ٹِری ٹوپس
جم کوربٹ / مترجم: سمیع محمد خان
ٹائپنگ: انیس الرحمٰن
ڈاؤن لوڈ کریں
تعارف
جم کوربٹ نے سنہ ۱۹۵۲ میں ملکہ ایلزبتھ کے ٹری ٹوپس پر مدعو کیے جانے کا قصہ کینیا میں اپنے اچانک انتقال سے کچھ عرصے پہلے ۱۹ اپریل ۱۹۵۵ کو مکمل کیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر اسی سال تھی۔ سنہ ۱۹۵۱ میں جب وہ انگلینڈ آئے تھے تو ان کے چہرے پر ضعیفی کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس زمانے میں وہ انگریز فوجیوں کو برما کے محاذ پر لے جانے سے قبل سینٹرل انڈیا کے جنگلات میں ’جنگل وارفیئر‘ کی ٹریننگ دے رہے تھے، تو وہ سخت علیل ہو گئے تھے اور اس کے بعد وہ کبھی پوری طرح صحتیاب نہ ہو سکے۔
میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اس کتاب کے مطالعہ کرنے والوں کے خیالات ان سے کس حد تک مختلف ہوں گے۔ جو مرحوم کے دوستوں کے ذہن میں تازہ ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ایسے ناظرین جو ان سے واقف بھی تھے، ان کی تصانیف کو بہتر سمجھ سکیں گے۔ ایک عظیم پہلو اُن کی زندگی کا یہ تھا کہ اپنی زبان سے وہ کبھی ان تکالیف اور خطرات کا تذکرہ نہیں کرتے تھے جو آدم خور شیروں کے تعاقب اور ان کے حملہ آور ہونے کے نتیجے میں پیش آتے تھے۔ غالباً ان کا یہ خیال تھا کہ یہ حادثات ان عظیم حیوانوں اور ان کے درمیان ایک ذاتی معاملہ تھا۔ جم کوربٹ ان کی قوّت اور ہمّت کا احترام کرتے تھے اور ان کی گستاخیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کر جاتے تھے۔ جم کوربٹ سے واقف اشخاص کی کثیر تعداد ایسی تھی جن کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے ہر دلعزیز ہونے کی وجہ سے کماؤں کے میدانی علاقوں سے لے کر فلک بوس پہاڑوں کے جھونپڑوں میں رہنے والے باشندوں تک ان کا نام عبادت کے طور پر لیا جاتا تھا۔ اگر جم کوربٹ کے دل میں ہندوستانی فوجی نابیناؤں کے تربیتی اسکول سینٹ ڈنسٹن کے لیے چندہ فراہم کرنے کا خیال پیدا نہ ہوتا تو ان کی مشہورِ عالم تصنیف ’کماؤں کے آدم خور‘ کا ۱۹۴۴ء میں شائع ہونا نا ممکن تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس کتاب سے جمع ہونے والی رقم کے بارے میں ان کا اپنا اندازہ کتنا عاجزانہ تھا۔ ان کو کبھی اس حقیقت کا صحیح اندازہ نہیں ہوا کہ جو واقعات وہ لکھ رہے تھے کس درجہ خوفناک تھے اور ان کے خوبصورت طرزِ بیان نے کس حد تک دلچسپ بنا دیا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کتاب کے شائع ہونے کے چند ماہ بعد ساری دنیا میں اس کی دھوم مچ گئی۔
چونکہ اپنی کہانیوں کہ وہ خود ہی محور تھے۔ اس لیے ان کی زندگی کے حالات اور گذر اوقات کے بارے میں روشنی ڈالنے کی کافی گنجائش ہے۔ جن ناظرین نے ان کی تصانیف ’مائی انڈیا‘ اور ’جنگل لور‘ پڑھی ہیں ان کو یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں کہ جم کوربٹ کثیر العیال خاندان کے ایک فرد تھے۔ جن کی پرورش موسمِ گرما میں نینی تال اور موسمِ سرما میں اس کے نیچے ہمالیہ پہاڑ کے دامن میں ایک چھوٹی بستی کالا ڈھنگی میں ہوئی۔ جہاں اس خاندان کی چھوٹی سی ملکیت تھی۔ اوائل عمری سے شکار ان کی زندگی کا ایک حصہ بن گیا تھا اور اپنے اس شوق کو بطور فن اپنانے کے لیے بچپن ہی سے جنگل اور اس کے ماحول سے خود کو روشناس کرنے کی کوشش کی تاکہ آئندہ زندگی میں محدود ذرائع ہونے کے باوجود اپنا مقصد پورا کر سکیں۔ جنگل میں بغیر آہٹ کے چلنے کا فن جو بچپن میں سیکھا تھا۔ وہ ان کو ہمیشہ یاد رہا اور تمام عمر شکار میں اس کا پورا فائدہ اٹھایا۔ اسی طرح جنگلی جانوروں اور پرندوں کی آوازوں کا فرق اور نشانوں کی پہچان کرنے میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ جس کے نتیجے میں رائفل کے استعمال میں پھرتی اور نشانہ کی درستی میں کمال کی مطابقت پیدا ہو گئی تھی، جو ان کی آئندہ زندگی میں مفید اور معاون ثابت ہوئی۔
ان کے اوائل عمری کے ایک ساتھی نے بتایا کہ جوانی میں بھی وہ اپنی کامیابیوں پر کبھی فخر نہیں کرتے تھے۔ اچھا نشانہ لگانا ان کے نزدیک ایک فنی تقاضا تھا۔ جم کوربٹ اس اصول کے پابند تھے کہ جانوروں کو ہلاک کرنے کا طریقہ فوری ہونا چاہیے۔ تاکہ مرنے سے پہلے کی اذیت سے محفوظ رہ سکیں۔
نینی تال کے اسکول سے تعلیم ختم کرنے کے تھوڑے دن بعد ان کو ریلوے کے محکمے میں ملازمت مل گئی۔ ابتداء ایک معمولی عہدے سے ہوئی لیکن کچھ عرصے بعد محکمہ گھاٹ میں جہاں دریائے گنگ نے دو مختلف ریلوں کے درمیان خلا پیدا کر دیا تھا۔ ان کو سامان کے نقل و حمل کا افسر بنا دیا گیا۔ اس دریا کے اوپر اب تو بہت بڑا پل تعمیر ہو گیا ہے، لیکن پہلے لاکھوں من سامان بادبانی کشتیوں کے ذریعے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچایا جاتا تھا۔ کام کی نوعیت انتہائی سخت اور تکلیف دہ تھی لیکن اپنے قوت ارادی اور تحمل کی وجہ سے بیس سال تک ان فرائض کو نہایت خوش اسلوبی اور تندہی سے انجام دیتے رہے۔ اس کامیابی کا راز ان کا اپنے سینکڑوں کام کرنے والے مزدوروں کے ساتھ انتہائی مشفقانہ برتاؤ اور ان کے دکھ درد میں برابر کا شریک ہونا تھا۔ اس خوشگوار تعلقات کا ثبوت پہلی جنگِ عظیم کے دوران کماؤں لیبر کور کا قائم کرنا اور ان کا بیرونِ ملک بھیجنا تھا۔ اسی کا ایک حصہ وہ خود فرانس لے کر گئے۔ جم کی عدم موجودگی میں محکمہ گھاٹ کے ہندوستانی ملازمین نے طے کیا کہ جم کی غیر حاضری میں کام اسی خوش اسلوبی سے جاری رہے تاکہ ان کو بحیثیت ٹھیکیدار نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ لڑائی کے دوران ان کو انڈین آرمی میں عارضی میجر کے عہدے سے نوازا گیا۔
لڑائی کے دوران انتہائی مصروفیات کی وجہ سے ان کو شکار کی طرف توجہ دینے کی مہلت نہیں ملی لیکن تین مرتبہ جب وہ رخصت پر اپنے گھر کماؤں آئے تو دور دراز مقامات کے باشندوں کے تقاضے پر آدم خور شیروں سے نجات دلانے کے لیے ان کو جانا پڑا۔ ۱۹۰۷ اور ۱۹۱۱ کے درمیانی سالوں میں جم کوربٹ نے چمپاوت اور مکتیسر کے آدم خور شیر اور پانار کا تیندوا مارا۔ ان میں سے پہلے اور دوسرے نمبر کے آدم خوروں نے ۸۳۶ انسانوں کو لقمہ اجل بنایا تھا۔ ہمارے زمانے میں جتنے انسان شیروں نے کماؤں کے علاقے میں ہلاک کیے۔ اس کی مثال نہیں ملتی۔ مثلاً سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ردراپریاگ کے آدم خور تیندوے نے تنہا ایک سو پچاس ۱۵۰ اشخاص کو ہلاک کیا تھا۔ یہ تیندوا اس وجہ سے اور بھی بدنام ہو گیا تھا کیونکہ یہ اس نواح سے تیرتھ پر جانے والے یاتریوں کو اپنا نشانہ بناتا تھا۔
محکمہ گھاٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد ان کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ اب وہ آزاد تھے۔ ان کی ضروریات محدود تھیں۔ غیر شادی شدہ تھے لیکن نینی تال اور کالا ڈھنگی میں ان کی دو جاں نثار بہنیں ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ ایک بہن‘‘میگی’’ جن کا تذکرہ جم نے اکثر اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ ان کے انتقال کے بعد تک زندہ رہیں۔ اسی زمانے سے شیروں کے ساتھ خوفناک معرکوں کی ابتداء ہوئی۔ جن کا مفصّل حال انہوں نے نہایت خوبصورت انداز میں اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ان کی ہمّت اور چستی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ردراپریاگ کے آدم خور تیندوے کو مارنے کی طویل داستان جس میں بھوکے پیاسے اور کئی دن بغیر سوئے تعاقب کرنے کا ذکر کیا ہے، اس وقت ان کی عمر اکیاون ۵۱ سال تھی۔ یہ ایام اتنے خطرناک حالات میں گزرے کہ وہ شکاری بھی تھے اور خود بھی شکار ہونے کے امکانات تھے۔ ٹھاک کا شیر مارتے وقت ان کی عمر تریسٹھ ۶۳ برس تھی۔ ان کی قوتِ برداشت اور حیوانوں سے مقابلہ کرنے کی قابلیت کا کچھ ٹھکانہ نہیں تھا۔
لیکن جو زندگی اب بسر کر رہے تھے اس کا ایک اور پہلو بھی تھا۔ ان کے نزدیک صحیح معنوں میں شکار کھیلنے کا مفہوم بدل گیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ شیر یا تیندوے جب تک مجبوراً انسانوں کی جانیں ضائع نہ کریں، بے ضرر ہوتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ میں اور وہ ساتھ ہوتے اور پہاڑی علاقے کے رہنے والے ان کے پاس صرف ان کی مدد طلب کرنے آتے تھے۔ اس لیے کہ پورے کماؤں کو معلوم تھا کہ ان کی جان بچانے کی خاطر وہ آدم خور شیروں کے مارنے میں اپنی جان کی بازی لڑا دیتے تھے۔
مشاہدہ کرنے سے اندازہ ہوتا تھا کہ جنگل کے ماحول کے بارے میں ان کی دلچسپی اب قدرت کے کرشموں سے محفوظ ہونے کی حد تک باقی رہ گئی تھی۔ پہاڑوں اور جنگلوں میں ان کی سنگت سے زیادہ دلچسپ کوئی اور تفریح نہیں ہو سکتی تھی۔ کسی پتلی شاخ یا لکڑی کے چٹخنے کی آواز یا کسی جانور یا چڑیا کا بولنا ان کے نزدیک معنی رکھتا تھا۔ ان کے لیے قدرتی حالت اور ماحول میں جانوروں کی چلتی پھرتی تصاویر لینا شکار سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ ایک مرتبہ کالا ڈھنگی کے جنگل میں میری نگاہ ان پر اس وقت پڑی جب وہ ایک خاردار جھاڑی کے اندر سے کانٹے ہٹاتے ہوئے باہر نکل رہے تھے۔ دریافت کرنے پر بتایا کہ وہ ایک شیرنی کا فوٹو لینے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن وہ بے حد غصّے میں تھی اور جتنی مرتبہ جم نے اس کے نزدیک جانے کی کوشش کی۔ شیرنی نے ان کو بھگا دیا۔ مسکرا کر کہنے لگے کہ اس کا قصور نہیں۔ اس بے چاری کے ساتھ دو بچے بھی تھے۔ ان کو احساس تھا کہ ہر ماں اپنے بچوں کی حفاظت کے معاملے میں حساس ہوتی ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران حکومت نے فوجیوں کو جنگل میں لڑنے کی تربیت دینے کے لیے ان کو مامور کیا اور اسی سلسلے میں ان کو عارضی لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ سنہ ۱۹۴۶ میں حکومتِ برطانیہ نے ان کو سی آئی ای کے خطاب سے نوازا اور ان کو ‘‘آزادیِ جنگلات’’ کا خطاب بھی عطا کیا۔ جو دنیا میں صرف ایک اور شخص کو دیا گیا تھا۔
سنہ۱۹۴۷ء میں پورے کماؤں کو غمزدہ چھوڑ کر اپنی بہن میگی کے ساتھ نیئری، کینیا، مشرقی افریقہ میں سکونت اختیار کی جس کی وجہ سے تصاویر لینے کا شوق جاری رہا۔ اگر یہ کتاب نہ لکھی جاتی تو ملکہ ایلزبتھ کے دورے کا حال بتانے والا کوئی نہ ہوتا۔
ہیلی، لندن،
ستمبر ۱۹۵۵ء
سر میلکم، ہیلی گورنر
یوپی
٭٭٭
ٹِری ٹوپس
۵ فروری ۱۹۵۲کی صبح مطلع صاف تھا۔ نیلے بادلوں کے درمیان سورج چمک رہا تھا اور صحت بخش خوشگوار ہوا آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔
میں زمین سے تیس فٹ اونچے لکڑی کے ایک تختے پر کھڑا ہوا تھا۔ میرے سامنے ایک دو سو گز لمبا اور سو گز چوڑا بیضوی شکل کا صاف کیا ہوا ایک جنگل کا ٹکڑا تھا۔ اس زمین کے دو تہائ حصے میں ایک چھوٹی سی جھیل تھی۔ جس کے گرد گچھے والی لمبی گھاس اور باقی حصے میں شور والی نمکین زمین تھی۔ جھیل کے دوسرے کنارے پر سفید رنگ کا بگلا بڑے تحمل سے کسی بے خبر مینڈک کے آنے کے انتظار میں بالکل ساکت کھڑا تھا۔ پانی کے اندر چہوں کا ایک جوڑ اور ان کے ساتھ کھیلنے والی شیشے کی گولیوں کے برابر چار بچے تھے جو شاید پہلی مرتبہ خطرات سے بھری ہوئی دنیا میں ہوا خوری کے لیے نکلے تھے۔ سامنے شور والی زمین پر ایک گینڈا تھا۔ جو بے چینی سے کبھی زمین پر نمک چاٹتا اور کبھی لمبی سانس لے کر جنگل کی طرف سے چلتی ہوا کو اندر کھینچتا تھا۔
جھیل اور زمین کا شور والا حصہ تین طرف جنگل کے گھنے درختوں سے گھرا ہوا تھا اور چوتھی طرف مجھ سے کافی دور سو گز لمبی گھاس کی پٹّی تھی جو جھیل کے کنارے تک پہنچ کر ختم ہو گئی تھی۔ گھاس کی پٹّی کے آگے چوکھٹے کی شکل میں شاہ بلوط کے درخت تھے۔ بہار پر آئے ہوئے یہ درخت نیلے اور سرخ پھولوں سے لدے ہوئے تھے اور ان کے درمیان کولوبس بندروں کی ایک ٹولی تھی جو اپنی جھالر والی دُموں کو ہوا میں لہراتے تتلیوں کی طرح ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگ لگا رہے تھے۔ اس سے زیادہ خوبصورت منظر اور پرسکون ماحول تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن بندروں سے کچھ فاصلہ پر فضا کا امن و امان خراب کرنے والے ہاتھیوں کا ایک غول تھا جن میں ناچاقی تھی۔ تھوڑے تھوڑے وقفے سے ان بد مزاج ہاتھیوں کی چنگھاڑ سے تمام جنگل گونج اٹھتا تھا۔ جوں جوں شور و غل کی آواز قریب آتی گئی، پہلے تو بندر اکٹھے ہوئے، اس کے بعد ایک ساتھ چیخ مارکر خطرے کی موجودگی کا اظہار کرتے ہوئے بجلی کی طرح درخت کے بلند ترین حصّے پر چلے گئے۔ سب سے پیچھے ماں تھی جو اپنے سینے سے ایک دودھ پیتے بچے کو چمٹائے ہوئے تھی۔ گینڈے نے بھی سوچا کہ اس کی نمک کھانے کی خواہش تو پوری ہو چکی ہے۔ اب چلنا مناسب ہو گا۔ چنانچہ وہ تیزی سے گھوما۔ سر اونچا کیا اور دم اٹھا کر بائیں طرف جنگل میں بھاگتا چلا گیا۔ صرف بگلا جس کو مینڈک کے انتظار میں اپنے تحمل کا کوئی صلہ نہ ملا تھا۔ اطمینان سے اسی طرح کھڑا رہا اور چہوں کا جوڑا اور ان کے چار بچوں پر بھی ہاتھیوں کے چنگھاڑنے کا کوئی اثر نہ ہوا۔ رفتہ رفتہ ہاتھی گھنے جنگل سے برآمد ہونا شروع ہوئے جو ہندوستانی ہاتھیوں کی طرح ایک دوسرے کے آگے پیچھے چلنے کے بجائے ایک سیدھی قطار میں چل رہے تھے۔ انہوں نے چنگھاڑنا بند کر دیا اور اطمینان سے دو اور تین کی ٹولیاں بنا کر آہستہ آہستہ گھاس کی پٹی کی طرف جانے لگے۔ میں نے جلدی جلدی ان کو شمار کرنا شروع کیا۔ ان کی تعداد سینتالیس تھی۔ سب سے پیچھے تین نر تھے۔ جن میں ایک باپ معلوم ہوتا تھا۔ جو اس غول کا سردار بھی تھا اور دو اس کے بیٹے۔ یہ دونوں اس عمر تک پہنچتے جا رہے تھے کہ کچھ عرصے بعد اس بوڑھے ہاتھی کو اپنے حلقہ سے باہر نکال دیں۔
جس چبوترے پر میں کھڑا تھا اس کے سرے پر ایک اونچی سیڑھی تھی جو اس درخت پر بنائے ہوئے کاٹیج پر چڑھنے کے لیئے بنائی گئی تھی۔ یہ کاٹیج پوری دنیا میں ٹری ٹوپس کے نام سے مشہور ہوا۔ کاٹیج فائیکس کے ایک بہت بڑی درخت کی سب سے اونچی اور موٹی شاخوں پر بنایا گیا تھا اور اس تک پہنچنے کا واحد ذریعہ یہ تیس فٹ اونچی اور پتلی سیڑھی تھی۔ وقت کا تقاضا تھا کہ مہمانوں کی حفاظت کے لیے اس کاٹیج سے لگی ہوئی سیڑھی کو رسّی کے سرے سے باندھ کر گھمانے والی چرخی کی مدد سے برابر والے درخت کی شاخوں پر کھینچ کر مستحکم بنا دیا جائے۔ لیکن یہ طریقہ بہت پہلے ترک کیا جا چکا تھا۔ اس کاٹیج کی گنجائش کے مطابق اس میں ایک کھانے کا کمرہ، مہمانوں کے لیئے تین بیڈ روم، ایک پتلا کمرہ میرے لیے اور ایک لمبی کشادہ بالکنی تھی۔ جس میں بیٹھنے کے لیے آرام دہ کرسیاں بچھی تھیں۔ اس بالکنی سے جھیل، نمک والی زمین کا حصہ، اس کے آگے کا جنگل اور پس منظر میں چودہ ہزار فٹ اونچا البرڈئیر پہاڑ بغیر کسی رکاوٹ کے صاف دکھائی دیتے تھے۔
٭٭٭
شہزادی ایلزبتھ اور ڈیوک آف ایڈن برگ دو دن پہلے کینیا تشریف لا چکے تھے اور نیئری سے بیس میل دور سگانا کے شاہی مہمان خانے میں مقیم تھے۔ فروری کی اس صبح میں نے شیو ختم کیا ہی تھا کہ مجھے ٹیلیفون سے دم بخود کر دینے والی اطلاع ملی کہ شہزادی نے ازراہِ کرم مجھے اپنے ہمراہ ٹری ٹوپس پر چلنے کے لیئے مدعو کیا ہے۔ شاہی مہمان دوپہر کے ایک بجے روانہ ہونے والے تھے اور آہستہ رفتار سے چل کر دو بجے ٹری ٹوپس پہنچنے کا پروگرام تھا۔ جہاں مجھے ان کا استقبال کرنا تھا۔
کینیا نیئری کا پولو گراؤنڈ سب سے اچھا ہے۔ ایک دن پہلے ڈیوک ایک میچ میں شریک ہوئے تھے اور شہزادی نے میچ دیکھا تھا۔ نیئری سے پولو گراؤنڈ کا فاصلہ آٹھ میل ہے اور شاہی مہمان خانے سے پندرہ میل جو تین طرف گھنے جنگل اور ایک طرف لمبی گھاس سے گھرا ہوا تھا۔ میں اور میری بہن میگی ہجوم سے بہت گھبراتے ہیں۔ اس روز جب شائقین جوق در جوق میچ دیکھنے کے لیئے پولو گراؤنڈ کا رخ کر رہے تھے۔ ہم دونوں کار میں بیٹھ کر ایک پل پر پہنچے جس کے نیچے ایک کھڈ تھا جو نالے کی شکل میں گھنے جنگل کے اندر سے گزرتا ہوا پولو گراؤنڈ کی طرف جاتا تھا۔ حالانکہ بدامنی کی ابتداء ہو چکی تھی لیکن مصلحتاً ان واقعات کو اخبارات میں شائع نہ کیا جاتا تھا۔ مجھے ان حالات کی وجہ سے کافی تردّد تھا اور پُل کے نیچے والا کھڈ میرے نزدیک پولو گراؤنڈ کی طرف جانے کے لیے باغی استعمال کر سکتے تھے۔ لیکن کھڈ کی ریت دیکھ کر اطمینان ہوا کہ اس پر کسی کے پیروں کے نشانات نہ تھے۔ چنانچہ ہم نے شام کا باقی حصہ پُل کی حفاظت میں گزارا اور کھڈ کی طرف غور سے دیکھتے رہے۔ ہماری میچ میں غیر حاضری کی وجہ بھی یہی تھی۔ ٹیلیفون پر اطلاع ملنے کے بعد میں نے دوبارہ شیو کیا، ناشتہ کیا اور انتظامی مرکز سے راہ داری کا پروانہ حاصل کرنے کے لیے روانہ ہو گیا۔ کیونکہ حفاظتی اقدام کی وجہ سے عام استعمال کے لیے یہ راستہ بند کر دیا گیا تھا۔ دوپہر کو آٹھ میل کار چلا کر پولو گراؤنڈ پہنچا۔ یہاں سے میں نے پکّا راستہ چھوڑ کر کچّے راستے پر چلنا شروع کیا جو وادی کے اندر سے گزرتا تھا اور دو میل چلنے کے بعد ٹری ٹوپس کی پہاڑی کے دامن تک پہنچ کر ختم ہو جاتا تھا۔ جس جگہ یہ راستہ ختم ہوتا تھا وہیں سے ایک پگڈنڈی گھنے جنگل کے اندر بل کھاتی ہوئی چھ سو گز کے فاصلے پر ٹری ٹوپس تگ جاتی تھی۔ میں نے اپنے گرم کپڑے اور ہینڈ بیگ اتارے اور کار نیئری واپس کر دی۔ راستے میں متعدد درختوں پر لکڑی کے تختوں کو کیلوں سے گاڑھ کر سیڑھیاں بنائی گئی تھیں تاکہ کسی جانور کے اچانک حملے کی صورت میں یہ سیڑھیاں محفوظ اونچائی تک پہنچنے میں مدد دے سکیں۔ بلا مبالغہ شہزادی اور ان کے ساتھیوں کے تشریف لے جانے کے دو دن بعد ہاتھیوں نے چار بڑے درختوں جن پر عارضی سیڑھیاں بنائی گئی تھیں جڑ سے اکھاڑ دیا تھا۔
٭٭٭
۵ فروری کو دوپہر کے ڈیڑھ بجے ہیں اور دو بجے تک معزز مہمانوں کا ٹری ٹوپس تک پہنچنا نہایت اہم ہے۔ ہاتھی جو ابھی تک خاموش اور پرسکون ہیں آہستہ آہستہ گھاس اور جھاڑیاں کھاتے ہوئے جھیل کی طرف جا رہے ہیں اور ان کو قریب سے دیکھنا ممکن ہے۔ ہاتھی مختلف عمر اور قامت کے ہیں۔ ان میں پانچ مادہ ہیں جن کے ہمراہ چند ہفتے کے بچے ہیں۔ یہ تین نر اور پانچ مادائیں شباب پر آئے ہوئے تھے۔ جن کو اصلاحاً مست کہا جاتا ہے اور اس موقع پہ انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے تھے۔ بہرکیف اگر یہ غول آدھ گھنٹے تک جھیل سے دور رہا تو سب خیریت رہے گی۔ ذہن پر کسی قسم کا بوجھ یا پریشانی کے دوران جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے۔ ایک ایک منٹ بھاری ہو رہا تھا اور جب صرف پندرہ منٹ باقی رہ گئے تو ہاتھیوں نے آہستہ آہستہ زمین کے نمک والے ٹکڑے کی طرف جانا شروع کیا۔ نمکین زمین کا یہ ٹکڑا فائیکس کے درخت کے اتنا نزدیک تھا کہ اگر کاٹیج کی بالکنی سے دستی رو مال نیچے گرایا جاتا تو ہاتھیوں کے اوپر گرتا۔ اس زمین کے ٹکڑے اور فائیکس کے درخت کے درمیان جھاڑیاں بچھا کر ایک پردہ بنا دیا گیا تھا۔ تاکہ ایسے حالات میں مہمان ہاتھیوں کی نظر سے بچ کر سیڑھی پر چڑھنے میں کامیاب ہو سکیں۔ لیکن ہاتھیوں نے اپنے پیروں سے روند کر سب جھاڑیاں مسمار کر دی تھیں۔ اس لیے پردہ کا سوال ہی باقی نہ رہا تھا۔
میں چبوترے پہ کھڑا مہمانوں کی آمد کا انتظار کر رہا تھا اور ہر منٹ میری پریشانی میں اضافہ کر رہا تھا۔ سینتالیس ہاتھیوں کا غول نمک والی زمین کے ٹکڑے پر جمع تھا۔ مقررہ وقت آ پہنچا تھا۔ اگر مہمانوں نے وقت کی پابندی کی ہو گی تو ان کو پگڈنڈی پر ہونا چاہیئے۔ اسی وقت ایک بڑے نر ہاتھی نے دو چھوٹے ہاتھیوں کو ایک مادہ کے ساتھ دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے دیکھ کر ان پر حملہ کر دیا۔ دو چھوٹے نر اور ہتھنی خوف زدہ ہو کر چیختے چنگھاڑتے بے تحاشا بائیں طرف جنگل میں بھاگے اور انتہائی غصے میں ٹری ٹوپس والے درخت کے گرد چکر کاٹنے لگے۔ سامنے وہ پگڈنڈی تھی جس پر مہمان آنے والے تھے۔ ممکن ہے کہ شاہی پارٹی کے ہمراہ محافظین ہاتھیوں کے شور و غل سن کر یہ فیصلہ کریں کہ ایسی خطرناک صورت میں مناسب یہ ہو گا کہ اس کھلے میدان میں واپس جا کر انتظار کریں جہاں شاہی مہمان موٹروں سے اترے تھے۔ اس لیے کہ وہ مقام نسبتاً محفوظ تھا۔ یا پھر جلد از جلد ٹری ٹوپس پر پہنچنے کی کوشش کریں۔ چند قدم آگے لے کر میں نے جنگل کی طرف جھانکا۔ سیڑھی کے سامنے چالیس گز تک پگڈنڈی بالکل سیدھی تھی۔ اس کے بعد بائیں طرف مڑ کر نظر سے اوجھل ہو گئی تھی۔ اسی لمحے مجھے ایک شخص دکھائی دیا جس کے ہاتھ میں تیار پوزیشن میں رائفل تھی اور اس کے بالکل پیچھے ایک دبلی اور پستہ قد شخصیت تھی۔ شاہی پارٹی آ گئی تھی۔ جب مہمان اس موڑ پر پہنچے جہاں سے نمک والے ٹکڑے پر ہاتھی صاف دکھائی دے رہے تھے تو سب رک گئے۔ اب وقت ضائع کرنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا تھا۔ اس لیئے میں سیڑھی سے نیچے اتر کر پستہ قد شخصیت کے پاس گیا۔ ان کی پہلی دیکھی ہوئی تصاویر سے اندازہ ہوا کہ وہ شہزادی ایلزبتھ تھیں۔ مسکراتے چہرے سے میں نے ان کے سلام کا جواب دیا۔ شہزادی بغیر کسی تامل اور نہایت اطمینان سے ٹہلتی ہوئی نمک والے ٹکڑے کی طرف جہاں ہاتھی جمع تھے روانہ ہو گئیں۔ یہ جگہ سیڑھی سے دس گز دور تھی۔ شہزادی نے اپنا ہینڈ بیگ اور کیمرہ میرے سپرد کیا اور اس سیدھی سیڑھی پر چڑھنا شروع کیا۔ ان کے پیچھے لیڈی ماؤنٹ بیٹن، ڈیوک اور کمانڈر پارکر تھے۔ ان کے ساتھ آنے والے محافظین فوراً اسی پگڈنڈی پر واپس چلے گئے۔
اپنی طویل عمر کے دوران مجھے بہادری کے متعدد کارنامے دیکھنے کا اتفاق ہوا لیکن اس دن والے مظاہرے سے ان کا مقابلہ نہ کیا جا سکتا تھا۔ شہزادی اور ان کے ساتھیوں کو اس سے افریقہ کے جنگل میں پیدل چلنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس دن جس عظیم الشان طریقے پر نہایت اطمینان کے ساتھ وہ سب ٹری ٹوپس تک پہنچے وہ قابل تحسین تھا۔ بعد میں مجھے بتایا گیا کہ جس وقت سے وہ کار سے اترے تھے۔ ان کے کانوں میں یہ بھیانک آوازیں آنا شروع ہو گئی تھیں۔ شاہی مہمان ایک قطار میں ہاتھیوں کی آواز کی سمت ایسے گھنے جنگل اور جھاڑیوں کے درمیان سے گزر کر آئے جہاں پگڈنڈی سے دو گز دور بھی مشکل سے دکھائی دیتا تھا۔ جوں جوں قریب آتے گئے یہ آوازیں اور بھی خوفناک ہوتی گئیں۔ پگڈنڈی کے موڑ پر پہنچنے تو ہاتھی بالکل سامنے کھڑے تھے۔ اس لیے دس گز دور کاٹیج والی سیڑھی پر جلد از جلد پہنچنا اشد ضروری تھا۔ شہزادی کچھ دیر بعد بالکنی میں بیٹھی آرام سے کیمرے سے ہاتھیوں کی تصاویر لے رہی تھیں۔
اس وقت وہاں پر ہاتھیوں کی موجودگی کوئی غیر معمولی بات نہ تھی اور جو حرکات وہ کر رہے تھے وہ ہاتھیوں کی فطرت کے مطابق تھیں۔ ہاتھیوں کا سردار دوبارہ اپنے غول میں واپس آیا۔ دو چھوٹے ہاتھی بھی اس کے پیچھے سہمے ہوئے، مناسب فاصلے پر چل رہے تھے۔ جیسے ہی بڑے ہاتھی کی نظر ان پر پڑی۔ اس نے دوبارہ حملہ کر دیا اور پہلی مرتبہ کی طرح چھوٹے ہاتھی چیختے چنگھاڑتے جان بچا کر بھاگے۔ اسی دوران فاختاؤں کا ایک جھنڈ سامنے خشک زمین پر اترا۔ غول میں سے ایک ہاتھی نے ان کو دیکھ لیا۔ اس کو شرارت سوجھی۔ وہ سونڈ میں ریت بھر کر فاختاؤں کے قریب گیا اور پوری قوت سے ریت فاختاؤں پر اڑائی۔ ایسا معلوم ہوا جیسے قدیم زمانہ کی بارود والی گن چلا دی ہو۔ یہ محض شرارت تھی۔ اس لیے کہ یہ غریب چڑیاں اس کا کیا بگاڑ رہی تھیں۔ اس حرکت سے یہ ہاتھی بہت خوش ہوا۔ اس نے سونڈ آسمان کی طرف اٹھا کر زور زور سے کان پھڑپھڑائے۔ ایسا لگا جیسے قہقہہ لگا رہا ہو۔ یہ تماشہ ڈیوک نے دیکھا اور خوب ہنسے۔ فاختائیں پھر اسی جگہ آ کر بیٹھ گئیں۔ اس مرتبہ ہاتھی پھر وہی حرکت کرنے لگا تو ڈیوک نے شہزادی کی توجہ اس طرف مبذول کرائی اور شہزادی نے اس تماشے کو فلم کر لیا۔ ایک ہتھنی ایک سب سے چھوٹے بچے کے ساتھ ہمارے سامنے چند گز دور آ کر رک گئی۔ ماں نے اپنی گیلی سونڈ کے سرے سے نمکین مٹی اٹھائی اور اپنے منہ میں ڈالنے والی تھی کہ بچے کو سنہری موقع ہاتھ آیا اور ہتھنی کے پیٹ کے نیچے جھک کر دودھ پینے لگا۔ شہزادی کی آنکھ کیمرے سے لگی تھی۔ بچے کی یہ معصومانہ حرکت دیکھ کر شہزادی کہنے لگیں، ‘‘دیکھو ہتھنی بچے کو ہٹانے والی ہے۔‘‘ جملہ ختم ہی کیا تھا کہ تین یا چار سال کا ایک اور بچہ بھاگتا آیا اور داہنے پیر کی طرف سے منہ ڈال کر دودھ پینا شروع کر دیا۔ ہتھنی خاموش کھڑی رہی اور دونوں بچوں کو پیٹ بھر کر دودھ پینے دیا۔ اس کے بعد ان کو علیحدہ کر کے بچوں کے ساتھ بالکنی کے نیچے سے گزر کر اس طرف چلی گئی جہاں زمین پتلی ہو کر جھیل سے جا ملی تھی۔ یہاں پہنچ کر اس نے پانی پیا۔ پہلے سونڈ میں پانی بھرتی اس کے بعد سر اونچا کر کے پانی اپنے منہ میں ڈالتی۔ پیاس بجھا کر وہ چند قدم پانی کے اندر گئی اور خاموش کھڑی ہو گئی۔ بچے کو تنہائی محسوس ہوئی اور خائف ہو کر پتلی آواز میں چلایا۔ ماں نے بچے کی مدد طلب کرنے کو قطعی نظر انداز کر دیا۔ بچے کو وہ سبق دے رہی تھی کہ ماں کے ہمراہ کسی جگہ بھی جانا محفوظ ہوتا ہے۔ بالآخر بچے میں خود اعتمادی پیدا ہوئی اور پانی کے اندر داخل ہوا۔ یہ دیکھ کر ماں خوش ہوئی اور نہایت شفقت سے بچے کو اپنی طرف کھینچا اور احتیاط سے اپنی سونڈ کا سہارا دے کر جھیل کے دوسرے کنارے پر لے گئی۔
ہاتھیوں کے غول کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کس درجہ شفقت سے پیش آتے ہیں۔ بڑے ہاتھی جب کھانے میں مصروف ہوتے ہیں تو بچے بیزار ہو کر کھیلنا شروع کر دیتے ہیں اور اکثر ان کے رستوں میں حائل ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں سب سے بدمزاج ہاتھی بھی ان کو آہستہ سے دھکیل کر ایک طرف کر دیتا ہے۔ لیکن بچوں کو نہ تو مارتے ہیں اور نہ گرے ہوئے بچوں کو روند کر جاتے ہیں۔ جنگلی جانوروں میں سب سے اچھی خاندانی زندگی ہاتھیوں کی ہوتی ہے۔ جب کوئی ہتھنی حاملہ ہوتی ہے تو اس غول کی معمر ہتھنیاں اس کے نزدیک رہتی ہیں تاکہ زچگی میں مدد دے سکیں۔ باقی ہتھنیاں اس کے بچوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کرتی ہیں۔ اگر کوئی بچہ واقعی یا خیالی طور پر کسی پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے تو سب اس کی مدد کو پہنچ جاتی ہیں۔ اس وجہ سے جس غول میں بچے شامل ہوتے ہیں۔ ان سے دور رہا جاتا ہے اور اسی وجہ سے شاہی مہمانوں کا سیڑھی تک پہنچنا خطرناک تھا۔ اگر ہوا کا رخ بدل جاتا یا کسی بے حد زود حس ہتھنی کی نگاہ مہمانوں پر پڑ جاتی تو انتہائی خطرناک ہوتا اور ان سب کا مل کر حملہ کرنا یقینی تھا۔ خوش قسمتی سے نہ تو ہوا کا رخ بدلا اور نہ اطمینان اور احتیاط سے چلنے کی وجہ سے شہزادی اور ان کے ساتھیوں کو ہاتھی دیکھ سکے۔
کرّا ایک بہت بڑا بندر تھا۔ جس کے اوپر کا ہونٹ لڑائی میں کٹ گیا تھا اور اسی وجہ سے اس کی صورت اور بھی منحوس ہو گئی تھی۔ اپنے خاندان کے گیارہ افراد کے ہمراہ جنگل کی پگڈنڈی کی طرف سے نمک والی زمین کے سرے پر آیا۔ یہاں پہنچ کر سب رک گئے اس لیے کہ ہاتھی بندروں سے نفرت کرتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ ان کو درختوں پر بھگا کر درخت زور زور سے ہلاتے ہیں تاکہ بندر نیچے گر جائیں۔ اس لیے کرّا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا۔ اس لیے حالات کا جائزہ لے کر اپنے خاندان کے ہمراہ جنگل میں واپس چلا گیا اور نمک والی زمین کے گرد چکر لگا کر بائیں طرف سے ٹری ٹوپس کے نزدیک پہنچا۔ اس ٹولی میں سے ایک با ہمّت جوان بندریا نے اوروں کا ساتھ چھوڑا اور ٹری ٹوپس کو سہارا دینے والی موٹی اور بہت لمبی بلیوں میں سے ایک بلی پر چڑھ کر بالکنی پر پہنچی اور لکڑی کے جنگلے پر رکھی ہوئی دوربینوں اور کیمروں کو بچاتی مہمانوں سے صرف ایک یا دو فٹ دور سے بھاگتی چلی گئی اور کاٹیج کے دوسرے سرے پر درخت کی نکلی ہوئی شاخ پر بیٹھ گئی۔ اس صلے میں کسی مہمان نے اس کو ایک آلو دے دیا جو بندریا کے سر کے برابر تھا۔ وہیں بیٹھ کر وہ دانتوں سے کتر کر آلو کھاتی رہی اور مہمانوں نے چند فٹ دور سے اس کی فلم لی۔
اس دلچسپ ماحول میں جس تیزی سے وقت گزر رہا تھا اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جب شہزادی کو بتایا گیا کہ کھانے کے کمرے میں چائے لگا دی گئی ہے تو وہ کہنے لگیں کہ، ’’مجھے چائے بنا کر یہیں دے دیں اس لیے کہ میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتی‘‘۔ چائے پینے کے دوران ہاتھی رفتہ رفتہ جانے شروع ہو گئے۔ کچھ تو جنگل کی طرف گئے اور باقی کاٹیج کے نیچے سے گزر کر جھیل کے داہنے کنارے پر۔ شہزادی اپنی چائے کی پیالی ایک طرف رکھ کر تصویروں کا البم دیکھ رہی تھیں۔ میری نظر دو کالے ہرنوں پر پڑی جو پوری رفتار سے بھاگ رہے تھے۔ شہزادی کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کے لیے میں مخاطب ہوا تو انہوں نے اتنی عجلت سے کیمرہ اٹھانے کوشش کی کہ تمام تصاویر فرش پر بکھر گئیں۔ معذرت کے چند الفاظ کہتے ہوئے شہزادی نے کیمرہ آنکھ پر لگایا ہی تھا کہ دونوں ہرن جن کا آپس کا فاصلہ ان کے قد کے برابر تھا زبردست چھل کے ساتھ جھیل میں داخل ہو گئے۔ وہ چالیس گز اندر گئے ہوں گے کہ آگے والا ہرن پانی میں ڈوبے ایک ٹھنٹھ سے ٹکرا کر گرا اور پیچھے والے مشتعل ہرن نے بلا پس و پیش اپنے سینگ اس ہرن کی پشت میں گھسیڑ دیئے۔ ایک سینگ تو اس غریب کی ران میں گھسا اور دوسرا پیٹ میں۔ سینگ اس بری طرح گھسے تھے کہ ان کو بمشکل باہر نکال سکا۔ مجروح ہرن بہت مشکل سے اونچی گھاس تک پناہ لینے کے لیے پہنچ پایا۔ پانی اس کی گردن تک پہنچ گیا تھا۔ اس لیے وہ کھڑا ہو گیا۔ اس کا حریف نتھلے پانی میں اس کے گرد انتہائی غصّے میں متواتر چکر لگاتا رہا اور تھوڑی دیر بعد اپنی کامیابی پر خوش ہو کر سر ہلاتا ہوا جنگل میں چلا گیا۔ یہ ابتداء تھی۔ اس فیصلہ کن جنگ کی جو جنگل میں شروع ہوئی تھی اور شہزادی نے اس کی پوری فلم لی۔ اس کے بعد شہزادی نے اپنا کیمرہ ایک طرف رکھا اور دور بین اٹھا کر دیکھا۔ پھر دور بین مجھے دے کر پوچھا، ‘‘کیا یہ خون ہے ؟ کیا آپ کے خیال میں وہ مر جائے گا؟’’ میں نے جواباً کہا، ’’آپ کا خیال صحیح ہے۔ زخمی ہرن کے چاروں طرف پانی سرخ دکھائی دے رہا ہے اور جس بری طرح وہ سانس لے رہا ہے اس کا زندہ رہنا مشکل ہے۔‘‘
کرّا اور اس کے خاندان کے ساتھ نمک والی زمین پر اب پانچ افریقی سوّر اور ایک خوبصورت ہرنی شامل ہو گئے تھے اور مہمانوں کی نگاہ اس سمت بٹنے لگی۔
دو جوان مادائیں ایک جوان نر سے منسلک ہونے کی خواہش مند تھیں اور رقابت کی وجہ سے کافی چیخ و پکار مچائے ہوئے تھیں۔ اگر اس وقت کرّا آرام سے دھوپ میں نہ لیٹا ہوتا اور اس کی ایک بیوی اس کے مخملی بالوں کے اندر انگلیاں پھیر کر چھوٹے چھوٹے کیڑے نہ نکال رہی ہوتی تو وہ ان تینوں کے مزاج ایک منٹ میں درست کر دیتا۔ اسی دوران افریقی سوّر نمکین زمین کے کنارے گھٹنوں کے بل چھوٹی گھاس کھانے لگے۔ کرّا کا سب سے چھوٹا بچہ ہرنیے پچھلے پیروں پر چڑھ کر اس کی دُم پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ جتنی مرتبہ بچہ چڑھنے کی کوشش کرتا، ہرنی ایک طرف سرک جاتی۔ وہ بھی بچے کی اس حرکت پہ اتنا خوش ہو رہی تھی جتنا کہ تماش بین۔ شہزادی اور شہزادہ دونوں سگریٹ نہیں پیتے لیکن میں اس مضر عادت میں مبتلا ہوں۔ میں شہزادی کی کرسی کے برابر بیٹھا تھا۔ خاموشی سے اٹھ کر بالکنی کے دوسرے سرے پر گیا۔ شہزادہ فلپ بھی میرے پاس آ گئے۔ دوران گفتگو میں نے ان سے کہا کہہ میں ایرک شپٹن سے واقف ہوں اور ٹائمس میں برف کے رہنے والے باشندے کے بارے میں ان کے مضامین پڑھے اور برف میں اس کے پیروں کے نشان کی تصویر جو شپٹن نے لی تھی دیکھ چکا ہوں۔ شہزادے نے اس برفانی باشندے کے متعلق میرا نظریہ دریافت کیا اور میرے جواب کو بڑی دلچسپی سے سنا۔ میں نے کہا، ‘‘مجھے شپٹن کے اس بیان سے قطعی اتفاق نہیں کہ یہ نشانات کسی چار پیروں والے جانور کے تھے۔ حالانکہ میں یہ تصوّر بھی نہیں کر سکتا کہ شپٹن نے بے وقوف بنانے کی کوشش کی ہو گی۔ لیکن مجھے شبہ تھا کہ شپٹن نے یہ بیان دے کر خود اپنی ہی ٹانگ کھینچ لی تھی۔ علاوہ اس کے ان کو معلوم تھا کہ اس مضمون پر ناظرین کی بڑی تعداد نے دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ لیکن مجھے تعجب تھا کہ شپٹن نے اس اہم نقطے کی وضاحت کرنے کی قطعی کوشش نہیں کی کہ اس شخص کے پاؤں کے نشانات کہاں شروع ہوئے اور کہاں ختم ہوئے۔‘‘ شہزادے نے کہا کہ یہی سوال میں نے شپٹن سے کیا تھا۔ ان کے مطابق یہ نشانات ایسی چٹانوں کی سمت سے شروع ہوئے تھے جہاں تیز و تند ہواؤں کی وجہ سے برف ہٹ گئی تھی اور ختم بھی ایسی ہی چٹانوں پر ہوئے تھے جہاں ان نشانوں کی کھوج لگانا ممکن نہ تھا۔
٭٭٭
وقت گزرنے کے ساتھ پرچھائیاں بھی بھی لمبی ہوتی جا رہی تھیں۔ جنگل سے ٹری ٹوپس کے سامنے کھلے میدان میں اس سے کہیں زیادہ جانور برآمد ہوئے جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہ آئے تھے۔ سورج کی ترچھی کرنیں، ان جانوروں اور بہار پر آئے ہوئے چرنٹ کے لا تعداد درختوں کا عکس، جھیل کے ساکت پانی میں خاموشی اور سکون کا ایسا دلفریب منظر پیش کر رہی تھیں جس کا رنگین نقشہ کوئی ماہرِ عکاسی ہی کھینچ سکتا ہے۔ لیکن الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
سگریٹ ختم ہونے کے بعد میں شہزادی کے پاس آ کے بیٹھا ہی تھا کہ دوبارہ اپنی دور بین دے کر کہنے لگیں، ‘‘میرے خیال میں ہرن مرگیا۔‘‘ واقعی یہ زخمی ہرن مردہ دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن اسی وقت اس نے اپنا سر اٹھایا اور ہاتھ پیر مار کر بہت مشکل سے کنارے تک پہنچا اور لمبی گردن کر کے ٹھوڑی زمین پر رکھ کر سینے کے بل زمین پر لیٹ گیا۔ اس حالت میں اس کو لیٹے چند منٹ گزرے تھے کہ تین ہاتھی اس کے قریب آئے اور سونڈ لمبی کر کے ہرن کو سر سے پیر تک سونگھا۔ خون اور پانی سے ملی بدبو ان کو پسند نہیں آئی اور تنفس کی وجہ سے سر جھٹکتے جنگل کی طرف چلے گئے۔ ہاتھیوں کے اتنے قریب آنے پر ہرن چونکہ اسی طرح پڑا رہا اس لیئے ہم سمجھ گئے وہ مرگیا ہو گا۔ میں اور کمانڈر اس کو دیکھنے گئے۔ کاٹیج کے برآمدے کے ایک سرے سے سیڑھی تک پہنچنے کے درمیانی وقفے میں غالباً دو تیندوے مردہ ہرن کو کھینچ کر لے گئے تھے جو راستہ میں ان کے پنجوں کے نشانات سے ظاہر تھا۔ جس مقام پر ہرن لیٹا تھا وہاں صرف خون کا ڈھیر ملا۔ خون کے ڈھیر کے قریب ایک جھاڑی تھی۔ اگلے دن صبح اسی جھاڑی کے پیچھے تیندوؤں کے کھائے ہوئے ہرن کے کچھ ٹکڑے دکھائی دیے۔
دوپہر سے شام تک شہزادی نے جو کچھ دیکھا اس کے مفصّل حالات اور جن جانوروں کی فلم لی تھی ان کے بارے میں نوٹ لکھتی رہیں تاکہ وطن واپسی پر اور آسٹریلیا کے دورانِ قیام فلم دکھاتے وقت تبصرہ کر سکیں۔ لیکن وہ آسٹریلیا نہ جا سکیں۔
جوں جوں سورج کے غروب ہونے کا حسین منظر گھنے جنگل کے پیچھے غائب ہوتا گیا۔ چاندنی چھٹکنی شروع ہو گئی اور تھوڑی دیر میں تمام عالم بقعۂ نور بن گیا۔ کیمرے ایک طرف رکھ دیے گئے اور سب نے آہستہ آواز میں موقع کے لحاظ سے موضوعِ گفتگو جاری رکھا۔ میں نے شہزادی سے ان کے والد کی علالت کے بارے میں اظہارِ تشویش کرتے ہوئے ان کی صحتیاب ہونے پر دلی مسرت کا اظہار کیا۔ دورانِ گفتگو میں نے شہزادی سے کہا کہ بی۔ بی۔ سی کی یہ خبر سن کر مجھے تردّد ہوا کہ آپ کی روانگی کے وقت الوداع کہنے کے لیے شہنشاہ لندن ائر پورٹ پر بغیر ہیٹ پہنے تشریف لائے تھے اور امید ظاہر کی کہ ان کو زکام نہ ہو گیا ہو۔ شہزادی کہنے لگیں وہ اپنی صحت کا قطعی کوئی خیال نہیں رکھتے۔ شہزادی نے مجھے اپنے والد کی طویل علالت کی تفصیل بتائی اور ان کے بارے میں خاندان کی پریشانی، خوف اور نیک تمناؤں کا ذکر کیا۔ پھر انتہائی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگیں کہ ایک دن ٹہلتے ہوئے اپنی چھڑی کندھے پر رکھ کر کہنے لگے کہ، ’’میرے خیال میں اب میں شکار کھیل سکتا ہوں۔‘‘ یہ ایک نیک فال تھی۔ صحتیابی کی طرف گامزن ہوتے ہوئے مریض اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔
شہزادی نے مجھ سے پوچھا، ’’آپ کو تیتر مارنے کا کتنا تجربہ ہے ؟‘‘
میں نے کہا، ’’کوشش تو کئی بار کی ہے لیکن کامیابی بہت کم ملی ہے۔‘‘
’’آپ کو اندازہ ہو گا کہ ان کو مارنا کتنا مشکل ہے اور شہنشاہ نے صرف ایک دن میں ایک مچان سے تینتالیس تیتر مارے تھے۔‘‘
’’یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو میں نے ایک ہفتے میں مختلف مچانوں سے شکار کیے تھے۔‘‘
پھر شہزادی نے شہنشاہ کے شکار کا پروگرام بتایا۔ میں نے اس قسم کی افواہیں سنی تھیں کہ شہزادی کی آسٹریلیا روانگی کے وقت جب شہنشاہ ان کو ائر پورٹ خدا حافظ کہنے آئے تھے، اسی وقت شہزادی کو احساس ہو گیا تھا کہ ان کی واپسی تک شہنشاہ کا انتقال ہو جائے گا۔ لیکن ایسا نہ تھا۔ کیونکہ شہزادی نے جس طرح اپنے والد کا ذکر کیا تھا اور ان کی صحتیابی کی امید کی تھی یہ اس بات کی دلیل تھی کہ ان کو اپنے والد کی اچانک موت کا قطعی احساس نہ تھا۔
٭٭٭
رات کا کھانا میز پر چن دیا گیا اور اطلاع ملنے پر ہم سب ایک قطار میں کھانے کے کمرے میں داخل ہوئے۔ میز پر سات مہمانوں کے لیے برتن چنے گئے تھے۔ میں میز کے دوسرے سرے پر جانے لگا تو شہزادی نے کہا، ‘‘آپ ہمارے درمیان والی کرسی پر بیٹھیں۔‘‘ یہ سنتے ہی شہزادے نے مجھے اپنی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ جو انتہائی آرام دہ تھی اور خود بغیر گدی والی بنچ پر بیٹھ گئے۔ اس دن میری خاطر شہزادے کو سخت تکلیف میں بیٹھنا پڑا۔ سر ایرک اور لیڈی بیٹی ہمارے میزبان تھے اور کھانا اتنا لذیذ تھا کہ ہر شخص نے از حد تعریف کی اور سب نے بلا تکلّف خوب سیر ہو کر کھایا۔ جس وقت میز پر کافی دی جا رہی تھی کہ اچانک ایک اسپرٹ والے لیمپ میں آگ لگ گئی اور کسی نے گھبراہٹ میں وہ لیمپ فرش پر پھینک دیا جہاں گھاس بچھی ہوئی تھی۔ ہر شخص پریشانی میں آگ بجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ افریقی لڑکا جو مہمانوں کی خاطر تواضع کر رہا تھا تولیہ خوب بھگو کر لایا اور آگ پر ڈال کر پیروں سے اسے بجھا دیا۔ لیمپ کو صاف کر کے تیل ڈالا اور روشن کر کے دوبارہ میز پر رکھ دیا۔ شہزادی کی آمد کے کچھ عرصے بعد ڈاکوؤں نے ٹری ٹوپس پر حملہ کیا اور معہ اس افریقی لڑکے کے تمام ساز و سامان لوٹ کر لے گئے۔ اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ یا تو وہ بھی ان باغیوں کا ساتھی بن گیا ہو گا یا اس کی ہڈیاں افریقہ کی دلدلوں میں کیمیاوی تبدیلی لا رہی ہوں گی۔
کھانے کے بعد سب دوبارہ بالکنی میں آ گئے۔ چاند کی مدھم چاندنی میں نو گینڈے دکھائی دیئے جو نمک والی زمین پر کھڑے تھے۔ بگلا، چہے، ہاتھی اور باقی جانور سب چلے گئے تھے اور مینڈک جو کچھ دیر پہلے تک مل جُل کر گا رہے تھے۔ تھک کر خاموش ہو گئے تھے۔
شاہی مہمانوں کو بالکنی میں چھوڑ کر، میں نے اپنا پرانا رختِ سفر تھیلا، جو برسوں میری شکاری زندگی میں کام آیا تھا اٹھایا اور خاموشی سے جا کر سیڑھی کے سب سے اوپر والے تختے پر کمبل اوڑھ کر بیٹھ گیا۔ میرے لیے یہ کوئی غیر معمولی بات نہ تھی۔ اس لیے کہ میں نے اپنی شکاری زندگی کی کئی راتیں درختوں پر سو کر یا بیٹھ کر گزاری تھیں۔ سیڑھی پہ بیٹھ کر سونا تو میرے لیے آرام دہ تھا۔ اس دن کے بعد جتنے دن باقی رہ گئے تھے وہ میں اپنی یادوں کی دنیا میں تنہا گزارنا چاہتا تھا۔
رفتہ رفتہ گھنے جنگلوں کے پیچھے چھپ کر چاند بھی ماند پڑ گیا اور تاریکی چھا گئی۔ دکھائی بالکل نہ دیتا تھا۔ لیکن سیڑھی پر سوائے سانپ کے کوئی چیز بغیر تھرتھراہٹ پیدا کیئے چڑھ نہ سکتی تھی۔ میرے چہرے سے چند انچ دور ایک رسا لٹک رہا تھا۔ جو فائکس کے درخت کے جھروکوں سے دکھائی دیتا تھا اور چرخی کی مدد سے سامان وغیرہ اوپر کاٹیج میں پہچانے کے کام آتا تھا۔ بغیر کسی وجہ کے ہلنے لگا۔ غالباً کسی جانور نے اسے پکڑا تھا یا اسے چھُو کر گزرا تھا۔ یہ دیکھ کر چند لمحات سکتے کے عالم میں گزرے۔ لیکن سیڑھی پر کسی قسم کی تھرتھراہٹ محسوس نہ ہوئی۔ غالباً زخمی ہرن کو جو دو تیندوے لے گئے تھے ان میں سے ایک سیڑھی پر چڑھنے آیا تھا۔ لیکن کاٹیج پر انسانوں کی موجودگی بھانپ کر واپس لوٹ گیا تھا۔ حالانکہ سیڑھی کی سیدھی اونچائی پر جانا تیندوے کے لیئے کچھ مشکل نہ تھا۔ ہندوستان کے جنگلوں کے مقابلے افریقہ کہ جنگل رات کے وقت غیر معمولی طور پر خاموش رہتے ہیں۔ اس رات لگڑ بھگے کی افسُردہ آواز، ہرن کے بھونکنے یا درخت پر رہنے والے خرگوش کی باریک آواز کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہ دی۔
پو پھٹے میں نے شیو کیا، منہ دھویا اور اوپر گیا۔ میں نے دیکھا کہ شہزادی بالکنی پر بیٹھی نمکین زمین پر کھڑے ہوئے ایک بوڑھے گینڈے کی فلم لینے کی تیاری میں میٹر ہاتھ میں لیئے روشنی کا اندازہ لگا رہی ہیں۔ افریقہ میں سورج کی روشنی جلد پھیل جاتی ہے۔ سورج کی پہلی کرن نمودار ہونے پہ سامنے کا منظر روشن ہو گیا اور جو فلم وہ لینا چاہتی تھیں وہ لینی شروع کی۔ اسی دوران شہزادے نے نمکین زمین کی طرف آتے ہوئے ایک اور گینڈے کی طرف شہزادی کی نگاہ مبذول کرائی۔ بظاہر ان دونوں گینڈوں میں پرانی دشمنی تھی۔ اس لیئے کہ دونوں ایک دوسرے کے اوپر بے حد خوفناک انداز میں جھپٹے اور تھوڑی دیر تک تو ایسا محسوس ہوا کہ شاہی مہمانوں کو دکھانے کے لیے اپنے لڑائی کے فن کا زبردست مظاہرہ کریں گے۔ تجربے کار پہلوانوں کی طرح داؤ پیچ کا استعمال کر کے، ایک دوسرے کے گرد چکر کاٹتے رہے۔ لیکن بعد میں آنے والے گینڈے نے بہادری دکھانے کے بجائے عزت کے ساتھ جنگل میں واپس جانے کو ترجیع دی۔ ایک دفعہ اور حملہ کیا اور پھر دُم اٹھا کر جنگل کی طرف بھاگتا چلا گیا۔
شہزادی گرم چائے پیتی جا رہی تھیں اور گینڈوں کی دلچسپ کشتی بھی دیکھ رہی تھیں۔ باوجود اس کے کہ شہزادی نے صرف چند گھنٹے آرام کیا تھا۔ پھر بھی ان کی آنکھوں میں چمک تھی اور چہرہ پھول کی طرح شگفتہ تھا۔ ایک مرتبہ کئی سال پہلے میں شہزادی کے دادا کے ساتھ دریائے گنگا کے کنارے کھڑا تھا اور آج شہزادی کے چہرے کو دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ یہ شگفتگی ان کو کس ترکے میں ملی تھی۔
گینڈوں کے جانے کے بعد جھیل کے سرے پر صرف ایک بگلا ساکت کھڑا تھا اور پن ڈبّی کے بچے جھیل کے اندر گھاس کی جڑوں کو ڈُبکی لگا کر کترنے میں مصروف تھے۔ دور بینیں اور کیمرے ایک طرف رکھ کر ہم ناشتہ کرنے کھانے کے کمرے میں گئے۔ ناشتے میں تلے ہوئے انڈے، توس اور مارملیڈ تھا اور بغیر کسی حادثے کے بنے ہوئی کافی تھی۔ اس کے علاوہ افریقہ کے بہترین پھل بھی رکھے تھے۔ اب آہستہ بولنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اس لیئے معمول کے مطابق باتیں ہو رہی تھیں۔ میں نے شہزادی سے کہا کہ غالباً آپ پہلی شہزادی ہیں جو ایک رات درخت پر سوئیں اور رات کا کھانا اور صبح کا ناشتہ بھی درخت پر کیا۔
محافظین کا جو دستہ شاہی مہمانوں کو جنگل سے گزار کر کاروں کے لیے متعین کیا گیا تھا، صحیح وقت پر پہنچ گیا تھا۔ روانگی کے وقت کار میں بیٹھ کر شہزادی نے نہایت خندہ پیشانی سے ہاتھ ہلا کر مجھ سے کہا، ‘‘میں پھر آؤں گی۔‘‘ شاہی مہمان خانے پہنچنے کے فوراً بعد شہزادی کو بتایا گیا کہ ان کے والد کا گزشتہ رات سوتے میں انتقال ہو گیا تھا۔
میرے خیال میں کسی جوڑے نے اتنے خوشگوار اور اتنی بے فکری کے لمحے نہیں گزارے ہوں گے جتنے شہزادہ فلپس اور شہزادی ایلزبتھ نے ۵ فروری کے دوپہر دو بجے دن سے ۶ فروری کی صبح دس بجے تک گزارے تھے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے جتنا وقت انہوں نے مجھے اپنے ساتھ رکھنے کا اعزاز بخشا۔ اس کی یاد میرے ذہن میں تا زیست رہے گی۔
ٹری ٹوپس کاٹیج میں ایک رجسٹر رکھا ہے۔ جس میں سیاح اپنے تاثرات اور جتنے قسم کے جانور دیکھنے میں آئے ان کے مختصر حالات لکھتے ہیں۔ شہزادی کے تشریف لے جانے کے دوسرے دن یہ رجسٹر میرے پاس لایا گیا تاکہ میں ان کی تشریف آوری کا مختصر حال لکھوں۔ شاہی مہمانوں کے نام اور جتنے جانور اس دوران دیکھنے میں آئے تھے ان کی تفصیل اور چند واقعات جو پیش آئے لکھنے کے بعد میں نے تحریر کیا۔
دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایک شہزادی نے ایک درخت پر رات بسر کی اور نہایت دلچسپ وقت گزار کر دوسرے دن بحیثیت ملکہ درخت سے نیچے اتریں۔
فائیکس کا وہ درخت اور کاٹیج جو شہزادی ایلزبتھ، شہزادہ فلپ اور پچیس سال تک ہزاروں سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بنا رہا۔ اب راکھ کے ڈھیر میں ایک جلے ٹھنٹھ کی شکل میں باقی رہ گیا ہے۔ اسی راکھ کے ڈھیر میں سے ایک دن نیا ٹری ٹوپس پیدا ہو گا اور اس کی نئی بالکنی سے نئی نسل نئے پرندوں اور جانوروں کا منظر دیکھے گی۔ لیکن ہماری نسل نے جس ٹری ٹوپس کو دیکھا تھا وہ ہمیشہ کے لیئے ختم ہو گیا۔
نیئری
۶اپریل ۱۹۵۵ء
٭٭٭
ماخذ: اردو محفل تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں