فہرست مضامین
- نظمگی
- آصف جانف
- نظمگی
- آصف جانف
- خدا کی آئی ڈی پر پروفائل پکچر نہیں ہے
- خدا کی آئی ڈی پر پروفائل پکچر نہیں ہے 2
- چار انوکھی خواہشات
- دوسرا نام
- خدا کی بندی
- میں اور میرا کمرہ
- "I’m already dead"
- موت کا انتظار
- ایک اور دو
- میرے تین بچے ہیں
- میں نے دیکھا
- ڈیجیٹل انسان کا دکھ
- ایک لڑکی
- زخموں کی ایلفی
- اور تُو نے
- عالمِ کشمکش
- میں باز آ جاؤں گا
- کیا مجھے معلوم ہونا چاہئے
- عمرِ رواں
- چلے آؤ کہ
- اور بس
- محبوبیت
- حُسن کی اصلی دیوی
- زندگانی
- حالتِ حال
- میں اس لیے بھی تمہیں نہیں بھلا پاتا
- کائنات کی پھرکی کو کون روکے گا
- دیوتا کی کھوپڑی اور ہم
- آٹھ سال
- دل کے ٹوٹنے کے بعد کیا ہُوا
- زنگر برگر
نظمگی
آصف جانف
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
نظمگی
نظمیں
آصف جانف
خدا کی آئی ڈی پر پروفائل پکچر نہیں ہے
کائنات بنا کر
خُدا نے پوسٹ اپلوڈ کی
اور
ری ایکٹس دیکھنے بیٹھ گیا!
ری ایکٹس میں
نیلے ری ایکٹس،
دِل والے ری ایکٹس،
کیئرِنگ ری ایکٹس،
لافِنگ ری ایکٹس،
حیرانگی والے ری ایکٹس،
اُداسی والے ری ایکٹس
اور
غُصّے والے ریک ایکٹس شامِل ہیں!
کامینٹس کرنے والوں میں
آہ والے،
واہ والے،
کنفیوژن والے،
اور
تنقید کرنے والے شامِل ہیں!
آئی ڈی کو فیک سمجھنے والوں
اور نظر انداز کرنے والوں کی
تعداد میں اِضافہ ہوتا جا رہا ہے
کیوں کہ
’’خُدا کی آئی ڈی پر پروفائل پِکچر نہیں ہے‘‘
خدا کی آئی ڈی پر پروفائل پکچر نہیں ہے 2
خدا نے آئی ڈی بنا کر
انسانوں کو ریکویسٹس بھیجیں
اور پوسٹ اپلوڈ کی
"I’m the God”
پڑھنے والوں کی ہنسی نہیں رُکی
وہ زور زور سے ہنسنے لگے
کچھ نے دل والا ری ایکٹ کیا
کچھ نے نیلا
کچھ نے اداسی والا
کچھ نے کیئرنگ
کچھ نے واؤ
اور کچھ نے غصے والا ری ایکٹ کیا
مگر خدا نے پوسٹ ڈیلیٹ نہیں کی
کامینٹس میں پوچھا گیا
"Oh God, where is your picture”?
خدا خاموش رہا
کامینٹس کرنے والوں نے بہت کچھ پوچھا
لیکن انہیں خدا کی طرف سے کوئی ریپلائی نہیں مِلا
انسانوں نے اسے فیک سمجھ کر
ان فرینڈ اور ان فالو کر دیا
کیوں کہ
"خدا کی آئی ڈی پر پروفائل پکچر نہیں ہے "
چار انوکھی خواہشات
مجھے چاہئیں دو عدد عزرائیلی ہاتھ
تاکہ مَیں گھونٹ سکوں
تمہاری یاد کا گَلا
اور نِکال سکوں اِس کی روح!
مجھے چاہئے ایک عدد اسرافیلی سائرن
تاکہ مَیں اُٹھا سکوں
اپنے اندر برسوں سے دفن
اُس مُردہ کو
جِس کو مار ڈالا تھا
وقت اور تم نے مِل کر!
مجھے چاہئیں دو عدد جبرائیلی پَر
تاکہ مَیں اُڑ سکوں
اِتنا تیز
اِتنا تیز
کہ پلک جھپکتے ہی پہنچ جاؤں
ایک ایسی جگہ
کہ جہاں نہ ہو
کسی بھی شئے پر تمہارے چہرے کی مُہر!
مجھے چاہئے ایک عدد میکائیلی طاقت
تاکہ مَیں برسا سکوں
اپنے دل و دماغ پر وہ بارش
کہ جس سے بجھ جائے دل و دماغ کی آگ
اور پھر چلا سکوں وہ ہَوا
کہ جس سے تر و تازہ ہو جائیں دل و دماغ!
دوسرا نام
خیرخواہی بکواس کا دوسرا نام ہے
ہے کوئی آپ کا خیرخواہ؟
اگر ہے تو اپنی زندگی کی فِکر کرو!
زندگی خواب کا دوسرا نام ہے
یہ آخری بار مجھے
کسی بستر پر مِلی تھی
ہونٹوں کی شکل میں
پھر میری آنکھ کھُل گئی!
آنکھ دھوکے کا دوسرا نام ہے
اندھے دھوکہ نہیں کھاتے
اُنہیں فرق نہیں پڑتا چاہے دن ہو
چاہے رات!
رات دن کا اور دن رات کا دوسرا نام ہیں
یہ مَیں سمجھتا ہوں یہ میری مرضی ہے
رات کو مجھے نیند نہیں آتی
دن کو نیند کیلئے وقت نہیں مِلتا
ہو سکتا ہے
یہ خُدا کی مرضی ہو!
خُدا خالی جگہ کا دوسرا نام ہے
وہ خالی جگہ جس کو ہم
پُر نہیں کر سکتے ہاں کبھی نہیں!
خدا کی بندی
تم مجھے ایک پھول دو
میں تمہیں کانٹوں سے بچاؤں گا
تم مجھے دل دو
میں تم سے اپنا دل نہیں مانگوں گا
تم میرا ایک دفعہ نام لو
میں سینکڑوں سانسیں لوں گا
تم مجھے دیکھ کر مسکراؤ
میں تمہیں دیکھ کر نہیں روؤں گا
تم مجھے ایک حوصلہ دو
میں جینا شروع کروں گا اور ہزاروں سال زندہ رہوں گا
تم مجھ سے بات کرو
میرے کان جشن منائیں گے
تم مجھے ایک بار چھو لو
میں تمہیں بار بار نہیں چھوؤں گا
تم میری طرف ایک بار پیار سے دیکھو
میں تمہاری آنکھوں پر بے شمار نظمیں لکھوں گا
تم مجھے چائے پر بلاؤ
میں تمہیں تم پر لکھی گئی نظمیں سناؤں گا
تم مجھے کچھ بوسے دو
میں تمام عمر تمہیں پیار دوں گا
اے خدا کی بندی
تم یہ نظم پڑھو
میں تمہارے لیے ایک اور نظم لکھتا ہوں
میں اور میرا کمرہ
|مَیں داخل ہوتا ہوں |
دروازہ ہمیشہ کہتا رہتا ہے
’’مجھے بند رکھو یا کھلا چھوڑ دو‘‘!
پنکھے کی شدید خواہش ہوتی ہے
مَیں اس سے لٹک کر خودکشی کر لوں
تاکہ باقی پنکھوں میں اس کا نام مشہور ہو جائے!
چھت اپنے اندر
ایک دو تین چار سوراخ چاہتی رہتی ہے
تاکہ وہ سانس لے سکے!
الماری محبت کی بھوکی ہے
وہ چاہتی ہے
مَیں اُس کی گود میں سونے کی عادت ڈال لوں
تاکہ وہ سکون کا ذائقہ چکھ سکے!
بلب شہرت کا بھوکا ہے
وہ چاہتا ہے
مَیں اُسے ہمیشہ آن رکھوں
تاکہ وہ چمکتا رہے اور نظر میں رہے!
کھڑکی پھیلنے کی کوشش میں
لگی رہتی ہے
تاکہ وہ پوری دیوار میں سما جائے
اور کمرے کی اُس سائڈ کو
"کھڑکی” کا نام دیا جائے!
دیواریں اڑنے کی کوشش میں
لگی رہتی ہیں
وہ سمجھتی ہیں
تمام مسائل کا حل یہی ہے!
|مَیں خارج ہوتا ہوں |
"I’m already dead"
محبت میں ناکامی کے بعد
مجھے ایک سایہ نما "مَیں ” مِلا
جس نے مجھے بلند آواز میں
بتایا کہ
خاموشی سے روتے اور ہنستے رہو
جب تک موت نہیں آتی
ایک لڑکی نما جہان کو کھو کر
مَیں ایک جہان نما بلیک ہول
میں چلا گیا ہوں
جہاں بے شمار مجھ نما سفید چہرے ہیں
جِن کی آنکھوں میں
بے وفاؤں کے ہونٹ پڑے ہیں
مَیں نے دیوار کے کان میں
اپنی موت کی خبر ڈالی
تو
اُس نے دروازے کے منہ میں ہاتھ ڈال کر
دروازے کی زبان نکالی
اور فرش کے مُنہ میں گھسیڑ دی
تاکہ خبر پھیلانے کا سہرا اُسی کے سر رہے
مجھے ایک بے رنگ آواز آئی
"مچھلی کے پیٹ میں
زندہ رہنے کیلئے خدا کے ہاتھ سے
نکلنے کی غلطی مت کرنا”
مرنے کے بعد
ایک شاعر کی جیب سے
ایک بے وفا کی یادوں کی گڈی نکلی
جس پر لکھا تھا "I’m already dead”
موت کا انتظار
شعور کی آنکھ کھولتے ہی
میں نے سب سے پہلے
خدا کی تلاش شروع کی
میں اٹھا، بھاگا
اور ایک کھلے میدان میں پہنچ گیا جہاں میرے اور خدا کے تصور کے علاوہ کوئی نہیں تھا
میں نے دور دور تک بہت غور سے دیکھا مگر مجھے خدا نظر نہیں آیا
میں پہاڑوں پر چلا گیا
میں نے کثیر تعداد میں چھوٹے بڑے پتھر اٹھائے
کہ شاید خدا ان کے نیچے چھپا ہو
مگر نہیں
میں سمندر کی تہہ میں گیا
وہاں میں نے بے شمار سپیشیز پائے
میں نے ہر ایک کے اندر جھانکا
مگر وہ سب خدا سے خالی تھے
میں نے جنگل میں رہنے کا فیصلہ کیا اور ایک خیمے میں رہنے لگا
میں ڈھونڈتا رہا
کہ شاید کسی درخت کی ٹہنی پر خدا بیٹھا ملے،
شاید کسی پتے سے نمودار ہو جائے،
شاید خدا جھاڑیوں میں رہتا ہو یا شاید وہ جنگلی جانوروں کے ساتھ کہیں کھیلتا ہُوا ملے
مگر مجھے وہاں بھی خدا کی جگہ ناکامی ملی
میں تھک کر گھر آیا
پیشاب کیلئے بیت الخلا میں داخل ہُوا
تو میں نے دیکھا
ایک کاکروچ گٹر میں گندگی کھا رہا ہے
گندگی سے مجھے یاد آیا کہ
خدا تو ہر عیب سے پاک ہے
تو اس کی تخلیق میں گندگی کیوں پائی جاتی ہے؟
اس سوال نے میرے شعور کو جھنجوڑ کر رکھ دیا
بیت الخلا سے نکلا تو ایک لمبی سانس لے کر میں نے شراب کی ایک چسکی اس نیت سے لی
کہ شاید خدا میرے سامنے آ کر کھڑا ہو جائے یا شاید شراب کی چسکی میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے خدا تک لے جائے
مگر ایسا نہیں ہُوا
میں نے آنکھ بند کی اور اپنے شعور کے پاؤں سے ہر اس جگہ گیا جہاں سے مجھے امید تھی خدا کو ساتھ لانے کی
مگر میں خالی ہاتھ لوٹا
پھر مجھے خیال آیا کہ شاید خدا زندگی کے اُس پار ہو
یہ سوچ کر
میں نے خود کشی کے بجائے ’’موت کا انتظار‘‘ شروع کِیا
تاکہ زندہ رہ کر بہت سے سوالوں کو ساتھ لے جانے کیلئے جمع کر سکوں
ایک اور دو
ایک گلی ایسی ہے
جو پوری کائنات سے عظیم ہے
ایک در ایسا ہے
جس کو دنیا کے تمام دروازوں پر فوقیت حاصل ہے
ایک گھر ایسا ہے
جو گھروں کا سردار ہے
ایک چہرہ ایسا ہے
جس کو صرف بند آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے
کھلی آنکھوں میں اتنی سکت نہیں
ایک لڑکی ایسی ہے
جس نے مجھے اپنے دل میں رہائش دی
اور کرایے کے طور پر میرا دل لے لیا
دو ہونٹ ایسے ہیں
جو سکون کے رس سے بھرے ہوئے ہیں
دو آنکھیں ایسی ہیں
جن میں ہزاروں راز پوشیدہ ہیں اور وہ راز کبھی فاش نہیں ہو سکتے
دو نظمیں ایسی ہیں
جو کبھی پوری نہیں کہی جا سکتیں جن میں ایک یہ ہے
میرے تین بچے ہیں
مَیں گے نہیں ہوں
مگر شادی نہیں کرنا چاہتا
’’میرے تِین بچے ہیں‘‘
دو لڑکے اور
ایک لڑکی،
لڑکوں کے نام ہیں
’’دِل اور دماغ‘‘
لڑکی کا نام ہے
’’شاعری‘‘
دل معذور ہے،
دماغ بہت شرارتی ہے اور
شاعری اُداس رہتی ہے
شاید وہ میرے ساتھ خوش نہیں
مگر وہ مجھے
بتاتی بھی نہیں
ہو سکتا ہے یہ میرا وہم ہو
یہ بچے
کِسی کے ساتھ مباشرت کر کے
مجھے نہیں مِلے
ہاں مگر
اِن کا جنم میرے اندر ہُوا
میں نے دیکھا
بس کی کھڑکی سے باہر
میں نے دیکھا
سڑک کنارے لگے درخت
مجھے یوں گھور رہے تھے
جیسے میں نے ان کے ثمر چرائے ہوں
میں نے دیکھا
زندہ سڑک ایک لاش کی مانند پڑی تھی
انسانوں کو مردہ کرنے میں کوشاں اور میں نے دیکھا
خود کو اڑتا ہوا
جو میری بس سے کافی آگے نکل رہا تھا
شاید مجھے جلدی پہنچنا تھا
میں نے دیکھا
کچھ نظمیں لٹک رہی تھیں
دوسری بس کے پیچھے
اور مجھے اشارے کر رہی تھیں
مگر میں ان کا مطلب نہیں سمجھا
میں نے دیکھا
اک جگہ بہت سارے خیالات جمع تھے
اور ان میں سے ایک انہیں
تخلیق کاروں کے دماغ میں گھسنے کا ڈھنگ سکھا رہا تھا
میں نے دیکھے کچھ خواب
جو بس کی چھت پر میرے اترنے کے منتظر تھے
میرے کچھ خواب میرے ہمسفر تھے
میں نے دیکھا زندگی کو
جو مسلسل رقص کناں تھی
جس کے پاؤں میں
موت کے گھنگرو بندھے ہوئے تھے
اور وہ چھن چھن کی بجائے
آہ آہ کی آواز پیدا کر رہے تھے
اور میں نے دیکھا
بہت کچھ
جس کا ذکر میں نہیں کر سکتا
یا پھر کرنا نہیں چاہتا
جس کا مجھے افسوس نہیں رہے گا
ہاں نہیں رہے گا
ڈیجیٹل انسان کا دکھ
دکھوں نے خدا کی تخلیق کی
دھجیاں اڑا دیں
دکھ وہ بھوکا کتا ہے جو اپنے بچوں تک کو کھا جاتا ہے
انسان نے خوش رہنے کیلئے
ہر حد پار کی
مگر دکھوں نے انسان کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑا
دکھ تمام انسانوں کی مشترکہ پریشانی ہے
یہ خود کو بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی
اسے کوئی شے مات نہیں دے سکتی
یہ ایک لازوال پریشانی بن چکی ہے
انسان ڈیجیٹل ہُوا
تو دکھوں نے اس کا استقبال کیا
اور کہا کہ آئیے اشرف المخلوقات
ہم یہاں بھی آپ سے جڑے رہیں گے
اور آپ کو خوش نہیں رہنے دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے
لائکس اور کامینٹس
وہ خوشیاں ہیں جنہوں نے
ڈیجیٹل انسانوں کو اطمینان کی امید دلائی
مگر دکھوں کا مقابل تو کوئی نہیں
دکھوں نے ان خوشیوں پر قابو پا کر
انسان کو ڈیجیٹلی بھی دکھی کر دیا
ایک لڑکی
میں نے ایک لڑکی کو
بھلانے کی کوشش کی
اور
وہ میرے دماغ میں وبا کی طرح پھیل گئی
میں نے ایک لڑکی کو
دل سے نکالنا چاہا
اور
وہ میرا دل بن گئی
دل کو نکالوں گا تو مر جاؤں گا
میں نے ایک لڑکی کی
ہر تصویر ڈیلیٹ کی
تاکہ اس پر نظر پڑنے سے اس کی یاد نہ ستائے
اور
وہ میری آنکھوں میں گھس گئی
میں نے ایک لڑکی کے
تمام وائس نوٹس ریموو کئے
تاکہ سن کر روؤں نہ
اور
اس کی آواز ہوا میں شامل ہو گئی
میں نے ایک لڑکی کو
اپنا سب کچھ مانا
اور
وہ کچھ نہیں نکلی
زخموں کی ایلفی
تم مجھے گلے لگا کر
میرے ہونٹ چومنا چاہتی ہو
مگر
تمہیں بتاتا چلوں
گلے ملنے کے بعد
تم مجھ سے چپک کر مجھ میں
ضم ہو جاؤ گی
کیوں کہ
تم سے پہلے ایک لڑکی
مجھ پر اُداسی پینٹ کرتے ہوئے
غلطی سے مجھ پر زخموں کی ایلفی
لگا کر چھوڑ گئی
اِس سے پہلے
کہ تم مجھے گلے لگاؤ
یہاں سے چلی جاؤ
اور تُو نے
مَیں نے تجھے اپنا دل دیا
اور
تُو نے غُبارہ سمجھ کر
اُس کو ہَوا میں چھوڑ دیا
اب وہ
تیرے ہاتھ آ رہا ہے
نہ میرے ہاتھ!
مَیں نے تجھے اپنا آپ دیا
اور
تُو نے کینواس سمجھ کر
مجھ پر اُداسی پینٹ کی
اب مَیں
تیرے کام آ رہا ہوں
نہ میرے کام!
عالمِ کشمکش
میں ایک ایسی جگہ آیا ہوں
جہاں ہر شے
ابہام کے قیمتی رنگ برنگے جوڑے
میں ملبوس ہے
مجھے ایسا لگتا ہے
میں پکاسو کی پینٹنگز میں گھس چکا ہوں
یا پھر وین گوگ کے دماغ میں
یہاں انسان نہیں ہیں
مگر انسان نما چہرے ہیں
ہر چہرہ، چہرہ نما ہے
اور ہر چہرے کی 9 آنکھیں ہیں یا شاید 6
مجھے بہت سے دھندلے ہاتھ پاؤں
نظر آ رہے ہیں
ان کی بہت ساری انگلیاں ہیں
اور ہر انگلی کے کئی ناخن ہیں
یہاں خیالات کا ایک گروہ ہے
ان کا ایک سردار ہے
جس کا نام نہیں ہے مگر وہ میرا ہم خیال ہے
اور مجھے کہتا ہے
اے میرے ہم خیال
آئیے حضور
عالمِ کشمکش میں آپ کا سواگت ہے
اب آپ کی واپسی ممکن نہیں
میں باز آ جاؤں گا
میں باز نہیں آؤں گا
تمہیں یاد کرنے سے
اور
تمہیں یاد کر کے رو لینے سے
میں باز نہیں آؤں گا
کسی خیال کا پیچھا کرنے سے
اور
پیچھا کرتے کرتے تھک جانے سے
میں باز نہیں آؤں گا
خدا کو ڈھونڈنے سے
اور خدا کو ڈھونڈ کر خوار ہونے سے
میں باز نہیں آؤں گا
سوچنے سے
اور سوچ سوچ کر پک جانے سے
میں باز نہیں آؤں گا
شاعری سے
اور شاعری کر کے رسوا ہونے سے
میں باز نہیں آؤں گا
نظمیں کہنے سے
اور نظمیں کہہ کر شاعروں کو جلانے سے
مگر ہاں
میں ایک دن
باز آ جاؤں گا زندگی سے
اور پھر ہر شے سے
کیا مجھے معلوم ہونا چاہئے
ہمارے نصیب میں
ملاقات کے پھول کب اُگیں گے؟
کیا تم نے مینڈک پالا ہے کبھی؟
مَیں نے بچھو پالا تھا
مگر وہ مر گیا تھا
جس کا مجھے بے حد دکھ ہُوا تھا
ہمیں کون پال رہا ہے؟
کیا ہمارے مرنے پہ اُسے دکھ نہیں ہوتا؟
کیا آسمان کو دیکھتے ہوئے
زیادہ نہیں سوچنا چاہئے؟
کیا یہ صرف ایک نِیلا تصور ہے؟
کیا مجھے معلوم ہونا چاہئے
کہ زندگی رینگتی ہے
یا چلتی ہے
یا پھر اڑتی ہے؟
کیا تم نے خواب کو دیکھا ہے؟
یہ کِس رنگ کا ہوتا ہے؟
اِس کی بناوٹ کیسی ہوتی ہے؟
کیا یہ کسی بنگلے کی شکل میں ہوتا ہے؟
یا گاڑی کی شکل میں؟
یا موبائل کی شکل میں؟
یا پھر روٹی کی شکل میں؟
کیا مجھے معلوم ہونا چاہئے؟
عمرِ رواں
زندگی رات کو مجھے اُتار کر
کھونٹی پر لٹکاتی ہے
مگر
کھونٹی مجھے قبول نہیں کرتی
کیوں کہ
مَیں بھاری ہوں اور کپڑا نہیں ہوں!
کمرے کی دیواریں
دن بھر کا حال پوچھتی ہیں
اور بتاتی ہیں
مگر
زندگی ہمیں خاموش کرا کر سو جاتی ہے
کیوں کہ
اسے شور میں نیند نہیں آتی!
ہم آنکھ بند کر کے
صبح تک سونے کی اداکاری کرتے ہیں
اور صبح
زندگی مجھے پہن کر کام پر نِکل جاتی ہے!
چلے آؤ کہ
چلے آؤ کہ
بستیِ دلِ نادان میں
سکون کی ہَوا چلے
اور سارے بے قرار کُتے ہمیشہ کیلئے سو جائیں
جن کو نہ نیند آتی ہے
نہ یہ تھکتے ہیں
نہ مرتے ہیں
بس ہر وقت بھونکتے رہتے ہیں
جو سکون کو ذرا بھی
داخل نہیں ہونے دیتے ہیں
چلے آؤ کہ
دامنِ زیست خوشیوں سے بھر جائے
میرا اداس چہرہ نکھر جائے
اور آفت مجھے چھوڑ کر گھر جائے
چلے آؤ کہ
میرے کمرے کا دروازہ
تمہیں دیکھ کر کھِلکھِلا اٹھے
اور دیواریں پاگلوں کی طرح رقص کرنے لگ جائیں
چلے آؤ کہ
کہ مَیں تمہیں گلے لگا کر
اِس نظم کو سچ کر سکوں
چلے آؤ!
اور بس
دنیا ایک بازار ہے
جِس میں
بہت سارے پنجرے پڑے ہیں
ان پنجروں میں سانسیں رکھی گئی ہیں
یہاں سے صرف موت خریداری کرتی ہے!
’’اور بس‘‘
موت ایک آرام گاہ ہے
جِس میں
سانسیں جا کر سکون کی نیند سو جاتی ہیں!
’’اور بس‘‘
نیند ایک کھیل ہے
جِس کو شوق سے نہیں
ضرورت سے کھیلا جاتا ہے!
’’اور بس‘‘
ضرورت ایک محفل ہے
جِس میں
غریب کا جانا سختی سے منع ہے!
’’اور بس‘‘
غریب ایک گاڑی ہے
جِس
کے ٹائر خود بہ خود پنکچر ہو جاتے ہیں!
’’اور بس!‘‘
محبوبیت
میں تمہاری آنکھوں کے تمام تر رازوں سے
اس قدر واقف ہوں
کہ مجھے ان میں دیکھ لینے سے لے کر ڈوب جانے تک اور ڈوب جانے سے لے کر مر جانے تک کوئی خوف نہیں
میں تمہارے ہونٹوں کی لالی کو بے رنگ کرنے
اور اس کی بے رنگی کو لال کرنے میں اتنا ماہر ہوں
کہ میں لال کہوں تو یہ لال ہو جائیں،
میں بے رنگ کہوں تو یہ بے رنگ ہو جائیں اور میں انہیں چوم لینے سے سبز ہو جاتا ہوں
میں تمہارے شکیل چہرے کے سبھی نقوش سے
اس درجہ آشنا ہوں
کہ سمندر کی اٹھکھیلیاں کرتی سرکش لہروں کے اوپر
اور تھرتھراتی ہواؤں کے کینواس پر
ارض و سما میں نِہاں و عیاں تمام رنگوں سے تمہاری صورت بنا سکتا ہوں
میں تمہاری کشیدہ قامت کو کائنات کی تمام رفعتوں سے اونچا سمجھتا ہوں
کہ میں نے تمہیں بارہا سر سے پاؤں تلک چوما ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ اب بھی تمہارے بدن کا کچھ حصہ
چومنے سے رہ رہا ہے
میں تمہاری کاکُلِ مُشکیں کی
پُراسراریت سے اتنا متاثر ہوں کہ مجھے بلیک ہول کا بھید جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں
اور میں تمہارے مخملی بدن کی خوشبو سے اس طرح معطر ہوں کہ میں تمہاری غیر موجودگی میں بھی تمہارے وجود کو سونگھ سکتا ہوں
حُسن کی اصلی دیوی
تمہاری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
مجھے یہ محسوس ہو جاتا ہے
کہ مَیں کسی جھیل میں اُتر چُکا ہوں
اور
وہاں مجھے ایک پَری مِل گئی ہے
جو مجھے کہتی ہے
یُوں ہی مجھے دیکھتے رہو
کہ زندگی اِسی کا نام ہے!
تمہارے ہونٹوں کو دیکھتے ہوئے
یہ لگتا ہے
کہ مَیں ایک گُلاب کے باغ میں کھڑا ہوں
اور گُلابوں کی پنکھڑیاں
تمہارے ہونٹ بن کر میرے ہونٹوں پر
گِر رہی ہیں اور مَیں اُنہیں
دھیرے دھیرے چُوم رہا ہوں!
تمہاری تار تار زلفوں کو دیکھ کر
مجھے لائف لائن کا خیال آ جاتا ہے!
تمہاری ناک کا سِرا جب چمکنے لگتا ہے
تو یہ احساس ہوتا ہے
کہ تمہارے چہرے پر کوہِ نُور کا ہیرا پڑا ہے!
اور جب مَیں تمہارے چہرے پر
نظر دَوڑاتا ہوں
تو مجھے یقین ہو جاتا ہے
کہ تم ہی ’حُسن کی اصلی دیوی‘ ہو!
زندگانی
وقت وہ تیز رفتار ٹرین ہے
جِس کی پٹڑی
ہمارے خوابوں سے بَنی ہے!
دَولت کے پاؤں
نہیں ہوتے مگر
وہ پہنچ سکتی ہے
اُن تک
جِن کے ہاتھ ہوتے ہیں
وہ ہاتھ
جو لمبے ہوتے ہیں!
خُدا ہمیں دیکھ رہا ہے
کاش ہم یہ دیکھ سکتے!
سکون بھونکتا ہے
اُن پر
جِن کے حالات ٹھیک نہیں!
زندگی ایک نفسیاتی درندہ ہے
مَوت ہمیں
اِس سے بچا سکتی ہے!
حالتِ حال
تم نہیں جانتیں
تمہارے جانے سے کتنی بَلائیں آئیں
کتنے ہاتھ ہیں جن کی کتنی اُنگلیاں ہیں
جن کے کتنے ناخُن ہیں
جو میری طرف بڑھ رہے ہیں
جو مجھ سے لڑ رہے ہیں
تم نہیں جانتیں
تم جاتے ہوئے کیا ساتھ لے گئی ہو
میرا اچھا خاصا حُلیہ ساتھ لے گئی ہو
تمہاری عدم دستیابی کے باعث
مجھے کِس طرح کی عجیب شکلوں والی آوازیں سُنائی دینے لگی ہیں
تم نہیں جانتیں
تمہیں کھو کر میرا کتنا نقصان ہوا ہے
بَلاؤں کا راستہ آسان ہُوا ہے
کتنے اجنبی چہرے ہیں
جو میرے گرد گھوم رہے ہیں
ہر چہرے میں کتنی آنکھیں ہیں ہر آنکھ کتنی بھیانک ہے
تم نہیں جانتیں
مَیں کِس جہان میں پہنچ چکا ہوں
یہاں کتنی وحشت ہے
اس وحشت میں کتنی شدت ہے
تم نہیں جانتیں، تم نہیں جانتیں، تم نہیں جانتیں
میں اس لیے بھی تمہیں نہیں بھلا پاتا
مَیں اِس لیے بھی تمہیں نہیں بھُلا پاتا
کہ
مجھے تمہاری یاد دِلاتی ہے
ہر وہ چیز جو حَسین ہوتی ہے،
مجھے یاد آتی ہے تمہاری دراز قامت
جب مَیں دیکھتا ہوں
صنوبر کے درختوں کو
بلند و بالا پہاڑوں کو
اور اُونچی فصیلوں کو،
سِتاروں کی چمک
تمہاری آنکھوں کی یاد دِلاتی ہے
اور گُلاب مجھے تمہارے ہونٹ یاد دِلاتے ہیں،
مجھے یاد آتا ہے تمہارا حسین چہرہ
جب مجھے چاند نظر آتا ہے،
ہواؤں کی دھیمی سی آوازیں
مجھے تمہاری سانسوں کی آواز یاد دِلاتی ہیں،
’’مَیں اِس لیے بھی تمہیں نہیں بھُلا پاتا‘‘
کہ
ہر شے میں تم ہو یا پھر تم ہی ہر شے ہو
کائنات کی پھرکی کو کون روکے گا
ٹائم اور اسپیس میں
ہونے والی تبدیلیوں سے
کسی عاشق کو کیا غرض
اسے تو بس معشوق کے مزاج کا تغیر دیکھنا ہوتا ہے!
معشوق کیلئے
خاموش ہو جانے کا مطلب
آگ کا دریا پار کر جانا ہوتا ہے!
خاموشی سفید کینوس پر
سفید رنگ سے
پینٹ کیا گیا تجریدی دل ہوتی ہے
جسے صرف دل والے دیکھ سکتے ہیں!
انسان کیلئے محبوب کی راہ میں
کھو دیے جانے والے دل کا درد
پلاٹینم کے کھو جانے کے غم سے
کروڑوں گنا زیادہ ہے!
ماضی کے شکنجے میں پھنسا انسان
اُس چادر کی مانند ہوتا ہے
جو کانٹوں سے بھری جھاڑی میں پھنستی ہے
اور پھر اس صورت میں نکلتی ہے
جب وہ کئی ٹکڑوں میں بدل چکی ہوتی ہے!
ہم سب کے دماغ گھوم چکے ہیں
بقول نطشے ’خدا مر چکا ہے‘
اگر یہ سچ ہُوا تو
کائنات کی گھمائی ہوئی پھرکی کو کون روکے گا؟
دیوتا کی کھوپڑی اور ہم
مجھے لگتا ہے
کسی دیوتا نے
اوور تھنکنگ کے بعد
کافی بنا کر پہلی چسکی لی ہو گی،
اسے کائنات کا خیال آیا ہو گا
اور اب وہ اس خیال کا پیچھا کرنے میں مگن ہے
کیا پتا
یہاں کوئی بھی شے حقیقی نہ ہو
ہو سکتا ہے یہ کائنات
محض کسی دیوتا کا خیال ہو
میرے ذہن میں
مختلف خیالات چل رہے ہیں
میں کوئی خیال ترک کرتا ہوں
تو اس پر قیامت آ جاتی ہے
شاید
وہ دیوتا بھی
کائنات کا خیال چھوڑ دے
اور قیامت اُسی لمحے کا نام ہو
اگر ہم سب
دیوتا کی کھوپڑی میں
چلنے والے خیالات نکلے
تو پھر؟
آٹھ سال
مجھ سے،
خُدا سے
اور اِس جہان سے
کھینچ کر اُس نے
مجھے اپنے رُو برُو کھڑا کِیا،
کچھ لمحوں (8 سال) کیلئے
اپنی آغوش میں لِیا
اور پھر پھینک دیا
ایک ایسی جگہ
جہاں
وہ خود تو نہیں مگر
ہر شئے پر اُس کے چہرے کی
مُہر لگی ہُوئی ہے
خود کو،
خُدا کو،
اور اِس جہان کو
اِتنا بھُول چُکا ہوں
کہ سب
مجھے پِچھلے جنم کی یاد لگ رہے ہیں
دل کے ٹوٹنے کے بعد کیا ہُوا
بے شُمار ٹُکڑے جمع ہو کر
اِدھر اُدھر تقسیم ہو گئے
کچھ
اُڑ کر آنکھوں میں جا گھُسے
اور
آنسو بن گئے
کچھ
دماغ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے
اور دماغی خُلیوں کے کام میں
خلل ڈال گئے
کچھ
باہر نِکلنے کی کوشش میں
حلق میں پھنس کر رہ گئے
کچھ
معدے میں پناہ لے جا کر
نظامِ انہضام کی دھجّیاں
اُڑانے میں مصروف ہو گئے
کچھ
گُردوں میں گِر پڑے
اور پتھری بننے کیلئے کوشاں ہوئے
اور
اور
پھر
دل کی جگہ درد نے لے لی
اب وہی براجمان ہے سینے میں!
ایک ٹُکڑا میرے کان میں آ گِرا
اور یہ سب مجھے بتا کر
مَر گیا
زنگر برگر
ایک ریستوران ہے
جس کا نام ہے دُنیا
جہاں صرف غم جاتے ہیں کھانے کیلئے
جی ہاں
انسانوں کو پیش کِیا جاتا ہے
ان کے کھانوں میں
یہ غموں کی پسندیدہ خوراک ہے
آج کل مَیں بھی پیشِ خدمت ہوں
کسی کے غم کے سامنے
جو بیٹھا ہے اس ریستوران میں
اور مجھے کھا رہا ہے بڑے مزے سے
میرے اوپر نیچے
زندگی کی دو سلائسز ہیں
ہو سکتا ہے مجھے آدھا کھا کر
مٹ جائے اس غم کی بھوک
’اُمید پہ دنیا قائم ہے‘
٭٭٭
تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں