FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

وصالیہ

                   طلعت زہرا

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

وصالیہ

خمارِ خواہش میں بند

مہجور سلوٹوں سے نکل کے

اک انتظار خوشبو نے سر اُٹھایا

تو اپنے اطراف میں یہ دیکھا

کہ ایک گلدستہ

موسمِ رنگ میں نہایا ہوا

دو زانو

وفا کی لہروں میں جذب و غرقاب

دو خدایانِ عشق کے سامنے جھکا تھا

ہوائیں حمدو ثناء کے لہجے میں

ان خداؤں کو

حرف تبریک بھیجتی تھیں

اور اک دیا

جس کی لو میں حزن و ملال کی

روشنی بھری تھی

وفورِ حیرت سے

اور فرطِ خوشی سے

بے خود تھا، رو رہا تھا

اچانک اس منظرِ محبت میں

ایک بجلی کہیں سے کوندی

اور اس چکا چوند میں

خدایانِ عشق کو

لا شریک وحدت بنا گئی

٭٭٭

ویلنٹائن ڈے ۲۰۱۰ پر لکھی ایک نظم

منجمد لمحہ

دریاؤں کی طغیانی

برباد کر سکی نہ

میرا منجمد لمحہ

جو ازل ہے

جو ابد ہے

میرا حال ہے

یہ وصال ہے

کسی ایکسٹیسی کی مثال ہے

میرا منجمد لمحہ

حباب ہے یہ شراب ہے

میرا کعبہ قبلہ نماز ہے

یہ مجھ سے ہے

میں اسی سے ہوں

یہی تو میرا وجود ہے

یہ ثبات ہے یہ ثبات ہے

میرا منجمد لمحہ

٭٭٭

خموشی

صبا ہوں جو چلے بھی تو

خموشی اس کا رستہ روک لیتی ہے

میں وہ شبنم کا قطرہ ہوں

چمن کی موت پہ رونا بھی چاہے تو

صبح صادق کا سورج اس کے آنسو جذب کرتا ہے

وہ کہتا ہے یہاں پر موت ممکن ہے مگر آنسو نہیں ہوتے

تمنائیں تمہاری کھِل نہیں سکتیں

کہ یہ آندھی کا موسم ہے

تمہی کہہ دو کہ یہ موسم

یونہی کب سے میرے دامن سے لپٹا ہے

ہوائیں خوشبوئیں لے کر مجھے کب تک پکاریں گی

بھلا کب تک دریچے پر ہوا کی دستکیں ہوں گی

میں کب تک یونہی تم سے راستہ پوچھوں گی منزل کا

مجھے آزاد کر دو اب

کہ میں بھولی ہوئی راہی

تمہیں کب تک ستاؤں گی

تمہیں پانے کی حسرت میں

کسی کے خواب چھینوں گی

کسی کی آہ لے لوں گی

کہ مجھ کو تو یونہی خاموش چلنا ہے

صبا ہوں جو چلے بھی تو

٭٭٭

بکھرے ہوئے خیال سند ڈھونڈتے رہے

راتوں میں ہم چراغ کی حد ڈھونڈتے رہے

دریا کے پار اتری تو منظر عجیب تھا

وہ جزر ہو چکے تھے جو مد ڈھونڈتے رہے

نیکی کہاں چھپی ہے، کہاں پاکباز ہیں

کرنے کو ان کا خاتمہ، بد ڈھونڈتے رہے

عزت کا جن کو پاس، نہ حرمت کی کوئی قدر

شہرت کے واسطے مرا قد ڈھونڈتے رہے

دیتی رہی دعا انہیں، زہرا کی آل ہوں

ضم ہو گئے جو نسلوں میں، جد ڈھونڈتے رہے

٭٭٭

خون باز ہاتھوں سے شہر و دشت پائمال

خلط ملط

سانس لیتے کرے کو

جیسے دست قدرت نے

زور سے ہلایا ہو

اور گھل گیا سب کچھ

آب و خاک، رنگ و سنگ

شام اور رستہ بھی

زخم دل شکستہ بھی

زہر جان خستہ بھی

ڈور کچے رشتوں کی

ٹوٹنے کا احتمال

خون باز ہاتھوں سے

شہر و دشت پائمال

آؤ مل کے بیٹھیں گے

بیٹھیں اور سوچیں گے

سانس لیتے کرے پہ

اس کے بعد کیا ہو گا

کیسے سب ہرا ہو گا

٭٭٭

واجب رشتہ

ستیہ پال آنند کے لئے

اور پھر ایسے ہوا آنند جب لوٹا نگر سے

تو بہت غمگین تھا، بولا ”تتھا گت

اس جنم کا کوئی رشتہ

ٹوٹنے کے بعد پھر سے جڑ جائے تو کیا۔ ”۔

”۔ ”کھل کے پوچھو گیان جگیان سو ! پہیلی مت بجھاؤ

.واسنا بالکل نہیں تھی، اے تتھاگت ”

صرف ایک رشتہ تھا، کچھ کچھ پیار کا، کچھ دوستی کا

ایک کنیا تھی جسے میں جانتا تھا

آج سے کچھ سال پہلے۔

آج جب بازار میں دیکھا تو اس سے

بات بھی کی۔ ۔

بول، بھکشو!۔

واسنا بالکل نہیں ہے پیر و مرشد

بول، بھکشو!۔

چاہتا ہوں جب تلک ڈیرہ یہاں ہے

اس نگر میں، اس سے بھی ملتا رہوں میں

بدھ کے ہونٹوں پہ شاید مسکراہٹ۔

یا کسی بھولے ہوئے جذبات کا اک سایہ سا آیا

!۔ ہچکچایا، مٹ گیا، بولے تتھا گت

ہر نیا اندیشہ نیا بندھن ہے بھکشو!۔

ہر پرانا آپسی سمبندھ رشتوں کی کڑی ہے

جوڑنے سے اور بھی مضبوط ہو جاتی ہیں کڑیاں ”۔

میں نہیں سمجھا تتھا گت!”۔

تم پرانی گرد پاوں سے جھٹک کر ”

سنگھ میں شامل ہوئے تھے

یہ پرانی گرد اِن راہوں پہ گذرے واقعوں کی

داستاں دہراتی پھرتی ہے جنہیں تم

چھوڑ کر آگے نکل آئے ہو بھکشو!۔

اب اگر ان راستوں کی گرد واپس

اُڑتی اُڑتی پھر تمہارے پاس آ کر

پاوں چھونے لگ گئی ہے تو جھٹک دو!۔

ٹال دو۔ بچ کر نکل جاؤ کہ مٹی

میں پکڑنے کی بہت شکتی ہے دیکھو

سارے رشتے

کچھ نئی جھولی پھیلائے کھڑے ہیں

اور پرانے جو تعاقب کر رہے ہیں

بھکشوؤں کے واسطے ممنوع ہیں۔ تم جانتے ہو”۔

سارے رشتے پیر و مرشد”۔ ”

ہاں فقط بھکشا کا رشتہ ”

دینے والے ہاتھ اور کشکول کا ہی، ایک پل کا

واجبی ہے !”

٭٭٭

ماخذ: کتاب چہرہ اور مختلف ویب سائٹس

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

w