

ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
…..کتاب کا نمونہ پڑھیں
فہرست مضامین
- ماورا
- رخصت
- انسان
- خواب کی بستی
- گناہ اور محبت
- ایک دن۔۔۔لارنس باغ میں
- ستارے
- مری محبت جواں رہے گی
- بادل
- فطرت اور عہدِ نَو کا انسان
- مکافات
- شاعر کا ماضی
- خوابِ آوارہ
- رفعت
- دل سوزی
- جرأتِ پرواز
- وادیِ پنہاں
- طلسمِ جاوداں
- ہونٹوں کا لمس
- اتفاقات
- حزنِ انسان
- ایک رات
- سپاہی
- شبابِ گریزاں
- حیلہ ساز
- کشاکش
- خرابے
- داشتہ
- سرگوشیاں
- رقص کی رات
- آواز
- دوری
- زنجیر
- سومنات
- ویران کشید گاہیں
- نمرود کی خدائی
- ایک شہر
- اِنقلابی
- سوغات
- ظلم رنگ
- طلسمِ ازل
- سبا ویراں
- سایہ
- کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟
- خود سے ہم دُور نکل آئے ہیں
- زندگی میری سہ نیم
- حرفِ نا گفتہ
- یہ دروازہ کیسے کھُلا؟
ن. م . راشد کی تمام نظمیں
ن م راشد
مرتبہ: فرخ منظور، اعجاز عبید
ماورا
رخصت
ہے بھیگ چلی رات، پر افشاں ہے قمر بھی
ہے بارشِ کیف اور ہوا خواب اثر بھی
اب نیند سے جھکنے لگیں تاروں کی نگاہیں
نزدیک چلا آتا ہے ہنگامِ سحر بھی!
میں اور تم اس خواب سے بیزار ہیں دونوں
اس رات سرِ شام سے بیدار ہیں دونوں
ہاں آج مجھے دور کا در پیش سفر ہے
رخصت کے تصور سے حزیں قلب و جگر ہے
آنکھیں غمِ فرقت میں ہیں افسردہ و حیراں
اک سیلِ بلا خیز میں گم تار نظر ہے
آشفتگیِ روح کی تمہید ہے یہ رات
اک حسرتِ جاوید کا پیغام سحر ہے
میں اور تم اس رات ہیں غمگین و پریشاں
اک سوزشِ پیہم میں گرفتار ہیں دونوں!
گہوارۂ آلامِ خلش ریز ہے یہ رات
اندوہِ فراواں سے جنوں خیز ہے یہ رات
نالوں کے تسلسل سے ہیں معمور فضائیں
سرد آہوں سے، گرم اشکوں سے لبریز ہے یہ رات
رونے سے مگر روح تن آساں نہیں ہوتی
تسکینِ دل و دیدۂ گریاں نہیں ہوتی!
میری طرح اے جان، جنوں کیش ہے تُو بھی
اک حسرتِ خونیں سے ہم آغوش ہے تُو بھی
سینے میں مرے جوشِ تلاطم سا بپا ہے!
پلکوں میں لیے محشرِ پُر جوش ہے تُو بھی
کل تک تری باتوں سے مری روح تھی شاداب
اور آج کس انداز سے خاموش ہے تو بھی
وارفتہ و آشفتہ و کاہیدۂ غم ہیں
افسردہ مگر شورشِ پنہاں نہیں ہوتی
میں نالۂ شب گیر کے مانند اٹھوں گا
فریادِ اثر گیر کے مانند اٹھوں گا
تو وقتِ سفر مجھ کو نہیں روک سکے گی
پہلو سے تیرے تیر کے مانند اٹھوں گا
گھبرا کے نکل جاؤں گا آغوش سے تیری
عشرت گہِ سر مست و ضیا پوش سے تیری!
ہوتا ہوں جدا تجھ سے بصد بیکسی و یاس
اے کاش، ٹھہر سکتا ابھی اور ترے پاس
مجھ سا بھی کوئی ہو گا سیہ بخت جہاں میں
مجھ سا بھی کوئی ہو گا اسیرِ الم و یاس
مجبور ہوں، لاچار ہوں کچھ بس میں نہیں ہے
دامن کو مرے کھینچتا ہے ’’فرض‘‘ کا احساس
بس ہی میں نہیں ہے مرے لاچار ہوں مَیں بھی
تو جانتی ہے ورنہ وفادار ہوں میں بھی!
ہو جاؤں گا مَیں تیرے طرب زار سے رخصت
اس عیش کی دنیائے ضیا بار سے رخصت
ہو جاؤں گا اک یادِ غم انگیز کو لے کر
اس خلد سے، اس مسکنِ انوار سے رخصت
تو ہو گی مگر بزمِ طرب باز نہ ہو گی
یہ ارضِ حسیں جلوہ گہِ راز نہ ہو گی
مَیں صبح نکل جاؤں گا تاروں کی ضیا میں
تُو دیکھتی رہ جائے گی سنسان فضا میں
کھو جاؤں گا اک کیف گہِ روح فزا میں
آغوش میں لے لے گی مجھے صبح درخشاں
’’او میرے مسافر، مرے شاعر، مرے راشدؔ‘‘
تُو مجھ کو پکارے گی خلش ریز نوا میں!
اُس وقت کہیں دور پہنچ جائے گا راشدؔ
مرہونِ سماعت تری آواز نہ ہو گی!
٭٭٭
انسان
(سانیٹ)
الٰہی تیری دنیا جس میں ہم انسان رہتے ہیں
غریبوں، جاہلوں، مُردوں کی، بیماروں کی دنیا ہے
یہ دنیا بے کسوں کی اور لاچاروں کی دنیا ہے
ہم اپنی بے بسی پر رات دن حیران رہتے ہیں!
ہماری زندگی اک داستاں ہے ناتوانی کی
بنا لی اے خدا اپنے لیے تقدیر بھی تُو نے
اور انسانوں سے لے لی جرأتِ تدبیر بھی تُو نے
یہ داد اچھی ملی ہے ہم کو اپنی بے زبانی کی!
اسی غور و تجسس میں کئی راتیں گزری ہیں
میں اکثر چیخ اُٹھتا ہوں بنی آدم کی ذلّت پر
جنوں سا ہو گیا ہے مجھ کو احساسِ بضاعت پر
ہماری بھی نہیں افسوس، جو چیزیں ’ہماری‘ ہیں!
کسی سے دور یہ اندوہِ پنہاں ہو نہیں سکتا!
خدا سے بھی علاجِ دردِ انساں ہو نہیں سکتا!
٭٭٭
خواب کی بستی
(سانیٹ)
مرے محبوب، جانے دے، مجھے اُس پار جانے دے
اکیلا جاؤں گا اور تیر کے مانند جاؤں گا
کبھی اس ساحلِ ویران پر میں پھر نہ آؤں گا
گوارا کر خدارا اس قدر ایثار جانے دے!
نہ کر اب ساتھ جانے کے لیے اصرار جانے دے!
میں تنہا جاؤں گا، تنہا ہی تکلیفیں اٹھاؤں گا
مگر اُس پار جاؤں گا تو شاید چین پاؤں گا
نہیں مجھ میں زیادہ ہمتِ تکرار جانے دے!
مجھے اُس خواب کی بستی سے کیا آواز آتی ہے؟
مجھے اُس پار لینے کے لیے وہ کون آیا ہے؟
خدا جانے وہ اپنے ساتھ کیا پیغام لایا ہے
مجھے جانے دے اب رہنے سے میری جان جاتی ہے!
مرے محبوب! میرے دوست اب جانے بھی دے مجھ کو
بس اب جانے بھی دے اس ارضِ بے آباد سے مجھ کو!
٭٭٭
گناہ اور محبت
گناہ
گناہ کے تند و تیز شعلوں سے روح میری بھڑک رہی تھی
ہوس کی سنسان وادیوں میں مری جوانی بھٹک رہی تھی
مری جوانی کے دن گزرتے تھے وحشت آلود عشرتوں میں
مری جوانی کے میکدوں میں گناہ کی مَے چھلک رہی تھی
مرے حریمِ گناہ میں عشق دیوتا کا گزر نہیں تھا
مرے فریبِ وفا کے صحرا میں حورِ عصمت بھٹک رہی تھی
مجھے خسِ ناتواں کے مانند ذوقِ عصیاں بہا رہا تھا
گناہ کی موجِ فتنہ ساماں اُٹھا اُٹھا کر پٹک رہی تھی
شباب کے اوّلیں دنوں میں تباہ و افسردہ ہو چکے تھے
مرے گلستاں کے پھول، جن سے فضائے طفلی مہک رہی تھی
غرض جوانی میں اہرمن کے طرب کا سامان بن گیا مَیں
گنہ کی آلائشوں میں لتھڑا ہوا اک انسان بن گیا میں
محبت
اور اب کہ تیری محبتِ سرمدی کا بادہ گسار ہوں میں
ہوس پرستی کی لذتِ بے ثبات سے شرمسار ہوں میں
مری بہیمانہ خواہشوں نے فرار کی راہ لی ہے دل سے
اور اُن کے بدلے اک آرزوئے سلیم سے ہمکنار ہوں میں
دلیلِ راہِ وفا بنی ہیں ضیائے الفت کی پاک کرنیں
پھر اپنے ’فردوسِ گمشدہ‘ کی تلاش میں رہ سپار ہوں میں
ہوا ہوں بیدار کانپ کر اک مہیب خوابوں کے سلسلے سے
اور اب نمودِ سحر کی خاطر ستم کشِ انتظار ہوں میں
بہارِ تقدیسِ جاوداں کی مجھے پھر اک بار آرزو ہے
پھر ایک پاکیزہ زندگی کے لیے بہت بے قرار ہوں میں
مجھے محبت نے معصیت کے جہنموں سے بچا لیا ہے
مجھے جوانی کی تیرہ و تار پستیوں سے اٹھا لیا ہے
٭٭٭
ایک دن۔۔۔لارنس باغ میں
(ایک کیفیت)
بیٹھا ہوا ہوں صبح سے لارنس باغ میں
افکار کا ہجوم ہے میرے دماغ میں
چھایا ہوا ہے چار طرف باغ میں سکوت
تنہائیوں کی گود میں لپٹا ہوا ہوں میں
اشجار بار بار ڈراتے ہیں بن کے بھوت
جب دیکھتا ہوں اُن کی طرف کانپتا ہوں میں
بیٹھا ہوا ہوں صبح سے لارنس باغ میں!
لارنس باغ! کیف و لطافت کے خلد زار
وہ موسمِ نشاط! وہ ایّامِ نو بہار
بھولے ہوئے مناظرِ رنگیں بہار کے
افکار بن کے روح میں میری اُتر گئے
وہ مست گیت موسمِ عشرت فشار کے
گہرائیوں کو دل کی غم آباد کر گئے
لارنس باغ! کیف و لطافت کے خلد زار!
ہے آسماں پہ کالی گھٹاؤں کا اِزدِحام
ہونے لگی ہے وقت سے پہلے ہی آج شام
دنیا کی آنکھ نیند سے جس وقت جھک گئی
جب کائنات کھو گئی اسرارِ خواب میں
سینے میں جوئے اشک ہے میرے رُکی ہوئی
جا کر اُسے بہاؤں گا کُنجِ گلاب میں
ہے آسماں پہ کالی گھٹاؤں کا اِزدِحام
افکار کا ہجوم ہے میرے دماغ میں
بیٹھا ہوا ہوں صبح سے لارنس باغ میں!
٭٭٭
ستارے
(سانیٹ)
نکل کر جوئے نغمہ خلد زارِ ماہ و انجم سے
فضا کی وسعتوں میں ہے رواں آہستہ آہستہ
بہ سوئے نوحہ آبادِ جہاں آہستہ آہستہ
نکل کر آ رہی ہے اک گلستانِ ترنم سے!
ستارے اپنے میٹھے مد بھرے ہلکے تبسم سے
کیے جاتے ہیں فطرت کو جواں آہستہ آہستہ
سناتے ہیں اسے اک داستاں آہستہ آہستہ
دیارِ زندگی مدہوش ہے اُن کے تکلم سے
یہی عادت ہے روزِ اوّلیں سے ان ستاروں کی
چمکتے ہیں کہ دنیا میں مسرّت کی حکومت ہو
چمکتے ہیں کہ انساں فکرِ ہستی کو بھلا ڈالے
لیے ہے یہ تمنا کہ ہر کرن ان نور پاروں کی
کبھی یہ خاک داں گہوارۂ حسن و لطافت ہو
کبھی انسان اپنی گم شدہ جنت کو پھر پا لے!
٭٭٭
مری محبت جواں رہے گی
مثالِ خورشید و ماہ و انجم مری محبت جواں رہے گی
عروسِ فطرت کے حسنِ شاداب کی طرح جاوداں رہے گی
شعاعِ امید بن کے ہر وقت روح پر ضو فشاں رہے گی
شگفتہ و شادماں کرے گی، شگفتہ و شادماں رہے گی
مری محبت جواں رہے گی
کیا ہے جب سے غمِ محبت نے دیدۂ التفات پیدا
نئے سرے سے ہوئی ہے گویا مرے لیے کائنات پیدا
ہوئی ہے میرے فسردہ پیکر میں آرزوئے حیات پیدا
یہ آرزو اب رگوں میں میری شراب بن کر رواں رہے گی
مری محبت جواں رہے گی!
مجھے محبت نے ذوقِ تقدیس مثلِ رنگِ سحر دیا ہے
زمانہ بھر کی لطافتوں سے مری جوانی کو بھر دیا ہے
مرے گلستاں کو آشنائے بہارِ جاوید کر دیا ہے
مرے گلستاں میں رنگ و نکہت کی نزہتِ جاوداں رہے گی
مری محبت جواں رہے گی!
٭٭٭
بادل
(سانیٹ)
چھائے ہوئے ہیں چار طرف پارہ ہائے ابر
آغوش میں لیے ہوئے دنیائے آب و رنگ
میرے لیے ہے اُن کی گرج میں سرودِ چنگ
پیغامِ انبساط ہے مجھ کو صدائے ابر
اٹھی ہے ہلکے ہلکے سروں میں نوائے ابر
اور قطر ہائے آب بجاتے ہیں جلترنگ
گہرائیوں میں روح کی جاگی ہے ہر امنگ
دل میں اُتر رہے ہیں مرے نغمہائے ابر
مدت سے لٹ چکے تھے تمنا کے بار و برگ
چھایا ہوا تھا روح پہ گویا سکوتِ مرگ
چھوڑا ہے آج زیست کو خوابِ جمود نے
ان بادلوں سے تازہ ہوئی ہے حیات پھر
میرے لیے جوان ہے یہ کائنات پھر
شاداب کر دیا ہے دل اُن کے سرود نے!
٭٭٭
فطرت اور عہدِ نَو کا انسان
(دو سانیٹ)
فطرت
شام ہونے کو ہے اور تاریکیاں چھانے کو ہیں
آ مرے ننھے، مری جاں، آ مرے شہکار آ!
تجھ پہ صدقے خلد کے نغمات اور انوار آ
آ مرے ننھے! کہ پریاں رات کی آنے کو ہیں
ساری دنیا پر فسوں کا جال پھیلانے کو ہیں
تیری خاطر لا رہی ہیں لوریوں کے ہار آ
دل ترا کب تک نہ ہو گا ’کھیل‘ سے بیزار آ
جب ’کھلونے‘ بھی ترے نیندوں میں کھو جانے کو ہیں؟
کھیل میں کانٹوں سے ہے دامانِ صد پارا ترا
کاش تُو جانے کہ سامانِ طرب ارزاں نہیں
کون سی شے ہے جو وجہِ کاہشِ انساں نہیں
کس لیے رہتا ہے دل شیدائے نظّارا ترا؟
آ کہ ہے راحت بھری آغوش وا تیرے لیے؟
آ کہ میری جان ہے غم آشنا تیرے لیے؟
انسان
جانتا ہوں مادرِ فطرت! کہ میں آوارہ ہوں
طفلِ آوارہ ہوں لیکن سرکش و ناداں نہیں
میری اس آوارگی میں وحشتِ عصیاں نہیں
شوخ ہوں لیکن ابھی معصوم اور بیچارہ ہوں
تجھ کو کیا غم ہے اگر وارفتۂ نظارہ ہوں؟
شکر ہے زندانیِ اہریمن و یزداں نہیں
ان سے بڑھ کر کچھ بھی وجہِ کاہشِ انساں نہیں
میں مگر اُن کے افق سے دور اک سیارہ ہوں!
شام ہونے کو ہے اور تاریکیاں چھانے کو ہیں
تُو بلاتی ہے مجھے راحت بھری آغوش میں
کھیل لوں تھوڑا سا آتا ہوں، ابھی آتا ہوں میں
اب تو ’دن‘ کی آخری کرنیں بھی سو جانے کو ہیں
اور کھو جانے کو ہیں وہ بھی کنارِ دوش میں
بہہ چلی ہے روح نیندوں میں مری آتا ہوں میں!
٭٭٭
مکافات
رہی ہے حضرتِ یزداں سے دوستی میری
رہا ہے زہد سے یارانہ استوار مرا
گزر گئی ہے تقدس میں زندگی میری
دل اہرمن سے رہا ہے ستیزہ کار مرا
کسی پہ روح نمایاں نہ ہو سکی میری
رہا ہے اپنی امنگوں پہ اختیار مرا
دبائے رکھا ہے سینے میں اپنی آہوں کو
وہیں دیا ہے شب و روز پیچ و تاب انھیں
زبانِ شوق بنایا نہیں نگاہوں کو
کیا نہیں کبھی وحشت میں بے نقاب انھیں
خیال ہی میں کیا پرورش گناہوں کو
کبھی کیا نہ جوانی سے بہرہ یاب انھیں
یہ مل رہی ہے مرے ضبط کی سزا مجھ کو
کہ ایک زہر سے لبریز ہے شباب مرا
اذیتوں سے بھری ہے ہر ا یک بیداری
مہیب و روح ستاں ہے ہر ایک خواب مرا
الجھ رہی ہیں نوائیں مرے سرودوں کی
فشارِ ضبط سے بے تاب ہے رباب مرا
مگر یہ ضبط مرے قہقہوں کا دشمن تھا
پیامِ مرگ جوانی تھا اجتناب مرا
لو آ گئی ہیں وہ بن کر مہیب تصویریں
وہ آرزوئیں کہ جن کا کیا تھا خوں میں نے
لو آ گئے ہیں وہی پیروانِ اہریمن
کیا تھا جن کو سیاست سے سرنگوں میں نے
کبھی نہ جان پہ دیکھا تھا یہ عذابِ الیم
کبھی نہیں اے مرے بختِ واژگوں میں نے
مگر یہ جتنی اذیت بھی دیں مجھے کم ہے
کیا ہے روح کو اپنی بہت زبوں میں نے
اسے نہ ہونے دیا میں نے ہم نوائے شباب
نہ اس پہ چلنے دیا شوق کا فسوں میں نے
اے کاش چھپ کے کہیں اک گناہ کر لیتا
حلاوتوں سے جوانی کو اپنی بھر لیتا
گناہ ایک بھی اب تک کیا نہ کیوں میں نے؟
٭٭٭
شاعر کا ماضی
یہ شب ہائے گزشتہ کے جنوں انگیز افسانے
یہ آوارہ پریشاں زمزمے سازِ جوانی کے
یہ میری عشرتِ برباد کی بے باک تصویریں
یہ آئینے مرے شوریدہ آغازِ جوانی کے!
یہ اک رنگیں غزل لیلیٰ کی زلفوں کی ستائش میں
یہ تعریفیں سلیمیٰ کی فسوں پرور نگاہوں کی
یہ جذبے سے بھرا اظہار، شیریں کی محبت کا
یہ اک گزری کہانی آنسوؤں کی اور آہوں کی
کہاں ہو او مری لیلیٰ۔۔۔ کہاں ہو او مری شیریں؟
سلیمیٰ تم بھی تھک کر رہ گئیں راہِ محبت میں؟
مرے عہدِ گزشتہ پر سکوتِ مرگ طاری ہے
مری شمعو، بجھی جاتی ہو کس طوفانِ ظلمت میں؟
مرے شعرو، مرے ’فردوسِ گم گشتہ‘ کے نظّارو!
ابھی تک ہے دیارِ روح میں اک روشنی تم سے
کہ میں حسن و محبت پر لٹانے کے لیے تم کو
اڑا لایا تھا جا کر محفلِ مہتاب و انجم سے!
٭٭٭
خوابِ آوارہ
مجھے ذوقِ تماشا لے گیا تصویر خانوں میں
دکھائے حُسن کاروں کے نقوشِ آتشیں مجھ کو
اور ان نقشوں کے محرابی خطوں میں اور رنگوں میں
نظر آیا ہمیشہ ایک رؤیائے حسیں مجھ کو
سرود و رقص کی خاطر گیا ہوں رقص گاہوں میں
تو اہلِ رقص کے ہونٹوں پہ آوارہ تبسم میں
شباب و شعر سے لبریز اعضا کے ترنم میں
تھرکتے بازوؤں میں، شوق سے لرزاں نگاہوں میں
ہمیشہ جھانکتا پایا وہی خوابِ حسیں میں نے
گزارے ہیں بہت دن حافظ و خیّام سے مل کر
بہت دن آسکر وائیلڈ کی مدہوش دنیا میں
گزاری ہیں کئی راتیں تیاتر میں، سنیما میں
اسی خوابِ فسوں انگیز کی شیریں تمنا میں
بہت آوارہ رکھتا ہے یہ خوابِ سیم گوں مجھ کو
لیے پھرتا ہے ہر انبوہ میں اس کا جنوں مجھ کو
مگر یہ خواب کیوں رہتا ہے افسانوں کی دنیا میں
حقیقت سے بہت دور، اور رومانوں کی دنیا میں
چھپا رہتا ہے رقص و نغمہ کے سنگیں حجابوں میں
ملا رہتا ہے نقاشوں کے بے تعبیر خوابوں میں؟
مرا جی چاہتا ہے ایک دن اس خوابِ سیمیں کو
حجابِ فن و رقص و نغمہ سے آزاد کر ڈالوں
ابھی تک یہ گریزاں ہے محبت کی نگاہوں سے
اسے اک پیکرِ انسان میں آباد کر ڈالوں!
فروری
زندگی، جوانی، عشق، حسن
م___
’’مری ندیم کھلی ہے مری نگاہ کہاں
ہے کس طرف کو مری زیست کا سفینہ رواں
’وطن‘ کے بحر سے دور، اُس کے ساحلوں سے دور؟
ہے میرے چار طرف بحرِ شعلہ گوں کیسا؟
ہے میرے سینے میں ایک ورطۂ جنوں کیسا؟
مری ندیم کہاں ایسے شعلہ زار میں ہم
جہاں دماغ میں چھپتی ہوئی ضیائیں ہیں
مہیب نور میں لپٹی ہوئی فضائیں ہیں!
’’کہاں ہے آہ، مرا عہدِ رفتہ، میرا دیار
مرا سفینہ کنارے سے چل پڑا کیسے؟
یہ ہر طرف سے برستے ہیں ہم پہ کیسے شرار
ہماری راہ میں یہ ’آتشیں خلا‘ کیسے؟
’’وہ سامنے کی زمیں ہے مگر جزیرۂ عشق
جو دور سے نظر آتی ہے جگمگاتی ہوئی
کہ ’سر زمینِ عجم‘ کے کہیں قریب ہیں ہم
ترے وطن کے نواحی میں اے حبیب ہیں ہم؟
یہ کیا طلسم ہے، کیا راز ہے، کہاں ہیں ہم؟
تہِ زمیں ہیں کہ بالائے آسماں ہیں ہم؟
کہ ایک خواب میں بے مدعا رواں ہیں ہم؟
ع____
’’یہ ایک خواب ہے، بے مدعا رواں ہیں ہم
یہ اک فسانہ ہے کردارِ داستاں ہیں ہم
ابھی یہاں سے بہت دورہے جہانِ عجم
تصورات میں جس خلد کے جواں ہیں ہم
وہ سامنے کی زمیں ہے مگر جزیرۂ عشق
جو دور سے نظر آتی ہے جگمگاتی ہوئی
فضا پہ جس کی درخشاں ہے اک ستارۂ نور
شعاعیں رقص میں ہیں زمزمے بہاتی ہوئی‘‘
م____
’’اگر یہاں سے بہت دور ہے ’جہانِ عجم‘
مری ندیم چل اس سرزمیں کی جانب چل‘‘
ع____
’’اُسی کی سمت رواں ہیں، سفینہ راں ہیں ہم
یہیں پہنچ کے ملے گی مگر نجات کہیں
ہمیں زمان و مکاں کے حدودِ سنگیں سے
نہ خیر و شر ہے نہ یزدان و اہرمن ہیں یہاں
کہ جا چکے ہیں وہ اس سرزمینِ رنگیں سے‘‘
م____
’’مری ندیم چل اس سرزمیں کی جانب چل!‘‘
ع____
’’اُسی کی سمت رواں ہیں، سفینہ راں ہیں ہم
یہاں عدم ہے نہ فکرِ وجود ہے گویا
یہاں حیات مجسّم سرود ہے گویا‘‘
٭٭٭
رفعت
(سانیٹ)
کوئی دیتا ہے بہت دُور سے آواز مجھے
چھپ کے بیٹھا ہے وہ شاید کسی سیّارے میں
نغمہ و نور کے اک سرمدی گہوارے میں
دے اجازت جو تری چشمِ فسوں ساز مجھے
اور ہو جائے محبت پرِ پرواز مجھے
اڑ کے پہنچوں میں وہاں روح کے طیّارے میں
سرعتِ نور سے یا آنکھ کے ’پلکارے‘ میں
کہ فلک بھی نظر آتا ہے درباز مجھے!
سالہا سال مجھے ڈھونڈیں گے دنیا کے مکیں
دوربینیں بھی نشاں تک نہ مرا پائیں گی
اور نہ پیکر ہی مرا آئے گا پھر سوئے زمیں
عالمِ قدس سے آوازیں مری آئیں گی
بحرِ خمیازہ کش وقت کی امواجِ حسیں
اک سفینہ مرے نغموں سے بھرا لائیں گی!
٭٭٭
دل سوزی
یہ عشقِ پیچاں کے پھول پتے جو فرش پر یوں بکھر رہے ہیں
یہ مجھ کو تکلیف دے رہے ہیں، یہ مجھ کو غمگین کر رہے ہیں
انھیں یہاں سے اٹھا کے اک بار پھر اسی بیل پر لگا دو
وگرنہ مجھ کو بھی ان کے مانند خواب کی گود میں سلا دو!
خزاں زدہ اک شجر ہے، اُس پر ضیائے مہتاب کھیلتی ہے
اور اُس کی بے رنگ ٹہنیوں کو وہ اپنے طوفاں میں ریلتی ہے
کوئی بھی ایسی کرن نہیں جو پھر اس میں روحِ بہار بھر دے
تو کیوں نہ مہتاب کو بھی یا رب تو یونہی بے برگ و بار کر دے!
ندیم، آہستہ زمزموں کے سرودِ پیہم کو چھوڑ بھی دے
اُٹھا کے ان نازک آبگینوں کو پھینک دے اور توڑ بھی دے
وگرنہ اک آتشیں نوا سے تو پیکر و روح کو جلا دے
عدم کے دریائے بیکراں میں سفینۂ زیست کو بہا دے!
٭٭٭
جرأتِ پرواز
بجھ گئی شمع ضیا پوشِ جوانی میری!
آج تک کی ہے کئی بار ’محبت‘ میں نے
اشکوں اور آہوں سے لبریز ہیں رومان مرے
ہو گئی ختم کہانی میری!
مٹ گئے میری تمناؤں کے پروانے بھی
خوفِ ناکامی و رسوائی سے
حسن کے شیوۂ خود رائی سے
دلِ بے چارہ کی مجبوری و تنہائی سے!
میرے سینے ہی میں پیچاں رہیں آہیں میری
کر سکیں روح کو عریاں نہ نگاہیں میری!
ایک بار اور محبت کر لوں
سعیِ ناکام سہی
اور اک زہر بھرا جام سہی
میرا یا میری تمناؤں کا انجام سہی
ایک سودا ہی سہی، آرزوئے خام سہی
ایک بار اور محبت کر لوں؟
ایک ’انسان‘ سے الفت کر لوں؟
میرے ترکش میں ہے اک تیر ابھی
مجھ کو ہے جرأتِ تدبیر ابھی
بر سرِ جنگ ہے تقدیر ابھی
اور تقدیر پہ پھیلانے کو اک دام سہی؟
مجھ کو اک بار وہی ’کوہ کنی‘ کرنے دو
اور وہی ’کاہ بر آوردن‘ بھی___؟
یا تو جی اٹھوں گا اس جرأتِ پرواز سے میں
اور کر دے گی وفا زندۂ جاوید مجھے
خود بتا دے گی رہِ جادۂ امید مجھے
رفعتِ منزلِ ناہید مجھے
یا اُتر جاؤں گا میں یاس کے ویرانوں میں
اور تباہی کے نہاں خانوں میں
تاکہ ہو جائے مہیّا آخر
آخری حدِ تنزل ہی کی اک دید مجھے
جس جگہ تیرگیاں خواب میں ہیں
اور جہاں سوتے ہیں اہریمن بھی
تاکہ ہو جاؤں اسی طرح شناسا آخر
نور کی منزلِ آغاز سے میں
اپنی اس جرأتِ پرواز سے میں
٭٭٭
وادیِ پنہاں
وقت کے دریا میں اٹھی تھی ابھی پہلی ہی لہر
چند انسانوں نے لی اک وادیِ پنہاں کی راہ
مل گئی اُن کو وہاں
آغوشِ راحت میں پناہ
کر لیا تعمیر اک موسیقی و عشرت کا شہر،
مشرق و مغرب کے پار
زندگی اور موت کی فرسودہ شہ راہوں سے دور
جس جگہ سے آسماں کا قافلہ لیتا ہے نور
جس جگہ ہر صبح کو ملتا ہے ایمائے ظہور
اور بُنے جاتے ہیں راتوں کے لیے خوابوں کے جال
سیکھتی ہے جس جگہ پروازِ حور
اور فرشتوں کو جہاں ملتا ہے آہنگِ سُرور
غم نصیب اہریمنوں کو گریہ و آہ و فغاں!
کاش بتلا دے کوئی
مجھ کو بھی اس وادیِ پنہاں کی راہ
مجھ کو اب تک جستجو ہے
زندگی کے تازہ جولاں گاہ کی
کیسی بیزاری سی ہے
زندگی کے کہنہ آہنگِ مسلسل سے مجھے
سر زمینِ زیست کی افسردہ محفل سے مجھے
دیکھ لے اک بار کاش
اس جہاں کا منظر رنگیں نگاہ
جس جگہ ہے قہقہوں کا اک درخشندہ وفور
جس جگہ سے آسماں کا قافلہ لیتا ہے نُور
جس کی رفعت دیکھ کر خود ہمتِ یزداں ہے چُور
جس جگہ ہے وقت اک تازہ سُرور
زندگی کا پیرہن ہے تار تار!
جس جگہ اہریمنوں کا بھی نہیں کچھ اختیار
مشرق و مغرب کے پار!
٭٭٭
طلسمِ جاوداں
رہنے دے اب کھو نہیں باتوں میں وقت،
اب رہنے دے،
اپنی آنکھوں کے طلسمِ جاوداں میں بہنے دے
میری آنکھوں میں ہے وہ سحرِ عظیم
جو کئی صدیوں سے پیہم زندہ ہے
انتہائے وقت تک پایندہ ہے!
دیکھتی ہے جب کبھی آنکھیں اٹھا کر تو مجھے
قافلہ بن کر گزرتے ہیں نگہ کے سامنے
مصر و ہند و نجد و ایراں کے اساطیرِ قدیم:
کوئی شاہنشاہ تاج و تخت لٹواتا ہوا
دشت و صحرا میں کوئی شہزادہ آوارہ کہیں
سر کوئی جانباز کہساروں سے ٹکراتا ہوا
اپنی محبوبہ کی خاطر جان سے جاتا ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
قافلہ بن کر گزر جاتے ہیں سب
قصہ ہائے مصر و ہندوستان و ایران و عرب!
رہنے دے اب کھو نہیں باتوں میں وقت،
اب رہنے دے،
آج میں ہوں چند لمحوں کے لیے تیرے قریب،
سارے انسانوں سے بڑھ کر خوش نصیب!
چند لمحوں کے لیے آزاد ہوں
تیرے دل سے اخذ نور و نغمہ کرنے کے لیے
زندگی کی لذتوں سے سینہ بھرنے کے لیے؛
تیرے پیکر میں جو روحِ زیست ہے شعلہ فشاں
وہ دھڑکتی ہے مقام و وقت کی راہوں سے دور
بیگانۂ مرگ و خزاں!
ایک دن جب تیرا پیکر خاک میں مل جائے گا
زندہ، تابندہ رہے گی اس کی گرمی، اُس کا نور
اپنے عہدِ رفتہ کے جاں سوز نغمے گائے گی
اور انسانوں کا دیوانہ بناتی جائے گی
رہنے دے اب کھو نہیں باتوں میں وقت
اب رہنے دے!
وقت کے اس مختصر لمحے کو دیکھ
تُو اگر چاہے تو یہ بھی جاوداں ہو جائے گا
پھیل کر خود بیکراں ہو جائے گا
مطمئن باتوں سے ہو سکتا ہے کون؟
روح کی سنگین تاریکی کو دھو سکتا ہے کون؟
دیکھ اس جذبات کے نشّے کو دیکھ
تیرے سینے میں بھی اک لرزش سی پیدا ہو گئی!
زندگی کی لذتوں سے سینہ بھر لینے بھی دے
مجھ کو اپنی روح کی تکمیل کر لینے بھی دے!
٭٭٭
ہونٹوں کا لمس
تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس
جس سے میرا جسم طوفانوں کی جولاں گاہ ہے
جس سے میری زندگی، میرا عمل گمراہ ہے
میری ذات اور میرے شعر افسانہ ہیں!
تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس
اور پھر ’لمسِ طویل‘
جس سے ایسی زندگی کے دن مجھے آتے ہیں یاد
میں نے جو اب تک بسر کی ہی نہیں
اور اک ایسا مقام
آشنا جس کے نظاروں سے نہیں میری نگاہ!
تیرے اک لمسِ جنوں انگیز سے
کیسے کھُل جاتی ہے کرنوں کے لیے اک شاہراہ
کیسے ہو جاتی ہے، ظلمت تیز گام،
کیسے جی اٹھتے ہیں آنے وا لے ایّامِ جمیل!
تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس
جس کے آگے ہیچ جرعاتِ شراب
یہ سنہری پھل، یہ سیمیں پھول مانندِ سراب
سوزِ شمع و گردشِ پروانہ گویا داستاں
نغمۂ سیارگاں، بے رنگ و آب
قطرۂ بے مایہ طغیانِ شباب!
تیرے ان ہونٹوں کے اک لمسِ جنوں انگیز سے
چھا گیا ہے چار سُو
چاندنی راتوں کا نورِ بیکراں
کیف و مستی کا وفورِ جاوداں
چاندنی ہے اور میں اک ’تاک‘ کے سائے تلے
اِستادہ ہوں
جان دینے کے لیے آمادہ ہوں
میری ہستی ہے نحیف و بے ثبات
’تاک‘ کی ہر شاخ ہے آفاق گیر!
حملۂ مرگ و خزاں سے بے نیاز
سامنے جس کے مری دنیا ہے، دنیائے مجاز
میرے جسم و روح جس کی وسعتوں کے سامنے
رفتہ رفتہ مائلِ حلّ و گداز!
ہاں مگر اتنا تو ہے،
میری دنیا کو مٹا کر ہو چلی ہیں آشکار
اور دنیائیں مقام و وقت کی سرحد کے پار
جن کی تو ملکہ ہے میں ہوں شہریار!
تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس،
جس سے میری سلطنت تابندہ ہے
انتہائے وقت تک پائندہ ہے!
٭٭٭
اتفاقات
آج، اس ساعتِ دزدیدہ و نایاب میں بھی،
جسم ہے خواب سے لذت کشِ خمیازہ ترا
تیرے مژگاں کے تلے نیند کی شبنم کا نزول
جس سے دھُل جانے کو ہے غازہ ترا
زندگی تیرے لیے رس بھرے خوابوں کا ہجوم
زندگی میرے لیے کاوشِ بیداری ہے
اتفاقات کو دیکھ
اس حسیں رات کو دیکھ
توڑ دے وہم کے جال
چھوڑ دے اپنے شبستانوں کو جانے کا خیال،
خوفِ موہوم تری روح پہ کیا طاری ہے!
اتنا بے صرفہ نہیں تیرا جمال
اس جنوں خیز حسیں رات کو دیکھ!
آج، اس ساعتِ دزدیدہ و نایاب میں بھی
تشنگی روح کی آسودہ نہ ہو
جب ترا جسم جوانی میں ہے نیسانِ بہار
رنگ و نکہت کا فشار!
پھول ہیں، گھاس ہے، اشجار ہیں، دیواریں ہیں
اور کچھ سائے کہ ہیں مختصر و تیرہ و تار،
تجھ کو کیا اس سے غرض ہے کہ خدا ہے کہ نہیں؟
دیکھ پتوں میں لرزتی ہوئی کرنوں کا نفوذ
سرسراتی ہوئی بڑھتی ہے رگوں میں جیسے
اوّلیں بادہ گساری میں نئی تند شراب
تجھ کو کیا اس سے غرض ہے کہ خدا ہے کہ نہیں
کہکشاں اپنی تمناؤں کا ہے راہگزار
کاش اس راہ پہ مل کر کبھی پرواز کریں،
اک نئی زیست کا در باز کریں!
آسماں دور ہے لیکن یہ زمیں ہے نزدیک
آ اِسی خاک کو ہم جلوہ گہِ راز کریں!
روحیں مل سکتی نہیں ہیں تو یہ لب ہی مل جائیں،
آ اِسی لذتِ جاوید کا آغاز کریں!
صبح جب باغ میں رس لینے کو زنبور آئے
اس کے بوسوں سے ہوں مدہوش سمن اور گلاب
شبنمی گھاس پہ دو پیکرِ یخ بستہ ملیں،
اور خدا ہے تو پشیماں ہو جائے!
٭٭٭
حزنِ انسان
(افلاطونی عشق پر ایک طنز)
جسم اور روح میں آہنگ نہیں،
لذّت اندوز دل آویزیِ موہوم ہے تو
خستۂ کشمکشِ فکر و عمل!
تجھ کو ہے حسرتِ اظہارِ شباب
اور اظہار سے معذور بھی ہے
جسم نیکی کے خیالات سے مفرور بھی ہے
اس قدر سادہ و معصوم ہے تو
پھر بھی نیکی ہی کیے جاتی ہے
کہ دل و جسم کے آہنگ سے محروم ہے تو
جسم ہے روح کی عظمت کے لیے زینہِ نور
منبعِ کیف و سرور!
نا رسا آج بھی ہے شوقِ پرستارِ جمال
اور انساں ہے کہ ہے جادہ کشِ راہِ طویل
(روحِ یوناں پہ سلام!)
اک زمستاں کی حسیں رات کا ہنگامِ تپاک
اس کی لذّات سے آگاہ ہے کون؟
عشق ہے تیرے لیے نغمۂ خام
کہ دل و جسم کے آہنگ سے محروم ہے تو!
جسم اور روح کے آہنگ سے محروم ہے تو!
ورنہ شب ہائے زمستاں ابھی بے کار نہیں
اور نہ بے سود ہیں ایّامِ بہار!
آہ انساں کہ ہے وہموں کا پرستار ابھی
حسن بے چارے کو دھوکا سا دیے جاتا ہے
ذوقِ تقدیس پہ مجبور کیے جاتا ہے!
ٹوٹ جائیں گے کسی روز مزامیر کے تار
مسکرا دے کہ ہے تابندہ ابھی تیرا شباب
ہے یہی حضرتِ یزداں کے تمسخر کا جواب!
٭٭٭
ایک رات
یاد ہے اک رات زیرِ آسمانِ نیل گوں،
یاد ہے مجھ کو وہ تابستاں کی رات!
چاند کی کرنوں کا بے پایاں فسوں۔۔۔ پھیلا ہوا
سرمدی آہنگ برساتا ہوا۔۔۔ہر چار سُو!
اور مرے پہلو میں تُو۔۔۔!
میرے دل میں یہ خیال آنے لگا:
غم کا بحرِ بے کراں ہے یہ جہاں
میری محبوبہ کا جسم اک ناؤ ہے
سطحِ شور انگیز پر اس کی رواں
ایک ساحل، ایک انجانے جزیرے کی طرف
اُس کو آہستہ لیے جاتا ہوں میں
دل میں یہ جاں سوز وہم
یہ کہیں غم کی چٹانوں سے نہ لگ کر ٹوٹ جائے!
یاد ہے مجھ کو وہ تابستاں کی رات
تیرے دل میں راز کی اِک کائنات
تیری خاموشی میں طوفانوں کا غوغائے عظیم
سرخوشِ اظہار تیری ہر نگاہ
تیرے مژگاں کے تلے گہرے خیال
بے بسی کی نیند میں الجھے ہوئے!
تیرا چہرہ آب گُوں ہونے کو تھا
دفعتاً، پھر جیسے یاد آ جائے اک گم گشتہ بات
تیرے سینے کے سمن زاروں میں اٹھیں لرزشیں
میرے انگاروں کو بے تابانہ لینے کے لیے
اپنی نکہت، اپنی مستی مجھ کو دینے کے لیے
غم کے بحرِ بے کراں میں ہو گیا پیدا سکوں
یاد ہے وہ رات زیرِ آسمانِ نیلگوں
یاد ہے مجھ کو وہ تابستاں کی رات!
٭٭٭
سپاہی
تُو مرے ساتھ کہاں جائے گی؟
۔۔۔ موت کا لمحۂ مایوس نہیں،
قوم ابھی نیند میں ہے!
مصلحِ قوم نہیں ہوں کہ میں آہستہ چلوں
اور ڈروں قوم کہیں جاگ نہ جائے۔۔۔
میں تو اک عام سپاہی ہوں، مجھے
حکم ہے دوڑ کے منزل کے قدم لینے کا
اور اسی سعیِ جگر دوز میں جاں دینے کا
تُو مرے ساتھ مری جان، کہاں جائے گی؟
تُو مرے ساتھ کہاں جائے گی؟
راہ میں اونچے پہاڑ آئیں گے
دشتِ بے آب و گیاہ
اور کہیں رودِ عمیق
بے کراں، تیز و کف آلود و عظیم
اجڑے سنسان دیار
اور دشمن کے گرانڈیل جواں
جیسے کہسار پہ دیودار کے پیڑ
عزت و عفت و عصمت کے غنیم
ہر طرف خون کے سیلاب رواں۔۔۔
اک سپاہی کے لیے خون کے نظاروں میں
جسم اور روح کی بالیدگی ہے
تُو مگر تاب کہاں لائے گی
تُو مرے ساتھ مری جان کہاں جائے گی؟
دم بدم بڑھتے چلے جاتے ہیں
سرِ میدان رفیق،
تُو مرے ساتھ مری جان کہاں جائے گی؟
عمر گزری ہے غلامی میں مری
اس سے اب تک مری پرواز میں کوتاہی ہے!
زمزمے اپنی محبت کے نہ چھیڑ
اس سے اے جان پر وبال میں آتا ہے جمود
میں نہ جاؤں گا تو دشمن کو شکست
آسمانوں سے بھلا آئے گی؟
دیکھ خونخوار درندوں کے وہ غول
میرے محبوب وطن کو یہ نگل جائیں گے؟
ان سے ٹکرانے بھی دے
جنگِ آزادی میں کام آنے بھی دے
تُو مرے ساتھ مری جان کہاں جائے گی؟
نومبر 2 زوال
آہ پایندہ نہیں،
درد و لذّت کا یہ ہنگامِ جلیل!
پھر کئی بار ابھی آئیں گے لمحاتِ جنوں
اس سے شدت میں فزوں، اس سے طویل
پھر بھی پائندہ نہیں!
آپ ہی آپ کسی روز ٹھہر جائے گا
تیرے جذبات کا دریائے رواں
تجھے معلوم نہیں،
کس طرح وقت کی امواج ہیں سرگرمِ خرام؟
تیرے سینے کا درخشندہ جمال
کر دیا جائے گا بیگانۂ نور
نکہت و رنگ سے محرومِ دوام!
تجھے معلوم نہیں؟
اس دریچے میں سے دیکھ
خشک، بے برگ، المناک د رختوں کا سماں
کیسا دل دوز سکوت!
زیرِ لب نالہ کشِ جورِ خزاں
چودھویں رات کا مہتابِ جواں!
ان کے اس پار سے ہے نزد طلوع؛
تجھے معلوم نہیں،
ایک دن تیرا جنوں خیز شباب
تیرے اعضا کا جمال
کر دیا جائے گا اس طرح سے محرومِ فسوں؟
اور پھر چاند کے مانند محبت کے خیال
سارے اس عہد کے گزرے ہوئے خواب
تیرے ماضی کے افق پر سے ہویدا ہوں گے
تجھے معلوم نہیں!
نومبر 2 اظہار
کیسے میں بھی بھول جاؤں
زندگی سے اپنا ربطِ اوّلیں؟
ایک دور افتادہ قریے کے قریب
اک جنوں افروز شام
نہر پر شیشم کے اشجارِ بلند
چاندنی میں اُن کی شاخوں کے تلے
تیرے پیمانِ محبت کا وہ اظہارِ طویل!
روح کا اظہار تھے بوسے مرے
جیسے میری شاعری، میرا عمل!
روح کا اظہار کیسے بھول جاؤں؟
کیسے کر ڈالوں میں جسم و روح کو
آج بے آہنگ و نور؟
تُو کہ تھی اس وقت گمنامی کے غاروں میں نہاں
میرے ہونٹوں ہی نے دی تجھ کو نجات
اپنی راہوں پر اٹھا لایا تجھے
زندۂ جاوید کر ڈالا تجھے
جیسے کوئی بت تراش
اپنے بت کو زندگی کے نور سے تاباں کرے
اس کو برگ و بار دینے کے لیے
اپنے جسم و روح کو عریاں کرے!
میرے بوسے روح کا اظہار تھے
روح جو اظہار ہی سے زندہ و تابندہ ہے
ہے اسی اظہار سے حاصل مجھے قربِ حیات،
روح کا اظہار کیسے بھول جاؤں؟
نومبر 3 آنکھوں کے جال
آہ تیری مد بھری آنکھوں کے جال!
میز کی سطحِ درخشندہ کو دیکھ
کیسے پیمانوں کا عکسِ سیم گؤں
اس کی بے اندازہ گہرائی میں ہے ڈوبا ہوا
جیسے میری روح، میری زندگی
تیری تابندہ سیہ آنکھوں میں ہے
مَے کے پیمانے تو ہٹ سکتے ہیں یہ ہٹتی نہیں!
قہوہ خانے کے شبستانوں کی خلوت گاہ میں
آج کی شب تیرا دُزدانہ ورود!
عشق کا ہیجان، آدھی رات اور تیرا شباب
تیری آنکھ اور میرا دل
عنکبوت اور اس کا بے چارہ شکار!
(تیرے ہاتھوں میں مگر لرزش ہے کیوں؟
کیوں ترا پیمانہ ہونٹوں سے ترے ہٹتا نہیں!
خام و نَو آموز ہے تُو ساحرہ!
کر رہی ہے اپنے فن کو آشکار
اور اپنے آپ پر تجھ کو یقیں حاصل نہیں!)
پھر بھی ہے تیرے فسوں کے سامنے مجھ کو شکست
میرے تخیلات، میری شاعری بیکار ہیں!
اپنے سر پر قمقموں کے نور کا سیلاب دیکھ
جس سے تیرے چہرے کا سایہ ترے سینے پہ ہے
اس طرح اندوہ میری زندگی پر سایہ ریز
تیری آنکھوں کی درخشانی سے ہے
سایہ ہٹ سکتا ہے، غم ہٹتا نہیں!
آہ تیری مد بھری آنکھوں کے جال!
دیکھ وہ دیوار پر تصویر دیکھ
یہ اگر چاہے کہ اس کا آفرینندہ کبھی
اس کے ہاتھوں میں ہو مغلوب و اسیر
کیسا بے معنی ہو یہ اس کا خیال،
اس کو پھر اپنی ہزیمت کے سوا چارہ نہ ہو!
تو مری تصویر تھی
میرے ہونٹوں نے تجھے پیدا کیا
آج لیکن میری مدہوشی کو دیکھ
میں کہ تھا خود آفرینندہ ترا
پا بجولاں میرے جسم و روح تیرے سامنے
اور دل پر تیری آنکھوں کی گرفتِ نا گزیر،
ساحری تیری، خداوندی تری!
عکس کیسا بھی ہو فانی ہے مگر
یہ نگاہوں کا فسوں پایندہ ہے!
دسمبر گناہ
آج پھر آ ہی گیا
آج پھر روح پہ وہ چھا ہی گیا
دی مرے گھر پہ شکست آ کے مجھے!
ہوش آیا تو میں دہلیز پہ افتادہ تھا
خاک آلودہ و افسردہ و غمگین و نزار
پارہ پارہ تھے مری روح کے تار
آج وہ آ ہی گیا
روزنِ در سے لرزتے ہوئے دیکھا میں نے
خرم و شاد سرِ راہ اُسے جاتے ہوئے
سالہا سال سے مسدود تھا یارانہ مرا
اپنے ہی بادہ سے لبریز تھا پیمانہ مرا
اس کے لَوٹ آنے کا امکان نہ تھا
اس کے ملنے کا بھی ارمان نہ تھا
پھر بھی وہ آ ہی گیا
کون جانے کہ وہ شیطان نہ تھا
بے بسی میرے خداوند کی تھی!
دسمبر عہدِ وفا
تُو مرے عشق سے مایوس نہ ہو
کہ مرا عہدِ وفا ہے ابدی!
شمع کے سائے سے دیوار پہ محراب سی ہے
سالہا سال سے بدلا نہیں سائے کا مقام
شمع جلتی ہے تو سائے کو بھی حاصل ہے دوام
سائے کا عہدِ وفا ہے ابدی!
تُو مری شمع ہے، میں سایہ ترا
زندہ جب تک ہوں کہ سینے میں ترے روشنی ہے
کہ مرا عہدِ وفا ہے ابدی!
ایک پتنگا سرِ دیوار چلا جاتا ہے
خوف سے سہما ہوا، خطروں سے گھبرایا ہوا
اور سائے کی لکیروں کو سمجھتا ہے کہ ہیں
سرحدِ مرگ و حیات اس کے لیے!
ہاں یہی حال مرے دل کی تمناؤں کا ہے
پھر بھی تُو عشق سے مایوس نہ ہو
کہ مرا عہدِ وفا ہے ابدی!
ہاں مرا عہدِ وفا ہے ابدی،
زندگی ان کے لیے ریت نہیں، دھوپ نہیں
ریت پر دھوپ میں گر لیٹتے ہیں آ کے نہنگ
قعرِ دریا ہی سے وابستہ ہے پیمان ان کا
ان کو لے آتا ہے ساحل پہ تنوع کا خمار
اور پھر ریت میں اک لذتِ آسودگی ہے!
میں جو سر مست نہنگوں کی طرح
اپنے جذبات کی شوریدہ سری سے مجبور
مضطرب رہتا ہوں مدہوشی و عشرت کے لیے
اور تری سادہ پرستش کی بجائے
مرتا ہوں تیری ہم آغوشی کی لذت کے لیے
میرے جذبات کو تو پھر بھی حقارت سے نہ دیکھ
اور مرے عشق سے مایوس نہ ہو
کہ مرا عہدِ وفا ہے ابدی!
دسمبر شاعرِ درماندہ
زندگی تیرے لیے بسترِ سنجاب و سمور
اور میرے لیے افرنگ کی دریوزہ گری
عافیت کوشیِ آبا کے طفیل،
میں ہوں درماندہ و بے چارہ ادیب
خستۂ فکرِ معاش!
پارۂ نانِ جویں کے لیے محتاج ہیں ہم
میں، مرے دوست، مرے سینکڑوں اربابِ وطن
یعنی افرنگ کے گلزاروں کے پھول!
تجھے اک شاعرِ درماندہ کی امید نہ تھی
مجھ سے جس روز ستارہ ترا وابستہ ہوا
تُو سمجھتی تھی کہ اک روز مرا ذہنِ رسا
اور مرے علم و ہنر
بحر و بر سے تری زینت کو گہر لائیں گے!
میرے رستے میں جو حائل ہوں مرے تیرہ نصیب
کیوں دعائیں تری بے کار نہ جائیں
تیرے راتوں کے سجود اور نیاز
(اس کا باعث مرا الحاد بھی ہے!)
اے مری شمعِ شبستانِ وفا،
بھول جا میرے لیے
زندگی خواب کی آسودہ فراموشی ہے!
تجھے معلوم ہے مشرق کا خدا کوئی نہیں
اور اگر ہے، تو سرا پردۂ نسیان میں ہے
تُو ’مسرت‘ ہے مری، تو مری ’بیداری‘ ہے
مجھے آغوش میں لے
دو ’انا‘ مل کے جہاں سوز بنیں
اور جس عہد کی ہے تجھ کو دعاؤں میں تلاش
آپ ہی آپ ہویدا ہو جائے!
دسمبر دریچے کے قریب
جاگ اے شمعِ شبستانِ وصال
محفلِ خواب کے اس فرشِ طرب ناک سے جاگ!
لذتِ شب سے ترا جسم ابھی چور سہی
آ مری جان، مرے پاس دریچے کے قریب
دیکھ کس پیار سے انوارِ سحر چومتے ہیں
مسجدِ شہر کے میناروں کو
جن کی رفعت سے مجھے
اپنی برسوں کی تمنا کا خیال آتا ہے!
سیمگوں ہاتھوں سے اے جان ذرا
کھول مَے رنگ جنوں خیز آنکھیں!
اسی مینار کو دیکھ
صبح کے نور سے شاداب سہی
اسی مینار کے سائے تلے کچھ یاد بھی ہے
اپنے بیکار خدا کی مانند
اونگھتا ہے کسی تاریک نہاں خانے میں
ایک افلاس کا مارا ہوا ملّائے حزیں
ایک عفریت____ اُداس
تین سو سال کی ذلت کا نشاں
ایسی ذلت کہ نہیں جس کا مداوا کوئی!
دیکھ بازار میں لوگوں کا ہجوم
بے پناہ سَیل کے مانند رواں!
جیسے جنات بیابانوں میں
مشعلیں لے کر سرِ شام نکل آتے ہیں،
ان میں ہر شخص کے سینے کے کسی گوشے میں
ایک دلہن سی بنی بیٹھی ہے
ٹمٹماتی ہوئی ننھی سی خودی کی قندیل
لیکن اتنی بھی توانائی نہیں
بڑھ کے ان میں سے کوئی شعلۂ جوّالہ بنے!
ان میں مفلس بھی ہیں بیمار بھی ہیں
زیرِ افلاک مگر ظلم سہے جاتے ہیں!
ایک بوڑھا سا تھکا ماندہ سا رہوار ہوں میں!
بھوک کا شاہ سوار
سخت گیر اور تنومند بھی ہے؛
میں بھی اس شہر کے لوگوں کی طرح
ہر شبِ عیش گزر جانے پر
بہرِ جمع خس و خاشاک نکل جاتا ہوں
چرخِ گرداں ہے جہاں
شام کو پھر اسی کاشانے میں لوٹ آتا ہوں
بے بسی میری ذرا دیکھ کہ میں
مسجدِ شہر کے میناروں کو
اس دریچے میں سے پھر جھانکتا ہوں
جب انہیں عالمِ رخصت میں شفق چومتی ہے!
مارچ 2
دسمبر 1 رقص
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں
ڈر سے لرزاں ہوں کہیں ایسا نہ ہو
رقص گہ کے چور دروازے سے آ کر زندگی
ڈھونڈ لے مجھ کو، نشاں پا لے مرا
اور جرم عیش کرتے دیکھ لے!
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
رقص کی یہ گردشیں
ایک مبہم آسیا کے دور ہیں
کیسی سرگرمی سے غم کو روندتا جاتا ہوں میں!
جی میں کہتا ہوں کہ ہاں،
رقص گہ میں زندگی کے جھانکنے سے پیشتر
کلفتوں کا سنگریزہ ایک بھی رہنے نہ پائے!
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
زندگی میرے لیے
ایک خونیں بھیڑیے سے کم نہیں
اے حسین و اجنبی عورت اسی کے ڈر سے میں
ہو رہا ہوں لمحہ لمحہ اور بھی تیرے قریب
جانتا ہوں تو مری جاں بھی نہیں
تجھ سے ملنے کا پھر امکاں بھی نہیں
تو مری ان آرزوؤں کی مگر تمثیل ہے
جو رہیں مجھ سے گریزاں آج تک!
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
عہدِ پارینہ کا میں انساں نہیں
بندگی سے اس در و دیوار کی
ہو چکی ہیں خواہشیں بے سوز و رنگ و ناتواں
جسم سے تیرے لپٹ سکتا تو ہوں
زندگی پر میں جھپٹ سکتا نہیں!
اس لیے اب تھام لے
اے حسین و اجنبی عورت مجھے اب تھام لے!
دسمبر 1 بیکراں رات کے سنّاٹے میں
تیرے بستر پہ مری جان کبھی
بے کراں رات کے سنّاٹے میں
جذبۂ شوق سے ہو جاتے ہیں اعضا مدہوش
اور لذّت کی گراں باری سے
ذہن بن جاتا ہے دلدل کسی ویرانے کی
اور کہیں اس کے قریب
نیند، آغازِ زمستاں کے پرندے کی طرح
خوف دل میں کسی موہوم شکاری کا لیے
اپنے پر تولتی ہے، چیختی ہے
بے کراں رات کے سنّاٹے میں!
تیرے بستر پہ مری جان کبھی
آرزوئیں ترے سینے کے کہستانوں میں
ظلم سہتے ہوئے حبشی کی طرح رینگتی ہیں!
ایک لمحے کے لیے دل میں خیال آتا ہے
تو مری جان نہیں
بلکہ ساحل کے کسی شہر کی دوشیزہ ہے
اور ترے ملک کے دشمن کا سپاہی ہوں مَیں
ایک مدّت سے جسے ایسی کوئی شب نہ ملی
کہ ذرا روح کو اپنی وہ سبک بار کرے!
بے پناہ عیش کے ہیجان کا ارماں لے کر
اپنے دستے سے کئی روز سے مفرور ہوں مَیں!
یہ مرے دل میں خیال آتا ہے
تیرے بستر پہ مری جان کبھی
بے کراں رات کے سنّاٹے میں!
دسمبر 1 شرابی
آج پھر جی بھر کے پی آیا ہوں میں
دیکھتے ہی تیری آنکھیں شعلہ ساماں ہو گئیں!
شکر کر اے جاں کہ میں
ہوں درِ افرنگ کا ادنیٰ غلام
صدرِ اعظم یعنی دریوزہ گرِ اعظم نہیں،
ورنہ اک جامِ شرابِ ارغواں
کیا بجھا سکتا تھا میرے سینۂ سوزاں کی آگ؟
غم سے مرجاتی نہ تُو
آج پی آتا جو میں
جامِ رنگیں کی بجائے
بے کسوں اور ناتوانوں کا لہو؟
شکر کر اے جاں کہ میں
ہوں درِ افرنگ کا ادنیٰ غلام!
اور بہتر عیش کے قابل نہیں!
جنوری 2
دسمبر 1 انتقام
اُس کا چہرہ، اُس کے خدّ و خال یاد آتے نہیں
اک شبستاں یاد ہے
اک برہنہ جسم آتش داں کے پاس
فرش پر قالین، قالینوں پہ سیج
دھات اور پتھر کے بت
گوشۂ دیوار میں ہنستے ہوئے!
اور آتش داں میں انگاروں کا شور
اُن بتوں کی بے حسی پر خشمگیں؛
اُجلی اُجلی اونچی دیواروں پہ عکس
اُن فرنگی حاکموں کی یادگار
جن کی تلواروں نے رکھا تھا یہاں
سنگِ بنیادِ فرنگ!
اُس کا چہرہ اُس کے خدوخال یاد آتے نہیں
اک برہنہ جسم اب تک یاد ہے
اجنبی عورت کا جسم،
میرے ’’ہونٹوں‘‘ نے لیا تھا رات بھر
جس سے اربابِ وطن کی بے بسی کا انتقام
وہ برہنہ جسم اب تک یاد ہے!
اجنبی عورت
ایشیا کے دور افتادہ شبستانوں میں بھی
میرے خوابوں کا کوئی روماں نہیں!
کاش اک دیوارِ ظلم
میرے ان کے درمیاں حائل نہ ہو!
یہ عماراتِ قدیم
یہ خیاباں، یہ چمن، یہ لالہ زار،
چاندنی میں نوحہ خواں
اجنبی کے دستِ غارت گر سے ہیں
زندگی کے ان نہاں خانوں میں بھی
میرے خوابوں کا کوئی روماں نہیں!
کاش اک ’دیوارِ رنگ‘
میرے ان کے درمیاں حائل نہ ہو!
یہ سیہ پیکر برہنہ راہرو
یہ گھروں میں خوبصورت عورتوں کا زہرخند
یہ گزر گاہوں پہ دیو آسا جواں
جن کی آنکھوں میں گرسنہ آرزوؤں کی لپک
مشتعل، بے باک مزدوروں کا سیلابِ عظیم!
ارضِ مشرق، ایک مبہم خوف سے لرزاں ہوں میں
آج ہم کو جن تمناؤں کی حرمت کے سبب
دشمنوں کا سامنا مغرب کے میدانوں میں ہے
اُن کا مشرق میں نشاں تک بھی نہیں!
خود کشی
کر چکا ہوں آج عزمِ آخری۔۔۔
شام سے پہلے ہی کر دیتا تھا میں
چاٹ کر دیوار کو نوکِ زباں سے ناتواں
صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند؛
رات کو جب گھر کا رخ کرتا تھا میں
تیرگی کو دیکھتا تھا سرنگوں
منہ بسورے، رہگزاروں سے لپٹتے، سوگوار
گھر پہنچتا تھا میں انسانوں سے اُکتایا ہوا
میرا عزمِ آخری یہ ہے کہ میں
کود جاؤں ساتویں منزل سے آج!
آج میں نے پا لیا ہے زندگی کو بے نقاب!
آتا جاتا تھا بڑی مدت سے میں
ایک عشوہ ساز و ہرزہ کار محبوبہ کے پاس
اُس کے تختِ خواب کے نیچے مگر
آج میں نے دیکھ پایا ہے لہو
تازہ و رخشاں لہو،
بوئے مَے میں بوئے خوں الجھی ہوئی!
وہ ابھی تک خواب گہ میں لوٹ کر آئی نہیں
اور میں کر بھی چکا ہوں اپنا عزمِ آخری!
جی میں آئی ہے لگا دوں ایک بے باکانہ جست
اس دریچے میں سے جو
جھانکتا ہے ساتویں منزل سے کوئے بام کو!
شام سے پہلے ہی کر دیتا تھا میں
چاٹ کر دیوار کو نوکِ زباں سے ناتواں
صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند
آج تو آخر ہم آغوشِ زمیں ہو جائے گی!
٭٭٭
شبابِ گریزاں
مئے تازہ و ناب حاصل نہیں ہے
تو کر لوں گا دُزدِ تہِ جام پی کر گزارا!
مجھے ایک نورس کلی نے
یہ طعنہ دیا تھا:
تری عمر کا یہ تقاضا ہے
تو ایسے پھولوں کا بھونرا بنے
جن میں دوچار دن کی مہک رہ گئی ہو
یہ سچ ہے وہ تصویر،
جس کے سبھی رنگ دھندلا گئے ہوں
نئے رنگ اُس میں بھرے کون لا کر
نئے رنگ لائے کہاں سے ؟
ترے آسماں کا،
میں اک تازہ وارد ستارا سہی،
جانتا ہوں کہ، اس آسماں پر
بہت چاند، سورج، ستارے ابھر کر
جو اک بار ڈوبے تو ابھرے نہیں ہیں
فراموش گاری کے نیلے افق سے،
اُنہی کی طرح میں بھی
نا تجربہ کار انساں کی ہمت سے آگے بڑھا ہوں،
جو آگے بڑھا ہوں،
تو دل میں ہوس یہ نہیں ہے
کہ اب سے ہزاروں برس بعد کی داستانوں میں
زندہ ہو اک بار پھر نام میرا!
یہ شامِ دلآویز تو اک بہانہ ہے،
اک کوششِ ناتواں ہے
شبابِ گریزاں کو جاتے ہوئے روکنے کی
وگرنہ ہے کافی مجھے ایک پل کا سہارا،
ہوں اک تازہ وارد، مصیبت کا مارا
میں کر لوں گا دُزدِ تہ جام پی کر گزارا!
٭٭٭
حیلہ ساز
کئی تنہا برس گزرے
کہ اس وادی میں، ان سر سبز اونچے کوہساروں میں،
اٹھا لایا تھا میں اُس کو،
نظر آتا ہے گاڑی سے وہ سینے ٹوریم اب بھی
جہاں اُس سے ہوئی تھیں آخری باتیں:
’’تجھے اے جان، میری بے وفائی کا ہے غم اب بھی؟
محبت اُس بھکارن سے؟
وہ بے شک خوبصورت تھی،
مگر اُس سے محبت، آہ نا ممکن!
محبت گوشت کے اُس کہنہ و فرسودہ پیکر سے؟
ہوسناکی؟
’’میں اک بوسے کا مجرم ہوں
فقط اک تجربہ منظور تھا مجھ کو
کہ آیا مفلسی کتنا گرا دیتی ہے انساں کو!‘‘
نہ آیا اعتماد اُس کو مری اس حیلہ سازی پر،
بس اپنی ناتواں، دلدوز آنکھوں سے
پہاڑوں اور اُن پر تُند و سر افراختہ چیلوں کو وہ تکتی رہی پیہم:
’’یہ دیکھو ایک اونچے پیڑ کا ٹہنا
پہاڑی میں بنا لی اس نے اپنی راہ یوں جیسے
چٹان اس کے لیے کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی!‘‘
زمانے بھر پہ تاریکی سی چھائی ہے
مگر وہ یاد کے روزن سے آتی ہے نظر اب بھی
مجھے بھولی نہیں وہ بے بسی اُس کی نگاہوں کی
اور اُس کی آخری باتیں ہیں یاد اب تک!
مگر میں اس لیے تازہ افق کی جستجو میں ہوں
کہ اُس کی یاد تک روپوش ہو جائے؟
٭٭٭
کشاکش
شبِ دو شینہ کے آثار کہیں بھی تو نہیں،
تیری آنکھوں میں، نہ ہونٹوں پہ، نہ رخساروں پر،
اڑ گئی اوس کی مانند ہر انگڑائی بھی!
اور ترا دل تو بس اک حجلۂ تاریکی ہے،
جس میں کام آ نہیں سکتی مری بینائی بھی!
یہ تجسس مجھے کیوں ہے کہ سحَر کے ہنگام
کون اٹھّا ترے آغوش سے سرمست جوانی لے کر:
کیا وہ اس شہر کا سب سے بڑا سوداگر تھا؟
(تیرے پاؤں میں ہے زنجیر طلائی جس کی)
یا فرنگی کا گرانڈیل سپاہی تھا کوئی؟
(جن سے یہ شہر ابلتا ہوا ناسور بنا جاتا ہے)
یا کوئی دوست، شب و روز کی محنت کا شریک؟
(میرے ہی شوق نے ترغیب دلائی ہو جسے!)
یہ تجسس مجھے کیوں ہے آخر،
جبکہ خود میرے لیے دور نہ تھا، دور نہیں،
کہ میں چاہوں تو ترے جسم کے خم خانوں کا محرم بن جاؤں؟
جس کی قسمت میں کوئی موجِ تبسم بھی نہ ہو،
قہقہوں کا اُسے ذخّار سمندر مل جائے،
مبتلا کیوں نہ وہ اوہام کے اس دام میں ہو،
کہ وہی ایک وہی ہے تری ہستی پہ محیط،
اور تُو عہدِ گزشتہ کی طرح
کارواں ہائے تمنا کی گزرگاہ نہیں!
شبِ دو شینہ کے آثار کہیں بھی تو نہیں،
تیری آنکھوں میں، نہ ہونٹوں پہ، نہ رخساروں پر،
اور نمودار بھی ہو جائیں تو کیا،
آگہی ہو بھی، تو حاصل نہیں کچھ اس کے سوا
کہ غمِ عشق چراغِ تہِ داماں ہو جائے،
زندگی اور پریشاں ہو جائے!
٭٭٭
خرابے
اک تمنا تھی کہ میں
اک نیا گھر، نئی منزل کہیں آباد کروں،
کہ مرا پہلا مکاں
جس کی تعمیر میں گزرے تھے مرے سات برس
اک کھنڈر بنتا چلا جاتا تھا
یہ تمنا تھی کہ شوریدہ سری
خشت اور سنگ کے انبار لگاتی ہی رہے
روز و شب ذہن میں بنتے ہی رہیں
دَر و دیوار کے خوش رنگ نقوش!
مجھ کو تخیل کے صحرا میں لیے پھرتا تھا
ایک آفت زدہ دیوانے کا جوش،
لے گئے میرے قدم آخرِ کار
ایک دن اپنے نئے گھر میں مجھے
خیر مقدم کو تھیں موجود جہاں
میری گل چہرہ کنیزیں، مرے دل شاد غلام،
دیکھ کر اپنی تمناؤں کی شادابی کو
میرے اندیشے کی دہلیز سے معدوم ہوئے
میرے ماضی کے سیہ تاب، الم ناک نشاں!
یہ مگر کیا تھا؟ خیالات تھے، اوہام تھے دیوانے کے
نہ وہ گل چہرہ کنیزیں تھیں، نہ دل شاد غلام
در و دیوار کے وہ نقش، نہ دیواریں تھیں
سنگ اور خشت کے ڈھیروں پہ تھا کائی کا نزول
اور وہ ڈھیر بھی موجود نہ تھے!
کھل گئے تھے کسی آئندہ کی بیداری میں
میرے خود ساختہ خواب
میں اُسی پہلے خرابے کے کنارے تھا نگوں
جس سے شیون کی شب و روز صدا آتی ہے!
کس لیے ہے مری محرومی کی حاسد اب بھی
کسی منحوس ستارے کی غضب ناک نگاہ
اور اِدھر بندۂ بدبخت کی تنہائی کا یہ رنگ ۔۔ کہ وہ
اور بھی تیرہ و غمناک ہوئی جاتی ہے!
٭٭٭
داشتہ
میں ترے خندۂ بے باک سے پہچان گیا
کہ تری روح کو کھاتا سا چلا جاتا ہے،
کھوکھلا کرتا چلا جاتا ہے، کوئی المِ زہرہ گداز
میں تو اس پہلی ملاقات میں یہ جان گیا!
آج یہ دیکھ کے حیرت نہ ہوئی
کہ تری آنکھوں سے چپ چاپ برسنے لگے اشکوں کے سحاب؛
اس پہ حیرت تو نہیں تھی، لیکن
کسی ویرانے میں سمٹے ہوئے خوابیدہ پرندے کی طرح
ایک مبہم سا خیال
دفعتاً ذہن کے گوشے میں ہوا بال فشاں:
کہ تجھے میری تمنا تو نہیں ہو سکتی
آج، لیکن مری باہوں کے سہارے کی تمنا ہے ضرور،
یہ ترے گریۂ غمناک سے میں جان گیا
تجھ سے وابستگیِ شوق بھی ہے،
ہو چلی سینے میں بیدار وہ دل سوزی بھی
مجھ سے مہجورِ ازل جس پہ ہیں مجبورِ ازل!
نفسِ خود بیں کی تسلی کے لیے
وہ سہارا بھی تجھے دینے پہ آمادہ ہوں
تجھے اندوہ کی دلدل سے جو آزاد کرے
کوئی اندیشہ اگر ہے تو یہی
تیرے ان اشکوں میں اک لمحے کی نومیدی کا پرتو ہو تو کہیں،
اور جب وقت کی امواج کو ساحل مل جائے
یہ سہارا تری رسوائی کا اک اور بہانہ بن جائے!
جس طرح شہر کا وہ سب سے بڑا مردِ لئیم
جسم کی مزدِ شبانہ دے کر
بن کے رازق تری تذلیل کیے جاتا ہے
میں بھی باہوں کا سہارا دے کر۔۔۔
تیری آئندہ کی توہین کا مجرم بن جاؤں!
٭٭٭
سرگوشیاں
’’پھر آج شام گاہ سرِ رہگزر اُسے
دیکھا ہے اس کے دوشِ حسیں پر جھکے ہوئے!‘‘
’’یارو وہ ہرزہ گرد،
ہے کسبِ روزگار میں اپنا شریکِ کار،
راتوں کو اُس کی راہگزاروں پہ گردشیں
اور میکدوں میں چھپ کے مے آشامیِ طویل
رسوائیوں کی کوئی زمانے میں حد بھی ہے!‘‘
’’یہ غصہ رائیگاں ہے، ہمیں تو ہے یہ گلہ
وارفتہ کیوں اُسی کے لیے ہے وہ عشوہ ساز
کیوں اتنی دلکشی بھی خدا نے نہ دی ہمیں
تسخیر اُس کا خندۂ بے باک کر سکیں؟‘‘
’’اب تو کسی نوید کا امکان ہی نہیں
جب اُس کا، دل کی آرزوؤں کے حصول تک،
ایک اپنے یارِ غار سے ہے ربطِ شرمناک
اک رشتۂ ذلیل‘‘
’’یہ اُس کی شاطری ہے، کہ ’زلفِ عجم‘ کا دام؟‘‘
’’کچھ بھی ہو، اس میں شائبۂ شاعری نہیں
برسوں کا ایک ترسا ہوا شخص جان کر
پہچانتی ہے دور سے عورت کی بُو اُسے‘‘
’’اور کررہا ہے اس کا نصیبہ بھی یاوری!‘‘
’’اس رشکِ بے بسی سے مرے دوست، فائدہ؟
ہے کچھ تو اپنا زور گریباں کے چاک پر!
حاصل نہیں ہے ہم کو اگر وہ شرابِ ناب
تو بام و در کی شہر میں کوئی کمی نہیں
دو ’پول‘ ایک پیکرِ یخ بستہ، ایک رات!‘‘
٭٭٭
رقص کی رات
رقص کی رات کسی غمزۂ عریاں کی کرن
اس لیے بن نہ سکی راہِ تمنا کی دلیل
کہ ابھی دور کسی دیس میں اک ننھا چراغ
جس سے تنویر مرے سینۂ غمناک میں ہے
ٹمٹماتا ہے اس اندیشے میں شاید کہ سحر ہو جائے
اور کوئی لوٹ کے آ ہی نہ سکے!
رقص کی رات کوئی دَورِ طرب
بن نہ سکتا تھا ستاروں کی خدائی گردش؟
محورِ حال بھی ہو، جادۂ آئندہ بھی
اور دونوں میں وہ پیوستگیِ شوق بھی ہو
جو کبھی ساحل و دریا میں نہ تھی،
پھر بھی حائل رہے یوں بُعدِ عظیم
لب ہلیں اور سخن آغاز نہ ہو
ہاتھ بڑھ جائیں مگر لامسہ بے جان رہے؟
تجھے معلوم نہیں،
اب بھی ہر صبح دریچے میں سے یوں جھانکتا ہوں
جیسے ٹوٹے ہوئے تختے سے کوئی تِیرہ نصیب
سخت طوفان میں حسرت سے افق کو دیکھے:
____کاش ابھر آئے کہیں سے وہ سفینہ جو مجھے
اس غمِ مرگِ تہِ آب سے آزاد کرے____
رقص کی شب کی ملاقات سے اتنا تو ہوا
دامنِ زیست سے میں آج بھی وابستہ ہوں،
لیکن اس تختۂ نازک سے یہ امید کہاں
کہ یہ چشم و لبِ ساحل کو کبھی چوم سکے!
٭٭٭
آواز
۔۔۔ یہ دلّی ہے
اپنے غریب الوطن بھائیوں کے لیے
ہار غزلوں کے لائی ہے ان کی بہن
اور گیتوں کے گجرے بنا کر:
’’چھما چھم چھما چھم دلہنیا چلی رے‘‘
’’یہ دنیا ہے طوفان میل‘‘
’’اے مدینے کے عربی جواں‘‘
’’تیری زلفیں ہمیں ڈس گئیں ناگ بن کر___‘‘
مگر اس صدا سے بڑا ناگ ممکن ہے
جو لے گیا ایک پل میں
ہزاروں کو غارِ فراموش گاری
میں یوں کھینچ کر ساتھ اپنے
کہ صدیاں گزرنے پر اُن کی
سیہ ہڈیوں بھی نہ شاید ملیں گی؟
جہاں سے یہ آواز آئی
اُسی سرزمیں میں،
سمندر کے ساحل پہ، لاکھوں گھروں میں
دیے ٹمٹمانے لگے
اور اک دوسرے سے
بہت دھیمی سرگوشیوں میں
یہ کہنے لگے:
’’لو سنو، اب سحر ہونے والی ہے لیکن
مسافر کی اب تک خبر بھی نہیں ہے!‘‘
٭٭٭
دوری
مجھے موت آئے گی، مر جاؤں گا میں،
تجھے موت آئے گی، مر جائے گی تُو،
وہ پہلی شبِ مہ شبِ ماہِ دو نیم بن جائے گی
جس طرح سازِ کہنہ کے تارِ شکستہ کے دونوں سرے
دو افق کے کناروں کے مانند
بس دور ہی دور سے تھرتھراتے ہیں اور پاس آتے نہیں ہیں
نہ وہ راز کی بات ہونٹوں پہ لاتے ہیں
جس نے مغنّی کو دورِ زماں و مکاں سے نکالا تھا،
بخشی تھی خوابِ ابد سے رہائی!
یہ سچ ہے تو پھر کیوں
کوئی ایسی صورت، کوئی ایسا حیلہ نہ تھا
جس سے ہم آنے والے زمانے کی آہٹ کو سن کر
وہیں اُس کی یورش کو سینوں پہ یوں روک لیتے:
کہ ہم تیری منزل نہیں، تیرا ملجا و ماویٰ نہیں ہیں؟
یہ سوچا تھا شاید
کہ خود پہلے اس بُعد کے آفرینندہ بن جائیں گے
(اب جو اِک بحرِ خمیازہ کش بن گیا ہے!)
تو پھر از سرِ نَو مسرت سے، نورس نئی فاتحانہ مسرت سے
پائیں گے بھولی ہوئی زندگی کو،
وہی خود فریبی، وہی اشک شوئی کا ادنیٰ بہانہ!
مگر اب وہی بُعد سرگوشیاں کر رہا ہے:
کہ تُو اپنی منزل کو واپس نہیں جا سکے گا،
نہیں جا سکے گا۔۔۔
مجھے موت آئے گی، مر جاؤں گا میں،
تجھے موت آئے گی، مر جائے گی تُو
یہ عفریت پہلے ہزیمت اٹھائے گا، مٹ جائے گا!
٭٭٭
زنجیر
گوشۂ زنجیر میں
اک نئی جنبش ہویدا ہو چلی،
سنگِ خارا ہی سہی، خارِ مغیلاں ہی سہی،
دشمنِ جاں، دشمنِ جاں ہی سہی،
دوست سے دست و گریباں ہی سہی
یہ بھی تو شبنم نہیں___
یہ بھی تو مخمل نہیں، دیبا نہیں، ریشم نہیں___
ہر جگہ پھر سینۂ نخچیر میں
اک نیا ارماں، نئی امید پیدا ہو چلی،
حجلۂ سیمیں سے تو بھی پیلۂ ریشم نکل،
وہ حسیں اور دور افتادہ فرنگی عورتیں
تو نے جن کے حسنِ روز افزوں کی زینت کے لیے
سالہا بے دست و پا ہو کر بُنے ہیں تار ہائے سیم و زر
اُن کے مردوں کے لیے بھی آج اک سنگین جال
ہو سکے تو اپنے پیکر سے نکال!
سُکر ہے دنبالۂ زنجیر میں
اک نئی جنبش، نئی لرزش ہویدا ہو چلی
کوہساروں، ریگزاروں سے صدا آنے لگی:
ظلم پروردہ غلامو! بھاگ جاؤ
پردۂ شب گیر میں اپنے سلاسل توڑ کر،
چار سُو چھائے ہوئے ظلمات کو اب چیر جاؤ
اور اس ہنگامِ باد آورد کو
حیلۂ شب خوں بناؤ!
٭٭٭
سومنات
نئے سرے سے غضب کی سج کر
عجوزۂ سومنات نکلی،
مگر ستم پیشہ غزنوی
اپنے حجلۂ خاک میں ہے خنداں____
وہ سوچتا ہے:
’’بھری جوانی سہاگ لوٹا تھا میں نے اِس کا،
مگر مرا ہاتھ
اس کی روحِ عظیم پر بڑھ نہیں سکا تھا‘‘،
اور اب فرنگی یہ کہہ رہا ہے:
’’کہ آؤ آؤ اس ہڈیوں کے ڈھانچے کو
جس کے مالک تمھیں ہو
ہم مل کے نورِ کمخواب سے سجائیں!‘‘
وہ جانتا ہے،
وہ نورِ کمخواب چین و ما چین میں نہیں ہے
کہ جس کی کرنوں میں
ایسا آہنگ ہو کہ گویا
وہی ہو ستّارِ عیب بھی
اور پردۂ ساز بھی وہی ہو!
عجوزۂ سومنات کے اس جلوس میں ہیں
عقیم صدیوں کا علم لادے ہوئے برہمن
جو اک نئے سامراج کے خواب دیکھتے ہیں
اور اپنی توندوں کے بل پہ چلتے ہوئے مہاجن
حصولِ دولت کی آرزو میں بہ جبر عریاں،
جو سامری کے فسوں کی قاتل حشیش پی کر
ہیں رہگزاروں میں آج پا کوب و مست و غلطاں
دف و دہل کی صدائے دلدوز پر خروشاں!
کسی جزیرے کی کور وادی کے
وحشیوں سے بھی بڑھ کے وحشی،
کہ اُن کے ہونٹوں سے خوں کی رالیں ٹپک رہی ہیں
اور اُن کے سینوں پہ کاسۂ سر لٹک رہے ہیں
جو بن کے تاریخ کی زبانیں
سنا رہے ہیں فسانۂ صد ہزار انساں!
اور اُن کے پیچھے لڑھکتے، لنگڑاتے آ رہے ہیں
کچھ اشتراکی،
کچھ اُن کے احساں شناس مُلّا
بجھا چکے ہیں جو اپنے سینے کی شمعِ ایقاں!
مگر سرِ راہ تک رہے ہیں
کبھی تو دہشت زدہ نگاہوں سے
اور کبھی یاسِ جاں گزا سے
غریب و افسردہ دل مسلماں،
جو سوچتے ہیں،
کہ ’’اے خدا
آج اپنے آبا کی سر زمیں میں
ہم اجنبی ہیں،
ہدف ہیں نفرت کے ناوکِ تیز و جانستاں کے!
منو کے آئین کا ظلم سہتے ہوئے ہریجن
کہ جن کا سایہ بھی برہمن کے لیے
ہے دزدِ شبِ زمستاں‘‘
وہ سوچتے ہیں:
’’کہیں یہ ممکن ہے:
بیچ ڈالے گا
ہم کو بردہ فروشِ افرنگ
اب اسی برہمن کے ہاتھوں
کہ جس کی صدیوں پرانے سیسے سے
آج بھی کور و کر ہیں سب ہم!
جو اَب بھی چاہے
تو روک لے ہم سے نورِ عرفاں!‘‘
ستم رسیدہ نحیف و دہقاں
بھی اس تماشے کو تک رہا ہے،
اُسے خبر بھی نہیں کہ آقا بدل رہے ہیں
وہ اس تماشے کو
طفلِ کمسن کی حیرتِ تابناک سے محض دیکھتا ہے!
جلوس وحشی کی آز سے
سب کو اپنی جانب بلا رہا ہے
کہ ’’ربّۂ سومنات کی بارگاہ میں آ کے سر جھکاؤ!‘‘
مگر وہ حسِ ازل
جو حیواں کو بھی میسر ہے
سب تماشائیوں سے کہتی ہے:
’’اس سے آگے اجل ہے
بس مرگِ لم یزل ہے!‘‘
اسی لیے وہ کنارِ جادہ پر ایستادہ ہیں، دیکھتے ہیں!
٭٭٭
ویران کشید گاہیں
مَری کی ویراں کشید گاہوں میں
اُس فتیلے کو ڈھونڈتا ہوں
جو شیشہ و جام و دستِ ساقی کی منزلوں سے
گزر کے جب بھی بڑھا ہے آگے
تو اُس کے اکثر غموں سے اُجڑے ہوئے دماغوں
کے تیرہ گوشے
اَنا کی شمعوں کی روشنی سے جھلک اٹھے ہیں!
میں اس فتیلے کے اس سرے پر،
کھڑا ہوں، مجذوب کی نظر سے
مَری کی ویراں کشید گاہوں میں جھانکتا ہوں!
میں کامگاری کے انتہائی سرور سے کانپنے لگا ہوں
جہان بھر کے عظیم سیاح دیر تک یہ خبر نہ لائے
کہ نیل،
جو بے شمار صدیوں سے،
مصر کے خشک ریگزاروں کو،
رنگ و نغمہ سے بھر رہا تھا
کہاں سے ہوتی تھی اس کی تقدیر کی روپہلی سحر ہویدا؟
میں آج ایسے ہی نیل کی وسعتوں
کی دہلیز پر کھڑا ہوں!
کھنڈر جو صبحِ ازل کی مانند
ایستادہ ہیں،
اِس یقیں سے،
کہ ابتدا ہی اگر ہیولائے انتہا ہے
تو انتہا بھی کبھی وہی نقطہ بن گئی ہے،
جہاں سے سالک ہو اوّلیں بار جادہ پیما!
کھنڈر جو صبحِ ازل کی مانند دیکھتے ہیں،
یہ دیکھ کر مضمحل نہیں ہیں،
کہ اُن کے آغوش کے فتیلے کی روشنی
سرد پڑ چکی ہے
وہ اس فتیلے کی
سرکشی کو بھی جانتے ہیں!
٭٭٭
نمرود کی خدائی
یہ قدسیوں کی زمیں
جہاں فلسفی نے دیکھا تھا، اپنے خوابِ سحر گہی میں،
ہوائے تازہ و کشتِ شاداب و چشمۂ جانفروز کی آرزو کا پرتو!
یہیں مسافر پہنچ کے اب سوچنے لگا ہے:
’’وہ خواب کابوس تو نہیں تھا؟
___وہ خواب کابوس تو نہیں تھا؟‘‘
اے فلسفہ گو،
کہاں وہ رویائے آسمانی!
کہاں یہ نمرود کی خدائی!
تو جال بنتا رہا ہے، جن کے شکستہ تاروں سے اپنے موہوم فلسفے کے
ہم اُس یقیں سے، ہم اُس عمل سے، ہم اُس محبت سے،
آج مایوس ہو چکے ہیں!
کوئی یہ کس سے کہے کہ آخر
گواہ کس عدلِ بے بہا کے تھے عہدِ تاتار کے خرابے؟
عجم، وہ مرزِ طلسم و رنگ و خیال و نغمہ
عرب، وہ اقلیمِ شیر و شہد و شراب و خرما
فقط نوا سنج تھے در و بام کے زیاں کے،
جو اُن پہ گزری تھی
اُس سے بدتر دنوں کے ہم صیدِ ناتواں ہیں!
کوئی یہ کس سے کہے:
در و بام،
آہن و چوب و سنگ و سیماں کے
حُسنِ پیوند کا فسوں تھے
بکھر گیا وہ فسوں تو کیا غم؟
اور ایسے پیوند سے امیدِ وفا کسے تھی!
شکستِ مینا و جام برحق،
شکستِ رنگ عذارِ محبوب بھی گوارا
مگر__ یہاں تو کھنڈر دلوں کے،
(____یہ نوعِ انساں کی
کہکشاں سے بلند و برتر طلب کے اُجڑے ہوئے مدائن____)
شکستِ آہنگ حرف و معنی کے نوحہ گر ہیں!
٭٭٭
ایک شہر
یہ سب سے نیا، اور سب سے بڑا اور نایاب شہر
یہاں آ کے رکتے ہیں سارے جہاں کے جہاز
یہاں ہفت اقلیم کے ایلچی آ کے گزرانتے ہیں نیاز
درآمد برآمد کے لاریب چشموں سے شاداب شہر
یہ گلہائے شبّو کی مہکوں سے، محفل کی شمعوں سے، شب تاب شہر
یہ اک بسترِ خواب شہر
دیبا و سنجاب شہر!
یہاں ہیں عوام اپنے فرماں روا کی محبت میں سرشار
بطبیب دلی، قیدِ زنجیر و بند سلاسل کے ارماں کے ہاتھوں گرفتار
دیوانہ وار!
یہاں فکر و اظہار کی حریت کی وہ دولت لٹائی گئی
کہ اب سیم و زر اور لعل و گہر کی بجائے
بس الفاظ و معنی سے
اہل قلم کے، خطیبوں کے، اُجڑے خزانے ہیں معمور
خیالات کا ہے صنم خانۂ نقش گر میں وفور
مغنّی ہے فن کی محبت میں چُور
سلاخوں کے پیچھے فقط چند شوریدہ سر بے شعور!
مسافت یہاں صدر سے تابہ نعلین بس ایک دو گام
یہاں میزبان اور مہمان ہیں، ایک ہی شہد کے جام سے شاد کام
اگر ہیں برہنہ سرِ عام تو سب برہنہ
کہ یہ شہر ہے، عدل و انصاف میں
اور مساوات میں
اور اخوّت میں
مانندِ حمام!
یہاں تخت و دیہیم ہوں یا کلاہِ گلیم
ہے سب کا وہی ایک ربِّ کریم!
٭٭٭
اِنقلابی
’’مورّخ، مزاروں کے بستر کا بارِ گراں،
عروس اُس کی نا رس تمناؤں کے سوز سے
آہ بر لب
جدائی کی دہلیز پر، زلف در خاک، نوحہ کناں!
یہ ہنگام تھا، جب ترے دل نے اس غمزدہ سے
کہا: ’’لاؤ، اب لاؤ، دریوزۂ غمزۂ جانستاں!‘‘
مگر خواہشیں اشہبِ باد پیما نہیں،
جو ہوں بھی تو کیا
کہ جولاں گہِ وقت میں کس نے پایا ہے
کس کا نشاں؟
یہ تاریخ کے ساتھ چشمک کا ہنگام تھا؟
یہ مانا تجھے یہ گوارا نہ تھا،
کہ تاریخ دانوں کے دامِ محبت میں پھنس کر
اندھیروں کی روحِ رواں کو اُجالا کہیں
مگر پھر بھی تاریخ کے ساتھ
چشمک کا یہ کون ہنگام تھا؟
جو آنکھوں میں اُس وقت آنسو نہ ہوتے،
تو یہ مضطرب جاں،
یہ ہر تازہ و نو بہ نو رنگ کی دل ربا،
تری اس پذیرائیِ چشم و لب سے
وفا کے سنہرے جزیروں کی شہزاد ہوتی،
ترے ساتھ منزل بہ منزل رواں و دواں!
اسے اپنے ہی زلف و گیسو کے دامِ ازل سے
رہائی تو ملتی،
مگر تو نے دیکھا بھی تھا
دیوِ تاتار کا حجرۂ تار
جس کی طرف تو اسے کر رہا تھا اشارے،
جہاں بام و در میں کوئی روزن نہیں ہے
جہاں چار سو باد و طوفاں کے مارے ہوئے راہ گیروں
کے لیے بے انتہا استخواں ایسے بکھرے پڑے ہیں
ابد تک نہ آنکھوں میں آنسو، نہ لب پر فغاں؟
٭٭٭
سوغات
زندگی ہیزمِ تنّورِ شکم ہی تو نہیں
پارۂ نانِ شبینہ کا ستم ہی تو نہیں
ہوسِ دام و درم ہی تو نہیں
سیم و زر کی جو وہ سوغات صبا لائی تھی
ہم سہی کاہ، مگر کاہ ربا ہو نہ سکی
دردمندوں کی خدا ہو نہ سکی
آرزو ہدیۂ اربابِ کرم ہی تو نہیں!
ہم نے مانا کہ ہیں جاروب کشِ قصرِ حرم
کچھ وہ احباب جو خاکسترِ زنداں نہ بنے
شبِ تاریکِ وفا کے مہِ تاباں نہ بنے
کچھ وہ ا حباب بھی ہیں جن کے لیے
حیلۂ امن ہے خود ساختہ خوابوں کا فسوں
کچھ وہ احباب بھی ہیں، جن کے قدم
راہ پیما تو رہے، راہ شناسا نہ ہوئے
غم کے ماروں کا سہارا نہ ہوئے!
کچھ وہ مردانِ جنوں پیشہ بھی ہیں جن کے لیے
زندگی غیر کا بخشا ہوا سم ہی تو نہیں
آتشِ دَیر و حرم ہی تو نہیں!
٭٭٭
ظلم رنگ
"یہ میں ہوں!”
"اور یہ میں ہوں!”۔۔۔
یہ دو میں ایک سیمِ نیلگوں کے ساتھ آویزاں
ہیں شرق و غرب کے مانند،
لیکن مِل نہیں سکتے!
صدائیں رنگ سے نا آشنا
اک تار اُن کے درمیاں حائل!
مگر وہ ہاتھ جن کا بخت،
مشرق کے جواں سورج کی تابانی
کبھی ان نرم و نازک، برف پروردہ حسیں باہوں
کو چھو جائیں،
محبت کی کمیں گاہوں کو چھو جائیں___
یہ نا ممکن! یہ ناممکن!
کہ "ظلم رنگ” کی دیوار ان کے درمیاں حائل!
"یہ میں ہوں!”
"اور یہ میں ہوں!”
اَنا کے زخمِ خوں آلودہ، ہر پردے میں،
ہر پوشاک میں عریاں،
یہ زخم ایسے ہیں جو اشکِ ریا سے سل نہیں سکتے
کسی سوچے ہوئے حرفِ وفا سے سِل نہیں سکتے!
٭٭٭
طلسمِ ازل
مجھے پھر طلسمِ ازل نے
نئی صبح کے نور میں نیم وا،
شرم آگیں دریچے سے جھانکا!
میں اس شہر میں بھی،
جہاں کوئے و برزن میں بکھرے ہوئے
حُسن و رقص و مَے و نور و نغمہ
اُسی نقشِ صد رنگ کے خطّ و محراب ہیں، تار و پو ہیں،
کہ صدیوں سے جس کے لیے
نوعِ انساں کا دل، کان، آنکھیں،
سب آوارۂ جستجو ہیں،
میں اس شہر میں تھا پریشان و تنہا!
یہاں زندگی ہے اک آہنگِ تازہ،
مسلسل، مگر پھر بھی تازہ
یہاں زندگی لمحہ لمحہ، نئے، دم بہ دم تیز تر
جوش سے گامزن ہے،
یہاں وہ سکوں، جس کے گہوارۂ نرم و نازک
میں پلتے ہیں ہم ایشیائی
فقط دور ہی دور سے خندہ زن ہے،
مگر میں اسی شہر میں تھا پریشان و غمگین و تنہا!
پریشان و غمگین و تنہا
کہ ہم ایشیائی
جو صدیوں سے ہیں خوابِ تمکیں کے رسیا
یہ کہتے رہے ہیں:
ہمارا لہو زخمِ افرنگ کی مومیائی
ہمارے ہی دم سے جلالِ شہی، فرّۂ کبریائی!
پریشان و غمگین و تنہا
کہ ہم تابکے اپنے اوہامِ کہنہ کے دلبند بن کر،
یونہی عافیت کی پُر اسرار لذت کے آغوش سے
زہرِ تقدیر پیتے رہیں گے
ابھی اور کَے سال دریوزہ گر بن کے جیتے رہیں گے!
اسی سوچ میں تھا کہ مجھ کو
طلسمِ ازل نے نئی صبح کے نور میں نیم وا،
شرم آگیں دریچے سے جھانکا ____
مگر اس طرح، ایک چشمک میں جیسے
ہمالہ میں الوند کے سینۂ آہنی سے
محبت کا اک بے کراں سَیل بہنے لگا ہو
اور اس سَیل میں سب ازل اور ابد مل گئے ہوں!
٭٭٭
سبا ویراں
سلیماں سر بزانو اور سبا ویراں
سبا ویراں، سبا آسیب کا مسکن
سبا آلام کا انبارِ بے پایاں!
گیاہ و سبزہ و گُل سے جہاں خالی
ہوائیں تشنۂ باراں،
طیور اِس دشت کے منقار زیرِ پر
تو سرمہ در گلو انساں
سلیماں سر بزانو اور سبا ویراں!
سلیماں سر بزانو، تُرش رو، غمگیں، پریشاں مُو
جہانگیری، جہانبانی، فقط طرارۂ آہو،
محبت شعلۂ پرّاں، ہوس بوئے گُلِ بے بُو
ز رازِ دہرِ کمتر گو!
سبا ویراں کہ اب تک اس زمیں پر ہیں
کسی عیّار کے غارت گروں کے نقشِ پا باقی
سبا باقی، نہ مہروئے سبا باقی!
سلیماں سر بہ زانو،
اب کہاں سے قاصدِ فرخندہ پے آئے؟
کہاں سے، کس سبو سے کاسۂ پیری میں مَے آئے؟
٭٭٭
سایہ
کسی خواب آلودہ سائے کا پیکر
کہاں تک ترے گوش شِنوا، تری چشمِ بینا، ترے قلبِ دانا
کا ملجا و ماویٰ بنے گا؟
تجھے آج سائے کے ہونٹوں سے حکمت کی باتیں گوارا،
تجھے آج سائے کے آغوش میں شعر و نغمہ کی راتیں گوارا،
گوارا ہیں اُس زندگی سے کہ جس میں کئی کارواں راہ پیما رہے ہیں!
مگر کل ترے لب پہ پہلی سی آہوں کی لپٹیں اٹھیں گی،
ترا دل اُنہی کاروانوں کو ڈھونڈے گا،
اُن کو پکارے گا،
جو جسم کی چشمہ گاہوں پر رکتے ہیں آ کر
جنھیں سیریِ جاں کی پوشیدہ راہوں کی ساری خبر ہے!
یہ تسلیم، سائے نے تجھ کو
وہ پہنائیاں دیں
افق سے بلند اور بالا
جو تیری نگاہوں کے مرئی حجابوں میں پنہاں رہی تھیں،
وہ اسرار تجھ پر ہویدا کیے، جن کا ارماں
فلاطوں سے اقبال تک سب کے سینوں کی دولت رہا ہے؛
وہ اشعار تجھ کو سنائے، جو حاصل ہیں ورجل سے لے کر
سبک مایہ راشد کے سوزِ دروں کا
کہ تُو بھول جائے وہ صرصر، وہ گرداب جن میں
تری زندگی واژگوں تھی،
تری زندگی خاک و خوں تھی!
تُو اسرار و اشعار سنتی رہی ہے،
مگر دل ہی دل میں تُو ہنستی رہی ہے
تو سیّال پیکر سے، سائے سے، غم کے کنائے سے کیا پا سکے گی؟
جب اس کے ورا، اس سے زندہ توانا بدن
رنگ و لذت کے مخزن، ہزاروں،
تمنا کے مامن ہزاروں!
کبھی خواب آلودہ سائے کی مہجور و غم دیدہ آنکھیں
ترے خشک مژگاں کو رنجور و نم دیدہ کرتی رہی ہیں
تو پھر بھی تُو ہنستی رہی ہے!
٭٭٭
کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟
لب بیاباں، بوسے بے جاں
کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟
جسم کی یہ کار گاہیں
جن کا ہیزم آپ بن جاتے ہیں ہم!
نیم شب اور شہر خواب آلودہ، ہم سائے
کہ جیسے دزدِ شب گرداں کوئی!
شام سے تھے حسرتوں کے بندۂ بے دام ہم
پی رہے تھے جام پر ہر جام ہم
یہ سمجھ کر، جرعۂ پنہاں کوئی
شاید آخر، ابتدائے راز کا ایما بنے!
مطلب آساں، حرف بے معنی
تبسّم کے حسابی زاو یے
متن کے سب حاشیے،
جن سے عیشِ خام کے نقشِ ریا بنتے رہے!
اور آخر بعُد جسموں میں سرِ مُو بھی نہ تھا
جب دلوں کے درمیاں حائل تھے سنگیں فاصلے
قربِ چشم و گوش سے ہم کونسی الجھن کو سلجھاتے رہے!
کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟
شام کو جب اپنی غم گاہوں سے دزدانہ نکل آتے ہیں ہم؟
زندگی کو تنگنائے تازہ تر کی جستجو
یا زوالِ عمر کا دیِو سبک پا رُو برُو
یا انا کے دست و پا کو وسعتوں کی آرزو
کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟
٭٭٭
خود سے ہم دُور نکل آئے ہیں
میں وہ اقلیم کہ محروم چلی آتی تھی
سالہا دشت نوردوں سے، جہاں گردوں سے
اپنا ہی عکسِ رواں تھی گویا
کوئی روئے گزراں تھی گویا
ایک محرومیِ دیرینہ سے شاداب تھے
آلام کے اشجار وہاں
برگ و بار اُن کا وہ پامال امیدیں جن سے
پرسیِ افشاں کی طرح خواہشیں آویزاں تھیں،
کبھی ارمانوں کے آوارہ، سراسیمہ طیور
کسی نادیدہ شکاری کی صدا سے ڈر کر
ان کی شاخوں میں اماں پاتے تھے، سستاتے تھے،
اور کبھی شوق کے ویرانوں کو اڑ جاتے تھے،
شوق، بے آب و گیاہ
شوق، ویرانۂ بے آب و گیاہ،
ولولے جس میں بگولوں کی طرح ہانپتے تھے
اونگھتے ذرّوں کے تپتے ہوئے لب چومتے تھے
ہم کہ اب میں سے بہت دور نکل آئے ہیں
دور اس وادی سے اک منزلِ بے نام بھی ہے
کروٹیں لیتے ہیں جس منزل میں
عشقِ گم گشتہ کے افسانوں کے خواب
ولولوں کے وہ ہیولے ہیں جہاں
جن کی حسرت میں تھے نقّاش ملول
جن میں افکار کے کہساروں کی روحیں
سر و روبستہ ہیں،
اوّلیں نقش ہیں ارمانوں کے آوارہ پرندوں کے جہاں
خواہشوں اور امیدوں کے جنیں!
اپنی ہی ذات کے ہم سائے ہیں
آج ہم خود سے بہت دور نکل آئے ہیں!
٭٭٭
زندگی میری سہ نیم
میں سہ نیم اور زندگی میری سہ نیم
دوست داری، عشق بازی، روزگار
زندگی میری سہ نیم!
دوستوں میں دوست کچھ ایسے بھی ہیں
جن سے وابستہ ہے جاں،
اور کچھ ایسے بھی ہیں، جو رات دن کے ہم پیالہ، ہم نوالہ
پھر بھی جیسے دشمنِ جانِ عزیز!
دوستی کچھ دشمنی اور دشمنی کچھ دوستی
دوستی میری سہ نیم!
عشق محبوبہ سے بھی ہے اور کتنی اور محبوباؤں سے،
ان میں کچھ ایسی بھی ہیں
جن سے وابستہ ہے جاں
اور کچھ ایسی بھی ہیں جو عطرِ بالیں، نورِبستر
پھر بھی جیسے دشمنِ جانِ عزیز!
اِن میں کچھ نگرانِ دانہ اور کچھ نگرانِ دام
عشق میںکچھ سوز ہے، کچھ دل لگی، کچھ "انتقام”
عاشقی میری سہ نیم!
روزگار اِک پارۂ نانِ جویں کا حیلہ ہے
گاہ یہ حیلہ ہی بن جاتا ہے دستورِ حیات
اور گاہے رشتہ ہائے جان و دل کو بھول کر
بن کے رہ جاتا ہے منظورِ حیات
پارۂ ناں کی تمنّا بھی سہ نیم
میں سہ نیم اور زندگی میری سہ نیم!
٭٭٭
حرفِ نا گفتہ
حرفِ ناگفتہ کے آزار سے ہشیار رہو
کوئے و برزن کو،
در و بام کو،
شعلوں کی زباں چاٹتی ہو،
وہ دہن بستہ و لب دوختہ ہو۔۔۔
ایسے گنہ گار سے ہشیار رہو!
شحنۂ شہر ہو، یا بندۂ سلطاں ہو
اگر تم سے کہے: "لب نہ ہلاؤ”
لب ہلاؤ، نہیں، لب ہی نہ ہلاؤ
دست و بازو بھی ہلاؤ،
دست و بازو کو زبان و لبِ گفتار بناؤ
ایسا کہرام مچاؤ کہ سدا یاد رہے،
اہلِ دربار کے اطوار سے ہشیار رہو!
اِن کے لمحات کے آفاق نہیں –
حرفِ ناگفتہ سے جو لحظہ گزر جائے
شبِ وقت کا پایاں ہے وہی!
ہائے وہ زہر جو صدیوں کے رگ و پے میں سما جائے
کہ جس کا کوئی تریاق نہیں!
آج اِس زہر کے بڑھتے ہوئے
آثار سے ہشیار رہو
حرفِ ناگفتہ کے آزار سے ہشیار رہو!
٭٭٭
یہ دروازہ کیسے کھُلا؟
یہ دروازہ کیسے کھُلا، کس نے کھولا؟
وہ کتبہ جو پتھر کی دیوار پر بے زباں سوچتا تھا
ابھی جاگ اٹھا ہے،
وہ دیوار بھولے ہوئے نقش گر کی کہانی
سنانے لگی ہے؛
نکیلے ستوں پر وہ صندوق، جس پر
سیہ رنگ ریشم میں لپٹا ہوا ایک کتے کا بت،
جس کی آنکھیں سنہری،
ابھی بھونک اُٹھا ہے؛
وہ لکڑی کی گائے کا سر
جس کے پیتل کے سینگوں میں بربط،
جو صدیوں سے بے جان تھا
جھنجھنانے لگا ہے
وہ ننھے سے جوتے جو عجلت میں اک دوسرے سے
الگ ہو گئے تھے؛
یکایک بہم مل کے، اترا کے چلنے لگے ہیں۔
وہ پایوں پہ رکھے ہوئے تین گلدان
جن پر بزرگوں کے پاکیزہ یا کم گنہ گار
جسموں کی وہ راکھ جو (اپنی تقدیرِ مبرم سے بچ کر)
فقط تِیرہ تر ہو گئی تھی،
اُسی میں چھپے کتنے دل
تلملانے لگے ہیں؟
یہ دروازہ کیسے کھلا؟ کس نے کھولا؟
ہمیں نے____
ابھی ہم نے دہلیز پر پاؤں رکھا نہ تھا
کواڑوں کو ہم نے چھوا تک نہ تھا
کیسے یکدم ہزاروں ہی بے تاب چہروں پہ
تارے چمکنے لگے
جیسے اُن کی مقدس کتابوں میں
جس آنے والی گھڑی کا حوالہ تھا
گویا یہی وہ گھڑی ہو!
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں