FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

نئی نظم کے معمار: ضیا جالندھری

                   محرک: زیف سید (ظفر سید)

فیس بک کے حاشیہ ادبی گروہ کے آن لائن مباحثے کا سکرپٹ


بڑا شہر

ضیا جالندھری

کراچی کسی دیو قد کیکڑے کی طرح

سمندر کے ساحل پہ پاؤں پسارے پڑا ہے

نسیں اس کی فولاد و آہن

بدن … ریت سیمنٹ پتھر

بسیں ، ٹیکسیاں ، کاریں ، رکشا، رگوں میں لہو کی بہ جائے رواں

جسم پر جا بہ جا داغ دلدل نما

جہاں عنکبوت اپنے تاروں سے بُنتے ہیں بنکوں کے جال

کہ ان میں شمال اور مشرق سے آئے ہوئے

اشتہا اور خوابوں کے مارے مگس

پھڑ پھڑاتے رہیں

مستقل عالمِ جاں کنی میں رہیں

شام ہوتے ہی اس کی نم آلود اور کھردری کھال سے

اس کے بے ڈھنگ اعضا سے

عشوہ فروشوں کے پیراہنوں کی طرح

روشنی پھوٹتی ہے

یہ وہ شہرِ خود مطمئن ہے

جو اپنے ہی دل کی شقاوت پہ شیدا رہا

میں چاہت کے پھولوں بھرے جنگلوں سے جب آیا

تو اس شہر کی پیٹھ محبس کی دیوار کی طرح میری طرف تھی

میں شدت کی تنہائی میں

آشنا حرف کا آرزو مند

پیہم تغافل سے رنجیدہ، بے دل

یہاں کے رسوم اور آداب سے بے خبر

ناخنوں سے زمیں کھود کر

آنسوؤں کی نمی سے اُسے سینچ کر

حرف کلیوں کی امید میں

درد بوتا رہا

کئی بار میں نے سمندر کی بھیگی ہواؤں سے پوچھا

کہ اے خوش نفس رہروو

تم اس طرح بیگانہ وش کیوں گزرتی ہو

پل بھر رکو

کوئی تسکیں کا پیغام دو

اور اپنا یہ امرت سا ہاتھ

دکھے دل پہ رکھ دو

پہ وہ شہر کی سانس میں

 انجنوں کے دھوئیں کی کثافت سے افسردہ

آنکھیں چرائے گزرتی رہیں

کئی بار یوں بھی ہوا ہے

کہ میں اور یہ شہر اک مشترک دکھ کی زنجیر میں بندھ گئے

اور مجھے یہ گماں سا ہوا

کہ اب اجنبیت کی دیوار گرنے کو ہے

ابھی اس کی نمناک آنکھیں کہیں گی کہ ہم ایک ہیں

لمحۂ درد کا ساتھ سب سے بڑا ساتھ ہے

مگر میں نے دیکھا کہ اُس وقت بھی

اِس کی پتھرائی آنکھوں میں

عکسِ شناسائی ناپید تھا

اور اب جب میں اِس شہر سے جا رہا ہوں

 تو اِس کی درانتی سی بانہوں کے دندانے

 میرے رگ و پے میں اُترے ہوئے ہیں

٭٭٭

ظفر سیّد: جناب ضیا جالندھری مرحوم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کی نظم پر تنقیدی اجلاس کا آغاز کیا جاتا ہے۔ یہ اجلاس دو ہفتے جاری رہے گا۔ اس اجلاس کے صدر جناب محمد یامین سے گذارش ہے کہ وہ مسندِ صدارت سنبھال کر اجلاس کی باقاعدہ کارروائی کا اعلان کریں ۔

محمد یامین: محترم اہلِ حاشیہ! حاشیے کے ساتویں اجلاس میں آپ کا خیر مقدم ہے۔ ایک صاحبِ توفیق شاعر اور بڑے نظم گو جنھیں ہم سے جدا ہوئے ابھی کچھ وقت ہی گزرا ہے، کی نظم "بڑا شہر” حاشیے پر مرقوم آپ کی آراء اور تفہیم کی نئی بشارتوں کی منتظر ہے۔ ضیا جالندھری جدید نظم کے اہم ترین راہ نماؤں میں سے ایک ہیں اور نئی نظم کے معماروں کے ہم رکاب بھی۔ اس لیے ان کی شاعری ایک طویل سفر کی عکاس بھی ہے اور ایک نئے عہد کی نقیب بھی۔ امید ہے کہ پہلے کی طرح آپ سب احباب توجہ، محبت اور خلوص سے بحث کا آغاز کریں گے۔ جناب علی محمد فرشی سے التماس ہے کہ ابتدائیہ پیش فرمائیں ۔

علی محمد فرشی: صاحبِ صدارت

 سماج کی تخلیق فرد کی مرہونِ منت ہے لیکن فنامنا یہ ہے جوں ہی سماج مضبوط ہوتا ہے، فرد کو اپنی لاٹھی سے ہانکنے لگتا ہے۔ ہم کَہ سکتے ہیں کہ "سپرایگو” بھی افراد ہی کی تشکیل کردہ ہوتی ہے جو فرد کی "اڈ” اور "ایگو” کو بے قابو ہونے سے روکتی ہے اور افراد کے مجموعے کو انارکی سے محفوظ رکھتی ہے۔ نفسیات کی سماجی ساختوں اور اجتماعی لا شعور کی بافتوں میں فرد کہاں منہا ہو جاتا ہے، اور کہاں اسی کا بنایا ہوا جال اس کے لیے وبال بن جاتا ہے، یہ سوالات نفسیات کی علمی تدوین سے بہت پہلے ادب کی بنیادوں میں موجود رہے ہیں ۔ جہاں نفسیات نے ادب سے کثیر استفادہ کیا ہے وہیں باقاعدہ علم بن کر نفسیات نے بھی ادب کو بھی نئی راہیں سجھائی ہیں ۔ اس کے باوجود جب کوئی بڑا تخلیقی ذہن کسی سماجی نفسیاتی مسئلے کو اپنے فن پارے کا موضوع بناتا ہے تو ادب کا پلڑا نفسیات پر اپنے رسوخ کے باعث بھاری ہو جاتا ہے۔ یہی ادب کی برتری کا وہ پہلو ہے جو اسے زمان و مکاں کے حصار سے آزاد کر دیتا ہے۔

 ضیا جالندھری کی زیرِ بحث نظم "بڑا شہر” کے استعارے کا انطباق تمام بے ہنگم پھیلاؤ رکھنے والے شہروں پر ہوتا ہے لیکن اس کی ساخت میں استعمال کیے گئے ضمنی استعارے، علامتیں اور سمبل "کراچی” کی مقامیت کا شناخت نامہ بھی اس فن کاری سے مرتب کرتے ہیں کہ اس شہر کی تصویر جاوداں ہو جاتی ہے۔ بڑے شہروں کی سماجی ابتری پر، اردو میں ، "بڑا شہر” سے عمدہ نظم اس کی تخلیق سے پہلے شاید ہی کہیں لکھی گئی ہو۔

 کراں چی، کراچی، کراہ چی

 کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جو بڑی صنعتوں کے مرکز اور بندرگاہ کی موجودگی کے باعث ملکی معیشت کا جزوِ اعظم ہے۔ پوری دنیا کے ساتھ معاشی رشتوں کے حوالے سے بھی اس شہر کی اہمیت نمایاں ہے جس کے باعث دنیا بھر کے باشندوں کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں مثلاً پنجاب، سرحد، بلوچستان، اندرونِ سندھ اور آزاد کشمیر سے کاروبار پیشہ، ہنر مندوں اور کارکنوں کی بڑی تعداد بھی کراچی کا رخ کرتی ہے۔ یہ پاکستان کا واحد شہر ہے جس کی سماجی ساخت نہایت پیچیدہ اور شناخت بو قلموں ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کی بہت بڑی تعداد یہاں آباد ہوئی۔ یوں مختلف عمرانی طبقوں کی رنگا رنگی سے ایک ایسی معاشرت نے جنم لیا جس کی مثال ملک کے کسی دوسرے شہر میں دکھائی نہیں دیتی۔

علی محمد فرشی: (۲)

 اس شہر نے نہ صرف پورے ملک کی معیشت کا بوجھ سنبھالااوراندورنِ ملک اور ہندوستان سے آنے والے مہاجروں کے پاؤں تلے اپنا دل بچھایا بل کہ ہر انسان کو بلا تفریقِ ذات زبان اور رنگ و نسل قبول کیا اور پالا پوسا۔ لیکن اس کی بد قسمتی دیکھیے کہ اِنھی لوگوں نے اسے ماں کا رتبہ دینے کی بجائے طوائف بنا دیا۔ اس کی ایک نفسیاتی وجہ یہ ہے کہ غیر ممالک سے آنے والے ہوں کہ اندرونِ ملک سے، ہجرت کے بعد مستقل طور پر آباد ہونے والے اس شہر کو اپنا نہیں سمجھتے۔ حتیٰ کہ دیہی علاقوں کے وہ افراد جو ناقابلِ برداشت معاشرتی تفاوت کے نتیجے میں یہاں  آ کر آباد ہو جاتے ہیں جہاں انھیں کوئی "کمی کمین ” کا طعنہ نہیں دے سکتا، لیکن وہ بھی اس شہر کو اپنا نہیں کہتے اور اپنی وابستگی آبائی علاقے سے قائم رکھتے ہیں ۔ اور اس شہر میں قیام کو محض ذہنی فرار کا ایک معاشرتی ذریعہ سجھتے ہیں ۔ پھر کچھ کاروباری اور مذہبی گروہ بھی ہیں جو اپنے وجود کی بقا کے لیے اسی شہر کو مفید اور محفوظ سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ وہ بے لوث رشتہ جو کسی زمین اور انسانوں کے درمیان فطری طور پر موجود ہوتا ہے یہاں استوارہی نہیں ہو سکا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ضیا جالندھری اس شہر کے بارے میں کیا محسوسات رکھتے ہیں ۔

 ضیا جالندھری نے کراچی کے پورے وجود کو ایک حساس شاعر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ نظم کی واردات یہ ہے کہ شاعر کسی وجہ سے (بہ سلسلہ ملازمت )اس شہر میں ایک متعین عرصے تک مقیم رہتا ہے لیکن اس کے اور اِس شہر کے درمیان محسوساتی اور جذباتی نوعیت کا کوئی رشتہ قائم نہیں ہو پاتا جو شاعر کے لیے ایک تکلیف دہ صورت ہے اور اسی کرب کا اظہار اس نظم میں ایسے انوکھے پیرائے میں ہوا ہے کہ اس نظم کو شہری زندگی پر لکھی گئی دنیا کی نمائندہ نظموں میں فخرسے رکھا جا سکتا ہے۔

 انسانی فطرت ہے کہ جہاں وہ قیام پذیر رہتا ہے وہ جگہ اس کے دل میں بسیرا کر لیتی ہے اور اس کے پاؤں اس زمین میں اپنی جڑیں مضبوط کر لیتے ہیں ۔ انسان اور مکان کے درمیان یہ رشتہ ایسا اٹوٹ ہو تا ہے کہ جدائی دشوار ہوتی ہے لیکن جب شاعر کراچی سے جدا ہونے لگا تو اُسے ایک مختلف نوع کے دکھ سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کے پاؤں اس مٹی سے جدا ہوتے ہوئے دکھی ضرور ہوئے لیکن اس کی بے حسی پر!تاہم یہ بے حسی اس نوعیت کی بھی نہیں جسے آڈن نے ایک بڑے شہر میں قیام کے تجربے کو عمر رسیدہ عورت کے ساتھ ہم بدن ہونے کے مماثل قرار دیا تھا کیوں کہ شاعر کا اس شہر کے ساتھ تو کسی طرح کا بھی رشتہ قائم نہیں ہو سکا۔ (یہاں اس بات کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ یہ پہلا تاثر ہے جو آخری سطور میں زائل ہو جائے گا اور نظم نئی کروٹ لے گی)۔

علی محمد فرشی:(۳)

 جوں ہی نظم کا دروازہ کھلتا ہے ایک غیر جمالیاتی اور بد ہئیت منظر آنکھوں کے سامنے پڑا ملتا ہے۔ کیکڑے کی تشبیہ سمندر کے کنارے آباد ہونے کی نسبت سے اِ س شہر کے لیے از حد موزوں اور موضوع کو فروغ دینے کا وسیلہ بنی لیکن اس کا اصل کما ل اس امیج میں ہے جو آئندہ بند میں اس کی ساخت کے بیان سے تکمیل پاتا ہے۔ ’نسیں اس کی فولاد و آہن/بدن … ریت سیمنٹ پتھر/بسیں ، ٹیکسیاں ، کاریں ، رکشا، رگوں میں لہو کی بہ جائے رواں /جسم پر جا بہ جا داغ دلدل نما ،اِن ذیلی امیجز کے انسلاک و ارتباط نے کراچی کی جسمی، ذہنی اور جمالیاتی بد ہیئتی کی تصویر متحرک کر دی ہے۔ انھی سطور میں ایک سمبل بھی در آیا ہے جس نے آگے چل کر نظم کی معنیاتی کشادگی میں خاص کردار ادا کرنا ہے، یعنی ’داغ،۔ شاعر نے اس سمبل کو دلدل سے تشبیہ دے کر ساحلی علاقے کی نسبت سے تخلیقی فریم کو بھی نامیاتی قوت فراہم کی ہے۔ ما بعد سطر میں ایک اور سمبل ’عنکبوت ، کا ہے جس پر استعارے کا گمان بھی ہوتا ہے لیکن عالمی معیشت اور بین الاقوامی کمپنیوں کے جال اور ان کے پسِ پردہ محرکات کے تناظر میں یہ سمبل قرار پاتا ہے۔ داغ و دلدل زمین سے منسلک تھے تو یہ فضا سے متعلق ہے۔ بنک بھی اسی مالیاتی نظام کا استعارہ ہے جس نے انسانوں کی تخلیقی کارکردگی کو ہڑپ کر لیا ہے۔ یہ مشرق و شمال کے عوام ہیں جنھیں نظم نے ’ مگس، کے خوب صورت اور معنی آفریں استعارے میں پیش کیا ہے۔ سمندر کی نمکین اور آلودہ فضا میں شہد تیار کرنے والے وجود کے تصور سے اثبات کا شیریں ذائقہ فزوں ہو کر نظم کی کارکردگی کو دوچند کر دیتا ہے۔ مشرق و شمال کے عوام کی ایک جہت مقامی بھی ہے کہ اندرونِ ملک سے آنے والے کارکن یہاں کے سرمایہ دارانہ جال میں پھنس جاتے ہیں اور ان کی ساری صلاحیتیں یہ نظام چوس لیتا ہے۔ ان کے خوابوں کی تعبیر کارخانوں کے دھوئیں میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ اور پیچھے گھروں میں ان کے اہلِ خانہ ان کا انتظار کرتے رہ جاتے ہیں ۔

 کراچی کو روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں رات پر بھی دن کا گماں ہوتا ہے۔ بڑے بڑے اداروں کے اشتہاری بورڈساری رات رنگارنگ تیز روشنیاں بکھیرتے ہیں ، ٹریفک رواں رہتی ہے، دفاتر میں کام جاری رہتا ہے، کارخانے اور ملیں چلتی رہتی ہیں ۔ کوئی لمحہ ایسا نہیں ہو تا کہ یہ شہر سو جائے۔ لیکن شاعر کے نزدیک یہ روشنی مثبت معانی کی حامل نہیں ۔ اس کی منفیت کو عیاں کر نے کے لیے نظم نے طوائف کے کوٹھے کی تشبیہ استعمال کی ہے، جہاں رات دن سے بڑھ کر روشن ہو تی ہے لیکن لوگ یہاں سے (خوشی خوشی)اپنا سب کچھ لٹا کر نیچے اترتے ہیں ۔ اس شہر کی روشن راتیں بھی اپنی چمک سے چندھا کر لوگوں سے حقیقت کا مشاہدہ کر نے کی صلاحیت چھین لیتی ہیں ۔ اس شہر کا اصل منفی پہلو یہ ہے کہ اسے اپنی تمام تر خرابیوں کی خبر ہے اور ان بد اعمالیوں پر اسے کوئی شرمندگی اور پچھتاوا بھی نہیں بل کہ انھی کے باعث اس قد پتھر دل ہو چکا ہے کہ اسی کردار پر فخر کرنے لگا ہے۔

 ’میں چاہت کے پھولوں بھرے جنگلوں سے جب آیا

 تو اس شہر کی پیٹھ محبس کی دیوار کی طرح میری طرف تھی،

 ان مصرعوں سے نظم کراچی کے عمومی کردار کا خاکہ ادھورا چھوڑ کر شاعر کی اس شہر میں آمد کا منظر دکھاتی ہے۔ شاعر ایک ایسے ماحول سے یہاں آیا ہے جہاں اپنائیت اور محبت کے فطری جذبات زندہ ہیں ۔ لیکن اس شہر میں اسے معاشرتی بے رخی سے واسطہ ہے۔ جنگل آزادی، اور فطرت سے قرب کی علامت ہے جس کے باشندے کی طرف اس شہر نے اپنی پشت پھیر لی۔ اگرچہ شاعر اس قید خانے کا حصہ بننے کے لیے آیا بھی نہیں تھا۔ ایک ضرورت اسے کچھ وقت کے لیے یہاں لے آئی تھی۔ اور اب اسے سماجی زندگی گزارنے کے لیے میل جول کی فطری احتیاج پریشان رکھتی ہے لیکن کوئی اس کی تنہائی کا درماں نہیں ۔۔۔۔ ہوا، جو زندگی اور آزادی کی علامت ہے اور خاص طور پر سمند ر کی وسعت کی رعایت سے اسے وسیع القلب ہونا چاہیے لیکن اس شہر کی بری خصلتوں کے باعث اس کے اطوار بھی بدل گئے ہیں ۔ وہ بھی اس سے بے گانہ ہے۔ گویا زندگی کی اصل ضامن بھی اس پر مہربان نہیں ہو رہی۔ یہ شہر اور شاعر کے درمیان لا تعلقی کی انتہا ہے۔ لیکن شاعر کے دل میں اس کے لیے نرم گوشہ موجود ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ ہوا توخوداس شہر کی آلودہ فضا میں بہ مشکل سانس لے رہی ہے۔ یعنی جب زندگی کی ضامن کو خود زندگی کے لالے پڑے ہوں تو وہ دوسروں میں کیسے زندگی بانٹے گی؟ شاعر نے ہوا کے گریز کو اس کے احساسِ ندامت سے تعبیر کیا ہے۔ یوں نظم نے فطرت کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کا بالواسطہ اظہار کر دیا۔

علی محمد فرشی: (۴)

 اس دورانیے میں کئی ایسے مواقع بھی آئے جب اس لاتعلقی کا خاتمہ یقینی دکھائی دینے لگا۔ اس جانب کوئی واضح واقعاتی تفصیل تو نہیں ملتی لیکن ایک ’مشترک دکھ کی زنجیر ، کا اشارہ ظاہر کرتا ہے کہ سماجی زندگی میں کئی ناگہانی آفات آتی ہیں جو انسانوں کے درمیان دوریوں کو مٹا کر انھیں ایک رشتے میں پیوند کر دیتی ہیں ۔ کوئی حادثہ، سمندری طوفان، کوئی وبا، ریاستی جبر، کسی دشمن کا وار، وغیرہ ایسے واقعات ہوتے ہیں جو بکھرے ہوئے انسانوں کو ایک لڑی میں پرو دیتے ہیں ۔ مثلاً جنگ بہ ظاہر انسانیت کے لیے تباہ کن ہے لیکن ۱۹۶۵ء کی بھارتی جارحیت نے پاکستانی قوم کو ایک مٹھی کی مانند متحد کر دیا۔ دو عالمگیر جنگوں میں یورپ کو زبردست جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا لیکن اس کے بعد اس برِاعظم کی برق رفتار ترقی آج سب کے سامنے ہے۔ گویا مصیبت بھی انسانی معاشرے کی تعمیر کا باعث بنتی ہے۔ لیکن یہاں ایسے حالات میں بھی شاعر اور شہر کے درمیان حائل دیوار نہ گری۔ نظم نے اس موقع پر ’اِس کی پتھرائی آنکھوں میں /عکسِ شناسائی ناپید تھا، میں ’ پتھرائی آنکھوں ، کے بصری امیج کے بر محل استعمال سے موضوع کو نقطہ عروج تک پہنچا دیا ہے۔ اب شہر کی بے حسی بے بسی میں تبدیل ہو گئی ہے جواس بات کا اشارہ ہے کہ اس کے باطن میں زندگی کے تمام نازک جذبات موجود تھے لیکن ان پر ایک موٹی تہ آ گئی تھی۔ جس کی جانب نظم نے ابتدا میں اشارہ کر دیا تھا۔ ’کھردری کھال، کے امیج نے یہاں آ کر اپنی معنویت کا دائرہ مکمل کر لیا ہے۔ یہاں تک شاعر کی شہر کے ساتھ کوئی رشتہ استوار کرنے کی ناکام کوششوں کی روداد تھی۔ اب شاعر کی یہاں سے روانگی کا وقت آگیا ہے :

 ’اور اب جب میں اِس شہر سے جا رہا ہوں

 تو اِس کی درانتی سی بانہوں کے دندانے

 میرے رگ و پے میں اُترے ہوئے ہیں ۔ ،

 یہ سطور نظم کو ایسا اختتام دیتی ہیں کہ پہلی قرأت میں ذہن اس جانب جاہی نہیں سکتا۔ لگتا ہے کہ الوداعی معانقہ بھی ایک طرح سے شہر کا شاعر سے معاندانہ سلوک ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کی جدائی نہیں چاہتا۔ یہ تواس کی ساخت کا شاخسانہ ہے کہ معانقے میں شاعر زخمی ہوا۔ (یہاں نظم نے کراچی کے لیے اختیار کردہ کبیری استعارے، کیکڑے، کے پنجوں کو درانتی سے تشبیہ دے کر لفظ و معنی کی تندی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ )شہر تو اس کی جدائی کے صدمے سے دو چار تھا اور جانے سے روکنے پر مصر!کیوں کہ یہی تو ایک انسان آیا تھا جس نے اُس کے دکھ کو سمجھا اور اس کے زبوں حال پر ملول رہا۔ ان سطور کی ایک جہت اور بھی ہے کہ شہر کی تمام تر بے مروتی کے باوجود اس کی یادیں شاعر کے ذہن سے محو نہیں ہو رہیں ۔ وہ اسے بھلا نے کی کوشش میں کام یاب نہیں ہو پایا۔ اپنے ملک کے کسی شہر کو اپنے دل سے کوئی شاعر کیسے نکال کر پھینک سکتا ہے۔

محمد یامین: احبابِ گرامی قدر! جناب فرشی صاحب نے ممکنہ اشاروں کے ذریعے نظم کی نہایت اعلیٰ تفہیم کی ہے۔ میں اپنی طرف سے اور آپ احباب کی جانب سے بھی ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ اس خوب صورت ابتدائیے کے بعد آپ سے گزارش ہے کہ گفت گو کو آگے بڑھائیں ۔ چوں کہ نظم سماجی ابتری اور تیسری دنیا کے شہری ماحول کی عکاسی کرتی ہے اس لیے اس کو سماجی نفسیاتی تنقید ی نظر سے بھی دیکھنا ہو گا۔ اور فرد کی تنہائی کے معروف مضمون کو بھی سامنے رکھنا ہو گا۔ سرمایا دار معاشرے اور اس کے جبر پر بھی باتیں ہوں گی اور فرد کی روحانی تشنگی پر بھی اظہارِ خیال کرنا ہو گا۔ پھر نظم کا اسلوب، فنی مقام اور اس نظم میں در آنے والے استعارے، امیج، تشبیہات اور سمبل بھی آپ کی توجہ چاہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہذا تمام احباب کو دعوتِ اظہار ہے۔ بسم اللہ

محمد حمید شاہد:۔

 علی محمد فرشی نے ضیا جالندھری کی نظم پر عمدہ آغاز دیا اور آپ نے بھی درست فرمایا کہ یہ نظم سماجی ابتری اور تیسری دنیا کے شہری ماحول کی عکاسی کرتی ہے اس لیے اس کو سماجی نفسیاتی تنقیدی نظر سے دیکھتے ہوئے سرمایہ دارانہ معاشرہ کے جبر اور فرد کی روحانی تشنگی پر بھی بات کرنا ہو گی۔ قبل ازیں فرشی نے بجا طور پر کہا تھا کہ نظم عین آغاز میں ہی ایک غیر جمالیاتی اور بد ہئیت منظر آنکھوں کے سامنے لے آتی ہے مگر جس کی آنکھ تخلیقی انسان کو پرکھ نہیں سکتی اس کے لیے کیکڑا، دلدل، داغ، نسیں ہوں یا فولاد و آہن، ریت سیمنٹ پتھر، بسیں ، ٹیکسیاں ، کاریں ، رکشا، وغیرہ انسانی ترقی کے نشان ہو جاتے ہیں ۔ ایسے میں ضروری ہو جاتا ہے کہ نظم کے متن کواس کے تخلیق کار کے نقطہ نظر سے سمجھا جائے۔

 اچھاعین ایسے زمانے میں کہ جب شاعری حسیاتی اور معنیاتی سطح پر لطیف ہونے کی بجائے اپنے مضمون میں مضحک یا پھر گنجلک ہو نے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی، ضیا جالندھری کی اس نظم پر بات کرنا بہت پر لطف ہو گیا۔ جی، آگے بڑھنے سے پہلے واضح کر دوں کہ میں نظم کے اپنے مضمون میں ایک سے زیادہ سطحوں پر بامعنی اور مربوط ہونے کو اہم سمجھتا ہوں اور ایک تخلیقی ابہام کو بھی اس کی جمالیات کا ایک وصف سمجھتا ہوں مگر نظم کا اتھلا ہونا ہو، یا معنی کا کٹا پھٹا ہونا، مفہوم کا مفقود ہونا ہویا محض زبان کی سطح پر بازی گری یہ سب حیلے نظم کے حق میں نہیں جاتے ہیں ۔ خیر یہ جملہ معترضہ تھا اور میں ضیاء جالندھری کی تخلیقی شخصیت کو سمجھنے کی طرف بڑھنا چاہتا ہوں ۔ اوپر یہ جو فرد کی روحانی تشنگی کی بات کی گئی ہے تو مجھے اپنے پروفیسر یوسف حسن کی اس بات سے جو حال ہی میں ایک تقریب میں کہی گئی، اتفاق کرنا ہو گا کہ اپنی زندگی کے آخری دور میں ضیا اس تشنگی کو شدت سے محسوس کرنے لگے تھے۔ اور مابعد الطبعیات کے مضامین برتنے لگے تھے۔ یہیں جی چاہنے لگا ہے کہ ضیا کی غزل کے کچھ اشعار کی طرف آپ کی توجہ چاہوں ۔ میں جانتا ہوں کہ غزل کبھی ضیا کی تخلیقی ترجیح نہیں رہی مگر اس نے کئی ایسے اشعار کہہ رکھے ہیں جو اس کے تخلیقی بھید پر کھلنے والا دروازہ ہو سکتے ہیں ۔

 میں ذرہ ہوں پہ خیال و نظر میں لامحدود

 تو بے کنار، ترا عکسِ بے کراں میں ہوں

 =×=

 عدم میں رکھ مجھے یا حیطہ وجود میں رکھ

 یہ”ہے "”نہیں "کی کشاکش نہ ہو جہاں میں ہوں

 (پس حرف)

 =×=

 تخیل میں ہر طلب ہے تحصیل

 جو بات کہیں نہیں ، یہاں ہے

 (سر شام)

 =×=

 یہ زیست ہے یا خواب کہ ہے اور نہیں ہے

 اک عکس سرِآب کہ ہے اور نہیں ہے

 (دم صبح)

 ضیا کی غزل میں ہونے اور نہ ہونے کے اس قضیے کو اگر خواب اور حقیقت کی صورت دیکھا جا سکتا ہے تو اس کی نظم میں اس کی کئی اور صورتیں بھی بنتی ہیں ۔ ایسی صورتیں جنہیں وجودی سطح پر بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ مزاحمت کی ایک صورت ہے جو زیر نظر نظم میں یوں ظاہر ہو رہی ہے،

 اور اب جب میں اِس شہر سے جا رہا ہوں

 تو اِس کی درانتی سی بانہوں کے دندانے

 میرے رگ و پے میں اُترے ہوئے ہیں

 شہر سے نکلنا مگر نکل نہ پانا اور اس درانتی کے دندانوں کو رگ و پے میں اترتے ہوئے پانا، تاہم ضیا کے ہاں مزاحمت کی یہ لہر پر شور نہیں ہے اس نے جا بجا نئی زندگی کی یخ بستگی اور جبر کو دکھا کر،اس کے مقابلے میں فرد سے فرد کے سماجی سطح پر رشتوں سے جڑی ہوئی قدیم زندگی کی شعلگی کو رکھا ہے اور اپنے قاری کے اندر ایک میزان قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں مجھے آپ کی توجہ ضیا کی پہلی کتاب ’’سرشام ‘‘ کی ایک نظم ’’ابوالہول ‘‘ کی طرف چاہئیے۔ یہ اپنے مواد اور ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے نہ صرف ن م راشد اور میرا جی کے تخلیقی ضابطوں سے الگ دھج اختیار کرتی ہے ان ترقی پسندوں جیسا چلن بھی نہیں رکھتی جو ایسی نظموں کا عنوان ’’انسان عظیم ہے خدایا‘‘ رکھ کر اور اکہری بات کہہ کر آگے چل دیا کرتے ہیں ۔ کیا یہ بات اہم اور قابل توجہ نہیں ہے کہ ضیا کی نظم میں تخاطب بھی جمالیاتی لہروں میں جذب ہو گیا ہے۔ تو یوں ہے صاحب کہ یہ نظم انسان کی عظمت کی تلاش سے جڑ نے کے دورانیے میں اس کے وجودی کرب کو ،کہ جو اپنی قامت اور جسامت میں ابوالہول سے کسی صورت کم نہیں ہے، سے بھی پیوست رہتی ہے۔

محمد حمید شاہد: 2  کون نہیں جانتا کہ ابوالہول عجائب عالم میں شمار ہوتا ہے اور ہم تو یہ بھی گمان کیے بیٹھے ہیں کہ اس کائنات میں آدمی کا وجود بھی ابوالہول کی سی عظمت کی لیے ہوئے ہے۔ ضیا کی نظم کا قضیہ انسان کی عظمت نہیں بلکہ وہ زندگی ہے جس میں حرکت اور حرارت کو ہونا چاہئیے۔ یہی سبب ہے کہ وہ نظم کے پہلے حصے میں ابوالہول کو خواب گراں سے جگانے کی کوشش کر رہا ہے۔

 جہانِ ریگ کے خوابِ گراں سے آج تو جاگ

 ہزاروں قافلے آتے رہے، گزرتے رہے

 تڑپ اٹھے ترے ہونٹوں پہ کاش اب کوئی راگ

 جو تیرے دیدہ سنگیں سے درد بن کے بہے

 یہ تیری تیرہ شبی بجلیوں کے ناز سہے

 یوں ہی سلگتی رہے ترے دل میں زیست کی آگ

 (نظم: ابوالہول/سرشام)

 انسانی تاریخ کا جو حوالہ اس نظم میں ضیا کے سامنے ہے اس میں انسان نے بزعم خود اپنی عظمت کو اپنے وجود سے جوڑ رکھا ہے۔ آدمی جس جھونک میں اپنی اصل سے الگ ہو گیا ہے اس میں اس نشہ کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ کئی سانحات انسانی وجود پر گزرے ہیں مگر یہ سنگی ابوالہول ایک خواب مسلسل کا اسیر ہے اور نہیں جانتا کہ وہ زندگی تو موت ہوا کرتی ہے جس میں لگن اور لاگ کا چلن نہ ہو۔ انسانی رشتوں کا یہ روپ خالص مشرق کی دین اور اپنی روایت سے جڑت کی عطا ہے۔ جس گوں کے آدمی کا تصور ضیا کی نظموں سے متشکل ہوتا ہے اس میں یہ عناصر انسانی وجود کا لازمی جزو ہو گئے ہیں ۔

 تو یوں ہے کہ ضیا نے زندگی کواس سرمائے کی طرح نہیں دیکھا ہے جسے جمع کرتے کرتے اتنا بڑا ڈھیر بنا لیا جائے کہ دیکھنے میں وہ ابو الہول ہو جائے۔ سرمائے اور اشیا کا بارودی ڈھیر، جس کی تہہ میں نئی زندگی کو چمک عطا کرنے والے کارکنوں اور سرمائے کو نمو دیے چلے جانے والے صارفین کی خواہشات کی لاشیں دفن ہوں ۔ کون نہیں جانتا کہ وہ ابوالہول جس کی عظمت دیکھنے والوں کے سینوں پر ہیبت بن کر چڑھ دوڑتی ہے کتنی انسانی لاشوں کے ڈھیر پر تعمیر ہوا تھا۔ ضیا کو اس ہیبت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے کہ اس کی نظر تو اس تیرہ شبی پر گڑھی ہوئی ہے جسے بجلیوں کے ناز سہنے چاہئیں اور اس کا معاملہ تو اس دل سے ہے جس میں زیست کی آگ سلگتی رہتی ہے۔ ضیا کی اس نظم کے دوسرے حصے میں عافیت والی زندگی کو اس زندگی کے مقابل رکھ کر دیکھا گیا ہے ، جس کی گھات میں فنا ہے۔ دل کا راز کہہ دینے کی تاہنگ میں مبتلا آدمی جن خطرات سے دوچار ہے ابوالہول کے دل سنگین کا وہ چوں کہ قضیہ نہیں بنتا لہذا خود اپنی آگ میں جل اٹھنا بھی یہاں کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے۔

 زندگی کے کئی روپ ضیا کا موضوع بنتے رہے ہیں ۔ عظمت، ہمیشگی ،تحرک، لاگ ، لگاؤ، بے ثباتی غرض جہاں جہاں سے اس نے زندگی کو دیکھا ہے اس کی بالکل الگ سی تصویریں بنا کر رکھ دی ہیں ۔ نظم ’’بے حسی ‘‘ میں زندگی کی لاش ایک سرد تودے کے سوا کچھ اور نہیں ہے تو ’’بہاگ ‘‘ میں شور ،ہنسی، باتیں ، گھومتے پہئیے ، ہلتے ہاتھ اور پھر خدا حافظ کہتے ہونٹوں کے دورانئیے میں زندگی قضا ہو جاتی ہے۔ خالی سونی راہیں ، سرد ہوا ، پڑتی پھوا ر اور خشک ہوتے پتے ،انتظار سے صورت پاتا شدید احساسِ تنہائی جو آج کے آدمی کا مقدر بنا دیا گیا ہے ضیا کی نظموں کا خاص موضوع ہے۔ انسانی زندگی کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دینے والی یہ تنہائی اس کی اب تک کی آنے والی آخری کتاب ’’دم صبح ‘‘ تک پھیلی ہوئی ہے۔ تاہم یہاں تک پہنچتے پہنچتے ضیا اپنی نظموں میں باقاعدہ اپنا سینہ کھول کر دکھانے اور یہ بتانے بھی لگا ہے کہ آ دمی کو ایک ایسی روشنی چاہیے جو تاریکی کے اس خلا کو پاٹ دے۔ ضیا کی نظر میں یہ روشنی انسان کے وجود کے اندر سے پھوٹ سکتی ہے۔ بس اسے کرنا یہ ہو گا کہ فرد کو فرد کے قریب لانا ہو گا۔

۔ ۔۔۔اس قدر یاد ہے چاہا تھا کہ تجھ تک پہنچوں

 مرے رستے میں مگر

 دانش شہرِ ہوس حائل تھی

 دانش شہر ہوس

 تہ بہ تہ سیل کی مانند بڑھی آتی تھی

 دل گھٹا جاتا تھا

 کون جانے تو کہاں ہے لیکن

 میں یہ سینے کا خلا ساتھ لیے پھرتا ہوں

 کو بہ کو ، شہر بہ شہر

 پوچھتا پھرتا ہوں کیا تم نے کہیں

 روشنی دیکھی ہے اور اس کا خلا دیکھا ہے۔

 (نظم: خلا/دمِ صبح)

محمد حمید شاہد:۔  3   ضیا چوں کہ معروف معنوں میں مفکر نہیں ہے لہذا اس کے ہاں تبدیلی کی خواہش کی شدت کٹاری کی تیز دھار بننے کی بجائے روایت ،جدت اور واردات کے بہم ہونے سے گہرے احساس کا روپ دھار گئی ہے میں نے دیکھا ہے کہ احساس کے ساتھ اس معاملے کے دوران بھی شاعر کا لاشعور بہت چوکس رہتا ہے۔ بظاہر منظر سامنے کا ہوتا ہے جس میں مختلف علامتیں سیال ہو کر بہ رہی ہوتی ہیں مگر لاشعور اسے انسان کی تہذیبی اور فکری تاریخ سے جوڑتا رہتا ہے۔ ’’بے حسی‘‘، ’’بھول‘‘، ’’آخرکار‘‘، ’’غم گسار‘‘، ’’ ویرانے ‘‘، ’’اجالا‘‘، ’’بجھی ہوئی آگ‘‘، ’’ دکھاوا‘‘، ’’یہ بہار‘‘، ’’ زمستان کی شام‘‘، ’’ساملی‘‘، ’’ٹایپسٹ‘‘ غرض کوئی نظم اٹھائیں بظاہر منظر سامنے کا ہے جس میں کہیں تو پتے پتے پر موتی مچل رہے ہیں اور کہیں ایسی سرخوشی ہے جو شگوفوں سے سنبھالے نہیں سنبھلتی تاہم سرشاری ، سرمستی اور سرفرازی کے ان مناظر پر محیط ہو جانے والے غم کا تسلسل اور افراط میں ہر دم کچرا بنتی ہوئی زندگی کو کسی نہ کسی بسنتی کی بہر حال ضرورت رہتی ہے۔

 اور اب یوں ہے جیسے

 ہمارے دلوں میں بھی کچرے کے انبار ہیں

 ایسے انبار کوئی بھی جن کو اٹھاتا نہیں ۔

 (نظم: کچرا/دم صبح)

 زیر نظر نظم "بڑا شہر” کا موضوع بھی یہی ہے کہ ایک طرف اگر زندگی کرنے کی للک سے کٹ کر اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی جستجو میں بڑے شہر منتقل ہونے والا آدمی ایک اذیت کو محسوس کرتا ہے تو دوسری طرف جبر یہ ہے کہ وہ اس کی گرفت سے نکل ہی نہیں پا رہا۔ ضیا نے کراچی کو سامنے رکھا، وہ کراچی جس کا المیہ روپ بدل بدل کر ہمارے سامنے آتا رہتا ہے، اور اب تو ہم اسے ایک سفاک قاتل کے روپ میں دیکھ رہے ہیں ۔ کسی دیو قد کیکڑے کی طرح سمندر کے ساحل پہ پاؤں پسارے پڑا ہوا کراچی ضیا کا موضوع ہے۔ نظم نگار نے سمندر کے حوالے سے کیکڑے کی تشبیہ دی مگر فوراً بعد، اس کا دوسرا روپ بھی دکھا دیا، فولاد و آہن کے بدن والا، ریت سیمنٹ پتھر والا اور بسیوں ، ٹیکسیوں ، کاروں ، رکشاؤں والا۔ ایسا جسیم کیکڑا جس کی رگوں میں لہو کی بہ جائے ایک ہنگامہ رواں ہے۔ تو یوں ہے کہ اس طرح یہ کیکڑا دو رخوں پر نظر آتا سمندر کنارے پڑا ہوا بے سدھ جسم ہے اور آدمی کے سامنے ایک بے ہنگم زندگی کی مصروفیت۔

 آگے چل کر نظم میں فرد اور شہر کے جسم کو ایک سا دکھایا گیا ہے۔ دونوں کے اندر مصروفیت کے باوجود زندگی کے معاملے میں تہی پن ہے۔ معاشی سرگرمی کی علامت ہو جانے والے اداروں کا شہر کے جسم پر جا بہ جا داغ ہونا اور اشتہا اور خوابوں کو فروغ دینے والی زندگی کا فرد کے لیے موت کا سا داغ ہو جانا، ایسی دلدل کہ انسان ان کے شکنجے سے نکلنا چاہے تو پھڑپھڑا کر رہ جائے اور نکل نہ پائے۔ یہ ایسا جبر ہے، جو آدمی کے اپنے کیے کا شاخسانہ ہے فرد کو اس انداز سے دیکھنے کو ضیا نے اپنی شاعری کا مستقل موضوع بنایا ہے۔ فرد کی جان کنی اور شہر کی بہ ظاہر عشوہ طرازی کی اس کہانی میں اگر شہر طوائف سا ہے تو فرد تماش بین اور انجام دونوں کے حق میں نہیں ہے کہ دونوں اصل اور خلوص والی زندگی سے کٹے ہوئے ہیں

 یہ وہ شہرِ خود مطمئن ہے

 جو اپنے ہی دل کی شقاوت پہ شیدا رہا

 میں چاہت کے پھولوں بھرے جنگلوں سے جب آیا

 تو اس شہر کی پیٹھ محبس کی دیوار کی طرح میری طرف تھی

 میں شدت کی تنہائی میں

 آشنا حرف کا آرزو مند

 پیہم تغافل سے رنجیدہ، بے دل

 یہاں کے رسوم اور آداب سے بے خبر

 ناخنوں سے زمیں کھود کر

 آنسوؤں کی نمی سے اُسے سینچ کر

 حرف کلیوں کی امید میں

 درد بوتا رہا

محمد حمید شاہد:۔  4  ایک تخلیقی زندگی کا تصور، معاشی سطح پر اتنے متحرک اور سماجی سطح پر اتنے پیچیدہ شہر میں ممکن نہیں ہے۔ آدمی کا مصروف ہو جانا اور اکیلا ہو جانا، تخلیقی بانجھ پن کو جنم دیتا ہے یا پھر ان ہنگاموں کا رزق ہو جانا جو زندگی کا تصور معدوم کر دیتے ہیں ۔ مذہب نے بھی شہروں کے ایک حد سے بڑھنے کو تحسین کی نظر سے نہیں دیکھا اور حکم ملتا ہے کہ جب شہر ایک حد سے بڑھنے لگیں تو نئی بستیاں بسائی جائیں ۔ اس حکم کی روح سمجھ میں آتی ہے اس نظم نے تو کراچی کو سامنے رکھ کر اس حکمت کو کھول کر بیان بھی کر دیا ہے۔ ایسے شہروں میں کوئی حادثہ تو فرد کا فرد سے رشتہ ایک محدود وقت کے لیے بحال کر سکتا ہے مگر شاعر کا تجزیہ یہ ہے کہ یہ بھی محض التباس ہوتا ہے۔

 کئی بار یوں بھی ہوا ہے

 کہ میں اور یہ شہر اک مشترک دکھ کی زنجیر میں بندھ گئے

 اور مجھے یہ گماں سا ہوا

 کہ اب اجنبیت کی دیوار گرنے کوہے

 ابھی اس کی نمناک آنکھیں کہیں گی کہ ہم ایک ہیں

 لمحۂ درد کا ساتھ سب سے بڑا ساتھ ہے

 مگر میں نے دیکھا کہ اُس وقت بھی

 اِس کی پتھرائی آنکھوں میں

 عکسِ شناسائی ناپید تھا

 جس طرح ضیا نے ایک نظم میں ابوالہول جیسے سنگی مجسمے کو آدمی کا سا دکھایا اس نظم میں بڑے شہر کو بھی ابوالہول سا دکھا دیا ہے یہ ابوالہول آدمی ہو یا شہر دونوں روح سے خالی ہیں ۔ ایسے کہ جو اندر سے بھربھرے ہو گئے ہیں ۔ ایسے میں ضیا کی ایسی زندگی کی طرف مڑنے کی تاہنگ بھی بہت اہمیت کی حامل ہے جس سے اس کی شاعری کا مزاج بنتا ہے کسی نہ کسی” بسنتی” کے آ جانے کی تاہنگ جو ہمارے اندر کی بہ ظاہر ہیبت اور عظمت والی مگر فی الاصل مردہ ہو چکی اور کچرے کا ڈھیر بن چکی زندگی کو اٹھا لے جائے یا پھر خود آدمی کے اندر ایسا حوصلہ پیدا ہونے کی امید، کہ وہ اس اذیت والی شہری زندگی سے نکلنے کے جتن کرے چاہے اس شہر کی درانتی کے دندانے فرد کے رگ و پے میں اترے چکے ہوں ۔ یوں دیکھیں تو یہ نظم فرد، سماجی زندگی اور شہر تینوں کو فرد کے نقطہ نظر سے دیکھتی ہے۔

ظفر سیّد: جنابِ صدر، میرے دو محترم ساتھیوں نے نظم کا بہت گہرائی اور گیرائی سے جائزہ لیا ہے۔ اس ضمن میں چند گذارشاتِ پریشاں میرے ذہن میں بھی ہیں ، جو پیشِ خدمت ہیں :

 تہذیب کا سب سے اہم مظہر شہر ہیں ۔ یہ شہر ہی ہیں جہاں تقسیمِ کار کے نظام کی وجہ سے فن پھلتا پھولتا ہے اور ہنر فروغ پاتا ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں تہذیب پروان چڑھتی ہے۔ چناں چہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شہر مساوی تہذیب اور تہذیب مساوی شہر۔ یہاں یہ ذہن میں رکھیے کہ لفظ تمدن کا سرا مدینہ (شہر) سے ملتا ہے۔ بالکل یہی تعلق Civilization اور City کے درمیان بھی پایا جاتا ہے۔

 اس کے پہلو بہ پہلو شہر کی آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی خرابیاں بھی پیدا ہو گئیں ، جن میں اول نمبر پر زرپرستی ہے۔ بڑا شہر” میں شاعر نے نظم کے آغاز ہی میں بالکل درست جگہ پر انگلی رکھ کر بتا دیا ہے کہ شہر کا بنیادی مسئلہ کیا ہے۔ اور وہ یہ کہ اس کا بنیادی ڈھانچا نظامِ زر پراستوار ہے۔ واضح رہے کہ شہر (اور انسانی تہذیب) کی بنیاد زرپرستانہ نظام پر رکھی گئی ہے۔ ٹیکنالوجی، جمہوری ادارے، قانون کی بالادستی وغیرہ کے ڈانڈے بھی سرمایہ داری سے جا کر ملتے ہیں ، کیوں کہ اس نظامِ معیشت کو مستحکم ریاست اور پائیدار ادارے چاہئیں ، تاکہ صنعت کار سکون سے مصنوعات بنا سکیں اور صارف انہیں آسانی سے خرید سکیں ۔ اگرچہ جدید دور میں صنعتی انقلاب کے بعد یہ مسائل زیادہ ابھرے ہیں ، لیکن شہر کی سرمایہ دارانہ جہت اس وقت سے قائم ہے جب سے شہر وجود میں آئے ہیں ۔ عہد نامہ جدید میں بابل کے زوال کی داستان بیان کرتے ہوئے اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ یہ ایسا شہر ہے جس میں سونے، چاندی، اور قیمتی پتھروں کی بہتات ہے، جہاں چمکیلے موتیوں اور بھڑکیلے کپڑوں سے دکانیں لدی ہوئی ہیں ، اور جس کے بازار بگھیوں ، رتھوں ، آدمیوں اور غلاموں سے اٹا اٹ بھرے ہوئے ہیں ۔ انجیل کے مطابق بابل ایسا شہر ہے جہاں ہر چیز بکاؤ ہے، کسی کے کم کسی کے زیادہ، لیکن ہر چیز کے کوئی نہ کوئی دام ضرور ہیں ۔

 عہد نامہ جدید میں بابل و نینوا شہروں کے زوال کی دوسری وجہ حد سے بڑھے ہوئے لہو و لعب اور لذت پرستی کو بتایا گیا ہے۔ مذکور ہے کہ یہاں کے باسی سرزمینِ صہیون کے معبدوں سے لوٹے گئے سونے کو ساغروں میں ڈھال کر ان میں شراب پیتے تھے۔ ضیا جالندھری نے نظم میں ان دونوں علتوں کو نشان زد کیا ہے۔ "بڑا شہر” بذاتِ خود کسی عشوہ طراز کی طرح ہے جو سرِ شام اپنے داغ دار چہرے پر پاؤڈر اٹ کر جھروکے میں تیز روشنی والے بلب کے نیچے کھڑی ہو جاتی ہے۔ شہر کے تمام معائب، زرپرستی، عیش پرستی، فریب، دکھلاوا، بناوٹ، وغیرہ اس ایک پیکر میں کمال ایجاز سے اکٹھے ہو کر سامنے آ گئے ہیں ۔

ظفر سیّد: گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

 شہر اور خاص طور پر جدید شہر اور اس کے مسائل پر بہت سی نظمیں لکھی گئی ہیں ۔ چوں کہ انجیل کا حوالہ سامنے کا تھا، اس لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ دورِ جدید کے سب سے جدید شہروں لندن، پیرس اور نیویارک کو بار بار بابل سے تشبیہ دی جاتی رہی ہے، اوریہ پیش گوئی کی جاتی رہی ہے کہ جیسے بابل و نینوا وقت کی مٹی تلے دب گئے، ویسا حال ان کا بھی ہو گا۔ اس تشبیہ کی بنیادی وجوہات یعنی زرپرستی اور عیش کوشی کا ذکر تو اوپر آ چکا، انجیل میں بابل کے متعلق ایک اور حوالہ بھی ملتا ہے۔ یہ بابل ہی تھا جس کے باسی اپنی صنعت و حرفت اور تہذیب کی شان و شوکت کے بوتے پر اتنے غرور میں آ گئے کہ انہوں نے آسمانوں تک پہنچنے (یعنی خدا کا مقابلہ کرنے ) کے لیے برجِ بابل تعمیر کرنا شروع کر دیا۔ اس پر خدا نے اہلِ بابل کو سبق سکھانے کے لیے مینار کی مختلف منزلوں پر موجود لوگوں کی زبانیں تبدیل کر دیں ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ آپسی زبانیں نہ سمجھنے کی وجہ سے ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہو گئے۔ یہی شہر کا المیہ بھی ہے۔ گاؤں میں ایک دوسرے کا دکھ درد مشترکہ زبان میں بانٹتے ہیں ، لیکن شہروں میں بھانت بھانت کی بولیوں کی وجہ سے آپس میں دیواریں کھڑی ہو جاتی ہیں ۔

 شہر کے باسیوں کا یہ غرور ہمیں سترھویں صدی کے فرانسیسی فلاسفہ تک لے کر آتا ہے، جن کا نظریہ تھا کہ تہذیب و تمدن (یعنی شہر) اکثر انسانی خرابیوں کی جڑ ہے، کیوں کہ معاشرتی زندگی کے باعث انسان میں انا، خودپرستی، حسد اور اس جیسی اور کئی کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ چناں چہ ژاں ژاک روسو لکھتا ہے کہ شہری یا تہذیب یافتہ انسان خودپرستی کا شکار ہوتا ہے جو اسے نہ صرف حسد کی طرف لے جاتی ہے (کیوں کہ اناپرست انسان بار بار اپنا تقابل دوسروں کے ساتھ کرتا ہے، بلکہ اس سے دوسروں کی مصیبت سے حظ اٹھانے کی علت (ایذاپرستی) کو بھی ترغیب ملتی ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے پر شہروں سے دور رہنے والا غیر متمدن انسان ("نوبل سیوج”) انا کا شکار نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ خوش اور مطمئن ہوتا ہے۔

 ان نکات کی وجہ سے "بڑا شہر” کی ایک قرات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اسے انسان کی تہذیبی سفر کا استعارہ سمجھا جائے۔ انسان اپنی پرانی زندگی (چاہت کے پھولے بھرے جنگل) پیچھے چھوڑ کر تہذیب کے سفر پر نکلا ہے، جہاں خارجی اسبابِ ہستی بھی مہیا ہیں ، عیش و آرام بھی ہے، لیکن اس تہذیب کا جو شاخسانہ فرد کی تنہائی کی صورت میں نکلا ہے، وہ متکلم کی برداشت سے باہر ہے۔ لیکن یہ رشتہ کچھ ایسا دلار۔ دھتکار کا ہے کہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کرنا بھی ممکن نہیں ۔

 ایک اور قرینہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مشرقی دنیا کا انسان مغربی تہذیب اختیار کرنے کے سفر پر نکلا ہے (بڑے شہر کے اکثر خارجی حوالے مغرب سے آئے ہیں ، بینک، ٹریفک، انجنوں کا دھواں )، لیکن اس ملاپ کے نتائج خاطر خواہ نہیں نکلے، لیکن یہ ایسا گرم آلو ہے جسے نہ اگلا جا سکتا ہے نہ نگلا جا سکتا ہے۔

محمد یامین: شکریہ جناب حمید شاہد، جناب ظفر سید۔۔۔۔ آپ دونوں صاحبانِ فکر نے بلا شبہ نظم کی تفہیم کے راستے دکھائے ہیں ۔ جناب حمید شاہد نے ضیا جالندھری کی دیگر شاعری کو بھی سامنے رکھ کر بات کی اور آغاز میں یہ بھی بتا دیا کہ میں نظم کے اپنے مضمون میں ایک سے زیادہ سطحوں پر بامعنی اور مربوط ہونے کو اہم سمجھتا ہوں ۔۔۔ انھوں نے ضیا جالندھری کی تخلیقی شخصیت کوبھی سامنے لانے کی کوشش کی ہے اور ایک گرافک فریم میں نظم "بڑا شہر” کو رکھ کر دکھایا ہے۔۔۔۔ اور آخر میں بڑی خوب صورتی سے فرد، سماج اور شہر کی بے روح مثلث تک ہمیں لے آئے ہیں ۔۔ بعد ازاں ظفر سید نے ایک باخبر دانش ور کی طرح تہذیب و تمدن کے پردے میں چھپے سامراجی مقاصد اور سرمایہ دارانہ کھیل کا ذکر کر کے نظم کی ایک اور فکری جہت کو نمایاں کیا ہے۔ انھوں نے درست کہا کہ انسانی تمدن کی بنیاد نظام زر پر استوار کی گئی تھی۔۔۔ موجودہ سرمایا داری نظام نے اپنے لیے بہت سے جواز ڈھونڈ لیے ہیں جن میں ایک "جمہوریت” بھی ہے۔۔۔ یہ نظم دراصل انسان کی اس ترقی کا المیہ بیان کرتی ہے جس کا رخ باہر کی طرف ہے۔۔ یہ ترقی پورے انسان کی ترقی کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔۔۔ "بڑا شہر” باہرسے چاہے کتنا ہی کیوں نہ پھیل جائے اندر سے بند گلی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ آخر میں انھوں نے مشرقی اور مغربی تہذیب کے حوالے سے بھی اظہارِ خیال کیا ہے جس پر مذید بات کی جا سکتی ہے۔۔۔۔ شکریہ جناب ظفر سید۔۔۔۔ باقی احباب کی شمولیت کے ہم سب منتظر ہیں ۔۔

ظفر سیّد: اقتدار جاوید صاحب نے رومن اردو میں نظم پر تبصرہ لکھ کر بھیجا ہے جسے میں اردو رسم الخط میں پیش کر رہا ہوں ۔

 ضیا کی نظم "بڑا شہر” کا شمار اردو کی اچھی نظموں میں ہوتا ہے۔ اس کو میں نے کئی دفعہ پڑھا ہے لیکن ہر بار خیال کافکا کے کردار گریگور سمسا کی طرف جاتا ہے۔ اور جب ضیا نے یہ نظم لکھی ہو گی ان کا بھی دھیان اس جانب ضرور گیا ہو گا۔ آپ جانتے ہیں کہ گریگور سمسا ایک بڑے کیڑے میں تبدیل ہو جاتا ہے، یعنی اس کی قلبِ ماہیت ہو جاتی ہے۔ کافکا نے وہ ناول 1912 میں لکھا اور عجیب اتفاق ہے کہ پوری صدی کے بعد ان کا حوالہ دے رہا ہوں ، یعنی 2012 میں ۔ اس نظم کی قرات کے دوران مجھے کافکا بھی یاد آئے اور ان کے کردار بھی۔

 ناول دا میٹامارفوسس میں گریگور سمسا ایک کیڑے میں تبدیل ہو جاتا ہے، یہاں ضیا نے ایک بڑے شہر کو ایک کیکڑے کی طرح پاؤں پسارے کھڑا دکھایا ہے۔ شروع میں ہی چند باتوں کی نشان دہی ہو جائے تو بہتر ہے تاکہ بات کو آگے بڑھانے میں دقت نہ ہو۔ حالاں کہ محاورہ ٹانگیں پسارنا ہوتا ہے، پاؤں نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیکڑے کے پاؤں ہی نہیں ہوتے، اس کا جسم تین بڑے اجزا کا مجموعہ ہوتا ہے۔۔۔ تیسرے حصے پیٹ کے نیچے ٹانگیں ہوتی ہیں ۔۔۔ خود insect کا مطلب بھی جڑا ہونا ہوتا ہے، گویا اس کے تین اجزا جڑے یا علاحدہ ہوتے ہیں ، اس لیے اسے insect کہا جاتا ہے۔ کیکڑے کے نہ ہاتھ ہوتے ہیں نہ پاؤں ، صرف ٹانگیں ہوتی ہیں ۔ انہی ٹانگوں کی بدولت اسے اپنے ماحول کا ادراک ہوتا ہے۔۔۔ یوں کہئیے جو کام انسان حواسِ خمسہ سے لیتا ہے، کیکڑا وہی کام ٹانگوں سے لیتا ہے۔

 چوں کہ کیکڑے کے ہاتھ اور پاؤں نہیں ہوتے، لہٰذا اس آبی مخلوق کا پاؤں پسارے پڑا ہونا اور "درانتی سے ہاتھ” کا استعمال بھی خلافِ واقعہ ہے۔۔۔ ایک اور استعمال بھی غلط ہی متصور ہو گا کہ مگس کو ضیا نے مذکر باندھا ہے، حالاں کہ وہ مؤنث ہے (بہ حوالہ فیروز الغات) اور عنکبوت کو بھی مذکر باندھا ہے، حالاں کہ یہ معاملہ یہاں بھی الٹ ہے۔

 یادش بخیر انتظار حسین نے کافکا کی اسی کہانی کی کایا کلپ کر دی تھی اور مکھی پر مکھی مارتے ہوئے شہزادے کو مکھی میں تبدیل کر دیا تھا۔ ناول کے آخری حصے میں اس خاندان کے لوگ گریگور سمسا کا کمرا چھوڑ جاتے ہیں اور نظم کے اختتام پر شاعر کراچی کو اس کے حال پر چھوڑ کہیں اور نامعلوم جگہ کی جانب چلا جاتا ہے۔

 یوں کہئیے گریگو سمسا کا مسئلہ اسی کے ساتھ ہے اور کراچی کا مسئلہ کراچی کے ساتھ ہے۔ شاعر کو اس سے غرض نہیں کہ اس کے جانے کے بعد "بڑے شہر” کا کیا بنے گا۔ جو دکھ شاعر نے جھیلا ہے اس سے کہیں بڑا دکھ بڑا شہر جھیل رہا ہے۔ اسی بڑے شہر میں جو چار نسلیں شاعری کر رہی ہیں ان کی بے گھری، بے زمینی، اور دربدری تو موجود ہے شہر کو اس تناظر میں نہیں دیکھا گیا جس کی اس کو ضرورت ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس شہر کو کسی

 آبی Taa Amaat نے نگلا ہوا ہے یہ کوئی نہیں سوچتا۔ اور اگر نظم کا آغاز تائی آمات سے شروع ہوتا تو معنی اور پیچیدہ ہو سکتا تھا۔ بڑے شہروں پر کئی نظمیں لکھی گئی۔ خود ضیا نے "لاہور” نظم لکھی تھی لیکن یہ نظم اس سے بدرجہا بہتر ہے۔

 بڑے شہروں پر لکھی گئی کئی نظمیں ہیں ، لیکن مجھے کارل سینڈبرگ کی شکاگو اور نظار قابانی کی یروشلم زیادہ پسند ہیں ۔ سینڈبرگ نے شکاگو کو

 Fierce as dog with tongue lapping for action

 سے تشبیہ دی ہے، جب کہ قابانی نے یروشلم کو پاکیزہ آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ شکاگو کے بارے میں نظموں کا مجموعہ City of Big Shoulders ہے۔

 بڑے شہروں کے مسائل علاحدہ نوعیت کے ہوتے ہیں جن کو مابعد جدیدیت کہنا زیادہ مناسب ہے۔ ایک مسئلہ جو کئی دیگر مسئلوں کی جڑ ہے وہ sexual استحصال ہے (دیگر مسائل کی نشان دہی بھی آگے آئے گی)۔ اس کے علاوہ اور کئی شہروں کو موضوعِ سخن بنایا گیا ہے۔ علامہ صاحب دی گریٹ نے اپنی نظم میں دلی کو یاد کیا ہے۔۔ "سوادِ رومۃ الکبریٰ میں دلی یاد آتی ہے۔۔۔ وہی عبرت، وہی عظمت، وہی شانِ دلاویزی۔ ” ضربِ کلیم میں بذاتِ خود ایک نظم بعنوان "لاہور و کراچی” شامل ہے۔

 اب کامنٹ پوسٹ کرنے سے قبل میں نے نظم کو ایک دفعہ پھر پڑھا تو معلوم ہوا ضیا نے پاؤں کو صحیح نہیں باندھا اور لائن ذرا "لکنت زدہ” ہو گئی ہے۔

محمد یامین: جناب اقتدار جاوید نے نظم کو بین الاقوامی ادب پاروں اور بڑے شہروں پر لکھی جانے والی معروف نظموں کے مقابلے میں رکھ کر ایک نظر ڈالی ہے جس پر مزید غور و فکر کی ضرورت ہے۔ ایک بات کی وضاحت میں کر دوں کہ کیکڑے کا شمار حشرات میں نہیں ہوتا کہ اس کی 6 نہیں 8 ٹانگیں ہوتی ہیں اور 2 باڈی سیکشن ہوتے ہیں جب کہ حشرات کے 3 باڈی سیکشن ہوتے ہیں ۔ بہ ہر حال جناب اقتدار جاوید زبان کے حوالے سے جو سوالات اٹھائے ہیں ان پر اہلِ حاشیہ کی رائے کا انتظار ہے۔۔ معید رشیدی، تصنیف حیدر، فیاض احمد وجیہ۔۔۔۔۔۔ آپ سب کے ہم سب منتظر ہیں ۔۔ جناب جلیل عالی کی عالمانہ رائے کا بھی انتظار ہے اور دیگر احباب کا بھی جن کے اسمائے گرامی میں یہاں درج کرنے والا ہوں ۔۔

جلیل عالی: جناب صدر فرشی صاحب کے جامع ابتدائیے اور احباب کی وقیع گفتگو سے نظم کے بیشتر پہلو اجاگر ہو گئے ہیں ۔ کہی جا چکی باتوں کی تکرار سے بچتے ہوئے میں ایک اور رخ سے چند گزارشات پیش کرتا ہوں ۔ بے شک یہ نظم بڑے کوسمو پولیٹن شہروں کے مشترک اور عمومی احوال پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر نظم اپنے عنوان ّّ بڑا شہر ّّ کے سامنے کے مفہوم یعنی جسامتی اعتبار سے بڑے شہر کی صورت حال کو مرکز توجہ بنا رہا ہوتا تو نظم شہر کراچی کے خصوصی تعین سے آغاز نہ ہوتی۔ یہاں کراچی صرف بڑے شہروں کی نمائندگی کے طور پر مذکور نہیں ہوا۔ بلکہ اپنے خصوصی تشخص کے حوالے سے سامنے لایا گیا ہے۔ ہر بڑا شہر ترقی، جدید ذرائع رسل و رسائل، ٹکنالوجی، معاشی اداروں اور دیگر تمدنی لوازمات کے اشتراک کے باوجود اپنی آبادی کے مخصوص مجموعے، نسلی، تاریخی روایات اور تہذیبی تسلسل کے اعتبار سے اپنی الگ پہچان اور ثقافتی مزاج رکھتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے خارجی احوال و آثار کے اشتراک کے باوجود پیکنگ، نیو یارک، لندن، پیرس، بمبئی اور لاہور اپنا اپنا جدا مزاج، ماحول اور تشخص رکھتے ہیں ۔ سماجی نفسیات کے وسیلے سے نظم کی تفہیم کے دوران ہمیں کراچی شہر کے ایسے ہی خصوصی تشخص کو سامنے رکھنا ہو گا۔

 نظم کا مرکزی کردار اس شہر میں وارد ہونے سے پہلے جس ماحول زدگی کا ایک عرصہ بسر کر چکا ہے اس کی کیفیت شاعر نے یوں بیان کی ہے۔ میں چاہت کے پھولوں بھرے جنگلوں سے جب آیاّّ یہاں جنگل کے استعارے سے فطرت کی بے ساختگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یعنی حد سے بڑھے ہوئے ادب آداب میں جکڑے پر تصنع ماحول سے آزاد فضا۔ نظم کا مرکزی کردار جس شہر، قصبے یا بستی سے بھی آیا ہے وہاں چاہت کے پھول اپنی پوری بے ساختگی کے ساتھ کھلتے رہے ہیں ۔ اس کے بر عکس شاعر نے نئے شہر کے بہت کئی ایک پہلوؤں کی نشاندہی کر کے دو سطروں میں اس کا خلاصہ بیان کر دیا ہے۔ یہ وہ شہرِ خود مطمئن ہے /جو اپنے ہی دل کی شقاوت پہ شیدا رہا۔ چاہت کے پھولوں بھرے جنگلوں ّّ سے یہی تضاد نظم کے مرکزی کردار کے آشوب کا کلیدی نکتہ ہے۔

جلیل عالی: یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مرکزی کردار ایک کھلے ڈھلے ثقافتی ماحول سے ایک مختلف اور کئی پہلوؤں سے اجنبی اور نادوست ثقافتی ماحول میں منتقل ہوتا ہے۔ اور اپنی واپسی تک دو ثقافتوں کے درمیان کشمکش کی نفسیاتی کیفیت میں ایک حاشیائی فرد marginal man کی صورت زیست کرتا ہے۔ وہ اپنے پہلے والے ثقافتی طرز فکرو احساس اور نئے ثقافتی تجربے کے تضاد کو شعور کی سطح پر زائل نہیں کر پاتا۔ مگر دم رخصت اسے احساس ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ شہر کراچی کا اپنا ثقافتی جو ہر چپکے چپکے اس کے اندرون میں کہیں اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ نظم کی آخری سطروں میں شاعر نے اس لاشعوری مطابقت کے رد و قبول کے کرب و نشاط کی دو گونہ کیفیت کو کیسے خوب صورت شعری اظہار کی صورت دی ہے۔ اور اب جب میں اس شہر سے جا رہا ہوں / تو اس کی درانتی سی بانہوں کے دندانے /میرے رگ و پے میں اترے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ یہی نظم کا نقطۂ عروج بھی ہے۔۔۔۔۔۔ اب اس پس منظر میں نظم کے عنوان کو دیکھئے۔،بڑا شہرّّ۔۔۔ یہ عنوان بڑے شہروں کے عمومی تعارف کے مقا بلے میں کہیں زیادہ گہرائی اور شدت کے ساتھ طنز و ممنونیت کے جیسے پیراڈاکسیکل معانی کو ابھارتا ہے اس کی داد کا حق مستزاد ہے۔۔۔۔۔۔۔ تذکیر و تانیث کے سہو کی طرف درست اشارے کئے گئے ہیں ۔ ایک سطر میں بسوں ، ٹیکسیوں اور کاروں کے ساتھ ّّ رکشا ّ کا واحد استعمال بھی کھٹکتا ہے۔

ظفر سیّد: جنابِ صدر: اقتدار جاوید صاحب نے نظم پر کچھ اہم تکنیکی اعتراضات اٹھائے ہیں ، جن میں سے کچھ زیادہ درست ہیں ، اور کچھ کم۔ آپ کے حکم کی تعمیل میں میں ان میں سے چند کے جوابات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں :

 1

 پاؤں پسارنا

 اقتدار صاحب نے لکھا ہے کہ درست محاورہ "ٹانگیں پسارنا” ہے۔ اردو کی چار مستند ترین لغات میں سے ایک نور الغات ہے، جس میں نہ صرف "پاؤں پسارنا” پاؤں پھیلانے کے معنی میں درج ہے، بلکہ بطورِ سند داغ دہلوی کا شعر بھی منقول ہے :

 تنگیِ گوشہ زنداں کے جو ہم خوگر تھے

 گور میں بھی نہ کبھی پاؤں پسارے ہم نے

 چار میں سے دوسری مستند ترین لغت فرہنگِ آصفیہ میں "پاؤں پسارنا” کے تحت درج ہے :

 1 پاؤں پھیلانا، ٹانگیں پھیلانا 2 انتقال کرنا، مرنا 3 آرام سے سونا

 2

 انہوں نے "پاؤں ” کے وزن پر بھی سوالیہ نشان لگایا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ضیا صاحب نے پاؤں کو بر وزنِ فعلن باندھا ہے جو نسبتاً کم مستعمل ہے، البتہ اساتذہ کے ہاں اس کی مثالیں مل جاتی ہیں :

 مزا اتنا ہی ذوق افزوں ہو جتنے زخم افزوں ہیں

 نہ کیوں ہم زخمِ تیغِ عشق کھائیں سر سے پاؤں تک

 ذوق

 (واضح رہے کہ غزل کی ردیف ہی پاؤں بر وزنِ فعلن ہے )

 گرد اڑی عاشق کی تربت سے تو جھنجلا کر کہا

 واہ سر چڑھنے لگی پاؤں کی ٹھکرائی ہوئی

 امیر مینائی

ظفر سیّد: اوپر دی گئی اقتدار جاوید صاحب کی تحریر میں یہ فقرہ شامل کر لیجئیے :

کافکا نے کہا تھا

 ‘A book should serve as the ax for frozen seas within us’

 یہاں "بُک” کی جگہ نظم سمجھ لیں ۔ لیکن یہاں معاملہ ایک اور قسم کے برف زار سے ہے۔

فیاض احمد وجیہہ: جناب صدر اور اراکین حاشیہ میں اس اجلاس کی بیشتر گفتگو کے دوران موجود نہیں تھا۔ حالاں کہ میں نے نظم کا مطالعہ کر لیا تھا اور جو کچھ بھی میری ناقص تفہیم تھی اس کو آج آپ سب کے سامنے پیش کر رہا ہوں ۔ میں جانتا ہوں کہ یہاں بہت عمدہ گفتگو ہوئی ہے اور شاید میں اس میں کوئی اضافہ بھی نہیں کر سکتا اس کے باوجود بعض باتیں یہاں عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔ ضیا جالندھری کی نظم شہر کی جدید سائکی کا روشن ترین استعارہ ہے۔ اس کی لسانی تشکیلات میں جو جمالیاتی احساس یعنی اس کا گھنونا اور مکروہ چہرہ موجود ہے اس کو ہم اس نظم کی بنیادی خوبی کہہ سکتے ہیں ۔ کراچی ایسے کسی بھی شہر کو دیو قد کیکڑا کہنا یوں سہی ہے کہ جدید شہروں کی سائکی اس میں اپنی آئرنی کے ساتھ نظر آتی ہے۔ بلاشبہ شاعر نے شہر کی جدید سائکی کا داخلی مشاہدہ کیا ہے اس لیے نظم کے تمثیلی بیانیہ میں جمالیات لسانی مواد اور احساس کے بہ طور نئے انداز سے شا مل ہے۔ کہنا چاہیے کہ ضیا جالندھری نے دیو قد کیکڑے کے استعارہ میں ہی اس نظم کے لسانی احوال کا جواز ڈھونڈ لیا ہے۔ مثال کے طور پر کیکڑے کا سمندر کے ساحل پر ایک خاص کیفیت میں ہونا اجتماعی مشاہدہ ہے اس لیے یہاں شاعر کو الگ سے بیانیہ کے واقعات اور اس کی لسانی ساخت کو مرتب کرنے کی ضرورت نہیں پڑی ہے۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس میں تخیل یا شعری وجدان نے بیانیہ کو وضع نہیں کیا بلکہ نظم کے اولین بیانیہ یا کہانیہ جس میں تخیل کی بے انتہا جمالیات نے پر قوت استعا رہ وضع کیا ہے، اسی نے اپنی مسلسل ساخت کو دریافت کیا ہے۔ اس طرح یہ اچھی بات ہے کہ نظم کا راوی شاعر ہے لیکن اس کا تخلیق کار خود نظم کا داخلی نظام ہے۔ کسی شہر کا یوں کیکڑے میں تبدیل ہونا فقط ادبی واقعہ اور تخلیقی تجربہ نہیں ہے بلکہ اس میں نظم کے اسی داخلی نظام کی وجہ سے ثقافتی متن کا بیانیہ بھی در آیا ہے جس کو ہم۔۔۔ توتم۔۔۔ کے نام سے جانتے ہیں ۔ کسی شے کا یوں تبدیل ہونا کہ اس میں کسی دوسری شے کا گمان ہو ایک نوع کا تخلیقی مشاہدہ ضرور ہے لیکن اس میں قوی بیانیہ کا متشکل ہونا اپنے ثقافتی متن کا انفرادی مشاہدہ یوں ہے کہ استعارہ اپنے اسطور کو تلاش کر ہی لیتا ہے۔ ظاہر ہے اس کا ثقافتی متن توتمی بیانیہ سے ہم آہنگ ہے۔ یہاں تعجب خیز نکتہ یہ ہے کہ اب تک انسان اپنے وجودی تشخص کے لیے توتم کی تلاش کرتا رہا ہے لیکن یہاں اپنے وجودی تشخص کے مکانی احوال کو موضوع بنایا گیا ہے اور بڑی کامیابی سے بنایا گیا ہے کہ اس سے بھی حضرت انسان کے وجودی کرب کا گیان ہوتا ہے اور کہیں نہ کہیں اس کے اپنے وجود کا اثبات بھی ہوتا ہے۔ اپنے واقعی معنوں میں یہی توتم کا اسطوری کردار ہے۔ جاری

فیاض احمد وجیہہ: کیکڑا کے استعارہ میں جہاں شہر کا مجہول کردار سامنے آتا ہے وہیں اس کی تخلیقی جمالیات بے حد معنی خیز ہے۔ دراصل کیکڑا اپنے عادات و اطوار اور حیاتیاتی تصور میں اس بات کا پیغام بھی دیتا ہے کہ اس کی ذات محنتی اور اپنے خاندان کے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔ یہ اپنے خاندان میں ایک دوسرے کے نگراں ہوتے ہیں ۔ اس لیے یہ کہنا کہ شاعر نے صرف اس کے ظاہری وجود کو نظم کا کردار بنا کر شہر کے مجہول کو کردار کو پیش کیا ہے شاید غلط ہے۔ بات یہ ہے کہ اس نظم کے لسانی متعلقات معنی کو سیدھے طور پر قائم کرنا نہیں چاہتے۔ بظاہر اس کا چہرہ گھنونا اور مکروہ ہے لیکن داخلی طور پر اس کا کردار بے انتہا معنی کا حامل ہے۔ یعنی معنی کا وجود صرف فرضی اور چھلاوہ ہی نہیں بلکہ احتجاج کی نئی بوطیقا سے اس کو خاص علاقہ ہے۔ نظم اپنے اکثر حصوں میں جس لسانی متعلقات کو خاطر میں لاتی ہے وہ کیکڑے کے عادات و اطوار، اس کی سائکالوجی اور اس کی جسمانی ساخت سے ہی مستعار ہے۔ میں ذاتی طور پر اس نظم کو معنی کے خلاف ایک اہم بیانیہ تصور کرتا ہوں اور یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ یہ نظم توتمی ساخت میں ہی اپنی داخلی جمالیات کو اہم ترین موضوع بناتی ہے۔ شاعر نے بڑی خوبی سے اس نظم کو تمثیلی آہنگ میں قائم کیا ہے اور اپنی آمد کے پس منظر میں جس مکانی احوال کا پتا دیا ہے اس میں بہت سی باتوں کے علاوہ چاہت اور محبت زندگی کا بنیادی فلسفہ ہے۔ گویا شاعر کو اپنی ہجرت میں جو زمین میسر آئی ہے وہاں یہ سب نہیں ہے اور نئی زمین اس کے لیے دیو قد کیکڑے کی مانند ہے۔ شاعر جس پس منظر کی بات کر رہا ہے اس کے زمانی احوال کو سامنے رکھیے تو اندازہ ہو گا کہ یہاں تہذیبوں کے تصادم کی کہانی الگ سے موجود ہے۔ یہاں صرف اپنے شہر سے دوسرے شہر کی ہجرت کو موضوع نہیں بنایا گیا بلکہ اس میں تہذیبی سائکی کا مسلسل ردعمل موجود ہے۔ جن کو نظم کی خارجی ساخت میں بھی بالعموم دیکھ سکتے ہیں ۔ اس نظم میں شاعر کا یہی تجربہ دیکھیے کہ کئی بار یوں بھی ہوا ہے۔۔۔۔۔۔ کہ میں اور یہ شہر ایک مشترک دکھ کی زنجیر میں بندھ گئے۔ یہاں غور سے دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ شاعر نے اپنے مسلسل رد عمل میں جس تہذیبی جبر کو بالخصوص محسوس کیا ہے وہ پدری تہذیب ہے۔ اس طرح بہت واضح ہے کہ شاعر نے یہاں جسمانی طور پر ہجرت نہیں کی۔ یہاں ہجرت جدید انسان کی سائکی ہے اس لیے شاعر کی ہجرت میں اس کی مادری تہذیب اپنی کہانی آپ سنا رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ شہر کی مٹی وہی ہے لیکن رسوم و آداب اس کے اپنے نہیں ہیں ۔ اس میں جس نئے انسان نے آنکھ کھولی ہے وہ اجنبی ہے اس لیے شعری کردار اور شہر دونوں کے دکھ مشترک ہیں ۔ کراچی یہاں صرف وہ شہر نہیں جو پاکستان میں ہے بلکہ دنیا کے مختلف حصوں بالخصوص مشرقی دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں ۔ شہر کی سائکی اصل میں انسان کی سائکی ہے۔ انسان کی تنہائی واقعی معنوں میں شہر کی تنہائی ہے۔ اس کے باوجود ان کے درمیان اجنبیت قائم ہے ؟ دراصل یہاں دونوں ایک دوسرے کے وجودی تشخص کو قائم کرتے ہیں ۔ واپسی میں درانتی سی بانہوں کے دندانے شعری کردار کے رگ و پے میں اسی لیے اترے ہوئے ہیں کہ ان کی زندگی میں وہ لمحہ آچکا ہے جب وجود اپنے توتمی نشان کی نگرانی کو ضروری سمجھتا ہے اور ایک دوسرے کی نگرانی کرتا ہے۔ اس نظم میں یہی وہ واقعہ ہے جو نظم کو اس کی ثقافتی پہچان کا وسیلہ فراہم کرتا ہے۔ یہ نظم بہ ہر دو اعتبار تہذیبوں کے جبر کے مسلسل رد عمل کو پیش کرتی ہے۔ اس کا عنوان سا دہ مگر معنی خیز ہے۔

ظفر سیّد: اقتدار جاوید صاحب کا رومن میں لکھا ہوا مراسلہ اردو رسم الخط میں پیشِ خدمت ہے :

 صاحبِ صدارت: بڑا شہر اردو کی لازوال نظموں میں شمار ہونی چاہئیے کیوں کہ یہ موضوع اردو نظم میں بالکل نیا ہے اور نیا ہونے کے ساتھ ساتھ ڈیپ (گہرا) بھی ہے۔ نظم کیکڑے کے پاؤں یا ٹانگیں پسارنے کے عمل سے شروع ہوتی ہے۔ "نسیں اس کی فولاد و آہن” حالاں کہ یہاں صرف آہن کافی تھا۔ فولاد اور آہن دونوں ہم معنی ہیں لوہے کے۔ "بسیں ٹیکسیاں ، کاریں ، رکشا” یہاں جمع کا صیغہ ہونا چاہئیے، جس کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ "جسم پر داغ دلدل نما” دل ہندی کا لفظ ہے اور نما فارسی۔ نما مرکبات میں لاحقے کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جیسے اختر ہوشیارپوری کا مجموعہ "سمت نما” یا قبلہ نما، آئینہ نما، وغیرہ۔ عنکبوت اور مگس کے بارے میں پہلے عرض کر چکا ہوں ۔ "نم آلود اور کھردری کھال”۔ کیڑے کی کھال قطعاً نہیں ہوتی، ہلکی سی جلد ہوتی ہے، وہ بھی انتہائی ملائم سی۔ تھوڑا سا آگے چلیں تو "کئی بار میں نے سمندر کی بھیگی ہواؤں سے پوچھا کہ اے خوش نفس رہروو۔۔۔ اپنا یہ امرت سا ہاتھ” اگر ہوائیں ہیں تو "امرت سے ہاتھ” ہونا چاہئیے تھا اور اگر یہ لائن یوں شروع ہوں "کئی بار میں نے سمندر کی بھیگی ہوا سے بھی پوچھا” تو مطلب واضح ہو سکتا ہے۔ اور یہ "خوش نفس رہروو” زیادہ مناسب معلوم ہوتا۔

 "کوئی تسکیں کا پیغام دو

 اور اپنا یہ امرت سا ہاتھ

 دکھے دل پہ رکھ دو

 جہاں نظم کا متکلم شہر چھوڑنے لگتا ہے تو اس کو ایسے بیان کیا گیا ہے "اور اب جب”۔ اگر "اب میں اس شہر سے جا رہا ہوں ” ہوتا تو اس کا مطلب ہو سکتا تھا شاید شہر چھوڑنے والا کسی دوسرے شہر کی جانب جا رہا ہے وہاں شاید ایسے حالات نہ ہوں ۔

 میں نے شروع میں عرض کیا کہ نظم کی قرات کے دوران میرا دھیان دا میٹامارفسس کے کردار گریگو سمسا کی طرف گیا۔ ضیا کو بھی ایسا شاید خیال آیا ہو اگر فرشی کی بات مان لی جائے اور ماننے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں کہ شاعر بسلسلہ ملازمت کراچی جاتا ہے (بحوالہ "ضیا جالندھری شخصیت اور فن صفحہ 81) تو کئی اور مماثلیتں نظر آنی شروع ہو جاتی ہیں ۔

 1

 شاعر ملازمت کے سلسلے میں کراچی جاتا ہے گریگو کا باپ سمسا بھی چاہتا ہے کہ اس بیٹا ٹھیک ہو جائے تاکہ وہ اپنی ملازمت پر دوبارہ جا سکے۔

 2

 گریگور کا خاندان چار افراد پر مشتمل ہے۔ حیرت ہے کہ شاعر کا خاندان بھی چار افراد پر مشتمل ہے۔

 3

 گریگو کی بہن اس کو ٹوٹ کر چاہتی ہے شاعر کی فیملی میں بھی ایک فرد کو باپ سے بہت زیادہ پیار ہے۔

 4

 ایسے لگتا ہے (یہ میرا ذاتی خیال اور تجربہ ہے ) کہ کراچی تبادلے سے سارا خاندان ضرور پریشان ہوا ہو گا لیکن چوں کہ انسان کے ساتھ پاپی پیٹ لگا ہوا ہے اس لیے ضیا اور اس کے خاندان کا کوئی اور ذریعہ معاش نہ ہونے کی وجہ سے بادلِ نخواستہ کراچی جانا پڑا ہو گا۔

 5

 جب گریگور کی ماں دروازہ کھلنے کے بعد بیٹے کو دیکھتی ہے تو اسے ایک جھٹکا لگتا ہے۔ شاعر کے خاندان کو بھی کراچی تبادلے سے ضرور کوفت ہوئی ہو گی۔

 6

 گریگو مرنے تک ایک مشکل اور کشمکش بھری زندگی گزارتا ہے۔ شاعر بھی شہر چھوڑنے تک رنجیدہ رہتا ہے۔

 7

 گریگور ایک کمرے تک محدود کر دیا جاتا ہے شاعر کو بھی شدت کی تنہائی اور پیہم تغافل کا سامنا ہے۔

 8

 گریگور کو نفسیاتی فاصلے کا سامنا ہے، شاعر بھی "بے دل” اور "رنجیدہ” ہے۔

 9

 دا میٹامارفسس میں alienation کا ماحول شروع سے آخر تک جاری و ساری رہتا ہے۔ نظم میں بھی ایسا ہی ہے۔ "مشترک دکھ کی زنجیر” کا متلاشی ہے۔

 10

 گریگور آخر تک دماغی طور پر فٹ ہے۔ شاعر بھی ان حالات سے دوچار ہو کر اپنی کوششیں ترک نہیں کرتا۔

 یہاں تھوڑا سا رکتے ہیں اور یامین کی بات اگے بڑھاتے ہیں ۔ یامین نے کہا ہے کہ کیکڑے کی 8 ٹانگیں ہوتی ہیں ۔ میں نے گرافک آرٹسٹ پیٹر کوپر کا کافکا کے ناول کا بنایا ہوا ٹائٹل دیکھا ہے۔ اس میں 6 ٹانگیں دکھائی گئی ہیں اور میٹامارفسس پر فلم بھی دیکھی ہے دونوں میں کیڑے کی 6 ٹانگیں ہیں ۔ پیٹر کوپر امریکن کارٹوننگ اور جرمن ایکسپریشنزم کا استاد مانا جاتا ہے۔

 اتنی اور اس قدر مماثلت کی بنیاد پر اگر مان لیا جائے کہ شاعر کی قلبِ ماہیت ہو چکی تو یہ اردو نظم کی انوکھی، لازوال (مثال) ہو گی اور شاعر کا تذکرہ اردو نظم سے کبھی ختم نہیں ہو گا۔

 اب میں نظم کے پیچیدہ معانی پر کوانٹم فزکس کے حوالے سے چند معروضات پیش کروں گا۔

محمد یامین: جناب اقتدار جاوید ! کافکا کا کاکروچ ہے اور ضیا کا کیکڑا۔۔۔۔ کاکروچ انسیکٹ ہے اور کیکڑے کی کلاس ہی دوسری ہے یعنی Crustacean

ظفر سیّد: جنابِ صدر، اگرچہ موضوع سے ہٹ کے ہے لیکن چوں کہ کافکا کا ذکر کئی بار آ چکا ہے تو وضاحت کر دوں کہ کافکا نے "کاکروچ” یا "انسیکٹ” کا متبادل لفظ استعمال نہیں کیا۔ اس نے جرمن لفظ Ungeziefer لکھا تھا، جس کا لفظی مطلب "ناپاک جانور جس کی قربانی جائز نہیں ” ہے۔ تاہم اس سے عمومی طور پر ناپسندیدہ اور ضرر رساں جانور سے مراد لی جا سکتی ہے۔ کافکا نے جان بوجھ کر اس جانور کی شناخت کو واضح نہیں کیا اور اس مقصد کے لیے اس نے کسی مخصوص لفظ سے احتراز کیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے کتاب کے پبلشر کو خط لکھ کر واضح ہدایات دی تھیں کہ سرورق پر کسی قسم کے جانور کی تصویر نہ چھاپی جائے۔ ناویلا میں آگے چل کر گریگور کی "متعدد” ٹانگوں کا ذکر کیا ہے۔ یہاں بھی چھ یا آٹھ کا تعداد متعین نہیں کی گئی، اور یوں کیڑے کی شناخت مستور ہی رہتی ہے۔ چناں چہ اس کی شناخت کے لیے کسی مصور کی سند لانا مناسب نہیں ہے۔ انگریزی کے جدید مترجم اس جانور کے لیے vermin یا bug استعمال کرتے ہیں ، جو کہ عمومی الفاظ ہیں ۔ اردو میں مجھے اس کا کوئی متبادل نہیں سوجھا۔ شاید کیڑا مکوڑا؟

محمد حمید شاہد: جناب صدر یہ درست ہے کہ ہم نظم سے دور ہوتے جا رہے ہیں اوپر ہمارے فاضل دوست نے لکھا تھا اور بجا لکھا تھا کہ "ناول دا میٹامارفوسس میں گریگور سمسا ایک کیڑے میں تبدیل ہو جاتا ہے ” لیکن جب اس کے انطباق کا مرحلہ آیا تو اسے شاعر کے مماثل کہہ دیا۔ جب کہ نظم تو یوں شروع ہوتی ہے :

 کراچی کسی دیو قد کیکڑے کی طرح

 سمندر کے ساحل پہ پاؤں پسارے پڑا ہے

 یعنی یہ شاعر نہیں تھا جو کیکڑے کی صورت پڑا ہوا تھا، شہر تھا، کراچی۔ پھر یہ بھی کہ گریگور سمسا کی قلب ماہیت کو فکشن نگار نے آنکھوں کے سامنے ہوتا دکھا دیا تھا، جب کہ شاعر نے "کیکڑے کی طرح ” کے الفاظ استعمال کر کے اس کی تقلیب کو دکھانے کے امکانات کو معدوم کر دیا ہے، آپ اتفاق کریں گے کہ یہاں میٹا مارفوسس کاالتباس تک پیدا نہیں ہوتا۔ لہذا، کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ اس بحث کو ایک طرف رکھ کر نظم پر بات آگے بڑھائی جائے۔

رفیق سندیلوی: ضیا جالندھری کی نظم "بڑا شہر” کی موضوعاتی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی اہمیت کے سبب ہی رشید نثار نے پنتیس برس پہلے اس نظم کا تجزیہ پیش کیا تھا جو نظم کے ساتھ "اوراق” لاہور کے نظم نمبر، جولائی اگست 1977ء میں طبع ہوا تھا۔ اسی نمبر میں جدید نظم میں شہر کی علامت پر بھی ان کا مضمون شائع ہوا تھا جس کی تمہید میں انسانی تمدن میں شہر کے تصور اور کردار پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ رشید نثار نے کیکڑے کی طرح پاؤں پھیلاتے ہوئے شہروں کی ہئیت کذائی کو ایک مسئلہ قرار دیا تھا اور فرد کی زندگی میں در آنے والے کاروباری تعلق، جذباتی قحط اور روحانی افلاس کا جدلیاتی نقشہ پیش کیا تھا۔ اس مضمون میں بھی ضیا جالندھری کی یہی نظم زیر بحث آئی تھی۔ رشید نثار نے اپنے تجزیے میں شاعر کواس بات پر داد دی تھی کہ اس نے نیک اندیشی اور سلامت روی کا ڈھونگ نہیں رچایا۔ کراچی میں اس کا ورود جمالیاتی حس کے ساتھ ہوا۔ اس کے دل میں شہر کی بے اعتنائی کے خلاف ایک رد عمل ابھراجس میں اس کا اندرونی کرب بھی شامل رہا اور شہر کی روح میں اپنے جسم کو تحلیل نہ کر سکنے کا غم بھی۔ کچھ برس پیشتر جب علی محمد فرشی نے ضیا جالندھری پر اکادمی ادبیات پاکستان کے ایک پروجیکٹ "اردو ادب کے معمار” کے تحت کتاب لکھی تو انھوں نے بھی موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اس نظم کو بطور خاص اپنے تجزیے کے لئے منتخب کیا۔۔ اب اس نظم کو "حاشیہ” میں مزید گفتگو کے لئے پیش کیا گیا ہے تو یہ بات تو طے ہو جاتی ہے کہ جدید اردو نظم میں شہر واقعتاً ایک اہم موضوع ہے۔ اس موضوع کی اہمیت کا احساس میرے ذہن میں اس وقت فزوں تر ہوا جب میں نے 1997ء میں "اوراق” لاہور میں اردو ادب کے پچاس سال کی مناسبت سے نظم پر اظہار خیال کیا۔ شہروں کے بارے میں کئی شعرا کی نظمیں میرے ذہن میں موجود تھیں لیکن دوران مطالعہ کمار پاشی کی نظم”شہر” نے مجھے بطور خاص اپنی طرف مائل کیا اور میں نے اس موضوع سے منسلک چند نظموں کے تذکرے کو ضروری خیال کیا۔ میں نے لکھا کہ ” انسانی وجود کا ایک میدان عمل ہونے کے ناطے "شہر” کمار پاشی کی نظم کا ماخذاتی استعارہ بنتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کمار پاشی کے ہاں یہ میدان عمل ایک تختۂ مشق میں ڈھل گیا ہے جس سے ان کی نظموں کا کبیری کردار بندھا ہوا ہے اور موت کا منتظر ہے۔ "د لی” کے حوالے سے لکھی گئی ان کی نظم "شہر” بہت تاثر انگیز ہے۔ ہمارے کئی شعرا نے مخصوص شہروں پر نظمیں لکھیں ۔ فیض، ضیا جالندھری اور منیر نیازی نے لاہور کے خارجی رخ کی تابانی کو زیادہ مس کیا۔ انیس ناگی نے لاہور کے اندرونی رخ کی الم ناکی کو شدت کے ساتھ اجاگر کیا۔ مجید امجد نے لاہور کے مستقبل کو ایک پیش بینی کے اندیشے میں دیکھا اور اس اندیشے کو "قدر انداز دشمنوں ” کی حملہ آوری سے منسوب کیا۔ عبدالرشید نے کراچی کو ایک ایسے کردار کے روپ میں پیش کیا جس کی پچھلی ٹانگیں زخمی ہو چکی ہیں ۔ کمار پاشی کی نظم میں بھی شہر اپنے پاؤں میں سنسناتی ہوئی گولی لگنے کے باعث دہشت و اذیت کی تصویر بنا ہوا ہے اور موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ بلاشبہ یہ نظم اپنی فضا بندی کے لحاظ سے ایک بڑا تناظر فراہم کر تی ہے۔ ” کمار پاشی کی نظم "شہر” ہو یا ضیا جالندھری کی نظم "بڑا شہر”، جیلانی کامران کی نظم "اے لاہور” ہو یا مجید امجد کی "لاہور”،ن م راشد کی "ایک شہر”اور”شہر میں صبح” ہو یا وزیر آغا کی "اجڑتا شہر” اور "ترغیب”، یہ سب نظمیں تفصیلی تجزیے کی متقاضی ہیں ۔ یہ نظمیں ایک مخصوص تناظر بھی رکھتی ہیں اور مل کر ایک وسیع تناظر بھی تشکیل دیتی ہیں ۔ پھر ان نظموں میں استعارے اور علامت کا قرینہ بھی مختلف ہے اور بیانیے کا رنگ تو بالکل جدا ہے۔ جہاں

رفیق سندیلوی: تک ضیا جالندھری کی نظم "بڑا شہر”کا تعلق ہے، اسے کھولنے کے لئے قاری کو زیادہ کاوش نہیں کرنی پڑتی لیکن اس کی کیفیت اور اس کا موضوع آمادہ کرتا ہے کہ اس پر مفصل اظہار خیال کیا جائے۔ اس نظم کا بنیادی قضیہ فرد اور شہر کے بیچ بیک وقت تعلق اور لاتعلقی کی فضاسے جنم لیتا ہے۔ شہرسماج اور اس کی ضرورتوں کا پروردہ ہے اور فرد اس کے جبر میں جکڑا ہوا ہے مگر یہ فرد جانتا ہے کہ شہر افراد اور ان کے عمل و رد عمل کا مجموعہ ہوتا ہے۔ شہر کی تعمیرو تشکیل میں افراد کی حاجتوں اور مجبوریوں کو منہا نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ نظم کے واحد متکلم نے کئی بار اپنے وجود کو اس دکھ میں بندھا ہوا محسوس کیاجس کی زنجیر میں خود شہر بھی جکڑا ہوا تھا۔ شہر کی پتھرائی ہوئی نمناک آنکھوں میں اگر شناسائی کا عکس ناپید رہا تو اس کی وجہ سماج کا وہ ظالمانہ دستور ہے جو افراد کے مشترکہ اعمال اور رویوں کے اتصال سے ترتیب پاتا ہے اور جس کے عقب میں حکمران طبقے اور تاجرانہ اذہان کی آئیڈیا لوجی کارفرما ہوتی ہے اور اصلاً یہی آئیڈیا لوجی اس دستور کو محکم کرتی ہے اور سماج کے سامنے فرد کو بے بس کر کے تنہا کر دیتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ شاعر نے حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے شہر کو رد نہیں کیا۔ اسی لئے تو جاتے وقت اس کی درانتی سی بانہوں کے دندانے واحد متکلم کے رگ و ریشے میں اترے ہوئے ہیں ۔ گویا شاعر کا عرفان یہ ہے فرد اور سماج کے بیچ اجنبیت اور بیگانگی کی خلیج ختم نہیں ہوسکتی۔ بڑا شہر ہویا بڑا سماج، یہ کسی طور بھی فرد کی سطح پر نہیں آسکتا۔ خاص طور پر اس فرد کی سطح پر جو سمندر کی بھیگی ہواؤں کا امرت سا ہاتھ اپنے دل پر رکھنا چاہتا ہے۔ شہر کی پیٹھ جس کے لئے محبس کی دیوار کا درجہ رکھتی ہے یا دیو قد کیکڑے کی طرح ہے جس کی کھال کھردری ہے اور جس کے جسم پردلدلی داغ ہیں ۔ ان داغوں میں مکڑیاں اپنے تاروں کے جال بنتی ہیں ۔ یہ بینکوں کے عنکبوتی گورکھ دھندے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے کلاوے کو ظاہر کرتے ہیں ۔ پھر اس کیکڑے کا بدن ریت، سیمنٹ اور پتھر کا ہے، نسیں فولاد و آہن کی ہیں ۔ رگوں میں لہو کی جگہ بسیں ، کاریں ، ٹیکسیاں اور رکشے رواں دواں رہتے ہیں ۔ جب شام ہوتی ہے تو اس کیکڑے کی نم آلود کھردری کھال اور بے ڈھنگے اعضا سے روشنی پھوٹتی ہے۔ اس روشنی کو عشوہ فروشوں کے پیراہنوں سے نسبت دی گئی ہے۔ نظام زر اور تاجرانہ کلچر میں طوائف تو ہمیشہ سے موجود رہی ہے لیکن چمکتے ہوئے سائن بورڈوں ، جنسی اشتہاروں اور خیرہ کن ملبوسات میں ترغیب دیتی ہوئی ان حسین عورتوں کی بھی بڑی مانگ ہوتی ہے جن کے غمزے اور عشوے اشیا کی فروخت میں گاہکوں کے لئے کشش کا باعث ہوتے ہیں ۔ یہ نکتہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ شاعر نے کراچی کو دیو قد کیکڑے سے تشبیہ ضرور دی ہے لیکن کیکڑے کی ہئیت خبیسہ یا کریہہ ساخت کو شہر کی صورت کشی کا محور نہیں بنایا۔ کافکا کا "کاکروچ” بھی اپنے ذہن اور جسامت کے لحاظ سے عام کاکروچ سے مشابہت نہیں رکھتا۔۔ ضیا جالندھری نے کیکڑے کو اپنی طرف سے ایک نئی اور انوکھی شکل دی ہے۔ لہذا نظم میں موجود کیکڑے کا موازنہ اس کیکڑے سے نہیں کرنا چاہیے جس کے پاؤں نہیں ہوتے۔ جس کی درانتی جیسی دندانے دار بانہیں نہیں ہوتیں ۔ جس کی کھال کرخت نہیں ہوتی اور جس کی کھال سے روشنی بھی برآمد نہیں ہوتی۔ نظم میں ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے سرمایہ داروں اور سوداگروں کواشتہا اور خوابوں کے مارے ہوئے مگس کہا گیا ہے۔ رس چوسنے کے باوجود ان کی مسلسل پھڑپھڑاہٹ اور مستقل جاں کنی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سودی نظام کے کارندے ہیں اورہوس زر کے پھندوں میں گرفتار ہیں تاہم کیکڑے کی طرح نظم کے مگس بھی اپنے اوصاف سے کوئی خاص تشبیہی علاقہ نہیں رکھتے، یہاں تک کہ انھیں لغت میں طے شدہ اپنی تانیثیت سے بھی انحراف کرنا پڑتا ہے۔ نظم میں "طرح” کے تلفظ میں بھی یکسانیت نہیں پائی جاتی، ا لبتہ رکشا کو آسانی سے رکشے میں بدلا جا سکتا ہے۔ ضیا جالندھری اس دار فانی سے کوچ کر چکے ہیں ۔ اب ان کے کیکڑے، عنکبوت اور مگس کو اسی طرح قبول کرنا پڑے گا اور” پہ” کے ناپسندیدہ استعمال کو بھی جو ضیا جالندھری کی شاعری کا ایک مستقل جز ہے۔ پاؤں کے وزن پر تو زیف سید نے مثالیں پیش کر دی ہیں ۔ جہاں تک صوتی تسلسل کا تعلق ہے، یہ نظم میں تین بار ٹوٹتا ہے۔۔۔ رفیق سندیلوی

اقتدار جاوید: ٹیسٹ کوممنٹ۔ ۔۔۔۔۔کوشش کر رہا ہوں ظفر سید صاحب

محمد یامین: احباب گرامی! اب تک جناب فرشی، جناب حمید شاہد، جناب ظفر سید، جناب جلیل عالی، جناب اقتدار جاوید، اور جناب فیاض احمد وجیہ نے بھرپور شرکت کرتے ہوئے نظم پر اپنے خیالات پیش کیے ہیں ۔ جناب جلیل عالی نے اسے کراچی کے خصوصی تشخص کی نمائندہ نظم قرار دیا ہے جب کہ فیاض احمد وجیہ نے اسے شہر کی جدید سائکی کا مطالعہ کہا ہے۔ فیاض نے یہ بھی کہا ہے کہ نظم کا راوی شاعر ہے لیکن اس کے بیانیے کو نظم کے داخلی نظام نے وضع کیا ہے۔ انھوں نے کیکڑے کے استعارے اور ثقافتی متن (ٹوٹم) پر بھی بات کی ہے۔۔۔۔۔ اس اثنا میں جناب حمید شاہد، ظفر سید اور رفیق سندیوی نے نظم کو کافکائی چکرسے نکال کرواپس اپنے سمندر کے کنارے رکھ دیا ہے جس سے نظم پر گفت گو کو درست سمت میسر آئی ہے۔ نظم کو سائنس، لغت اور اس طرح کی دوسری پابندیوں میں جکڑا نہیں جا سکتا۔۔ تاہم یہ جناب اقتدار جاوید کے خیالات تھے جنھیں پیش کرنا ان کا حق ہے۔۔ جناب رفیق سندیلوی نے بہت سی قابلِ غور باتیں تحریر کی ہیں ۔ زبان، اور بیان کے ساتھ ساتھ نظم کے کانٹینٹس پر مزید گفت گو کی گنجائش موجود ہے اس لیے امید ہے بات آگے بڑھے گی۔

ظفر سیّد: جنابِ صدر: رفیق سندیلوی نے "بڑا شہر” کو چند اور ایسی نظموں کے تناظر میں رکھ کر دیکھا ہے جو جدید شہر کے موضوع پر لکھی گئی ہیں ۔ ان کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں چند اور نظموں کی مثالیں پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ سب سے پہلے تو مجید امجد کے عمدہ نظم "پہاڑوں کے بیٹے ” ہے، جس میں "وطن” (چاہت کے پھولوں بھرے جنگل”) سے آئے ہوئے محنت کشوں کو "بڑے شہر” میں استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے :

 وطن ڈھیر اک ان منجھے برتنوں کا

 جسے زندگی کے پسینوں میں ڈوبی ہوئی محنتیں دربدر

 ڈھونڈھتی ہیں

 وطن، وہ مسافر اندھیرا

 جو اونچے پہاڑوں سے گرتی ہوئی ندیوں کے

 کناروں پہ

 شاداب شہروں میں رک کر

 کسی آہنی چھت سے اٹھتا دھواں بن گیا ہے

 اس کے علاوہ مجھے عادل منصوری کی ایک نظم کی کچھ سطریں یاد آ رہی ہیں جن میں "بڑے شہر” کے مسائل کا ذکر کیا گیا ہے :

 شہریوں سے تنگ آ کر

 شور سے دامن چھڑا کر

 اونچی اونچی بلڈنگیں

 خود کشی کرنے کی خاطر

 صف بہ صف دریا کنارے

 دیر سے آ کر کھڑی ہیں

 لیکن میرا خیال ہے کہ شاید وہ پہلی نظم جس میں بڑے شہر کے باسیوں کی sensibility کو نشان زد کیا گیا ہے وہ مجاز کی نظم "اے غمِ دل کیا کروں ” ہے :

 شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں

 جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں

 غیر کی بستی ہے کب تلک دربدر مارا پھروں

 اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

 جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی

 رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی

 میرے سینے پر مگر چلتی ہوئی شمشیر سی

 اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

 رات ہنس ہنس کر یہ کہتی ہے کہ مے خانے میں چل

 پھر کسی شہنازِ لالہ رُخ کے کاشانے میں چل

 یہ نہیں ممکن تو پھر اے دوست ویرانے میں چل

 اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

 علاوہ ازیں ساحر لدھیانوی نے چند فلمی نغموں میں شہر کی عمدہ تصویریں پیش کی ہیں ۔

اقتدار جاوید: فن پارہ مقام اور وقت سے آگے کی چیز ہے وہ عدم مکان اور عدم زمان میں ہمیشہ موجود رہتا ہے نظم میں معنی جسم میں روح کی طرح ہوتا ہے مسلمانوں کے عقیدے کی رو سے روح امر ہے بلکہ خود خدا کا امر ہے (ویسے خدا اور خود کتنے ملتے جلتے ہیں ) کوانٹم فزکس والے بھی موت کے قائل نہی ہیں پرانے روم میں لوگ روح کو مردے کا سایا کہتے تھے AKA GHOSTS کا مطلب بھی یہی ہے چوں کہ نظم سے سارے معنی خارج یا ڈکونسترکٹ نہی ہو سکتے اس لی فن پارے کی موت بھی تصدیق نہی کی جا سکتی نظم کے کئی مفہوم ہمیشہ کے لیے روح کی طرح پوشیدہ رہتے ہیں BIOCENTRISM میں موت کا تصوّر ہی ناپید ہے ان کا کہنا ہے ‘موت کوئی چیز نہی ہے ‘اور موت کوئی چیز نہی تو زندگی لازماً متسلسل ہے یعنی معنی بھری ہے ‘میں کون ہوں ‘محض ٢٠ سیکنڈ کا دماغی ISTEHFAMYA ہے جسے ساینس داں ‘ ENERGY کا ٢٠ واٹ کا فوارہ ‘کہتے ہیں روبرٹ لنزا کے مطابق ‘زمان اور مکان کوئی ٹھوس وجود نہی رکھتے آپ ہوا میں اپنا ہاتھ لہرائیے  هاتھ ادھر سے ادھر لے جائیے کیا آپ ادھر سے ادھر کچھ لے گے جو چیز آپ دیکھتے ہیں یا محسوس کرتے ہیں دماغ کی معلومات کا گورکھ دہندہ ہے یہ صرف tools کو اکٹھا کرنے کا نام ہے ‘جب موت کا تصوّر ہی نہ پید ہے تو معنی بھی فن پارے میں ہمیشہ کے لیے موجود رہتا ہے مثلاًقاری کو اس سے سروکار نہی ہے یہ فن پارہ کب تخلیق ہوا اسے اس کے معنی سے غرض ہے نظم کراچی کسی کی آمد سے شروع ہوتی ہے اور کسی کی روانگی پر ختم ہوتی ہے بیچ میں ہزار کہانیاں اور ہزار داستان والا ماحول ہے بسیں ‘ٹیکسیاں ‘رکشے اور بنک ہیں اور زندگی کی جاری

اقتدار جاوید: زندگی کی بے ہنگم دوڑ میں اچانک جنگل کا ذکر آتا ہے تو قاری کھل اٹھتا ہے اور اپنی آرکی تا یپ سے جڑ جاتا ہے شاعر چاہت کے پھولوں بھرے جنگل کو یاد کرتا ہے یہاں جنگل کا تھوڑا ذکر ضروری ہے جنگل ہوتا ہی چاہت بھرا ہے جنگل میں انسان کو چاہت کیا ہر شے مسّر تھی حتیٰ کہ وو چیز جس کے لیے اس نے بعد میں گیت لکھے یعنی اس کی وہ ہستی جس سے دنیا کی ہر چیز وابستہ ہے،عورت جب تک مرد جنگل میں رہتا تھا اس کی کوئی تخلیق سامنے نہیں آئی سواے اس ہیرو غلیقی تحریر کے جو برتنوں پر تحریر ہے نہ کوئی گیت نہ کوئی بھجن۔ ۔۔جس کے لیے اس نے گیت لکھنے تھے وہ تو اس کا پاس موجود تھی وہ ہجر کی حالت تو ابھی آنی تھی اب اگر جنگل میں شروع کی زندگی میں انسان کو چو پایا متصوّر کر لیا جاتے تو عورت کی تخلیقی قوّت کی اصل جگہ تو وہ تو مرد کے بلکل سامنے تھی جب ہم وقت وصل مسّر تھا تو ہجر کے دکھ کیسے بیان ہوتے تھے جب انسان جنگل سے بھر نکلا تو کھڑا ہونے کے قبل ہو چکا تھا اور عورت کا ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر شروع ہو چکا تھا عورت کے جانے کے بعد مرد نے خیال کیا وہ ہم وقت کی نعمت کہاں گئی تو لازماً دکھ کی کیفیّت میں اس نے کچھ کہا ہو گا میرے خیال میں وہی پہلا گیت ہو گا۔ ۔یہ تو ہوئی گیت کی بات غزل کا مطلب ہی عورت سے گفتگو ہے نظم اپنے نام ‘جنس ‘وجود اور بیقراری کے سبب مکمّل عورت ہے جاری

محمد یامین: احباب گرامی! مندرجہ بالا نوٹ تین دن سے ادھورا ہے۔ اگرچہ اقتدار جاوید صاحب مذکورہ نوٹ میں بھی نظم کے معنوں کو ایڑ لگانے والی کوئی بات سامنے نہیں لائے۔ اس لیے مزید انتظار بے کار ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ اس طرح نظم پر بحث صراطِ مستقیم سے دور ہو جائے گی۔ احباب سے گزارش ہے کہ نظم کی اصل روح کی طرف رجوع کرتے ہوئے بحث کا رخ نظم کے بقیہ ابعاد کی طرف موڑیں تاکہ رکے ہوئے خیال حرکت میں آ سکیں ۔

اقتدار جاوید: صاحب صدارت

 صراط مستقیم کیا شے ہے سالک کا کہنا ہے تمام راستے اس کی طرف جاتے ہیں ِ ِ ِ ِ ِ،نظم کی تفہیم چوں کہ میرے حصّے میں آئی ہے لہذا کلیرکر دوں مذکورہ نظم کو اگر تقلیب شدگی کے بعد کا مونولوگ متصوّر کریں تو آپ معنی کی بوچھار میں بھیگ جائیں ۔ آپ لوگ نظم کوکیوں محدود کرنے پر تلے ہیں ایک بہترین نظم waste مت کریں ایک دوست ایک شاعر کے حوالے سے بات شروع کرتا ہے کہ فلاں شاعر کی نظم میں شہر کا بیان یوں ہے دوسرا کہتا ہے ایک اور مثال پیش ہے / نظم کو’ بیانیہ ‘ میں lock مت کریں اسے open کریں

محمد یامین: محترم اراکینِ حاشیہ! آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے حاشیے کے ساتویں اجلاس میں شرکت کی۔ اس اجلاس میں ضیا جالندھری کی نظم ” بڑا شہر” زیرِ بحث رہی۔ ضیا جالندھری مرحوم ایک اہم شاعرکی حیثیت سے بہت عرصے تک یاد رکھے جائیں گے اور ان کی یہ نظم بھی بھلائی نہیں جا سکے گی۔

 احباب گرامی! نظم زیر بحث پر جتنی بحث ہوئی ہے اس سے نظم کی تفہیم کا مقصد توپورا ہو گیا لیکن شاید ہم وہ حق ادا نہیں کر سکے جس کی ضرورت تھی۔ ہمارے نقاد دوستوں تصنیف حیدر، معید رشیدی، ناصر عباس نئیر، عارفہ شہزاد اور بہت سے نام ایسے ہیں جن سے تھوڑی / زیادہ توقع تھی لیکن وہ کسی وجہ سے شرکت نہیں کر سکے۔ بہ ہر حال جناب علی محمد فرشی، محمد حمید شاہد، فیاض احمد وجیہ، ظفر سید، اقتدار جاوید، رفیق سندیلوی اور جلیل عالی نے بامعنی شرکت سے اجلاس کو کام یاب بنایا۔ ابتدائیہ فرشی صاحب نے تحریر فرمایا اور نظم پر بھرپور نظر ڈالی۔ انھوں نے نظم کو بڑے شہروں کی ابتری پر بہترین نظم قرار دیا اور ضمنی استعاروں کے ذریعے نظم کی مقامی سطح کو بھی سامنے لایا لیکن جناب جلیل عالی نے اسے صرف کراچی کی نمائندہ نظم قرار دیا اور لکھا کہ "سماجی نفسیات کے وسیلے سے نظم کی تفہیم کے دوران ہمیں کراچی شہر کے خصوصی تشخص کو سامنے رکھنا ہو گا۔ جناب ظفر سید نے سرمایا دارانہ نظام کو نظم کے آئینے میں دیکھا اور اسے انسان کے تہذیبی سفر کی روداد کہا۔ جناب اقتدار جاوید نے نظم میں کافکا کے میٹا مارفوسس کی مماثلت تلاش کرنے کی کوشش کی جب کہ حمید شاہد نے کہا کہ نظم میں میٹا مارفوسس کا التباس تک نہیں ہوتا۔ جناب فیاض احمد وجیہ نے اسے شہر کی جدید سائیکی کا روشن ترین استعارہ کہا اور نظم کی لسانی تشکیلات پر بھرپور بحث کی۔ جناب رفیق سندیلوی نے شہر کے موضوع پر لکھی گئی نظموں کا ذکر کیا اور شہر اور فرد کے تعلق کے تناظر میں نظم کا مطالعہ کیا۔ یوں نظم کے باطن میں ممکنہ حد تک رسائی حاصل ہوئی۔

 نظم نے بڑے شہر کو دیو قد کیکڑے کی صورت میں دکھایا ہے لیکن یہ قلبِ ماہیت نہیں ہے۔ نظم ہمیں شہریت کی تعلیم دیتی ہے اور بتاتی ہے کہ آبادیوں کے چھوٹے چھوٹے یونٹ بڑے شہروں کی نسبت زیادہ انسان دوست ہو سکتے ہیں ۔ بڑے شہروں کے سماجی، نفسیاتی، تہذیبی مسائل پر لکھی گئی اس نظم کو کوانٹم فزکس یا انٹومالوجی کے ذریعے سمجھنے کی کوشش محض ایک مہم جوئی ہی ہو سکتی ہے۔ میرے خیال میں نظم پر سیرحاصل بحث ہو چکی ہے۔ لہذا میں ساتویں اجلاس کے اختتام کا اعلان کرتا ہوں ۔ انتظامیہ اگلے اجلاس کا اعلان بعد میں کرے گی۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید