FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

نیند کی مسافتیں

 

 

 

                عذرا عبّاس

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

۱

 

اب  محبتیں صرف پھل چکھنا چاہتی ہیں

اور نفرتیں کھلے عام ننگی ہیں

شاید بازاروں میں قیمتیں گھٹ گئی ہیں

ہمیں ان آسمانوں سے منہ پھیر لینا چاہئیے

جو ہمارے گناہ میں شریک ہیں

لیکن نہیں سمندر ہمارا پرانا رفیق ہے

ہمیں اسے یاد رکھنا چاہئیے

اترتے چڑھتے ہوئے بھاؤ میں وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے

زمانے کی درشتی ہمارے ہاتھوں کو زخمی کر رہی ہے

ہمیں ان راتوں کو قید کر دینا چاہئیے

یہ آئے دن ہمیں دکھ   دیتی ہیں

اور دنوں کو آزاد کر دینا چاہئیے

یہ آزادی کا سانس لینے کی گواہی دیں گے

آج تک غمو ں کی وہی صورت ہے

وقت نے انھیں نہیں بدلا

آؤ ہم کسی سناٹے میں بیٹھ کر گزرے دنوں کی باتیں کر لیں

شاید

ہنسی ہمارے لبوں تک آ جائے

اور ہم وقت کی کرختگی کے اختیار کو بھول جائیں

٭٭٭

 

 

 

 

۲

 

ہم آج بھی اس بے رنگی کا شکار ہیں

جو بیشتر بار ہمارے ہمراہ رہی

نیلے آسمان کے نیچے

جو کبھی کبھی بادلوں سے ڈھک جا تا ہے

ہمارے خواب دیوار پر چڑھنے والی دھوپ کی طرح پھیلتے اور سکڑتے ہیں

ہماری ماؤں کی دعائیں ہمارے گرد گردش کرتی رہتی ہیں

ہم پھیکے دنوں میں سوکھی ٹہنیوں پر دھوپ سینکتے

ہرے ہرے طوطوں کے جوڑے گنتے رہے

بھولی بسری یادوں کے ساتھ

یاد رہ جانے والی بہت سی باتوں کے ساتھ

جن کی تپش میں ہم شبنم کے قطروں کی طرح پگھل پگھل جاتے ہیں

اور کسی ان دیکھی دنیا کے ان دیکھے راز کا حصہ بنتے ہیں

ان آوازوں کے ساتھ

جو گھروں ،مکانوں اور سڑکوں سے نکل کر

روز ہمارے جسم سے ٹکراتی ہیں

پھر کہیں اور لوٹ جاتی ہیں

جیسے کوئی روز ہمارا نام پوچھتا ہو

اور ہم روز اپنا نام بھول جاتے ہیں

جب  ہی شام فصلوں پر چھانے لگی تھی

اور دھندہ کا پہلا غبار آنکھوں میں خوابوں کا حصہ بنتا ہے

خواہشوں کا جال بننے والی انگلیاں

یوں ہی دور تک برف پر  پھسلنے والے قدموں کی طرح

سرد ہوتی گئیں

دھوپ کھڑکیوں سے اتر کر ہمارے تلوے چاٹنے لگی

خاموش دوپہروں اور سرد شاموں میں دیکھے جانے والے خواب کہاں گئے

شاید ہمارے سفر کا کوئی حصہ ابھی باقی ہے

پہیوں کی آوازیں ہمیں ابھی تک سنائی دے رہی ہیں

وقت ابھی تک ٹھہرا نہیں ہے

لوگ چل رہے ہیں

بچے ابھی تک گھروں سے باہر ہیں

مائیں ابھی تک دروازوں پر کھڑی ہیں

جیسے دونوں وقت ملنے سے پہلے کوئی کسی سے بچھڑ گیا ہو

٭٭٭

 

 

 

 

۳

 

 

اور جیسے کسی بہت اجنبی خواہش  کے درمیان

بہت اجنبی دکھ کا سامنا ہو جائے

جہاں بدن ٹوٹ کر ریت کے تودے کی طرح بکھر نے لگیں

ایسے ہی لمحوں میں

ایسی ہی دنوں میں ہم بہت کچھ گنواتے رہے

کبھی کچھ نا پانے کے لئے

لمحوں کے ضائع شدہ ملبوں میں ہماری دعاؤں کے بہت سے حصے کندہ ہیں

شاید مقدس ہدایتوں کی طرح آنے والی نسلوں کو

ہمارے ہی جیسے راستوں پر چلتے ہوئے ملتے رہیں گے

ہماری آنکھیں بہت سے نا دکھائی دینے والے

خوابوں کے لئے درختوں ،ہواؤں اور بادلوں میں  آج بھی سفر کر رہی ہیں

آنکھیں اس کبھی نہ ختم ہونے والے سفر کے کبھی ختم ہونے کے خوف میں اپنی بینائی کھو رہی ہیں

٭٭٭

 

 

 

۴

 

کہانیاں جو چاند کی روشنی کی طرح میدانوں میں بکھری ہوئی تھیں

دھوپ کے سینے پر کیکر کے درختوں میں بدل گئیں

قدم فاصلوں  فاصلوں کی تیز دھن پر ناچتے ناچتے تھک گئے

آوازیں ہماری  سمتیں چھین کر جنگلوں میں اتر گئیں

اب عذابوں کا شور اور خواہشوں سے زیادہ طویل اور تھکا دینے والے دکھ ہیں

ان گنت لمحے جن کا ہم انتظار کر تے رہے

آہستہ آہستہ گزرتے ہوئے لمحوں کی چاپ تھے

وہاں پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور روز ایک ہی جیسے نظر آنے والے منظر

جو ہمارے تلووں سے نرم شبنم سے سے بھری گھاس کی وہ ٹھنڈک چھین لیتے ہیں

جو سفر کے شروع میں ہمیں ملی تھی

جلتی زمین ازل سے پتھروں سے بھری ہمیں زخمی کرتی رہتی ہے

ایک دوسرے سے ملے بغیر علیحدہ ہونے والوں میں

کون دیکھے گا بہار  کی شامیں

اور خزاں کی دوپہریں

ہم ان دونوں کے درمیان کسی اور موسم کا شکار ہو جائیں گے

اندیشے ہماری تاک میں ہیں

وقت گزرتے رہنے کا احساس دلانے والی ٹرینیں

ہوا کے سینے پر پھیلی ہوئی کسی روشن کونے میں

پروں کی سرسراہٹیں

بچوں کی ہتھیلیوں سے نکلتی ہوئی پتنگیں

بہت گہرے  سبز درختوں کی رازدارانہ آوازیں

اور بادلوں میں چھپا ہوا طویل آسمان

ایک دن کا سفر

جس کے بعد اندھیرے ہماری چھتوں کو سیاہ کر دیتے ہیں

تو انگلیوں میں جلتا سگریٹ

اندھیرے کا سگنل بن جا تا ہے

٭٭٭

 

 

۵

 

چڑھتے سمندروں پر

بادبانی  کشتیوں میں سفر کرتے ہوئے

ساحلوں پر قدموں کے نشان فاصلوں پر ہیں

گھٹتی ہوئی روشنیوں میں راتوں کے دکھ بڑھتے ہیں

جاتی ہوئی شاموں میں خالی سڑکوں پر چلتے ہوئے

خواہشیں گھوڑوں کی ٹاپوں  کی طرح سنائی دیتی ہیں

ہمارے پا س آنے والے دنوں کا کوئی پتہ نہیں

سیاہ چٹانوں کی طرح گھورتی ہوئی انگنت آنکھیں

سفر کا کوئی حصہ اداسیوں سے خالی نہیں

اندھیرے درختوں سے اتر کر پُتلیوں کی طرف بڑھ رہے ہیں

جس دھوپ میں ہم چلے تھے

اس میں ہمارے جسم آدھے جل چکے ہیں

گردشوں کا سلسلہ درختوں ،ہواؤں اور آوازوں کے ساتھ ہے

لمحوں کے ان گنت خواب آلودہ بوسے

جہاں  سائے پھیلتے اور آسمان چھوٹے ہو جاتے ہیں

دعائیں ہاتھوں سے نکل کر غیر محسوس ہواؤں کا حصہ بنتی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

۶

 

 

لوگ ڈوبتے ہوئے سورج کو الوداع کہنے کب آتے ہیں

ہماری قوسِ قزح دیکھنے والی آنکھیں رنجیدہ رہتی ہیں

شامیں افسردہ نہیں ہونے پاتیں

اور ہمارے رنج ہمیں دکھ دینا چھوڑ دیتے ہیں

اورہم بلا وجہ اندھیرے میں ٹھہرے ہوئے پہاڑوں کو گھورتے ہیں

اور اُدھڑی زمینوں پر اپنے قدم گاڑ دیتے ہیں

ہمارے جسم دعاؤں کے درمیان ٹنگے رہتے ہیں

اور یہ شب و روز نیون سائن کی طرح ہمارے سامنے ماڈلنگ کرتے ہیں

کیا ہمیں انھیں کوئی اُجرت دینی چاہئیے

مگر ان کی رفتار تو ہمارے خوابوں سے زیادہ دھیمی ہونی چاہئیے

جو سفید گھوڑوں کی پشت پر کہیں میدانوں میں گھوم رہے ہیں

یا برف کے چکنے فرش پر اسکیٹنگ کر رہے ہیں

اور جہاں فاصلے بے رنگ ہو جاتے ہیں

دھنک کے پھیلنے سے پہلے

دھوپ میں بھیگے لوہے کے ٹکڑے کی طرح

ہمارے پاؤں راستہ ڈھونڈھتے ہیں

روشن گلیوں میں اور وہاں جہاں کانچ کے ننھے ننھے چراغوں کے ٹکڑے

اور بہت  سے بوسیدہ  کپڑوں کی دھجیوں کے درمیان

اونچی نیچی آوازوں کے نوحے ہیں

ہمیں ایک بار قسم کھا لینی چاہئیے مرنے کی یا جینے کی

دوپہریں اب بدل گئی ہیں

دھوپ میں ہمارے پاؤں اب نہیں جلتے

اور وہ راتیں جن کی چھتوں پر آج  بھی ہماری آنکھیں خواب دیکھ رہی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

۷

 

 

اور وہ راستے جہاں اداسیاں ہماری منتظر رہا کرتی تھیں

مگر اب کچھ بھی نہیں ہے

خالی کمروں میں صبح،سفید ملگجے بستروں پر پھیلتی ہے

شام بھی شاید یوں ہی گزر جاتی ہے

مگر ہمارے خواب ابھی اپنے سفر سے واپس لوٹیں گے

یا شاید ہم ان جزیروں کو دریافت کر لیں گے

جہاں انھوں نے اپنے خیمے نصب کئے ہیں

یہاں تو آج بھی بادلوں سے جھانکتا آسمان

پسماندہ لوگوں کی طرح چپ چاپ گھورتا رہتا ہے

شاید انہیں جنہوں نے خود کو زندگی کی رشوت کے حوالے کیا

تمہیں پتہ ہے

یہاں زندگی اور موت کے درمیان فاصلوں کی کوئی پیمائش نہیں

ہم ان ہاتھوں سے دور نہیں

جو صاف ستھرے مکانوں کو گرا کر اپنے مقبرے بناتے ہیں

ہم ان لفظوں سے دور نہیں جو ہمارے بچوں کو یرغمال بنائیں گے

مگر اب ہم کہاں جائیں

شاید ہمارے خواب بھی کسمپرسی کے دن گزار رہے ہیں

ہمیں انہیں یقیناً ڈھونڈھنا چاہئیے

کہیں حماقت سے بھری خواہشیں  ہم پر مسلط نہ ہو جائیں

اور ہماری روحوں کو سمندر پہ سفر کرتے ہوئے بوجھل نہ کر دیں

وہ اندھیرے جو ہماری روشنیوں کا تعاقب کرتے ہیں

جب ہم تیز رفتار گاڑیوں میں سفر کرتے ہوئے

چاند کو ایک بد ہیئت سر کی طرح اپنے ہمراہ لڑھکتا ہوا دیکھتے ہیں

سمندر ہم ے بہت دور ہے

٭٭٭

 

 

 

۸

 

اور ہم دیکھتے ہیں

نمائشوں کی بھیڑ میں لباسوں کا سوداہوتے ہوئے

جہاں میلے میں فروخت ہونے والی اشیا کے ساتھ

چہرے بھی رکھ دئیے جاتے ہیں

ہم آزردہ رہتے ہیں

ہمیشہ آزردہ رہنے کے لئیے

وہاں سچے قول کی طرح تہی دستی ہمیں خوش رکھتی ہے

اور خوشامد کی کوئی رال ہمیں آلودہ نہیں کرتی

لوگوں کے بدلتے ہوئے مزاجوں میں گھن لگے چاولوں کی بدبو

ہمیں ان سے دور لے جاتی ہے

تار کول کی سڑکیں ہمارے راستوں کی پگڈنڈی کو تباہ کر رہی ہیں

ہمارے برہنہ پاؤں اس بدحالی کو کیسے برداشت کریں گے

جب ہونٹوں سے نکلتے ہوئے لفظ ایک دوسرے کی جلدوں کو ناسور بخشتے ہیں

ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والی منڈیوں کے بھاؤبہت اونچے ہوجاتے ہیں

رشتے ہتیلیوں پر بیچ دئیے جاتے ہیں

اور باپ منہ بولی بیٹیوں کو رقص کے بھاؤ سکھاتے ہیں

ہمیں تیرنا سیکھنا ہوگا

ورنہ پانیوں پر چلتے ہوئے ہمارے پاؤں جواب دہی کریں گے

اس لئے کہ قسمتیں

چمکتے ہوئے آئینوں کی طرح چہروں کو سفاکی سکھاتی ہیں

٭٭٭

 

 

۹

 

اور کیا ہے،دن ہے-جس کےپیچھے سورج ہے

اور رات ہےجس کے آگے اندھیرا ہے

اور موت ہے،جس کے ساتھ سیڑھیوں سے اترتی ہوئی چینخ ہے

زندگی ڈھونڈتے ڈھونڈتے  ناخونوں نےگوشت چھوڑ دیا ہے

صرف پوریں باقی ہیں

ناکارہ پوریں

آنکھیں جب روح سے خالی ہورہی ہوں

ایک سوالیہ نشان آسمان کے پھیلاؤ پر چھوڑ جاتی ہیں

اور چلتی پھرتی روح سے بھرے پاؤں نہیں دیکھ پاتے

سکھ اور دکھ کے درمیان کون سانس لیتا ہے

اندھیرے میں کہیں کہیں ملگجی روشنی

اور سناٹے میں کہیں کہیں کوئی چینخ

دنیا صرف اس تضاد کےدرمیان ٹنگی ہوئی ہے

خونخوار بلییاں نوزائیدہ بچوں کا خون چوس رہی ہیں

بےبسی بےحسی کے خول میں سمٹ گئی ہے

خواب کہیں نہیں ہیں

صرف حقیقت ہے بھیانک اور منہ زور

٭٭٭

 

 

۱۰

 

شوریدہ سر ہیں ہمارے خواب

ہمیں اپنے گناہوں کا سودا کر لینا چاہئیے

موت کے وقفے سے پہلے

اس ریگستان میں چاروں طرف سراب ہے

بیساکھیاں ٹوٹ رہی ہیں

اور بینائی پانی میں گھلتی جا رہی ہے

اونچے اونچے پیڑوں کا سلسلہ ہے

یاسائے ہیں

قدآور وحشتیں اور واہمے

گفتگو کے دوران سانس روکنا ہوگی

کسی چیزکے ٹوٹنے کی آواز آرہی ہے یا کوئی پرندہ سروں پر سے چینختا ہوا اُڑا ہے

دیکھو کوئی خواہش تو نہیں

ہمارے پروں میں اب اتنی سکت نہیں کہ آسمان پر پھیل سکیں

الگنی پر ٹنگے کپڑےصبح  کی ہواؤں اور شام کی اداسیوں میں ایک جیسے لگتے ہیں

بجھی ہوئی تیلی اورزندگی ایک ہی خواب کے دردناک پہلو ہیں

خاموش چولھے—یہ کیا کہانی ہے

صاف صاف لکھو

زبان خشک نہ ہونےپائے

مٹکوں میں ہانی نہیں رہا-زمین بنجر ہے

نفرت کی اصل وجہ دیواروں پر پھیلے سائےہیں

یا سروں پر کھلا آسمان

یہ دن اور یہ لفظ کس کو پاگل نہیں کر دیں گے

گناہ کی لذتیں اورمٹی کی  خوشبو

کبھی سوچا ہے

جرم کی انگلیاں معصوم نرخروں میں گُھپ جاتی ہیں

کتنا ظرف ہے ان کے لہجوں میں؟

ستاروں کو چھونے والی قسمتیں

راتوں کے اندھیرے میں،ٹوٹتے ہوئے دلوں کو زخموں سے بھر دیتی ہیں

٭٭٭

 

۱۱

 

ہمارے جسم دکھوں کی اترن کہیں رکھ کر بھول گئے

وعدے،لفظوں کی کترنیں،زبانوں کا زخم

اور موت کا پہلا وار

تیزدھار تلوار پرقدموںکو سرکاتے ہوئے

سورج کو ابھرتے ہوئے دیکھنا بہت ضروری ہے

بالکونی میں کھڑے ہوئے

سفید بگلوں کو بسیرا کرکرنے کے لئےجاتے دیکھنے کا لڑکپن

اور بہت کچھ—بہت کچھ

روشندان میں رکھے ہوئے روٹی کے سوکھے ٹکڑے

وقت بوسیدہ چھینٹ کی دھجیوں میں بکھرا ہوا ہے

بہت دور سے دیکھو

کنوئیں پر بیٹھی چڑیا کے اُڑنے کی کوشش

وحشتیں اپنی امکانی حدوں تک پہنچ کرختم ہونا چاہتی ہیں

روکنے کے لئے انگلیاں نہیں ہیں

ہمارے جوان جسم جب سوچا کرتے تھے

بہت دور تک پھیلے ہوئےانجانےراستوں پرچلنے کی بے تحاشاخواہشوں کا دھیما دھیما

لذت آمیزایک سلسلہ

یا پھربہت تیزمنہ زوردریا کا بہاؤ

کوئی روند دینے والا خواب

اب یہاں سلگتے ہوئے الاؤ میں جنگلوں  کی روشنیاں

بوڑھے درختوںکی تیزہواؤں  میں چٹختی ہوئی شاخیں

مڑنے سے پہلے راستوں کا تعین کرنا ہوگا

ہمارے پاس نقشے کا ہونا ضروری ہے

راستوں پر کہاں کہاں پڑاؤ ضروری ہے

بالکل ایسے ہی ،جیسےجنگ شروع ہونے سے پہلے

کو ئی فوجی جرنل

اپنے بوٹوں میں چھپےتلوؤں میں دبکی  مو ت کےخوف کو محسوس کرلیتا ہو گا

جواب دہی کا عمل پلِ صراط کے بعد ہی ہے

اور زنداں نامہ ہماری  ہتیلی میں

اس کے بعد ایک میدان،جہاں کوچل نہیں سکتا

ہواؤں کا ریلہ یا ریت کے تنومندٹیلےکے نیچے گردن گردن تک پھنس جانے کااندیشہ

سمت کون سی ہونی چاہئیے

کس جانور کا انتخاب کرنا چاہئیے

کیسے کیسے سولات بار بار ذہن میں آتے ہیں

وحشتوں کے ختم ہونے سے پہلےسوچ لینا ہوگا

رات اس چراغ کی طرح ختم ہونا چاہتی ہے

جس کے نیچے اندھیرا ہے

اور

گفتگو ابھی باقی ہے

٭٭٭

 

 

 

۱۲

 

آلاؤ کی روشنی اس کی آگ سےختم  ہوتی جا رہی ہے

کیا جنگل نظر آرہا ہے

باتوں کی تیزی میں کمی نہیں ہونا چاہئیے

ورنہ جانور ہمیں مردہ سمجھنے لگیں گے

اور صبح ہونے سے پہلے

ہم ان کی غذا کا  پہلا نوالہ ہونگے

عجیب بات ہے

بہت پرانی باتیں یاد آجاتی ہیں

بہت دورکسی گھر کے صحن میں اٹھتا ہوا

بچوں کا شور

اور بہت سی محبت آمیز الوداعی نظریں

وقت کا گورکھ دھندا

دنوں،مہینوں اور سالوں کےایک ہی دھاگے میں لپیٹے ہوئے

لا متناہی فاصلے

اور ختم ہونے سے پہلے

یا شروع ہونے کے بعد

بستروں کی سلوٹوں میں جوہی کے پھولوں کی خوشبو

٭٭٭

 

 

 

۱۳

 

جہاں سرد زمینوں پر پاؤں کے نشان نہیں بنتے

جہاں جسموں کی بھیڑمیں دکھ آنکھوں میں ٹہر جاتے ہیں

وہاں بےبسی اپنے پنجے گاڑ دیتی ہے

ہم دیکھتے ہیں اور دیکھتے  رہتے ہیں

لوگ گزرتے ہیں اور گزرتے رہتے  ہیں

آوازیں سنائی دیتی ہیں اور سنائی دیتی رہتی ہیں

اب دعاؤں کا حصار نہیں کھینچنا  چاہئیے

اب ہمیں دیکھنا چاہئیے

رنج ہمارے گھروں میں کس دروازے سےداخل ہوتے ہیں

اور ہولناک خواب کیسے ہمارے چاروں طرف دندناتے ہیں

ہم جس چٹائی پر بیٹھے ہوئےہیں

اس کا رنگ اُڑتا جا رہا ہے

رات ابھی تک ہمارے سروںپر ٹہری ہوئی ہے

اور دھوپ نے ہمارے تلوؤں کو بے حس کر دیا ہے

٭٭٭

 

 

 

۱۴

 

جن راستوں پر ہماری آنکھیں منتظر تھیں

جن گلیوں میں ہمارے پاؤں ہمیں دیکھنا چاہتے تھے

اور جو گیت ہمارے ہونٹوں کوتلاش کر رہے تھے

وہ نہیں جانتے

ہم نے اپنے جینے کا اختیار آسمانوں کو بخش دیا ہے

اب زمین کی خوشبو  ہمارے جسموں کو ترسے گی

اور درختوں کی شاخیں ہمارے خوابوں کے شگوفے کھلائیں گی

شاید جب دیکھنے والے ہم ہوں

یا شایدجب دیکھنے والے ہم نہ ہوں

شاید دیکھنے والی آئندہ نسلیں ہوں

شاید اس سے آگے کوئی راستہ نہ ہو

جہاں بے ہنگم موت ہمارے جسموں کو ٹٹولنے کا دعوی نہ رکھتی ہو

خدا ایک ہے،خدا دیکھتا ہے،اسے دیکھنا چاہئیے

اس کے اور ہمارے درمیان اب فاصلہ کم رہ گیا ہے

تم کو شاید یقین نہیں آئے گا

اسٹریچر کے پہیے اپنی آواز کی گونج میں زندگی کچلتے بھی ہیں

او ر ہماری مخبری بھی کرتے ہیں

ہمیں جوتوں کی آوازوں پرکا ن نہیں لگانا چاہئے

کوریڈور خالی ہیں،دنیا خالی ہے لوگ مر چکے ہیں

لوگ مر چکے ہیں

لوگ مر چکے ہیں

٭٭٭

 

 

 

۱۵

 

اس کا کوئی کنارہ نہیں ہے

وہ دکھ ہے یا کوئی آواز

ہم نے کبھی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا

رات اپنی روش بدلتی ہے،اورہر چیز پر اُوس کے قطرے پڑے ہوئے ملتے ہیں

ہم دن میں خود کو ایسے ہی بے دست و پا دیکھتے ہیں

ٹریفک کے شور میں آواز سنائی نہیں دیتی

سڑکیں خالی رہتی ہیں

گزرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا

پرندوں نے پیڑوں پر رہنا چھوڑ دیا ہے

بجلی کے تاروں پررہنا سیکھ لیا ہے

ان کو پتہ نہیں بادلوں میں ایک قطرہ پانی نہیں ہے

غیر آباد مکانوں میں چراغ جلنے لگے ہیں

لوگوں نے سننےاور دیکھنے کے لئے زندہ رہنا چھوڑ دیا ہے

ہمیں ان پر رحم کھانا چاہیئے

ہمیں ان کے بچوں کو اپنے گھروں میں آباد کر لینا چاہیئے

٭٭٭

 

 

 

۱۶

 

شاید لوگ ان زمینوں پر کبھی آباد نہیں ہوئے ،بس پیڑوں پر ہمارے خوابوں کے شگوفے ہواؤں میں لہلہا رہے ہیں

اور خدا دیکھ رہا ہے

اب اس کے اور ہمارے درمیان کوئی فاصلہ باقی نہیں

دیواریں بے حس و حرکت،آوازیں اپنے سینے میں محفوظ کرتی رہتی ہیں

کبھی منہدم ہونے کے لئے

دن گزر جائے گا

رات نہیں گزرے گی

انگلیاں افسردگی سے آنکھوں کو ڈھانپ لیتی ہیں

خواب آزردگی سےسرہانے کھڑے رہتے ہیں

غموں کی دستکیں اور خوشیوں کی سرگوشیاں سفید بستروں پر ہمارےجسموں کو چھیڑتی ہیں

نیند کا سفر شروع ہونے سے پہلے ختم ہو جاتا ہے

اور سیلنگ جاگتا رہتا ہے

ابھی دو بجے ہیں

ابھی تین بجے ہیں

ابھی چار بجے ہیں

سورج کہاں ہے

ہماری انگلیاں اندھیرے کی بھیڑ میں

سورج کو ڈھونڈتی ہیں

ہمارے کان کسی ایک چیخ کے ماتم میں شریک ہوتے ہیں

یہ شور کب ختم ہوگا

کیا یہ شور کبھی ختم نہیں و گا

سناٹا کب شروع ہو گا

کیا سناٹا کبھی شروع نہیں ہو گا

سیٹیوں کی آوازیں ہمارے خوابوں کو روندتی ہو ئی گزر جاتی ہیں

اور

سیلنگ فین جاگتا رہتا ہے

٭٭٭

 

 

 

۱۷

 

راتیں بے ہنگم شور مچانے والی بارشوں کی طرح

ہمارے جسموں سے لپٹ جاتی ہیں

جب ہماری آنکھیں اپنے ہی بھیانک خوابوں سے سہم جاتی ہیں

درختوں سے شاخیں پامال خواہشوں کی طرح ٹوٹ کر گرتی رہتی ہیں

اور آسمان کی سیاہی اس بچے کی بھوک کی طرح مکروہ ہوجاتی ہے

جسے پیدا ہونے سے روکا گیا

لفظ آوارہ قدموں کی طرح ہمیشہ کے لئےآسمانی عذابوں میں گرفتار ہوتے ہیں

اور بے گھری کے خوف سےجسم

اپنی عمر وں کے گھٹ جانےکی دعائیں مانگتے ہیں

جب آسمانی بارشیں

ان کی چھتوں کو عذابوں سے بھر دیتی ہیں

اور پہاڑوں پر وہ سارے منظرسانپوں کے طویل خمیدہ جسموں میں بدل جاتے ہیں

آگے بڑھتے ہوئے اور پیچھے ہٹتے ہوئے فیصلوں پر

ہماری زبانیں لہولہان ہوجاتی ہیں

دنوں کی رفتار رینگنے والےجانوروں سے زیادہ دھیمی ہے

پتھرائے ہوئے خوابوں  پر

جسم  کبھی اگے نہ بڑھنے کے لئے نصب ہوجاتے ہیں

جنہیں زمانے کی خاک ڈھانپ لیتی ہے

اور دعائیں شور مچاتے ہوئےپانیوں کے غضبناک جھاگ میں بدل جاتی ہیں

یہ تو دیکھا گیا

وقت سے گلے نہ ملنے والےجسم

اپنی اپنی صلیبوں کی طرف بڑھے

اور آسمانوں نے انھیں اپنے عذابوں کی ٹھنڈک دی

اور کنواری مٹی   کی نرم اور سوندھی  خوشبو ؤں نےانھیں سایہ دار درخت مہیا کئے

٭٭٭

 

 

 

۱۸

 

اور بیشتر بار ہم نے خود کو ان سناٹوں میں پایا

جن پر صرف ہمارے ہی قدموں کی چاپ سنی گئی

کھلے ہوئےچوڑے میدانوں میں پھیلی ہوئی تپش

اور سمندروں پہ چھائے ہوئے ابر

ہمارے جسموں کوحبس زدہ کرتےرہے

وہ لوگ کہاں جائیں گے

جن کو ہم دیکھتے اور سنتے رہے

اور وہ آوازیں کن میدانوں میں جمع ہوں گی

جو ہمیں بار بار سنائی دیتی ہیں

ہم جو چلتے رہے

مگر سفر کی پہلی چوک سے آگے نہ بڑھ سکے

پھر وہی سناٹے

جو کبھی کبھی تونامعلوم خوشخبری کی طرح ہمیں گھیرے رہتے ہیں

یا ان ہواؤں کی طرح جن میں ہم سانس لیتے ہیں

کیا کسی آنے والی صبح کااخبار  ہمیں آگے  جانےکی خبر سنائے گا

مگر تم نے نہیں دیکھا

جب رات اور دن ایک دوسرے کے لئے چنے گئے

ان کے لمحے ہم سے مذاق کرتے رہے

اور ہم چلتے رہنے کا دکھ اٹھتے رہے

دھکتے ہوئے تمام ہونٹوں پر وہی پھول پائےگئے

جنہیں ہم نے اپنے دامن سے جھاڑا تھا

جب دونوں وقت ایک دوسرے سے جدا ہورہے تھے

آنکھیں پھسلتی رہیں ان رنگوں پر

جن میں ہمارےدکھوں کی آنچ بکھری ہوئی تھی

سب سے زیادہ ٹہرے جانے والے خواب

بارشوں کی سوندھی خوشبو کی طرح  پانیوں میں گھل گئے

اور خوشیاں

جیسے معصوم بچوں کے دور تک دیواروں میں پیوست ہوجانے والےقہقہے

اور پھر اس کے آگےدہشت

ننھے جانوروں کا شکار کرتی ہوئی بلیوں کی طرح

ہمارے قدموں سےلپٹی ہوئی ہے

اور سفر میں برہنہ ہمارے ساتھ ہے

کیا ہم درختوں سے جھڑتی ہوئی پتیوں سےموت مستعار لے سکتے ہیں

جن کو زرد اندھیرے نگلتے رہے

٭٭٭

ماخذ: عذرا عباس کے فیس بک پر موجود نوٹس سے

https://www.facebook.com/azra.abbas.90/notes

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید