فہرست مضامین
چار کہانیاں
شائستہ فاخری
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
کوکھ
کسی جادوگر کے طلسمی تماشے کا کردار بنی وہ جل دھارا کے بیچوں بیچ کھڑی تھی۔ اس کے دونوں گداز سینوں سے ٹپکتی ہوئی دودھ کی ننھی ننھی بوندیں جل کے دھارا میں دودھیا نقطے کی شکل میں پھیل رہی تھیں۔ چند قطرے سوکھی پیاسی زبان کی خوراک بھی بن رہے تھے۔ یہ زبان تھی اس ننھی جان کی جو پچھلے دو چار دنوں سے بستی والوں کے لئے ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ ایک لا ینحل مسئلہ۔۔ ۔ اپنے بازوؤں میں بچی کو سمیٹے وہ لگا تار اسے نہارے جا رہی تھی۔
تباہی کے درد ناک منظر کو جھیلنے کے بعد بچھے کھچے لوگ اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ کچھ آنکھوں میں تجسس تھا، کچھ آنکھیں حیرت زدہ اور متفکر تھیں۔ مگر ایک جوڑی آنکھیں ایسی بھی تھیں جن میں شرمندگی تھی، خوف تھا اور ساتھ ہی ساتھ پھڑپھڑاتے دل سے اٹھتی ایک کراہ بھی تھی جو دعا بد دعا کے مکڑ جال سے نکلتی ہوئی اس شخص کے لب سے ٹکرا رہی تھی کہ کاش ایک بار پھر سے جل دھارا کو جلال آ جائے اور وہ قدرت کا قہر بن کر ٹوٹ پڑے ایک اکیلی اس پر جو دھارا کے بیچوں بیچ کھڑی تھی۔ کاش کہ جل دھارا دو حصوں میں بٹ جائے اور وہ ہمیشہ کے لئے اس میں غرق ہو جائے۔ اور اسی کے ساتھ سدا کے لئے اس اندھیری کالی رات کا وہ سچ بھی غرقاب ہو جائے جو اسے اس وقت مرغ بسمل کی طرح تڑپا رہا تھا۔
خاموشی کا سفر طے کرتے ہوئے چند لمحے اور گزر گئے۔ اس شخص کی لرزتی آنکھیں ایک بار پھر جل دھارا کی طرف اٹھیں۔ کینوس پر ابھری تصویر کی طرح منظر ساکت تھا۔ رنگ و بو کے زاوئیے میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا تھا جیسے پورے ماحول پر آسیبی سایہ گھر گیا ہو۔ شانت ہوتی ہوئی جل دھارا کے بیچ وہ اسی طرح کھڑی تھی عقل حیران تھی۔ لوگ دیوی کی ناراضگی کا سبب نہیں جان پا رہے تھے۔ کس سے کیا بھول ہوئی کہ جو کبھی نہیں ہوا وہ بستی میں گھٹ گیا۔ اچھی خاصی، گدرائے جوبن والی، پر شباب سڈول جسم والی عورت اور جل دھارا میں اترتے ہی اچانک کیسے پتھر کی ہو گئی۔ ناف کے نیچے سے اس کا دھڑ پتھر کا ہو چکا تھا۔ جبکہ اوپری دھڑ اب بھی عام عورت کی طرح تھا اور معصوم فرشتے جیسی بچی اس کی گود میں اسی طرح محفوظ تھی جیسے کہ ماں کی کوکھ میں بچہ ہوتا ہے۔ وہ شخص جسے لوگ سردار کے نام سے جانتے تھے اور جو سچ کا بھیدی تھا، اس نے گھبرا کر ان آٹھوں عورتوں کی طرف نگاہ اٹھائی جو بدستور جل دھارا کے کنارے کھڑی گن ناک ماتمی چہرہ بنائے اپنے دونوں بازو پھیلائے اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی۔ ان کے سینوں سے بھی مسلسل دودھ کی پتلی دھارا بہہ رہی تھی۔
دل بہلانے کے لئے سردار پچھلی باتیں یاد کرنے لگا۔ ابھی چند دنوں پہلے ہی کی تو بات ہے جب بستی پوری طرح پرسکوں ہوا کرتی تھی۔ فضا خوشگوار، لوگ خوش مزاج۔ اس کی وجہ لوگ جل گدھارا کو مانتے تھے۔ کیونکہ اس بستی کی وہ دیوی تھی اور دیوی خوش رہے اس لئے ساری بستی وہی کرتی تھی جو پرانے بڑے بوڑھے انھیں بتاتے آئے ہیں۔ وہ کہا کرتے ہیں۔۔ اچھا سوچو، اچھا کرو اور خوب جیو۔ محنت کرو اور خوش رہو۔ لوگ بتاتے ہیں کہ جب یہاں بستی بسی تھی تو ایک دن دیوی نے پرکٹ ہو کر یہی سندیش لوگوں کو دیا تھا۔ اور لوگ آج تک اسے پوری طرح مانتے بھی چلے آ رہے ہیں۔ رشتوں کا چھل؛ اس بستی کا سب سے بڑا گناہ تھا۔ یہ چھل کس نے کس کے ساتھ کیا کہ ماں جیسی دیوی کو جلال آ گیا۔ سردار کی آنکھیں جھک گئیں۔ پچھلے چند دنوں سے اس کی طبیعت کی بے چینی اور بے قراری بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کے لئے وقت جیسے تھم گیا ہو۔ معاملہ بھی تو بے حد پیچیدہ اور سنگین تھا۔
بات یوں تھی کہ درد ایک کوکھ کا تھا اور اس درد کی دعوے دار تھیں نو مائیں۔۔ اتنا یقین تو سب کو تھا کہ درد اور کرب تو صرف ایک کوکھ کو ہی سہنی پڑی ہو گی مگر یہ آٹھ کوکھ کیوں چیخ اٹھیں۔ عجیب قصّہ ہے۔ بالکل دادی ماں کی سنائی ہوئی دیو مالا کی کہانی جیسا۔ مگر یہ کہانی ہرگز نہیں ہے۔ کیونکہ ثبوت کے طور پروہ ننھی جان جوفساد کی جڑ مانی جا رہی تھی، سب کے بیچ موجود تھی۔ کبھی ٹکر ٹکر سب کو دیکھتی، اور کبھی چیخ چیخ کر رونے لگتی، تھک جاتی تو کسی کے کندھے پر سر رکھ کر سو جاتی۔ اٹھتی تو بھوکی ہوتی۔ اپنی بھوک مٹانے کے لئے وہ انگوٹھاچوسنا شروع کر دیتی۔ لگاتار چوسنے سے اس کا انگوٹھا سفید پر جاتا مگر اس کی بھوک نہ مٹتی۔ وہ پھر آنسو بہانے لگتی، روتی اور دیر تک روتی رہی۔ گھنٹوں اس کی رلائی لوگوں کے دل کو رہتی۔ پچھلے چار دنوں سے یہ سلسلہ جاری تھا۔
مگر یہ سلسلہ شروع کہاں سے ہوا؟ اس کی حقیقت کو سوچ سوچ کر سردار پریشان ہوتا۔ آنکھیں خشک تھیں مگر دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ لحیم شحیم شخصیت کا مالک رعب دار سردار اس وقت اپنے آپ کو ایک دبکا ہوا چوہا محسوس کر رہا تھا کہ کہیں کوئی بل نظر آ جائے اور وہ اس میں پناہ لے۔ مگر ایسا کچھ ممکن نہیں تھا۔ سچائی کا سامنا اسے کرنا ہی تھا۔
اپنے ذہنی دباؤ کو ہلکا کرنے کے لئے اس نے چار دن پہلے کی پر سکون رات کو یاد کیا جب ہلکی خنکی بھری ہوائیں چل رہی تھیں۔ لوگ ہر رات کی طرح اس رات کو بھی کھانا کھانے کے بعد جل دھارا کے کنارے چہل قدمی کر رہے تھے کیونکہ یہاں کا معمول تھا کہ سونے سے پہلے بستی والے جل دھارا کو کرتے تھے تاکہ دیوی ساری رات بستی کی حفاظت کرتے رہیں اور لوگ امن چین کی نیند سو سکیں۔ ہمیشہ کی طرح نیلے آسمان پر چاند نکلا، تارے جھلملائے، چکور چکوریاں اونچی اڑان میں جیسے چاند کو چھو لینے کی چاہ میں دائرہ بنائے چکر کاٹنے لگیں۔ کبھی کبھی کہیں دور ٹوٹتے تارے لپکتے شعلوں کی طرح نظر آ جاتے۔ تاروں کا ٹوٹنا بستی والے اشبھ مانتے تھے۔ سردار کا دل اس وقت بری طرح سے دہل اٹھا جب اس نے صاف شفاف جل کی دھارا میں ٹوٹتے تارے کاعکس دیکھا۔ وہ گھبرا کر گھر واپس آ گیا اور چپ چاپ بستر پر لیٹ کرسونے کی کوشش کرنے لگا۔ بند پلکوں میں پتلیاں پھڑ پھڑاتی رہیں۔ اور بوجھل آنکھوں کی نیند کہیں ویرانے میں دم توڑتی رہی۔ رات گزر گئی۔ صبح ہلکی سی جھپکی ہی آئی تھی کہ بے تحاشا اٹھتی چیخ پکار نے اسے بد حواس کر دیا۔ وہ ننگے پاؤں بغیر سر پر پگڑی باندھے دوڑتا ہوا گھر سے باہر نکلا۔ اور پھر۔۔ ۔۔ ۔ سردار کی آنکھیں آنسوؤں سے دھندلا گئیں۔ کیونکہ اس کے آگے کا منظر وہ یاد نہیں کرنا چاہتا تھا۔ خوش حال بستی جل دھارا کے قہر سے اجڑ چکی تھی۔ بسے بسائے مضبوط گھر پانی کی طوفانی دھاروں میں ریت سے بنے گھروندے کی طرح بہ گئے۔ گھٹتی سانسیں پانی میں دم توڑنے لگیں۔ لاشیں تنکوں کی طرح دھارا کی اچھال پر ہچکولے کھا رہی تھیں۔ کیا بچے، کیا بوڑھے، کیا مرد، کیا عورت۔۔ ۔۔ جل دھارا نے کسی کو نہیں بخشا۔ وہی جل دھارا جس کی عبادت کی جاتی تھی۔ بستی والے جس کی پوجا کرتے تھے، منتیں مانگتے تھے اور منتیں پوری ہونے پر پھولوں کی مالا جل دھارا پر چڑھاتے تھے۔ پھر ایسا گناہ کس سے ہو گیا۔ کہ ماں جیسی جل دھارا کو جلال آ گیا۔ بستی اجڑ گئی۔ ایک جوڑی پشیمان آنکھیں اس سچ کو جانتی تھیں، پہچانتی تھیں مگر خاموش تھیں۔ ایک سچ کو قبول کرنے کا مطلب تھا کہ کئی سچ سامنے آ جاتے۔ وہ سچ کی پردہ داری خاموش کھڑا بھیڑ کا ایک حصہ بنا ہوا تھا۔ وہ کیسے بھول سکتا تھا کہ بستی والے اس کے پاک کردار کی قسمیں کھایا کرتے تھے۔ بہر حال جو سامنے تھا وہ یہ تھا کہ بستی اجڑ چکی تھی مگر اتنے جلال کے باوجود اس ننھی جان کو جل دھارا نگل نہ سکی۔ اگل دیا اس نے۔ آٹھ ننھے وجود جل دھارا کی گود میں سو گئے۔ اسی ایک بچی پر مادر حق کے دعوے کے لئے نو اجڑی ہوئی مائیں آگے بڑھیں۔ ایک بچی کے لئے نو کوکھ کیسے دعویدار ہو سکتی تھیں ؟ ہر عورت اپنے آپ میں سچائی کی ایک جیتی جاگتی تصویر تھی۔ بچی کس ماں کی گود میں ڈالی جائے اس سوال نے بستی والوں کو پریشان کر رکھا تھا۔ آخر کار یہ طے ہوا کہ فیصلہ سردار کرے گا کیونکہ وہی اکیلا ایک شخص تھاجس پر کبھی کسی نے انگلی نہیں اٹھائی تھی۔ وہ ان تمام کمزوریوں سے اوپر تھا جو انسانی کردار کوسطح سے نیچے گراتی ہیں۔ فیصلہ سب کے بیچ ہونا تھا۔ جل دھارا کے کنارے عدالت لگ گئی۔ اس بچی کو روتا ہوا دیکھ کر وہ نو مائیں بھی رونے لگیں۔ آہ و زاری کرنے لگیں۔ ممتا کی چھاؤں دینے کے لئے سبھی الگ الگ ناموں سے اسے پکارنے لگیں۔ مگر بھوکی پیاسی بچی سردار کی مضبوط بانہوں کی گرفت میں تھی۔ اسے چپ کرانے کے لئے وہ ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔ چیختے چیختے ننھی جان تھم کر نڈھال ہو گئی اور سردار کے کندھے پر سر رکھ کرسو گئی۔ عدالتی کاروائی شروع ہو گئی۔
گھنٹوں ذہنی مشقت کے بعد آخر کار سردار کے حکم پر نو ماؤں کو ایک قطار سے کھڑا کر دیا گیا۔ گنتی شروع ہوئی۔ ایک۔۔ دو۔۔ تین۔۔ چار۔۔ ۔ !بستی والے گنتی کر رہے تھے اور ادھر سردار کی جسم کے ساتھ نظریں بھی تھر تھرا رہی تھیں۔ سردار کی آواز میں آج کپکپاہٹ تھی۔ اس کی کئی پشتیں سربراہ رہی ہیں۔ ان کی عزت، آن بان، شان پر کوئی ترچھی نظر اٹھانے والا فرد پیدا نہیں ہوا تھا۔ ایسا بستی والوں کا ماننا تھا۔
اچانک شور اٹھا۔۔ ایک عدد عورت کم ہے۔ گنتی پھر شروع ہوئی۔ ایک۔۔ دو۔۔ تین۔۔ چار۔۔ ۔۔ ! گنتی کرتی ہوئی انگلیاں آٹھویں عورت پر آ کر رک گئی۔ نویں عورت کہاں گئی؟؟ کئی بار گنا گیا مگر گنتی ایک سے آٹھ تک ہی رہی۔ آخر نویں عورت کہاں لاپتہ ہو گئی؟ کیا پہلا جھوٹ پہلے ہی قدم پر پیچھے ہٹ گیا۔
نویں عورت کی گمشدگی نے سردار کے وجود کو زلزلے میں ڈھکیل دیا ہو۔ پریشانی کے عالم میں سردار نے سوئی ہوئی بچی کو بے خیالی میں جل دھارا کے کنارے بنے چکنے پتھر کے چبوترے پر لٹا دیا۔ یہ وہی پتھر تھاجس پر بیٹھ کر لوگ سمادھی میں لین ہو کر دھیان لگاتے تھے۔ اسی پتھر پر اس کالی اندھیری رات میں سردار نے گوتم کو دھیان میں ڈوبے دیکھا تھا۔۔ ۔۔ ۔ دیوی کے دھیان میں مگن گوتم۔۔ ۔۔ کتنی دیر تک سردار ہنستا رہا۔۔ خوب ہنستا رہا۔۔ زور زور سے ہنستا رہا۔۔ ۔ گوتم کی آنکھ کھل گئی۔۔ ۔ دھیان بھنگ ہو گیا۔ تب سردار نے ہاتھ اٹھا کر آشیرواد دیا تھا۔ دیوی تمھارا کلیان کریں۔۔ ۔ تمھاری نسل پروان چڑھے۔۔ تمھارا نام امر رہے۔ گوتم سردار کے قدموں میں لوٹ گیا تھا۔ یہی مانگنے تو وہ جل دھارا پر آیا تھا اور سردار نے جیسے اس کے دل کی پکار سن لی تھی۔
ادھر بچی چبوترے کی سختی کو برداشت نہ کر سکی۔ اس کی آنکھ کھل گئی۔ بھوک کی شدت سے وہ چیخ چیخ کر پھر رونے لگی۔ اچانک شور اٹھا۔ ’’ سردار نویں عورت جل دھارا میں ہے۔ ‘‘
’کیا؟‘ سردار کے ساتھ ساتھ سب کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ دھارا میں بیچوں بیچ کھڑی تھی۔ اس کا آدھا دھڑ جل دھارا میں ڈوبا ہوا تھا۔ کوئی ہلچل نہیں، کوئی زندگی نہیں۔ پتھرائی بے نور آنکھوں سے وہ اپنے اجڑے سنسار کو دیکھ رہی تھی۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ اس کی ناک کے نیچے کا حصہ پتھر کا بن چکا تھا جبکہ ناف کے اوپر وہ عام عورتوں کی طرح تھی۔ ممتا کی گرماہٹ اب بھی اس کے سینوں میں محفوظ تھی اور نگاہیں بچی پر جمی ہوئی تھیں۔
بڑھتے ہوئے شور کو سردار کی آواز نے دبا دیا۔ ’’یہ عورت بھی دعویداری میں آگے آئی تھی۔ اس لئے اس کی گنتی بھی دعویداروں میں ہو گی۔ چاہے یہ آدھی پتھر کی ہی کیوں نہ بن چکی ہو۔ نسل بڑھائی جاتی ہے ناف کے نیچے سے اور پروان چڑھتی ہے ناف کے اوپر سے۔ یہاں بڑھانے کی نہیں پروان چڑھانے کی بات ہے۔ اس لئے اس کے دعویداری پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے۔ ‘‘
لوگوں نے تالی بجا کر سردار کے فیصلے کا استقبال کیا۔
بچی لگاتار رو رہی تھی۔ مگر بھیڑ کے شور میں آواز دبی ہوئی تھی۔ سردار کا حکم ہوا۔ ’ باری باری سے سب کی گود میں بچی کو ڈالا جائے۔ جس کی گود میں بچی چپ ہو جائے گی، وہی اس کی ماں کہلائے گی۔ ‘‘
ہر عورت اپنی باری آنے پر بانہیں پھیلا کر ممتا سے بچی کو اپنے سینے سے چپکا لیتی۔ خود کو محفوظ سمجھ کر بچی چپ ہو جاتی۔ آٹھوں عورتیں خوش ہو گئیں۔ انھیں لگا ان کے دعوے سچ ہو گئے۔ مگر نویں عورت کے لئے اب کیا کیا جائے۔ سردار آگے بڑھا۔ بچی کو اپنی گود میں لیا اور جل دھارا میں اتر گیا۔
عورتوں کی گود سے جدا ہوتے ہی بچی پھر رونے لگی۔ سردار نے جل دھارا میں کھڑی ہوئی نویں عورت کی گود میں بچی کو ڈال دیا۔ لمحے بھر کے لئے نویں عورت کے جسم میں ہلچل سی ہوئی۔ دونوں بانہیں اٹھیں۔ اس نے بچی کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ روتی ہوئی بچی چپ ہو گئی مگر سردار حیران ہو اٹھا یہ دیکھ کر کہ بچی چپ تو ہے مگر اس کی آنکھوں قطرہ قطرہ آنسو بہ رہے ہیں۔ ان بہتے ہوئے آنسوؤں کے معنی گہرے تھے جنھیں سردار سمجھنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے جلدی سے بچی کو واپس اپنی گود میں لیا اور جل دھارا سے باہر نکل گیا۔ سردار کے لئے فیصلہ لینا اور بھی مشکل ہو گیا۔ کیونکہ کسی کا بھی دعویٰ کمزور نہیں پڑا تھا۔ فیصلہ اگلے دن کے لئے ٹال دیا گیا۔
اگلے دن پھر جل دھارا کے کنارے عدالت لگ گئی۔ آٹھوں عورتیں سردار کے سامنے ایک قطار میں کھڑی ہو گئیں۔ نویں عورت بدستور جل دھارا میں تھی۔ اس کی آنکھیں بچی کی جانب تھی اور بچی سردار کی گود میں مسلسل رو رہی تھی۔ چپ کرانے کا ایک ہی طریقہ تھا۔ جلد سے جلد اس کی بھوک مٹا دی جائے۔
سردار کی آواز بھیڑ کے شور کو دباتی چلی گئی۔ ’’ آپ سب دیکھ رہے ہیں کہ بچی بھوکی ہے۔ رو رہی ہے۔ وقت کا پہلا تقاضا ہے کہ اس کی بھوک مٹا ئی جائے۔ اس لئے ہر عورت بھوکی بچی کو اپنے سینے کے قریب لائے گی۔ جس نے اس کو جنا ہو گا اس کی چھاتی سے دودھ ٹپکنے لگے گا۔ کیونکہ یہ خدائی شان ہے کہ کوکھ سے جنا ہوا بچہ بھوکا ہوتا ہے تو اس کی ماں کی چھاتی سے خود بخود ٹپکنے لگتا ہے۔ جو اس بچی کی بھوک مٹائے گی وہی عورت اس کی ماں ہے اور اسے ہی یہ بچی سونپی جائے گی۔
ایک بار پھر عورتیں امتحان کی گھڑیوں سے گزرنے لگیں۔ ایک۔۔ دو۔۔ تین۔۔ چار۔۔ ۔۔ ! اس خدائی کرشمے کو دیکھ کر لوگوں کی سانسیں تھمنے لگیں۔ انگلیاں دانتوں تلے دبنے لگیں۔ خود سردار پریشان اور پشیمان تھا کہ کہیں اس کا قول جھوٹا نہ پڑ جائے۔ فیصلہ لینے میں وہ کہیں نا اہل نہ ثابت ہو جائے۔ بچی خاموش ہو چکی تھی۔ اس کی بھوک مٹ رہی تھی۔ باری باری سے وہ ہر عورت کے سینے سے ٹپکتے دودھ کو پی رہی تھی۔ آٹھوں عورتیں خوش تھیں کہ سبھی کے سینوں میں دودھ اتر رہا تھا۔ سب کے دعوے سچے ثابت ہو رہے تھے۔ سردار کی نگاہیں نویں عورت کی طرف اٹھی جو جل دھارا میں آدھی ڈوبی اب بھی کھڑی تھی۔ اس کی دونوں بانہیں بچی کی طرف پھیلی ہوئی تھیں۔ حیرانی کی بات تو یہ تھی کہ بچی ابھی اس کی گود میں پہنچی بھی نہیں تھی اور اس کے سینے سے بہتا ہوا دودھ جل دھارا میں ٹپکنے لگا تھا۔ قطرہ قطرہ ٹپکتی دودھ کی ننھی ننھی بوندیں جل دھرا میں گر کر اسے مزید مقدس بنا رہی تھیں۔
سردار کی گود میں بچی آ چکی تھی۔ اور اس کے قدم جل دھرا کی طرف بڑھ رہے تھے۔ بچی نویں عورت کی گود میں آتے ہی اپنا سر اس کے سینے میں چھپانے لگی۔
بچی دودھ پی رہی تھی اور ایک جوڑی گنہگار آنکھیں اپنے اوپر نادم تھیں۔ سردار جل دھارا سے معافی مانگ رہا تھا اس رات کے گناہ کی جب قہر کی ابتداء کا بیج نویں عورت کی کوکھ میں آیا تھا۔
وہ رات اماوس کی تھی۔ ہر اماوس کی رات جل دھارا کے کنارے میلا لگتا تھا۔ لوگ ناچتے، گاتے، شراب پیتے جل دھارا کی شان میں قصیدے پڑھتے اور پھر صبح کی پو پھٹنے سے پہلے اپنی اپنی منتیں مانگ کر واپس بستی کو لوٹ جاتے۔ رات اندھیری تھی، گھور اندھیری۔ میلے میں جانے کے لئے بستی والوں نے اپنے گھروں سے نکلنے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ آج گوتم کو اپنا پورا دھیان لگا کر دیوی ماں سے منت مانگنی تھی۔ اپنی عورت کی پیاسی کوکھ کو ہرا کرنے کے لئے۔ اس کے لئے وہ کڑا سے کڑا تپ کرنا چاہتا تھا۔ رشیوں جیسا سیدھا سادا سچا انسان گوتم۔ اپنی پیٹھ سیدھی کرنے کے لئے لیٹا ہی تھا کہ مرغے کی تیز بانگ کی آواز گونجی۔ گوتم ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اِندر دیو کا اثر تھا یا کسی کی بد نصیبی کا اعلان۔ مرغے کی بانگ پر گوتم نے بستر چھوڑ دیا۔ خالی ہوئے بستر کے دوسرے کنارے پروہ اپنے تنہا جسم کے ساتھ اکیلی رہ گئی۔
گوتم دیوی کا دھیان لگا کر سمادھی میں لین ہونے کے لئے جل دھارا کی طرف بھاگا جا رہا تھا اور ادھر اس کی بیوی سمبھوگ سے سمادھی تک کے درمیانی سفر میں ہچکولے کھا رہی تھی۔ گوتم نے اسے پیاسا چھوڑ دیا تھا اور پیاسے جسم سمبھوگ کو پچھاڑ کر سمادھی کی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتے۔ جسم کی پیاس روح کو پیاسا بنا دیتی ہے اور پھر۔۔ ۔۔ ۔۔ دیوی کیا۔۔ ۔ اور دنیا کیا! سب شونیہ پر ٹھہرے ایک تصوراتی کھنڈر بن جاتے ہیں۔
ہاں اس رات کی ہی تو بات ہے۔ آسمان پر چاند نہیں نکلا تھا۔ ٹمٹماتے تارے کہیں دور منھ چھپائے گہری نیند سوئے تھے۔ ہلکی خنکی کے ساتھ ہوا کی سرسراہٹیں سردار کے ململ کے کرتے کو اڑاتی ہوئی اس کی خوشبو کو تیز جھونکے کو فضا میں پھیلا رہی تھی۔ قدم آہستہ آہستہ جل دھارا کی طرف بڑھ رہے تھے جہاں کا جشن اس کے انتظار میں تھا۔ اچانک سردار کے کانوں میں ٹھنڈی سسکاریاں ٹکرائیں۔ قدم ٹھٹھک گئے۔ شراب کے سرور میں اضافہ ہوا۔ آنکھوں میں مستیاں اتر آئیں۔ کھلے دروازے میں سردار داخل ہو گیا۔ سر پر بندھا ہوا برا سا کلف دار صافہ اتر گیا۔ خوشبو میں رچا بسا سفید ململ کا کرتا کب اتر کر زمین پر گر پڑا، اس کا علم نہ سردار کو ہوا اور نہ اس نویں عورت کو جو مکمل طریقے سے خود کو سردار کے سپرد کر چکی تھی۔
سردار چلا گیا۔ جل دھارا کے جشن میں شامل ہونے کے لئے۔۔ چبوترے پر دھیان مگن بیٹھے گوتم کو دیکھ کراسے کتنی ہنسی آئی تھی۔
اچانک لوگوں کی چیخ پکار اور آٹھوں عورتوں کو آہ و بکا نے جیسے سردارکو ہوش میں لا دیا۔ وہ ماضی سے نکل کر پھر سے موجودہ حالات پر آ گیا۔
جل دھارا میں کھڑی نویں عورت کی گود سے بچی غائب تھی اور وہ عورت دھیرے دھیرے سرسے پیر تک پتھر کی مجسمہ بنتی جا رہی تھی بالکل اہلیہ کی طرح۔
بستی کے لوگ دم بخود تھے۔ ان پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹے ہوئے تھے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے اب جو منظر تھا وہ بھی نا قابل یقین تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا۔ پردے کی عزت کھلے آسمان کے نیچے، ننگے سر، ننگے پیر، کھلے بال ماتم کرتی، گود میں اسی معصوم جان کو اٹھائے دیوی ماں کو پکارتی تیز قدموں سے اس سمت کو بڑھ رہی تھی جہاں کی ویران اور اجاڑ پڑی بستی نئی فصل کے لئے اس کے انتظار میں تھی۔ یہ دسویں عورت سردار کی بیوی تھی اور اس کی گود میں سردار کی بچی۔۔
آٹھوں عورتیں جل دھارا کی بھینٹ چڑھی اپنی بچیوں کو غمناک یادوں کے ساتھ وہیں کنارے پر بیٹھی رہ گئیں۔
آج اماوس کی پھر گہری اندھیری رات تھی۔ اندھیرا اپنے شباب پر تھا۔ لوگ ماں جیسی جل دھارا کے ارد گرد اکٹھا تھے۔ بستی کے لوگ خوشحالی کے پر سکون نغمے گا رہے تھے۔
٭٭٭
سنو رقیہ ّباجی
(تحریک تانیثیت کی مسلم خاتون اول رقیہ سخاوت حسین کے نام)
میں ایک ہولناک چیخ کے ساتھ اوبڑ کھابڑ زمین پر الٹے پاؤں گر پڑی۔ ناقابل برداشت تکلیف کے باعث ہونٹوں سے بے ربط آوازیں نکل رہی تھیں۔ ایسا لگا جیسے میرے داہنے کان سے گرم گرم لاوا سا نکل رہا ہو۔ کان کے ساتھ ساتھ کنپٹی کی ہڈیاں بھی چرمرا کر رہ گئی تھیں۔ گالوں پر پڑنے والے اس زناٹے دار تھپر کو میں جھیل نہ سکی اور گر گئی۔ مار سے بچنے کے لئے میں تڑپتی ہوئی اپنی دونوں کہنیوں کو ملا کر دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے منھ چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔ میں نے محسوس کیا کہ انگلیاں چپچپا رہی ہیں۔ میرے گالوں سے خون رس رہا ہے۔ مار سے بچنے کے لئے میں نے اپنے سر کو دونوں گھٹنے ملا کر اس پر رکھ لیا اور گٹھری کی طرح بنی منھ سے بے ہنگم آوازوں سے بس چیخ رہی تھی۔ اچانک اس نے ایک زور دار لات میری کمر پر ماری۔ درد ناک چیخ کے ساتھ میں پھر سیدھی ہو گئی۔
’’اٹھ کمبخت۔ کھانا کھا۔ نخرے مت دکھا۔ مر مرا گئی تو تیری لاش کو کہاں ٹھکانے لگائیں گے۔‘‘
میں نے اپنی پوری ہمت بٹور کر اس طرح جواب دیا۔ ’’ہرگز نہیں۔ میں ایک لقمہ بھی نہیں کھاؤں گی۔‘‘
میرا جواب سن کر اس کا غصہ اور بھڑک گیا۔ اس نے میرے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑا اور بے رحمی سے اینٹھتے ہوئے مجھے کھڑا ہونے پر مجبور کر دیا۔ میں پورے جسم سے بل کھا کر کھڑی ہوئی اور فوراً ہی چور چور جسم کے ساتھ اس کے قدموں پر گر پڑی۔ نہیں میں گری نہیں تھی۔ اس نے مجھے بے دردی سے اپنے قدموں پر گرایا تھا۔
’’کھانا کھاتی ہے یا پھر بلاؤں دو چار مردوں کو، منٹ بھر میں وہ سب تیری کس بل نکال دیں گے۔‘‘
’’نہیں کھاؤں گی۔۔۔ نہیں کھاؤں گی۔۔۔ ہرگزنہیں کھاؤں گی۔‘‘
میں پورا دم لگا کر چیخی۔ میڈم ساراکیچی کے نام سے جانی پہچانی جانے والی اس عورت نے کھسیا کر بھدی بھدی گالیاں بکیں اور میرے منھ پر تھوک دیا اور دھکا مار کر دوبارہ مجھے زمین پر گرا دیا۔
’’مر تو یہیں۔ اس زمین پر گڈھا کھود کر دفن کر دوں گی تجھے۔ کتیا کہیں کی، عورت کی ذات ہے یا شیطان کی اولاد۔ دو دن سے مارکھا رہی ہے مگر ٹوٹی نہیں۔‘‘
گالیاں بکتی ہوئی اس نے کو ٹھری کا دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی۔ کنڈی میں دوبارہ تالا لگا دیا گیا۔ میں نے بھی طیش میں آ کر کھانے کی تھالی اٹھا کرسلاخوں پر دے ماری۔۔ ’’مارنا ہے تو مار دے مجھے مگر میں کھانا نہیں کھاؤں گی۔‘‘
وہ چلی گئی۔ ا س کے جاتے ہی میں زمین پر سجدہ کرنے کے انداز میں گر پڑی۔ ٹوٹی پھوٹی کچی پکی زمین پر اپنا سر پٹک پٹک کر زور زور سے میں رونے لگی۔ مار کھاتے کھاتے میرا پورا جسم زخمی ہو چکا تھا۔ کئی جگہ جسم کی کھالیں پھٹ چکی تھیں اور کہیں پھٹی ہوئی کھالیں سوکھ کر مزید تناؤ پیدا کر رہی تھیں۔ نہ اس کی مار رک رہی تھی نہ میری ضد ٹوٹ رہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ کسی طرح میری ضد ٹوٹ جائے اور میں کھانا کھا کر اپنی قسم توڑ دوں۔ ان سب کو مجھ سے خطرہ محسوس ہونے لگا تھا کہ کہیں میں نے کوٹھری میں دم توڑ دیا تو سارا محکمہ ایک بڑی مصیبت میں پھنس جائے گا۔ میری مانگ بھی تو بہت بڑی مانگ نہیں تھی۔ میں تو صرف اپنا گناہ پوچھ رہی تھی۔ پچھلے چار دنوں سے مجھے یہاں بند کیا گیا تھا اور کوئی میرا پرسان حال نہیں تھا۔ انھوں نے کسی طرح میری بات نہیں مانی تو میں نے کھانا پینا چھوڑ دینے کی ٹھان لی۔ جب سارے راستے بند ہو جائیں تو امید کا یہی ایک دریچہ بچتا ہے۔
میرا کھانا پینا بند کر دینے کا بڑا اثر ہوا اور پورے حلقے میں ہلچل مچ گئی۔ ہر ایک کی یہی کوشش رہتی کہ میں کچھ کھا لوں۔ ان سب میں سب سے زیادہ بے رحم تھی میڈم ساراکیچی جو وقتاً فوقتاً آتی اور مجھے بے تحاشا ٹارچر کر کے چلی جاتی۔ میرے لئے سب سے اذیت ناک ہوتیں اس کی بے ہودہ گالیاں۔ گالیوں کے درمیان نکلے کچھ جملوں سے میں نے اندازہ لگا لیا کہ میری نہ کھانے کی ضد ختم کرا کر وہ افسروں کے سامنے اپنی پوزیشن مضبوط بنانا چاہتی ہے۔
مجھے ان باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں تو صرف اتنا چاہتی تھی کہ مجھے آزادی ملے یا میرا گناہ بتایا جائے۔ بے سبب تو خدا بھی عذاب نازل نہیں کرتا۔ پھر یہ ادنیٰ مخلوق میرے صبر کا امتحان کیوں لے رہی ہے۔ میں نے دل سے اپنے خدا کو یاد کیا۔ غیبی مدد کی آواز لگائی اور آنسو بہاتے ہوئے رحم کی بھیک مانگنے لگی۔ سنا ہے خدا ایسے بندوں کی ضرور سنتا ہے جو گڑ گڑاتا اورآنسو بہاتا ہے۔
اچانک سلاخوں کے باہر سے آتی ہوئی ایک مردانہ آواز نے مجھے اپنی آنکھیں کھولنے پر مجبور کر دیا۔ سلاخوں کے باہر ایک مرد کھڑا تھا۔ یقیناً وہ اسی محکمے کا ملازم ہو گا۔ ’’بہن کھانا کھا لو۔‘‘ آواز کی نرمی میں مجھے اپنے پن کا احسان ہوا اور اس احساس نے مجھے مزید توڑ دیا۔ میں نے بچوں کی طرح بلکتے ہوئے اس سے کہا۔ ’’میرا گناہ کیا ہے۔ مجھے کیوں قید کیا گیا ہے۔ مجھ پر اتنا ظلم کیوں ڈھایا جا رہا ہے۔ میں آزادی چاہتی ہوں۔ خدارا یہاں سے مجھ کورہائی دلواؤ یا میرا قصہ ختم کرو۔‘‘
’’بہن جہاں تم کھڑی ہو، وہاں سوالات نہیں کئے جاتے۔ چپ چاپ سب کا کہنا مان لو اور کھانا کھا لو۔‘‘
’’میں کھانا نہیں کھاؤں گی‘‘ میں نے بچوں کی طرح روتے ہوئے کہا۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا پیچھے سے ایک کرخت بھری رعب دار آواز آئی۔ ’’یہاں تم کیا کر رہے ہو؟‘‘
اس آدمی نے ایڑی کے بل زمین پر ٹھوکر مار کر ایک سیلوٹ دی اور ’جی صاحب‘ کہہ کر میری کوٹھری کے سامنے سے ہٹ گیا۔
مجھے اس کی وضع قطع اور بولنے کے لہجے سے انداز ہو گیا کہ وہ محکمے کا کوئی بڑا آفیسر ہے۔ میں گرتی پڑتی کھڑی ہوئی اور کوٹھی کی سلاخوں تک خود کو کھینچ کر لائی۔ گردن کے اشارے سے میں نے اسے سلام کیا۔
’’آپ کھانا کیوں نہیں کھا رہی ہیں؟‘‘
میں نے اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے جلدی سے اپنی بات کہی۔
’’سر کیا آپ قانون نہیں جانتے؟‘‘
’’کیا مطلب!‘‘ اس نے سوال کیا۔
’’مطلب یہ کہ ۲۴ گھنٹے کے اندر آپ کو مجھے مجسٹریٹ کے سامنے حاضر کروانا چاہئے تھا۔ آپ کسی قیدی کواس کا گناہ بتائے بغیر اس میعاد سے زیادہ لاک اپ میں نہیں رکھ سکتے۔‘‘
’’آپ کھانا کھا لیجئے، پھر میں آپ کی ساری باتیں سنتا ہوں۔‘‘
وہ کسی طرح مجھے بہلا پھسلا کر کھانا کھلوانا چاہتا تھا مگر میں ہمت ہارنے والی عورت نہیں تھی۔
’’سر میں جانتی ہوں کہ آپ یہاں کے اعلیٰ افسر ہیں۔ پہلے آپ میری فریاد سنئے‘‘
’’فریاد تو جج سنتا ہے۔ میرا کام تو یہاں کا انتظام دیکھنا ہے۔‘‘
’’کیا آپ کے یہاں کا انتظام یہی ہے کہ ایک عورت کو عورت کے ہی ہاتھوں بے رحمی کی شکار بنا دی جائے۔ وہ سسک اٹھی۔ ’’دیکھئے میرا جسم دیکھئے، یہ سارے زخم یہ سارے نشانات ایک عورت نے ہی میرے جسم پر ابھارے ہیں۔ کیا آپ انکار کر سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ آپ کے اشارے پر نہیں ہوا۔ جو ظلم اس عورت نے مجھ پر ڈھائے اس سے آپ کیا لا علم ہیں۔ آپ کے نظام کا یہ کون سا کھیل ہے جس میں کھلاڑی کوئی اور ہوتا ہے، مداری کوئی اور بنتا ہے اور شکار کس کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔ یہ پتہ ہی نہیں چلتا۔‘‘
’’آپ زیادہ بول رہی ہیں میڈم۔‘‘
’’نہیں میں تو صرف اپنے اوپر ہونے والی زیادتیاں آپ کو دکھانا چاہتی ہوں۔‘‘ یہ کہ کر میں نے اپنے شانے پر رکھے ساڑی کے پلو کو زمین پر گرا دیا۔ میرے گداز سینے پر بلی کے پنجوں کے گہرے نشانات تھے۔
ایسے کارنامے تو بلّے بھی نہیں دکھاتے جوسارا کیچی نام کی اس بلّی نے کر دکھایا۔ کون کہتا ہے کہ زنانیاں کمزور ہوتی ہیں۔
’’آپ مہربانی کر کے ساڑی کا پلو اوپر کیجئے۔‘‘ اس نے شرمندہ ہوتے ہوئے اپنی دونوں آنکھیں بند کر لیں پھر کچھ جھنجھلاتے ہوئے یا پھر یوں کہیں کہ اپنی افسری جھاڑتے ہوئے بولا۔
’’بات کا بتنگڑ مت بنائیے۔ کھانا کھا لیجئے۔‘‘
’’کھانا میں تبھی کھاؤں گی جب آپ میرے سوال کا جواب دیں گے۔‘‘
’’پوچھئے۔‘‘
’’مجھے یہاں کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے؟۔‘‘
’’آپ پر چوری کا الزام ہے کہ آپ نے سلطانہ کے خواب چرائے ہیں۔‘‘
میری آنکھیں خوف سے پھٹ جانے کی حد تک پھیل گئیں۔ یہ سچ ہے کہ سلطانہ کے خواب میرے پاس ہیں مگر میں نے ان خوابوں کی چوری نہیں کی ہے۔‘‘
’’آپ خواب واپس کر دیجئے، میں آپ کو آزاد کر دوں گا۔‘‘
بات مکمل کر کے وہ جا چکا تھا اور میں ہارے ہوئے جواری کی طرح ٹوٹ کر گھٹنے کے بل کر پڑی۔ میں ان خوابوں کو کیسے واپس کر سکتی ہوں۔ یہی خواب تو مری وہ ملکیت ہیں جنہیں حاصل کر کے میں صحیح معنوں میں ’’میں‘‘ بن سکی۔ ورنہ میری کیا اہمیت رہتی اِس ’’میں‘‘ کے بغیر۔ اور پھر خواب لوٹانا اب اتنا آسان بھی تو نہیں رہا۔ ان خوابوں کی جڑوں نے میرے دل و دماغ کو اپنی مضبوط گرفت میں لے رکھا ہے۔ ان خوابوں کا سرور میری آنکھوں میں رچا بسا ہے۔ میری بینائی ان کے بغیر ادھوری ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے ان خوابوں کو میری آنکھوں سے کوئی جدا نہیں کر سکتا۔
میں نے فیصلہ تو کر لیا مگر ایک انجانا سا خوف اور نا قابل برداشت تکلیف میرے پورے جسم میں جھرجھری سی پیدا کرنے لگی۔ دل بہلانے کے لئے میں نے سلطانہ کے خواب کا سہارا لیا۔ ہاں، میری اپنی بھی ایک دنیا ہو گی۔ اپنی حکومت ہو گی۔ ایسا جہاں آباد ہو گا جہاں عورتوں ظلم پر نہیں کیا جائے گا۔ بے سبب انہیں تار تار نہیں کیا جائے گا۔
ابھی میں خوابوں کی دنیا میں پہنچ کر پوری طرح سے اپنا دل بھی بہلا نہ سکی تھی کہ نہ جانے کب وہ جلاد عورت میڈم سارا کیچی چپکے سے میرے خیالوں میں گھس آئی۔
اف!کوئی عورت اتنی بے رحم بھی ہو سکتی ہے۔ میرے پورے جسم میں خوف کرنٹ کی طرح ڈوڑنے لگا۔
’’بہن! کیوں اپنے آپ کو تڑپا تڑپا کر مار رہی ہو۔ اٹھو اپنے حواس درست کرو‘‘ یہ آواز اسی ملازم کی تھی جو تھوڑی دیر پہلے آیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں چائے سے بھرے گلاسوں کی ایک جالی تھی۔
’’لو چائے پی لو۔ درد میں تھوڑی کمی آ جائے گی۔‘‘
’’میں کچھ نہیں کھاؤں گی‘‘ میں نے اپنی پرانی ہٹ دہرائی۔
’’میں کھانے کو کب کہہ رہا ہوں۔ میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ ایک گلاس چائے پی لو، درد سہنے کی طاقت آ جائے گی۔‘‘
’’تم کون ہو؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ مجھے وہ شخص اس ماحول میں کوئی اپنا سا لگ رہا تھا۔
’’میں اس تھانے میں صاحب لوگوں کے لئے باہر سے چائے لے کر آتا ہوں۔ اب جلدی سے گلاس پکڑ لو ورنہ کوئی آ جائے گا۔‘‘
اس کی آنکھوں میں میرے لئے بے پناہ ہمدردی تھی۔ اس نے مجھے بچوں کی طرح پچکارتے ہوئے کہا۔ ’’لو پکڑو، شاباش جلدی سے چائے پی لو۔‘‘
سلاخوں کے اندر گلاس بڑھائے ہوئے وہ بڑی عجلت میں بولا۔
’’لو جلدی پیو۔ میڈم جی آ گئی تو تمہارے ساتھ ساتھ میری چمڑی بھی ادھڑ جائے گی۔‘‘
مجھے اپنے سے زیادہ اس کا خیال پریشان کر گیا۔ سر سے پیر تک میں نے اسے غور سے دیکھا۔ لمبا لاغر جسم، ڈھیلا ڈھالا میلا سا سفید کرتا پاجامہ، ہلکی بڑھی داڑھی، مونچھوں کے بغیر گول چہرہ، الجھے بکھرے بال، بن خوابوں کی ویران آنکھوں والا یہ نوجوان غالباً بائیس تئیس سال سے زیادہ عمر کا نہیں تھا مگر یہاں اس ماحول میں وہ مجھے کسی فرشتے سے کم نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ میری طرف ایسی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا کہ میں اس کی خاموش التجا کو ٹھکرا نہ سکی۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر گلاس پکڑ لیا۔ ایک گھونٹ چائے گلے میں اتری تو لگا جسم میں تراوٹ آ گئی ہو۔ دونوں ہاتھوں سے میں نے گلاس کو کس کر پکڑ لیا اور گرما گرم چائے گلے کے نیچے اتارنے لگی۔ چائے آبِ حیات بھی بن سکتی ہے، یہ میں نے پہلی بار محسوس کیا۔ خالی گلاس لے کر وہ فرشتہ صفت انسان واپس جا چکا تھا۔
چائے پی کر طبیعت ذرا بحال ہوئی۔ دل و دماغ کو قدرے سکون ملا تو میں نے اطمینان سے سوچنا شروع کیا۔
ہاں اگر لوگ سمجھتے ہیں کہ میں نے سلطانہ کے خواب چرائے ہیں تو ٹھیک ہے، چرائے ہیں میں نے مگر وہ سیل بند مہر لگے خواب نہیں تھے۔ وہ تو کھلی آنکھوں کے خواب تھے اور میں نے اپنی کھلی آنکھوں میں انہیں سمیٹ لیا تھا۔
اگر خواب دیکھنا گناہ ہے تو یہ گناہ کیا ہے میں نے۔ وہ آنکھیں ہی کیا جو خواب دیکھنا بند کر دیں۔
اچانک میری نگاہ سلاخوں سے باہر دور سے آتے ہوئے اس اعلیٰ افسر پر پڑی جو خراماں خراماں میری کوٹھری کی طرف بڑھتا چلا آ رہا تھا۔ اس کے ساتھ وہ جلاد عورت میڈم ساراکیچی بھی تھی جس نے مجھے در گور کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
خوف اور گھبراہٹ کے مارے میرے پورے جسم میں جھرجھری سی آ گئی۔ شاید اب یہ دونوں مل کر مجھے ماریں گے۔ مارسے پہلے ہی میرا جسم دکھنے لگا۔ پور پور میں ٹیسن ہونے لگی۔ گلے میں کانٹے چبھنے لگے۔ قصائی کی چھری کے نیچے آئی بکری کی طرح میں گھگھیانے لگی۔ ٹانگوں نے کھڑے ہونے سے جواب دے دیا تو میں سلاخوں کو پکڑ کر بیٹھ گئی۔ آخرکار وہ لوگ میری کوٹھری کے قریب آ کر رک گئے۔
’’کھانا کھا لیجئے‘‘ اس اعلیٰ افسر نے ہنستے ہوئے بے حد نرمی سے مجھ سے کہا۔
میں حیران ہوں۔ مجھے ان لوگوں سے ایسے نرم لہجے کی امید نہیں تھی۔ بغل میں وہ جلاد عورت ہاتھ میں کھانے کی تھالی لئے کھڑی تھی۔ میں خاموشی سے بے بس نگاہوں سے انہیں تکتی رہی۔
’’میڈم ساراکیچی آپ ہنگر اسٹرائک ختم کرانے کے لئے پہلے انہیں نیبو کی شکنجی پلائیے۔‘‘
وہ عورت فوجی جوان کی طرح پھرتی سے کوٹھری کا دروازہ کھول کر گلاس لے کر میری طرف بڑھی۔
میں نے اس افسر کو رحم طلب نگاہوں سے دیکھا کیونکہ میڈم ساراکیچی سے مجھے نرمی کی کوئی امید نہیں تھی۔
میری ذہنی کیفیت کو سمجھتے ہوئے اس اعلیٰ افسر نے ہنس دیا۔
’’شاید میڈم ساراکیچی نے آپ کو بتایا نہیں کہ آپ کی فریاد سن لی گئی ہے۔‘‘
میں نے آپ کی بات اپنے اعلیٰ افسر تک پہنچا دی تھی۔ کل صبح مجسٹریٹ صاحب کے یہاں آپ کی پیشی ہے۔‘‘
میں چہک اٹھی۔ ’’تو کیا میں آزاد ہو جاؤں گی۔‘‘
مجھے سلاخوں سے زیادہ اس جلاد عورت کی گرفت سے نجات مل جانے کی خوشی ہو رہی تھی۔
’’میں نہیں جانتا آپ کو آزادی ملے گی یا نہیں۔ میرا کام تو آپ کو وہاں تک پہنچا دینا ہے جہاں پر آپ خود کو بے گناہ ثابت کر سکیں۔ آگے آپ کی قسمت۔‘‘
شکنجی پلا کر میڈم ساراکیچی اس اعلیٰ افسر کے ساتھ واپس جا چکی تھی۔ اور میں چڑیاکی طرح تھالی سے اپنا دانہ چگ رہی تھی۔ ساتھ ہی آنے والی صبح کے لئے فکر مند بھی ہو رہی تھی۔ میری پیروی کے لئے کون آگے بڑھے گا۔ مجھے خود کو بے گناہ ثابت کرنے کا موقع دیا جائے گا یا نہیں۔ میں سوچتی جا رہی تھی اور اپنے آپ میں الجھتی جار ہی تھی۔
وہ رات میرے لئے کسی قیامت سے کم نہیں تھی۔ ذہنی کشمکش اور خود سے جد و جہد نے مجھے پوری طرح سے نچوڑ دیا تھا۔ صبح ہوتے ہوتے میں کافی پست ہو چکی تھی۔ مگر ایک امید اس اندھیری رات سے دور لے جانے کے لئے کافی تھی کہ میرا سویرا ضرور آئے گا۔ مجھے آزادی ضرور ملے گی۔ لوگ تسلیم کریں گے کہ میں بے گناہ ہوں۔ میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ ہاں، اتنا ضرور ہے کہ میں نے سلطانہ کے خواب نہ صرف اپنی آنکھوں میں سجائے بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر کھلے آسمان میں اڑنے کے لئے حوصلوں کے پنکھ بھی ان خوابوں میں جوڑ دئے۔ شاید یہی عمل میرا گناہ بن گیا۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی، وقت گذارنے کے لئے میں سلاخوں سے باہر جھانکنے لگی۔ ہر سمت اندھیرا اور خاموشی تھی۔ کھلے نیلے آسمان پر چاند تنہاچمک رہا تھا۔ ٹمٹماتے تارے اگر آس پاس تھے تو اس وقت میری بینائی سے نظر نہیں آ رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ سا تویں آسمان پر خدا رہتا ہے۔ اے خدا تو مجھے دیکھ رہا ہے نا، پھر میری رہائی کی سبیل کیوں نہیں نکالتا۔ خدارا اس اندھیرے گلیارے میں روشنی پیدا کر دے۔ مجھے ان سلاخوں سے اور اس جلاد عورت سے نجات دلوا دے۔ اپنی غیبی مدد بھیج دے۔
’’اے مالک میں جانتی ہوں جب ساری دنیا ساتھ چھوڑ دیتی ہے تو ساتھ چلنے کے لئے تو آ جاتا ہے۔ تیری رحمت آ جاتی ہے۔ مجھے آزادی چاہئے۔۔۔ مجھے آزادی چاہئے۔‘‘
میں دامن پھیلائے گڑ گڑاتی رہی، روتی رہی، دعائیں مانگتی رہی، وقت گذرتا رہا اور رات کٹ گئی۔
تالا کھولنے کی آہٹ نے مجھے بتادیا کہ اب مجسٹریٹ کے سامنے میری پیشی کا وقت آ گیا ہے۔ میڈم ساراکیچی سامنے کھڑی تھی۔
اس وقت میں اس سے بالکل خوف زدہ نہیں تھی۔ شاید رات کی عبادت کا سرور تھا کہ خود بہ خود میرے اندر اعتماد جاگ اٹھا تھا میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔۔ ’’چلوں؟‘‘
’’ہاں‘‘ اس نے جنگلی بلّی کی طرح غرّا کر کہا۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ اپنی اس مسکراہٹ کا مطلب میں خود بھی نہیں سمجھ سکی۔
اس وقت میں مجسٹریٹ کے سامنے کھڑی تھی۔ میری پیروی کون کرے گا؟ یہ سوال آتے ہی میں نے خود کو پیش کیا۔ میں اپنے مقدمے کو خود سامنے رکھوں گی۔ سچ کیا ہے یہ مجھ سے بہتر اور کون بتا اور سمجھا سکتا ہے۔
پہلے سے طے شدہ الزام مجھ پر لگا یا گیا کہ میں نے سلطانہ کے خواب چرائے ہیں۔
اپنی صفائی دیتے ہوئے میں نے کہا۔ ’’اگر مشک کی خوشبو کو مٹھی میں باندھا جا سکتا ہے تو خواب بھی چرائے جا سکتے ہیں۔ چونکہ خوشبو کو انگلی کی گرفت میں لینا ایک نا ممکن عمل ہے۔ اس لئے خواب چرانا بھی کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید۔ مشک وہ ہے جو خوشبو دے نہ کہ عطار بتائے۔‘‘
فوراًمیری بات کو کاٹتے ہوئے جرح کیا گیا۔
’’خواب مشک نہیں بلکہ آنکھوں پر سجائے سپنے ہوتے ہیں۔ جو شئے سجائی جا سکتی ہے وہ چرائی بھی جا سکتی ہے۔‘‘
میں نے پھر اپنی صفائی پیش کی۔ ’’آنکھوں میں سجے چند خوابوں کے ساتھ بے شمار آنسوہوتے ہیں۔ آنسوؤں کی اپنی تاثیر ہوتی ہے۔ درد۔ آنسو دیکھ کر صرف درد کی شدت کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح خوابوں کی بھی تاثیر ہوتی ہے۔ اس تاثیر میں وہ جادوئی کشش ہوتی ہے جو دیکھنے والوں کی آنکھوں میں خود بہ خود منتقل ہو جاتی ہے۔ جس طرح بہہ جانے والے آنسو دوبارہ آنکھوں میں ٹھہرائے نہیں جا سکتے، اسی طرح آنکھوں میں سجے خوابوں کو نوچا نہیں جا سکتا۔ اس لئے یہ الزام بے بنیاد ہے کہ میں نے سلطانہ کے خواب چرائے ہیں۔‘‘
حاضرین کی خاموشی دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ میری دلیل زوردار تھی۔ لوگوں کی توجہ میری طرف سے ہٹ کر سلطانہ کی طرف چلی گئی۔
’’یہ سلطانہ ہیں کون؟‘‘ مجسٹریٹ نے سوال کیا ’’آخر ان کی طرف سے مقدمے کی پیروی کرنے کے لئے کوئی کیوں نہیں آیا۔‘‘
عدالت میں موجود لوگوں کے بیچ اچانک چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ ہر شخص سلطانہ کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ کیو نکہ بات اب خواب کی نہیں سلطانہ کی تھی اور سلطانہ کا وہاں موجود رہنا ضروری تھا۔
اب میں سب کو کیسے سمجھاؤں، کیسے ثابت کروں کہ سلطانہ رقیہ باجی کی جنمی ہے۔ رقیہ سخاوت حسین باجی نے لگ بھگ سو سال پہلے ایک کہانی میں سلطانہ کو جنم دیا تھا اور اسے جسم اور روح عطا کی تھی۔ سلطانہ کے جنم سے ایک تہذیب کا جنم ہوا تھا۔ ایک مخلوق کی طرف سے ایسی مخلوق کی تخلیق تھی جو ان دیکھی تھی لیکن موجود تھی۔ جو نگاہوں سے اوجھل تھی لیکن سب کی نگاہوں میں سمائی ہوئی تھی۔ اور وہ سلطانہ جب سن بلوغ کو پہنچی تو خوابوں میں جینے لگی۔ گود میں ہمکتے بچے کی خالی آنکھوں میں مائیں کاجل لگاتی ہیں مگر باجی نے سلطانہ کی سونی آنکھوں میں خواب سجا دئے۔ واہ رے باجی، تم چلی گئی اور سلطانہ کے خواب رہ گئے۔ میں تو پھنس گئی ان خوابوں میں۔ اب یہ سب میں کیسے ثابت کروں۔
اچانک مجسٹریٹ کی بلند آواز نے اٹھتے ہلکے شور پر خاموشی کی مہر لگا دی۔
’’خواب سلطانہ کے چوری ہوئے تھے تو اس وقت یہاں سلطانہ حاضر کیوں نہیں ہوئیں۔ اگر نہیں ہوئیں تو ان کی طرف سے داخل لکھت رپورٹ پیش کیوں نہیں کی گئی۔‘‘
میڈم ساراکیچی اب پھنس چکی تھی اور میں اوبڑ کھابڑ زمین والی تنگ اور بوسیدہ کوٹھری کی سلاخوں سے باہر آ گئی۔ وقت کی کمی کی وجہ سے اگلی کاروائی دوسرے دن تک کے لئے ملتوی کر دی گئی۔
اِس وقت میں اپنے گھر میں تھی۔ اپنے کمرے کی کھڑکی کی سلاخوں کو پکڑے ہوئے میں سوچ رہی تھی کہ کل جیل کی سلاخیں تھی آج گھر کی سلاخیں ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ جیل کی سلاخوں میں جسم تار تار ہوتا تھا اور گھر کی سلاخوں میں ذہن تار تار ہوتا ہے۔ سلاخیں بدل جانے سے تقدیر نہیں بدلا کرتی۔
باہر کی کھلی فضا میں میری نگاہیں بھٹک رہی تھی۔ پوپھٹنے والی تھی۔ سورج طلوع ہونے کا وقت قریب آ رہا تھا۔ کھلے نیلے آسمان پر ہلکی سرخی پھیلنے لگی تھی اور میں سلاخوں کو اپنی مٹھی میں پکڑے اوپر آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ مجھے انتظار تھا رقیہ باجی کا کہ کب وہ آئیں گی، ہماری پیروی کریں گی اور ہمیں سلاخوں سے باہر نکال کر آزادی دلوائیں گی اور کہیں گی۔ ’’یہ خواب صرف سلطانہ کے ہی نہیں، ہمارے بھی ہیں، ان پر ہمارا بھی پورا حق ہے۔‘‘
گھڑی کے الارم سے اچانک میری نیند ٹوٹ گئی۔
اُف، یہ خواب۔۔۔ اتنا لمبا خواب۔۔۔۔۔ خواب تو جیسے میری زندگی کا حصہّ بن گئے ہیں۔ اب خوابوں میں ہی تو جیتی اور مرتی ہوں۔۔۔۔۔ میرا ہاتھ حسب معمول بستر کے بغل کے حصیّ پر پڑا جو خالی تھا۔ یہ مقام گذشتہ نو برسوں سے خالی ہی رہتا ہے۔۔۔۔۔ پھر میں نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا جن پر جلتے ہوئے سگریٹ سے داغنے کے نشان اب بھی نمایاں تھے۔ ان میں درد محسوس ہوا، ٹیس ہونے لگی۔۔ گو کہ یہ کئی برس پرانے زخم تھے جو اب گہرے نشان کی شکل میں نمایاں تھے لیکن ان پر نظر پڑتے ہی اب بھی جیسے یہ زخم تازہ اور ہرے ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔ پورے جسم سے ٹیس اٹھنے لگی، میرا پورا جسم چور چور تھا جیسے ابھی کسی نے ہتھوڑے برسائے ہوں۔
ساراکیچی جیسے میری ساس، اس سے بھی ظالم اور بے رحم شوہر۔۔۔ بے گناہی کی سزا قید اور زبان پر تالے۔ پورے نو برس زندگی کی قید و بند۔۔۔۔۔ جب میں نے اس زیادتی اور بے رحمی کے خلاف آواز اٹھائی تھی، احتجاج کیا تھا تو مجھے لات گھونسے ملے، گھر بدری ملی۔ زخموں سے چور اس جسم کو ڈھوتی رہی۔۔ زندگی کی جد و جہد کو جاری رکھتے ہوئے میں نے بھی سکون کی زندگی جینے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر بھی مجھے کچوکے لگائے جاتے رہے۔ میں سہتی رہی، گھلتی رہی۔ اب تو میں ایسی پتھر کی ہوں جس پر کسی چوٹ کا اب کوئی اثر نہیں ہوتا۔
میں جد و جہد کی ایک جنگ ہار تو گئی تھی لیکن اس ہار میں بھی میری جیت تھی، میری خوشی تھی۔
یکایک میری نظر سامنے کے دونوں بیڈ پر گئی جہاں میرے دونوں بچّے جو اب سن بلوغت کو پہنچ رہے تھے، آرام سے سو رہے تھے۔۔۔۔ یہ بچے ہی اب میری زندگی کا حاصل ہیں، میرا مستقبل ہیں، میری منزل ہیں۔
بعد بھی، ہے کوئی؟
٭٭٭
سانجھی خوشیاں سانجھے غم
اسے معلوم تھا کہ اس کی تحریر میں ایسا کچھ نہیں ہے جو گھر کے نظام کو درہم برہم کر دے۔ شوہر کو کسی پریشانی میں ڈال دے یا پھر وہ خود کسی آفت میں گرفتار ہو جائے۔ پھر بھی اس کے اوپر ایک انجانا خوف مسلط تھا۔ اس کے پیر کپکپا رہے تھے، انگلیاں تھرتھرا رہی تھیں، گلا سوکھ رہا تھا اور ہونٹ پیاسے تھے۔ اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں جسے وہ اپنے گلابی شیفان کے دوپٹے سے آہستہ سے پونچھ لیتی۔
ادھر کچھ مہینوں سے وہ غفران علی سے ناراض چل رہی تھی۔ ایک دو نہیں پورے پچیس برسوں کا ساتھ رہا ہے اور یہ پچیس برس اس نے کھیل کھیل میں گزار دئے۔۔۔۔۔۔ سب کچھ کھیل نہیں تو اور کیا تھا!
غفران، بیٹا کاشف اور بیٹی نادرہ۔ بھرا پورا گھر اور بھری پوری زندگی۔ مگر وقت کی طرح زندگی بھی ہمیشہ یکساں نہیں رہتی۔
ڈاکٹر کہتا ہے کہ اسے کوئی بیماری نہیں ہے۔ ایساہر عورت کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہارمونس کی تبدیلی کی وجہ سے اموشنل ڈسٹربینس بھی آتے ہیں۔ خود کو بزی رکھئے۔
اب وہ ڈاکٹر کو کیسے سمجھائے کہ سچ مچ وہ بیمار ہے۔ کبھی گھٹنوں میں درد، کبھی کمر میں، کبھی لگتا تیز بخار چڑھا ہے اور کبھی ٹھنڈ میں بھی بیٹھے بیٹھے شدیدگرمی کا احساس ہوتا ہے۔ ہاتھ پیروں سے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں، جی گھبراتا رہتا، کہیں دل نہیں لگتا۔ سنّاٹے میں چپ چاپ بیٹھے رہنے کی خواہش ہوتی ہے۔ اکثر ایسی اختلاجی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ آنسوؤں کا سیلاب آنکھوں سے اُمڈ پڑتا۔ غفران علی کی چھوٹی چھوٹی باتیں، چھوٹی چھوٹی لاپروائیاں بھی اس کا دل توڑ جاتیں۔ بچوں کی باتیں بھی دل کو بھاتی نہیں۔ اپنے ہی گھر میں اپنے اندر پھیلتے اس سنّاٹے سے وہ ٹوٹ رہی تھی۔ اس نے خود کو سمجھایا، چلو ان ساری باتوں میں ایک بات تو اچھی ہے۔۔۔۔۔ اب بوال تو چھوٹا۔ بالغ ہوتے ہی ہر ماہ کی جو جھنجھٹ شروع ہوئی تھی وہ ختم تو ہوئی۔ اب سات دن کی نمازیں بھی نہیں چھوٹیں گی۔ وہ خود کو بہلاتی اور خوش رہنے کی کوشش کرتی مگر بے سود۔ بستر پر غفران علی جلدی سو جاتا، اس میں بھی اسے اپنے شوہر کی بے رخی نظر آتی۔ جب وہ بیمار نہیں ہے تو غفران اس کے ساتھ بیماروں جیسا برتاؤ کیوں کر رہا ہے۔ ایک ہی بستر پر دونوں الگ الگ کیوں پڑے رہتے ہیں۔
اس کے چڑچڑے ہوتے مزاج کی وجہ سے غفران آہستہ آہستہ اس سے دور ہو رہا تھا۔ خود کو دوسرے کاموں میں مصروف رکھنے لگا تھا اور رہی سہی کسر نیٹ نے پوری کر دی۔ ایک بار فیس بک اوپین ہوا نہیں کہ سمجھو گھنٹوں کی چھٹی۔ وہ جانتی تھی کہ ایسے موقع پر جب وہ چیٹنگ کر رہا ہواور وہ اس سے کچھ کہنا چاہتی ہو، کچھ باتیں کرنا چاہتی ہو، تو غفران ہاتھ کے اشارے سے صرف اتنا ہی کہتے۔۔۔۔ ٹھہرو!
وہ چڑ کر دوسرے کمرے میں چلی جاتی اور پھر شروع ہوتا تجزیہ۔۔۔ شوہر اوربچوں کے درمیان گزاری پچھلے پچیس برسوں کی زندگی کا تجزیہ جس میں وہ خود کو ٹھگا پاتی۔
بیٹی بیاہنے کے بعد اس کا اکیلاپن اور بڑھ گیا تھا۔ بیٹے نے اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
’’ممّا کہاں چلی گئی !میں تو کافی کا انتظار ہی کرتا رہ گیا‘‘
’’بس بیٹا، پانچ منٹ میں لائی‘‘
کافی پھیٹتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی، سچ مچ وہ بے وقوف ہے۔ کتنی سادگی سے اس نے اتنا طویل عرصہ گزار دیا اور ہاتھ کچھ نہ آیا۔ مٹھی بھر ریت اور وہ بھی انگلیوں کی جھری سے پھسل گئی۔ اس نے خود غرض ہو کر اپنے لئے کچھ سوچا ہی نہیں۔ یہ بات بہت بعد میں سمجھ میں آئی کہ اپنے لئے سوچنا خودغرضی نہیں ہوتی۔
آج ہی کی بات لو۔ لفافہ کے ایک طرف کمپیوٹر ٹائپنگ اور دوسرے کونے پر قلم کی تحریر۔ جب وہ کمپیوٹر پرغفران علی کا نام ٹائپ کر رہی تھی تو خیال ہی نہیں رہا کہ اپنا بھی نام ٹائپ کر لیتی۔ لفافہ بند کرنے کے بعد اچانک اسے لگا کہ خود کا نام بھی لکھنا چاہئے اور اس نے جھٹ سامنے لال قلم سے اپنا نام لکھ دیا۔ ماہ رخ علی عرف تمہاری میمے۔
’’ممّا میں کچھ مدد کر دوں؟‘‘ باورچی خانہ کے دروازے پر کاشف کھڑا تھا۔
’’نہیں بیٹے، کافی تو تیار ہے، لو پکڑو۔‘‘ اس نے جلدی سے ہاتھ میں پکڑا ہوا مگ بیٹے کی طرف بڑھا یا۔
’’اور آپ کی کافی!‘‘ اس نے سوالیہ نگاہوں سے ماں کی طرف دیکھا۔
’’ارے ! مجھے تو اپنے لئے بنانے کا خیال ہی نہیں آیا‘‘
کاشف نے اپنے میں سے آدھی کپ کافی دوسرے کپ میں ڈال کر ماں کو پکڑا دی۔
کافی پینے کے بعد وہ باورچی خانہ میں جا کر برتن سمیٹنے لگی۔ بیٹا لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ چکا تھا۔ ویب کیمرے میں اس نے دیکھ لیا تھا کہ وہ اسی لڑکی سے چیٹنگ کرنے میں مصروف ہو چکا ہے جس سے وہ شادی کرنا چاہتا ہے۔
غفران علی صبح سے کہیں نکلے ہوئے تھے۔ شاید نیٹ کا بل جمع کرنے گئے ہوں یا پھر انکم ٹیکس کے پیپر لے کرکسی وکیل کے پاس پہونچے ہوں۔ ہو سکتا ہے، واٹر ٹیکس یا مکان ٹیکس کا بھگتان کرنے گئے ہوں، یا پھر دوستوں کے ساتھ کہیں گھومنے پھرنے۔
پہلے حال یہ تھا کہ گھر سے قدم نکالنے سے پہلے غفران علی پوری تفصیل اسے دے کر جاتا تھا، مگر اب، خاص کر ادھر کچھ مہینوں سے اس کے اندر کچھ نہ بتانے کا مادّہ پیدا ہو گیا۔ سوال کرو تو یہی جواب ملتا کہ تم تو ہر وقت جھنجھلائی رہتی ہو۔ مانا مینوپاز کوئی بیماری نہیں ہے مگر عورت کی زندگی کی ایک تبدیلی ضرور ہے۔ غفران یہ بات کیوں نہیں سمجھتا۔
غفران علی کو لے کر طرح طرح کی قیاس آرائیوں کے بعد وہ پھر اپنی زندگی پر واپس لوٹ آئی۔
شروع شروع میں اسے میمے نام سے چڑھ ہوتی تھی کیوں کہ غفران نام لیتے وقت بکرے کی سی آواز نکالتے تھے۔ ساس نے سمجھایا شوہروں کا پیار ایسا ہی ہوتا ہے۔ کچھ دن برا لگا پھر میمے نام سننے کی اسے عادت سی پڑ گئی۔ وہ بھی تو بے وقوف تھی، ذرا ذرا سی بات پر خوفزدہ ہو جاتی تھی۔ اگر سامان اٹھاتے وقت کہیں سے دبی چھپی چھپکلی نکل پڑتی تواسے اتنا ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بے وقت اگر ڈور بیل بج جاتی ہے تو وہ ہونّق کی طرح سب کا چہرہ کیوں تکنے لگتی ہے۔ غفران کی ایک چھینک پر وہ اجوائن، لہسن والا کڑکڑاتا گرم کڑواتیل لے کرکیوں بھاگی چلی آتی۔ بچے ہوم ورک سے بچنے کے لئے جب بیماری کا بہانہ بناتے توکیوں وہ انہیں کندھے پر لے کر گھنٹوں ٹہلاتی رہتی اورعلی الصبح اٹھ کرسب سے پہلے بچوں کی رائٹنگ میں ان کا ہوم ورک پورا کر دیتی۔ بعد میں وہ شوہر اور بچوں کے بیچ اپنی انہیں بے وقوفیوں پرمذاق کا موضوع بنتی۔ سب ہنستے وہ مسکراتی رہتی۔ سب چھیڑتے اور وہ دائیں بائیں دوسروں کے چہروں کو ایسا تکتی جیسے بات کسی اور کی ہو رہی ہے۔ وہ سب سمجھتی تھی پھر بھی انجان کیوں بنتی تھی۔ پھرا ٓج وہ خود کو ٹھگا ہوا کیوں محسوس کرتی ہے۔ مجرم تو وہی ہوئی نا۔
ہاں، کبھی کبھی دل دکھ جاتا توتنہائی میں چند قطرے آنسو ضرور بہا لیتی۔ غفران جانتے ہیں کہ سردی کے موسم میں اسے بیحد ٹھنڈ لگتی ہے۔ موزہ، اسکارف، دو۔ دو سویٹر، شال، بس چلتا تو وہ پورا لحاف اوڑھ کر چلتی۔ یہی تو کہہ کر غفران ہنستے تھے پھر کیوں مذاق مذاق میں ہی سہی اس کے اوپر ٹھنڈا پانی اچھال دیتے تھے۔ اندر تک کپڑے بھیگ جاتے۔ غفران کی اس شوخی پر بچے خوب خوب ہنستے اور وہ۔۔۔۔ آنکھیں پھر بھیگنے لگیں۔
’’ممّا ڈاکٹر نے تمہیں سوچنے کے لئے منع کیا ہے نا! پاپا کو فون ملاؤں؟‘‘
ماہ رخ چڑچڑا گئی۔ ’’پاپا کیا کر لیں گے۔‘‘
’’آپ کو آ کر سنبھال لیں گے‘‘
’’اگر سنبھال پاتے تو میں ان حالات میں ہی کیوں پڑتی‘‘
’’کیا ہوا ہے ممّا، سب کچھ تو ٹھیک ہے‘‘
’’تم جاؤ‘‘ اس نے بیزاری سے بیٹے کو باہر جانے کا اشارہ کیا مگر کاشف کمرے سے نکلنے کے بجائے اس کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔
’’ممّا آپ مجھے بتائیے آخر پریشانی کیا ہے‘‘
’’مجھے کوئی پریشانی نہیں، تم جاؤ‘‘ ماہ رخ نے اپنا چہرہ دوسری طرف گھما لیا۔
’’آپ سمجھتی کیوں نہیں، بیماری کو دعوت دے رہی ہیں‘‘ ماہ رخ نے چہرہ اس کی طرف گھمایا اور تلخ لہجے میں بولی۔
’’بہت دعوت کھلا چکی، اب دعوت کھانا بھی چاہتی ہوں۔‘‘
’’اف!‘‘ کاشف اٹھ کھڑا ہوا اور موبائل پر غفران علی کا نمبر ملاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔ ’ناٹ ریچیبل‘ کی کمپیوٹرائزڈ آوازسے جھنجھلا کر اسے نے موبائل اٹھا کر سوفے کشن پر پھینکا اور خود نیٹ پر جا کر بیٹھ گیا۔ ویب کیمرے پر اس کی محبوبہ اس کا انتظار کر رہی تھی۔ دونوں میں پھر رکی ہوئی گفتگو شروع ہو گئی۔
ڈوربیل کی تیز آواز سے ماہ رخ کو ایک جھٹکا سا لگامگر وہ اسی طرح لیٹی رہی۔ غفران کی یہ عادت تھی کہ ہمیشہ وہ ڈوربیل ایک ساتھ دوبار بجاتے تھے۔ کچھ تاخیر کے بعد جب تیسری باربیل بجی تواسے بے چینی ہونے لگی۔ وہ جانتی تھی کہ اس وقت کاشف جلدی جلدی اس لڑکی سے اپنی گفتگو ختم کر کے ویب کیمرہ آف کر رہا ہو گا۔ ٹیبل پر اپنے پروجیکٹ کی فائل پھیلا رہا ہو گا۔ یہ سب دیکھ کر اسے کتنی کوفت ہوتی تھی مگر جوان ہوتے بیٹے سے بات کرتے وقت محتاط تو ہونا ہی پڑتا ہے۔
ہونٹ سی کر، خود پر جبر، خاموشی اورسب کچھ اپنے اندر پی جانے کی عادت سے عورت کتنی مجروح ہو جاتی ہے ماہ رخ کی طرح۔ آج ماہ رخ کو ضرورت ہے مینٹل سپورٹ کی۔ ایموشنل ڈسٹربینس کو سنبھالنے کے لئے یہ ضروری ہے۔ یہی تو ڈاکٹر نے غفران علی کو سمجھایا تھا، مگر کیا غفران اس بات کو سمجھ پائے۔
’’ارے !تم ابھی تک لیٹی ہوئی ہو‘‘ ماہ رخ کے بدن میں آگ لگ گئی۔ نہ خیریت پوچھی نہ حال چال لیا۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ دو دن سے بوا نہیں آ رہی ہے، گھر کا سارا کام وہ خود کر رہی ہے۔ پھر ایک بے تکی بات جو اسے خنجر کی طرح اندر تک پھاڑ گئی۔ وہ چٹخ کر اٹھی۔ ’’صبح سے کہاں گئے تھے؟‘‘
غفران علی کے تھکے چہرے پرہلکی سی مسکراہٹ آ گئی۔ ’’کیوں ناراض ہوتی ہو ڈئیر، بجلی کا بل دس ہزار سے اوپر آ گیا ہے۔ اتنا تو خرچ بھی نہیں ہے۔ کچھ میٹر کی گڑبڑی لگتی ہے‘‘
’’تو!‘‘ ماہ رخ کا لٹھ مار لہجہ تھا۔
’’دو قسطوں میں ادا کرنے کی بات کرنے گیا تھا، رہی بات صحیح غلط کی تو بعد میں دیکھیں گے‘‘
ماہ رخ نے غور سے غفران علی کا چہرہ دیکھا۔ آنکھوں میں اداسی، چہرے پر دن بھر کی بھاگ دوڑ کی تھکان اور پیشانی پرپھیلے بے ترتیب بال، ہلکی بڑھی سفید داڑھی، اس نے اوپر سے نیچے تک غفران پر ایک گہری نظر ڈالی۔
’’ارے ! تم نے بغیر موزے کے جوتے پہن رکھے ہیں‘‘
’’تم نے دونوں جوڑ موزے دھونے کے لئے بالٹی میں بھگا دئے تھے اور تیسرا جوڑ مل نہیں رہا تھا، اس لئے بغیر موزے کے جوتے پہن لئے‘‘
’’مگر تم تو۔۔۔۔۔۔‘‘
’’چھوڑو ان باتوں کو، تمہاری طبیعت ٹھیک ہو جائے گی تو پھر پہلے جیسا ہو جاؤں گا‘‘
اسے اپنے شوہر پر افسوس ہوا۔ کاشف پر غصہ آیا کہ ایک کپ چائے تو باپ کو دے ہی سکتا ہے۔ وہ اٹھی اور چائے بنانے کے لئے باورچی خانہ میں چلی گئی۔
چائے دے کر وہ منع کرنے کے باوجود کپڑے دھونے بیٹھ گئی۔ کل شام ہی اس نے ایک بالٹی کپڑے بھگوئے تھے۔ واشنگ مشین خراب ہو چکی تھی جسے ٹھیک کروانے کا کام کاشف کا تھا۔ مگر کاشف کے پاس وقت کہاں؟کچھ بولتی تو باپ بیٹے الجھ جاتے، اس لئے خاموش رہتی۔
انگلیاں بھیگے کپڑوں کو مسل رہی تھیں، میل چھوٹ رہی تھی مگر دل پرا ٓئی میل اور دبیز ہوتی جا رہی تھی۔ اگر اپنوں سے ہی دل میلا ہو جائے تو زندگی کتنی عذاب بن جاتی ہے۔ ماہ رخ سے بہتر اس بات کو کون سمجھ سکتا ہے۔
اس دن کا سویرا اس کے لئے کتنا گہرا اندھیرا لے کر آیا تھا۔ کاشف گھر کے بالائی حصہ میں بنائے اپنے جم میں ورزش کر رہا تھا۔ غفران غسل کر رہے تھے اور وہ چائے کا مگ ہاتھ میں لئے سامنے پھیلے اخبار کی ہیڈ لائن پڑھ رہی تھی تبھی ڈوربیل بجی۔ اس نے عادت کے مطابق سر پر آنچل ڈالا اور دروازہ کھول دیا۔ سامنے روبی کھڑی تھی۔ اس لڑکی کو ماہ رخ نے سیکڑوں بار ویب کیمرے میں دیکھا تھا۔ پہچاننے میں لمحہ بھر بھی نہیں لگا۔ ’’آؤ آؤ، اندر آؤ‘‘ اس نے شفقت سے کہا۔
’’سلام علیکم آنٹی، آپ سب کو سرپرائز دینے کے لئے بے وقت آ گئی‘‘
ماہ رخ نے آگے بڑھ اسے گلے سے لگا لیا۔ لمحہ بھر کے لئے لگا اس کی بیٹی نادرہ آ گئی ہو۔ وہ خوشی خوشی کمر میں ہاتھ ڈال کرپیار سے اس کو اندر لائی اور کاشف کو آوازلگانے لگی۔
۔۔۔ اور پھر کاشف کی خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی۔ ماہ رخ اور غفران علی بھی بے حد خوش تھے، اکلوتا بیٹا تھا۔ آج نہیں تو کل کاشف اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا۔ سگائی کر کے سال دو سال کے لئے شادی ٹال دینے میں کیا ہرج ہے۔ روبی دوپہر تک رہی، سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا، کہیں کچھ گڑبڑ نہیں۔ آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوا اور جلد ہی سگائی بھی ہو گئی۔ سگائی کے بعد اس دن وہ پہلی بار آئی تھی۔ جانے لگی تو غفران بولے ’’ارے بھئی، اب روبی محض کاشف کی دوست نہیں ہماری ہونے والی بہو بھی ہے، سگائی کے بعد پہلی بار آئی ہے، ماہ رخ آپ کوئی تحفہ نہیں دیں گی؟‘‘
’’کیوں نہیں ابھی لائی‘‘ ماہ رخ تیزی سے اپنے کمرے میں گئی اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگی، جیسے وہ کسی گفٹ شاپ میں آ گئی ہو۔ اس کے زیادہ تر زیور بینک لاکر میں ہیں، روزمرّہ پہننے والی چیزیں تو دے نہیں سکتی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے غفران علی کو کمرے میں بلایا۔
’’کیا دوں؟ میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے‘‘
’’ارے میمے کیسے سمجھاؤں تمہیں یہ کوئی غیر تو ہے نہیں جو جی چاہے دے دو‘‘
غفران ہنستے ہوئے چلے گئے اور ماہ رخ اپنے آپ میں الجھ گئی۔ اس نے الماری کھولی، کئی کپڑے نکالے، رکھے۔ کچھ نئے کچھ پہنے ہوئے، مگر اسے سب کی طرز کٹنگ فٹنگ پرانی لگی۔ جینس ٹاپ پہننے والی لڑکی اس طرح کے کپڑے کیوں پہننے لگی۔
اس نے الماری بند کر دی۔
’پھر؟‘ اس کے سامنے سوال کھڑا تھا۔ غفران کتابیں پڑھنے کے شوقین تھے، شیلف میں اردو کے بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں کی کتابیں لگی ہوئی تھیں مگرکاشف بتا چکا تھا کہ روبی کواردو نہیں آتی۔ تبھی غفران علی نے دوسرے کمرے سے تیز آواز میں کہا ’’بھئی ہونے والی تمہاری بہو ہے، کیوں پریشان ہوتی ہو، جو چیز تمہیں سب سے زیادہ پیاری ہو وہی دے دو۔‘‘
کاشف کے ہنسنے کی آواز آئی ’’ممّا ایسا منتر دو جس سے یہ ہمارے گھر کو اچھی طرح سنبھال سکے‘‘
کاشف نے یہ بات تو ہنسی ہنسی میں کہی تھی مگر ماہ رخ کو لگا کاشف ٹھیک کہہ رہا ہے۔ کل کو یہ گھر اسے سنبھالنا ہے، سکھانا تو پڑے گا نا کہ کیسے گھر چلایا جاتا ہے۔
ماہ رخ مے میز کی دراز کھول کر ایک ڈائری نکالی اور الٹ پلٹ کر اسے دیکھنے لگی۔ ہر سال بدلا جانے والا یہ وہ دستاویز تھاجس میں سال بھر کے حساب درج کئے جاتے تھے، درج کرنے والی وہ خود ہوتی۔ غفران نے اسے سکھایا تھا کہ گھر بہتر ڈھنگ سے چلانے کے لئے کیسے کالم بنا کرایک ایک چیز لکھی جاتی ہے۔ تمام بل، ان کا بھگتان، دن، تاریخ، مہینہ سب کچھ ڈائری میں ہوتا۔ دودھ والے کا بھگتان، کام والی کا بھگتان، لانڈری والے، کیبل والے، سبزی والے، گوشت والے، راشن والے، اخبار، بجلی، نیٹ، ہاؤس ٹیکس، واٹر ٹیکس وغیرہ وغیرہ۔ ان میں کچھ کا بھگتان روز ہوتا، کچھ کا ہفتوں یا مہینوں میں اور کچھ ایسے بھگتان بھی تھے جو سال میں ایک بار ادا کئے جاتے۔ ایک بار ماہ رخ نے جھلّا کر کہا بھی تھا۔ کچھ بل ایسے بھی ہونے چاہئے جن کا بھگتان زندگی میں ایک بار کرنا پڑے۔
برسوں سے ڈائری لکھنے کا سلسلہ جاری تھا۔ جان سے پیاری یہ ڈائری سال کے ختم ہونے پرتمام بے مصرف سامانوں کے ساتھ جب کباڑی کے ترازو پر چڑھتی تواسے لگتا اس کی یادداشت کے شجر سے ایک پتا اور ٹوٹ گیا۔ سال گزرتے رہے، پتے ٹوٹتے رہے اور یادداشت کی عمر گھٹتی رہی۔
ہاں ! گزرتے وقت کے ساتھ کچھ ذمہ داریاں بچوں نے بھی اٹھا لی تھیں۔ اب ڈائری کے صفحے اس بات کے گواہ بنتے کہ میٹریمونیل میں کہاں کہاں نادرہ کا میرج ڈاٹا بھیجا گیا ہے، کن کے خطوں کا جواب دینا ہے اورکنہیں اگنور کر کے آگے بڑھ جانا ہے۔ سنار کے یہاں کتنے گرام سونے دئے ہیں۔ ڈزائن کیسی ہے، بنوائی کے چارجز کتنے دینے ہیں۔ یہ سارے معاملے اب ڈائری میں درج ہوتے اور ڈائری لکھنے والی کو ہر روز ان کے صفحے پلٹ کر اپنی یادداشت کو تازہ کرنے کی عادت سی ہو چکی تھی۔ نادرہ کی شادی کے بعد ڈائری کی تحریر میں پھر بدلاؤ آیا۔ ماہ رخ کو غفران علی کے ساتھ کس ڈیٹ پر ڈاکٹر کے روٹین چیک اپ پر جانا ہے ! کون سی دوا کس مرض کے لئے ہے ! کن دواؤں کا استعمال کرنے سے غفران کو الرجی ہو جاتی ہے۔ اسے ڈاکٹر نے کن چیزوں کو کھانے سے پرہیز بتا یا ہے ! کس کس فوڈ آئٹم میں کتنے وٹامن، آئرن، کیلشیم وغیرہ ہوتے ہیں۔ یہ سبھی تفصیل اب ان ڈائریوں کا حصہ بنتی ہے۔
’’آنٹی میں آپ کی کچھ مدد کروں؟‘‘
ماہ رخ کو لگا آس پاس کوئل کوک اٹھی ہو۔ دروازے پر روبی کھڑی تھی۔
’’آؤ میری بچی! دروازے پر کیوں کھڑی ہو! اندر آ جاؤ‘‘
ماہ رخ نے بے حد اپنائیت اور پیار سے اسے قریب بلایا۔
’’لو آج میں تمہیں یہ ڈائری دیتی ہوں‘‘
روبی نے ڈائری اپنے ہاتھ میں لے لی اور الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ ’’ارے آنٹی! یہ تو استعمال کی ہوئی ہے‘‘
’’ہاں ! مگر دیکھو تو اندر کیا لکھا ہے‘‘ روبی کے چہرے پر الجھن کے آثار تھے۔
’’اس ڈائری کو پڑھ لو گی تو گھر چلانے میں اور گھر کے لوگوں کو سمجھنے میں بہت مدد ملے گی‘‘
روبی کے چہرے پر پھیکی سی ہنسی آ گئی۔ ’’اچھا!‘‘
کچھ دیر ڈائری کے صفحے اِدھر اُدھر پلٹنے کے بعد وہ آہستہ سے بولی ’’آنٹی یہ ڈائری آپ نے جہاں سے نکالی ہے وہیں رکھ دیجئے، میں اپنے گھر کو اپنے طریقے سے چلاؤں گی نا!‘‘
ماہ رخ کو لگا آج بے مصرف سامانوں کے ساتھ ڈائری نہیں وہ خود تولی گئی ہو۔ اس نے حیرت سے روبی کو دیکھا، جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی، چہرے پر اطمینان، آواز میں شہد مگر لہجے کی تیکھی دھار نے ماہ رخ کو بہت گہرائی تک زخمی کر دیا تھا۔ کم گو ماہ رخ اس دکھ کو نہ کاشف کے ساتھ تقسیم کر سکی، نہ غفران علی کے ساتھ۔ ماں کی پرورش یہی تو کہتی تھی کہ مردوں کا کان بھرنے والی عورتیں گھر توڑ دیتی ہیں۔
روبی ماہ رخ کا ہاتھ پکڑ کر پیار سے کھینچتی ہوئی سب کے بیچ لائی۔ ’’میں تو آنٹی سے اپنی پسند کا تحفہ لوں گی‘‘
ماہ رخ چپ تھی مگر بجھے چہرے پر ایک اداس سی مسکراہٹ چھائی ہوئی تھی۔ بعد میں کاشف نے اسے بتایا کہ روبی کی خواہش ہے کہ وہ ان دونوں کے سنگاپور گھومنے کا ٹکٹ ارینج کر دے۔ اتنا پیسہ تو تھا ہی غفران علی دونوں کو ہنی مون کے لئے سنگاپور بھیج سکتے تھے۔ انہوں نے خوشی خوشی سارے انتظام کر دئے مگر ماہ رخ کے جسم سے جیسے رہی سہی طاقت بھی نچڑ گئی۔ وہ روز بروز مایوسی کے گہرے اندھیرے میں ڈوبتی جا رہی تھی۔ ڈاکٹر نے کہا مینوپاز میں ایسا اکثر ہوتا ہے، چھوٹی چھوٹی باتیں بری لگتی ہیں، کوشش کیجئے یہ ڈیپ ڈپریشن میں نہ جانے پائیں۔
غفران علی کی ہر کوشش ناکام ہو رہی تھی، وہ بھی اندر اندر ٹوٹ رہے تھے۔ ماہ رخ کی گرتی صحت کو لے کرفکر مند رہتے۔ خود کو گھر دفتر کے کاموں میں مصروف رکھتے۔ وقت گزرتا رہا، حالات تیزی سے آگے بڑھتے رہے۔ اگلے مہینے بیٹے کی شادی ہونی تھی اور سارا کام انہیں خود کرنا تھا۔ ماہ رخ کا کام اتنا ہی تھا کہ صبح ہوتے ہی خریداری کے لئے لسٹ پکڑا دیتی۔
کاشف اپنے خوابوں کی دنیا میں ڈوبا تھا۔ بیٹی نادرہ کا فون آ چکا تھا کہ وہ ایک ہفتہ پہلے آ جائے گی۔
ماہ رخ کی کمزوری روز بروز بڑھتی جا رہی تھی، ڈاکٹر کہتا کہ کوئی بیماری نہیں ہے اور اسے لگتا کہ اس کا جسم بے شمار بیماریوں کا گھر بن چکا ہے۔ اپنے ہی گھر میں غیر محفوظ ہونے کا احساس مارے ڈال رہا تھا۔ شادی کی تاریخ قریب آ رہی تھی اس کا وزن گھٹ رہا تھا، غفران پریشان تھے، روزمرہ پہننے والے کپڑے بھی اس کے جسم پر جھولنے لگے تھے۔
آخر ماہ رخ نے وہی کیا جو کرنے کی خواہش اسے پچھلے کئی دن سے پریشان کئے ہوئے تھی۔ اس نے غفران کے نام ایک تحریر لکھی، اسے لفافہ میں بند کیا اوراپنے کمرے کے کمپیوٹر ٹیبل پر رکھ کربستر پر لیٹ گئی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ گہری گہری سانسیں لے رہی تھی، تبھی غفران علی کمرے میں داخل ہوئے اور کمپیوٹر ٹیبل پر رکھے لفافہ کو دیکھ کر سوالیہ نظروں سے ماہ رخ پر ایک نظر ڈالی اور لفافہ کھول کر پڑھنے لگے، جیسے جیسے وہ بند لفافہ کی اس تحریر کو پڑھتے جا رہے تھے، چہرے کی رنگت بدلتی جا رہی تھی، کبھی ہلکی مسکراہٹ آ جاتی، کبھی گہرا کرب جھلکنے لگتا، کبھی الجھن کے آثار، کبھی پیشانی پر فکر کی لکیریں ابھرتیں اور کبھی چہرے پر مایوسی کے سائے نمایاں ہونے لگتے۔ ایک بار پوری تحریر پڑھنے کے بعد اسے انہوں نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا۔ ماہ رخ آنکھوں کی جھری سے غفران کے چہرے کا جائزہ لے رہی تھی۔ اسے یہ سب لکھتے وقت بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا، غفران کی یہ کیفیت اس سے دیکھی نہیں جا رہی تھی مگر وہ بھی کیا کرتی، خود سے لڑتے لڑتے تھک گئی تھی۔ اب اچھا پڑے یا برا، جو کچھ دل میں ہے، وہ کر ہی گزرو۔ اس نے عزم کر لیا اور پھر اسے عملی جامہ بھی پہنا دیا۔
لیٹی ہوئی ماہ رخ کی طرف غفران آہستہ قدموں سے بڑھنے لگے۔ ان کے بڑھتے قدموں کے ساتھ ماہ رخ کے دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں، دماغ سن پڑ گیا، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہو گئی۔ غفران کے قدم ماہ رخ کی طرف بڑھ رہے تھے مگرنظریں اب بھی ان ہی سطور پر دوڑ رہی تھیں۔ انہوں نے پھر شروع سے آخرتک اسے پڑھنا شروع کیا۔
یہ تحریر آخری صفحہ پر تھی جسے ڈائری سے پھاڑ کر الگ کیا گیا تھا۔
۳۱ دسمبر ۲۰۱۲
غفران علی کے نام
ماندہ بلوں کے بھگتان کے لئے
بل نمبر ۱۔ تمہارے ساتھ گزارے ان پچیس سالوں کا بھگتان جس میں میں خود میں نہیں، تم میں گم ہو کر جیتی رہی۔
بل نمبر ۲۔ ان لمحوں کا بھگتان جب میں اپنی مرضی کے خلاف تمہارے جبرسے بستر پر سلوٹیں پیدا کرتی رہی۔
بل نمبر ۳۔ ان تنہا راتوں کا بھگتان جب تم دوستوں کے ساتھ تفریح کے لئے لمبے ٹور پر نکل جاتے اور میں تمہارے ننھے بچوں کو اپنے دودھ سے سینچتی رہی، جاگتی رہی۔
بل نمبر ۴۔ بے شمار بہائے ان آنسوؤں کے قطروں کا بھگتان جب تمہاری لاپروائیوں کا خمیازہ مجھے بھگتنا پڑا، کیا ان تینوں ابارشن کاحساب ہے تمہارے پاس!
اس کے آگے غفران علی کی نگاہیں جھلملانے لگیں۔
بل نمبر ۵، بل نمبر ۶، بل نمبر ۷۔۔۔۔ اور پھر نمبروں سے سرکتی ہوئی آنکھیں تحریر کے آخری حصہ پر آ کر ٹھہر گئیں
۔۔۔۔ کر سکو تو بھگتان کر دو ورنہ معاف کرنا تو میرے اختیار میں ہی ہے۔ میں تمہیں معاف کر دوں گی کیوں کہ میں ٹھہری عورت۔
ماہ رخ اٹھ کر بیٹھ چکی تھی اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں اور انگلیاں ڈوپٹے سے کھیل رہی تھیں، غفران علی آہستہ سے آ کر اس کے بغل میں بیٹھ گئے اور پھر انہوں نے پیارسے ماہ رخ کو اپنے قریب کیا، ان کی انگلیوں کا دباؤ ماہ رخ کو اپنے شانے پر صاف محسوس ہو رہا تھا۔
وہ آہستہ سے بولے ’’میمے ڈارلنگ! تم عورتوں اور ہم مردوں میں بس تھوڑا ہی فرق ہے، تم لوگوں کو اظہار کا سلیقہ آتا ہے پھر بھی ماتم کی پہلی صف میں کھڑی ہو کر آنسو بہاتی رہتی ہو، ہم مرد چپ رہ کر جی لیتے ہیں اور آخری صف میں کھڑے ہو کر بھی خوش رہتے ہیں‘‘
’’بس اب چپ رہئے‘‘ ماہ رخ کے چہرے پر جھینپی ہوئی ہنسی تھی
’’آؤ چلیں‘‘
’’کہاں؟‘‘ ماہ رخ نے سوالیہ نگاہوں سے غفران علی کو دیکھا۔
’’مہ جبیں خالہ سے باتیں کرتے ہیں بہت دن ہو گئے ان کے لطیفے نہیں سنے‘‘
’’مگر مجھے ویب کیمرے کے سامنے بیٹھ کر چیٹنگ کرنا نہیں آتا، پتا نہیں ابھی کویت میں کون سا وقت ہو گا‘‘
’’تم آؤ تو میرے ساتھ‘‘ ۔۔۔۔ غفران نے ماہ رخ کو کرسی پر بیٹھایا اور خود سسٹم آن کرنے لگے پھر بے حد نرم لہجے میں ماہ رخ سے مخاطب ہوئے
’’بس میری اتنی ہی غلطی ہے کہ مجھے خیال ہی نہیں رہا کہ گھر کی چہار دیواری میں بند ہو کرجینے والی آج کی عورت کو بھی نئی دنیا کے تقاضے پریشان کرتے ہیں۔۔۔۔ اور شاید عمر کے اس پڑاؤ میں یہ پریشانی اور بڑھتی ہے۔ پتا نہیں کیسے ہماری مائیں، خالائیں، نانی وغیرہ وقت گزارتی تھیں۔۔۔ زندگی جی لینے کا ان کا کلیجہ تھا۔
غفران نے جلد ہی ماہ رخ کو بہت سی نئی چیزیں سکھا دیں، دیر تک دونوں خالہ سے باتیں کرتے ہوئے پرانے رشتے کو تازہ کرتے، پھر تو نہ جانے کتنی کھوئی سہیلیوں، رشتے کی بہنیں، ماموں، خالائیں، پھوپھیوں سے اس کی باتیں شروع ہو گئیں۔ کھوئی ہوئی ایک دنیا کمرے میں سمٹنے لگی۔
ماہ رخ ان دنوں بے حد خوش تھی کہ عمر کے اس پڑاؤ کو بھی وہ کھیل کھیل میں پار کر رہی تھی، نیٹ، چیٹ، ویب کیمرہ کسی بہانے سہی ٹوٹے بکھرے، بھولے بسرے خاندانی رشتے ناطے ایک بار پھرسے جڑ رہے تھے۔ اکیلے اکیلے جینے کا درد اب سانجھا ہو رہا تھا۔
٭٭٭
جہانِ خیال میں
میں نے اپنا چشمہ ماتھے کے اوپر لے جا کر بالوں کے گھنے پف کے درمیان پھنسا دیا۔ برہنہ آنکھوں سے ہنستی کھیلتی دنیا کو دیکھنا اچھا لگ رہا تھا۔ دھوپ اور بادلوں کی لُکا چھپی کا کھیل، دوڑتے بھاگتے بچے، ٹہلتے گھومتے نوجوان جوڑے، تھمے تھمے قدمو سے چہل قدمی کرتیں عمر دراز عورتیں اور مرد، ننھے ہاتھوں سے چھوٹ کر آسمان کی جانب اُڑتے رنگ برنگے غبّارے، تالیاں بجاتیں ننھی ہتھیلیاں، ہتھیلیوں کی اوٹ میں ایک دوسرے کی جانب جھکتے ہوئے جواں چہرے اور میں۔ میں اپنی پسندیدہ جگہ پر بیٹھی تھی۔ گل موہر کے درخت کے نیچے بنی بینچ پر۔ میں اکثر یہاں آتی رہتی ہوں۔ جگہ جانی پہچانی، راستے دیکھے بھالے پھر بھی جانے کیوں گھر سے باہر نکلتے ہی دل گھبرانے لگتا ہے۔ پارٹی چھوڑ کر جب میں شانے پر پرس جھلاتی زینے سے اتر رہی تھی تو مسٹر حبیب بھاگتے ہوئے میری طرف آئے۔۔۔۔۔ ’’ارے آپ کہاں جا رہی ہیں؟ٹی پارٹی کا لطف تو اُٹھا لیجئے۔ آج مسز کاشف کی شادی کی پچیسویں سال گرہ ہے۔‘‘
’’میں اس خوشی کے موقعے پر ضرور شامل ہوتی مگر ابھی جلدی میں ہوں۔‘‘
’’آپ تو ہمیشہ جلدی میں رہتی ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسے موقعے آتے ہیں، جب ہم لوگ کلاس سے فری ہو کر ایک ساتھ ہنستے بولتے ہیں۔‘‘
میں ہنس پڑی۔۔۔۔ ’’ایک ساتھ تو ہم لوگ روز ہنستے ہیں۔ گھر جا کر بھی کانوں میں قہقہوں کا شور گونجتا رہتا ہے۔‘‘
’’ہاں ! بات تو آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ شور تو واقعی بہت اونچا ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ بڑھتے جا رہے ہیں۔‘‘
مسٹر حبیب کی آواز کی چہک ٹھنڈی پڑ گئی۔ گرمجوشی ندارد۔ میں نے اسی بات کا فائدہ اُٹھایا اور تیزی سے زینہ اتر گئی۔ بلڈنگ سے باہر آئی تو دیکھا موسم خوشگوار ہو رہا ہے۔ شام کے چار بج رہے تھے مگر ایسا لگ رہا تھا کہ بس رات اب اُترنے کو ہے۔ برسات کے موسم میں کب بادل کالے ہو جائیں گے اور کب سنہری دھوپ نکل آئے گی، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔
میں نے اپنی کار کی چابی گھمائی اور ۴۰ کی رفتار سے خراماں خراماں چلاتی ہوئی شہیر پارک کے گیٹ تک پہنچ گئی۔ دوسرے پارکوں کے بہ نسبت یہاں کا ٹکٹ بہت مہنگا نہیں تھا۔ دس روپئے کا نوٹ میں نے ونڈو پر رکھ دیا۔ اور ٹکٹ لے کر پارک کے اندر داخل ہو گئی۔ مجھے اس بینچ پر بیٹھے ہوئے ایک گھنٹے سے زیادہ ہو گیا تھا۔ ہوا کے زور سے درخت کی زرد اور کمزور پتیاں ٹوٹ کر میرے اوپر گرتی جا رہی تھیں۔ مگر مجھے ان کا جھرنا، ان کا ٹوٹنا بھی اچھا لگ رہا تھا۔ چھونے پر زرد پتوں کی کُر مُری سی آواز مجھے بھلی لگ رہی تھی۔
اچانک ہواؤں کا بہنا تھم گیا۔ ٹکڑوں ٹکڑوں میں بکھرے بادل یکجاں ہونے لگے۔ لوگ تیزی سے گیٹ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ بڑھتی ہوئی اُمس مجھے اشارے دے رہی تھی کہ اب مجھے بھی چلنا چاہئے۔ بھیڑ کے ساتھ میں بھی باہر نکلی ہی تھی کہ تیز بارش شروع ہو گئی۔ بھاگتے قدموں سے میں اپنی کار تک پہنچی۔ گاڑی اسٹارٹ کی اور شاہ راہ کی طرف بڑھ گئی۔
اچانک ذہن کو شدید جھٹکا لگا، پرس تو میں بینچ پر ہی بھول کر آ گئی۔ جلدی سے میں نے گاڑی سائڈ کر کے سڑک کے کنارے کھڑی کر دی۔ شیشہ نیچے کر کے کھڑکی سے باہر جھانکا، پانی کی تیز پھوہاریں میرے چہرے کے ساتھ میری گردن اور کرتے کے کالر کو بھگو گئیں۔
’ اتنی تیز بارش میں تو میں گاڑی چلا ہی نہیں سکتی۔ ‘ تبھی میری نگاہ بیک مرر پر گئی۔ گہرے کاسنی رنگ کا بڑا سا پرس پچھلی سیٹ پر رکھا ہوا تھا۔ یقیناً کار اسٹارٹ کرنے سے پہلے میں نے ہی اسے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھا ہو گا۔
گہرے اطمینان کے ساتھ ہاتھ پیچھے لے جا کر پرس اُٹھایا اور زپ کھول کر اندر دیکھنے لگی۔ ڈائری کے ساتھ ضروری کاغذات رکھے ہوئے تھے۔ یہ ڈائری کیلنڈر ڈائری تھی۔ پہلی جنوری۲۰۱۱ سے اکتیس دسمبر۲۰۱۱ تک کے سارے صفحات یعنی ۳۶۵ دن کے ۳۶۵ صفحات لیکن ہر صفحہ بھرا ہو ایسا نہیں تھا۔ بہت سے صفحات خالی بھی پڑے تھے۔۔ کئی بار کوشش کی کہ خالی نہ صحیح، مگر بھرے صفحات کے نمبر تو گن لوں، مگر ہر بار صفحہ گنّے سے پہلے ہمّت چھوٹ جاتی، آنکھیں بھیگ جاتیں اور میں ڈائری کو اپنے پرس میں ڈال لیتی۔ جو باتیں بھولنا چاہتی ہوں وہ بھولتی نہیں اور جسے یاد رکھنا چائے وہ بھول جاتی ہوں۔ مجھے اپنے آپ سے کوفت ہوئی۔
بارش کا شور ہلکا پڑنے لگا۔ ڈرائیونگ کرنا اب مشکل نہیں تھا۔ شاہراہ یہاں سے بیس پچیس قدم کی دوری پر تھی اور وہاں پہنچ کر مجھے دائیں گھومنا تھا، نہیں ! اس سے نہیں اگلے شاہراہ سے، جسے لوگ لال بتّی والا چوراہا کہتے ہیں۔ وہیں سے دائیں جانب مڑنا ہے۔ شام ڈھلتی جا رہی تھی اور دھندلکا بڑھتا جا رہا تھا۔ میں نے کار اسٹارٹ کی اور اس شاہراہ کو چھوڑ کر اگلے شاہراہ کی طرف بڑھ گئی۔ لال بتّی والا چوراہا، دائیں گھوموں گی تو چرچ آئے گا۔ چرچ پر پہنچ کر میں نے گاڑی روک دی۔ چورا ہے کے شیڈ کے نیچے کھڑا پولس والا مجھے سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ کیونکہ موسم کے مزاج اب بھی برہم تھے اور میری ڈرائیونگ بتا رہی تھی کہ میں کنفیوزڈ لیڈی ہوں۔ اس کی نگاہوں سے بچنے کے لئے میں نے تیزی سے گاڑی داہنے جانب کاٹا اور پوری رفتار کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔ کچھ دور جانے پر سامنے ہی مجھے ایک بورڈ نظر آیا جس میں نشاندہی کی گئی تھی کہ اس سڑک سے دائیں مڑنے پر ریلوے اسٹیشن آتا ہے اور بائیں مڑنے پر کچہری روڈ آئے گی۔ مجھے سول لائنس جانا تھا جہاں فرحت اپارٹمنٹ کے تیسرے فلور پر میں رہتی ہوں۔ جھنجھلا کر میں نے گاڑی بئیک کی اور پولس والے کو گالیاں بکتے ہوئے پوری رفتار سے گاڑی بائیں جانب موڑ لی۔ میں جانتی تھی کہ چڑھے ہوئے شیشے سے پولس والا میری گالیاں نہیں سن پائے گا۔ مگر میں اس کی آنکھوں کے ترچھے پن کو محسوس کر رہی تھی۔ بائیں جانب سے آگے بڑھی تو پولس تھانہ نظر آیا جو میرے گھر کے راستے سے مختلف سمت کی طرف پڑتا تھا۔ یعنی میں غلط راستے پر ہوں۔ مجھے پھر شاہراہ سے واپس لوٹنا پڑے گا۔ میں گھبرا اُٹھی۔ دل زور زور دھڑکنے لگا۔ ہاتھ پیر سے پسینے چھوٹنے لگے۔ ایسا نہیں تھا کہ میں بڑھتے ہوئے اندھیرے سے ڈر رہی تھی۔ ایک کیا سیکڑوں پولس والے آ جائیں تب بھی میں نہ گھبراؤں۔ مگر۔۔۔؟میں نے گاڑی سڑک کے کنارے کر کے روک دی۔ سلیم صاحب نے کتنی بار کہا کہ میں اپنے موبائل میں GPS appلیں لوں مگر میں ہر بار ان کی بات ٹال جاتی اور پیار سے کہتی، ’تم ہو نہ۔ پھر کس بات کا ڈر۔ ‘ وہ بھی خاموش ہو جاتے۔
میں نے بیک مرر میں اپنی شکل دیکھی۔ بالوں کے پف میں پھنسے گاگلس کے شیشے پر بھی پانی کے قطرے ٹھرے ہوئے تھے۔ پیشانی پر ہلکی سی نمی اُتر آئی تھی۔ گرین شیڈ کا کاجل واٹر پروف ہونے کی وجہ سے ابھی تک گالوں پر پھیلا نہیں تھا۔ ہلکے شیڈ کی لپسٹک نیم تاریکی میں بھی اپنے گلابی پن کا احساس لئے ہوئے تھی۔ میں نے جینس پر پیازی رنگ کی کرتی پہن رکھی تھی جو میری کھلتی رنگت پر کافی جنچتی ہے، ایسا حبیب صاحب کئی بار کہہ چکے تھے۔ مجھے سجنے سنورنے کا اب کوئی شوق نہیں رہ گیا تھا۔ میرے دل کی اُمنگیں اب ٹھنڈی پڑ چکی تھیں۔ میں تو یہ سب سلیم صاحب کے کہنے پر کرتی تھیں۔ کہنا ان کی ڈیوٹی اور کرنا میری مجبوری۔ ڈائری بھی میں نے انہیں کے کہنے پر لکھنا شروع کیا تھا۔ سلیم وہی کہتے، جسے کرنے کے لئے ڈاکٹر مشورہ دیتا۔ وہ مجھے ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند دیکھنا چاہتے تھے اور میں تھی جو خود کو سنبھالنے کی کوشش میں بکھرتی جا رہی تھی۔ جہاں میرا بس نہیں وہاں میں کر بھی کیا سکتی تھی۔ سلیم کہتے کہ یہ میرا نفسیاتی معاملہ ہے مگر جانتی تھی کہ میں خطرے کی حد میں داخل ہو چکی ہوں۔ اگر میں نے اپنی ماں کو اتنے قریب سے نہ دیکھا ہوتا، نہ جانا ہوتا تو شاید میں بھی اسے نفسیاتی معاملہ سمجھتی۔ ماں کی شروعات بھی تو کچھ اسی طرح سے ہوئی تھی۔ وہ گھر کی چابیاں رکھ کر بھول جاتیں، اور پھر گھنٹوں تلاشا کرتیں۔ چابی کبھی باورچی خانے میں ملتی اور کبھی غسل خانے کے طاق پر۔ میں بھی گھر کی تو نہیں مگر کار کی چابی رکھ کر بھول جاتی ہوں۔ چھ بچوں، ابا اور ملازِم کے درمیان چکرگھنی کی طرح گھومتی ماں جب یہ بھولنے لگیں کہ انہوں نے کھانا کب کھایا تو پہلی بار ابا کو فکر ہوئی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ شک کی بنا پر کبھی وہ بھوکی رہ جاتیں کہ انہوں نے کھانا کھا لیا ہے اور کبھی، کھانا کھانے کے باوجود وہ دوبارہ کھانا کھا لیتیں کہ شاید انہوں نے کھانا نہیں کھایا ہے، اس چکر میں اکثر ان کا پیٹ بھی گڑبڑا جاتا۔ وقت گزرتا رہا اور گزرتے وقت کے ساتھ ماں کے ہاتھ سے بہت کچھ چھن گیا۔ ابا ایک سڑک حادثہ میں گزر گئے۔ بیٹا بیٹی سب اپنی اپنی گرہستی میں مصروف ہو گئے اور ماں اپنی بات اپنے اندر لئے اپنے میں گم ہوتی چلی گئیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا، ان پر بولتے رہنے کا جنون سوار ہو جاتا۔ ماضی کی باتیں وہ اس طرح کرنے لگتیں جیسے وہ آج ہی کل کی بات ہو۔ بیٹے کی شکل میں انہیں ابا نظر آتے اور وہ بھائی کو ابا کے نام سے پکارنے لگتیں۔ میری ڈائری کا وہ صفحہ آج بھی مجھے رلاتا ہے جس میں وہ لمحہ قلم بند کیا تھا جب میرے سامنے ہی میری ماں کو بچوں نے پاگل کہا تھا۔ میں چیخی چلائی مگر پھٹکار مجھے ہی ملی وہ تو بچے ہیں، میں تو سمجھدار ہوں، گھر کو کیوں رسوا کرتی ہوں۔ میں نے چپ سادھ لی اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہو جایئے، مجھ پر گھر میں داخل ہونے کی پابندی لگا دی جائے۔ میں ان کے حق میں کبھی کچھ آہستہ لہجے میں بولتی تو ماں اجنبی آنکھوں سے مجھے دیکھا کرتیں۔ وہ آنکھیں کوری ہوتیں۔ ان میں کوئی جذبہ نہیں اُبھرتا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ یہ بھی ان کے مرض کی ایک علامت ہے۔
میں سلیم کے ساتھ کچھ دنوں کے لئے شہر سے باہر گئی ہوئی تھی۔ لوٹی تو سب سے پہلے ماں کے گھر کی طرف رُخ کیا۔ کچھ دیر ان کے پاس بیٹھنے کے بعد میں نے دھیرے سے پوچھا۔۔۔
’’امی ! آپ نے کچھ کھایا۔ ‘‘
وہ نہ میں سر گھمانے لگیں۔ پھر کتنی دیر وہ آوازیں انہیں پھٹکارتی رہیں، جن کے ہاتھوں میں اب گھر کی چابی آ گئی تھی۔ امی نے آنکھیں بند کر لیں۔ ان آنکھوں میں گہرا خوف تھا۔ اپنے ہی گھر میں، اپنے ہی کمرے میں، اپنے ہی بستر کی وہ قیدی بن چکی تھیں۔ برین اِسٹروک کے بعد پیرالایزڈ ہو کر وہ پچھلے ایک سال سے بستر پر پڑی تھیں۔ ڈاکٹر کہتا مرض ہاتھ سے نکل چکا ہے، اب صرف ان کی دیکھ بھال کیجئے۔ سب کے ہوتے ہوئے بھی اب دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں بچا تھا۔ سب کی اپنی مصروفیت تھی اور جن کے پاس وقت تھا، جو شب و روز گھر میں ہی رہتے تھے، وہ ان کے اپنے نہیں تھے۔ رشتہ جڑ جانے سے ہی کوئی اپنا نہیں ہو جاتا۔
اچانک پرس میں رکھا ہوا موبائل بج اُٹھا۔۔۔ ’’کہاں ہو تم؟ کیا کلاس ابھی ختم نہیں ہوئی؟‘‘
’ کلاس تو اپنے وقت پر ختم ہو گئی۔ میں ہی بھٹک گئی ہوں۔ ‘‘
’’اُف ! ابھی کہاں کھڑی ہو؟‘‘
میں نے تفصیل سے سلیم کو جگہ بتائی اور اتنی ہی تفصیل سے سلیم مجھے آگے کا راستہ سمجھانے لگے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں اپنے اپارٹمنٹ کے کار پارکنگ ایریا میں پہنچ گئی۔ اتنی ذہنی جد و جہد کے بعد میں بری طرح تھک گئی تھی۔ میں جانتی تھی کہ اب سلیم میری کلاس لیں گے کہ میں ضروری باتوں کوکیسے بھول جاتی ہوں۔ کیوں بھول جاتی ہوں۔ میری زندگی عام عورتوں سے بہتر ہے۔ میں ان سے زیادہ عیش میں جی رہی ہوں، پھر ایسی کیا کمی رہ گئی ہے جو مجھے جیتے جی غار میں ڈھکیل رہی ہے۔ پچھلے چھ ماہ سے جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔ اپنی یادداشت پر میری گرفت ڈھیلی پڑ رہی تھی۔ میرا ذہن خلاء میں بھٹکتا رہتا۔ جو میں سوچنا نہیں چاہتی تھی وہی باتیں بار بار میرے ذہن کو پریشان کرتی تھیں۔ سلیم میرے ساتھ بچوں کی طرح پیش آتے تھے مگر تھے تو مرد ہی، کبھی کبھی بری طرح جھنجھلا جاتے تھے۔ ایک ایک بات سؤ سؤ بار سمجھاتے مگر میں تھی کہ، اچانک موبائل کی رنگ پھر سے ہوئی۔ میں سمجھ گئی کہ اب کہ سلیم پھر مجھے ڈانٹیں گے مگر اس بار فون میرے بیٹے کا تھا۔ جو دبئی میں سول انجینیر ہے۔۔۔۔ ’’مماں کیا حال ہے۔ کیسی طبیعت ہے تمہاری۔‘‘
’ میں بالکل ٹھیک ہوں بیٹا۔ ‘‘
’’کلاس کرنے جا رہی ہیں نہ؟‘‘
’’ہاں ! روز جاتی ہوں۔ ‘‘
’’کچھ دن ہم لوگوں کے پاس بھی آ جائیں۔ ہوا پانی بدلنے سے صحت بحال ہوتی ہے۔‘‘
’’بالکل آؤں گی۔ بچوں کو دعائیں کہنا۔ بہو سے کہنا، پانچ برس گزر گئے۔ اب ایک چکر وہ انڈیا کا بھی لگا لے۔ یہاں بھی اس کے اپنے بستے ہیں۔ تم دونوں بھائی بہن تو جیسے پردیسی ہو کر رہ گئے۔ ذکیہ کیسی ہے۔ کئی دنوں سے اس کا بھی فون نہیں آیا۔‘‘
’’اس کے بچوں کے امتحان چل رہے ہیں مماں ! میں آپ کی خیریت اس کو بتا دوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ اس سے کہنا جب فرصت میں آ جائے تو ضرور مجھے فون کر لے۔ بہو کی آواز سننے کے لئے تو میں ترس کر رہ گئی۔‘‘
بیٹے نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور اللہ حافظ کہہ کر فون رکھ دیا۔ میں سوچنے لگی جب سلیم کو یہ سب باتیں بری لگتی ہی نہیں پھر میں کیوں ہر دن اپنے بچوں کے گھر لوٹنے کا انتظار کرتی رہتی ہوں۔ سلیم مجھے پھٹکارتے۔۔۔۔ ’’تم تو اس طرح انتظار کر رہی ہو جیسے وہ اسکول گئے ہوں اور ابھی شام ڈھلتے ڈھلتے گھر لوٹ آئیں گے۔ ‘‘
ایک دن ایسا ہوا کہ میں سچ مچ اپارٹمنٹ کے گیٹ پر جا کر کھڑی ہو گئی۔ اسکول کی بسیں لوٹ رہی تھیں اور میں ان کو آتے جاتے دیکھ رہی تھیں۔ دیکھنا اچھا لگ رہا تھا۔ اسی وقت سلیم آ گئے۔ انہوں نے مجھ سے کچھ نہیں کہا اور میری کلائی تھام کر مجھے گھر کے اندر لے آئے۔ اسی شام مجھے وہ ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ پھر تو میری روز مرہ کی زندگی ہی بدل گئی۔ میرے شب و روز اب ڈاکٹر اور سلیم کے ہاتھ میں تھے۔ جو وہ کہتے مجھے کرنا ہوتا۔ میرا لباس، میرے بالوں کی کٹنگ، میرا گھومنا پھرنا سب سلیم طئے کرتے۔ تبدیلی ذہن کو تر و تازہ بناتی ہے۔ میں ہر چیز سے بے زار رہتی اور سلیم۔۔۔۔۔ سلیم تو مجھ سے پانچ برس پہلے ہی ریٹائر ہو گئے تھے پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔ پھر بھی کا سوال مجھے پریشان کرتا رہتا۔
میری عمرے ۶۰ کو پار کر چکی تھی اور میرے اوپر کسی دیو زاد کی طرح ڈیمنشیا[DEMENTIA] سوار ہو رہا ہے۔ مرض ہی ایسا ہے کہ حال فراموش ہوتا جا رہا ہے اور ماضی ذہن کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے۔ ڈاکٹر کے مشورے کے بعد میں نے مسز کاشف کا اِدارہ جوائن کر لیا۔ پھر بھی میں کہیں کچھ بھول جانے، خود کے کھو جانے کے احساس سے خوف زدہ رہتی ہوں۔ ڈرتی ہوں کی سب کچھ چھوڑ کر گھر کے اندر بیٹھ گئی تو اپنی ماں کے انجام پر پہنچ جاؤں گی۔ اسی لئے عمر کے چوتھے پڑاؤ پر آ کر پھر سے زندگی نئے سرے سے جینے کا ہنر سیکھ رہی ہوں۔ آرٹ آف لونگ کلاس میں میرے قہقہے اپنے تمام ساتھیوں سے اوپر رہتے ہیں۔ مسز کاشف مجھ سے بہت خوش ہیں مگر میں اپنے آپ سے بے حد دکھی ہوں اور خوش رہنے کی جد و جہد میں مسلسل خود کو کوشاں رکھتی ہوں۔
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں