مامون رہے گا، نیز صحیح اور ضعیف حدیث کے پہچاننے کے واسطے اس کے ہاتھ میں ایک عمدہ کسوٹی اور بہتر معیار ہو گا، جس کی بدولت صحیح اور غیر صحیح کو پہچان سکے گا۔ وما توفیقی الّا باللّٰہ، علیہ توکلت والیہ انیب‘‘۔ (عجالۂ نافعہ، ص: ۴۰)

شاہ صاحب نے اس کا کوئی نام تجویز نہیں کیا، لیکن موصوف کے ان الفاظ ’’ایں رسالہ ایست رائعہ و عجالہ ایست نافعہ‘‘سے یہ رسالہ ’’عجالۂ نافعہ‘‘ کے نام سے مشہور ہو گیا۔

مولانا محمد عبد الحلیم چشتی نے اس رسالہ کا اردو ترجمہ کیا ہے اور اس کی مفصل شرح بنام ’’فوائد جامعہ بر عجالۂ نافعہ‘‘ لکھی ہے، اس کتاب کے ناشر فرماتے ہیں :

’’عجالۂ نافعہ شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کا فارسی زبان میں نہایت مشہور و مقبول رسالہ ہے، فن حدیث کی ایسی نادر اور اہم معلومات جو طلبہ اور اہلِ علم کے لئے از حد مفید ہیں، اس رسالہ میں نہایت خوش اسلوبی سے جمع کر دی گئی ہیں، اس کی افادیت، اہمیت، اور مقبولیت کا اندازہ اسی سے ہوسکتا ہے، کہ یہ رسالہ لکھنؤ، دہلی اور لاہور سے بارہا شائع ہو چکا ہے، پھر بھی کمیاب ہے، انہی وجوہ کے پیش نظر فوائد جامعہ بر عجالۂ نافعہ میں متن عجالۂ نافعہ کو اردو زبان میں پہلی مرتبہ ترجمہ اور محققانہ و جامع شرح کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ‘‘۔ (عرض ناشر، فوائد جامعہ)

پھر فوائد جامعہ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

۱) متن کی اغلاط کی تصحیح

۲) علم حدیث کی گوناگوں نادر اور اہم معلومات کا مرقع

۳) کتبِ حدیث کے انواع واقسام کا تفصیلی بیان اور صدہا علمی کتابوں کا تعارف

۴) فوائد جامعہ اس موضوع پر پہلی علمی و تحقیقی شرح ہے، جو سینکڑوں مستند اور نادر کتابوں سے بڑی محنت اور نہایت تلاش و تحقیق سے مرتب کی گئی ہے۔ (عرض ناشر، فوائد جامعہ )

یہ کتاب ۲۱۶ صفحات پر مشتمل ہے، جس کو نور محمد کارخانہ تجارتِ کتب، آرام باغ، کراچی نے ۱۳۸۳؁ھ مطابق ۱۹۶۴؁ء میں شائع کیا تھا، اس کتاب میں پہلے اصل کتاب عجالۂ نافعہ کا فارسی متن ہے، اس کے بعد اردو میں اس کا ترجمہ ہے اور اس پر ۳۲۵ حواشی ہیں، جس کو اردو ترجمہ کے بعد نمبر وار بنام ’’فوائد جامعہ‘‘ ذکر کیا گیا ہے، اس طرح یہ علم حدیث کا ایک انسائیکلوپیڈیا ہو گیا ہے۔ (راقم کا اس کتاب کو جدید تحقیق کے ساتھ انشاء اللہ عربی میں منتقل کرنے کا ارادہ ہے، آپ حضرات سے دعاؤں کی درخواست ہے۔ )

مولانا محمد عبد الحلیم چشتی اپنے اس کتاب کے مقدمہ میں فرماتے ہیں :

’’ عجالۂ نافعہ شاہ عبد العزیزؒ کا فارسی زبان میں نہایت مشہور اور مقبول رسالہ ہے، شاہ صاحب نے فن حدیث کی کچھ متفرق ایسی معلومات جو طلبہ اور اہلِ علم کے لئے از حد مفید ہیں، اس مختصر رسالہ میں نہایت خوش اسلوبی سے جمع کر دی ہیں، جن سے حدیث کے طالبِ علم اور مدرس کو کبھی استغناء نہیں ہوسکتا، یہی وجہ ہے کہ طلبہ اور علماء کو ہر دور میں اس کی احتیاج رہی ہے‘‘۔ (مقدمہ فوائد جامعہ، ص: ۲۹)

پھر اس کی طباعت کے بارے میں فرماتے ہیں :

’’ یہ رسالہ لکھنؤ، دہلی، لاہور سب ہی جگہ سے بار بار چھپا ہے، غالباً پہلی مرتبہ شیخ سعد الدین ابن المفتی عبد الحکیم کی تصحیح سے ۱۲۵۵؁ھ میں مطبع مصطفائی لکھنؤ سے متوسط تقطیع کے ۳۶ صفحات پر شائع ہوا تھا۔ (البتہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ والوں نے جس نسخہ کا ذکر کیا ہے وہ مطبع مجتبائی دہلی کا نسخہ ہے جو ۱۲۱۲؁ میں شائع ہوا تھا)۔

مطبوعہ رسالوں میں سے مطبع مصطفائی لکھنؤ اور مطبع انصاری دہلی کے چھپے ہوئے رسالے زیادہ صحیح تھے، مصطفائی سے جو رسالہ چھپا تھا اس میں صحت کا زیادہ اہتمام کیا گیا تھا۔ (مقدمہ فوائد جامعہ، ص:۲۹)

اس کے علاوہ مولانا عبد الاحد قاسمی مونگیری نے بھی رسالے کا عربی واردو ترجمہ بنام ’’العلالۃ الناجعۃ‘‘ کیا ہے، جو مکتبہ قرآن منزل، بابو بازار، ڈھاکہ، مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) سے ۱۳۸۹؁ھ میں شائع ہوا تھا، وہ اپنے مقدمہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

’’رسالۃ العجالۃ النافعۃ‘‘ علم حدیث کی اصطلاحات سے بہترین واقف کرانے والا ہے، جس کی نظیر آپ کو اس آخری صدی میں نہیں ملے گی، ہمیشہ سے محدثین اس کی نفع بخش مختصر باتوں کو درس حدیث میں بتلاتے رہے ہیں، اور اسی طرح مصنفین اصول حدیث پر قلم اٹھاتے وقت اس کی دلکش عبارتوں سے استشہاد کرتے رہے ہیں۔ (العجالۃ النافعۃ، ص: ۵)

مولانا عبد الاحد قاسمی نے اس رسالہ کے ساتھ شاہ صاحب کے اور دو مختصر رسالے ’’مایجب حفظہ للناظر‘‘اور ’’بیان مآخذ المذاھب الاربعۃ‘‘ کو بھی شامل کیا ہے، نیز شروع میں حدیث و علمِ حدیث اور علماء حدیث سے متعلق ایک قیمتی مقدمے کا بھی اضافہ کیا ہے۔

ادھر گذشتہ سال ۱۴۳۴؁ھ دارالعلوم ندوۃ لکھنؤ کے استاذِ حدیث مولانا سید سلمان حسینی ندوی برکاتہم نے مولانا عبد الاحد قاسمی کے عربی ترجمہ کو بعض تصحیحات واضافات کے ساتھ شعبہ المعہد العالی للدراسات الشرعیۃ، ندوۃ العلماء لکھنؤ سے بھی شائع کیا ہے، مولانا اپنے مقدمہ میں فرماتے ہیں :

’’ہمیں خوشی ہے کہ ہم طلبائے حدیث و علوم حدیث کی خدمت میں یہ مفید و جامع رسالہ پیش کر رہے ہیں، جسے مسند الہند محدث عظیم شاہ عبد العزیز دہلویؒ نے تصنیف کیا ہے ‘‘۔

مؤرخین اور تذکرہ نگاروں میں سے جنھوں نے بھی حضرت شاہ عبد العزیزؒ اور ان کی تصانیف کا ذکر کیا ہے، اکثر وبیشتر انھوں نے عجالۂ نافعہ کا بھی مختصر تعارف پیش کیا ہے، اور اس کے اختصار کے ساتھ جامعیت کا اعتراف کیا ہے، چنانچہ حیات ولی کے مصنف فرماتے ہیں :

’’عجالۂ نافعہ : فارسی میں ایک نہایت مختصر رسالہ ہے، جو اصولِ حدیث کے متعلق لکھا گیا ہے، اس میں شاہ صاحب نے مصطلحاتِ حدیث اور اس کے اقسام و مراتب نہایت اختصار کے ساتھ بیان کئے ہیں ‘‘۔ (حیات ولی، ص:۶۲۲)

رسالہ کے مختصر ہونے کی بناء پر اکثر لوگوں نے اس رسالہ کا تعارف بھی مختصر ہی کیا ہے، البتہ ’’شاہ عبد العزیز دہلوی اور ان کی علمی خدمات‘‘ کی مصنفہ ڈاکٹر ثریا ڈار نے اس سلسلے میں قدرے تفصیل سے کام لیا ہے، ہم اسی کا خلاصہ یہاں پیش کرنا کافی سمجھتے ہیں، فرماتی ہیں :

’’شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے اصولِ حدیث کے متعلق فارسی زبان میں رسالہ ’’عجالۂ نافعہ‘‘ تحریر فرمایا، اس مختصر مگر جامع رسالے میں مصطلحاتِ حدیث اور اس کے اقسام و مراتب اور احادیث کی تنقید کے اصول و قواعد نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ بیان کیے ہیں، ان اصول و قواعد کی روشنی میں احادیث کے موضوع، صحیح، حسن اور متفق علیہ ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

اس رسالے کی فصلِ اوّل میں علمِ حدیث کے فوائد کے تحت بیان کیا گیا ہے کہ علم القرآن عقائدِ اسلام اور احکامِ شریعت اور اصولِ طریقت سب رسول اللہﷺ کے ارشادات پر موقوف ہیں، تمام کشفی باتوں اور عقلی معاملوں کے زر و جواہر کو پرکھنے کے لیے علمِ حدیث کی اتباع لازمی ہے کیونکہ علمِ حدیث دونوں جہانوں کا سرمایۂ سعادت اور حیاتِ جادوانی کی دلیلِ راہ ہے۔

پھر اس علم کے حصول کی راہ یہ بتائی ہے کہ راویانِ حدیث کے حالات کی چھان بین کرنے اور ان سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد حدیث کے معنی سمجھنے میں نہایت احتیاط سے کام لیا جائے، کیونکہ اس معاملے میں کوتاہی کرنے سے ایک تو سچے اور جھوٹے راوی میں تمیز نہیں رہے گی، دوسرے مقصد اور غیر مقصد میں فرق نہیں ہوسکے گا۔

اس کے بعد شاہ صاحب نے طبقات کتبِ حدیث پر بحث کی ہے کہ پہلے طبقے میں تین کتابیں موطا امام مالک، صحیح بخاری اور صحیح مسلم شامل ہیں، اور قاضی عیاض کی ’’مشارق الانوار‘‘ انہی تین کتابوں کی شرح ہے، ان تینوں کتابوں میں موطا امام مالک، صحیحین کی اصل اور ماخذ ہونے کے باعث کمال شہرت کو پہنچی ہوئی ہے، صحیح بخاری اور صحیح مسلم بسط و تفصیل اور احادیث کی تعداد کے اعتبار سے اگرچہ مؤطا سے دس گنا زیادہ ہیں، لیکن حدیثوں کی روایت کا طریقہ، راویوں کی جانچ پڑتال کا انداز اور اعتبار واستنباط کا اسلوب مؤطا ہی سے حاصل شدہ ہے، تاہم یہ دونوں کتابیں تمام علمائے اسلام کے نزدیک بدرجۂ غایت لائقِ احترام ہیں۔

حدیث کی کتابوں کے دوسرے طبقے میں وہ تمام کتابیں شامل ہیں جن کی احادیث صحت، شہرت اور قبولیت میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے درجہ تک نہیں پہنچ سکیں، مثلاً جامع ترمذی، سننِ ابی داؤد اور سننِ نسائی، ابن الاثیر نے ان چھ کتابوں کے الفاظ غریبہ کی شرح اور مشکلات کو ضبط کرنے کے ساتھ ساتھ راویانِ حدیث کے ناموں اور دیگر تعلقات کی وضاحت کی ہے، اس لحاظ سے ابن الاثیر کی ’’جامع الاصول‘‘ ان چھ کتابوں کی شرح ہے۔

کتبِ حدیث کے تیسرے طبقے میں علمائے متقدمین یعنی امام بخاریؒ امام مسلمؒ سے پہلے یا ان کے ہم عصر یا ان کے بعد آنے والوں نے جن احادیث کو بیان کیا ہے، لیکن ان کی صحت کا التزام نہیں کیا اور نہ ان کی کتابیں شہرت اور قبولیت میں طبقۂ اولیٰ اور ثانیہ تک پہنچ سکی ہیں۔

کتبِ حدیث کے چوتھے طبقے میں وہ احادیث شامل ہیں جن کا صحابہ و تابعین کے دور میں کسی قسم کا نام ونشان تک نہیں ملتا، لیکن علمائے متاخرین نے ان احادیث کو نقل کیا ہے، ان کے متعلق دو ہی صورتیں ممکن ہیں یا تو سلفِ صالحین کو ان کی چھان بین کرنے کے بعد کوئی اصل نہیں ملی کہ وہ ان کو روایت کرتے یا ان کی اصل پانے کے بعد ان میں وضاحت دیکھ کر روایت سے گریز کیا، بہرحال دونوں صورتوں میں ان احادیث سے اعتماد جاتا رہا اور وہ کسی عقیدے یا عمل کے ثبوت کے لیے دلیل بنانے کے قابل نہیں رہیں۔

اس کے بعد اکثر موضوع احادیث اور ان کی نشاندہی کے لئے چند کتابوں کا ذکر کیا گیا ہے، بعد ازاں بعض راویوں کے ناموں کی تحقیق اور ضبط کے بارے میں چند امثال بیان کی ہیں۔

پھر چند نسبتوں کے قواعد بیان کرنے کے بعد ناموں اور ان کے قواعد و ضوابط کا ذکر کرنے کے بعد کتبِ احادیث کی اقسام بیان کی گئی ہیں۔

فصلِ دوّم میں شاہ عبد العزیزؒ نے علمِ حدیث کی اسناد کو وضاحت سے بیان کیا ہے۔

شاہ عبد العزیزؒ نے اپنا کچھ ذکر کرنے کے بعد شیخ ابو طاہر مدنی کا صوفیا وعارفین کے واسطے سے سلسلۂ سند مکمل طور پر بیان کیا ہے، اس کے ساتھ ہی شاہ ولی اللہؒ نے کتاب المؤطا، صحیح بخاری، صحیح مسلم، سننِ ابی داؤد، جامع ترمذی، سننِ نسائی، سننِ ابن ماجہ، مشکوٰۃ المصابیح اور حصن حصین جن جن شیوخ سے پڑھیں، ان کا سلسلۂ سند شروع سے آخر تک بیان کیا ہے۔ (اس بحث کو ہم نے اختصار کے پیشِ نظر اس کتاب میں ذکر نہیں کیا ہے، اصل کتاب سے رجوع کیا جا سکتا ہے)۔

آخر میں شاہ عبد العزیزؒ حدیث کے موضوع اور راوی کے ناقابلِ اعتبار ہونے کی چند علامتیں بیان فرماتے ہیں، مثلاً راوی رافضی ہو اور وہ صحابہ پر طعن کے متعلق حدیث بیان کرے، یا راوی ایسی بات روایت کرے جس کا جاننا اور اس پر عمل کرنا ہر مکلف پر فرض کرے، یا ناصبی ہو اور اہلِ بیعت پر طعن کے سلسلے میں حدیث روایت کرے، یا پھر حدیث میں لفظ و معنی کا رکیک ہونا، یا صغیرہ گناہ سے ڈرانے میں حد سے زیادہ مبالغہ کیا گیا ہو، یا راوی نے حدیث کے وضع کرنے کا خود اقرار کیا ہو‘‘۔

اخیر میں فرماتی ہیں کہ: ۱۳۹۵؁ھ مطابق ۱۹۷۵؁ء میں مکتبہ السعدیہ سے اس رسالے کا عربی ترجمہ شائع ہو چکا ہے، یہ عربی ترجمہ حافظ عبد الرشید بن عبد العزیز نے کیا ہے۔ (شاہ عبد العزیز دہلوی اور ان کی علمی خدمات، ص:۲۵۸ -۲۶۴)

 

 

 

عجالۂ نافعہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للّٰہ وکفیٰ، وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ، خصوصاً علی سیّدنا ومولانا محمد المجتبیٰ، وآلہ بدرالدجیٰ، وصحبہ نجوم الہدیٰ، اماّ بعد:

یہ رسالہ جو علمِ حدیث کے فوائد پر مشتمل ہے، نہایت عجلت میں لکھا گیا ہے لیکن بڑا سُود مند اور نہایت دل پسند رسالہ ہے۔

 

سببِ تالیف

 

بر ادرِ عالی، جامعِ فضائل و کمالات سیّد قمر الدین حسینی(۱)جو شرافت کی آنکھ کا نور اور باغِ سیادت کا پھول ہیں، اللہ تعالی ان کو دین و دنیا کی سرداری عطا فرمائے اور دونوں جہاں کی سعادت نصیب کرے، انہی کا ذوق و شوق اس رسالہ کی تحریر و ترتیب کا باعث ہوا ہے۔

اس زمانے میں آپ کے خاطرِ عاطر میں یہ خیال آیا کہ اس پاکیزہ فن اور شریف علم سے رابطہ قائم کریں، آپ کا یہ خیال عزمِ راسخ بن گیا، تو اس نا چیز سے جو مسندِ افادہ و استفادہ پر بیٹھا ہوا ہے، اپنے حسنِ ظن کی وجہ سے اس کام کے لئے اجازت کی درخواست کی۔

(۱) قمر الدین حسینی سونی پتی ثم الدہلوی کا شمار باکمال شعرا میں ہوتا ہے، ان کا سلسلۂ نسب امام ناصر الدین حسینی مشہدی سے جا ملتا ہے، انہوں نے مؤلف کتاب ہٰذا حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ سے علم حاصل کیا، اور ایک مدت تک ان سے کسبِ فیض کرتے رہے، اور علمِ طریقت شیخ فخر الدین بن نظام الدین دہلوی سے حاصل کیا، دہلی سے لکھنؤ آئے، پھر وہاں سے حیدرآباد کا سفر کیا، ۱۲۰۸؁ھ میں ۹۴ سال کی عمر پا کر اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے، ان کے اشعار کا ایک مجموعہ بھی ہے۔ (نزہۃ الخواطر:۳؍۱۰۷۱)

اور اس بار کے اٹھانے میں مجھ سے مدد کے لئے فرمایا اس ارشاد کے بموجب:

انّ للّٰہ فی ایّام دھر کم نفحات اَلا فتعرّ ضوا لہا(۱)

(بلا شبہ تمھارے زمانے میں اللہ تعالی کی خوشبوئیں ہیں، دیکھو، اللہ تعالی کی ان خوشبوؤں سے مستفید ہوتے رہو)۔

اس فن شریف کے تھوڑے سے متعلقات کو اس رسالہ میں بیان کیا گیا ہے اور بقیہ کو ان کی روشن اور پاکیزہ طبیعت پر چھوڑ دیا گیا ہے، اللہ تعالی کے فضل و کرم سے وہ ذکاوتِ طبع، لطافتِ مزاج اور ہوشمندی میں نہایت بلند مرتبہ پر فائز ہیں، چنانچہ ان کی نظم و نثر میں تصنیفات و تالیفات اس دعوے کی شاہد عادل اور گواہِ صادق ہیں۔

اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ جو کوئی اس رسالے کے مضامین پیش نظر رکھ کر فنونِ حدیث میں غور و فکر کرے گا، وہ انشاء اللہ تعالی غلطی اور خطاء سے محفوظ اور تصحیف و تحریف سے مامون رہے گا، نیز صحیح اور ضعیف حدیث کے پہچاننے کے واسطے اس کے ہاتھ میں ایک عمدہ کسوٹی اور بہتر معیار ہو گا، جس کی بدولت وہ صحیح اور غیر صحیح کو پہچان سکے گا۔

وماتوفیقی اِلاّ با للہ علیہ توکلتُ و ھو حسبی ونعم الوکیل۔

 

 

(۱)کنز العمال ۲؍۷۶۹ برقم ۲۱۳۲ ورواہ الطبرانی فی المعجم الاوسط ۴؍۱۸۰ برقم ۲۸۵۹ والکبیر ۹۱؍۲۳۳۔

 

 

 

 

فصلِ اول: علمِ حدیث کے فوائد

 

فصلِ اول علمِ حدیث کے ان اغراض و فوائد کے بیان میں ہے جن سے طالبِ حدیث کا شوق بڑھ سکتا ہے، اور وہ رغبت کرنے والے کی طلب میں تحریک اور اضافہ کا موجب بن سکتے ہیں، نیز ان شرائط کا بیان ہے جو اس علم میں غور و خوض کیلئے درکار ہیں۔

واضح رہے، علمِ حدیث ایسی بزرگی اور شرافت کا حامل ہے کہ کوئی علم اس کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا، کیونکہ علم القرآن، عقائدِ اسلام، احکامِ شریعت اور اصولِ طریقت سب ہی رسول اللہﷺ کے بیان پر موقوف ہیں، تمام کشفی باتیں اور ساری عقلی چیزیں جب تک اس ترازو میں نہ تُلیں اور اس کسوٹی پر نہ کَسی جائیں وہ لائق وقابلِ اعتماد نہیں ہوسکتیں، لہٰذا یہی علم ایک ایسا صرّاف ہے جو تمام علوم کے زر و جواہر کو پرکھتا ہے، جو بھی تفسیروں کے طریقے اور وجوہ، احکامِ شریعت کی دلیلیں، عقائدِ اسلام کے ماخذ اور سلوک الی اللہ کے طریقے اس صرّاف کی پرکھ میں کھرے نکلیں گے وہی رواج پذیری کے لائق ہوسکتے ہیں اور جو کھوٹے ثابت ہوں گے وہ پھینکنے کے قابل ہیں، لہٰذا علمِ شریعت کا حکم ہی تمام علومِ دینیہ پر چلتا ہے اور جناب رسالت مآبﷺ کی اتباع اور پیروی اسی علم کی بدولت نصیب ہوتی ہے، جو حیاتِ جاودانی کی دلیلِ راہ ہے اور دونوں جہاں کا سرمایۂ سعادت ہے۔

غور و فکر کیا جائے اور گہری نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہر علم کی ایک خاصیت ہوتی ہے اور اس علم سے دلبستگی اور وابستگی کی وجہ سے نفسِ انسانی میں ایک کیفیت خواہ بُری ہو یا بھلی پیدا ہو جاتی ہے، علمِ حدیث سے وابستگی اور مزاولتِ انسان میں صحابیت کی شان پیدا کر دیتی ہے، کیونکہ صحابیت کے معنی دراصل رسول اللہﷺ کے جملہ احوال سے واقفیت اور ہر عبادت اور ہر عادت میں آپ کے اوضاع و اطوار کا مشاہدہ کرنے کے ہیں، اور یہ بات امتدادِ زمانہ کی وجہ سے اس شخص کی قوتِ مدرکہ اور متخیلہ میں جو اس علم سے وابستگی رکھتا ہے ایسی جم جاتی اور راسخ ہو جاتی ہے کہ مشاہدہ کے حکم میں ہوتی ہے، چنانچہ حسبِ ذیل شعر میں اسی طرف اشارہ ہے:

اھل الحدیث ھموا اہل النبیّ وان_ لم یصحبوا نفسہ انفاسہ صحبوا

(اہلِ حدیث ہی اہلِ نبی ہیں اور انھیں گو رسالت مآبﷺ کی صحبت حاصل نہیں، مگر آپ کے انفاسِ قدسیہ کے ساتھ شرفِ صحبت حاصل ہے )

اور محمد بن علی بن الحسینؒ نے فرمایا ہے :

من فقہ الرجل بصیرتہ بالحدیث او فطنتہ للحدیث

(انسان کی سمجھ کی بات یہ ہے کہ اس کو حدیث میں بصیرت حاصل ہو یا فرمایا تھا کہ اس کی دانشمندی کی بات یہ ہے وہ حدیث میں درک رکھتا ہو)۔

یہ ارشاد چونکہ ایک قسم کی خبر ہے اور خبر سچ اور جھوٹ دونوں باتوں کا احتمال رکھتی ہے تو اس علم کو حاصل کرنے کیلئے دو باتوں کا لحاظ رکھنا نہایت ہی ضروری ہے :

۱)راویانِ حدیث کے حالات کی چھان بین کرنا اور ان سے واقفیت رکھنا۔

۲)حدیث کے معنی سمجھنے میں نہایت احتیاط سے کام لینا۔

کیونکہ اگر پہلی بات میں کوتاہی ہوئی تو سچے اور جھوٹے میں تمیز باقی نہیں رہے گی، اور اگر دوسری بات میں احتیاط نہ رکھی گئی اور اس میں ذرا سی بھی کوتاہی ہو گئی تو مقصد غیر مقصد سے خلط ملط ہو جائے گا اور ان دونوں صورتوں میں اس علم سے جس فائدہ کی توقع تھی وہ حاصل نہ ہوسکے گا، بلکہ فائدہ کے بجائے نقصان ہو گا کہ خود بھی گمراہ ہو گا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا، معاذ اللّٰہ من ذلک۔ لہٰذا ان دونوں باتوں سے بحث کرنا ضروری ہے۔

 

 

 

پہلی بات

 

راویانِ حدیث کے حالات کی چھان بین

 

صدرِ اوّل یعنی تابعین اور تبعِ تابعین کے زمانے سے لے کر بخاریؒ اور مسلمؒ کے زمانے تک (راویوں کے حالات کی پرکھ کا )رنگ کچھ اور رہا ہے، اس دور میں ہر شہر اور ہر زمانہ کے راویوں کے حالات سے بحث کرتے اور ان کے حالات کی چھان بین کرتے تھے۔ جس کسی میں بددیانتی، جھوٹ اور حافظہ کی کمزوری کی ذراسی بھی بو محسوس کرتے تھے، اس کی بیان کی ہوئی حدیث کو قبول نہیں کرتے تھے، اسی وجہ سے انھوں نے راویوں کے حالات میں نہایت ضخیم اور مبسُوط کتابیں لکھی ہیں، لیکن اس زمانہ میں رنگ دوسرا ہے، اب وہ کتابیں جو صحاح کے ساتھ مخصوص ہیں اور ان کے بعد وہ کتابیں جو قابلِ اعتبار ہیں ان کو جدا جدا جاننا چاہئے، اور وہ کتابیں جو نظر انداز کرنے کے لائق ہیں انھیں علیٰحدہ رکھنا چاہئے تاکہ باہم خلط ملط نہ ہو جائیں۔

اکثر متاخرین محدثین کے یہاں سے جب یہ تمییز و ترتیب جاتی رہی تو مجبوراً انھوں نے بعض مسائل میں جمہورِ سلف کے خلاف کیا اور غیر معتبر کتابوں میں جو حدیثیں دیکھیں انہی کو اپنی دلیل اور سند قرار دیا، اس موقع پر ہم والد ماجد قدس سرّہ العزیز کی عبارت پیش کرتے ہیں، جس سے حدیث کی کتابوں کی ترتیب اور ان کے مراتب واضح ہو جائیں گے، وہ فرماتے ہیں :

 

طبقاتِ کتبِ حدیث

 

جاننا چاہئے حدیث کی کتابیں، صحت، شہرت اور قبولیت کے اعتبار سے کئی طبقوں پر مشتمل ہیں :

(۱)صحت سے ہماری یہ مراد ہے کہ مؤلفِ کتاب نے اس بات کی پابندی کی ہو کہ وہ صحیح یا حسن حدیثوں کے سوا اور کوئی حدیث اس میں دخل نہیں کرے گا، اور اگر اس میں کوئی ایسی حدیث داخل کرتا ہے اور ساتھ ساتھ وہ اس کے ضعف، غرابت، علّت اور شذوذ کو بھی بتا دیتا ہے تو پھر کچھ حرج نہیں، کیونکہ ضعیف، غریب اور معلول حدیث کو اس کی خرابی کی وضاحت کے ساتھ کتاب میں درج کرنا کسی قسم کی قباحت کا موجب نہیں۔

(۲)شہرت سے ہماری مراد یہ ہے کہ محدثین کی جماعتیں یکے بعد دیگرے (ہر دور میں ) اس کتاب کے ساتھ بطریقِ روایت، ضبطِ مشکل اور تخریجِ احادیث مشغول رہی ہوں تاآنکہ اس کی کوئی چیز بیان ہوئے بغیر نہ رہ گئی ہو۔

(۳)قبولیت سے ہماری مراد یہ ہے کہ ناقدانِ حدیث اس کتاب کو تسلیم کریں اور اس پر اعتراض نہ کریں اور اس کتاب کی حدیثوں کے متعلق مؤلفِ کتاب کا حکم اور فیصلہ درست سمجھیں اور فقہاء بغیر اختلاف اور بلا انکار کے اس سے استدلال کریں۔

 

پہلا طبقہ

 

اس میں حدیث کی صرف تین کتابیں داخل ہیں :

۱۔ مؤطا امام مالک

۲۔ صحیح بخاری

۳۔ صحیح مسلم

قاضی عیاض نے ’’مشارق الانوار‘‘ میں انہی تین کتابوں کی شرح کی ہے، یہ ’’مشارق الانوار‘‘ صنعانی کی ’’مشارق الانوار‘‘ کے علاوہ ہے جس میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیثوں کو ان کی سندیں اور قصے حذف کر کے جمع کیا ہے۔

خلاصہ یہ ہے، ان تینوں کتابوں کی حدیثوں کی شرح اور ضبطِ اسماء کیلئے قاضی عیاض کی کتاب ’’مشارق الانوار‘‘ کافی و شافی ہے۔

ان تینوں کتابوں میں باہم نصرت یہ ہے کہ مؤطا امام مالک گویا صحیحین کی اصل اور ان کی ماخذ ہے اور اس کی شہرت بھی کمال کو پہنچی ہوئی ہے، امام مالکؒ کے زمانہ ہی میں آپ سے ایک ہزار علماء نے مؤطا کی روایت کی ہے، جیسے امام شافعیؒ ، امام محمدؒ ، یحیٰ بن یحیٰ مصمودیؒ، یحیٰ بن یحیٰ تمیمیؒ، یحیٰ بن بکیرؒ، ابو مصعبؒ اور قعنبیؒ وغیرہ، نیز اس کتاب کی عدالت و ضبطِ رجال پر سب کا اجماع ہے اور یہ مکۂ معظمہ، مدینہ منورہ، عراق، شام، یمن، مصر اور دیارِ مغرب میں مشہور ہے، اور (بکثرت )شہروں کے فقیہوں کا مدار اسی کتاب پر ہے، امام مالکؒ کے زمانہ میں اور آپ کے بعد بھی علماء نے مؤطا کی حدیثوں کی تخریج کی، اس کے متابعات اور شواہد کے جمع کرنے میں بڑی کوششیں کی ہیں، اور اس کے الفاظِ غریبہ کی شرح، ضبطِ مشکلات اور ان کی وضاحت، فقیہانہ مسائل کا بیان، حدیث کی سندیں اور طرقِ روایات کے بیان میں اتنا اہتمام کیا ہے کہ اس سے زیادہ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

صحیح بخاری اور صحیح مسلم بسط و تفصیل اور حدیثوں کی تعداد کے اعتبار سے ہر چند مؤطا سے دس گنی زیادہ ہوں گی، لیکن حدیثوں کی روایات کا طریقہ، راویوں کی جانچ پڑتال کا ڈھنگ، اعتبار اور استنباط کا اسلوب مؤطا ہی سے سیکھا ہے مگر اس کے باوجود یہ دونوں کتابیں تمام فرقِ اسلامیہ اور علمائے اسلام کی مخدوم ہیں، محدثین کی ایک جماعت نے ان کی مستخرجات لکھی ہیں، جیسے اسماعیلیؒ ، ابوعوانہؒ اور بعض محدثین نے ان کے الفاظِ غریبہ کی شرح لکھی ہے، مشکل الفاظ اور اسماء کو ضبط کیا ہے، مشکل مقامات کو حل کیا ہے مسائلِ فقہیہ کو بیان کیا ہے اور راویوں کے حالات قلمبند کئے ہیں۔

غرض یہ دونوں کتابیں شہرت اور قبولیت کے درجہ کو پہنچ گئی ہیں، صاحبِ جامع الاصول نے فربری سے نقل کیا ہے کہ نوے ہزار علماء نے امام بخاریؒ سے صحیح بخاری کا سماع کیا ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ان تینوں کتابوں کی حدیثیں سب سے زیادہ صحیح حدیثیں ہیں، اگرچہ ان میں بعض حدیثیں بعض کی بہ نسبت زیادہ صحیح ہیں، اور اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو مؤطا کی اکثر مرفوع حدیثیں صحیح بخاری میں موجود ہیں، اس اعتبار سے گویا صحیح بخاری مؤطا کی جامع ہے، البتہ آثارِ صحابہ و تابعین مؤطا میں زیادہ ہیں، لہٰذا ان تینوں کتابوں کو طبقۂ اولی میں رکھنا چاہئے۔

 

دوسرا طبقہ

 

اس میں حدیث کی وہ تمام کتابیں داخل ہیں جن کی حدیثیں ان تینوں صفتوں (صحت، شہرت اور قبولیت) میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے درجہ کو نہ پہنچ سکی ہیں، لیکن مذکورہ بالا صفات میں وہ ان کے قریب قریب ہیں، جیسے جامعِ ترمذی، سننِ ابی داؤد اور سننِ نسائی کی حدیثیں، کہ ان کے مؤلفین کا وثوق، عدالت، حفظ و ضبط اور فنونِ حدیث میں تبحُّر مشہور ہے اور ان کے مؤلفین نے ان کتابوں میں تساہُل اور تسامُح کو ہرگز روا نہیں رکھا ہے اور جہاں تک ہوسکا ہے حدیث کی حالت اور علّت بیان کر دی ہے، اسی لئے علمائے اسلام میں انھیں شہرت حاصل ہے، اور ان چھ کتابوں کو صحاحِ ستہ (چھ صحیح کتابیں ) کہتے ہیں۔

ابن الاثیرؒ نے ’’جامع الاصول‘‘ میں ان ہی چھ کتابوں کی حدیثوں کو جمع کیا ہے اور الفاظِ غریبہ کی شرح کی ہے، مشکلات کو ضبط کیا ہے، راویانِ حدیث کے ناموں اور دیگر متعلقات کو بھی وضاحت سے بیان کیا ہے، اس لحاظ سے گویا ’’جامع الاصول‘‘ ان چھ کتابوں کی شرح ہے، جیسے ’’مشارق الانوار‘‘ ان تینوں کتابوں (مؤطا اور صحیحین )کی شرح ہے، صاحبِ جامع الاصول نے سننِ ابن ماجہ کو صحاح میں شمار نہیں کیا ہے اور مؤطا کو صحاح میں چھٹی کتاب قرار دیا ہے اور یہی بات درست ہے، لیکن حضرت والد ماجد قدس سرّہ فرماتے ہیں :

فقیر کے نزدیک ’’مسندِ احمد ‘‘ دوسرے طبقہ میں داخل ہے اور وہی صحیح حدیث کے سقیم حدیث سے پہچاننے میں اصل اور مدار کی حیثیت رکھتی ہے، اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ کس حدیث کی اصل ہے اور کس کی اصل نہیں ہے، اگرچہ مسند احمد میں ضعیف حدیثیں بھی بہت ہیں جن کا حال بیان نہیں کیا ہے تاہم جو ضعیف حدیثیں مسند میں پائی جاتی ہیں وہ ان حدیثوں سے بہتر نظر آتی ہیں جن حدیثوں کی متاخرین نے تصحیح کی ہے، علمائے حدیث و فقہ نے ان کو اپنا پیشوا بنایا ہے اور درحقیقت مسند فنِ حدیث میں ایک رکنِ عظیم ہے، اسی طرح سننِ ابنِ ماجہ، گو اس کی بعض حدیثیں نہایت ضعیف ہیں مگر اس کو بھی اسی طبقہ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

 

تیسرا طبقہ

 

اس طبقہ میں وہ حدیثیں داخل ہیں جنھیں علمائے متقدمین نے جو امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ سے پہلے ہوئے ہیں یا جو ان کے معاصر تھے یا جو ان کے بعد ہوئے ہیں، اپنی کتابوں میں روایت کیا ہے اور صحت کا التزام نہیں کیا ہے اور نہ ان کی کتابیں شہرت اور قبولیت میں طبقۂ اولیٰ اور ثانیہ تک پہنچ سکی ہیں، اگرچہ ان کتابوں کے مؤلفین علومِ حدیث میں ماہر اور ثقہ تھے اور ضبط و عدالت کی صفات سے متصف تھے، ان کتابوں میں صحیح، حسن، ضعیف حدیثیں ہی نہیں پائی جاتی ہیں، بلکہ ان میں بعض حدیثیں ایسی بھی موجود ہیں جن پر موضوع ہونے کا اتّہام ہے، ان کتابوں کی حدیثوں کے اکثر راوی عدالت کی صفت سے متصف ہیں، بعض مستور الحال اور بعض مجہول ہیں اور اکثر وہ حدیثیں ایسی ہیں جو فقہاء کے نزدیک معمول بہ نہیں ہیں بلکہ اجماع اور امت کا عمل اس کے خلاف ہے، ان کتابوں میں بھی باہم فرقِ مراتب ہے بعض کتابیں بعض سے قوی تر ہیں، ان کتابوں کے نام حسب ذیل ہیں :

مسندِ شافعی، سننِ ابنِ ماجہ، مسندِ دارمی، مسندِ ابی یعلی موصلی، مصنف عبد الرزاق، مصنف ابی بکر بن ابی شیبہ، مسندِ عبد ابن حمید، مسندِ ابوداؤد طیالسی، سننِ دارقطنی، صحیح ابنِ حبان، مستدرک حاکم، کتبِ بیہقی، کتبِ طحاوی، تصانیفِ طبرانی۔

 

چوتھا طبقہ

 

اس طبقہ میں وہ حدیثیں داخل ہیں جن کا قرونِ اولیٰ (دورِ صحابہ و تابعین )میں نام و نشان نہیں ملتا، مگر متاخرین علماء نے ان حدیثوں کو نقل کیا ہے، ان کے متعلق دو ہی صورتیں ممکن ہیں یا تو سلفِ صالحین نے ان کی چھان بین کی ہے اور انھیں ان کی کوئی اصل نہیں ملی کہ وہ ان کو روایت کرتے، یا ان کی اصل تو پائی مگر ان میں علّت اور قباحت دیکھ کر روایت سے گریز کیا، بہرحال دونوں صورتوں میں ان حدیثوں پر سے اعتماد اُٹھ گیا اور وہ اس قابل نہیں رہیں کہ کسی عقیدہ یا عمل کے ثبوت کیلئے انھیں دلیل بنایا جائے، ایسی ہی باتوں کے لئے بعض مشائخ نے کیا خوب کہا ہے :

فَاِن کُنتَ لَاتَدرِی فَتِلکَ مُصِیبَۃٌ       وَاِن کُنتَ تَدرِی فَالمُصِیبَۃُ اَعظَمُ

(پس اگر تو نہیں جانتا ہے تو یہ بھی مصیبت ہے، اور اگر تو جانتا ہے تو یہ بہت بڑی مصیبت ہے)۔

اس قسم کی حدیثوں نے بہت سے محدثین کو غلطی میں مبتلا کیا ہے اور ان کتابوں میں حدیثوں کی بکثرت سندیں دیکھ کر دھوکہ کھا گئے اور ان کے متواتر ہونے کا حکم لگا بیٹھے، اور جزم و یقین کے مواقع پر طبقۂ اولیٰ و ثانیہ کی حدیثوں کو چھوڑ کر اس قسم کی حدیثوں کو سند قرار دے کر ایک نیا مذہب بنایا ہے، اس قسم کی حدیثوں کی کتابیں بہت تصنیف ہوئی ہیں، چند کتابوں کے نام درج ذیل ہیں :

کتاب الضعفاء از: ابنِ حبان، تصانیفِ حاکم، کتاب الضعفاء از: عُقیلی، کتاب الکامل از: ابن عدی، تصانیفِ ابن مردویہ، تصانیفِ خطیب، تصانیفِ ابنِ شاہین، تفسیرِ ابن جریر، فردوس دیلمی بلکہ اس کی تمام تصانیف، تصانیفِ ابی نعیم، تصانیفِ جوزقانی، تصانیفِ ابن عساکر، تصانیفِ ابوالشیخ اور تصانیفِ ابنِ نجّار۔

مناقب و مثالب کے بیان میں اکثر حدیثیں گڑھی گئی ہیں اور صحت میں تساہل سے کام لیا گیا ہے، اسی طرح اسبابِ نزول کے بیان میں تاریخ اور بنی اسرائیل کے واقعات اور انبیائے سابقین کے قصوں میں، شہروں کے فضائل، کھانے پینے کی چیزوں اور حیوانات کے تذکرہ میں اکثر موضوع حدیثیں ہیں، طب، ٹوٹکے، جھاڑ پھونک، عزیمتوں اور دعوات میں اور نوافل کے اجر و ثواب میں بھی اسی قسم کا واقعہ پیش آیا ہے، ابن الجوزیؒ نے کتاب الموضوعات میں اس قسم کی بیشتر حدیثوں پر جرح و قدح کی ہے اور ان کے موضوع ہونے کے دلائل پیش کئے ہیں، اور کتاب ’’تنزیہ الشریعۃ‘‘ ایسی حدیثوں کی نشاندہی کیلئے کافی ہے، اکثر شاذ و نادر مسائل جیسے رسالت مآبﷺ کے والدین کا اسلام لانا، یا حضرت عباسؓ سے پیروں پر مسح کرنے کی روایتیں، یا انہی جیسے شاذو نادر مسائل، انہی کتابوں کی حدیثوں سے نکلے ہیں، اور شیخ جلال الدین سیوطیؒ کے رسائل و نوادر کا سرمایہ یہی کتابیں ہیں، لہٰذا ان کتابوں کی حدیثوں میں مشغول رہنا اور ان سے احکام کا استنباط کرنا مفید کام نہیں ہے، اس پر بھی اگر کسی کے دل میں ان کتابوں کی تحقیق کی خواہش ہو تو ان حدیثوں کے راویوں کا پتہ چلانے کیلئے ذہبیؒ کی کتاب ’’میزان الاعتدال‘‘ اور ابن حجر عسقلانی کی ’’لسان المیزان‘‘ اس کے کام آسکتی ہیں، اور الفاظِ غریبہ کی شرح اور مادوں کی تحقیق اور حدیثوں کی توجیہ کیلئے شیخ محمد طاہر بوہرہ گجراتی کی کتاب ’’مجمع البحار‘‘ سب سے بے پروا کر دیتی ہے۔

جب حدیث کی کتابوں کی ترتیب معلوم ہو گئی اور مؤطا اور صحیحین کا طبقۂ اولیٰ میں ہونا معلوم ہو گیا، تو ان ہی تین کتابوں کی تحقیق میں زیادہ اہتمام مناسب ہے اور ان کے بعد بقیہ صحاحِ ستہ میں مشغول ہونا چاہئے، ظنِّ غالب یہی ہے کہ مؤطا اور صحیحین کی تحقیق کے بعد صحاحِ ستہ کا دو تہائی حصہ ختم ہو جاتا ہے اور بہت ہی تھوڑا حصہ باقی رہ جاتا ہے، اس لئے بحث ان ہی تین کتابوں کے متعلقہ فوائد پر منحصر ہے۔

 

فائدہ بعض راویوں کے ناموں کی تحقیق اور ضبط کے بیان میں

 

قاعدہ یہ ہے کہ حدیث کی کتابوں میں ہر جگہ لفظ سَلاّم کو لام کی تشدید کے ساتھ پڑھنا چاہئے، مگر پانچ جگہ لام مشدد نہیں ہے :

۱)عبد اللہ بن سلام کے والد کا نام ’’سَلَام ‘‘ہے جو علمائے یہود میں زبردست عالم تھے، حضورﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد ایمان لائے اور دنیا ہی میں جنتی ہونے کی خوشخبری سنی۔

۲)محمد بن سَلَام بیکندی کے والد جو امام بخاریؒ کے استاد تھے، بِیکند، باء کے زیر اور یاء کے سکون کے ساتھ ہے، یہ تاشقند کی طرح ایک بستی کا نام ہے اور بخارا کے مضافات میں سے ہے۔

۳)سَلَام بن محمد بن ناہض المقدسی، یہ صحاحِ ستہ کے راویوں میں سے نہیں ہیں، لیکن حافظ ابوطالب اور طبرانی نے ان سے روایت کی ہے اور ان کو سلامہ کے نام سے یادکیا ہے۔

۴)محمد بن عبد الوہاب بن سَلَام مغربی معتزلی کا دادا یہ بھی صحاحِ ستہ کے راویوں میں سے نہیں ہے۔

۵)سَلَام بن ابی الحقیق جو یہودی تھا اور حضور اکرمﷺ سے بڑی دشمنی اور عداوت رکھتا تھا، اس کی شرارت اور فساد کا ذکر بہت سی حدیثوں میں آیا ہے۔

ان پانچ ناموں کو تخفیفِ لام کے ساتھ پڑھنا چاہئے۔

قاعدہ :کَرِیز جہاں بھی کاف کے زبر سے آئے وہ قبیلہ خزاعہ میں سے ہے اور جہاں کاف کے پیش کے ساتھ آئے گا اور مصغر ہو گا وہ قبیلۂ عبدشمس سے ہے، یعنی جس کا نام کریز ہے اس کانسب دیکھنا چاہئے اگر خزاعی ہے تو وہ کاف کے زبر کے ساتھ ہے اور عبشمی (قبیلۂ عبدشمس سے )ہے تو اس کو کُریز پڑھنا چاہئے۔

قاعدہ :حِزَام اگر اس نام کا راوی قرشی ہے تو اس کو زائے معجمہ اور حائے مہملہ کے زیر کے ساتھ پڑھنا چاہئے اور اگر انصاری ہے تو حائے مہملہ اور سین مہملہ کے زیر کے ساتھ ہے، البتہ یہ صحیحین کے راویوں میں سے نہیں ہے۔

قاعدہ :غَنَّام ہر جگہ غین معجمہ اور نون مشدد پر زبر کے ساتھ ہے مگر عَثَّام بن علی العامری الکوفی عین مہملہ اور ثائے مثلثہ کی تشدید کے ساتھ ہے اور پہلی قسم سے حضرت غَنَّام بن اوسؓ صحابی بدری کا نام ہے۔

قاعدہ :قمُیَر ہر جگہ قَمََر کی تصغیر ہے اور مرد کا نام ہے، مگر قَمِیر مسروق بن الاجدع کی بیوی اور عمرو کی بیٹی کا نام ہے، اس کو طویل کے وزن پر پڑھنا چاہئے۔

قاعدہ :مِسوَرٌ ہر جگہ اسمِ آلہ مِضْرَبٌ کے وزن پر ہے، مگر دو راویوں کا نام جن میں سے ایک مُسوَّر بن یزید صحابی اور دوسرے مُسوَّر بن عبد الملک الیربوعی ہیں، ان دونوں کو محمد کے وزن پر پڑھنا چاہئے۔

 

فائدہ بعض نسبتوں کے بیان میں

 

قاعدہ: جس جگہ بھی لفظ جمّال آئے وہ جیم کے ساتھ ہے، مگر موسیٰ بن ہارون الحمّال کے باپ کا نام حائے محملہ کے ساتھ ہے۔

قاعدہ :عَبَسِی اس شکل سے اگر بصریوں کی سندوں میں آ جائے تو اس کو عَیشِی پڑھنا چاہئے، یہ عیش کی طرف نسبت ہے جو موت کی ضد ہے، اور اگر کوفیوں کی سندوں میں آئے تو عَبَسِی بائے موحدہ اور سینِ مہملہ سے پڑھا جائے، اور اگر شامیوں کی سندوں میں آئے تو عَنَسِی پڑھنا چاہئے، یعنی بائے موحدہ کے بجائے نون کے ساتھ پڑھیں۔

اس فن کی ایک پرلطف بات یہ ہے کہ اگر کسی جگہ تصحیف (لفظی تغیر )ہو جائے تو غلطی شمار نہیں ہوتی، جس طرح سے بھی پڑھ لیں ٹھیک ہے، جیسے عیسیٰ بن ابی عیسیٰ الحَنَّاط اور مسلم حَبَّاط، اگر ان دونوں کو گندم فروشی کے اعتبار سے حَنَّاط پڑھیں تو بھی ٹھیک ہے، اور اگر حبط فروشی کی حیثیت سے حباط پڑھیں تو بھی صحیح ہے، حبط حائے مہملہ اور بائے موحدہ کے زیر کے ساتھ بَبول کے پتوں کو کہتے ہیں جن کو چوپایوں کیلئے اکٹھا کر کے بیچتے ہیں، اور سلائی کے پیشہ کی طرف نسبت کے اعتبار سے اگر خیاط پڑھیں تو بھی درست ہے، کیونکہ ان دونوں راویوں نے یکے بعد دیگر تینوں پیشے اختیار کئے تھے، لیکن اول میں حناط گندم فروشی کی حیثیت سے زیادہ مشہور ہے اور دوسرے میں حباط یعنی حبط فروش زیادہ معروف ہے۔

فائدہ دیگر ناموں کے بیان میں

 

مؤطا اور صحیحین میں جہاں بھی یَسَار آئے گا تو اس کو سین مہملہ سے پہلے یائے تحتیہ کے ساتھ پڑھنا چاہئے، مگر محمد بن بَشَّار کا نام بائے موحدہ اور شین معجمہ کے ساتھ ہے اور موصوف امام بخاریؒ کے استاد ہیں۔

مؤطا اور صحیحین میں جہاں لفظ بشر آئے، اس کو بائے موحدہ کے زیر اور شین معجمہ کے ساتھ پڑھنا چاہئے، مگر چار راویوں کے نام بائے موحدہ کے پیش اور سین مہملہ کے ساتھ وارد ہیں۔

۱)عبد اللہ بن بُسرؓ صحابی۔ ۲)بُسر بن سعید۔ ۳)بُسر بن عبیداللہ حضرمی۔ ۴)بُسر بن محجن

ان تینوں کتابوں میں جہاں بھی لفظ بَشِیر جو بشارت بمعنی خوشخبری سے ماخوذ ہے اس کو طویل کے وزن پر پڑھنا چاہئے، مگر چار راویوں کے نام مصغر آئے ہیں، ان میں سے دو بُشَیر بن کعب عدوی اور بُشَیر بن یسار، شین کے معجمہ ساتھ ہیں اور دو سین مہملہ سے وارد ہیں، ایک کو بائے تحتیہ کے ساتھ پڑھنا چاہئے، بُسَیر بن عمرو اور دوسرے کو نون کے ساتھ پڑھنا چاہئے، وہ قطن بن نُسَیر کے باپ کا نام ہے۔

قاعدہ :یَزِید کا ہمشکل لفظ جہاں آئے وہ زیادہ سے مضارع معروف غائب کا صیغہ ہے مگر تین راوی (۱)بُرید بن عبد اللہ بن ابی بردہ، بائے موحدہ کے پیش اور رائے مہملہ کے فتح کے ساتھ ہے، جو برد بمعنی اولہ کی تصغیر ہے۔

(۲)محمد بن عرعرۃ بن البِرند کے دادا کا نام ہے جو بائے موحدہ کے زیر اور رائے مہملہ اور نون ساکن کے ساتھ وارد ہے، بعض محدثین دونوں (باء اور راء )پر فتح پڑھتے ہیں اور علی بن ھاشم بن البِرند کے دادا کا نام بائے موحدہ کے زیر اور یائے تحتیہ کے زیر سے پڑھتے ہیں۔

قاعدہ :جہاں بھی براء آئے اس کو مخفف پڑھنا چاہئے اور اس کی باء کو مفتوح سمجھنا چاہئے مگر دو راویوں کے نام (۱)ابوالعالیہ البراء اور (۲)ابو معشر البرّاء کو باء کے فتح اور راء کی تشدید سے پڑھنا چاہئے۔

قاعدہ :حارثہ کی شکل کے نام کو حائے مہملہ، رائے مکسورہ اور ثائے مثلثہ مفتوحہ سے پڑھنا چاہئے مگر چار جگہ جیم، راء اور یائے تحتیہ کے ساتھ سمجھنا چاہئے۔

۱)جاریہ بن قدامہ۔ ۲)یزید بن جاریہ۔ ۳)عمرو بن سفیان بن اسید بن جاریہ۔ ۴)الاسود بن العلاء بن جاریہ۔

قاعدہ :جَرِیر کی صورت ہر جگہ جیم اور رائے مہملہ کی تکرار کے ساتھ سمجھنی چاہئے، مگر دو راویوں کے نام ایسے آئے ہیں جن کے پہلے حائے مہملہ اور زائے منقوطہ ہے۔

۱۔ حریز بن عثمان الرحبی جو کوفہ کے محلہ رجب کی طرف منسوب ہیں، اور ۲۔ ابو حریز عبد اللہ بن حسین جو عکرمہؒ سے راوی ہیں۔

قاعدہ :خراش ہر جگہ خائے معجمہ کے ساتھ آیا ہے مگر رِبعی بن حراش کے باپ کا نام حائے مہملہ سے وارد ہوا ہے۔

قاعدہ :حُصَین ہر جگہ مصغر ہے اور صاد مہملہ کے ساتھ ہے مگر ابو حصین عثمان بن حَصین عثمان بن عاصم، طویل کے وزن پر ہے اور حُضَین بن المنذر ابوسامان بصیغۂ تصغیر ضاد معجمہ کے ساتھ ہے۔

حازم ان تینوں کتابوں میں ہرجگہ حائے مہملہ اور زائے منقوطہ کے ساتھ ہے مگر ابو معاویہ محمد بن خازم کا باپ جو ضریر کوفی سے مشہور ہے اور اعمش کا شاگرد ہے وہ خائے معجمہ سے ہے۔

حَبَّان بن مُنقِذ اور محمد بن یحییٰ بن حَبَّان کا دادا اور حَبَّان بن واسع اور اس کا دادا، نیز حَبَّان بن ہلال میں اس جگہ حاء پر زبر اور باء کو مشدد پڑھنا چاہئے اور حِبَّان بن عطیہ، حِبَّان بن موسیٰ اور حِبَّان بن العرفہ میں حاء مکسورہ اور باء کو مشدد پڑھنا چاہئے۔

حبیب کو ہر جگہ حائے مہملہ پر زبر اور بائے موحدہ پر زیر کے ساتھ سمجھنا چاہئے، یہ حُبٌّ اور مَحَبّۃٌ سے طویل کے وزن پر ہے مگر تین جگہ خائے معجمہ کے پیش کے ساتھ مصغر سمجھنا چاہئے جو خبابت بمعنی دانائی مصدر سے بنایا ہے۔

۱۔ خُبَیب بن عدی۔ ۲۔ خُبَیب بن عبد الرحمن۔ ۳۔ ابو خُبَیب حضرت عبد اللہ بن الزبیر کی کنیت ہے۔

حکیم ہر جگہ حکمت سے طویل کے وزن پر پڑھنا چاہئے، مگر رزیق بن حُکیم بن عبد اللہ اور حُکیم بن عبد اللہ حَکَمْ کی تصغیر ہے۔

رِبَاح ہر جگہ بائے موحدہ اور راء کے زیر کے ساتھ ہے، مگر ابو قیس زیاد بن رِیَاح کے باپ کا نام یائے تحتیہ اور راء کے زیر کے ساتھ ہے۔

زُبید :اس کو صحیحین میں زائے منقوطہ کے پیش اور بائے موحدہ کے زیر سے پڑھنا چاہئے، یہ زبد بمعنی مکھن کی تصغیر ہے، اور مؤطا میں زُیید پڑھنا چاہئے جو مشہور نام زید کی تصغیر ہے۔

سُلَیم: ان تینوں کتابوں میں ہر جگہ تصغیر کے صیغہ کے ساتھ وارد ہے، مگر سَلیم بن حَیَّان طویل کے وزن پر ہے۔

سَلْم ہر جگہ سین کے زبر اور لام کے سکون کے ساتھ آیا ہے۔

شُریح ہر جگہ شین معجمہ کے پیش اور آخر میں حائے مہملہ کے ساتھ آیا ہے، مگر تین راوی سین مہملہ اور جیم سے بھی وارد ہیں :

سُریج بن یونس۔ ۲۔ سُریج بن النعمان۔ ۳۔ احمد بن ابی سُریج۔

سُلیمان ہرجگہ مشہور پیغمبر کا نام ہے، مگر چھ راوی :سلمان فارسی۔ ۲۔ سلمان بن عامر ضبّی۔ ۳۔ سلمان الاغر۔ ۴۔ عبد الرحمن بن سلمان۔ ۵۔ ابو حازم، جو حضرت ابوھریرۃؓ سے راوی ہیں ان کا نام بھی سلمان ہے۔ ۶۔ ابورجاء حضرت ابو قِلابہؓ کا نام بھی سلمان ہے۔

سَلَمہ ہر جگہ زبر کے ساتھ وارد ہے مگر دو جگہ اس کو لام کے زیر کے ساتھ پڑھنا چاہئے :

۱۔ عمرو بن سَلِمہ الجَرمی جو بصرہ کی مسجد کا تھا۔ اور ۲۔ بنو سَلِمہ جو انصار کا قبیلہ تھا۔

عُبیدہ ہر جگہ مصغر آیا ہے مگر چار جگہ :

عَبیدہ سلمانی جو حضرت علیؓ کے شاگرد تھے۔ ۲۔ عَبیدہ بن حمید۔ ۳۔ عَبیدہ سفیان۔ ۴۔ عامر بن عَبیدۃ الباہلی مصغر نہیں ہیں۔

عُبادہ ہر جگہ عین کے پیش اور بائے موحدہ کے سکون کے ساتھ ہے، مگر محمد عَبادہ الواسطی جو امام بخاری کے استاد ہیں، ان کا نام عین کے زبر کے ساتھ ہے۔

عَبدہ ہر جگہ عین کے زبر اور بائے موحدہ کے سکون سے ہے، مگر عامر بن عَبَدہ جو صحیح مسلم کے خطبہ میں وارد ہے اس کو عین اور باء دونوں کو زبر کے ساتھ پڑھنا چاہئے، اور اسی طرح نخالہ بن عَبَدہ بھی ہے۔

عَبّاد ہر جگہ عین کے زبر اور بائے موحدہ کی تشدید کے ساتھ وارد ہے، مگر قیس بن عُباد عین کے پیش اور بائے موحدہ کی تخفیف کے ساتھ آیا ہے۔

عقیل: عین کے زبر اور قاف کے زیر کے ساتھ آیا ہے مگر تین راوی مصغر وارد ہیں : ۱۔ زہری کے شاگرد عُقیل بن خالد۔ ۲۔ یحییٰ بن عُقیل۔ ۳۔ بنو عُقیل مشہور قبیلہ ہے۔

واقد ہر جگہ قاف کے زیر کے ساتھ ہے۔

نصر اگر لام تعریف کے ساتھ آئے تو ضاد معجمہ سے پڑھنا چاہئے، جیسے ابی النضر اور النضر بن الحارث، اور اگر بغیر لام تعریف کے آئے تو صاد مہملہ سے پڑھنا چاہئے، یہ اصطلاحی فرق ہے جو کتابت میں امتیازی غرض سے اختیار کیا گیا ہے، جیسے عُمر اور عَمرو میں کیا ہے۔

ٍ            عُبید اور حُمید ہر جگہ مصغر ہے۔

اَیلی، ایلہ کی طرف منسوب ہے جو حدودِ شام میں ایک شہر ہے، یہ ہمزہ کے زبر اور یائے تحتیہ کے سکون اور لام کی تخفیف کے ساتھ وارد ہوا ہے۔ یہ اس صورت میں اُبُلی سے جو اُبلہ ہمزہ اور بائے موحدہ کے پیش اور لام مشدد سے مشتبہ ہو جاتا ہے، لیکن صحیحین میں کوئی راوی اُبُلّی کی نسبت والا نہیں آیا ہے اور جو ہے بھی تو اس کی نسبت مذکور نہیں ہے، جیسے شیبان بن فروخ کہ ان سے امام مسلم نے روایت کی ہے مگر ان کی نسبت میں لفظ اُبلّی ذکر نہیں کیا ہے۔

بزاز ہر جگہ دوزائے منقوطہ سے ہے، یعنی کپڑا بیچنے والا، یہ بَزٌّ سے مشتق ہے جو کپڑے کے معنی میں آتا ہے، مگر دو راوی بزار ہیں، بزار عربی میں بزر فروش کو کہتے ہیں یعنی تخم فروش کو بولتے ہیں اور ایسے پیشے والے کو ہندی میں پنساری کہتے ہیں۔

البصری ہر جگہ بائے موحدہ کے ساتھ، شہر بصرہ کی طرف نسبت ہے مگر تین راوی نون سے وارد ہیں اور وہ ایک مشہور قبیلہ بنی نصر کی طرف منسوب ہیں :

۱۔ مالک بن اوس النصری۔ ۲۔ عبد الواحد بن عبد اللہ النصری۔ ۳۔ سالم بن فلاں جو نصریین کا مولیٰ (غلام )ہے۔

الثوری ہر جگہ ثائے مثلثہ سے ہے، مگر ابو یعلیٰ محمد بن ا     لصلت التوزی جو تائے مثناۃ فوقانیہ اور تشدید واو کے ساتھ ہے توز کی طرف نسبت ہے جس کے آخر میں زائے منقوطہ ہے۔

جُریری ہر جگہ جیم کے ساتھ ہے اور مصغر ہے مگر یحییٰ بن ایوب جَیری جیم کے زبر سے وارد ہے اور یحیٰ بن بشر حَریری جو بخاریؒ اور مسلمؒ کے استاد ہیں، حائے مہملہ کے زبر سے آئے ہیں، اور حریر (ریشم )کی طرف منسوب ہیں۔

السلَمی ہر جگہ لام کے زبر سے آیا ہے اور محدثین ان راویوں کو جو انصار کے قبیلہ بنی سلمہ کی طرف منسوب ہیں لام کے زیر کے ساتھ پڑھتے ہیں۔

الہمدانی، ہر جگہ سکون میم کے ساتھ قبیلہ ہمدان کی طرف منسوب ہے، لیکن ہَمدان میم کے زبر سے عراقِ عجم کے شہروں میں سے ایک شہر کا نام ہے اور صحیحین میں اس شہر کی طرف نسبت نہیں آئی ہے۔

فائدہ :محدثین کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ راوی کی کنیت، نسبت اور صنعت کا ذکر کرتے ہیں اور ان کی غرض اس عمل سے احتیاطِ کامل کا اظہار ہوتا ہے، کیونکہ کبھی تو نام مشترک ہوتا ہے اور کبھی فقط کنیت مشترک ہوتی ہے، ایسی صورت میں راوی اور غیر راوی میں امتیاز بغیر مبالغہ اور کامل احتیاط برتے نہیں ہوسکتا ہے(لہٰذا ایسی صورت میں کنیت، نسبت اور صنعت کا ذکر ضروری ہوتا ہے )بلکہ بعض جگہ راوی کا نام اور اس کے باپ کا نام بھی مشترک ہوتا ہے۔ چنانچہ محدثین نے لکھا ہے کہ خلیل بن احمد نام کے چھ شخص گزرے ہیں، اور انس بن مالک نام کے پانچ شخص ہوئے ہیں، اور کسی کسی راوی کا نام، اس کے باپ کا نام، اور اس کے دادا کا نام بھی مشترک واقع ہوا ہے، چنانچہ احمد بن جعفر بن احمد یہ چار شخص ہیں، اور ر خود ان کا نام اور ان کے باپ کا نام اور ان کے دادا کا نام ایک ہی ہے، اور محمد بن یعقوب بن یوسف دو شخص ہیں، اور بعض کنیت اور نسبت ایک سی ہوتی ہیں، چنانچہ ابو عمران جُوَنی دو شخص ہیں، ایک کا نام عبد الملک بن حبیب ہے اور دوسرے کا موسیٰ بن سہل ہے، اور اسی طرح ابوبکر بن عیاش بھی تین راوی ہیں۔

غرض محدثین کی اس قدر چھان بین بیکار نہیں سمجھنا چاہئے، ان کا اس سے مقصد راویوں میں باہم امتیاز کرنے میں پوری پوری احتیاط کرنا ہوتا ہے تاکہ ضعیف راوی ثقہ راوی سے مشتبہ نہ ہوسکے اور اگر دونوں راوی عدالت اور وثوق کی صفت میں برابر ہوں تو اشتباہ مضر نہیں ہوتا، لیکن محدثین کے یہاں اس میں امتیاز کے لئے قرائن اور اشارات ہیں، مثلاً سفیان ثوری اور سفیان بن عیینہ میں ان کے شیوخ اور شاگردوں سے تمیز ہوتی ہے، اور اگراستاد اور شاگرد بھی ہم نام اور ہم نسبت ہوں تو امتیاز نہایت دشوار ہوتا ہے اور ایسے ہی مواقع پر محدّث ہونے کا امتحان ہوتا ہے۔

بصرہ میں فنِ حدیث کے ایک زمانہ میں دو امام موجود تھے، جنھیں حمادین کہتے ہیں :۱۔ حماد بن زید، اور ۲۔ حماد بن سلمہ، لہٰذا صحیحین میں جہاں بھی عارم سے روایت آئے، اس کو حماد سے روایت کرنا چاہئے کیونکہ وہ حماد بن زید ہیں اور اگر موسیٰ بن اسماعیل تبوذ راوی ہو گا تو پھر حماد بن سلمہ مراد ہوتا ہے۔

صحیحین میں عبد اللہ بغیر کسی قید کے آئے تو صحابہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ مراد ہوتے ہیں اور ائمۂ حدیث میں حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ ۔

ابو جمرہ، جیم اور رائے مہملہ سے حضرت ابن عباسؓ کے شاگرد ہیں، اور ابو حمزہ حائے مہملہ اور زائے منقوطہ سے بھی حضرت عبد اللہ بن عباس کے ایک شاگرد (مراد )ہیں، شعبہ نے ان دونوں سے روایت کی ہے، لہٰذا اصطلاح یہ ہے کی شعبہ جس وقت مطلق ابو جمرہ کہتے ہیں، تو نصر بن عمران مراد ہوتے ہیں، جو کہ جیم سے ہیں، اور جس وقت وہ نسب سے مقید کرتے ہیں تو ابو حمزہ حائے مہملہ سے مراد ہوتے ہیں، واللہ اعلم۔

کسی جگہ ماں کا نام باپ کے نام سے مشتبہ ہو جاتا ہے، لیکن غور و خوض سے پتہ چلتا ہے کہ ماں کا نام ہے، باپ کا نام نہیں ہے، جیسا کہ حدیث میں معاذ اور معوّذ ابنی عفراء آیا ہے اور حضرت معاذ اور معوّذ رضی اللہ عنھما دونوں عفراء کے بیٹے ہیں، اس میں عفراء ان کی ماں کا نام ہے، اور ان کے باپ کا نام حارث ہے، بعض روایتوں میں بلا لؓ بن حمامہ آیا ہے، کہ وہ بلالؓ بن رباح ہیں جو پیغمبر خداﷺ کے خادم تھے، ان کی والدہ کا نام حمامہ ہے، نیز صحیحین میں عبد اللہ بن بحینہ کا نام آیا ہے، بحینہ ان کی ماں کا نام ہے اور ان کے باپ کا نام مالک ہے، اور بعض جگہ اس طرح جمع کر کے کہہ دیا ہے، عبد اللہ بن مالک بن بحینہ، ایسی صورت میں ان کی ماں اور ان کے دادا کے نام میں اشتباہ ہو جاتا ہے، لہٰذا یہ اصول بنا لیا گیا ہے کہ مالک اور بحینہ میں ابن کے الف کو قائم رکھتے ہیں اور گراتے نہیں ہیں تاکہ معلوم رہے کہ یہ عبد اللہ کی صفت ہے، مالک کی صفت نہیں ہے، اسی طرح محمد بن الحنفیہ میں ہے کہ ان کے والد بزرگوار حضرت علیؓ بن ابی طالب ہیں، اور حنفیہ ان کی ماں کی طرف نسبت ہے، ان کا نام خولہ بنت جعفر تھا، جعفر یمامہ اور بنی حنفیہ کے سردار تھے، جس طرح اسماعیل بن عُلیّہ ہے کہ ان کے باپ کا نام ابراہیم ہے۔

ایک شخص کی نسبت اس کے دادا کی طرف کرنا حدیث کی کتابوں میں بکثرت موجود ہے، بلکہ محاور اتِ عرب میں نہایت عام اور مشہور ہے، چنانچہ ’’انا ابن عبد المطلب ‘‘ اس کی نہایت واضح دلیل ہے، اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ کبھی دادی کی طرف بھی نسبت کر دیتے ہیں، جیسے یعلی بن مُنْیہ، کہ مُنْیہ ان کی دادی کا نام ہے جو ان کے باپ کی ماں تھیں، اور بشیر بن الخصاصیہ بھی اسی طرح سے ہے، اور جو دادا سے منسوب ہیں وہ بہت ہیں، جیسے ابوعبیدہ بن الجراح کہ ان کے والد کا نام عبد اللہ بن الجراح ہے، اور مثلا ً ابن جریج کہ ان کا نام عبد الملک بن عبد العزیز بن جریج ہے، اور احمد بن حنبل کہ ان کے والد کا نام محمد ہے، اور متبنّی ہونے کی وجہ سے اس شخص کی طرف نسبت کر دیتے ہیں جس کا وہ منہ بولا بیٹا ہوتا ہے، جیسے مقدادؓ بن الاسود کہ اصل میں مقداد بن عمرو بن ثعلبۃ الکندی ہے، ان کی پرورش چونکہ اسود بن عبد یغوث زہری قرشی نے کی تھی اور اس نے انھیں گود لے لیا تھا اس لئے اس کی طرف نسبت سے مشہور ہو گئے، اور اسی طرح حسن بن دینار ہے کہ اصل میں حسن بن واصل ہے اور دینار ان کی ماں کا خاوند تھا۔

فائدہ :واضح رہے، حدیث کی کتابوں کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک قسم کو جامع کہتے ہیں، جامع محدثین کی اصطلاح میں وہ کتا ب ہے جس میں مقررہ آٹھ قسم کی حدیثیں پائی جاتی ہیں، یعنی (۱)عقائد کی حدیثیں۔ (۲)احکام کی حدیثیں (۳)رقاق کی حدیثیں (۴)کھانے پینے، سفر و حضر، نشست وبرخاست کے آداب کی حدیثیں (۵)تفسیر سے متعلق حدیثیں (۶)تاریخ وسیر سے متعلق حدیثیں (۷)فتنوں سے متعلق حدیثیں (۸)فضائل و مناقب سے متعلق حدیثیں یکجا ہوتی ہیں۔ محدثین نے ان مذکورۂ بالا آٹھ فن میں سے ہر فن پر جداگانہ تالیفات کی ہیں، عقائد کی حدیثوں کو ’’علم التوحید والصفات‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں، جیسے ابوبکر بن خزیمہ کی ’’کتابُ التوحید‘‘ مشہور کتاب ہے، اور امام بیہقی کی ’’کتاب الاسماء والصفات‘‘ ہے، اور احادیثِ احکام کا نام سنن ہے، یہ کتاب الطہارت سے کتاب الوصایا تک فقہی ابواب کی ترتیب پر مرتب ہوتی ہے، اس موضوع پر نہایت کثرت سے کتابیں لکھی گئی ہیں، اور احادیثِ رقاق کا نام ’’علم الزہد والسلوک‘‘ ہے۔

امام احمدؒ، عبد اللہ بن المبارکؒ وغیرہ محدثین نے کتاب الزہد کے نام سے جداگانہ کتابیں لکھی ہیں، اور احادیث ادب کا نام علم الادب ہے، اس فن میں امام بخاریؒ کی نہایت مبسوط کتاب موجود ہے، جس کو ’’الادبُ المفرد‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں، تفسیر سے متعلق حدیثوں کو تفسیر کہتے ہیں، تفسیر ابنِ مردویہ، تفسیر دیلمی اور تفسیر ابنِ جریر وغیرہ حدیث کی تفسیروں میں بہت مشہور کتابیں ہیں، اور شیخ جلال الدین سیوطی کی کتاب ’’الدّرالمنثور‘‘ ان تمام کتابوں کی جامع ہے۔

تاریخ وسیر کی حدیثوں کی دو قسمیں ہیں :

(۱)وہ حدیثیں جو آسمان و زمین، حیوانات، جنات، شیاطین، فرشتوں کی پیدائش، گذشتہ انبیاء علیہم السلام اور پہلی امتوں سے متعلق ہیں، اس قسم کی حدیثوں کو ’’بدء الخلق‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

(۲)وہ حدیثیں جو ہمارے پیغمبرﷺ کے وجود بامسعود اور صحابۂ کرامؓ اور آپ کے آل عظام سے متعلق ہیں اور سرورِ کائناتﷺ کی پیدائش سے وفات تک کے حالات پر مشتمل ہیں وہ ’’سیر‘‘کے نام سے مشہور ہیں، سیرت ابنِ اسحاق، سیرت ابنِ ھشام، سیرت ملا عمر، اس موضوع پر اور بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں، اور فی الوقت اگر میر جمال الدین محدث حسینی کی کتاب ’’روضۃ الاحباب ‘‘کا نسخۂ صحیحہ مل جائے، جو الحاق اور تحریف سے پاک ہو تو وہ اس موضوع پر سب سے بہتر کتاب ہے، اور ’’مدارج النبوۃ‘‘ شیخ عبد الحق محدث اور ’’سیرت شامیہ ‘‘اور ’’مواہب لدنیہ ‘‘سیرت کی کتابوں میں سب سے بڑی کتابیں ہیں، اور احادیثِ فتن کا نام علم الفتن ہے، نعیم بن حماد نے ’’کتاب الفتن‘‘ نہایت بسط وتفصیل سے لکھی ہے، جس میں رطب ویابس سب کچھ جمع کر دیا ہے، اور علماء نے بھی اس موضوع پر کتابیں لکھی ہیں، اور فضائل و مناقب کے ذخیرۂ احادیث کو علم المناقب کہتے ہیں، اس موضوع پر بھی قسم قسم کی متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں، خصوصاً بعض محدثین نے بعض آل و اصحاب کے مناقب پر کسی خاص غرض سے مستقل کتابیں لکھی ہیں، جیسے ’’مناقب قریش ‘‘، ’’مناقب الانصار ‘‘’’مناقب العشرۃ المبشرۃ ‘‘ جو محب طبری کی تالیف ہے جس کا نام ’’الریاض النضرہ فی مناقب العشرۃ المبشرۃ‘‘ ہے اور ’’ذخائر العقبیٰ فی مناقب ذوی القربیٰ ‘‘ اور ’’حلیۃ الکمیت فی مناقب اہل البیت ‘‘ اور ’’الدیاج فی مناقب الازواج ‘‘اور بہت سی کتابیں خلفائے راشدین کے مناقب میں لکھی گئی ہیں، خصوصاً ’’القول الصواب فی مناقب امیر المؤمنین عمرؓ بن الخطاب ‘‘اور ’’القول الجلی فی مناقب امیر المؤمنین علیؓ ‘‘ہے، اور امام نسائیؒ نے امیر المؤمنین حضرت علیؓ کے مناقب میں ایک مبسوط رسالہ لکھا ہے، چنانچہ شام کے ناصبیوں نے غیر معمولی تعصب اور عناد کی وجہ سے ان کو دمشق میں اسی بنا پر شہید کر دیا تھا۔

غرض جامع وہ کتاب ہے جو ان فنون میں سے سب کا نمونہ رکھتی ہے، جیسے صحیح بخاریؒ اور جامع ترمذیؒ ہے، صحیح مسلمؒ میں اگرچہ ان فنون کی حدیثیں موجود ہیں، مگر جو حدیثیں تفسیر و قرات سے متعلق ہیں وہ اس میں نہیں ہیں اسی لئے اس کو جامع نہیں کہتے ہیں۔

حدیث کی کتابوں کی دوسری قسم مسانید ہے

محدثین کی اصطلاح میں مُسند وہ ہے جس میں حدیثیں صحابہ کی ترتب پر مذکور ہوں، وہ ترتیب حروف تہجی کے اعتبار سے ہو، یا اسلام لانے میں سبقت کے اعتبار سے یا شرافت نسب کے لحاظ سے، لہٰذا اگر حروف تہجی کے اعتبار سے حدیثیں جمع کریں گے تو حضرت ابوبکرؓ سے مروی حدیثوں کو پہلے لکھیں گے، پھر حضرت اسامہ بن زیدؓ اور حضرت انسؓ سے روایت کردہ حدیثوں کو پہلے لکھیں گے، اور اگر سبقتِ اسلام کے اعتبار سے جمع کریں گے تو عشرۂ مبشرہؓ کی حدیثیں پہلے لکھیں گے، اور خلفائے راشدینؓ کی حدیثیں خلافت کی ترتیب پر سب سے پہلے لکھیں گے، اس کے بعد بدری صحابہؓ سے مروی حدیثیں، پھر اہلِ حدیبیہؓ اور ان کے بعد ان صحابہؓ کی جو فتح مکہ کے بعد اسلام لائے تھے، اور ان کے بعد صحابیات سے مروی حدیثیں مذکور ہوں گی، اور ازواجِ مطہراتؓ کی حدیثیں تمام صحابیات کی حدیثوں پر مقدم ہوں گی، اور حضور اکرمﷺ کی پاک صاحبزادیوں سے حدیثیں مروی نہیں ہیں، البتہ سیدہ زہرا(فاطمہ )رضی اللہ عنھا سے تھوڑی سی حدیثیں مروی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر صاحبزادیاں آں حضرتﷺ کے سامنے داخلِ بہشت ہو گئی تھیں، اور سیدۃ النسائؓ آں حضرتﷺ کی وفات کے بعد چھ مہینے تک بقیدِ حیات رہیں، اور پھر اپنے والدِ بزرگوار سے جا ملیں، لہذا ان سے بھی زیادہ حدیثیں مروی نہیں۔

اگر قبائل ونسب کی ترتیب پر مُسند کو مرتب کریں تو پہلے بنی ہاشم کی مسانید خاص طور پر حضرات حسنین اور امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہم سے مروی حدیثوں کو مقدم کریں گے، اس کے بعد ہر اس قبیلہ کی حدیثوں کو پہلے ذکر کریں گے جس کو نسب کے اعتبار سے آں حضرتﷺ سے زیادہ قرب ہو گا، لہٰذا اس اعتبار سے حضرت عثمانؓ کی حدیثیں حضرت ابوبکر صدیقؓ سے مروی حدیثوں پر مقدم ہوں گی اور حضرت ابوبکر صدیقؓ سے مروی حدیثیں حضرت عمرؓ بن الخطاب سے مروی حدیثوں پر مقدم ہوں گی، و علی ہذا القیاس۔

تیسری قسم معاجم ہے

معجم محدثین کی اصطلاح میں وہ ہے جس میں حدیثیں شیوخ کی ترتیب پر ذکر کی جاتی ہیں اور یہاں شیوخ کی وفات کے تقدم کا اعتبار کرتے ہیں، یاپھر حروف تہجی کے مطابق اس کو مرتب کرتے ہیں یا ترتیب و فضیلت اور علم وتقویٰ میں تقدم کا اعتبار کرتے ہیں، لیکن اکثر حروف تہجی کی ترتیب کا لحاظ رکھتے ہیں، طبرانی کی معاجم ثلاثہ اسی ترتیب پر مرتب ہیں۔

چوتھی قسم اجزاء ہے

جزو، محدثین کی اصطلاح میں وہ ہے جس میں صرف ایک خاص شخص کی مروی حدیثوں کو جمع کیا جاتا ہے، وہ شخص صحابہ کے طبقے میں ہو یا ان کے بعد کے طبقے میں اس کا شمار ہو، مثلاً جزوِ حدیث ابوبکرؓ۔ جزوِ حدیث مالکؒ و علیٰ ہذا القیاس۔

اس قسم کا بھی محدثین میں بڑا رواج ہے، کبھی ایسا کرتے ہیں کہ جامع میں مذکور آٹھ موضوعوں میں سے کسی خاص موضوع کو اختیار کر لیتے ہیں اور اس پر ایک نہایت مبسوط کتاب مرتب کرتے ہیں، چنانچہ باب النیۃ پر ابوبکر بن ابی الدنیا نے ایک مبسوط کتاب لکھی ہے اور آجّری نے رویتِ باری تعالیٰ پر ایک ضخیم کتاب لکھی ہے، اسی طرح دنیا کی مذمت اور بے ثباتی پر ابن ابی الدنیا نے ایک ضخیم تالیف یادگار چھوڑی ہے۔

رسائلِ جزئیہ

علیٰ ہذا القیاس مذکورہ بالا آٹھ مطالب میں سے ہر ہر موضوع پر مستقل اور جداگانہ رسالے لکھے گئے ہیں جن کا احاطہ اور شمار بھی دشوار ہے، حافظ ابن حجرؒ اور شیخ جلال الدین سیوطیؒ کی تصانیف میں رسالوں کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔

اربعین

تصانیفِ حدیث کی ایک دوسری قسم بھی ہے جس کو ’’اربعین ‘‘کہتے ہیں، یعنی چالیس حدیثوں کو ایک باب میں یا مختلف ابواب ایک ہی سند میں یا متعدد سندوں سے جمع کرتے ہیں، اربعینات بھی بے شمار ہیں جو دیکھی اور سنی جاتی ہیں، لہٰذا تصنیفاتِ حدیث کی چھ قسمیں ہوئیں :(۱)جوامع (۲)مسانید (۳)معاجم (۴)اجزاء (۵)رسائل (۶)اربعینات۔ رسائل کو کتابیں بھی کہتے ہیں۔

دوسرا امر، یعنی معانی حدیث کے سمجھنے میں احتیاط برتنا، تو اس کی حقیقت بھی امرِ اول کی تحقیق سے آشکار ہو گئی، کیونکہ مشارق الانوار مثلاً صحیحین اور مؤطا کی حدیثوں کے معانی کی توضیح کے لئے کافی ہے، اور صحاحِ ستہ کی تشریح کیلئے سب سے مستغنی کرنے والی کتاب جامع الاصول ہے اور شیخ محمد طاہر کی کتاب مجمع البحار تمام کتبِ احادیث یعنی طبقاتِ مذکورہ کی تحقیق کیلئے کافی ہے۔

اتنا سمجھ لینا چاہئے کہ حدیثوں کی شرح اور توجیہ میں ہر طرح کا کلام اور رطب ویابس سب کچھ لکھ دیا گیا ہے اس لئے اب ان علماء سے واقفیت ضروری ہے جو اس باب میں قابلِ اعتماد ہیں اور ان کی تصانیف سے بھی پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے، علمائے شافعیہ میں سے امام نوویؒ، محی السنہ البغوی، اور ابو سلیمان خطابی نہایت قابلِ اعتماد ہیں، ان کا قول محکم اور ان کی بحثیں نہایت پُر مغز ہوتی ہیں، خاص طور سے بغوی کی شرح السنّہ فقہ، حدیث اور حلِّ مشکلات میں کافی و شافی ہے، گویا کہ مصابیح اور مشکوٰۃ کی شرح اسی سے ہو جاتی ہے، صحیح مسلم کی شرح امام نوویؒ کی تالیف ہے اور معالم السنن، سننِ ابی داؤد کی شرح، خطابی کی تصنیف ہے۔

علمائے حنفیہ میں سے امام طحاویؒ شرحِ احادیث میں سب سے مقدم اور سب کے پیشوا ہیں، اس باب میں ان کی کتاب ’’معانی الآثار‘‘ حنفیہ کی گویا دستاویز ہے۔

ابن عبد البر مالکیہ میں سب سے پیش پیش ہیں اور اس موضوع پر’’ الاستذکار‘‘ اور ’’التمہید‘‘ ان کی یادگار سے ہیں۔

حدیث کی کتابوں کی شرح بہت سے علماء نے لکھی ہیں، جن کے ناموں اور ان کی کتابوں کا شمار سرِدست امکان سے باہر ہے، ہر ایک کا اسلوبِ بیان نرالا ہے، لیکن وہ سب ان ہی چند علماء کے خوشہ چین اور زلّہ رُبا ہیں، لہذا ان محققین علماء کی تصانیف دستیاب ہو جائیں تو متاخرین کے تکلفات اور تصنّعات کی حاجت نہیں رہتی ہے۔ حضرت والد ماجد قدس سرہ نے معانیء احادیث کے سمجھنے اور حدیثوں میں تعارض کو اٹھانے کے عجیب وغریب اصول تحریر فرمائے ہیں، اگر فرصت مل سکی تو انشاء اللہ اس کا کچھ حصہ نقل کر کے برادر موصوف کو روانہ کروں گا اور ’’کتاب المغیث فی مختلف الحدیث‘‘ بھی نمونے کے طور پر خوب ہے۔

 

 

 

 

خاتمہ

 

واضح رہے کہ حدیث کے موضوع ہونے اور راوی کے جھوٹے ہونے کی چند علامتیں ہیں :

۱۔ تاریخِ مشہور کے خلاف روایت کرے، مثلاً یہ کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے جنگِ صفین میں ایسا کہا، حالانکہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ حضرت عثمانؓ کے عہدِ خلافت میں وفات پاچکے تھے۔ یہ شعر بھی اسی نوعیت کا ہے :

درجمل چوں معاویہ بگر یخت                     خون خلقے بسے بہ بیہدہ ریخت

(جنگِ جمل میں جب حضرت معاویہؓ بھاگ گئے، تو بہت سی مخلوق کا خون بے کار بہا )۔

اس قسم کی من گھڑت حدیثیں ادنیٰ تامل اور ذراسی تاریخی جستجو سے پہچانی جا سکتی ہیں۔

۲۔ راوی رافضی ہو اور وہ صحابہؓ پر طعن کے متعلق حدیث بیان کرے، یا ناصبی ہو اور اہلِ بیت پر طعن کے سلسلہ میں حدیث روایت کرے، اور اسی طرح اور مثالیں ہیں، لیکن یہاں یہ بات بھی لحاظ کے قابل ہے کہ اگر راوی روایت میں منفرد ہے تو اس کی حدیث کا کوئی اعتبار نہیں البتہ اگر دوسرے بھی وہی روایت کرتے ہیں تو اس کی حدیث کو قبول کرنا چاہئے اور اس حدیث کی معقول توجیہ اور تاویل پر غور کرنا چاہئے۔

۳۔ راوی ایسی بات روایت کرے جس کا جاننا اور اس پر عمل کرنا ہر مکلف پر فرض ہو اور وہ روایت میں منفرد ہو تو یہ حدیث کے جعلی اور راوی کے جھوٹے ہونے کا بڑا قرینہ ہے۔

۴۔ وقت اور حالت ہی راوی کے جھوٹے ہونے کا قرینہ ہو، جیسے غیاث بن میمون کا واقعہ ہے کہ وہ مہدی خلیفۂ عباسی کی مجلس میں حاضر ہوا اور وہ اس وقت کبوتر اڑانے میں مشغول تھا۔ اس نے یہ دیکھ کر فوراً یہ حدیث بیان کی :

لَا سَبَقَ اِلاّ فِی خُفٍّ اَوْ فَصلٍ اَوْ حَافِرٍ او جَناحٍ

یعنی بازی جائز نہیں مگر اونٹ، تیتر، گھوڑے اور پرندہ میں۔

اس نے صرف مہدی کی خوشامد میں ’’جَناحٍ ‘‘کا لفظ اپنی طرف سے بڑھا دیا۔

۵۔ روایت عقل و شرع کے مقتضیٰ کے خلاف ہو اور قواعدِ شرعیہ اس کی تکذیب کریں، جیسے قضائے عمری یا اسی جیسی باتیں، جیسے روایت کرتے ہیں۔

َلَا تاکُلوا البِطِّیخَ حتّیٰ تذبَحُوہا     (جب تک خربوزے کو تراش نہ لو، نہ کھاؤ)

۷۔ لفظ اور معنی کا رکیک ہونا، مثلاً ایسے لفظ سے روایت کرے جو بلحاظ قواعدِ عربیہ درست نہ ہو یا اس کے معنی رسالت اور وقارِ نبوت کے مناسب نہ ہوں۔

۸۔ صغیرہ گناہ سے ڈرانے میں حد سے زیادہ مبالغہ کیا گیا ہو، یا تھوڑے سے عمل پر حدسے زیادہ ثواب کا مستحق قراردیا گیا ہو، جیسا کہ کہا گیا ہے:

مَن صَلّیٰ رَکْعَتَینِ فَلَہٗ سَبعونَ اَلفَ دارٍ و فی کُلِّ دارٍ سَبعونَ اَلفَ بَیتٍ و فی کُلِّ بَیتٍ سَبعونَ اَلفَ سَرِیرٍ وعلیٰ کُلِّ سَرِیرٍ سَبعونَ اَلفَ جارِیَۃٍ۔

جس نے دو رکعت نماز پڑھی اس کے لئے ستّر ہزار مکان ہیں اور ہر مکان میں ستّر ہزار کمرے ہیں اور ہر کمرے میں ستّر ہزار تخت ہیں اور ہر تخت پر ستّر ہزار لونڈیاں ہیں۔

اس قسم کی حدیثیں خواہ ثواب کے متعلق ہوں یا عذاب کے انھیں جعلی اور موضوع سمجھنا چاہئے۔

۹۔ ذرا سے عمل اور معمولی سے کام پر حج وعمرہ کے ثواب کی امید دلانا۔

۱۰۔ خیر کے کام کرنے والوں کو یہ خوشخبری دینا اور ان سے یہ وعدہ کرنا کہ انھیں انبیاء علیھم السلام کا سا ثواب ملے گا، یا یہ کہے کہ ستر نبیوں کا سا ثواب ملے گا، یا اسی قسم کی بہت سی باتیں کرنا۔

۱۱۔ راوی نے حدیث کے وضع کرنے کا خود اقرار کیا ہو جس طرح نوح ابن ابی عصمہ کے ساتھ واقعہ پیش آیا ہے کہ اس نے قرآن کی ہر ایک سورت کی فضیلت میں حدیثیں گڑھیں اور انھیں رواج اور شہرت دی ہے جیسا کہ ہر سورت کے آخر میں اس کے فضائل کو بیان کیا ہے۔ جب نوح ابن ابی عصمہ کو پکڑا گیا اور صحتِ سند کے بارے میں اس سے پوچھا گیا تو اس نے اعتراف کیا کہ ان حدیثوں کے وضع کرنے سے میری نیت خیر کی تھی، کیونکہ میں نے جب یہ دیکھا کہ قرآن کو چھوڑ کر لوگ تاریخ، تفسیر اور ابو حنیفہؒ کی فقہ میں مشغول ہیں تو لوگوں کو ترغیب دینے کی غرض سے میں نے ان حدیثوں کو گھڑا تاکہ علومِ قرآن کی طرف ان کا رجحان بڑھے اور ثواب کے اعتقاد سے تلاوت قرآن اور اس کے درس میں مشغول ہوں، حالانکہ اس کا یہ عذر گناہ سے بھی بدتر تھا، کیونکہ فضائلِ قرآن میں جو صحیح حدیثیں وارد ہیں ترغیب کے لئے وہی کافی ہیں، اسی طرح تمباکو، حقہ اور قہوہ کے متعلق بہت سی حدیثیں گھڑی گئی ہیں، جن کے الفاظ اور معنی کی رکاکت ظاہر اور آشکارا ہے، حدیثیں وضع کرنے والے کچھ کم نہیں ہوئے ہیں اور اسی طرح ان کی اغراض بھی مختلف تھیں، مثلاً زندیقوں کا فرقہ، ان کے پیشِ نظر محض شریعت کو باطل قرار دینا اور اس کا مذاق اڑانا تھا، چنانچہ ابن الراوندی نے یہ حدیث گھڑی تھی :

اَلبَاذِنْجَانُ لِمَا اُکِلَ لَہٗ۔        (بیگن سے غرض یہ ہے کہ اس کو کھایا جائے)۔

اور اس سے اس کی غرض محض شریعت کا مذاق اڑانا، اور دراصل اس حدیث :

القُرآنُ لِمَا قُرِیِ لَہٗ وَمَائُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَہٗ۔

(قرآن پاک جس مقصدسے پڑھا جائے اور آب زمزم جس مقصد کے لئے استعمال کیا جائے فائدہ مند ہوتا ہے۔)

پر تعریض کرنا ہے، اہلِ علم نے کہا ہے کہ زندیقوں کی چودہ ہزار حدیثیں مشہور ہو چکی ہیں، یہ اہلِ بدعت اور خواہشات کے بندے محض اپنے مذہب کی نصرت اور مخالف کے مذہب پر طعن کرنے کے لئے اس عمل کے مرتکب ہوئے ہیں، اور رافضی، ناصبی اور کرامیہ تو اس عمل میں سب پر سبقت لے گئے ہیں، خوارج، معتزلہ اور زیدیہ تو پھر بھی اس امرِ قبیح کے اس قدر مرتکب نہیں ہوئے ہیں۔

اہلِ علم کی ایک جماعت جو علمِ حدیث سے مس تک نہیں رکھتی تھی، اس نے جب یہ دیکھا کہ محدثین کو نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کی بڑی تعظیم کی جاتی ہے تو چاہا کہ خود بھی محدث بن بیٹھیں، اس لئے یہ نازیبا اور ناشائستہ عمل اختیار کیا، جیسے ابو البختری، وہب بن وہب القاص، سلیمان بن عمرو النخعی، حسین بن علوان اور اسحاق بن نجیح وغیرہ اور اس جماعت کے بیشتر علماء وعظ و نصیحت میں مشغول رہے۔

ایک اور فرقہ جو زہد وعبادت اور دیانت میں مشہور تھا، انھوں نے خواب میں یا کسی معاملہ میں رسول اللہﷺ سے یا ائمہ اطہار سے کوئی بات سنی، تو انھوں نے اپنے خواب یا معاملہ پر یقین اور اعتماد کرتے ہوئے اس بات کو مبہم روایت کر دیا اور لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ واقعی حدیث ہے جو از راہِ ظاہر ان تک پہنچی ہے، چنانچہ ابو عبد الرحمٰن سُلمی اور دوسرے صوفیوں کو جو حدیث کا ذوق نہ رکھتے تھے اسی عیب سے متہم کیا گیا اور ان کی روایت کو ناقابلِ اعتبار قرار دیا گیا ہے۔

دوسرا فرقہ خلفاء، ملوک اور امراء کے ان مصاحبین کا ہے جنہوں نے محض ان کی دِلجوئی کے لئے حدیثیں گھڑیں اور دین کو دنیا کے بدلے بیچا۔

ایک فرقہ نے بغیر ارادہ بھی حدیثیں وضع کی ہیں، جس کی صورت یہ ہوئی کہ انھوں نے غفلت اور توہم کی وجہ سے کسی صاحبِ تجربہ شخص یا صوفی یا حکمائے سابقین میں سے کسی حکیم کا کوئی کلام سنا اور اس کو پیغمبر علیہ السلام سے منسوب کر دیا، صرف اس خیال سے کہ ایسا حکیمانہ کلام اور ایسی حکمت کی بات پیغمبر علیہ السلام کے علاوہ اور کسی کی نہیں ہوسکتی، اس فرقہ کی کوئی حد و انتہاء نہیں ہے، اکثر عوام اسی مرض میں مبتلا ہیں، اور اللہ ہی انہیں توفیق دے۔

اب اس رسالہ میں جو کچھ مذکور ہوا ہے وہ بطور نمونہ کافی ہے، ورنہ ان مطالب کی تفصیل کے لئے تو ایک دفتر درکار ہے اور بفضلہ تعالیٰ اس علم کی اکثر ضروریات ہر طرف اور ہر ملک میں پائی جاتی ہیں، لیکن صحیح وسقیم میں تمیز، ذہن کی استقامت، طبیعت کی سلامتی نیز خطا کی طرف مائل نہ ہونا ادنیٰ تنبیہ سے راہِ ثواب کو اختیار کرنا، ایک بڑی نعمت ہے، اللہ تعالیٰ ہم کو اور برادر موصوف کو ان امور سے بہر مند فرمائے، ورنہ علم اور موادِ علم بہت ہے اور جو کمیاب ہیں وہ یہی امور ہیں۔

چہ خوش گفت دانا کہ دانش بسے است           ولیکن پراگندہ باہر کسے است

کسی عقلمند نے کیا خوب کہا ہے کہ علم بہت ہے، لیکن ہر ایک کے پاس الگ الگ پھیلا ہوا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

بسم الرحمن الرحیم

ما یحب حفظہ للناظر

(طلبۂ حدیث کے لئے ایک ضروری یادداشت )

 

               مصنف :حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی

مترجم:مولانا عبدالاحد قاسمی       

 

صحیح بخاری اور اس جیسی دوسری کتابوں کے طلبہ اور ناظرین کیلئے ضروری ہے کہ وہ ان تمام تصنیف کردہ کتابوں کے مراتب و طبقات پہچانیں جس میں رسول اللہﷺ کی احادیث جمع کی گئی ہیں، کتب حدیث کے طبقات پانچ ہیں :

پہلا طبقہ :ان کتابوں کا ہے جن میں صرف صحیح حدیثیں بیان کی گئی ہیں، چنانچہ ان میں کوئی ایسی حدیث نہیں ملے گی جس پر ضعیف ہونے کا حکم لگایا گیا ہو، موضوع حدیث کا ہونا تو بہت دور کی بات ہے، جیسے مؤطا امام ملکؒ (۱۷۹؁ء)، صحیح بخاری (۲۵۶؁ھ )، صحیح مسلم (۲۶۱؁ھ )، صحیح ابن حبان (۳۵۴؁ھ )، مستدرک حاکم (۴۰۵؁ھ ) المختارۃ للضیاء المقدسی (۶۴۳؁ھ )، صحیح ابن خزیمہ (۳۱۱؁ھ )، صحیح ابن عوانہ (۳۱۶؁ھ )، صحیح ابن السکن (۳۵۳؁ھ ) المنتقی لابن جارود (۳۰۶؁ھ )۔

دوسرا طبقہ ان کتابوں کا ہے جن کی احادیث ان احادیث سے کم درجہ کی نہیں ہیں جو لائق احتجاج اور مقبول ہیں، بلکہ علی العموم ان کی احادیث صالح للاحتجاج اور مقبول ہوتی ہیں، جیسے سنن ابی داؤد (۲۷۵؁ھ )، جامع ترمذی (۲۷۹؁ھ )، اور مسند امام احمد (۲۴۱؁ھ )، کیونکہ اس طبقہ کی ضعیف حدیث بھی حسن حدیث سے قریب ہوتی ہے، چنانچہ ہمارے جلیل القدر استاذ حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (۱۱۷۶؁ھ ) نے بھی اسی طرح فرمایا ہے، اور اکثر محدثین کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ سنن نسائی (۳۰۳؁ھ ) بھی اسی قبیل سے ہے۔

(واضح ہو کہ صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم کو مصنفؒ نے اپنے رسالہ عجالۂ نافعہ میں طبقۂ ثالثہ میں ذکر کیا ہے، اور یہاں طبقۂ اولیٰ میں ذکر کیا ہے جو اہل علم کیلئے ایک مشکل امر ہے، بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس کا حل اس طرح ہوسکتا ہے کہ مصنفؒ نے اس مقام پر ان کتابوں کو صرف صحت کے اعتبار سے ذکر کیا ہے اور عجالۂ نافعہ میں صحت، شہرت اور قبولیت میں سے ہر ایک کا لحاظ رکھا ہے، پس ظاہر ہے کہ ان کتابوں کا شہرت اور قبولیت کے اعتبار سے طبقۂ اولیٰ میں داخل ہونا تو دور ہے طبقۂ ثانیہ میں بھی ان کا شمار نہیں ہوسکتا )۔

تیسرا طبقہ :ان کتابوں کا ہے جن میں ہر نوع کی احادیث ہیں، یعنی ان میں حسن، صالح اور منکر ہر طرح کی ملی جلی حدیثیں موجود ہیں، جیسے سنن ابن ماجہ (۲۷۳؁ھ )، مسند ابی داؤد طیالسی(۲۰۳؁ھ )، زیاداتِ ابن احمد بن حنبل (۲۹۰؁ھ )، مسند عبد الرزاق(۲۱۱؁ھ )،   مسند سعید بن مننصور (۲۲۷؁ھ )، مصنف ابی بکر بن ابی شیبہ (۲۳۵؁ھ)، مسند ابی یعلیٰ موصلی (۳۰۷؁ھ )، مسند بزار (۲۹۲؁ھ ) مسند ابن جریر (۳۱۰؁ھ ) اور ان کی کتابیں تہذیب الآثار، تفسیر القرآن اور تاریخ، تفسیر ابن مردویہ (۴۱۶؁ھ )اور اسی طرح ساری تفسیریں، معاجم ثلثہ (الکبیر والاوسط والصغیر )للامام الطبرانی (۳۶۰؁ھ )، سنن دارقطنی (۳۸۵؁ھ )، اور ان کی غرائب، حِلیہ ابی نعیم (۴۳۰؁ھ )، سنن بیہقی (۴۸۵؁ھ ) اور ان کی کتاب شعب الایمان۔

چوتھا طبقہ : ان کتابوں کا ہے جن میں عموما ً ایسی حدیثیں ہوتی ہیں جن پر ضعف کا حکم لگایا جاتا ہے، جیسے نوادرالاصول للحکیم الترمذی (۲۵۵؁ھ)، تاریخ الخلفاء للعلامۃ السیوطی (۳۲۳؁ھ )، کامل ابن عدی (۲۶۵؁ھ )، تاریخ الخطیب البغدادی (۴۶۳؁ھ )، اور تاریخ ابن عساکر (ابولقاسم )(۵۷۱؁ھ )۔

پانچواں طبقہ : ان کتابوں کا ہے جو صرف موضوع حدیثوں کیلئے جمع کی گئی ہیں۔ جیسے موضوعات ابن الجوزی (۵۹۷؁ھ )تنزیہ الشریعہ (للشیخ ابی الحسن علی الکنانی ۹۶۳؁ھ ) اور موضوعات شیخ محمد طاہر پٹنی النہروالی (۹۶۸؁؁ھ ) وغیرہ، (مذکورہ بالا سطریں فقیر عبد العزیز دہلوی عفی عنہ نے لکھی ہیں )

٭٭٭

 

 

 

 

مراجع و مصادر

 

۱)اتحاف النبلاء المتقین باحیاء مآثر الفقہاء والمحدثین، نواب صدیق حسن خان، مطبع نظامی، کانپور، ۱۲۸۰؁ء۔

۲)آثار الصنادید، سر سید احمد خاں، ۱۲۶۳؁ھ مطابق ۱۸۷۴؁ء۔

۳)امیر الروایات، مولانا اشرف علی تھانویؒ، جدید ایڈیشن بنام: ارواح ثلاثہ یعنی حکایات اولیاء، مرتب: مولانا سید ظہور الحسن کسولوی، ادارہ تالیفات اشرفیہ، تھانہ بھون، مظفر نگر۔

۴)تاریخ ہند، ج:۳، سید ہاشمی فرید آبادی، حیدر آباد، ۱۹۲۱؁ء۔

۵)تاریخ دعوت وعزیمت، جلد پنجم، مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام، لکھنؤ، ۱۶ واں ایڈیشن، ۱۴۳۳ھ مطابق ۲۰۱۲ء۔

۶)تذکرہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ، مولانا نسیم احمد فریدی امروہوی، الفرقان بکڈپو، نظیر آباد، لکھنؤ، پہلا ایڈیشن، فروری ۱۹۹۲ء۔

۷)تذکرۂ مفسرین ہند، جلد دوم، مرتبہ: محمد عارف اعظمی عمری، دار المصنفین، شبلی اکیڈمی، شبلی روڈ، اعظم گڈھ، یوپی، طبع دوم، مئی ۲۰۰۶۔

۸)تحفۂ اثنا عشریہ، شاہ عبد العزیز دہلویؒ، لاہور، پاکستان

۹)تفسیر عزیزی، شاہ عبد العزیز دہلویؒ، مطبع حیدری، ممبیِ، ۱۲۹۴؁ھ۔

۱۰)حیات ولی، مولانا حافظ محمد رحیم بخش دہلوی، المکتبۃ السلفیۃ، شیش محل روڈ، لاہور، ۱۵؍ مارچ؍۱۹۵۵ء۔

۱۱)حیات عزیزی، مولوی محمد رحیم بخش، منبع فیض پریس دہلی۔

۱۲)دائرہ معارف اسلامیہ، جلد دہم، مطبع پنجاب، لاہور

۱۳)سیرت سید احمد شہید، جلد اول، مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام، لکھنؤ، نواں ایڈیشن، ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۲۰۱۱؁ء۔

۱۴)مضمون بعنوان: شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ، حیات اور کارنامے، مفتی عبد اللہ معروفی صاحب، استاذ دار العلوم دیوبند۔

۱۵)کمالات عزیزی، مولوی ظہیر الدین سید احمد صاحب، مکتبہ ناصر، ترکمان گیٹ، دہلی۔

۱۶)شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ اور ان کی علمی خدمات، ڈاکٹر ثریا ڈار، اریب پبلیکیشنز، دریا گنج، نئی دہلی، سن اشاعت:۲۰۰۵ء۔

۱۷)علمائے ہند کا شاندار ماضی، سید محمد میاں، مطبع استقلال، لاہور۔

۱۸)العلالۃ الناجعۃ ترجمۃ العجالۃ النافعۃ، مولانا عبد الاحد قاسمی، المعہد العالی للدراسات الشرعیہ، دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ، ۱۴۳۴ھ۔

۱۹)فتاوی عزیزیہ، شاہ عبد العزیز دہلوی، مطبع مجتبائی، میرٹھ، ۱۳۱۴؁ھ۔

۲۰)فوائد جامعہ بر عجالہ نافعہ، مولانا محمد عبد الحلیم چشتی، نور محمد کارخانہ تجارت کتب، آرام باغ، کراچی، طبع اول۱۳۸۳ھ مطابق ۱۹۶۴ء۔

۲۱) مضمون مولانا برہان الدین سنبھلی، استاذ دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ، شائع شدہ، بنام:’’قرآن مجید کی تفسیریں چودہ سو برس میں ‘‘، قرآنیات پر خدا بخش جنوبی ایشیائی علاقائی سمینار ۱۹۸۹ء کے مقالات، سنِ اشاعت: ۱۹۹۵ء، خدا بخش اور ینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ۔

۲۲)نزہۃ الخواطر، جلد ہفتم، علامہ سید عبد الحی حسنی، سابق ناظم دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ، دار عرفات، تکیہ شاہ علم اللہ، رائے بریلی، لکھنؤ، ۱۴۱۳؁ھ مطابق ۱۹۹۲؁ء

۲۳)رود کوثر، شیخ محمد اکرم، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور۔

۲۴)نظام تعلیم وتربیت، مولانا مناظر احسن گیلانی،

۲۵)علم وعمل،

۲۶)لال قلعہ کی ایک جھلک،

۲۷)الیانع الجنی فی اسانید الشیخ عبد الغنی، محمد حسن ترہٹی، دہلی، ۱۲۹۵؁ھ۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید