FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

اسلام اور عدم تشدد

 

 

                صفی الرحمٰن مبارکپوری

ماخذ: صفی الرحمن کی سنہری تحریریں، مرتبہ ساجد اسید ندوی

 

                جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

(گاندھین انسٹی ٹیوٹ بنارس میں کی گئی تقریر)

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہٗ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم

اما بعد!  میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے گاندھی جی کے ایک اصول کے تعلق سے ہنسا اور اہنسا یا تشدد اور عدم تشدد کا لفظ بار بار سنا ہے۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ ڈکشنری میں اس لفظ کا جو معنی آتا ہے گاندھی جی اس معنی میں اہنسا کو مانتے تھے یا ان کے یہاں اس کے کچھ اصول، ضابطے، شرطیں اور حدیں بھی تھیں لیکن آج کی مجلس میں مجھے اس کی تلاش بھی نہیں۔ بلکہ مجھے ہنسا اور اہنسا کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر سے گفتگو کرنی ہے۔

البتہ اصل معاملے پر کچھ کہنے سے پہلے ایک بات واضح کر دینا ضروری سمجھتاہوں اور وہ یہ ہے کہ اسلام دین فطرت ہے دین فطرت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر پیدائشی طور پر جو تقاضے رکھے گئے ہیں اسلام نے ان سب کی رعایت کی ہے، یعنی انھیں کچل کر ختم نہیں کیا ہے بلکہ ان کے لئے ایسا صحیح راستہ بتایا ہے کہ انسان کی فطرت کے تقاضے بھی پورے ہو جائیں اور انسانی سماج میں اس سے کوئی برائی بھی جنم نہ لے، بلکہ انسانی سماج کو فائدہ ہی پہنچے۔

اس بات کو سامنے رکھ کر پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ تشدد اور عدم تشدد کے بارے میں انسان کی فطرت کیا ہے ؟ ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی انسان یہ نہیں چاہتا کہ اس کی جان ماری جائے، اس کے ہاتھ پاؤں توڑے جائیں، اسے مارا پیٹا جائے، یا اس کا دھن دولت چھین لیا جائے یا اسے بے عزت کیا جائے، مثلاً اسے گالی دی جائے، اس پر کوئی برا الزام لگایا جائے اور انسانی سوسائٹی میں اسے رسواکیا جائے۔ یعنی ہر انسان اپنی تین چیزوں کا بچاؤ چاہتا ہے ایک یہ کہ اس کا جسم اور جان محفوظ رہے دوسرے یہ کہ اس کا مال محفوظ رہے اور تیسرے یہ کہ اس کی عزت محفوظ رہے یہ انسان کی فطرت (نیچر )ہے۔

مگر یہ انسان کی فطرت کا صرف ایک پہلو ہے اس کے علاوہ ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اگر کسی انسان کو جان سے مار ڈالا جائے تواس کے باپ بیٹے اور گھرانے کے لوگ یہی چاہیں گے کہ مارنے والے سے اس کا بدلہ لیں۔ یہ لوگ چاہے جتنے بھی کمزور ہوں اور مارنے والے جتنے بھی طاقتور ہوں مگر جہاں تک ہو سکے گا بدلہ لینے کی کوشش اور جتن کریں گے اور اگر حالات سے مجبور ہو کر چپ سادھ بھی لیں تو ان کے دل میں اس کی حسرت اور کسک برابر باقی رہے گی اور انھیں ذرا بھی چھیڑ دیجئے تو اپنا دکھڑاسنانا شروع کر دیں گے اور دل کی آہ زبان پر آ جائے گی لیکن اگر بدلہ مل جائے تو ان کے دل میں حسرت نہیں رہ جائے گی۔ بلکہ انھیں اطمینان ہو جائے گا کہ انصاف مل گیا۔

یہ صورت اس وقت بھی ہوتی ہے جب کسی کا ہاتھ پاؤں توڑ دیا جائے یا اسے مارا پیٹا جائے یا اس کا مال چھین لیا جائے۔ مظلوم جب تک ظالم سے بدلہ نہ لے لے اسے چین نہیں ملتا اور اس کی آہ نہیں جاتی، اسی طرح کوئی کسی کو گالی دے دے یا مثلاً اس کی ماں پر تہمت لگا دے یا اور کسی ذریعہ سے بے عزت کر دے تو وہ اسے آسانی سے برداشت نہیں کر سکتا، بلکہ جوابی کارروائی کرے گا اور اگر نہ کر سکا تو کڑھ کڑھ کر رہے گا اور من ہی من میں گالیاں دے گا، یہ ایسی حقیقتیں ہیں جنھیں جھٹلا یا نہیں جا سکتا۔

اس سے معلوم ہوا کہ جہاں انسان کی فطرت یہ ہے کہ اس کا جسم و جان، مال و دولت اور عزت و آبرو محفوظ رہے، وہیں انسان کی فطرت یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص ان تینوں میں سے کسی ایک چیز پر حملہ کر دے تو اس سے بدلہ لیا جائے اور اگر وہ خود بدلہ نہ لے سکے تواس کو بدلہ دلایا جائے اس لئے اگر انسانی سماج کو کوئی ایسا نظام دیا جائے جس میں انسانی فطرت کے ان دونوں پہلوؤں کی رعایت کی گئی ہو تو وہ نظام تو کامیابی سے چل سکتا ہے لیکن اگر کوئی ایسانظام بنایا جائے جس میں ان دونوں میں سے کسی ایک بھی پہلو کو چھوڑ دیا گیا ہو تو وہ نظام فیل ہو جائے گا، اور کسی قیمت پر نہیں چل سکے گا۔

اس وضاحت کے بعد اب میں بتانا چاہتا ہوں کہ اس بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے ؟ جیساکہ میں نے عرض کیا اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لئے اس نے انسانی فطرت کے ان دونوں پہلوؤں کی پوری پوری رعایت کی ہے۔ یعنی آپ پہلے پہلو کو لیجئے تواسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں کہ کوئی شخص کسی کی جان یا مال یا آبرو پر حملہ کرے۔ بلکہ اسلام نے نہایت سختی سے اس کی ممانعت کی ہے اور اسے بہت ہی برا اور گھناؤنا جرم قرار دیا ہے۔ میں اس بارے میں اسلام کی اصل کتاب قرآن مجید اور حدیث سے دو تین حوالے پیش کر دینا چاہتا ہوں تاکہ معلوم ہو سکے کہ اسلام کے نزدیک ان جرائم کی حیثیت کیا ہے۔ قرآن مجید میں پچھلے زمانے کی ایک قوم کا ذکر کرتے ہوئے ایک اصول بیان کیا گیا ہے۔

انہ من قتل نفسا بغیر نفس اوفساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا ومن احیاھا فکانما احیا الناس جمیعا۔ (سورہ مائدہ)

یعنی جس نے کسی ایک جان کو بھی قتل کر دیا اور ایسانہ توکسی جان کے بدلہ لینے کے لیے کیا اور نہ زمین میں پھیلے ہوئے فساد سے نمٹنے کے لئے کیا تواس نے گویاسارے انسانوں کو قتل کر دیا۔ اور جس نے ایک جان کو زندہ بچا لیا تواس نے گویا سارے انسانوں کو زندہ بچا لیا۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی آدمی شروعات کے طور پرکسی ایک بھی آدمی کو قتل کر دے تووہ اتنا بڑا مجرم ہے کہ گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر دیا کیونکہ اس نے انسان کے قتل کا دروازہ کھولا۔ یہ ہے اسلام میں انسانی جان کا احترام۔ ۔

اسی طرح اسلام میں دوسرے کا مال کھانا بھی سخت حرام ہے، اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک بار محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک جائداد کا مقدمہ آیا۔ آپ نے سمجھایاکہ دیکھو میں بھی انسان ہوں ہو سکتا ہے کہ کسی کے زور بیان کی وجہ سے اس کو ڈگری دے دوں اور حقیقت میں مال اس کا نہ ہو تو پھر سن لو کہ میں اسے آگ کا ٹکڑا دے رہا ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کورٹ سے ڈگری بھی مل جائے تب بھی دوسرے کا مال کھانا اسلام کی نظر میں حرام اور نہایت ہی خطرناک جرم ہے۔ ایساآدمی اس دنیا میں اگر بچ بھی جائے تواس دنیا میں نہیں بچ سکتا۔

اب آدمی کی عزت و آبرو کا معاملہ لیجئے۔ اسلام میں اس کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ ایک بار محمد صلی اللہ علیہ و سلم چند آدمیوں کے ساتھ جا رہے تھے۔ پیچھے دو آدمیوں نے آپس میں باتیں کرتے کرتے ایک آدمی کو جو ایک سزامیں مارا گیا تھا، کتا کہہ دیا۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے کان میں یہ آواز پڑ گئی، آپ تھوڑی دور گئے تو دیکھا کہ ایک گدھا مرا پڑا ہے اور اتنا پھول گیا ہے کہ ٹانگیں تن گئی ہیں، آپ رک گئے اور ان دونوں سے کہا جاؤ اس گدھے کا گوشت کھاؤ۔ وہ دونوں ہکا بکا رہ گئے کہ آخر ہم سے کیا جرم ہو گیا اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ ابھی تم دونوں نے ایک آدمی کو جو کتا کہا تووہ اس سڑے ہوئے گدھے کی لاش کھانے سے بھی زیادہ برا تھا، اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ کسی کی عزت پر بٹہ لگانا اسلام میں کتنا بڑا جرم ہے۔

اب تک کی گفتگو اس پہلو سے تھی کہ اسلام میں کسی کی جان یا مال یا آبرو پر حملہ کرنے کی قطعاً اجازت اور گنجائش نہیں لیکن اگر کوئی آدمی اس ممانعت کے باوجود کسی کی جان یا مال یا آبرو پر حملہ کر بیٹھے تو اسلامی حکم یہ ہے کہ حملہ آور کو ایسی سزادی جائے کہ مظلوم کو پورا پورا بدلہ مل جائے لیکن حملہ کرنے والے پر ظلم بھی نہ ہو۔ یعنی اس نے جتنا بڑا جرم کیا ہے اس سے بڑی سزانہ دی جائے اس بارے میں یہ بھی طے کر دیا گیا ہے کہ عدالت اور کورٹ کو یا ملک کے سر براہ کو مثلاً صدر، راشٹرپتی، راجا، بادشاہ، گورنرجنرل وغیرہ کو اس بات کا کوئی اختیار نہ ہو گا کہ ایسے مجرم کی سزا معاف کر دیں یا کم کر دیں بلکہ یہ اختیار صرف ان لوگوں کوہو گا جن پر حملہ اور ظلم کیا گیا ہو۔

بیجا نہ ہو گا کہ اس موقع پر یہ بھی بتاتا چلوں کہ ان جرائم کی اسلامی سزاکیا ہے ؟ سزایہ ہے کہ قاتل نے اگر جان بوجھ کر قتل کیا ہے تو اسے بھی قتل کر دیا جائے اور اگر غلطی سے قتل کیا ہے تو اس پر بھاری مالی تاوان لگایا جائے اور تاوان مقتول کے گھر والوں کو دیا جائے۔ اگر کسی نے کسی پر حملہ کیا ہے تو حملہ آور نے جیسی چوٹ لگائی ہے اسے بھی ویسی ہی چوٹ لگائی جائے یا چوٹ کی نوعیت کے لحاظ سے کڑا مالی تاوان لگایا جائے، کسی نے کسی کا مال چوری کیا ہے تو کچھ خاص شرطیں پوری ہونے کی صورت میں چور کا ہاتھ کاٹ لیا جائے ورنہ جج اپنی صوابدید سے مناسب سزادے، اور مال بر آمد ہو جائے تو اسے اصل مالک کے حوالے کر دیا جائے اسی طرح کسی نے کسی کی عزت پر بٹہ لگایا ہے تو ملزم کی حالت کا اندازہ کر کے جج کوئی ایسی سزا دے کہ ملزم آئندہ ایسی حرکت نہ کرے۔

ہاں اگر کوئی شخص کسی بدمعاش یا ڈکیت سے اپنی جان یا مال یا آبرو کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے تووہ مظلوم ہے لیکن اگر وہ خود حملہ آور کو مار ڈالے تو ظالم نہیں ہے، لہٰذا اس سے بدلہ نہیں لیا جائے گا دونوں کے متعلق محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک ایک ارشاد سناتاہوں۔ ایک بار آپ نے فرمایا جو اپنی جان بچانے میں مارا جائے وہ شہید ہے جو اپنا مال بچانے میں مارا جائے وہ شہید ہے اور جو اپنی آبرو بچانے میں مارا جائے وہ شہید ہے۔   (بخاری، مسلم، مشکوٰۃ ص۳۔ ۵)

اور ایک بار ایک آدمی نے آ کر سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ بتائیے کہ اگر کوئی آدمی آ کر میرا مال چھیننے لگے تو …؟آپ نے فرمایا : اسے اپنا مال نہ دو، اس نے کہا اگر وہ مجھ سے لڑائی کر بیٹھے تو …؟ آپ نے فرمایا تم بھی اس سے لڑ جاؤ، اس نے کہا اگر وہ مجھے قتل کر دے تو ؟ آپ نے فرمایا تم شہید ہو گئے۔ اس نے کہا اگر میں اسے قتل کر دوں تو؟ آپ نے فرمایا وہ جہنم میں جائے گا۔          (صحیح مسلم مشکوٰۃ ص ۳۔ ۵)

ان دونوں کا حاصل یہ ہے کہ اپنا بچاؤ کرنا ہر شخص کا حق ہے۔ اگر بچاؤ کرنے والا خود مارا گیا تو مظلوم ہے اور حملہ آور سے اس کا بدلہ لیا جائے گا لیکن اگر حملہ آور مارا گیا وہ ظالم تھا اس لئے اس کا خون رائیگاں جائے گا اور بدلہ نہیں لیا جائے گا۔

یہاں اسلامی قانون کے ایک ایک ٹکڑے کی تفصیل بتانے کی گنجائش نہیں، مختصر یہ ہے کہ اسلامی حکومت کے دائرے میں کوئی بھی آدمی مظلوم مارا جائے تو اس کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اگرکسی بھی طرح قاتل کا پتہ نہ چل کسا تو مقررہ مالی تاوان حکومت کے خزانے سے دیا جائے گا۔

اب تک کی گزارشات کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام تشدد شروع کرنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن جو تشدد کرے اسے آزاد بھی نہیں چھوڑتا اور نہ معمولی سزائیں دے کر اس کی ہمت کو بڑھا وا ملنے کا موقع دیتا ہے بلکہ جیساجرم ہے ٹھیک اسی کے مطابق سزادیتا ہے اور اس طرح تشدد کی جڑ کاٹتا رہتا ہے۔ در اصل پوری انسانی تاریخ کا تجربہ ہے کہ انسانی سماج سے اس طرح کے جرائم کبھی بھی ایک دم ختم نہیں ہو جاتے۔ مجرم انسان ہمیشہ پائے گئے ہیں اور ہمیشہ پائے جائیں گے اس لئے اس کا علاج صرف یہی ہے کہ سزا اتنی کڑی دی جائے کہ ایسے جرائم کم سے کم ہو کر نہیں کے برابر رہ جائیں۔

کڑی سزا کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ؟ اور نرم سزاکانتیجہ کیا ہوتا ہے ؟ اس کا پتہ مختلف ملکوں میں ہونے والے جرائم کے اعداد وشمارسے لگایا جا سکتا ہے، امریکہ اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبردار وپاسبان اور تہذیب و تمدن کا لیڈر شمار کہتا ہے مگر وہاں کے جرائم کے متعلق سات سال پہلے کی رپورٹ یہ ہے کہ :…

امریکہ میں ہر ۴۳/منٹ میں ایک قتل، ہر ۱۹/منٹ میں ایک عورت کا جبری اغوا، ہر دو منٹ میں ایک چوری، ہر بیس سکنڈمیں گھر پر حملہ، ہر ۴۸/ سکنڈمیں بس یا کار پر حملہ اور ہر بیس سکنڈ میں ایک ڈاکہ کا کیس پیش آتا ہے۔

یہ سات سال پہلے کی رپورٹ ہے اب ان جرائم میں کچھ اضافہ ہوا ہے اس کے برعکس سعودی عرب کو دیکھئے جہاں اسلامی سزائیں نافذ ہیں جنھیں موجودہ علمبردار ان تہذیب کڑی ہی نہیں وحشیانہ بھی کہتے ہیں۔ ان سزاؤں کے نفاذ کا نتیجہ یہ ہے کہ وہاں سال کے سال گزر جاتے ہیں اور قتل اور چوری، ڈاکے وغیرہ کی شاید باید ہی کوئی واردات ہوتی ہے اور وہ بھی عموماً باہری لوگوں کے ہاتھوں۔

آئیے ذرا اس معاملے کا جائزہ اس پہلو سے بھی لیں کہ امریکہ کے دور اندیش شہری اپنے یہاں کی مذکورہ صورتحال کے بارے میں کیاسوچ رہے ہیں اور ان کے نقطۂ نظر سے اس کا علاج کیا ہے ؟ چند سال پہلے کی بات ہے کہ پاکستان میں کچھ اخلاقی مجرموں کو مجمع عام میں کوڑوں کی سزادی گئی اس پر نیویارک ٹائمز نے استہزاء اور تمسخر کا انداز اختیار کیا اور اس موضوع پر اپنے یہاں مراسلات کا ایک کالم کھول دیا۔ اس کالم میں شکاگو کی رہنے والی ایک امریکن خاتون ایلا شرائر کا بھی خط چھپا، وہ لکھتی ہیں :

’’اسلام کے عدل و انصاف کے نام پر یہی میرا خیال ہے کہ ہمیں بھی اس قسم کی سزاکو رائج کرنا چاہئے جو فوری اور سنگین طور پر مجرموں کی گوشمالی کر سکے۔ اگر ہمارے یہاں اس قسم کا نظام رائج ہو تو ہم بھی آبروریزی، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے خو ف سے بے نیاز ہو کر کوچہ و بازار میں چل پھر سکیں اور ممکن ہے ہمارے جیل خانے مجرموں سے اتنا نہ بھر یں جتنا آجکل بھرے ہوتے ہیں۔ ‘‘    (سیاست جدید کانپور ۱۲/دسمبر ۱۹۷۹ء )

اسی سے ملتاجلتا ایک اور واقعہ آج کل کا ہے کویت کی ایک خاتون جن کا نام ام المثنی ہے کچھ دنوں امریکہ میں رہیں۔ ان کا ایک تازہ بیان کویت کے ایک مشہور ہفت روزہ رسالہ المجتمع نے ۱۷/جولائی ۱۹۸۴ء کی اشاعت میں شائع کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں :

’’امریکہ میں اپنے قیام کے دوران کچھ دنوں کے لئے میں ایک ہسپتال میں بھرتی ہوئی وہاں ایک امریکن نرس سے میرا میل جول بڑھ گیا، چونکہ میں پابندی سے اسلامی چادر اوڑھتی تھی اس لئے وہ مجھ سے بار بار میرے ملک اور میرے مذہب کے بارے میں پوچھتی رہتی تھی ایک دن ا س نے مجھ سے اسلامی سزاؤں کے بارے میں پوچھا کہ یہ سزائیں کیا ہیں ؟ میں نے کہا قاتل کو قتل کر دیا جائے، چور کا ہاتھ کاٹ لیا جائے۔ حرام کاری کرنے والے کو پتھر مار کر ختم کر دیا جائے یا کوڑے مارے جائیں …اور …بھی…

اور یہ سن کراس نے بڑی حیرت اور خوشی ظاہر کی کہنے لگی میری آرزو ہے کہ میرے ملک میں بھی اسلامی شریعت لاگو کی جائے پھر اس نے مجھ سے پوچھا کہ آیا آپ کے ملک میں یہ سزائیں دی جاتی ہیں ؟میں نے کہا نہیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ بعض لوگ انھیں موجودہ زمانہ کے لائق نہیں سمجھتے اور خلاف تہذیب مانتے ہیں۔

پھر میں نے اس سے کہا کہ مجھے تعجب ہے کہ تم اسلامی شریعت کو لاگو کرنے کے بارے میں اتنی گرم جوش کیوں ہو؟ جب کہ خود میرے ملک کے بعض لوگ اس پر نکتہ چینی کرتے رہتے ہیں۔ اس نے کہا کہ جو شخص اتنی بہترین سزاؤں کو نشانہ بناتا ہے وہ غلطی کرتا ہے ہم لوگ اپنے ملک میں قتل، چوری، ڈکیتی، اغوا وغیرہ کے روزمرہ بے انتہا جرائم کی وجہ سے امن و امان کی بربادی اور لاقانونیت کی کڑی سزاجھیل رہے ہیں اور ان جرائم کی وجہ صرف ایک ہی ہے کہ کافی ثبوت مہیا ہو جانے کے بعد بھی مجرموں کو کوئی ایسی کڑی سزا نہیں دی جاتی کہ وہ آئندہ جرم کرنے کی ہمت نہ کریں۔

اس کے بعد اس نرس نے بتایا کہ اس کا شوہر پولیس میں ہے اور اس معاملے کی وجہ سے سخت مشکل سے دوچار رہتا ہے کیونکہ مجرم کو پکڑنے کے لئے پولیس یونٹ جس قدر محنت و مشقت کرتی ہے ان سب پر اس وقت پانی پھر جاتا ہے جب جج ا س کو بے گناہ قرار دے دیتا ہے۔ یا معمولی سزادے کر چھوڑ دیتا ہے اس سے مجرموں کی ہمت اور بڑھ جاتی ہے اور وہ نئے سرے سے جرم کر کے شہریوں کا امن و امان تہ و بالا کرتے رہتے ہیں۔

یہ باتیں کہتے کہتے وہ نرس اداس ہو گئی اور رخصت ہونے سے پہلے بولی: تمھارے ملک کے جو لوگ ان سزاؤں کو لاگو کرنے کی مخالفت کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں انھیں چاہئے کہ ہمارے ملک کی جو درگت بن چکی ہے اس سے سبق سیکھیں اور اپنے ملک میں اس کی نوبت آنے سے پہلے ہی ان سزاؤں کو لاگو کروا دیں۔ ‘‘

دور کیوں جائیے اپنے ملک میں باغپت (ضلع میرٹھ)میں جو حادثہ پیش آیا تھا کہ پولیس نے ایک عورت کو ننگا کر کے گھمایا تھا اور اس پر سخت ہیجان پھیل گیا تھا اس کے بعد اچھے اچھے ماہرین قانون نے جو رائے دی تھی کہ عورتوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کرنے والوں کو پھانسی کی سزا دی جائے اور اس طرح کے کیس بند کمرے میں سنے جائیں اور عورتوں سے بیان لینے والی جج عورتیں ہوں۔

سسوا بازار ضلع گورکھپور، اسی طرح دیوریا اور بستی ضلع کے بعض بعض دیہاتوں میں پولیس نے جس بے دردی سے عورتوں کی آبرو لوٹی، بیلچھی اور دوسری جگہوں پر جس سنگدلی کے ساتھ ہریجنوں کو اور جبل پور بھیونڈی وغیرہ میں مسلمانوں کو آگ کے اندر زندہ جلایا گیا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہمارے ملک میں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مجرموں کو کڑی سزائیں دی جاتیں تو بڑے سے بڑا سورما بھی مجبوروں اور نہتوں پر اس طرح کا ظلم کرنے کی ہمت نہ کرتا، کڑی سزاؤں سے صرف بڑے بڑے جرائم ہی بند نہیں ہوتے بلک چھوٹے چھوٹے جرائم بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ سعودی عرب میں جس کا ذکر پیچھے آ چکا ہے میں نے خود دیکھا کہ دکان کے نمونہ کا سامان رات بھر سڑک کے کنارے دکان کے باہر لٹکتا رہتا ہے، مگر کسی کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ دوکان کھلی چھوڑ کر لوگ نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں، مگر ایک معمولی ساسامان بھی غائب نہیں ہوتا۔ دنیا بھر کی کرنسیاں بدلنے والوں کی دکان کے پھاٹکوں پر ہر طرف نوٹوں کی گڈیاں اس طرح لگی رہتی ہیں کہ ہمارے یہاں پان کی دوکان والے بھی اس سے زیادہ احتیاط سے رہتے ہیں مگر اس کے باوجود ایک نوٹ بھی غائب نہیں ہوتا، لوگ بینکوں سے لاکھوں لاکھ کے نوٹوں کی گڈیاں اس طرح مٹھی میں لے کر چلتے ہیں جیسے مولی ترکاری لے جا رہے ہوں۔ مگر مجال نہیں کہ کوئی بری نیت سے تاک دے۔ عورتیں دن یا رات میں کسی بھی وقت کہیں بھی جا رہی ہوں انھیں کوئی خطرہ نہیں۔

ہمارے سامنے پڑوس کے ملک پاکستان کی تازہ مثالیں موجود ہیں، جنرل ضیاء الحق نے جب پہلی بار اعلان کیا کہ اب پاکستان میں اسلامی سزالاگو ہو گی اور چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا تو اس کے ایک مہینے کے بعد قومی آواز لکھنؤ میں میں نے ایک چھوٹی سی خبر پڑھی کہ پہلے شہر کراچی میں ہر رات ۲۷/ چوریاں ہوتی تھیں جن میں سے اکثر چوریاں بہت بڑی ہوا کرتی تھیں مگر جنرل ضیاء کے مذکورہ اعلان کے بعد ۲۷/ روز میں صرف ۷/ چوریاں ہوئیں اور وہ بھی بہت معمولی قسم کی۔

اسی طرح جنرل ضیاء کی فوجی حکومت کے شروع دنوں کی بات ہے۔ تین بد معاشوں نے مل کر سات آٹھ سال کے ایک بچے کو اغوا کیا اور اس کے باپ کو فون پر نوٹس دی کہ فلاں دن فلاں جگہ غالباً چالیس ہزار روپئے پہونچا دو ورنہ بچے کو قتل کر دیا جائے گا، بیٹا بیٹا ہی ہوتا ہے اس کے سامنے روپئے پیسے دھن دولت کی کیا حیثیت؟ باپ نے روپئے بھجوا دیئے مگر کوئی لینے نہ آیا اور پھر بچے کی لاش پائی گئی۔ خفیہ پولیس مجرموں کی تلاش میں تھی ہی آخر تینوں پکڑے گئے، عدالت سے پھانسی کا فیصلہ ہوا۔ اور تینوں کو لاہور کے ایک چورا ہے پر پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا اور لوگوں کے دیکھنے کے لئے دیر تک لٹکتا چھوڑ دیا گیا، اس کے بعد یہ حال ہوا کہ جیسے دوسرے بدمعاشوں کی ہمت ہی جواب دے گئی ہو۔

اس طرح کی مثالیں تو بہت سی ہیں، مگر ہم مثالوں کے بجائے نتائج کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں نتائج یہ ہیں کہ کڑی سزادیجئے تو جرائم گھٹ کر نہیں کے برابر ہو جاتے ہیں اور سزانرم کر دیجئے تو لاکھوں اور کروڑوں تک جا پہونچتے ہیں۔ امریکہ میں جرائم کے جو اعداد و شمار بتائے گئے ذرا ان کاسالانہ حساب جوڑئیے تو معلوم ہو گا کہ وہاں سال بھر میں ۲۲۳، ۱۲ / آدمی مارے جاتے ہیں ؎۱۔ ۳۹۸، ۲۷/ عورتیں زبردستی اٹھا لے جائی جاتی ہیں، … ۸۔ ۔ ، ۶۷۶۲/ چوریاں ہوتی ہیں۔ ۸۸۔ ، ۷۶، ۱۵/ ڈاکے پڑتے ہیں اور گھروں، کاروں، بسوں پر ۲۔ ۔ ، ۶۵، ۲۳ حملے ہوتے ہیں، یعنی مجموعی طور پر سال بھر میں ۴۲۱، ۴۴، ۴۶/حادثے ہوتے ہیں۔ اور یہ کھلی بات ہے کہ اسی حساب سے خونی، ڈاکو، چور اور مجرم بھی تیار ہوتے ہیں۔

اب سوچئے کہ تشدد کو روکنے اور پبلک کو سکھ چین پہونچانے کے لئے یہ نظام اچھا ہے یا سعودی عرب جیسا وہ نظام جس کے نتیجے میں قاتل مقتول دونوں ملا کر مشکل سے دوچار جانیں جاتی ہیں اور مشکل سے چوری وغیرہ کے دس پانچ حادثے ہوتے ہیں اور خونی، ڈکیت چور وغیرہ تیار ہی نہیں ہونے پاتے، بلکہ فوراً ہی ان کی جڑ کٹ جاتی ہے۔

اگر دنیا کو تشدد سے بچنا ہے تواس پہلو پر کھلے دل سے سوچنا پڑے گا۔

٭٭

 

اب تک ہم نے جو گفتگو کی ہے اس میں تشدد کے اسباب پر روشنی نہیں ڈالی گئی ہے۔ چونکہ انسان پر مذہب اور عقیدے کی گرفت سب سے مضبوط ہوتی ہے۔ اس لئے بیجا نہ ہو گا کہ ہم تشدد کے چند موٹے موٹے اسباب کی نشاندہی کر کے ان کے بارے میں اسلام کے موقف کی تعیین و توضیح کر دیں۔

انسانی تاریخ کا جائزہ لیجئے تو اندازہ ہو گا کہ تشدد کے اسباب مذہبی بھی ہیں، سماجی بھی اور اقتصادی بھی۔ مذہبی اسباب میں تشدد یاہنسا کی ایک خاص وجہ مورتی پوجا ہے۔ ہندوستان، یونان، مصر اور عراق جو مورتی پوجا کے خاص خاص گڑھ رہ چکے ہیں اور ہمارا ملک اب بھی ہے ان کے بارے میں تاریخ نے دو باتیں خاص طور سے نوٹ کی ہیں۔ ایک یہ کہ ہر جگہ کوئی نہ کوئی ایسی دیوی مانی گئی ہے جس کے متعلق عقیدہ تھا کہ اس کی مورتی پر انسان کا بلدان کیا جائے تووہ بہت خوش ہوتی ہے اس کے نتیجے میں ہر جگہ انسانوں کو مورتیوں کی بھینٹ چڑھایا جاتا تھا، ہمارے ملک میں جب اس طرح کی بھینٹ چڑھانے کا رواج حد سے بڑھ گیا تو مہاویر دردمان اور گوتم بدھ نے اپنے اپنے وقت میں اس کے خلاف آواز اٹھائی، اور چونکہ یہ مذہبی پیشواؤں کے ہاتھوں تشدد کے شکار عوام کے دل کی آواز تھی اس لئے کامیاب رہی، ہندوستان میں نہایت تیزی سے بدھ مذہب کے پھیلنے کی وجہ یہی تھی کہ لوگ بھینٹ چڑھانے کی ان مسلسل کارروائیوں سے تنگ آ چکے تھے۔ اب بھی کبھی کبھی اخباروں میں خبر آتی ہے کہ کسی نے فلاں دیوی کو خوش کر کے دھن دولت حاصل کرنے کے لئے کسی لڑکے کو پکڑ کر بھینٹ چڑھا دیا۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ مجرم آدمی جب یہ سوچتا ہے کہ دیوی دیوتا ہم سے خوش ہو کر ہماراسب کام بنا دیں گے تووہ کچھ زیادہ ہی ڈھیٹ اور مجرم ہو جاتا ہے۔

مورتی پوجا والے ملکوں کے بارے میں تاریخ نے دوسری بات یہ نوٹ کی ہے کہ وہاں کے مندر اور پوجا خانوں میں پجاریوں کے علاوہ دیوداسیاں بھی رہتی تھیں۔ عام طور پر ان دیوداسیوں سے پجاریوں کا ناجائز تعلق ہوتا تھا جس کے نتیجے میں ناجائز بچے پیدا ہوتے تھے اور سماجی عار سے بچنے کے لئے ان بچوں کا گلا گھونٹ کر مار دیا جاتا تھا۔ بلکہ بہت سے حالات میں خود بچہ جننے والی دیوداسیوں کو بھی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا تھا، پھر اس طرح کی ہوس رانی اور حرام کاری کے عادی پجاریوں کا جذبۂ ہوس کچھ اور ترقی کرتا تو وہ زیارت اور عبادت کی غرض سے آنے والی عورتوں کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بناتے اور اگر عورت کسی ایسے خاندان سے ہوتی جس سے انتقام کا اندیشہ ہوتاتواسے حرام کاری کے بعد قتل بھی کر دیتے تھے اور اس مقصد کے لئے خفیہ قتل گاہیں بھی بنی ہوتی تھیں، ہمارے شہر بنارس کی گیان واپی سے متصل مندر کے سلسلے میں اس طرح کے واقعات تاریخ بنارس کا ایک مشہور باب ہیں، اور اسی طرح کے المیے کے نتیجے میں اس مسجد کو ان قتل گاہوں کے کھنڈر پر خود ایک ماتحت ہندو حکمراں نے تعمیر کرایا تھا۔ یورپ میں عیسائی گرجوں کے اندر ننوں کے رکھنے کا رواج نکلا تو اس کا بھی یہی حشر ہوا جو مندروں میں دیوداسیوں کے رکھنے کا ہوا تھا۔

اسلام نے ا س طرح کے اسباب کی سرے سے جڑ ہی کاٹ دی ہے۔ اس کی تعلیم یہ ہے کہ پوجا صرف اللہ کی کی جائے کیونکہ اللہ کے سوا جو کچھ ہے محض نام ہے۔ کسی کے پاس کچھ طاقت اور اختیار نہیں۔ ان کے پوجنے سے مرنے کے بعد والی دنیا تو برباد ہوتی ہی ہے اس دنیا میں بھی جو کچھ ان کے لئے خرچ کیا جاتا ہے سب برباد جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام میں یہ تصور ہی نہیں کہ کوئی آدمی سادھوؤں کی طرح پجاری بن کر مستقل طور پر عبادت خانوں میں رہے اور وہاں عبادت کے لئے جانے والے اسی کے واسطے سے عبادت کر سکیں۔ نیز عورتوں کو صرف نماز باج ماعت میں شرکت کی اجازت ہے اور یہ ایسا موقع ہوتا ہے جب کوئی خطرہ اور اندیشہ نہیں۔

ہنسا(تشدد) کی ایک اور بڑی وجہ مذہبی عصبیت اور جوش و جنون ہے جب ایک مذہب کا ماننے والا دوسرے مذہب کے لوگوں کوزبردستی اپنے مذہب میں لانا چاہتا ہے تو ہنسا اور تشدد کی واردات ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک میں جب آرین قوم آئی تواس نے مذہبی اور نسلی اونچ کے غرور میں یہاں کے اصلی باشندوں کو اتنی بڑی تعداد میں قتل کیا، لوٹا، مارا اور زندہ جلایا کہ انھیں دکھنی ہندوستان کے جنگلوں میں پناہ لینی پڑی اور وہ ادھر ہی کے ہو کر رہ گئے۔ گوتم بدھ کی کوششوں سے جب بدھ مت نے عروج پکڑا تو ویدک دھرم کے آریوں کی مجنونانہ کارروائیاں رک گئیں۔ مگر جب بدھسٹوں کی حکومت کمزور ہوئی تو ویدک دھرم نے کھتری قوم کی جگہ تھوڑا سا روپ بدل کر راجپوت قوم تیار کی، اور بدھوں کے خلاف قتل، غارت گری اور لوٹ پھونک کا ایسا بازار گرم کیا کہ انھیں ہمالیہ کے اس پار بھاگنا پڑا، آج چین، جاپان، برما وغیرہ ملکوں میں بدھ مت کی اکثریت ہے لیکن یہ ہندوستان میں صرف نام کے لئے رہ گیا ہے ان لڑائیوں میں مارے جانے والوں کا اندازہ کروڑوں تک گیا ہے۔ یہ مذہبی جنون تھا اور اس کے پیچھے مذہبی تعلیم کام کر رہی تھی۔ سیتا رتھ پرکاش سمولاس ص ۵۹ میں لکھا ہے :

جو شخص وید اور وید کے مطابق بنائی ہوئی کتابوں کی بے عزتی کرتا ہے اس وید کی برائی کرنے والے منکر کو ذات، جماعت اور ملک سے باہر نکال دینا چاہئے۔

اور خود یجروید(ج۱ ص ۲۸) میں لکھا ہے ’’اے جاہ و جلال والے راج پرش !آپ دھرم کے مخالفوں کو آگ میں جلا ڈالیں وہ ہمارے دشمنوں کو حوصلہ دیتا ہے آپ اسے الٹا لٹکا کر خشک لکڑی کی طرح جلا ڈالیں۔ ‘‘

اس طرح کی تعلیم سے جو مذہبی جنون پیدا ہو گا وہ ظاہر ہے اور اس کا جو نتیجہ ہو اس کی طرف ہم ابھی اشارہ کر چکے ہیں۔

اسی طرح کا جنون دور وسطیٰ کے عیسائیوں میں بھی پایا جاتا تھا، لبنان اور فلسطین پر ان کا قبضہ ہوا تو انھوں نے نہتے مسلمان، مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو اتنی بڑی تعداد میں قتل کیا کہ سڑکوں اور گلیوں میں گھٹنوں سے اوپر تک خون بہ رہا تھا، اسپین میں مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی تو وہاں کے کروڑوں مسلمانون کو مارا اور زندہ جلایا گیا۔ مسلمان تو خیر عیسائیوں سے الگ ایک دوسرے دین و مذہب کے لوگ تھے۔ مگر عیسائی عدالت نے خود اپنے ملک کے عیسائیوں کو معمولی سے مذہبی اختلاف کی بنا پر ایک کروڑ بیس لاکھ کی تعداد میں ہلاک کیا۔ اکیلے اسپین میں تین لاکھ چالیس ہزار عیسائیوں کو قتل کیا گیا جن میں سے ۳۲/ ہزار زندہ جلائے گئے تھے۔

یہ مذہبی جنون کے نتیجے میں ہونے والے ہنسا اور تشدد کی چند مثالیں ہیں۔ اسلام نے مسلمانوں کے اندرسے اس کی بھی جڑ کاٹ دی ہے۔ اسلام کا اعلان ہے کہ لا اکراہ فی الدین۔ دین میں زبردستی نہیں۔ یعنی جو شخص اپنی مرضی سے جس دین اور مذہب میں چاہے رہے اسے زبر دستی دین اسلام میں داخل نہ کیا جائے گا بلکہ اسلام نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ اگر کوئی شخص زبردستی محض اسلام کا کلمہ پڑھ لے اور دل سے مسلمان نہ ہو تو وہ سرے سے مسلمان ہی نہیں۔ اس لئے کسی کو زبردستی مسلمان بنانا سرے سے بیکار ہے۔ ظاہر ہے اس وسعت قلبی اور رواداری کے بعد مذہبی عصبیت اور جبر و دباؤ کا نہ کوئی وجود رہے گا نہ اس کی وجہ سے انفرادی یا اجتماعی تشدد پھوٹے گا، بشرطیکہ دوسرے دین دھرم کے ماننے والے بھی یہی اصول اپنا لیں۔

مذہبی عصبیت کی اسی راہ سے (ہنسا) تشدد کی ایک اور وجہ بھی جنم لیتی ہے یعنی دوسرے مذہب کی توہین اور بے عزتی۔ اسلام نے اس سے سختی کے ساتھ روکا ہے۔ قرآن مجید میں حکم ہے : ولا تسبوا الذین یدعون دون اللہ فیسبواللہ عدوابغیرعلم۔ اللہ کو چھوڑ کر دوسری جن چیزوں کی لوگ پوجا کرتے ہیں ان چیزوں کو برا بھلا مت کہو۔ ورنہ وہ لوگ نادانی سے اللہ ہی کو برا بھلا کہیں گے۔

اس تعلیم کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان نہ دوسروں کے مذہب کی توہین کرتے ہیں نہ ان کے پیشواؤں اور پرکھوں کی۔ اور نہ ان کے مندروں اور عبادت خانوں کی۔ آپ ہندوستان پر مسلمانوں کی گیارہ سوسالہ تاریخ دیکھ ڈالئے انھیں اتنی قوت حاصل تھی کہ وہ یہاں جو کچھ چاہتے کر ڈالتے مگر نہ انھوں نے مندر توڑے نہ بت توڑے، نہ دوسرے دھرم کے پرکھوں کو برا بھلا کہا نہ ان کے ماننے والوں کو زبردستی مسلمان بنایا، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمانوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف گیارہ، بارہ فیصد ہے۔ پنجاب محمود غزنوی کے زمانہ میں فتح ہوا تھا۔ اور بنگال مغلوں سے پہلے، لیکن ان دونوں علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت اس وقت ہوئی جب مسلمانوں کے بجائے بنگال پر انگریزوں اور پنجاب پر سکھوں اور پھر انگریزوں کی حکومت تھی۔ آپ یہ بھی دیکھ لیجئے کہ تین ساڑھے تین سوبرس تک سکھ اور مسلمان ایک دوسرے سے اکثر لڑتے رہے مگر مسلمانوں نے نہ کبھی گرنتھ صاحب کو جلایا نہ گرو نانک کی مورتی توڑی نہ ان کے کسی گرودوارے میں قدم رکھا۔ گولڈن ٹیمپل کی بات تو بہت دور کی رہی اس کی وجہ یہی تھی کہ مسلمان اگرچہ اپنے مذہب سے بہت کچھ دور جا پڑے تھے تاہم ان پر ان کے دین کی اس تعلیم کا کچھ نہ کچھ اثر باقی تھا کہ دوسرے مذہب کی مقدس کتابوں، عبادت خانوں اور بزرگوں کی توہین کر کے اس مذہب والوں کی دلآزاری نہیں کرنی چاہئے۔

مگر آپ ۴۷/ کے بعد کا حال دیکھئے ابھی ۳۷/برس بھی پورے نہیں ہو سکے کہ گولڈن ٹیمپل ڈھا دیا گیا۔ حالانکہ اس کی سپلائی کاٹ کر سارے لڑنے والوں کو زندہ گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ سیکڑوں گرودوارے روند دئے گئے اور مسلمانوں کے ساتھ جو اندھیر نگری مچی ہے اس کا تو کہنا ہی کیا ہے ملک آزاد ہوتے ہی مسلمانوں پر جو حملہ ہوا اس کے نامکمل اعداد و شمار یہ تھے کہ ہندوستانی علاقے میں دس لاکھ ساٹھ ہزار مسلمان مارے گئے اور اس کے بعد سے آج تک خون کی جو ہولی کھیلی جا رہی ہے اسے کہاں تک گنائیں۔ تنہا نیلی میں سرکاری اعداد و شمار تین ہزار اور غیر سرکاری دس سے تیرہ ہزار ہے، جبلپور، راؤرکیلا، تھانہ، احمدآباد، جمشیدپور، بھیونڈی، بمبئی وغیرہ وغیرہ ہزاروں فسادات کے اعداد و شمار الگ ہیں۔ پھر بربریت کا عالم یہ کہ سرکاری فورس تک کے بار ے میں سنا گیا کہ انھوں نے زندہ انسانوں کی آنکھ نکال لی اور ہاتھ پاؤں کاٹ کر زندہ لٹکا دیا۔ کسی کا بھاری پتھرسے گھٹنا اور کہنی توڑ کر زندہ چھوڑ دیا گیا۔ عورتوں کی بے حرمتی کر کے ان کی شرمگاہ پر تیزاب ڈال دیا گیا۔ قرآن کی الگ بے حرمتی کی گئی۔ مسجدوں کا حال یہ ہوا کہ ۴۷/ میں ساڑھے تین سوسے اوپر مسجد یں صرف دہلی میں ڈھائی گئیں یا انھیں رہائشی مکان میں تبدیل کر لیا گیا۔ دہلی کی ۹۔ / سے اوپر مسجدوں میں آج تک تالا پڑا ہوا ہے، جن میں سے شاید دوچار مسجدیں آج کل امام عبداللہ بخاری کے سخت پروٹسٹ کے بعد کھول دی گئی ہیں۔

مرادآباد کی عیدگاہ میں جو طوفان قیامت اٹھا اور چھوٹے بچوں تک کو جس طرح بھون دیا گیا وہ سب کو معلوم ہے، ہمارے مورخین(اتہاس لیکھکوں )نے مسلمانوں کے گیارہ سوسالہ دور حکومت کے متعلق جتنے افسانے گھڑ ڈالے ہیں اگر ان سب کو اکٹھا کر لو اور صحیح مان لو تب بھی وہ کل کے کل مل کر اس چتھیس، سینتیس برس میں ہونے والے ظلم اور اتیاچار کا سواں کیا ہزارواں حصہ بھی نہیں ہو سکتے۔

جہاں تک دوسرے مذہب کے بڑوں اور پرکھوں کی عزت اور قدرکاسوال ہے تو ذرا بازار میں نکلو، دکانوں پر بکنے والی کتابوں کو دیکھو، بلکہ اتہاس کے نام پر سرکاری کورس کے اندر جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اور ابھی تازہ بتازہ چھپ کر آیا ہے اسی کو دیکھ لو، وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جنھوں نے انسانیت کو ظلم و قہر اور گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر رشد و ہدایت اور انسانیت کی روشنی میں پہنچایا اور جن کے متعلق دیکھو کہ یہاں کے لکھنے والے کیا لکھتے ہیں۔ کتنی بری زبان ہے، کیسا دلآزار بیان ہے اور کیسی جھوٹ کی بھرمار ہے۔ میں مسلمان ہوں لیکن سچ کہتا ہوں کہ میرے نہیں بلکہ دوسرے دھرم کے پیشوا کے بارے میں ایسی باتیں لکھی جائیں تومیں انھیں اپنی زبان پر لانے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ گاندھی جی کی روح یقیناً کھڑی فریاد کر رہی ہو گی۔ اگر وہ کھڑی ہو سکتی ہو گی۔ کہ یہ کیا اندھیر نگری ہے جو گاندھی بھگتوں کے ہاتھوں ان کے دیش میں ہو رہی ہے۔ مگر یاد رہے کہ یہ مذہبی عصبیت و جنون اور دیوانگی کا اثر ہے اور کسی کی روح فریاد کر کے اس کو ختم نہیں کر سکتی۔ جب تک کہ اس کا صحیح علاج نہ ہو۔ جب تک ہنسا کرنے والوں کے ہاتھ نہ پکڑے جائیں اور نہتے مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں پر گولیاں چلانے والے سورماؤں کو تمغے دینے کے بجائے ان کا احتساب نہ کیا جائے، موٹی سی مثال سامنے ہے یہاں ہر سال آدھے ہزار کے قریب چھوٹے بڑے فساد ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اس کا کہیں نام و نشان نہیں۔ آخر کیوں ؟ اس کی وجہ کھوج کر اس کو اپنائیے۔ اگر گاندھی بھگتی سے علاج نہیں ہوتا تو جناح بھگتی سے کیجئے۔ بیمار کو دوا چاہئے۔ ڈاکٹر کون ہے اسے اس سے کیا مطلب؟

ہو سکتا ہے کہ اس مرحلہ پر ہمارے کچھ بھائی سومنات اور کچھ مندروں کا حوالہ دیں۔ اس بارے میں صحیح تاریخی حقیقت سمجھنے کے لئے ایک سوال پر غور کرنا ضروری ہے۔ محمود غزنوی کی فوجیں بنارس کے قریب تک آئیں۔ دریائے سندھ سے یہاں تک سیکڑوں مندر اور ہزاروں بت رہے ہوں گے، خود سومناتھ مندر کا حال یہ تھا کہ دو ہزار برہمن اس مندر کے پجاری تھے اور بڑے بڑے ہندو سرداروں کی پانچ سو جوان بیٹیاں اس مندر میں رہتی تھیں، لہٰذا لازماً اس مندر میں بھی بڑے بت کے علاوہ سکیڑوں اور بت تھے پھر کیا وجہ ہے کہ محمود غزنوی کی فوجوں نے تھانیسر، متھرا اور سومنات کو چھوڑ کر باقی پورے ہندوستان میں کہیں بھی نہ کسی مندر کو ہاتھ لگایا نہ کسی بت کو توڑا، یہاں تک کہ ان تینوں جگہ بھی کوئی بڑی توڑ پھوڑ نہیں مچائی بلکہ صرف ایک دو بت کو توڑا۔ پھر سومنات میں تو لاکھوں کروڑوں کا دھن دولت بھی بت بچانے کیلئے پیش کیا گیا۔ لیکن غزنوی نے ان سب کو ٹھکرا کر بت کو توڑا۔ کھلی بات ہے کہ اگر محمود غزنوی کو بت توڑنے سے دلچسپی ہوتی تو وہ ہر جگہ کے سارے بت توڑتا جاتا اور اگر دھن دولت سے دلچسپی ہوتی تو اسے اتنی دولت دی جا رہی تھی کہ بت توڑنے میں اس کا پاسنگ بھی ملنے کی امید نہ تھی بس اتنی سی بات پر آپ غور کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ بت نہ دولت کے لالچ میں توڑا گیا تھا نہ مذہب دشمنی کی بنا پر بلکہ اس کی تہہ میں گولڈن ٹیمپل کی طرح کا کوئی اور معاملہ کار فرما تھا۔

اس کی مختصر روداد یہ ہے کہ محمود غزنوی کے جو بارہ یا سترہ حملے مشہور ہیں ان میں سے ابتدائی کئی لڑائیاں ہندوستان کی اس وقت کی سرحد کے اس پار سیکڑوں میل دور غزنی اور ملغان کے علاقوں میں ہوئیں، یعنی یہ حملے غزنوی حکمرانوں نے نہیں کئے بلکہ ہندوستان نے کئے اور وہ بھی اس طرح کہ غزنوی حکمرانوں کو ترکستان اور خراسان میں الجھا ہوا پا کر سارے ہندوستان کی بے شمار فوجوں نے مہاراجہ پنجاب کی متحدہ کمان میں بے روک ٹوک پیش قدمی کر کے راجدھانی غزنی تک کو خطرے میں ڈال دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس طرح کے ہر حملے میں ہندوستان کا ٹڈی دل لشکر غزنی کی مٹھی بھر فوج کے مقابل بری طرح شکست کھا گیا۔ چونکہ ہر حملہ راجہ پنجاب کی قیادت میں ہوتا تھا اس لئے راجہ پنجاب نے ہر بار شکست کے بعد غزنوی حکمرانوں سے معافی مانگی، اور اسے ہر بار معاف کر دیا گیا۔ مگر ا نے ہر بار غداری اور بد عہدی کی اس طرح جب سلطنت غزنی پر چار حملے ہو چکے اور چار بار معافی مانگ مانگ کر غداری و بد عہدی کی جاچکی تب محمود غزنوی نے پنجاب پر جوابی حملہ کیا اور اسے اپنی سلطنت میں شامل کیا۔

اس عرصے میں باوجودیکہ محمود غزنوی نے راجہ پنجاب کو بے حد رعایتیں دئیے رکھیں اور اس کی نہایت خوفناک سازشوں اور بدترین غداریوں اور بد عہدیوں کو معاف کرتا رہا مگر اس شریفانہ برتاؤ کا جواب ہندوستانی راجاؤں کے پاس یہ تھا کہ ان ’’ملچھوں (مسلمانوں ) کو نیست و نابود کر ڈالو۔ یہ مذہبی جنون تھا جسے اسلام دشمنی نے دو آتشہ کر دیا تھا۔ اسی جوش جنون میں بدھ مت اور ویدک دھرم کی حیثیت سے ویشنو دھرم کی ایجاد عمل میں آئی اور اسی اسلام دشمنی کے جنون میں ہندوستانی راجاؤں اور برہمن پیشواؤں نے مسلمانوں کے بدترین دشمن قرامطہ سے سازباز کی اور حضرت علی کو دسواں اوتار مان کر قرمطہ کو بھی ہندو جاتی میں شامل کر لیا اور ان کے ذریعہ محمود غزنوی کے خاتمے کی سازش میں بحرین کے قرامطہ اور مصر کے عبیدیوں تک سے سانٹھ گانٹھ کی اس سازش کاسب سے پہلا گڑھ تھانیسر تھا، پھر متھرا مہابن اور سومنات۔ اور چونکہ اس کی لگام برہمن پیشواؤں کے ہاتھ میں تھی اس لئے یہ کام مذہبی دربار یعنی مندر میں انجام پاتا تھا۔ ان مندروں کے بڑے بتوں کے متعلق عوام کو یہ بھی یقین دلا رکھا گیا تھا کہ یہ محمود غزنوی کو نشٹ کر ڈالیں گے اور یہی یقین دہائی عوامی جوش و خروش کا سبب تھی اور یہ جوش و خروش اس حد تک بڑھا ہوا تھا کہ مالدار تو مالدار غریب اور بیوہ عورتیں تک چرخے کات کات کر اور اپنے زیور بیچ بیچ کر فوجوں کی تیاری میں مدد دے رہی تھیں۔

بار بار کے تجربے کے بعد محمود غزنوی اس کا انتظار نہیں کر سکتا تھا کہ اس کی سلطنت پر پھر حملہ ہو۔ چنانچہ مجبوراً اس نے پیش قدمی کر کے پہلے تھا نیسر کا سازشی گڑھ ختم کیا پھر متھرا اور مہابن کا، یہاں کے بتوں کو توڑنا اس لئے ضروری تھا کہ جب تک وہ باقی رہتے ہندوؤں کا یہ یقین برقرار رہتا کہ محمود غزنوی نشٹ ہو جائے گا۔ اور اس کی وجہ سے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ اور بے پناہ قتل و خونریزی کا سلسلہ جاری رہتا۔ اس کے برعکس بت توڑ دینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان علاقوں سے جنگ کا سلسلہ ختم ہو گیا۔

تھانیسر اور یوپی کے ان دو تین بتوں کے ٹوٹنے کے بعد عام ہندوؤں کا جنگی جنون توسرد ہو چلا تھا لیکن ابھی سازشی گروہ کے دم خم باقی تھے چنانچہ ایک مرتبہ پھر جنگی جوش و خروش پیدا کرنے اور غزنی کی سلطنت کے خلاف قتل و غارت گری کی متحدہ آگ بھڑکانے کے لئے برہمنوں نے تمام ملک میں اس بات کو شہرت دی کی سومنات کا بت تھانیسر اور متھرا کے بتوں سے ناراض تھا، لہٰذا اس نے موقع دیا کہ محمود ان بتوں کو تور دے اور اسی لئے سومنات نے محمود کی مخالفت میں کوئی کام نہیں کیا۔ لیکن اب سومنات ایک چشم زدن میں محمود کا کام تمام کر دے گا کیونکہ وہ تمام بتوں کا بادشاہ ہے اور سمندر اس کی عبادت کے لئے مقرر ہ اوقات میں حاضر ہوتا ہے چونکہ جوار بھاٹا کی وجہ سے سمندر کا پانی کبھی مندر سے میلوں پرے ہوتا اور کبھی مندر تک آ جاتا۔ اس لئے سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنایا جاتا کہ دیکھو یہ سمندر بت کی عبادت کرنے آیا ہے۔

بہر حال یہ کوشش اتنی بڑے پیمانے پر ہوئی کہ ایک بار پھر غزنی کے خلاف جنگ کا جوش بھڑک اٹھا، جس کا عالم یہ تھا کہ ہر رو ز ہردوار سے گنگا کا پانی سومنات پہنچتا تھا، اور اس کے ساتھ ہی سومنات میں ایک زبردست فوجی طاقت بھی جمع ہو گئی تھی بالآخر محمود غزنوی کو اس نئے خطرے کی طرف متوجہ ہونا پڑا، اس نے سومنات فتح کر کے خاص اس بت کو توڑدیاجس کے ہاتھوں محمود غزنوی کے نسٹ ہونے کی امید میں لاکھوں جانیں داؤں پر لگی ہوئی تھیں۔ اس تفصیل سے یہ حقیقت سمجھی جا سکتی ہے کہ ہزاروں بتوں اور مندروں کے ہجوم میں سے محمود غزنوی نے جو دو تین بت توڑے تو اس کی یہ کارروائی مذہبی نہیں تھی۔ بلکہ گولڈن ٹیمپل کے واقعہ سے بھی زیادہ سیاسی قسم کی تھی۔

محمود غزنوی کے متعلق یہ تفصیل محض بر سبیل تذکرہ آ گئی ہے۔ مقصود صر ف یہ بتلانا ہے کہ اسلام مذہبی رواداری کا قائل ہے، نہ و ہ دوسرے مذہب کے بڑوں کی توہین کرتا ہے نہ ان کے مذہبی کاموں میں رخنے ڈالتا ہے، نہ ان کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کرتا ہے، نہ کسی کو جبراًمسلمان بنانے کی اجازت دیتا ہے اور وہ دوسروں سے بھی یہی رواداری چاہتا ہے اسی لئے اسے یہ گوارا نہیں کہ کوئی طاقت اپنی طاقت کے زعم میں مسلمانوں کواسلام کی تبلیغ سے روکے یا انھیں زبردستی غیرمسلم بنائے یا جو اپنی آزاد مرضی سے مسلمان ہونا چاہے اسے مسلمان نہ ہونے دے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی اپنے اندر اتنی سی رواداری پیدا کر لیں تو مذہب کی وجہ سے کسی طرح کی ہنسا اور تشدد نہیں ہو سکے گا۔

٭٭

 

اب تک ہم نے ہنسا کے چند بڑے بڑے مذہبی اسباب بیان کئے تھے۔ آئیے ! اب ایک دوسماجی وجہیں بھی سنتے چلیں جس سے خاص ہمارے ملک کو سامنا ہے۔ اہنسا کی ایک خاص وجہ ذات پات کا بھید بھاؤ اور اونچ نیچ ہے چنانچہ ہمارے ملک کا سماج جو چھوٹی بڑی اور اونچی نیچی ذات برادریوں میں بٹا ہوا ہے، اس کی وجہ سے یہاں آئے دن چھوٹی ذات والوں کے مارے پیٹے جانے، قتل کئے جانے اور زندہ جلائے جانے کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں اور غالباً اسی سے متأثر ہو کر چند سال پہلے الہ آباد کی انٹر نیشنل ہندو کانفرنس میں اپیل کی گئی تھی کہ ذات برادریوں کی اونچ نیچ اور باہمی چھوت چھات ختم کر دی جائے مگر چونکہ سماجی طبقات کی یہ تقسیم مذہبی (دھارمک)ہے اس لئے اس کا مٹانا سخت مشکل ہے اس کے لئے یا تو آدمی اپنا مذہب چھوڑ دے یا پھر مذہبی رہنما اپنے مذہب میں تبدیلی لانے کا اعلان کریں مگر یہ اعلان درحقیقت اس بات کا اعلان ہو گا کہ یہ خدائی مذہب نہ تھا بلکہ انسانوں کے اپنے تیار کردہ کچھ اصول و ضابطے تھے جنھیں مذہب کا تقدس دے کر نافذ کر دیا گیا تھا۔

اسلامی تعلیمات کو دیکھئے تو وہاں اس اونچ نیچ کا نام و نشان تک نہیں بلکہ مختلف سماجوں نے جو نیچ اونچ پیدا کر دی تھی، اسلام نے اسے برائی قرار دیتے ہوئے مٹایا اور مٹانے کی ترغیب دی۔ اس باب میں اسلام کی تعلیم قرآن کے الفاظ میں یہ ہے۔

یا ایھا الناس اناخلقناکم من ذکروانثی وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا۔ ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم۔ (سورہ حجرات)

اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قبیلے اور گروہ بنایا تاکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ ( ورنہ) تم میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے نیک ہو۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا۔

یا ایھا الناس الا ان ربکم واحد وان اباکم واحد۔ الا لافضل لعربی علیٰ عجمی۔ ولالعجمی علی عربی ولالاحمر علیٰ اسود ولاسود علی احمرا لا بالتقویٰ۔ (مسند احمد ۵/۴۱۱)

لوگو یاد رکھو! تمھارا رب بھی ایک ہے اور تمھارے باپ بھی ایک ہی ہیں۔ یاد رکھو کہ نہ عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت ہے، نہ عجمی کو عربی پر، نہ گورے کو کالے پر اور نہ کالے کو گورے پر، مگر صرف تقویٰ کی بنیاد پر۔

اس طرح کی ہدایات بہت ہیں اور مختلف پیرائے میں ہیں مگر سب کو نقل کرنا مقصود نہیں، کہنا یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم اونچ نیچ کے خلاف ہے اور اس تعلیم کا اثر ہے کہ آج اتری ہندوستان اور اکا دکا جگہوں کو چھوڑ کر پوری دنیا میں مسلمانوں کے اندر اونچ نیچ کا کوئی تصور نہیں اور یہاں بھی اس کا جو تصور ہے وہ محض اونچ نیچ ماننے والوں کے پڑوس میں رہنے کی وجہ سے ہے اور وہ بھی صرف اتنا ہی ہے کہ لوگ شادی بیاہ میں تھوری سی کنی کترا جاتے ہیں۔ ورنہ ایک ساتھ اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے، کھیلنے کودنے، کاروبار کرنے، پڑھنے پڑھانے اور عبادت کرنے وغیرہ وغیرہ میں نہ کوئی تکلف ہے نہ ان معاملات میں اونچ نیچ یا چھوت چھات کا کوئی تصور ہے۔ اور اسی لئے مسلمانوں میں آپ کو اونچ نیچ کی لڑائی بھی نظر نہیں آئے گی جب کہ اسی ملک میں دوسرے لوگوں کی ذات برادریوں کا جھگڑا اتنا سخت ہے کہ اس کی وجہ سے پورے پورے گاؤں پھونک ڈالے گئے ہیں اور زندہ انسانوں اور جانوروں تک کو جلا دیا گیا ہے۔

٭٭

 

ہمارے یہاں تشدد(ہنسا) کا ایک اور سماجی سبب تلک یعنی جہیز کا لین دین ہے اس کی وجہ سے ایک طرف غریب گھرانے کی لڑکیوں کی شادی میں جو غیر معمولی دیر ہوتی ہے اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آوارگی اور اخلاقی بے راہ روی ہے تو دوسری طرف سے اس تلک کی وجہ سے تشدد کے واقعات بھی بکثرت ہوتے ہیں۔ جب داماد کو اس کی منشا کے مطابق جہیز نہیں ملتا تو وہ اور اس کے کنبے کے لوگ لڑکی کوستانے کا سلسلہ شروع کرتے ہیں جس سے تنگ آ کر لڑکی کبھی تو خود ہی خود کشی کر لیتی ہے اور کبھی سسرال والے اسے جان سے مار ڈالتے ہیں اور حد یہ ہے کہ اس معاملے میں زندہ جلنے یا جلانے کی وارداتیں بھی بڑی کثرت سے ہوتی ہیں۔ اخباروں میں آئے دن اس طرح کی خبریں دیکھنے میں آتی ہیں، تنہا دہلی میں تلک کے معاملہ پر روز انہ ایک عورت کی ہلاکت کا واقعہ پیش آتا ہے، حکومت نے ہر چند اس کے لئے قوانین بنائے اور کوششیں کیں مگر یہ مصیبت ٹلتی نظر نہیں آتی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سماجی تنظیمیں مسلمان عورتوں کی فرضی مظلومیت پر مگر مچھ کے آنسو بہا بہا کراسلام کو بدنام کرنے کی جان توڑ کوشش کرتی ہیں مگر دوسروں کی آنکھوں میں تنکے تلاش کرنے والی ان تنظیموں کو اپنی آنکھ کی موٹی سی لکڑی نظر نہیں آتی۔

قتل اور خود کشی کی بہت ساری وارداتیں اس وجہ سے بھی ہوتی ہیں کہ ہندوسماج میں شادی ہو جانے کے بعد مرد اور عورت میں جدائی اور طلاق کا تصور نہیں ہے اس لئے جب مرد عورت سے دامن چھڑانا چاہتا ہے تو اسے مار ڈالتا ہے اور جب عورت اپنے شوہر سے زچ ہو جاتی ہے تو خود کشی کر لیتی ہے اور کبھی کبھی ایسابھی ہوتا ہے کہ شوہر ہی کو مار ڈالتی ہے۔

اسلام نے مسلمانوں کو ان دونوں معاملات میں جو تعلیمات دی ہیں وہ بڑی صاف اور سادہ ہیں، مرد اور عورت گواہوں یا مجمع کے سامنے صرف زبانی اقرار کے بعد شوہر اور بیوی ہو جاتے ہیں۔ اسلام نے دونوں میں سے کسی پر کوئی مالی ذمہ داری نہیں رکھی ہے۔ صرف شوہر پر مہر کے بارے میں بھی یہ گنجائش رکھی ہے کہ وہ حسب استطاعت چاہے تو فوراً ادا کر دے چاہے تو زندگی میں کبھی بھی ادا کر دے، پھر شادی کے بعد شوہر کی طرف سے کھانے کی جو دعوت کی جاتی ہے۔ اس کیلئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے دوچار دوستوں کو کوئی چیز چند لقمے کھلا دے۔ بس یہ ہے اسلام کا حکم۔ اس کے بعد آدمی کی اپنی مرضی ہے اس کے پاس مال و دولت ہے تو وہ اپنی حیثیت کے مطابق تھوڑا یا زیادہ کتنا خرچ کرے۔

اسی طرح اگر چہ اسلام نے اس بات کو بہت برا مانا ہے بلکہ اجازت والی چیزوں میں سب سے زیادہ برا مانا ہے کہ شوہر بیوی کو طلاق دے۔ لیکن بہر حال اس کی گنجائش رکھی ہے کہ اگر مرد و عورت میں نباہ کی کوئی صورت نہ ہو تو ہر طرح سمجھنے سمجھانے اور دونوں خاندان کے لوگوں کی طرف سے روز ور دباؤ ڈالنے کے بعد آخری چارہ کار کے طور پر شوہر طلاق دیدے، یا عورت خلع کرالے۔ یہ بات چاہے جتنی بری ہو لیکن قتل اور خودکشی سے تو بہر حال کم بری ہے اس لئے طلاق کا قانون درحقیقت انسانیت پر اسلام کا احسان عظیم ہے اور دنیا کی وہ ساری قومیں جو طلاق کی قائل نہیں تھیں اب قائل ہوتی جا رہی ہیں۔ مجھے اس بات کا اقرار ہے کہ آج ان دونوں معاملات میں یعنی نیچ اونچ اور طلاق کے معاملات میں مسلمانوں کا عمل ٹھیک ٹھیک اسلامی ہدایات و تعلیمات کے مطابق نہیں ہے اس لئے اس کا پورا فائدہ بھی انھیں نہیں مل پا رہا ہے، پھر دوسروں کے مقابل ان کا سماج بہت محفوظ ہے اور ان میں آپ ان معاملات کی وجہ سے قتل اور خود کشی کی واردات ڈھونڈھے سے بھی بمشکل ہی پا سکیں گے۔

٭٭

 

ہنسا(تشدد) کے اب تک جو اسباب ذکر کئے گئے ہیں انکے علاوہ تشدد کے معاشی اور نفسیاتی اسباب بھی ہیں۔ نفسیاتی اسباب میں حسد، کینہ، عداوت، ظلم، تعدی اور طاقت کی نمائش کا ذوق وغیرہ وغیرہ ہیں۔ اور ان معاشی اور نفسیاتی اسباب کے بارے میں بھی اسلامی تعلیمات ہی سب سے زیادہ صحیح و معتدل اور ساری بیماریوں کا علاج ہیں مگر ان سب پر گفتگو کی گنجائش نہیں۔ البتہ ہنسا اور تشدد کے تعلق کے مزید ایک بات کہہ کر گفتگو ختم کرنا چاہتا ہوں، اور یہ بات ہے انفرادی تشدد کے بجائے اجتماعی تشدد کی۔ یعنی ملکوں اور قوموں کے درمیان جنگ و جدل کی۔

انسانی تاریخ کو کھنگالئے تو اندازہ ہو گا کہ جس طرح کے اسباب انفرادی تشدد کو جنم دیتے ہیں اسی طرح کے اسباب سے جنگوں اور لڑائیوں کے بھی دروازے کھلتے ہیں، کوئی قوم کسی قوم سے بڑی بن کر رہنا چاہتی ہو اس کی خوبیوں پر حسدسے جلتی ہو اور اس کی خوشحالی اور بہترین پیداوار پر للچائی ہوئی نظر رکھتی ہو تو موقع تلاش کر کے اور بہانے پیدا کر کے اس پر حملہ آور ہوتی ہے۔ اور اسے مار کاٹ کر اور لوٹ کھسوٹ کر تباہ و برباد کر ڈالتی ہے۔ یہ بات اس وقت سے ہوتی آ رہی ہے جب سے انسان کی تاریخ معلوم ہے اور اب تک ہو رہی ہے اور ہر طرح کے بین الاقوامی معاہدوں اور کوششوں کے باوجود اس کے کچھ آثار نظر نہیں آتے کہ اسے روکا جا سکے گا۔

۷۱ء کے اخیرمیں بنگلہ دیش کی جنگ ہوئی تو اقوام متحدہ کے ۱۔ ۴/ممالک نے ہندوستان کے اقدام کو غلط قرار دیتے ہوئے اس سرزمین کو خالی کر دینے کی قرار داد پاس کی۔ صرف چار ووٹ اس قرار کے خلاف گئے جس میں ایک ہندوستان کا تھا۔ ایک روس کا اور دوروس کے حاشیہ برداروں کا پھر ہیگ کی عالمی عدالت نے بھی ہندوستانی اقدام کو غلط قرار دیتے ہوئے فیصلہ کیا کہ بنگلہ دیش کی تشکیل خلاف قانون ہے۔ مگر ہندوستان نے ساری دنیا کے فیصلے کو ٹھکرا کر وہی کیا جو اسے کرنا تھا۔

اسی طرح روس نے افغانستان پر دھاندلی سے قبضہ کر لیا۔ وہاں کے باشندے اپنی آزادی کے لئے موت و زندگی کی لڑائی لڑرہے ہیں اور ساری دنیا ہرسال قراردادپاس کرتی ہے کہ روس افغانستان سے نکل جائے مگر وہ سب کے فیصلوں کو روند کر افغانستان میں جما ہوا ہے۔ عربوں کی سرزمین پر طاقت کے زور سے اسرائیل کوبسایا گیا ہے پھروہ مدتوں سے اقوام متحدہ کی قرار دادیں رد کر کے عربوں کی مزید زمینیں ہڑپ کئے ہوئے ہے اور انھیں خالی کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔

یہ تین مثالیں میں نے صرف اس مقصد کے لئے پیش کی ہیں کہ آج بھی دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس پر عمل ہو رہا ہے اور آپ یہ یقین رکھئے کہ آئندہ بھی اسی پر عمل ہو گا۔ مسلمانوں کو چھوڑ کر دنیا کی تاریخ میں آج تک کوئی ایسی قوم پیدا نہیں ہوئی جس نے طاقتور ہو کر کمزوروں کو لوٹنے کھسوٹنے اور قتل و غارت کرنے کے بجائے عدل و انصاف دیا ہو۔ یہ صرف مسلمان ہیں جو بین الاقوامی اسٹیج پر کھڑے ہو کر دنیا کی اور ساری قوموں کو مخاطب کر کے کہہ سکتے ہیں کہ ؎

ہم نے جب ہوش سنبھالا توسنبھالا تم کو

تم نے جب ہوش سنبھالا تو سنبھلنے نہ دیا

اس حقیقت کے پیش نظر اسلام نے مسلمانوں کو کبھی اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں رکھا کہ دنیاسے جنگ ختم ہو سکتی ہے۔ اس لئے اسلام نے اس مفروضے کے چکر میں ڈالنے کے بجائے مسلمانوں کو جنگ کے ایسے اصول اور ضابطے دئیے کہ تباہی و بربادی کی یہ سب سے بری اور بڑی لعنت بھی انسانیت کی خدمت کا ذریعہ بن گئی یعنی جتنے اسباب کے تحت دنیا میں جنگ ہوا کرتی تھی اسلام نے مسلمانوں کو ان سب سے روک کر صرف دوایسی منصفانہ وجہوں کے تحت جنگ کی اجازت دی کہ اگر دنیا کی دوسری قومیں بھی طے کر لیں کہ صرف ان ہی دو وجہوں کی بنا پر جنگ کریں گی تو سرے سے جنگ ہی نہ ہو گی۔ اسلام کے نزدیک جنگ کی ایک وجہ یہ ہے کہ کوئی ملک یا قوم ان پر حملہ کر دے اور مسلمانوں کو اپنے بچاؤ کے لئے جنگ پر مجبور ہونا پڑے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ کی راہ سے روکا جائے یعنی مسلمانوں کو اسلام پر عمل نہ کرنے دیا جائے ان کے مبلغین کو اسلام کی تبلیغ سے روک دیا جائے اور جو لوگ مسلمان ہونا چاہیں یامسلمان ہو جائیں انھیں قتل و قید کر کے یا مار پیٹ کر اسلام سے دور رکھنے یاغیرمسلم بنانے کی کوشش کی جائے۔ ان دو وجہوں یعنی مسلمانوں پر حملہ یا اللہ کی راہ سے روکنے کے علاوہ اور کسی وجہ سے اسلام لڑائی کی اجازت نہیں دیتا پھر ان دو صورتوں میں بھی اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ پہلے دوسرے فریق سے گفت و شنید کے ذریعہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جائے اور ہتھیار کا سہارا صرف اس وقت لیا جائے جب کوئی چارۂ کار اس کے سوانہ رہ جائے پھر اگر جنگ چھڑ جائے تو دوران جنگ اور بعد از جنگ مسلمانوں کو ایسے ضابطوں کا پابند بنایا گیا ہے کہ جنگ کے معاملے میں اس سے بہتر ضابطہ کا تصور نہیں کیا جا سکتا یعنی مسلمانوں کو صرف لڑنے والوں سے لڑنے اور انھیں کو مارنے کی اجازت ہے۔ عورتوں، بچوں، بوڑھوں، سادھوؤں، راہبوں اور غیر متعلق لوگوں پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں، مویشیوں، کھیتیوں، مکانات اور باغات وغیرہ کو جلانے، اجاڑنے اور تاخت و تاراج کرنے کی بھی قطعی ممانعت ہے۔ قیدیوں میں سے صرف ان لوگوں کو سزائے موت دیے جانے کا ثبوت ہے جو صرف سپاہی نہ تھے بلکہ فساد کی جڑ اور جنگی مجرم تھے۔

پھر ان ساری پابندیوں اور احتیاط کے ساتھ بھی جنگ کی اجازت صرف اسی وقت تک کیلئے ہے جب تک کہ دوسرافریق صلح کی طرف نہیں جھکتا اور جنگ ہی پر اڑا ہوا ہے ورنہ جوں ہی دوسرا فریق صلح پر آمادہ ہو اسلام جنگ بند کر دینے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے :

وان جنحوا للسم فاجنح لھا وتوکل علی اللہ ۔ (التوبہ: ۶۱)

اگر وہ (یعنی مخالفین) صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی صلح کیلئے جھک جاؤ اور اللہ پربھروسہ کرو۔

اس حکم کا نتیجہ یہ ہے مسلمانوں نے پوری طرح چنگل میں آئے ہوئے دشمنوں بلکہ غداروں تک کی بھی درخواست صلح فوراً منظور کر لی۔ اور ہمیشہ نہایت فیاضی، رعایت اور کشادہ دلی سے کام لیا ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے تعلق سے صلح حدیبیہ کا واقعہ اور ہندوستان کے تعلق سے جے پال و آنند پال کے لئے سبکتگین اور محمود غزنوی کی معافیاں اور رعایتیں اس کی واضح مثال ہیں۔

اسلامی قوانینِ جنگ کے متعلق ان مختصر اشارات سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ اسلام کے نزدیک جنگ کا معاملہ مذہب کے پھیلاؤ یا جارحیت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ خالصۃً بین الاقوامی امن و امان اور مذہبی خودمختاری و آزادیِ فکر کے قیام سے تعلق رکھتا ہے۔ واقعات کی حتمی شہادت بھی یہی ہے، اسلام سے پہلے کا عرب لڑائیوں اور قتل و غارت کے لئے بہت مشہور ہے۔ میں اس سلسلے کا ایک واقعہ پیش کر رہا ہوں۔ اسلام کی آمد سے کچھ پہلے دو چچا زاد قبیلوں بکر اور تغلب کے درمیان صرف اتنی سی بات پر جنگ چھڑ گئی کہ ایک قبیلہ کے ایک آدمی کا اونٹ دوسرے قبیلے کے ایک آدمی کی چراگاہ میں چلا گیا تھا، پھر اس جنگ نے اس قدر طول پکڑا کہ رہ رہ کر چالیس برس تک جنگ ہوتی رہی اور مجموعی طور پر فریقین کے کوئی ستر ہزار آدمی یعنی اوسطا ہر قبیلے کے ۳۵/ ہزار آدمی مارے گئے لیکن پھر بھی کوئی قبیلہ دوسرے کے سامنے جھکنے اور اس سے صلح کرنے پر آمادہ نہ ہوا حالانکہ دونوں اصلاً ایک ہی قبیلے کی دو شاخ تھے۔

اب آپ ایک طرف عربوں کی یہ اکڑ اور ان کا یہ جنگجویانہ مزاج کو رکھئے اور دوسری طرف اسلامی جنگوں اور اسلام کے پھیلاؤ کو دیکھئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں جنگ کے جتنے واقعات پیش آئے ان سب میں مسلمان اور ان کے مخالفین دونوں کو ملا کر مجموعی طور پر جو لوگ قتل کئے گئے ا نکی تعداد صرف ۱۔ ۱۸/ہے، ۲۵۹ مسلمان، ۵۹ ۷غیر مسلم( غیر مسلم مقتولین کی تعداد غالباً اس لئے زیادہ تھی کہ وہ زیادہ تعداد میں شریک جنگ ہوتے تھے، چنانچہ جنگ بدر میں ۳۱۳ /مسلمان تھے اور ایک ہزار غیرمسلم، جنگ احد میں ۷۔ ۔ /مسلم، ۲۔ ۔ ۔ / غیر مسلم۔ ۔ جنگ خندق میں تین ہزار مسلمان، دس ہزار غیرمسلم۔ ۔ جنگ موتہ میں تین ہزار مسلمان، دو لاکھ غیرمسلم۔ جنگ ہوازن میں بارہ ہزار مسلمان اور چالیس ہزار غیر مسلم تھے۔ )لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے دور میں پورے عرب کے اندر اسلام پھیل گیا یعنی شمال مغرب اور شمال مشرق میں شام و عراق کی سرحدوں سے لے کر بحر ہند خلیج اور بحر قلزم کے سواحل تک ہر جگہ اسلام پھیل گیا اور اس پورے علاقے پر اسلامی حکومت قائم ہو گئی۔ سوال یہ ہے کہ جس عرب کے صرف دو قبیلے اپنے ۳۵، ۳۵ / ہزار جان گنوا کر بھی اپنے مخالف کے سامنے سرجھکانے پر تیار نہ ہو سکے کیا اس پورے عرب کے سیکڑوں قبائل کے بارے میں یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ مجموعی طور پر ان سب کے صرف ۷۵۹/آدمیوں کو قتل کر کے انھیں ان کی مرضی کے خلاف ایک دوسرا دین و مذہب اختیار کرنے پر مجبور کر دیا گیا، ہرگز نہیں، اس لئے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسلام اپنے پھیلاؤ کی بنیاد اپنے سادہ اور سچے اصولوں، خداپرستی کی بہترین تعلیمات اور ہر طرح کے سماجی و معاشی اور معاشرتی عدل و انصاف اور اپنے مبلغین کی سچی تبلیغی خدمات پر رکھتا ہے مگر اس مقصد کے لئے طاقت کا استعمال نہیں کرتا، بلکہ طاقت کا استعمال صرف اس وقت کرتا ہے جب کسی کی جارحیت ختم کرنی ہو۔ یا مذہب کے بارے میں لوگوں کی خود مختاری کے اندر کسی طاقت کی مداخلت بند کرانی ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی شخص جو حق و انصاف کا مطلب جانتا ہے وہ اسے نہ تو ظلم کہہ سکتا ہے نہ ہنسا(تشدد) بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تشدد کی اس خوفناک صورت یعنی جنگ کو کم سے کم کرنا ہو یا مٹانا ہو تو یہ کام ان اصولوں کاسہارالئے بغیر ممکن نہیں، جنھیں اسلام نے اب سے چودہ سو برس پہلے طے کر کے جنگ کی بھٹی میں سلگتی ہوئی دنیا کو امن و امان کا گہوارہ بنا دیا تھا۔

٭٭

اسلام اور اہنسا کے تعلق سے یہ چند گزارشات ہیں جنھیں وقت مقررہ کا لحاظ کرتے ہوئے میں اختصار سے پیش کیا تھا۔ اس کے بعد چائے نوشی کے لئے مجلس برخاست ہو گئی، پھر چند منٹ بعد سوال و جواب کے لئے دوبارہ مجلس منعقد ہوئی۔ سوال و جواب کی تفصیلات ان شاء اللہ اگلی قسط میں پیش کی جائے گی۔

 

اسلام اور عدم تشدد۔۔ سوال و جواب

 

گاندھی انسٹی ٹیوٹ بنارس میں مذکورہ موضوع پر جو تقریر کی گئی تھی پچھلی تین قسطوں میں وہ پوری تقریر بعض اضافی توضیحات سمیت پیش کی جاچکی ہے، تقریر کے خاتمے پر چائے نوشی کی خاطر چند منٹ کے لئے مجلس برخاست ہوئی اور پھر دوبارہ منعقد ہو گئی تو سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا کاشی ودیاپیٹھ(کاشی یونیورسٹی) کے وائس چانسلر جناب راجہ رام شاستری صدر مجلس تھے۔ سب سے پہلے انھیں نے سوال کیا۔ ان کاسوال یہ تھا۔

سوال:… آپ کی تقریر سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کسی پر ظلم و تشدد ہویا اسے قتل کر دیا جائے تو اسلام اس کو یا اس کے اولیاء کو پورا پورا بدلہ دلانے کا ذمہ دار ہے۔ البتہ اگر وہ خود چاہیں تو اپنی آزاد مرضی سے مجرم کو معاف کر سکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے مجرم کو معاف کر دینا بہتر ہے یا بدلہ لینا بہتر ہے یا دونوں برابر ہے ؟ اور اسی ضمن میں دوسرا سوال یہ ہے کہ جو شخص بدلہ لیتا ہے اور جو شخص معاف کر دیتا ہے وہ دونوں برابر ہیں یاکسی کا درجہ دوسرے سے بلند ہے ؟ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔

جواب:…مجرم کو معاف کر دینا بہتر ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے : وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ ولئن صبرتم لھو خیر للصٰبرین۔ (سورہ نحل: ۱۲۶) اگر تم بدلہ لو توویساہی بدلہ لو جیساتشدد تم پر کیا گیا ہے اور اگر تم صبر کر لو تو یقیناً یہ صبر کرنے والوں کیلئے بہتر ہے۔ البتہ اس موقع پر حکومت اور سماج کو یہ لحاظ رکھنا ہو گا کہ معافی کے نتیجے میں مجرم کے اندر جرم اور ظلم کی جرأت وجسارت اور نہ بڑھ جائے۔ اگر اس کا اندیشہ اور ایسی علامات پائی جائیں تو اگر چہ مجرم سے انتقام نہیں لیا جائے گا لیکن کوئی ایسی سزا(مثلاً قید) دی جائے گی یاکسی ایسی پابندی کا انتظام کیا جائے گا کہ دوبارہ جرم کا امکان کم سے کم رہ جائے۔

دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ معاف کر دینے والے کا درجہ بدلہ لینے والے سے بہتر ہے۔ یہ دنیا میں بھی ا س کے معزز اور شریف النفس ہونے کی علامت ہے اور آخرت میں بھی بلندیِ درجات کا ذریعہ ہے۔

صدر مجلس کے ان دوسوالوں کے بعد مجلس کے ایک مسلمان ممبر نے سوال پیش کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ انھوں نے تاریخ کی بھول بھلیوں سے نکل کر معروضی اندازسے گفتگو کی بات کئی بار دہرائی اور اسلام کے ابتدائی دور کے بعض حادثات کی طرف بھی اشارے کئے مگر انھوں نے کوئی متعین سوال نہیں کیا، اس لئے میں نے ان سے عرض کیا کہ وہ اپنے سوالات یا اعتراضات متعین فرما دیں تومیں ان کا جواب دوں مگر اتنے میں ایک تیسرے صاحب نے جن کا اسم گرامی متل تھا اپنے سوالات پیش کر دئیے۔ یہ سوالات جہاں تک اندازہ ہوا۔ مسلمان ممبر کی پیش کی ہوئی باتوں پر مبنی تھے۔ البتہ اس میں متل صاحب کے اپنے تبصرے بھی شامل تھے ا س لئے اب انھیں کے سوالات پیش کئے جا رہے ہیں۔

متل صاحب کا ارشاد تھا کہ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ عرب ابتدا ہی سے خونخوار تھے، اور اسلام اپنی تعلیمات کے ذریعہ ان کی اس فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکا۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں جو جنگیں ہوئیں ان میں تو خیر ان کا مقابلہ دوسرے مذاہب کے لوگوں سے تھا لیکن ان کے بعد جب پورا عرب مسلمان تھا تب بھی ان میں باہم لڑائیاں ہوتی رہیں۔ دوسرے اور تیسرے خلیفہ کو شہید کیا گیا۔ حضرت علی اور معاویہ میں جنگ رہی اور خود پیغمبر صاحب کے نواسے حضرت حسین کو کربلا میں قتل کر دیا گیا۔

جواب:… اسلامی دور میں جو کچھ پیش آیا وہ عربوں کی خونخواری نہیں بلکہ فطری، سادگی، انسانیت نوازی اور اصول پسندی کی دلیل ہے۔ دوسرے خلیفہ کسی مسلمان یا عرب کے ہاتھ سے نہیں بلکہ ایک غیر مسلم ایرانی کے ہاتھ سے مارے گئے تھے اگر ان میں فطری سادگی کے بجائے بادشاہوں جیسی ٹیپ ٹاپ ہوتی اور باڈی گارڈ کا انتظام و اہتمام ہوتا تو شاید اس کی نوبت ہی نہ آتی، پھر یہ واقعہ انفرادی اور شخصی تھا اس میں زیادہ سے زیادہ جو شبہ کیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ اس میں مدینہ کے اندر موجود ایرانیوں کی پس پردہ سازش رہی ہو۔ مگر بہرحال یہ خونخواری کسی مسلمان نے نہیں بلکہ غیر مسلم نے کی تھی۔

تیسرے خلیفہ کی شہادت کا بھی کئی پہلو قابل غور ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ واقعے کی اصل صورت آپ کے سامنے رکھ دوں، ایران میں اسلام کی آمد سے پہلے زمیندارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے ظلم و جبر کا یہ حال تھا کہ کسان اور کاشتکار تو نان شبینہ کو ترستے تھے مگر معمولی معمولی زمیندار لاکھوں روپئے کے ہیرے جواہرات کا تاج پہنے بغیر گھرسے باہر نہ نکلتے تھے۔ اس لوٹ کھسوٹ کی فضا میں جب اسلامی فوجوں نے ایران فتح کیا تواسلامی تعلیمات کی سادگی، انصاف، مساوات اور مسلمانوں کا شریفانہ برتاؤ دیکھ کر ایرانی عوام فوج در فوج مسلمان ہو گئے۔ اس لہر کو دیکھ کر زمینداروں اور جاگیرداروں نے محسوس کیا کہ اگر ہم حلقہ بگوش اسلام نہ ہوئے تو ہماری آبرو عوام تو درکنار شاید غلاموں کے برابر بھی نہ رہ جائے گی۔ کیونکہ ایرانی عوام ہمارے قبضے سے آزاد ہو کر اور انصاف کے سائے میں آ کر ہم سے سخت نفرت کریں گے۔ لہٰذا انھوں نے بھی بظاہر اسلام قبول کر لیا۔ مگر ان بڑے لوگوں کی ایک خاصی تعداد ایسی تھی جواسلام کو اپنے لئے باعث رسوائی سمجھ رہی تھی اور دو بدو جنگ میں ناکام ہونے کے سبب کوئی پس پردہ تحریک چلانے اور اسلامی نظام کو پلٹ دینے کی تدبیر سوچ رہی تھی۔ اور یہی انداز فکر یہودیوں کا بھی تھا ان دونوں گروہ کے چالباز لوگوں نے مل کر مجرموں اور حکومت کے سزا یافتہ بدمعاشوں کو اندر ہی اندر تیار کرنا شروع کیا۔ پھر خاندان رسالت کی محبت کا لبادہ اوڑھ کر سادہ لوح مسلمانوں کو اپنے دام میں پھانسا، اس کے بعد خلیفۃ المسلمین کے خلاف جھوٹے اور غلط الزامات کی تشہیر شروع کی، جس سے بہت سے اچھے دیندار و تقوی شعار اور سوجھ بوجھ رکھنے والے مسلمان بھی متاثر ہو گئے۔ ان سب نے دارالحکومت مدینہ کی طرف احتجاجی مارچ کیا اور خلیفۃ المسلمین کے خلاف اپنے الزامات کی فہرست پیش کی۔ خلیفہ نے ان الزامات کا جواب دیا تو معلوم ہوا کہ ان کی کوئی اصل نہیں، اس کے بعد سارے مجمع نے مطمئن ہو کر واپسی کی راہ لی، مگر سازشیوں نے کچھ دور جا کر اپنے خاص خاص آدمیوں کے قتل کے حکم کی جھوٹی دستاویز پیش کر کے مجمع کو پھر بھڑکا دیا اور اس نے واپس آ کر خلیفہ کا مکان گھیر لیا۔ گفتگو کے بعد ایک بار پھر واضح ہو گیا کہ الزام جھوٹا اور بناوٹی ہے لیکن سازشیوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر خلیفۃ المسلمین کو شہید کر دیا۔

اس مختصر توضیح سے سمجھاجا سکتا ہے کہ تیسرے خلیفہ کی شہادت بھی عربوں یا مسلمانوں کی خونخواری کی علامت نہیں، کیونکہ یہ یہودیوں اور ایرانیوں کی سازش کا نتیجہ تھی، دور جاہلیت میں عرب جس طرح کے خونخوار تھے اگر اسلام کے بعد بھی ان کی وہی کیفیت رہی ہوتی تو مدینہ میں سرے سے کوئی شخص ایسی نیت سے قدم رکھنے کی جرأت ہی نہ کر سکتا تھا، اور خدانخواستہ وہاں پہونچ جاتا تو اتنا بڑا جرم کرنے کے بعد زندہ بچ کر جا نہ سکتا تھا۔ لیکن اس کے برعکس اتنا کچھ ہو جانے کے باوجود مدینہ کی فوج حرکت میں نہیں آئی کیونکہ جب تک تیسرے خلیفہ زندہ تھے انھوں نے کارروائی کی اجازت نہ دی تھی۔ اور جب شہید کر دئیے گئے تو نئے خلیفہ کے بر سراقتدار آنے اور ان کا فیصلہ صادر ہونے کی منتظر رہی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عربوں نے اسلام لانے کے بعد دور جاہلیت کے جذبۂ خونخواری کو ایک دم اتار پھینکا تھا(اب اندرا گاندھی کے قتل پر ہندوستان میں بھڑکنے والے ہنگامہ سے اس کا موازنہ کیا جا سکتا ہے )۔

پھر حضرت علیؓ اور ان کے مخالفین کا جھگڑا بھی اسی بنیاد پر تھا۔ تیسرے خلیفہ کے قاتل ان کے لشکر میں شامل تھے۔ مخالفین کا مطالبہ تھا کہ ان سے قصاص لیں اور حضرت علیؓ کا خیال تھا کہ ابھی حالات سازگار نہیں ہیں اس پر مخالفین نے ان کی حکومت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور حضرت علیؓ نے انھیں باغی قرار دے کر فوج کشی کا فیصلہ کر لیا اس فیصلے میں اور اس کے بعد ہونے والی جنگ میں بھی سازشیوں کا پورا پورا ہاتھ تھا۔

اس توضیح سے بھی سمجھاجا سکتا ہے کہ یہ خونخواری یالوٹ کھسوٹ کی جنگ نہ تھی بلکہ اصولوں اور آدرشوں کی جنگ تھی پھر اس جنگ کی بھی کیفیت یہ تھی کہ نہ کسی فریق نے دوسرے کا ساز وسامان لوٹا نہ کسی زخمی پر تلوار اٹھائی، نہ کسی واپس جانے والے کا پیچھا کیا۔ بلکہ حالت یہ تھی کہ اگر دونوں فریق کے بیچ میں عین لڑائی کے دوران کوئی غیر متعلق یا نہتا آدمی کھڑا ہوا تو اس پر کسی بھی فریق نے ہاتھ نہ اٹھایا۔

اب آپ ایک طرف دور جاہلیت کا نقشہ ملاحظہ فرمائیے کہ انھوں نے مذہبی طور پر چار مہینے حرام کے مانے تھے (جسے اسلام نے بھی برقرار رکھا) ان مہینوں میں وہ ادھر ادھر آمدورفت اور تجارت وغیرہ کر کے اپنی سال بھرکی ضروریات جمع کر لیتے تھے، باقی آٹھ مہینے کیفیت یہ رہتی تھی کہ ہر قبیلے کا ایک علاقہ ہوتا تھا وہ اپنی آبادی کے اس علاقے سے باہر نہیں نکل سکتے تھے باہر قدم رکھتے ہی دوسرے قبیلے کے لوگ اسے لوٹ لیتے اور قتل کر ڈالتے بلکہ اپنی آبادی کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی کوئی قبیلہ محفوظ نہ رہتا تھا۔ دوسرا قبیلہ جوں ہی یہ محسو س کرتا کہ ہم اسے ہرا سکتے ہیں اس پر حملہ کر دیتا اور عورتوں، بچوں اور بوڑھوں، جوانوں میں تمیز کئے بغیر جس کو پاتا قتل کر ڈالتا اور جو کچھ پاتا لوٹ لیتا۔

ایک طرف جاہلیت کی یہ لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت دیکھئے اور دوسری طرف اسلامی جنگوں کا حال دیکھئے کہ وہاں میدان جنگ سے باہر جنگ کا کوئی اثر نہیں۔ ایک عورت تن تنہا اونٹ پر بیٹھ کر عراق سے مکہ آتی اور جاتی مگر اس پر کوئی چوں کرنے والا نہ تھا۔ پوری دنیائے اسلام میں کہیں کسی کو جان یا مال کا خطرہ نہ تھا اور خود میدان جنگ میں بھی صرف فوجیں ایک دوسرے سے لڑ رہی تھیں۔ غیر متعلق آدمی اگر دونوں فوجوں کے بیچ سے گزر جائے تو بھی اسے کوئی کچھ کہنے والا نہ تھا۔ آپ سوچئے کہ اسلامی دور کی ان لڑائیوں کو جاہلی دور کی لوٹ کھسوٹ سے کیا تعلق؟یہ خالص اصولوں کی جنگ تھی اور وہ خالص غارت گری۔

۱۳۹۹ھ / ۱۹۷۹ء کے حج کے بعد محرم ۱۴۰۰ ھ میں سعودی حکومت سے بغاوت کر کے جن لوگوں نے خانۂ کعبہ پر قبضہ کیا تھا، ان کے ساتھ ہونے والی جنگ کا بھی ٹھیک یہی نقشہ تھا۔ باغیوں اور سعودی فوج کے مورچوں کے درمیان جو میدان تھا اس میں غیر فوجی لوگوں کی آمدورفت جاری تھی۔ عام لوگ اس میدان سے گزر کر مسجد حرام کی باہری دیوار میں لگی ہوئی بڑی بڑی جالیوں کے راستے مسجد حرام میں گھس جاتے تھے اور اپنے آدمیوں کو ڈھونڈ کر اسی راستے سے واپس بھی آ جاتے تھے، مگر ان پر نہ سعودی فوج گولی چلاتی تھی نہ باغی، کئی افراد اس وقت بھی آئے گئے جب باغی مسلسل گولیاں چلا رہے تھے۔ مگر انہوں نے کسی بے وردی انسان کو نشانہ نہیں بنایا( یہ ٹکڑا اسلامی جنگ کی نوعیت سمجھنے کے لئے بعد میں بڑھا دیا گیا)۔

حضرت حسینؓ کی شہادت بھی اسی طرح کے سیاسی طالع آزماؤں کی سازش کا نتیجہ ہے جنھوں نے محض مکر و فریب کے لئے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اور چالباز اتنے تھے کہ خود حضرت حسینؓ کو شہید کر کے یزید کو بدنام کر دیاجس سے عام مسلمان آج تک متاثر ہیں ان حقائق پر نظر رکھنے کے بعد یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ مسلمان حکمراں پس پردہ سازشوں کو بروقت پکڑ نہ سکے جن سے بہت سے خطرناک حادثوں نے جنم لیا، مگر اس کا دوش اسلام کو نہیں دیا جا سکتا۔ نہ ان خونریزیوں کو اسلامی تعلیم کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے۔ ہاں ان اندوہناک واقعات کے دوران انسانیت و شرافت جو کچھ پائی گئی وہ البتہ اسلامی تعلیم کا نتیجہ تھی۔

٭٭

میری ان گزارشات کا تعلق متل صاحب کے اصل سوال اور گفتگو کے مرکزی نقطے سے تھا۔ متل صاحب نے ضمناً اور بھی کئی باتیں ایسی کہی تھیں جو غلط فہمی پر مبنی تھیں، میرا ارادہ تھا کہ اس اصل سوال کا جواب مکمل ہو چکنے کے بعد باقی ضمنی باتوں کے متعلق بھی اصل حقائق پیش کروں گا مگر چونکہ وقت ختم ہو چلا تھا اس لئے جناب راجہ رام شاستری صاحب نے آخری کلمات کہے۔ انھوں نے بہت صفائی کے ساتھ کہا کہ اب تک ہمیں صرف ایک بات بتائی جاتی تھی اور ہمارے سامنے تصویر کا ایک رخ آتا تھا اور ظاہر ہے کہ جب ایک ہی بات بتائی جائے تودوسری بات ذہن میں آئے گی کیسے ؟ مگر آج مولانا نے تصویر کا دوسرا رخ پیش کر دیا ہے اور بڑی صفائی اور وضاحت سے پیش کر دیا ہے اس لئے اس پہلو پر واقعۃً غور کرنے کی ضرورت ہے۔

٭٭٭

تشکر: ساجد اسید ندوی جنہوں نے کتاب کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

؂اسلام اور عدم تشدد