فہرست مضامین
نظم کے نئے معمار — زبیر رضوی
محرک: زیف سید (ظفر سید)
فیس بک کے حاشیہ ادبی گروہ کے آن لائن مباحثے کا سکرپٹ
انجام قصّہ گو کا
زبیر رضوی
پُرانی بات ہے لیکن
یہ انہونی سی لگتی ہے
وہ شب وعدے کی شب تھی
گاؤں کی چوپال
پوری بھر چکی تھی
تازہ حقّے ہر طرف رکھے ہوئے تھے
قصّہ گو نے
ایک شب پہلے کہا تھا
صاحبو
تم اپنی نیندیں بستروں پر چھوڑ کر آنا
میں کل کی شب
تمھیں اپنے سلف کا
آخری قصّہ سناؤں گا
جگر کو تھام کر کل رات تم چوپال میں آنا
وہ شب وعدے کی شب تھی
گاؤں کی چوپال پوری بھر چکی تھی
رات گہری ہو چلی تھی
حقّے ٹھنڈے ہو گئے تھے
لالٹینیں بجھ گئی تھیں
گاؤں کے سب مرد و زن
اُس قصّہ گو کی راہ تکتے تھک گئے تھے
دُور تاریکی میں گیدڑ اور کتے
مل کے نوحہ کر رہے تھے
دفعتاً بجلی سی کوندی
روشنی میں سب نے دیکھا
قصّہ گو برگد تلے بے حس پڑا تھا
اُس کی آنکھیں
آخری قصّہ سنانے کی تڑپ میں جاگتی تھیں
پر زباں اُس کی کٹی تھی
قصّہ گو کا، ان کہا اپنے سلف کا
آخری قصّہ لبوں پر کانپتا تھا
٭٭٭
ظفر سیّد: صاحبو: حاشیہ کے نئے اجلاس میں آپ سب کا خیر مقدم ہے۔ اس اجلاس کے لیے ہم نے زبیر رضوی کی نظم منتخب کی ہے۔ اجلاس کی صدارت جناب زکریا شاذ : فرمائیں گے۔ ان سے گزارش ہے کہ وہ مسندِ صدارت سنھال کر جناب تصنیف حیدر کو ابتدائیہ پیش کرنے کی دعوت دیں۔
زکریا شاذ : سبحان اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کب سے چشم براہ تھا۔۔۔۔۔ میرے لیے فیس بک کے انتہائی اہم، تخلیقی اور خالص ادبی فورم حاشیہ کی صدارت کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں۔۔۔ سب سے پہلے میں اس پر فعال اور سنجیدہ فورم کے منتظمین کا نہایت شکر گزار ہوں جنہوں نے اس نا چیز کو اس قابل سمجھا۔۔۔
لیجیے صاحبان۔۔۔ آج انتظار ختم ہوا۔ بہت ہی محترم جناب سید ظفر صاحب نے حاشیہ کے نئے اجلاس کے لیے جناب زبیر رضوی کی نظم "انجام قصہ گو کا” کے انتخاب کا اعلان کر دیا ہے۔۔۔۔ یقیناً حاشیہ کے تمام شرکا کو علم ہو چکا ہو گا یا رفتہ رفتہ سب کو معلوم پڑتا رہے گا۔۔۔
باتیں تو ساتھ ساتھ ہوتی رہیں گی۔۔۔ مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ میں جناب تصنیف حیدر کو دعوت دوں کہ وہ زبیر رضوی کی نظم سے نہ صرف جملہ شرکا کو آگاہ فرمائیں بلکہ نظم کا ابتدائیہ بھی پیش کریں تا کہ اجلاس کی باقاعدہ کارروائی حسب روایت آگے بڑھ سکے۔۔۔ جناب تصنیف حیدر صاحب ! زبیر رضوی کی نظم "انجام قصہ گو کا "کے ابتدائیہ کے سب منتظر ہیں۔۔۔۔۔ بسم اللہ کیجیے۔۔۔۔۔۔۔
زکریا شاذ : جناب ظفر سید صاحب نے قصہ گو با الفاظ دیگر زبیر رضوی کے قصے یعنی ان کی نظم۔۔ انجام قصہ گو کا۔۔۔ کا حاشیہ کے اس نئے اجلاس میں اعلان تو کر دیا اور راقم بھی بطور صدر جناب تصنیف حیدر کو اجلاس میں نظم مذکورہ کا ابتدائیہ پیش کرنے کی دعوت دے چکا ہے۔۔۔ اب قدرے تاخیر کی وجہ سے صاف لگتا ہے کہ تصنیف حیدر صاحب بھی یقیناً ابتدائیے کی تکمیل ہی میں لمحہ بہ لمحہ مشغول و مصروف ہوں گے۔ دیگر احباب بھی بلا شبہ بے قرار ہوں گے کہ کب ابتدائیہ پیش ہو اور وہ نظم کی تفہیم کے سلسلے میں اپنا اپنا نقطۂ نظر واضح کریں۔۔۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہم سب سے زیادہ جناب تصنیف صاحب اس احساس سے دو چار ہوں گے کہ کب وہ اپنی ذمہ داری سے کما حقہ عہدہ بر آ ہوں تاکہ تمام منتظر احباب نظم کی گرہ کشائی کریں۔۔۔ میں امید کرتا ہوں کہ ابتدائیہ بہت جلد پیش ہو جائے گا۔۔ تمام شرکائے حاشیہ سے استدعا ہے کہ وہ خاطر جمع رکھیں اور اظہار خیال کے لیے تیار رہیں۔۔۔۔
علی محمد فرشی: صاحبِ صدارت! حاشیہ کی روایت کے مطابق جیسے ہی صدر ابتدائیہ نگار کو دعوت دیتا ہے، ابتدائیہ پیش کر دیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ تحریر ضبطِ وجود میں آنے کے یقین دہانی کے بعد ہی انتظامیہ نظم بورڈ پر لاتی ہے اور صدر سے اجلاس شروع کرنے کی درخواست کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ میری معلومات کے مطابق تصنیف حیدر صاحب نے ابتدائیہ لکھ رکھا ہے بس اسے سامنے آنا ہے۔ اگر اس عمل میں کوئی تاخیر ہو رہی ہے تو یقیناً اس کی کوئی وجہ ہو گی۔۔۔ خدا کرے وہ خیریت سے ہوں۔
تالیف حیدر: تصنیف حیدر ساحب کی طبیعت ٹھیک نہیں، وہ آج شام تک آپ لوگوں کے سامنے اپنا ابتدائیہ پیش کر دیں گے۔
زکریا شاذ : حاضرین حاشیہ۔۔۔۔ جناب تالیف حیدر کی وساطت سے کچھ گھنٹے پہلے یہ معلوم ہوا ہے کہ جناب تصنیف حیدر کی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے اجلاس میں پیش کردہ نظم کا ابتدائیہ مؤخر ہوا ہے۔ ورنہ کوئی اور وجہ نہ تھی کہ ابتدائیہ پیش کرنے میں اتنی تاخیر ہوتی۔۔۔ اس لیے میں دعا گو ہوں اور آپ سب احباب سے بھی ملتمس ہوں کہ۔۔ صاحبِ،ابتدائیہ۔۔ محترم تصنیف کی صحت کی جلد از جلد بحالی کی دعا فرمائیں کہ
جان ہے تو جہان ہے پیارے
یہاں جہان سے مراد جہان حاشیہ کا موجودہ اجلاس بھی ہے۔۔۔ ہم سب امید کرتے ہیں کہ رب العزت انہیں جلد صحتیاب کرے۔۔ تاکہ وہ پوری توانائیوں سے ابتدائیہ پیش کریں اور ویسی ہی تب و تاب سے بات آگے بڑھے۔۔۔۔۔
محمد یامین: جناب صدر! اگر مناسب ہو تو احباب کو اظہار کی دعوت دے دی جائے۔ ابتدائیہ سے بعد میں بھی مستفید ہوا جا سکتا ہے۔
علی محمد فرشی: جنابِ صدر! یامین صاحب نے اچھی تجویز پیش کی ہے۔ میں اس کی تائید کرتے ہوئے آپ سے ملتمس ہوں کہ یامین صاحب ہی کو بحث کشائی کی دعوت دی جائے، یعنی جو بولے وہی کنڈی کھولے۔۔۔۔
زکریا شاذ : مژدہ ہو صاحبان۔۔۔ قفل ٹوٹا خدا خدا کر کے۔۔۔۔۔۔ بہت ہی پیارے دوست اور اس سے بھی پیارے شاعر جناب یامین صاحب نے بہت ہی صائب تجویز پی پیش کر دی ہے۔ جس کے مطابق ابتدائیہ کے مزید انتظار کے بجائے نظم پر اظہار خیال کے لیے حاشیہ کے منتظر احباب کو دعوت دے دی جائے۔۔
تو۔۔ شرکائے حاشیہ۔۔۔۔ میرے خیال میں یہ بہت ہی مناسب و موزوں مشورہ ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ سب احباب بھی اس سے پوری طرح متفق ہوں گے۔۔۔ اور ویسے بھی ابتدائیہ بعد میں بھی پیش کیا اور پڑھا جا سکتا ہے کہ صورت حال ہی کچھ ایسی ہو گئی ہے کہ سوائے تجویز متذکرہ پر عمل کرنے کے کوئی اور چارہ کار نہیں۔۔ اس لیے اگر حاضرین حاشیہ کی اجازت ہو اور ان کی رضا و رغبت کو میں تجویز کے حق میں ہی درست سمجھوں تو کچھ مضائقہ نہ ہو گا کہ میں آپ سب احباب سے درخواست کروں کہ نظم پر گفتگو کا سلسلہ نہ صرف شروع بلکہ اس میں پہل کرنے کی سعادت بھی حاصل کریں۔۔۔
لیجیے خواتین و حضرات۔۔۔ جناب زبیر رضوی کی نظم۔۔ انجام قصہ گو کا۔۔۔ تفہیم و تجزیہ کے لیے اب آپ کے حوالے ہے۔۔۔۔۔
زکریا شاذ : قارئین کرام۔۔ یہ پہلو تو اور بھی خوش آئند ہو گا کہ تجویز پیش کرنے والے ہی یعنی جناب یامین اگر بحث کا آغاز کر دیں۔ تو میں جناب یامین سے عرض گزار ہوں کہ وہ گفتگو کی ابتدا کریں۔۔۔۔
محمد یامین: جناب صدر! حاضر ہوتا ہوں۔
محمد یامین: جنابِ صدر! میں فرشی صاحب کے بہ قول نظم کی کنڈی کھولنے کی جسارت کر رہا ہوں تاکہ بحث کا در وا ہو سکے۔ احباب اس تحریر کو حرفِ آغاز کے طور پر قبول فرمائیں۔
نظم کے الفاظ ” یہ انہونی سی لگتی ہے ” شروع سے ہی ایک سسپینس کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں۔ جس سے نظم کا قاری اس کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے۔ شروع میں یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ انہونی اتنی عجیب اور طلسماتی سی ہو گی کیوں کہ نظم کا سارا ماحول اس دنیا کا ماحول ہے سوائے ایک مقام کے جس کا ذکر میں بعد میں کروں گا۔ ساری نظم غیر آرائشی، سادہ ترین، اور عام فہم زبان میں لکھی گئی ہے۔ بعض امیج اس میں آگے بڑھ کر سمبل میں ڈھل گئے ہیں اور بعضوں نے تازہ استعارے کی خوب صورتی حاصل کر لی ہے۔ اگر ہم پہلی نظر پر بھروسہ کر کے نظم کے مواد کو مقامیت یعنی اس دنیا سے وابستہ کر کے دیکھیں تو ایک نامیاتی تسلسل برقرار رکھتے ہوئے ایک دائرہ مکمل کر سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہمیں سب سے پہلے تین سوالوں سے واسطہ پڑتا ہے۔
،۔۔ قصہ گو کون تھا
،۔ آخری قصہ کس بارے میں تھا
،۔ قصہ گو کی زبان کس نے کاٹی
غور کریں تو تینوں سوالات میں سے دوسرا سوال زیادہ اہم ہے۔ اگر اس کا ٹھیک ٹھیک جواب مل جائے تو شاید باقی دو سوالات کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں قصہ گو (قصہ گوئی کی روایت کی روشنی میں ) ابلاغ کے ایک استعارے کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے اور قصے کو کسی اہم راز کے انکشاف کی علامت۔ اس لیے قصہ گو بڑے اہتمام سے اسے سنانے کی دعوت دیتا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ یہ قصہ اپنی نوعیت کا عجیب قصہ ہے جسے الفاظ اور فنِ داستان گوئی کے کسی سہارے کی ضرورت نہیں رہی۔ دراصل یہ لفظوں میں بیان ہونے والا قصہ نہیں تھا بل کہ قصہ یہ ہے کہ یہ ایک ڈرامائی منظر تھا جسے نظم کی آخری دس لائینوں میں ڈرامایا گیا۔ اس منظر کو دیکھنے والا اس قصے کو ایک پیغام کی شکل میں وصول کر رہا ہے اور وہ پیغام یہ ہے کہ ابلاغ کے لیے الفاظ کی جادوگری کے علاوہ کوئی دوسرا وسیلہ بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ زبان کٹنے سے مراد کمیونیکیشن اور رابطے کے معروف وسیلوں کا منقطع ہو جانا ہے اور غیر معروف وسیلوں (جن کو آنکھوں کے استعارے سے بیان کیا گیا ہے ) کا زندہ اور متحرک رہنا ہے۔ انھی دس لائینوں میں کمیونیکیشن کا ایک اور وسیلہ بھی سامنے آتا ہے جسے خواب یا خیال (قوت متخیلہ) کی ایک رو کے طور دیکھا جا سکتا ہے کیوں کہ چوپال میں لوگ رات بھر جاگ جاگ کر جب تھک گئے تو ظاہر ہے اب انھیں نیند آنے لگی تھی اسی عالم میں ( جب کہ ابھی رات گہری تھی)، اچانک بجلی سی کوندنے اور روشنی میں دیکھنے کا جواز سوائے اس کے کچھ اور نہیں ہو سکتا کہ اب لوگوں کو اونگھ آنے لگی تھی اور وہ خواب دیکھنے لگے تھے یا شعور کی گرفت سے قدرے آزاد ہونے لگے تھے، یہ وہ مقام ہے جہاں نظم اس دنیا سے رخصت ہو کر کسی اور دنیا میں داخل ہوتی ہے۔ بجلی سی کوندنا ایک طلسمی فضا کی نشان دہی کرتا جو سوتے ہوئے یا جاگتے سوتے ہوئے یا سوتے جاگتے میں ہو سکتی ہے نہ کہ صرف جاگتے ہوئے۔
دفعتاً بجلی سی کوندی
روشنی میں سب نے دیکھا
قصّہ گو برگد تلے بے حس پڑا تھا
اُس کی آنکھیں
آخری قصّہ سنانے کی تڑپ میں جاگتی تھیں
پر زباں اُس کی کٹی تھی
قصّہ گو کا، ان کہا اپنے سلف کا
آخری قصّہ لبوں پر کانپتا تھا
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہاں نظم کا متکلم اپنی داخلی کیفیت بیان کر رہا ہو بہ ہر حال یہ منظر خارج میں ظہور پذیر نہیں ہوا۔ اور داخلی سطح پر اس کی رو نمائی سے شاعر نے ایک خوب صورت تہذیب کے لا شعوری طور پر مٹنے کو اس طرح دکھایا ہے کہ دل دھک دھک کرنے لگا ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہو سکتی بل کہ آگے کچھ اور بھی ہے۔ وہ یہ کہ نظم نے یہ منظر بنا کر ہمیں ایک اور دائرے میں بھی داخل کیا ہے کہ ادب ہمیشہ لفظوں کے بطون سے "ان کہا” وجود میں لا کر اپنے اعلیٰ ہونے کا جواز مہیا کرتا ہے۔ یہ” ان کہا” سننے کی طلب ہمارے اجتماعی خواب میں ہمیشہ موجود رہتی ہے اور یہ خواب ہمیں گذشتہ اور آئندہ زمانوں سے جوڑے رکھتا ہے۔ گزشتہ کو چوپال کی فضا ظاہر کرتی ہے اور آئندہ کو وہ سفاک پیغام تصویر کرتا ہے جو قصہ گو کی آنکھوں میں لکھا ہوا ہے۔
علی محمد فرشی: صاحبِ صدارت! یامین صاحب نے صرف کنڈی ہی نہیں کھولی بل کہ پوری نظم کھول کر رکھ دی ہے۔ مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ وہ "دھوپ کا لباس” میں ہمیں عمدہ نظموں کا تحفہ دینے کے بعد اب وہ نظم فہمی کے باب میں بھی وقیع اضافہ کریں گے۔
"پرانی بات ہے ” سے نظم کا آغاز بہ ظاہر ماضی بعید کا واقعہ معلوم ہوتی ہے، جب قصہ گوئی کی روایت زندہ تھی۔ نظم کا سماجی منظر نامہ اور قدرتی ماحول’ گاؤں ،، ’ چوپال،، ’ حقّے ،، ’ لالٹینیں ،، ’گیدڑ ،، ’ برگد، بھی اسی عہد کی عکاسی کرتے ہیں۔ نظم کی تشکیل و تعمیر پہلی سطر سے آخری لفظ تک یوں ہوئی ہے کہ کہیں بھی کوئی خلا پیدا نہیں ہوا۔ نظم مصرع بہ مصرع اپنے کلائمکس کی طرف بڑھتی ہے۔ زبان کی سادگی بھی نظم کے بہاؤ میں معاونت کرتی ہے اور اختتام تک قاری کی نظریں کسی مقام پر قیام نہیں کرتیں نہ ٹھہر کر کچھ سوچنے یا پچھلی لائینوں کو دھرانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ لیکن جوں ہی ہم آخری سطر ختم کرتے ہیں نظم ایک بڑے سوالیے کی شکل میں ہمارے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔
بڑا سوال تو بالکل سامنے کا ہے کہ قصہ گو "آخری قصہ” سنانے کے قابل نہیں رہا۔ لیکن اس سوال سے کئی مزید سوالات کی شاخیں پھوٹتی ہیں۔
خیال رہے کہ "آخری قصہ” ان قصوں کی طرح عمومی نوع کا نہیں تھا۔ قصہ گو نے ایک رات پہلے اس کی اہمیت پر خاص اصرار کیا تھا اور حاضرین کی اس قصے میں دل چسپی بھی شاعر نے چوپال کے کھچا کھچ بھرے ہونے اور انتظار کھینچے کے بلواسطہ اظہار(حقوں کا ٹھنڈا پڑ جانا، لالٹینوں میں تیل ختم ہو جانا، گیدڑوں کا ہوکنا ) سے ظاہر کر دی ہے۔
اس قصے کی خصوصیت کو اخفا میں رکھ کر ہی شاعر نظم کو فن پارہ بنا دیا ہے۔ یہی نکتہ قاری کو نظم کی ’تخلیقِ نو، کے عمل میں شریک کر کے معانی کی مختلف جہات دریافت کرنے پر اکساتا ہے اوریہیں نظم پر کام یابی کی مہر لگا دیتا ہے۔
ایسا بھی نہیں کہ شاعر نے نظم کو ایک پہیلی بنا کر قاری کو مرعوب کرنے کے لیے اس کے سامنے رکھ دیا ہے جیسا کہ جدید نظم کے بارے یہ مفروضہ عام طور پھیلایا جاتا ہے کہ یہ سمجھ میں نہیں آتی۔ میرا جی کی نظموں پر لگائے جانے والے اس ’غلط العوام، الزام کو آنکھیں بند کر کے ابھی تک اچھی نظموں پر چپکا دیا جاتا ہے۔ گویا اتھلی اتھلی نظم تو واہ واہ کرے جان چھڑا لی اور تہ دار نظم جسے پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ذرا سی بھی دماغی محنت کی ضرورت پڑی اس پر چیستان کا ٹھپا لگا کر پرے رکھ دیا۔ اچھی نظم کی نامیاتی بافتوں میں نظم کے مرکزے تک پہنچنے کے لیے واضح رہ نمائی موجود ہوتی ہے۔ اس نظم میں پہلا نمایاں استعارہ ’برگد، ہے جس کے ساتھ ایک بڑی صداقت ’نروان‘ کا مکمل بیانیہ پڑھنے والے کے ذہن میں گھوم جاتا ہے۔ اس نظم میں ایک معلوم صداقت کو مشتہر کرنے کی بہ جائے اسے بہ دستور اخفا میں رہ جانے کے المیہ کو موضوع بنایا گیا ہے۔ "آخری قصہ” یہاں بہ طور ’سمبل، سامنے آیا ہے۔ عظیم مذہبی اور اعلیٰ ادبی قصص انفس و آفاق ہی کی تعبیر ہیں۔ لیکن کلچر کی رنگا رنگی کے باعث ان قصص کے تانے بانے اور زمان و مکان کے فرق کے سبب ان کے آغاز و انجام میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ تخلیق کائنات اور خالقِ عظیم کے درمیان ایک ہی نقطہ ہے "انسان”۔ اور انسان کائناتِ اکبر، خالقِ اکبر اور کائناتِ اصغر کی تکون کے تینوں زاویے جوڑنے میں مگن رہا ہے۔ گلگامش کی داستان سے جدید ادب تک وجود کی حقیقت اور وجودی کرب تخلیقی اذہان کے کبیری سوالات رہے ہیں۔
اچھے ادب کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ معاشرے میں انسانی رشتوں کو مضبوط بناتا ہے۔ وہ معاشرتی شکست و ریخت اور انہدام کے خلاف کام کرتا ہے اور یہی اس کا اثباتی پہلو ہے۔ اگر کوئی تحریر کسی مثبت انسانی قدر کے خلاف چلتی ہے تو ادب پارہ نہیں ہو سکتی۔
اس نظم کے قصہ گو کو جو معرفت حاصل ہوئی وہ اس کے پرکھوں کو بھی حاصل تھی لیکن انھوں نے اسے اخفا میں رکھا، کہ (ممکن ہے ) اسے اخفا میں رکھنا ہی انسانی سماج کے لیے بہتر ہو۔ اب ایک روز ترنگ میں آکر نظم کے کبیری کردار نے اس راز سے پردہ اٹھانا چاہا لیکن اس کی زبان کاٹ دی گئی یا اس نے خود ہی کاٹ لی۔ یہاں نظم ہمیں اک دوراہے پر لے آتی ہے۔ 1 اگر تو قصے کا تعلق سماج سے ہے تو یہ عمل اس سماجی برائی کے آلہ کار کی کارستانی قرار پائے گی۔ 2 اور اگر اس کا تعلق مابعد الطیبیاتی حقیقت سے تھا تو ممکن ہے عین وقت پر اپنے منصب کی ذمہ داری کے احساس کے تحت اس نے اپنی زبان خود قطع کر لی ہو۔ یہاں اس کی آنکھوں میں تو قصہ سنانے کی تڑپ بہ ظاہر دوسری دلیل کو رد کرتی ہے لیکن اگر قصہ گو (تخلیقی وجود)کی عمومی نفسیات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو ان کہی کا دکھ نظم کی تاثیر میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔
زکریا شاذ : سبحان اللہ۔۔۔۔ محفل حاشیہ پر جتنی بھی خاموشی چھائی تھی اور جمود و انجماد کی فضا نے ماحول کو جس قدر بیزار کن بنا رکھا تھا یامین صاحب نے آ کر اس کو اتنا ہی دلچسپ و دل پذیر کر دیا ہے۔
انہوں نے نظم کی وضاحت کرتے ہوئے اسی کے لوازمات سے ایسے معنی دریافت کیے ہیں جو نہ صرف نئے اور تازہ اور حیران کن ہیں بلکہ بہت جدید، عہد حاضر سے جڑے ہوئے اور مناسب حال بھی ہیں۔۔۔ انہوں نے کہا ہے یہ نظم روایتی اور جدید تر ذرائع ابلاغ کے درمیان فرق کو واضح کرتی ہے۔۔ بریدہ زبان کو انہوں نے روایتی اور معروف ذرائع ابلا غ کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔۔ اور آنکھوں کو جدید تر ابلاغیات کا نمائندہ قرار دیا ہے۔ یامین صاحب کے مطابق نظم ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جدید نظام ابلاغ میں الفاظ کے علاوہ بھی اظہار کے اور طریقوں کو بھی اپنایا جا سکتا ہے یا اپنانے کے اشاروں کی نشان دہی ہوتی ہے۔ چنانچہ اس پہلو کے پیش نظر راقم کے خیال میں جدید سیٹلائٹ ٹی وی چینل کی مثال بھی بے غل و غش دی جا سکتی ہے۔۔۔ سو نظم کی اس تفہیمی جہت نے معنوی اعتبار سے نظم کا رتبہ بہت بلند کر دیا ہے۔ یامین صاحب بلا شبہ داد کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
جناب علی محمد فرشی نے نظم کے فنی پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ
"پرانی بات ہے ” سے نظم کا آغاز بہ ظاہر ماضی بعید کا واقعہ معلوم ہوتی ہے، جب قصہ گوئی کی روایت زندہ تھی۔ نظم کا سماجی منظر نامہ اور قدرتی ماحول’ گاؤں ،، ’ چوپال،، ’ حقّے ،، ’ لالٹینیں ،، ’گیدڑ ،، ’ برگد، بھی اسی عہد کی عکاسی کرتے ہیں۔ نظم کی تشکیل و تعمیر پہلی سطر سے آخری لفظ تک یوں ہوئی ہے کہ کہیں بھی کوئی خلا پیدا نہیں ہوا۔ نظم مصرع بہ مصرع اپنے کلائمکس کی طرف بڑھتی ہے۔ زبان کی سادگی بھی نظم کے بہاؤ میں معاونت کرتی ہے اور اختتام تک قاری کی نظریں کسی مقام پر قیام نہیں کرتیں نہ ٹھہر کر کچھ سوچنے یا پچھلی لائینوں کو دھرانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے "
فرشی صاحب نے نظم کی تعریف کرتے ہوئے مزید کہا ہے کہ شاعر نے نظم کی خصوصیت کو پس پردہ رکھ کر نظم کو فن پارہ بنا دیا ہے۔۔ ان کی گفتگو کا یہ پہلو توجہ طلب اور فکر انگیز بھی ہے کہ شاعر نے نظم کو پہیلی نہ بنا تے ہوئے پیش کر کے جدید نظم پر عدم تفہیم کے الزام کو رد کر دیا ہے۔۔ انہوں نے برگد کو۔ نظم کا نمایاں ترین استعارہ قرار دیا ہے۔ ایک اہم ترین نکتہ ان کے قلم سے یہ بھی نکلا ہے کہ
"اچھے ادب کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ معاشرے میں انسانی رشتوں کو مضبوط بناتا ہے۔ وہ معاشرتی شکست و ریخت اور انہدام کے خلاف کام کرتا ہے اور یہی اس کا اثباتی پہلو ہے۔ اگر کوئی تحریر کسی مثبت انسانی قدر کے خلاف چلتی ہے تو ادب پارہ نہیں ہو سکتی۔ "
ما شاء اللہ۔۔۔ نظم کی گرہ کشائی بہت دلچسپ اور خیال افروز انداز میں ابتدا ہی میں ہو گئی ہے۔۔۔ اگر آغاز یہ ہے تو کہا جا سکتا ہے نئے آنے والے احباب سخن فہم بھی بحر نظم سے نایاب موتی ڈھونڈ کر لائیں گے۔۔۔۔
تالیف حیدر: اس اجلاس کے لئے ’زبیر رضوی صاحب ،کی نظم ’انجام قصہ گو کا، منتخب کی گئی ہے۔ زبیر رضوی کیسے شاعر ہیں ؟میں نہیں جانتا، انہوں نے اس سے قبل کس انداز کی نظموں سے اپنے قارئین کا حلقہ (جسے وہ محظوظ یا محیر کرتے آئے ہیں ) تیار کیا؟ مجھے اس سے بھی کوئی دلچسپی نہیں۔ نظم ہمارے سامنے ہے اور اب یہ نظم کسی شاعر کی تخلیق نہیں بلکہ الفاظ کا ایک ایسا مربوط سلسلہ ہے جو ہم سب کے اظہار کی روشنی میں نئے زاویوں سے پہچانا جائے گا اور یہ ہی اس نظم کی کامیابی کی دلیل ثابت ہو گی۔ نظم اپنے اظہار کے بعد مُظہر سے بہت دور نکل جاتی ہے اس کے برہنہ وجود کو ہر شخص اپنے شعور ی لبادے سے آراستہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ دوسروں کے نزدیک اس کی کیا اہمیت ہو گی اس کا قلق کچھ انہیں لوگوں کو ہوتا ہے جو کسی بھی قسم کے شعوری صلاحیتوں سے بعید ہوتے ہیں۔ مُظہر اور اظہار سے جب ظاہر کے قالب میں کسی خیال کا نیا زاویہ تشکیل پاتا ہے تو وہ ظُہور کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ حالانکہ ان سب کا مرجع و ماخذ حقیقتاً ایک ہوتا ہے پھر بھی ہمیں ظُہور سے مُظہر تک یا مُظہر سے ظُہور تک سب کی اہمیت کو تسلیم کرنا چاہئے۔ زبیر رضوی صاحب نے جب یہ نظم کہی تو انھوں نے خیالات کی رو کو اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر الفاظ کے احاطے میں محیط کر لیا اور یہ ہی ان کا فن ہے اور یہ ان کے فن کی شناخت ہے کہ ان کا محیط کیا ہوا خیال اپنے وجود کی قوت سے اپنے وارث کی نشاندہی کرے۔ اب جتنی بار جو شخص اس احاطے کا جائزہ لے گا وہ زبیر رضوی نہیں ہو گا، لیکن کہیں نہ کہیں اسے یہ احساس ضرور گزرے گا کہ اس کے قالب میں زبیر رضوی کے وجود کی بو سمائی ہے۔ نظم اچھی ہے یا بری معیاری ہے یا غیر معیاری فکری ہے یا غیر فکری ان سب باتوں کا انکشاف اجلاس کے اختتام پر خود ہی ہو جائے گا لہٰذا میں ابھی اسے کسی قسم کے زمرے میں شمار نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی اپنے تمام احساسات کی ترجمانی کرنا چاہتا ہوں۔ صرف اتنا کہوں گا کہ نظم کا اسلوب اور بیانیہ بظاہر اتنا ہی سلیس نظر آتا ہے جتنا کہ کسی پانچویں یا چھٹی جماعت کے طالب علم کو نظام گردش ایام۔ ایک قصہ گو جو نہ جانے کب سے انہیں قصے سنا رہا ہے جنہیں وہ صاحبو!کہہ کر مخاطب کر رہا ہے وہ مردو زن جو قصہ گو کا آخری قصہ سننے کے لئے جمع ہوئے ہیں قصہ گو انھیں وہ قصہ نہیں سنا پاتا ہے کیوں کہ اس کی زبان کٹ چکی ہے اور وہ اس قوت سے محروم ہو چکا ہے جس کے لئے تمام مردو زن اپنی نیندیں بستروں پر چھوڑ کر اس کے گر د جمع ہوئے تھے۔ کیا یہ قصہ اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ نظر آ رہا ہے۔ اس میں کئی سوالات پوشیدہ ہیں جن کی اہمیت اہل بصیرت پر روشن ہو گی۔ نظم میں موجود ہر لفظ کی معنوی جہات کا انکشاف ہر قاری کے ذہنی اور علمی معیار کے مطابق ہو گا کسی کے اظہار کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نظم سے کوسوں دور ہے۔
تصنیف حیدر: محترم اراکین حاشیہ اور صدر صاحب!آپ لوگوں کی تجویز کے مطابق پہلے تو ہم نے یہ طے کرنا چاہا کہ ہندوستان کے کس شاعر کی نظم آپ کے سامنے تبصرے کے لیے پیش کی جائے۔ میں حاشیہ کے سامنے اس بات کا اعتراف کرنے میں کسی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لوں گا کہ اس موقع نے واقعتاً ہمیں بغلیں جھانکنے پر مجبور کر دیا۔ ہمارے یہاں شاعری ہو رہی ہے، لوگ غزلیں بھی کہہ رہے ہیں اور بہت اچھی کہہ رہے ہیں ، حال ہی میں میں نے ’نئی زمینیں‘ کے نام سے خود سات نئے شاعروں کا ایک انتخاب تیار کیا ہے، جس میں ان پر میرے لکھے ہوئے مضامین بھی موجود ہیں۔ لیکن نظم کے معاملے میں تو ہمارا عصری منظرنامہ بڑا کنگال نکلا۔ ہمیں ایک ایسے شاعر کی تلاش تھی جس کو نظم پر حاشیہ میں بحث و مباحثے کے بعد خود بھی اپنی بات کہنے کے لیے بلایا جا سکے۔ لے دے کر ہمارے پاس تین چار نام تھے، ہم نے زبیر رضوی، محمد علوی اور شارق کیفی میں سے زبیر رضوی کا انتخاب زیادہ مناسب خیال کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زبیر صاحب تقریباً پچھلی نصف صدی سے جدید نظم کی تعمیر و ترتیب میں ایک اہم کردار نبھاتے چلے آئے ہیں۔ ان کی نظم نگاری اپنے تمام عصری اور غیر عصری نظم گو شعرا سے خاصی منفرد ہے، اس حوالے سے آپ کو یہ بتانا ضروری خیال کرتا ہوں کہ مندرجہ بالا نظم ’انجام قصہ گو کا‘ ان کی ایسے ہی آٹھ دس اساطیری طرز کے قصوں کی سیریز سے ماخوذ ایک نظم ہے۔ یہاں دہلی میں جوان ادیبوں میں زبیر صاحب معید رشیدی کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور دینا بھی چاہیے کہ ان کا نام ہندوستان میں تنقید کے حوالے سے ایک اہم ادبی حیثیت کا حامل ہوتا جا رہا ہے، سو معید صاحب نے ایک بار مجھے ان قصہ والی نظموں کے تعلق سے بڑی اہم بات یہ بتائی تھی کہ یہ تمام قصے زبیر صاحب نے اپنی ذات سے خلق کیے ہیں ، میں یہ سن کر اس لیے بھی حیران ہوا تھا کیونکہ ان کی اسی سیریز کی دوسری نظمیں ’صفا و صدق کے بیٹے، بنی عمران کے بیٹے، قصہ گورکنوں کا اور مشہورِ زمانہ نظم علی بن متقی رویا وغیرہ، پڑھ کر بیشتر گمان یہی گزرتا ہے کہ یہ واقعات یا قصے تاریخ کے بطن سے حاصل کیے گئے ہیں مگر زبیر صاحب نے اس کے برعکس نہ صرف ان قصوں کو خلق کیا بلکہ ان میں معنویت کی سیکڑوں جہات کا اضافہ کرتے چلے گئے۔ فی الحال میں اسی نظم پر اپنے ابتدائیے کو محیط کرنا چاہتا ہوں ، چونکہ طبیعت ناساز ہے، تیز بخار بھی ہے اور ساتھ ہی پیر کے انگوٹھے پر بال تو ڑ ہو گیا ہے اس لیے چلنا پھرنا بھی مشکل ہو رہا ہے، اس وقت میرے گھر میں انٹرنیٹ نہیں ہے، لیکن چونکہ آپ لوگوں کا انتظار طویل تر ہو رہا تھا اس لیے اپنے ایک دوست فیضان علی کے سہارے ایک سائبر کیفے میں آ کر یہ ابتدائیہ پوسٹ کر رہا ہوں ،
تصنیف حیدر: خیر ’انجام قصہ گو کا‘ جہاں تک میں نے سمجھا ہے، ایک استعاراتی نظم ہے، اس نظم میں زبیر صاحب نے جس قصہ گو کی بات کی ہے وہ ہمارے درون میں بیٹھے ہوئے اس شخص کا استعارہ ہے جسے ہم عرف عام میں ذات کے نام سے جانتے ہیں ، ذات اپنے اسلاف کی تعمیری و تخریبی فطرت کا ایک قصہ بھی ہوا کرتی ہے۔ اس اصطلاح میں بڑی وسعت ہے، چونکہ سعدی نے تو غالباً اسی کے تعلق سے ایک قصہ بھی لکھا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ فطرت انسانی دراصل اسلاف کی طرف سے ملنے والی وہ ذاتی صفت ہے جس کا تبدیل ہونا ممکن نہیں۔ ہم جب ترقی کی نگاہیں خیرہ کرتی روشنی میں ذات پات، دین دھرم اور رہن سہن کے نام پر انسان کی فطرت پر ایسا سوال قائم ہوتے دیکھتے ہیں تو چٹخ پڑتے ہیں کہ صاحب کیا قرآن غلط کہتا ہے کہ ’ہم نے تم سب کو مختلف قبائل میں محض اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ اس طرح تمہاری شناخت قائم ہوسکے وگرنہ خدا کے نزدیک تو تم میں سب سے افضل وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے ،اب سوال یہ ہے کہ سعدی اس آیت کے برخلاف بات کر رہے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ انسان کا عمل اس کے اسلاف کے مزاج کا پرتو ہوتا ہے، سائنس بھی سعدی کے ہی ساتھ کھڑی ہوئی نظر آتی ہے، ڈی این اے کے جینو ٹائپ اور اس میں انسان کی فطرت اور خصائص کا والدین سے منتقل ہونا ہمارے لیے کوئی ایسی انہونی بات نہیں ہے۔ خیر یہ ایک دوسری بحث ہے تاہم اس کا نظم سے صرف اتنا تعلق ہے کہ قصہ گو جو کہ ایک ایسے فرد کا استعارہ ہے جو اپنے اسلاف کی آخری باتیں یاد کرنا چاہتا تھا، یعنی کہ اپنی روایتوں میں دوسروں کو شریک کرنا چاہتا تھا وہ اس رات مر کیوں گیا؟ کیا اس نے خود کو ختم کیا؟اس نظم میں ہم برگد کے اس پیڑ کو بالکل فراموش نہیں کرسکتے جس کے نیچے قصہ گو پڑا ہوا تھا اور اس کے لبوں پر اپنے اجداد کا آخری قصہ کانپ رہا تھا۔ سلیم احمد کا ایک مضمون مجھے اس دوران یاد آیا، مضمون کا نام ہے، تہذیب کا جن۔ اس میں سلیم احمد کہتا ہے کہ روایت کو جس چیز سے بہت زیادہ خدشہ لگا رہتا ہے وہ دراصل تہذیب ہے، ہندوستان میں انگریز صرف ریل کی پٹریاں ہی اپنے ساتھ نہیں لائے، وہ تہذیب کی ایک بین بھی اپنے ساتھ لائے، اس بین کا اثر یہ ہوا کہ ہمارے یہاں ہر انسان تہذیب تہذیب چلانے لگا، اب ذرا اس حوالے سے قصہ گو پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ برگد کا پیڑ جس کے نیچے قصہ گو تڑپ رہا ہے، اس کے ذریعے دراصل اس پوری تہذیبی آمد اور روایتی خروج کے دور کا ایک استعاراتی جہان سامنے لا کر رکھ دیا گیا ہے۔ لوگوں کو روایت سے بعد نہیں ہے، وہ تو روایت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں ، سو راتوں کو اپنی نیندیں بستروں پر چھوڑ کر آنا، دراصل اپنی یا اپنے لوگوں کی روایتوں کو سمجھنے کی خواہش کا ایک اعلامیہ ہے، بس میں اتنا ہی کہوں گا، پتہ نہیں زبیر صاحب اس توضیح سے کتنے مطمئن ہونگے پھر بھی مجھے جو معلوم ہوا وہ ابتدائیہ کے طور پر آپ لوگوں کے سامنے پیش کر دیا۔ آپ باتیں شروع کریں ، میری طبیعت بھی جلد ہی ٹھیک ہو جائے گی اور میں آپ کی باتوں کے اس کارواں میں شرکت کرنے آ پہنچوں گا۔ ایک آخری بات یہ کہ معید رشیدی، فیاض احمد وجیہہ، اشعر نجمی، شارق کیفی، نعمان شوق، امیر حمزہ ثاقب اور مہیندر کمار ثانی کو بھی اس بحث میں بڑھ چڑھ کر شرکت کرنی چاہیے کیونکہ یہ حاشیہ پر لگنے والی کسی پہلے ہندوستانی شاعر کی نظم ہے۔
ظفر سیّد: جنابِ صدر: میں آپ کی وساطت سے تصنیف حیدر صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انھوں نے بیماری کی حالت میں بھی اتنا عمدہ ابتدائیہ تحریر کیا ہے، حس کے لیے وہ داد و تحسین کے مستحق ہیں۔ البتہ وہ یہ بھول گئے کہ اس سے پہلے جناب ستیہ پال آنند کی نظم پر بحث ہو چکی ہے۔ اس طرح نظم زیرِ بحث حاشیہ پر لگنے والی دوسرے ہندوستانی شاعر کی نظم ہے۔
زکریا شاذ : وابستگانِ اجلاس۔۔۔ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔۔۔۔۔ جی ہاں۔۔ ایسا ہی ہے مگر شرط یہ ہے کہ بات نکلے۔۔۔ اور یہ کچھ احباب کی مندرجہ بالا تحریوں سے ثابت بھی ہو رہا ہے۔
دوسرا اہم پہلو یہ بھی کہ بات دور تک نکل جانے کا دم خم بھی رکھتی ہو۔۔۔ ظاہری سی بات ہے اس کا امکان بھی کھلتا نظر آنا چاہیے اور امید ہے کہ آئے گا بھی۔۔ جناب تالیف صاحب نے نظم پر جو مجموعی تبصرہ کیا ہے وہ بلا شبہ کئی لحاظ سے توجہ طلب بھی ہے اور اہم بھی۔۔۔ راقم کے خیال میں ان کی تحریر کا ہر جملہ دعوت فکر بھی دے رہا ہے اور کچھ کچھ اس رائے کا بھی غماز پے کہ نظم کی زبان کوئی غیر معمولی نوعیت کی نہیں ہے۔۔ اس کی تائید ان کے اس فقرے سے بخوبی ہو سکتی ہے۔۔
"صرف اتنا کہوں گا کہ نظم کا اسلوب اور بیانیہ بظاہر اتنا ہی سلیس نظر آتا ہے جتنا کہ کسی پانچویں یا چھٹی جماعت کے طالب علم کو نظام گردش ایام۔ "
مگر انہوں نے نظم کے بارے میں اپنی کوئی حتمی رائے دینے سے احتراز بھی کیا ہے۔ اور اس کا فیصلہ اور شاید موقع بھی انہوں نے اجلاس کے دیگر احباب کو سونپ دیا ہے۔۔۔ ان کا یہ انداز ایک طرح سے اچھا بھی ہے کہ باہمی گفتگو کا احسن طریقہ یہی ہوتا ہے۔۔۔ مگر میں اس میں یہ اضافہ ضرور کرنا چاہوں گا کہ تالیف صاحب کے تبصرے سے کچھ مبہم اور کچھ غیر مبہم لہجے میں یہی احساس ہوتا ہے کہ نظم زیر بحث کوئی غیر معمولی نظم نہیں ہے۔ ابھی ان گوشوں پر میں غور کر ہی رہا تھا کہ محترم تصنیف حیدر کا ابتدائیہ سامنے آ گیا۔۔ سب سے پہلے تو ان کہ شکریہ کہ اجلاس کی روایت اپنی تکمیل کو پہنچی۔ دیر آید درست آید۔۔۔ دوسرے یہ کہ ان کی علالت کی تفصیل پڑھ کر دکھ بھی ہوا اور رشک بھی کہ ایسی حالت میں بھی وہ اپنی ذمہ داری سے غافل نہیں رہے۔۔۔ اجلاس سے ان کی یہ کمٹ منٹ قابل ستائش ہے۔۔۔ اور میں بشمول منتظمین و حاضرین حاشیہ ان کے صحت یابی کے لیے دعا گو ہوں۔
تو۔۔ احباب حرف حکایت ! تصنیف صاحب کا ابتدائیہ بھی اب آ چکا ہے۔ جس کے مطابق نظم کے کچھ پہلو اب روشن نظر بھی آتے ہیں اور ہنوز کچھ گوشے پردۂ تاریکی سے دعوت اظہار پر اکساتے محسوس بھی ہوتے ہیں۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ نظم کا انجام ہی بہت سوں کو بولنے کا آغاز فراہم کر رہا ہے۔ شاید اسی لیے صاحب ابتدائیہ نے کچھ ایسے دوستوں کے نام بھی گنوا دیے ہیں جن کا تعلق ہندوستان سے ہے۔۔ میں امید کرتا ہوں کہ وہ تمام احباب اپنا اپنا حصہ ضرور ڈالیں گے۔ بلکہ ان کے تبصروں کا بالخصوص بے تابی سے انتظار بھی رہے گا۔ محترم ظفر سید صاحب کا شکریہ کا انہوں نے تصنیف صاحب کے اس اعلان کی تصحیح بھی فرما دی کہ نظم زیر موضوع ہندوستان کے پہلے شاعر کی نظم نہیں جو حاشیہ کے اجلاس میں پیش کی گئی بلکہ اس سے قبل جناب ستیہ پال آنند کی نظم پر بھی گفتگو ہو چکی ہے۔۔ سو زبیر رضوی صاحب ہندوستان کے دوسرے شاعر ہوں گے جن کی نظم اب زیر تبصرہ ہے۔
حاضرین کرام۔۔ جیسا کہ ا ابتدائیہ کے عنوان ہی سے ظاہر ہے کہ
بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔۔ تو بات کو دور تلک لے جانے کے لیے دیگر احباب کی آرا و اظہار کا بھی انتظار ہے۔ براہ کرم آگے بڑھیے اور محفل کو وقار بخشیے۔۔
واجد علی سید: جناب صدر!
برطانوی ناول نگار اور شاعر ایلن ہولنگ ہرسٹ نے جب 2004 میں بکر برائز جیتنے کے بعد ایک بیان میں کہا کہ ’خیال کی اہمیت خبر سے کہیں زیادہ ہے‘ یہ قول اس نظم کو پڑھتے ہی مجھے یا د آ گیا۔ بہت ہی سادہ الفاظ میں کوئی پیچیدہ خیال لکھا جا سکتا ہے تو وہ اس نظم سے واضح ہے۔ نظم گو نے روداد ایسی بیان کی کہ روزمرہ کے عام سے الفاظ بے معنی ہو گئے لیکن خیال کی وسعت بڑھتی چلی گئی۔ میں نے ’روز مرہ کے الفاظ‘ اس لئے کہا کہ نظم ایک دفعہ پڑھنے کے بعد دوبارہ دہرانے کی ضرورت ہی پیش نہ آ سکی۔ کس فارسی، عربی، یا اردو لفظ کا کیا مطلب ہو سکتا ہے جیسے گھمبیر معاملات سے قاری بچ جاتا ہے لیکن اس کے باوجود نظم میں پوشیدہ پیغام اس ذہنی طور پر ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ یوں کہئیے کم از کم میرے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ سب سے دلچسپ تجربہ جو نظم پڑھتے ہوئے مجھے ہو سکا وہ یہ تھا کہ نظم میں نزاکت اور پراسراریت قائم رہی، اور پڑھنے والا خود ہی نظم کا حصہ بن جاتا ہے۔ شاید یہی اس نظم کی خوبصورتی اور کامیابی ہے۔ جب قصہ گو نے آواز لگائی۔صاحبو!ـ تو جیسے وہ پڑھنے والے سے ہی مخاطب تھا۔ اور یوں آپ ایک ایک سطر کو جیتے ہیں۔ نظم پڑھتے ہوئے میں بھی اپنے بستر سے نکلا، قصہ گو کا انتظار کرنے لگا، اس بات پر حیران رہا کہ یہ آخری قصہ ہی کیوں ہے ؟ اور پھر جب میرا بھی انتظار سے بدن اونگھنے لگا تو حالات کی کروٹ نے جھنجھلا کر رکھ دیا۔ اور میں بھی قصہ گو کی کٹی زبان دیکھ کر ششدر رہ گیا۔
اس ناخوشگوار واقعہ نے ان سوالات کو جنم دیا کہ اس میں میرا، یعنی صاحبو یا قصہ سننے والوں کا کیا نقصان ہوا؟ کیا قصہ سے محرومی ان پر عود آئی یا اپنے جیسا ایک انسان تڑپتا دیکھ کر دل کو ہاتھ پڑا؟
ہم شاید اس کی بے بسی کی داستانیں سناتے پھریں گے، لیکن کیا اس جانب کسی کی توجہ جائے گی کہ آخر وہ کیا قصہ تھا جسے آخری قرار دے دیا گیا تھا۔ ـاسے آخری کہنے کا مطلب یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ قصہ گو اپنے انجام سے واقف تھا۔
کیا قصہ محض ایک خوس ساختہ کہانی کا بیانیہ ہی ہوتا ہے ؟ یا کسی سچ کا اظہار بھی؟ کیا ’صاحبو‘ وہ عام لوگ ہیں جنہیں سچ نہیں سنایا جا سکتا؟
آسمانی کتابیں قصوں کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ اور ان سب میں قرآن آخری کتاب ہے۔ اس میں قصے پیغام دیتے ہیں ، راہ راست پر آنے کا۔ انسان پر کیا گزری اور اسے زندگی کیسے گزارنی چاہیے، اسے کے حق میں کیا اچھا ہے، اور برائی سے جان کیسے چھڑائی جا سکے۔ یہ کتاب اتارتے بھی خدا نے اعلان کیا تھا کہ یہ آخری کتاب ہو گی۔ قصہ گو بھی آخری قصہ سنانے جا رہا تھا، جس کے بعد اور کوئی قصہ نہ ہوتا۔ شاید اگر قصہ سنا دیا جاتا تو وہ کہانی نہ ہوتی، اور اس کے سننے والے کسی تحریک کی شروعات کرتے۔
چارلز اولسن کے بقول "سچ بتانا کوئی دلچسپ عمل نہیں کیونکہ وہ خود بھی کسی حد تک ایک جھوٹ ہوتا ہے۔۔ لیکن صاحبو۔ قصہ گو تو اب خود ایک قصہ بن چکا ہے۔ اگر سقراط کے بارے یہ علم ہوتا کہ وہ لوگوں کو کون سا سچ بتانے جا رہا ہے تو کیا اسے بولنے سے پہلے ہی زہر نہ پلا دیا جاتا؟ کیا عیسیٰ نے خدا کی وحدانیت کا اعلان کیا تو اسے کیلوں سے ٹھونک دیا گیا، مگر تب تک اس کا سچ، اس کا قصہ، اس کا پیغام لوھوں کی رہنمائی کر چکا تھا۔ روایتی طور پر، اور تقریبا ہر ملک اور معاشرے میں سچ بولنے کی سزا گلا گھونٹنا اور زبان کاٹنا نہیں ؟
کیا اپنے اندر کے سچ کا بھی ہم ایسے ہی گلا نہیں گھونٹتے، اور وقتی طور پر چپ کرانے کے لئے اس کی زبان نہیں کاٹ دیتے، جب کہ آنکھوں کے آگے سچ کا تجربہ بھی کرتے رہتے ہیں ؟ ایسے ہی بہت سے سوالات نظم پڑھنے کے بعد ذہن میں جنم لیتے ہیں اور لگتا ہے کہ قصہ گو کا انجام تو منطقی تھا لیکن وہ قصہ جو نہ بتایا جا سکا بذات خود ایک تلاش، ایک تحریک اور ایک سوال بن کر سامنے کھڑا ہے۔ اور اب یہ سب کا اپنا اپنا قصہ ہے، اپنا اپنا سچ۔
محمد حمید شاہد: صدر محترم ! مجھے خوشی ہے کہ زبیر رضوی کی نظم "انجام قصہ گو کا”پر بات چل نکلی ہے۔ یامین نے گفتگو کو لائق توجہ آغاز دیا، علی محمد فرشی نے نظم کی ایک اور جہت دکھائی، تالیف حیدر اور واجد سیدنے بات آگے بڑھائی اور اپنی علالت کے باوجود تصنیف حیدر نے تاخیر سے سہی ابتدائیہ عنایت فرمایا۔ تصیف کی اس بات نے مجھے اندر سے لرزا کر رکھ دیا ہے کہ :
” نظم کے معاملے میں تو ہمارا عصری منظرنامہ بڑا کنگال نکلا۔ ” تاہم مجھے عین اسی لمحے خوشی بھی ہوئی کہ وہ کم از کم نظم کے تین ایسے شاعر بھی نشان زد کر گئے ہیں جن پر بات ہو سکتی ہے۔ زبیر رضوی، محمد علوی اور شارق کیفی۔ زبیر رضوی پر بات ہو رہی ہے محمد علوی اور شارق پر بھی مکالمہ قائم ہونا چاہئیے۔
زبیر رضوی کا نام سامنے آتے ہی مجھے اسلام آباد میں ان سے اپنی تشنہ سی ملاقاتیں یاد آئیں اور دو نظمیں بہ طور خاص۔ دونوں کا ذکر تصنیف نے اپنے نوٹ میں کر دیا ہے ” صادقہ” اور” علی بن متقی رویا” پہلی طویل نظم کے کئی ٹکڑے میں نے پڑھ رکھے ہیں اور ان میں سے ایک ٹکڑا تو آج کی اس بحث میں میں ٹانکنے جا رہا ہوں جب کہ ” علی بن متقی رویا” کی بابت مجتبیٰ حسین کا ایک دل چسپ مضمون پڑھا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا:
” چھ سات برس پہلے میں نے زبیر کی ایک نظم ‘ علی بن متقی رویا ‘ پڑھی تھی۔ نظم بہت اچھی تھی اور نظم میں علی بن متقی کے رونے کی وجوہات بھی خاصی معقول تھیں۔ علی بن متقی ہی کیا اگر ہم بھی ان حالات میں گرفتار ہوتے تو ضرور رو دیتے۔ بلکہ دہاڑیں مار مار کر روتے۔ اس نظم کی اشاعت کے بعد جگہ جگہ علی بن متقی کے رونے کے نہ صرف چرچے ہونے لگے بلکہ اس کے رونے کی آواز دور دور تک سنائی دینے لگی بلکہ ایک بار میرے دل میں خیال آیا کہ نہ جانے یہ علی بن متقی کون ہے ؟۔۔۔ سوچاکہ زبیر سے ہی پوچھ لوں۔ پھر سوچا کہ اگر علی بن متقی ہمارے ماضی کا کوئی مشہور کردار نکلا۔۔۔۔ تو زبیر یہ سوچیں گے کہ دیکھو کیسا جاہل آدمی ہے۔ علی بن متقی کو نہیں جانتا۔۔۔۔ چند دنوں بعد دیکھا تو یہی علی بن متقی بانی کی ایک غزل میں بھی دہاڑیں مار مارکر رو رہا ہے۔۔۔ بانی سے بھی اس بدنصیب کے بارے میں پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ میں نے سوچا کہ اگر یہ اسلامی تاریخ کا کوئی عظیم کردار نکلا تو بانی کہے گا ‘ تمہیں شرم آنی چاہیے۔ میں ہندو ہونے کے باوجود علی بن متقی کو جانتا ہوں اور تم مسلمان ہونے کے باوجود اپنے ہی مذہب اور اپنی ہی روایت سے بیگانہ ہو۔ لعنت ہے تم پر۔۔۔ کچھ عرصہ گزرا تو دیکھا کہ یہی علی بن متقی اب کی بار محمد علوی کی ایک نظم میں رو رہا ہے۔ پھر کیا تھا۔ اردو کے کئی شاعر مل کر اس علی بن متقی کو اپنے پڑھنے والوں سمیت اپنے کلام تعزیت نظام سے رُلانے لگے۔ "
وہ سب جو زبیر کی دیکھا دیکھی اسے تاریخی کردار سمجھتے ہوئے اپنی شاعری میں بھی رلانے لگے تھے یہ جانے بغیر کہ زبیر کو ایسے خیالی کردار کردار تخلیق کرنے میں لطف آتا تھا۔ مجتبی حسین کا کہنا ہے کہ "اس رات میرے علاوہ غالباً بانی اور محمد علوی کو بھی پتہ چلا کہ علی بن متقی کوئی اصلی کردار نہیں ہے اور یہ کہ اُسے خواہ مخواہ رُلانا کوئی اچھا کام نہیں ہے۔ اگر میں اس رات نہ ٹوکتا تو علی بن متقی اردو شاعری میں بدستور روتا رہتا”
مجتبی حسین نے اس مثال سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ زبیر کس طرح اپنے معاصرین پر اثر انداز ہوتے ہیں اور معاصرین کس طرح ان کی تقلید کرتے ہیں۔ سو، اپنے معاصرین پر اثر انداز ہونے والے اس نظم نگار کی ایسی نظم پر بات ہو رہی ہے کہ جس کے رونے والے علی بن متقی جیسے کردار کی زبان کٹ گئی ہے تو ایسے میں میں نے تالیف حیدر کی بات نہ مانی اور اپنے آپ کو صرف اس نظم تک محدود نہ رکھا اسے سمجھنے کے لیے تخلیق کار کی سمت دیکھا اور اس کی دوسری نظموں کی جانب بھی۔ اور ایسا میں اس اندیشے کی وجہ سے کر رہا ہوں جس کی جانب خود زبیر رضوی نے اشارہ کر رکھا ہے :
حادثے خاص جو گزرے ہم پر
گفتگو میں وہی شامل نہ کیے
سو اس گفتگو میں ان خاص حادثوں کو ذکر ضرور ہو نا چاہئے جو نظم کے متن کا تہذیبی پس منظر اجالتے ہیں۔ اچھا، اب تک ہمیں خبر دی جا چکی کہ یہ زبیر رضوی کی نظموں کے ایک سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اصولاً اس نظم میں بیان کیا گیا قضیہ تشنہ ہونا ہی چاہئیے تھا سو اس تشنگی کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ اس سلسلہ کی باقی نظموں کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔ میں نہیں جانتا کہ اس سلسلہ کی کل کتنی نظمیں زبیر رضوی نے لکھ رکھی ہیں کہ میرے سامنے محض اس سلسلہ کی وہ چار نظمیں ہیں جو ایک ساتھ مبین مرزا نے اپنے جریدہ مکالمہ میں ۲۰۰۰ میں چھاپی تھی ” صفا اور صدق کے بیٹے "، "بنی عمران کے بیٹے "، "قصہ گورکنوں کا” اور زیر نظر نظم”انجام قصّہ گو کا”۔ ایک اور نظم، اسی سلسلہ کی کڑی جو مجھے دستیاب ہوئی، وہ ہے "کتّوں کا نوحہ”۔
احباب حاشیہ!
یہ جو پانچ نظمیں میں نے اوپر نشان زد کی ہیں ان سب کا آغاز یہ کہہ کر ہو رہا ہے :
"پرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے "
نظم” صفا اور صدق کے بیٹے ” میں جس پرانی بات کو لیا گیا ہے اس کا تعلق "سوادِ شرق” کے ایک ایسے شہر سے ہے جو تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا پھر ایک سانحہ ہوا، شور اُٹھا، جیسے زمین کے تڑخ جانے کا شور ہوتا ہے، ندی میں جیسے باڑھ آ جائے یا جیسے کوئی کوہِ گراں اپنی جگہ سے ہٹ جائے۔ اس اس کہرام کے ہنگام کہ جب خلقت متاع و مال سے محروم، ننگے سرگھروں سے چیخ کر نکلی تھی آلِ صفا و صدق کے خیمے اپنی جگہ قائم رہے تھے۔ اور ان خیموں والے ہڑبڑا کر باہر نہیں نکلے تھے :
"روایت ہے / صفا و صدق کے بیٹے / ہمیشہ رات آتے ہی/ حصارِ حمد/ اپنے چار جانب کھینچ لیتے تھے / مقدس آیتوں کو اپنے پہ/دم کر کے سوتے تھے /روایت ہے / بلائیں اُن کے دروازوں سے /واپس لوٹ جاتی تھیں /سوادِ شرق کا وہ شہر/اُس شب ڈھیر تھا/لیکن/صفا و صدق کی اولاد کے خیمے نہیں اُکھڑے !”
حصا حمد کھینچنے والے صدق و صفا کے بیٹوں کی کہانی، جو زبیر رضوی نے سنائی اسے ذہن میں تازہ رکھیے اور بنی عمران کے بیٹوں نے اس کہانی کو جیسے اوندھایا اسے آنکیے۔ نظم "بنی عمران کے بیٹے ” کے کرداروں کو شادابی، امارت اور ثروت ورثے میں ملی تھی، ان کے تہہ خانے جواہر سے بھرے ہوتے۔ اور وہ اپنی کنیزوں اور داشتاؤں کے جواں جسموں کی انمول سوغاتوں میں مست رہتے :
"مصاحب رات بھر دیوان خانوں میں /بنی عمران کی عیّاشیوں کی/داستاں کہتے /رو پہلی صحبتوں کا تذکرہ کرتے /۔۔۔ "
یہی مصاحب نشے میں چور بنی عمران کے بیٹوں کی بد اعمالیوں کو اخفا میں رکھنے پر بھی مامور تھے۔
"مصاحب داخلہ پاتے /بنی عمران کی بدکاریوں کو/نیچے تہ خانے میں جا کر دفن کر آتے !”
اس سلسلہ کی تیسری نظم "قصہ گورکنوں کا” میں جو پرانی بات ایک قصے کی صورت سامنے لائی گئی ہے وہ ایسے گورکنوں کے بارے میں ہے جو ہمیشہ چار چھ قبریں مرنے والوں کے لیے تیار رکھتے تھے۔ مرنے والوں پر روتے، اس کے اچھے اعمال کا ذکر کرتے اس کے عزیزوں سے تعزیت کرتے اور جنازوں کو کندھا دے کر دفنانے ان قبروں کے پاس لاتے جو انہوں نے پہلے سے کھود رکھی ہوتی تھیں۔ چالیس دن تک قبروں پر روشنی کرنے اور ہر جمعہ کو سپارے پڑھ کر مغفرت کی دعا کرنا ان کا وتیرہ تھا۔ مگر یوں ہے کہ اب ان کی اولادیں جوان ہو گئی ہیں اور قبریں خستہ۔ ان خستہ قبروں کو اس نئی نسل نے لوحیں اکھاڑ کر ہموار کر دیا ہے۔ یہ نسل بھی اپنے بڑوں کی طرح مرنے والوں پر روتی، ان کے عزیزوں سے تعزیت کرتی اور جنازوں کو کندھا دیتی ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :
"مگر جب رات آتی تو/وہ قبریں کھودتے /اور تازہ دفنائی ہوئی لاشوں کو/لا وارث بنا کر/شہر کے مردہ گھروں کو بیچ آتے تھے۔ "
"انجام قصہ گو کا” کی طرف آنے سے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس چوتھی نظم کو بھی دیکھ لیا جائے جو "مکالمہ” میں شائع ہونے والی نظموں سے الگ چھپی مگر اسی طرح کا پرانا قصہ سنا رہی ہے۔ جی میں "کتّوں کا نوحہ” کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس میں "بنی قدوس کے بیٹوں "کا دستور بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی وہ اپنی شمشیریں ہمیشہ بے نیام رکھتے۔ وہ مسلح ہو کر سوتے۔ اور ان کے خوبرو گبرو کمانوں میں تنے ہوئے تیروں کی صورت رات بھر مشعل بکف خیموں کے باہر جاگتے رہتے تھے۔ بنی قدوس کے ان بیٹوں کا وتیرہ تھا کہ وہ بلاؤں اور عذابوں کوہمیشہ لغزشِ پا کا صلہ گردانتے اور گناہوں سے حذر کرتے تھے مگر۔۔۔۔۔۔۔
"مگر اک دن/کہ وہ منحوس ساعت تھی خرابی کی/زنانِ نیم عریاں دیکھ کر خانہ بدوشوں کی/کچھ ایسے مر مٹے /جب رات آئی تو
بنی قدوس کے بیٹوں کی شمشیریں /نیاموں میں پڑی تھیں /اور دیواروں پہ لٹکی تھیں /وہ پہلی رات تھی /خیموں کے باہر گھپ اندھیرا تھا/فضا میں دور تک/کتّوں کی آوازوں کا نوحہ تھا”
سو احباب حاشیہ کتوں کے اس نوحے کی آوازوں میں اس سلسلہ کی وہ نظم پڑھیے جس میں اس قصہ گو کا انجام بتایا گیا ہے جو آخری قصہ سنانا چاہتا تھا، اپنے سلف کا آخری قصہ۔ اپنے تہذیبی ماضی سے جوڑ دینے والا صدق و صفا کے بیٹوں کا قصہ، حصار حمد کھینچنے والوں کا قصہ اور ساتھ ہی اس تہذیبی دھارے میں رخنے ڈالنے والے بنی عمران کے بیٹوں کا قصہ اور ان گورکنوں کا قصہ بھی جو ہماری لاشیں تک بیچ کھاتے ہیں۔ سو ایسے میں زبان کا کٹ جانا ہی کہانی کو، اور آخری قصے کو مکمل کرتا ہے۔
"قصّہ گو برگد تلے
بے حس پڑا تھا
اُس کی آنکھیں
آخری قصّہ سنانے کی تڑپ میں جاگتی تھی
پر زباں اُس کی کٹی تھی
قصّہ گو کا، ان کہا
اپنے سلف کا
آخری قصّہ لبوں پر کانپتا تھا
علی محمد فرشی: جنابِ صدر! تصنیف کی جس بات یعنی” نظم کے معاملے میں تو ہمارا عصری منظرنامہ بڑا کنگال نکلا۔ ” نے حمید کو اندر سے لرزا کر رکھ دیا تھا، نہ جانے کیوں ، مجھے باہر سے بھی ٹس سے مس نہ کر سکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جدید عہد نے روایتی دبستانوں مثلاً ” دبستانِ دہلی”، ” دبستانِ لکھنٔو”، ” دبستانِ لاہور”یا ” دبستانِ سرگودھا” کا تصور ختم کر دیا ہے۔ ستر کی دہائی ہی کو لیجیے راولپنڈی اسلام آباد کو "شہرِ افسانہ” کا لقب مل گیا تھا، کیوں کہ قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، مسعود مفتی، خالدہ حسین، رشید امجد، منشا یاد، اعجاز راہی، مظہرالاسلام، مرزا حامد بیگ، احمد داؤد، احمد جاوید، صغیر ملال اور اقبال فریدی جیسے افسانہ نگاروں کا جم غفیر یہاں جمع تھا۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ عصرِ حاضر میں نظم کے نمائندہ شعرا کی اکثریت راولپنڈی اسلام آباد ہی میں جمع ہے تو اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکے گا لیکن اس معاملے میں "شہر نظم” کی اصطلاح مستعمل نہیں ہوئی۔
خاص طور پر "حاشیہ” نے تو بحث کے لیے نظم کے چناؤ کے معاملے مقامی/ غیر مقامی، پاکستانی، ہند ستانی یا برِ صغیر سے باہر عارضی یا مستقل سکونت پذیر جیسے کسی تعصب کو بنیاد نہیں بنایا۔۔ یہاں صرف معیاری تخلیق کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔ اب اگر ہندستان میں نظم کی تخلیقی رفتار دھیمی ہے تو اس پر نادم ہونے یا کفِ افسوس ملنے کی بھی ضرورت نہیں۔ تنقیدی ادب میں وہاں کئی ایسے بڑے نام موجود ہیں جن پر پوری اردو دنیا فخر کر سکتی ہے۔ پھر جن تین چار بل کہ پانچ (مع جینت پرمار)نظم نگار کو ہندستان کی نمائندگی کے لیے موجود ہیں تو فکر مندی کی ضرورت نہیں۔ ایک اور بات کا بھی ہمیں خیال رکھنا ہو گا کہ حاشیہ پر بحث کا معیار قدرے زیادہ ہی بلند ہے اور اب تک اس فورم نے معیار کی جو روایت قائم کی ہے اس پر ہر نظم کا پورا اترنا مشکل ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اچھی نظم لکھی ہی نہیں جارہی البتہ بڑی نظم کا سوال ضرور موجود ہے۔۔ ویسے دیکھا جائے تو بڑا ادب اتنی کثرت سے پیدا بھی نہیں ہوتا۔
علی محمد فرشی: اس میں کوئی شک نہیں کہ زیرِ بحث نظم ایک مکمل تخلیقی اکائی ہے اس لیے اس کی ساخت میں کسی خلا کے باعث ہمیں اس پر بحث کرنے میں مشکل نہیں پیش آنی چاہیے لیکن بہ ہرحال یہ "پرانی بات ہے ” کے عنوان سے لکھی گئی ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ نظموں کی آخری نظم ہے اس لیے اس کے مطالعہ میں اس سیٹ کی دیگر نظموں سے مدد لینے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔
مجھے اس سلسلے کی 17 نظموں کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا ہے اس سیٹ کا آغاز ” علی بن متقی رویا” سے ہوتا ہے اور اختتام زیرِ بحث نظم "انجام قصہ گو کا”پر۔ صرف ابتدائی اور آخری نظم ہی کو گہری نظر سے دیکھا جائے تو موضوعاتی دائرہ بنتا دکھائی دیتا ہے۔ علی بن متقی امامِ مسجد ہے اور ایک جمعہ کو جب خطبے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو دیکھتا ہے کہ مسجد نمازیوں سے خالی پڑی ہے۔ اس سانحے نے امام پر رقت طاری کر دی۔ وہ اس شدت سے رویا کہ دیکھتے ہی دیکھتے کبوتروں کے غول کے غول مسجد میں اترنے لگے اور پلک جھپکنے میں تمام صفیں بھر گئیں۔ ملا ہماری شعری روایت میں صداقت کی بہ جائے منافقت کا استعارہ ہے۔ شاعر کا کمال ہے کہ اس نے اس کردار کے متعین معنی کو ریزہ ریزہ کر کے یک سر متضاد معانی دے دیے ہیں۔ اس کردار کے صدق کی قوت اتنی بڑھ گئی تھی کہ فطرت خود اس کے ساتھ آ کھڑی ہوئی۔
ان سلسلے کی تمام نظموں جو بنیادی تنازعہ بنتا ہے وہ "تہذیبی انہدام” ہے۔ جس سے فرد مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ آپ کہیں گے کہ ایک سانس میں دو باتیں ؟ ابھی تواکیلے امام کی فطرت کو فتح کر لینے کی بات ہو رہی تھی! خیال رہے کہ وہ فینٹسی تھی۔ امام کا رویا بھی ہو سکتا ہے۔ نظم کے تجزیہ میں ہم پر یہی حقیقت منکشف ہو گی کہ مسجد میں نمازیوں کا آنا ختم ہو گیا ہے۔ پہلی نظم کا خمیر مذہب سے اٹھا ہے تو آخری نظم کا ادب سے۔۔۔۔۔ یوں ان دو بڑے معاشرتی نصف کروں سے نظموں کے اس سلسلے کا دائرہ مکمل کیا گیا ہے۔ مجھے تو یہ تمام نظمیں ایک ہی موضوعاتی دھاگے میں پروئی ہوئی اور یکساں اسلوبیاتی رنگ میں رنگی ہوئی محسوس ہوئی ہیں۔ ہر نظم کا آغاز انھی دو مصرعوں سے ہوتا ہے :
” پرانی بات ہے
لیکن یہ ان ہونی سی لگتی ہے "
گویا ایک "ان ہونی” یعنی تہذیبی انہدام تمام نظموں کو ایک بڑی اکائی کا حصہ بنا دیتا ہے۔ اس کے باوجود کہ ہر نظم اپنی جگہ ایک خود مختار وجود بھی رکھتی ہے۔
ظفر سیّد: جنابِ صدر: جیسا کہ کئی احباب نے اپنے تبصروں میں لکھا ہے، زبیر رضوی کی نظمِ زیرِ بحث اکائی نہیں بلکہ نظموں کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس سیریز کی چند اور نظمیں بھی یہاں پیش کر دی جائیں تاکہ جن دوستوں کے پاس زبیر رضوی کی کتابیں موجود نہیں ہیں ، انھیں بھی اندازہ ہو جائے کہ بقیہ نظمیں کس مزاج کی ہیں۔ ان دوستوں کی سہولت کے لیے میں نے انٹرنیٹ ساگر کی تہہ سے نکال کر پانچ نظمیں یہاں پیش کر رہا ہوں۔
————-
علی بن متّقی رویا
پُرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے
علی بن متقی مسجد کے منبر پر کھڑا
کچھ آیتوں کا ورد کرتا تھا
جمعہ کا دن تھا
مسجد کا صحن
اللہ کے بندوں سے خالی تھا
وہ پہلا دن تھا
مسجد میں کوئی عابد نہیں آیا
علی بن متقی رویا
مقدس آیتوں کو مخملیں جُز دان میں رکھا
امامِ دل گرفتہ
نیچے منبر سے اُتر آیا
خلا میں دور تک دیکھا
فضا میں ہر طرف پھیلی ہوئی تھی
دھُند کی کائی
ہو ا پھر یوں
منڈیروں ، گنبدوں پر
ان گنت پر پھڑپھڑائے
کاسنی، کالے کبوتر صحن میں نیچے اُتر آئے
وضو کے واسطے رکھے ہوئے لوٹوں پہ
اک اک کر کے آ بیٹھے
امامِ دل گرفتہ
پھر سے منبر پر چڑھا
جُز دان کو کھولا
صفوں پر اک نظر ڈالی
وہ پہلا دن تھا مسجد میں
وضو کا حوض خالی تھا
صفیں معمور تھیں ساری!
————-
قصہ گورکنوں کا
پُرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سے لگتی ہے
وہ ایسے گورکن تھے
چار، چھ قبریں
ہمیشہ مرنے والوں کے لئیے تیار رکھتے تھے
کوئی مرتا
تو وہ روتے
سیہ چادر لپیٹے مرنے والے کی
بہت سی خوبیوں کا تذکرہ کرتے
اعزّا، اقربا سے تعزیت کرتے
جنازہ اپنے کاندھوں پر اُٹھاتے
اور دفناتے ہوئے ہر رسم کی تکمیل کرواتے
وہ ایسے گورکن
چالیسویں دن تک
سبھی تازہ بنی قبروں پہ
ہر شب روشنی کرتے
جمعہ کے دن
سپارے پڑھ کے
مرحومین کے حق میں
دعائے مغفرت کرتے
مگر اک دن کہ جب
قبریں پُرانی اور خستہ ہو چکی تھیں
اُن کی اولادوں نے
قبروں پر لگی لوحیں اُکھاڑیں
تازہ قبروں کے لئے ہر سو
زمیں ہموار کی
وہ بھی
بزرگوں کی طرح روتے
سیہ چادر لپیٹے مرنے والے کے
اعزّا، اقربا سے تعزیت کرتے
جنازہ اپنے کاندھوں پر اُٹھاتے
اور دفناتے ہوئے ہر رسم کی تکمیل کرواتے
مگر جب رات آتی تو
وہ قبریں کھودتے
اور تازہ دفنائی ہوئی لاشوں کو
لا وارث بنا کر
شہر کے مردہ گھروں کو بیچ آتے تھے۔
—————
صفا اور صدق کے بیٹے
پرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے
سوادِ شرق کا اک شہر
تاریکی میں ڈوبا تھا
اچانک شور سا اُٹھا
زمیں جیسے تڑخ جائے
ندی میں باڑھ آ جائے
کوئی کوہِ گراں جیسے
جگہ سے اپنی ہٹ جائے
بڑا کہرام تھا
خلقت
متاع و مال سے محروم، ننگے سر
گھروں سے چیخ کر نکلی
مگر آلِ صفا و صدق کے خیمے نہیں اُکھڑے
وہ اپنی خواب گاہوں سے نہیں نکلے
روایت ہے
صفا و صدق کے بیٹے
ہمیشہ رات آتے ہی
حصارِ حمد
اپنے چار جانب کھینچ لیتے تھے
مقدس آیتوں کو اپنے پہ
دم کر کے سوتے تھے
روایت ہے
بلائیں اُن کے دروازوں سے
واپس لوٹ جاتی تھیں
سوادِ شرق کا وہ شہر
اُس شب ڈھیر تھا لیکن
صفا و صدق کی اولاد کے خیمے نہیں اُکھڑے !
—————–
بنی عمران کے بیٹے
پُرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے
بنی عمران کے بیٹوں کی
شادابی کا عالم تھا
امارت اور ثروت
ان کو ورثے میں ملی تھی
اُن کے تہہ خانے جواہر سے بھرے ہوتے
کنیزیں ، داشتائیں
جسم کی انمول سوغاتیں لئے
کھل کھیلتی رہتیں
مصاحب رات بھر دیوان خانوں میں
بنی عمران کی عیّاشیوں کی
داستاں کہتے
رو پہلی صحبتوں کا تذکرہ کرتے
اچانک مخملیں پردے سرکتے
اک پری چہرہ
الف لیلیٰ کے سب سے خوبصورت
جسم کی صورت
تھرکتی، دف بجاتی
خواہشوں کو دعوتیں دیتی
بنی عمران کے بیٹے
اشارہ کرتے اور سارے مصاحب
سر جھکائے، تخلیہ کرتے
بنی عمران کے بیٹے
نشے میں چُور
اپنی خواب گاہوں سے نکلتے
صبح سے پہلے
سپیروں کو بُلاتے
اور الف لیلیٰ کے
سب سے خوبصورت جسم کو
سانپوں سے ڈسواتے
مصاحب داخلہ پاتے
بنی عمران کی بدکاریوں کو
نیچے تہ خانے میں جا کر دفن کر آتے !
—————-
کتّوں کا نوحہ
پُرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سے لگتی ہے
بنی قدوس کے بیٹوں کا
یہ دستور تھا
وہ اپنی شمشیریں
نیاموں میں نہ رکھتے تھے
مسلح ہو کے سوتے تھے
اور اُن کے خوبرو گبرو
کسے تیروں کی صورت رات بھر
مشعل بکف
خیموں کے باہر جاگتے رہتے
بنی قدوس کے بیٹے
بلاؤں اور عذابوں کو
ہمیشہ لغزشِ پا کا صلہ گنتے
گناہوں سے حذر کرتے
مگر اک دن
کہ وہ منحوس ساعت تھی خرابی کی
زنانِ نیم عریاں دیکھ کر خانہ بدوشوں کی
کچھ ایسے مر مٹے
جب رات آئی تو
بنی قدوس کے بیٹوں کی شمشیریں
نیاموں میں پڑی تھیں
اور دیواروں پہ لٹکی تھیں
وہ پہلی رات تھی
خیموں کے باہر گھپ اندھیرا تھا
فضا میں دور تک
کتّوں کی آوازوں کا نوحہ تھا!
۔۔۔۔۔
محمد حمید شاہد: اکبر اعظم کے عاقل اور حکیم وزیر ابوالفضل نے اپنے دور کا تقابل گزرے وقتوں سے کرتے ہوئے کہا تھا :
” ہمارے دور میں لوگ عقل کی مدد سے چلتے ہیں اور اگر بصیرت سیکھنی ہو تو انسانوں ہی سے سیکھتے ہیں۔ مگر یہ پرانے لوگ بھی عجیب لوگ تھے کہ کہانیوں کے بغیر حکمت و بصیرت تک پہنچتے ہی نہیں تھے۔ "
علی محمد فرشی نے اس سلسے ی کی نظموں کی درست تعداد بتا دی اور ظفر سید نے ہم جنس نظموں کا متن فراہم کر کے اس خیال کو تقویت دی کہ تہذیبی انہدام کے چرکے ہمارے نظم نگار دوست کے باطنی وجود پر پڑ رہے ہیں سو اس نے اپنے وجود کی ان چیخوں کو اپنی شاعری کے اس سلسلے تخلیقی روپ دینے کی سعی کی ہے۔ زبیر رضوی نے اپنی بات راست کہنے کی بہ جائے ایک قصہ گو کا روپ دھارا ہے گزر چکی تہذیب کی جھلک دکھانے والا، "پرانی بات ہے /لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے ” کہہ کر اپنے قاری کے دل میں ماضی کی جانب توجہ اورحیرت کی بنیاد رکھنے والا۔ "فن کی انتہا حیرت ہے ” یہ گوئٹے نے کہا تھا۔ اچانک پن اور تحیر آفرینی میں کہی جانے والی کہانی کی دل کشی کا راز پوشیدہ ہوتا ہے۔ "اردو کی نثری داستانیں ” میں گیان چند جین نے لکھا تھا کہ لکھنو میں ایک بار دو ماہر فن داستان گو یوں کا مقابلہ ہوا کہ کون کتنی دیر داستان کو روک سکتا ہے قصہ نکتہ عروج پر پہنچتا اور وہاں جا کر جہاں حیرت اور اشتیاق بھی نقطہ عروج کو چھو رہے ہوتے۔ وہ قصہ روک دیتا۔ اگلی صبح وہی قصہ آگے بڑھتا۔ اس کا کمال یہ تھا کہ کیسے نازک مقام پر داستاں روک دی۔
سو زبیر نے بھی ماضی سے کٹنے کے المناک سانحے کو بیان کرنے کے لیے، اسی چلن کو اپنایا ہے۔ زبان کا کٹنا دراصل اپنے ماضی اور اس اجتماعی حافظے سے کٹنا ہے جو قصہ بن کر لہو میں گردش کرنے لگتا تھا۔ زبیر کے لہو میں اس قصے کی گرمی کچھ یوں زیادہ ہے کہ اس کا بچپن امروہہ میں پیر زادوں کے محلے کی گھاٹے کی گلی میں گزرا۔ ہندوستان کے مقتدر عالم دین مولانا احمد حسن محدث امروہوی جس کے دادا ہوں ، وہ جتنا بھی سیکولر ہو لے، اپنے تہذیبی حافظے کی سلیٹ کو صاف نہیں کر سکتا تھا، ایسے میں تو بالکل نہیں کہ والدہ، واعظ تھی، انہوں نے لوریوں کی بہ جائے، اسی تہذیبی وعظ کی گھٹی پلائی ہو۔ سو یہ تہذیبی اثاثہ اور اس سے کٹنے کا دکھ اس کے تخلیقی عمل میں ایک موٹیف کی صورت سامنے آتا ہے۔
میں نے اپنے گذشتہ نوٹ میں زبیر کی طویل نظم "صادقہ” کا ایک ٹکڑا ٹانکنے کی بات کی تھی مگر اس کا موقع اب نکل رہا ہے۔ میں نے اس نظم کا یہ حصہ ذہن جدید میں 2005 میں پڑھا تھا۔ یہاں اس ٹکڑے کو ٹانکنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ مسئلہ جو ہم نے نظموں کے اس خاص سلسلے میں دریافت کیا وہ تو زبیر کے تخلیقی مزاج کو متشکل کرتا ہے۔ لیجئے، آپ خود فیصلہ کر لیجئے :
"صادقہ، میں ضمیر کی آخری کشت زعفراں /وقت کے پیرہن پہ ہوں صورت ماہ و کہکشاں /میری نوا کی برہمی مثل جلال آسماں /درد کے ریگزار میں /میں ہوں صدائے سارباں /۔۔۔۔۔ /شاہ نے اور وزیر نے ساری زمین گھیر لی /اور ہمارے واسطے ٹکڑا زمین چھوڑ دی/جسم پہ زخم چن دیے درد کے بیج بو دیے /ایسا سلوک بد کیا حرماں نصیب رو دیے /نظم جہاں کی تیرگی پی گئی ساری روشنی/اس کے لبوں پہ جم گئی میرے لہو کی روشنی/۔۔۔۔ /مسند اقتدار تک ان کو رسائی مل گئی/خاک میں جو ملا گئے میری بہشت عنبریں /دشمن قیس و کوہکن بام عروج تک گئے /ہجر کی دھوپ چھوڑ دی باد وصال لے گئے /تیرہ فروش عاشق ماہ نجوم بن گئے /میرے تمہارے واسطے دارو و صلیب دے گئے /قید قفس سنا گئے /۔۔۔۔ /صادقہ/میرے ہاتھ میں اپنا حنائی ہاتھ دو /عرصہ کارزار میں تم میری ہم قدم بنو/آؤ کسی پہاڑ سے آدم خاک کے لیے /دست دعا اٹھائیں ہم /صوت و صدا کی مشعلیں /چار طرف جلائیں ہم !!”
نظم صادقہ کے اس طویل ٹکڑے کو یہاں نقل کرنے کا ایک مقصد تو یہی ہے کہ ہم زبیر کے تخلیقی قضیے سے آگاہ ہوں مگر میں اس حیلے بہانے آپ کو اس سوال کی جانب بھی لے آیا ہوں کہ آخر۔ آخری قصہ کہنے والے کی زبان کس نے کاٹ دی؟۔ خود اس نے کاٹ لی یا کوئی اور تھا؟ وہ خود تھا تو کیوں ؟ اور کوئی اور تھا تو بھی کیوں ؟؟ نظم کی ابتدا میں اک شب وعدہ کا منظر نامہ دکھایا گیا ہے :
"وہ شب وعدے کی شب تھی/گاؤں کی چوپال/پوری بھر چکی تھی/تازہ حقّے ہر طرف رکھے ہوئے تھے /قصّہ گو نے /ایک شب پہلے کہا تھا/صاحبو/تم اپنی نیندیں بستروں پر چھوڑ کر آنا/میں کل کی شب تمھیں /اپنے سلف کا/آخری قصّہ سناؤں گا/جگر کو تھام کر کل رات تم چوپال میں آنا/وہ شب وعدے کی شب تھی”
اس سارے منظر نامے میں نظم نگار نے بستی والوں کا قصہ گو کی طرف متوجہ ہونا نشان زد کر دیا ہے، ایک ایسا تعلق قائم کر دیا ہے جو انہیں منقلب کر سکتا تھا جہاں چوپال اور تازہ حقے جیسے الفاظ قصے کے لیے فضا بنا رہے ہیں وہیں اس قصے کے ساتھ جڑنے کی تاہنگ کو اس مطالبے کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے کہ انہیں اپنی نیندیں اپنے بستروں میں چھوڑ کر آنا ہوں گی۔ سو بستی والے اپنے سلف کے قصے سے جڑنے کے لیے اپنا اپنا جگر تھام کر آنے کو تیار تھے۔ یہی منظر نامہ ایسا نہیں ہے کہ نظم نگار اس میں قصہ گو سے اس کی اپنی زبان کٹوا دیتا۔ سو یہاں سے قصہ گو کا اپنا قصہ ہمیشہ کے لیے روک دینے کے معنی منہا ہو جاتے ہیں۔ جب قصہ گو اپنے سلف سے بستی والوں کو جوڑنے کے لیے شب وعدہ آنا چاہتا تھا اور بستی والے بھی اس سے جڑنا چاہتے تھے تو یقیناً یہ تیسری قوت تھی جس کے مفادات پر زد پڑ رہی تھی وہی حرکت میں آ گئی تھی۔ پھوسونگ لینگ کی "عجیب و غریب کہانیاں ” رشید بٹ نے ترجمہ کی تھیں جو 1984 میں بیجنگ سے چھپیں۔ اس میں ان کہانیوں کی علامتی حیثیت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کی بہت سی کہانیاں حکمرانوں کے ہاتھوں عوام کے استحصال کی علامت ہیں اور حکمران طبقے سے اظہار نفرت کے لیے۔ اسی کتاب کے آخر میں مترجم نے نصیر الدین آفندی کا ایک چٹکلہ بھی شامل کر دیا ہے۔ آفندی نے دوستوں کے سامنے بڑ ہانکی "میں پرندوں کی بولیاں بھی سمجھ لیتا ہوں ، بات ہوتے ہوتے بادشاہ کے کانوں تک پہنچی۔ ایک دن بادشاہ نے آفندی کو ساتھ لیا اور شکار پر نکل گیا۔ چلتے چلتے وہ ایک کھنڈر میں پنچیں جہاں الو بول رہا تھا۔ بادشاہ نے آفندی سے پوچھا "یہ الو کیا کہہ رہا ہے "۔ عالیجاہ، الو کہہ رہا ہے کہ اگر بادشاہ اپنی رعایا پر ظلم و ستم کرتا رہا تو ایک دن اس کی سلطنت اس کھنڈر کی طرح برباد ہو جائے گی۔ ” اپنے تہذیبی ماضی سے کٹنے اور اپنے ہی ستم ڈھاتے حکمرانوں کی وجہ سے کھنڈر ہو جانے والے منظر کے ساتھ نظم کے اس بیانیے کو جوڑ کر دیکھیے :
گاؤں کی چوپال پوری بھر چکی تھی/رات گہری ہو چلی تھی/حقّے ٹھنڈے ہو گئے تھے /لالٹینیں بجھ گئی تھیں /گاؤں کے سب مرد و زن/اُس قصّہ گو کی راہ تکتے تھک گئے تھے /دُور تاریکی میں گیدڑ اور کتے /مل کے نوحہ کر رہے تھے /دفعتاً بجلی سی کوندی/روشنی میں سب نے دیکھا/قصّہ گو برگد تلے /بے حس پڑا تھا/اُس کی آنکھیں /آخری قصّہ سنانے کی تڑپ میں جاگتی تھی/پر زباں اُس کی کٹی تھی/قصّہ گو کا، ان کہا/اپنے سلف کا/آخری قصّہ لبوں پر کانپتا تھا
ارشد لطیف : صاحبِ صدر، حاشیہ کے وسیلے سے خوبصورت شاعری اور پھر سونے پہ سہاگہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسی وقیع گفتگو پڑھنے کو مل رہی ہے۔ میں اس نعمت کے لیے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
محمد یامین کی بات زیادہ قرینِ قیاس لگتی ہے کہ یہ آخری قصہ ڈرامے کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ قصہ گو نے زبان کے کٹنے کا سوانگ رچا کر ابلاغ اور اثر کئی گنا بڑھا دیا ہے۔
ایک بات اور۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ "وہ شب وعدے کی شب تھی”۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو وعدے کی شب تو موت کی شب بنتی ہے۔ موت ہی آخری قصہ ہے جسے لفظوں میں بیان کرنا ویسے بھی ممکن نہیں۔
قصّہ گو نے
ایک شب پہلے کہا تھا
صاحبو
تم اپنی نیندیں بستروں پر چھوڑ کر آنا
میں کل کی شب
تمھیں اپنے سلف کا
آخری قصّہ سناؤں گا
جگر کو تھام کر کل رات تم چوپال میں آنا
وہ شب وعدے کی شب تھی
اس حصے اور نظم کے عنوان سے پتا چلتا ہے کہ شاعر۔۔۔۔۔۔ قصہ گو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا انجام سنانے نہیں ، دکھانے جا رہا ہے کہ انجام سننے کی نہیں دیکھنے کی چیز ہے اور کیا ہی کامیاب انجام دکھایا گیا ہے۔
نسیم سید: صدر محترم ! کئی دنوں سے گو فلو نے گھیرا ہوا تھا لیکن فلو کی گو لی جیسے ہی اپنا اثر دکھا تی مین شال لپیٹے حاشیہ کی اس محفل میں پہنچ جا تی جہاں ظفر سید، محمد یا میں ، محمد علی فر شی، تصنیف حیدر، واجد علی سید اور حمید شاہد۔۔ ‘ پیو کہ مفت لگا دی ہے خون دل کی کشید "۔ کے مصداق حرف و فکر کی سبیل لگائے تھے۔۔ زبیر رضوی کی ایک نظم کی بات چلی تو ان کی ڈیڑھ درجن ایک ہی خاندان کی ایک ہی مزاج اور ایک سے رکھ رکھا ؤ کی نظموں کا ذکر چل نکلا۔ نہ صرف ذکر چل نکلا بلکہ ظفرسید صاحب نے دو قدم آ گے بڑھ کے زبیر رضوی کی پا نچ نظموں سے ملاقات کر ا دی حمید شا ید صاحب نے زبیر رضوی کی نظم "صا دقہ ” جیسی کما ل نظم / میں ہوں صدائے ساربان /شا ہ نے اور وزیر نے سا ری زمیں گھیر لی / اور ہما رے و اسطے ٹکڑ ا زمیں چھو ڑ دی کے حزن کو گھول دیا لہو میں / یہ حاشیہ کی محفل کا کمال ہے کہ ایک نظم کے توسط سے شاعر کے تخلیقی وجدان کا اس وجدان کی اساس کا اس کے فکری سرمائے کا اور تمام تر جہات کا یوں جائزہ لیا جائے۔۔ نظم کس کس پہلو سے آ شکا ر ہو ئی اور کیا خو ب ہو ئی اس کا شکرانہ اپنی جگہ لیکن فرض کر ین کہ میرے سا منے ا یک ادبی میگزین ہے اس میں مجھے یہ نظم نظر آ تی ہے۔۔ میں شاعر زبیر رضوی سے نا وا قف ہوں (خدارا صر ف فرض کریں ) مجھے نظم کی پہلی لائن ہی ہا تھ تھام کے روک لیتی ہے کہ شاعر نے آغاز میں ہی وہ تجسس پیدا کر دیا ہے کہ نظم کو پو را پڑھے بغیر چھوڑنا ممکن ہی نہیں۔۔۔ آخری لائن۔۔۔ جھنجھوڑ دیتی ہے، تڑپا تی ہے۔ اور سناٹا سا چھا جا تا ہے وجود میں۔ سوال پیدا ہو تا ہے ذہن میں سلف کی وہ کیا داستان تھی جسکو سنا نے کی چمک زبان کٹ جا نے کے بعد بھی آنکھوں مین ماند نہیں ہو ئی۔۔ اور پھر ایک اور سوال جڑ جا تا ہے اس سوال سے کہ زبان کیوں کٹ گئی قصہ گو گی میری بے چینی کو۔ نظم کے اوپر جو نام لکھا ہے اس سے صرف انتی واقفیت ہو تی ہے کہ اس شاعر کے سلف کون ہو نگے۔ اور بس اتنی واقفیت ہی پو رے منظر نا مے اور پس منظر کو نگاہوں کے سا منے پھیلا دیتی ہے۔ یہ قصہ گو کی کہانی نہیں ہما ری کہانی ہے ہما را نوحہ ہے ہماری علمی و فکری غربت اور ہما ر ے سلف کی شاندار وراثت کا بیاں ہے۔ وہ سلف جن کی کہانی روشنی بن کے قصہ گو کی آنکھوں مین جا گ رہی ہے۔۔ یہ یقیناً با پ دادا تک محدود کہا نی نہیں یہ بہت پرانی کہانیاں ہیں ان سلف کی جن کا نام ابو ریحان البیرونی، محمد بن ذکریا را ضی، ابن سینا، عمر خیام، ابو حامد الغزالی، عبدالرحمنٰ الخوازنی تھا وہ سلف جن کے نام کی مہر ا ب تک ریاضی، الجبرا جیومیڑی، اور طب کے علا وہ بے شمار علوم پر ثبت ہے۔۔ مگر یہ ” پرانی بات ہے ” اب تو ” تھے تو اجداد ہمارے ہی مگر ہم کیا ہیں ؟” کی شرم نے ہما ری زبانیں کا ٹ دی ہیں۔۔ یہ خا ک بسر چو پال ہمارا آنگن ہے جہاں ابھی ا نیسویں صدی بھی طلو ع نہیں ہو ئی ہے۔۔ یہ استعارے نظم کے پورا کچا چٹھا دھر گئے ہما را ہما رے سا منے۔۔ بہت بڑے منظر نا مے کو سمیت لینے والی کمال نظم
صدف مرزا: نظم اس بات کا بھی شدت سے احساس دلاتی ہے کہ یہ محض ایک قصہ ہی نہیں بلکہ ایک سلائڈز کی سورت میں چلتی ہوئ، متحرک تصویر ہے جو رخ اور سمت بدل بدل کر اپنے تمام جہات جھلکیوں کی صورت میں پیش کرتی ہے اور یہ دیکھنے والے کی بصارت اور اس کے شعری شعور اور تجربے اور مشاہدے کی جمع شدہ پوٹلی پر منحصر ہے کہ وہ اس تصویر کو کس طرح اور کس رخ سے دیکھتا ہے۔
اگرچہ اس میں اساطیر سے براہِ راست کردار نہیں لئے گئے بلکہ صاحبِ قلم نے اپنے کردار خود تخلیق کئے ہیں لیکن اساطیر میں دلچسپی رکھنے والے اس بات سے ضرور اتفاق کریں گے کہ اس میں سٹیج سجانے، ماحول بنانے اور منظر نامہ سجانے کے لئے اساطیری کنجیاں اساطیر کی تاریخ اور علامات و استعارات کا استعمال بڑی سہولت سے کیا گیا ہے۔
اور ان کا تسلسل کے ساتھ اپنی نظموں میں استعمال شاعر کے شعری شعور کا سلسلہ وار پتا دیتا ہے۔
کبوتر، کوے، گیدڑ اور کتے جیسے استعاروں کی موجودگی ایک جانا بوجھا اور دانستہ قدم ہے۔ دیو مالائی کہانیوں میں ان کی اہمیت سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ آج بھی لنڈن ٹاور پر صدیوں سے پرورش پاتے کالے کوے، جدید دور میں بھی انسانین ذہن پر ان اسطوری اثرات کو بیان کرتی ہے۔ یورپین اساطیر میں کبوتروں کی موجودگی اور آج بھی ہر بڑے شہر کے مرکز میں ان کی موجودگی اس بات کی دلالت کرتی ہے کہ اب تک عمومی زندگی، اگرچہ تفنن طبع کے لئے ہی سہی، ان کے زیرِ اثرات سانس لے رہی ہے۔
گیدڑوں اور کتوں کا رونا، ان کا نوحہ بنفسہ خود ایک مکمل علامت ہے جو دنیا بھر کی اساطیر میں موجود ہے۔
"”دور تاریکی میں گیدڑ اور کتے۔۔۔ مل کے نوحہ کر رہے تھےِ "”
آسمانی بلاؤں کا طیش اور زمین پر ا کے نزول کی پیشین گوئی جس کی حفاظتی پیش بندیوں کا وقت گزر چکا ہو۔ ان ارضی و سماوی آفات کی ابتدا، بربادی تباہی اور ویرانی کی مکمل کیفیات کو بیان کرتے مکمل استعارے جن کا استعمال غیر محسوس انداز میں منظر نامے کو مزید بصری کشش دینے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ یہ استعارات سوچ سمجھی ذہنی مشق کا نتیجہ ہیں۔ ے ہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ سزائیں بد اعمالی، نا فرمانی اور معاشرے کی تعمیر و ترقی اور اس کی صحت مند بقا کے نا گزیر اصولوں سے رو گردانی کی نتیجے میں دی جاتی ہے۔ دیوتاؤں کا اشتعال اہلِ زمیں پر عذاب اور تعزیرات کی سورت میں مسلط ہوتا ہی رہا ہے۔ شاعر کی باقی نظمیں بھی اس بات کی تائید کرتی ہیں ،
"” کتوں کا نوحہ”” اس بات کی وضاحت کرتا ہے۔
"” بنی قدوس کے بیٹے۔۔۔۔ بلاؤں اور عذابوں کو۔۔۔ ہمیشہ لغزشِ پا کا صلہ گنتے
گناہوں سے حذر کرتے "”
مگر پھر "” زنانِ نیم عریاں "” نے سارے اصول اور تقوی برباد کر دیا۔ یاد رہے کہ عموماً ہر بڑی نا فرمانی کے پس منظر میں اساطیر زن کو ایک اہم عنصر کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ وہ خروجِ بہشت ہو یا قابیل کے ہاتھوں ہابیل کا قتل، نفس کی بے راہروی میں عورت کا کردار ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اور زن پرستی ہی ایک بڑے گناہ کی صورت میں بیان کی گئی ہے۔ ان علامات و استعارات کو صرف اسلامی روایات کی چار دیواری میں اسیر نہ کیا جائے بلکہ عالمی ادب کے تناظر میں دیکھا جائے تو ویدک، رومن، لاطینی اور مصری و یورپی اسا طیر میں یہ استعارات بکثرت پائے جاتے ہیں۔
عالمی تاریخ میں قبائلی نظام میں اور ساگا کا مطالعہ اس بات کے شواہد پیش کرتا ہے کہ پرانی تہذیبوں میں شدید سزا کے طور پر آنکھیں نکال دینا، کانوں میں سیسہ ڈال دینا، ناک و چوٹی کاٹ ڈالنا یا زباں بندی کے لئے زباں کاٹنا کوئی ایسی نامانوس عمل نہی ہے۔
صدف مرزا: برق کی چکا چوند، بجلی کا کڑکا یا صوتِ ہادی بھی صرف اسلامی تہذیب و تاریخ کا حصہ نہیں بلکہ برق و رعد کی کڑک، عناصر، فطرت کا طیش تقریباً دنیا بھر کے ادب میں اپنی ایک اہمیت رکھتا ہے۔ اور اپنی مزکورہ نظم اور اسی سلسلے کی باقی نظموں میں یہ سب علامات ایک نا دیدہ لیکن مضبوط زنجیر کی صورت میں باہم متصل اور مربوط دکھائی دیں گی جو کہ ان نظموں کا عمعمی مزاج سمجھنے اور ان کا مطالب و مفاہیم تک رسائی پانے کے لئے ایک مرکزی اشارہ بن جاتی ہیں۔
"” قصہ گور کنوں کا "”
وہی ابتدائی چو سطور کا اعادہ باقی قصے کی بنیاد رکھتا ہے اور اس میں پھر اساطیر سے منتخب کی گئی تکنیک استعمال ہوئی ہے اور اعداد کا چناؤ دیکھئے
"” وہ ایسے گورکن تھے۔۔ چار چھ قبریں۔۔۔۔ ہمیشہ مرنے والوں کے لئے تیار رکھتے تھے۔۔۔۔۔ "”
اگلی چند سطریں "” وہ ایسے گورکن۔۔۔ چالیسویں دن تک۔۔۔۔ سبھی تازہ بنی قبروں پہ ہر شب روشنی کرتے "” ان نظموں میں جمعے کا دن چنا گیا۔ یہ قصہ بیان کرتا ہوئے ایک عجب غمگین سی فضا سانسیں لیتی ہے۔ اسلاف کی روایات کا احترام نئی نسل نہیں کر سکی۔ اقبال نے تو چند چوروں کی نشان دہی کی تھی
یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کر بیچ کر کھاتا ہے
گلیم بو ذر و دلق اویس و چادر زہرہ
صدف مرزا: لیکن نظم کہیں اس بات کی وضاحت نہیں کرتی کہ نعشیں فروخت کرنے کا سبب معاشی و اقتصادی بحران تھا یا اخلاقی بے حسی اور زبوں حالی؟
اسلاف کا ذکر، اسلاف کے کارنامے، اسلاف کی لغزشیں ، عظمتِ رفتہ اور گزری شان و شوکت کی جھلک اور پھر اس چھن جانے والی سطوت و جاہ و حشم کا سبب اور نوحہ شامل ہے۔
نظم "” بنی عمران کے بیٹے "” اسلاف کی عیش پرستی، نفس پرستی اور ہوس کے ہاتھوں جاہ و منصب سے دست بردار ہونے کا نوحہ پیش کیا گیا ہے۔
صدف مرزا: "”شادابی کا عالم تھا
امارت اور ثروت
ان کو ورثے میں ملی تھی
اُن کے تہہ خانے جواہر سے بھرے ہوتے
کنیزیں ، داشتائیں
جسم کی انمول سوغاتیں لئے
کھل کھیلتی رہتیں
مصاحب رات بھر دیوان خانوں میں
بنی عمران کی عیّاشیوں کی
داستاں کہتے
رو پہلی صحبتوں کا تذکرہ کرتے
اچانک مخملیں پردے سرکتے
اک پری چہرہ
الف لیلیٰ کے سب سے خوبصورت
جسم کی صورت
تھرکتی، دف بجاتی
خواہشوں کو دعوتیں دیتی
بنی عمران کے بیٹے
اشارہ کرتے اور سارے مصاحب
سر جھکائے، تخلیہ کرتے
بنی عمران کے بیٹے
نشے میں چُور
اپنی خواب گاہوں سے نکلتے
صبح سے پہلے
سپیروں کو بُلاتے
اور الف لیلیٰ کے
سب سے خوبصورت جسم کو
سانپوں سے ڈسواتے
مصاحب داخلہ پاتے
بنی عمران کی بدکاریوں کو
نیچے تہ خانے میں جا کر دفن کر آتے "”
سلطنتِ عثمانیہ میں امتِ مسلمہ کے زوال، قرطبہ کے کوچے سے بے آبرو ہو کر نکلتے حکمران اور ان مقامات پر جا کر اہلِ قلم اس بات کی یاد تازہ کرتے ہیں کہ کبھی ان در و دیوار پر ان کی حکمرانی تھی لیکن ان سارے اسباب تک بھی ایک عبرت کی نظر ہونی چاہئے جو اس انہدام اور سقوط کا باعث بنے۔ شمشیر و سنان اول اور طاؤس و رباب آخر کا سبق فراموش کر دینے والے حکمرانوں اور ترکی میں کنیزوں اور داشتاؤں کے تنگ حجرے اس زوال کی داستان زور و شور سے سناتے ہیں۔
صدف مرزا: اسلاف کا ذکر کرتے ہوئے زبیر رضوی نے خود اپنے معاشرتی پس منظر کو بخوبی استعمال کیا ہے اسلامی تلمیحات اور تاریخ کے موتیوں کو بطریق احسن اپنی سادہ و سلیس اور مختصر سطور میں پرو دیا ہے
"”علی متقی رویا "” پھر وہی ابتدائی سطور کی تکرار "” پرانی بات ہے۔۔۔۔ لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے۔۔۔۔۔۔ "” ان نظموں کو ایک ہی خانے میں رکھ دیتی ہے اور ان کو قصے کی خصوصیات سے بھی متصف کر دیتی ہے۔
"” کاسنی، کالے کبوتر۔۔۔۔۔ صحن میں نیچے اتر آئے "”
یہاں پھر پرندوں اور رنگوں کا استعمال نہ صرف مشاقی، خلاقی بلکہ مکمل کاریگری کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ پھر ایک موہوم سا سوال سر اٹھاتا ہے کی کیا مذہبی و معاشرتی انہدام کے بعد فطرت اس کرے کو اپنی آغوش میں لے گی؟ رسم، اذان سے روحِ بلالی مفقود ہو جانے کے بعد مساجد نمازیوں سے خالی ہو جائے گی تو کیا پنکھ پکھیرو اس فرض کی ادائگی کو زمیں پر اتریں گے ؟
اسلاف کی عظمتوں کا نوحہ، وہ قوم جس نے ایسے ایسے سائنس دان، فلسفی اور صاحب علم نابغہ روزگار ہستیاں پیدا کی ہیں وہ آج ذہنی، علمی، ادبی اور سماجی عسرت کا شکار ہے۔
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی یا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارہ
صدف مرزا: یہ نظم بلکہ ان سلسلہ وار نظموں کا مطالعہ سوالات کے سلسلے کو بھی جنم دیتا چلا جاتا ہے۔
یہاں پر پھر Open ending کی تکنیک استعمال کی گئی کہ کچھ پہلو تشنہ چھوڑ دئیے جائیں ور قاری خود ذہنی مشقت کر کے ان کے جوابات اپنی صوابدید کے مطابق ڈھونڈے۔ چونکہ شاعری کی تفہیم میں کویہ ایک تشریح بھی حرفِ آخر کا درجہ نہیں رکھتی لہذا اس طرح کا اختتام ذہنی تحریک کا باعث بنتا ہے۔ یاد رہے کہ نظم میں ایک ڈرامے کا عنصر بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
برگد کے درخت کے نیچے قصہ گو کا زباں بریدہ اور کھلی آنکھوں سے اسلاف ک آخری قصے کو خلق کے گوش گزار کرنے کی خواہش، بجلی کی چکا چوند، بے تاب متجسس چہرے، تناؤ، تشویش اور کسی حد تک ایک انہونی کا خوف فضا میں بکھرا ہے۔ سماجی و معاشرتی روابط منقطع ہو چکے ہیں۔ قصہ گو بے بسی کی حالت میں حکمِ اذان ہونے کے باوجود حرفِ حق کہنے سے قاصر ہے۔ اسلاف کے قصے جو اس نے خبر اور کہانی کے انداز میں سنائے تھے ہنوز نا مکمل اور تشنہ ہیں۔ ایک تسلسل سے چلتی کہانی اپنے نا مکمل انجام کو پہنچی۔ قصوں ، کہانیوں اور حکایات میں بات کہہ دینے کا دستور ہر زماں اور مکاں میں رہا ہے۔ عالمی ادب میں کم و بیش ہر جگہ قصہ گوئی اور زبانی حکایات سنانے کا چلن موجود رہا ہے جس سے ان نظموں میں بھر پور فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ جیسا کہ فرشی صاحب نے واضح کر دیا "” گلگامش کی داستان سے جدید ادب تک وجود کی حقیقت اور وجودی کرب تخلیقی اذہان کے کبیری سوالات رہے ہیں۔
اچھے ادب کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ معاشرے میں انسانی رشتوں کو مضبوط بناتا ہے۔ وہ معاشرتی شکست و ریخت اور انہدام کے خلاف کام کرتا ہے اور یہی اس کا اثباتی پہلو ہے۔ اگر کوئی تحریر کسی مثبت انسانی قدر کے خلاف چلتی ہے تو ادب پارہ نہیں ہو سکتی۔
اس نظم کے قصہ گو کو جو معرفت حاصل ہوئی وہ اس کے پرکھوں کو بھی حاصل تھی لیکن انھوں نے اسے اخفا میں رکھا، کہ (ممکن ہے ) اسے اخفا میں رکھنا ہی انسانی سماج کے لیے بہتر ہو۔ "”
زکریا شاذ : حاضرین کرام۔۔۔۔ میں کافی دیر سے خاموش تھا۔۔۔ ظاہری بات ہے حسب روایت اجلاس حاشیہ کا تقاضا بھی یہی ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے تا کہ تمام احباب کو بھرپور بولنے اور انہیں سننے اور موضوع کے موافق اظہار خیال کا زیادہ سے زیادہ موقع فراہم کیا جا سکے۔ اور غرض و غایتِ اجلاس کے سب تقاضے پورے ہو تے رہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اب شاید وہ وقت آ گیا ہے کہ کچھ گزارشات پیش کی جائیں۔۔۔
سب سے پہلے تو میں اس افسوس کا اظہار ضرور کرنا چاہوں گا کہ۔۔۔ باوجود صاحب ابتدائیہ محترم تصنیف حیدر کی دعوت آمیز نشاندہی کے کہ۔۔
"معید رشیدی، فیاض احمد وجیہہ، اشعر نجمی، شارق کیفی، نعمان شوق، امیر حمزہ ثاقب اور مہیندر کمار ثانی کو بھی اس بحث میں بڑھ چڑھ کر شرکت کرنی چاہیے "
ان تمام محترم صاحبان نے کہیں بھی کسی طرح سے بھی نظم زیر بحث میں حصہ نہیں لیا۔۔۔ ہو سکتا ہے کسی نہ کسی مصروفیت کی بنا پر انہیں وقت نہ ملا ہو۔ لیکن یہ بات میں اس لیے بھی ہائی لائٹ کر رہا ہوں کہ پتا یہ چلا ہے کہ ان مذکورہ دوستوں کا کافی عرصے سے یہ مطالبہ بھی تھا کہ ہندوستان کے کسی شاعر (جناب ستیہ پال آنند کے استثناء کے ساتھ) کو بھی اجلاس میں بھی بطور شاعر شامل کیا جائے۔ اب جبکہ جناب زبیر رضوی کی نظم زیر موضوع۔۔ پر حاشیہ کے رواں اجلاس میں گزشتہ دو ہفتوں سے بہت سے محترم احباب بڑی تفصیل سے گفتگو بھی کر رہے ہیں بلکہ کر چکے ہیں۔ لیکن ہندوستان کے ان محترم رفقا نے خاموشی ہی اختیار کیے رکھی۔۔۔۔
صدف مرزا: نظم فہمی کے لئے اس بزم کی کوششیں قابلِ تحسین ہیں۔ یہاں نہ صرف جدید نظموں کے ساتھ متعارف کروایا جا رہا ہے بلکہ ان نظموں کے تار و پو، بنت، مرکزی خیالات اور خیال سے الفاظ تک کے سفر اور عمل پر ہر ممکن زاوئے سے روشنی ڈالی جاتی ہے۔ مجھے بحیثیت اردو کی ادنی طالبعلم کے محسوس ہوتا ہے کہ ایک کمرہ جماعت کا سا ماحول ہے اور مجھے ہاتھ میں قلم لے کر نوٹس بھی بنا لینے چاہئیں۔ محمد یامین، علی محمد فرشی، زکریا شاد‘‘ ایم حمید شاہد اور باقی احباب نے جس تفصیل سے نظم کے پس منظر اور اس کی تہوں میں کروٹیں لیتے نیم دروں نیم بروں مضامین سمجھنے میں رہنمائی کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔
مجھے اپنی کوتاہ علمی کا اعتراف کرنے میں کوئی باق نہیں کہ اس سے قبل میری نظر سے زبیر رضوی کی تخلیقات نہیں گزری تھیں کہ یہاں وہ سب رسائل اور کتب میسر نہیں ہوتیں جو ایک قاری کو جدید لہجوں اور تیوروں کے ساتھ منسلک رکھتی ہیں۔ لیکن ظفر سید اور حمید شاہد نے اس تشنگی کی تشفی کا سامان بھی کر دیا۔ ان تمام نظموں کو پہلو بہ پہلو رکھ کر پڑھنے سے شاعر کے انداز اور اسلوب کی ایک واضح تر تصویر آنکھوں کے سامنے ابھر آتی ہے۔
حمید شاہد صاحب نے پانچوں نظموں کو یکے بعد دیگرے پیش کر کے اور ان کے اجمالی تجزئے کے ذریعے مرکزی مضامین کی گرہ کشائی بے حد مفصل انداز میں کی ہے جس سے نہ صرف نظم فہمی کی تربیت ہوئی بلکہ ان کی وسعتِ مطالعہ کے طفیل زبیر رضوی کی نظموں کے قلب تک بھی رسائی ممکن ہوئی۔
اب تک اس نظم پر جو کچھ لکھا جا چکا ہے اس کے بعد میں نہیں سمجھتی کہ میں اس میں کسی نئے زاوئیے کا اضافہ کرنے جا رہی ہوں لیکن سب احباب کی کاوشوں کو سراہنا ضرور مقصود ہے جنہوں نے فہم و ادراک کے نئے ابواب وا کئے ہیں۔
نظم کی ابتدائی سطور روایتی قصے کے انداز میں اپنا تعارف کرواتی ہیں اور اپنے اندر بے پناہ سلاست اور روانی لئے ہوئے ہیں جیسے آسان فہم گنگناتی نثر لکھی گئی ہو اور اس بظاہر آسان و سادہ نظم میں ایک ایک لفظ انگشتری میں نگینے کی طرح جما ہوا ہے اور قصے کا موضوع اور اس کی ڈرامائی تکنیکی پیشکش کامیابی کے ساتھ حسیات کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لیتی ہے۔ اس تکنیک کے اثرات جو کہ multi-sensory approach کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں اپنی گرفت میں لینے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں۔
زکریا شاذ : محترم شرکائے حاشیہ۔۔۔ میرے لیے جو امر سب سے زیادہ خوش کن اور اطمینان بخش رہا وہ یہ ہے کہ یوں تواجلاس کے سب اراکین اہم اور ان کا کہا مؤقر و معتبر ہے مگر جناب علی محمد فرشی اور محترم حمید شاہد نے نظم زیر بحث کی تفہیم کو زیادہ سے زیادہ آگے بڑھانے میں جس دل جمعی و دلچسپی کا ثبوت دیا وہ بلا شبہ لائق توجہ اور قابل تعریف ہے۔ محترم حمید شاہد اور ظفر سید صاحب نے تو شاعر کی موجودہ نظم کو پر فہم اور پرکار بنانے کے لیے شاعر کی اسی قبیل کی دیگر نظموں کے حوالے پیش کر کے آنے والوں کے کام کو اور بھی سہل کر دیا۔
جناب واجد علی سید کی گفتگو بھی نظم کو شاید اس کے بنیادی مفاہیم کی راہ پر ڈالنے میں سب سے پہلے آغاز کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ۔۔
"بہت ہی سادہ الفاظ میں کوئی پیچیدہ خیال لکھا جا سکتا ہے تو وہ اس نظم سے واضح ہے۔ نظم گو نے روداد ایسی بیان کی کہ روزمرہ کے عام سے الفاظ بے معنی ہو گئے "
بہت ہی اہم اور نظم کی تفہیم و توقیر کا موجب بنا ہے۔ محترمہ نسیم سید نے بھی ایسے اہم اشارے دیے جس سے نظم کے پوشیدہ گوشوں پر روشنی پڑی۔
اب محترمہ صدف مرزا کی تحریر پڑھ کر شدید احساس ہوا کہ ان کی گفتگو نے نظم کی تفہیم کے بہت سے بنیادی مفاہیم کو بالکل واضح کر کے رکھ دیا ہے۔ انہوں نے نظم کی کلیدی علامات و استعارات کا تعین کر کے گویا نظم کو اس کے مرکزی منصب پر پہنچا دیا ہے۔۔ بقول صدف مرزا۔۔
"گیدڑوں اور کتوں کا رونا، ان کا نوحہ بنفسہ خود ایک مکمل علامت ہے جو دنیا بھر کی اساطیر میں موجود ہے۔ "
صدف صاحبہ کے اس طرح کے دیگر کئی فقروں سے نظم کی فضا اور شاعر کے فکری مزاج کا صاف پتا چلتا ہے۔۔ یقیناً ان کا یہ نوٹ ایک اچھا اور توجہ طلب اضافہ ہے۔۔
زکریا شاذ : احباب نقد و نظر۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کافی حد تک نظم زیر گفتگو پر مقداری سطح پر نہ سہی مگر معیاری لحاظ سے سیر حاصل تبصرہ ہو چکا ہے۔ میں نے مقدار کی بات اس لیے کی کہ شاید بہت سے دیگر دوستوں کا خامۂ عطر فشاں نظم کی برگد صفت فضا پر شبنم افشانیء فکر و خیال سے محروم رہ گیا ہے۔ اگر کوئی محترم دوست نظم پر اظہار گفتگو کے ہنوز خواہشمند ہوں تو براہ کرم وہ کل تک اپنا نوٹ شامل بحث کر سکتے ہیں۔ کل تک اس لیے کہ اجلاس حاشیہ کے قواعد کے مطابق مقررہ مدت برائے گفتگو اب پوری ہونے کو ہے یا اپنے آخری مراحل میں ہے۔۔ اور نظم پر اب تک کی گفتگو سے بھی یہ صاف لگتا ہے کہ نظم کے بہت سے ایسے گوشے واضح ہو چکے ہیں جن کے بل پر یہ کہا جا سکتا ہے نظم کی ممکنہ گرہیں کھل چکی ہیں۔ لہذا بے جا نہ ہو گا کہ کسی دوست کا مزید تفہیمی یا معنوی کی کسی نئی جہت پر مبنی نوٹ نہ آنے کی صورت میں صاحب ابتدائیہ محترم تصنیف حیدر سے درخواست کی جائے کہ وہ نظم زیر تبصرہ کے شاعر جناب زبیر رضوی کو زحمت دیں کہ وہ اجلاس میں اظہار خیال فرمائیں۔ تمام شرکائے حاشیہ ان کے منتظر ہیں۔۔۔۔
محمد یامین: جناب صدر ! اس سے پہلے کہ نظم کے شاعر اظہار خیال فرمائیں ایک دو باتیں ضبط تحریر میں لانا چاہتا ہوں۔ نظم زیر بحث پر احباب نے اب تک جن خیالات سے نوازا ہے ان کا خلاصہ یہی ہے کہ یہ نظم مشرقی اسلامی تہذیب کے انہدام کا ایک شاعرانہ اظہاریہ ہے یا ایک تہذیبی موت کا نوحہ ہے۔ اس مطالعے میں شاعر کی دیگر نظموں کا مواد بھی کام میں لایا گیا جس سے یہ معلوم ہوا کہ تہذیبی انہدام کا موضوع شاعر کی مخصوص فکری جہت کو سامنے لاتا ہے اور یہ ان کی شاعری کا بنیادی موضوع بھی ہو سکتا ہے۔ گویا نظم کی تفہیم کا در کھل چکا ہے اور کم و بیش تمام صاحبانِ نظر مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے ایک ہی مقام پر آ کر رکے ہیں جہاں ہر طرف ایک شان دار تہذیب کے پارہ پارہ وجود کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ اگر شاعر کا مقصود یہی منظر دکھانا تھا تو ایسی کام یاب ترسیل پر ہمیں اس کو مبارک باد ضرور دینی چاہیے۔ ترسیل معنی کی یہ کام یابی شاعر کے فنی حربوں اور زبان کے ماہرانہ استعمال کی دلیل ہے۔ ان فنی حربوں نے قاری کے ذوق کی تسکین کن سطحوں پر کی۔ اس پر بھی توجہ ضرور کر لینی چاہیے۔ نظم کے آغاز میں پہلی دو سطریں بڑی اہم ہیں۔ اب تو ظفر سید اور حمید شاہد کی وساطت سے ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ اس خاندان کی تمام نظموں میں شاعر نے انھی دونوں سطروں کو استعمال کیا ہے۔
پرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے
دوسری سطر میں "لیکن” کا استعمال میری سمجھ سے بالا ہے۔ اس کا مطلب یوں نکلتا ہے کہ پرانی بات کبھی انہونی نہیں لگتی لیکن یہ ایک ایسی پرانی بات ہے جو انہونی لگتی ہے۔ یوں یہ مفہوم اصلیت کے خلاف ہے۔ کیوں کہ پرانی بات ہو یا نئی دونوں میں انہونی کی خصوصیت ہو سکتی ہے۔ بہتر ہوتا دوسری لائن کو بریکٹ میں قید کر دیا جاتا تاکہ پرانی بات کے بعد انہونی کی خبر ایک اضافی بات ہوتی اور” وہ شب وعدے کی شب تھی” سے قصے کا آغاز ہو جاتا۔ بہ ہر حال ہم جب نظم پڑھنا شروع کرتے ہیں تو کسی جگہ رک کر سوچنا محال ہو جاتا ہے جس کی وجہ اس نظم میں زبان کی ملائم اور پھسلن والی سطح کا استعمال ہے۔ یہ زبان کی ایک اہم خوبی ہے جسے سلاست کہتے ہیں اور جو اردو میں میر کی دین ہے۔
(الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۔۔۔۔۔۔۔ ) اگر کوئی لکھنے والا پڑھنے والے کے دل میں معصومیت کا جذبہ ابھارنا چاہے تو وہ کئی طرح کے حربے استعمال کر سکتا ہے۔ ایک یہ بھی ہے کہ وہ بچوں کی زبان میں لکھے یا بچوں کی گفت گو جیسا اسلوب بنا لے۔ یہ نظم جن لفظوں میں لکھی گئی ہے ان سے قاری کے ذہن میں افسوس و تاسف کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ ان جذبات کو ابھارنے میں زبان نے خاص کردار ادا کیا ہے۔ کیوں کہ زبان کی فگریٹو تشکیل میں شاعر نے چوپال کے آس پاس سے ہی مماثلتیں اٹھائی ہیں۔ مائکرو لیول پر لفظوں اور سطروں کی تمثیلی حیثیت بھی نمایاں ہے لیکن میکرو سطح پر بھی پوری نظم ایک علامت بن کر سامنے آتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ نظم کا قاری جلد از جلد انجام تک پہنچنا چاہتا ہے کیوں کہ نظم کے عنوان اور آغاز نے اس خواہش کو مزید بھڑکا دیا ہے۔ ( یہ الگ بات کہ وہ ایک ایسے انجام سے باخبر ہوتا ہے جو تجسس کی تسکین کی جگہ اسے ایک اور اضطراب کے سپرد کر دیتا ہے )انجام سے جلد از جلد باخبر ہونے کی اس خواہش کا تقاضا ہے کہ نظم کسی لینگویج بیریر کو راہ میں حائل نہ ہونے دے۔ اس کے علاوہ، شاعر نے مصنوعی سجاوٹ سے بھی کام نہیں لیا تاکہ قاری کسی مقام پر رک کر آرائشی جمال میں گم ہو کر نہ رہ جائے۔ شاعر نے زبان کی سلاست کو ایک فنی حربے کے طور پر استعمال کر کے قاری کی توجہ ایک بڑے سوال پر لا کر مجتمع کر دی اور اس کی فکری رو کو نظم کی کسی بندش کے بغیر آزاد چھوڑ دیا۔ یہ سب کچھ سلیس اور عام فہم زبان کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
ضیاء ترک: جنابِ،صدر!
مَیں نظم اور نظم پر ہونے والی گفتگو سے حرف حرف گزرا ہوں یقیناً، نظم کی بیش تر فکری ابعاد پر سَیر حاصل کلام کِیا گیا ہے، جو اراکینِ "حاشیہ” کی سخن سنجی اور شعر فہمی کی دلیل ہے۔ خداوند، آپ احباب کو سلامت رکھے۔۔
پہلی دو سطروں کی بابت، (اسی نوع کی بات) جو برادرِ،مکرّم یامین صاحب نے لفظ "لیکن” کے بارے میں کی ہے ۔۔ درست ہے۔۔ لیکن، دریں صورت ۔۔ـ کہ میری دانست میں نظم کی پہلی تین سطریں "حشو” کی ذیل میں آتی ہیں ، زیادہ سے زیادہ ان کی نوعیت "آرائشی” ہی خیال کی جا سکتی ہے اور وہ بھی محض باِیں طَور اگر "رعایت” دی جائے ۔۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ نظم کا آغاز چوتھی سطر سے ہوتا ۔۔ـ ذرا اس طرح نظم کو پڑھ دیکھیے : ۔۔ـ
گاؤں کی چوپال
پوری بھر چکی تھی
تازہ حقّے ہر طرف رکھے ہوئے تھے
قصّہ گو نے
ایک شب پہلے کہا تھا
صاحبو
تم اپنی نیندیں بستروں پر چھوڑ کر آنا
میں کل کی شب
تمھیں اپنے سلف کا
آخری قصّہ سناؤں گا
جگر کو تھام کر کل رات تم چوپال میں آنا
وہ شب وعدے کی شب تھی
گاؤں کی چوپال پوری بھر چکی تھی
رات گہری ہو چلی تھی
حقّے ٹھنڈے ہو گئے تھے
لالٹینیں بجھ گئی تھیں
گاؤں کے سب مرد و زن
اُس قصّہ گو کی راہ تکتے تھک گئے تھے
دُور تاریکی میں گیدڑ اور کتے
مل کے نوحہ کر رہے تھے
دفعتاً بجلی سی کوندی
روشنی میں سب نے دیکھا
قصّہ گو برگد تلے بے حس پڑا تھا
اُس کی آنکھیں
آخری قصّہ سنانے کی تڑپ میں جاگتی تھیں
پر زباں اُس کی کٹی تھی
قصّہ گو کا، ان کہا اپنے سلف کا
آخری قصّہ لبوں پر کانپتا تھا
علاوہ ازیں ۔۔ـ ایک بات اور کہ نظم کے اختتام پر ایک سطر :
۔۔ـ پر زباں اس کی کٹی تھی ۔۔ـ
نے نظم کی مجموعی اور بیشتر کامیاب Treatment پر مبنی تاثر کو خاصا مجروح کر دیا ہے میرے خیال میں۔۔۔ یہاں ” زباں اس کی کٹی تھی” کی جگہ "زباں اس کی کٹی ہوئی تھی/ کٹ چکی تھی” کا محل تھا۔۔۔
مزید برآں ۔۔ـ ذرا یہ بھی دیکھیے تو۔۔۔ کہ کیا آخری دو سطروں کا Format / Pattern اس طرح نہیں ہونا چاہئیے تھا ؟؟!!! : ۔۔ــ
قصّہ گو کا ان کہا،
اپنے سلف کا آخری قصّہ
لبوں پر کانپتا تھا
صاحبِ،صدر!
آپ کی وساطت سے اپنی طالب علمانہ معروضات پر فاضل احباب کی توجہ چاہوں گا۔۔۔
زکریا شاذ : سبحان اللہ۔۔۔ صاحبان محفل۔۔۔۔ میری کل کی درخواست پر بہت عمدہ اور وقیع پیش رفت ہوئی ہے۔ پیارے دوست یامین اور محترم ضیا ترک نے نظم کے کچھ معنوی اور بالخصوص فنی پہلوؤں کی طرف توجہ دلا کر گفتگو کو اور بھی معنی خیز اور وسیع تر کر دیا ہے۔۔ میں ان دونوں دوستوں کا بے حد شکر گزار ہوں کہ انہوں نے کچھ ایسے سوال اٹھائے جو بالکل نئے اور اہم ہیں۔
یامین صاحب نے تو پہلے نظم کے بنیادی مفہوم کو جو کہ مختلف دوستوں کی گفتگو میں بکھرے ہوئے تھے یکجا کر کے نظم کے معنوی منصب کا تعین کر دیا کہ نظم زیر بحث مشرقی اسلامی تہذیب کے انہدام کا نوحہ ہے۔ میرے خیال میں اگر تمام دوستوں کی آرا اور خاص کر شاعر کی اسی سلسے کی دیگر نظموں کا مطالعہ بھی پیش نظر رکھا جائے تو نظم کا مرکزی و بنیادی مفہوم واضح طور یہی سامنے آتا ہے۔۔ یہ مقام مقام مسرت بھی ہے کہ اجلاس میں پیش کردہ اس نظم کے ساتھ ٹھیک ٹھیک انصاف کیا گیا ہے اور نظم بڑی خوبصورتی سے کامیاب قرار پائی ہے۔
تکنیکی سطح پر بھی یامین کا کہا توجہ طلب ہے کہ
پرانی بات ہے لیکن
انہونی سی لگتی ہے
میں۔۔ لیکن۔۔ درست نہیں ہے کہ ان کے مطابق اس سے ہونی، انہونی کے بیانیے میں کنفیوژن پیدا ہوتا ہے۔
جناب ضیا ترک نے اول و آخر کچھ حد تک نظم کی فنی سطح پر چند خامیوں کا تذکرہ کیا اور خوب خوب کیا۔۔ سچ پوچھیں تو ذاتی طور پر ضیا صاحب نے میرے منہ کی بات چھین لی ہے۔ انہوں نے جو کچھ فرمایا راقم کے نزدیک یکسر موزوں و مناسب ہے۔۔ ہاں کسی دوست کو اختلاف ہو تو وہ بات کرسکتے ہیں کہ اجلاس کا مدعا بھی یہی ہے۔۔ مگر ایک جگہ مزید اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ ضیا صاحب کے بقول
نظم کا آغاز
گاؤں کی چوپال۔۔۔۔ سے ہونا چاہیے۔ مگر راقم کی رائے میں نظم کی ابتدا۔۔
وہ شب وعدے کی شب تھی
سے ہوتی تو شاید بہت زیادہ خوبصورت ہوتی کہ۔۔۔ یہ لائن راقم کے پیش نظر نہایت زوردار اور معنی خیز بھی ہے اور نظم کی فضا کے عین مطابق بھی۔ بہر صورت اس پہلو سے قطع نظر میں ضیا صاحب سے صد فی صد متفق ہوں۔۔۔ القصہ۔۔ کل سے اب تک نظم کے حوالے سے بہت اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ مزید اگر کوئی صاحب کچھ نیا کہنا چاہتے ہوں تو ہم سب ہمہ تن چشم و گوش ہیں۔
ارشد لطیف : صاحب صدر، میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ نظم کی کوئی سطر بھی "حشو” کی ذیل میں آتی ہے۔ جب یہ بات سامنے آچکی ہے کہ یہ سلسلہ وار لکھی گئی نظموں میں سے ایک نظم ہے۔ جن کی پہلی دو سطریں مشترک ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سطریں اس نوعیت کی نظموں کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ میرے نزدیک شاعر نے کڑی سے کڑی ملانے اور ہر نظم کے دیو مالائی طلسمی ماحول کو قائم رکھنے کے لیے انتہائی خوبصورت تکنیک دریافت کی ہے جو شعری لطف میں اضافے کا باعث ہے۔
محترم یامین صاحب کے اعتراض کے بارے میں صرف اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ "لیکن” کا تعلق "پرانی بات” کی بجائے "بات” سے بھی تو جوڑا جا سکتا ہے۔ یہ کا لفظ "بات” کی طرف اشارہ بھی کر رہا ہے، یہ "بات” پرانی ہے مگر انہونی سی لگتی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس میں کوئی گنجلک امر واقع ہوا ہے۔ سادہ، صاف ستھرا اور انتہائی مؤثر پیرایہ اظہار ہے، ابلاغ کا تو یہاں کوئی مسٔلہ ہی نہیں ہے۔
محمد یامین: صاحب صدارت! محترم ارشد لطیف کی رائے کا احترام کرتے ہوئے گذارش ہے کہ لفظ "لیکن” حرف استدراک ہے جس کی تعریف یوں کی جاتی ہے ” وہ لفظ جو جملے کے پہلے حصے کے شبہ کو دور کرے مثلاََ مگر، لیکن، البتہ وغیرہ”۔ ایک جملہ اس کی وضاحت کے لیے یوں لکھا جا سکتا ہے۔ ” وہ شخص زبان دراز ہے لیکن دل کا بُرا نہیں "۔ اس جملے کے پہلے حصے میں شبہ پیدا ہوا کہ وہ شخص زبان درازی کی وجہ سے بُرا ہے۔ لیکن کے استعمال سے وضاحت ہوئی کہ وہ دل کا اچھا آدمی ہے۔ اسی کانسیپٹ کے ساتھ اگر نظم کے پہلی سطر پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کسی قسم کے شبے کی گنجائش ہی نہیں اس لیے یہاں لفظ لیکن کے استعمال کا کیا جواز ہے۔ شبہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب دو باتوں میں تضاد پایا جائے۔ پرانی اور نئی میں تضاد ہے لیکن پرانی اور انہونی میں کوئی تضاد نہیں۔
نسیم سید: جنا ب صدر ! یہ تمام نظمیں گو سلسہ وار لکھی گئی ہیں لیکن ہر نظم کی اپنی ایک الگ اور مکمل شخصیت ہے۔ اور شاعر کو اس بات کا خوب اندازہ اور یقین ہے کہ قا ری ان سترہ کی سترہ نظموں کو ایک ساتھ رکھ کے گزشتہ سے پیوستہ کے طور نہیں پڑھے گا لہذا یہ کہنا کہ پہلی دوسطور اس لئے اہم ہیں کہ باقی نظمیں بھی انہی دو سطور سے شروع ہو تی ہیں کمزور نظم کی دلیل ہے۔۔ جبکہ یہ نظم بہت شا ندا ر اور مکمل نظم ہے جس کو باقی نظموں سے جو ڑ کے چہرہ اور شناخت دینا منا سب نہیں لگتا۔ دوسری بات لفظ ” لیکن ” کی میں سمجھتی ہوں کہ یہ "لیکن” ایک ایسا اہم لفظ ہے جو زبان کٹ جا نے کے سبب سے جڑا ہے۔ اس نظم کے تمام تر پس منظر کو جانتے ہوئے۔۔ گزشتہ ( سلف ) اور مو جو دہ کے حا لات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کو پڑھیں ” پرانی بات ہے لیکن ہما ری مو جو دہ (ذہنی و فکری) غربت کے پیش نظر یہ بات اب انہونی سی لگتی ہے کہ کبھی ہم ( علم و حکمت کے ) اہل ثروت تھے۔
زکریا شاذ : حاضرین مجلس۔۔۔ بہت خوشی کی بات ہے کہ اب جا کے کہیں بات سے بات نکلی ہے۔ بلکہ رد و قبول کی نئی بحث چھڑی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ دوستوں نے نظم کے بعض حصوں کا محاکمہ کیا ہے اور کچھ نے نظم کو ہر لحاظ سے بے عیب قرار دیا ہے۔۔
یامین نے اعتراض اٹھایا کہ نظم کی ابتدائی لائنوں۔۔
پُرانی بات ہے لیکن
یہ انہونی سی لگتی ہے
میں۔۔ لیکن۔۔ کے استعمال کا مقام درست نہیں ہے۔۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ۔۔۔
"اس کا مطلب یوں نکلتا ہے کہ پرانی بات کبھی انہونی نہیں لگتی لیکن یہ ایک ایسی پرانی بات ہے جو انہونی لگتی ہے۔ یوں یہ مفہوم اصلیت کے خلاف ہے۔ کیوں کہ پرانی بات ہو یا نئی دونوں میں انہونی کی خصوصیت ہو سکتی ہے "
جناب ارشد لطیف نے یامین صاحب کے اس اعتراض کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ۔۔
"لیکن” کا تعلق "پرانی بات” کی بجائے "بات” سے بھی تو جوڑا جا سکتا ہے۔ یہ کا لفظ "بات” کی طرف اشارہ بھی کر رہا ہے، یہ "بات” پرانی ہے مگر انہونی سی لگتی ہے۔ "
جناب ارشد صاحب نے ضیا صاحب کے اس اعتراض کو بھی تسلیم نہ کرتے ہوئے فرمایا کہ
نظم کی کوئی سطر بھی "حشو” کی ذیل میں نہیں آتی۔ کیونکہ ضیا صاحب نے نظم کی ابتدائی 3 لائنوں کو حشو قرار دیا تھا۔۔
راقم نے یامین صاحب کے اعتراض کی نشاندہی کی تھی اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔ یقیناً اس لیے کہ میں نے اس کو دوسرے ساتھیوں کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ تو اب جبکہ ارشد صاحب نے رائے دے دی ہے تو میں بھی کہنا چاہوں گا کہ۔۔ لیکن۔۔ کے حوالے سے ارشد صاحب کی دلیل میں کافی حد تک صداقت پائی جاتی ہے۔ کہ شاعر نے ایسا بر سبیل تذکرہ کہا ہے اور بس۔۔
جہاں تک ضیا صاحب کے حشو پر ارشد صاحب کا موقف ہے وہ بھی بالکل صائب ہے کہ یہ نظم شاعر کی اسی سلسلے کی دیگر نظموں کے تناظر میں اگر دیکھی جائے تو ابتدائی 3 لائنیں کسی طرح بھی اضافی نہیں ہیں۔۔
اصل مسئلہ ہی یہاں سے پیدا ہوا کہ نظم زیر گفتگو کوئی الگ تھلگ اکیلی نظم نہیں بلکہ شاعر کی کچھ دوسری نظموں کا شاخسانہ ہے۔۔ ضیا صاحب نے اس نظم کو دوسری نظموں سے کاٹ کر دیکھا ہے۔ یہی ان کے استدلال کی کمزوری ہے۔ اور اگر اسے کاٹ کر دیکھا جائے تو۔۔ نظم کی ابتدائی 3 نہیں 2 لائینیں حشو ہی کے ذیل میں آئیں گی۔ یہ میرا موقف تھا اور اب بھی ہے بشرطیکہ نظم کو اس کی جداگانہ فارم میں دیکھا جائے تو۔۔
مگر۔۔۔ ضیا صاحب کے نظم کی آخری لائنوں پر اعتراض کی میں نے تائید کی تھی اور ابھی کرتا ہوں۔۔۔ باقی جو کچھ نظم کے بارے میں ارشد صاحب نے فرمایا میرے خیال میں بالکل درست فرمایا اس سے تو کسی کو معترض نہیں ہونا چاہیے۔۔۔ مگر یاد رہے کہ ہم اس صداقت کے بھی شدت سے قائل ہیں کہ کسی کا کہا حرف آخر نہیں ہوتا ورنہ زندگی کی موت ہو جائے۔۔۔۔
ضیاء ترک: صاحبِ،صدر!
میرا خیال ہے کہ شاید میری نشان زد معروض کا بتمامہ ابلاغ نہیں ہو سکا۔۔ مَیں بارِ،دگر، بصراحت عرض کروں ۔۔ـ دراصل، مَیں نے جس حوالہ سے "پہلے تین مصرعوں ” کی بابت "حشو” ہونے کی بات کی ۔۔ وہ زیرِ،بحث نظم کی "مذکورہ بالا صورت” ہے ۔۔۔۔ـ جسے "انجام قصہ گو” کے نام سے موسوم کِیا گیا تھا۔۔۔ مجھے بھی اس کے حوالہ سے یہ معلوم ہو چکا کہ یہ "نظموں کے ایک سلسلہ کا تسلسل” ہے۔۔۔ لیکن مَیں نے اس سے یہی سمجھا کہ یہ باوجود مذکورہ امر کے اپنے آپ میں ایک "مکمّل نظم بھی” ہے۔۔۔
اب برادرِ،مکرّم، ارشد لطیف اور آپ کی وقیع آرا سے مجھے یہ گمان ہونے لگا ہے کہ یہ ایک "مکمّل نظم” نہیں بلکہ محض نظموں کے ایک سلسلہ کا "ایک جزو ” ہے ۔۔ـ یہاں مجھے ایک وضاحت درکار ہے ۔۔ "کیا ہم فی الواقع، ایک طویل نظم کے محض ایک جزو کی تفہیم کی سعی کر رہے ہیں ۔۔ ؟؟!!!۔
اگر واقعی ایسا ہے ۔۔۔۔ـ تو ارشد بھائی کی بات بالکل درست ہے کہ یہاں "حشو” نہیں ہو گا ۔۔ اور آپ کا محاکمہ بھی صد فیصد بجا ہے کہ "ضیا صاحب نے اس نظم کو دوسری نظموں سے کاٹ کر دیکھا ہے۔ یہی ان کے استدلال کی کمزوری ہے۔ ” ۔۔۔۔ـ لیکن، کیا واقعی ایسا ہی ہے کہ اس نظم کو ہم ایک طویل نظم کے ایک "جزو /
Stanza like جزو ” کی تفہیم کی سعی کر رہے ہیں ۔۔ــ کیا اس صورت میں ہمیں وہ سارا "سلسلہ ” ہی مطالعہ کے لیے نہیں رکھنا چاہئیے ؟؟!!!۔
آپ کی وساطت سے اپنے فاضل احباب سے ایک استفسار ہے محض۔۔۔ منتظر رہوں گا۔۔۔۔۔
زکریا شاذ : محترم خامہ فرسانِ محفل۔۔۔ یہ پہلو باعث مسرت ہے کہ جناب ضیا صاحب نے جہاں یہ تسلیم کر لیا ہے کہ بقول راقم انہوں نے نظم کو شاعر کی دیگر متعلقہ نظموں سے کاٹ کر دیکھنے کے باعث حشو کی حد لگائی یے۔۔ جس کے لیے راقم ان کا شکر گزار ہے۔۔ وہاں ہی ضیا صاحب بہت اصرار و تکرار کے ساتھ معترض بھی ہیں کہ۔۔
"اب برادرِ،مکرّم، ارشد لطیف اور آپ کی وقیع آرا سے مجھے یہ گمان ہونے لگا ہے کہ یہ ایک "مکمّل نظم” نہیں بلکہ محض نظموں کے ایک سلسلہ کا "ایک جزو ” ہے ۔۔ـ یہاں مجھے ایک وضاحت درکار ہے ۔۔ "کیا ہم فی الواقع، ایک طویل نظم کے محض ایک جزو کی تفہیم کی سعی کر رہے ہیں ” ۔۔ ؟؟!!!۔
یاد رہے کہ نہ ہی کسی دوست نے اب تک اور نہ ہی راقم نے۔۔ نظم کو "مکمل نظم” نہ ہونے اور” ایک جزو” ہونے کی تراکیب یا شاید القابات سے پکارا ہے۔۔ بلکہ نظم زیر بحث کو شاعر کی دیگر نظموں کی کڑی یا تسلسل وغیرہم کہا گیا ہے۔۔ یا راقم نے الگ تھلگ اور جداگانہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔۔ جن صاف ظاہر ہے نظم زیر گفتگو اپنی جگہ مکمل اور مربوط نظم ہے اور یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ نظم کے متن ہی سے از خود واضح ہے۔۔ چونکہ یہ اور اس سے متعلقہ دیگر نظمیں ایک ہی موضوع اور فضا اور المیے کا احاطہ کرتی ہیں اسی لیے نظم زیر بحث کو شاعر کی دوسری متعلقہ نظموں سے جوڑ کر دیکھنے کی زحمت کی گئی ہے۔ اس لیے نہیں جوڑا گیا ہے کہ نظم زیر موضوع "مکمل نظم” نہیں ہے یا ایک”جزو” ہے۔ ہاں ایسا حاشیہ کے اس اجلاس میں شاید پہلی بار ہوا ہو کہ کسی نظم کو زیادہ سے زیادہ سمجھنے کے لیے شاعر کی متعلقہ نظموں کا بھی حوالہ دوستوں کو دینا پڑا ہو۔۔ اور ضیا صاحب کے اپنے ہی پہلے نوٹ سے روشن تر ہے کہ اگر یہ نظم محض "جزو” ہوتی تو ضیا صاحب اس کو واضح کر دیتے۔۔
ضیاء ترک: صاحبِ صدر!
دیکھیے ۔۔ میرا استفسار ہرگز ہرگز بھی کسی ذاتی نوعیت کا نہیں تھا جو "ادبی مبحث” کے دائرے سے خارج متصوّر ہو ۔۔۔۔ـ ایک بنیادی سطح کا منطقی استفسار ہے کہ جب ہم کسی نظم کو کسی ایک سلسلہ کے ساتھ منسلک جانتے ہیں ، تو اس سے مراد محض کسی مخصوص نوع کی "سطروں کی Repetition سے وابستہ ہونا” نہیں ہوا کرتا ۔۔ـ بلکہ کسی
مخصوص فضا، پس منظر، طرزِ،احساس، کسی استعاراتی / تاریخی حوالہ، کسی مخصوص مرکزی نقطہ یا Characterization کے اشتراکات و تناظرات پر منحصر ہوا کرتا ہے۔۔۔
یہاں ایک ضمنی سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ۔۔ـ کیا نظموں کے ایک سلسلہ سے منسلک ایک نظم کے لیے سببِ،انسلاک بننے والی "سطروں ” کا بجائے خود اپنے آپ میں ، اپنے باقی تمام متن کے ساتھ Justify ہونا اہم نہیں ؟ ۔۔ــ کیا محض ان "سطروں ” کا ہونا ہی واحد رابطہ ہونا چاہئیے، اس سلسلہ کا حصہ ہونے کے لیے ؟؟
دیکھیں ، جب آپ ہی کی صراحت کی رُو سے "راقم نے الگ تھلگ اور جداگانہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔۔ جن صاف ظاہر ہے نظم زیر گفتگو اپنی جگہ مکمل اور مربوط نظم ہے ” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ـ تو بھلا زیرِ،بحث لائی گئی سطروں کے بغیر نظم میں کوئی خَلا پیدا ہوتا ہے ؟ یہ وہ نکتہ ہے جسے سمجھنے کے لیے مَیں آپ سے، صاحبِ،صدر، اور آپ کی وساطت سے دیگر احباب سے رہنمائی چاہتا ہوں۔۔۔
اور بصد معذرت ۔۔ــ اِسے محض میری جانب سے "اصرار و تکرار” نہ سمجھا جائے، کیونکہ یہ واقعتاً ایک "طالب علمانہ استفسار” ہے ۔۔ـ آپ اور دیگر شرکائے بزم احباب سبھی میرے سینئرز ہیں اور یہی تحصیل ہی اہلِ،علم کے بیچ لب کشائی کا مقصد ہوا کرتا ہے۔۔۔
ارشد لطیف : صاحب صدر، یہ ان ہونی سی لگتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ ایک خوبصورت نظم جو اپنے آپ میں بھی مکمل ہے اور اپنی ساتھی نظموں کے ساتھ مل کر بھی، کہانی در کہانی ایک مؤثر، کامیاب تخلیقی شعری ماحول بنا رہی ہے، جہاں پہلی نظم دوسری نظم سے بغل گیر ہو کر جدا ہو تی ہے، اس پر وہ اعتراض کیے جارہے ہیں جو فرسودہ اور بے بنیاد ہیں۔
کل، وقت کی کمی کے باعث اور اس آس میں کہ ایسے سنجیدہ فورم پر کوئی تو نظم کی آخری سطور کے بارے میں محترم ضیا ترک کی غیر ضروری اصلاح سے اختلاف کرے گا، کچھ نہ کہا۔ مگر آج جب آپ نے بھی ضیا کی اس اصلاح کی تاید فرمائی اور دوست خاموش رہے تو اب اختلافی نوٹ لکھے بغیر چارہ نہیں۔
لفظوں کی نشست و برخاست اور چناؤ۔۔۔۔۔۔۔۔ ابلاغ، نغمے اور اسلوب کے تعین میں مددگار ہوتے ہیں۔ یہاں ابلاغ کا مسٔلہ نہیں اور اس غیر ضروری اصلاح سے نظم کا نغمہ اور اسلوب متاثر ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
مثلاً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر زباں اس کی کٹی تھی
کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ زباں اس کی کٹ چکی تھی
رکھ کر پڑھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے پورا یقین ہے آپ میری بات سے اتفاق کریں گے۔ کٹ میں رکاوٹ ہے اور کٹی میں روانی ہے۔ پھر کٹی تھی اور کٹ چکی تھی کی صوتیات پر ذرا غور کیجئے۔ کٹی تھی۔۔۔۔۔۔۔ آپ بڑی سہولت سے بول اور پڑھ سکتے ہیں۔ اب ذرا کٹ چکی تھی۔۔۔۔۔۔ کی ادائگی پر غور کیجئے۔ کیا آپ ان دونوں کلمات کی ادائیگی میں ایک واضح فرق محسوس نہیں کرتے ؟
صاحب صدر، آخر پر یہ بات پھر دہرا رہا ہوں کہ اس نظم میں کوئی بھی سطر "حشو” کی ذیل میں نہیں آتی۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پرانی بات ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا خیال ہے اتنا اشارہ ہی کافی ہے۔
ضیاء ترک: صاحبِ،صدر!
ابھی ابھی برادرِ،محترم جناب ارشد لطیف کا اختلافی نوٹ پڑھا کہ
"لفظوں کی نشست و برخاست اور چناؤ۔۔۔۔۔۔۔۔ ابلاغ، نغمے اور اسلوب کے تعین میں مددگار ہوتے ہیں۔ یہاں ابلاغ کا مسٔلہ نہیں اور اس غیر ضروری اصلاح سے نظم کا نغمہ اور اسلوب متاثر ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
مثلاً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر زباں اس کی کٹی تھی
کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ زباں اس کی کٹ چکی تھی
رکھ کر پڑھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے پورا یقین ہے آپ میری بات سے اتفاق کریں گے۔ کٹ میں رکاوٹ ہے اور کٹی میں روانی ہے۔ پھر کٹی تھی اور کٹ چکی تھی کی صوتیات پر ذرا غور کیجئے۔ کٹی تھی۔۔۔۔۔۔۔ آپ بڑی سہولت سے بول اور پڑھ سکتے ہیں۔ اب ذرا کٹ چکی تھی۔۔۔۔۔۔ کی ادائگی پر غور کیجئے۔۔ "
سو، آپ کی وساطت سے صرف اتنی صراحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ نکتہ میں نے "ٹریٹمنٹ اور بنت” کے حوالہ سے اٹھایا تھا نہ کہ "صوتیات” یا "ابلاغ” کے حوالہ سے ۔۔ـ میرے خیال میں نظم کی باقی لائنوں کی بُنت کے برخلاف اپنی نہاد میں نشان زدہ سطر Natural Prose Order سے قریب نہ ہونے کے باعث کمزور ہے ۔۔۔۔ـ عمومی نحوی ادائیگی کے لحاظ سے یہاں : ۔۔
” پر زباں اس کی کٹی تھی”
کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ "زباں اس کی کٹ چکی تھی” کا محل تھا، یہ پیرایہ درکار تھا۔
امید ہے کہ اس مختلف اور وضاحتی انداز کے بعد شاید اب میری بات کی ترسیل ہو پائے گی۔۔۔
زکریا شاذ : محترم شرکائے مجلس۔۔۔ میرے خیال میں اب وہ وقت آ گیا ہے کہ نظم زیر بحث پر ہو نے والی اب تک کی گفتگو کو سمیٹا جائے اور نظم کے شاعر جناب زبیر رضوی صاحب کو محترم تصنیف حیدر کے توسط سے اظہار خیال کی درخواست کی جائے۔
خواتین و حضرات۔۔۔ کسی ادبی مفکر کا قول ہے کہ کسی بھی نظم کو ناقدانہ نظر سے دیکھنے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ اس نظم کے دو پہلوؤں کو پیش نگا ہ رکھا جائے۔
1۔ شاعر کی وہ زبان جس میں اس نے نظم کہی ہے۔
2۔ شاعر کی اپنی زبان۔ یعنی اس کے تصورات اور پیکر(images) وغیرہم۔
نظم زیر بحث کو اجلاسِ موجودہ میں پیش ہوئے دو ہفتوں سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اجلاس کی مقررہ مدت بھی پوری ہو چکی ہے اور سب سے اہم یہ کہ نظم کے شاید تمام ممکنہ گوشوں پر بھی سیر حاصل تبصرہ اپنی تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ صاحب ابتدائیہ جناب تصنیف حیدر نے قدرے تاخیر سے ہی سہی ابتدائیہ پیش کیا جس میں انہوں نے اپنے ذاتی مسائل کے بیچو بیچ نظم پر گفتگو کی۔ اور وہ نظم موجودہ کو بحث میں پیش کرنے یا نہ کرنے کی کیفیت یا اتخاب شاعر کی الجھن سے بھی دوچار نظر آئے۔۔ پھر انہوں نے ہندوستان میں نظم کے حوالے سے قحط الرجال کا اظہار بھی کیا۔ بہر صورت انہوں نے نظم کے مرکزی کردار قصہ گو کو اس فرد کا استعارہ قرار دیا ہے جس کو بقول ان کے "ذات” کہا جاتا ہے۔۔ اور پھر اب تک صرف انہوں نے ہی نظم کے اہم ترین پیکر۔۔۔ برگد۔۔ پر کچھ گفتگو فرمائی۔۔ مگر ایک جگہ انہوں نے یہ بھی فرمایا۔
"۔۔۔۔ وہ اس رات مر کیوں گیا؟ کیا اس نے خود کو ختم کیا؟”
اور اگے چل کر کچھ دوستوں نے بھی شاید یہی کہا یا اس سے ملتی جلتی بات کی۔ لیکن مجھے اس سے اختلاف ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ نظم میں کہیں بھی شاعر نے قصہ گو کے مرنے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ قصہ گو کا انجام اگر موت ہی ہو تو یہ تو ایک معمولی انجام یا بات ہو گی۔۔۔ انہونی نہیں ہو سکتی۔۔۔ انہونی یہ ہے کہ قصہ گو مرا یا مارا نہیں گیا بلکہ اس کی زبان کاٹ دی گئی۔۔ کسی کا مر جانا یا واقعتاً کسی کو کسی اہم انکشاف سے پہلے مار دینا یا پراسرار انداز میں مرنا تو عام سی بات ہے بلکہ عہد حاضر کی تو نمایاں "خوبی” بن چکی ہے اب۔ چنانچہ نظم کی یہی وہ کلید ہے جس سے نظم کے تمام تر معانی کھلتے ہیں۔۔ ایک ہی دوست یامین صاحب مجھے نظر آئے ہیں جنہوں نے نظم کی وضاحت صرف اس نہج پہ کی ہے۔ باقی کے تمام احباب کے تجزیوں کو اگر دیکھا جائے تو نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ نظم زیر بحث اسلامی تہذیبی کے انہدام کا نوحہ ہے۔ چونکہ سب یا اکثر احباب کا یہی کہنا ہے اس لیے نظم اپنے مفہوم میں اسلامی انہدام کا نوحہ ہی قرار پاتی ہے۔۔
سامیعن و قارئین کرام!۔۔ سطر در سظر یہ احساس بھی دامن گیر ہے کہ کہیں راقم کی تحریر مطول ہو کر اکتاہٹ کا سبب نہ بنا جائے۔ اس لیے میں ایک لمبی جست بھرتا ہوں اور نظم کے دو ایک آخری نوٹ پر آ جاتا ہوں۔ تا کہ نظم کا کوئی پہلو ادھورا نہ رہے۔
جناب ارشد صاحب فرماتے ہیں کہ۔۔
،۔۔۔۔۔ "مثلاً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر زباں اس کی کٹی تھی
کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ زباں اس کی کٹ چکی تھی
رکھ کر پڑھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے پورا یقین ہے آپ میری بات سے اتفاق کریں گے۔ کٹ میں رکاوٹ ہے اور کٹی میں روانی ہے "۔ وہ بالکل بجا فرماتے ہیں۔
جناب ضیا صاحب جو کہ۔۔۔ کٹی تھی۔۔۔ سے خوش نہیں رقم طراز ہیں کہ۔۔
"آپ کی وساطت سے صرف اتنی صراحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ نکتہ میں نے "ٹریٹمنٹ اور بنت” کے حوالہ سے اٹھایا تھا نہ کہ "صوتیات” یا”ابلاغ” کے حوالہ سے "
محترم ضیا بھی درست ہیں۔۔ مگر "ٹریٹمنٹ اور بنت” کے الفاظ درست نہیں ہیں۔۔ وہ جو کہنا چاہتے ہیں ان کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی۔۔ لیکن وہ بھی مبہم انداز میں ہی سہی کہہ ٹھیک رہے ہیں۔ اگر گستاخی نہ ہوتو عرض کروں کہ۔۔ جناب ارشد صاحب اس لیے ٹھیک فرماتے ہیں کہ وہ علم صوتیات کو ملحوظ خاطر رکھے ہوئے ہیں۔۔ ضیا صاحب بھی اس لیے بجا ہیں کہ وہ علم بیان کی بات کرنا چاہتے ہیں جس کو کہ وہ بیان نہیں کر پا رہے یا کچھ اور۔۔ یہاں ٹریٹمنٹ یا بنت کا مسئلہ نہیں۔۔ علم بیان کا مسئلہ ہے۔ ضیا صاحب کے نزدیک اور علم صوت یا صوتیات پر زور ہے ارشد صاحب کے قریب۔
کٹ چکی تھی۔۔۔۔ میں واقعی رکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ لیکن،۔۔۔ کٹی تھی۔۔ میں بھی بہت بڑی رکاوٹ ہے اور وہ ہے معنوی رکاوٹ۔۔ یعنی شاعر زبان کے کٹنے پر زور دے رہا ہے۔ یہی انہونی ہے۔ اب۔۔ کٹی تھی۔۔۔ سے بیان میں یا معنی میں شدت نہیں آئے گی۔ کٹ چکی تھی ہی سے شدت پیدا ہو گی۔ اور شاعری تو بیان و معنی میں شدت خلق کرنے ہی کا نام ہے۔۔ گرامر کی زبان میں یہاں امدادی فعل۔۔۔ یعنی۔۔ چکی۔۔ لانا پڑے گا ورنہ شاعر کا مدعا ثانوی ہو کر رہ جائے گا۔۔۔ جاری
زکریا شاذ : اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں صاحبان کے کہے کو تو نظم میں جگہ نہیں دی جا سکتی کسی ایک کو جانا پڑے گا۔ سو اگر ہم استادان فن کی طرف دیکھیں تو ان کا شیوہ یہ رہا ہے کہ وہ کبھی کبھار۔۔ ہمیشہ نہیں۔۔۔۔۔ شعر یا مصرعے کے نغمے کو شعر یا مصرعے کے معنوں پر فوقیت دیتے تھے۔۔ نغمہ یا موسیقیت شاعری کی پہلی پہچان ہے۔۔ جدید نظم کے سرخیل یا سرخیلوں میں سے ایک ن۔م راشد بھی مصرعوں کی خوش آہنگی کو بہت ضروری سمجھتے تھے۔ اور دور کیوں جائیں اپنے فیض صاحب کو بڑا شاعر نغز گوئی
LYRICISM ہی کی بنیاد پر کہا گیا۔ پھر جدید عالمی شاعری کی بنیاد رکھنے والا ایذرا پاؤنڈ تو نغمہ و آہنگ سے عاری شاعر کو خراب شاعر قرار دیتا ہے۔۔
سو ان تمام گزارشات کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ جناب ارشد صاحب کی بات کو تسلیم کر لیا جائے اور ترک صاحب کے فرمائے ہوئے کو چھوڑ دیا جائے۔۔
صاحبانِ من۔۔ میری ذاتی رائے یہ کہ اب اس کے بعد نظم کے باب میں اور کچھ مزید شامل بحث نہ کیا جائے۔۔ اسی کو کافی و وافی سمجھتے ہوئے جناب تصنیف صاحب سے گزارش کی جائے کہ وہ نظم کے شاعر جناب زبیر رضوی صاحب کو اظہار خیال کے لیے اجلاس تک لانے میں معاونت فرمائیں۔۔
دیر دیر تک جاگ جاگ کے تھک تھک جاتا ہوں
آتے ہو تو جانے کی تیاری کیا کرو (ساقی فاروقی)
ساقی صاحب !! آپ نے معنی کو شعر کے نغمے پر کس خوبصورتی اور للک سے قربان کیا ہے۔۔ واہ۔۔
اللہ بس
باقی ہوس
شاذ
صدف مرزا: نغمہ یا موسیقیت شاعری کی پہلی پہچان ہے۔۔ جدید نظم کے سرخیل یا سرخیلوں میں سے ایک ن۔م راشد بھی مصرعوں کی خوش آہنگی کو بہت ضروری سمجھتے تھے۔ اور دور کیوں جائیں اپنے فیض صاحب کو بڑا شاعر نغز گوئی
LYRICISM ہی کی بنیاد پر کہا گیا۔ پھر جدید عالمی شاعری کی بنیاد رکھنے والا ایذرا پاؤنڈ تو نغمہ و آہنگ سے عاری شاعر کو خراب شاعر قرار دیتا ہے۔۔
صدف مرزا: بہت استعدالی رنگ اور موزوں نکتہ۔۔۔ شکریہ
ضیاء ترک: صاحبِ،صدر!
میری مبتدیانہ معروضات پر "’حاشیہ” کے صاحبانِ،علم و فن کے سکوت سے مجھے کافی کچھ سیکھنے کو مِلا ۔۔۔۔ نیز اب آپ کے صدارتی کلمات اور
اینقدر وقیع نکتہ آفرینی پر مبنی اینقدر مدلّل گفتگو سے مَیں نے بہت کچھ اخذ کِیا۔۔۔ یوں بھی صدارتی "خطبہ” کے بعد مکالمہ جاری رکھنا، ضوابط کے خلاف ہے (خواہ، بات تشنہ ہی رہ گئی ہو ) ۔۔۔۔۔۔۔۔ مَیں ذاتی طور پر آپ کا از حد شکرگزار ہوں۔۔۔
مَیں محترم تصنیف حیدر کے توسط سے، نظم کے شاعر جناب زبیر رضوی صاحب کے اظہارِ،خیال کا منتظر ہوں۔۔۔
محمد حمید شاہد: کیا نغمہ یا موسیقیت ہی شاعری کی پہلی پہچان ہوتی ہے ؟ اور کیا اشیا اور صفات کا جمالیاتی ادراک اور نئی معنوی تشکیل درجہ دوم کا وظیفہ ہے ؟ نغمہ اور آہنگ کی گرفت میں روایتی، صرفی اور نحوی سیاق و سباق ہت استعدالی رنگ اور موزوں نکتہ، شکریہ
تجربات کو امیج کی سطح پر برت لیتے ہیں اور ان میں سے محض معنی کی بجائے نئی حسیت اور پیچیدہ معنویت کی دھنک اچھال لیتے ہیں تو کیا ہر طرح کی لفظیات، خیال اور احساس کو جمالیاتی سطح پر برت لینا نغمے اور موسیقی کے مقابلہ میں پیچھے دھکیل دئیے جانے کے لائق ہیں ؟؟؟۔ خیر میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہے تب ہی تو میرا نئی نظم پر ایمان قائم ہے۔
خیر بات کہیں اور نکل جائے گی۔ یہاں سوال جواب مقصود نہیں۔ صدر محترم، میں بھی آپ کی طرح نظم نگار کے کلمات عطا ہونے کا منتظر تھا مگر جہاں بات آ کر رکی اس نے میرے سامنے یہ سوالات اٹھا دیے تھے۔ میری تجویز ہے کہ اب اگر نظم نگار میسر ہوں تو ان کا انتظار کیا جائے، ورنہ صدر صاحب اپنا صدارتی خطبہ پر اجلاس کے اختتام کا اعلان کر دیں۔
زکریا شاذ : اختتامیہ
خواتین و حضرات !
قصہ گو کے انجام کے بعد قصہ گویانِ اجلاس کی نکتہ آفریں گفتگو بھی جبکہ اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے تو اب ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اجلاس کے اختتامیے کا اعلان کر دیا جائے۔۔ لیکن اس سے قبل کیوں نہ جاتے جاتے اجلاس کی گفتگو کے آخری نوٹ، یعنی محترم حمید شاہد نے جو فرمایا اس کے حوالے سے دو ایک باتیں کر لی جائیں۔
جناب حمید شاید نے اگرچہ یہ فرما دیا ہے کہ ان کا کہا جواب کا متقاضی نہیں ہے۔ مگر راقم نے اس سے قبل جو عرض کی تھی اس کے پس منظر میں محترم حمید شاہد کی گفتگو سے پتا چلتا ہے کہ ان کے یا کچھ دوستوں کے ذہن میں مغالطے پیدا ہو گئے ہیں یا اکثر کے ہاں پیدا ہو جاتے ہیں۔ سو مغالطوں کو رفع کرنا اشد ضروری ہے۔
حمید شاہد صاحب نے شاعری اور خاص کر جدید شاعری کے باب میں جو کچھ فرمایا ہے میں اس پر لبیک کہتا ہوں اور ان کے حرف حرف سے متفق و مطمئن ہی نہیں بلکہ ویسا ہی سوچنے والوں میں سے ہوں۔
میں نے عرض کی تھی کہ شاعری کی پہلی پہچان نغمگی و موسیقیت ہے۔ آپ نے فرمایا۔۔
” کیا نغمہ یا موسیقیت ہی شاعری کی پہلی پہچان ہوتی ہے ؟ اور کیا اشیا اور صفات کا جمالیاتی ادراک اور نئی معنوی تشکیل درجہ دوم کا وظیفہ ہے "
اس ضمن میں صرف اتنی عرض ہے کہ میں نے جو کہا تھا بہت سوچ کر کہا تھا کہ موسیقیت شاعری کی پہلی پہچان ہے۔ یعنی۔۔ پہچان۔۔ خوبی یا معیار وغیرہ میں نے نہیں کہا۔۔ خوبی اور پہچان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔۔ با الفاظ دیگر موسیقیت شاعری کا پہلا تعارف ہے تعریف ہر گز نہیں۔ گویا کوئی بھی سخن پارہ جس پہلی بنیاد پر کسی نثر پارے سے الگ پہچانا جائے گا وہ اس کی موزونیت اور خوش آہنگی ہو گی۔۔ اور بس۔۔۔۔ باقی شاعری کے درجہ اول یا دوم کی بحث کا اس سے کو ئی علاقہ نہیں۔۔ اور یہی وہ نکتہ ہے جو شاید "نثری نظم” کی بھی راہ میں حائل ہے۔ چنانچہ جہاں تک شعری روح کا تعلق ہے تو وہ "نظمی نظم” کی طرح "نثری نظم” میں بھی موجود و میسر ہے۔ راقم کو اس سے کوئی انکار نہیں۔۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ ایک حد تک موزونیت کا تعلق الفاظ کی بندش سے اور خوش آہنگی الفاظ کے چناؤ سے متعلق ہے۔ نثری نظم میں موزونیت تو ہوسکتی ہے مگر خوش آہنگی کہ جس کے کئی دیگر ذرائع میں سے ایک ظاہری پیمانہ بحر ہے مفقود ہے۔ نثری نظم تو ایک ضمنی حوالہ تھا۔ اصل مدعا یہ ہے کہ شاعری کے معیاری یا غیر معیاری ہونے سے خوش آہنگی کا کوئی رشتہ نہیں پر اس کے جمالیاتی اور تاثیری پہلو سے ضرور ہے۔۔ مگر ٹھہریں۔۔ میری یہ بات سمجھنے سے پہلے ان اسناد پر غور فرما لیں جو میں نے اپنے موقف میں پیش کی تھیں۔۔
میں نے کہا تھا کہ پاؤنڈ نے نغمہ و آہنگ سے عاری شاعر کو خراب شاعر کہا۔۔۔ پھر غور فرمائیں۔۔ خراب شاعر۔۔۔ برا یا کم تر یا غیر معیاری مطلق نہیں کہا !! برا شاعر اور خراب شاعر ہونے میں بہت فرق ہے۔ اگر پاؤنڈ نے برا وغیرہ کہا ہوتا تو شاید مجھ سے پہلے ہی ان گنت لوگ اختلاف کر چکے ہوتے۔ اس نے
defected poet کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔۔۔ جس کا ترجمہ میں نے خراب شاعر کیا۔ ترجمہ کوئی بھی کر لیں مگر اس سے برا وغیرہ کے معنی برآمد تو ہر گز نہیں ہوتے۔۔ یعنی بے سُرا شاعر اعلی و ارفعی تو ہو سکتا ہے خراب یا ناقص شاعر ہونے سے اسے کوئی نہیں بچا سکتا۔ میرے موقف کا بس یہی خلاصہ ہے۔ مزید یہ کہ سریلا پن شعری جمالیات ہی کا ایک وصف ہے۔
میں نے عرض کی تھی کہ فیض کو غنائیت (خوش آہنگی + رومانوی انداز) ہی کی بنیاد پر بڑا شاعر کہا گیا۔۔۔ اس کے معنی ہر گز یہ نہیں کہ بڑی شاعری غناء میں فنا ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ بلکہ اس کے دلچسپ اور میرے موقف کی تائید پر مبنی معنی یہ ہیں کہ فیض کو اسی ایک نمایاں پہچان نے بچا لیا ورنہ فیض کی شاعری مجموعی سطح پر اس پائے کی نہیں کہ اس کو بڑا بنا دیتی۔۔ اب اس سے ایک دلچسپ پہلو یہ برآمد ہوا کہ شاعری خواہ معمولی درجے ہی کی کیوں نہ ہو مگر اگر وہ صرف خوش آہنگی میں نمایاں ہو تو محض اسی بنیاد پربھی اسے بھلایا نہیں جا سکتا۔۔ اور سوچیں کہ اس صفت سے مملو شاعری اگر اعلی بھی ہو جو کہ اصل موضوع بحث ہے، تو اس کے معیار کا کیا عالم ہو گا۔۔ باقی بڑا شاعر ہونے کے پیمانے بہت پیچیدہ اور پرا سرار ہیں۔ ورنہ فیض کے دائیں بائیں بھی ایسے قد آور شاعر تھے جن کی جڑیں اسی مٹی سے تھیں جس سے فیض نے نمو پائی۔
حاضرین کرام۔۔۔ اگر میں کچھ زیادہ ہی بول کر آپ کو بیزار کر گیا ہوں تو براہ کرم مجھے معاف کر دیجیے۔ لیجیے اجلاس کو ختم کرنے کی تائید مجھے حاشیہ کے بہت ہی معتبر رکن جناب حمید شاید سے حاصل ہو چکی ہے اور کچھ دوستوں نے بھی اشارے دے دیے ہیں۔۔ سو میں۔۔ انجام قصہ گو۔۔ کے موضوع سے مزین اس اجلاس کے خاتمے کا اعلان کرتا ہوں اور بحث میں شامل تمام محترم خواتین و حضرات کا تہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے نہ صرف وقت ہی نہیں نکالا بلکہ اپنی قیمتی آرا سے مجلس کو ثروت مند بھی کیا۔ آخر میں میں ان تمام محترم و معتبر سینئر اراکین حاشیہ کا ممنون و معترف ہوں جنہوں نے اس محفل کے صدارت جیسے اہم منصب سے مجھ خاک نشیں کو سرفراز و سر بلند کیا۔۔ اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کیا۔ مجھے اس پر ہمیشہ ناز رہے گا۔۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
آپ سب کا ہم آواز
زکریا شاذ۔۔۔
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید