فہرست مضامین
پارکنگ ایریا
(افسانوں کا مجموعہ)
حصہ اول
غضنفر
کہانی کی کہانی
میں پھر دہراتا ہوں
کہ کہانی صرف کہانی نہیں ہوتی
یہ سوز بھی ہوتی ہے
اور ساز بھی
راز بھی ہوتی ہے
اور ہم راز بھی
آواز بھی ہوتی ہے
اور دم ساز بھی
رمز بھی ہوتی ہے
اور غمّاز بھی
نبض بھی
نبّاض بھی
اور بے نیاز بھی
کہانی سکوتِ جاں کاہ بھی ہوتی ہے
اور صدائے سحرساز و دل نواز بھی
کہانی وہ بھی کہتی ہے
جو کہا نہیں گیا
وہ بھی سناتی ہے
جو سنا نہیں گیا
وہ بھی دکھاتی ہے
جو دیکھا نہیں گیا
آج کہانی کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ نیچے سے اوپر تک
ہمارے کانوں میں ایک ایسا میل جم گیا ہے
جسے صرف کہانی توڑ سکتی ہے
وہی منجمد سماعت میں راستہ بناسکتی ہے
_______
سرسوتی اسنان
بھائی صاحب ! الہ آباد تک آیا ہوں تو سو چتا ہوں کہ سنگم بھی ہو آؤں۔
’’سنگم جاؤ گے ؟ ‘‘ رگھو رائے سنگھ اے۔ جے۔ آر کو گھور نے لگے۔
’’میں کسی آستھا یا پونیہ کی وجہ سے نہیں جانا چاہتا ہوں۔ ‘‘
’’تو پھر؟‘‘
بھائی صاحب ! سنگم ایک تیرتھ استھان ہی نہیں، وہ اور بھی بہت کچھ ہے۔ ‘‘
’’جیسے ؟‘‘
’’جیسے وہ ایک متھ ہے۔ ایک مسٹری ہے۔ وہاں کے واتاورن میں رہسیہ ہے۔ سسپینس ہے۔ تھرل ہے۔ ‘‘
’’تو یہ بات ہے ! میں بھی تو سوچوں کہ مسٹر اے۔ جے۔ آر، شری اجے جسونت رائے کب سے ہو گئے ؟کب جانا چاہتے ہو؟‘‘
’’جب آپ انتظام کر دیں۔ ‘‘
ابھی چلے جاؤ!اس وقت گاڑی خالی ہے۔ میں ڈرائیور کو بول دیتا ہوں۔ ‘‘
’’شکریہ‘‘
’’اس میں شکریہ کی کون سی بات ہے بھائی؟ تم میرے بھائی ہو۔ اس وقت مہمان بھی ہو۔ تمھاری خاطر کرنا تو ہمارا فرض بنتا ہے۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے تو میں اپنا شکریہ واپس لیتا ہوں۔ ‘‘
’’بالکل لو، اور ہاں سنو! جاتے وقت ایک جوڑا نہانے کا کپڑا بھی رکھ لینا۔ وہاں جانے کے بعد اگر تمھاری انتر آتما نے جوش مارا تو دِقّت نہیں ہو گی۔ ‘‘
’’اس کی نوبت نہیں آئے گی۔ پھر بھی رکھ لوں گا۔ بڑے بھائی کا حکم جو ٹھہرا اور وہ بھی آپ جیسے بھائی کا۔ ۔ ۔ ‘‘ ٹھیک، ٹھیک ہے۔ بہت ہو گیا۔ کچھ اور چاہیے تو بول دینا۔ سنکوچ مت کرنا۔ ‘‘
’’جی، ضرور۔ ‘‘
راگھو رائے کی جیپ ان کے مہمان اے۔ جے۔ آر کولے کر سنگم کی طرف روانہ ہو گئی۔ جیپ سے اتر کر سنگم کے کنارے پہنچتے ہی ملّاحوں کی ایک ٹولی۔ اے۔ جے۔ آر کے پاس آ دھمکی۔
’’ایک سواری کے پچاس، پوری ناؤ کے پانچ سو۔ ‘‘
’’پوری ناؤ کے ساڑھے چارسو۔ ‘‘
’’کیول چارسو۔ ‘‘
ملّاح اپنی اپنی کشتی کے ریٹ بتانے لگے۔
’’تم نے نہیں بتایا؟‘‘اے۔ جے۔ آر نے اس سنجیدہ اور قدرے معمر شخص کو مخاطب کیا جو ابھی تک خاموش تھا۔
’’ایک ہزار۔ ‘‘ خاموشی ٹوٹی تو آواز اے۔ جے۔ آر کے کانوں میں گونج پڑی۔
’’ایک ہزار ! اتنا فرق! تمھاری ناؤ کیا سونے کی بنی ہوئی ہے ؟‘‘ ریٹ کی گونج نے اے۔ جے۔ آر کو حیرت میں ڈال دیا۔ ان کی نگاہیں ملّاح کی چہرے پر مرکوز ہو گئیں۔
’’بنی تو ہے لکڑی کی ہی صاحب ! اور دوسروں سے الگ بھی نہیں ہے پر میں الگ ہوں۔ ‘‘
’’مطلب؟‘‘ اے۔ جے۔ آر کی آنکھیں پھیل گئیں۔
’’مطلب یہ کہ میں کیول ملاح نہیں ہوں۔ ‘‘ ملّاح کا چہرہ اور سنجیدہ ہو گیا۔
’’ملّاح نہیں ہو تو اور کیا ہو بھائی؟‘‘ اے۔ جے۔ آر کی دلچسپی اس ملّاح میں بڑھنے لگی۔
’’میں کچھ اور بھی ہوں صاحب! آپ جب میری ناؤ میں بیٹھیں گے تو خود جان جائیں گے۔ ‘‘
ملاح کا یہ اعتماد اے۔ جے۔ آر کو لہجے کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے کے ہا ؤ بھاؤ سے بھی محسوس ہوا۔
کم ریٹ والے ملّاح پُر امّید تھے کہ یہ نیا یاتری ان میں سے ہی کسی کی ناؤ پر سوار ہو گا مگر اے۔ جے۔ آر کی نگاہیں تو اس ملّاح کی جانب مر کوز ہو چکی تھیں جس کا ریٹ سب سے زیادہ تھا۔ وہ مہنگا ملّاح بی اے۔ جے۔ آر کو حیرت سے تک رہا تھا۔
’’لگتا ہے مجھے تمھاری ہی ناؤ میں بیٹھنا پڑے گا؟‘‘ اے۔ جے۔ آر نے اس مہنگے ملّاح کو مخاطب کیا۔
’’آپ کا انداز تو یہی بتا رہا ہے صاحب! ‘‘ ملّاح نے پُر اعتماد لہجے میں جواب دیا۔
’’تمھیں اپنے اوپر بڑا اعتماد ہے ؟
’’سنگم کے اس گھاٹ پر ہونے والی پو جاپاٹ، یہاں آنے والے طرح طرح کے یا تری،یاتریوں کے ہاؤ بھاؤ، اچار وچار، ان کے ویو ہار اور باپ دادا کی ٹریننگ نے اتنا کچھ سکھا دیا ہے صاحب کہ آدمی کو دیکھ کر ہی اس کے ارادے کا پتا چل جاتا ہے۔ ‘‘
’’تم واقعی الگ معلوم ہو رہے ہو، میرا ارادہ تمھاری ہی ناؤ پر بیٹھنے کا ہے مگر میں یہ ضرور جاننا چاہوں گا کہ تمھارا ریٹ اتنا ہائی کیوں ہے ؟‘‘
’’میں نے بتا یا نا صاحب کہ جب آپ میری ناؤ میں بیٹھیں گے تو آپ کو خود بخود پتا چل جائے گا۔ پھر بھی آپ چاہتے ہیں کہ سوار ہونے سے پہلے ہی بتا دوں تو میں ضرور بتاؤں گا پر نتواس سے پہلے ایک سوال میں بھی آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘
’’پوچھو۔ ‘‘
’’کیا آپ کہیں باہر سے آئے ہیں ؟ میرا مطلب ہے انڈیا کے باہر سے ؟‘‘
’’تم نے یہ سوال کیوں کیا ؟ کیا میں باہری لگتا ہوں ؟ ‘‘
’’لگتے تو نہیں ہیں پرنتو آپ رہتے باہر ضرور ہوں گے۔ ‘‘
’’تم نے کیسے جانا ؟‘‘
’’کوئی یہاں کا ہوتا، میرا مطلب ہے یہاں رہ رہا ہوتا تو میرا ریٹ سن کر میری اور دھیان نہیں دیتا بلکہ فوراً اپنا منہ دوسری طرف موڑ لیتا اور اگر دھیان دیتا بھی تو حیلہ حجّت اور بھاؤ تاؤ ضرور کرتا۔ ‘‘
’’تم سچ مچ دوسروں سے الگ ہو۔ چلو، کدھر ہے تمھاری ناؤ ؟ ‘‘
’’صاحب ! میرا ریٹ اتنا زیادہ کیوں ہے یہ نہیں جانیں گے ؟‘‘
’’نہیں، اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ کدھر چلنا ہے ؟ ‘‘
’’پھر بھی میں ایک بات تو بتا ہی دوں کہ میں کیول سنگم کا چھور چھوا کر ناؤ کو واپس گھاٹ پر نہیں لگا دیتا بلکہ میں اس وقت تک ناؤ کو پانی میں تیراتا رہتا ہوں جب تک یاتری تیرنا چاہتے ہیں چاہے شام ہی کیوں نہ ہو جائے۔ چلیے اس طرف ہے میری ناؤ‘‘۔ اس نے ناؤ کی طرف اشارہ کیا۔
اے۔ جے۔ آر اس کے پیچھے پیچھے کشتی تک پہنچ گئے۔ ان کے بیٹھتے ہی کشتی کی رسّی کھل گئی۔ ملّاح نے اپنا پتوار سنبھار لیا۔
’’صاحب ! اس سمے ہم جمنا میں ہیں۔ اس پانی کو دھیان سے دیکھیے۔ اس کا رنگ ہرا ہے۔ یہ رنگ پہلے اور بھی زیادہ ہرا تھا۔ اتنا ہرا کہ دور دور تک ہریالی بچھا دیتا تھا۔ دھرتی تو دھرتی، آدمیوں کے تن من میں بھی سبزا اُگا دیتا تھا۔ چہرے پر شادابی اور آنکھوں میں چمک بھر دیتا تھا۔ دھیرے دھیرے اس میں سیاہی گھلتی گئی اور اس کا ہرا پن ہلکا ہوتا گیا۔ اس کے ہرے پن کے بارے میں بہت سی کہانیاں کہی جاتی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جمنا جی کسی پہاڑ سے زمرّد کا پتھر بہا کر لاتی تھیں اور وہ زمرّد جمنا کے پانی کو ہرا بھرا رکھتا تھا۔ بعد میں زمرّد کا وہ پہاڑ کہیں غائب ہو گیا اور اس کے جو ٹکڑے جمنا جی کے گربھ میں پڑے تھے ان پر بھی گرد بیٹھ گئی۔ تھوڑے بہت ذرّے جو دھول اور گرد سے پچے رہ گئے ہیں،یہ ہرا پن انھیں کا اثر ہے۔ ہمارے تاؤ تو یہ کہتے ہیں کہ جس طرح یہ دھرتی گائے کے سینگ پر ٹکی ہے، اسیطرح جمنا جی بھی ایک بہت بڑے تو تے کے پروں پر کھڑی ہیں۔ یہ اسی توتے کے ہرے پروں کا کمال تھا کہ جمنا جی کا پانی پہلے کا فی ہرا دکھائی دیتا تھا اور اب جو ہرا پن کم ہوا ہے اس کا کا رن یہ ہے کہ پانی میں کچھ راکشس گھس آئے ہیں اور انھوں نے اُس توتے کے پروں کو نو چنا شروع کر دیا ہے۔ پھر بھی جمنا جی کا پانی اتنا میلا نہیں ہوا ہے جتنا کہ آگے آنے والی ندی کا ہوا ہے۔ ‘‘
’’ایسا کیوں ؟‘‘
’’اس لیے کہ جمنا میں آستھا کم ہے۔ ‘‘
’’مطلب؟‘‘
’’لوگ اس میں اسنان کم کرتے ہیں۔ ‘‘
’’گنگا ترا پانی امرت، گنگا کی سو گندھ، گنگا میّا تو ہے پیری چڑھیبو، رام تری گنگا میلی ہو گئی، چھورا گنگا کنارے والا۔ ۔ ۔ ۔
یکایک ہندی سنیماجگت سے جڑے کچھ نام اور بول اے۔ جے۔ آر کے کانوں میں گونج پڑے۔ ان کے ذہن میں ایک بھی ایسا نام نہیں ابھرا جس میں جمنا ہو۔ ملّاح کے جملے کا مفہوم ن کے سامنے کھلنا شروع ہو گیا۔
اچانک ان کے سروں پر پرندوں کا ایک غول منڈرانےا لگا۔
’’یہ اتنے سارے پرندے کہاں سے آ گئے ؟‘‘ اے۔ جے۔ آر نے ان پرندوں پر اپنی نگاہیں جماتے ہوئے ملّاح سے پوچھا،
’’صاحب ! یہ باہر سے آئے ہیں۔ ایسے اِن کے سیکڑوں جھنڈ ہیں جو رات دن ندی کے اوپر منڈراتے رہتے ہیں۔ جیسے ہی انھیں کوئی نئی ناؤ پانی میں اترتی ہوئی دکھائی دیتی ہے یہ اُدھر جھپٹ پڑتے ہیں ‘‘۔
’’یہ کتنے خوبصورت ہیں۔ ان کے کالے اور سفید پر کتنے آ کر شک لگ رہے ہیں اور ان کی یہ لمبی چوڑی گلابی چونچ، اس کا تو جواب ہی نہیں !واقعی بہت خوبصورت چونچ ہے ان کی ‘‘۔
’’صاحب! ہیں تو یہ سچ مچ بہت پیارے، پرنتو بے چارے بہت بھوکے ہیں۔ ذرا سا دانہ ان کی اور پھینکیے تو ٹوٹ پڑتے ہیں۔ یہ لیجیے پیکٹ اور اس میں سے دانہ پھینک کر دیکھیے کہ کیسے جھپٹتے ہیں۔ ‘‘
اے۔ جے۔ آر نے ملّاح کے ہاتھ سے پیکٹ لے کر اس میں سے ایک مٹھّی دانہ پانی میں دور تک بکھیر دیا۔
پرندوں کا غول بجلی کی سی سرعت کے سا تھ نیچے آ کر ان دانوں پر ٹوٹ پڑا۔ کچھ پرندے تو پانی کے اندر سے بھی دانوں کو اپنی چونچ میں پکڑ لائے۔
’’صاحب! اس بار دانوں کو ہوا میں اوپر اچھالیے۔ ‘‘
’’ایسا کیوں ؟‘‘
’’اچھا لیے تو سہی۔ ‘‘
’’اچھّا ! ‘‘اے۔ جے۔ آر نے اس بار دانے ہوا میں اچھال دیے۔
پرندوں نے ان دانوں کو ہوا میں ہی روک لیا۔ ایک دانے کو بھی نیچے نہیں گرنے دیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ پرندے کسی زوٗ یا سرکس سے آئے ہوں جہاں اس فن میں انھیں برسوں تربیت دی گئی ہوا اور انھوں نے خوب ریاضت بھی کی ہو۔
’’کیسا لگا صاحب؟‘‘
’’بہت اچھّا ! ‘‘ اے۔ جے۔ آر نے بڑے اسٹائل سے ایک مٹھی دانہ خلا میں پھر اچھال دیا۔
پرندوں کی قلا بازیاں پھر شروع ہو گئیں۔ دانوں کو پکڑنے کی کوشش میں پرندوں کے جسم اوپر نیچے ہونے لگے۔ ان کے پھڑ پھڑاتے ہوئے پر ایک دوسرے کے پروں سے ٹکرانے لگے۔ کچھ ایک پر ٹوٹ کر پانی پر آگرے۔ بعض پرندے پانی کے اندر پہنچے دانوں کو پکڑ نے کے لیے پانی میں ڈبکیاں لگانے لگے۔ اس عمل میں ان کے پر بھیگ کر ان کی پرواز میں رکاوٹ ڈالنے لگے۔
خلا میں اچھلے اور پانی میں گرے دانوں کے ختم ہوتے ہی اے۔ جے۔ آر نے کچھ اور دانے اچھال دیے۔ قلا بازیوں کار کا ہو اسلسلہ پھر سے جاری ہو گیا۔
’’دانوں پر جھپٹتے ہوئے انھیں دیکھ کر بڑا اطمینان ملتا ہے صاحب!‘‘
’’اطمینان کیوں ؟‘‘ اے۔ جے۔ آر نے ملّاح کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا
’’اس لیے کہ اس دھرتی پر کچھ ایسے بھی دیس ہیں جن کے بھوکے پرندے اپنا پیٹ بھرنے ہمارے یہاں آتے ہیں ! ‘‘ لفظ ہمارے یہاں، کو ملّاح نے قدرے زور دے کر ادا کیا۔
اے۔ جے۔ آر کا چہکتا ہوا چہرہ اچانک مرجھا گیا۔ پیکٹ میں دانوں کی طرف بڑھا ہوا ہاتھ ٹھٹھک کر باہر آ گیا۔
سامنے سے دریا غائب ہو گیا۔ آنکھوں میں صحرا آبسا۔ دور دور تک ریت بچھ گئی۔ ریت پر جگہ جگہ دانے بکھرنے لگے۔ دانوں کی طرف سانولی صورت اور سفید لباس والے کچھ لوگ دوڑنے لگے۔ گرم ریت انہیں جھلسا نے لگی۔ لو کی لپٹیں ا نہیں اپنی لپیٹ میں لینے لگی۔ دانوں کو پانے کے لیے وہ ریگستانی ریت کی اذیت بر داشت کرنے لگے۔ گرد بادی جھکڑ کھانے لگے۔ صحرائی تھپیڑوں کی مار جھیلنے لگے۔ ’الہندی‘ یکایک یہ لفظ اے۔ جے۔ آر کے کانوں میں گونج پڑا۔ صحرائی زمین کے دہانے سے تحقیری لب و لہجہ میں نکلے ہوئے اس لفظ کا جو معنی اے۔ جے۔ آر کے ذہن میں اُبھرا، اس نے ان کی آنکھوں میں ایک چوپایا اُبھار دیا۔ اُن کا چہرہ نفرت، غصّہ اور بیچارگی کی ملی جلی کیفیت سے بھر گیا۔
آہستہ آہستہ صحرا کھسک گیا۔ اس کی جگہ بر فیلی وادیاں آ گئیں۔ ان وادیوں میں بھی جگہ جگہ دانے بکھیر دیے گئے۔
یہاں بھی سانولی صورت اور سفید لباس والے کچھ لوگ دانوں پر جھپٹتے ہوئے نظر آنے لگے۔ بھوک مٹانے کے لیے یخ بستہ زمین پر دوڑ نے اور پھسل پھسل کر گرنے لگے۔ جھاڑیوں کی اوٹ میں چھپی بندوقوں کی کچھ نالیں بھی دکھائی دینے لگیں جیسے دانوں پر جھپٹنے والے بھوکے پیاسے انسان نہیں بلکہ کوئی ضر ر رساں اور خوفناک جانور ہوں۔ اے۔ جے۔ آر کو ایک واقعہ یاد آنے لگا:
ایک دن انھوں نے اپنے پڑوسی توقیر علی کو راستے میں روک کر پوچھا تھا،
توقیر علی ! تم واپس کیوں آگے، تمھارے ابّا بہت پریشان ہیں۔ کہہ رہے تھے کہ اتناسارا خرچ کر کے توقیر کو بھیجا تھا اور وہ کچھ مہینوں میں ہی واپس آ گیا۔ پوچھنے پر بتا تا ہے کہ اس کا جی نہیں لگا۔ بھلا اس لیے بھی کوئی نوکری چھوڑ کر واپس آتا ہے، وہ بھی ایسے حالات میں جب اپنی زمین تنگ ہو چکی ہو۔ ‘‘
’’بھائی صاحب ! ابّا کو یہ بات کس طرح سمجھاؤں کہ اپنی زمین تو بعض و جو ہات کی بنا پر صرف تنگ ہوئی ہے، ہمیں اپنا دشمن تو نہیں سمجھتی اور ہر وقت بندوق لے کر ہمارے پیچھے تو نہیں پڑی رہتی، وہاں تو ہمیں دشمن سمجھا جاتا تھا اور سوتے، جاگتے، کھاتے پیتے، اٹھتے بیٹھتے، ہر وقت ہم پر نظر رکھی جاتی تھی۔ جیسے ہم قیدی ہوں۔ ابّا کو اس بات کا یقین نہیں آتا۔ وہ تو سمجھتے ہیں کہ وہاں کام کرنے والے عیش کی زندگی گزارتے ہیں۔ مجھے احساس ہے کہ مجھے وہاں بھیجنے اور وہاں سے چلے آنے میں ابّا کا بہت برا نقصان ہوا ہے اور یہ نقصان صرف پیسوں کا نہیں بلکہ ان کے خوابوں اور خیالوں کا بھی ہوا ہے مگر میں وہاں رکتا تو شاید ابّا کا اس سے کہیں زیادہ نقصان ہو جاتا اور وہ نقصان ایسا ہوتا جس کی تلافی کبھی نہیں ہو سکتی تھی۔ میں سچ کہہ رہا ہوں بھائی صاحب !
توقیر علی کی آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔
’’کہاں کھو گئے صاحب؟‘‘ ملّاح نے اے۔ جے۔ آر کو مخاطب کیا۔
’’اے۔ جے۔ آر خاموش رہے۔
’’ صاحب! کیا بات ہے ؟ آپ ایک دم سے خاموش کیوں ہو گئے ؟‘‘
’’نہیں تو، ایسی تو کوئی بات نہیں ہے ‘‘ اے۔ جے۔ آر نے خود کو چھپانے کی کوشش کی۔
’’دانہ ختم ہو گیا ہو تو ایک پیکٹ اور دے دوں صاحب؟‘‘
’’نہیں، ابھی ہے۔ ‘‘
’’تو ہاتھ کیوں روک دیا۔ ڈالیے نا۔ ‘‘
’’من نہیں کر رہا ہے۔ ‘‘
’’صاحب !ایک بات پوچھوں ؟‘‘
’’پوچھو۔ ‘‘ اے۔ جے۔ آر کی آواز دھیمی ہو گئی۔ ‘‘
’’پرندوں کو دانہ ڈالتے سمے ان کا ہماری طرف آنا اور ان کا دانوں کی اور جھپٹنا آپ کو کیا اچھّا نہیں لگا تھا؟ سچ بتائیے گا۔ ‘‘
’’اچھّا لگا تھا۔ ‘‘
’’کیا آپ کے اندر یہ خواہش نہیں جاگی تھی کہ کچھ دیر تک اور دانہ ڈالا جائے اور اس منظر کا مزہ لیا جائے ؟‘‘
’’ہاں، یہ خواہش بھی جاگی تھی اور اگر میرے سامنے کچھ اور منظر نہیں آ گئے ہوتے تو تم سے دوسرا پیکٹ بھی مانگتا اور شاید اس کے بعد تیسرا بھی۔ ‘‘
’’صاحب! دو تین نہیں، لوگ درجنوں پیکٹ ڈالتے ہیں اور جب تک ناؤ پر سوار رہتے ہیں، ان کے ہاتھ نہیں رکتے۔ چلتے وقت لوگ تھیلا بھر بھر کر دانوں کا پیکٹ لاتے ہیں۔ ختم ہو جاتا ہے تو ملّاحوں سے خرید تے ہیں۔ ملّاح اس وقت ان سے دُگنا تگنا پیسہ وصول کرتے ہیں۔ کبھی کبھی مجھے بھی لالچ آتا ہے کہ میں بھی یاتریوں کے جوش کا فائدہ اٹھاؤں اور دانوں کے پیکٹ کا منہ مانگے دام وصول کروں پرنتو میری آتما گوارا نہیں کرتی۔ اس لیے واجبی منافع لیتا ہوں اور آپ سے تو پیسہ بھی نہیں مانگا۔ اور آپ نہیں دیں گے تو مجھے پچھتا وا بھی نہیں ہو گا۔ ‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’اس لیے کہ کسی کسی سے پیسہ لینے کو جی نہیں کرتا اور آپ بھی ایسے ہی لوگوں میں سے مجھے ایک لگے۔ ‘‘
’’شکریہ۔ ‘‘ اے۔ جے۔ آر کی نظریں ملّاح کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ ملّاح کے پسندیدہ لوگوں میں شامل تھے بلکہ اس لیے کہ ملّاح کے مٹ میلے اور وقت گزیدہ چہرے میں بھی انھیں ایسی چمک محسوس ہوئی جو رشیوں منیوں کے چہرے پر محسوس ہوتی ہے۔
’’بہتے دریا میں تو سبھی ہاتھ دھوتے ہیں، پھر تم کیوں نہیں ؟ اور یاتری دانوں کے زیادہ دام تو اپنی مرضی سے دیتے ہوں گے، ان کے ساتھ کوئی زور زبردستی تھوڑے کی جاتی ہو گی۔ ‘‘
’’زور زبردستی صرف وہی نہیں ہوتی جو اوپر دکھائی دیتی ہے، کچھ زور بھیتر بھیتر بھی چلتا ہے صاحب ! اور مرضی سے کوئی کچھ بھی نہیں دینا چاہتا ! اگر ہم اپنی ناؤ کا ریٹ نہ بتائیں اور یا تریوں سے کرایہ نہ مانگیں تو دھنّا سے دھنّا سیٹھ بھی چپ چاپ ناؤ سے اتر کر چل دے اور رہی بہتے دریا میں ہاتھ دھونے کی بات تو من نہیں کرتا صاحب!‘‘
اے۔ جے۔ آر کی آنکھوں میں ملّاح کے چہرے کی چمک اور تاب دار ہو گئی۔ اے۔ جے۔ آر کو اس کی پیشانی پر چنتنی چمک بھی ‘ محسوس ہونے لگی۔
اچانک اے۔ جے۔ آر کے کانوں میں کچھ ٹکرانے کی آواز سنائی پڑی اور ان کی گردن پیچھے کی طرف مڑ گئی۔
ایک اور کشتی تیرتی ہوئی ان کے پاس آ پہنچی تھی۔ اس کشتی سے چاروں طرف دانے پھینکے جا رہے تھے اور پرندوں کا ایک بڑا غول تیزی سے دانوں پر جھپٹ رہا تھا۔ یہ آواز انھیں میں سے کچھ پرندوں کے آپس میں ٹکرا جانے کی آواز تھی۔
’’اس چھینا جھپٹی میں تو کچھ پرندے گھائل بھی ہو جاتے ہوں گے ؟ ‘‘ اے۔ جے۔ آر نے ملّاح کو مخاطب کیا جس کی توجہ اسی کی طرح پرندوں کے ٹکرانے کی آواز کی طرف مبذول ہو گئی تھی۔
’’کیول گھائل ہی نہیں ہوتے صاحب! کچھ تو مر بھی جاتے ہیں۔ آئے دن ان کی لاشیں پانی پر تیرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ملّاح کی نظریں اے۔ جے۔ آر کی جانب مرکوز ہو گئیں۔
اے۔ جے۔ آر کے چہرے پر اداسی کی ایک اور پرت چڑھ گئی۔
’’صاحب ! آپ اوروں کی طرح نہیں ہیں۔ ‘‘
کیا مطلب ؟‘‘
’’آپ شاید میری طرح ہیں۔ دوسروں سے بالکل الگ۔ ایک اور بات بولوں صاحب؟‘‘
’’بولو۔ ‘‘
’’یہ جو اتنے دانے لٹائے جاتے ہیں۔ یہ ان بھوکے پرندوں کی بھوک مٹا نے یا دان پونیہ کی غرض سے نہیں لٹائے جاتے۔ ‘‘
’’تو پھر کس لیے لٹائے جاتے ہیں ؟‘‘ اے۔ جے۔ آر کا تجسس بڑھ گیا۔
’’جو لوگ پرندوں کی اور دانہ اچھالتے ہیں ان میں سے زیادہ تر لوگوں کو تو یہ پتا بھی نہیں ہوتا کہ یہ پرندے بھوکے ہیں اور دور دراز کے دیسوں اور اپنے اپنے گھونسلوں جن کو یہ تنکا تنکا جوڑ کر بناتے ہیں، سے نکل کر صرف یہاں بھوک مٹا نے اور اپنی جان بچانے آتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کی نیت دان پونیہ کی بھی ہوتی ہو پرنتو زیادہ تر لوگ ان کی طرف دانہ اس لیے پھینکتے ہیں کہ انھیں ایسا کرنے میں مزا ملتا ہے۔ در اصل وہ اسے ایک کھیل سمجھتے ہیں اور اس کھیل میں انھیں خوب آنند آتا ہے۔ یہ دانہ پھینکنا ویسا ہی ہے جیسا کہ دریا میں شکاری کا جال پھینکنا۔ فرق اتنا ہے کہ شکاری مچھلیوں کو جال میں پھنسا کر ان سے پیسہ بناتے ہیں اور یہاں پیسہ نہیں بنایا جاتا۔ صاحب! پیسہ تو نہیں بنا یا جاتا پرنتو پیسے سے زیادہ قیمتی تفریح کا سامان حاصل کیا جا تا ہے۔ اسی بہانے کچھ لوگوں کا کارو بار بھی چل رہا ہے۔‘‘
’’کاروبار ! کیسا کاروبار؟‘‘
’’اِن دانوں کی یہاں آس پاس میں کئی کئی فیکٹریاں لگ گئی ہیں صاحب!
’’کیا؟‘‘
’’ہاں صاحب ! اور اس کاروبار سے صرف کاروباریوں کو ہی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے بلکہ اس سے بچولیے اور پرشاسن کے لوگ بھی خوب خوب لابھ اٹھا رہے ہیں۔ ‘‘
اے۔ جے۔ آر کی نگاہیں اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں دبے دانوں کے پیکٹ پر مرکوز ہو گئیں جس میں اب بھی کچھ دانے بچے ہوئے تھے۔
یہ وہ دانے تھے جو سنگم پر آنے والے یا تریوں کی تفریح کے سامان فراہم کرنے کے لیے تیار کیے گئے تھے اور جنھیں بھوکے پرندوں کے آگے پھینک کر دریاؤں کے دامن میں ایسے منظر بنائے جاتے تھے جو اپنے اندر گنگا اسنان سے بھی زیادہ کشش رکھتے تھے اور بقول ملّاح جن کی سنگم کے کنارے فیکٹریاں کھل گئی تھیں۔
دفعتاً شفّاف پلاسٹک کا پیکٹ غبّارے کی طرح پھول کر کافی بڑا ہو گیا اور اس میں ادھر اُدھر سے کچھ فیکٹریاں آ کر کھڑی ہو گئیں مگر یہ فیکٹریاں وہ نہیں تھیں جن کے مالک منافع خور تھے اور جن میں دور دیسوں سے آ کر سنگم کے دریاؤں پر منڈرانے والے پرندوں کے آگے پھینکے جانے والے دانے تیار کیے جا رہے تھے بلکہ یہ وہ فیکٹریاں تھیں جو مختلف اوقات اور مختلف صورتِ حال میں دیس کے لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اشیائے خوردنی تیار کرنے کے لیے کھولی گئی تھیں اور جن کی دیکھ بھال منافع خور تاجر نہیں بلکہ ملک کی انتظامیہ کرتی تھی اور انتظامیہ اپنی اس کار کردگی کی خبر عوام تک پہچانے اور اپنے کارنامے کو مشتہر کرنے کے لیے وقت وقت پر اخباروں کے پورے پورے صفحے پر اشتہار بھی چھپواتی تھی۔
’’صاحب! اس کاروبار کے لیے پنچھی دان کے نام پر لوگوں کو سرکار کی اور سے سستے داموں زمینیں بھی الاٹ کی گئی ہیں۔ ‘‘
’’اچھّا!‘‘
آنکھوں کے سامنے پھیلے ہوئے اس پیکٹ میں کچھ اور فیکٹریاں بھی آ کر کھڑی ہو گئیں۔ یہ پہلے سے موجود فیکٹریوں کے مقابلے میں بڑی اور اونچی تھیں۔ ان کی دیواروں کے رنگ و روغن کافی روشن تھے اور ان کی بناوٹ بھی مختلف تھی۔ البتہ دونوں کی زمین ایک تھی، لگتا تھا یہ عالیشان فیکٹریاں بھی انھیں فیکٹریوں کی زمین کے کچھ حصّوں پر کھڑی کی گئی تھیں جو پہلے سے موجود تھیں۔
صاحب! ایک طرف ان پرندوں کو یہاں دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ دنیا میں ہم سے بھی گئے گزرے دیس موجود ہیں اور دوسری اور ان کی حالت پر دکھ ہوتا ہے کہ یہ بے چارے تو مصیبت کے مارے یہاں آئے ہیں اور ہم ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انھیں اپنی تفریح کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔ ان سے ہوا میں قلابازیاں کھلوا رہے ہیں۔ پانی میں ڈبکیاں لگوا رہے ہیں۔
پیکٹ کے منظروں سے ہٹ کر اے۔ جے۔ آر کی توجہ ملّاح کے بیان کی جانب مرکوز ہو گئی تھی۔ ملّاح کا بیان اے۔ جے۔ آر کے کانوں میں داخل ہو کر ان کی آنکھوں میں ایک منظر ابھار رہا تھا۔ ایسا منظر جس میں پانی اپنی بھیانک صورت دکھا رہا تھا۔ سیلاب کا دیو ہیکل دھرتی پر ٹانڈو کر رہا تھا۔ بستیاں زیر و زبر ہو رہی تھیں۔ چاروں طرف چیخ و پکار مچی ہوئی تھی۔ اسد ل سوز صورتِ حال میں بھی تجارت کا بازار گرم تھا۔ روٹی کے بدلے ماؤں کی آنکھوں کے تارے اور باپوں کے جگر کے ٹکڑے بیچے اور خریدے جا رہے تھے۔ پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے بہو بیٹیوں کے تن کا سودا کیا جا رہا تھا۔
ایک گھر میں ایک ماں اپنے لاڈلے کو بھوک کی شدّت کے باوجود خود سے الگ نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔ وہ کسی طرح بھی بچّے کو بیچنے کے لیے راضی نہیں ہو رہی تھی۔ میاں بیوی کے درمیان کشمکش جاری تھی کہ مرد کو ایک قصّہ یاد آ گیا۔ اس نے بیوی کو سنانا شروع کیا :
ایک دن ایک درویش سے کسی مرید نے پوچھا،
حضرت ! دین کے کتنے فرائض ہیں ؟‘‘
درویش نے جواب دیا، چھ‘‘
چھٹا کون؟ ‘‘ مرید نے دوبارہ سوال کیا۔
’’کھانا‘‘ درویش نے جواب دیا۔
اس محفل میں ایک عالم دین بھی موجود تھے۔ انھوں نے چھٹے فرض کو ماننے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ شریعت کی رو سے کل پانچ فرائض ہیں اور ان میں کھانا نہیں ہے۔ درویش نے بحث نہیں کی صرف اتنا کہا کہ آپ مانیں یا نہ مانیں۔ مگر ایک فرض کھانا بھی ہے۔ عالمِ دین اس محفل سے اٹھ کر چلے گئے۔
ایک دن اس عالمِ دین کا ایک سمندری سفر ہوا۔ اس سفر میں ان کی کشتی طوفان میں پھنس گئی۔ کسی طرح ان کی جان بچ گئی۔ گرتے پڑتے وہ سمندر کے کنارے پہنچے۔ انھیں بھوک محسوس ہوئی مگر دور دور تک کھانے پینے کا کوئی سامان موجود نہیں تھا۔ بھوک بڑھتی جا رہی تھی اور بھوک کی وجہ سے ان کی حا لت بھی خراب ہوتی جا رہی تھی۔ اتنے میں ایک آواز سنائی پڑی۔
’’روٹی لے لو روٹی !‘‘
عالم دین اس آدمی کی طرف لپکے جو آواز یں لگا رہا تھا۔ پاس پہنچ کر وہ بولے،
’’مجھے دو۔ میں بہت بھوکا ہوں۔ ‘‘
’’ایک روٹی کی قیمت ایک نیکی ہے۔ ‘‘
یہ سن کر عالم دین بولے،
’’نہیں، نہیں، میں نیکی سے روٹی نہیں خریدوں گا۔ بڑی محنت اور ریاضت سے میں نے یہ نیکیاں کمائی ہیں ‘‘
ان کا جواب سن کر روٹی والا چلا گیا۔ عالم دین کی بھوک بڑھتی گئی۔ شام کو پھر وہ آواز سنائی پڑی۔
’’ روٹی لے لو، روٹی!‘‘
عالم دین نے آواز لگانے والے کو بلایا اور کہا ’’ ٹھیک ہے نیکی کے بدلے ہی سہی روٹی دے دو‘‘۔
بیچنے والا بولا، ’’ اب روٹی کی قیمت وہ نہیں، جو پہلے تھی۔ اب ایک روٹی تمام نیکیوں کے بدلے میں ملے گی۔ ‘‘
’’نہیں، نہیں، اپنی تمام نیکیوں سے میں روٹی نہیں خرید سکتا، تم جاؤ‘‘
انھوں نے روٹی خرید نے سے منع کر دیا، روٹی بیچنے والا چلا گیا۔
کسی طرح رات گزری۔ صبح آتے آتے بھوک نا قابلِ برداشت ہو گئی۔ وہی آواز پھر سنائی پڑی، ‘‘ روٹی لے لو روٹی!‘‘
عالمِ دین نے روٹی بیچنے والے کو پکارا۔ روٹی بیچنے والے نے عالم دین کی بے تابی دیکھ کر لاپرواہی سے بولا،
’’آج قیمت اور بڑھ گئی ہے۔ اب ایک روٹی کے بدلے موجودہ نیکیوں کے علاوہ آئندہ کمانے والی نیکیاں بھی دینی پڑیں گی‘‘۔
عالم دین بھوک کی شدّت سے اس حد تک مجبور ہو گئے تھے کہ وہ بغیر کچھ سوچے اور بنا دیر کیے بول پڑے !
’’ٹھیک ہے آنے والی نیکیاں بھی لے لو مگر روٹی فوراً دے دو۔ ‘‘
کہانی کی منطق اور بھوک کی شِدّت نے ماں کی باہوں کی گرفت ڈھیلی کر دی۔ بچہّ ماں کی آغوش سے نکل کرتا جر کی مال گاڑی میں پہنچ گیا۔
’’صاحب ! اب ہم گنگا میں آ گئے ہیں۔ ‘‘
’’کیا ؟‘‘ اے۔ جے۔ آر کی آنکھیں سیلاب کے منظر سے نکل کر گنگا کے پانی کی طرف مبذول ہو گئیں۔
’’ ہاں صاحب ! ہماری ناؤ اس وقت گنگا میں تیر رہی ہے۔ ‘‘
’’یہ گنگا ہے ! ‘‘ پانی کو دیکھتے ہی اے۔ جے۔ آر چونک پڑے۔ ۔ ۔ ۔
’’جی ہاں، یہی گنگا ہے۔ ‘‘
’’یہ وہی گنگا ہے جو سب کی ماں کہلاتی ہے۔ جو اپنے دامن میں سب کے دکھوں کو بھر لیتی ہے۔ اپنی سفیدی سے سیاہیوں کو دھو ڈالتی ہے۔ جس کے جل سے آتما تک کی شدھی ہو جا تی‘‘
’’ہاں صاحب! یہ وہی گنگا ہے۔ ‘‘
’’مگر اس کا جل تو _________
’’صاحب ! جب سارا سنسار اپنے من اور تن کے ساتھ ساتھ اپنے گھر آنگن اور کل کارخانوں کا میل بھی اس میں ڈالے گا تو کیا ہو گا ؟ ذرا ادھر تو دیکھے صاحب!‘‘ ایک ناؤ کی طرف ملّاح نے اشارہ کیا۔ ۔ ۔
اشارے کی طرف اے۔ جے۔ آر کی نظر یں اٹھیں تو ایک ننگ دھڑنگ جسم سے گنگا میں گرنے والے رقیق مادہ کو دیکھ کر شرم سے پلکیں جھک گئیں۔
’’یہ تو نمبر ایک کا نظارہ ہے صاحب! ہماری آنکھیں تو اکثر نمبر دو کا نظارہ بھی کرتی ہیں۔ آئے دن گلی سڑی لاشیں بھی دکھائی دیتی رہتی ہیں۔ کل کار خانوں کا جو گندا پانی آتا ہے سوالگ۔ اب آپ ہی بتائیے، ایسے میں بھلا پانی کیسے صاف رہ سکتا ہے ‘‘؟
راگھو رائے سنگھ کے کہنے پر اے۔ جے۔ آر نے نہانے کے کپڑوں کا ایک جوڑا اپنے ہینڈ بیگ میں رکھ لیا تھا یہ سوچ کر کہ جب سنگم پر جا رہے ہیں تو گنگا میں ایک ڈبکی بھی لگا لیں گے مگر سامنے کے منظر اور پانی کے رنگت کو دیکھ کر ڈبکی لگانے کا ان کا ارادہ سردپڑ گیا۔
’’صاحب ! اب ہم اس استھان پر پہنچ گئے ہیں جسے دیکھنے کے لیے لوگ دور دور سے ہزاروں روپے خرچ کر کے آتے ہیں اور جس کا درشن کر کے مرنے کے بعد کی چنتاؤں سے مکت ہو جاتے ہیں اور بہت سے لوگ تو اس کے درشن کے سپنے کو سا کار کیے نباہی اس دنیا سے سدھار جاتے ہیں۔ یہ دیکھیے دو ندیوں کا ملن۔ ایک طرف سے گنگا جی آ رہی ہیں اور دوسری اور سے جمنا جی۔ دونوں کا رنگ الگ الگ دکھائی دے رہا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے مل بھی رہی ہیں اور مل کر آپس میں ملنے کے بجائے ایک دوسرے سے الگ بھی رہ رہی ہیں۔ اسی ادبھوت ملن کو سنگم کہتے ہیں۔ ‘‘
اے۔ جے۔ آر کی آنکھیں اس ملن کو حیرت سے دیکھ رہی تھیں، واقعی کمال کا ملن تھا۔ دونوں ندیاں ایک دوسرے میں پیوست تھیں مگر دونوں صاف صاف ایک دوسرے سے الگ دکھائی دے رہی تھیں۔ کوئی کسی کے دائرے میں گھسنے کی کوشش نہیں کر رہی تھی۔
اس منظر نے اے۔ جے۔ آر کے کانوں میں دفعتاً دو لفظوں کا ایک مرکّب ٹپکا دیا۔ سماعت میں اس مرکّب کے داخل ہوتے ہوئے ان کی آنکھوں کے سامنے ایک دوسرا منظر ابھر آیا: توقیر علی کے والد تنویر علی عید کی نماز پڑھ کر عید گاہ سے گھر لوٹے ہیں۔ ان سے ملنے اے۔ جے۔ آر کے پتا وجے جسونت رائے سنگھ ان کے گھر پہنچے ہیں۔ تنویر علی سفید کرتا اور چار خانے کی لنگی پہنے ہوئے ہیں۔ ان کے سر پر سفید ٹوپی ہے اور وجے جسونت رائے دھوتی کرتے میں ملبوس ہیں۔ ان کا سر خالی ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے لپٹ جاتے ہیں۔ اس طرح کہ دونوں کی باہیں ایک دوسرے کو آغوش میں بھر لیتی ہیں۔ دونوں کی چھاتی ایک دوسرے سے مل جاتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب ہو جاتے ہیں کہ دونوں کے درمیان ہوا کا گزر بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔
ایسا ہی ایک منظر اور ابھر آیا۔ اس میں بھی دونوں پڑوسی اسی طرح گلے مل رہے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے مخصوص لباس میں ملبوس ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ اس منظر میں تنویر علی کی پیشانی پر جہاں سیاہ گھٹا پڑا ہوا ہے، اس کے پاس گلال بھی چمک رہا ہے۔ اور سیاہ گٹھّے والی پیشانی پر چمکنے والے گلال سے وجے جسونت رائے کی آنکھیں گلنار ہو گئی ہیں اور ان کے چہرے سے سرخ شعاعیں پھوٹ رہی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’صاحب! ہے نا یہ ادبھوت ملن!‘‘
’’ہاں، ہے۔ کاش! یہ ملن۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
جملے کا دوسرا حصّہ اے۔ جے۔ آر نے بہت ہی دھیمی آواز میں ادا کیا اور جملے کو ادھورا چھوڑ دیا۔
’’آپ نے کچھ کہا صاحب؟‘‘ ملّاح نے پوری بات سننی چا ہی مگر اے۔ جے۔ آر نے ’’ نہیں تو ‘‘ کہہ کر ٹال دیا۔ اور دوسری بات شروع کر دی۔
’’اس کو تروینی بھی تو کہا جاتا ہے ‘‘؟
’’جی صاحب، اسے تروینی بھی کہتے ہیں، تروینی ارتھات تین ندیوں : گنگا، جمنا اور سرسوتی کا سنگم۔ پرنتو سرسوتی جی لپت ہیں ‘‘۔
’’سر سوتی جی واستو میں ہیں بھی یا ان کا وجود محض ایک مِتھ، مطلب کہانی بھر ہے ؟‘‘
ہیں صاحب!ہیں !سرسوتی جی ہیں ! وہ دکھائی بھی دیتی ہیں پرنتو کسی کسی کو، سبھی کو نہیں۔ ‘‘
’’تمھیں دکھائی دیتی ہیں ؟‘‘
ہاں صاحب ! مجھے دکھائی دیتی ہیں۔ ‘‘
’’کمال ہے !‘‘ اے۔ جے۔ آر کی آنکھیں پھیل گئیں۔
’’میں سچ کہہ رہا ہوں صاحب! مجھے سرسوتی جی دکھائی دیتی ہیں۔ ‘‘
’’کدھر دکھائی دیتی ہیں ؟ ‘‘
’’یہیں پر صاحب ! ان دونوں کے سنگم کے نیچے ‘‘
کتنا نیچے ؟‘‘
’’بہت نیچے۔ ‘‘
’’پانی کے اندر تمھاری نظریں ان تک پہنچ جاتی ہیں ؟‘‘
’’ہاں صاحب ! پہنچ جاتی ہیں۔ ‘‘
’’اچھا!‘‘
’’آپ کو اچنبھا ہو رہا ہے صاحب! پرنتو یہ سچ ہے کہ کچھ نظریں پانی کے اندر تک پہنچ جاتی ہیں۔ ‘‘
’’ان میں سے ایک تمھاری بھی ہیں ؟‘‘
آپ کو میری ’ہاں ‘ چھوٹا منہ اور بڑی بات لگے گی مگر سچ یہی ہے صاحب!
’’میری حیرانی اس لیے نہیں ہے کہ یہ بات کسی مہا پنڈت یا مہاپُرش کے بجائے کوئی ملّاح کہہ رہا ہے بلکہ اس لیے ہے کہ یہ انوکھی بات ہے۔ حیران کر دینے والا سچ ہے اور جس طرح کے تم آدمی ہو اور اب تک جتنا میں نے تم کو جانا ہے، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ تم چھوٹ نہیں بول سکتے۔ ‘‘
’’صاحب! جب مجھ پر آپ کو اتنا یقین ہے تو اس انوکھی بات پر بھی یقین کر لیجیے کہ آپ کے اس سیوک نے سر سوتی جی کو دیکھا ہے۔ ‘‘
’’کرنا ہی پڑے گا۔ ‘‘
’’دھنیہ باد۔ ‘‘بہت بہت دھنیہ باد صاحب!‘‘
’’جب تم نے سر سوتی جی کو دیکھا ہے تو ان کے بارے میں مجھے اور بھی کچھ بتاؤ۔ ‘‘
’’بولیے کیا جاننا چاہتے ہیں ؟‘‘
’’سب سے پہلے تو یہی کہ ان کا پانی کیسا ہے ؟‘‘
’’بہت صاف!بالکل آئینے کے موافق۔ ایک دم اجول!‘‘
’’ان کا رنگ ان میں سے کس کی طرح ہے ؟ گنگا جی کی طرح یا جمنا جی کی طرح؟
’’ان دونوں سے الگ ہے صاحب!
’’کوئی روپ تو ہو گا اس کا۔ مرا مطلب ہے جس طرح جمنا جی کا ہلکا ہرا اور گنگا جی کا مٹ میلا دکھائی دے رہا ہے اسی طرح سرسوتی جی کا بھی تو کوئی اپنا رنگ ہو گا۔ ‘‘
’’ہاں ہے، مگر وہ ہرا، اجلا، نیلا پیلا جیسا رنگ نہیں ہے۔ ‘‘
’’تو پھر کیسا ہے ؟‘‘
’’وہ وی چتر رنگ ہے، اس میں جمنا جی کا رنگ بھی شامل ہے اور گنگا جی کا رنگ بھی۔ مگر گنگا جی کا یہ رنگ نہیں، ان کا پہلے والا رنگ۔ اس میں چاند، سورج اور ستاروں کا رنگ بھی گھلا ہوا ہے اور آسمان کا رنگ بھی۔ شاید زمین کا رنگ بھی اس میں موجود ہے۔ صاحب! میں بتا نہیں سکتا کہ واستو میں اس کا رنگ کیسا ہے ؟ پرنتو ہے وہ بہت ہی اچھّا رنگ۔ بہت ہی آ کر شک! بہت ہی پیار ا! ‘‘
اے۔ جے۔ آر کی نگاہیں ملّاح کے چہرے میں کھوتی جا رہی تھیں۔
’’وہ کدھر سے آتی ہیں اور کدھر جاتی ہیں ؟‘‘
’’صاحب، اس کا پتا تو نہیں چل پاتا۔ ‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’اس لیے کہ وہ کافی پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے دھارے چاروں اور بہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ‘‘
’’بہاؤ کیسا ہے ؟‘‘
’’نہ زیادہ، نہ کم، بہت ہی سنتو لت گتی ہے ان کی۔ ‘‘
’’موجیں اٹھتی ہیں ؟‘‘
’’خوب! پرنتو بپھری ہوئی نہیں، اپنی سیما میں رہ کر چلنے والی۔ انھیں دیکھ کر رگوں میں ترنگیں دوڑ جاتی ہیں۔ ‘‘
’’سرسوتی جی کو دیکھ کر کیسا محسوس ہوتا ہے ؟‘‘
’’ایسا لگتا ہے جیسے پگھلی ہوئی چاندی میں گھلے ہوئے ہیرے موتی دیکھ رہے ہوں۔ دیکھنے سے آنکھوں میں روشنی سی بھر جاتی ہے۔ کانوں میں جل ترنگ بج اٹھتا ہے۔ من دھل جاتا ہے۔ دماغ روشن ہو جاتا ہے۔ جی چاہتا ہے ان میں کود جاؤں۔ ان کی گود میں پڑا رہوں۔ کبھی باہر نہ نکلوں۔ ‘‘
ملّاح کی باتیں سنتے وقت اے۔ جے۔ آر کو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی دیوی کا ذکر کرہا ہو۔ ایسی دیوی کا ذکر جس کے ماتھے پر ایسا تیج ہو کہ جسے دیکھ کر کمھلایا ہوا چہرہ بھی کھل جائے۔ جس کی آنکھوں میں ایسی جوت ہو کہ جس سے اندھیرے بھی روشن ہو اٹھیں۔ ویرانے بھی جگمگا جائیں۔ جس کے چہرے پر ایسا سکون ہو جو وچلت من کو بھی شانت کر دے۔ جس کی آواز میں ایسا سر ہو کہ جس کے کان میں پڑتے ہی دل و دماغ میں علم و آگہی کے خزانوں کے در کھل جائیں۔ جسم و جان میں مٹھاس گھل جائے۔ رگ و پے میں کیف و سرور بھر جائے۔ ’’صاحب ! سرسوتی جی بھلے ہی لوگوں کو دکھائی نہیں دیتیں پرنتو وہ اپنا کام اندر ہی اندر کرتی رہتی ہیں۔ اپنا رنگ چڑھاتی رہتی ہیں۔ اپنا اثر دکھاتی رہتی ہیں۔ یہ انھیں کی کرپا ہے کہ یاتریوں کو پانے کے لیے میں اتاؤلا نہیں رہتا اور بنا مول تول کیے مجھے آپ جیسے یاتری مل جاتے ہیں اور جب نہیں ملتے تب بھی مجھے بے چینی نہیں ہوتی۔ یہ انھیں کی کر پا ہے صاحب! کہ ان بھوکے پرندوں کو دیکھ کر اس بھیڑ میں کچھ آنکھیں نم بھی ہو جاتی ہیں۔ یہ انھیں کی مہیما ہے کہ آج بھی کہیں کہیں پر ہریالی اور کسی کسی دل مین صفا ئی باقی ہے۔
اے۔ جے۔ آر کے ذہن میں ایک منظر اُبھر آیا : ایک مشتعل مجمع ایک معصوم بچے کو اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔ ترشول کی نوکیں بچے کی چھاتی کی اور بڑھ رہی ہیں۔
’’یہ کیا کر رہے ہو ؟یہ بیچارہ تو معصوم ہے اس کا کیا دوش ہے ؟اسے چھوڑ دو۔ ‘‘ایک آدمی بھیڑ سے نکل کر بچے کے پاس آ جا تا ہے۔
’’نہیں، ہم اپنے شترو کی سنتان کو نہیں چھوڑیں گے۔ یہ انہیں کی سنتان ہے جنھوں نے ہمارے لوگوں کے گلے سے اوم اُتار کر اس کی جگہ کراس ڈال دیا ہے ‘‘
’’مانا کہ اس کے قوم کے لوگ لالچ دے کر ہمارے لوگوں کا دھرم پریورتن کر رہے ہیں پرنتو اس بالک کا اس سے کیا لینا دینا۔ یہ بیچارہ تو یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ کون ہے ؟ اس کے دھرم کا نشان اوم ہے یا کراس۔ا سے چھوڑ دو، اسے مارنے سے کچھ نہیں ملے گا۔ ‘‘
’’نہیں ہم نہیں چھوڑیں گے۔ آگے چل کر یہی ہمارے دھرم کو بھرشت کرے گا۔ آپ ہٹ جائیے۔ ہمیں اپنا کام کرنے دیجیے۔ ‘‘
’’نہیں میرے ہوتے ہوئے آپ اسے نہیں مارسکتے۔ ‘‘وہ آدمی بچے کے آگے آ کر کھڑا ہو گیا۔
’’ہٹ جائیے نہیں تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’نہیں، میں اپنے جیتے جی یہ ادھرم نہیں ہونے دوں گا۔ ‘‘
’’ہٹ جائیے ورنہ۔ ۔ ۔ ۔
’’نہیں میں نہیں ہٹوں گا۔ ‘‘
’’تو ٹھیک ہے مریے۔ ‘‘ترشول کی نوکیں اس آدمی کے سینے میں پیوست ہو جاتی ہیں مگر وہ بچے کو مرنے سے بچا لیتا ہے۔
’’ میں تو بھگوان سے یہی پر اتھنا کرتا ہوں صاحب کہ سرسوتی جی کبھی اوپر نہ آئیں اور لوگوں کو دکھائی نہ دیں۔ ‘‘
’’کیوں ؟ایسی پر اتھنا کیوں کرتے ہو؟‘‘
’’ڈرتا ہوں صاحب؟‘‘
’’کیوں ڈرتے ہو؟‘‘
’’کہیں ان کا بھی ______‘‘اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’ان کا بھی کیا ؟‘‘ اے۔ جے۔ آر نے پورا جملہ سننا چاہا۔
’’کیا یہ بات آپ کو بھی بتانی پڑے گی صاحب؟‘‘ جواب دے کر ملّاح اے۔ جے۔ آر کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
اے۔ جے۔ آر خاموش رہے۔ نہ جواب دیا اور نہ ہی کوئی اور سوال کیا۔ بس جلدی سے اپنا ہینڈ بیگ کھول لیا۔
بیگ سے نہانے کا کپڑا ہاتھ میں لے لیا۔ ان کی نگاہیں اس کپڑے پر مرکوز کر گئیں۔
’’آپ، اسنان کرنا چاہتے ہیں تو چلیے میں ناؤ کو سنگم سے سٹا کر لگا دیتا ہوں ؟‘‘
’’نہیں، اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘
’’تو کیا یہیں نہائیں گے ؟‘‘
’’نہیں، ‘‘
’’تو پھر؟‘‘
’’میں اسنان کر چکا ؟‘‘
’’کب؟کہاں ؟‘‘ملّاح ان کی طرف حیرت سے دیکھنے لگا۔
’’سرسوتی جی میں۔ ‘‘
’’سرسوتی جی میں !وہاں آپ کب پہنچے ؟‘‘
’’جب تم ان کا بکھان کر رہے تھے۔ ‘‘
’’تو آپ کو بھی وہ دکھ گئیں ؟‘‘
’’ہاں، سرسوتی جی مجھے بھی دکھائی دے گئیں ‘‘اے۔ جے۔ آر نے اپنی نگاہیں ملّاح کے چہرے سے سر کار کراس کی آنکھوں تک پہنچا دیں۔
’’صاحب! میں سوچتا تھا کہ سرسوتی جی ضرور آپ کو بھی دکھائی دیں گی۔ اور من ہی من میں میں نے آپ کے لیے پراتھنا بھی کی تھی۔ انھوں نے میری سن لی، جے ہو سرسوتی میّا!‘‘
اس نے پتوار کو پانی میں اس انداز سے گھمایا کہ پانی پر ناؤ ناچ گئی۔
’’اب واپس چلیں ‘‘ اے۔ جے۔ آر نے ہینڈ بیگ بند کرتے ہوئے اسے مخاطب کیا‘‘
’’چلیے ‘‘
ناؤ سنگم سے پلٹ کر گھاٹ کی طرف جانے لگی۔
پرندوں کا ایک غول پھر سے ان کے سروں پر منڈرانے لگا۔
’’دانوں کا پیکٹ دوں صاحب؟ ملّاح نے اے۔ جے۔ آر کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں، ابھی کچھ دانے بچے ہیں۔ ‘‘اور ناؤ سے پیکٹ اٹھا کر بچّے ہوئے دانوں کو گنگا میں الٹ دیا۔
پرندوں کی طرف دانہ ڈالنے کا انداز اس بار وہ نہیں تھا جو جمنا میں اترتے وقت دکھائی دیا تھا۔
٭٭٭
اُتّم چند والیہ
سوٹ اور ٹائی میں ملبوس گندمی رنگ کے ایک صاحب اکثر ہمارے دفتر کے کیمپس میں دکھائی دیتے۔ خاموشی سے داخل ہوتے اور ادھر اُدھر دیکھے بغیر سیدھے پروفیسر جمال کے کمرے کی طرف بڑ ھ جاتے۔
حسبِ معمول ایک دن وہ کیمپس میں داخل ہوئے۔ خاموشی سے جمال صاحب کے روم کی جانب بڑھے مگر جلدی ہی واپس آ کر کیمپس کے لان میں بے چین سے پھر نے لگے۔ کچھ دیر تک وہ لان کا چکّر کاٹتے رہے پھر جھجھکتے جھجھکتے میرے کمرے کی طرف بڑھ آئے۔ ’’کیا میں حاضر ہو سکتا ہوں ‘‘ دروازے کے پاس پہنچ کر نہایت ادب کے ساتھ بڑے ہی شائستہ لہجے میں مجھ سے انہوں نے اجازت طلب کی۔
’’جی، ضرور، تشریف لائیے ‘‘ میں نے انہیں اندر بلا لیا۔ وہ میرے کمرے میں داخل ہو گئے مگر کھڑے رہے
’’تشریف رکھیے ‘‘ میں نے کرسی کی طرف اشارہ کیا
’’شکریہ‘‘ وہ سامنے والی کرسی پر محتاط انداز میں بیٹھ گئے۔
’’جی فرمائیے۔ ‘‘ حسبِ عادت ہر آنے والے کی طرح ان سے بھی میں نے ان کی منشا معلوم کی۔
’’جمال صاحب آج نہیں آئے ہیں کیا؟ انہوں نے کچھ پریشان کن لہجے میں سوال کیا
’’نہیں۔ وہ لمبی چھٹی پر باہر گئے ہوئے ہیں۔ ‘‘
’’لمبی چھٹی !‘‘ حیرتی لہجے میں وہ یہ فقرہ دہرا کر خاموش ہو گئے جیسے میرے جواب نے ان پر فالج گرا دیا ہو۔ ان کے چہرے پر اداسی آمیز مایوسی چھا گئی۔
’’کیا بات ہے ! کوئی ضروری کام تھا کیا؟‘‘ میں نے ان کی پریشانی کا اندازہ لگاتے ہوئے سوال کیا۔
’’جی‘‘ انہوں نے بہت ہی آہستہ سے جواب دیا
’’آپ میسج دے دیجیے، میں ان تک پہنچا دوں گا
’’میسیج سے کام نہیں چلے گا سر۔ ‘‘
’’ایسا کیا کام ہے کہ آپ اس قدر پریشان ہو گئے ؟‘‘
’’بات در اصل یہ ہے سر کہ میں اردو سے ایم۔ اے کر رہا ہوں۔ تیاری کے سلسلے میں جمال صاحب سے رہنمائی حاصل کرنے یہاں آتا ہوں۔ امتحان قریب ہے اور رہنمائی کرنے والا دور۔ اس بات نے مجھے بوکھلا دیا ہے ‘‘
’’بس یہی بات ہے۔ ‘‘
’’جی، مگر یہ بات بس یہی بات تک محدود نہیں ہے، میرے لیے تو یہ بے چین کر دینے والی بات ہے۔ ‘‘
’’گھبرائیے نہیں، پروفیسر جمال جب تک نہیں آتے ہیں آپ کا یہ کام میں کر دیا کروں گا۔ ‘‘
’’آپ !‘‘
کیوں ؛ میں نہیں کر سکتا! میں بھی اردو کا لیکچر ہوں صاحب !
’’یہ بات نہیں ہے سر۔
’’ تو پھر یہ حیرانی کیوں ؟‘‘
بات درا صل یہ ہے سر کہ مجھے یقین نہیں ہو رہا ہے کہ آپ میری مدد فرمائیں گے۔
’’کیوں ‘‘____؟
’’کیوں کہ اس کام کے لیے آپ نے اتنی آسانی سے حامی جو بھر دی۔ ‘‘ کوئی حلیہ حجّت، نہ کوئی شرط، نہ ہی کسی قسم کا کوئی مطالبہ اور نہیں کوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’دیکھیے، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو علم بانٹنے میں آنا کانی کرتے ہیں یا اس کے لیے کسی قسم کا سودا کرتے ہیں۔ بتائیے آج آپ کیا پڑھنا چاہتے ہیں ؟۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ سر آج میں میرؔ کو سمجھنا چاہتا ہوں، ان کی امتیازی خصوصیات جاننا چاہتا ہوں ‘‘
’’بہتر‘‘ میں نے مزید کسی گفتگو کے میر کی شاعری کی امتیازی خصوصیات پر بولنا شروع کر دیا۔
’’سر‘‘ میں نوٹ کرتا جاؤں۔ ‘‘
’’ضرور، جو پوائنٹس آپ کو اہم لگیں انہیں نوٹ کر لیجیے ‘‘میں نے اپنی گفتگو کی رفتار دھیمی کر دی۔
’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرؔ کی ایک اور اہم خصوصیت ’درد مند ی‘ ہے۔ ان کی ’درد مندی‘ کئی صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے ایک صورت یہ ہے ؎
جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا
تو ہم سایہ کا ہے کو سوتا رہے گا
میرؔ اپنے درد سے پریشان ہیں۔ ان کا درد انہیں بُری طرح رلا رہا ہے مگر انہیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ ان کا اس طرح رونا دوسروں کے لیے پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے۔ میر کا یہ شعر ؎
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
بھی ان کی دردمندی کی ایک صورت کا غمّاز ہے۔ میرؔ کا یہ وصف میر کو امتیازی شان عطا کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’امید ہے میرؔ کی شاعری کی کچھ بنیادی باتیں واضح ہو گئی ہوں گی۔ ‘‘تقریباً پینتس چالیس منٹ کے بعد میں نے میر تقی میرؔ کاسلسلہ ختم کرتے ہوئے پوچھا۔
’’جی، بالکل، ایک ایک بات واضح ہو گئی۔ ایک ایک نکتہ ذہن نشیں ہو گیا۔ جناب کا اس مہربانی کے لیے بے حد شکریہ۔ ‘‘
’’اس میں شکریہ کی کوئی بات نہیں ہے۔ ایک استاد ہونے کے ناطے میرا یہ فرض ہے کہ کسی علمی معاملے میں میں کسی کے کام آؤں۔ ‘‘
’’یہ تو آپ کا بڑ پن ہے صاحب آپ کا یہ خیال جان کر میرے دل میں آپ کی قدر اور بڑھ گئی۔
’’شکریہ۔ کچھ اور پڑھنا ہے یا آج کے لیے اتنا کا فی ہے ؟‘‘
’’اتنا کافی ہے سر! ___سر آپ سے ایک گزارش تھی۔ ‘‘
’’فرمائیے۔ ‘‘
’’آپ برا نہ مانیں تو عرض کروں ؟‘‘
’’ بتائیے کیا بات ہے ؟‘‘
’’سر یہ کچھ پھل ہیں میرے باغ کے انہیں جمال صاحب کے لیے لایا تھا مگر ان پر اب آپ کا۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے آپ انہیں قبول کر لیتے تو مجھے خوشی ہوتی۔
’’دیکھیے، میں پڑھائی لکھا ئی کے سلسلے میں کسی سے کچھ نہیں لیتا اس لیے میں انہیں نہیں رکھ پاؤں گا‘‘
’’سر یہ کسی قسم کا کوئیReturnنہیں ہے۔ اسے لانے میں صرف میری شردھا اور میرا خلوص شامل ہے۔ مجھے یقین تھا کہ آپ میرے خلوص کو ٹھکرائیں گے نہیں اسی لیے میں ہمّت بھی کر سکا۔ ایک بار پھر آپ سے التجا ہے کہ میرے اس خلوص ____‘‘
’’ٹھیک ہے رکھ دیجیے مگر آئندہ خیال رکھیے گا کہ مجھے یہ سب پسند نہیں ‘‘
’’جی بہتر، سر میں دو بارہ کب آ جاؤں ؟‘‘
’’جب چاہیں۔ ‘‘
’’آپ کو کو زحمت تو ہو گی ___
’’مجھے کوئی زحمت نہیں ہو گی۔ آپ اس کام کے لیے میرے پاس بلا جھجھک آ سکتے ہیں ‘‘
’’شکریہ۔ ویسے کون سا وقت منا سب رہے گا؟‘‘
’’ شام سے تھوڑا پہلے، یہی چار اور پانچ کے بیچ‘‘
’’جی، بہتر، سر اب میں چلوں ؟‘‘
اجازت لے کروہ چلے گئے۔ جاتے وقت ان کا چہرہ ان کیفیات سے آزاد تھا جو آتے وقت وہ اپنے ساتھ لائے تھے اور جن میں یہ سن کر اور بھی شدت پیدا ہو گئی تھی کہ پرنسپل صاحب لمبی چھٹی پر با ہر گئے ہوئے ہیں۔
تین چار روز بعد وہ دو بارہ تشریف لائے رسمی گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ ان کا نام اتم چند والیہ ہے۔ وہ گورنمنٹ اسکول میں ٹیچر ہیں اور اپنے شوق یا کسی ضرورت کی خاطر اس عمر میں ایم۔ اے۔ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنا موضوع بتا یا اور میں شروع ہو گیا۔ موضوع کے ایک ایک پہلو کی جب وضاحت ہو گئی اور ان کے ایک ایک سوال کا جواب انہیں مل گیا تو بولے ’’سر آپ بڑی اچھی طرح سمجھاتے ہیں۔ موضوع کا ایک ایک پہلو آئینے کی طرح صاف ہو جاتا ہے۔ پوری طرح تسلی ہو جاتی ہے۔ آپ کے سمجھانے کا انداز بھی بہت پیارا ہے اور آپ کے علم کا کیا کہنا وہ تو دریا ہے دریا، شروع ہوتا ہے تو بہتا ہی چلا جاتا ہے۔ خدا اس دریا کو ہمیشہ رواں دواں رکھے۔
میری تعریف کے بعد وہ کچھ دیر تک خاموش رہے مگر ان کا چہرہ بتا رہا تھا کہ ان کے لب تو خاموش ہو گئے ہیں لیکن ان کے اندرون میں کوئی زبردست مکالمہ چل رہا ہے۔
’’ کیا بات ہے ؟ اچانک آپ اس قدر سنجیدہ کیوں ہو گئے ؟‘‘ میرے پوچھنے پر بولے ’’بات در اصل یہ ہے سر کہ خلوص و محبت اور اطاعت و فر ماں برداری میں جنگ چھڑ گئی ہے۔ ‘‘
’’میں کچھ سمجھا نہیں ‘‘ میں ان کی طرف غور سے دیکھنے لگا میرے اس سوال پر اپنی نظر یں جھکائے ہوئے بولے ’’ سر آپ کو جو بات پسند نہیں میں وہی کر بیٹھا ہوں مگر قصور وار اکیلا میں نہیں ہوں۔ اس میں میری بیوی بھی شامل ہیں۔ آتے وقت انہوں نے ضد کر کے کہا کہ میں آپ کے لیے اپنے کچن گارڈن سے کچھ تازہ سبزیاں لیتا جاؤں۔ خاص کر پہاری کندرو اور ولائتی کھیرا۔ انہوں نے اس لیے بھی ضد کی کہ ان دنوں بازار کی سبزیوں کے بارے میں طرح طرح کی خطر ناک خبریں سننے میں آ رہی ہیں سو میں کچھ تازہ سبزیاں لیتا آیا ہوں مگر ہمت نہیں ہو رہی ہے کہ آپ کو پیش کروں ‘‘
ان کی باتیں سن کر میرے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھر آئی مگر میں سہج اور سنجید گی کے درمیان کا لہجہ اختیار کرتے ہوئے بولا
’’جنگ میں محبت کو ہارنا نہیں چاہیے مگر استاد کی اطاعت بھی ضروری ہے۔ امید ہے آئندہ سے استاد کی نافرمانی نہیں ہو گی۔
’’ سر آپ بہت اچھے ہیں اس بار نہ صرف یہ کہ آپ نے میری محبت کو مات کھانے سے بچا لیا بلکہ مجھے اپنی بیوی کے سامنے شرمندہ ہونے کے احساس سے بھی نجات دلا دی۔ سر، اب میں بغیر کسی بوجھ کے اپنے گھر جا سکوں گا۔ ‘‘
والیہ کو جاتے ہوئے دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ واقعی انہیں کسی دباؤ کے کرب سے چھٹکارہ مل گیا تھا۔
دو روز بعد والیہ صاحب پھر تشریف لائے۔ علیک سلیک کے بعد انہوں نے اپنا موضوع بتا یا اور میں شروع ہو گیا۔ گفتگو کے اختتام پر والیہ صاحب کا شگفتہ چہرہ پھر سے اسی سنجید گی کا شکار ہو گیا جو اس سے پہلے والی ملاقات میں ہوا تھا۔
’’لگتا ہے آج پھر آپ کے اندر کوئی جنگ چھڑ گئی ہے ؟‘‘
’’ جی آپ نے بالکل صحیح اندازہ لگایا۔ مجھ سے پھر ایک نا فرمانی ہو گئی ہے۔ میں یہ نافرمانی نہیں کرتا اس لیے کہ آپ کی پچھلی مٹنگ والی بات میرے ذہن میں اب بھی گونج رہی ہے مگر آج پانچ ستمبر ہے اور ہمارے درمیان پانچ ستمبر والا رشتہ بن چکا ہے۔ آج کی تاریخ کے رشتے نے مجھے ایسا حوصلہ بخشا کہ میں آپ کی اطاعت کی بھی پر واہ نہ کر سکا لیکن نافرمانی کا احساس بھی مجھے کچو کے لگا رہا ہے۔ اس لیے آج کے دن بھی آپ کو تحفہ پیش کرنے کی ہمّت نہیں ہو رہی ہے۔ ‘‘
’’والیہ صاحب آپ لو جک اچھّی پیش کرتے ہیں آپ کو تو وکیل ہونا چاہیے۔ ‘‘
’’وہ تو میں ہوں سر۔ میں نے L.L.Bبھی کر رکھا ہے۔ سر اجازت ہو تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’ٹھیک ہے ‘‘
’’والیہ صاحب نے میرے منہ سے ٹھیک ہے سنتے ہی تھیلے سے تحفہ نکال کر میری طرف بڑھا دیا۔ میں شکریے کے ساتھ تحفہ قبول کرتے ہوئے بولا۔
’’ آج تو میں یہ تحفہ لے لے رہا ہوں مگر یاد رکھیے آئندہ آپ کی کوئی لو جک نہیں چلے گی۔ ‘‘
’’ شکریہ، سر ! شکریہ، بہت بہت شکریہ !‘‘
ایک دن پڑھائی کے ختم ہونے کے بعد وہ میری طرف بڑی معصومیت اور بیچارگی سے دیکھنے لگے۔
کیا بات ہے میں نے پوچھا تو بولے،
’’سر ودیا کا کوئی مول نہیں ہے۔ استاد کے احسانوں کو شاگرد اپنی کھال کی جوتی پہنا کر بھی چکانا چاہے تو بھی نہیں چکا سکتا اور میں جس پرمپرا میں پلا ہوں وہاں گرو کے چرنوں میں تخت و تاج بھی چڑھانے کا رواج رہا ہے یہاں تک کہ گرو دکشنا میں اپنا انگوٹھا تک بھیٹ کیا جاتا رہا ہے مگر میں۔ ۔ ۔ ۔
’’کیا آج بھی آپ کچھ لائے ہیں ؟‘‘
جی لایا تو ہوں۔ ۔ ۔ در اصل میرے ایک عزیز امریکہ سے کچھ ٹائیاں لائے تھے۔ ایک ٹائی پر نظر پڑ تے ہی مجھے بے ساختہ آپ یاد آ گئے۔ آپ جس رنگ کا لباس پسند کرتے میں اس پر وہ ٹائی بہت جچے گی۔ آپ اور آپ کے لباس کی یاد آتے ہی میں نے اس ٹائی کے ڈبے کو آپ کے لیے اپنے تھیلے میں ڈال لیا۔ ڈالنے کوتو ڈال لیا مگر _____ ‘‘ ان کا چہرہ مایوسیوں سے بھر گیا۔
’’دکھائیے کیسی ٹائی ہے ؟‘‘میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
یہ سنتے ہی والیہ صاحب نے جلدی سے تھیلے میں ہاتھ ڈال کر ٹائی کا ڈبّا باہر نکال لیا اور اُسے کھول کر میری طرف سرکا دیا۔
ٹائی واقعی شاندار تھی اور اس کا رنگ میرا پسندیدہ رنگ تھا۔
’’ ٹائی تو واقعی بہت خوبصورت ہے ‘‘میں نے تعریف کی۔
سریہ آپ کے گلے سے لگ کر اور بھی خوبصورت ہو جائے گی۔ ‘‘ان کی مایوسی میں رمق دوڑ آئی۔
’’شکریہ، آج کیا پڑھنا ہے ؟
’’آج غالب کے خطوں کی خصوصیات بتا دیجیے ‘‘والیہ صاحب کی آوازسے بھی مایوسی غائب ہو گئی۔
ایک دن پڑھائی کے اختتام پر وہ بولے،
’’سر میں سنڈے کو سر ہند شریف ما تھا ٹیکنے گیا تھا۔ درگاہ سے باہر نکل رہا تھا تو میری نظر ایک دکان کے سامنے بچھی ایک جانماز پر پڑی۔ میں اس کی جانب کھنچتا چلا گیا۔ معلوم ہوا مکّہ شریف کی بنی ہوئی ہے۔ مجھے وہ متبرک جانماز بہت اچھی لگی اور میں نے اُسے بیگم صاحبہ کے لیے لے لی۔ آپ بُرا نہ مانیں تو بیگم صاحبہ کی خدمت میں میری طرف سے یہ جانماز پیش کر دیں۔ مجھے یقین ہے کہ انہیں بھی یہ جانماز پسند آئے گی۔ ‘‘اور انہوں نے جانماز کا پیکٹ میری طرف بڑھا دیا۔
’’والیہ صاحب یہ سب آپ کیوں کرتے ہیں ؟‘‘میں نے پوچھا تو بولے،
’’مجھے اچھّا لگتا ہے سر! اور سر ! تحفے کا رواج تو آپ کے مذہب میں بھی ہے۔ سنتا ہوں تحفے کے لین دین سے قربت بڑھتی ہے۔ اپنائیت کے جذبہ کو فروغ ملتا ہے۔ اس سے خلوص و محبت کی خوشبو پھیلتی ہے۔ ‘‘
’’سو تو ٹھیک ہے مگر اس تحائفی لین دین میں مجھے کچھ اور بوئیں بھی محسوس ہوتی ہیں۔ ‘‘
’’سر میرے تحفے میں اس طرح کی کوئی بو محسوس نہیں ہونی چاہیے۔ میں اسے بڑی عقیدت سے لایا ہوں۔ آپ اگر۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے میں انھیں دے دوں گا مگر میں پھر کہہ رہا ہوں کہ یہ سب مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا۔ کل آتے وقت کچھ پچھلے سالوں کے سوال بھی لیتے آئیے گا تاکہ ان کی روشنی میں آپ کی اور بہتر تیاری کرائی جا سکے ‘‘۔
’’جی بہتر، شکریہ‘‘
چار پانچ ملاقاتوں کے بعد والیہ صاحب کے آنے کی رفتار بڑ ھ گئی۔ اب وہ جلدی جلدی آنے لگے اور ہر بار کوئی نہ کوئی تحفہ بھی لانے لگے۔ کبھی کچن گارڈن کی تازہ سبزی۔ کبھی اپنے باغ کے موسمی پھل۔ کبھی کسی مشہور دکان کی کوئی مشہور مٹھائی۔ کبھی کسی مخصوص بیکری کی اسپیشل بسکٹ۔ کبھی لندن سے آیا ہوا کوئی تحفہ، کبھی ان کی سسرال چندی گڑ ھ سے آیا کوئی گفٹ، کبھی کچھ، کبھی کچھ۔ تحفے کے ساتھ وہ اپنی منطق بھی پیش کرتے رہے۔
والیہ صاحب کی معمولات میں فرق صرف یہ آیا کہ وہ دفتر کے بجائے گھر پر آنے لگے۔ یہ تبدیلی انہوں نے کیوں کی یہ بات ٹھیک سے میری سمجھ میں نہ آ سکی، البتہ ان کا گھر پر آنا دفتر کے مقابلے میں مجھے زیادہComfortableمحسوس ہوا۔
وہ روزانہ ٹھیک پانچ سوا پانچ کے درمیان گھر آ جاتے۔ وہ ہمیں خصوصاً میرے بچّوں اور بیوی کو دور ہی سے دکھائی دے جاتے۔ میرے ڈرائنگ روم کی ایک بڑی کھڑ کی سڑک کی طرف کھلتی تھی جس سے کافی دور تک کا منظر دکھائی دیتا تھا۔
میرے بچّوں کی نظر ان پر پہلے پڑتی اور جیسے ہی پڑ تی وہ قدرے اونچی آواز میں اپنی ممّی کو خبر کرتے۔
’’ممّی !ممّی ؛ دیکھیے، والیہ انکل آ رہے ہیں !‘‘
بچّوں کی آواز سنتے ہی اور کبھی کبھی آواز سے پہلے ہی میری بیوی کھڑ کی کے پاس پہنچ جاتیں۔ نظروں کا کھڑ کی سے باہر نکلتے ہی اُن کی آنکھوں میں ایک چمک سی دوڑ جاتی اور چہرے پر ایک عجیب طرح کی خوشی کی سی کیفیت ابھر آتی۔ ایک دن جب دیوار گھڑی کی سو ئیاں ساڑھے پانچ سے اوپر پہنچ گئیں اور چھوٹی سوئی چھ کے ہند سے کو چھونے لگی تو میری بیوی میرے پاس آ کر بولیں :
’’والیہ صاحب کہیں باہر گئے ہوئے ہیں کیا؟‘‘
’’نہیں تو، کیوں ؟‘‘ میں نے ان کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا
’’چھے بج گئے، ابھی تک وہ آئے نہیں اس لیے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ممکن ہے کسی وجہ سے دیر ہو گئی ہو یا آج کا پروگرام ملتوی کر دیا ہو ‘‘
’’یہ بھی تو ممکن ہے کہ ان کی طبیعت خراب ہو گئی ہو گئی ہو یا خدا نخواستہ راستے میں کچھ۔ ۔ ۔ آپ فون سے معلوم کیوں نہیں کر لیتے۔ ‘‘
’’ایسی بات ہوتی تو وہ خود ہی فون کر دیتے۔ ‘‘
’’آپ کر لیں گے تو کیا چھوٹے ہو جائیں گے ؟‘‘
بیوی کے اس جملے پر میں انہیں اور بھی زیادہ غور سے دیکھنے لگا۔
’’کچھ دیر اور انتظار کر لیتے ہیں، نہیں آئیں گے تو میں فون کر لوں گا، آپ بے چین نہ ہوئیے ‘‘
’’بے چین تو آپ کو بھی ہو نا چاہیے۔ آپ کے شاگرد ہیں۔ روزانہ کی روٹین ہے، شاگرد کے روٹین میں فرق آ جائے تو استاد کو فکر مند تو ہونا ہی چاہیے۔ ‘‘
مجھے ایسا لگا جیسے انہوں نے میرے دل کی بات کہہ دی ہو۔ والیہ صاحب کی تا خیر سے میرے اندر بھی ایک بے قراری کی سی کیفیت پیدا ہونے لگی تھی۔
ایک دن بچّوں کی آواز پر میری بیوی کھڑ کی کی طرف لپکیں اور کھڑ کی سے باہر دیکھنے لگیں مگر اس دن ان کی آنکھوں میں وہ چمک پیدا نہ ہو سکی جو اکثر والیہ صاحب کو گھر کی طرف آتا دیکھ کر ہوا کرتی تھی۔
والیہ صاحب گھر آ کر میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئے۔ کندھے سے تھیلا اتار کر حسب معمول میز پر رکھ دیا مگر بیگ کے علاوہ آج انہوں نے میز پر اور کوئی تھیلا یا پیکٹ نہیں رکھا جیسا کہ ان کا معمول تھا۔ ایک لمحے کے لیے مجھے بھی حیرت ہوئی مگر جلد ہی میری حیرت اس پھولے ہوئے بیگ کو دیکھ کر دور ہو گئی جسے ابھی ابھی انھوں نے کندھے سے اتار کر میز پر رکھا تھا۔ میری بیوی والیہ صاحب کے لیے پانی کا گلاس لے آئیں اور اسے میز پر رکھنے لگیں کہ اچانک ان کے چہرے کی بے اطمینانی میں اطمینان کی لہریں ہلکورے مارنے لگیں۔ وہ گلاس رکھ کر چلی گئیں اور ہم اردو ادب کی تاریخ سمجھنے اور سمجھانے میں مصروف ہو گئے۔
’’والیہ صاحب! اس سے قبل کہ ہم اردو ادب کی تاریخ پر نظر ڈالیں ہمیں تاریخ کی غرض و غایت کو سمجھ لینا چاہیے، کیا خیال ہے ؟‘‘
’’بالکل درست خیال ہے سر، انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں جواب دیا۔
’’والیہ صاحب کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ تاریخ ہوتی کیا ہے ؟‘‘
’’ جی ہاں میں بتا سکتا ہوں۔ اتفاق سے کل رات ہی میں نے ایک کتاب میں اس موضوع کا مطالعہ کیا ہے۔ تاریخ کے معنی ہیں گزرے ہوئے واقعات وسانحات کا ذکر۔ میرا مطلب ہے وہ نمایاں واقعات و حادثات جو ماضی میں رونما ہوئے اور جنہوں نے زمانے کے حالات کو متاثر کیا اور جن سے زندگیاں متاثر ہوئیں، ان کا ذکر یا ان کو دوہرانا تاریخ ہے، میں نے صحیح سمجھا ہے نا سر؟‘‘
’’والیہ صاحب میرے سوال کا جواب دے کر میری طرف داد طلب نظروں سے دیکھنے لگے۔
والیہ صاحب جب تاریخ کے بارے میں اپنے خیال کا اظہار کر رہے تھے، میری بیوی جو چائے کی ٹرے لگا رہی تھیں والیہ صاحب کی باتوں کو بڑے غورسے سن رہی تھیں۔
’’جی ہاں، آپ نے بالکل صحیح سمجھا۔ بس یوں سمجھیے کہ اردو ادب کے ارتقا میں جو اہم اور نما یاں موڑ آئے ہیں اور جن سے اردو ادب کے سفر میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اور ان تبدیلیوں سے اردو ادب کے چہرے پر جو نئے نئے تاثرات مرتب ہوئے ہیں وہی اردو ادب کی تاریخ ہے۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کب کب کہاں کہاں اور کس کس طرح کی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ان سے کیا کیا اثرات مرتب ہوئے تو سب سے پہلے ہم دکن کی طرف چلتے ہیں۔
میں نے اردو ادب کی تاریخ پر لیکچر دینا شروع کر دیا۔
تاریخ پر لیکچر کے دوران میری بیوی کسی نہ کسی کام کے لیے ہمارے پاس آ جاتی تھیں اور ان کی نظریں تھیلے پر مرکوز ہو جاتی تھیں۔ جب جب بیوی کی نظریں تھیلے پر مرکوز ہوتیں تب تب کچھ نہ کچھ تھیلے سے باہر نکل کر میرے ذہن میں جمع ہونے لگتا۔
والیہ صاحب جب سے آئے تھے کئی بار تھیلے میں ہاتھ ڈل کر کچھ نہ کچھ نکال چکے تھے لیکن تھیلے کا پھولا ہوا حصّہ ابھی تک جیوں کا تیوں بنا ہوا تھا۔
اردو ادب کی تاریخ پر میرا لیکچر ختم ہوا اور آخری بار والیہ صاحب نے جب تھیلے میں ہاتھ ڈالا تو میری بیوی میرے قریب سمٹ آئیں اور ان کی نظریں والیہ صاحب کے اس ہاتھ پر مرکوز ہو گئیں جس کا آدھا حصّہ تھیلے کے اندر جا چکا تھا۔ اس وقت مجھے ایک مداری یاد آ رہا تھا جو مجمعے کے درمیان ہر پانچ منٹ کے بعد ڈگڈگی روک کر اپنا ہاتھ اس پٹاری کے اندر ڈال دیتا تھا جس کے اندر کوئی عجیب و غریب سانپ بند تھا۔
والیہ صاحب کا ہاتھ تھیلے سے جب باہر آیا تو انگلیوں میں ایک موٹی سی کتاب دبی تھی۔ والیہ صاحب اس کتاب کی طرف میری توجہ مبذول کراتے ہوئے بولے
’’سر، مجھے ایک اچھی کتاب مل گئی ہے۔ میں یہ کتاب آپ کو دکھانے لایا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ اس میں میرے سارے ٹوپکس کور ہو جا رہے ہیں آپ ذرا ایک نظر اس پر ڈال لیجیے تو مجھے اطمینان ہو جائے گا۔
’’ کتاب ‘‘! یہ لفظ میرے منہ سے اس طرح نکلا جیسے تھیلے سے کتاب نہ نکلی ہو بلکہ کوئی اور چیز باہر آئی ہو۔ میری نظریں اس کتاب میں الجھ گئیں۔
’’سر ! آپ نے بتا یا نہیں کہ یہ کتاب تیاری کے لیے کیسی رہے گی؟‘‘
’’اچھی رہے گی، بہت اچھی رہے گی‘‘ میں جلدی جلدی ورق الٹنے لگا۔ ورق گردانی کے دوران مجھے محسوس ہوا جیسے کچھ آنکھیں مجھے غورسے دیکھ رہی ہوں۔
’’سر کتاب اچھی ہے نا ؟ ‘‘والیہ صاحب نے پُر جوش لہجے میں پوچھا۔
’’ہاں بہت اچھی ہے ‘‘میں نے والیہ صاحب کے کھلے ہوئے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا
’’سر، اب اجازت دیجیے۔ ‘‘
’’جی، ضرور‘‘ میں نے کتاب والیہ صاحب کی طرف بڑھا دی۔
والیہ صاحب نے تھیلا کھولا۔ تھیلے میں کتاب رکھی۔ تھیلے کو بند کیا۔ دونوں ہاتھ جوڑ ے۔ نمستے کیا اور اطمینان سے کھڑے ہو کر باہر نکل گئے۔
میری بیوی انھیں دور تک اس طرح دیکھتی رہیں جیسے وہ لوٹ کر آنے والے ہوں۔ جب والیہ صاحب پوری طرح نظروں سے اوجھل ہو گئے تو میری بیوی میرے پاس آ کر بیٹھتی ہوئی بولیں۔
’’آپ کے شاگرد کو آج کیا ہو گیا؟‘‘
’’کیا ہو گیا کا کیا مطلب ؟ ‘‘ میں نے وضاحت چاہی۔
’’مطلب یہ کہ آپ کو نہیں لگتا کہ وہ آج کچھ ____‘‘انہوں نے جملہ پورا نہیں کیا۔
’’لگتا تو ہے مگر ____ ‘‘ میں نے بھی جملے کو ادھورا چھوڑ دیا۔
’’مگر کیا ___؟‘‘بیوی نے بے چین ہو کر پو چھا۔
’’مگر یہ کہ کوئی وجہ بھی تو ہو سکتی ہے۔ ‘‘میں نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’بھلا ایسی بھی کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ رٹی رٹا ئی تاریخ بھی یاد نہ رہے۔ ‘‘
’’امتحان۔ ، سر پہ امتحان ہو تو کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ ‘‘ میں نے بیوی کو مطمئن کرنے کوشش کی۔
’’امتحان نہیں کتاب! امتحان میں تو سبق اور بھی یاد رہنا چاہیے ورنہ فیل ہو جانے کا خطرہ بنا رہتا ہے۔ آپ تو ماسٹر ہیں کیا اتنا بھی نہیں جانتے ؟‘‘
’’جانتا ہوں۔ مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کبھی کبھار کچھ بھول جانا چاہیے ورنہ چہرہ۔ ۔ ۔ میں ٹھیک، کہہ رہا ہوں نا؟‘‘
’’شاید ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں مگر اس طرح کی نصیحت کیا صرف دوسروں کے لیے ہی ہوتی ہے ؟‘‘
’’مطلب ؟‘‘
’’مطلب آپ کے چہرے پر لکھا ہوا ہے۔ نہیں سمجھ میں آ رہا ہو تو باتھ روم میں جا کر اپنا چہرہ دیکھ لیجیے ‘‘۔ اور وہ میری طرف گہری نظروں سے دیکھتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں۔
باتھ روم کا آئینہ میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور میری نظریں آئینہ کے عکس میں گڑ تی چلی گئیں۔
٭٭٭
مہا رشی ددھیچی
دھار دار لمبے دانتوں، تیز نکیلے سینگوں، زہر آلود گرم سانسوں اور کئی کئی ہاتھ والے دو پائے گنڈاسے اور کمانیں سنبھالے بگولوں کی طرح دھرتی پر ڈولنے لگے۔
دانت گردنوں میں پیوست ہو گئے۔ خون کے فوارے ابلنے لگے۔ سینگوں میں جسم گتھ گئے۔ دست و پا چھٹپٹانے لگے۔ پھونکوں سے دور دور تک پیڑ پودے جھلس کر راکھ ہو گئے۔ گنڈاسوں کے وار سے سروں کا انبار لگ گیا۔ کمانوں سے نکلتے تیر آگ برسانے لگے۔ طوفان اٹھانے لگے۔
اس بربریت اور غارت گری کو دویہ استربھی نہ روک سکے۔ شکست خوردہ اور خوف زدہ دیوتا تھکے ہارے گرتے پڑتے بھگوان برہما کی شرن میں پہنچے اور ہانپتے ہوئے بولے۔
’’اسروں نے ہمیں پراجت کر دیا مہاراج !ہم ان کے اتپات اور اتیاچار سے دھرتی کو نہ بچا سکے۔ سرشٹی کے وناش کو نہ روک پائے۔ پراڑیوں کے پران کی رکشا نہ کر سکے۔ ان کا آتنک بڑھتا جا رہا ہے مہاراج۔ یدی انھیں روکا نہیں گیا تو دھرتی نشٹ ہو جائے گی سرشٹی مٹ جائے گی ‘‘۔
بھگوان برہما کی صاف ستھری پیشانی لکیروں سے اٹ گئی۔ چندن کے چاند نما ٹیکے میں دراڑیں پڑ گئیں۔
برہما نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ من چنتن میں ڈوب گیا۔ بند آنکھوں میں پورب، پچھم، اتّر، دکھّن ایک ایک کر کے ساری دشائیں ابھریں۔ دشاؤں کے گربھ سے کچھ عکس ابھرے۔ عکس تھوڑی دیر ٹھہرے پھر مٹ گئے۔ آخر میں ایک ایسا عکس ابھرا جو دیر تک رکا رہا۔ اس عکس سے شعاعیں پھوٹیں۔ بند آنکھیں روشنی سے بھر گئیں۔ اس روشنی کی جھلک برہما کے ماتھے پر بھی سمٹ آئی۔ چندن کا تڑخا ہوا چاند پھر سے ہموار ہو گیا۔
برہما نے اپنی پلکیں کھول دیں۔ آنکھوں کی کرنوں سے دیوتاؤں کے بجھے ہوئے چہرے بھی جگمگا اٹھے۔
دیر سے چپّی سادھے ہوئے بھگوان برہما کے لب بھی وا ہو گئے۔
’’آپ لوگ مہا رشی ددھیچی کے پاس جائیے۔ وہی اس سنکٹ کا ندان کر سکتے ہیں ‘‘۔
بھگوان برہما کی صلاح پر دیوتا مہارشی ددھیچی کے پاس پہنچے۔ مہارشی ددھیچی اپنی کٹیا میں دھیان لگائے بیٹھے تھے۔
دیوتاؤں نے ان سے اسروں کے ظلم و جبر، دھرتی کی تباہی و بربادی، سرشٹی کی تہس نہس اور اپنی لاچاری و بے بسی کی روداد سنائی تو مہا رشی ددھیچی کا سراپا کپکپا اٹھا۔ ان کا دھیان ٹوٹ گیا۔ وہ چنتن منن سے باہر آئے۔
ان کی فکر مند آنکھوں نے دیوتاؤں کے دیدوں میں راکشسوں کے اتپات سرشٹی کے وناش اور چہروں پر خوف و ہراس اور اضطراب کو دیکھا تو ان کی پلکیں کپکپا اٹھی۔ آنکھیں نم ہو گئیں۔ چہرہ اداسیوں سے بھر گیا۔ انھوں نے اپنے پران تیاگ دیے۔
ان کی ہڈیوں سے تین شستر نکلے :
اجگو، گانڈیو اور سارنگ۔
شنکر نے اجگو، اندر نے گانڈیو اور وشنو نے سارنگ اٹھا لیے۔
پھر سے یدھ شروع ہوا۔
راکشسوں کے سردار بر تر اسر اور اس کے ساتھی مہارشی ددھیچی کی ہڈیوں سے نکلے شستروں کا مقابلہ نہ کر سکے۔ ان کے وار سے دانوؤں کا بدھ ہو گیا۔
سنکٹ ٹل گیا۔ دھرتی ظلم و استبداد سے نجات پا گئی۔ سرشٹی غارت گری سے محفوظ ہو گئی۔ مخلوقات کے جان و مال کو تحفظ حاصل ہو گیا۔ دیوتاؤں کی چنتا بھی دور ہو گئی۔
سنسار چین کا سانس لینے لگا۔
مگر سمے کے کال چکر نے پھر سے اپنا چکر چلا دیا۔
دانو پھر سے دھرتی پر ڈولنے لگے۔
قتل و خون کا بازار گرم ہو گیا۔ ہری بھری وادیاں ملیامیٹ ہونے لگیں۔ جان و مال تباہ و برباد ہونے لگے۔ راکشسوں کی نوچ کھسوٹ، بربریت، دہشت گردی اور غارت گری سے ماحول پھر سے انتشارو اضطراب کا شکار ہو گیا۔ چاروں طرف ہاہاکار مچ گئی۔ چیخ و پکار اور درد و کراہ سے زمین و آسمان دہلنے لگے۔
دیوتاؤں نے ظلم و جبر کو روکنا چاہا مگر وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے۔ مدد کے لیے بھگوان برہما کے پاس پہنچے۔
روداد سن کر بھگوان برہما کی پیشانی پر لکیریں ابھریں۔
لکیریں گہری ہوئیں
چندن کا ٹیکا تڑخا
آنکھیں بند ہوئیں
بند آنکھوں میں بہت سارے عکس ابھرے
مٹے
آخر کار ایک عکس ٹھہر گیا
اس عکس کے ٹھہرتے ہی بھگوان برہما کے ہونٹ کھل گئے :
’’مہارشی ددھیچی کے پاس جائیے۔ وہی اس سنکٹ سے مکتی دلاسکتے ہیں ‘‘۔
’’پرنتو مہارشی ددھیچی تو کب کے پران تیاگ چکے ہیں مہاراج!‘‘
دیوتاؤں نے برہما کو یاد دلایا۔
بھگوان برہما سر ہلاتے ہوئے نہایت پر اعتماد لہجے میں بولے۔
’’یہ ستیہ ہے کہ مہا رشی ددھیچی نے اپنے پران تیاگ دیے تھے پرنتو کیایہ سمبھونہیں ہے کہ جس پرکار اسروں نے پنر جنم لیا ہے مہارشی ددھیچی نے بھی پنر جنم پراپت کیا ہو ؟‘‘
’’اوشیہ سمبھوہے مہاراج !‘‘دیوتاؤں نے ایک آواز ہو کر بھگوان برہما کی بات کی تائید کی۔
’’تو پھر جائیے، مہا رشی ددھیچی کو ڈھونڈیے، ولمب مت کیجیے انیتھا۔ ۔ ۔
’’مہاراج ہم انھیں پہچانیں گے کیسے ؟‘‘ایک کم عمر دیوتا نے سوال کیا۔
’’آپ کا پرشن اچت ہے۔ برہما نے اس کم عمر دیوتا کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’دھنیہ واد مہاراج!‘‘
’’مہارشی ددھیچی دھیان میں لین ہوں گے۔ مکھ پر تیج اور آ کرشن ہو گا۔ آس پاس کا واتاورن پرکاش مے ہو گا۔ وہاں ادبھت درشیہ دیکھنے کو ملیں گے۔ آپ کی بات سن کر وہ ویاکل ہو اٹھیں گے۔ ان کا ما تھا چنتا کی ریکھاؤں سے بھر جائے گا، انتتہ وہ اپنے پران تیاگ دیں گے ‘‘۔
بھگوان برہما سے پہچان کی تفصیل سن کر دیوتامہار شی ددھیچی کی تلاش میں نکل پڑے۔ اِدھر ادھر بھٹکتے ہوئے وہ ایک مٹھ پر پہنچے۔ مٹھ کا ماحول ایک عجیب طور کے نور سے معمور تھا۔ مٹھ کے صحن میں ایک دلکش چبوترہ تھا۔ اس چبوترے پر ایک رشی دھیان لگائے بیٹھے تھے۔ ان کی آنکھیں بند تھیں۔ ماتھے پر چندن کا ٹیکا اس طرح چمک رہا تھا مانو چندرما ان کے للاٹ پر خود براجمان ہو۔
انھیں دیکھ کر دیوتاؤں کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
دیوتاؤں نے مہارشی ددھیچی کی طرف اپنا منھ کر کے نہایت درد ناک لہجے میں راکشسوں کے ظلم و ستم کا حال سنایا۔ دھرتی پر سرشٹی کی تباہی و بربادی کی روداد بیان کی مگر رشی کی آنکھیں نہیں کھلیں۔ انھوں نے بار بار اپنی روداد دہرائی۔ پھر بھی رشی کا دھیان نہیں ٹوٹا۔ رشی اپنے چنتن منن سے باہر نہیں نکلے۔ ان کے بدن میں کپکپی نہیں پیدا ہوئی۔ ان کے پران ان کے جسم سے الگ نہیں ہوئے۔
دیوتا وہاں سے نا امید اور مایوس ہو کر ایک اور رشی کے پاس پہنچے۔ اس رشی کا مٹھ بھی روشنی سے جگمگا رہا تھا۔ ان کے مکھ سے بھی تیج پھوٹ رہا تھا۔ وہ بھی دھیان میں مستغرق تھے۔ ان کو بھی دیوتاؤں نے اپنا حال سنایا۔ بار بار سنایالیکن ان کا دھیان بھی بھنگ نہیں ہوا۔ انھوں نے بھی اپنے پران نہیں تیاگے۔
دیوتا ایک اور رشی کے پاس گئے۔ وہاں بھی انھیں مایوسی ہاتھ آئی
دیوتا ایک ایک کر کے روئے زمین پر موجود ان تمام رشیوں کے پاس گئے جن کے اندر وہ نشانیاں موجود تھیں جنھیں بھگوان برہما نے بتائی تھیں مگر کسی بھی رشی کا دھیان نہیں ٹوٹا۔ کسی نے پران نہیں تیاگے۔
چاروں طرف سے مایوس ہو کر دیوتا دوبارہ بھگوان برہما کے پاس پہنچے۔
’’کیا بات ہے ؟‘‘بھگوان برہما نے ان کی حالت کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’مہاراج!مہارشی ددھیچی نہیں ملے ‘‘۔
’’ہاں مہاراج، ہم ایسے سارے رشیوں کے پاس گئے جو دھیان میں لین تھے، جن کے مکھ پر تیج تھا۔ جن کے واتاورن میں پرکاش گھلا ہوا تھا پرنتو کسی کا بھی دھیان نہیں ٹوٹا۔ کسی کے بھی مکھ پر چنتا کی ریکھائیں نہیں ابھریں کسی نے اپنے پران نہیں تیاگے ‘‘۔
بھگوان برہما کے ماتھے کا چندنی چاند تڑخ گیا۔ دھیرے دھیرے ان کی پلکیں بند ہوتی چلی گئیں۔
بند پلکوں میں مہارشی ددھیچی ابھر آئے۔
ددھیچی جو ایک منش تھے، جنھوں نے اپنی کڑی تپسیا اور گھور سادھنا سے سدھی پراپت کر لی تھی،
جو اپنے
جپ سے
تپ سے
دھیان اور گیان سے
مہارشی اور مہان بن گئے تھے
جنھوں نے اپنے
یس سے
اگنی کو
وایو کو
ورشا کو
جل کو
تھل کو
آکاش کو
پاتال کو
سب کو
اپنے بس میں کر لیا تھا
ددھیچی جن کی ہڈیوں میں وجر باس کرتے تھے
اجگو، سارنگ اور گانڈیوبستے تھے۔
’’کیا کوئی ایسا رشی نہیں دیکھا جس کے پاس اگنی، وایو، ورشا، جل آکاش، پاتال اتیادی دکھائی دیئے ہوں ‘‘۔ اپنی پلکیں کھولتے ہوئے برہما نے سوال کیا۔
’’ایک رشی ایسے اوشیہ دکھائی دیئے مہاراج جن کی انگلی کے سنکیت سے چمتکار اتپن ہو رہے تھے ‘‘۔
’’کیا؟‘‘
’’ہاں مہاراج !‘‘
’’تنک وستار سے بتائیے ‘‘۔
’’ایک بہت شانت، شیتل، سندر، سکھداستھان پر انوٹھے بھیس بھوشا میں ایک رشی چمچماتے ہوئے چبوترے پر آسن لگائے بیٹھے تھے۔ آنکھیں بند تھیں۔ ماتھے سے تیز کرنیں نکل رہی تھیں۔ ایک ہاتھ میں ہیرے کے دانوں والی مالا تھی جسے ان کی انگلیاں تیز گتی سے پھیر رہی تھیں۔ رشی دھیان میں بیٹھے بیٹھے اپنے دوسرے ہاتھ کی انگلی وِبھن دشاؤں میں اٹھاتے اور انگلی کے اٹھتے ہی ادبھوت درشیہ دکھائی دکھائی دینے لگتے۔
کبھی وہ اپنی انگلی کا سنکیت اس اگنی کی اور کرتے جو ایک ہون کنڈ میں دھدھک رہی تھی۔ سنکیت پاتے ہی اگنی ترنت بجھ جاتی مانو ہون کنڈ میں اگنی ہو ہی نہیں اور کبھی سنکیت پا کر اس کنڈ کے بھیتر سے جوالا بھڑک اٹھتا۔ اسی پرکار انگلی اوپر اٹھتی تو آکاش سے کبھی ورشا ہونے لگتی تو کبھی پتھر برسنے لگتے اور کبھی شستر اور استر گرنے لگتے۔ انگلی نیچے جھکتی تو دھرتی سے پانی کا فوارہ ابل پڑتا۔ کبھی انگلی کے سنکیت سے وایو تیبر گتی سے بہنے لگتی اور کبھی رک جاتی۔ وہاں اور بھی بہت سارے ادبھوت درشیہ اور چمتکار دیکھنے کو ملے مہاراج !‘‘
’’تو کیا انھوں نے بھی اپنا دھیان نہیں توڑا ؟‘‘
’’نہیں مہاراج! ان کا دھیان بھی نہیں ٹوٹا ‘‘۔
بھگوان برہما کی آنکھیں پھر بند ہو گئیں۔
بند آنکھوں میں برہمانڈ سمٹ آیا۔
برہمانڈ کے ماتھے پر ریکھائیں ابھرنے لگیں
ریکھائیں جنھیں خود برہما نے کھینچی تھیں
مگر برہما کی آنکھیں انھیں پڑھنے سے قاصر تھیں۔
٭٭٭
محبت کے رنگ
میرے سینے کے درد کی دھمک ثمینہ کی سماعت تک پہنچ گئی۔ دہکتے ہوئے انگاروں سے بھری انگیٹھی اور درد مٹانے والے تیل کی شیشی لیے ثمینہ آناً فاناً میرے پاس آ دھمکی۔
’’ ماسٹر صاحب ! بٹن کھولیے، تیل مالش کر دوں۔ ‘‘
میں جھجھکا تو خود اس کی انگلیاں میری قمیض کے بٹنوں تک پہنچ گئیں۔
’’ رہنے دو ثمو! کچھ دیر میں درد یونہی چلا جائے گا۔ ‘‘
’’ یونہی کیسے چلا جائے گا۔ درد یونہی چلا جاتا تو پھر یہ دوائیں کیوں ایجاد ہوتیں ؟ تکلف نہ کیجیے۔ ہاتھ ہٹائیے اور مجھے اپنا کام کرنے دیجیے۔ ‘‘
’’ بے کار میں تم ضد کر رہی ہو۔ ‘‘
’’ضد میں نہیں، آپ کر رہے ہیں، پلیز ہاتھ ہٹائیے، ورنہ درد بڑھتا چلا جائے گا اور اگر خدا نہ خواستہ درد زیادہ بڑھ گیا تو اس وقت کوئی ڈاکٹر بھی نہیں ملے گا۔ ‘‘
ثمینہ کی انگلیوں نے میرے ہاتھ کو قمیض سے الگ کر دیا اور خود بٹن کھولنے میں مصروف ہو گئیں۔
قمیض کے دونوں سرے میرے دونوں پہلوؤں کی جانب کھسک گئے۔ گرم تیل اور خلوص میں ڈوبی ثمینہ کی نرم گرم انگلیاں میرے مضطرب سینے پر تیزی سے پھرنے لگیں۔ آہستہ آہستہ درد سرکنے لگا۔ درد مند انگلیوں کے خلوص نے میری نگاہوں میں ایک پیکر ابھار دیا۔ یہ وہ پیکر تھا جو اکثر ایسے موقعوں پر میرے پاس سمٹ آتا تھا اور جس کے آتے ہی درد سرک کر کہیں دور چلا جاتا تھا۔ اس پیکر کا لمس رگ و ریشے میں سکھ بھر دیتا تھا۔ یہ وہ پیکر تھا جو ایک حادثے میں ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گیا تھا اور مجھے اپنے قرب سے ہمیشہ کے لیے محروم کر گیا تھا۔
ممتا اور محبت کے اس پیکر کے کھونے اور اپنے خالی ہو جانے کا سارا کرب میری آنکھوں میں سمٹ آیا۔ روشن دیدوں میں پانی بھر آیا۔ پیکر اس پانی میں ڈوب گیا۔ دیر تک میں رو مال سے نم آلود اور بوجھل پلکوں کو صاف کرتا رہا۔ رو مال ہٹا تو میری نگاہوں نے دیکھا کہ ثمینہ کی نظریں میری آنکھوں پر مرکوز تھیں۔ وہ یک ٹک مجھے دیکھے جا رہی تھی جیسے وہ کچھ تلاش کر رہی ہو اور اس کی نرم گرم انگلیاں اور بھی مستعدی سے میرے سینے پر پھر رہی تھیں۔ اس کی متلاشی آنکھیں اور رقص کناں انگلیاں دونوں مجھے اچھی لگیں۔ میری نگاہیں متلاشی آنکھوں پر مرکوز ہو گئیں۔ اس بار وہ مجھے پراسرار بھی لگیں۔ مجھے یہ بھی محسوس ہوا جیسے وہ میرے اندر اترتی جا رہی ہوں اور شاید کچھ کہنا بھی چاہ رہی ہوں۔ میں دیر تک ثمینہ کی آنکھوں کی پراسراریت کو پڑھنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر اچانک میرے ذہن میں عجیب و غریب قسم کے خیالات ابھرنے لگے۔ پہلے تو میں ان خیالوں کو ادھر ادھر جھٹکتا رہا۔ بعد میں مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے ہم اس کمرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور ہمارے ارد گرد کی ایک ایک چیز کا رنگ بدلتا جا رہا ہے۔
تمھارا ذہن کہاں بھٹکنے لگا اشفاق ؟ تم یہ کیا کیا سوچنے لگے ؟ میرے اندر کی ایک آواز مجھے روکنے لگی۔
تم کس کی باتوں میں آ رہے ہو ؟آج جب ایک حقیقت تمھارے سامنے آ گئی ہے اور تمھیں محسوس ہونے لگا کہ سامنے والی آنکھیں تمھیں کسی اور رنگ میں دیکھ رہی ہیں تو تمھارا یہ سوچنا کوئی غیر فطری عمل نہیں ہے۔
دوسری آواز مجھے آگے بڑھنے کا جواز فراہم کرنے لگی۔
’’مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ پہلی آواز نے بات شروع ہی کی تھی کہ دوسری آواز اس کی تردید میں بول پڑی۔
’’ مگر کیا؟یہی نہ کہ اس نئی سمت میں اڑنا اٹ پٹانگ لگ رہا ہے۔ یہ اٹ پٹا پن بہت دیر تک باقی نہیں رہے گا۔ نئے احساس کا فطری پن اس کے بند کو بہت جلد توڑ دے گا۔
دوسری آواز کی اس دلیل کے بعد میری نگاہوں کے پھیلاؤ کا دائرہ بڑا ہو گیا۔ ثمینہ کی آنکھوں کا رنگ اور گہرا اور گاڑھا نظر آنے لگا۔ دیدوں کے آئینے میں کچھ منظر بھی چمکنے لگے :
’’ ماسٹر صاحب! لائیے اپنے کپڑے دیجیے، میں دھو دوں۔ ‘‘
’’میرے میلے کپڑے دھوؤ گی؟‘‘
’’کیا میں اپنے میلے کپڑے نہیں دھوتی؟‘‘
’’ پھر بھی‘‘
’’ تکلف نہ کیجیے۔ جلدی سے د ے دیجیے، نہیں تو آنگن سے دھوپ نکل بھا گے گی۔ ‘‘
’’ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’مگر مجھے اچھا لگتا ہے۔ میں سچ کہہ رہی ہوں، آپ کا کام کر کے مجھے خوشی ملتی ہے۔ ‘‘
__________
’’ماسٹر صاحب ! یہ پھول آپ کے لیے۔ ۔ ‘‘
’ ’میرے لیے کیوں ؟‘‘
’’آپ کو پھول بہت پسند ہیں نا اس لیے۔ بازار گئی تھی تو سب کے لیے کچھ نہ کچھ لائی۔ آپ کا خیال آیا تو یہ پھول نظر آ گئے۔ اچھے ہیں نا ؟‘‘
__________
’’اشفاق ! تمھیں معلوم ہے ثمینہ نے یہ فرنی کیوں بنائی ہے ؟‘‘
’’ کیوں بنائی ہے امّی جان ؟‘‘
’’ تمھاری کامیابی کی خوشی میں، کلاس میں تم اوّل جو آئے ہو نا۔ ‘‘
’’لیکن یہ کامیابی ایسی بھی نہیں کہ جشن منایا جائے۔ ‘‘
’’کیوں، ایسی کیوں نہیں ہے ماسٹر صاحب!ہمارے لیے یہ بہت بڑی خوشی کی بات ہے۔ میرا بس چلتا تو میں اس خوشی کو خوب دھوم دھام سے مناتی۔ ‘‘
منظروں کے آس پاس ثمینہ کا وہ چہرہ بھی ابھر آیا جس پر ہیڈ لائٹس کی طرح موجود اس کی بڑی بڑی معنی خیز آنکھیں مختلف موقعوں پر میری جانب مرکوز ہوتی رہی ہیں۔ شاید کچھ بولنے یا بتانے کی کوشش کرتی رہی ہیں مگر میں اس کی نگاہوں کی زبان کو نہ سمجھ سکا۔ ان کی معنی خیزی کا مفہوم نہ پا سکا۔
میری نظروں کے سامنے ابھرے مناظر اور ثمینہ کے نظروں کے اسرار دونوں مل کر میرے آگے معنی کے در وا کرنے لگے۔ پھر سے چیزوں کا رنگ بدلنے لگا۔ رنگ سے پھوٹنے والی شعاعوں نے میرے ذہن کے آگے منڈرانے والے دھندلکوں کو دور کر دیا۔
ثمینہ ایک نوجوان، خوبصورت اور پرکشش لڑکی کی شکل میں تبدیل ہو گئی۔ اس کے خط و خال، رنگ روپ، نشیب و فراز، لب ورخسار، قد و قامت سبھی مجھے اچھی طرح دکھائی دینے لگے۔ اس کے اس نئے روپ کی جلتی ہوئی تیلیوں نے میرے جسم کے چراغوں کو روشن کر دیا۔ آہستہ آہستہ لویں اٹھنے لگیں۔ اٹھتی ہوئی لوؤں کی روشنی میں میں اوپر اڑنے لگا۔ میرے ساتھ ثمینہ بھی اڑنے لگی۔ اڑتے اڑتے ہم ایک ایسے گھر میں پہونچ گئے جہاں در و دیوار سے جاں فزائی نور پھوٹ رہا تھا۔ طلسماتی رنگ ابھر رہا تھا۔ ماحول سحرساز خوشبوئیں بکھیر رہا تھا۔ فضا میں ایک کیف آگیں موسیقی گھل رہی تھی۔ میں کم خواب کے بستر پر پڑا تھا اور جوان خوبرو ثمینہ میرے کھلے ہوئے چوڑے چکلے سینے پر اپنی نرم گداز انگلیوں سے گرم گرم تیل مالش کر رہی تھی اور میرا خواب کسی داستانوی شہزادے کی طرح اڑان بھرتا جا رہا تھا۔
’’ثموّ! گیارہ بج گئے، سوئے گی نہیں ؟‘‘
نچلی منزل سے ثمینہ کی ممّی کی آواز آئی اور خواب بکھر گیا۔
ثمینہ چلی گئی اور میں خیالوں کی دنیا میں کھو گیا۔
میرے پاس سے جا چکی ثمینہ ایک نئے روپ میں پھر سے میرے قریب آ دھمکی۔ اس کی جادوئی آنکھوں نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا اور اس کے یاقوتی لب کچھ بولنے کے لیے مچلنے لگے۔ شاید وہ یہ کہنا چاہتے ہوں :
میری آنکھوں کی زبان تو ناکام ہو ہی گئی تھی، لگتا ہے انگلیوں کی زبان بھی اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو پائی۔ میں کیا کروں کہ زبان کھولے بنا میرے دل کا حال آپ کے دل تک پہنچ جائے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ میں ایک عورت ہوں اور عورت اس معاملے میں اپنے لب نہیں کھولتی۔
__________
اچھا ہوا کہ میرے دل کی بات آپ تک پہنچ گئی ورنہ پتا نہیں میرا کیا حال ہوتا؟ میرا اضطراب مجھے کس کس کرب سے گزارتا؟ مجھ میں درد کی کتنی فصلیں اگاتا؟کب تک مجھے کانٹوں کے بستر پر سلاتا؟ مجھے ان لذ توں اور مسرتوں سے محروم رکھتا جن سے میں ان دنوں سرشار ہوں۔
__________
’’ابھی تک تیار نہیں ہوئے۔ اٹھیے جلدی کیجیے۔ آج ہمیں تھاوے کی دیوی کا میلہ دیکھنے جانا ہے۔ آج کا میلہ میں آپ سے دیکھوں گی۔ دکھائیں گے نا؟ اس میلے میں لڑکیوں کے مطلب کی بہت ساری چیزیں آتی ہیں۔ جیب گرم کر کے چلیے گا۔ اور ہاں، سنا ہے اس بار کوئی مشہور نوٹنکی پارٹی آئی ہوئی ہے۔ روز پیار محبت کا کھیل دیکھا رہی ہے۔ آج شیریں فرہاد کا کھیل دکھانے والی ہے۔ کسی طرح باجی وغیرہ کو گولی دے کر ایک دو گھنٹے کے لیے ان سے الگ ہو جائیں گے۔ بڑا مزہ آئے گا۔ میں چلتی ہوں، آپ تیار ہو کر نیچے آ جائیے۔
خیالوں کے سحر نے ایسا سماں باندھا کہ دل و دماغ نے میرے ہاتھ میں کاغذ قلم تھما دیا:
خط لکھ کر مجھے ایسی سرشاری ملی جیسے یہ خط ثمینہ نے مجھے لکھا ہو۔ میں نے اسے کئی بار پڑھا اور پھر تہہ کر کے اپنے تکیے کے نیچے رکھ دیا۔
کچھ دیر بعد تکیے کے نیچے دبا خط میرے تکیے کو آہستہ آہستہ اوپر اٹھاتا گیا۔ تکیے کے ساتھ ساتھ میں بھی اوپر اٹھتا گیا اور پھر اڑن تشتری کی طرح وہ مجھے خلاؤں میں ادھر ادھر اڑانے لگا۔
ثمینہ کے تئیں میرے سینے میں جاگے اس نئے احساس نے ایسا مرہم لگایا کہ درد ایک بار بھی اپنا سر نہ اٹھا سکا۔ صبح سے شام تک تو درد کو ڈاکٹر کی دوا نے روکے رکھا مگر رات آتے ہی میرے منھ سے کراہ نکلنا شروع ہو گئی۔
ثمینہ آگ اور تیل لے کر پھر میرے کمرے میں آ گئی۔
اسے دیکھتے ہی میری کراہ میں اور تیزی آ گئی۔
’’کیا بات ہو گئی ماسٹر صاحب!دن میں تو درد نہیں تھا ؟‘‘ وہ میری طرف حیران و پریشان ہو کر دیکھنے لگی۔
’’پتہ نہیں،یکایک درد کیوں بڑھ گیا؟‘‘ مختصر سا جواب دے کر میں خاموش ہو گیا۔
’’آپ نے ڈاکٹر کو دکھایا تھا؟‘‘ میرے سرہانے بیٹھتے ہوئے اس نے پوچھا۔
’’ دکھایا تو تھا اور ڈاکٹر کی دوا سے درد تھم بھی گیا تھا مگر اس وقت پھر۔ ۔ ۔ ۔ میرا لہجہ بھی درد سے بھر گیا۔
’’گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ کل ڈاکٹر کو پھر دکھا لیجیے گا۔ اس وقت میں تیل کی مالش کر دے رہی ہوں۔ اس سے درد ضرور کم ہو جائے گا۔ ‘‘
’’تم کیوں تکلیف اُٹھا تی ہو شمّو! دوا کھا لی ہے کچھ دیر بعد تھوڑا بہت درد کم ہوہی جائے گا، تم جاؤ! سو جاؤ!‘‘سارا دن کام کرتی رہی ہو تھک گئی ہوں گی۔ ‘‘
کہنے کے لیے میں نے ثمینہ سے جانے کے لیے کہہ دیا تھا مگر دل ڈر رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ثموّ واپس چلی جائے۔ ایک بار وہ کسمسائی تو محسوس ہوا جیسے جانے کے لیے اٹھ رہی ہو۔ اس وقت مجھے اپنے آپ پر بہت غصہ آیا اور جی میں آیا کہ میں اپنے دماغ کے اس حصے کو کسی مضبوط شکنجے میں کس دوں جو خواہ مخواہ کی فارملٹیز نبھاتا رہتا ہے۔
’’ نہیں، میں بالکل نہیں تھکی ہوں اور تھکی بھی ہوتی تو میری تھکن آپ کے درد سے زیادہ اہم تو نہیں ہوتی۔ ‘‘ یہ کہہ کر ثمینہ میرے سینے پر مالش میں مصروف ہو گئی، ثمینہ کے اس جملے نے میرے رگ و ریشے میں کیف وانبساط کا نشہ گھول دیا۔
آج بھی وہ میرے چہرے کی طرف یک ٹک دیکھے جا رہی تھی۔ میں بھی اس کی نظریں بچا کر کبھی کبھی اس کے سراپے کو دیکھ لیا کرتا تھا۔ جی چاہ رہا تھا کہ وہ یونہی ساری رات میرے پاس بیٹھی رہے۔ اس کی نرم گرم انگلیاں میرے سینے پر رقص کرتی رہیں۔ مجھ میں حرارت دوڑتی رہے۔ اس کی نظریں میرے چہرے پر جمی رہیں اور میری نگاہیں اس کے سراپے کا طواف کرتی رہیں اور اس جاں بخش رات کی کبھی صبح نہ ہو۔
کافی وقت گذر گیا۔ نہ میں نے اس سے جانے کے لیے کہا، اور نہ ہی اس نے مجھ سے اجازت طلب کی۔ ہم دونوں خاموشی سے اپنے اپنے کام میں مشغول رہے۔
نیچے سے ثمینہ کی امی کی آواز آئی اور ثمینہ کے لب بول پڑے
’’جاؤں ؟‘‘
’’جاؤ!‘‘ یہ لفظ میرے منھ سے اس طرح نکلا جیسے میں نے یہ کہا ہو کہ ’’مت جاؤ۔ ‘‘
ثمینہ جانے لگی تو میرے تکیہ کے نیچے پڑے خط نے مجھے ایک بار پھر ٹہوکا دیا۔ وہ پہلے بھی کئی بار ٹہوکے دے چکا تھا مگر میں ہر بار اسے ٹالتا رہا تھا۔ لیکن اس مرتبہ اس کے ٹہوکے پر خاموش رہ جانا میرے بس میں نہیں تھا۔ یکایک میرے منھ سے نکل گیا۔ ’’سنو!‘‘
اس کے قدم رک گئے۔
’’کیا بات ہے ؟ ‘‘ وہ میری طرف حیران ہو کر دیکھنے لگی۔
’’یہ لو، اسے پڑھ لینا۔ ‘‘ جلدی سے میں نے وہ خط تکیے کے نیچے سے نکال کر اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ چند لمحے تک وہ حیرانی کے عالم میں مجھے دیکھتی رہی۔ پھر اس کی انگلیوں نے میرے خط کو اپنی مٹھی میں دبا لیا۔ میں اسے آخری زینے تک دیکھتا رہا۔
خط میرے تکیے کے نیچے سے جا چکا تھا مگر میرے سر میں ایک اضطراب پیدا کر گیا تھا۔ دماغ کے خانوں میں طرح طرح کے خیالات جمع ہو کر ہلچل مچا رہے تھے۔ جی چاہتا تھا کہ کوئی کرشمہ ہو جائے اور آن کی آن میں یہ رات صبح میں تبدیل ہو جائے یا صبح کے بجائے رات میں ہی میرے خط کا جواب مل جائے۔ دل کے کسی گوشے میں رہ رہ کر یہ امید بھی انگڑائی لے رہی تھی کہ ممکن ہے خط پڑھنے کے بعد ثمینہ کسی بہانے سے اوپر آ جائے۔
اس اضطراب نے مجھے صبح تک جگائے رکھا۔ ایک لمحہ بھی مجھے چین لینے نہیں دیا۔ خدا خدا کر کے رات کی سیاہی ہٹی اور صبح کی سفیدی نمودار ہوئی تو میں تیار ہو کر وقت سے پہلے ہی ناشتے کی میز پر جا بیٹھا۔ اس وقت کا انتظار رات کے اضطراب سے زیادہ بھاری پڑ رہا تھا۔ ثمینہ جب نظر آئی تو انتظار کا بھاری سل تو ہٹ گیا مگر ایک عجیب طرح کی بے قراری نے مجھے دبوچ لیا۔ ثمینہ قدرے سست رفتار سے میرے پاس پہنچی۔ نظریں نیچی کیے ہوئے اس نے مجھے سلام کیا۔
وہ ناشتے کی پلیٹوں کے ساتھ میز پر ایک لفافہ بھی رکھ کر چلی گئی۔
اس کے جاتے ہی میں نے لفافہ کھول لیا۔
محترم ماسٹرصاحب!
تسلیم
آپ نے لکھا ہے کہ میں تمھیں نہیں سمجھ سکا تو واقعی آپ مجھے نہیں سمجھ سکے۔ آپ نے اپنے چہرے پر جمی میری آنکھیں دیکھ کر اور ان میں محبت کی جھلک محسوس کر کے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے لیکن آپ کو غلط فہمی ہوئی۔ آپ پر مرکوز ہونے والی میری نگاہیں خلوص اور محبت سے بھری ضرور تھیں مگر وہ ایک بہن کی آنکھیں تھیں جو اپنے بھائی کے چہرے پر پھیلے ہوئی اداسیوں کے ڈورے اور بھیگی ہوئی آنکھوں میں تیرتے ہوئے غموں سے اس کی زندگی کے خلا ء اور محرومیوں کا اندازہ کر رہی تھیں۔ افسوس کہ میں آپ کی خواہش کی تکمیل نہیں کر سکتی۔
آپ کی بہن
ثمینہ
ثمینہ کا خط پڑھ کر مجھے لگا جیسے کسی نے میرے ذہن پر ہتھوڑا مار دیا ہو مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہوا جیسے اس ہتھوڑے کی ضرب سے چھٹکی چنگاریوں نے میرے رگ و ریشے میں ایک نئی قسم کی محبت کی گرماہٹ بھر دی ہو۔
٭٭٭
آبیاژہ
تگ و دو کے بعد بھی کنواں جب پیاسوں کے ہاتھ سے نکل گیا تو کسی گہرائی سے زور دار قہقہے بلند ہوئے۔ جیسے کوئی اپنی طاقت اور دوسرے کی ہزیمت کا احساس دلا رہا ہو۔
پیاس،یاس اور شکست کے احساس نے پیاسوں کو ایسا مضطرب اور مشتعل کیا کہ ان کے چہرے کی زردیوں میں بھی سرخیاں لپلپانے لگیں۔ ان کے اندر کا ہیجان باہر بھی نظر آنے لگا۔ ان کا سراپاہیبت ناک بن گیا۔
وہ وہاں سے اس طرح نکلے جیسے وہ ساری کائنات کو روند ڈالیں گے۔ سب کچھ توڑ پھوڑ کر رکھ دیں گے۔ ان کی آنکھوں کی چنگاریاں سب کچھ جلا کر راکھ کر دیں گی۔ ان کے سخت جبڑے خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ ان کی تنی ہوئی بھویں اپنے تیر چلا کر رہیں گی۔ ان کے بھینچے ہوئے ہونٹ چپ نہیں رہیں گے۔ ان کے مشتعل ہاتھوں کے پتھر رکیں گے نہیں۔ یوں ہی برستے رہیں گے اور راہ میں آنے والوں کے سر پھوڑتے رہیں گے۔
یکبارگی قہقہے خاموش ہو گئے۔ زعفران زار ماحول پر سکوت طاری ہو گیا۔ جیسے قہقہوں پر فالج گر گیا ہو۔ یا کسی نے قہقہہ لگانے والے کی گردن دبا دی ہو۔
پیاسے پتھر اچھالتے اور زمین کو روند تے ہوئے مختلف سمتوں میں آگے بڑھتے چلے گئے۔
’’اے خلاؤں میں پتھر اچھالنے اور آنکھوں سے آگ برسانے والے نوجوانِ شرر بار! اے اپنے ہی ہاتھوں جانِ عزیز کو زِک پہچانے اور اپنا مال و متاع لٹانے والے مسافرِ جاں نثار!‘‘
اچانک کوہساری فضا کے سینے سے آبشاری آواز پھوٹ پڑی۔ صحرا زدہ سماعت میں گلستانی صوت و صدا نے آہنگِ سحر ساز بھر دیا۔
سحر البیانی نے ایک نوجوان کا راستہ روک دیا۔ پتھر اچھالنے والے مشتعل ہاتھ ٹھٹھک گئے۔ نگاہیں آواز کے تعاقب میں بھٹکنے لگیں۔
’’آنکھوں کو زحمت نہ دو۔ میں تم سے دور نہیں ہوں۔ میں تو تمہارے اتنے قریب ہوں کہ تم چاہو تو میرا لمس محسوس کر سکتے ہو۔ ‘‘
نوجوان کی پتلیاں ساکت ہو گئیں۔ اس کے دیدوں کے گرم شیشے نرم پڑ گئے۔ سانسوں میں جاں بخش خوشبو بسنے لگی۔ کھولا ہوا دماغ لمسِ کیف آگیں سے ٹھنڈا ہونے لگا۔
’’واقعی‘‘ تم ضرور کہیں میرے آس پاس ہی موجود ہو اور میں تمھارا لمس بھی محسوس کر رہا ہوں۔ میں یہ تو نہیں جانتا کہ تم کون ہو مگر تمھاری آواز اور خوشبو سے محسوس ہوتا ہے کہ تم جو بھی ہو میرے لیے باعثِ انبساط ہو۔ کیا میں اس دل نشیں آواز اور فرحت بخش خوشبو کے منبع کو دیکھ سکتا ہوں ؟ ‘‘
’’کیا اتنا کافی نہیں کہ میں تمھارے قریب ہوں اور تم مجھے اچھی طرح محسوس کر رہے ہو۔ ‘‘
’’نہیں،یہ کافی نہیں ہے۔ میں جلد سے جلد اُس آواز اور خوشبو کے مرقعے کو دیکھنا چاہتا ہوں جس نے میری پیاس اور یاس دونوں کو کم کر دیا ہے اور شاید میرے غُصّ۔ .. اگر یہ ممکن ہے تو براہِ کرم میرے سامنے آؤ اور اپنا جلوہ دکھاؤ۔ ‘‘
’’تمھارے لیے سب کچھ ممکن ہے نوجوان! اس لیے نہیں کہ تم ایک مخلوقِ اشرف ہو۔ خوبرو اور نوجوان ہو بلکہ اس لیے کہ تمھارے مشتعل ہاتھوں کے پتھر اور مضطرب پیروں کے ٹھوکر تمھیں پراسرار بناتے ہیں۔ تمھارے سینے کے شور اور رگ و ریشے کے زور کا قصہ سناتے ہیں۔ تمھاری شرر فشاں آنکھیں ہمارا دامنِ دل کھینچتی ہیں۔ ہمارا راستہ روکتی ہیں۔ تمھارا اشتعال ہمارے تجسّس کو بڑھاتا ہے۔ ہمارے جذبۂ شوق کو بھڑکاتا ہے اور اس لیے بھی کہ تم ایک قدر شناس نوجوان ہو۔ تمھیں لذّتِ لمس اور قدر و قیمتِ صوت کی پہچان ہے۔ تمھیں شوقِ نظارۂ رنگ و نور بھی ہے اور ذوقِ جمال یار کی لطف اندوزی کا شعور بھی۔ لو، دیکھ لو! میں پوری طرح بے حجاب ہو گئی۔ فضائے غیر مرئی سے نکل کر جہان مرئی میں آ گئی۔
آواز کے رکتے ہی خلا کے بطن سے ایک خوبصورت خلد آشیاں مخلوق خندۂ زیرِ لبی کے ساتھ مثلِ خورشید طلوع ہو گئی۔ آن کی آن میں ایک مصفّا، مجلّیٰ، مَنوّر اور مشکبار حسن مداراتِ محبوبانہ میں مشغول ہو گیا۔ رنگ و نور اور کیف و سرور کی بارشیں شروع ہو گئیں۔
بیاباں گزیدہ نوجوان اس جمالِ جاں نواز کی جلوہ آرائی میں کھو گیا۔ اس کی تشنگی پر مدہوشی کا غلاف چڑھ گیا۔
کچھ دیر تک مبہوت اور بے حس و حرکت رہنے کے بعد نوجوان کے ہونٹوں پر جنبش ہوئی۔ خماری لہجے میں ہولے سے ایک سوال ابھرا۔
’’تم کون ہو اے روحِ حیات؟‘‘
’’میں جان فزا ہوں اے مسافرِ برگشتۂ جہات و کائنات!‘‘ دلبری سے لبریز لبِ لعلیں سے نغمہ ریز جواب پھوٹا۔ ‘‘
’’تم سچ مچ جاں فزا ہو جاں فزا!‘‘ زبان کے ہمراہ نوجوان کی آنکھیں بھی بولنے لگیں۔
’’واقعی؟‘‘ جاں فزا کی نظریں بھی سوال کرنے لگیں۔
’’بلاشبہ۔ ‘‘ نوجوان کی زبان اور آنکھوں دونوں نے یقین دلایا۔
’’شکریہ۔ ‘‘
’’کس بات کا؟‘‘
’’قدردانی کا‘‘۔
’’ایک سوال اور پوچھوں ؟‘‘
’’پوچھو۔ ‘‘
’’اس بیاباں میں تم کیسے ؟‘‘
’’سچ بتاؤں۔ ‘‘
’’ہاں، سچ بتاؤ۔ ‘‘
’’تمھیں یقین نہیں آئے گا۔ ‘‘
’’پھر بھی بتاؤ۔ ‘‘
’’میں تمھارے لیے آئی ہوں۔ ‘‘
’’کیا؟‘‘
’’ہاں۔ ‘‘
’’کیوں اس صحرا گزیدہ ستم رسیدہ سے مذاق کر رہی ہو؟‘‘
’’یہ مذاق نہیں، حقیقت ہے جاں نثار! میں سچ مچ تمھارے لیے آئی ہوں۔ ‘‘
’’تم میرا نام بھی جانتی ہو!‘‘ جاں نثار کے دیدے پھیل گئے۔
’’میں تمھارے بارے میں اور بھی بہت کچھ جانتی ہوں۔ ‘‘
’’کیا؟ سچ بتاؤ تم کون ہو، میں نے تمھیں خواب میں بھی نہیں دیکھا ہے اور تم میرے بارے میں —— ‘‘ اس کے دیدوں کا پھیلاؤ اور بڑھ گیا۔
’’میں جاں فزا ہوں، پری خانے کی ایک پری۔ میرا کام تم جیسے انسانوں کو صعوبتوں سے نجات دلانا اور تمھارے اضطراب کو سکون پہچانا ہے۔ ‘‘
’’اچھا!‘‘ جاں نثار کی حیرت بڑھتی گئی۔
’’تمھیں یقین نہیں ہو رہا ہے نا؟‘‘
’’ہاں، یقین تو نہیں ہو رہا مگر تم سے میرے اضطراب کو سکون ضرور مل رہا ہے۔
’’آہستہ آہستہ یقین بھی ہو جائے گا۔ ‘‘
’’خدا کرے ایسا ہو! ایک اور بات پوچھوں جاں فزا؟‘‘
’’ضرور پوچھو۔ ‘‘
’’تم پرستان کے پرسکون ماحول کی رہنے والی ایک نازک اندام مخلوق ہو۔ ہم جیسے انسانوں کے لیے اس گرم صحرائی فضا میں کیوں آئی ہو؟‘‘
’’تاکہ تمھارا اضطراب کم کر سکوں۔ تمھیں سکون پہنچا سکوں اور یہ بات میں تمھیں پہلے بھی بتا چکی ہوں۔ ‘‘
’’مگر کیوں ؟اس میں تمھارا کیا فائدہ ہے۔ ؟‘‘
’’یہ تو میں بھی نہیں جانتی۔ میں تو بس اتنا جانتی ہوں کہ میرے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ میں مشتعل اور مضطرب مسافروں کی مدد کروں۔ ان کا اضطراب مٹاؤں۔ انھیں پرسکون بناؤں مگر تمھارے تئیں اس فرض میں میرا دل بھی شامل ہو گیا ہے۔ ‘‘
’’مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ تم پر میرا دل آ گیا ہے۔ کیا اس محاورے کا مفہوم بھی سمجھانا پڑے گا؟‘‘
’’نہیں،یہ میں سمجھتا ہوں۔ ‘‘
’’پھر تو تم یہ بھی سمجھتے ہو گے کہ دلِ عاشق اپنے محبوب کے دل کے ساتھ تنہائی میں ملنا چاہتا ہے۔ اس سے باتیں کرنا چاہتا ہے۔ ‘‘
’’ہوں۔ ‘‘
’’تو چلیں پرستان کے کسی خلوت خانے میں۔ ‘‘
’’ان کار کی جرأت میں اپنے اندر نہیں پا رہا ہوں۔ ‘‘
جاں فزا آگے بڑھی اور جاں نثار کو اپنے ہمراہ لے اڑی۔ پلک جھپکتے ہی وہ پرستان کے ایک خلوت کدے میں پہنچ گئے۔
جاں فزا نے جاں نثار کے جسم سے لباسِ بیابانی اتروا کر اسے پرستانی پوشاک سے آراستہ کر دیا۔
لباس کے تبدیل ہوتے ہی جاں نثار بھی بدل گیا۔ بے تاب جسم پرسکون کا لبادہ چڑھ گیا۔ بے قرار جان کو قرار آ گیا۔ ویران آنکھوں میں نور بھر گیا۔ مضمحل اور پژمردہ چہرہ شگفتہ دکھائی دینے لگا۔
جاں فزا کی نگاہیں جاں نثار کے سراپے پر مرکوز ہو گئیں۔
’’اس طرح کیا دیکھ رہی ہو جاں فزا؟‘‘
’’یہی کہ تم کتنے وجیہہ، کتنے پر وقار اور کتنے پرکشش ہو! تمھارے مردانہ حسن میں ایسی جاذبیت ہے کہ آنکھوں کو اپنے پاس ٹھہرا لے۔ دیکھنے والے کا چین چھین لے۔ مخاطب کا ہوش اڑا دے۔ اسے پاگل بنا دے۔ ‘‘
’’تم پھر مرا مذاق اڑانے لگیں جاں فزا!‘‘
’’نہیں، جاں نثار! یہ مذاق نہیں ہے۔ میں حقیقت بیان کر رہی ہوں۔ تمھیں یقین نہیں آ رہا ہے تو آؤ میرے ساتھ۔ ‘‘
’’کہاں ؟‘‘
’’آؤ تو۔ ‘‘
جاں فزا جاں نثار کا ہاتھ پکڑے تیزی سے دوسرے کمرے میں داخل ہو گئی۔
اس کمرے کے آئینے نے جاں نثار کو حیرت میں ڈال دیا۔ وہ اتنا پرکشش ہے، کبھی اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ جاں فزا کی ذرا سی توجہ اور ظاہری آرائش نے اسے اتنا خوبصورت بنا دیا تھا کہ خود اسے اپنا سراپا، اس کا اپنا نہیں لگ رہا تھا۔ اگر اس پر پوری توجہ ہو جائے اور وہ چیز اسے مل جائے جس کے لیے وہ صحرا میں بھٹکتا پھر رہا ہے تو اس میں اور کتنی شادابی پیدا ہو سکتی ہے وہ اور کتنا دل کش ہو سکتا ہے ! اس کا ذہن اپنی ذات کے تصور میں کھو گیا۔
’’کیا میں مذاق کر رہی تھی؟‘‘
جاں نثار خاموش رہا۔
’’بولو جاں نثار! کیا یہ آئینہ بھی مذاق کر رہا ہے ؟ تمھاری خاموشی میری تائید کر رہی ہے جاں نثار! تم سچ مچ بہت خوبصورت ہو۔ تمھارے مردانہ حسن نے مجھے دیوانہ بنا دیا ہے۔ مجھے تم سے عشق ہو گیا ہے عشق!‘‘
’’مجھے یقین نہیں ہو رہا ہے ‘‘۔
’’کیوں ؟‘‘
’’اس لیے کہ خوبصورتی ریگستان میں نہیں، پرستان میں ہوتی ہے۔ کشش خزاں رسیدوں میں نہیں، باغ و بہار کے پروردوں میں ہوتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے جاں فزا کہ دیوانہ مجھے تم نے بنا دیا ہے۔ میں تمھارے پاس آ کر سب کچھ بھول گیا ہوں۔ مجھے اب کچھ بھی یاد نہیں رہا، یہاں تک کہ۔ ..‘‘
’’تم سچ کہہ رہے ہو؟‘‘
’’بالکل سچ۔ ‘‘
’’گویا ہم دونوں ایک ہی جذبے سے مغلوب ہیں۔ ‘‘ جاں فزا جاں نثار کے قریب آ گئی۔ ہوش ربا خوشبوؤں کا جھونکا جاں نثار کی سانسوں کے دریچے میں اتر گیا۔
جاں فزا نے اپنی پرفسوں آنکھیں جاں نثار کے چہرے پر مرکوز کر دیں۔ آفتابی دیدوں سے نکلی نشیلی روشنی کی تیز شعاعیں جاں نثار کو بے قابو کرنے لگیں۔ وفورِ شوق میں اس کی گردن جاں فزا کے چہرے کی طرف جھک آئی مگر جھجھک اب بھی باقی رہی۔ رمز شناس پرستانی دوشیزہ نے آگے بڑھ کر اپنے لب جاں نثار کے ہونٹوں سے ملا دیے۔
جاں نثار نے اپنے اندر شہد کا سا مٹھاس محسوس کیا۔ جاں فزا کی شفاف مخروطی انگلیاں جاں نثار کے جسم پر رقص کرنے لگیں۔ انگلیوں کی تھرکن نے جاں نثار کے رگ و پے میں ارتعاش پیدا کر دیا۔
جاں نثار کے ہونٹ جاں فزا کے لبوں کو چومنے اور چوسنے کے بعد اس کی آبِ رواں جیسی شفّاف رانوں پر اتر آئے اور باری باری سے دونوں رانوں پر کچھ دیر تک زبان پھیرنے کے بعد وہاں سے اٹھ کر جاں فزا کے کھلے ہوئے پستانوں کی سمت لپک پڑے۔ دونوں گولائیوں پر کچھ دیر تک زبان پھیرنے کے بعد جاں نثار کے ہونٹوں نے ایک پستان کے نکیلے حصّے کو اپنے اندر لے لیا اور وہ گرسنہ لب اسے اس طرح چوسنے لگے جیسے کوئی شیر خوار بچّہ اپنی ماں کی چھاتی کو چوستا ہے۔ ایک پستان کے بعد جاں نثار نے دوسرے پستان کو اپنے منہ میں لے لیا۔
دوسرا پستان چوستے چوستے اچانک اس کے متحرک ہونٹ ساکت ہو گئے۔ پستان ہونٹوں سے باہر نکل آیا۔ منہ کا اندرونی حصّہ خشک ہو گیا۔ ہونٹوں پر پپڑیاں جم گئیں۔ ہونٹوں کے ساتھ ساتھ جاں نثار کا جسم بھی بے دم سا ہو گیا۔
’’تم کہاں ہو جاں نثار؟‘‘ جاں فزا یکبارگی چونک پڑی۔
’’میں یہیں ہوں جاں فزا۔ تمھارے پاس۔ ‘‘ دبی زبان میں جواب برآمد ہوا۔
’’نہیں، جاں نثار! تم یہاں نہیں ہو۔ تم کہیں اور ہو۔ سچ بتاؤ، تمھارا ذہن اس وقت کہاں ہے ؟‘‘
’’جاں فزا! میں تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا۔ در اصل اس وقت میں پیاس کی زد میں ہوں۔ ‘‘
’’صاف صاف بتاؤ جاں نثار! اس وقت تم کہاں کھوئے ہوئے ہو۔ ‘‘
’’پانی کی تلاش میں۔ ‘‘
’’پانی کی تلاش میں ؟‘‘ پانی کیا میرے ان پیارے پیارے رسیلے پستانوں سے زیادہ اہم ہے ؟‘‘
’’ہاں، جاں فزا! پانی زیادہ اہم ہے۔ بلاشبہ تمھارے یہ پستان بہت پیارے ہیں۔ ان میں شاید رس بھی ہے اور ان میں میرے لیے پیار بھی مگر —–
’’مگر کیا؟‘‘
’’مگر یہ کہ ان میں پانی نہیں ہے۔ ‘‘
’’حیرت ہے کہ ان کی موجودگی میں تم پانی —–
’’تمھاری حیرت بجا ہے۔ اس لیے کہ تم پری زاد ہو۔ تمھیں پیاس نہیں لگتی۔ تم پیاس اور پانی کے رشتے کو نہیں سمجھ سکتیں۔ مجھے جانے دو جاں فزا! میری بھڑکی ہوئی پیاس مجھے اب اور یہاں نہیں رہنے دے گی۔ مجھے پانی کی تلاش میں نکلنا پڑے گا۔ اس لیے میں اب چلتا ہوں۔ ‘‘
’’ٹھہرو! تمھیں پانی چاہیے نا۔ میں ابھی آتی ہوں اور آبیاژوں کا ڈھیر تمھارے سامنے لگا دیتی ہوں۔ جی بھر کر اپنی پیاس —–
’’آبیاژہ! تم کیسے جانتی ہو آبیاژے کو؟ آبیاژہ تو دارالامان میں —–
’’جاں نثار! آبیاژہ ہماری بھی ملکیت ہے۔ ‘‘
’’میں سمجھا نہیں۔ ‘‘
’’جاں نثار! میں دارالامان کے پری خانے کی پری ہوں۔ ‘‘
’’اچھا تو تم دارالامان کی پری ہو!‘‘ جاں نثار کی آنکھوں میں ایک بار پھر سے حیرت بھرگئی۔
’’جاں نثار! میں ابھی آئی۔ ‘‘ جاں فزا تیزی سے محل کے دوسرے کمرے کی طرف روانہ ہو گئی۔
جاں نثار کا ذہن دارالامان کے اس کمرے میں پہنچ گیا جہاں اس کی پیاس بجھانے کے لیے طرح طرح کی سبیلیں نکالی گئی تھیں۔
’’لو، اسے چوسو! تمھاری پیاس بجھ جائے گی۔ ‘‘ ڈبّے سے ایک آبیاژہ نکال کر جاں فزا جاں نثار کی طرف بڑھاتی ہوئی بولی۔ ‘‘
’’جاں نثار کی نگاہیں جاں فزا کی انگلیوں میں دبی ایک سفید چوکور ٹکیے کی جانب مرکوز ہو گئیں۔ صاف شفاف ٹکیے سے رنگ و نور کی شعاعیں نکل رہی تھیں۔ ‘‘
اس شفّاف چوکور ٹکیے میں ایک ایک کر کے وہ سارے منظر ابھر آئے جو دارالامان کے ایک پراسرار کمرے میں محدّب شیشے پر اس کی اکتاہٹ دور کرنے کے لیے ابھارے گئے تھے۔
پہلے منظر میں ایک مطربہ ابھری۔ اس کے ارد گرد سازندے ابھرے۔ سازندوں کے آگے طرح طرح کے ساز ابھرے۔ سازوں کے تار چھڑے اور تاروں سے جھنکاریں ابھریں۔ جھنکاروں کے ساتھ ہی مطربہ کے لب کھلے اور ان لبوں سے صوت و صدا کے آبشار پھوٹتے چلے گئے۔
دوسرے منظر میں ایک رقاصہ نمودار ہوئی۔ گھونگھرو چھنکے۔ کولھے مٹکے، ٹھمکے برسے۔ کمر لچکی۔ لوچ کے تیر چلے۔ دیدے چمکے۔ پتلیاں ناچیں۔ آنکھوں سے آندھیاں اٹھیں۔ کرشمے نکلے۔ غمزے برسے۔ بھنووں کی کمانی تنیں۔ بھاؤں کے بھید کھلے۔ اداؤں کے بان چھوٹے۔
تیسرے منظر میں جادو دکھا۔ کوزے میں دریا سمٹا۔ بوتل میں جن اترا۔ مٹھی سے کبوتر نکلا۔ خالی ڈبّا مٹھائی سے بھرا۔ آگ میں پھول کھلا۔ آب میں شعلہ اگا۔ مرد عورت بنا۔ آدمی خلا میں معلق ہوا۔
چوتھے میں کھیلوں کا رنگ جما۔ بازیوں کا زور چلا۔ بلّے چلے۔ گیندیں اچھلیں۔ تلواریں چلیں۔ تیر چھوٹے، قلابازیاں ہوئیں۔ دوڑ لگی، گھوڑے دوڑے۔ ہاتھی دوڑے۔ مرد دوڑے۔ عورتیں دوڑیں۔ زور آزمائی ہوئی۔ پہلوان لڑے۔ جسم بھڑے۔ پانی میں پیراکیاں ہوئیں۔ ڈبکیاں لگیں۔ لڑکیاں مچھلیاں بنیں۔ گورے چٹّے، دبلے پتلے، چھریرے چھریرے جسم تیرے۔ کھلے کھلے اعضا چمکے۔
پانچویں منظر میں سائنس کے کمالات و ایجادات کا مظاہرہ ہوا۔ میزائلیں چھوٹیں۔ خلا میں طیّارے اڑے۔ چاند ستاروں اور سیّاروں کا سیر ہوا۔ قطبیں ملیں۔ فاصلے مٹے۔ زمین آسمان ایک ہوئے۔
چھٹے منظر میں ادب کو منظر میں لایا گیا۔ کہانیاں کہی گئیں۔ تجسّس بڑھایا گیا۔ تخیّل کو اڑایا گیا۔ جذبۂ شوق کو جگایا گیا۔ شدّتِ احساس کو بڑھایا گیا۔ لطف و انبساط کا دریا بہایا گیا۔
آبیاژے سے اٹھ کر جاں نثار کی نظریں جاں فزا کے پستانوں پر پہنچ گئیں۔ گورے گدرائے سڈول پستانوں سے رنگ و نور کی شعاعیں نکل رہی تھیں۔
کچھ دیر تک پستانوں کے رنگ و نور کو دیکھنے کے بعد نگاہیں اوپر اٹھ کر جاں فزا کے لبوں کی جانب مبذول ہو گئیں۔
رس سے بھرے سرخ لبوں کے معائنے کے بعد نگاہیں وہاں سے اتر کر رانوں پر آ گئیں اور صاف شفّاف رانوں کا جائزہ لے کر پھر سے جاں فزا کی انگلیوں میں دبے آبیاژے پر مرکوز ہو گئیں۔
اچانک اس کے کانوں میں گہرائی سے آتے ہوئے وہی قہقہے سنائی دیے جو کبھی کنویں کے پاس سنائی پڑے تھے۔
جاں نثار کی پیشانی پھر سکڑ گئی۔ اس کی بھنویں تن گئیں۔ دیدے سُلگ اٹھے۔ آنکھوں میں چنگاریاں بھر گئیں۔ جبڑے سخت ہو گئے۔ مٹھیاں بھنچ گئیں۔ ہاتھ ہوا میں لہرانے لگے۔
وہ جاں فزا کے پاس سے اٹھ کر باہر جانے لگا۔
’’کہاں جا رہے ہو جاں نثار! رک جاؤ۔ اچھا! یہ آبیاژہ تو لے لو جاں نثار! دیکھو اس سے تمھاری پیاس ضرور بجھ جائے گی۔ ۔ ۔ ‘‘ جاں فزا اسے آواز دیتی رہی مگر اس کے پاؤں نہیں رکے۔ وہ غیض و غضب میں آگے بڑھتا گیا۔
محل سے باہر نکل کر اس کا اشتعال اور اضطراب اور بڑھ گیا۔ ‘‘
اس کے کانوں میں گونجنے والے قہقہوں کی آوازیں یکبارگی خاموش ہو گئیں۔ جیسے ان پر فالج گر پڑا ہو۔ یا کسی نے قہقہہ لگانے والے کی گردن دبا دی ہو۔
کچھ دور جانے کے بعد جاں نثار کے پاؤں پھر رک گئے۔ اس کے مشتعل ہاتھ پھر ٹھٹھک گئے۔
ایک نئی آواز اس کے کانوں میں گونجنے لگی تھی:
آ اے دھوپ میں جھلسنے والے نوجوان اجنبی
ترے جسم سے تمازت کے خار نکال دوں
تجھ پر اپنی زلفیں پسار دوں
تری زندگی کو سنوار دوں
تجھے پیار دوں
آ اے دشت و صحرا میں بھٹکنے والے پریشان اجنبی
تری بے کلی کو سنبھال دوں
ترے دل کو صبر و قرار دوں
ترا رنگ و روپ نکھار دوں
تری زندگی کو سنوار دوں
تجھے پیار دوں
اس کی نگاہیں آواز کے تعاقب میں بھٹکنے لگیں۔
٭٭٭
درد کی کمی کا کرب
صبح کی سیر کے دوران راستے میں روزانہ ہی اظہار الدین کی نگاہیں ایک پر کشش معمر خاتون پر پڑتیں۔ اس خاتون کے ایک ہاتھ میں ایک پٹّا ہوتا ہے اور اس پٹیّ سے بندھا ایک کتّا۔
کتّے کے کسے ہوئے سڈول اور چھریرے جسم پر ایک گرم کپڑے کی صدری چڑھی ہوتی جس کا رنگ ہر دوسرے تیسرے دن بدل جاتا۔ کتّا سر سے پا تک صاف ستھرا چکنا اور پرکشش دکھتا تھا۔ وہ اس معمر خاتون کے ہمراہ اس طرح چلا کرتا جیسے کسی زمانے میں لکھنؤ کے شرفا چلا کرتے تھے۔
معمر خاتون کے دوسرے ہاتھ کی مٹھی کسی کسی موڑ پر کھل جاتی اور ان کی ہتھیلی سے رنگ برنگ کے خشک میوے جھانکنے لگتے۔ مٹھّی کھولتے وقت ان کے منہ سے ایک مخصوص قسم کی آواز نکلتی۔ آواز پر کتّے کی گردن ہتھیلی کی طرف مڑ جاتی اور اس کا منہ آہستہ آہستہ چلنے لگتا۔
کتے کے ڈیل ڈول، اس کی چکنی چمک دار کھال، اس کے صاف ستھرے سڈول جسم، پیٹھ پر پڑی گرم رنگین صدری اور میوے سے بھرا اس کا منہ دیکھ کر بار بار اظہار الدین کی نظریں سڑک کے کناروں پر دوڑ جاتیں جہاں کچّی اور کنکریلی زمین پر دبلے پتلے، مریل جسم، دھنسے ہوئے پیٹ، باہر نکلی ہوئی ہڈیوں، ڈھیڈ کیچ سے سنی آنکھوں، ناک سے لبوں تک بہتی پیلی رطوبت، گالوں پر جگہ جگہ چپکی رینٹ، گردن، ہتھیلیوں، ہاتھ پیروں اور دوسرے انگوں پر جمے میل کے چکتّے والے بچّے، میلے کچیلے، پھٹے پرانے ہلکے کپڑوں میں اپنے دونوں ہاتھوں سے سینے کودبائے ٹھٹھر رہے ہوتے جسیے اپنے اندر گرمی بھر رہے ہوں یا اندر کی حرارت کو باہر نکلنے سے روک رہے ہوں۔ اس وقت اظہار الدین کے جی میں آتا کہ کتّے کی پیٹھ سے صدری کھینچ کر کسی بچے کو پہنا دیں اور معمر خاتون کی مٹھی سے میوے چھین کر فٹ پاتھ پر پڑے بچوں کی طرف اچھال دیں۔ ان کے جی میں یہ بھی آتا کہ وہ اس معمر خاتون سے کہیں کہ وہ فٹ پاتھ پر ٹھٹھرتے ہوئے بچوں میں سے کسی کو کیوں نہیں پال لیتیں۔ دونوں کی عاقبت سنور جائے گی۔ اظہار الدین کے دل میں اٹھی یہ بات ان کے لبوں تک تو نہ آ سکی مگر دب بھی نہ سکی۔
ایک دن اس خاتون کو ایک بڑے سے گیٹ والے مکان میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ کر اظہار الدین کے پاؤں ٹھٹھک گئے۔ اس گیٹ کے داہنی طرف کھمبے پر ایک تختی لگی تھی جس پر اردو میں ’’ خواب زار‘‘ لکھا تھا۔ اردو رسم الخط میں لکھا ہوا اردو لفظ اس بڑے مکان بلکہ حویلی کہنا چاہیے، کے لمبے چوڑے گیٹ پر اظہار الدین کو بہت اچھا لگا۔ اس اردو لفظ کی بدولت اس مکان اور مکان کی مکین سے انہیں آناً فاناً میں اُنس سا ہو گیا۔
دوسرے دن اس خاتون پر نظر پڑتے ہی ان کے احترام میں اظہار الدین کا ہاتھ اٹھ گیا اور ساتھ ہی لبوں سے ایک لفظ ’’آداب‘‘ بھی اچھل پڑا۔
معمر خاتون نے اظہار الدین کی طرف چند ثانیے کے لیے غور سے دیکھا اور جواب میں بہت ہی بے دلی سے ’’آداب‘‘ پھینک کر آگے بڑھ گئیں۔
دوسرے دن اظہار الدین کے ’’آداب‘‘ میں ’’کیسی ہیں ؟‘‘ کا فقرہ بھی جڑ گیا۔ جواب میں اُدھر سے فائن، تھینکیو! تو نکلا مگر ان لفظوں میں وہ بات اظہار الدین کو محسوس نہیں ہوئی جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔
اظہار الدین کے روز روز مزاج پوچھنے پر ایک دن معمر خاتون کے منہ سے بھی ایک جملہ نکل آیا ’’ آپ کیسے ہیں ؟‘‘
اظہار الدین کو ان کے منہ سے یہ جملہ سن کر بہت اچھا لگا۔ پھر باقاعدہ دونوں طرف سے کیسی ہیں اور کیسے ہیں ؟ کا سلسلہ چلنے لگا۔ ان جملوں نے انہیں کچھ قریب لا دیا۔
’’ کل آپ نہیں آئیں ؟ ‘‘ اظہار الدین نے ایک دن ان سے پوچھا تو بولیں۔
’’جی، گلفام بیمار تھا۔ ‘‘
’’گلفام!اظہار الدین چونکے۔
’’میراڈوگ۔ ‘‘
’’او—-کیا ہوا تھا اسے ؟‘‘
’’یہی سیزنل ڈیزیز، نزلہ زکام۔ ‘‘
’’اب کیسا ہے ؟‘‘
’’بہتر ہے۔ ‘‘
’’آج اسے ٹہلانے نہیں لائیں ؟‘‘
’’آج وہ ریسٹ کر رہا ہے۔ ‘‘
’’گلفام بہت پیارا ہے۔ ‘‘
’’تھینکیو۔ ‘‘
’’خدا کرے وہ پوری طرح جلد سے جلد ٹھیک ہو جائے۔ ‘‘
اس جملے کی ادائیگی کے وقت پتا نہیں اظہار الدین کو کیوں ایسا محسوس ہواجیسے انہوں نے یہ کہا ہو کہ خدا کرے وہ جلد سے جلد مر جائے۔ ‘‘
’’تھینکیو، ویری مچ، چلتی ہوں، گلفام کواسٹیم (Steam)دلوانا ہے۔ ‘‘ وہ تیز تیز ڈگ بھرتی ہوئی آگے بڑھ گئیں۔
اظہار الدین کی آنکھیں انھیں دور تک دیکھتی رہیں۔ ان کے اوجھل ہوتے ہی اظہار الدین کے دیدوں کے سامنے ایک منظر ابھر آیا۔
’’ بیٹے !آج چھٹی لے لو۔ تمہارے ابّو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ ان کے سینے میں رہ رہ کر درد اٹھ رہا ہے، خدانخواستہ درد زیادہ بڑھ گیا تو۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’امّی ! آپ خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہیں۔ گیس کی پرابلم ہے۔ دوا دے دی گئی ہے۔ کچھ دیر میں اپنے آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔ اور آپ تو ہیں ہی۔ میں رکا تو میرا بہت بڑا نقصان ہو جائے گا۔ ‘‘
یہ منظر اظہار الدین کی آنکھوں کو گیلا کر گیا۔
معمر خاتون سے اظہار الدین کی بے تکلفی بڑھتی گئی۔ ایک دن وہ دونوں ساتھ ساتھ چل رہے تھے کہ ایک موڑ پر اظہار الدین کے منہ سے اچانک ایک جملہ نکل گیا۔ کیا آپ کی نظریں کبھی ان پر نہیں پڑتیں ؟‘‘
اظہار الدین کا اشارہ سمجھ کر وہ بولیں۔
’’اب نہیں پڑتیں۔ ‘‘
’’مطلب؟‘‘
’’ مطلب وہی جو میں نے بتایا۔ ‘‘
’’ اب‘‘ سے تو مطلب یہی نکلتا ہے کہ پہلے پڑتی تھیں۔ ‘‘
’’آپ نے صحیح مطلب نکالا۔ ‘‘
’’ لیکن میری سمجھ میں پوری بات نہ آ سکی۔ براہِ کرم وضاحت کرنے کی زحمت گوارا کریں۔ ‘‘ اظہار الدین نے وضاحت چاہی۔
’’آج نہیں، آج سنڈے ہے۔ جلدی گھر پہنچنا ہے۔ فزیوتھرپسٹ اور بیوٹیشن گلفام کا ویٹ کر رہے ہوں گے۔ ‘‘
’’گلفام کا ویٹ ! خیریت تو ہے ؟‘‘ اظہار الدین نے تشویش کا اظہار کیا۔
’’در اصل آج گلفام کے مساج کا دن ہے۔ آج اسے اکسر سائز کرایا جاتا ہے۔ اسے اسپیشل باتھ بھی کرایا جاتا ہے۔ اسے سجایا سنوارا جاتا ہے۔ آج وہ میرے ساتھ فن مارکیٹ جاتا ہے۔ فن مارکیٹ میں بہت ساری سجی سنوری بچیزBitchesآتی ہیں۔ وہ گلفام کی طرف دیکھتی ہیں۔ گلفام انہیں اچھا لگتا ہے۔ ان کا اس کی طرف دیکھنا اسے بھی اچھا لگتا ہے۔ اور یہ سب کچھ مجھے بھی بہت اچھا لگتا ہے۔ اس لیے آج نہیں، کسی اور دن۔ اچھا میں چلتی ہوں۔ بائی! ‘‘
وہ گلفام کا پٹّاسنبھالے جلدی جلدی اپنے گھر کی طرف چل پڑیں۔ اظہار الدین کافی دیر تک گلفام کی جانب دیکھتے رہے۔ وہ اور چست درست اور چکنا اور سڈول ہوتا گیا۔ گلفام کے تعاقب کے دوران بہت سارے مناظر اظہار الدین کی آنکھوں میں ابھرتے گئے۔ ان میں ایک جانا پہچانا چہرہ بھی تھا۔ اس چہرے میں آنکھوں کے ارد گرد سیاہ ہالے بن گئے تھے۔ رخساروں پر جھرّیاں پڑ گئی تھیں۔ دونوں آنکھوں کے نچلے حصّے سوجے ہوئے تھے جیسے ان میں تتیا نے اپنے ڈنک گڑو دیے ہوں۔ ہونٹوں کے دونوں جانب ناک کے پاس سے ہوتی ہوئی دو لکیریں ٹڈھی تک گہری ہوتی چلی گئی تھیں۔
اس چہرے کے ابھرتے وقت اظہار الدین کے کانوں میں کچھ جملے بھی گونج پڑے تھے۔
’’جناب اب وقت آ گیا ہے کہ مہینے میں ایک آدھ بار Facialکرا لیا کریں ورنہ جھرّیاں گہری ہوتی جائیں گی اور گوشت لٹکتا چلا جائے گا اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
جب جب یہ جملے اظہار الدین کے کانوں میں گونجے تھے اور آنکھوں نے چہرے کو دیکھا تھا، دل نے دماغ کو اکسایا تھا کہ مسلسل ڈھیلا ہونے والے چہرے کو کسنے کا جتن کیا جائے مگر دماغ نے دل کے سامنے اس چہرے کو لا کر کھڑا کر دیا تھا جو اس شخص کے بیٹے کے خوابوں میں پل رہا تھا اور جس کو پروان چڑھانے کے لیے اسے بہت سارے جتن کرنے تھے۔
معمر خاتون کا جملہ کئی دنوں تک اظہار الدین کو پریشان کرتا رہا۔ ان کے تجسس کو بڑھاتا رہا۔ وہ ان سے ملتی رہیں مگر اظہار الدین ان سے ان کے اجمالی جواب کی تفصیل نہ جان سکے کہ وہ جب بھی ملیں، کوئی نہ کوئی ان کے ساتھ چلتا رہا یا وہ عجلت میں رہیں۔
ایک دن اتّفاق سے وہ اکیلی نظر آئیں اور ان کی رفتار میں ٹھہراؤ بھی دکھائی دیا تو لپک کر اظہار الدین ان کے ساتھ ہو گئے۔ علیک سلیک کے بعد بغیر کسی تمہید کے وہ شروع ہو گئے۔
’’کیا میں اس دن کی ادھوری بات کو پورا کرنے کے لیے درخواست کر سکتا ہوں ؟‘‘
’’کون سے ادھوری بات ؟‘‘ وہ چونکیں۔
’’یہی کہ ان فٹ پاتھوں پر پہلے آپ کی نظریں پڑتی تھیں مگر ان ———‘‘
’’اچھا ! یہ۔ ہاں، یاد آیا۔ بات یہ ہے مسٹر اظہار کہ فٹ پاتھوں پر پڑے ان لوگوں کے حالات مجھے بھی کبھی بہت بے چین کرتے تھے اور میں ان کے حالات کو بدلنے کی فکر بھی کیا کرتی تھی۔ ایک آدھ بار اس کے لیے میں نے ذاتی طور پر عملی اقدامات بھی کیے۔ مثلاً ایک کنبے کو پالا۔ سڑک سے اٹھا کر انہیں اپنے بنگلے میں لائے۔ اپنے آؤٹ ہاؤس میں انہیں رہنے کی جگہ دی۔ ان کے لیے کپڑے بنوائے۔ ان کے کھانے پینے کا انتظام کیا۔ کافی دنوں تک ہم ان کو اپنے پیسوں سے پالتے رہے مگر ایک دن میں نے دیکھا کہ اس کنبے کی عورت نے میری جگہ لینے کی کوشش شروع کر دی تھی اور اس کوشش میں مسلسل آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کے ہاتھ پاؤں جب بہت لمبے ہو گئے تو مجھے مجبوراً انہیں اپنے گھر سے نکالنا پڑا۔
ایک مرتبہ ایک بچے کو بھی پالا۔ اسے فٹ پاتھ سے اٹھا کر اپنے گھر میں رکھا۔ اسے اچھا کھلایا۔ اچھا پلایا۔ اچھا پہنایا۔ اچھی طرح رکھا بالکل اپنی اولاد کے موافق۔ اسے پڑھایا، لکھایا، بڑا کیا۔ اس کے لیے بہت کچھ سوچا بھی تھا۔ کچھ منصوبے بھی بنائے تھے مگر ایک دن جب میں گھر سے کہیں باہر گئی ہوئی تھی تو وہ میرے شوہر کا گلا گھونٹ کر چلا گیا۔
معمر خاتون کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ لہجہ ڈبڈبا گیا۔ انہوں نے دوپٹّے کے پلو سے آنکھیں صاف کیں اور اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے بولیں۔
’’دوسری طرف گلفام اور اس کی ماں ہیں۔ گلفام کی ماں ہمارے پاس بہت دنوں تک رہی۔ ہمارے پاس ہی پیدا ہوئی اور پاس ہی مری۔ مگر جب تک زندہ رہی کبھی کسی دوسرے کتے سے نہیں لگی۔ وہ اسی وقت لگی جب ہم نے کتے کا انتظام کیا۔
اچانک کسی گھر کی چہار دیواری سے کوڑے کا ایک تھیلا راستے پر آ کر گرا اور اس کے اندر کی چیزیں سڑک پر بکھر گئیں۔ ان میں ہڈی کا ایک ٹکڑا بھی تھا۔ اسے دیکھتے ہی فٹ پاتھ کے بچوں کی للچائی نظریں بکھرے ہوئے کوڑے کی طرف مرکوز ہو گئیں۔ بعض بچے کوڑے کے اس تھیلے کی جانب دوڑ پڑے اور ان میں چھینا جھپٹی بھی شروع ہو گئی۔ مگر گلفام خاموشی سے چلتا رہا۔ اس ہڈی کی طرف ٹھیک سے اس نے دیکھا بھی نہیں۔
’’اور یہ گلفام بالکل اپنی ماں پر گیا ہے۔ اسی کی طرح وفادار، فرض شناس۔ اپنے مال پر جان چھڑکنے والا۔ ایک بار یہ مجھے بچانے کی خاطر ایک بہت ہی خطر ناک دشمن سے بھڑ گیا۔ اور اس وقت تک لڑتا رہا جب تک کہ اسے کاٹ کر بھگا نہیں دیا۔ شاید اسی گلفام کی وجہ سے آج میں زندہ ہوں ورنہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں سمجھتی ہوں آپ کے سوال کا جواب آپ کو مل گیا ہو گا۔ اب میں چلوں۔ ‘‘
’’وہ گلفام کے ساتھ آگے بڑھ گئیں۔ ‘‘
اظہار الدین کی نظریں فٹ پاتھ کی جانب مرکوز ہو گئیں۔
انھیں وہاں کوئی بھی عورت نظر نہ آ سکی جس نے معمر خاتون سے ان کے شوہر کو چھیننے کی کوشش کی ہو۔ وہاں کوئی بھی ایسا بچہ دکھائی نہیں دیا جس نے معمر خاتون کے شوہر کا گلا ریت آیا ہو مگر اس کے باوجود اس وقت ان میں اظہار الدین کو وہ کشش محسوس نہ ہو سکی جو کچھ دیر پہلے تک محسوس ہوتی رہی تھی۔ ایک عجیب طرح کا دباؤ ان کے اندر در آیا تھا جو ان کے اس درد کو کم کرتا جا رہا تھاجس نے اس معمر خاتون سے بے تکلف ہونے پر انھیں مجبور کیا تھا۔
اس درد کی کمی نے اظہار الدین کو پریشان کر دیا۔ اس رات کافی دیر تک انھیں نیند نہ آ سکی۔ درد کی کمی کا احساس دل کو کچوکے لگاتا رہا۔ اس احساس سے دل تلملاتا رہا۔ رگ و پے میں ا ضطراب گھلتا رہا۔
دماغ نے دل کو جب اس طرح سمجھایا:
معمر خاتون نے جو واقعات سنائے ممکن ہے وہ محض فسانے ہوں۔ حقیقت سے ان کا تعلق ہو ہی نہیں۔ انھوں نے اس لیے سنائے ہوں تاکہ فٹ پاتھ کے قابل رحم باشندوں کی طرف نہ دیکھنے کا جواز پیدا ہو سکے۔ اور ان پر بے حسی یا بے رحمی کا الزام نہ عائد ہو سکے۔
اور مان لیں کہ وہ واقعات سچے بھی ہوں تب بھی قصوروار صرف وہ عورت اور وہ بچہ کہاں ٹھہرتے ہیں ؟ ہو سکتا ہے قصور سراسر معمر خاتون کے شوہر کا ہو۔ اس نے ہی اس عورت کو اپنی طرف آنے کا لالچ دیا ہو۔ کھانا، وہ بھی اچھا کھانا اگر بھوکے کو دعوت دے تو بھوکا بے چارہ بھلا اپنے کو کب تک اور کیسے روک سکتا ہے ؟
اسی طرح معمر خاتون کے شوہر کے قتل میں بھی ممکن ہے خود قتل ہونے والے کا ہاتھ ہو۔ وہ بچہ جسے انھوں نے فٹ پاتھ سے اٹھا کر اپنے گھر میں پالا تھا اور بقول معمر خاتون کے اسے اپنا پن اور پیار دیا تھا، ممکن ہے وہ انھیں اپنا باپ تصور کرنے لگا ہو اور ایک باپ سے بیٹے کی جو توقعات ہوتی ہیں اس نے ان سے لگا رکھی ہوں اور ان کی تکمیل کے لیے اس نے باپ سے خواہش کی ہو اور خواہش کے اظہار میں ممکن ہے ضد بھی کی ہو مگر باپ اسے ایک ایسے فرد سے زیادہ نہ گردانتا ہو جس پر اس نے احسان کر رکھا ہو اور اس بچے کی توقعات کی خواہش کا گلا اس نے گھونٹ دیا ہو۔ اور ردّ عمل میں کوئی تکرار ہوئی ہو اور پھر تکرار نے سنگین صورت اختیار کر لی ہو۔
تو دماغ کی اس منطق نے لوری کا کام کیا اور اظہار الدین کو نیند آ گئی۔ دوسرے دن حسبِ معمول وہ سیر کو نکلے تو معمر خاتون اور ان کے کتّے پر نظر پڑی۔ ان سے ہٹ کر فٹ پاتھ پر بھی نگاہیں مبذول ہوئیں مگر آج فٹٖ پاتھ پر پڑے مریل جسم کی پسلیاں ان کے اندر نہیں چبھیں۔ ان جسموں کے پیٹ کا گڈھا اظہار الدین کو اپنے اندر نہیں اتارسکا۔ چہروں کی زردی ان کی آنکھوں میں نہ سماس کی۔ بے لباس بدن کی کپکپاہٹ انھیں نہ لرزاس کی۔
معمر خاتون کے کتے کی صدری اتار کر کسی ننگے بچے کو پہنانے اور ان کی مٹھی سے میوے چھین کر فٹ پاتھ کی جانب اچھالنے کی خواہش بھی آج زور نہ مارسکی۔ دماغ کی رات والی منطق بھی کام نہ آ سکی۔ اظہار الدین حیران و پریشان اپنے احساس کو کوستے ہوئے گھر واپس آ گئے۔ وہ کئی دنوں تک صبح کی سیر کو بھی نہ نکل سکے۔
وہ گھر میں گم سم رہنے لگے جیسے ان کو لقوہ مار گیا ہو۔ ان کی اس کیفیت نے ان کی بیوی کو بھی پریشان کر دیا۔ ایک دن بیوی ان کے قریب آ کر بولی :
’’تم آج کل کھوئے کھوئے سے رہتے ہو ! کوئی بات ہو گئی ہے کیا؟‘‘
’’تم بھی تو آج کافی اداس لگ رہی ہو، کسی نے پھر کچھ کہا کیا؟‘‘
جواب دینے کے بجائے اظہار الدین نے سوال کر دیا۔
’’تم نے آج کی خبر پڑھی؟ ‘‘جواب میں بیوی نے سوال کیا۔
’’کون سی خبر ؟‘‘ اظہار الدین چونکے۔
’’اچھا، تو تم نے نہیں پڑھی؟‘‘
’’ بتاؤ تو سہی، کون سی خبر ؟‘‘
’’ یہی کہ ایک بیٹے نے اپنے باپ کا گلا کاٹ دیا ‘‘۔
’’اچھا ! مگر کیوں ؟ ‘‘ اظہار الدین کی حیرانی اور بڑھ گئی۔
’’ بیٹا چاہ رہا تھا کہ باپ اپنی ساری زمین جائداد بیٹے کے نام کر دے مگر باپ کا کہنا تھا کہ جلدی کیا ہے۔ ہمارے بعد سب کچھ تو اسی کا ہے پھر لکھا پڑھی کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘
خبر سنا کر بیوی چپ ہو گئی۔
اظہار الدین کے لبوں پر بھی خاموشی طاری ہو گئی۔ دونوں دیر تک چپّی سادھے بیٹھے رہے جیسے دونوں کے گلے میں کسی نے سرمہ ڈال دیا ہو۔
اس رات وہ دونوں سو نہیں پائے۔
رات بھر اظہار الدین کے اوپر اضطرابی کیفیت طاری رہی۔ صبح جب بہو نے ناشتہ لگایا اور پلیٹ کی ضرب سے آواز نکلی تو انھیں محسوس ہوا جیسے کسی نے پلیٹ ان کے سر پر دے مارا ہو۔
ناشتہ سے فارغ ہو کر وہ خاموشی سے مارکیٹ کی طرف نکل گئے اور ادھر ادھر گھومتے ہوئے جانوروں کی پینٹھ کی جانب جا پہنچے۔ بھیڑ بکریوں، بلّیوں، پرندوں کے جمگھٹوں کو دیکھتے ہوئے وہ اس کنارے تک پہنچ گئے جہاں سب سے زیادہ بھیڑ لگی تھی۔ وہاں چمچماتی ہوئی آ ہنی زنجیروں میں رنگ برنگ کے کتے بندھے تھے۔ ان کتّوں کے کاروباری اپنے اپنے کتّوں کی نسل کی خوبیاں گنوا رہے تھے :
’’کوئی کہہ رہا تھا ‘‘ یہ السسین ہے۔ بہادری میں اس کا جواب نہیں۔ دیکھیے اس کا قد و قامت۔ بالکل شیر لگتا ہے۔ دشمن دور ہی سے ڈر جاتا ہے۔ ‘‘
’’کوئی بتا رہا تھا۔ ‘‘یہ ڈوبر مین ہے بڑے قد کا چھوٹے بالوں والا ڈوگ بہت ہی خطرناک اور نہایت چست و چوکنّا۔اس کے ہوتے ہوئے مجال ہے کہ کوئی گھر میں گھس آئے۔
کوئی اپنے کتّے کی تعریف کرتے ہوئے بول رہا تھا۔ یہ ہاؤنڈ ہے۔ یہ اس نسل کا کتّا ہے جو بوسوسنگھ کر شکار کرتا ہے۔ دشمن اسے دیکھ کر یوں بھاگتے ہیں جیسے پولیس کو دیکھ کر چور۔
کوئی قصیدہ پڑھ رہا تھا۔ ’’یہ بل ڈاگ ہے مضبوط جسم، بڑے سر اور نمایاں نچلے جبڑے والا کتّا جو کبھی انگلستان میں بیل کے شکار کے لیے پالا جاتا تھا۔ آج اس سے ہر طرح کا شکار کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘
’’کوئی اپنے کتّے کا بکھان کرتے ہوئے پھولے نہیں سما رہا تھا کہ یہ دیسی نسل کا کتّا ہے۔ نہایت ہی وفادار اور جاں نثار۔ اپنے مالک کی حفاظت کے لیے یہ اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتا۔ ‘‘
اظہار الدین ایک ایک کتے کے متعلق ان کی خصوصیات سنتے اور ان کے سراپے کو دیکھتے رہے۔ کافی دیر تک وہ اس بازار میں ٹہلتے رہے۔ ان کا یہ ٹہلنا صبح کی سیر سے مختلف تھا۔
آج کی رات بھی کرب و آلام میں کٹی۔ ذہن میں طرح طرح کے خیالات ابھرتے اور ڈوبتے رہے۔ طرح طرح کے منظر بنتے بگڑتے رہے۔
دوسرے دن خلاف معمول صبح کی سیر کو وقت سے ذرا پہلے ہی نکل گئے۔ دھیرے دھیرے ہوا خوری کرنے والوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ دوٗر سے معمر خاتون بھی نظر آ گئیں۔ معمر خاتون جب قریب پہنچی تو ان کے پاؤں یک بارگی ٹھٹک گئے۔ ان کے ساتھ ان کا کتا بھی ٹھٹک گیا۔ دونوں کی نظریں اظہار الدین کے داہنے ہاتھ کی جانب مرکوز ہو گئیں۔
فٹ پاتھ کا ایک بچہ اظہار الدین کی انگلی پکڑے چل رہا تھا۔ آج اظہار الدین کا چہرہ ہر طرح کے کرب اور تناؤسے خالی تھا۔
٭٭٭
حکایتیں اور کہانی
اس نے کشکول اُٹھا تو لیا تھا مگر اس کی انگلیاں کپکپا رہی تھیں۔
وہ کشکول لیے چورا ہے پر کھڑا تھا۔
اسے کچھ حکایتیں یاد آ رہی تھیں :
’’ایک بادشاہ کے پاس بے شمار دولت تھی مگر بادشاہ اس دولت میں سے ایک پائی بھی اپنے اوپر خرچ نہیں کرتا تھا۔ اس لیے کہ اس میں لوٹا ہوا مال اور مانگا ہوا خراج شامل تھا۔ بادشاہ اپنے ہاتھوں سے ٹوپیاں بناتا تھا اور انھیں بازار میں بیچتا تھا۔ جو آمدنی ہوتی تھی اس سے وہ اپنی ضرورتیں پوری کرتا تھا۔ ‘‘
________
’’ایک بھوکے درویش کے آگے انواع و اقسام کی نعمتیں لیے لوگ کھڑے رہے اور وہ فاقے کرتا رہا۔ ایک دن وہ درویش فاقے سے مرگیامگراس نے کسی کی بھیک قبول نہیں کی‘‘
________
ہر حکایت پر انگلیوں کی کپکپاہٹ بڑھ جاتی اور گرفت ڈھیلی پڑ جاتی۔
آنے جانے والے لوگ کشکول میں کچھ نہ کچھ ڈالتے جا رہے تھے۔ ایک نے گلا ہو اکیلا ڈالا۔
اس کی نظر یں کے لیے سے چپک گئیں
پچکے ہوئے سیاہ چھلکے والے کے لیے کا ایک سراپھٹ گیا تھا جس سے گلا ہوا گودا باہر نکل آیا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے کے لیے کے اس سِرے پر کسی نے پکا ہوا بلغم تھوک دیا ہو۔ اس سوکھے سیاہ رنگت والے پچکے ہوئے چھوٹے سے کے لیے کو دیکھ کر اسے محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے کشکول میں کچلی ہوئی کوئی چوہیا ڈال دی ہو۔
ایک صاحب نے اپنی پلیٹ کا جو ٹھن سمیٹ کر کشکول میں پلٹ دیا۔ دال اور دہی میں سناہوا چاول دیکھ کر اسے لگا جیسے کسی نے کشکول میں اُلٹی کر دی ہو۔ اسے محسوس ہوا جیسے اس کے ہاتھ میں کشکول نہیں کوئی ڈسٹ بین ہو۔ کراہت کا ایک بھپکا اس کے اندرون تک سرایت کر گیا۔
کسی نے ایک سکّہ پھینکا مگر سکّے سے کھن کی آواز نہیں ابھری۔
کوئی میلا کچیلا مڑا تڑا گلا ہوا ایک روپے کا نوٹ ڈال گیا۔
ایک صاحب ایک گھسی ہوئی اٹھنی ڈال گئے۔
اسے محسوس ہوا جیسے لوگ اسے اندھا بھی سمجھ رہے ہیں۔ اندھا سمجھنے والوں کی جانب اس کی آنکھیں اس طرح اٹھتیں جیسے وہ ان کی آنکھیں پھوڑ ڈالیں گی۔
’’ سالا ہٹّا کٹّا ہو کر بھیک مانگتا ہے ‘‘۔ ایک صاحب ایک گندی سی گالی پھینک کر آگے بڑھ گئے۔
اس کے بائیں ہاتھ کی مٹھّی بھِنچ گئی۔
ایک اور صاحب رکے اور اپنی قہر آلود نگاہوں سے اس کی جانب نفرت اور حقارت کے تیر برسا کر چل دیے۔
اس کی بھویں کھِنچ گئیں۔
ایک شخص نے ترحم کی نظر سے دیکھتے ہوئے پرس سے کڑکڑا تا ہوا ایک پانچ روپے کا نوٹ نکالا اور اس نوٹ کو اس کی آنکھوں کے سامنے عجب انداز سے لہرا کر کشکول میں ڈال دیا۔
اس کے جی میں آیا کہ وہ اس نوٹ کو پھاڑ کر اس آدمی کے منہ پر دے مارے۔
آنے جانے والے کشکول میں گلے سڑے پھل، جوٹھن، گھسی ہوئی اٹھنی، چونی، سکّے، پھٹے ہوئے میلے کچیلے نوٹ، گالی، نفرت، حقارت، ترحم ڈالتے چلے گئے۔
اس کے کشکول کا وزن بڑھتا گیا اور ذہن و دل کا دباؤ بھی۔ سینے میں ایک جذبہ اٹھا اور کشکول والے ہاتھ میں سما گیا۔ ہاتھ مشتعل ہوا۔ انگلیوں کی گرفت بھی ڈھیلی ہوئی مگر کشکول ہاتھ سے جدا نہ ہو سکا۔
اس کے ذہن میں دونوں حکایتیں دوبارہ اُبھریں :
پہلی حکایت میں بادشاہ تھا جس کے شاہی خزانے میں بے شمار دولت تھی اور جس کے ہاتھ کی ٹوپیاں ہاتھوں ہاتھ بک جایا کرتی تھیں اور جن کی رقم سے اس کی ضرورتیں پوری ہو جایا کرتی تھیں۔ بادشاہ کو یہ بھی احساس تھا کہ وہ ایک بادشاہ ہے۔ بادشاہ جس کے پاس اپنی ایک حکومت ہے۔ ایک مضبوط قلعہ ہے۔ اس قلعے میں اس کے اشارے پر جان دینے والی ایک فوج ہے۔
دوسری حکایت میں ایک فقیر تھا۔ فقیر جس کے مراقبے میں خدا تھا۔ اس خدا کی بنائی ہوئی جنت تھی اور اس جنت میں بے شمار حور و غلماں تھے۔ بہشتی میوے تھے۔ کوثروتسنیم نام کی نہریں تھیں اور ان نہروں میں شہد سے زیادہ میٹھا، دودھ سے زیادہ سفیداور برف سے زیادہ ٹھنڈا پانی تھا اور اس فقیر کو ان سب پر پورا پورا یقین تھا۔
حکایتوں کے ہمراہ یہ تفصیلات بھی ابھریں اور دیر تک دل و دماغ میں گردش کرتی رہیں۔
ان حکایتوں کے بعد ایک کہانی ابھری:
اس کہانی میں نہ کوئی بادشاہ تھا اور نہ ہی کوئی فقیر۔ صرف ایک آدمی تھا جو ایک ایسے گھر میں پیدا ہوا تھا جس کے اوپر چھت نہیں تھی۔ جس کی دیواروں کے پشتے کمزور پڑ گئے تھے اور جس میں رہنے والوں کے پیٹ بھی اکثر خالی رہتے تھے۔ اس بغیر چھت اور کمزور پشتے کی دیواروں والے گھر میں پیدا ہونے والے اس آدمی کے لیے چھت بنانے اور پشتہ باندھنے اور اس کے سر پر سایہ کرنے کے لیے خالی پیٹ والوں نے بہت سارے سپنے بھی دیکھے تھے اور ان سپنوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے طرح طرح کے جتن بھی کیے تھے۔ خود اس آدمی نے بھی بہت ساری تعبیریں کی تھیں۔ اپنا دماغ لگایا تھا۔ ہاتھ پیر چلائے تھے۔ انگلیوں کے ہنر دکھائے تھے۔ جسم و جاں جھلسائے تھے۔ خون جلایا تھا مگر جس کا نہ دماغ کام آ سکا تھا اور نہ ہی ہاتھوں کے ہنر رنگ لا پائے تھے۔ جس کے ہاتھوں کی بنی ہوئی چیزیں چوراہوں اور نکڑوں پر پڑے پڑے سٹر گل اور ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں اورجس کے مراقبے سے بہت ساری چیزیں سرک گئی تھیں۔ خدا کا یقین بھی کھسک کر کہیں اور جا پڑا تھا۔ اب وہاں صرف ایک پیٹ رہ گیا تھا جو خالی تھا اور جس کی خشک آنتیں کُلبلا رہی تھیں۔
کشکول سے اس نے ایک ایک کر کے ساری چیزیں نکال لیں :
پہلے اس نے پانچ کا نوٹ نکالا۔ کڑکڑاتا ہوا نوٹ۔ اس نوٹ پر نگاہ پڑتے ہی اس پر پانچ پانچ روٹیاں اُبھر آئیں۔
پھر اس نے مڑا تُڑا ایک روپے کا نوٹ نکالا۔ اس بو سیدہ نوٹ کی تہیں سیدھی کیں۔ اسے فرش پر رکھ کر ہتھیلی سے خوب اچھی طرح دبا دبا کر اس کی سلوٹیں مٹائیں اور پھر اسے پانچ روپے کے کڑکڑاتے ہوئے نوٹ اور ایک کاغذ کے بیچ میں احتیاط سے رکھ کر اپنی اوپر والی جیب میں رکھ لیا۔
مڑے تُڑے نوٹ کے بعد اس نے سکّے نکالے۔ زیادہ تر سکّے گھسے ہوئے تھے۔ نمبر مِٹ چکے تھے اور بعض تو کھوٹے بھی تھے۔ بازار میں ان کا چلنا مشکل تھا۔ پھر بھی اس نے انھیں اپنی جیب میں رکھ لیا۔ جیب میں رکھنے سے پہلے اسے اپنے محلے کا دکاندار یاد آ گیا تھا جس کی اندھی بیوی بھی کبھی کبھار دکاندار کی غیر موجودگی میں گلّے پر بیٹھ جایا کرتی تھی۔
آخر میں اس نے کے لیے کو نکالا۔ اسے غورسے دیکھا۔ واقعی وہ پچکی ہوئی چوہیا معلوم ہو رہا تھا اور بلغم کی طرح اس کا گودا باہر نکل آیا تھا۔ دیر تک وہ اس کے لیے کو دیکھتا رہا۔
اس کے لیے پرآس پاس کے دوسرے سینئر بکھاریوں کی نظریں بھی مرکوز ہو گئی تھیں جن کے کشکول میں ابھی تک کوئی چوہیا نہیں پڑی تھی۔ ان میں سے کچھ آنکھیں بڑی باریکی سے اس کا معائنہ کر رہی تھیں۔ اس کے چہرے کے ہاؤ بھاؤ، اس کے اندر کی کیفیات، اس کی انگلیوں کی کپکپاہٹ اور گرفت کے ڈھیلے پن پر بھی ان کی نظر تھی۔
اس نے اِدھر اُدھر اُچٹتی سی ایک نگاہ ڈال کر کے لیے کے چھلکے کو الگ کیا اور بلغم نما پورے کا پورا گودا اپنے منہ میں ڈال لیا۔
٭٭٭
پارکنگ ایریا
محلّے میں پہنچ گیا تھا مگراسے خالہ کا مکان نہیں مل رہا تھا۔
چار پانچ سال پہلے جب وہ بٹلہ ہاؤس آیا تھا تو گھر آسانی سے مل گیا تھا۔ خالو نے اسے بس اتنا بتایا تھا کہ مکان مسجد کے پاس ہے اور آنگن میں اشوک کا ایک پیڑ کھڑا ہے۔
مسجد کے پاس پہنچ کر آنگن میں پیڑ والا مکان وہ چاروں طرف ڈھونڈتا پھر رہا تھا مگر اس علاقے میں کوئی بھی ایسا مکان نظر نہیں آ رہا تھا جس کے آنگن میں پیڑ ہو۔ پیڑ کیا، وہاں تو اسے کوئی آنگن بھی دِکھائی نہیں دے رہا تھا۔
اسے پریشان دیکھ کر ایک بزرگ شخص جو کرتا پاجامہ اور ٹوپی پہنے ایک عمارت کے گیٹ کے پاس لوہے کی کرسی ڈالے بیٹھے تھے، اسے مخاطب کر کے بولے
’’صاحبزادے آپ کو کس کے گھر جانا ہے ؟‘‘
’’خلیل اللہ صاحب انجینئر کے یہاں۔ ‘‘اس نے انجینئر پر زور دے کر جواب دیا۔
’’وہی خلیل اللہ نا جو ایم۔ سی۔ ڈی میں ہیں ؟‘‘
’’جی ہاں، وہی۔ ‘‘اسے کچھ اطمینان سا محسوس ہوا۔
’’آپ تو ان کے فلیٹ کے سامنے ہی کھڑے ہیں۔ اس بلڈنگ کی دوسری منزل کا داہنی جانب والا فلیٹ انھی کا ہے۔ ‘‘
’’یہ ہے ان کا مکان ؟ پہلے تو یہ ایک منزلہ مکان تھا اور اس کے آنگن میں اشوک کا ایک پیڑ کھڑا تھا۔ میں تو اسے ہی ڈھونڈ رہا تھا۔ ‘‘اس کی آنکھیں حیرت سے اس عمارت کو گھورنے لگیں۔
’’میاں ! اس مکان کو فلیٹ میں تبدیل ہوئے بھی ایک عرصہ ہو گیا۔ لگتا ہے آپ کافی دنوں بعد ادھر تشریف لائے ہیں۔ ‘‘
’’جی، میں کوئی چار پانچ سال بعد آیا ہوں۔ ‘‘
’’چار پانچ سال! یہاں تو روز کچھ نہ کچھ بدل جاتا ہے۔ ‘‘
’’اچھا!‘‘ اس کی نِگاہیں ایک لمحے میں چاروں طرف دوڑ گئیں۔ محلّے کے بدلاؤ کا نقشہ اور بھی نمایاں ہو گیا۔
’’چچا میاں ! کون سی منزل پر بتلایا تھا؟‘‘آس پاس میں ہوئی غیر معمولی تبدیلی اور حیرت و استعجاب کی شدّت نے اس کے دماغ میں ایسی اُتھّل پُتھّل مچا دی تھی کہ کچھ دیر پہلے کی سنی ہوئی بات بھی ذہن کے پردے سے محو ہو گئی تھی۔
’’دوسری منزل پر داہنی جانب والا فلیٹ۔ ‘‘
’’شکریہ! ‘‘وہ سامنے والی عمارت کے گیٹ کی طرف بڑھ گیا۔ دروازے کے پاس پہنچ کراس نے داہنی طرف والی کال بیل کا بٹن دبا دیا۔
کوئی آٹھ دس منٹ بعد دروازہ کھلا۔ وہ بھی آدھا۔ ادھ کھُلے دروازے کی اوٹ سے ایک لڑکی بولی۔
’’کس سے ملنا ہے ؟‘‘
’’جی، خلیل اللہ صاحب سے۔ ‘‘
’’وہ تو ابھی آفس سے نہیں آئے ہیں۔ شام کے وقت پہنچتے ہیں۔ ‘‘اتنا کہہ کر وہ لڑکی دروازہ بند کرنے لگی۔
’’سنیے تو۔ ۔ ‘‘اس نے روکا۔
’’جی، کہیے۔ ‘‘لڑکی کے لہجے میں کسی قدر سختی در آئی تھی۔
’’خالہ، مرا مطلب ہے ان کی بیگم صاحبہ ہیں ؟‘‘
’’ہیں تو مگر وہ لیٹی ہوئی ہیں۔ شام میں آئیے گا۔ ‘‘
’’دیکھیے۔ میں دیوریا سے آیا ہوں اور میرا نام اشف۔ ۔ ۔ ‘‘قبل اس کے کہ وہ اپنا پورا نام بتاتا دروازہ بند ہو گیا۔
اسے ایک دھکّا سا لگا۔ وہ نیچے سے اوپر تک ہل گیا۔ ایسا محسوس ہو اجیسے اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی ہو۔ اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کے ساتھ ایسا کچھ ہو گا۔ بلکہ اس کے ذہن میں تو کچھ اور ہی نقشہ تھا۔ بِٹّو خالہ کے گھر والا تازہ تازہ رسپشن بسا ہوا تھا۔ بِٹّو خالہ اور خلیل اللہ خالو کی بیوی شبّو خالہ دونوں سگی بہنیں تھیں۔ بِٹّو خالہ ضلع دیوریا کے ایک قصبہ زیرا دیئی میں بیاہی گئی تھیں۔ کچھ دنوں پہلے اسے ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ دستک دیتے ہی بچّے باہر آ کر اس سے لپٹ گئے تھے۔ وہ ایک دن کے لیے گیا تھا مگر خالہ اور بچّوں نے ضد کر کے اسے کئی دنوں تک روک لیا تھا۔ بار بار اسے اپنا قصبہ بھی یاد آ رہا تھا جہاں پہلی دستک میں دروازہ کھل جاتا ہے اور پٹوں کے کھلتے ہی آنے والے کو اندر آنے کے لیے کہا جاتا ہے اور بنا کچھ پوچھ تاچھ کے پانی پیش کر دیا جاتا ہے اور پھر۔ ۔ ۔ کچھ دیر تک وہ اس لو ہے کے بند دروازے کو دیکھتا رہا اور اپنے قصبے اور بٹّو خالہ کے گھر کو یاد کرتا رہا۔ اس کے جی میں آیا کہ وہ زینے سے اتر کر سیدھے اسٹیشن چلا جائے مگر خالو سے ملنا ضروری تھا۔ جی کڑا کر کے وہ دُکھی من اور بوجھل پیروں سے نیچے اتر آیا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے ؟کہاں جائے ؟ وقت کس طرح بِتائے ؟ شام ہونے میں ابھی ایک سواگھنٹہ باقی تھا۔ گیٹ سے نکل کر وہ سڑک پر پہنچا ہی تھا کہ اس بزرگ شخص کی آواز جس نے خالو کے مکان کا پتا بتلایا تھا، کانوں سے آ ٹکرائی۔
کیا بات ہے ؟آپ بہت جلدی واپس آ گئے۔ ‘‘
’’جی دروازہ بند ہے۔ ‘‘
’’آپ نے کھٹکھٹایا نہیں ؟‘‘
’’کھٹکھٹایا تھا۔ شاید گھر والے گہری نیند سورہے ہیں۔ ‘‘
’’کمال ہے ! اس وقت تک سورہے ہیں ؟‘‘بزرگ شخص نے اس کی طرف اس طرح دیکھا جیسے انھوں نے اس کا جھوٹ پکڑ لیا ہو۔ کھٹاک کی آواز دوبارہ اس کے ذہن میں گونج پڑی۔
قدرے توقف کے بعد اس کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ بزرگ بولے
’’تو کیا آپ لوٹ جائیں گے ؟‘‘
’’نہیں، خالو سے ملنا ضروری ہے۔ اس لیے انتظار کروں گا۔ ‘‘
’’آئیے، میرے پاس بیٹھ جائیے۔ آپ کے ساتھ کچھ میرا بھی وقت کٹ جائے گا؟‘‘
آگے بڑھ کر وہ ایک اور کرسی اٹھا لائے۔
’’خلیل صاحب سے آپ کا کیا رشتہ ہے ؟‘‘اس کی طرف کرسی بڑھاتے ہوئے بولے
’’میں ان کی بیوی کی ممیری بہن کا بیٹا ہوں۔ میرا مطلب ہے خلیل صاحب میرے خالو لگتے ہیں ‘‘
’’اچھا ہوا کہ آپ نے دوسراجملہ بھی بول دیا ورنہ اس طرح کے درمیانی حوالے اکثر راستے کی دیوار بن جاتے ہیں اور کبھی کبھی تو منزل۔ ۔ ۔ ۔ خیر چھوڑیے،یہ بتائیے کہ آپ کیا کرتے ہیں ؟کہاں کے رہنے والے ہیں اور یہاں کیوں کر آنا ہوا ہے ؟‘‘
’’ایک ساتھ تین تین سوال؟اسے کچھ عجیب سا لگا۔ پھر یہ سوچ کر کہ وقت گزارنے کے لیے یہ سوال برے نہیں ہیں۔ اس نے جواب دینا شروع کر دیا۔
’’میں ضلع دیوریا کے پاس کے ایک قصبے کا رہنے والا ہوں۔ ابھی ابھی ایم۔ اے کا امتحان پاس کیا ہے۔ رزلٹ نکلنے ہی والا ہے۔ جامعہ سے رسرچ کرنے کا ارادہ ہے، اسی سلسلے میں یہاں آنا ہوا ہے۔ خلیل اللہ خالوسے رہائش وغیرہ کے متعلق بھی کچھ بات کرنی ہے، اور ابّو کا ایک خط بھی ان تک پہنچا نا ہے، لہٰذا ان کا انتظار کرنا ضروری ہے، ‘‘
’’ہاں، تب تو انتظار کرنا ہی پڑے گا، جامعہ میں تو ہاسٹل کی قلّت ہے، اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ آپ کو باہر رہنا پڑے۔ ‘‘
’’کوئی بات نہیں، گھر سے جب نکلنا ہے تو ہاسٹل کیا اور باہر کیا۔ البتہ ایک بات کی خوشی ضرور ہے کہ یہاں خالو کا گھر ہے تو کبھی کبھار گھر کا مزا بھی مل جایا کرے گا۔ چچا میاں کیا آپ یہیں رہتے ہیں ؟‘‘
’’ہاں، میں اسی بلڈنگ کے ایک فلیٹ میں رہتا ہوں، میرا فلیٹ کافی اوپر ہے۔ اترنے چڑھنے میں سانس پھول جاتی ہے، اس لیے بار بار اوپر نہیں جاتا۔ یہاں وقت بھی اچھا کٹ جاتا ہے۔ ‘‘
’’آپ کے گھر میں اور کوئی نہیں ہے کیا؟‘‘
’’ہے کیوں نہیں ؟ماشا اللہ دو دو بیٹے ہیں۔ بہوئیں ہیں۔ پوتے پوتیاں ہیں۔ ‘‘
’’تو ماشاء اللہ بھرا پُرا گھر ہے۔ مکان آپ کا اپنا ہے یا کر ائے پر لیا ہے ؟‘‘
’’ہے تو اپنا ہی مگر مکان نہیں، فلیٹ ہے۔ ‘‘
’’مکان اور فلیٹ میں کوئی فرق ہے کیا؟میں تو دونوں کو ایک ہی سمجھ رہا ہوں۔ ‘‘
’’آپ دہلی میں نہیں رہتے نا، اس لیے ایسا سمجھ رہے ہیں۔ اگر دہلی یا کسی اور بڑے شہر میں رہ رہے ہوتے تو آپ کو مکان اور فلیٹ کا فرق ضرور معلوم ہوتا۔ ‘‘
’’کیا فرق ہے ؟‘‘فرق جاننے کا اس میں تجسّس پیدا ہوا۔
’’مکان اسے کہتے ہیں جس کی زمین اور چھت دونوں اپنی ہوتی ہے۔ اس میں کسی کا کوئی حصّہ نہیں ہوتا اور فلیٹ میں نہ فرش اپنا ہوتا ہے نہ ہی چھت اپنی ہوتی ہے۔ بس دونوں کے درمیانی حصّے پر مالکانہ اختیار یا قبضہ ہوتا ہے۔
’’پھر تو واقعی دونوں میں کافی فرق ہے۔ ‘‘
’’ایک فرق اور ہے میاں۔ ‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’فلیٹ تو مل جاتا ہے مگر مکان ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتا اور اب تو دلّی کا یہ حال ہے کہ یہاں مکان کا کوئی خواب بھی نہیں دیکھتا اور ایک فرق یہ بھی ہے کہ مکان رکھنے کے لیے قلب و ذہن میں کشادگی ضروری ہے جو بد قسمتی سے رخصت ہوتی جا رہی ہے۔ ‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’کوئی ایک وجہ ہو تو بتاؤں۔ ‘‘
’’پھر بھی، ایک آدھ تو بتا ہی دیجیے۔ ‘‘
’’ایک تو یہی ہے کہ ادھر اُدھر کا دباؤ ہمارے دل و دماغ کو اپنے شکنجوں میں کستاجا رہا ہے۔ دوسری یہ کہ ہم الگ تھلگ رہنے کے عادی بنتے جا رہے ہیں اور ایک یہ بھی کہ فطری آب و ہوا کے بجائے ہمیں کولر اور اے۔ سی کی ہوا زیادہ بھانے لگی ہے۔ ‘‘
جس شخص کو تھوڑی دیر پہلے وہ چوکیداریا چوکیدار جیسا آدمی سمجھ رہا تھا، وہ اچھا خاصا دانشور لگنے لگا تھا۔ اس کی باتیں سن کر وہ اپنے اس دباؤ کو بھولتا جا رہا تھا جو خالو کے فلیٹ کے پٹوں کے ’’ کھٹا ک‘‘ سے اس کے دل و دماغ پر طاری ہو گیا تھا۔ اس میں اب اس کی دلچسپی بڑھنے لگی تھی۔ اس نے اس بزرگ کے سراپے کا جائزہ لینا شروع کیا تو آنکھوں میں بہت سے سائے لہرانے لگے۔ اسے محسوس ہوا جیسے ان کے چہرے کے پیچھے کوئی اور بھی چہرہ چھپا ہوا ہے۔
’’چچا میاں !آپ نے اپنے مشغلے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا؟‘‘اس نے ان کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔
’’میاں آپ نے پوچھا ہی کب کہ بتاتا۔ اب جبکہ آپ کی دلچسپی میری جانب بڑھی ہے تو بتاتا ہوں کہ میں جامعہ میں درس وتدریس سے منسلک تھا۔ پینتس سال تک خدمت انجام دینے کے بعد اب سبکدوشی کی زندگی گزار رہا ہوں۔ ‘‘
’’ آپ سے ایک ایسا سوال بھی کرنے کو جی چاہ رہا ہے جو خود مجھے بھی اٹ پٹا لگ رہا ہے۔ اگر آپ برا نہ مانیں تو پوچھوں ؟‘‘
’’ضرور پوچھیے۔ میں بالکل برا نہیں مانوں گا۔ آپ کے اس طرح کے سوال کے لیے میرا ذہن پہلے سے تیار بھی ہے کہ آپ کی نظریں آلریڈی اس کا اشارہ مجھے دے چکی ہیں۔ ‘‘
’’آپ اس پارکنگ ایریا میں اپنا زیادہ وقت صرف اس لیے بتاتے ہیں کہ آپ کو اوپر چڑھنے اُترنے میں پریشانی ہوتی ہے یا کوئی اور وجہ بھی ہے ؟
یہ سوال سن کر اس بزرگ نے اپنی آنکھیں اس کے چہرے پر مرکوز کر دیں جیسے اس نے اس کی اصل وجہ جان لی ہو۔ کچھ دیر تک وہ اسے گھور تے رہے، پھر بولے۔
’’صاحب زادے !آپ کافی ذہین معلوم ہوتے ہیں اور قیافہ شناس بھی۔ اس لیے اب آپ کے سامنے جھوٹ نہیں بولوں گا اور بولوں گا بھی تو آپ یقیناً اس جھوٹ میں چھپے سچ کو جان لیں گے۔ سچ یہ ہے بر خور دار کہ تنگی نے مجھے فلیٹ سے اتار کراس پارکنگ میں پہنچا دیا ہے۔ اگر دیر تک میں اوپر کمرے میں رہتا ہوں تو میرے پوتے پوتیوں کی پڑھائی اور ان کی پرائیویسی دونوں متاثر ہوتی ہیں اور میں نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوتا ہوں۔ اس لیے میں اپنے کمرے میں جو کہنے کے لیے تو مرا کمرہ ہے مگر وہ ڈرائنگ روم بھی ہے اور اسٹڈی روم بھی، بہت کم جاتا ہوں اور اس وقت جاتا ہوں جب میرا وہاں جانا ناگزیر ہو جاتا ہے اور زیادہ وقت یہاں بتاتا ہوں۔ مانا کہ یہاں صفائی کم ہے۔ آس پاس میں کوڑا کباڑ بھی پڑا ہوا ہے جس کی طرف آپ کی نظریں بار بار چلی جا رہی ہیں، پھر بھی یہاں دم نہیں گھٹتا بلکہ کھلا پن محسوس ہوتا ہے اور اوپر کے مقابلے میں یہاں بیٹھنا بھی اچھا لگتا ہے کہ آتے جاتے کچھ لوگوں سے سلام دعا بھی ہو جاتی ہے۔ ‘‘بات کرتے کرتے وہ ایک دم سے خاموش ہو گئے۔ اسے محسوس ہوا جیسے ان کی آنکھوں میں کچھ اتر آیا ہو۔
اسے اس کے دادا یاد آ گئے۔ ان کی بیٹھک میں دن بھر محلے کے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے اور رات میں گھر کے بچے انھیں گھیر کر بیٹھ جاتے ہیں۔ دیر تک کہانی سننے اور سنانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بیچ بیچ میں مونگ پھلی اور چائے وغیرہ کا دور بھی چلتا رہتا ہے۔
’’چچا میاں آپ کہاں کھو گئے ؟‘‘اس نے بزرگ کی خاموشی کو توڑنے کی کوشش کی اس کے سوال پر وہ ایک لمبی سانس لے کر بولے۔
’’میاں !کبھی ہمارے پاس بھی اپنا مکان تھا۔ یہ پوری زمین ہماری تھی۔ گھر کے تمام افراد کے پاس ان کے اپنے کمرے تھے۔ بلکہ ایک آدھ کمرے ضرورت سے زیادہ بھی تھے۔
’’پھر آپ نے اسے فلیٹ میں کیوں بدل دیا؟‘‘اس کا تحسّس بڑھنے لگا
’’میں نے نہیں بدلا۔ یہ کام میرے بیٹوں نے کیا۔ انھوں نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں اسے کسی بلڈر کو سونپ دوں کہ وہ اس زمین کی اچھّی قیمت کے ساتھ ساتھ مفت میں ہمیں ایک فلیٹ بھی دے گا۔ انھوں نے مجھے اس طرح بھی سمجھا یا کہ یہ کام سبھی کر رہے ہیں۔ کوئی اکیلا میں نہیں کروں گا اور کچھ ایسی ضرورتیں بھی میرے سامنے رکھ دیں کہ اپنے دل و دماغ کے دباؤ کے باوجود میں نا نہ کہہ سکا۔ اس طرح ہمارا مکان جو کافی کشادہ تھا دو کمروں کے فلیٹ میں تبدیل ہو گیا۔
’’دیر تک آپ کا یہاں رہنا آپ کے بچّوں کو کیا اٹ پٹا نہیں لگتا ؟‘‘
’’ پتا نہیں، ویسے کبھی کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ وہ اور ان کے بچے مجھ سے پوچھیں کہ میں یہاں کیوں پڑا رہتا ہوں مگر آج تک کسی نے بھی یہ سوال مجھ سے نہیں کیا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ میری بیوی یہ دن دیکھنے سے پہلے ہی یہاں سے رخصت ہو گئیں، ورنہ پتا نہیں ان بیچاری کا کیا حال ہوتا؟ ‘‘
ان کی آواز بند ہو گئی اور آنکھوں میں آنسوآ گئے۔ یہ آنسوبیوی کی جدائی کے غم کے تھے یا بچّوں کی بے اعتنائی کے یا اس کی کوئی اور وجہ تھی ٹھیک سے مجھ پر واضح نہ ہو سکا۔
کچھ دیر تک خاموش رہنے کے بعد میری طرف دیکھتے ہوئے انھوں نے پھر بولنا شروع کیا ’’ بعد میں جب میں نے اپنے بیٹوں سے تنگی کی شکایت کی تو انھوں نے میرے سامنے ایک نئی منطق رکھ دی۔
’’وہ کیا منطق تھی؟‘‘
’’میں نے جب ان سے کہا کہ دوسو گز کا مکان اب 100گزمیں سمٹ کر رہ گیا ہے تو بولے۔
’’ابّا ہماری زمین تنگ نہیں ہوئی ہے بلکہ اور کشادہ ہو گئی ہے۔ پہلے اس کا رقبہ صرف دوسو گز یعنی اٹھارہ سو اسکوائرفٹ تھا۔ اب وہ رقبہ دوسو گز سے بڑھ کر ہزار گز یعنی اٹھارہ ہزار اسکوائرفٹ ہو گیا ہے۔ پہلے اس جگہ صرف ہمارا یعنی ایک کنبہ رہتا تھا، اب کئی خاندان آباد ہو گئے ہیں۔ ‘‘
’’ان کی منطق سن کر میرے منہ سے تو کچھ نہیں نکلا البتہ میری آنکھیں ان کی طرف مرکوز ہو گئیں۔ دھیرے دھیرے ان کے دیدوں میں اس منطق کا کھوکھلا پن سمٹ آیا تھا اور ان کی پلکیں کسی بوجھ سے جھُکتی چلی گئی تھیں۔ ‘‘
’’چچا میاں ! چاہے ان کی نیت صاف نہ رہی ہو مگر یہ منطق کوئی غلط تو نہیں لگتی؟‘‘
’’منطق صحیح بھی ہو تب بھی اس سے تنگی تو دور نہیں ہو جاتی۔ ہاں کسی کو بسانے کا احساس ضرور کچھ خوشی دے سکتا ہے مگر اس طرح کی خوشی ایسے میں کب تک قائم رہ سکتی ہے جب کہ دُکھ کا شکنجہ روز بہ روز جسم و جان کو کستا جا رہا ہو۔ میاں سچ تو یہی ہے کہ ہماری زمین ہم پر تنگ ہو گئی۔ ہماری گھٹن بڑھ گئی۔ ایک ہماری ہی کیا،یہاں جتنے لوگ رہتے ہیں زیادہ تراس گھٹن اور تنگی کے شکار ہیں۔ آدھے فلیٹس تو ایسے ہیں جہاں سورج کی روشنی پہنچتی ہی نہیں۔ ہوا کا گزر بھی مشکل سے ہوتا ہے۔ کچھ کمروں میں تو بالکنی تک نہیں ہے اور جن کمروں میں ہے بھی تو وہ اتنی تنگ اور پتلی ہے کہ اس میں ٹھیک سے لوہے کی ایک فولڈنگ کرسی بھی نہیں پڑ پاتی۔ برسات میں کپڑے آئرن سے سکھانے پڑتے ہیں اور بجلی اتنی پھنکتی ہے کہ اللہ کی پناہ! اکثر بالکنیوں سے بجلی کے موٹے موٹے تار چپک کر گزرتے ہیں جن کا خوف کسی سانپ کے خوف کی طرح ہر وقت سروں پر مسلط رہتا ہے۔ پتا نہیں ان میں سے کوئی کب پھنکار مار دے اور ہم میں سے کوئی پیلا پڑ جائے۔ ‘‘
’’چچا میاں ! آخر اس علاقے کو یہاں کے لوگوں نے اتنا گنجان کیوں بنا دیا؟ کسی نے دباؤ تو ڈالا نہیں ہو گا کہ آپ اپنی کشادہ زمینوں کو اپنے اوپر قبر کی طرح تنگ کر لیں ؟
’’میاں ! جب میں اس کرب سے دوچار ہوا تو اس مسئلے پر بہت سوچا۔ یہ سوال جو ابھی آپ نے مجھ سے کیا ہے میرے ذہن میں بھی ابھر ا اور بار بار ابھرا اور اس کا جواب مجھے یہ ملا کہ بظاہر تو ایسا نہیں لگتا کہ کسی نے فورس کیا ہو یا دباؤ ڈالا ہو لیکن جو لوگ اس علاقے میں رہتے ہیں یا رہنا پسند کرتے ہیں ان پر اور اپنی زمینی حقیقت پر غور کیا جائے تو کوئی نہ کوئی دباؤ بھی ضرور نظر آ جائے گا۔ ‘‘
’’آپ کو تو وہ دباؤ نظر آیا ہو گا؟‘‘
’’ہاں، آیا تو ہے ؟
’’تو اس پر کچھ روشنی ڈالیے نا۔ ‘‘
’’میاں !آپ نے یہ کہاوت تو سنی ہو گی ’’چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا۔ یعنی جتنی چادر ہو پاؤں اتنا ہی پھیلانا چاہیے، اِدھر جو لوگ رہتے ہیں یا رہنے کی کوشش کرتے ہیں انھیں اس حقیقت کا احساس ہے کہ ان کے پاس جو چادر ہے وہ چھوٹی ہے۔ اتنی چھوٹی کہ پورے پاؤں پھیلا نہیں سکتے۔ نتیجتاً انھیں اپنے پیروں کو موڑ کر یا سکوڑ کر رکھنا پڑتا ہے۔ پیروں کو موڑنے میں گھٹنے اور ناک تو ٹکرائیں گے ہی اور جب یہ صورت حال پیدا ہو گی تو گھٹن تو ہو گی ہی۔ پھر یہاں کی تنگی نے مزید تنگی پیدا کر دی ہے۔ ‘‘
’’اس کا مطلب کیا ہوا، چچا میاں ؟‘‘
’’مطلب یہ ہے میاں کہ کم زمین ہونے کے سبب ہر آدمی اپنی زمین کو دائیں بائیں سے کچھ بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس ہوڑ میں لوگ ایک دوسرے سے سبقت بھی لے جانے کی سعی کرتے ہیں۔ نتیجے میں روشن دان کھلے ہونے کے باوجود بند رہتے ہیں۔ کھڑکیاں بے مصرف ہو جاتی ہیں۔ مکانوں کے چھجے راستوں پر آ جاتے ہیں۔ اور ان چھجّوں پر بالکنیاں بن جاتی ہیں اور اس طرح وہ راستہ جو نیچے چوڑا ہوتا ہے اوپر آتے آتے اتنا تنگ ہو جاتا ہے کہ ہوا اور روشنی دونوں کا گلا بھنچ جاتا ہے۔
تنگی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان علاقوں میں وہ لوگ بھی اب آنا پسند کرنے لگے ہیں بلکہ اس طرف بھاگنے لگے ہیں جو کشادہ علاقوں میں بسے ہوئے ہیں یا جو اُدھر بسنے کی سکت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں ترقی پسند خیال اور سیکولر مزاج والے لوگ بھی شامل ہیں۔ ‘‘
’’ایسے لوگ بھی ؟‘‘
’’ہاں، ایسے لوگ بھی۔ دہشت کا گرد باد جب لہراتا ہے تو مضبوط سے مضبوط فلسفے کا پیڑ بھی اُکھڑ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایمان و یقین کا برگد بھی گر پڑتا ہے۔ ‘‘
’’ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟‘‘حالات کو سمجھنے میں اس کی دلچسپی بڑھنے لگی۔
’’اس لیے کہ لوگ اُدھر خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ ‘‘
’’محفوظ کیوں نہیں سمجھتے ؟‘‘
’’اس لیے کہ دھمک کہیں بھی ہو، ان کی کھڑ کیاں لرز جاتی ہیں اور کبھی کبھی تو ایسی لرزتی ہیں کہ ہفتوں دل و دماغ پر لرزہ طاری رہتا ہے۔
’’ایسا کیوں ہوتا ہے ؟‘‘
’’اس کیوں کو جاننے کے لیے یہاں کی تاریخ اور جغرافیہ میں دور تک جانا ہو گا اور کئی سو سالہ تہذیب و معاشرت کے سردو گرم کو سمجھنا ہو گا۔ یہ ایسا سوال ہے کہ اس کا جواب جاننے میں ذہن جھلسنے اور دل بیٹھنے لگتا ہے۔ اس کا جواب ایک دو جملے میں دیا بھی نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے فی الحال تو ہمیں لوگوں کے ادھر آنے کی وجوہات پر غور کرنا چاہیے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بڑی اور صاف ستھری کالونیوں میں ہمارے لیے مرنے کے بعد کا انتظام نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں کالونیاں اکثریت کی آبادی کو ذہن میں رکھ کر بنائی جاتی ہیں۔ چوں کہ ہماری اکثریت کو مرنے کے بعد کے قیام کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، انھیں مرنے کے بعد کوئی جگہ نہیں چاہیے اس لیے قبرستان کا پرووزن نہیں رکھا جاتا لیکن ہمیں تو اس کے بعد بھی دو گز زمین چاہیے، وہ اُدھر نہیں ملتی۔ اس ضمن میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ بھی سن لیجیے۔ میرے ایک جاننے والے بتا رہے تھے کہ ان کی کالونی میں کسی کی وفات ہوئی۔ ان کی میّت آس پاس کے کسی گاؤں کے قبرستان میں لوگ دفنا نے کے لیے لے گئے تو اس گاؤں کے لوگوں نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ ہماری جگہ تو پہلے ہی سے چھوٹی ہے، ہم اگر دوسروں کو بھی اس میں جگہ دینے لگے تو ہمارا کیا ہو گا۔ لوگ اس میّت کو لے کر ادھر ادھر گھومتے رہے، کہیں جگہ نہ ملی تو آخر کار بڑی مشکل سے کسی علاقے میں زمین خرید کر اس میت کو ٹھکانے لگایا گیا۔ ان صاحب نے یہ بھی بتایا کہ میّت کے گھر والے رو رو کر کہہ رہے تھے کہ کاش ان کے گھر میں کوئی آنگن ہوتا یا کم سے کم ان کے کمروں کا فرش ہی مٹّی کا ہوتا! یہ مسئلہ ابھی اِس طرف پیدا نہیں ہوا ہے۔ ایک سبب شاید یہ بھی ہے کہ زمینی صورتِ حال نے ہمیں تنگ دامانی پر مجبور کر دیا ہے۔ ‘‘
’’وہ کیسے ‘‘؟
وہ اس طرح کہ وسعت کے لیے وسائل چاہییں۔ وسائل وراثت میں ملتے ہیں یا پیدا کیے جاتے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر کے پاس وراثت نام کی کبھی کوئی چیز رہی نہیں، جن کے پاس رہی بھی تو ان میں سے کچھ کی کب کی چھن گئی یا کچھ کی کھوکھلی ثابت ہو گئی اور کچھ کی بک بکا گئی۔ رہی وسائل پیدا کرنے کی بات تو پیدا کرنے میں صرف خود کا دخل نہیں ہوتا۔ اس کے لیے بہت ساری چیزیں درکار ہوتی ہیں اور وہ بہت ساری چیزیں بہت سی ناگفتہ بہہ صورتوں اور بہت سی مصلحتوں کی شکار ہیں۔ لہٰذا اس راستے سے بھی ہم وسائل کا حصول نہیں کر پاتے۔ ایسی صورت میں ہم وہیں جا سکتے ہیں جہاں ہمارے محدود وسائل ہمیں جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ ‘‘
’’آپ کا مشاہدہ کتنا سچا لگ رہا ہے چچا میاں !‘‘
’’ایک مشاہدہ میرا اور بھی ہے بر خور دار؟‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’وہ یہ کہ اس بڑھتی ہوئی آبادی اور سمٹتی ہوئی زمین نے جامعہ جیسے تعلیمی علاقے میں بھی تاجرانہ ذہنیت پیدا کرنی شروع کر دی ہے۔ ‘‘
’’بھلا وہ کیسے ؟‘‘اس کا لہجہ اور بھی متجسّس ہو گیا۔
’’وہ اس طرح کہ فلیٹوں کی مانگ اور نئی زندگی کے مطالبوں نے درس و تدریس سے جڑے اساتذہ تک کو بھی زمینی کاروبار اور مکان کے لین دین کے دھندے میں لگا دیا ہے۔ اچھا خاصا پڑھا لکھا آدمی بھی پراپرٹی کی دلّالی کے پیشے میں کود پڑا ہے۔ اپنی زمین کا رقبہ بڑھا کر خود کی رہائش کو تنگ کرنے، آس پاس کی زمینوں کو قبضانے یا انھیں بلڈروں کو دلا کر کمیشن کھانے کے چکّر میں پڑ گیا ہے اور اس تجارتی ذہنیت نے ہم سے ہمارا وہ سب کچھ چھین لیا ہے جن سے ہماری پہچان وابستہ تھی۔ اس نے ہماری اس شے کو کچل کر رکھ دیا ہے جس کی بدولت دل گداز اور آنکھیں نم ہوتی ہیں۔ اس کام میں ہمارے محلے کے بھی کافی لوگ لگے ہوئے ہیں۔ خود آپ کے خالو کا بھی یہ سائڈ بزنس بن گیا ہے۔ وہ سامنے جو کام ہو رہا ہے وہ سائڈ بھی آپ کے خالو کا ہی ہے۔ دوسری طرف طلبہ سے کرائے کی موٹی رقم وصولنے کے چکّر میں فلیٹ کے لوگ ایک کمرے میں سمٹتے جا رہے ہیں اور باقی کمرے لڑکوں کو کرائے پر دے رہے ہیں۔ انھیں یہ بھی نہیں خیال رہتا کہ گھر میں جوان بہو، بیٹیاں بھی رہتی ہیں۔ اس کے جو برے نتائج سامنے آ رہے ہیں وہ آئے دن آپ بھی اخباروں میں پڑھتے ہوں گے مگر پوچھنے اور ٹوکنے پر وہ بھی وہی منطق پیش کر دیتے ہیں جو میرے سامنے میرے بیٹوں نے پیش کی تھی اس ذہنیت سے ایک خرابی اور بھی پیدا ہو رہی ہے۔ ‘‘
’’وہ کیا؟
’’وہ یہ کہ ایک چھوٹے سے کمرے میں پانچ پانچ چھ چھ لڑکے رہتے ہیں اور تقریباً دس دس بارہ بارہ افراد ایکToiletاستعمال کرتے ہیں۔ اس سے آئے دن سنڈاسوں کا برا حال ہوتا رہتا ہے اور ماحول میں جو بدبو پھوٹتی ہے سو الگ۔ مکان اور محلے کا جو حشر ہوتا ہے وہ تو ہوتا ہی ہے خود ان لڑکوں کا بھی بیڑا غرق ہو رہا ہے جو ایسی حالت میں رہ کر اپنا کیرئیر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور جن کا مقابلہ ان سے ہوتا ہے جو کشادہ علاقوں اور صاف ستھرے گھروں میں رہتے ہیں اور جو با قاعدہ اپنے اسٹڈی روم میں بیٹھ کر تیاری کرتے ہیں۔ معاف کیجیے گا میں آپ کو چائے بھی نہیں پلا سکتا۔ ‘‘
’’کوئی بات نہیں، چائے میں زیادہ پیتا بھی نہیں۔ ‘‘
’’آج آپ کا قیام رہے گا یا آج ہی واپسی ہے۔ ‘‘
’’ابھی کوئی طے نہیں ہے، خالو سے ملنے کے بعد ہی کوئی پروگرام بنے گا۔ ‘‘
’’ برخوردار برا مت ماننا مگر میں اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ خلیل صاحب کے گھر والے سوئے نہیں ہوں گے۔ انھوں نے جان بوجھ کر دروازہ نہیں کھولا ہو گا یا کھولا بھی ہو گا تو اندر بلانا ضروری نہیں سمجھا ہو گا اور لگے ہاتھوں ایک تلخ بات اور کہہ دوں کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ رات میں وہ آپ کو۔ ۔ ۔ خیر چھوڑیے۔ معاف کیجیے گا میں ذرا صاف گو آدمی ہوں، اس لیے میں نے جو محسوس کیا، اسے بنا لاگ لپیٹ کے کہہ دیا۔‘‘
’’نہیں نہیں، اس میں معافی مانگنے کی کیا بات ہے۔ آپ نے جیسا محسوس کیا، بتا دیا۔ اچھا چچا میاں ! اب میں چلوں گا۔ میں نے آپ کا کافی وقت لے لیا۔ ‘‘
’’ کہاں جائیں گے، خلیل صاحب تو ابھی آئے نہیں ؟‘‘
’’ذرا جامعہ تک جا رہا ہوں پھر آ جاؤں گا۔ ‘‘
’’ارے ! لیجیے، وہ تو آ بھی گئے۔ خلیل صاحب! آپ کے یہ مہمان میرے پاس کب سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ‘‘
’’خلیل صاحب ان کی طرف مڑے ہی تھے کہ وہ اٹھ کر تیزی سے ان کے پاس چلا گیا۔ ‘‘
’’اسلام علیکم خالو جان!‘‘
’’وعلیکم اسلام۔ تم کب آئے اشفاق؟‘‘ اس کے سلام کے جواب کے ساتھ ہی ان کے منہ سے یہ سوال اچھل پڑا۔ شاید اس کا وہاں بیٹھنا خلیل صاحب کو اچھا نہیں لگا تھا۔
’’بس تھوڑی ڈیر پہلے ‘‘۔ اس نے دھیرے سے جواب دیا۔
’’دہلی یوں اچانک ! پہلے سے کوئی اطلاع نہیں ؟‘‘
’’اچانک ہی پروگرام بن گیا۔ ‘‘
’’کوئی خاص کام؟‘‘
’’جی، سب کی یہی رائے بنی کہ میں ریسرچ جامعہ سے کروں سو کچھ ضروری معلومات کے سلسلے میں آنا پڑا۔ ‘‘
’’ اچھا، آؤ گھر چلیں۔ ‘‘
’’جی‘‘
وہ خالو کے پیچھے ہولیا۔ خالو کا برتاؤ دیکھ کراسے اچھا لگا کہ اُس سے پارکنگ ایریا والے بزرگ کا impressionغلط ثابت ہو رہا تھا۔
وہ خالو کے ساتھ جیسے جیسے ان کے فلیٹ کے قریب پہنچ رہا تھا ایک عجیب طرح کی الجھن سے دو چار ہوتا جا رہا تھا۔ من ہی من میں دعا کر رہا تھا کہ صفیہ سے فوراً سامنا نہ ہو، خواہ مخواہ بے چاری کو سب کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے گا اور خود وہ بھیembarrassing situation میں آ جائے گا۔
’’میں ابھی آیا‘‘اسے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر خلیل صاحب اندر چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد کمرے کی طرف آتے ہوئے ایک سے زیادہ پیروں کی آہٹ محسوس ہوئی۔ اس کے دل کی کیفیت دگر گوں ہونے لگی۔ ایسا لگنے لگا جیسے غلطی صفیہ کی بجائے اس سے ہوئی ہو۔ وہ آنے والی سچویشن کے لیے اپنے کو تیار کر ہی رہا تھا کہ ایک دم سے خالو اور خالہ اندر آ گئے۔ ان کے ساتھ صفیہ کو نہ دیکھ کر اس نے اطمینان کی سانس لی۔
اس کے خالہ کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی۔ خالہ نے اس ٹرے کو میز کے اوپر رکھ دیا۔ ٹرے اتنی بڑی تھی کہ اس کا ایک طرف کا کنارہ میز سے تھوڑا باہر نکل گیا۔ ٹرے میں تین خوبصورت پیالیاں تھیں جن کے اندر سے گرم چائے کی بھاپ اٹھ رہی تھی۔ ایک تشتری میں نمکین اور دوسری میںبسکٹ تھے۔ ٹرے میں کانچ کا ایک گول سا ڈبّا بھی تھا جس میں کئی خانے بنے ہوئے تھے اور ان خانوں میں اوپر تک کاجو، کشمش، بادام، اخروٹ اور پستہ بھرے ہوئے تھے۔
’’لو کھاؤ‘‘ خالہ کانچ کے ڈبّے سے ڈھکن اتارتی ہوئی بولیں۔
اس نے بادام کی ایک گری اٹھا کر اپنے منہ میں رکھ لیا
چائے کے دوران خالہ نے اس کی خیریت معلوم کی۔ امی ابو کا حال پوچھا اور اس کے آنے کا مقصد دریافت کیا۔ اس کے خوشگوار تاثرات میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔
چائے پیتے ہوئے بار بار اس کی نگاہیں سامنے کی دیوار پر آویزاں قدِ آئینے پر مرکوز ہو جاتی تھیں جس میں کمرے کی ایک ایک چیز دکھائی دیتی تھی۔
ایک طرف ڈائننگ ٹیبل، اس کے ارد گرد چھ کرسیاں، کرسیوں پر کُشن، ٹیبل پر چند ایک اسٹینڈ، کچھ برتن، دو چار مرتبان، اور کچھ ڈبّے۔
ٹیبل کے دائیں طرف کی دیوارسے لگی ایک بڑی سی شیشے کی الماری جس سے کھڑکی کا تقریباً آدھے سے بھی زیادہ حصہ ڈھک رہا تھا۔ اس الماری کے مختلف خانوں میں تلے اوپر رکھے ہوئے چینی مٹی، اسٹیل اور کچھ دوسرے مٹیریل کے برتن، ہوٹ پاٹ، کیتلی، تھرمس، کیٹلری، شیشے کے گلاس، ٹی سیٹ وغیرہ۔
ٹیبل کے بائیں جانب والی دیوار سے سٹی ایک ریک، جس کے دو خانے بند تھے اور ایک میں کئی ایک رجسٹر اور کچھ بہی کھاتے رکھے ہوئے تھے۔ جس جگہ پر صوفہ سیٹ بچھا ہوا تھا اس کے ایک طرف ایک وال ماؤنٹ تھا جس کے اوپری خانے میں میوزک سسٹم اور درمیان کے خانے میں ٹیلی وژن رکھا ہوا تھا۔ کنارے کے چھوٹے چھوٹے خانوں میں کچھ دوسرے الیکٹرانک سامان سجے ہوئے تھے۔ پاس ہی میں ایک پتلی سی میز تھی جس پر کمپیوٹر پڑا تھا۔ کمرے کے کونوں میں کورنر اور خالی جگہوں میں کئی چھوٹے چھوٹے اسٹول تھے جن پر طرح طرح کے شو پیسز پڑے ہوئے تھے۔ ایک طرف ایک بڑا سا فرج تھا جس کے اوپر بھی کچھ ڈبّے نظر آ رہے تھے۔ اس کا انہماک دیکھ کر خالو بول پڑے۔
’’روم ذرا چھوٹا ضرور ہے مگر اس کیcapacityبہت ہے۔ دیکھتے نہیں ہو کہ اس نے اپنے اندر کیا کیا سمیٹ رکھا ہے۔ ‘‘
’’کچھ الیکٹرونک گڈس تو ابھی ڈبّوں میں بند ہیں۔ بچّوں کو فرصت ہی نہیں ملتی کہ کھول کر انھیں سجادیں ‘‘خالہ بھی بول پڑیں۔
صفیہ کے نہ آنے سے اس کی الجھن تو دور ہو گئی تھی مگر یہ توقع موجود تھی کہ وہ آئے گی اور اپنی غلطی پر شرمندگی کا اظہار کرے گی اور خالہ بھی اس کی اُس حرکت کی صفائی دیں گی۔ ‘‘
اس نے جب بتایا کہ اس کا جامعہ سے رسرچ کرنے کا ارادہ ہے تو خالہ بولیں،
’’یہ تو اچھی بات ہے کہ تم نے ایم۔ اے۔ کر لیا اور اب جامعہ میں پڑھنا چاہتے ہو مگر کم بخت اس یونی ورسٹی کا برا حال ہو گیا ہے۔ داخلہ بڑی مشکل سے ملتا ہے اور نئے وی سی اتنے سخت ہیں کہ کوئی کسی کی سفارش بھی نہیں سنتا اور اگر کسی طرح داخلہ مل بھی گیا تو ہاسٹل نہیں ملتا۔ بڑی مصیبت کا کام ہے یہاں پڑھنا بھی۔ ‘‘خالہ نے ایک عجیب سے اضطراب کے ساتھ یہ جملے ادا کیے۔
یکایک اُس کی آنکھوں کے سامنے ابّو کا وہ خط کھُل گیا جو خالو کے نام لکھا گیا تھا اور جو اب تک اُس کی جیب میں پڑا ہوا تھا:
بھائی جان! آداب
ہماری دلی خواہش ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اشفاق اللہ کی تربیت بھی ہو جائے۔ اس کام کے لیے جامعہ سے بہتر جگہ اور کون سی ہو سکتی ہے اور وہاں آپ کی سرپرستی بھی حاصل ہو جائے گی۔
کوشش کیجیے گا کہ ہاسٹل میں جگہ مل جائے۔ نہیں تو کچھ دنوں کے لیے آپ کو زحمت کرنی پڑے گی۔ اشفاق اللہ ذرا شرمیلا ہے۔ وہ اس بابت خود سے کچھ نہ کہہ سکے گا اس لیے یہ بات میں آپ کے گوش گزار کر رہا ہوں۔
آپا کو سلام اور بچّوں کو پیار۔
فقط والسّلام
آپ کا بھائی
نعیم اللہ
’’ہمیں پتا ہے خالہ! اسی لیے تو ابّو نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کچھ دنوں تک میں کرائے کے مکان میں رہوں۔ بعد میں کوئی مکان، میرا مطلب ہے فلیٹ خرید لیں گے۔ تب تک چھوٹے چچّا کا بیٹا عرفان اللہ بھی میٹرک کر لے گا اور اس کا بھی داخلہ جامعہ میں کرا دیا جائے گا۔ ‘‘بغیر کسی توقف کے وہ فوراً بول پڑا۔
اس کا یہ جملہ سُن کر خالہ بولیں :
’’نعیم کا یہ فیصلہ بہت اچھا ہے ‘‘خالہ کے لہجے میں اضطراب کی جگہ اطمینان نے لے لی تھی۔
خلیل صاحب جو کسی خیال میں کھوئے ہوئے تھے جھٹ سے وہ بھی بول پڑے۔
’’تمہارے ابّو کا یہ فیصلہ واقعی بہت اچھا ہے۔ ان سے بولنا کہ ہماری جو نئی بلڈنگ بن رہی ہے اس میں جلد سے جلد ایک فلیٹ بُک کرا لیں۔ ابھی گنجائش ہے۔ بعد میں مشکل ہو جائے گی۔ اس وقت مناسب ریٹ میں بھی مل جائے گا۔ اچھا اشفاق میں تو چلوں گا ایک زمین کے سودے کے سلسلہ میں کسی سے ملنا ہے۔ اپنے ابّو امّی کو میرا سلام کہنا۔ پھر خالہ سے مخاطب ہو کر بولے،
’’اسے نئی بلڈنگ کا ایک بروشر ضرور دے دیجیے گا۔ چلتا ہوں ‘‘
خلیل صاحب ایک دو قدم آگے بڑھ کر اچانک پیچھے پلٹ آئے اور اسے مخاطب کرتے ہوئے بولے،
’’اشفاق !یہ تو بتاؤ کہ تمہارے بس اڈّے والے مکان میں کون رہ رہا ہے ؟اب تو وہ کافی بوسیدہ ہو گیا ہو گا ؟‘‘
’’ہاں کافی خستہ حالت میں ہے۔ اوپر کا حصہ خالی ہے۔ نیچے ایک دو کرائے دار ہیں اور ایک طرف جمّو اور اس کے بال بچّے رہتے ہیں۔ وہی مکان کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ‘‘
’’کرایا تو بہت nominalآتا ہو گا ؟‘‘
’’ہاں بہت ہی کم۔ دادا کے جان کے زمانے میں جو کرایہ تھا وہی آج بھی ہے۔ ‘‘
’’تم لوگ کرایہ بڑھاتے کیوں نہیں ؟‘‘
’’ابّو کہتے ہیں کہ کیا بڑھانا۔ ہمارے گھر میں کچھ بے گھر لوگوں کا خاندان پل رہا ہے، یہ احساس ہی ہمارے لیے کافی ہے۔ ‘‘
اس نے اپنے ابّو کی سوچ اور ان کے رویے کو دہرا دیا۔
’’تمھارے ابّو غلط سوچتے ہیں۔ اتنی اچھی جگہ پر اور اتنا بڑا مکان یوں بے مصرف پڑا ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انھیں اس کے متعلق کچھ اور سوچنا چاہیے۔ اچھا، اس سلسلے میں خود کسی دن آ کر ان سے ملتا ہوں۔ اچھا اب میں چلوں گا خدا حافظ۔ ‘‘
ؒخلیل صاحب کمرے سے نکل گئے۔ ان کے جاتے ہی خالہ اٹھیں اور سامنے کی الماری کے پاس پہنچ گئیں۔
خلیل صاحب خدا حافظ کہہ کر جا چکے تھے۔ خالہ بروشر لانے کے لیے اُٹھ گئی تھیں لیکن اُسے صفیہ کا اب بھی انتظار تھا۔ اسے پتا نہیں کیوں یقین سا تھا کہ وہ آئے گی اور شرمندگی کا اظہار کرے گی۔ ممکن ہے شرمندگی کی وجہہ سے ہی وہ نہ آ رہی ہو۔ اس کے دل کے کسی کونے سے آواز اُبھری۔ اپنی اس سوچ پر اسے قدرے اطمینان محسوس ہوا۔
خالہ الماری کے پاس سے لوٹیں تو ان کے ہاتھ میں چکنے پیپر کا ایک چھوٹا سا کتابچہ تھا۔ وہ اس کتابچے کو اس کی طرف بڑھاتے ہوئی بولیں۔
’’لو، یہ بروشر رکھ لو اور اسے اپنی بٹّو خالہ کو بھی دکھلا دینا کہ وہ بھی ایک فلیٹ بُک کرالے ‘‘
ہاتھ میں بروشر لیتے ہی اس کے سامنے خالو کا وہ سائڈ سمٹ آیا جس کی طرف پارکنگ ایریا والے بزرگ نے کچھ دیر پہلے اشارہ کیا تھا اور جس کا نقشہ اس وقت اس بروشر میں بند تھا۔
اس کے دیدوں میں اینٹ، پتھر، ریت اور سمینٹ کا ڈھیر لگ گیا۔ کچھ دیر بعد پارکنگ والے بزرگ بھی ابھر آئے اور ساتھ ہی ان کا یہ جملہ بھی :
’’تنگی نے مجھے اس پارکنگ میں پہنچا دیا ہے۔ ‘‘
اُسے محسوس ہوا جیسے تنگی نے وسعت پالی ہو اور اس پارکنگ ایریا میں کچھ اور کرسیاں پڑ گئی ہوں۔
٭٭٭
تصویرِ تختِ سلیمانی
معمر شخص جس کا چہرہ، سر کے بال، جسم کی جلد، بھنویں، لباس سبھی سفید تھے اور جس کی آنکھیں رات ڈھلے تک بھی بند نہیں ہوتی تھیں اور صبح وقت سے پہلے کھل جاتی تھیں، کی نظریں حسبِ معمول تصویر تختِ سلیمانی پر مرکوز تھیں۔
وہ تصویر سامنے کی دیوار پر عین دروازے کے اوپر آویزاں تھی۔ اس تصویر میں ایک سفید ریش بزرگ ہیرے اور موتیوں سے جڑا تاج پہنے ایک مزین تخت پر جلوہ افروز تھے۔
تخت کے پائے سفید پوش جنات اپنے شانوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔ بزرگ کے سر پر پرندوں کا ایک غول اپنے اجلے پروں کا سایہ کیے ہوئے تھا۔ تخت کے آگے پیچھے چرند اور درند کھڑے تھے۔
اس کمرے میں ایک تصویر اور بھی تھی۔ وہ تخت والی تصویر کی عین سیدھ میں مخالف سمت کی دیوار پرٹنگی تھی، اس تصویر میں ایک کبوتر اپنے پورے پورے پر کھولے نیلگوں فضا میں بلندی کی جانب پرواز بھر رہا تھا۔
معمر شخص کی پلنگ ایسی جگہ بچھائی گئی تھی جس کے سرہانے سے صرف دروازے کے اوپر والی تصویر ہی دکھائی دیتی تھی، کبوتر والی تصویر دیکھنے کے لیے اسے اپنی گردن ٹیڑھی کرنی پڑتی تھی۔ مگر باہر سے آنے والوں کی نظریں زیادہ تر کبوتر کی تصویر پر ہی پڑا کرتی تھیں اور نظر پڑتے ہی ذہن میں کوئی نہ کوئی بات ضرور ابھرتی تھی جو کبوتر کی کسی خصوصیت یا اس سے جڑی کسی کہانی کے متعلق ہوتی تھی۔
پلنگ کی چادر، کمرے کے فرش، چھت، در و دیوار اور دیواروں پر آویزاں پوٹریٹ کے رنگ بھی اس معمر شخص کے سراپے سے ہم آہنگ تھے۔
اچانک دروازے پر دستک ہوئی اور معمر شخص کی نظریں تخت سے اتر کر پٹوں کی جانب مبذول ہو گئیں۔ بے وقت کی دستک سے اس کی پیشانی پر ویسی ہی سلوٹیں ابھر آئیں جیسی اس کے بستر کی سفید چادر پر ابھری پڑی تھیں۔
’’آ جاؤ! ‘‘ آواز کے ابھرتے ہی دروازے کے پٹ کھل گئے۔
ایک مخصوص قسم کے لباس میں ایک چاق و چوبند آدمی آہستہ روی سے اندر داخل ہوا۔ آگے بڑھ کر معمر شخص کے سامنے کمان کی طرح جھکا اور پھر تیر کی مانند تن گیا۔
’’بولو‘‘۔
’’کچھ لوگ ملنا چاہتے ہیں حضور‘‘
’’اس وقت؟‘‘
’’کہتے ہیں کوئی اہم خبر ہے ‘‘
’’کون لوگ ہیں ؟‘‘
’’اپنے ہی لوگ لگتے ہیں ‘‘
’’حلیہ کیسا ہے ؟‘‘
’’بال لمبے ہیں، پیشانی پر لکیریں ابھری ہوئی ہیں، آنکھوں پر چشمے چڑھے ہوئے ہیں۔ دیکھنے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ ان کا لب و لہجہ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’انھیں بٹھاؤ اور کہو کہ میرا انتظار کریں ‘‘۔
’’بہتر حضور!‘‘
معمر شخص کمرے سے ملحقہ ایک دوسرے کمرے میں داخل ہوا اور تھوڑی دیر بعد لباس تبدیل کر کے واپس آ گیا۔ میز کے اوپر سے ایک خوبصورت سا بیگ اٹھایا اور کمرے سے نکل کر مہمان خانے میں پہنچ گیا۔
اسے دیکھتے ہی وہاں موجود لمبے بالوں اور موٹی موٹی عینکوں والے لوگ اپنی نشستوں سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ ان کے لب کھلنے کے لیے بے تاب تھے مگر انھیں معمر شخص کے ہونٹوں کی جنبش کا انتظار تھا۔
’’بتائیے کیا بات ہے ؟‘‘ معمر شخص نے ان سے تحکمانہ انداز میں پوچھا ’’سر! پہلے تو ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہم نے آپ کو بے وقت زحمت دی اور آپ کے آرام میں خلل پہنچایا۔ ان میں سے ایک جو سب سے آگے تھا بولنا شروع کیا۔ قدرے توقف کے بعد وہ پھر بولا مگر سر! ہم بھی مجبور تھے۔ خبر ہی ایسی ہے کہ آپ کو سنانا ضروری تھا۔ ‘‘
معمر شخص کے چہرے کا اضطراب اور بڑھ گیا۔
’’لیکن ہمیں یقین ہے سر کہ آپ خبر سننے کے بعد ہمیں ضرور معاف کر دیں گے ‘‘۔
’’آپ بتائیں گے بھی یا۔ —‘‘ معمر شخص کا اضطراب بے قابو ہونے لگا۔
’’سوری سر! خبر یہ ہے کہ ہم نے ققنس بنا لیا ہے ‘‘—۔
’’کیا‘‘ معمر شخص کا مضطرب چہرہ اطمینان آمیز استعجاب سے بھر گیا۔
’’جی سر! بالکل ویسا ہی بنا ہے جیسا کہ آپ نے خواب میں دیکھا تھا۔
’’اچھا!‘‘ استعجاب میں انبساط کی لے شامل ہو گئی۔
’’جی ہاں سر‘‘
’’کیا اس کی منقار میں۳۶۰ سوراخ بن گئے ؟‘‘
’’جی بن گئے۔ بلکہ پانچ زیادہ بن گئے ہیں ‘‘۔
’’سُر بھی سارے بھر گئے ہیں ؟‘‘
’’جی‘‘
’’کوئی سُر چھوٹا تو نہیں ؟‘‘
’’جی نہیں، کوئی بھی نہیں چھوٹا۔ بلکہ کچھ ایسے نئے سُر بھی ہم نے بھر دیے ہیں جنھیں کرۂ ارض پر ابھی تک سنا نہیں گیا‘‘۔
’’گُڈ۔ کیا وہ دیپک راگ بھی نکال سکتا ہے ؟‘‘
’’جی ہاں، دیپک راگ بھی نکال سکتا ہے ‘‘
’’شعلے بھی نکلیں گے نا؟‘‘
’’جی شعلے بھی نکلیں گے ‘‘
’’اور جنون؟‘‘
’’جنون بھی‘‘
’’جنون بھی!‘‘
’’جنون تو ایسا نکلے گا سر! کہ مجنوں بھی اس کے آگے مات کھا جائے۔ اسے دیکھ کر فرہاد کا تیشہ بھی ہاتھ سے چھوٹ جائے ‘‘۔
’’خوب! بہت خوب!‘‘ معمر شخص کسی تصور میں کھو گیا۔
’’اس کی کچھ اور خوبیاں بھی ہیں سر‘‘
’’کیا کہا؟‘‘ تصور سے باہر نکلتے ہوئے معمر شخص نے پوچھا۔
’’سر یہی کہ اس میں اور بھی بہت سی خوبیاں ہیں ‘‘
’’مثلاً؟‘‘
’’مثلاً یہ کہ ہمارا ققنس اپنے سوراخوں سے محض سُر ہی نہیں نکالے گا، بلکہ وقت پڑنے پر ہمزاد بھی پیدا کر لے گا‘‘۔
’’تو کیا اسے اپنے اردگرد لکڑیاں جمع کرنے اور ان میں پھونک مارنے کی ضرورت نہیں پڑے گی؟‘‘
’’نہیں سر! ہمارا ققنس اپنے کو خاکستر کیے بغیر بھی اپنے اندر سے اپنے ہمزاد، وہ بھی ایک نہیں، بے شمار پیدا کر سکتا ہے ‘‘
’’واقعی آپ لوگوں نے کمال کر دیا ہے۔ میں بہت خوش ہوں، مانگیے جو انعام مانگنا ہے ‘‘۔
’’وقت آنے پر مانگ لیں گے سر! فی الحال ہمیں یہ حکم دیا جائے کہ ہمیں آگے کیا کرنا ہے ؟‘‘
’’آپ اسے کسی سر سبز خطے میں اتار دیجیے ‘‘
’’سر سبز خطے میں ؟‘‘
’’آپ سے جتنا کہا جائے اتنا ہی کیجیے ‘‘ معمر شخص کی بھنویں تن گئیں۔
’’سوری سر!‘‘ خوشی سے انگارہ بنا چہرہ یکایک راکھ ہو گیا۔
’’کوئی بات نہیں، آئندہ احتیاط ضروری ہے ‘‘۔
’’جی سر! سر اب اجازت؟‘‘
’’جائیے اور جو کہا گیا ہے اس کی تعمیل کیجیے ‘‘۔
’’جی سر!‘‘
حکم کی تعمیل میں ققنس کو ایک سر سبز و شاداب خطے میں اتار دیا گیا۔ زمین پر پاؤں رکھتے ہی اس کی منقار کھل گئی۔ منقار کے کچھ سوراخوں سے سُر نکلنے لگے۔
سُر سن کر اس خطے کے پرندے شاخوں اور آشیانوں کو چھوڑ کر اس کی جانب اڑان بھرنے لگے۔
پرندوں کے غول کے غول اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر ققنس فرطِ مسرت سے مست ہونے لگا۔ اس کی چونچ کے کچھ اور سوراخ بھی بولنے لگے۔
آہستہ آہستہ پرندوں کے آنے کی رفتار تیز ہوتی گئی۔ اپنے ارد گرد خوش رنگ پرندوں کو دیکھ کر ققنس کا جنون بھی انگڑائی لینے لگا۔ دیپک راگ بھی شروع ہو گیا۔
سوراخوں سے شعلے نکلنے لگے۔ آگ کی لپٹیں پیڑ پودوں، شاخوں، پتوں، پھولوں اور پرندوں تک پہنچنے لگیں۔
رنگ اڑنے لگا۔ خوشبو بکھرنے لگی۔ زمزمے رکنے لگے۔ سناٹا طاری ہونے لگا۔ ویرانی چھانے لگی۔
فضا میں ہلچل مچ گئی۔ باغبان پریشان ہو اٹھے۔ باغ کی حفاظت کی فکر ہوئی۔
خطے کے شکاریوں کو جمع کیا گیا۔ شکاریوں نے اس نئے ققنس کے شکار کی تدبیر شروع کر دیں۔ ایک سے ایک ترکیب عمل میں لائی گئی، مگر ساری ترکیبیں بے سود ثابت ہوئیں۔ کوئی بھی تدبیر کارگر نہ ہو سکی۔ کسی بھی طرح ققنس کے سُر نہیں رُکے۔
کسی سن رسیدہ اور جہاں دیدہ شخص نے بتایا کہ اس کائنات میں صرف ایک شکاری ایسا ہے جو اس ققنس کو قابو میں کر سکتا ہے۔ اس شکاری کا اتا پتا معلوم کرنے پر اس جہاں دیدہ آدمی نے یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے ہاؤ بھاؤ، رکھ رکھاؤ اور حلیے سے شکاری نہیں لگتا۔ اس لیے کہ وہ تمام شکاریوں سے مختلف ہے۔ وہ ایک خوبصورت ترین اور پر فضا علاقے میں شاندار طریقے سے رہتا ہے۔ اس تک رسائی آسان نہیں ہے مگر نا ممکن بھی نہیں ہے۔
اس شخص کے بتائے گئے پتے پر پہنچ کر اس منفرد قسم کے شکاری تک رسائی حاصل کی گئی۔ اس کے آگے گڑ گڑا کر دُکھڑا بیان کیا گیا اور اس بلائے ناگہانی سے نجات دلانے کی درخواست کی گئی۔
اس منفرد شکاری نے رحم دل حاکم کی طرح پوری روداد سنی اور فلسفیوں کی مانند کافی دیر تک اس پر غور و خوض کیا اور پھر اپنی کچھ شرطوں پر درخواست قبول کر لی۔
شرطیں پوری ہو جانے پر وہ اپنے بہت ہی ہشیار،یکتائے روزگار، اپنے فن میں مشاق اور جاں باز معاون شکاریوں کے ہمراہ اس خطے میں پہنچ گیا۔
حکمتِ عملی تیار ہوئی۔ گھیرا بندی کی گئی۔ چاروں طرف سے نشانے سادھے گئے۔ جگہ جگہ مضبوط جال بچھائے گئے۔ طرح طرح کے دانے پھینکے گئے۔ اِدھر اُدھر سے بندوقیں تانی گئیں۔ ان سب کے باوجود وہ ققنس قبضے میں نہ آ سکا۔
جب شکار کسی بھی طرح گرفتار نہ ہو سکا تو اس پر ہلا بول دیا گیا۔
تلملا کر اس نے بھی اپنی پھونکیں تیز کر دیں۔ اس کا سینہ پھول کر دھونکنی ہو گیا۔ سوراخوں سے طرح طرح کے سُر نکلنے لگے۔
زیادہ ضرب پڑنے پر اس کا جنون بھی جوش میں آ گیا۔ سوراخوں سے دھڑ ادھڑ اس کے ہمزاد نکلنے لگے۔ ان کی منقاریں بھی کھل گئیں۔
سُروں کے ساتھ دیپک راگ بھی گونجنے لگا۔ شعلے لپکنے لگے۔ شعلے شکاریوں کے بارودی گولوں سے ٹکرانے لگے۔ فضا میں چنگاریاں اڑنے لگیں۔ آگ کی لپٹیں پانیوں تک پہنچنے لگیں۔ جھیلیں اور ندیاں بھی جلنے لگیں۔ پانی بھاپ اور دھوئیں میں تبدیل ہونے لگا۔ ماحول میں دھند بھرنے لگی۔
دیر تک آگ کا کھیل چلتا رہا۔ سر سبز خطہ شعلوں میں جھلستا رہا۔
پھر اچانک سُر بند ہو گئے۔ دیپک راگ خاموش ہو گیا۔ شعلے بیٹھ گئے۔
چھان بین کرنے پر معلوم ہوا کہ ققنس مارا گیا۔ اس کے پر جھلس گئے۔ گوشت جل گیا، ہڈیاں راکھ ہو گئیں۔
ققنس کی موت کا پتہ چلتے ہی لبوں پر زمزمے سج گئے۔ فضائیں نقاروں کی آواز سے گونج اٹھیں۔ آسمان پر کبوتر اڑنے لگے۔
مگر زمین پر نظر گئی تو آنکھیں حیران ہو اٹھیں۔ باغ پوری طرح اجڑ چکا تھا۔ سبزہ زار سیاہ پڑ گئے تھے۔ جھیلوں، نہروں، ندیوں اور تالاب سے شعلے نکل رہے تھے۔
خطے کی آبادکاری کی فکر لاحق ہوئی۔ بے بس اور ویران آنکھیں دوسرے خطوں کی طرف حسرت اور رحم طلب نظروں سے دیکھنے لگیں۔
دوسرے خطوں کی آنکھیں بھر آئیں۔ دل درد سے تڑپ اٹھا۔ ان خطوں نے اپنے در کھول دیے۔
ان کے باغوں سے پیڑ پودے اکھاڑ کر اس ویران خطے میں پہنچائے جانے لگے۔ ان کے تالابوں، جھیلوں، ندیوں اور نہروں سے نکل کر پانی کا ایک حصہ اس خطہ میں جانے لگا۔ زمینیں سینچی جانے لگیں اور پودوں کے پنپنے، باغ کے ہرا بھرا ہونے اور پرندوں کے چہچہانے کا بے صبری سے انتظار کیا جانے لگا۔
اجڑا ہوا وہ خطہ ابھی پوری طرح آباد بھی نہیں ہو پایا تھا کہ ایک اور خطے میں ققنس کا سُر گونج اٹھا۔
عقل حیرت میں پڑ گئی کہ ققنس تو اپنے تمام ہمزادوں کے ہمراہ جل کر راکھ ہو چکا تھا۔ اب پھر سے وہ کیسے اور کس طرح پیدا ہو گیا؟
اس خطے میں بھی کھلبلی مچ گئی۔ وہاں بھی وہی سب کچھ ہوا جو پہلے خطے میں ہوا تھا۔ وہاں بھی اس منفرد شکاری سے رجوع کیا گیا۔ اس بار وہ پہلے سے زیادہ تام جھام اور تیاری کے ساتھ پہنچا۔
ققنس پر پہلے سے زیادہ شدید حملہ ہوا۔ اس حملے میں پہاڑ سرمہ بن گئے۔ زمین راکھ ہو گئی۔ ققنس کی راکھ تک نہیں بچی۔
ہر طرح سے اطمینان کر لینے اور مکمل یقین ہو جانے کے بعد وہاں بھی شادیانے بجے۔ آسمان پر کبوتر چھوڑے گئے۔
جلد ہی آبادکاری کا کام بھی شروع کر دیا گیا۔ کام ابھی چل ہی رہا تھا کہ ققنس کے سُر ایک اور خطہ سے جاگ اٹھا۔
عقل ایک بار پھر حیران ہو اٹھی۔ ذہن میں طرح طرح کے وسوسے سر اٹھانے لگے۔ دور دور تک سرگوشیاں شروع ہو گئیں۔ تمام دنیا خوف و دہشت سے لرزنے لگی۔
ققنس کے جینے مرنے کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ خطے اجڑتے گئے۔ کچھ خطے ان تاراج خطوں کو آباد کرنے میں اجڑنے لگے۔
مگر معمر شخص کے بستر کی سلوٹیں دور نہیں ہوئیں۔ اس کی نظریں تختِ سلیمانی سے نیچے نہیں اتریں۔
دروازے پر ایک دن پھر دستک ہوئی۔ دروازہ کھلا، مخصوص لباس والا آدمی اندر داخل ہوا۔ آگے بڑھ کر جھکا اور جھک کر پھر کھڑا ہو گیا۔
’’بولو‘‘۔
’’وہ لوگ آ گئے ہیں حضور جنھیں آپ نے طلب کیا تھا‘‘۔
’’انھیں بٹھاؤ میں ابھی آتا ہوں ‘‘
’’بہتر حضور!‘‘
معمر شخص مہمان خانے میں پہنچا تو اسے دیکھتے ہی لوگ اپنی کرسیوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’کیا حکم ہے سر؟‘‘ ان میں سے ایک نے مؤدبانہ سوال کیا۔
’’آپ لوگ اپنی تخلیق کے کارنامے تو دیکھ رہے ہوں گے ؟‘‘
’’جی سر! دیکھ رہے ہیں اور آپ سر؟‘‘ اس کے چہرے پر چمک اور لہجے میں کھنک تھی۔
’’ہم بھی دیکھ رہے ہیں ‘‘۔
’’کیسا لگ رہا ہے سر؟‘‘
’’اچھا لگ رہا ہے پر‘‘
’’پر کیا سر؟‘‘
’’یہی کہ سفر طویل ہے اور رفتار سست‘‘
’’جی سر! یہ تو ہے ‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر کے متعلق تو آپ ہی کو فرمانا ہے سر‘‘۔
’’کوئی ایسی تخلیق پیش کیجیے جس میں کن فیکون کی سی تاثیر ہو‘‘
’’مگر یہ تاثیر تو …‘‘
’’میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ جتنا کہا جائے …‘‘
’’سوری سر‘‘ وہاں کھڑے تمام لوگوں کے چہروں پر دہشت طاری ہو گئی۔
’’آپ لوگ جا سکتے ہیں ‘‘۔ معمر شخص کے اضطراب کا پارہ کافی اوپر چڑھ گیا۔ اس کے چہرے کی سفید رنگت سرخ ہو گئی، جیسے برف کے تودے میں چنگاریاں بھر دی گئی ہوں۔
معمر شخص اپنے خواب گاہ میں آ کر بستر پر دراز ہو گیا۔ سفید چادر اور سکڑ گئی۔ آنکھیں تخت سلیمانی کی جانب مرکوز ہو گئیں۔
تخت کے پایوں کو پکڑے ہوئے جن، تخت پر سوار نورانی چہرے والا تاج دار۔ تاج میں دمکتے ہوئے ہیرے موتی تاجدار کے سر پر پروں کو پھیلائے ہوئے پرند، تخت کے آگے پیچھے کھڑے چرند اور پرند پتلیوں میں سمانے لگے۔
وہ جب بھی اس کمرے میں آتا اور بستر پر دراز ہوتا تو اس پورٹریٹ کی ایک ایک تصویر اس کے دیدوں میں اترنے لگتی۔ اسے ماضی اور مستقبل میں دوڑانے لگتی۔ اسے بے چین کرنے لگتی۔ اس کے بستر پر سلوٹیں اور پیشانی پر لکیریں ابھارنے لگتی، مگر وہ تصویر اسے کبھی بھی دکھائی نہ دے سکی جو تخت سے باہر نکلے ہاتھ کی ہتھیلی کی چھاؤں کے نیچے جھلملا رہی تھی اور جہاں بے شمار بے زبان مخلوقات نقطوں اور چھوٹے چھوٹے دائروں کی شکل میں سکون پانے کے لیے سمٹ آئی تھیں اور جو شاید اسے بھی اضطراب کی حدت سے نجات دلا سکتی تھی۔
٭٭٭
بالکونی میں کیکٹس
ٹھک ٹھک کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ باہر نکل کر دیکھا تو سامنے والی کوٹھی کے ایک گنبد پر کچھ لوگ دھڑا دھڑ ہتھوڑے برسا رہے تھے۔ آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ اچھی بھلی شاندار عمارت مسمار کیوں کی جا رہی ہے، البتہ اسے دیکھ کر ذہن میں ایک منظر ضرور ابھر آیا:
اس منظر میں بھی ایک گنبد پر ہتھوڑے برس رہے تھے۔ فرق اتنا تھا کہ منظر والے گنبد پر ایک ساتھ بے شمار ہتھوڑے پڑ رہے تھے اور یہاں محض دوچار۔
ذہن والا منظر جب رونما ہوا تھا تو اسے دیکھ کر کتنوں کے دیدے اشکوں سے بھر گئے تھے۔ میری آنکھیں بھی گیلی ہو گئی تھیں۔ اپنی آنکھوں کے گیلے پن پر جب میرا ذہن ٹھہرا تھا تو ایک اور منظر جو صدیوں پہلے کبھی وجود میں آیا تھا، میرے سامنے سمٹ آیا تھا۔ اس منظر میں بھی ایک عمارت ٹوٹ رہی تھی اور اسے بھی دیکھ کر بہتوں کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔
ذہن کے دونوں منظروں کی عمارتوں کے انہدام کی وجہ تو سمجھ میں آ رہی تھی مگر سامنے والی عمارت کے ٹوٹنے کا سبب سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔
یہ دلّاویز عمارت تو کسی کی آنکھوں کا کانٹا بھی نہیں تھی۔ یہ اپنے مکینوں کو تحفظ کے ساتھ ساتھ رنگ، خو شبو، روشنی، تازگی اور توانائی بھی بخش رہی تھی۔
ممکن ہے اس کوٹھی کی دیواریں کمزور پڑ گئی ہوں اور مکینوں کو کسی قسم کا خطرہ لاحق ہو گیا ہو۔
ذہن کے کسی گوشے سے یہ آواز ابھری۔
لگتا تو نہیں ہے کہ یہ کوٹھی کمزور پڑ گئی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو گنبد سے اس طرح کی لوہا لاٹ قسم کی آوازیں نہیں ابھرتیں۔
ذہن کے دوسرے گوشے نے پہلے گوشے کے شبہے کو دور کر دیا۔
تو ہو سکتا ہے اس کی بوسیدگی انھیں پریشان کرنے لگی ہو اور وہ قدیم عمارت کی جگہ کسی جدید طرز کی عمارت کا منصوبہ بنا رہے ہوں۔
یہ بات بھی مناسب نہیں لگتی کہ اس کوٹھی کے مکین روایتوں کے پاسدار ہیں اور اپنی وراثت کی حفاظت کے لیے کٹ مرنے والے لوگ ہیں۔
پھر کیوں ٹوٹ رہی ہے ؟ اور ٹوٹ رہی ہے تو کوئی نہ کوئی وجہ تو ضرور ہو گی؟
ہو گی کوئی وجہ۔ مجھے کیا؟ میں نے اپنے اندر کے کسی گوشے سے اٹھتی ہوئی یہ آواز بھی سنی اس کے باوجود اس منہدم ہوتی ہوئی عمارت سے اپنے آپ کو الگ نہیں کر پایا۔ میری آنکھیں مسلسل گنبد پر جمی رہیں اور میرا دل ہتھوڑوں کی چوٹ پر لرزتا رہا۔
گنبد کی دیواریں کافی مضبوط تھیں۔ درجنوں بار ہتھوڑا برستا تھا تب جا کر کہیں کسی کونے کا تھوڑا سا حصّہ ادھڑ پاتا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اینٹ، پتھر اور سیمنٹ کے بجائے وہاں کسی دھات کی دیوار ڈھال دی گئی ہو۔ اس گنبد کی مضبوطی کا سبب صرف یہی نہیں تھا کہ اس کی تعمیر میں عمدہ سامان اور اچھے کاریگر استعمال ہوئے تھے بلکہ تعمیر کرنے والے کے ذوق و شوق کی گرمی، منصوبوں کی مضبوطی، ارادوں کی پختگی، خلوص کی صلابت اور نگرانی و نگہبانی کی مستعدی بھی اس میں شامل تھی۔
گنبد سے پھسل کر میری نگاہیں عمارت کے معائنے میں مصروف ہو گئیں :
کوٹھی ایک بہت بڑے رقبے میں بنائی گئی تھی۔ عمارت کے چاروں طرف اچھی خاصی خالی جگہیں چھوڑی گئی تھیں۔ ان خالی جگہوں میں ایک طرف ایک باغ تھا جس میں سایہ دار پیڑوں کے علاوہ پھل دار درخت بھی تھے۔ کناروں پر اشوک اور سرو کے پیڑ کھڑے آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔ کوٹھی کے سامنے ایک بڑا سا لان تھا۔ لان میں مخملی سبزوں کا بچھونا بچھا ہوا تھا۔ ہرے بھرے بچھونے کے چاروں طرف کیاریوں میں رنگ برنگ کے پھول کھل رہے تھے۔ پھولوں کے پودے لان کے علاوہ کوٹھی کے دوسرے خالی حصّوں میں بھی جگہ جگہ لہلہا رہے تھے۔ ان پھولوں کی خوشبوئیں کوٹھی کے ماحول کو ہر وقت معطر رکھتی تھیں اور اپنے آس پاس کی فضا کو بھی مہکاتی رہتی تھیں۔ وہاں سے خوشبوئیں نکل کر ہمارے مکان میں بھی آتی تھیں۔ ہمارا مکان اس کوٹھی سے ملا ہوا تھا۔ اس کوٹھی اور ہمارے مکان کے درمیان صرف ایک باؤنڈری لگتی تھی۔ اسی باؤنڈری کے کنارے کنارے اس کوٹھی کے مالک اپنی مالکن کے ہمراہ روزانہ صبح و شام بلا ناغہ ٹہلا کرتے تھے اور ہمارے ٹیرس سے وہ ہمیں بہت قریب سے دکھائی دیتے تھے۔ نظر پڑنے پر اکثر ہم انھیں آداب بجا لاتے تھے اور وہ بڑے شفیق اور نرم لہجے میں ہمارے آداب کے جواب میں ہمیں دعائیں دیتے تھے۔ایسا لگتا تھا جیسے وہ ہمارے اپنے بزرگ ہوں۔
میں دیر تک اس کوٹھی کو مختلف زاویوں سے دیکھتا رہا۔ میرا دماغ اس کے متعلق بہت کچھ سوچتا رہا اور میرا دل اس پر پڑنے والی ضرب کو سنتا اور سہتا رہا۔ پھر میں کسی ضروری کام سے باہر چلا گیا۔
شام کو لوٹا تو میری نظریں ایک بار پھر اس کوٹھی کی جانب مرکوز ہو گئیں۔
گنبد کا اوپری حصّہ ایک طرف سے ٹوٹ چکا تھا اور باقی حصہ جگہ جگہ سے دب گیا تھا، گول مٹول سڈول دکھائی دینے والا گنبد داغ دار ہوا پڑا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے گنبد کے چہرے پر ان گنت آنکھیں اور منہ ابھر آئے ہوں۔ ہر ایک آنکھ رحم طلب نظروں سے مجھے دیکھ رہی ہو اور ہر ایک منہ مجھ سے فریاد کر رہا ہو۔ مجھ سے کہہ رہا ہو:
خدا کے لیے ہمیں بچالو۔ ان ہتھوڑوں کی ضرب کو روک دو۔ ہمارے مکینوں کو سمجھاؤ۔ ان سے کہو کہ ہم نے ان کا کیا بگاڑا ہے کہ وہ ہمیں اس طرح بے دردی سے ڈھا رہے ہیں۔ ہمیں نیست و نابود کرنے پر تلے ہیں۔ انھیں بتاؤ کہ ہم تو ہمیشہ ہی ان کے کام آئے ہیں۔ ان کی کئی پشتوں کی حفاظت کی ہے۔ ان کی توقیر بڑھائی ہے۔ ان کے ناموں کو روشن کیا ہے۔ ان سے یہ بھی کہو کہ ہمیں کچھ نہیں ہوا ہے۔ ہم اب بھی اسی طرح مضبوط ہیں اور ہماری وفاداری آج بھی قائم ہے اور ہم آئندہ بھی۔ ۔ ۔
میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ میں بھیگی آنکھوں سے اس عمارت کو دیکھتا رہا۔ اس کے اندر سے نکلنے والی آواز کو سنتا رہا۔ شام گہری ہوتی گئی۔ آہستہ آہستہ کوٹھی دھند میں کھوتی چلی گئی۔
دن نکلتے ہی ٹھک ٹھک کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا۔ گنبد پر صبح سے شام تک ہتھوڑے برستے رہے۔ نہایت مضبوط گنبد بھی ہتھوڑوں کی مسلسل چوٹ پر آہستہ آہستہ کمزور پڑتا گیا۔ اندر اور باہر دونوں طرف سے تھوڑا تھوڑا ٹوٹتا گیا اور ایک دن پوری طرح منہدم ہو گیا۔
ایک گنبد کے بعد دوسرے گنبد کے انہدام کا کام شروع ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دوسرے گنبد کا کام بھی تمام ہو گیا۔ کچھ دنوں میں کوٹھی کے سارے گنبد ڈھہہ گئے۔ سرفرازی عطا کرنے والے نشانوں سے کوٹھی پوری طرح خالی ہو گئی۔ بے گنبد کی کوٹھی بد ہیئت، بے رونق اور بے وقار سیلگنے لگی۔
گنبدوں کے بعد چھتوں کا نمبر آ گیا۔ چھتیں بھی بڑی شکل سے ٹوٹ پائیں۔
چھتوں کے بعد دیواریں گرنے لگیں اور ایک ایک کر کے ساری دیواریں بھی زمیں بوس ہو گئیں۔ کوٹھی ملبے میں تبدیل ہو گئی۔ ملبے کے آس پاس بلڈوزر آ گئے اور آناً فاناً میں کوٹھی کا سارا ملبہ بھی سرک گیا۔
کوٹھی کے گرنے اور ملبوں کے ہٹنے کے بعد کیمپس میں کھڑے پیڑ بھی کٹنے لگے۔ دوسروں کو سایہ دینے والے درخت خود اپنے وجود سے بھی محروم ہوتے چلے گئے۔
پھولوں کا بھی یہی حشر ہوا۔ کچھ پھول زمین کی کھدائی کی نذر ہو گئے۔ کچھ پر مٹّی پڑ گئی اور جو باقی بچے وہ اینٹ، بجری، بالو اور سریا کے ڈھیروں کے نیچے دب کر اینٹھ گئے۔
رنگ اڑ گئے، خوشبوئیں مٹی میں مل گئیں۔
میری آنکھیں گنبدوں کے ٹوٹنے سے لے کر دیواروں کے گرنے تک اس کوٹھی کے مکینوں کی متلاشی رہیں۔ وہاں آنے جانے والے لوگوں میں وہ چہرے تلاش کرتی رہیں جو کبھی اس کوٹھی میں رات دن دکھائی دیا کرتے تھے۔ شاید میری آنکھیں یہ دیکھنا چاہتی تھیں کہ اس انہدام کا ان پر کیا اثر ہوا مگر آخر تک ان میں سے کوئی بھی چہرہ دکھائی نہیں دیا۔
کچھ دنوں بعد وہاں ایک بہت بڑا اپارٹمنٹ بن کر تیار ہو گیا۔ ایک ایک کر کے لوگ فلیٹوں میں آنا بھی شروع ہو گئے۔ وہ مقام جو نہایت پرسکون رہا کرتا تھا، شور اور ہنگاموں سے بھر گیا۔ صبح و شام گاڑیاں دندنانے لگیں۔ ان سے نکلنے والی طرح طرح کی آوازیں گونجنے لگیں۔ اِدھر اُدھر سے دھواں اٹھنے لگا۔ فضا میں پیٹرول اور ڈیزل کی بو بسنے لگی۔ کمروں سے ویسٹرن میوزک کی فلک شگاف صدائیں چیخنے لگیں۔
ایک دن ہمارے مکان کے سامنے والے فلیٹ کی بالکونی میں بیٹھے مجھے دو بزرگ نظر آئے۔ غور سے دیکھا تو وہ کوٹھی کے مالک اور مالکن تھے جو اِس وقت کوٹھی کے زمانے میں باؤنڈری کے کنارے کنارے ہوا خوری کرتے نظر آتے تھے۔
دونوں کی نظریں بالکونی کے کناروں پر رکھے گملوں پر ٹکی ہوئی تھیں۔ کچھ گملوں میں کیکٹس تھے اور کچھ میں وہ پھول جو کبھی کوٹھی کے لان میں کھلے نظر آتے تھے۔ کوٹھی کے لان میں ہر وقت کھلے رہنے والے پھول مرجھائے پڑے تھے۔
اچانک میری نگاہیں پھولوں سے ہٹ کر بالکونی کی لمبائی چوڑائی ناپنے میں مصروف ہو گئیں :
بالکونی کوئی دس بارہ فٹ لمبی اور تین یا چار فٹ چوڑی ہو گی۔ بالکونی کے سائز سے اندازہ ہوا کہ فلیٹ کے کمرے دس بائی بارہ (12×10) یا بارہ بائی چودہ (14×12) کے ہوں گے۔ ادھر ادھر دیکھنے پر یہ بھی اندازہ ہوا کہ اس فلیٹ میں دو یا تین بیڈروم ہوں گے۔ ان کے علاوہ ایک ڈرائنگ روم ہو گا۔ ایک لابی ہو گی۔ ایک کچن ہو گا اور دو یا تین باتھ روم ہوں گے۔ یعنی فلیٹ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سوگز میں بنا ہو گا۔
اچانک کوٹھی کی باہری بیٹھک جس میں عام لوگوں کو بٹھایا جاتا تھا، میری آنکھوں میں ابھر آئی۔ اس بیٹھک کی لمبائی چوڑائی اس پورے فلیٹ کے رقبے سے زیادہ ہی ہو گی۔ خاص لوگوں والی بیٹھک تو اس سے بھی بڑی تھی جس میں ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک بہترین قسم کے صوفے بچھے رہتے تھے۔ فرش پر ایرانی قالین جگمگاتا رہتا تھا اور دیواروں پر شیر، چیتے، ہرن وغیرہ کی کھالیں لٹک رہی ہوتی تھیں۔ وہ سارے صوفے تو اس فلیٹ میں آ نہیں پائے ہوں گے ؟ کیا کیا ہو گا ان کا؟ کیا پتہ وہ بھی ٹوٹ گئے ہوں یا۔ ۔ ۔
کوٹھی کی بیٹھک آنکھوں سے نکل گئی۔ نگاہیں پھر سے بالکونی میں بیٹھے ان بزرگوں پر مرکوز ہو گئیں۔ وہ جن کرسیوں پر بیٹھے تھے وہ وہ نہیں تھیں جن پر وہ اکثر اپنے لان کے پاس بیٹھا کرتے تھے۔ وہ تو ایزی چیئر ہوا کرتی تھیں جو آگے پیچھے دور تک پھیلی ہوئی ہوتی تھیں۔ وہ کرسیاں تو اس بالکونی میں بچھ بھی نہیں سکتی تھیں۔
ان کی نظریں اب بھی ان گملوں پر مرکوز تھیں۔
کچھ دنوں بعد میں نے دیکھا کہ بالکونی کے گملوں کے وہ پھول جو کوٹھی کے لان کے پھولوں کی طرح لگتے تھے، غائب ہو گئے تھے اور ان کی جگہ پر بھی کیکٹس آ گئے تھے۔ شاید اصلی زمین پر پروان چڑھنے والے پودے گملوں کی مصنوعی زمین میں پنپ نہیں پائے تھے۔
صبح کے وقت وہ دونوں بزرگ اکثر مجھے بالکونی میں بیٹھے نظر آتے تھے۔ جب سے وہ فلیٹ میں آئے تھے ان کی صبح کی سیر بند ہو گئی تھی یا انھوں نے اپنی سیر کا وقت تبدیل کر لیا تھا۔ بالکونی میں بیٹھے یا تو وہ گملوں کو تاکا کرتے تھے یا باؤنڈریسے لگی زمین کی سمت اپنی نظریں جمائے رہتے تھے جو کبھی نو دس فٹ کی فٹ پاتھ ہوا کرتی تھی اور اب سکڑ کر دو ڈھائی فٹ کی گلی بن گئی تھی۔
اکثر میرے جی میں آتا کہ میں ان سے پوچھوں کہ انھوں نے یہ کیا کیا؟ کیوں کیا؟ پھر ایک دن مجھے خود ہی جواب مل گیا۔ معلوم ہوا کہ پورے جاپلنگ روڈ کا یہی حال ہوا پڑا ہے۔ زیادہ تر کوٹھیاں ٹوٹ چکی ہیں اور ان کی زمینوں میں اپارٹمنٹ بن گئے ہیں اور جو بچ گئی ہیں انھیں توڑنے کی تیاریاں چل رہی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی وبا پھیلی ہوئی ہو۔ سچ مچ وبا ہی تھی۔ اس وبا کے جراثیم بہت پہلے ان کوٹھیوں میں چھوڑ دیے گئے تھے جنھوں نے اندر ہی اندر انھیں اور ان کے مکینوں کو کھوکھلا کرنا شروع کر دیا تھا اور ان کے گوشت پوست کو چاٹ کر انھیں ڈھانچا بنا دیا تھا اور ڈھانچے کو تو ایک دن گرنا ہی تھا۔
آہستہ آہستہ میں اس کوٹھی کو بھول گیا مگر ایک دن ابّا میرے کمرے میں آئے اور بولے ’’ہم بھی اپنے مکان کو توڑ کر فلیٹ بنا دیں تو کیسا رہیگا؟‘‘
یہ سنتے ہی کوٹھی پھر سے میرے ذہن میں کھڑی ہو گئی۔ ہتھوڑے برسنے لگے۔ گنبد چٹخنے لگے۔ پلسٹر ادھڑنے لگا۔ دیواریں چٹخنے لگیں۔ کوٹھی باہر اندر دونوں جانب سے ٹوٹنے لگی۔
میں کچھ بولے بغیر ابّا کو ہکّا بکّا ہو کر دیکھنے لگا۔
’’تم مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو؟ کیا میں نے کچھ غلط کہہ دیا؟‘‘ میری حیرت پر ابّا بھی حیران ہو اٹھے۔
’’ابّا! ایسا اگر میں سوچتا تو شاید حق بجانب بھی ہوتا مگر آپ سوچ رہے ہیں اس لیے حیرت تو ہو گی ہی۔ ‘‘
’’کیوں، مجھے ایسا نہیں سوچنا چاہیے ؟‘‘ ابا کی نظریں مجھ سے جواب چاہنے لگیں۔
’’ابّا! کیا آپ کو اس مکان میں کوئی تکلیف ہے ؟‘‘
’’نہیں تو، مگر تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘
ابّا کا جواب سن کر مجھے اطمینان ہوا کہ کوٹھی والے جراثیم ہمارے مکان میں داخل نہیں ہوئے ہیں اور وہ داخل ہو بھی کیسے سکتے ہیں، ہمارے پاس مکان ہے، کوٹھی تھوڑے ہی ہے۔
’’تم نے جواب نہیں دیا۔ ‘‘ ابا مجھے بے چین سے نظر آنے لگے۔
’’اس لیے کہ آپ کے ذہن میں فلیٹ کا یہ منصوبہ جو آیا۔ ‘‘
’’کیا بغیر کسی تکلیف یا پریشانی کے یہ منصوبہ ذہن میں نہیں آ سکتا؟‘‘
’’آپ کے ذہن میں تو نہیں آنا چاہیے۔ ‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’اس لیے کہ آپ پرانی قدروں کے پاسدار ہیں۔ اپنی روایات آپ کو عزیز ہیں۔ اپنے ورثے سے جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں آپ۔ آپ لوگوں کی سوچ نئی نسلی کی طرح نہیں ہوتی۔ ‘‘
’’کیا ہم یہ نہیں سوچ سکتے کہ ہماری اولاد متمول ہو۔ اس کے پاس عیش و آرام کے سامان ہوں۔ وہ خوشحال زندگی بسر کرے۔ تنگ دستی کے احساس سے وہ دو چار نہ ہو۔
’’ایسا ضرور سوچ سکتے ہیں اور سوچنا بھی چاہیے مگر اس کے لیے اس طرح کا منصوبہ باندھنا مناسب نہیں ہے۔ ہمارا تو اس مکان سے رشتہ اتنا گہرا نہیں ہے مگر آپ کا تو۔ ۔ ۔ ‘‘
میں نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
میری بات سن کر ابّا دیر تک خاموش رہے۔ پھر کھنکار کر بولے ’’میں سمجھ گیا کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو اور تم اپنی جگہ حق بجانب بھی ہو مگر اس پہلو پر ذرا اس زاویے سے بھی تو سوچ کر دیکھو کہ ہمارے ایسا کرنے سے کئی بے گھر لوگوں کو بھی گھر مل سکتا ہے۔ ہماری بدولت دوسروں کو بھی چھت نصیب ہو سکتی ہے اور ایک جگہ پر جہاں صرف ایک کنبہ آباد ہے، وہاں کئی خاندان بس سکتے ہیں ‘‘۔
میری نظریں ایک بار پھر سے ابّا کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں۔
’’تم پھر سے مجھے گھورنے لگے۔ کیا میرا ایسا سوچنا غلط ہے ؟‘‘
’’نہیں، ایسا سوچنا بالکل غلط نہیں ہے۔ بیشک سوچنے کا یہ بھی ایک زاویہ ہے اور بلاشبہ یہ ایک مثبت زاویہ ہے مگر سچ بتائیے گا ابّا! کیا آپ ایسا سوچتے ہیں ؟ کیا واقعی آپ یہ منصوبہ اس لیے باندھ رہے ہیں کہ کچھ لوگوں کو آپ کے اس منصوبے سے گھر مل جائے گا؟‘‘
ابّا خاموش ہو گئے اور اس بار اس طرح خاموش ہوئے جیسے ان کی کوئی چوری پکڑ لی گئی ہو۔
’’ابّا، آپ کی خاموشی بتا رہی ہے کہ آپ ایسا نہیں سوچتے۔ آپ کیا، کوئی بھی ایسا نہیں سوچتا۔ ‘‘
’’مانا کہ میں ایسا نہیں سوچتا مگر بیٹے ! ذرا اس پہلو پر بھی تو غور کرو کہ یہ منصوبہ میرے ذہن میں کیوں آیا؟ روایتوں کی پاسداری کرنے والا ایک بوڑھا شخص کیوں ایسا سوچنے پر مجبور ہوا؟ بیٹے ! بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو کہی نہیں جاتیں۔ کاش تم۔ ۔ ۔ ‘‘
ابّا کچھ اور کہتے کہتے رک گئے۔
ابّا اور کیا کہنا چاہتے تھے ؟ ان کا اشارہ کن باتوں کی طرف تھا؟ ان کہی باتیں کیا ہو سکتی ہیں ؟
میرا ذہن ادھر ادھر دوڑنے لگا۔
’’ٹھیک ہے، تمھاری مرضی نہیں ہے تو یہ کام نہیں ہو گا۔ چلتا ہوں۔
ابّا چھڑی کے سہارے اٹھ کر جانے لگے۔ ‘‘
’’کیسے نہیں ہو گا؟‘‘ یہ میرے چھوٹے بھائی کی آواز تھی۔ شاید وہ دروازے کی اوٹ سے ہماری باتیں سن رہا تھا۔ وہ دروازے کے پاس سے کمرے میں آ گیا۔ ابّا کے پاؤں رک گئے۔
’’کیا بات ہے، تم اتنے طیش میں کیوں ہو اشفاق؟‘‘
’’طیش میں آنے کی بات ہی ہے بھّیا! ابّا اتنا اچھا پروپوزل آپ کے پاس لے کر آئے اور آپ نے اسے Reject کر دیا۔ ‘‘
’’اپنے بزرگوں کی امانت میں خیانت کرنا اور اپنی وراثت کو اجاڑنا کیا یہ اچھا پروپوزل ہے ؟ اور اتنے بڑے اور کشادہ مکان کو ختم کر کے فلیٹ کو ترجیح دینا یہ کہاں کی عقلمندی ہے ؟‘‘
’’تو کیا یہ عقلمندی ہے کہ ہم ایک سڑے گلے سیلن زدہ مکان میں اپنی پوری زندگی گزار دیں ‘‘۔
’’میری نگاہیں حیرت اور غصے سے اشفاق کو دیکھنے لگیں۔ ‘‘
’’بھیا! میں جانتا ہوں کہ میرا جواب آپ کو اچھا نہیں لگا اور میرا لہجہ بھی آپ کو ناگوار محسوس ہوا مگر حقیقت یہی ہے کہ آپ جس مکان کو بڑا سمجھ رہے ہیں وہ آج کے تناظر میں کافی چھوٹا ہو چکا ہے۔ آپ کو اس کی کشادگی تو نظر آتی ہے مگر اس کی تنگی محسوس نہیں ہوتی۔ پتہ نہیں آپ کیسے فن کار ہیں کہ ساری دنیا کا دکھ درد تو آپ کو نظر آتا ہے مگر اپنے گھر کا کرب کبھی محسوس نہیں ہوتا۔ بھیّا! آپ جس مکان کا قصیدہ پڑھ رہے ہیں کبھی آپ نے اس پر غور کیا ہے کہ جب ہمارے بچوں کے دوست ہماری بیٹھک میں بیٹھتے ہیں اور ان کی نظریں ہمارے ادھڑے ہوئے فرش کو کریدتی ہیں تو اس وقت ہمارے بچوں کے دلوں میں کیسی کیسی چبھن ہوتی ہے ؟ وہ اپنے اندر کیا کیا ٹوٹتا ہوا محسوس کرتے ہیں ؟، بھّیا! کبھی آپ نے بھابی جان کی خاموشی پڑھنے کی کوشش کی ہے کہ اس میں کیا کیا چھپا ہے ؟ کیسی کیسی چیخیں پنہاں ہیں ؟ بچوں سے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ اس مکان میں کیسا محسوس کرتے ہیں ؟ انھیں کس طرح کی زندگی چاہیے ؟ کھانے پینے کے علاوہ انھیں اور کیا کیا چاہیے ؟ آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بچے یہاں مطمئن ہیں۔ وہ اس زندگی سے خوش ہیں مگر آپ کی یہ خوش فہمی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ اپنی موجودہ طرزِ زندگی سے دکھی ہیں۔ اوبے ہوئے ہیں مگر وہ ہمارے ڈر سے اپنے کرب کا اظہار نہیں کرتے۔ یا ہمارے گھر کا سنسکار ان کا منہ بند رکھتا ہے۔ بھیّا! سچ یہ ہے کہ ہمارا مکان بوسیدہ اور بیکار ہو چکا ہے۔ اس کا ختم ہو جانا ہی بہتر ہے مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ اس بوسیدہ اور پرانے مکان کے لیے اتنا فکر مند کیوں ہیں ؟‘‘
اشفاق نہ جانے کب سے بھرا بیٹھا تھا۔ اس نے ایک ہی سانس میں اپنی ساری بھڑاس نکال لی۔
’’اشفاق ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے۔ ہمارا یہ مکان کافی بوسیدہ ہو چکا ہے۔ اتنا بوسیدہ کہ جگہ جگہ دیواروں پر پپڑیاں نکل آئی ہیں۔ پلسٹر جھڑ رہا ہے۔ بعض کمروں کا فرش بھی چٹخ گیا ہے۔ کئی جگہوں سے تو بیٹھ بھی گیا ہے۔ پھر اتنے لمبے چوڑے کمرے ہیں کہ جھاڑو دیتے وقت گھر کی عورتوں کی سانسیں اکھڑ جاتی ہیں۔ صحن اتنا لمبا ہے کہ ٹھیک سے صاف نہیں ہو پاتا۔ کسی نہ کسی گوشے میں کوڑا رہ ہی جاتا ہے۔ چھتوں کا حال بھی برا ہے۔ ہمارا یہ مکان بالکل ضعیف اور بیمار ہو چکا ہے اشتیاق! ہمارے خیال سے تو اسے۔ ..‘‘
میری آنکھیں ابا کے سراپے کو گھورنے لگیں۔
ابا کا سر بالوں سے لگ بھگ خالی ہو چکا تھا۔ پیشانی پر جھرّیوں کا جال بچھ گیا تھا۔ آنکھیں اندر تک دھنس گئی تھیں۔ کنپٹیوں کے دونوں کناروں پر گڈھے بن گئے تھے۔ سینے کی پسلیاں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ ہاتھ پاؤں کی کھال ہڈیوں سے الگ ہو کر لٹک گئی تھی۔ کمر جھک گئی تھی۔ ہاتھ میں ہر وقت عصا رہنے لگی تھی۔ یہ وہ چھڑی نہیں تھی جسے وہ اپنی ماسٹری کے دور میں اسکول لے جایا کرتے تھے اور اس سے شریر اور کند ذہن بچوں کی چمڑی ادھیڑا کرتے تھے اور راستے میں بھونکنے والے کتوں کی پیٹھ پر بجایا کرتے تھے بلکہ یہ وہ چھڑی تھی جو اب ان کے بڑھاپے کا سہارا بنی ہوئی تھی۔ اٹھنے بیٹھنے میں ان کی مدد کرتی تھی۔ ان کی لڑکھڑاہٹ کم کرتی تھی۔ انھیں گرنے سے بچاتی تھی۔ ابا کے چہرے کا رنگ اب ویسا نہیں رہ گیا تھا جو ان کی تعلیم کے دور تک برقرار تھا۔ دیدے ویران اور سنسان ہو گئے تھے۔
میرے جی میں آیا کہ میں ابا سے یہ سوال پوچھوں کہ جو ضعیف اور پرانا ہو جاتا ہے کیا اسے ختم کر دیا جاتا ہے کہ اچانک مجھے محسوس ہوا جیسے کسی نے پیچھے سے میرے سر پر چپت لگائی ہو۔ میں نے دل ہی دل میں توبہ استغفار کیا اور ابا سے مخاطب ہوتا ہوا بولا:
’’ٹھیک ہے ابّا! جب آپ سب نے من بنا ہی لیا ہے تو میں بھلا اکیلا آپ لوگوں کو کیسے روک سکتا ہوں۔ ‘‘
’’اشتیاق بیٹے ! اس میں ناراض ہونے کی بات نہیں ہے۔ ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ گھر میں بغیر تمھاری مرضی کے کوئی کام ہو۔ میری تم سے التجا ہے کہ اس مسئلے پر ایک بار پھر سے سوچو اور سوچتے وقت ان باتوں پر بھی دھیان دو جنھیں ہم زبان پر نہیں لا پاتے۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔ ‘‘
’’بھیا! میں بھی چلتا ہوں۔ مجھ سے کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو معارف کر دیجیے گا۔ میری نیت آپ کا دل دکھانا ہرگز نہیں تھی۔
ابا اور میرا چھوٹا بھائی دونوں چلے گئے۔ میں کمرے میں اکیلا رہ گیا مگر ان کے جاتے ہی میرے سامنے منظروں اور آوازوں کا ریلا لگ گیا۔
آہستہ آہستہ میرے مکان کا رقبہ سکڑنے لگا۔ فرش سمٹنے لگا۔ دیواریں بیٹھنے لگیں۔ چھتیں نیچے آ گئیں۔ لمبا چوڑا مکان چھوٹا ہو گیا۔ جیسے ہمارا قد کسی جادوئی شیشہ گھر کے شیشے کے سامنے بونا ہو جاتا ہے۔
اچانک پڑوسی کی وہ کوٹھی بھی کھڑی ہو گئی جو منہدم ہو چکی تھی۔ اس کا گیٹ کھلا، کوٹھی کا اندرونی حصہ سامنے آ گیا۔ میری آنکھوں کے شیشے میں وہ بھی ویسا ہی نظر آنے لگا جیسا کہ میرا مکان مجھے دکھائی دے رہا تھا۔
اشفاق اور ابا کے منصوبے کی پھونک سے میرے اندر کی بھڑکی ہوئی آگ صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔
ہم اپنے مکان سے نکل کر عارضی طور پر کسی کرائے کے مکان میں منتقل ہو گئے۔ ہمارے مکان پر بھی ہتھوڑے برسنے لگے۔ اس کی بھی چھت ادھڑنے لگی۔ اس کی دیواریں بھی ٹوٹنے لگیں۔ اس سے بھی ٹھک ٹھک کی آوازیں ابھرنے لگیں مگر میں ان آوازوں کو نہیں سن سکا۔ میرے دل پر کوئی چوٹ بھی محسوس نہیں ہوئی جیسے میرے دل اور سماعت دونوں کو سن کر دیا گیا ہو۔
٭٭٭
٭٭٭
تشکر: نسترن احسن فتیحی جنہوں نے فائل فراہم کی اور مصنف جنہوں نے لائبریری میں شامل کرنے کی اجازت دی
ان پیج سے تبدیلی تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید