فہرست مضامین
نمک پارے
مبشر علی زیدی
خانیوال شہر میں پہلا ٹی وی سیٹ ۱۹۷۸ میں بابا لائے تھے۔
میں نے ابھی اسکول جانا شرو ع نہیں کیا تھا۔
میں ٹی وی دیکھ دیکھ کے حیران ہوتا تھا کہ اس ڈبے میں اتنے بہت سے لوگ کیسے گھس گئے۔
میں خود بھی اس کے اندر گھسنا چاہتا تھا۔
آخر ایک دن میں نے پیچ کش اٹھا کر ٹی وی کھول ڈالا۔
اندر سے کوئی پو پائے دی سیلر یا مکی ماؤس نہیں نکلا۔
کتنی مار پڑی، یہ نہیں بتاؤں گا۔
پچیس سال بعد کسی نہ کسی طرح ٹی وی میں گھس ہی گیا۔
ان دنوں جیو میں بطور نیوز پروڈیوسر کام کر رہا ہوں۔
کیا آپ کو اندازہ ہوا کہ اس سطر سے پہلے آپ سو لفظوں کی ایک کہانی پڑھ چکے ہیں؟
ہو سکتا ہے کہ یہ کہانی آپ کو اچھی نہ لگی ہو لیکن سو لفظوں کی یہی وہ کہانی ہے جس کی وجہ سے آپ سو کہانیوں کی یہ کتاب لیے بیٹھے ہیں۔
اگر میں ٹی وی پروڈیوسر نہ ہوتا تو شاید مجھے ان کہانیوں کا خیال نہ آتا۔ مجھے روزانہ اپنے خبر نامے کے لیے ایک ایک لمحے اور ایک ایک لفظ کا حساب کرنا پڑتا ہے۔ اس حساب کتاب نے مجھے اس کتاب تک پہنچا دیا۔
’’مبشر بھائی، لیڈ اسٹوری کتنے دو رانیے کی چاہیے؟‘‘ ایسو سی ایٹ پروڈیوسر پوچھتا ہے۔
’’نوے سکینڈ کی۔‘‘ میں اسے بتاتا ہوں۔
’’کرکٹ میچ کی رپورٹ کا کیا کروں؟‘‘ اسپورٹس ایڈیٹر سوال کرتا ہے۔
’’پچاس سکینڈ میں نمٹا دیں۔‘‘ میں بغیر دیکھے جواب دیتا ہوں۔
’’نئی ہالی ووڈ فلم کا ٹریلر جاری ہوا ہے۔‘‘ انٹرٹینمنٹ ڈیسک سے فون آتا ہے۔
’’چالیس سکینڈ کافی ہیں۔‘‘ میں فیصلہ سناتا ہوں۔
یہ ہے میرا روز کا کام۔ دس سال سے ٹیلی ویژن نیوز روم میں بیٹھا ہوں۔ یہاں خبر کا دورانیہ اس کی اہمیت اور ناظرین کی دلچسپی کا اندازہ لگا کر طے کیا جاتا ہے۔
بلیٹن انچارج ہوں، اس لیے اکثر دوسروں سے کام لیتا ہوں۔ لیکن کبھی کبھی سب ہار مان جاتے ہیں۔ کوشش کے باوجود کسی نیوز اسٹوری کا پیٹ پھولا رہ جاتا ہے۔ پھر میں اپنا نشتر نکالتا ہوں اور سفاکی سے متن میں سے رسولی نکال پھینکتا ہوں۔ اگر میں ایسا نہیں کروں گا تو خبریں پڑھنے والے کا سانس پھول جائے گا۔ وہ بار بار اٹکے گا، اس کا نام خراب ہوگا، میرا کام خراب ہوگا۔
سکینڈ گن کے نیوز اسٹوری لکھنے کے کام نے مجھے لفظ گن کے کہانی لکھنے کی جانب راغب کیا۔ کہانیاں گھڑنی تو آتی تھیں لیکن مخصوص تعداد میں لفظوں کی قید لگا کر کہانی لکھنے کے خیال نے پر جوش کر دیا جیسے کسی متشاعر کو مصرع طرح دے دیا جائے۔
جلد ہی یہ جان کر جوش ٹھنڈا پڑ گیا کہ لفظ گن کے کہانی لکھنا کوئی نیا کام نہیں۔ امریکہ اور یورپ میں بہت سال سے ایسی کہانیاں لکھی جا رہی ہیں۔
مونٹی پائی تھون (Monty Python) برطانیہ کا ایک مقبول کامیڈی گروپ تھا جس نے ۱۹۶۹ سے ۱۹۸۳ تک ٹیلی ویژن پر قہقہے بکھیرے۔ ان کے پروگرام کا نام پائی تھون فلائنگ سرکس (Python’s Flying Circus)تھا۔ بعد میں ان کی فلمیں بھی بنیں، کتابیں بھی چھپیں، چھ کے چھ ارکان سپر اسٹار بن گئے۔ لوگ کہتے ہیں کامیڈی میں ان کا رتبہ اتنا ہی بلند ہے جتنا موسیقی میں دی بیٹلز (The Beatles) کا ہے۔
مونٹی پائی تھون کے ابتدائی برسوں کے پروگراموں کے متن کو ایک کتاب کی شکل دی گئی تو اس کا نام بگ ریڈ بک (Big Red Book) رکھا گیا۔ اس طرح گویا ماؤزے تنگ کی لٹل ریڈ بک کا مذاق اڑایا گیا۔ اس کتاب میں ایک ورڈ گیم (word game) متعارف کرایا گیا جس کا نام ڈریبل (Drabble) تھا۔ ڈریبل کی بازی وہ فن کار جیت سکتا تھا جو سب سے پہلے ایک ناول لکھ ڈالتا۔
ایک نشست میں ناول فقط قصے کہانیوں میں لکھے جا سکتے ہیں۔ برمنگھم یونیورسٹی میں ۸۰ کی دہائی میں ڈریبل کے کھیل کا حقیقت میں آغاز کیا گیا تو شرط یہ رکھی گئی کہ ناول نہیں ، افسانہ لکھنا ہے اور کم نہ زیادہ، پورے سو لفظ استعمال کرنے ہیں۔
اگر آپ نے ڈریبل کے بارے میں پہلے نہیں سنا تھا اور آج سے پہلے کبھی کچھ لکھا ہے تو اسی وقت آپ کے دل میں یہ چیلنج قبول کرنے کی خواہش پیدا ہو جائے گی۔
برمنگھم یونیورسٹی کی سائنس فکشن سوسائٹی کے ارکان یہ کھیل کھیلتے رہے، یہاں تک کہ ایک فلاحی مقصد کے لیے چندہ جمع کرنے کا ایک موقع آیا۔ ان لوگوں نے سوچا کہ سو ادیبوں سے سو سو لفظوں کی سو کہانیاں لکھواتے ہیں اور ایک کتاب چھاپ دیتے ہیں، پیسے جمع ہو جائیں گے۔
اس طرح ڈریبل پروجیکٹ کے نام سے ۱۹۸۸ میں پہلی کتاب چھپی۔ دو سال بعد’’ ڈبل سنچری‘‘ (Double Century) اور ۱۹۹۳ میں ’’ڈریبل ہو‘‘ (Drabble Who) کے نام سے دو اور کتابیں شائع ہوئیں۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ کتابیں صرف ایک ایک ہزار کی تعداد میں شائع کی گئیں اور پبلشروں کا دوبارہ انھیں چھاپنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ یوں یہ کتابیں ایک طرف تو فلیش فکشن کی تاریخ میں انتہائی اہمیت رکھتی ہیں اور دوسری جانب ان کی کاپیاں نایاب ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ قدر و قیمت کی حامل ہو گئی ہیں۔ اتفاق سے میرے پاس پہلی دو کتابیں موجود ہیں۔
امریکہ والوں نے انتہائی مختصر کہانیوں کی ابتدا میں فلیش فکشن کا نام دیا۔ غالباً۱۹۹۲ میں پہلی بار یہ اصطلاح استعمال ہوئی جب اس عنوان سے ۷۲ انتہائی مختصر کہانیوں کا ایک گلدستہ شائع ہوا لیکن اس میں کسی نے لفظ گن کے کہانی نہیں لکھی تھی۔ کوئی کہانی ہزار الفاظ کی تھی، کوئی ڈھائی سو کی۔ اس مجموعے کے ایڈیٹر جیمز تھامس نے فلیش فکشن کی تعریف یہ بتائی کہ کہانی کو آمنے سامنے کے دو صفحات میں مکمل ہو جانا چاہیے۔
ٖفلیش فکشن بہت مقبول ہوا اور بہت سے ادیبوں نے صرف اسی طرح کی کہانیاں لکھنی شروع کر دیں۔ ہزار داستان چھوٹی ہوئی، چند سو الفاظ رہ گئے، پھر سو لفظوں کی کہانیاں لکھی جانے لگیں، پچھتر اور پچاس لفظوں کے افسانوں کی باری آئی اور اب میرے پاس ایک مجموعہ ایسا بھی ہے جس میں صرف پچیس لفظوں کی کہانیاں ہیں۔
کیا یہ سب فلیش فکشن کہلاتا ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ بعض لوگ اسے سڈن فکشن کہنے لگے، کچھ مائیکرو اسٹوری، کسی نے پوسٹ کارڈ فکشن کا نام دیا اور کچھ نے شارٹ شارٹ کہنا ہی مناسب سمجھا۔ پچیس لفظوں کی وارداتوں کی جو الف لیلہ میرے ہاتھ لگی ہے، اس کا نام ہنٹ فکشن رکھا گیا ہے۔
ہنٹ فکشن(Hint Fiction) بہت بعد کی پیداوار ہے، اردو کے سب سے بڑے افسوں ساز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو اس سے نصف صدی پہلے یہ کمال دکھا چکے ہیں۔ ان کے مجموعے ’’سیاہ حاشیے‘‘ میں ایک افسانہ تیرہ لفظوں کا ہے، ایک چودہ الفاظ کا۔ کئی بیس بائیس لفظوں میں مکمل ہو جاتے ہیں۔ ان کے تقریباً بیس افسانے لفظوں کی سنچری مکمل کرنے سے پہلے آؤٹ ہو گئے۔ افسوس کہ کوئی کہانی پورے سو الفاظ کی نہیں ورنہ میں اسے سرورق پر چھاپتا۔
میری معلومات محدود ہیں لیکن خیال یہی ہے کہ اردو میں کوئی کہانی کار مخصوص تعداد میں لفظوں کی پابندی کو کبھی خاطر میں نہیں لایا۔
امریکہ میں ایک صاحب رہتے ہیں جن کا نام لو بیچ (Lou Beach) ہے۔ انھوں نے فیس بک پر اپنا صفحہ بنایا تو مزے مزے کے اسٹیٹس اپ ڈیٹس (Status Updates) لکھنا شروع کر دیے۔ فیس بک والے ذاتی صفحے پر اظہار خیال کو اسٹیٹس اپ ڈیٹس کہتے ہیں۔ اس وقت فیس بک پر چار سو بیس سے زیادہ حروف میں اظہار خیال نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لو بیچ نے اسٹیٹس اپ ڈیٹس نہیں لکھے، چار سو بیس حروف کی کہانیاں لکھیں۔ اس حد میں کوما، فل اسٹاپ، حتیٰ کہ اسپیس یعنی دو الفاظ کے درمیان کی خالی جگہ کو بھی ایک حرف قرار دیا جاتا تھا۔ اندازہ لگائیں کہ لو بیچ نے کیا کمال دکھایا۔ یہی نہیں، انھوں نے ان کہانیوں کی کتاب بھی چھاپ دی جس کا نام ’’فور ٹوینٹی کیرکٹرز‘‘(420 Characters) رکھا۔ کیریکٹر ز کا لفظ یہاں ذو معنین ہے۔ ہمارے ہاں یہ کتاب جنم لیتی تو چار سو بیس کو بھی ذو معنین سمجھا جاتا۔
بہرحال، میں چار سو بیسی نہیں کرسکا۔ پچیس لفظوں کی ہیڈ لائن اپنے خبر نامے کے لیے ضرور بناتا ہوں لیکن اتنی مختصر کہانیاں نہیں لکھ سکا۔ مجھے سو الفاظ والی کہانیوں نے اپنی جانب متوجہ کیا۔ یہ اتنی مختصر نہیں ہوتیں کہ تشنگی سے تڑپتا چھوڑ دیں ، اتنی طویل بھی نہیں ہوتیں کہ سیراب کر دیں۔ صرف ایک گھونٹ ملتا ہے، کچھ پیاس باقی رہ جاتی ہے۔ تھوڑی سے پیاس رہ جانی چاہیے تاکہ طلب گار ایک اور گھونٹ مانگے۔
ہنڈرڈ ورڈ اسٹوری (Hundred Word Story) انگریزی میں اتنی مقبول ہو گئی ہے کہ بہت سے اخباروں میں روز اس طرح چھپتی ہے جیسے ہمارے ہاں قطعہ چھاپا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ نیوز اسٹوری کسی تصویر کو دیکھ کر لکھی جاتی ہے۔ بہت سی ویب سائٹس بن گئی ہیں جہاں یار لوگ نہ جانے کہاں کہاں سے اٹھا کے فوٹو چپکاتے ہیں اور انھیں سچ مچ مصرع طرح مان کر سو الفاظ کا فکشن لکھتے ہیں۔ ایسی بھی ویب سائٹس ہیں جہاں تصویر کا نام نہیں، صرف تصور کا کام ہے۔
ایک بات البتہ یہاں صاف کر دوں کہ سب کہانیاں دلچسپ نہیں ہوتیں۔ اس کی وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ لکھنے والے کی ساری توجہ بات کو سو لفظوں میں کہنے پر ہے۔ اس کوشش میں کبھی کبھی کہانی کھو جاتی ہے۔ بالکل ایسے جیسے غزل کا کوئی شعر وزن میں تو آ جاتا ہے لیکن بھاری نہیں ہوتا۔ شاعر قافیہ ڈھونڈ لیتا ہے اور مفہوم کھو بیٹھتا ہے۔
میں نے کئی ہزار مختصر کہانیاں پڑھ کر تراسی افسانوں کا انتخاب کیا ہے۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ یہ تراسی کہانیاں سب سے اچھی ہیں۔ ان سے اچھی کہانیاں بھی ہیں لیکن میں کچھ پڑھ کر بھول گیا، کچھ کہیں رکھ کے بھول گیا، کچھ دوسروں کے لیے چھوڑ دیں۔
سب سے مزے کی کتاب جو مجھے پڑھنے کو ملی، وہ ’’ورلڈز شارٹ اسٹوریز‘‘ (World’s Short Stories) ہے۔ اس کے مرتب امریکی ادیب اور صحافی آں جہانی اسٹیو موس تھے۔ اس میں ایک کہانی ’’گٹار ‘‘ شامل ہے جس کے مصنف جان ڈینیل ہیں۔ اس سلسلے کی دوسری کتاب اسٹیو موس اور جان ڈینیل نے مل کر ترتیب دی۔ نمک پارے کی نصف کہانیاں انھیں دو کتابوں سے لی گئی ہیں اور جان ڈینیل نے مجھے اس کی تحریری اجازت دی ہے۔ لو بیچ ، اسٹیو کروڈمین، سمانتھا میمی، ہاروے اسٹین برو، ڈیکیٹر اور لینڈو کولنز، مائیک جیکس اور پیٹ برٹ ریم نے بھی اپنی کہانیوں کے ترجمے کی بخوشی اجازت دی۔ جارج کیلنڈر نے نہ صرف اپنی پہلی کتاب کی کہانیاں لینے کی اجازت دی بلکہ وہ کہانیاں بھی بھیج دیں جو ان کی دوسری کتاب میں چھپیں گی۔
چند کہانیاں انٹرنیٹ پر مختلف بلاگز(Blogs) سے لی ہیں اور ہر ممکن کوشش کی گئی ہے کہ ہر مصنف سے رابطہ کیا جائے۔ جن ادیبوں نے اجازت نہیں دی، ان کی کہانیاں نہیں لیں۔ جنھوں نے جواب نہیں دیا، ان کی طرف سے ہاں سمجھی۔ ہمارے ہاں یہی قاعدہ ہے۔ نکاح کے وقت چھوئی موئی دلہن جواب نہ دے تو اسے ایجاب کہتے ہیں۔ میں نے اس طرح ان سب کو اپنا لیا۔ انگریزی کہانیوں کا کس طرح حشر کیا ہے، یہ بتانے کے لیے آخری صفحات پر نمونے کی تحریریں موجود ہیں۔
میں جان بوجھ کر ترجمے کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ میں اچھا مترجم نہیں ہوں۔ اس کے علاوہ انگریزی میں سو الفاظ کی کہانی کو اردو کے سو الفاظ میں بحسن و خوبی ترجمہ کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے شاعری کا ترجمہ شاعری میں کرنا۔ تیسرے یہ کہ انگریزی کہانی کو لفظ بہ لفظ ترجمہ کیا جائے تو بہت سے پاکستانی قارئین اس کے ماحول، زبان، اسلوب اور کرداروں سے غیریت محسوس کریں گے۔ ایک اور معاملہ یہ ہے کہ میں خود ایک کہانی کار ہوں۔ دوسرے کا افسانہ پڑھتے پڑھتے خیال آتا ہے کہ یوں نہیں، یوں ہونا چاہیے تھا۔
تراسی کہانیوں میں سے بیشتر کے صرف مرکزی خیال لینے، کرداروں کے نام بدلنے اور ان کی آوازوں کو اپنا لہجہ دینے کے باوجود ہر کہانی اور اس کے ادیب کا نام درج کر دیا گیا ہے۔ جو بے ایمانی کی ہے، کہانی کے ساتھ کی ہے، ادیبوں کے ساتھ ایمان دار ہوں۔
میں نے اپنی ستر پوشی کے لیے خود بھی سترہ کہانیاں بنی ہیں۔ اس طرح تعداد پوری سو ہو جاتی ہے۔ سو لفظوں کی ان سو کہانیوں میں آٹے اور نمک کی مقدار ممکن حد تک مناسب رکھی گئی ہے۔ کسی کہانی میں سے الفاظ گھٹائیں گے تو نمک بڑھ جائے گا، الفاظ بڑھیں گے تو مزا گھٹ جائے گا۔ چکھ کے بتائیں، خیال درست ہے یا نہیں۔
٭٭٭
عرضی
میرے بستے سے کہانیوں کی کتابیں نکل آئی تھیں۔
ماسٹر عبد الشکور نے اسمبلی میں پورے اسکول کے سامنے مرغا بنا دیا۔
سب کتابیں میری پشت پر رکھ دیں۔
پھر وہ بید رسید کر کے بھول گئے۔
سب اپنے اپنے کلاس روم میں چلے گئے۔ مجھے اجازت نہیں ملی۔
مرغا بنے بنے میرے پاؤں سوج گئے۔
رو رو کے آنکھیں بھی سوج گئیں۔
مسعود احمد برکاتی اور اشتیاق احمد مجھے بچانے نہیں آئے۔
وقت کی برف باری سے میرے بال سفید ہو گئے ہیں۔
اذانیں دے دے کر حلق خشک ہو گیا ہے۔
جھکے جھکے میرا قد رہ گیا ہے۔
ماسٹرجی!
اب کھڑا ہو جاؤں؟
٭٭٭
تماشائی
Evening Surprise by Hillary Clay
بھڑکیلی شوخ رنگ والی شرٹ۔
بہت مختصر سا اسکرٹ۔
پیروں سے اٹھ کر اسکرٹ میں گم ہو جانے والے چست موزے۔
اونچی ایڑی کے سینڈل۔
کانوں میں چمکتی بالیاں، ہاتھوں میں کھنکتے کڑے۔
اس کے ہاتھ کسی مشین جیسی تیزی سے چل رہے تھے۔
کبھی ہونٹ رنگے جا رہے تھے، کبھی غازہ لگایا جا رہا تھا۔
خود کو سنوارنے کا عمل قابل رشک مہارت سے جاری تھا۔
کام مکمل کر کے اس نے آئینے میں اپنا سراپا تنقیدی نگاہوں سے دیکھا۔
اسی وقت اس کی نظر عقب میں موجود بچے کے عکس پر پڑی۔
حیرت سے دیکھنے والے بچے کے منھ سے نکلا،
’’ڈیڈی!‘‘
٭٭٭
خواب
Dreamworld by Michael Fink
عمارت میں آگ لگ گئی تھی…
اور بارھویں منزل پر ایک دوشیزہ پھنس گئی تھی۔
برائے نام لباس اس کے بدن پر تھا۔
ایک فائر آفیسر جان پر کھیل کر وہاں پہنچ گیا۔
اس دوران میں لڑکی ایک کھڑکی کھول کر چھجے پر چلی گئی۔
نیچے ریسکیو والوں نے جال تان لیا لیکن لڑکی کودنے کو تیار نہیں تھی۔
’’کود جاؤ۔‘‘ فائر آفیسر نے کہا۔
’’نہیں، میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ بلندی سے گر کے مرجاؤں گی۔‘‘
’’نہیں مروگی، یہ خواب نہیں ہے۔‘‘
لڑکی نے اس کا یقین کر لیا اور پھسل گئی۔
اور فائر آفیسر کی آنکھ کھل گئی۔
٭٭٭
سماعت
Hear No Evil by Rob Austin
’’ملزم کو بری کیا جاتا ہے۔‘‘ جج نے پاٹ دار آواز میں فیصلہ سنایا۔
جیوری کے تمام ارکان گنگ رہ گئے۔ حیرت کے مارے پلکیں جھپکانا تک بھول گئے۔
ملزم بھی خوش کم اور حیران زیادہ تھا۔ اسے خود بھی بری ہونے کی توقع نہیں تھی۔
عدالت نے برخاست ہونے کے بعد اس کا وکیل اپنی ناقابل یقین کامیابی پر ناچ اٹھا۔
مخالف وکیل کا چہرہ جذبات کی شدت سے سیاہ پڑ گیا۔
استغاثہ کے گواہ بڑبڑاتے ہوئے عدالت سے باہر نکلے۔
ادھر چیمبر میں جج صاحب نے اگلی سماعت سے پہلے آلۂ سماعت کی بیٹری بدلنے کا فیصلہ کیا۔
٭٭٭
اداکاری
The Understudy by Sheree Pellemier
بڑا اداکار ہر حال میں بڑا ہوتا ہے۔
اس دن بڑے اداکار کو ڈراما شروع ہونے سے چند منٹ پہلے دل کا دورہ پڑا۔
وہ تھیٹر کے ساتھیوں کے سامنے گرا اور مر گیا۔
ڈائریکٹر نے خبر عام نہیں کی۔ اس نے وقت پر کھیل شروع کرنے کی ہدایت کی۔
ایک جونیر اداکار کو مرکزی کردار دے دیا گیا۔
بڑے اداکار کو ایک لاش کا کردار سونپا گیا۔
جونیر اداکار موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکا۔ اس پر بہت ہوٹنگ ہوئی۔
بڑے اداکار نے حسب روایت کردار میں ڈوب کر اعلیٰ اداکاری کی۔
بڑا اداکار ہر حال میں بڑا ہوتا ہے۔
٭٭٭
کاف رے نون
شناختی کارڈ پر لکھا ہوا نام: کاف رے نون
پیار کانام: ککو
جائے سکونت: کراچی، روشنیوں کا شہر، مدینتہ الانوار، عروس البلاد
عمر: پچیس سال، جوانی کی راتیں مرادوں کے دن
تعلیم: ایم بی اے، مارکیٹنگ
تجربہ: تین قیمتی سال
پیشہ: کثیر القومی ادارے میں مارکیٹنگ ایگزیکٹو
ماہانہ مشاہرہ: ڈیڑھ لاکھ روپے مع ہزار سی سی کار، مع سو لٹر پٹرول
کمپنی کی طرف سے سفر: امریکہ، سوئیڈن، ترکی، جاپان
ازدواجی حیثیت: ایک منگنی، تین وعدے، پانچ دھوکے
غیر نصابی سرگرمیاں: کلب کرکٹر، باتھ روم سنگر، بہت سی دوستیاں
ٹارگٹ کلنگ کی وجہ: شناختی کارڈ پر لکھا ہوا نام
٭٭٭
الہٰ دین
وہ چراغ میری الماری میں پڑا تھا۔
میں سوچتا رہا کہ وہ یہاں کیسے آیا لیکن یاد نہیں آیا۔
پھر میں نے دیکھا، اس پر عربی میں کچھ لکھا ہے۔
’’افرک ھذاالمصباح‘‘
مجھے عربی آتی ہے۔ اس کا مطلب ہے، اس چراغ کو رگڑو۔
میں نے چراغ رگڑا تو ایک جن نمودار ہوا۔
میں بالکل نہیں ڈرا۔ وہ ڈراؤنا تھا بھی نہیں۔
میں نے پوچھا، ’’تم کتنی خواہشیں پوری کر سکتے ہو؟‘‘
وہ بولا، ’’ایک بھی نہیں۔‘‘
میں نے کہا، ’’پھر دفع ہو جاؤ۔‘‘
وہ بولا، ’’اب ممکن نہیں۔‘‘
میں نے پوچھا، ’’کیوں؟ کیا نام ہے تمھارا؟‘‘
اس نے کہا، ’’شیزو فرینیا۔‘‘
٭٭٭
کون؟
Knock by Fredric Brown
دنیا کا آخری آدمی اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔
آخری آدمی…جس کے پاس سب کچھ تھا اور کچھ بھی نہیں تھا۔
وہ پوری دنیا کی دولت کا تنہا مالک تھا۔
اور پوری دنیا میں کوئی اس کا جوڑی دار نہیں تھا۔
ایک وقت تھا کہ دنیا کی آبادی آٹھ ارب تک پہنچ گئی تھی۔
لیکن پھر ایک الم ناک حادثے نے یہ رنگین دنیا اجاڑ دی۔
سات ارب ننانوے کروڑ ننانوے لاکھ نناوے ہزار نو سو نناوے افراد فنا ہو گئے۔
بس ایک بچا۔
وہ آخری آدمی اپنے کمرے میں اکیلا بیٹھا ہوا تھا۔
اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔
٭٭٭
احتجاج
Unleashed Tongue by Kurt Vavra
مالک بھی کمال کا تھا اور کتا بھی۔
کامران نے موتی کو بولنا سکھا دیا تھا۔
موتی نے شروع میں آسان آسان جملے بولے۔
’’کھانا چاہیے۔‘‘ یا ’’باہر جانا ہے۔‘‘
چھوٹے فقرے بولتے بولتے اس کی زبان چل پڑی۔
پھر تو یہ ہوا کہ مالک اور کتا دونوں رات بھر دنیا جہان کی باتیں کرتے۔
ایک دن موتی نے مالک اور کتے کے رشتے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
کامران بات سمجھ گیا لیکن پٹا کھولنے اور برابری کا درجہ دینے سے انکار کر دیا۔
بس، اس کے بعد موتی کبھی انسانوں کی طرح نہیں بولا۔ سب نے اسے
بھونکتے ہی سنا۔
٭٭٭
خوں خوار
Transformation by Steve Krodman
میں پچھلے جنم کی بیش تر باتیں بھول چکا ہوں۔
اتنا یاد ہے کہ چھوٹا سا وجود دن بھر زمین پر رینگتا رہتا تھا۔
چھوٹا سا کیڑا، جو پتے کھاتا تھا۔
بڑے پرندوں سے ڈرتا تھا، کیوں کہ وہ کیڑے کھاتے تھے۔
میری آنکھوں کے سامنے خوں خوار پرندے زمین پر چونچ مارتے اور ساتھیوں کو ہڑپ کر جاتے۔
میں ان کی خوراک نہ بنوں، اس لیے باہر کم نکلتا تھا۔
پھر کیا ہوا، یاد نہیں۔ شاید نیند آ گئی تھی۔
آنکھ کھلی تو دنیا بدلی ہوئی تھی۔
اتنا بتا سکتا ہوں کہ اب میں بڑا سا پرندہ ہوں۔ کیڑے مکوڑے کھاتا ہوں۔
٭٭٭
بکنگ
The Bus Station by Andrew E. Hunt
’’ایک ٹکٹ دیجیے گا ، جہنم کا۔‘‘
’’میں معذرت چاہتا ہوں۔ آج رات جنوب کی جانب جانے والی تمام بسیں مکمل طور پر بک ہیں۔‘‘
’’آج رات کسی اور مقام کے لیے کوئی بس چلے گی؟‘‘
’’جی ہاں، ایک بس شمال کی جانب جائے گی۔‘‘
’’ اس میں کوئی نشست مل سکے گی؟‘‘
’’اس میں ایک دو نہیں، بہت سی نشستیں خالی ہیں۔‘‘
’’کیا بہت طویل سفر ہے؟‘‘
’’نہیں ، کوئی خاص طویل نہیں۔ لیکن اگر آپ اس میں سفر کا ارادہ رکھتے ہیں تو ایک کتاب ساتھ
لے لیجیے گا۔ میرا خیال ہے کہ آپ بس کے واحد مسافر ہوں گے۔‘‘
٭٭٭
اطلاع
The Arrival of the Ghost by Charles Enright
جیسے ہی حادثہ ہوا، میں سیدھا گھر بھاگا تاکہ اپنی بیوی کو اس کی اطلاع دوں۔
لیکن گھر پہنچ کر میرے منھ سے ایک لفظ نہیں نکل سکا۔
میری بیوی بھی اپنے خیالات میں گم تھی۔
وہ بالکونی میں کھڑی تھی۔ سامنے سورج غروب ہو رہا تھا۔
پتہ نہیں کیا سوچ رہی تھی۔
اور میں سوچ رہا تھا کہ کیسے بتاؤں؟ میری ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔
اسی وقت فون کی گھنٹی بجی۔
میری بیوی چونکی اور اس نے کال ریسیو کی۔
پھر فون اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
میرے مرنے کی خبر سن کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
٭٭٭
ہمارے جیسا
وہ سیارہ بالکل ہمارے جیسا ہے۔
اپنے ستارے سے انتہائی مناسب فاصلے پر۔
آکسیجن بھی ہے اور پانی بھی۔
پہاڑ اور صحرا بھی، دریا اور جنگل بھی۔
کچھ رینگنے والے، اڑنے والے اور تیرنے والے جان دار بھی۔
لگتا ہے وہاں کوئی ذہین مخلوق بھی رہتی تھی۔
لیکن اس کی پوری نسل کسی آفت میں ماری گئی۔
یہ سیارہ ہمارے لیے قدرت کا تحفہ ہے۔
وہ مخلوق زندہ ہوتی تو کیا پتہ ہماری دشمن بن جاتی۔
سچ کہتا ہوں، وہ سیارہ بالکل ہمارے جیسا ہے۔
ہاں، ایک فرق ہے۔
ہمارے سیارے کے تین چاند ہیں اور اس کا صرف ایک۔
٭٭٭
زہر
پہلی چسکی لیتے ہی اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔
قاتل مشروب نے اوپر سے نیچے تک حلق چھیل دیا تھا۔
’’کیا میرا معدہ تیزاب سے بھر گیا ہے؟‘‘ اس نے سوچا۔
کوئی خیال اسے دوسرا گھونٹ لینے سے باز نہ رکھ سکا۔
اس بار محلول نے گویا جگر چیر ڈالا۔
دم سینے میں اٹک گیا ۔ سانس لینا دشوار لگنے لگا۔
آخری وقت قریب جان کے اس نے باقی سیال بھی اپنے اندر انڈیل لیا۔
اب دل بھی قابو سے باہر ہو گیا۔ ایسا مچلا کہ برا حال کر دیا۔
آخر زندگی بخش قے آئی اور طبیعت بحال ہو گئی۔
٭٭٭
سمجھ داری
The Immaculate Assumption by Alan Roberts
وہ سمجھتا رہا کہ وہ جانتی ہے۔
وہ سمجھتی رہی کہ وہ نہیں جانتا۔
اسی وجہ سے اس نے سوچا کہ ایک دن وہ جان جائے گا۔
اس نے بھی سوچا کہ وہ سمجھ جائے گی۔
ایک دن دونوں ملے اور کچھ وقت ساتھ گذارا۔ زیادہ بات چیت نہیں کی۔
اٹھتے اٹھتے اس بات پر اتفاق کیا کہ اگلے روز دونوں دوبارہ ملاقات کریں گے۔
وہ سمجھتا رہا کہ وہ سمجھ گئی ہے کہ کس وقت ملیں گے۔
وہ سمجھتی رہی کہ وہ سمجھ گیا ہے کہ کہاں ملیں گے۔
بعد میں دونوں یہی سمجھے کہ اسے نہیں ملنا تھا۔
٭٭٭
نبیذ
میرے عربی داں دوست عمران احمد خان کہتے ہیں کہ انگریزی سے عربی میں ترجمہ کرنا نسبتاً آسان کام ہے، انگریزی سے اردو میں متن منتقل کرنا کافی مشکل۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انگریزی اور عربی میں جملے کی ساخت ایک جیسی ہوتی ہے۔ اردو کا معاملہ ایسا نہیں۔ دوسری زبان سے ترجمہ کرتے ہوئے ڈر لگا رہتا ہے کہ لفظ بہ لفظ اتارتے ہوئے کچھ کمی نہ رہ جائے۔ مفہوم سمجھانے کی کوشش میں کوئی زیادتی نہ ہو جائے۔
میں نے ترجمے کے نام پر اپنی راتوں کی نیندیں حرام نہیں کیں۔ انگریزی کہانیاں پڑھ کے ان کا لطف اٹھایا۔ پھر بیشتر کے کرداروں کا گائے سوپ سے منھ دھلوایا، قمیص شلوار پہننے کو دیے، کلمہ پڑھوا کے اسلامی نام رکھے، اردو سکھائی اور سو لفظوں میں مشکیں کس دیں۔
جو ہمارے ماحول سے مانوس نہیں ہوا، اسے سرحد پار ہندوستان بھیج دیا۔ جو اپنا روپ بدلنے کو تیار نہ ہوا، اسے ویسا ہی رہنے دیا۔
زیادہ نہیں ، صرف چار نمونے پیش کر رہا ہوں…
Untitled
by Lou Beach
I BRING Copernicus to the vet’s office and this guy is standing there, his thum swathed in bandages. The doctor comes out carrying a large cage that contains a beautiful macaw, its belly wrapped in guaze and tape. He hands the man the cage, then reaches into his lab coat, brings out a small box. He offers it to the bandaged man. "Some of it was already digested, but here’s what we could save.”
سفید پٹی
میرے کبوتر کی طبیعت خراب تھی۔ اسے پرندوں کے اسپتال لے گیا۔
ڈاکٹر صاحب ایک آپریشن میں مصروف تھے۔ کچھ دیر بعد ایک پنجرہ لے کر باہر نکلے۔
پنجرے میں بڑا سا خوب صورت میکاؤ طوطا تھا جس کے پیٹ پر سفید پٹی بندھی ہوئی تھی۔
ڈاکٹر نے وہ پنجرہ ایک مضطرب نوجوان کے حوالے کر دیا۔
اس کے بعد ایک چھوٹا پیکٹ دیا جس میں کوئی چیز لپٹی ہوئی تھی۔
’’کچھ یہ ہضم کرچکا ہے، باقی اس میں موجود ہے۔‘‘ انھوں نے اسے مطلع کیا۔
اسی وقت میں نے دیکھا، اس نوجوان کا انگوٹھا غائب تھا۔
سفید پٹی بندھی ہوئی تھی۔
٭٭٭
More Mobster Jargon
by Eric Hamilton
Fat Louie barged into the room to find Joey "The Mouse”
Scarpuzzi feeding a bedridden man some chicken noodle soup.
"Joey, what’re you doing?.”
Joey looked up, "The Don told me to take care of Frankie.”
"I really appreciate it.” Frankie said from underneath his covers,
"especially after I messed up last week’s hit job.”
First Louie sighed, "No Joey, you were supposed to take care of Frankie, not take care of him.”
Joey stared in wide-eyed puzzlement. "I’m doing exactly what you said. Do you need me to fluff your pillow, Frankie?”
"Oh, that’d be nice.”
Fat Louie sighed again.
گولی
پانڈو کمرے میں گھسا تو اس نے عجیب منظر دیکھا۔
مہیش بستر پر لیٹا تھا اور رامو اس کے سرہانے اکلوتے بیٹے کی بیوہ ماں کی طرح فکر مند بیٹھا تھا۔
’’مہیش بھائی، تمھارے سر میں درد ہے۔ گولی لے لو۔‘‘ پانڈو نے سنا، رامو کہہ رہا تھا۔
مہیش نے گولی نگلی اور پھر لیٹ گیا۔
’’سالے، ڈان کیا بولا اور تو کیا کر رے لا اے؟‘‘ پانڈو نے غصے سے کہا۔
’’کیا بولا؟‘‘
’’مہیش کو سلانے کا مطلب سر میں گولی ڈالنے کا، ٹپکانے کا۔‘‘
’’میں گولی دی ناں، مہیش بھائی سوئیں گا، ماں قسم پھر کبھی نئیں اٹھیں گا۔‘‘
٭٭٭
Fast Talker
by Sylvia Reichman
"Fifty-five.” She whispered to him.
"Fifty-five miles per hour?”
"No, words! That’s all we’ve got! Hurry! Please!”
Perspiration trickled down his neck; he stepped harder on the accelerator.
"But…there’s so much I want to tell you! So much that hasn’t been said!”
"Ten,” she murmured.
"Ten?”
"Six.”
"Will you marry me?”
"Yes!”
ساری بات
’’ ہمارے پاس کم نہ زیادہ ، پورے ایک سو الفاظ ہیں۔‘‘
’’صرف ایک سو؟‘‘
’’ہاں، پورے ایک سو۔‘‘
’’لیکن میں صرف سو الفاظ میں سب کچھ کیسے کہہ سکتا ہوں؟‘‘
’’کہنا پڑے گا۔ مشکل کام ہے لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اور…‘‘
’’اور کیا؟‘‘
’’اور اب سب کچھ کہنے کے لیے پورے سو بھی نہیں بچے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ بہت سے الفاظ ہم خرچ کر چکے ہیں۔‘‘
’’اوہ، نہیں…اب کتنے الفاظ ہمارے پاس باقی ہیں؟‘‘
’’اکیس۔‘‘
’’میرے خدایا، فقط اکیس الفاظ اور اس میں ساری بات کہنی ہے؟‘‘
’’آٹھ۔‘‘
’’کیا تم مجھ سے شادی کرو گی؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
٭٭٭
ماخذ:
http://esbaatpublications.com/esbaatmag/2013/03/namak-parey/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید