FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ایک اور (ترجمہ شدہ؟) ناول

پر اسرار پینٹنگ

از قلم

نا معلوم

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

پر اسرار پینٹنگ

نا معلوم

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

مارکیٹ میں چہل قدمی کے دوران جے جے اور ایرک ادھر ادھر چیزوں پر نظر ڈالنے میں مصروف تھے۔ ان دونوں بھائیوں کو شاید علم ہی نہیں تھا کہ انہیں ایک عجیب قسم کے اور حیرت انگیز ایڈونچر کا سامنا ہونے والا ہے۔ چمکدار دھوپ نکلی ہوئی تھی اور یہ جگہ کوسٹ ٹاؤن تھی جو مچھیروں کا ایک گاؤں ہے۔

’’واہ!‘‘ ایرک نے ایک قدیم پستول اٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ انکل براؤن کو تحفہ کے طور پر دے سکتے ہیں۔ آخر کئی دن سے ہم ان کے ہاں ٹھہرے ہوئے بھی تو ہیں۔‘‘

پھر ایرک نے اس کی قیمت معلوم کی۔ ’’ارے شاید نہیں۔‘‘ پھر یہ الفاظ ادا کرنے کے بعد اس نے پستول واپس نیچے رکھ دی۔

انہوں نے مارکیٹ میں ایک گھنٹہ مزید گزارا جہاں سوئی سے صوفے تک سب دستیاب تھا۔ ان دونوں کو شاپنگ میں کیا مزہ آیا ہو گا کہ جو اب گھر میں آنے والا تھا۔ اگر جے جے تیز قدم اٹھا کر اشیا کو دیکھتے ہوئے نکل جاتا تو شاید وہ اس مشکل سے بچ جاتے۔ لیکن جب جے جے دھیمے انداز میں چلتے ہوئے اشیا کا جائزہ لے رہا تھا تو ایک چمکتی ہوئی چیز اس کی نظر سے ٹکرائی۔ وہ چیز ایک چادر سے ڈھکی ہوئی تھی۔ جے جے نے اس پر سے چادر ہٹائی۔ وہ چمکدار چیز ایک مہارت سے تراشی ہوئی لکڑی کا فریم تھا۔ ایرک بھی اپنے بھائی کی تلاش کی ہوئی چیز کو دیکھنے کے لئے رک گیا۔ یہ ایک آئل پینٹنگ تھی اور پرانی ہونے کی وجہ سے سیاہ ہو رہی تھی۔ ’’ہمیں ضرور یہ پینٹنگ خریدنی چاہیے، جے جے۔‘‘ ایرک مزید آگے ہوتے ہوئے بولا۔ ’’یہ پینٹنگ ہمارے پاس ضرور آنی چاہیے۔‘‘

ایرک اور جے جے نے پینٹنگ خریدنے کے بعد سیدھا اس مکان کی طرف رخ کیا جہاں وہ اپنے چچا کے ساتھ رکے ہوئے تھے۔

’’دیکھیں ہم ابھی ابھی کیا خرید کر لا رہے ہیں۔‘‘ جے جے انکل براؤن کے آگے پینٹنگ رکھتے ہوئے بولا جو پہلے ہی ایک کتاب پڑھ رہے تھے۔

انکل نے وہ پینٹنگ اٹھا کر دیکھی۔ ’’تم نے اسے مارکیٹ سے خریدا ہے؟‘‘

انہوں نے تھوڑا سا مزید پینٹنگ کا جائزہ لیا ’’تمہیں معلوم ہے کہ یہ کم از کم دو سو سال پرانی ہو گی۔ تم نے کتنے کی خریدی؟‘‘ جب انہوں نے قیمت بتائی تو انکل براؤن بہت خوش ہوئے۔ ’’یہ اس سے زیادہ ہی کی ہو گی۔‘‘

جے جے اور ایرک کو پتہ تھا کہ انکل براؤن کو اس بارے میں کچھ اندازہ ضرور ہے تبھی انہوں نے کہا وہ قدیم فرنیچر کی نقل تیار کرتے اور اسے بیچ کر گزارا کرتے تھے۔

انکل براؤن نے پینٹنگ نیچے رکھی اور کمرے سے باہر نکل گئے۔ اپنی ورکشاپ میں جا کر کچھ الٹ پلٹ کرتے رہے۔ اپنے چہرے پر کسی کامیابی کے آثار لیے جب وہ واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک کپڑا اور بوتل تھی۔ انہوں نے کپڑے پر بوتل سے تھوڑا محلول گرایا اور پھر ہاتھ جما کر اس کپڑے سے پینٹنگ کو رگڑنا شروع کر دیا۔ ایک عجیب نتیجہ ابھر کر سامنے آیا۔ صدیوں پرانی گرد لمحوں میں صاف ہو چکی تھی۔ جو حصے میل کھا کر زرد پڑ رہے تھے اب اپنی اصل چمک دکھا رہے تھے۔ پینٹنگ برش اس پینٹنگ میں اپنا نہایت عمدہ استعمال ثابت کر رہے تھے۔

’’لہریں کتنی اصل لگ رہی ہیں۔‘‘ جے جے حیرت سے بولا۔

’’ہاں، لیکن مجھے تو اس کی نہایت بوسیدہ مہک سے قے جیسی کیفیت ہو رہی ہے‘‘ ایرک ناک بند کرتے ہوئے بولا۔

’’اور یہاں کیا ہے؟‘‘ انکل براؤن کے پینٹنگ کے نچلے حصے پر کپڑا مار کر چہرے کو قریب لاتے ہوئے کہا ’’یہ تو لکھائی ہے۔‘‘ ان کی ناک تصویر کو چھو رہی تھی۔ ’’کتنی انوکھی بات ہے۔‘‘

’’اس طرح کے الفاظ تو میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔‘‘ جے جے نے انکل براؤن کے سر کے پیچھے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

’’کیوں کہ یہ الفاظ لاطینی زبان میں لکھے ہوئے ہیں۔‘‘ انکل براؤن نے کہا۔

’’تو ان کا کیا مطلب ہے؟‘‘ ایرک ان حرفوں پر انگلی پھیرتے ہوئے بولا۔ اسے اس عبارت سے کچھ اندیشہ سا ہوا۔ اس کے نامعلوم مطلب نے اس کے لئے پینٹنگ میں دلچسپی پیدا کر دی۔

’’ہمیں تلاش کرنا ہو گا کہ ان کا مطلب کیا ہے؟‘‘

وہ رات دونوں بھائیوں کے لئے کوسٹ ٹاؤن میں اپنے چچا کے پاس ابھی صرف تیسری تھی۔ جے جے اور ایرک نیچے سیڑھیوں سے آنے والی ایک ٹکرانے کی زوردار آواز سے جاگ گئے۔ ’’یہ کیا تھا؟‘‘ جے جے ایک دم اٹھتے ہوئے بولا۔ اسی میں اس کا سر اوپر والے بستر کی لکڑی سے ٹکرا گیا جہاں ایرک لیٹا ہوا تھا۔

’’یہ آواز شیشہ ٹوٹنے کے جیسی تھی۔‘‘ ایرک نے کہا۔

’’رات کے تین بج رہے ہیں۔ انکل براؤن تو اپنے بستر میں ہوں گے۔ چلو ہم نیچے سیڑھیوں پر جا کر دیکھ لیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی بلی ہو۔‘‘

دبے پاؤں ہشیاری کے ساتھ یہ دونوں باہر نکلے اور سیڑھیوں سے نیچے تک آئے۔ کنارے کنارے چلتے ہوئے پرانی سیڑھیوں سے آنے والی آوازوں کو روکنے کی کوشش کرتے رہے۔ اب نچلے کمرے میں پاؤں رکھتے ہوئے ان کے دل زور زور سے دھڑکنے لگے۔ انہیں چاندنی سے بھرے کمرے میں کوئی بلی نظر نہیں آئی۔ بس اگلے ہی لمحے دونوں کی چیخیں نکلتے نکلتے رہ گئیں۔ چاند کی آنے والی روشنی میں ایک چور پینٹنگ اٹھائے ہوئے تھا اور کھڑکی کے راستے بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا۔

اس موقع پر ایرک کو خیال آیا کہ اس نے مارکیٹ سے وہ پستول خرید لی ہوتی جبکہ جے جے کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ تین فٹ اور لمبا ہوتا اور عینک بھی استعمال نہ کرتا ہوتا۔ اب دونوں کو اپنی زندگی میں آنے والے اس ’’اصلی‘‘ چور سے نمٹنے کا کوئی رستہ نہیں سوجھ رہا تھا۔ لیکن کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا۔

جے جے نے بغیر آواز کے ’’ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘ کہا، جسے اس کے بھائی نے سمجھ لیا۔ ’’وہیں کھڑے رہو۔‘‘ ایرک نے اتنی آہستگی سے کہا جتنی وہ کہہ سکتا تھا لیکن اس چور نے بالکل الٹ معاملہ کیا۔ پینٹنگ کو وہیں گرا کر جلدی سے کھڑکی سے کود گیا۔ دونوں بھائی کھڑکی کی طرف بھاگے۔ کھڑکی سے جھانک کر اب اس چور کا اتا پتا نہ تھا۔

چند لمحوں بعد سامنے کا دروازہ کھلا اور اس کے ساتھ روشنی بھی اندر داخل ہو گئی۔ انکل براؤن لکڑی کے چند ٹکڑے لیے اندر داخل ہوئے۔

’’تم لوگ اتنی رات گئے کیا کر رہے ہو؟‘‘ انہوں نے تیز لہجے میں پوچھا۔ ’’ہم صرف ایک چور کا پیچھا کر رہے تھے جو ہماری پینٹنگ چوری کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔‘‘ جے جے نے بتایا۔ ’’وہ کھڑکی سے بھاگ گیا ہے۔‘‘

’’واقعی؟‘‘ مسٹر براؤن نے کہا۔

ایرک نے خیال ظاہر کیا کہ ہمیں پولیس کو فون کرنا چاہیے۔

’’میرا خیال ہے کہ ضروری نہیں۔ صرف یہ ٹوٹی ہوئی کھڑکی ایک خطرہ ہے جو صبح ٹھیک ہو سکتی ہے۔ اب تم دونوں اپنے بستروں پر جاؤ۔‘‘ پھر یہ دونوں اپنے بستروں پر چلے گئے لیکن دونوں کو نیند ہی نہ آئی۔

اگلی صبح جب جے جے اور ایرک سیڑھیاں اتر کر نیچے پہنچے تو انکل براؤن ناشتہ تیار کر چکے تھے اور اب کھڑکی جوڑنے میں مصروف تھے۔ ایرک کی نظریں اسٹول پر رکھی پینٹنگ پر جم گئیں۔ ’’کیا پینٹنگ پر لکھی عبارت میں مگن ہو؟‘‘ انکل براؤن نے پوچھا۔ ایرک نے ٹوسٹ کھاتے ہوئے سر ہلایا۔ ’’تو پھر تمہیں سرگف کے پاس جانا چاہیے۔ لاطینی زبان بہت پہلے اسکولوں میں پڑھائی جاتی تھیں۔ سرگف کو بھی اسکول میں پڑھاتے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔‘‘ انکل براؤن نے کھڑکی بند کر کے مڑتے ہوئے کہا۔

’’چلو پھر اس عبارت کو نقل کر کے سرگف کے پاس لے جاتے ہیں بجائے کہ اس بھاری پینٹنگ کو اٹھاتے پھریں۔‘‘

جے جے نے مشورہ دیا اور ایرک نے بھی سر ہلا دیا کہ یہ ایک اچھا آئیڈیا ہے۔

جے جے اور ایرک نے سرگف کو مکان کے باہر ہی پا لیا۔ وہ گرے ہوئے پتے جمع کر رہے تھے۔ جے جے نے انہیں اپنے آنے کا مقصد بتایا اور کہا کہ اگر وہ برا نہ مانیں تو یہ عبارت ہمیں لاطینی سے ترجمہ کر کے بتا دیں۔ بغیر کوئی لفظ ادا کیے، سرگف پتے صاف کرنے والے جھاڑو کو گرا کر اندر چلے گئے اور دونوں پریشان ہو گئے کہ شاید انہوں نے کچھ غلط کہہ دیا ہے۔ پھر سرگف اپنی عینک کے ساتھ برآمد ہوئے۔

’’اس کے بغیر میں کچھ نہیں پڑھ سکتا۔‘‘ انہوں نے کہا۔ جے جے نے انہیں عبارت لکھا ہوا پرچہ پکڑایا۔

’’ہوں، تو یہ تو بہت سیدھا سا لکھا ہوا ہے کہ اگر میں ڈوبنے کے قریب ہوں تو زور سے میرا نام لے کر آواز دینا۔‘‘

ایرک نے الفاظ کو دہرایا۔ ’’اگر میں ڈوبنے کے قریب ہوں تو زور سے میرا نام لے کر آواز دینا۔ کتنا عجیب پیغام ہے۔ میں حیران ہوں کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ میرا نام لینا۔‘‘

’’پینٹنگ میں پانی کی لہروں پر بل کھاتی کشتی اور پتھر گھاس پھوس کے سوا تو کچھ نہیں ہے۔ اب کس کا نام زور سے بولیں؟

گھر واپس پہنچنے پر انکل براؤن نے محدب عدسے کے ذریعے پینٹنگ کے ایک ایک حصے کو غور سے دیکھا ’’شاید لاطینی زبان میں یہ پیغام لکھنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ نام بھی آسانی سے نہ ملے۔‘‘ جے جے نے کہا اور کرسی پر بیٹھ کر پاس پڑی کتاب اٹھا لی۔

’’جب یہ پیغام لکھا گیا تھا تو اچھے خاصے لوگ لاطینی زبان جانتے تھے۔‘‘ انکل براؤن نے نکتہ اٹھایا۔ ’’اور پیغام میں میرا نام لے کر آواز دینا لکھا ہے۔ ’’ڈھونڈ کر‘‘ آواز دینا نہیں۔

’’ارے یہ رہا نام!‘‘ جے جے نے جلدی سے تصویر کا کونہ پکڑ کر اوپر کیا۔

’’یہ تو پینٹر کا نام ہے۔‘‘ ایرک نے بے بسی سے کہا ’’یہ نام تو کچھ سنا سنایا سا لگ رہا ہے، جونز ہارٹ۔‘‘ انکل براؤن نے نام کو دیکھ کر کہا۔ ’’کیوں ناں ہم لائبریری جا کر اس نام کے متعلق معلومات اکٹھی کریں۔‘‘

ایرک اور جے جے نے اس خیال کے ساتھ لائبریری جانے کا فیصلہ کر لیا اور نکل پڑے۔

دونوں نے گاؤں کی طرف جانے والی پگڈنڈی پر سفر شروع کر دیا۔ چلتے چلتے ایرک گھاس پر بیٹھ گیا جبکہ جے جے نے قریب بنے ہوئے لکڑی کے گیٹ پر اپنی کہنی ٹکا دی۔ اس دوران اس کے بھائی کی آنکھیں حیرت سے پھیلنے لگیں۔

’’کیا ہوا؟‘‘ جے جے نے پوچھا۔ ایرک نے ڈاک کے ڈبے پر لکھے ہوئے دو الفاظ کی طرف اشارہ کیا۔ ڈبے پر جونز ہارٹ تحریر تھا۔

حیرت سے ڈوبے ہوئے ایرک اور جے جے نے گیٹ کھولا اور ایک لمبے اور چوڑے راستے پر چلنا شروع کر دیا۔ وہ رستہ انہیں کھردری گھاس اور خاردار جھاڑیوں سے ہوتے ہوئے سمندر کی طرف لے گیا۔ سمندر کے ساحل کے قریب پہنچ کر ایرک اور جے جے نے چاروں طرف ٹکر ٹکر دیکھنا شروع کر دیا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کہاں آ گئے ہیں۔

’’کیا تمہیں نہیں لگ رہا کہ ہم یہاں پہلے بھی آ چکے ہیں؟‘‘ جے جے نے پوچھا۔

’’ہاں جگہ تو دیکھی دیکھی ہی لگ رہی ہے مگر ہم یہاں آئے کب؟‘‘ ایرک کو بھی کچھ یاد نہیں پڑ رہا تھا۔

اچانک سورج بادلوں کے پیچھے چھپ گیا اور ایک مخصوص چمکدار روشنی نے سمندر کو دیکھنے میں بالکل مختلف بٹا دیا۔ اٹھتی ہوئی لہریں بالکل پینٹ برش کے پھیلائے ہوئے چمکدار رنگوں کی طرح لگ رہی تھیں۔ ’’یہ سارا منظر تو بالکل پینٹنگ میں پھیلے ہوئے ساحلی کنارے کی طرح لگ رہا ہے۔‘‘ ایرک اچانک چلا اٹھا۔

دونوں اس رستے پر چلتے ہوئے کنارے تک پہنچے۔ یہاں سے دور تک پھیلے ہوئے پتھروں کا ایک سلسلہ دوسری جگہ بنے ہوئے ایک لائٹ ہاؤس پر جا کر ختم ہو رہا تھا۔ یہ لائٹ ہاؤس پر شکوہ انداز میں بادلوں سے بھرے آسمان کی طرف سر اٹھائے کھڑا تھا۔ جب دونوں لائٹ ہاؤس تک پہنچے تو اس کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا پایا۔ ’’میں نے کبھی نہیں سوچا کہ میں ایک اصلی لائٹ ہاؤس میں بھی جاؤں گا۔‘‘ ایرک نے کہا۔

’’ہمیں دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا یا کچھ اور؟‘‘ جے جے نے کہا۔ ’’کیوں کہ اگر دروازہ کھلا ہے تو اس کا مطلب ہے اندر کوئی ہے۔‘‘

’’اور اگر کوئی ہو لیکن ہمیں یہاں سے نہ سن سکے تو؟‘‘ ایرک نے اپنا خیال ظاہر کیا۔

دونوں اندر پہنچ گئے اور اندھیرے میں سیڑھیاں چڑھنا شروع کر دیں۔ یہ جگہ پرانی ہونے کی وجہ سے بہت بوسیدہ ہو چکی تھی جبکہ نمکین پانی سے گیلی۔ جے جے کا اس گھٹن میں سانس رکنے لگا۔ ہر بڑھتے قدم کے ساتھ بوسیدگی کا احساس بڑھتا جا رہا تھا۔

وہ اپنی سانس بحال کرنے کے لئے کچھ رکے۔ دوبارہ سیڑھیاں چڑھنے کے لئے جب انہوں نے قدم بڑھایا تو عجیب پھڑپھڑاتی آواز نے پورے زینے میں گونج پیدا کر دی۔

پریشانی کے عالم میں ایرک نے جھانکا تو بڑے بڑے چمگادڑوں جیسے پراس کے گالوں پر پھڑپھڑائے۔ وہ دہشت سے چیخ پڑا۔

جب ایرک اور جے جے کو اس مخلوق کا اندازہ ہوا تو سکھ کا سانس لیا۔ وہ کوئی بہت بڑی اور خوفناک چمگادڑ نہیں تھی بلکہ ایک سیاہ پرندہ تھا۔

پرندہ سر پر چکر لگانے کے بعد ایک کھلے ہوئے دروازے سے اندر چلا گیا۔ ’’کیا کوئی ہے؟‘‘ ایرک نے دروازے کو کھٹکھٹاتے ہوئے کہا۔ کوئی جواب نہ پا کر دونوں اندر چلے گئے۔ یہاں انہوں نے اپنے آپ کو ایک بڑے سے گول کمرے میں پایا۔ کسی اور کے بجائے یہاں بھی پرندے ہی نے استقبال کیا۔ جے جے اور ایرک اردگرد کے فرنیچر کو دیکھ رہے تھے جو یقینی طور پر اسی کمرے کے لئے گولائی میں بنایا گیا تھا۔ یہ یہاں پر بالکل درست لگ رہا تھا اور کسی دوسری جگہ پر بالکل خراب لگتا۔

ایرک ایک تصویر کو دیکھ کر اس کی طرف بڑھا۔ سیاہ اور سفید رنگوں کی اس تصویر پر جونز ہارٹ کا نام لکھا ہوا تھا۔ جبکہ تصویر پر تاریخ بھی اٹھارویں صدی کی موجود تھی۔

’’تو یہ ہے جونز ہارٹ‘‘ جے جے بھی تصویر کے سامنے آن کھڑا ہوا۔ ’’لیکن اسے اتنی پراسرار پینٹنگ بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور یہاں کون رہتا ہے۔ کیا اس کی کوئی اولاد وغیرہ بھی ہے؟‘‘

دونوں جونز ہارٹ کی تصویر دیکھ کر اس کے متعلق سوچ ہی رہے تھے کہ وہ دروازہ جس سے وہ اندر آئے تھے زور سے بند ہو گیا۔ جیسے اسے کسی ان دیکھے ہاتھ نے کھینچا ہو۔ اس آواز نے دونوں بھائیوں کو دہشت زدہ کر دیا۔

دروازہ اب ذرا سا بھی نہیں کھل رہا تھا۔ جے جے اور ایرک نے اسے دھکا بھی دیا اور کھینچا بھی لیکن دروازہ اپنی جگہ بند رہا۔

’’شاید یہاں سے نکلنے کا کوئی اور راستہ بھی ہو۔‘‘ ایرک نے کہا۔

’’مجھے نہیں لگتا۔‘‘ جے جے نے بے بسی سے کہا۔ ’’یہ سیڑھی تو اوپر روشنی والے کمرے میں جاتی ہو گی۔‘‘

’’تو پھر ہمیں دروازے کو لیور کے ذریعے کھینچنا ہو گا۔ چلو پھر ایسی چیز تلاش کرتے ہیں جسے لیور بنایا جا سکے۔‘‘ ایرک نے کہا۔ دونوں نے پورے کمرے کو چھان مارا لیکن ایسی کوئی چیز نہ تلاش کر سکے۔

ایرک کمرے کے درمیان بیٹھ کر سوچنے لگا۔ ’’میرا خیال ہے ہم اس طرح وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اگر ہم دروازہ نہیں کھول سکتے تو کھڑکی کے ذریعے جا سکتے ہیں۔‘‘ جے جے نے چھوٹی سی کھڑکی کھولی اور نیچے پتھروں کو دیکھنے لگا۔ اتنی اونچائی سے باہر نکلنے کے خیال نے اس کے جسم میں سنسنی پیدا کر دی۔

’’ہمیں یہاں سے زمین تک پہنچنے کے لئے تو بہت لمبی رسی چاہیے ہو گی۔‘‘ وہ بے بسی سے بولا۔ کھڑکی کو کھٹ سے بند کرنے کے بعد وہ بھی ایرک کے ساتھ فرش پر بیٹھ گیا۔ اب شاید اس لائٹ ہاؤس کے نگران ہی کا انتظار کیا جا سکتا تھا جو آ کر ان کو یہاں سے نکالے۔ تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ دونوں کی نظریں ایک ساتھ ایک بڑے سے صندوق پر پڑیں۔ اس کے کناروں پر لوہے کی پٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ دونوں اچھل کر اس صندوق تک پہنچے اور کھینچ کر باہر نکالا۔ ’’ایسا صندوق تو بالکل بحری قزاقوں کی کہانی میں ہوتا ہے۔‘‘

’’ہو سکتا ہے اس میں کوئی رسی پڑی ہو۔‘‘ جے جے نے خیال ظاہر کیا۔ صندوق میں تالا لگا ہوا تھا جس سے ڈھکنا کھل نہیں رہا تھا۔ ایرک نے ایک دیوار پر لگی کیل میں اٹکا چابیوں کا گچھا تلاش کر ہی لیا اور اب وہ جلد سے جلد تالا کھولنے میں لگ گیا۔ یہ تو طے شدہ تھا کہ صندوق کئی سالوں سے نہیں کھلا تھا۔

ڈھکنے کو اٹھا کر الگ کرنے کے بعد ایرک اور جے جے کے سامنے ایک حیرت زدہ کر دینے والا منظر تھا۔ قدیم نقشے، پرانی کتابیں، بوتل میں بند کشتی، سمندر اور بحری سفر سے متعلق انوکھی چیزیں بکھری پڑی تھیں۔ صندوق کی اشیا کو دیکھنے اور پرکھنے میں ہی اب باہر نکلنے کے خیالات دونوں کے ذہن میں رفو چکر ہو گئے۔ ایرک نے چمڑے کی جلد کی ایک قدیم کتاب اٹھائی اور پڑھنا شروع کر دی۔

ایرک کے سامنے کھلے ہوئے چمکدار حروف کسی اہم تحریر کو نمایاں کر رہے تھے۔ کتاب کو اپنے ہاتھوں میں مزید جماتے ہوئے ایرک نے پڑھنا شروع کیا۔ اب اس کے سامنے تمام واقعات ایک فلم کی صورت میں کھلتے چلے گئے۔

یہ ایک دھوکہ کی داستان تھی۔ ایرک اور جے جے کو تو پہلے ہی اپنے انکل کی بستی کچھ پراسرار سی لگتی تھی اور اب ان کے سامنے ایک عجیب داستان سامنے آتی چلی گئی۔

یہ ناقابلِ یقین ہے۔ غور سے سنو۔

1۔ یہ 1783ء کا سال ہے اور جگہ کوسٹ ٹاؤن ہے۔

2۔ یہاں کے ساحل پر بے شمار نظر نہ آنے والے پتھر ہیں جو حادثہ کا سبب بنتے ہیں۔ اس لئے روزانہ رات کو لالٹین جلا کر روشنی کی جاتی ہے۔

3۔ لیکن بستی کے چند لٹیروں کا کچھ اور ہی منصوبہ ہوتا ہے۔ یہ رات کو چراغ بجھا کر اندھیرے کی وجہ سے تباہ ہونے والے جہاز کا سامان لوٹ لیتے ہیں۔

4۔ اور اپنی ایک الگ لالٹین کو ساحلی کنارے سے دور لے جا کر روشن کر دیتے ہیں تاکہ جہاز دھوکہ کھا کر خشکی پر چڑھتا چلا جائے اور تباہ ہو جائے۔

٭ ہو ہو ہو، آج رات کو بہت سارا مال ہاتھ لگے گا۔

5۔  اور پھر جہاز پتھروں سے ٹکرا جاتے۔

6۔ جب جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو یہ لٹیرے طاقت کے ذریعے لدا ہوا سامان لوٹ لیتے ہیں۔

7۔ …. انہیں پھنسے ہوئے اور ڈوبتے ہوئے افراد کو بچانا بھی یاد نہ رہتا۔

8۔ ساحلی کنارے پر اس طرح کے کافی گروہ موجود ہیں۔

9۔ لیکن کچھ لٹیرے زیادہ ہی کامیاب ہیں اور کوسٹ ٹاؤن کے لٹیروں کے نام سے ان کی دہشت ہے۔

٭ کل کی رات تو لوٹ لوٹ کر مزہ آ گیا۔

٭ ہاں، کتنا بے وقوف کپتان ٹکرا تھا۔

٭ تو دو سو سال پہلے یہ سب کچھ یہاں ہوتا رہا۔ تو شاید اسی لیے جونز ہارٹ نے ان واقعات کے اوپر کشتی اور لائٹ ہاؤس کے باہر والے ساحلی کنارے کی تصویر بنائی ہے۔ ایرک اور جے جے گول کمرے میں بیٹھے ان ماضی کے شیطانی لٹیروں کے متعلق سوچ ہی رہے تھے کہ اندھیرا چھانے لگا۔ اب تو کوسٹ ٹاؤن میں ایک مناسب لائٹ ہاؤس موجود تھا اس لیے اب جہازوں کا ساحل سے ٹکرا جانے کا کوئی ڈر نہیں تھا۔ ان کی سوچوں میں اچانک بجلی کی حرکت کرنے والی آواز نے دخل دیا اور پھر ایک بڑی سی گھومنے والی روشنی اوپر والے کمرے میں روشن ہو گئی۔ اس آواز سے چونکنے کے بعد انہوں نے حیرت سے اوپر دیکھنا شروع کر دیا۔ ’’یہ لائٹ ہاؤس ضرور ایک خودکار سوئچ سے کام کرتا ہے جو اندھیرا ہونے پر چالو ہو جاتا ہے۔‘‘ ایرک نے کہا۔

’’اس کا مطلب ہے اس لائٹ ہاؤس کے لئے مزید کسی نگران کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ جے جے نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔

’’میرا نہیں خیال کہ اس سامنے والے بستر پر لمبے عرصے تک کوئی سویا ہے۔‘‘ اسی دوران ایک چوہا بستر کے گدے میں ایک سوراخ سے نکل کر بھاگا۔ ایرک کو ان باتوں سے اچانک ایک خیال سوجھا۔ وہ ایک بڑی الماری کی طرف بڑھا اور اندر سے چادریں نکالنا شروع کر دیں۔

’’پتہ نہیں یہ خیال مجھے پہلے کیوں نہیں آیا۔‘‘ اب ایرک نے تمام چادروں کے کناروں کو ایک دوسرے سے گرہ لگانا شروع کی۔ چادروں کی یہ رسی اتنی لمبی تو نہیں تھی کہ کھڑکی سے نیچے زمین تک پہنچا جا سکے لیکن اس کے ذریعے نیچے والی چھوٹی کھڑکی میں داخل ہوا جا سکتا تھا جو زینہ میں کھلتی تھی۔ ایرک نے اب پوری مضبوطی سے رسی کے سرے کو کھڑکی سے باندھ دیا۔ ’’پہلے میں اترتا ہوں۔‘‘ جے جے نے اپنی عینک سنبھالتے ہوئے کہا۔

’’دیکھو تم پہلے بھی ایک مرتبہ اپنی عینک گرا چکے ہو۔‘‘ ایرک نے جے جے کو تھپک کر کہا۔ تیز ہوائیں جے جے پر برس رہی تھیں اور وہ اپنا توازن برقرار رکھنے کے لئے پوری قوت سے ہاتھ رسی پر جمائے ہوئے تھا۔ صرف ذرا سی پھسلن ہی اسے پتھروں پر گرا کر ختم کر سکتی تھی۔ اوپر سے ایرک نے بھی رسی کو پکڑا ہوا تھا۔ آخر کار جے جے نے نیچے ہوتے ہوئے کھڑکی کو لات مار کر کھولا اور پھر کسی طرح اندر داخل ہو گیا۔ اب ایرک کی باری تھی اور پھر وہ بھی ہوا کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرتے ہوئے نیچے آ گیا۔ دونوں جلد سے نیچے دروازے تک پہنچے اور اسے کھول کر باہر آ گئے۔ ایرک اور جے جے نے تیز تیز قدم گھر کی طرف بڑھانا شروع کر دیئے۔ انہیں یقین تھا کہ انکل براؤن ضرور دیر سے آنے پر ڈانٹیں گے۔ گھر پہنچ کر انہوں نے ساری تفصیل انکل براؤن کے سامنے رکھ دی۔ انکل براؤن نے ایرک اور جے جے کو ٹوکنے ڈانٹنے کے بجائے سارا غصہ اس پینٹنگ پر اتارنا شروع کر دیا۔

’’یہ پینٹنگ مجھے بہت مشکوک لگ رہی ہے، آخر کس نے تم کو یہ کوڑیوں کے مول بیچ دی؟‘‘

’’تو انکل ہم یہی تو معلوم کرنے گئے تھے کہ بالآخر اس عبارت کا یہاں لکھنے کا مقصد کیا ہے؟‘‘ جے جے نے کشن اپنے پیٹ میں دباتے ہوئے کہا۔

’’میرا خیال ہے تم دونوں ابھی اس پینٹنگ کو وہیں اس کے پینٹر کے گھر میں چھوڑ آؤ۔ ابھی کچھ لوگ سامان دیکھنے آ رہے ہیں۔ مجھے ان کے لئے چند کرسیاں بھی بنانی ہیں۔ اس لیے میں تم لوگوں کے ساتھ نہیں جا سکتا۔ چاہو تو پڑوس سے مسٹر ہنری کو لے جاؤ۔‘‘ انکل براؤن نے فیصلہ سنانے کے انداز میں کہا اور پھر اپنی ورکشاپ میں داخل ہو گئے۔ ایرک اور جے جے مایوسی سے اٹھے اور پھر واپسی وہیں جانے کے لئے تیاری کرنے لگے۔

’’ہوں …. مسٹر ہنری، نہیں ہم خود ہی بہت ہیں۔‘‘ جے جے نے پینٹنگ کو اٹھایا اور کچھ دیر دیکھنے کے بعد بغل میں داب لی جبکہ ایرک ٹارچ وغیرہ تلاش کرنے لگا۔

لائٹ ہاؤس پہنچ کر ایرک اور ہنری کو سارا ماحول کچھ عجیب عجیب سا لگا۔ ابھی اندھیرا ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی لیکن لہریں بہت تیزی سے اٹھ رہی تھیں۔ ایرک اور جے جے دروازہ کھول کر سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ اسی گول کمرے میں پہنچ کر ایرک نے وہ پینٹنگ ایک کرسی پر رکھ دی اور پھر سامنے دیوار پر لگی اس پینٹنگ کے بنانے والے یعنی جونز ہارٹ کی تصویر دیکھنا شروع کر دی۔

’’چلو ایرک، ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔‘‘ جے جے ایرک کو بازو پکڑ کر باہر لے آیا۔ لیکن لائٹ ہاؤس سے باہر نکل کر تو ایک عجیب اور پریشان کن منظر سامنے آیا۔ پانی کی بڑی بڑی لہریں ان پتھروں کو ڈھک چکی تھیں جن پر قدم رکھ کر وہ یہاں تک آئے تھے۔ اب ان کا لائٹ ہاؤس اس پانی میں ایک ننھا سا جزیرہ لگ رہا تھا۔

’’ہم کس مشکل میں پھنس گئے، انکل برائن الگ پریشان ہوں گے۔‘‘ جے جے نے اپنا سر تھام لیا۔

’’اب ہو بھی کیا سکتا ہے، چلو اب یہیں بیٹھ کر پانی اترنے کا انتظار کرتے ہیں۔‘‘ ایرک نے بپھری ہوئی لہروں سے نظریں ہٹاتے ہوئے کہا۔

جب یہ دونوں لائٹ ہاؤس کے بیرونی دروازے کے باہر بنے چبوترے پر بیٹھے سوچوں میں گم تھے تو مشکل سے ایک میل دور ایک مال بردار جہاز کے کنٹرول روم میں کیپٹن ویلر داخل ہوا اور جہاز کے چلانے والے ہینڈل پر دوبارہ اپنے ہاتھ رکھ لئے۔

’’ہم جلد لائٹ ہاؤس دیکھ لیں گے۔‘‘ اس نے اپنے عملہ کے افراد سے کہا۔ ادھر اچانک لائٹ ہاؤس پر گھومتی ہوئی روشنی غائب ہو گئی اور چاروں طرف اندھیرا چھا گیا۔

’’ارے یہ کیا ہو گیا۔‘‘ ایرک گھبرا کر اٹھ گیا لیکن کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس اندھیرے میں وہ دونوں ہی پریشان ہو گئے۔

کیپٹن ویلر کو ہلکی سی روشنی نظر آ چکی تھی۔ اب وہ اس کے غائب ہونے پر بے چینی کا شکار ہو گیا کیوں کہ جو بحری نقشہ اس کے سامنے پڑا تھا اس کے مطابق تو اب روشنی نظر آ جانی چاہیئے تھی۔ بالکل اسی لمحے چبوترے پر، جے جے کے ذہن میں ایک گھبرا دینے والا خیال پیدا ہوا۔ لائٹ ہاؤس تو ایک خاص وجہ کے تحت وہاں موجود ہے۔ وہ یہاں جہازوں کو پتھروں سے خبردار کرتا ہے۔ یعنی اب وہ خطرہ دوبارہ پیدا ہو گیا ہے جو اب سے دو سو سال پہلے لٹیروں کے وقت تھا۔

’’ایرک!‘‘ وہ اپنے بھائی کا بازو ہلا کر چیخا۔

’’کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ کیا ہو گیا ہے؟‘‘

’’لیکن کیا؟‘‘

’’مجھے تو عجیب خطرہ کی بو آ رہی ہے کہ دوبارہ کوئی حادثہ پیش آنے والا ہے۔‘‘

’’لیکن یہاں اردگرد تو کوئی جہاز نہیں ہے۔‘‘ ایرک نے ابھی یہ الفاظ ادا کیے ہی تھے کہ ایک جہاز کا چیختا چنگھاڑتا ہارن سنائی دیا۔ آگے آنے والے خطرے سے بے خبر کیپٹن ویلر اندھیرے میں جہاز کا رخ کوسٹ ٹاؤن کے بے رحم پتھروں ہی کی طرف موڑ چکا تھا۔ اب اس غیر یقینی صورتحال میں ایرک اور جے جے کو کچھ سمجھ نہ آیا اور انہوں نے فوراً سے لائٹ ہاؤس کے اسی گول کمرے کی طرف دوڑ لگا دی۔ جے جے نے صندوق کے اندر موم بتیوں کے لئے ہاتھ مارا جو اسے اندر پڑی ہوئی یاد تھیں۔ بالآخر وہ کسی طرح موم بتیاں جلانے میں کامیاب ہو گئے۔ کمرے کے چاروں طرف لوہے کا جنگلہ اور شیشے کی موٹی دیوار تھی جہاں سے خشکی اور سمندر دونوں نظر آتے۔ جے جے اور ایرک نے وہاں سے اس جہاز کو دیکھنے کے لئے جھانکا جس کی آواز انہوں نے سنی تھی۔ اپنی آنکھوں کے پپوٹے پھیلا کر دیکھنے سے جہاز کا ایک حصہ انہیں نظر آ ہی گیا۔

’’وہ رہا!‘‘ کیا ہم انہیں موم بتی کی یہ روشنی دکھا کر خبردار کر سکتے ہیں۔‘‘

’’شاید جب وہ جہاز پتھروں سے ٹکڑا کر پاش پاش ہو جائے تو تب ہی یہ روشنی نظر آ سکے گی۔‘‘ ایرک کے لہجے میں شدید مایوسی تھی۔ جے جے واپس مڑ کر قدم بڑھاتے ہوئے نیچے گول کمرے میں اتر گیا۔ اس جہاز تک پیغام پہنچانے کا کیا ذریعہ ہو سکتا ہے؟ وہ یہ سوچتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔ اس کے پیچھے ایرک بھی نیچے آ گیا۔ موم بتی کی مدھم روشنی میں جے جے کی نظر پینٹنگ پر پڑی۔ پینٹنگ میں موجود لہریں عجیب چمک پیدا کر رہی تھیں۔ وہ اسے یوں ہی دیکھے جا رہا تھا۔ اچانک اس کے منہ سے چیخ نکل پڑی۔

’’ایرک یہ دیکھو، یہ اس سے پہلے میں نے نہیں دیکھا۔‘‘ ا یرک نے جھک کر کشتی کے ایک طرف درج حروف پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔

’’ایمپریس؟‘‘ دونوں کے منہ سے وہاں لکھا ہوا لفظ متعجب لہجے میں ایک ساتھ نکلا۔

’’یہ پہلے کیوں نہیں نظر آیا؟‘‘ ایرک بھی اپنی موم بتی کے ساتھ پینٹنگ پر جھک گیا۔

’’ایرک!‘‘ جے جے نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا۔

’’یہ اس لیے نظر نہ آیا کیوں کہ پہلے کشتی چھوٹی تھی۔ یہ دیکھو اب یہ ساحل کے قریب ہو گئی ہے اور بڑی بھی۔‘‘ ایرک بھی پینٹنگ میں ہونے والی اس تبدیلی پر حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔

’’تو کیا یہ وہی کشتی ہے جو ابھی کوسٹ ٹاؤن کے کنارے کی طرف بڑھ رہی ہے۔‘‘ ایرک کے لہجے میں سخت حیرانگی تھی۔

یہ دونوں پے در پے آنے والے ان چونکا دینے والے لمحوں سے پوری طرح سنبھلے بھی نہ تھے کہ پھر ایرک کے ذہن میں اگلا خیال بجلی بن کر گرا۔

’’جے جے!، اس لاطینی تحریر کا سر گف نے جو مطلب بتایا تھا یاد کرو۔‘‘

’’اگر میں ڈوبنے کے قریب ہوں تو زور سے میرا نام لے کر آواز دینا۔‘‘ جے جے ذہن پر زور ڈال کر آہستہ آہستہ وہ الفاظ دہراتا گیا۔ اب دونوں نے پینٹنگ سے نظریں ہٹا کر حیرانی کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھنا شروع کر دیا۔ پھر منہ سے کوئی لفظ نکالے بغیر سیڑھیوں کی طرف دوڑ لگا دی اور اوپر کے کمرے میں پہنچ کر شیشے سے لگ کر زور زور سے ایمپریس پکارنا شروع کر دیا۔ ’’اوہو، یہاں شیشے سے کیسے آواز جائے گی، کوئی کھڑکی وغیرہ تلاش کرو۔‘‘ دونوں کو جلدی میں یہ یاد ہی نہ رہا۔ اب ایک کھڑکی کھول کر موم بتی کو ہوا سے بچاتے ہوئے دونوں نے اس کشتی کا نام لے کر پکارنا شروع کر دیا جو واقعی اس کشتی کا بھی نام تھا۔ کیپٹن ویلر نے اپنے شبہ کی بنیاد پر چند افراد کو دوربین سے دور تک جائزہ لینے کے لیے عرشے پر کھڑا کر دیا۔ چاند کی روشنی بھی کوئی ایسی نہ تھی کہ لائٹ ہاؤس کی عمارت کا گمان ہوتا جبکہ اس کے اوپر ٹمٹماتی ہوئی موم بتی کی لو بھی جہاز سے دکھائی نہ دی۔ کیپٹن ویلر کنارہ شروع ہونے سے پہلے پانی میں چھپے خطرناک پتھروں سے بے خبر جہاز کو چلائے جا رہا تھا کہ اس کی تیز سماعت کو کسی چیختی ہوئی آواز کا گمان گزرا۔ اس نے عملے کے ایک فرد کو یہ آواز سننے کا کہا تو اس نے کونے پر جا کر لفظ سننے کی کوشش کر ہی لی جو ان کے جہاز کے نام سے مشابہ تھی۔ کیپٹن ویلر اس آواز کے ساتھ محتاط ہو گیا اور اپنا جہاز روکنے کا فیصلہ کر لیا۔ جہاز کے کنارے پر لگی روشنی ایرک اور جے جے کو صاف نظر آ رہی تھی اور وہ پوری کوشش کے ساتھ اسے اپنی طرف بڑھنے سے روک رہے تھے۔ جب اس روشنی کی رفتار ہلکی ہو گئی تو ایرک نے جے جے کو روک کر اپنی کامیاب کوشش کی اطلاع دی۔ دونوں ہی اس کامیابی پر خوشی سے چلا اٹھے اور تب تک اس روشنی کو دیکھتے رہے کہ جب وہ رک نہ گئی۔

’’چلو اب جلدی سے گھر چلتے ہیں۔‘‘ ایرک اور جے جے تا حال بجھے ہوئے بلب کے آگے موم بتی کرتے ہوئے نیچے آ گئے۔ اب اس پراسرار پینٹنگ کو آخری بار دیکھنے لگے۔ اب اس میں مزید کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔

’’کیا یہ پینٹنگ ساتھ لے چلیں۔ انکل براؤن اسے دیکھ کر شاید کوئی رائے قائم کر سکیں۔‘‘ ایرک نے پوچھا۔

’’نہیں میرا خیال ہے اسے یہیں پڑا رہنے دیتے ہیں، صرف یہ کتاب اٹھا لیتے ہیں۔‘‘ جے جے نے کھلے ہوئے صندوق میں سے وہی کوسٹ ٹاؤن کی تاریخ نامی کتاب اٹھاتے ہوئے کہا۔ دونوں جلدی سے سیڑھیاں اتر کر نیچے آ گئے۔ پانی کچھ اتر چکا تھا اور قدم جمانے کے لئے پتھر بھی نظر آ رہے تھے۔

گھر پہنچ کر ایک مرتبہ پھر انہوں نے انکل براؤن کو لائٹ ہاؤس میں بیتنے والی عجیب کہانی سنائی۔ انکل براؤن ڈھونڈتے ہوئے لائٹ ہاؤس کا رخ کر چکے تھے لیکن پانی کا چڑھاؤ دیکھ کر واپس ہو کر اب انتظار کر رہے تھے۔

’’ایسے کیسے ہو سکتا ہے، اندھیرے میں تم دونوں نے جونز ہارٹ کی کوئی اور پینٹنگ دیکھ لی ہو گی۔‘‘ انکل براؤن ان کی باتوں کا یقین کرنے کو تیار نہ تھے۔

’’لیکن انکل وہ پینٹنگ ہم نے جاتے ساتھ ایک کرسی پر رکھ دی تھی اور دوبارہ بھی وہیں دیکھی۔ کسی اور کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا‘‘ جے جے تعجب سے بولا۔

’’لیکن یہ اتفاق کیسے ہو گیا کہ ہمیں نظر آنے والے جہاز کا نام بھی وہی تھا جو پینٹنگ میں لکھا ہوا ہے۔‘‘ ا یرک بولا۔

’’ہاں یہی میں بھی سوچ رہا ہوں۔‘‘ انکل براؤن نے صفحات پلٹتے ہوئے کہا۔ وہ پہلے ہی ایرک کے ہاتھوں سے کتاب لے کر دیکھنا شروع ہو گئے تھے۔

ایرک نے انہیں ’’دھوکہ کی داستان‘‘ کے نام سے وہ تصویری کہانی دکھائی جسے وہ لائٹ ہاؤس کے گول کمرے میں پڑھ چکے تھے۔ انکل براؤن اس کے متعلق مزید معلومات کے لئے صفحات دیکھ رہے تھے کہ اچانک ان کی نظر ایک بڑی سی کشتی پر پڑی جو ہو بہو پینٹنگ جیسی تھی۔ انکل براؤن نے دونوں کو اس پر متوجہ کیا۔

’’اچھا تو اس جہاز کا نام بھی ایمپریس تھا۔‘‘ انکل براؤن نے مزید پڑھا۔ ’’تو یہ 17 مئی 1785ء کو کوسٹ ٹاؤن کے لٹیروں کو دھوکہ دینے کی وجہ سے تباہ ہوا تھا اور جونز ہارٹ نامی مصور نے واقعہ سے متاثر ہو کر چند پینٹنگز بنائیں جن میں جہاز کو آہستہ آہستہ ساحل سے قریب ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔‘‘

’’اچھا تو انکل! اتنا عجیب اتفاق کہ اس نام کا ایک اور جہاز آج ان پینٹگوں کی وجہ سے تباہی سے بچ گیا۔‘‘ ایرک نے کہا۔ جے جے اس دوران سوچ رہا تھا کہ دوسری پینٹنگ انہوں نے کب دیکھی۔

’’چلو جو ہوا سو اچھا ہوا، اب سونے کی تیاری کرو۔‘‘ انکل براؤن نے کتاب بند کر کے اسے چھپانے کی جگہ تلاش کرنے لگے تاکہ ان کے بھتیجے ان کے آخری الفاظ کو کتاب میں ڈھونڈنے کی کوشش نہ کریں۔ کیوں کہ وہ خود بھی اس راز کو پانے میں ناکام رہے تھے۔

٭٭٭

ماخذ: ساتھی میگزین

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

OOOOO

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل