FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

نظمیں

احساسات

فوقؔ کریمی

 

 

نغمۂ لاَ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہ

زمیں سے تا بہ فلک لااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہ

سما سے سوئے سمک لااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہ

ترے جمال سے رخشندہ تیرگی شب کی

سحر میں تیری جھلک لااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہ

طیّورِ صبح کے نغموں میں ہے تری آواز

کلی کلی کی چٹک لااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہ

یہ کوہ و دشت سمندر بھی تیرے مدح سرا

ہر ایک سو ہے بھنک لااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہ

ہے جس کے جام میں صہبائے وحدت و عرفاں

کہاں پھر اُس کی جھلک لااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہ

نظر نظر میں سرور و نشاط کا عالم

نفس نفس میں مہک لااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہ

تمام جلوۂ عالم تمام حُسنِ بشر

دل و نظر کی چمک لااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہ

فسونِ حُسنِ بتاں ہے طلِسمِ ہوش و نظر

وہ کفر کفر ہے شک لااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہ

جہاں بھی اہلِ حرم نے تجھے پکارا ہے

وہیں پہ آئی کمک لااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہ

ندائے شب سے ہیں پیدا درود کے نغمے

خموشیوں میں جھنک لااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہ

مٹائے کیسے اُسے فوقؔ گردشِ دوراں

ہے جس کے دل میں کسک لااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہ

٭٭٭

 

مرے رسولؐ اللہ

کہاں نہیں ہیں ؟ کہاں ہیں مرے رسولؐ اللہ

نفس نفس میں نِہاں ہیں مرے رسولؐ اللہ

ہر ایک لفظ میں ہے جس کے نغمۂ توحید

سراپا ایسی اذاں ہیں مرے رسولؐ اللہ

جہاں کی ظلمتیں کافور ہو گئیں جس سے

وہ روشنی کا نشاں ہیں مرے رسولؐ اللہ

ہر ایک رُخ سے زمانے نے اُن کو دیکھا ہے

ہر ایک شے سے عیاں ہیں مرے رسولؐ اللہ

کلام اُن کا خدا کا کلام ہے یارو

خدا کا صرفِ زباں ہیں مرے رسولؐ اللہ

وہ غمگسار ہر اک کے رہے زمانے میں

شریکِ دردِ جہاں ہیں مرے رسولؐ اللہ

زمیں ، چاند، ستارے، فلک شبِ اسریٰ

ہر اک کے دردِ زباں ہیں مرے رسولؐ اللہ

بصد نیاز و ادب ساکنانِ عرشِ بریں

تمام سجدہ کناں ہیں مرے رسولؐ اللہ

فرشتے رازِ ازل کے اَمیں صحیح لیکن

ہنوز سرِّ نہاں ہیں مرے رسولؐ اللہ

ہر اک کے فہم میں اے فوقؔ آ نہیں سکتے

کہ ماورائے گماں ہیں مرے رسولؐ اللہ

٭٭٭

 

مناجات

تجھ سے ہے اتنی عرض مری التجا کے ساتھ

تیرے حضور پہنچوں میں صدق و صفا کے ساتھ

احساس بھی ہے ذوقِ معاصی بھی دل میں ہے

ہے اعترافِ جرم بھی مجھ کو خطا کے ساتھ

جب بھی دیا ہے مجھ کوسدا بے طلب دیا

کتنا بڑا سلوک ہے تیرا گدا کے ساتھ

یہ سوچ کر ہی مجھ کو سزا دے کہ دے جزا

تیرا بھی نام آئے گا میری خطا کے ساتھ

اک طنز ہے یہ صاحبِ ایماں کے واسطے

’’رشتہ بتوں کے ساتھ تعلق خدا کے ساتھ‘‘

اُس کی نظر سے لرزہ بر اندام ہے جہاں

نسبت براہِ راست ہے جس کو خدا کے ساتھ

غم سے بھی مطمئن ہوں خوشی سے بھی مطمئِن

یعنی مری رضا بھی ہے تیری رضا کے ساتھ

محشر میں ہم ہوں اور تجلّیِ حُسنِ دوست

دنیا سے منھ کو موڑ لیا اِس دُعا کے ساتھ

٭٭٭

 

اب کے برس

’’دیکھنا ہے کون دے گا خوں بہا اب کے برس‘‘

جگمگاتا سال پھر آیا نیا اب کے برس

دیکھئے تحفہ ہمیں دیتا ہے کیا اب کے برس

اگلا پچھلا قرض سب ہوگا ادا اب کے برس

دیکھنا ہے کون دے گا خوں بہا اب کے برس

سر ہتھیلی پر لئے بیٹھے ہیں اربابِ وفا

قتل کرتی ہے کسے اُن کی ادا اب کے برس

دِل میں اُن کے پھر رہے باقی نہ ارمانِ جفا

خوب جی بھر کر کریں جور و جفا اب کے برس

تجربہ سالِ گزشتہ کا بتاتا ہے ہمیں

تلخ ہی ہوگا وفاؤں کا صِلہ اب کے برس

دیکھ کر اپنے پڑوسی کو یہ آتا ہے خیال

ہو نہ جائے آشنا ناآشنا اب کے برس

اُس کے دامن پر لہو کا کوئی دھبَّہ تو نہیں

آ رہی ہے ہر طرف سے یہ صدا اب کے برس

صرف دامن اور گریباں تک رہا ہے پچھلا سال

ہاں جنوں کا دیکھنا ہے سِلسِلہ اب کے برس

کوئی خطرہ ہے اگر تو دیش کو اپنوں سے ہے

کہہ رہا ہے اک معمر رہنما اب کے برس

جن کا مسلک بربریَّت، جن کی فطرت ظلم و جور

اے خدا مل جائے اُن کو بھی سزا اب کے برس

ایک ہی ساغر میں شیخ و برہمن پینے لگیں

کاش چھائے میکدے پر وہ گھٹا اب کے برس

اب بنے کوئی بڑودہ اور نہ میرٹھ ہند میں

ہے دعا یہ فوقؔ کی تجھ سے خدا اب کے برس

٭٭٭

 

آہ مختار٭

فن کو تھا جس پہ ناز وہ فنکار مر گیا

نازاں غزل تھی جس پہ وہ مختار مر گیا

چہرے اُداس اُداس ہیں آنکھیں ہیں اشک بار

وہ غمگسار اور وہ دِل دار مر گیا

شعر و ادب کا قافلہ اب منتشر سا ہے

شعر و ادب کا قافلہ سالار مر گیا

پژ مردہ پھول ہو گئے، کلیاں اُداس ہیں

رنگِ چمن تھا جس سے وہ گلزار مر گیا

رحمت نے جس کو سایۂ رحمت میں دی جگہ

ایسا وہ کون آج گنہگار مرگیا

ہنستا ہوا ہے چہرہ نگاہوں کے سامنے

کیسے کہوں میں یار کہ مختار مر گیا

جس نے کیا نہ گردِشِ دوراں کا کچھ گِلہ

وہ شاعر و قلندر و خود دار مر گیا

یارانِ بے وفا سے بھی جس نے وفائیں کیں

وہ وضع دار صاحبِ کردار مر گیا

جنسِ وفا کا نام بھی لے گا نہ کوئی اب

جنسِ وفا کا فوقؔ خریدار مر گیا

٭مختار ہاشمی میرے مخلص دوست جن کا انتقال میری عدم موجودگی میں میڈیکل کالج، علی گڑھ میں 17 ؍ جنوری 1978 ء میں ہو گیا۔

٭٭٭

 

آگ کا دریا

دِل میں ، آنکھوں میں ، جگر میں اور شریانوں میں آگ

اب بھڑکنے کو ہے مستقبل کے عنوانوں میں آگ

پتَّہ پتَّہ ہے رہینِ گرمیِ برق و شرر

کون جانے کب بھڑک اُٹھے گلستانون میں آگ

مفلِسوں کے گھر بچیں گے اور نہ زر داروں کے قصر

جھونپڑوں سے اُڑ کے پہونچے گی شبستانوں میں آگ

آج اربابِ خرد شعلہ نوا ہیں کس قدر

کل جو تحریکِ عمل بن جائے دیوانوں میں آگ

سینۂ اشجار سے جب پھوٹ نکلے گی بہار

آتشِ گل سے لگے گی پھر گلستانوں میں آگ

زندگی ہوگی کہیں باقی نہ نقشِ زندگی

موت بن کر آئے گی جس وقت میدانوں میں آگ

آگ کا دریا نظر آئے گا تا حدِّ نظر

جب لگے گی بستیوں میں اور ویرانوں میں آگ

ہیں کہاں وہ زاہدانِ خشک کی انگشتِ زہد

دیر سے بیتاب ہے تسبیح کے دانوں میں آگ

خاک ہو کر رہ گئی تقدیسِ شیخ و برہمن

لگ رہی تھی جانے کب سے اُن کے ایمانوں میں آگ

اے خدا اب تیرے گھر بھی اُس کی زد میں آ گئے

ہے کلیسا و حرم میں اور بت خانوں میں آگ

کل جلیں گی دیکھنا گیتا و انجیل و زبور

سر پھروں نے دے تو دی ہے آج قرآنوں میں آگ

کلکِ آتش بار سے لکّھو نئی اک داستاں

پھونک دو پارینہ قصّے دید و افسانوں میں آگ

زندگی کو بخش دو عکسِ جمالِ آگہی

گل کرو شمعیں لگا دو آئینہ خانوں میں آگ

بادۂ فِکر و عمل سے اپنے پیمانے بھرو

اب لگا دو بادہ خوارو! سارے میخانے میں آگ

مسکراکر اُن کو اے شمعِ حوادث تو نہ دیکھ

راکھ ہو کر بھی ابھی باقی ہے پروانوں میں آگ

شاعرانِ وقت سے جا کر کوئی کہہ دے یہ فوقؔ

دیکھ کر بادہ پئیں رکھّی ہے پیمانوں میں آگ

٭٭٭

ہندوستان میں مسلمانوں کا پہلا احتجاج

دیکھئے کرتا ہے کیا اظہار پہلا احتجاج

ہے پریشان دیکھ کر سرکارپہلا احتجاج

خوابِ غفلت میں جو تھے برسوں سے مِلَّت کے جواں

اُن کو آخر کر گیا بیدار پہلا احتجاج

اب کدورت ہے کسی کے اور نہ نفرت دِل میں ہے

غم زدوں کا بن گیا غمخوار پہلا احتجاج

دائیں بائیں دیکھ لیں اچھی طرح اہلِ حرم

کر گیا ہے ہر طرح ہشیار پہلا احتجاج

دوست دشمن کون ہے سمجھا گیا یہ مسٔلہ

اپنے کیا ہیں اور کیا اغیار پہلا احتجاج

رہنما کا اب نہیں فقدان کوئی قوم میں

جانے کتنے دے گیا سالار پہلا احتجاج

سر ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں مِلَّت کے جواں

دے گیا کتنے کفن بردار پہلا احتجاج

شیر تو پھر شیر ہے، گونجی ہے صحرا میں صدا

کر گیا ایسی بھی اک جھنکار پہلا احتجاج

تم جسے چاہو اُسے چن لوہے تم کو اختیار

دے گیا ہے پھول اور تلوار پہلا احتجاج

سرفروشوں کی کمی ہوگی نہ کوئی قوم میں

سینکڑوں اب کر گیا تیار پہلا احتجاج

مکتب و مسلک عقیدے کا رہا کوئی نہ گھر

ڈھا گیا ہے اب ہر اک دیوار پہلا احتجاج

پھرمسیحیٰ دور تک کوئی نظر آتا نہیں

پڑ گیا ہوتا اگر بیمار پہلا احتجاج

رہبرانِ قوم کو اُس پر نظر رکھنی ہے فوقؔ

ہو نہ جائے یہ کہیں بے کار پہلا احتجاج

3 ؍مارچ 1987ء کو مسلمانانِ ہند نے بابری مسجد کی بازیابی کے لئے آزادی کے بعد پہلی بار  نئی دہلی میں بوٹ کلب پر احتجاج کیا ۔ یہ ریلی جامع مسجد دہلی سے بوٹ کلب تک پھیلی ہوئی تھی۔یہ نظم اُسی احتجاج سے متاثر ہو کر ۴؍ اپریل 1987 ء کو اُس عالَم میں لکھی گئی کہ میرے سیدھے ہاتھ میں فریکچر کی وجہ سے پلاسٹر چڑھا تھا۔ رات کو بیوی کو اُٹھا کر اُن سے یہ نظم لِکھوائی تھی۔         فوقؔ

٭٭٭

 

اندرا جی

ادب سے لے گی نئی نسل نام ’اِندرا جی‘

بصد خلوص بصد احترام اِندراجی

زمانہ کرتا ہے تم کو سلام اِندراجی

ابھی تو منظرِ صبح و مسأ بھی دیکھنا ہے

ابھی نہ جاؤ کہ ہے وقتِ شام اِندراجی

زمیں پہ رہ کے بھی ہم آسماں کے ہمسر ہیں

ہمیں دیا ہے وہ تم نے مقام اِندراجی

سرور دِل میں ہمیشہ رہے گا اے رِندو !

پلا گئی ہیں اک ایسا بھی جام اِندراجی

ہے کون دیش کا دشمن ہے کون ملک کا دوست

بتا گئی ہیں یہ باتیں تمام اِندراجی

زباں پہ فخر سے آتا ہے نام بھارت کا

بلند کر گئیں دنیا میں نام اِندراجی

ہمارا فرض ہے پورے کریں اُنہیں مل کر

ادھورے چھوڑ گئی ہیں جو کام اِندراجی

تمہاری فکر نے اِس دیش کی غریبی کا

بدل کے رکھ دیا سارا نظام اِندراجی

رہے گا صفحۂ عالم پر فوقؔ تابندہ

ادب سے لے گی نئی نسل نام اِندراجی

٭٭٭

 

اپنی رفیقۂ حیات ’سکینہ برجیس‘ کی نذر

سکون دل کا، نظر کا مرے قرار ہے تو

خزاں گزیدہ چمن کی مرے بہار ہے تو

وفا خلوص و محبت کا شاہکار ہے تو

جہاں میں شیریں و لیلیٰ کی یاد گار ہے تو

چراغ عِلم کے تو نے جلائے ہیں برسوں

مری نگاہ میں اک شمعِ زر فشار ہے تو

ہو گھر کی بات کہ کالج کا ذِکر ہو تیرے

ہر اک مقام پہ دیکھا ہے با وقار ہے تو

لبوں پہ شکوہ شکایت بھی ہے تَبَسُّم بھی

غم و اَلَم سے بھی ہر چند ہمکنار ہے تو

زباں سے جو بھی کہا تو نے کر دیا پورا

سراپا وعدۂ فردا کا اعتبار ہے تو

ترے وجود سے تازہ ہے شاعری میری

ادب کا حُسن غزل کا حسین نکھار ہے تو

شرابِ شوق چھلکتی ہے تیری آنکھوں سے

بغیر بادہ پئے بھی تو بادہ خوار ہے تو

حسین یوں تو ہزاروں ہیں اے مری برجیسؔ

نظر میں فوقؔ کی لیکن صد اِفتخار ہے تو

٭٭٭

 

خود کشی

ایک خاتون نے از راہِ عنایت اک روز

اپنے معبودِ مجازی کے مجھے بخشے لِباس

یک بہ یک دِل پہ مرے ہو گیا سکتہ طاری

اُڑ گئے دیکھ کے کپڑوں کو مرے ہوش و ہواس

اور کچھ دیر گزرنے پر ہوا مجھ کو خیال

قابلِ رحم تو ایسی نہیں حالت میری

پھر اچانک ہوا احساس یہ دِل کو میرے

کہیں ظاہر تو کسی پر نہیں غربت میری

پھر بصد شکر یہ خاتون سے پوچھا میں نے

آپ کو غیر تو میں نے کبھی سمجھا ہی نہیں

کیا سمجھ کر یہ مجھے آپ نے بخشے کپڑے

اتنا کہنے پہ مری ہو گئیں آنکھیں پُر نم

تب دیا مجھ کو یہ خاتون نے شرما کے جواب

آپ کو غیر تو میں نے کبھی سمجھا ہی نہیں

پھر کہا میں نے بجا آپ کا فرمانا مگر

میری غربت کو کبھی آپ نے پرکھا ہی نہیں

آپ کے شوہر مرحوم کے پہنوں کپڑے

خودکشی مجھ کو گوارہ ہے بہ نسبت اِس کے

جب حمیَّت کسی انسان کی لُٹ جاتی ہے

زندگی ایک گداگر سی نظر آتی ہے

پہلوئے دل میں جو احساس جواں ہوتا ہے

ہر نفس عزت و عظمت کا نشاں ہوتا ہے

٭٭٭

 

خوں بہا

خون انساں کا نکلتا ہے تو ہوتا ہے وہ سُرخ

خونِ ناحق جو زمیں پر کبھی گر جاتا ہے

مِل کے مٹی میں یہ ہو جاتا ہے مٹ میلا سا

جب زمیں جذب اُسے کرتی ہے اپنے اندر

اور پھر سینچتی ہے خون سے رفتہ رفتہ

پھر اُسی خون سے کچھ پودے جِلا پاتے ہیں

اُن کی شاخوں پہ جو کچھ برگ و ثمر آتے ہیں

دیکھنے میں تو وہ ہوتے ہیں بہت نرم و گداز

ہاتھ لگتے ہی یہ ہو جاتے ہیں شعلے اے دوست

آگ ہی آگ اُگلتی ہے ہر اک پل اُن سے

آگ ظالِم کے لئے قہرِ خدا بنتی ہے

قصرِ شاہی فقط اِس آگ میں جلتا ہے کہاں

آگ ہر ظالم و قاتل کو جلا دیتی ہے

اُن کی نسلوں کو بھی دنیا سے مٹا دیتی ہے

خون ہو سِکھ کا، ہندو کہ مسلمان کا خون

خون تو خون ہے پھر خون ہے انسان کا خون

خون پنجاب میں دِلّی میں کئے ہیں کتنے

خون ملیانہ میں میرٹھ میں بہے ہیں کتنے

شیر خواروں کے یہاں خون بہائے کس نے

بیٹیوں کے کہیں ماؤں کے چھُرے گھونپ دئے

تم تو رہبر ہو ذرا ہاتھ تو دیکھو اپنے

خون میں کیوں ہیں یہ بھیگے ہوئے بولو تو سہی

جو محافظ ہیں وطن کے وہی قاتل ہیں یہاں

کوئی بولے تو سہی فوقؔ کہ اب کیا ہوگا

ملک میں اپنی تباہی کے علاوہ یارو

میری آنکھوں میں ہے مستقبلِ تاریک، وطن

آندھیاں سُرخ نظر آتی ہیں مشرِق کی طرف

سُرخ ہو جائے اِلٰہی نہ کہیں پرچمِ ہند

خونِ ناحق سے خدا ہم کو بچا لے ورنہ

جانے کس کس کو یہاں خوں بہا دینا ہوگا

٭٭٭

 

ایک مظلوم شوہر کی رفیقۂ حیات کے نام

چار دہائی بیت گئیں جب تم سے رِشتہ جوڑا تھا

صرف تمہیں کو یاد رکھا تھا سب سے ناطہ توڑا تھا

ہوش و خرد سے ہم دونوں ہی آپس میں بیگانے تھے

یہ بھی پتہ کچھ ہم کو نہیں تھا دیوانے فرزانے تھے

دِل میں اُمنگیں جاگتی تھیں جب شام کو سورج ڈھلتا تھا

گھر میں ہمارے رفتہ رفتہ رات کا جادو چلتا تھا

ایک اک لمحہ شب کا ہم کو عیش و مُسرَّت دیتا تھا

سانس میں تھی خوشبوئے وفا، ہر سانس محبت دیتا تھا

نیَّرِ تاباں کی کرنیں جب منھ اپنا دکھلاتی تھیں

آمی کی آواز ہمیں پھر ماما سے دھراتی تھیں

دِن کے اُجالے میں بھی ہم نے رات کے پیکر ڈھالے تھے

اب بھی وہ میری آنکھوں میں ہیں تم نے جو منظر ڈھالے تھے

ضد ہی تمہاری مانی تھی، ہر بات تمہاری مانی تھی

ناز وفائیں جس پہ کریں گی ایسی اپنی کہانی تھی

نام سے میرے تم کو خدا نے عزَّت و عظمت بخشی تھی

علم و ہنر سے تم کو نوازا دولت و حشمت بخشی تھی

راہ کٹھن ہے، دور ہے منزل، بوجھ رکھا ہے کاندھوں پر

عمر ہے باقی تھوڑی اپنی آؤ گزاریں ہنس ہنس کر

٭٭٭

 

جامِ خراماں

ہمنشیں تجھ کو بتاؤں کیا میں لذَّت آم کی

در حقیقت اِس کو بخشا ہے وہ قدرت نے کمال

ہے الِف اللہ کا اِس میں محمد کی ہے میم

اِس کے ہر اک حرف سے ظاہر ہے شانِ ذوالجلال

وہ دسہری ہو کہ قلمی یا ہو چوسا دِل نشیں

پیش کر سکتا ہے کوئی کیا بھلا اُن کی مثال

اِتنا جاذب رنگِ سبز و سُرخ کا وہ امتزاج

جیسے رخساروں پہ مل دے کوئی ہولی کا گلال

مضطرب ہونٹوں پہ اُس کی رس بھری گٹھلی کا لمس

جیسے اک محبوب کے لب ہائے شیریں کا خیال

جب بھی آتی ہے تصوُّر میں کوئی صورت حسیں

کیف سے سرشار ہو جاتے ہیں پھر ماضی و حال

اللہ اللہ ساخت اُس کی جیسے مقیاس الشباب

ہاتھ میں آتے ہی اُس کے گدگداتا ہے خیال

بخشتا ہے قلبِ پیری کو جوانی کا سرور

اُس کی لذَّت دور کرتی ہے ہر اک دِل کا ملال

وہ ہرا ہو یا کہ پیلا دِل کو ہیں دونوں عزیز

ذائقہ ہے ڈال میں پھر بھی مزہ دیتا ہے پال

سب کے دل میں اُس کی چاہت سب کو یہ مرغوب ہے

پیر صد سالہ ہو کوئی یا ہو طِفلِ نو نِہال

فوقؔ اگر دنیا میں ملتا ہے کوئی اِس کا جواب

وہ ہے اک دامِ خراماں پیکرِ حُسن و جمال

٭٭٭

 

آنکھیں

ہیں نہ ہندو نہ مسلمان تمہاری آنکھیں

یوں سمجھ لو کہ ہیں انسان تمہاری آنکھیں

اب نہ صہبا کی ضرورت ہے نہ پیمانے کی

بادہ نوشی کا ہیں سامان تمہاری آنکھیں

کس کی جرأت ہے بھلا آنکھ ملائے تم سے

کیونکہ ہیں وقت کی سلطان تمہاری آنکھیں

سر ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہیں اربابِ وفا

جانے کیا لکھ گئیں فرمان تمہاری آنکھیں

یوں نظر پڑتی ہے برسوں کے شناساؤں پر

جیسے صدیوں کی ہیں انجان تمہاری آنکھیں

دِل کے جانے کا نہیں غم ہے بس اِس کا مجھ کو

لے گئی لوٹ کے ایمان تمہاری آنکھیں

زخمِ دِل اُن کو دکھاؤں تو دکھاؤں کیسے

جان کر بھی تو ہیں انجان تمہاری آنکھیں

ایک رُخ وصل کا پیغام تو اک رُخ سے فراق

میرؔ و غالبؔ کے ہیں دیوان تمہاری آنکھیں

جرأتِ شوق نے جب حد سے بڑھایا ہے قدم

سب نے دیکھی ہیں نگہبان تمہاری آنکھیں

فوقؔ کو دیکھ کے بھی حال نہ جانا اُس کا

کتنی معصوم ہیں نادان تمہاری آنکھیں

٭٭٭

 

چہرے

شباب و حُسن کے دلکش نکھار ہیں چہرے

جوانیوں کی قسم پُر بہار ہیں چہرے

یہ جانتا ہوں بہت دِلفگار ہیں چہرے

دِل حزیں کو مگر خوش گوار ہیں چہرے

ہر ایک خط سے عیاں ہے مُصوِّری کا کمال

طرح طرح کے یہ نقش و نگار ہیں چہرے

سیہ نقاب میں رقصاں ہیں بجلیاں ہر سو

کہ بادلوں میں نہاں برق و بار ہیں چہرے

بھڑک اُٹھے نہ کہیں آگ خرمنِ دِل میں

نظر بچا کے ذرا شعلہ بار ہیں چہرے

کہیں گلاب، کہیں ہیں کنول کہیں نرگس

نفس نفس میں مرے اشکبار ہیں چہرے

جھکی جھکی سی ہیں نظریں قدم قدم پہ کہیں

وفورِ شرم سے کچھ شرمسار ہیں چہرے

کہیں ہے کوئی کسی جستجو میں سرگرداں

کہیں کسی کی نظر کا شکار ہیں چہرے

زبانِ شوق پہ رہ رہ کے آ رہا ہے درود

عجب حسین یہ پروردگار ہیں چہرے

مرے خیال و نظر کا ہے اور ہی مرکز

نشاطِ دہر میں یوں تو ہزار ہیں چہرے

میں معترف ہوں ازل ہی سے حُسن کا اے فوقؔ

مری نگاہ میں صد افتخار ہیں چہرے

1944 ء کی علی گڑھ نمائش میں چہروں سے متاثر ہو کر۔        (فوقؔ کریمی)

٭٭٭

 

عروس البلاد ۔۔۔ بمبئی

آئینہ دارِ جلوۂ یزداں ہے بمبئی

تاریکیوں میں شمعِ فروزاں ہے بمبئی

تصویرِ حُسن و عشق کا عنواں ہے بمبئی

صبحِ بہارِ کیفِ شبستاں ہے بمبئی

ہر رات ایک خُلدِ ہِراساں ہے بمبئی

ہر صبح ایک رشکِ بہاراں ہے بمبئی

ہندو ہے بمبئی نہ مسلماں ہے بمبئی

اِس دورِ پُر خراب میں انساں ہے بمبئی

ہر ہر قدم پہ دعوتِ نظارگیِ شوق

ہر ہر نفس میں سنبل و  ریحاں ہے بمبئی

تہذیبِ نو کے دامنِ زرِّیں نگار پر

صد رشکِ ماہ و نَیَّرِ تاباں ہے بمبئی

دیکھی ہیں ہم نے پاؤں میں زاہد کے لغزشیں

تقویٰ شکن ہے رہزنِ ایماں ہے بمبئی

نغماتِ زندگی ہیں فضاؤں کے دوش پر

جیسے کوئی حسین غزل خواں ہے بمبئی

زہرا و مشتری و ثریا کہ کہکشاں

اُن سے کہیں حسین و نمایاں ہے بمبئی

ہر ہر نفس میں کیفیتِ حسن نو بہ نو

ہر ہر قدم پہ عشق خراماں ہے بمبئی

غنچے کہیں کہیں ہیں گل و لالہ نسترن

اک تازگیِ روحِ گلستاں ہے بمبئی

ہر ناامید شوق ہوا باریابِ شوق

مایوسیوں میں بزمِ چراغاں ہے بمبئی

کیا پوچھتا ہے دوست کروں کس پہ تبصرہ

اک مرکزِ جمالِ حسیناں ہے بمبئی

لے دے کے اب تو ذہن میں اِتنا سا ہے خیال

بھولا ہوا سا خوابِ پریشاں ہے بمبئی

ہے اِذنِ عام فوقؔ مذاقِ لطیف کو

صد عیش و انبساط کا ساماں ہے بمبئی

٭٭٭

 

ایک رقَّاصہ

کیف و مستی و سر خوشی تو ہے

زندگی ہے تو زندگی تو ہے

شعر و نغمہ ترا تکلُّم ہے

کیفِ بادہ ترا تبسُّم ہے

تیری آنکھیں سرورِ میخانہ

تیرا نغمہ وفورِ میخانہ

غنچہ و گل میں نکہتیں تیری

چاند تاروں میں صورتیں تیری

سحر کیا ہے تری نگاہوں میں

کیف ہی کیف ہے گناہوں میں

بے نیازی کا تیری کیا کہنا

منھ چھپا کر ہنسی کا کیا کہنا

اک ذرا دورِ جام ہو جائے

غرق عالم تمام ہو جائے

بھول جاؤں میں گردِشِ دوراں

تجھ سے مل جائیں زندگی کے نشاں

اللہ اللہ یہ تری آواز

سرمدی صوت کی ہے محرم راز

جنبشِ لب سے گل کھلاتی ہے

آنکھوں آنکھوں میں مے پلاتی ہے

رقص کر رقص کر خدا کے لئے

زندگی بخش دے وفا کے لئے

کیف و مستی کا دور چلنے دے

مے کے ساغر میں زیست ڈھلنے دے

تیرے دم سے ہے گرمیِ محفل

قلبِ مضطر کو ہے سکوں حاصل

فکرِ دنیا نہ ہے غمِ عقبیٰ

تیرا جلوہ ہے پھر تِرا جلوہ

گلشنِ دہر کی بہار ہے تو

فکرِ شاعر کا شاہکار ہے تو

٭٭٭

 

شہرِ خوباں کی آخری رات

دوستو آؤ پھر اک بار نظارا کر لیں

آنکھوں آنکھوں میں یوں ہی ایک سویرا کر لیں

آج کی آخری شب ہے یہ محبت کے لئے

زخمِ کہنہ کا پھر اک بار مداوا کر لیں

دل کی چاہت کیلئے کوئی سہارا کر لیں

ایسی دلچسپ و حسین رات ہوئی یا نہ ہوئی

پھر بنانے سے کوئی بات ہوئی یا نہ ہوئی

آج ہر لمحہ غنیمت ہے محبت کے لئے

کل خدا جانے ملاقات ہوئی یا نہ ہوئی

وقت کا جو بھی تقاضہ ہے وہ پورا کر لیں

کس قدر کیف میں ڈوبی ہوئی یہ رات ہے آج

کس نے یہ بات کہی آج کہ اک بات ہے آج

کان میں کس نے مرے آ کے یہ چپ کے سے کہا

آخری تم سے بھی میری ملاقات ہے آج

جذب آنکھوں میں کوئی آؤ سراپا کر لیں

اجنبی سے کسی چہرے کا وہ آہستہ خرام

اور آنکھوں سے چمکتے ہوئے وہ جام پہ جام

مسکراتے ہوئے وہ ہاتھ اُٹھانا سر تک

اور آہستہ سے چلتے ہوئے کہنا کہ سلام

کچھ تصوُّر میں ہی شغلِ مئے و مینا کر لیں

پاؤں لغزیدہ سہی جسم میں لرزا ہی سہی

چشمِ عالم کے لئے ایک تماشا ہی سہی

اک ذرا عزمِ محبت کا سہارا لے لیں

اُن کو اِس جرأتِ بے باک پہ شکوا ہی سہی

کچھ بھی ہو آج تو اظہارِ تمنَّا کر لیں

حُسنِ سادہ پہ یہ رنگین سا قشقہ کیا خوب

اور چہروں پہ چمکتا ہوا غازا کیا خوب

اُف یہ بے تاب نقاب اور یہ پھر حسنِ صبیح

جیسے بدلی میں ہو اک چاند چمکتا کیا خوب

پھر طوافِ حرمِ دیر و کلیسا کر لیں

رات آنکھوں میں گزرتی ہے گزر جانے دو

دِل کے جذبات کو کچھ اور اُبھر جانے دو

پھر کہاں حُسنِ فراواں کے یہ جلوے ہوں گے

چاندنی رات میں چہروں کو نکھر جانے دو

حُسن و خود سر کو ذرا اور خود آرا کر لیں

انگلیاں لوگ اُٹھائیں تو اُٹھائیں اے فوقؔ

مجھکو دیوانہ بتائیں تو بتائیں اے فوقؔ

آج رحمت بھی ہے بے تاب سہارے کے لئے

دِلِ سادہ کو گنہگار بنائیں اے فوقؔ

غرق زاہد نہ کیوں پیراہن تقویٰ کر لیں

دوستو! آؤ پھر اک بار نظارا کر لیں

٭٭٭

 

بدن

کھلی ہوئی ہے جوانی مہک رہا ہے بدن

جہاں کی خیر اِلٰہی بہک رہا ہے بدن

حسین چاندنی راتوں میں جیسے تاج محل

اندھیری رات میں ایسے چمک رہا ہے بدن

تجلِّیِ مہ و اختر ہو ابر میں جیسے

تہہ حجاب کچھ ایسے جھلک رہا ہے بدن

حیا و شرم میں شوخی رُکے رُکے سے قدم

قریب آتے ہوئے بھی جھجھک رہا ہے بدن

نگاہِ بد سے بچائے خدا تجھے اے دوست

مثالِ لعلِ بدخشاں دَمک رہا ہے بدن

خرامِ یار کی سر مستیاں ارے توبہ

قدم قدم پہ وہ دیکھو لچک رہا ہے بدن

تمام عطر میں ڈوبا ہے پیرہن اُس کا

تمام نکہت و گل سے مہک رہا ہے بدن

نظر نے فوقؔ نظر سے شراب کھینچی ہے

گلابی ہو گئیں آنکھیں جھلک رہا ہے بدن

٭٭٭

 

 ہولی

غموں کی ہولی جلاؤ کہ آج ہولی ہے

خوشی سے رنگ اُڑاؤ کہ آج ہولی ہے

ہر ایک بگڑی ہوئی بات آج بن جائے

کچھ ایسی بات بناؤ کہ آج ہولی ہے

نظر سے کھینچ کے مارو نظر کی پچکاری

کسی کو اپنا بناؤ کہ آج ہولی ہے

برس رہی ہے فضاؤں میں ہر طرف مستی

گلال تم بھی اُڑاؤ کہ آج ہولی ہے

قریب ہو کے بھی گزرے نہ گردِشِ دوراں

شراب ایسی پلاؤ کہ آج ہولی ہے

تمہارے چاند سے مکھڑے میں دیکھنی ہے رات

چراغ سارے بجھاؤ کہ آج ہولی ہے

پھر آؤ سامنے آنکھوں کے جام چھلکاؤ

نظر کی پیاس بجھاؤ کہ آج ہولی ہے

جو نغمہ چھیڑ گئے ہیں کنہیَّابنسی پر

وہ نغمہ تم بھی سناؤ کہ آج ہولی ہے

یہ اہلِ بزم جسے سن کے جھوم اُٹھیں اے فوقؔ

تم ایسی نظم سناؤ کہ آج ہولی ہے

٭٭٭

 

میرے محبوب اگر تو نے پکارا مجھ کو

میرے محبوب اگر تو نے پکارا مجھ کو

میں ترے پاس ہر اک حال میں آ جاؤں گا

جس طرح ہانپتا جنگل میں ہرن ہو کوئی

فاختہ کانپتی ہو جیسے شبستانوں میں

میں تو اُن سے بھی بہت تیز چلا جاؤں گا

میرے محبوب اگر تو نے پکارا مجھ کو

جس طرح سانپ کوئی بین پہ لہراتا ہے

جیسے عشَّاق کے دِل میں ہو مچلتی خواہش

جیسے بادل میں چمک جائے یکایک بجلی

جس طرح آگ کے شعلے ہوں لپکتے ہر گام

میں ترے پاس ہر اک حال میں آ جاؤں گا

میرے محبوب اگر تو نے پکارا مجھ کو

چھین لے مجھ کو اگر موت بھی تجھ سے اک بار

اور طوفان و حوادث ہوں زمانے میں ہزار

دور تک راہ میں پھیلی ہوئی تاریکی ہو

پاؤں بھی اُٹھتے نہ ہوں اور مخالف ہو ہوا

میں ہر اک حال میں بے خوف و خطر آؤں گا

میرے محبوب اگر تو نے پکارا مجھ کو

سروجنی نائیڈو کی انگلش نظم ’IF YOU CALL ME ‘ کا ہائی اسکول کے امتحان میں    ترجمہ کیا تھا۔             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فوقؔ کریمی

٭٭٭

 

بیٹوں کے نام

تم ہوش میں رہتے ہوئے مدہوش نہ بننا

جو ساتھ ہو مے نوش کے مے نوش نہ بننا

احسان کسی شخص پہ کر دینا مگر تم

بیٹو! کبھی احسان فراموش نہ بننا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان کی پوچھو نہ کوئی ذات کبھی

ہوتا ہے بڑا دِن تو بڑی رات کبھی

اخلاق ہی انسان کی معراج ہے فوقؔ

اخلاق سے گر کر نہ کرو بات کبھی

٭٭٭

 

بابری مسجد کے انہدام پر

نقشے میں کون ہند کے یہ رنگ بھر گیا

دانشورانِ قوم کو بے حال کر گیا

مسجد گِرا کے لوگ تو خوش ہو گئے ضرور

لیکن وقار ہِند کا دنیا میں گِر گیا

مشترکہ قومیت کی تو اب بات ہی گئی

شیرازہ قومیت کا ہی سارا بکھر گیا

مسجد تھی ڈھانچہ اہلِ سیاست کے رو بہ رو

ڈھانچہ گِرا تو اور بھی گِر کر بِکھر گیا

گھر تھا خدا کا اصل میں مسجد تو تھی ضرور

یہ گھر نہ جانے کتنوں کو بے پردہ کر گیا

مسجد، کلیسا، دیر یا گرودوارہ کچھ بھی ہو

جس نے رکھا ہے اِن سے تعلق سنور گیا

مجرم تو کوئی اور تھا پکڑا گیا کوئی

الزام تھا کسی پہ مگر کس کے سر گیا

لہریں اُٹھی تھیں فرقہ پرستی کے کچھ خلاف

دریا چڑھا ضرور مگر پھر اُتر گیا

طوفان لے رہا ہے یہاں کروٹیں ابھی

لیکن یہ دیکھنے میں بظاہر اُتر گیا

٭٭٭

 

ہم   -تم

فی زمانہ خراب ہیں ہم-تم

پھر بھی عالی جناب ہیں ہم -تم

اہلِ عرفان ہی سمجھتے ہیں

کتنے عزَّت مآب ہیں ہم-تم

جس کو پی کر بھی ہم نہیں بہکے

وہ چھلکتی شراب ہیں ہم-تم

جس کو صدیوں پڑھیں گے اہلِ ادب

مستند وہ کتاب ہیں ہم-تم

ساز چھیڑو تو نغمگی دیکھو

زندگی کا رباب ہیں ہم-تم

گلشنِ زندگی ہے رنگا رنگ

اور مِثلِ گلاب ہیں ہم-تم

وقت لیتا ہے کروٹیں ہم سے

وقت کا انقلاب ہیں ہم-تم

ہم پہ واجب نہیں کسی کا حساب

سب کا چکتا حساب ہیں ہم -تم

رات سے اک نئی ضیا پاکر

صبح کی آب و تاب ہیں ہم -تم

رشک بوڑھوں کو جس پہ آئے فوقؔ

ایسا اُٹھتا شباب ہیں ہم-تم

٭٭٭

کمپوزنگ: شجاع الدین،  فائل کے لئے بھی ان کا تشکر

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید