فہرست مضامین
نئے تنقیدی زاوئے
مرزا خلیل احمد بیگ
مصنف کی کتاب ’تنقید اور اسلوبیاتی تنقید سے
ادب اور نشانیات
اردو میں نشانیات (Semiotics) کے موضوع پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ اردو کے بعض نقادوں کی تحریروں میں نشانیات کا ذکر ضرور مل جاتا ہے لیکن محض خال خال۔ اردو میں پروفیسر آل احمد سرور غالباً پہلے بزرگ نقاد ہیں جنھوں نے اپنے ایک تنقیدی مضمون میں نشانیات کا ذکر کیا ہے۔ (۱) جدید نقادوں میں شمس الرحمٰن فاروقی، وزیر آغا، گوپی چند نارنگ، قمر جمیل، محمد علی صدیقی اور نجم اعظمی وغیرہ کی بعض تحریروں میں نشانیات کے حوالے ملتے ہیں۔ ان میں سے ہندوستان میں پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنی کتاب ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات (۲) میں اور پاکستان میں قمر جمیل نے اپنے رسالے دریافت میں نشان (Sign) اور نشانیات (Semiotics) سے متعلق معلومات افزا بحثیں اٹھائی ہیں۔ علاوہ ازیں شب خون (الہ آباد) اور صریر (کراچی) جیسے ادبی جرائد میں بھی بیسویں صدی کے آخری دو دہوں کے دوران ساختیات (Structuralism) ، مابعد ساختیات (Post -Structuralism) کے ساتھ ساتھ نشانیاتی فکر پر بھی اکثر بحثیں ہوتی رہی ہیں۔ نشانیات کا ساختیات کے ساتھ بہت گہرا رشتہ ہے۔ لہٰذا جن نقادوں نے ساختیاتی نظریے پر غور و فکر سے کام لیا ہے انھوں نے نشان اور نشانیات کے تصورات سے بھی بحث کی ہے، کیوں کہ ماہرِ ساختیات کے لیے نشانیاتی نظریے سے واقفیت از بس ضروری ہے۔
اردو میں اگرچہ نشانیات کے حوالے گذشتہ پندرہ بیس برسوں سے وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے ہیں، تاہم نشانیاتی نظریے پر، بالخصوص ادب اور نشانیات کے رشتے پر اردو میں اب تک کوئی باقاعدہ اور ٹھوس کام نہیں ہوا ہے۔ ان سطور میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ نشانیات کا ایک مختصر سا خاکہ پیش کیا جائے اور ادب کے ساتھ اس کے رشتے پر روشنی ڈالی جائے۔
’نشانیات‘ انگریزی کے لفظ Semiotics کا ترجمہ ہے۔ اگر اس کی تعریف بیان کی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ نشانات (Signs) کا علم ہے، یعنی Science of Signs ہے۔ یہ وہ علم ہے جس میں ہر طرح کے نشانات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس علم کوSemiologyبھی کہتے ہیں۔ اردو میں سیمیالوجی کے لیے بھی ’نشانیات‘ کی ہی اصطلاح مستعمل ہے۔
علمِ نشانیات (Semiotics) میں نشانات (Signs) کے استعمال اور اس کے دائرہ عمل سے بحث کی جاتی ہے۔ دراصل ہماری زندگی اور معاشرے نیز ہمارے گردو پیش کی دنیا میں نشانات کا مکمل نظام پایا جاتا ہے جس کا مطالعہ نشانیات کا اصل مقصد ہے۔ نشانات کا استعمال صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ حیوانات کے یہاں بھی اس کے استعمال کی واضح شکلیں ملتی ہیں۔ شہد کی مکھیوں کا رقص کرتے ہوئے یہ بتانا کہ پودوں اور پھولوں کا میٹھا رس جس سے شہد بنتا ہے کہاں دستیاب ہے، حیوانی نظامِ نشانات (System of Signs) کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس کا مطالعہ نشانیات کا موضوع قرارپاتا ہے۔ بعض دوسری طرح کے نشانات مثلاً جسمانی حرکات، پہننے اوڑھنے کے طریقے اور بعض فنون کے اظہاری طریقے (Expressive Systems) بھی نشانیات کے دائرے میں تے ہیں۔ زبان بھی ایک طرح کا نظامِ نشانات (Sign-System) ہے جو بیحد پیچیدہ اور ہمہ گیر ہے۔ زبان میں وہ تمام خوبیاں بدرجۂ اتم موجود ہیں جو اسے دوسرے نظامِ نشانات سے ممیّز کرتی ہیں اور اسے ایک انوکھا اور دلچسپ نظامِ نشانات بناتی ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ نشانات کے تمام تر امکانات کا استعمال ترسیلی مقاصد اور اطلاع رسانی (Communication) کے لیے کیا جاتا ہے اور نشانیات کا علم ہمارے لیے ایک ایسا دائرۂ کار فراہم کرتا ہے جسے بروئے عمل لا کر ہم انسانی ذرائع، ترسیل کے تمام پہلوؤں کا پتا لگا سکتے ہیں، خواہ وہ جسمانی حرکات ہوں یا قوتِ سماعت سے محروم لوگوں کے لیے استعمال کی جانے والی نشانات پر مبنی زبان (Sign Language) یا محض تکلمی طریقۂ ترسیل یعنی لسان (Language) ۔
نشانیات ایک قدیم علم ہے جس کاسراغ تیسری صدی قبل، مسیح کے دوران یونان کے اسٹوئل فلسفیوں(Stoic Philosophers) کے یہاں ملتا ہے، لیکن نشانیات کو نشانات کی سائنس (Science of Signs) کے طور پر برتنے کا کام سب سے پہلے سترھویں صدی کے نصفِ آخر میں جان لاک نے انجام دیا۔ بیسویں صدی کے آغاز سے یورپ اور امریکہ میں جدید نشانیات (Modern Semiotics) کا فروغ ہوتا ہے۔
بیسویں صدی میں سب سے پہلے یورپ میں فرڈی نینڈی سسیور نے جدید نشانیات کو فروغ دیا۔ سسیور کو ’’جدید لسانیات کا باوا آدم‘‘ کہا گیا ہے کیوں کہ یہی زمانہ لسانیاتِ جدید(Modern Linguistics) کے فروغ کا بھی ہے جس کا سہرافرڈی نینڈی سسیور کے سر ہے۔ زبان سے متعلق سسیور کے نئے نظریات اور چونکا دینے والے افکار سے مغرب میں جدید لسانیات کی بنیاد پڑتی ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ نشانیات کا لسانیات کے ساتھ بہت گہرا رشتہ ہے۔ فرڈی نینڈی سسیور کی کتابCourse in General Linguistics جو اس کی وفات کے تین سال بعد ۱۹۱۶ء میں شائع ہوئی جدید لسانیات کی کلید کا درجہ رکھتی ہے، اور یہی کلیدی کتاب جدید نشانیات کا بھی نقطۂ آغاز تسلیم کی گئی ہے۔ (۲)
فرڈی نینڈی سسیور سوٹزرلینڈ کے ایک فرانسیسی خانوادے میں ۱۷ نومبر ۱۸۵۷ء کو پیدا ہوا۔ اس نے اپنی ابتدائی تعلیم جنیوا میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ ۱۸۷۲ء میں جرمنی گیا جہاں اس نے لپزگ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ اس زمانے میں یہ دانش گاہ نئے مکتبِ فکر کے نوجوان ماہرینِ لسانیات کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی جنھیں ’نو قواعد داں‘ (Neo-Grammarians) کہا جاتا تھا۔ تاریخی لسانیات کے ضمن میں ان نوجوانوں کے افکار و انکشافات چونکا دینے والے تھے۔ سسیور ان کے خیالات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ چنانچہ اس نے محض ۲۱ سال کی عمر میں ۱۸۷۸ء میں ایک کتاب لکھی جس میں ہند یورپی کے مصوتی نظام کے ارتقاء پر بالکل نئے انداز سے روشنی ڈالی گئی تھی۔ اس کتاب کو Memoire کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر استناد کا درجہ رکھتی ہے۔ سسیور سنسکرت زبان سے بھی واقف تھا۔ اس نے ’’سنسکرت میں حالتِ اضافی کا استعمال‘‘ پر تحقیقی مقالہ لکھ کر لپزگ یونیورسٹی (جرمنی) سے ۱۸۸۱ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ سسیور Memoire کے علاوہ کوئی اور کتاب نہ لکھ سکا اور ۱۹۱۳ء میں اس کا انتقال ہو گیا۔
فرڈی نینڈی سسیور کی بے پناہ ذہانت اور لسانی بصیرت کا اندازہ لوگوں کو اس وقت ہوا جب اس کی وفات کے تین سال بعد ۱۹۱۶ء میں اس کی عہد آفریں کتابCourse in General Linguisticsشائع ہوئی۔ یہ کتاب سسیور کے شاگردوں کے کلاس نوٹس (Class Notes) اور کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں اور پرزوں پر خود سسیور کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریروں کی مدد سے پس از مرگ ترتیب دی گئی ہے۔ یہ کتاب جدید لسانیات یا ساختیات لسانیات (Structural Linguistics) کا اولین نقش ہے۔ اسی کتاب سے مغرب میں لسانیاتِ جدید کا آغاز ہوتا ہے۔ سسیور کے نشانیاتی نظریے کی بنیاد بھی یہی کتاب فراہم کرتی ہے۔
فرڈی نینڈی سسیور نے زبان سے متعلق بہت سے نئے اور انوکھے تصورات پیش کیے جو اس سے قبل کسی نے پیش نہیں کیے تھے۔ اس کے لیے اس نے بعض نئی اصطلاحیں وضع کیں اور بعض پرانی اصطلاحوں کو نئے مفاہیم عطا کیے۔ اس طرح اس نے زبان سے متعلق اپنا ایک منفرد نظریہ پیش کیا جو سسیور کا نظریۂ لسان یا فلسفۂ لسان کہلایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سسیور کا نظریۂ لسان (Theory of Language) اس کے نظریۂ نشان (Theory of Sign) سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔
سسیور زبان کو ایک ’نام‘ (System) تسلیم کرتا ہے۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ اس نظام کی بنیاد ’نشانات‘ (Signs) پر قائم ہے۔ اس لیے زبان کی تعریف اس کے نزدیک ’نظامِ نشانات‘ ہے۔ سسیور کے تصورِ نشان کے مطابق ہر لفظ ایک ’نشان‘ (Sign) ہے جسے ’لسانی نشان‘ (Linguistics Sign) بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہر نشان میں صوت و معنی کا دوہرا رشتہ پایا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر نشان دو طرفہ یادو رخا (Dyadic) ہوتا ہے۔ نشان کا ایک رخ تکلم یا اظہار (Expression) ہے جسے صوتی امیج (Sound-Image) کہتے ہیں۔ سسیور اسے Signifier کے نام سے یاد کرتا ہے جس کے لیے اردو میں ’معنی نما‘ کی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔ نشان کا دوسرا رخ معنی ہے۔ صوتی امیج کے ذریعے ذہن پر جو تصویر ابھرتی ہے یا جو تصور قائم ہوتا ہے اسے ’معنی‘ (Meaning) یا ’تصور معنی‘ کا نام دیا گیا ہے۔ سسیور اس کے لیے Signified کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ صوتی امیج اور معنی یاتصورِ معنی کے باہم اتصال کو سیور ’نشان‘ (Sign) کہتا ہے دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ نشان وہ اجزا پر مشتمل ہوتا ہے: صوتی امیج (Signifier) اور معنی تصورِ معنی (Signified) ۔ یہ دونوں اجزا باہم مربوط و متصل ہوتے ہیں۔ نشان کے دونوں رخوں کو یوں ظاہر کیا جا سکتا ہے۔
معنی نما
(Signifier)
نشان (Sign) = ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
معنی /تصورِ معنی
(Signified)
سسیور کے فلسفۂ لسان سے متعلق یہاں ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سسیور لفظ کو محض نشان تصور کرتا ہے۔ اسے وہ شے تصور نہیں کرتا اور نہ ہی اسے وہ شے کا نام دیتا ہے۔ اس کے نزدیک لفظ یعنی نشان صوت و معنی کا اتصال ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سسیور نے لفظ کے اس روایتی تصور کو باطل قرار دے دیا ہے جس کے تحت بقولِ گوپی چند نارنگ ’’زبان لفظوں کے ایسے مجموعے کا نام ہے جس کا بنیادی مقصد اشیاء کو نام دیتا ہے‘‘۔ (۴) نشان کی ایک خصوصیت سسیور نے یہ بتائی ہے کہ یہ خود اختیاری (Arbitrary) ہوتا ہے، یعنی کسی بھی نشان کی صوتی امیج (Signifier) اور اس کے معنی (Signified) کے درمیان رشتہ فطری نہیں ہوتا بلکہ من مانا یا خود اختیاری ہوتا ہے۔ نشان کی دوسری خصوصیت اس کا خطی (Linear) ہوتا ہے۔ تکلم کے دوران نشانات یکے بعد دیگرے تواتر کے ساتھ وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ایک سلسلہ یا زنجیر بناتے ہیں۔ اسی لیے ان کی تقطیع یا اجزا کاری (Segmentation) کی جا سکتی ہے۔
سسیور نے ’نشان‘ کو ایک عام اصطلاح کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس کے نزدیک الفاظ، مرکبات، فقرے اور جملے سبھی نشانات کا درجہ رکھتے ہیں۔ جنھیں مزید نشانات کے ٹکڑوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ نشان کی دو بنیادی قسمیں بیان کی گئی ہیں، ’سادہ نشان‘ (Simple Sign) اور ’منظمہ‘ (Syntagm) ۔ اگر کسی نشان کے مزید ٹکڑے نہ کیے جا سکیں تو وہ سادہ نشان کہلائے گا، اور اگر یہ دو یا دو سے زیادہ نشانات پر مشتمل ہو تو اسے ’منظمہ‘۔ جملے کی نحوی ترکیب میں ایک نشان دوسرے نشان کے ساتھ اور ایک منظمہ دوسرے منظمہ کے ساتھ افقی طور پر (Syntagmatically) مربوط ہوتا ہے۔ نشانات کے درمیان یہی ارتباط نظامِ نشانات (Sign-System) کہلاتا ہے۔ زبان بھی ایک نظامِ نشانات ہے جس میں ہر نشان ایک دوسرے نشان کے ساتھ باہمی رشتے میں پرویا یا گندھا ہوتا ہے۔ نشانات کے درمیان انھیں رشتوں کی وجہ سے معنی پیدا ہوتے ہیں اور زبان کی افہام و تفہیم ممکن ہوتی ہے، ورنہ نظام سے ہٹ کر نشان کے کوئی معنی نہیں ہوتے۔ نشانات کے معنی، نشانات کے رشتوں کا وہ نظام طے کرتا ہے جس میں یہ پروئے ہوتے ہیں۔ نشانات اور معنی کے درمیان یہ رشتہ خود اختیاری اور من مانا ہوتا ہے۔
فرڈی نینڈی سسیور کے پیش کردہ تصورِ نشان سے ہم نہ صرف زبان کے نظامِ نشانات کا گہرا مطالعہ کر سکتے ہیں، بلکہ انسانی زندگی کے نظام اور اس سے تعلق رکھنے والے تمام تر سماجی اور تہذیبی مظاہر کے نظام کو بھی سمجھ سکتے ہیں جس میں ادب بھی شامل ہے۔
(۳)
علمِ نشانیات کا ارتقا یورپ کے علاوہ امریکہ میں بھی ہوا۔ فرڈی نینڈی سسیور کے انتقال (۱۹۱۳ء) کے تقریباً ۱۵ سال بعد امریکہ کے ایک دانشور اور فلسفی چارلز سینڈرز پیپرس نے تصورِ نشان کے نظریے پر کام کرنا شروع کیا اور اس علم میں اس نے اتنا کمال حاصل کر لیا کہ نشانیات کے بنیاد گزاروں میں سسیور کے ساتھ پیپرس کا نام بھی لیا جانے لگا۔ (۵) اس طرح جدید نشانیات کا ارتقا بنیادی طور پر دو مقامات یعنی یورپ اور امریکہ میں ہوا۔ یورپ میں یہ علم Semiology کہلایا، جب کہ امریکہ میں دانشوروں نے اسے Semiotics کہنا پسند کیا۔
سسیور کے علی الرغم جو نشان کو دو رخا(Dyadic) ماننا تھا، پیپرس نے اسے سہ رخا (Triadic) تسلیم کیا ہے۔ پیپرس کے متعین کردہ نشان کے تینوں رخ یا اجزاء یہ ہیں:
۱۔ Representament(سسیور کے Signifierسے قریب تر )
۲۔ Object (شے)
۳۔ Interpretant (سسیور کے Signifiedسے قریب تر)
ان میں سے پہلی اصطلاح Representamer سسیور کے Signifierسے تقریباً ملتی جلتی چیز ہے۔ یہ نشان کا وہ رخ یا عنصر ہے جو نشان کی صوتی نمائندگی کرتا ہے، جب کہ Objectسے کوئی بھی شے حقیقی یا خیالی مراد لی جا سکتی ہے۔ اسی طرح Interpretant کا مقابلہ موٹے طور پر سسیور کے Signifiedسے کیا جا سکتا ہے۔ اس سے نشان کا تشریحی عنصر یا معنیٰ مراد لئے جا سکتے ہیں۔ نشان کے یہ تینوں اجزاء ایک دوسرے کے ساتھ گہرا رشتہ رکھتے ہیں۔
پیرس کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے نشان کی تنوع پذیری کا پتا لگایا ہے اور اس کی اقسام بیان کی ہیں۔ سسیور کے یہاں چیز نہیں پائی جاتی۔ اس نے نشان کی اقسام سے کہیں بحث نہیں کی ہے۔ پییرس اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ نشان کس کس طرح سے اپنا ترسیلی فریضہ انجام دے سکتا ہے۔ کسی شے (Object) اور اس شے کی نمائندگی کرنے والے نشان (Representamen) کے درمیان جو رشتہ پایا جاتا ہے اس کی پییرس نے تین قسمیں بیان کی ہیں:
۱۔ شبیہ (Icon) : جب کسی شے اور اس (شے) کی نمائندگی کرنے والے نشان کے درمیان مادی مماثلت یا مشابہت (Physical Resemblance) پائی جاتی ہو، مثلاً کوئی شے اور اس (شے) کی تصویر یا کوئی جگہ اور اس (جگہ) اور اس(جگہ) کا نقشہ، تو اس نشان (تصویر، نقشہ) کو ’شبیہ‘ (Icon) کہیں گے اور دونوں کے درمیان پائے جانے والے رشتے کو ’شبیہی رشتہ‘ (Iconic Relationship) کہیں گے۔
۲۔ اشاریہ (Index) : جب کسی شے اور اس (شے) کی نمائندگی کرنے والے نشان کے درمیان زمانی و مکان یا مادی قربت و نزدیکی (Physical Proximity) پائی جاتی ہو، مثلاً دھواں اور آگ یا گرج اور بجلی، تو اس نشان (دھواں، گرج) کو ’اشاریہ‘ (Index) اور دونوں کے درمیان پائے جانے والے رشتے کو ’اشاریتی رشتہ‘ (Indexical Relationship) کہیں گے۔
۳۔ علامت (Symbol) : جب کسی شے اور اس (شے) کی نمائندگی کرنے والے نشان کے درمیان روایت (Convention) کی کارفرمائی ہو، یعنی وہ نشان تہذیبی اور روایتی طور پر سیکھا اور برتا جائے، مثلاً بازو پر بندھی سیاہ پٹی اور سوگ یا گریہ و ماتم، تو اس نشان (سیاہ پٹی) کو ’علامت‘ (Symbol) کہیں گے۔
(۴(
ادب کا نشانیاتی مطالعہ، ادب کے جمالیاتی، نفسیاتی، اسلوبیاتی، تاریخی و سماجی نیز تاثراتی اور مارکسی مطالعے سے بالکل مختلف ہے۔ اس مطالعے میں ادبی فن پارے کے خارجی موثرات، نیز خارجی عوامل اور عناصر سے بحث نہیں کی جاتی اور نہ ہی مطالعے کا معیار تاثر، حسن اور جمالیاتی کیف ہوتا ہے۔ اس مطالعے میں وجدان، جمالیاتی اقدار اور داخلی کیفیات کو بھی کوئی جگہ نہیں دی جاتی۔ ادیب کی ذہنی کیفیات یا کرداروں کی نفسیاتی الجھنوں سے بھی اس مطالعے کو کوئی سروکار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس مطالعے میں اسلوبیاتی خصائص کو نشان زد کیا جاتا ہے۔ اس مطالعۂ ادب میں انسان کے سماجی شعور سے بھی کوئی بحث کی جاتی اور نہ ہی ادب کو تاریخی اور سماجی حالات کا پروردہ سمجھا جاتا ہے۔
ادب کے نشانیاتی مطالعے کی خصوصیات اور طریقۂ کار کا اجمالی جائزہ ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں:
۱۔ ادب کے نشانیاتی مطالعے میں ادب کو ایک ایسا ذریعۂ ترسیل (Mode of Communication) تصور کیا جاتا ہے جو نشانات (Signs) پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ نشانات Signifier اور Signified سے مل کر تشکیل پاتے ہیں۔
۲۔ اس مطالعے میں ضروری نہیں کہ Signifier یا Representamen کوئی لفظ، فقرہ یا جملہ ہی ہو، بلکہ یہ کوئی متن (Text) یا کلامیہ (Discourse) بھی ہو سکتا ہے جو اپنے لغوی، ظاہری اور ابتدائی معنی سے قطع نظر استعاراتی، علامتی اور ثانوی معنی رکھتا ہے۔ ادب کے نشانیاتی مطالعے میں انتقالِ معنی (Transference of Meaning) کے بے حد امکانات پائے جاتے ہیں۔
۳۔ اس مطالعے میں ادبی کلامیہ (Literary Discourse) جو ایک نشان کی حیثیت رکھتا ہے افقی ترتیب (Syntagmatic Order) میں پرویا یا گندھا ہوتا ہے جسے نشانیاتی ترتیب (Semiotic Order) بھی کہتے ہیں۔ درحقیقت نشانات کا انتخاب پہلے عمودی (Paradigmatic) سطح پر ہوتا ہے پھر افقی (Syntagmatio) سطح پر یہ ایک دوسرے کے ساتھ پروئے اور ترتیب دیے جاتے ہیں۔
۴۔ اس مطالعے میں کسی شے اور اس (شے) کی نمائندگی کرنے والے نشان کے درمیان رشتہ علامتی (Symbolic) ہوتا ہے۔
۵۔ نشانیاتی مطالعہ ادبی متن یا کلامیہ کے فوق لغوی (Supra-literal) معنی کو برآمد کرتا ہے۔ ادیب بعض اوقات ایسی علامتیں استعمال کرتا ہے جن کی معنیاتی گتھی نشانیاتی مطالعے کے دوران سلجھائی جاتی ہے اور انھیں تعبیر و تشریح کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔
۶۔ اس مطالعے میں متن کو ایک نشان تسلیم کیا جاتا ہے اور متنیت (Textuality) ، بین المتن(Intertex) اور بین المتونیت (Intertextuality) جیسے تصورات سے بحث کی جاتی ہے۔
ادب کے نشانیاتی مطالعے میں ترسیلی امکانات کا بھر پور پتا لگایا جاتا ہے اور اندورنِ متن ایک ایسے جہانِ معنی کی تخلیق کی جاتی ہے جو اس متن کی بالائی معنیاتی پرت سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ چیز اسی وقت ممکن ہو سکتی ہے جب ادیب کے علامت سازی کے عمل کو بخوبی سمجھ لیا جائے۔ ادیب بالعموم روایتی علامات استعمال کرتے ہیں، لیکن بعض ادیبوں کے یہاں کلیتہً ذاتی علامات بھی ملتی ہیں جو ان کے ذاتی اور انفرادی تجربات و مشاہدات کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ایسی علامات کا سمجھنا قاری کے لیے قدرے مشکل ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض ادیبوں نے دیومالائی یا اساطیری علامات سے بھی کام لیا ہے اور مذہبی روایات سے بھی ماخوذ علامات استعمال کی ہیں۔
روایتی علامات جنھیں آفاقی (Universal) علامات بھی کہتے ہیں۔ ادیب کے تاریخی اور تہذیبی شعور کا نتیجہ ہوتی ہیں اور ادب و شعر میں ایک زمانے سے استعمال ہوتی چلی آتی ہیں، مثلاً ہم میں سے غالباً ہر شخص واقف ہو گا کہ ’سیاہ رنگ‘ سوگ اور ماتم کی علامت ہے، ’آگ‘ تشدد اور قہر کی علامت ہے، ’پانی‘ زندگی کی علامات ہے اور ’رات‘ بدی کی علامت ہے۔ مثلاً پروفیسر شہریار کا یہ شعر دیکھئے:
اب رات کی دیوار کو ڈھانا ہے ضروری
یہ کام مگر مجھ سے اکیلے نہیں ہو گا۔
اس سادہ سے شعر(۶) کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ بدی کو دنیا سے ختم کرنا ضروری ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب سب مل کر اس کام کو انجام دیں۔ نشانیاتی نظریے کے مطابق اس شعر میں ’رات‘ محض ایک نشان (Sign) یا Representamen ہے جس کی حیثیت ایک علامت (Symbol) کی ہے۔ یہ نشان بدی کی نمائندگی کرتا ہے جو ایک شے ہے۔ لہٰذا اس نشان (رات) اور شے (بدی) میں جو رشتہ پایا جاتا ہے اسے علامتی رشتہ (Symbolic Relationship) کہا جائے گا۔ یہ نظریہ پیرس کا ہے۔ سسیور کے نشانیاتی نظریے کے مطابق رات کو Signifier (معنی نما) اور بدی کو Signified (تصورِ معنی) قرار دیا جائے گا۔ ہر Signifier اپنا Signified دکھاتا ہے۔ ادب میں Signified کے امکانات کافی وسیع ہوتے ہیں۔
فکشن میں علامت سازی کا عمل کافی وسیع پیمانے پر ہوتا ہے۔ فکشن چوں کہ ایک بیانیہ (Narrative) ہے اس لیے ادیب کہانی کو آگے بڑھانے، اسے ایک نیا موڑ دینے اور انجام تک پہنچانے کے لیے علامتوں کا استعمال کرتا ہے۔ اس طرح فکشن میں علامات کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔ پروفیسر ہر جید سنگھ گل (۷) نے قرونِ وسطیٰ کے پنجاب کی مشہورِ عام کہانیوں (Folktales) ، مثلاً ’’مرزا صاحباں‘‘، ’’ہیر رانجھا‘‘، ’’سوہنی مہینوال‘‘ وغیرہ کا نشانیاتی نقطۂ نظر سے مطالعہ کرتے وقت اس امر پر خاص توجہ دی ہے کہ کس طرح علامت سازی کا عمل ان کہانیوں کو اختتام تک پہنچانے میں معاون ہوتا ہے۔ ’’سوہنی مہینوال میں علامتی رنگ کافی چوکھا نظر آتا ہے۔
ایک شہزادہ (مہینوال) ایک کمہار کی بیٹی (سوہنی) دامِ عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ لڑکی (سوہنی) کے والدین اس کی شادی کسی اور سے کر دیتے ہیں۔ لڑکا (مہینوال) اس غم میں پہلے تو چرواہا بن جاتا ہے پھر فقیر کا بھیس بدل لیتا ہے اور اپنا سب کچھ تج کر دریا کی دوسری جانب سکونت اختیار کر لیتا ہے۔ رات کی تاریکی میں لڑکی مٹی کے گھڑے کی مدد سے دریا کو پارکر کے لڑکے سے ملنے آیا کرتی ہے۔ لڑکی کی نند کو اس بات کا پتا چل جاتا ہے۔ ایک دن وہ پکے گھڑے کو کچے گھڑے سے بدل دیتی ہے۔ لڑکی اپنی نند کی اس چال سے لاعلم رہتی ہے۔ جب وہ حسبِ معمول دریا میں گھڑے کی مدد سے اترتی ہے۔ تو کچا گھڑا پانی میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ دریا کی تیز و تند لہریں اسے بہا لے جاتی ہیں۔ لڑکی کے چیخنے کی آواز سن کر لڑکا بھی دریا میں کود پڑتا ہے۔ دونوں موت کی آغوش میں پہنچ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک ہو جاتے ہیں۔
یہ ہے اس کہانی کی نشانیاتی ترتیب (Semiotic Order) جو اس کی افقی ترتیب (Syntagmatic Order) بھی ہے۔ نشانیاتی سطح پر یہ کہانی دو انسانوں کے روحانی ملاپ پر ختم ہو جاتی ہے۔ دریا کے ایک طرف شادی، بندھن اور سماجی ضابطے ہیں تو دوسری طرف سچّا پیار۔ دریا کے ایک طرف اگر مگر فریب اور دغا ہے تو دوسری طرف صداقت، ایثار اور ماورائی سکھ۔ دریا ایک ایسی روحانی قوت کا استعارہ ہے جو تمام ارضی اور مادّی حقیقوں کو فنا کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ جو لوگ رات کی پر اسرایت اور اس کی تاریکی کا پردہ چاک کر کے اور دریا کی تیز و تند لہروں کے تھپیڑوں کو برداست کر کے دریا کی دوسری جانب پہنچتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں اور سچّا پیار اور ماورائی سکھ پاتی ہیں۔ کہانی کے متن کی افقی ترتیب میں ایک نشان دوسرے نشان کے ساتھ باہم متصل ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک علامت دوسری علامت کے ساتھ اس طرح مربوط اور جکڑی ہوئی ہے کہ پورا متن ایک علامتی سلسلہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ پوری کہانی میں خارج کی دنیا باطن کی دنیا کی علامت بن گئی ہے۔ اس کہانی کے متن میں افقی ترتیب کے علاوہ عمودی ترتیب (Paradigmatic Order) بھی صاف نظر تی ہے۔ دریا کے دونوں سمت تضاد (Contrast) ہے۔ کچّا گھڑا اور پکا گھڑا بھی دو متضاد علامتیں ہیں۔ ایک طرف رات کی پراسراریت، تاریکی اور دریا کی تیز و تند لہریں ہیں تو دوسری طرف ملاپ کا سکھ۔ اگر شہزادگی ہے تو فقیرانہ زندگی بھی ہے۔ مکر و فریب ہے تو صداقت، خلوص اور ایثار بھی ہے۔ یہ تمام چیزیں کہانی میں عمودی حیثیت کی حامل ہیں۔ مجموعی طور پر ’’سوہنی مہینوال‘‘ ایک ایسی عوامی کہانی ہے جس میں علامت سازی کا عمل حد درجہ وسیع اور متنوع ہے، اس لیے اس کا نشانیاتی مطالعہ بیحد دلچسپی کا حامل ہے۔
اردو فکشن میں بھی ایسی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں جن میں کہانی کا تانا بانا علامات کی مدد سے تیار کیا گیا ہے اور جو نشانیاتی اہمیت کی حامل ہیں اور جن کا مطالعہ نشانیاتی نقطۂ نظر سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ ایسی کہانیوں میں ’’سیتا ہرن‘‘ (قرة العین حیدر) ، آخری آدمی‘‘ انتظار حسین) ’’نہ مرنے والا‘‘ (انور سجاد) ، ’’لیمپ پوسٹ‘‘ (رشید امجد) ، ’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ (سریندر پرکاش) ، ’’سایہ‘‘ (بلراج کومل) ، ’’آخری کمپوزیشن‘‘ (بلراج مینرا) ، ’’ایک خوں آشام صبح‘‘ (غیاث احمد گدی) ، ’’گاڑی‘‘ (خالدہ اصغر) ، ’’زرد کشکول‘‘ (سمیع آہو جہ) ، ’’کھنڈر‘‘ (افسر آذر) اور ’’نیاپل‘‘ (اعجاز راہی) خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
حواشی اور حوالے
1۔ دیکھیے آل احمد سرور کا مضمون ’’اردو تنقید: ایک جائزہ‘‘ مشمولہ کچھ خطبے کچھ مقالے (آل احمد سرور) ، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، ، 1996ء۔ ص: 20۔
2۔ گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، (1993ء)
3۔ فرڈی نینڈی سسیور (Ferdinand de Saussure) کی یہ کتاب سب سے پہلے فرانسیسی زبان میں Course de Linguistique General کے نام سے 1916ء میں شائع ہوئی۔ بعد ازاں اس کتاب کا انگریزی زبان میں ترجمہ ویڈبیسکن Wade Baskin) نے Course in General Linguistics کے نام سے کیا جو 1959ء میں نیویارک سے شائع ہوا۔
4۔ گوپی چند نارنگ، محولہ بالا کتاب، ص 46۔
5۔ چارلز سینڈ رز پیپرس Charles Sanders Peirce کے نشانیاتی نظریے کے لیے دیکیے اس کی کتاب Collected Papers، جلد دوم (کیمبرج، میساچوسٹس، ہارورڈ یونیورسٹی پریس، 1931ء) ۔
6۔ شہریار، میرے حصّے کی زمین (حصّہ اوّل) ، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1999ء۔ ص 251۔
7۔ ہرجیت سنگھ گل (Structuralism and Literary Criticism ) نئی دہلی: باہری پبلی کیشنز،1986ء) ص 44 تا49۔ (2001)
تجزیۂ کلامیہ:مسائل و مباحث
بہ طورِ اصطلاح ’ڈسکورس ‘ (Discourse) کا استعمال لسانیاتی ادب میں زیادہ قدیم نہیں ہے۔ لسانیات کے فروغ کے ساتھ ساتھ ’ڈسکورس ‘ کی اصطلاح بھی عام ہوئی، اور ڈسکورس کے تجزیے بھی پیش کئے گئے۔ نظری (Theoretical) اعتبار سے بھی ڈسکورس پر بحث کا آغاز ہوا اور اس موضوع سے متعلق متعدد مضامین اور کتابیں منظرِ عام پر آئیں۔ لسانیات و اسلوبیات کے ہی توسط سے ’ ڈسکورس‘ کی اصطلاح ادبی تنقید میں داخل ہوئی، ورنہ اس سے قبل ادبی نقاد اس اصطلاح سے ناواقفِ محض تھا۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ کلیم الدین احمد جیسے باخبر اور بیدار ذہن نقاد نے جب انگریزی کے حوالے سے اردو میں ادبی اصطلاحات کی فرہنگ مرتب کی تو Discourseیا Discourse Analysisکا کہیں ذکر تک نہیں کیا (۱) اور نہ ہی Literary Discourseجیسی اصطلاح کو اس میں کوئی جگہ دی۔ یہی حال اردو کے بعض دوسرے نقادوں اور عالموں کا بھی ہے۔ تاہم عہدِ حاضر میں لسانیات کے فروغ اور اسلوبیاتی تنقید کی مقبولیت کی وجہ سے دورِ جدید کے بعض اردو نقاد ڈسکورس کی تھیوری سے کسی حد تک واقفیت رکھتے ہیں اور Discourse Analysis کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اپنی تنقیدی تحریروں میں وہ بعض اوقات ادبی ڈسکورس کے حوالے سے بھی گفتگو کرتے ہیں۔ (۲)
(۲)
’ڈسکورس‘ (Discourse) کو بالعموم ’بحث ‘ یا ’مکالمہ ‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، اور Discourse Analysisکو ’تجزیۂ کلام و متن ‘ تصور کیا جاتا ہے۔ (۳)
مولوی عبد الحق نے اپنی انگلش۔ اردو ڈکشنری میں ’’Discourse‘‘کے تحت جو معنی درج کئے ہیں، وہ یہ ہیں :
’’(۱) گفتگو ، بات چیت۔ (۲) تقریر ، بیان ، مقالہ ، رسالہ ، وعظ ، خطبہ۔ (۳) گفتگو کرنا، مکالمہ کرنا۔ (۴) کسی موضوع پر تقریر اً یا تحریراً بحث کرنا، اظہارِ خیال کرنا۔ ‘‘
میرے نزدیک ’ڈسکورس ‘ (Discourse) کے لئے موزوں ترین لفظ کلامیہ ہے۔ لیکن یہ اردو میں ابھی پوری طرح رائج نہیں ہو سکا ہے ، کیوں کہ اردو کے مستند نقاد بھی اپنی تحریروں میں Discourseکے لئے ’ڈسکورس ‘ ہی لکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ (۴)
لسانیاتی اعتبار سے ’ڈسکورس‘ یا ’کلامیہ ‘ زبان کی وہ مسلسل و مربوط شکل ہے جس کا طول کسی مفر د جملے کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کلامیہ تحریرو تقریر کی اس مسلسل صورت کا نام ہے جو دو یا دو سے زیادہ جملوں سے مل کر ترتیب دی گئی ہو ، نیز جو اس طرح باہم مربوط ہو کہ ایک اکائی(Unit) بن جائے۔ اگر کوئی لسانی شکل محض مفرد جملے تک ہی محدود رہتی ہے تو وہ کلامیہ نہیں کہی جا سکتی ، لہٰذا کلامیہ کی بنیادی شرط ، مفرد جملے کے مقابلے میں ، اس کا طویل ہونا ہے جس میں باہمی ربط بھی پایا جاتا ہو۔ درحقیقت کلامیہ کی حد وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں ایک جملہ ختم ہو کر دوسرے جملے سے باہم مربوط و متصل ہو جاتا ہے۔ ٹروگاٹ او ر پریٹ نے ’ کلامیہ ‘ کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے :
‘‘ Any Structured stretch of language that is longer than a sentence’’.(۵)
لہٰذا زبان کی ہر وہ مربوط (Coherent) شکل جو طول میں جملے سے بڑی ہو ’ کلامیہ، (Discourse) کہلائے گی اور اس کے تجزئے کو ’ تجزیۂ کلامیہ،(Discourse Analysis) کہیں گے۔ تجزیۂ کلامیہ کو مختصراً مطالعۂ زبان ماورائے جملہ ، (The study of language beyond the sentence) بھی کہہ سکتے ہیں۔
اس ضمن میں ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ کلامیہ یا ڈسکورس کا تجزیہ بنیادی طور پر بروئے استعمال زبان (Language in use) کا تجزیہ ہے۔ اسے محض لسانی ہیئتوں (Linguistic Forms) کی توضیح (Description) تک محدود نہیں رکھا جا سکتا جن کا نہ کوئی ترسیلی سیاق (Communicative Context) ہوتا ہے اور نہ کوئی استعمال ، اور نہ ہی انسانی معاشرے میں کوئی رول۔ لہٰذا کلامیاتی تجزیہ نگار (Discourse Analyst) کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اس امر کا پتا لگا ئے کہ زبان کس مقصد کے لئے بروئے عمل لائی جا رہی ہے اور اس کے ترسیلی فنکشنز (Functions) کیا ہیں۔ اس اپروچ کو زبان کا فنکشنل اپروچ (Functional Approach) کہتے ہیں جو مطالعہ زبان کے نسبة قدیم اپروچ یعنی ہیئتی اپروچ (Formal Approach) سے بالکل مختلف ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ زبان کسی نہ کسی مقصد کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ کوئی بھی فقرہ ، جملہ، یا کلمہ بغیر کسی مقصد کے منہ سے ادا نہیں کیا جاتا۔ گویا مقصد کی برآری اور اظہارِ مطلب ہی زبان کا اصل مدعا ہے۔ تجزیہ کلامیہ میں یہ بات بہ طورِ خاص ذہن میں رکھی جاتی ہے۔
تجزیۂ کلامیہ پر بنیادی کام کرنے والوں میں زیلگ ایس۔ ہیرس اور مائیکل اسٹبز خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔ زیلگ ہیرس کا شمار معروف ماہرینِ لسانیات میں ہوتا ہے۔ انھوں نے کلامیہ کو ’’ جملوں کا جوڑ‘‘ (A combination of sentcnces) کہا ہے۔ (۶) ایک دوسرے اسکالر مائیکل اسٹبز کا قول ہے کہ ’’ ہر وہ مطالعہ جو مفرد جملوں تک محدود نہ ہو اور جو سیاق و سباق سے خارج نہ ہو، تجزیۂ کلامیہ کہلائے گا۔ ‘‘ (۷)
اس امر کا ذکر یہاں بیجا نہ ہو گا کہ لسانیات جو زبان کے سائنسی مطالعے کا نام ہے اپنے روایتی انداز میں جملے کے تجزئے تک ہی محدود رہی ہے ، اور جملے سے ماورا کوئی بھی چیز اس کے دائرۂ کار میں شامل نہ ہو سکی۔ یہاں تک کہ نوام چامسکی کی تبادلی تخلیقی قواعد (Transformational Generative Grammar) میں بھی تجزیے کا محور جملہ ہی ہے۔ چامسکی نے کہیں ۱۹۸۰ء میں جا کر اس امر کا اعتراف کیا کہ کلامیاتی مہارت (Discourse Competence) درحقیقت لسانیاتی مہارت (Linguistic Competence) کا ہی ایک حصہ ہے۔ حالیہ برسوں میں کلامیہ اور تجزیۂ کلامیہ کی جانب لوگوں کی توجہ تیزی کے ساتھ مبذول ہوئی ہے ، اور لوگ زبان کو بہ حیثیتِ کلامیہ (Language as discourse) دیکھنے لگے ہیں جو اپنا سماجی سیاق (Social Context) رکھتی ہے اور تہذیبی حوالے بھی۔ زبان کو اس کے سماجی اور تہذیبی سروکار سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔
(۳)
’کلامیہ ‘ (ڈسکورس) کی جو تعریف سطورِ بالا میں بیان کی گئی ہے اس کی رو سے اسے توسیع شدہ تکلم (Extended Utterance) بھی کہہ سکتے ہیں جس کی چند نمایاں شکلیں یہ ہیں ، مثلاً وعظ ، خطبہ ، دعا، التجا ، التماس ، حلف ، لطیفہ ، حکایت ، قصے کہانیاں ، تقریریں ، انٹرویوز ، پریس ریلیز ، خطوط ، ادارئے ، اشتہارات ، وغیرہ۔
کلامیہ یا ڈسکورس کی ان شکلوں کو کلامی اصناف (Speech Genres) کہتے ہیں۔ ادبی اصناف کا شمار بھی کلامی اصناف کے تحت ہی کیا جاتا ہے۔ بعض کلامی اصناف آفاقی ہوتی ہیں ، یعنی دوسری زبانوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ لیکن ایک زبان کی ادبی اصناف دوسری زبان کی ادبی اصناف سے مختلف ہو سکتی ہیں ، مثلاً غزل اردو سے ، دو ہا ہندی سے ، سانیٹ انگریزی سے ،اور ہائیکو جاپانی سے مخصوص ہے۔ کلامی اصناف کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں اور وہ اپنے ترسیلی وظائف (Communicative Functions) بہ خوبی انجام دیتی ہیں۔
بعض کلامی اصناف میں صرف ایک متکلم ہوتا ہے ، مثلاً صدارتی خطبہ۔ لیکن بعض دوسری کلامی اصناف جو بات چیت پر مبنی ہوتی ہیں ، ان میں متکلم کی تعداد ایک سے زیادہ ہوتی ہے ، مثلاً مباحثہ ، مکالمہ ، مذاکرہ ، حجت ، بحث و تکرار ، سوال وجواب ، گفتگو ، انٹرویو ، وغیرہ۔ (۸) کوئی کلامیہ یا کوئی کلامی صنف کئی ذیلی اصناف پر بھی مشتمل ہو سکتی ہے۔ ادب میں یہ بات نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتی ہے جہاں ’ شاعری‘ یا ’ شعری کلامیہ ‘ (Poetic Discourse) کے تحت کئی اصنافِ شعر کا شمار ہوتا ہے، مثلاً غزل ، مثنوی ، قصیدہ ، مرثیہ ، رباعی وغیرہ۔ اسی طرح کلامیہ کی ایک صنف ’ خطبہ ‘ کے تحت اس کی کئی ذیلی اصناف ، مثلاً صدارتی خطب، افتتاحی خطبہ ، کلیدی خطبہ ، الوداعی خطبہ ، وغیرہ شمار کی جاتی ہیں۔ کلامیہ کی ایک اور صنف ’ گفتگو ‘ کے تحت اس کی ذیلی اصناف روبرو گفتگو ، ٹیلی فون پر گفتگو ، انٹر نیٹ کے ذریعے گفتگو (Chat) وغیرہ کی شناخت کی جا سکتی ہے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کئی کلامی اصناف سے مل کر ایک ’ کلامی وقوعہ‘ (Speech Event) معرضِ وجود میں آتا ہے۔ یہ ایک منظم ترسیلی سلسلہ ہوتا ہے جس میں یکے بعد دیگرے کئی کلامیے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اس کی بہ حیثیتِ مجموعی ایک امتیازی حیثیت ہوتی ہے اور لسانی و غیر لسانی رویوں سے متعلق اس کے اپنے مقررہ اصول و ضوابط ہوتے ہیں ، جن پر کاربند ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ چرچ سروس (عیسائیوں کا طریقۂ عبادت ) جو کئی کلامی اصناف کا مجموعہ ہوتی ہے ، کلامی وقوعے کی ایک عمدہ مثال قرار دی جا سکتی ہے۔ اس کی تمام کلامی اصناف مقررہ نہج پر سلسلہ وار وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ اس طریقۂ عبادت کے دوران لسانی رویوں کے ساتھ ساتھ بعض غیر لسانی روئے بھی برتے جاتے ہیں ، مثلاً کھڑے ہونا، جھکنا ، سر بسجود ہونا ، وغیرہ۔ کلامی وقوعہ کسی بھی نوعیت کاہو سکتا ہے ، مثلاً کسی علمی یا ادبی سیمنار کے افتتاحی اجلاس کو بھی ایک کلامی وقوعہ قرار دیا جا سکتا ہے جس میں سب سے پہلے استقبالیہ تقریر ہوتی ہے، پھر افتتاحی خطبہ دیا جاتا ہے ، پھر متعلقہ موضوع پر کوئی ممتاز عالم یا دانشور اپنا کلیدی خطبہ پیش کرتا ہے ، پھر صدارتی خطبہ ہوتا ہے اور سب سے آخر میں تحریکِ شکریہ پر جلسہ ختم ہو جاتا ہے۔ کلامی وقوعہ محض ایک کلامی صنف پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے اور ایک سے زیادہ پر بھی، مثلاً کسی موضوع پر ایک لکچر( جو محض ایک کلامی صنف پر مشتمل ہے ) ایک کلامی وقوعہ قرار دیا جا سکتا ہے ، لیکن اس لکچر کے بعد اگر سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو یہ کلامی وقوعہ دو کلامی اصناف پر مشتمل تصور کیا جائے گا۔ عہد ِ حاضر کے بعض ٹی وی ٹاک شوز (TV Talk Shows) کلامی وقوعوں کی بہترین مثالیں پیش کرتے ہیں۔ (۹)
(۴)
تجزیۂ کلامیہ کا فروغ لسانیات کی ایک اہم شاخ کے طور پر ۱۹۸۰ء کے بعد سے ہوا۔ ۱۹۷۷ء اور ۱۹۸۳ء کے دوران کلامیہ اور تجزیۂ کلامیہ سے متعلق کم از کم پانچ اہم کتابیں منظرِ عام پر آئیں، (۱۰) اور دو بڑے جرائد کا اجرا عمل میں آیا۔ (۱۱ ) اس کے فوراً بعد ۱۹۸۵ء میں وین دیجک کی چار جلدوں پر مشتمل Handbook of Discourse Analysisشائع ہوئی (۱۲) ۔
تجزیۂ کلامیہ چوں کہ لسانیات کی ایک شاخ کے طور پر ارتقا پذیر ہوا ، اس لئے اسے کلامی لسانیات (Discourse Linguistics) بھی کہا گیا۔ اسی کی طرز پر متنی لسانیات (Text Linguistics) کی اصطلاح رائج ہوئی۔ ’ کلامیہ ‘ (Discourse) کو اکثر ’متن ‘(Text) بھی کہا جاتا ہے۔ بعض عالم کلامیہ اور متن میں کوئی تفریق نہیں کرتے اور دونوں کو ایک تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک تجزیۂ کلامیہ ، تجزیۂ متن بھی ہے، اور کلامی لسانیات کا ہی دوسرا نام متنی لسانیات ہے۔ تاہم کلامیہ بعض اعتبار سے متن سے مختلف ہے۔ ان دونوں میں بہت باریک اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان بنیادی فرق کو ’ زبان بہ حیثیتِ کلامیہ (Language as discourse) اور ’زبان بہ حیثیتِ متن ،Language as text) کے فرق سے ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ بہ حیثیت کلامیہ ، ہمارے سامنے اُس زبان کا تصور ابھر کر آتا ہے جو نہایت فعال اور متحرک ہے اور کسی نہ کسی سیاق (Context) میں ظہور پذیر ہوتی ہے ، نیز اپنے سماجی اور تہذیبی حوالے بھی رکھتی ہے۔ جب کہ بہ حیثیتِ متن ، زبان ایک جامد اور غیر حرکی عنصر سے زیادہ کوئی چیز نہیں جو نہ صرف سیاق و سباق سے عاری ہوتی ہے، بلکہ جس کا کوئی فنکشنل رول بھی نہیں ہوتا۔ متن کو ہم محض ایک لسانی عنصر سے تعبیر کر سکتے ہیں ، جب کہ کلامیہ میں اس لسانی عنصر کا فنکشن اور حقیقی صورتِ حال میں موقع و محل کے لحاظ سے اس کا استعمال بے حد اہمیت رکھتا ہے۔
متن اور کلامیہ کے درمیان باریک فرق کو ایک مثال کے ذریعے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ایک صدارتی خطبہ جب لکھا جاتا ہے اور ٹائپنگ یا کتابت و طباعت کے مراحل سے گزرتا ہے تو محض متن ہوتا ہے ، لیکن جب یہ کسی جلسے یا اجلاس میں مقررہ وقت پر سامعین و مندوبین کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو کلامیہ کہلاتا ہے۔ متن اور کلامیہ کے درمیان فرق کی ایک اور مثال کرشنا سوامی نے دی ہے،(۱۳) جو تھوڑی ترمیم کے ساتھ۔ یہاں پیش کی جاتی ہے۔ کسی پینٹر کی دوکان پر بہت سے سائن بورڈ ز کے ساتھ رکھا ہوا ایک سائن بورڈ جس پر ’’آہستہ گاڑی چلائیں ، آگے اسپیڈ بر یکرز ہیں،‘‘ لکھا ہوا ہے ، متن کہلائے گا۔ لیکن یہی سائن بورڈ جب پینٹر کی دوکان سے لے جایا جاتا ہے اور سڑک کی بائیں جانب کسی مناسب مقام پر جہاں اسپیڈ بریکرز بنے ہوں، نصب کر دیا جاتا ہے تو کلامیہ کہلاتا ہے۔ کیوں کہ یہ سائن بورڈ سڑ ک کا استعمال کرنے والوں کو ایک اطلاع بہم پہنچا جا رہا ہے ، لہٰذا لسانی عنصر کے اعتبار سے اگر چہ یہ متن ہے، لیکن یہ ایک ترسیلی سیاق (Communicative Context) رکھتا ہے (کیونکہ اسے سڑک کے اس مقام پر نصب کیا گیا ہے جہاں اسپیڈ بریکرز بنے ہوئے ہیں) ، اور اس کا ایک فنکشنل رول ہے، اس لئے اس کی اہمیت ایک کلامیہ کی ہے۔ ان مثالوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کوئی لسانی عنصر جب تک سیاق سے عاری اور فنکشنل رول سے مبرا رہتا ہے تو متن کہلاتا ہے ، لیکن جب وہ حقیقی صورتِ حال کے مطابق بروئے استعمال لایا جاتا ہے تو کلامیہ کہلاتا ہے۔
متن اور کلامیہ کے مسائل پر وین دیجک ،(۱۴) ہیلیڈے ، (۱۵) وڈاوؤسن، (۱۶) ڈی بگرینڈ ے (۱۷) ، براؤن اور یول(۱۸) ، رولاں بارت (۱۹) اور دریدا(۲۰) جیسے لسانی مفکروں اور فلسفیوں نے اپنے اپنے طور پر نہایت غور و خوض سے کام لیا ہے۔ ان عالموں کے نظریات ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں ، لیکن ان میں سے کسی نے بھی متن یا کلامیہ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا ہے۔
حواشی اور حوالے
۱۔ دیکھئے ترقیِ اردو بیورو (حکومتِ ہند) ، نئی دہلی کی شائع کردہ کتاب
’’فرہنگِ ادبی اصطلاحات (انگریزی۔ اردو ) ‘‘ از کلیم الدین احمد۔ سنہِ اشاعت ۱۹۸۶ ء۔
۲۔ مثال کے طور پر دیکھئے گوپی چند نارنگ کی گراں قدر تصنیف ’’ساختیات ، پس
ساختیات اور مشرقی شعریات ‘‘ (دہلی : ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس ، ۱۹۹۳ ء) ۔
۳۔ ترقیِ ارد بیورو (حکومت ہند) ، نئی دہلی کی شائع کردہ ’’فرہنگِ اصطلاحات (انگریز ی اردو ) لسانیات ‘‘ (۱۹۸۷ ء) میں Discourseکے لئے’’ بحث، مکالمہ ‘‘ اور Discourse Analysisکے لئے ’’تجزیۂ کلام و متن ‘‘ کے اندراجات ملتے ہیں۔
۴۔ اردو کے بعض اہلِ علم Discourseکا ترجمہ ’ مخاطبہ‘ کرتے ہیں جو میرے خیال میں درست نہیں ہے ، کیونکہ مخاطبہ کے تحت صرف چند مخصوص قسم کے ڈسکورس ہی شمار کئے جا سکتے ہیں۔ ڈسکورس کی تمام اقسام کا یہ لفظ احاطہ نہیں کرتا۔
۵۔ دیکھئے ایلیز بتھ کلوس ٹروگاٹ (Elizabeth Closs Traugott) اور میری لوئس پریٹ (Mary Louise Pratt) کی کتاب Linguistics for Students of Literature(نیویارک : ۱۹۸۳ء) ، ص ۴۰۳۔
۶۔ دیکھئے زیلگ ایس۔ ہیرس (Zellig S. Harris) کا مضمون ’Discourse Analysis‘مشمولہ Languageشمارہ ۸۲(۱۹۵۲) ، ص ۱ تا ۳۰۔
۷۔ دیکھئے مائیکل اسٹبز کی کتاب Discourse Analysis: (Michael Stubbs) The Socioli Linguistic Analysis of Natural Language (آکسفرڈ: بیسل بلیک ول ، ۱۹۸۳ء) ۔
۸۔ کیبل ٹی وی نٹ ورک کے بعض چینلوں پر پیش کئے جانے والے ٹیلی ویژن ٹاک شوز مثلاً ’’ Big Fight‘‘(میزبان : راج دیب سر ڈیسائی اور ’’Reality Bite‘‘(میزبان: برکھا دت) ، نیز ’’اکبر کا دربار ‘‘ (میزبان : ایم۔ جے۔ اکبر ) اس قسم کے ڈسکورس کی عمدہ مثالیں ہیں۔
۹۔ اس موقع پر اسٹار نیوز چینل پر پیش کئے جانے والے ہفتہ وار ٹیلی ویژن ٹاک شو ’’ Movers and Shakers‘‘(میز بان : شیکھر سُمن ) کا ذکر بیجا نہ ہو گا جس کی حیثیت ایک دلچسپ کلامی وقوعے (Speech Event) کی ہے جس میں ڈسکورس (کلامیہ ) کی کئی شکلیں یعنی کلامی اصناف (Speech Genres) سلسلہ وار وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ اس ٹاک شو (Talk Show) یعنی ’تماشائے ‘ گفتگو میں میزبان ہر بار ایک نئے مہمان کے ساتھ اسکرین پر نمودار ہوتا ہے اور اس کے ساتھ پر لطف اور پر مزاح انداز میں گفتگو کا آغاز کرتا ہے۔ مزید ار بات چیت اور سوال و جواب کا یہ سلسلہ پور ے شو تک جاری رہتا ہے جس سے ناظرین کافی محظوظ اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ پورا ٹاک شو ایک دلچسپ کلامی وقوعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈسکورس کی جن شکلوں یا کلامی اصناف پر یہ کلامی وقوعہ مشتمل ہوتا ہے ان میں میزبان کے ذریعے ادا کئے گئے ابتدائی کلمات ، مہمان کا تعارف ، مہمان سے گفتگو ، سوال و جواب اور مکالمے خاص ہیں۔ وقفے وقفے سے موسیقی کی گونج اور طبلے کی تھاپ ، نیز شو کے سامعین کی قہقہہ ریزی شو کو اور بھی زیادہ دلچسپ بنا دیتی ہے۔
۱۰۔ ان کتابوں کے نام حسبِ ذیل ہیں :
(۱) رابرٹ۔ ایلین ڈی بگرینڈے (Robert Alain de Beaugrande) اور دولف گینگ یو۔ ڈریسلر (Wolfgang U. Dressler) ،۱۹۸۱ء،Introduction to Text Linguistics (لندن : لانگ مین) ۔
(۲) گیلین براؤن (Gillian Brown) اور جارج یول (George Yule) ، ئے۱۹۸۳ ء، Discourse Analysis کیمبرج : کیمبر ج یونیورسٹی پریس۔
(۳) میلکم کولٹ ہارڈ (Malcom Coult Hard) ، ۱۹۷۷ءAn Introduction to Discourse Analysis(لندن : لانگ مین) ۔
(۴) ویلس ایڈ منڈ سن (Willis Edmondson) ،۱۹۸۱ء، Spoken Discourse :A Model for Analy sis(لندن : لانگ مین) ۔
(۵) مائیکل اسٹبز (Michael Stubbs) ،۱۹۸۳ ء، Discourse Analysis: The Sociolinguistic Analysis of Natural Language( آکسفرڈ: بیسل بلیک ول ) ۔
۱۱۔ اِن رسائل کے نام یہ ہیں :
(۱) Discourse Processes(۱۹۷۸) ۔
(۲) Text(۱۹۸۱ ء) ۔
۱۲۔ ٹیون اے۔ وین دیجک (Teun A. van Dijk (مرتب ) ، ۱۹۸۵ ء، Handbook of Discourse Analysis،چار جلدیں (لندن اور اورلینڈو : اکیڈمک پریس) ۔
۱۳۔ این۔ کرشنا سوامی اور دیگر ، ۱۹۹۲ء، Modern Applied Linguistics(چنّئی : میکملن) ، ص ۱۰۲
۱۴۔ ٹیون اے۔ وین دیجک (Teun A. Uan Dijk) ۱۹۷ ء‘ Text and Context لندن: لانگ مین۔
۱۵۔ ایم۔ اے۔ کے۔ ہیلیڈے (M.A.K. Halliday) ۱۹۷۸ ء‘ Language as a social Semiotics : The Social Interpretation of Languase and Meaning(لندن ایڈورڈ آرنلڈ) ۔
ئے۱۶۔ ایچ۔ جی۔ وڈ اؤسن (H.G. Widdowson) ۱۹۷۹ ءDirections in the Teaching of Discourse مشمولہ The Communicative Approach to Language Teaching مرتبہ سی۔ جے برمفٹ (C.J. Brumfit) اور کے۔ جانسن (K.Johnson) ، آکسفرڈ: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس ، ۱۹۷۹ ء۔
۱۷۔ رابرٹ۔ ایلین ڈی بگرینڈ ے۱۹۸۰ ء (R.de Beaugrande Text Discourse and Process: Toward a Multidisciplinary Science of Texts) (فاروُڈ: ایبلکس)
۱۸۔ گیلین براؤن (Gillian Brown) اور جارج یول (George Yule) ، ۱۹۸۳ء، Discourse Analysis(کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس) ۔
۱۹۔ رولاں بارت (Roland Barthes) ،۱۹۸۱ ء، ’From Work to Text‘ مشمولہ Image, Music, Text،انتخابِ مضامین اور ترجمہ اسٹیفن ہیتھ (Stephen Heath) لندن : فونٹانا۔ پیر بیکس ، ۱۹۷۷ ء۔ نیویارک : ہل اینڈ وینگ ، ۱۹۷۷ء۔
۲۰۔ ژاک دریدا (Jacques Derrida) نے ’متن ‘ کو گیس (Gas) کہا ہے۔ (بحوالہ کرسٹو فر نورِس (Christopher Norri زسور حوالے s) ، ۱۹۸۲ء Deconstruction: Theory and Practice (لندن؛ مِتھیون ) ۔
٭٭٭
مصنف کا شکریہ کہ انہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
اعلی ہے