فہرست مضامین
- میں اجنبی سہی
- سیّد آلِ احمد کا مخصوص طرزِ سخن
- خود نوشت
- آراء
- مولانا ماہر القادری
- احسان دانش
- منیر نیازی
- پروفیسر محمد امین
- ڈاکٹر محمد احسن فاروقی
- اختر انصاری اکبرآبادی
- حمایت علی شاعر
- محسن احسان
- پروفیسر غلام جیلانی اصغر
- دل کا شیشہ ٹوٹ گیا آوازے سے
- جسم کے گھور اندھیرے سے نہ باہر نکلوں
- سوچ کی دستک نہیں یادوں کی خوشبو بھی نہیں
- دوش ہوا کے سات بہت دُور تک گئی
- شاخِ آشوب پہ کب کوئی کلی کھلتی ہے
- منجمد ہو گیا لہو دل کا
- خاک آلود ہو گئے ابرو
- پلکوں سے اب کے ابر جو کھل کر برس گیا
- نگارِ شب ترا مہمان ہو رہا ہوں میں
- نعرہ تن تنانا، تن تنانا ہُو کیا ہے
- سوکھے ہوئے لبوں کی صدا کا اسیر ہوں
- نگارِ غم تری آہٹ پہ جب سے جاگا ہوں
- تم مرا دُکھ تر و تازہ نہیں رہنے دیتے!
- پھر تقابل میں خجالت کے کھلونے آئے
- ناواقف و شناسا ذرا بھی نہیں لگی
- وہ بھی اُٹھا کے سنگِ ملامت اُداس تھا
- خواہشیں شہر اَنا میں سب امیروں سی لگیں
- سنگِ نظر سے ٹوٹے ہوئے آئنے تو دیکھ
- خواہشوں کی کپاس دھُن لو گے؟
- اک خواب سا وجود بریدہ بدن ملا
- حبس تنہائی نہ دے حبس میں کیا رکھا ہے
- ہمیں پہ شہر میں اُٹھا ہے سنگ آوازہ
- سنسناتے ہوئے پتھر نے مجھے چونکایا
- جبر کی موت سے سرگشتہ رہوں اچھا ہے
- نہ سہی پیار، حقارت سے کبھی بول کے دیکھ
- حیران کر دیا بھرا جنگل پڑاؤ نے
- ہم ذات کے اوراق پہ بکھری ہوئی شب ہیں
- دھوپ کو اوڑھ کے سائے سے نکل کر آتے
- موسم کی طرح رنگ بدلتا بھی بہت ہے
- شب کی آغوش میں سو جاتا ہوں
- ا س توقع پہ آس رکھتا ہوں
- وقت کے طشت میں رکھا ہوا پتھر ہوں میں
- اس نے اقرار کیا ہے مگر انکار کے ساتھ
- جنگل سے گزرنا پڑتا ہے
- آتشِ کرب سے گزرتا ہوں
- چراغِ راہ بجھا ہے تو سوچتا ہوں میں
- دُکھ کی دیوار تلے روح کو سستانے دو
- چھا گئے بامِ جدائی پہ سحاب
- ترے لہو میں ہے شامل مرے خلوص کی بو
- اب حل مسائل کوئی سوچا نہیں جاتا
- جب سے پیدا ہوا ہوں تنہا ہوں
- چھپے گی سامنے آ کر یہ خستہ حالی کیا
- وہ حبسِ لب بڑھا کہ بدن ڈولنے لگا
- کھُلا تھا اک یہی رستہ تو اور کیا کرتا
- ندر کا ہر کرب چھپاتے پھرتے ہیں
- دل یہ کہتا ہے کہ تعبیر کا گھر دیکھوں گا
- بے سبب کون سا سینہ ہے جو شق ہوتا ہے
- دل خزینے کا امیں ہوگا نہ رہزن ہوگا
- میں ہوں دھوپ اور تو سایا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں
- گراں ہے جنسِ وفا شہر میں خوشی کی طرح
- دُکھوں میں ضبط کی زنجیر تو پہن لوں گا
- خواب میں کچھ اور تھا چہرہ تری تصویر کا
- مسرتوں کی کرن کو ترس گئے ہم تم
- پتھر کہیں گے لوگ، سر رہگذر نہ بیٹھ
- کاخِ جذبات کا در کھول تو سکتی ہے غزل
- زلفِ نگارِ درد کا سایہ نہ تھا کبھی
- یہ الگ بات، ہر اک دکھ نے لبھایا ہے مجھے
- شہر کے محتاط موسم سے خبر آئی تو ہے
- دُکھ کے سکوں نہ سکھ کی خوشی کا سراب ہے
- سکوں ہوا نہ میسر ہمیں فرار سے بھی
- لرزشِ لب کی دھنک ہیئت تمثیلی تھی
- قصرِ سحر میں ہوں کہ کسی شب کدے میں ہوں
- ہم ہر لحظہ مٹانے پہ تلا ہے مجھ کو
- پھر کسی خواب نے دی ہے درِ دل پر دستک
- دھوپ دل میں اُتر گئی ہے بہت
- قہر کا پل ہے یہ تو ہوگا
- سامنے والے گھر میں بجلی رات گئے تک جلتی ہے
- شکستِ شیشۂ دل کی صدا کس روز آئے گی
- کل رات اُس کا چہرہ مجھے زرد سا لگا
- غمِ حالات سہیں یا نہ سہیں سوچ میں ہیں
- وا کے ساتھ درختوں کے رابطے تھے بہت
- دشتِ غم میں کھلا پھول جذبات کا
- جرمِ اخلاص کے شعلوں کو ہوا دیتی ہے
- اُمید کے صحرا میں جو برسوں سے کھڑا ہے
- آج بھی دھوپ میں ہوں ٹھہرا ہوا
- بہشتِ دل میں خوابیدہ پڑی ہے
- خزاں میں غم ذرا کچھ کم کیا کر
- دھوپ اور چھاؤں کا کربِ ذات لکھتا تھا
- اے رسم و راہِ شہر کے محتاط ظرف رنگ
- حادثوں میں رہتا ہے چہرہ لالہ گوں اپنا
- یاد آؤں گا اُسے، آ کے منائے گا مجھے
- رد جذبے ہوں تو کب نشوونما ملتی ہے
- تو بے سبب ہے مری ذات سے خفا، کچھ سوچ
- ہم اہلِ دل نے نہ دیکھے بسنت کے لمحے
- اگر میں ڈوب گیا تھا تو پھر سے اُبھرا کیوں
- میں ڈوبتے خورشید کے منظر کی طرح ہوں
- بدن کو غسلِ گدازِ حیات دے دے گا
- مری نظر نے خلا میں دراڑ ڈالی ہے
- یہ اور بات کہ تکلیف اِس سفر میں ہے
میں اجنبی سہی
سید آلِ احمد
شاید میں تیرے دھیان میں پھر سے اُبھر سکوں
میں اجنبی سہی، مجھے پہچان کے تو دیکھ
اپنے جگر پاروں
سید ارسلان احمد
اور
سید عدنان احمد
کے نام
سیّد آلِ احمد کا مخصوص طرزِ سخن
۱۹۸۰ء میں سترہ برس کے بعد بہاول پور جانا ہوا تو یہ محسوس کر کے خوشگوار حیرت ہوئی کہ یہ پُرسکون شہر اُس حد تک نہیں بدلا تھا کہ جس حد تک اتنے عرصے کے بعد آنے والوں کو اندیشہ ہو سکتا ہے۔ اس کے مانوس خد و خال مجھے جوں کے توں نظر آئے۔ سائیکل رکشا بھی اُس زمانے تک چل رہے تھے۔ بیکانیری گیٹ اب فرید گیٹ کہلانے لگا تھا مگر اُس کی شکل و شباہت بھی جوں کی توں تھی۔ اُس کے برابر میں پان والے کی دکان بھی موجود تھی۔ مجھے خیال آیا کہ یہاں سیّد آلِ احمد کھڑے رہا کرتے تھے۔ دیکھتا کیا ہوں کہ وہ اُس وقت بھی کھڑے ہیں۔ ہاں یہ فرق ضرور آ گیا تھا کہ اب وہ سوٹ میں ملبوس تھے۔
پہلی بار جب ۱۹۶۲ء میں عربی کے لیکچرار کی حیثیت سے میں گورنمنٹ انٹر کالج بہاول پور آیا تو جن لوگوں سے بہت جلد مانوس ہو گیا اور جن کی صحبت میں لاہور سے دُور وہ اداس شام و سحر اچھے گزر جاتے تھے ان میں سید آلِ احمد کو ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ اُس زمانے میں وہ مستقلاً گیروا کرتا اور چھوٹے پائنچوں کا سفید پاجامہ پہنا کرتے تھے۔ بیکانیری گیٹ کے برابر میں حبیب ہوٹل تھا اور اس سے ذرا آگے ایک سادہ سا نیا ہوٹل ہمارے سامنے ہی شروع ہوا تھا ’’باغ و بہار ہوٹل‘‘۔ کالج سے واپسی پر اور پھر شام کو ہم چند لیکچرار کھانا یہیں کھاتے تھے۔ شہر کے جو ادیب و شاعر حضرات یہاں مستقلاً چائے پینے آتے تھے ان میں سید آلِ احمد سب سے زیادہ باقاعدہ تھے۔ چنانچہ اُن سے ملاقات روزانہ کا معمول تھا۔ ’’باغ و بہار ہوٹل‘‘ میں شعر و سخن کی محفل بھی خوب جمتی۔ ہوٹل کے مالک ایک معمر بزرگ تھے۔ نام یاد نہیں۔ بڑے خلیق آدمی تھے۔ ہمیں دور سے آتا دیکھتے تو گرم روٹیاں لگوانا شروع کر دیتے، اور ہماری طویل ادبی نشستوں سے الجھن محسوس کرنے کے بجائے بہت خوش ہوتے۔ سید آلِ احمد کے اُس زمانے کے کچھ شعر لوحِ دل پر، اُن کی آواز میں، اب تک نقش ہیں:
ہنگامہ سرا مصر کا بازار نہیں اب
یوسف سا کوئی حُسن طرح دار نہیں اب
ہو بھی تو کوئی اُس کا خریدار نہیں اب
دامانِ زلیخا میں کوئی تار نہیں اب
ہم تو ہیں ہمیں سنگ و گل و خشت سے مارو
منصور اگر کوئی سرِ دار نہیں اب
یہ اشعار سید صاحب اکثر مشاعروں اور شعری نشستوں میں تواتر کے ساتھ سنایا کرتے تھے۔ ایک اور غزل تھی:
پر شکستہ کسی سہمے ہوئے طائر کی طرح
وقت کے کانپتے ہاتھوں میں نہ مرنا اب کے
سید آل احمد نے ایک اچھے شاعر اور محبت کرنے والے انسان کی حیثیت سے بہت جلد ہمارے دلوں میں گھر کر لیا۔ اُن کے کلام میں روایت سے پیوستگی کے ساتھ ایک تخلیقی لپک تھی جو اُن کے کلام کو محض ’’روایتی‘‘ بن جانے سے بچاتی تھی اور فنی خد و خال میں ان کی انفرادیت کو اُبھار کر سامنے لاتی تھی۔
سید صاحب چونکہ خود مست شاعر تھے اور اُس زمانے میں دُور دُور تک تعارف رکھنے کے باوجود پی آر کو سیڑھی کے طور پر استعمال کرنے کا فن نہیں جانتے تھے اس لیے آگے چل کر کہنی مار دوڑ میں شمولیت نہ کر سکے اور ہر چند کہ خواص ان کے فنی مرتبے سے ناواقف نہ تھے، وہ ’’لائم لائٹ‘‘ سے دور ہوتے چلے گئے۔ ان کا بس ایک مختصر سا مجموعہ ’’صریرِ خامہ‘‘ کے عنوان سے ۱۹۶۴ء میں بہاول پور ہی سے شائع ہوا جس کی پذیرائی کرنے والوں میں ماہرالقادری، حمایت علی شاعر، اختر انصاری اکبر آبادی، محمد احسن فاروقی، منظور حسین شور اور دیگر کئی ممتاز سخن شناس شامل تھے۔
ایک طویل عرصے کے بعد جب نوید صادق نے اطلاع دی کہ سید صاحب بسترِ علالت پر ہیں اور ان کا ایک اور مجموعہ اشاعت کے لیے تیار ہے ، جس پر مجھے بھی کچھ اظہارِ خیال کرنا ہے تو مجھے بڑی مسرت ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ یہ اظہارِ خیال تو میرے لیے خود اپنی عمرِ رفتہ کو آواز دینے کے مترادف ہوگا لیکن عجیب تلخ اتفاق یہ ہوا کہ اگلے روز جب نوید صادق مسودّہ میرے حوالے کرنے آئے تو میں اخبار میں سیّد صاحب کی رحلت کی خبر پڑھ چکا تھا، جس کا خود نوید صادق کو علم نہ تھا۔
سید آلِ احمد کا یہ تازہ مجموعہ ان کے مخصوص رنگِ سخن کا آئینہ دار ہے، جو شدتِ احساس، رومانیت، روایت اور جدت کے ایک دلکش امتزاج سے عبارت ہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں
میری خاطر نہ تکلف کیجئے
میں تو کا نٹوں پہ بھی سو جاتا ہوں
پتھر کہیں گے لوگ، سرِ رہ گزر نہ بیٹھ
چہروں کی دھوپ چھاؤں میں یوں بے خبر نہ بیٹھ
احمد ہوائے شہر مخالف بھی ہے اگر
خائف نہ ہو، نظر نہ چرا، چھپ کے گھر نہ بیٹھ
کیسے ٹھہرے ہو سوچ میں احمد
اتنی سردی میں رات کو تنہا
کس مسافت کے بعد پہنچا ہے
تیرے رُخسار پر مرا آنسو
افسوس کہ ہم اس مجموعے کا استقبال بہت دیر سے کر رہے ہیں۔ تاہم دُنیائے فن میں حیاتِ ظاہری کی اہمیت کچھ زیادہ نہیں۔ امید ہے کہ یہ مجموعہ سیّد صاحب کے لیے بقائے دوام کا ضامن ہوگا۔
ڈاکٹر خورشید رضوی
خود نوشت
میں نے جب بھی کسی تخلیق کا سوچا ۔۔۔ اور جب بھی کوئی پیکر تراشا ہے تو کوشش کی ہے کہ میرے خواب و ادراک کی تعمیر کا جو وجود قرطاس پر اُبھرے، وہ عجز و سلیقہ کے حیات افروز شانوں سے حروف کا وہ بوجھ زائل کر دے جو ’’صورت، آواز اور معنی کے مرتب شدہ نقوش کے جسموں کی کمر جھکا دیتا ہے۔
میں اس تحمل اور لغزشوں کی منزل میں کس حد تک خوش نتائج اور عاقبت نااندیش مسافت طے کر سکا ہوں۔۔۔ آئنہ ہے۔
سید آلِ احمد
آراء
سید آلِ احمد کی شاعری نوائے سروش چاہے ہو یا نہ ہو مگر اس میں انسانی دل کی دھڑکنیں ضرور بند ہیں۔ سید آلِ احمد کی شاعری وہ دوراہا ہے جہاں جدت اور قدامت کے راستے پھٹتے ہیں۔ اُن کے کلام میں جوش و تازگی کے ساتھ تنوع بھی ہے۔اُن کی ’’لے‘‘ ساز کے پردوں کی طرح کہیں نرم و شیریں ہے اور کہیں چونکا دینے والی!
مولانا ماہر القادری
سید آلِ احمد بہاولپور کے نوجوانوں میں ایک خاص رُخ کے انسان ہیں۔ وہ شاعر بھی ہیں اور صحافی بھی ، اور شاعری و صحافت کا آمیزہ اُن کی شاعری میں نہایت حسین صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اُن کی صحافت میں شاعری کے خدوخال اُبھرتے معلوم ہوتے ہیں، اور شاعری میں سیاست کی گتھیاں نکلتی نظر آتی ہیں۔ وہ فکر و خیال کے اعتبار سے جدید لکھنے والوں کی صف میں آتے ہیں اور اُن کی ترقی پر بھی حدود نہیں لگائی جا سکتیں۔
احسان دانش
سب سے ہٹ کے بات کرنے والا ایک علیحدہ لغت لیے اپنی علیحدہ زبان میں شاعری کرنے والا آلِ احمد مجھے پہلی ہی ملاقات میں اچھا لگا کہ سچ بول رہا تھا۔ وہ ادب کے روایتی وڈیروں کے خلاف تھا۔ کبھی کسی کو چھپنے کے لیے کچھ نہیں بھیجا۔ چھوٹی جگہ پر بیٹھ کر اچھی شاعری کرنے والا آلِ احمد صاف دل لیے چُپ چاپ یہاں سے چلا گیا۔
منیر نیازی
غزل گوئی میں آپ کو بڑی دسترس حاصل ہے۔ ان کی غزلوں میں دوہوں کی سی کیفیت پائی جاتی ہے اور گیتوں کا رنگ نظر آتا ہے۔ ان کی غزلوں کا لہجہ گیتوں کی طرح میٹھا، ملائم، کومل اور گداز ہے۔
پروفیسر محمد امین
سید آلِ احمد زیادہ تر غزل ہی کے شاعر ہیں اور ان میں، میں نے فکر و فن کی وہ جھلکیاں دیکھیں جو نہ صرف یہ ثابت کرتی ہیں کہ صنف غزل میں لا انتہا جدتوں کا امکان ہے بلکہ اس کا ثبوت بھی ہیں۔ احمد صاحب اس کو اپنی افرادی جدت سے معمور کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد احسن فاروقی
تو غمِ دوراں اور غمِ جاناں کا حسین ترین امتزاج عصرِ حاضر کے جواں فکر شاعر سید آلِ احمد کی شاعری میں بھی نمایاں ہے مگر اس خوبی کے علاوہ اُن کی غزلوں اور نظموں میں ایک ایسی کیفیت بھی جھلکتی ہے جس کی مثال آج کل نوجوان شعراء میں خال خال ہی پائی جاتی ہے، وہ ہے اُن کا ’’ذاتی احساس‘‘ جو اُن کی پوری شخصیت پر طاری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ذاتی احساس کا سلیقے سے اظہار ایک نعمت ہے، اور لائقِ تحسین خوبی، جو آلِ احمد کے کلام میں اپنی پوری رعنائی کے ساتھ موجود ہے۔
اختر انصاری اکبرآبادی
ید آلِ احمد کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ صرف شاعری کے سہارے ادبی دُنیا میں آیا ہے۔ اشتہار بازوں کے کسی گروہ کے سہارے نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ لاہور اور کراچی سے جب آئے دن ادبی یا غیر ادبی غبارے چھوڑے جا رہے ہیں، آلِ احمد کا نام کہیں نظر نہیں آتا۔ وہ ایک چھوٹی سی جگہ بیٹھا خاموشی سے یہ تماشے دیکھ رہا ہے اور زیرِ لب مسکرا رہا ہے۔۔۔اس مسکراہٹ میں کتنی خوداعتمادی ہے، اُس کے اشعار سے ظاہر ہے۔
حمایت علی شاعر
سید آلِ احمد بہاولپور کے ریگ زاروں اور راہ گزاروں میں سانس لینے والے ایسے با کمال سخن گو تھے کہ انھوں نے زندگی بھر قرطاس و قلم سے رشتہ جوڑے رکھا، اور نامساعد حالات میں بھی اپنے فن اور اپنے حرف سے وابستگی قائم رکھی۔ وہ خلیق، با مروّت اور ملنسار انسان تھے۔ قدرت نے انھیں ذوق آشنا قلب عطا کیا تھا مگر قسمت نے انھیں ایک ایسے ریگ زار میں رکھا جہاں اُن کی صلاحیتیں پورے طور پر عوام الناس کے سامنے نہ آ سکیں۔ روایت کے ساتھ رشتہ جوڑنے اور اپنے ماضی کو اپنے حال کے ساتھ منسلک کرنے کے فن سے سید آلِ احمد بخوبی واقف تھے۔
محسن احسان
روایت میں ایک خرابی ہے کہ اس میں شاعر کی انفرادیت زیرِ زمین چلی جاتی ہے اس لیے روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایسا شعر کہنا جس پر شاعر کی انفرادیت کی چھاپ گہری ہو اور محسوسات کا نیا پن بھی موجود ہو، فنی پختگی کا تقاضا کرتا ہے۔ سماجی عدل و انصاف، معاشرتی اور اقتصادی مسائل کلاسیکی غزل کے موضوعات نہیں ہیں۔ یہ آج سے چند دہائیاں پہلے کی بات ہے جب نئے شاعر نے غزل کو ان عصری موضوعات سے روشناس کرایا اور غزل کی یکسانیت کو ایک نیا آہنگ دیا۔ سید آلِ احمد اپنے فن کے لحاظ سے اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے ہاں عصری آگہی کے ساتھ ساتھ غزل کی روایتی غنائیت بھی موجود ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اُن کے کلام کو ہر طبقہ میں مقبولیت حاصل ہے۔
پروفیسر غلام جیلانی اصغر
دل کا شیشہ ٹوٹ گیا آوازے سے
تیرا پیار بھی کم نکلا اندازے سے
تم جو میری بات سُنے بِن چل دیتے
رات لپٹ کر رو دیتا دروازے سے
رنجِ سکوں تو ترکِ وفا کا حصہ تھا
سوچ کے کتنے پھول کھلے خمیازے سے
آنکھیں پیار کی دھوپ سے جھلسی جاتی ہیں
روشن ہے اب چہرہ درد کے غازے سے
تیرا دُکھ تو ایک لڑی تھا خوشیوں کی
تار الگ یہ کس نے کیا شیرازے سے
کتنے سموں کے شعلوں پر اک خواب جلے
کتنی یادیں سر پھوڑیں دروازے سے
احمد گہری سوچ کی خو کب پائی ہے
تم تو باتیں کرتے تھے اندازے سے
٭٭٭
جسم کے گھور اندھیرے سے نہ باہر نکلوں
اس کی خواہش ہے کہ میں اپنا سفر جاری رکھوں
اپنی تنہائی کا یہ جشن مٹانے کے لیے
جی یہ چاہے کہ ترے حسن پہ آوازہ کسوں
تو نے ناحق ہی گرجنے کا تکلف برتا
میں تو بپھرے ہوئے طوفان کا رُخ موڑتا ہوں
عمر بھر جس کے لیے میں نے دعائیں مانگیں
اب اسے، کوئی بتاؤ، میں برا کیسے کہوں
ہے کوئی؟ خستہ لکیروں کی جو قبریں کھودے
کتنے مضمون ہیں مجھ سوختہ تن میں مدفوں
اب تو حالات سے پتھرانے لگی ہیں آنکھیں
زندگی! اور کہاں تک ترا رستہ دیکھوں
تیری بستی میں تو پتھر کے سجے ہیں اصنام
آدمی کوئی نظر آئے تو کچھ بات کروں
زُلف ہوتا تو کسی دوشِ سکوں پر کھلتا
میں تو وہ زخمِ وفا ہوں کہ مہک بھی نہ سکوں
کتنی آنکھیں مری خواہش پہ جھپٹ پڑتی ہیں
جب بھی اس شخص سے ملنے کی فراغت ڈھونڈوں
کس کو فرصت ہے مجھے ڈھونڈنے نکلے احمد
اپنی ہی چاپ پہ کب تک میں پلٹ کر دیکھوں
٭٭٭
سوچ کی دستک نہیں یادوں کی خوشبو بھی نہیں
زیست کے بے خواب گھر میں کوئی جگنو بھی نہیں
نا اُمیدی! تیرے گھیراؤ سے ڈر لگنے لگا
دھڑکنوں کے دشت میں اک چشم آہو بھی نہیں
جسم کے حساس پودے کو نمو کیسے ملے
قرب کی ٹھنڈی ہوا کیا کرب کی لو بھی نہیں
ہم سفر ہیں مصلحت کا خول سب پہنے ہوئے
دوستی کیا اب کوئی تسکیں کا پہلو بھی نہیں
ضبط کے گہرے سمندر کو تموج بخش دے
پیار کی جلتی ہوئی آنکھوں میں آنسو بھی نہیں
وقت نے تجھ سے ترے لہجے کی خوشبو چھین لی
میں جسے اپنا سمجھتا تھا وہ اب تو بھی نہیں
شام کی خستہ لحد پر بے سکوں ٹھہرا ہوں میں
میرا مونس کوئی ’’داتا‘‘ کوئی ’’باہو‘‘ بھی نہیں
خواب جو دیکھے تھے احمد سب ادھورے رہ گئے
اب کسی خواہش کے آگے دل ترازو بھی نہیں
٭٭٭
دوش ہوا کے سات بہت دُور تک گئی
خوشبو اُڑی تو رات بہت دُور تک گئی
بادل برس رہا تھا کہ اک اجنبی کی چاپ
شب، رکھ کے دل پہ ہات بہت دور تک گئی
یہ اور بات لب پہ تھی افسردگی کی مہر
برقِ تبسمات بہت دُور تک گئی
خورشید کی تلاش میں نکلا جو گھر سے میں
تاریکیِ حیات بہت دور تک گئی
احمد سفر کی شام عجب مہرباں ہوئی
اک عمر میرے سات بہت دور تک گئی
٭٭٭
شاخِ آشوب پہ کب کوئی کلی کھلتی ہے
یہ الگ بات کہ اک آس لگا رکھی ہے
کتنا ساکت ہے ترے عہد کے اخلاص کا جسم
سوچ کی آنکھ بھی پتھرائی ہوئی لگتی ہے
پھر کوئی تازہ مصائب کا بھنور دیکھیں گے
آب تسکیں پہ کوئی لہر نئی اُبھری ہے
حوصلہ ہار گیا دل تو چھٹی درد کی دھُند
سوچ کے پاؤں ہوئے شل تو سحر دیکھی ہے
آنکھ ہر لمحہ نئے جھوٹ میں سرگرداں ہے
دل ہر اک لحظہ نئی چوٹ کا زندانی ہے
اب کسے دل میں جگہ دیں کہ جسے پیار کیا
کاہشِ رنج ہی معیارِ وفا ٹھہری ہے
سرِ تسلیم ہے خم، شوق سے آوازہ کسو
چپ کی تلوار سے یہ سنگ زنی اچھی ہے
نہ کوئی رنگِ تبسم، نہ حرارت کی رمق
زندگی ہے کہ کوئی سوکھی ہوئی ٹہنی ہے
سخت بوجھل ہوں میں اب دُکھ کے سفر سے احمد
رات دن ضبط کی شہ رگ سے لہو جاری ہے
٭٭٭
منجمد ہو گیا لہو دل کا
تیرے غم کا چراغ کیا جلتا
وہ بھی دن تھے کہ اے سکونِ نظر!
تو مری دسترس سے باہر تھا
بجھ گئی پیاس آخرش اے دل!
ہو گیا خشک آنکھ کا دریا
تو مرا پیار مجھ کو لوٹا دے
جانے والے اُداسیاں نہ بڑھا
پاس خاطر ہے شہر میں کس کو
کون کرتا ہے اعترافِ وفا
تیری خواہش بھنور بھنور ساحل
میری منزل سکوت کا صحرا
پوچھتی تھی خزاں بہار کا حال
شاخ سے ٹوٹ کر گرا پتا
کیسے ٹھہرے ہو سوچ میں احمد
اتنی سردی میں رات کو تنہا
٭٭٭
خاک آلود ہو گئے ابرو
کٹ گئے اعتماد کے بازو
تیرے جذبے کے ہاتھ پتھر ہیں
میری سوچوں کے پاؤں میں گھنگرو
سینۂ سنگ بھی دھڑکنے لگا
چل گیا تیری آنکھ کا جادو
گونجتا ہے دماغ سوچوں سے
برہنہ ہے سکون کا پہلو
اس اُداسی کو کون دور کرے
وہم کا کس کے پاس ہے دارو
دھڑکنوں کا شکیب ٹوٹتا ہے
کس لیے چپ ہے میرے داتا تو!
کس مسافت کے بعد پہنچا ہے
تیرے رُخسار پر مرا آنسو
ہر خوشی کو جھلس گئی احمد
شہر انفاس میں دُکھوں کی لو
٭٭٭
پلکوں سے اب کے ابر جو کھل کر برس گیا
فرطِ وفا سے دل کا ہر اک تار کس گیا
اُمید کے چراغ کی لَو خود ہی بجھ گئی
دل کو جو کچھ سکون تھا، اب کے برس، گیا
کس نے متاعِ رونق بازار چھین لی
یہ روشنی کا شہر کوئی کیسے ڈَس گیا
جس سے وفا کی کوئی توقع نہ تھی مجھے
کتنے خلوص سے وہ مرے دل میں بس گیا
جو کونپلیں بھی شاخ پہ پھوٹیں وہ جل گئیں
جو پھول بھی کھلا وہ نمی کو ترس گیا
میں نے تو کوئی دُکھ اسے اب تک نہیں دیا
کیوں اس کے لب سے پیار کے لہجے کا رَس گیا
دیکھی نہ انبساط کی چھاؤں تمام عمر
احمد غموں کی دھُوپ میں چہرہ جھلس گیا
٭٭٭
نگارِ شب ترا مہمان ہو رہا ہوں میں
وفا میں کرب کی پہچان ہو رہا ہوں میں
کھرچ رہا ہوں گئے موسموں کی ہر نسبت
نئی رُتوں کا شبستان ہو رہا ہوں میں
محیطِ تیرہ شبی کو شگفتِ لب دے کر
طلوعِ صبح کا امکان ہو رہا ہوں میں
ترے کرم سے لباسِ وقار ہے تن پر
تری نگاہ پہ قربان ہو رہا ہوں میں
سرابِ ہجر کی مرطوب صحبتوں کی قسم
حدیثِ وصل کا عنوان ہو رہا ہوں میں
امیر شہر پہ حرفِ ادق کی صورت ہوں
غریب شہر پہ آسان ہو رہا ہوں میں
عداوتوں پہ تلا ہے حریفِ آئینہ
ثبوتِ عکس، مری جان! ہو رہا ہوں میں
نشاطِ لذتِ دیروز پر ہوں شرمندہ
خود احتساب کی میزان ہو رہا ہوں میں
نہ کوئی ماتھا کشادہ، نہ کوئی دل روشن
معاشِ وقت پہ حیران ہو رہا ہوں میں
یہ کس کی، کوئے طلب میں، تلاش ہے احمد
یہ کس اُمید کا دربان ہو رہا ہوں میں
٭٭٭
نعرہ تن تنانا، تن تنانا ہُو کیا ہے
دشت کہتے ہیں کسے، کون ہوں میں، تو کیا ہے
روح گھائل ہے بھلا کیسے بدن کو سمجھائے
اس کڑی دھوپ میں تسکین کا پہلو کیا ہے
تجھ سے اک پل بھی جدا ہوں تو تڑپ اُٹھتا ہوں
اے مرے پیار کی آسودہ خلش! تو کیا ہے
کونپلیں شاخ پہ پھوٹیں بھی تو جل جاتی ہیں
پیڑ حیراں ہیں، نمو چیز ہے کیا، لُو کیا ہے
تو فرشتہ ہے نہ جب قادرِ لغزش احمد
یہ اَنا کیا ہے تری اور یہ تری خو کیا ہے
٭٭٭
سوکھے ہوئے لبوں کی صدا کا اسیر ہوں
میں خواہشوں کے طاس کی ٹیڑھی لکیر ہوں
ہر لمحہ رُخ بدلتے مزاجوں کو کیا کہوں
میں آپ اپنے شہر میں اپنی نظیر ہوں
جسموں کی تیز آنچ سے محفوظ رکھ مجھے
اے شورشِ حیات! میں اب گوشہ گیر ہوں
دستِ طلب دراز کروں کس کے سامنے
آئے نہ جس پہ حرفِ انا وہ فقیر ہوں
ردِ عمل ہے تو مرے خوابِ سکون کا
یا میں تری جبیں کی ادھُوری لکیر ہوں
احمد میں کس کے لب سے غزل پرورش کروں
غالب ہوں میں نہ شہر تغزل کا میر ہوں
٭٭٭
نگارِ غم تری آہٹ پہ جب سے جاگا ہوں
میں خواب خواب بھنور آئنوں کو تکتا ہوں
نہ کوئی رنگ توقع، نہ نقشِ پائندہ
کسے بتاؤں کہ کن خواہشوں کا ڈھانچہ ہوں
کسے دکھاؤں وہ آنکھیں جو جیت بھی نہ سکا
کسے بتاؤں کہ کن آنسوؤں کا سپنا ہوں
نہ تازگی ہی بدن میں نہ پُرسکون تھکن
میں شاخِ عمر کا وہ زرد و سبز پتا ہوں
جہاں یقین کے تلووں میں آبلے پڑ جائیں
میں حادثات کی ان گھاٹیوں میں اُترا ہوں
وہ نغمگی جسے سازِ سلیقگی نہ ملا
میں تشنہ رنج اُسی کا سراب پیما ہوں
یہ اور بات قرینے کی موت بھی نہ ملی
مگر یہ دیکھ کہ کس تمکنت سے زندہ ہوں
جو پڑھ سکے تو بہت ہے یہ ملگجی صورت
میں تیرے دُکھ کا بدن ہوں میں تیرا سایہ ہوں
ورق ورق ہوں مگر صحن زیست میں احمد
مشاہدات کے جوہر کا اک ذخیرہ ہوں
٭٭٭
تم مرا دُکھ تر و تازہ نہیں رہنے دیتے!
دشت کو ابر تو پیاسا نہیں رہنے دیتے؟
واہمے نت نئی اشکال بنا لیتے ہیں
ورقِ دل کو بھی سادہ نہیں رہنے دیتے
کتنے بے رحم ہیں یہ ہاتھ کہ فصلِ گل میں
شجر سبز پہ پتا نہیں رہنے دیتے
اب تو کچھ ایسے بچھڑ جاتے ہیں یارانِ کہن
آنکھ میں عکسِ تمنا نہیں رہنے دیتے
میری اَچھائیاں آئینہ بنانے والو!
کیوں مجھے شہر میں رُسوا نہیں رہنے دیتے
کتنے سفاک طبیعت ہیں شناسا چہرے
ایک لمحے کو بھی تنہا نہیں رہنے دیتے
ہم سے بے درد زمانے میں نہ دیکھے ہوں گے
اپنے ہی گھر کو جو اپنا نہیں رہنے دیتے
اب ترا نام جفا پیشہ ہوا کے جھونکے
ریگِ صحرا پہ بھی لکھا نہیں رہنے دیتے
اتنے سورج نکل آئے ہیں اُفق پر احمد
زیر دیوار بھی سایہ نہیں رہنے دیتے
٭٭٭
پھر تقابل میں خجالت کے کھلونے آئے
ہاتھ میں سنگ اُٹھائے ہوئے بونے آئے
یوں تو اب بھی ترے خط ڈاک میں مل جاتے ہیں
کوئی تحریر تو آنکھوں کو بھگونے آئے
اس سے پہلے کہ کڑی دھوپ میں میلا ہو بدن
تو اسے لمس کی خوشبو سے بھی دھونے آئے
دھیان میں پھر سے گئی رُت کے سہانے سپنے
کرب کے گہرے سمندر میں ڈبونے آئے
قرب بھی جس کا رہا ہجر کے صحرا کی طرح
اب وہ جذبہ مرے بستر پہ نہ سونے آئے
پھر فریبوں نے دلِ زار کو زنجیر کیا
پھر مجھے حرفِ تسلی کے کھلونے آئے
میں ترے پھول سے انگاروں کو چھو کر تڑپوں
تیرا بچپن مرے گھر دودھ بلونے آئے
ان کہے لفظ نہ چہرے پہ برہنہ ہو جائیں
تیری آنکھوں میں مرا خواب نہ رونے آئے
کس کو اُفتاد پڑی ہے کہ اُٹھائے خفت
کون اس شہر میں اب نیکیاں ڈھونے آئے
آئے بے شک ترے آنگن میں چراغاں کرنے
اپنی پہچان کوئی ہم سا نہ کھونے آئے
التجا ہے نئے موسم کی نمو سے احمد
بے ثمر پیڑ مرے گھر میں نہ بونے آئے
٭٭٭
ناواقف و شناسا ذرا بھی نہیں لگی
خوش بھی نہیں ہوئی وہ خفا بھی نہیں لگی
خواہش کی جلتی دھُوپ کی رُت بھی گزر گئی
یخ بستہ موسموں کی ہوا بھی نہیں لگی
دُکھ بھی نفس کی آنکھ کا کاجل نہ بن سکا
اچھی بدن پہ سُکھ کی قبا بھی نہیں لگی
شاخِ خلش پہ سُوکھ گئی لمس کی کلی
ہاتھوں پہ آرزو کی حنا بھی نہیں لگی
مہکا نہیں سکون کی ساعت کا کوئی پھول
اس سال دوستوں کی دُعا بھی نہیں لگی
مت پوچھ کس خیال کا بادل تنا رہا
صحرا میں تیز دھوپ ذرا بھی نہیں لگی
دستک تو نصف شب درِ احساس پر ہوئی
مشفق سپردگی کی صدا بھی نہیں لگی
احمد تمام عمر وفا کا سفر کیا
دشتِ اَنا میں ضربِ خطا بھی نہیں لگی
٭٭٭
وہ بھی اُٹھا کے سنگِ ملامت اُداس تھا
ہم کو بھی دوستی کے تقدس کا پاس تھا
ٹھوکر لگی تو آنکھ سے آنسو نکل پڑے
اک سنگِ رہگزار وفا غرقِ یاس تھا
پگھلا دیا تھا روح کو دوری کی آنچ نے
تیرے دُکھوں کا رنگ بدن کا لباس تھا
تم آ گئے تو لب پہ تبسم بھی آ گیا
ورنہ تو شام ہی سے مرا دل اُداس تھا
نفرت کی تیز دھارنے شہ رگ ہی کاٹ دی
اتنا خلوص تھا کہ سراپا سپاس تھا
مدت ہوئی جسے پسِ حد نظر چھپے
اس تیرگی کا حل اُسی سورج کے پاس تھا
احمد گھرے ہو آ کے کہاں شورِ شہر میں
تنہائیوں کا دشت تمہیں کتنا راس تھا
٭٭٭
خواہشیں شہر اَنا میں سب امیروں سی لگیں
جستجوئیں، ہاتھ پھیلائے فقیروں سی لگیں
رات بھر بیکل رہا یادوں کے جلتے دشت میں
دھیان میں جو صورتیں بھی آئیں، تیروں سی لگیں
آرزوئیں، پابجولاں، صف بہ صف ٹھہری ہوئیں
دل سے تا بہ ذہن، جسموں میں اسیروں سی لگیں
جتنے دُکھ دیکھے، تبسم ریز تھے، اطرافِ جاں
اور خوشیاں، دل گرفتہ راہگیروں سی لگیں
میں ترے خط کی عبارت پڑھ کے روتا کس لیے
جتنی سطریں تھیں مقدر کی لکیروں سی لگیں
یوں تو پیشانی کشادہ تھی سمندر کی طرح
کتنی سوچیں تھیں جو ماتھے پر جزیروں سی لگیں
میں ترے ترشے ہوئے معیار کی بینائی تھا
لفظ و معنی کی چٹانیں تک لکیروں سی لگیں
یک نفس احمد لبِ ساکت کی تاریکی چھٹی
دو غزل پروردہ آنکھیں مجھ کو ہیروں سی لگیں
٭٭٭
سنگِ نظر سے ٹوٹے ہوئے آئنے تو دیکھ
ان کی طرف بھی ایک نظر ہو سکے، تو دیکھ
شاید میں تیرے دھیان میں پھر سے اُبھر سکوں
میں اجنبی سہی، مجھے پہچان کے تو دیکھ
کس کس ادا سے چھانی ہے صحرائے شب کی خاک
آنکھوں میں رتجگوں کے نئے زاویے تو دیکھ
کتنے دُکھوں کے سامنے سینہ سپر ہوں میں
ناواقفِ نشاطِ الم! حوصلے تو دیکھ
کن لذتوں کے در نہ کھلے ہم پہ کیا کہیں
یہ غم کسی کی ذات سے تجھ کو ملے تو دیکھ
کچھ دن تو تجربات کے شعلوں پہ دل جلا
میری طرح سے دہر میں کچھ سانحے تو دیکھ
وارفتگیِ شوق عجب مرحلوں میں ہے
جذبِ طلب کے پھیلے ہوئے سلسلے تو دیکھ
کن خواہشوں کا گرم لہو زیب خاک ہے
میں جن سے ہو کے آیا ہوں وہ راستے تو دیکھ
ہم اہلِ دل سے ترکِ مراسم کا دُکھ نہ پوچھ
شاخِ شجر سے ٹوٹ کے پتا گرے تو دیکھ
آئینۂ وفا ہے، سراپا خلوص ہے
احمد کے ساتھ چند گھڑی بیٹھ کے تو دیکھ
٭٭٭
خواہشوں کی کپاس دھُن لو گے؟
تم بھی آوازہ کوئی سن لو گے
کون سمجھا ہے اس کسک کی زباں
دل کی دھڑکن تو تم بھی سن لو گے
دوستی کر رہے ہو، یہ تو بتاؤ
پاپ لو گے کہ کوئی پن لو گے
کتنے خوابوں کو دو گے تعبیریں
شاخ سے کتنے پھول چن لو گے
سوچ کی جرأتوں کو قید کرو
جال تو تم ہزار بن لو گے
اس الاؤ سے اب گزر جاؤ
کون سا زندگی سے ہن لو گے
تم اگر سن لو مجھ پہ کیا گزری
رنج سے اپنے سر کو دھُن لو گے
تم سے جو پُر خلوص ہوں احمد
ایسے تم کتنے نام چن لو گے
٭٭٭
اک خواب سا وجود بریدہ بدن ملا
دل کی طرح دماغ بھی بے پیرہن ملا
میں بھی شکست شیشۂ دل سے تھا مضمحل
وہ بھی اُداس، رات، سر انجمن ملا
دھُندلا دئیے ہوس نے تقدس کے آئنے
ہم نے جسے خدا کہا وہ اہرمن ملا
مت پوچھئے سفر کی رفاقت کا ہم سے دُکھ
جو بھی ملا، وفا کی قسم، راہزن ملا
یہ اور بات دل تھے کدورت کی خستہ قبر
لہجوں میں نکہتوں سے بھرا بانکپن ملا
میں سنگِ سدِ راہ ذہانت تھا دہر میں
انسان دوستی سے مجھے حسنِ فن ملا
شل ہو گئیں دماغ کی شوریدہ سر رگیں
سوچوں کو دشت میں وہ اذیت کا رن ملا
اک حرفِ اشتیاق نہ آیا زبان پر
احمد وہ اپنے آپ میں اتنا مگن مل
حبس تنہائی نہ دے حبس میں کیا رکھا ہے
دل سا انگارہ تو پہلے ہی بجھا رکھا ہے
اے مرے شہر کی بے رحم زمیں کچھ تو بتا
تو نے ہر موڑ پہ کیوں سنگِ جفا رکھا ہے
اک ترا دُکھ ہو تو چہرے پہ بکھیرا جائے
کتنے غم ہیں جنہیں سینے سے لگا رکھا ہے
آپ کا اپنا تو اس میں کوئی پتھر ہی نہیں
کس لیے دوش پہ کہسار اُٹھا رکھا ہے
تو مری آنکھ کے گرداب کے نزدیک نہ آ
اس میں وہ زہر ہے جو تجھ سے چھپا رکھا ہے
رکھ رکھاؤ کے چراغوں کی لویں بجھ جائیں
اس توقع کی اذیت میں بھی کیا رکھا ہے
میں ترے رنج کے پتھراؤ سے گھبراتا ہوں
ورنہ اس جسم کو زخموں سے سجا رکھا ہے
تو مرے کرب کے احساس سے کب گزرا ہے
یہ تو وہ دُکھ ہے جو دھڑکن میں چھپا رکھا ہے
خود کو اب اتنی اذیت بھی نہ دیجے احمد
سوچیے شدتِ احساس میں کیا رکھا ہے
٭٭٭
ہمیں پہ شہر میں اُٹھا ہے سنگ آوازہ
ہمیں نے رُخ پہ ملا خونِ گرم کا غازہ
اُداسیوں کی کڑی دھُوپ مجھ پہ رحم نہ کھا
گئے دنوں کی وفا کا یہی ہے خمیازہ
ہے تار تار کچھ اتنا لباس حال مرا
شعورِ ذات بھی کسنے لگا ہے آوازہ
مجھے بھی دے گا کوئی شہر میں کبھی ترتیب
ہے کوئی آنکھ کہ بکھرا ہوا ہے شیرازہ
یہ اور بات کئی حسن دلفریب ملے
کھلا نہ ہم پہ کسی کی ادا کا دروازہ
ہر ایک دُکھ کو بڑے صبر سے سہا احمد
پہ حادثات میں چہرہ رہا ترو تازہ
٭٭٭
سنسناتے ہوئے پتھر نے مجھے چونکایا
جب کسی جذبۂ خودسر نے مجھے چونکایا
سلوٹیں دیکھ، کوئی اُلٹے قدم لوٹا ہے
رات، تنہائی میں، بستر نے مجھے چونکایا
اس کو پہلے ہی سفر کا مرے اندازہ تھا
یک بیک راہ کے پتھر نے مجھے چونکایا
اپنے آئینے کی قیمت سے تہی علم تھا میں
تیری آواز کے کنکر نے مجھے چونکایا
گرد ہر چہرہ خورشید پہ جم سکتی ہے
ملگجی شام کے منظر نے مجھے چونکایا
٭٭٭
جبر کی موت سے سرگشتہ رہوں اچھا ہے
ایسی آزادی سے زنداں کا سکوں اچھا ہے
سرخ پتھر سے کئی سال تراشے ہوئے بت
حبس کی ضرب سے میں چیخ پڑوں اچھا ہے
جس کی تعمیر میں زخموں سے سجایا ہے بدن
اب وہی سنگ اُٹھاتا ہے، کہوں، اچھا ہے
خود ہی گھائل بھی ہو پتھر بھی اُٹھائے خود ہی
زندگی! تیرا یہ اندازِ جنوں اچھا ہے
تو چمکتے ہوئے چہروں کے بھنور میں کھو جا
میں شرافت کے اندھیروں میں رہوں اچھا ہے
کس نے رُسوائی کے پیکر کو عطا کی توقیر؟
کچھ تو فرمائیے کس شخص کا خوں اچھا ہے
میری تنہائی کا یہ دشت نہ آباد کرو
آپ ہی روؤں میں اب آپ ہنسوں اچھا ہے
ریزہ ریزہ کی طرح حد نظر تک بکھروں
فرش پر اتنی بلندی سے گروں اچھا ہے
میرے سینے میں دھڑکتا ہوا دل ہے احمد
جس قدر حسن کے نزدیک رہوں اچھا ہے
٭٭٭
نہ سہی پیار، حقارت سے کبھی بول کے دیکھ
کوئی تو زہر مری روح میں تو گھول کے دیکھ
میری آواز کہاں تک تری دیوار بنے
شدتِ کرب سے تو بھی تو کبھی بول کے دیکھ
اپنی تنہائی کے اس گھور اندھیرے سے نکل
کیا ہے باہر کی فضا آنکھ ذرا کھول کے دیکھ
مجھ سے دریافت نئی صبح کا سورج ہوگا
ریگِ صحرا کے اندھیروں میں مجھے رول کے دیکھ
ماند پڑ جائے گی ہر مہرِ زر و سیم کی دھوپ
مجھ کو میزانِ تحمل میں کبھی تول کے دیکھ
میرے اخلاص کی تصویر جلانے والے!
دکھ کا منظر تو درِ دیدہ و دل کھول کے دیکھ
مجھ سا خوش فہم تو ہر دُکھ کو بھلا دیتا ہے
وضع داری کے بہانے ہی سہی بول کے دیکھ
دیکھ کس طاق میں جلتا ہے ترا دُکھ احمد
سوچتا کیا ہے، درِ قصرِ غزل کھول کے دیکھ
٭٭٭
حیران کر دیا بھرا جنگل پڑاؤ نے
رکھا ہے دل میں سبز قدم کس لگاؤ نے
بے لطف دوستی کے سفر نے تھکا دیا
ساحل پہ دے کے مارا بھنور سے جو ناؤ نے
اے دوست! زخم تہمتِ تازہ لگا کہ پھر
سرسبز کر دیا ہے شجر سکھ کے گھاؤ نے
ان قربتوں کا ہدیۂ اخلاص کچھ تو دے
خوش بخت کر دیا تجھے جن کے لگاؤ نے
اُن پستوں کو روح کی نزدیکیوں سے دیکھ
کاٹا ہے جن کو دل کی ندی کے بہاؤ نے
تجھ کو تو رفعتوں کا وہ بادل بنا گیا
تسخیر کر لیا جسے دُکھ کے الاؤ نے
کیا کیا بسنت ہونٹ تراشے ہیں دستِ فن
مواج کر دیا ہے تبسم کٹاؤ نے
اب تو عذابِ مصلحت، اے ہم سفر! نہ دے
پتھرا دیے ہیں دیدہ و دل رکھ رکھاؤ نے
احمد زبانِ صدق کی تذلیل کی قسم
تہذیب یافتہ کیا فن کے جھکاؤ نے
٭٭٭
ہم ذات کے اوراق پہ بکھری ہوئی شب ہیں
معیار علیحدہ ہیں پہ انسان تو سب ہیں
آسیب زدہ ہے ترے ہونٹوں کی حلاوت
افسردۂ خاطر ترے لہجے کے سبب ہیں
دولت کی ترازو میں بھی ایمان بکا ہے؟
ہم صاحبِ کردار ہیں، پروردہ رب ہیں
دیروز کے چہرے کی عبارت بھی ذرا پڑھ
معمار ہیں آئندہ کے قاتل ترے کب ہیں
سوگند ہمیں صبح کے کھلتے ہوئے در کی
تعزیر لگاؤ کہ ہمیں رہزنِ شب ہیں
ہم دونوں محبت کے سوا جانتے کیا تھے
ایسے تو نہ تھے دوست کہ جس حال میں اب ہیں
وہ حُسن کا پیکر ہے کہ اعصاب کا قاتل
آنکھیں کسی آہو کی ہیں یاقوت سے لب ہیں
جسموں کے ذخائر کا سمندر ہے مگر ہم
اک چشم ستم پیشہ سے اخلاص طلب ہیں
٭٭٭
دھوپ کو اوڑھ کے سائے سے نکل کر آتے
اپنے قدموں سے مرے گھر کبھی چل کر آتے
ذہن، نایافت بشارت کا سمندر ہوتا
حرف تہذیب کی خوشبو میں جو پل کر آتے
اس الاؤ سے مجھے خوف بہت آتا ہے
اجنبی! پیار کے کپڑے تو بدل کر آتے
سہل، فردا کے تقاضوں کی مسافت ہوتی
غم دیروز سے باہر جو نکل کر آتے
جانے کس خواب کی تعبیر سے ٹکرائے ہو
اتنے زخمی تو نہ ہوتے جو سنبھل کر آتے
رتجگا اتنا مناتے کہ سحر ہو جاتی
قربِ روئیدہ سے اک پل جو بہل کر آتے
حوصلہ مند ہی احمد یہ ادا رکھتا ہے
سوئے مقتل کبھی مجرم نہیں چل کر آتے
٭٭٭
موسم کی طرح رنگ بدلتا بھی بہت ہے
ہم زاد مرا قلب کا سادہ بھی بہت ہے
نفرت بھی محبت کی طرح کرتا ہے مجھ سے
وہ پیار بھی کرتا ہے رُلاتا بھی بہت ہے
وہ شخص بچھڑتا ہے تو برسوں نہیں ملتا
ملتا ہے تو پھر ٹوٹ کے ملتا بھی بہت ہے
خوشحال ہے مزدور بہت عہدِ رواں کا
ماتھے پہ مگر اس کے پسینہ بھی بہت ہے
برسا ہے سرِ دشتِ طلب ابر بھی کھل کر
سناٹا مری روح میں گونجا بھی بہت ہے
تم یوں ہی شریک غم ہستی نہیں ٹھہرے
سچ بات تو یہ ہے تمہیں چاہا بھی بہت ہے
اُٹھتی ہی نہیں آنکھ حیا سے کبھی اُوپر
دوپٹہ مگر سر سے ڈھلکتا بھی بہت ہے
ہر دُکھ کو تبسم میں اُڑا دیتا ہے احمد
بچوں کی طرح پھوٹ کے روتا بھی بہت ہے
٭٭٭
شب کی آغوش میں سو جاتا ہوں
سنگ ہوں موم بھی ہو جاتا ہوں
دل کا دروازہ کھلا مت رکھو
یاد آنکھوں میں پرو جاتا ہوں
جس کے لہجے میں وفا کھلتی ہو
میں تو اُس شخص کا ہو جاتا ہوں
دن میں سہتا ہوں بصیرت کا عذاب
شام کے شہر میں کھو جاتا ہوں
میری خاطر نہ تکلف کیجیے
میں تو کانٹوں پہ بھی سو جاتا ہوں
گاہے اظہار کو دیتا ہوں ہنر
گاہے دیوالیہ ہو جاتا ہوں
جب بھی بحران کا رَن پڑتا ہے
میں تری ذات میں کھو جاتا ہوں
میں ہوں احساس کی برکھا احمد
چشم اعصاب بھگو جاتا ہوں
٭٭٭
ا س توقع پہ آس رکھتا ہوں
آنکھ چہرہ شناس رکھتا ہوں
جانے کس لمحہ تو پلٹ آئے
اک یہی دل میں آس رکھتا ہوں
نہ سہی زر ادا تری قربت
دولتِ درد پاس رکھتا ہوں
مسکرا کر تو دیکھ ایک نظر
ہدیۂ صد سپاس رکھتا ہوں
صحبتِ گفتگو عطا تو کر
شہد ایسی مٹھاس رکھتا ہوں
سر سے پا تک شفق گلاب ہو تم
میں دھنک کا لباس رکھتا ہوں
مسکراتا ہوں بے سبب احمد
یا طبیعت اُداس رکھتا ہوں
٭٭٭
وقت کے طشت میں رکھا ہوا پتھر ہوں میں
حرف کا دشت ہوں معنی کا سمندر ہوں میں
کون جانے کہ یہ خوشبو ہے عبارت مجھ سے
کیسے سمجھاؤں کہ پھولوں کا مقدر ہوں میں
مجھ کو آتا نہیں کاندھے پہ جنازہ رکھنا
منجمد شہر! حرارت کا پیمبر ہوں میں
اب بھی آتی ہے ترے قرب کے ایام کی آنچ
اب بھی احساس کا ذخار سمندر ہوں میں
آخر شب ہے، مری ذات سے نظریں نہ چرا
اے غمِ ہجر! ترے قد کے برابر ہوں میں
شہر میں حفظ مراتب کا بہت قحط ہے اب
آپ چاہیں تو چلے آئیں کہ گھر پر ہوں میں
اس نے اقرار کیا ہے مگر انکار کے ساتھ
سلسلہ جڑ تو گیا حُسنِ طرح دار کے ساتھ
صاحبِ دل ہیں، کوئی رُت ہو، بھرم رکھتے ہیں
اپنا رشتہ ہے ازل سے رَسَن و دار کے ساتھ
اب کسے تن پہ سجائے گا کڑی دھوپ میں پیڑ
ٹوٹ کر پتے لگے بیٹھے ہیں دیوار کے ساتھ
اِک ذرا دیر ٹھہر جا بُتِ خاموش مزاج!
نطق زنجیر تو کر لوں لبِ اظہار کے ساتھ
عمر بھر کس نے اصولوں کو ترازو رکھا
کون رُسوا ہوا اس شہر میں کردار کے ساتھ
ایک لمحے کو کھلا تھا درِ مقتل شب کا
رغبتِ خاص ہے ہر صبح کو تلوار کے ساتھ
کس نے ترتیب دیا ذروں سے عالم کا نظام
مہر و مہ کس نے نمائش کیے پرکار کے ساتھ
آنکھ پتھرا گئی تکتے ہوئے رستہ لیکن
روح کا ربط ہے قائم رُخِ دلدار کے ساتھ
میرا خالق ہے مرے فن کی ضمانت احمد
حرف ترتیب سے چنتا نہیں معیار کے ساتھ
٭٭٭
جنگل سے گزرنا پڑتا ہے
ہر سائے سے ڈرنا پڑتا ہے
کب لوٹ کے آتا ہے کوئی
یہ زخم تو بھرنا پڑتا ہے
ہر شام اُجڑ جاتے ہیں ہم
ہر صبح سنورنا پڑتا ہے
دہلیز تو پار وہ کر لیتا
طوفاں سے گزرنا پڑتا ہے
اب جیب بھی خائف رکھتی ہے
بچوں سے بھی ڈرنا پڑتا ہے
یہ پیٹ کا دوزخ بھی کیا ہے
سو طرح سے بھرنا پڑتا ہے
سر ہے تو یہ پتھر آئیں گے
برداشت تو کرنا پڑتا ہے
کیا تم سے ہاتھ ملائیں ہم
خفت سے گزرنا پڑتا ہے
اے زیست! سفر طے کتنا کریں
اک روز تو مرنا پڑتا ہے
کتنی بھی بلندی سر کر لو
نیچے تو اُترنا پڑتا ہے
اک دشت سراب ہے یہ، احمد
خوابوں کو بکھرنا پڑتا ہے
٭٭٭
آتشِ کرب سے گزرتا ہوں
اب دعاؤں سے پیٹ بھرتا ہوں
تم سے ملنے کا حوصلہ ہی نہیں
بدگمانی سے اتنا ڈرتا ہوں
اس اذیت میں جی رہا ہوں
صبح مرتا ہوں، شام مرتا ہوں
سوچ پتھرا گئی اسی دُکھ میں
سطح دریا پہ کب اُبھرتا ہوں
ابر کھل کر برس نہ جائے کہیں
بادلوں کی گرج سے ڈرتا ہوں
نکہتِ حرفِ جاودانی ہوں
دھڑکنوں کو غزل میں بھرتا ہوں
اپنے پیڑوں کا پھل نہیں کھاتا
مسکراتا ہوں، صبر کرتا ہوں
صبح سے شام کی مسافت تک
دھُوپ کے دشت سے گزرتا ہوں
خود گڑھا کھودتا ہوں اپنے لیے
اور پھر خود ہی اس کو بھرتا ہوں
دُکھ کی بے مہریوں کا موسم ہے
سُکھ کی آشفتگی سے ڈرتا ہوں
تیرے دل میں اُتار کر سورج
اپنی آنکھوں میں رات بھرتا ہوں
اہرمن کون ہے، فرشتہ کون
مہرباں دوستوں سے ڈرتا ہوں
اے زمانہ! میں اب کھلونا نہیں
اَب میں بچوں سے پیار کرتا ہوں
کون ہوتا ہے خلوتوں میں مکیں
رات بھر کس سے بات کرتا ہوں
اَب میں اپنے ہی شہر سے احمد
مثلِ گردِ سحر گزرتا ہوں
٭٭٭
چراغِ راہ بجھا ہے تو سوچتا ہوں میں
نہ جانے کون تھا جس سے بچھڑ گیا ہوں میں
درِ سماع سے دستک جو دے کے لوٹ آئی
شکستِ قیمت دل کی وہ اک صدا ہوں میں
ہیں میرے گرد مرے دوستوں کے دُکھ کتنے
کوئی بھی لمحۂ فرصت ہو، سوچتا ہوں میں
نہ جانے کون سی خوش فہمیِ وفا کو لیے
دُکھوں کے تیز الاؤ میں جل رہا ہوں میں
کسے یقیں ہے رہیں گے بھی استوار سدا
تعلقات کی دہلیز پر کھڑا ہوں میں
غمِ حیات سے جب بھی ملا ہے مجھ کو فراغ
تمہاری یاد کی بانہوں میں آ گیا ہوں میں
کوئی بتائے کبھی لوٹ کر بھی آئیں گے
گئے سموں کو جو آواز دے رہا ہوں میں
تو اپنا ہاتھ ذرا اپنے دل پہ رکھ کے تو دیکھ
دھڑک اُٹھے گا یقینا کہ غم زدہ ہوں میں
نظر ملا کہ مرا حوصلہ جوان رہے
سکوتِ شہر! ترے سامنے کھڑا ہوں میں
نہ پوچھ دل پہ جو گزری ہے جستجو میں تری
خود اپنے گھر کا پتہ پوچھتے پھرا ہوں میں
لگا نہ ہاتھ مرے جسم کو تو بادِ وفا!
گزرتے وقت کی ڈھلوان پر کھڑا ہوں میں
٭٭٭
جو تیرا قرب بھی گزرے تو ٹھوکریں کھائے
رہِ وفا میں وہ پتھر بنا ہوا ہوں میں
شعور ہے تو مری ذلتوں کو سجدہ کر
ترے وقار کی بنیاد ہو گیا ہوں میں
جہاں کسی کے تبسم کی اک کرن بھی نہیں
غمِ حیات کے اُس موڑ پر کھڑا ہوں میں
رکھا نہ اُس نے مرے پیار کا بھرم احمد
وہ آدمی کہ جسے اب بھی پوجتا ہوں میں
٭٭٭
دُکھ کی دیوار تلے روح کو سستانے دو
یہ جو طوفاں سا اُمڈ آیا ہے، رُک جانے دو
مدتوں بعد تو پلٹا ہے بدل کر ملبوس
گھر کا دروازہ کھلا رکھو، اسے آنے دو
وقت بیمار مسافر ہے، گزر جائے گا
رائگاں ایک بھی لمحہ نہ کوئی جانے دو
اک تہی دست ہے اور ایک مقدر کا دھنی
کتنے مقبول ہوئے شہر میں دیوانے دو
عمر بھر کون سا برسا ہے کرم کا بادل
گھر میں آتا ہے جو سیلابِ بلا، آنے دو
آئنہ سامنے رہنے دو ابھی ماضی کا
سلوٹیں دیکھ کے پیشانی پہ پچھتانے دو
محبسِ ربط سے باہر تو نہیں جا سکتا
قید جتنا بھی رکھو اشک تو تھم جانے دو
زندگی کرب کے سانچے میں ڈھلی جاتی ہے
اب تو اس پیکر بے مثل کو گھر آنے دو
٭٭٭
چھا گئے بامِ جدائی پہ سحاب
ہو گئے خواب، تبسم کے گلاب
عمر بھر ہم سر قربت ٹھہرے
دل میں دیکھا نہ اُترتا مہتاب
پہلے تہذیب کا مکتب تھے دیے
اب سکھاتی ہیں ہوائیں آداب
کتنا بھی پیار کا بادل برسے
دل کا صحرا نہیں ہوتا سیراب
کرب کی دھوپ مسلسل جو پڑے
سوکھ جاتا ہے بدن کا تالاب
اے ہوا! بند دریچہ مت کھول
ٹوٹ جائے نہ کہیں صبح کا خواب
دستِ خامہ میں ہے لرزش کی لکیر
طاسِ تحریر ہے دشتِ بے آب
ایک بھی گھر نہ بچے گا اب کے
پورے جوبن پہ ہے برکھا کا شباب
دن کا اُجیالا ہے قاتل احمد
اب اندھیرے میں مہکتا ہے گلاب
٭٭٭
ترے لہو میں ہے شامل مرے خلوص کی بو
مجھے اُجاڑنے والے! مرا شعور ہے تو
میں تیرے شہر میں یوں صبح و شام کاٹتا ہوں
نڈھال زخموں سے ہو جیسے دشت میں آہو
خدا کے واسطے یہ کھیت مت اُجاڑنے دو
زمیں کی کھاد بنا دو بدن کا گرم لہو
میں تیرے نام کا کتبہ اُٹھائے پھرتا ہوں
جبین دہر کی تابندگی! کہاں ہے تو
فقیہِ شہر بتا اتنی قحط سالی کیوں
ہے اختیار تو کر ان کی بھوک کا دارو
زبان و حرف قفس ہوں، خیال و فکر صلیب
تم ان خطوط پہ دو گے دماغ و دل کو نمو
نکھر رہے ہیں نئی رُت میں خار و خس احمد
بکھر رہی ہے چمن میں گلاب کی خوشبو
٭٭٭
اب حل مسائل کوئی سوچا نہیں جاتا
حالات کے گرداب سے نکلا نہیں جاتا
اب گھر میں سکوں کی کوئی تصویر نہیں ہے
اب شہر کی سڑکوں پہ بھی گھوما نہیں جاتا
ہر آنکھ جہاں سنگِ ملامت لیے اُٹھے
آئینۂ احساس بچایا نہیں جاتا
دل پاؤں پکڑتا ہے مگر لب نہیں ہلتے
اب جاتے ہوئے شخص کو پکڑا نہیں جاتا
سوچوں تو اُبھرتے نہیں خال و خدِ الفاظ
چاہوں بھی تو اب خط اُسے لکھا نہیں جاتا
ہر لمحہ نیا دُکھ مجھے زنجیر کیے ہے
باہر قفس فکر سے آیا نہیں جاتا
کس شخص کا دل جیتو گے اس شہر میں احمد
اس آنکھ کا کاجل تو چرایا نہیں جاتا
٭٭٭
جب سے پیدا ہوا ہوں تنہا ہوں
خواب میں تتلیاں پکڑتا ہوں
قامت و قد میں ہوں پہاڑ مگر
اپنے اندر میں ریزہ ریزہ ہوں
چھاؤں کرتا ہوں شہر میں تقسیم
اپنے چہرے پہ دھوپ ملتا ہوں
بجھ گیا ہے الاؤ جذبوں کا
سوچ کی رہگذر پہ تنہا ہوں
مرثیہ ہوں جو مصلحت برتو
دل سے چاہو تو ایک نغمہ ہوں
بیعتِ حاکم غلط کرنا
لعنتِ زندگی سمجھتا ہوں
جو شبِ تیرہ میں چمکتا ہے
میں وہ کردار کا ستارہ ہوں
مہرباں سائے یاد آتے ہیں
ہاڑ کی دوپہر میں جلتا ہوں
جانے والوں کے لکھ رہا ہوں کرم
آنے والوں کی سوچ پڑھتا ہوں
شمعِ دل تو جلا کے دیکھ مجھے
تیری منزل کا سیدھا رستہ ہوں
ہر تہی خُلق عہد میں احمد
غم زدوں کے لیے مسیحا ہوں
٭٭٭
چھپے گی سامنے آ کر یہ خستہ حالی کیا
ملے گا شہر میں ہم کو مکان خالی کیا
چھلک پڑے جو تمہیں دیکھ کر، بتاؤ مجھے
ان آنسوؤں نے مری آبرو بچا لی کیا
یہ دھڑکنیں ہیں علامت، چھپا ہوا تو نہیں
نظر کی اوٹ میں پیکر کوئی خیالی کیا
کسی طرح تو طلسمِ سکوتِ لب ٹوٹے
کوئی تو رنگِ تبسم، یہ قحط سالی کیا
یہاں تو سب ہی پریشاں دکھائی دیتے ہیں
دُکھوں کے شور میں ہوگا بدن سوالی کیا
جواں ہوئے تو کئی سال ہو گئے احمد
ہے اب بھی اُس کی طبیعت میں لا اُبالی کیا
٭٭٭
وہ حبسِ لب بڑھا کہ بدن ڈولنے لگا
میں جب سکوتِ شہر کا در کھولنے لگا
اک خوف سا لگا مجھے خالی مکان سے
کل رات اپنے سائے سے دل ہولنے لگا
انگڑائی لے رہا ہو کوئی جیسے بام پر
خورشید روئے شرق پہ پر تولنے لگا
دوں گا کسے صدا کہ سماعت کو آ سکے
اے یادِ یار! زخم اگر بولنے لگا
ہم اہلِ اعتماد کنارے پہ آ گئے
گرداب میں سفینہ اگر ڈولنے لگا
روشن ہوئے نہ تھے ابھی آثار صبح کے
دل بانجھ جرأتوں کی گرہ کھولنے لگا
احمد میں اپنے صدق پہ ثابت ثمر رہا
نفرت کا زہر قرب اگر گھولنے لگا
٭٭٭
کھُلا تھا اک یہی رستہ تو اور کیا کرتا
نہ دیتا ساتھ ہوا کا تو اور کیا کرتا
بہت دنوں سے پریشان تھا جدائی میں
جو اَب بھی تجھ سے نہ ملتا تو اور کیا کرتا
نہ کوئی دشتِ تسلی، نہ ہے سکون کا شہر
اُجالتا جو نہ صحرا تو اور کیا کرتا
بشر تو آنکھ سے اندھا تھا کان سے بہرہ
تجھے صدا جو نہ دیتا تو اور کیا کرتا
مرے سفر میں محبت کا سائبان نہ تھا
بدن پہ دھوپ نہ ملتا تو اور کیا کرتا
ترے حضور بھی جب اذنِ مدعا نہ ملا
متاعِ جاں نہ گنواتا تو اور کیا کرتا
حصارِ یاد کی زنجیر توڑ کر احمد
کھلی فضا میں نہ آتا تو اور کیا کرتا
٭٭٭
ندر کا ہر کرب چھپاتے پھرتے ہیں
ہم دیوانے لوگ ہنساتے پھرتے ہیں
چہرہ چہرہ ہر دل کی دیوار سے ہم
اپنے نام کے حرف مٹاتے پھرتے ہیں
شاخ سے ٹوٹ کے قریہ قریہ برگِ سبز
فصلِ بہار کا حال سناتے پھرتے ہیں
وہ جو دل کو دل کی رحل پہ رکھتے تھے
اب ہم ان کا کھوج لگاتے پھرتے ہیں
پہلے دھوپ کے لمس کو ہم نے برف کیا
اب ہم برف پہ پاؤں جلاتے پھرتے ہیں
اب تو اپنے سائے سے آئینہ لوگ
اپنا عیب ثواب چھپاتے پھرتے ہیں
احمد قحطِ سماعت سے دیواروں کو
تازہ غزل کے شعر سناتے پھرتے ہیں
٭٭٭
دل یہ کہتا ہے کہ تعبیر کا گھر دیکھوں گا
رات آنکھوں میں گزاروں تو سحر دیکھوں گا
اے غم زیست! کوئی موڑ بھی منزل کا نہیں
اور کب تک میں مسلسل یہ سفر دیکھوں گا
یہ جو ہر لمحہ دھڑکتی ہے مرے سینے میں
اس کسک کو بھی کبھی جسم بدر دیکھوں گا
مجھ کو تصویر کا بس ایک ہی رُخ بھاتا ہے
کس طرح سے ترا ویران نگر دیکھوں گا
اب تو اس خواب سے پتھرانے لگی ہیں آنکھیں
کب سراپا کو ترے ایک نظر دیکھوں گا
یہ مرا شہر ہے، اس شہر میں میں رہتا ہوں
کیسے ان آنکھوں سے جلتے ہوئے گھر دیکھوں گا
اُفقِ شرق سے پو پھوٹ رہی ہے احمد
اب میں بستی کا ہر اک فرد نڈر دیکھوں گا
٭٭٭
بے سبب کون سا سینہ ہے جو شق ہوتا ہے
بعض ایثار کا اک عمر قلق ہوتا ہے
لفظ اخلاص کا دھڑکن میں چھپا رہتا ہے
لبِ اظہار تو اک سادہ ورق ہوتا ہے
آئنہ صاف خدوخال دکھا دیتا ہے
چہرہ غیروں کا نہیں اپنوں کا فق ہوتا ہے
میں تجھے کون سے لہجے میں ملامت بھیجوں
اچھے گھوڑے کو تو چابک بھی سبق ہوتا ہے
میرے ہر جرمِ وفا سے ہے شناسا عالم
تیرے اخلاص کا احساس ادق ہوتا ہے
جب بھی ماتھے پہ چمکتا ہے عرق بن کے لہو
مطلعِ دل پہ عجب رنگِ شفق ہوتا ہے
کون محروم رہا خُلقِ وفا سے احمد
تیرا چہرہ تو مسرت کی رمق ہوتا ہے
٭٭٭
دل خزینے کا امیں ہوگا نہ رہزن ہوگا
کتنے چہروں کے تبسم کا یہ مدفن ہوگا
تو اگر مجھ سے گریزاں ہے کوئی بات نہیں
کوئی چہرہ تو مرے قلب کی دھڑکن ہوگا
مجھ سے آئے گی تجھے شعلۂ کردار کی آنچ
میرے معیار پہ اُترے گا تو کندن ہوگا
نہ کوئی خواب، نہ تعبیر، نہ خواہش، نہ کسک
اتنا ویران کسی گھر کا نہ آنگن ہوگا
عمر بھر دُکھ کے الاؤ میں جلیں گے احمد
تن کے دوزخ کا غمِ زیست ہی ایندھن ہوگا
٭٭٭
میں ہوں دھوپ اور تو سایا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں
جگ میں کس کا کون ہوا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں
من مورکھ ہے، مت سمجھاؤ، کرنی کا پھل پائے گا
چڑھتا دریا کب ٹھہرا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں
تم تو اب بھی مجھ سے پہروں دھیان میں باتیں کرتے ہو
ترکِ تعلق کیا ہوتا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں
جانے والے حد یقیں تک، ہم نے جاتے دیکھے ہیں
واپس لوٹ کے کون آتا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں
میں سوچوں کی جلتی دھوپ اور وہ تسکین کی گہری چھاؤں
میرا اس کا ساتھ ہی کیا ہے، سب کہنے کی باتیں ہیں
اک تجھ پر ہی کیا موقوف کہ سب ہی پیٹ کے ہلکے ہیں
کس کا ظرفِ دل گہرا ہے؟ سب کہنے کی باتیں ہیں
احمد اس کا چہرہ اس کے جھوٹ کی چغلی کھاتا ہے
تیرے دُکھ میں وہ رویا ہے، سب کہنے کی باتیں ہیں
٭٭٭
گراں ہے جنسِ وفا شہر میں خوشی کی طرح
پرانے دوست بھی ملتے ہیں اجنبی کی طرح
کبھی تو آئے گا چشمِ یقیں کے حلقے میں
بساطِ دل پہ جو اُبھرا ہے چاندنی کی طرح
کوئی چراغ نہ ہو جس کے صحن میں روشن
مرا وجود ہے اس شب کی تیرگی کی طرح
وہ ابرِ خاص کہ جس سے بڑی توقع تھی
دیارِ روح سے گزرا ہے اجنبی کی طرح
مری نظر میں کوئی منزلِ خرد نہ جچی
سدا سفر میں رہا ذوقِ گمرہی کی طرح
کچھ اور دور ہو مجھ سے کہ اور نکھرے گا
ترا شعور مرے فن شاعری کی طرح
تھے جتنے جسم کے عقدے وہ حل ہوئے احمد
لہو کی خاک بھی چھانی تو دشت ہی کی طرح
٭٭٭
دُکھوں میں ضبط کی زنجیر تو پہن لوں گا
میں اپنا سر کسی دہلیز پر نہ رکھوں گا
میں تیرے قرب کے تسکین بخش پہلو میں
یہ ایک رات تو کیا ساری عمر جاگوں گا
میں اپنا دُکھ نہ سناؤں گا شہر والوں کو
ترے وقار کی اے دوست لاج رکھوں گا
وہ ایک شخص بھی اخلاص سے تہی نکلا
وفا کی سرد ترازو میں کس کو تولوں گا
شکستِ شیشۂ دل سے تو موت بہتر ہے
کوئی بتائے کہ کب تک یہ زہر چاٹوں گا
میں ایک شعلۂ احساس ہوں، اے شہر سکوت!
دماغ و دل بھی ہوئے منجمد تو بولوں گا
یہ تیرے ماتھے پہ تازہ شکن جو اُبھری ہے
اسی لکیر کے گرداب سے میں اُبھروں گا
ترے لبوں کے تبسم کے سرخ پتھر پر
میں اپنی روح کے لرزیدہ ہونٹ رکھ دوں گا
وہ میرے پاس بھی آ کر ستائے گا احمد
میں اُس سے دور بھی رہ کر دُعائیں ہی دوں گا
٭٭٭
خواب میں کچھ اور تھا چہرہ تری تصویر کا
مہر بر لب تھا مسافت میں بدن تعبیر کا
رنگ لاتا ہے بہرصورت لہو شبیر کا
سلسلہ در سلسلہ پھیلاؤ ہے زنجیر کا
ڈھونڈتا ہے کس گئی رُت کی رمیدہ خواہشیں
جبر کے سکرات میں افتادہ دل تقدیر کا
ایک ہالہ سا ملامت کا بنا رہتا ہے گرد
رُخ دمکتا ہی نہیں شادابیِ توقیر کا
رات کی گہری سیاہی میں بھی مٹ جاتے ہیں نقش
دھوپ میں بھی رنگ اُڑ جاتا ہے ہر تصویر کا
جا نہیں سکتا کبھی شیشے میں بال آیا ہوا
مٹ نہیں سکتا لکھا انسان کی تقدیر کا
نااُمید آنکھوں کی تاریکی، دُعا کس سے کرے
کون ہے، کس نے جلانا اب دیا تاثیر کا
زندگی ایسی کئی قربان اس کی ذات پر
ہاتھ آ جائے کوئی نکتہ اگر تفسیر کا
کس کی جنبش کا تسلسل ہے زمیں سے تا اُفق
ہے معطر طاس، کس کی نگہتِ تحریر کا
قوتِ شوریدہ سے احمد کھلی چشمِ ہنر
کس تیقن سے ہوا مجرم قدم تاخیر کا
٭٭٭
مسرتوں کی کرن کو ترس گئے ہم تم
ثبوتِ صبحِ وطن کو ترس گئے ہم تم
دلوں میں پھیل گئی رنجشوں کی تاریکی
خلوص و ربطِ بدن کو ترس گئے ہم تم
دل و نگاہ کی بے چہرگی کے صحرا میں
صباحتوں کی دُلہن کو ترس گئے ہم تم
نہ اتفاق کا لہجہ، نہ اختلاف کی ضد
صداقتوں کے دہن کو ترس گئے ہم تم
یہ کیسی رات ڈھلی، مصلحت کا دن نکلا
سکونِ روحِ بدن کو ترس گئے ہم تم
سکوتِ شام کے منظر میں ڈھل گئیں سوچیں
طوافِ قریۂ فن کو ترس گئے ہم تم
لبوں پہ حرفِ دُعا کے گلاب سوکھ گئے
جبیں پہ قوسِ شکن کو ترس گئے ہم تم
ہوائے شہر کا رُخ ہی بدل گیا احمد
نگارِ شیریں سخن کو ترس گئے ہم تم
٭٭٭
پتھر کہیں گے لوگ، سر رہگذر نہ بیٹھ
چہروں کی دھوپ چھاؤں میں یوں بے خبر نہ بیٹھ
ناعاقبت شناس رفیقوں سے بچ کے رہ
کج بحث دوستوں میں کبھی دیدہ ور نہ بیٹھ
یہ تو شکستِ شیشۂ دل آشنا نہیں
ان پتھروں کی سامنے آئینہ گر نہ بیٹھ
اے رہروِ سکون وفا! حوصلہ نہ ہار
محرومیوں کی تپتی ہوئی ریت پر نہ بیٹھ
گرتی ہے جس پہ برق یہی وہ لباس ہے
سر پر دکھوں کی کالی ردا اوڑھ کر نہ بیٹھ
کوئی بھی رنگِ قوسِ نظر دائمی نہیں
یہ حبس عارضی ہے دل معتبر نہ بیٹھ
احمد ہوائے شہر مخالف بھی ہے اگر
خائف نہ ہو، نظر نہ چرا، چھپ کے گھر نہ بیٹھ
٭٭٭
کاخِ جذبات کا در کھول تو سکتی ہے غزل
چپ کے اِس دور میں کچھ بول تو سکتی ہے غزل
اتنے مایوس ہو کیوں شہر کے ماحول سے تم
حبس کتنا بھی ہو پر تول تو سکتی ہے غزل
تلخ اتنا تو نہیں ذائقۂ صوت و حروف
ذہنِ ذی فہم میں رس گھول تو سکتی ہے غزل
اور کچھ روز اسی خاک پہ پتھرانا ہے
مجھ کو مٹی میں ابھی رول تو سکتی ہے غزل
کتنا بھی قحطِ مسرت ہو مگر خامۂ سرخ
غمِ ہر دل کی گرہ کھول تو سکتی ہے غزل
اس کھڑی جھیل میں احمد کوئی پتھر پھینکو
کسی لہجے میں سہی بول تو سکتی ہے غزل
٭٭٭
زلفِ نگارِ درد کا سایہ نہ تھا کبھی
یہ وہ لباس ہے کہ جو پہنا نہ تھا کبھی
یادوں کا کارواں بھی گزرتا نہیں کوئی
دشتِ وفا میں اتنا تو تنہا نہ تھا کبھی
محرومیوں کی دھوپ میں جلتے ہوئے بدن
حد نگاہ تک تو یہ صحرا نہ تھا کبھی
کیا بات ہو گئی ہے بتا ظرفِ آبرو!
اس تیرہ خاکداں سے تو جھانکا نہ تھا کبھی
یہ اور بات ہے کہ تری جستجو تو تھی
اے دردِ شادماں! تجھے دیکھا نہ تھا کبھی
تم ڈھونڈتے ہو شہر میں جس کو گلی گلی
ایسا گیا ہے جیسے وہ رہتا نہ تھا کبھی
کچھ تو کہو اے دیدہ ورو کیا ہوا اسے
بے پیرہن تو روح کو دیکھا نہ تھا کبھی
کس تمکنت کے ساتھ ہے کانٹوں پہ محو خواب
پھولوں کی سیج پہ بھی جو سویا نہ تھا کبھی
احمد یہ اب سے پہلے تو ابر نشاطِ درد
پلکوں سے اتنا ٹوٹ کے برسا نہ تھا کبھی
٭٭٭
یہ الگ بات، ہر اک دکھ نے لبھایا ہے مجھے
اے مری کاہشِ جاں! کس نے ستایا ہے مجھے
اتنی نفرت تو مرے دل میں نہ جاگی تھی کبھی
سوچ، کس شخص نے یہ زہر پلایا ہے مجھے
پھر کوئی تازہ کسک دل کی تہوں میں اُتری
پھر کسی خواب نے آئینہ دکھایا ہے مجھے
کس نے لوٹا ہے مرے ذہن کی سوچوں کا سہاگ
اے مرے قلب تپاں! کس نے چرایا ہے مجھے
تیری چیخیں بھی کسی روز سنے گی دُنیا
مصلحت کیش! اگر تو نے رُلایا ہے مجھے
میں یہی سوچ کے چپ ہوں کہ کسی طور سہی
گنبدِ درد کے کنگرہ پہ سجایا ہے مجھے
ابر تزویر ہوا جب بھی کبھی سایہ فگن
حدتِ شعلۂ ادراک نے پایا ہے مجھے
میں تو سر تا بہ قدم تیرا فقط تیرا تھا
ظرفِ کم حوصلہ! خود تو نے گنوایا ہے مجھے
اُس کے گھر میں بھی کسی دُکھ کی سیاہی بھر دے
شب کی دہلیز کا پتھر تو بنایا ہے مجھے
تو مرا کیسا خدا ہے! مری لغزش تو بتا
زندگی بھر جو بلندی سے گرایا ہے مجھے
کس کے اخلاص سے کوتاہی ہوئی ہے احمد
کس نے اس ضبط کا انگارہ بنایا ہے مجھے
٭٭٭
شہر کے محتاط موسم سے خبر آئی تو ہے
رقص میں ضد پر نشاطِ معتبر آئی تو ہے
شکر ہے توڑا تو قفلِ خامشی اک مرد نے
مدتوں میں جرأتِ عرضِ ہنر آئی تو ہے
گھپ اندھیرے میں تبسم کا دیا روشن کریں
زندہ رہنے کی یہ اک صورت نظر آئی تو ہے
قربتوں کے سرد ہاتھوں میں لیے خفگی کے پھول
دوستی نظارگی کے بام پر آئی تو ہے
ہم یہ سمجھے تھے کہ آنکھیں زرد ہو جائیں گی اب
فصلِ گل صحن چمن میں لوٹ کر آئی تو ہے
دُکھ تو ہم نے سہہ لیے اب دیکھئے آگے ہو کیا
انقلاب صبحِ نو کی رہگذر آئی تو ہے
ہے خجل قد سہی اخلاص کی تضحیک پر
آبرومندی کی اب اُمید بر آئی تو ہے
بے سبب جس نے قبیلے میں کیا رُسوا مجھے
اُس کے چہرے پر تھکن کی دوپہر آئی تو ہے
آؤ احمد بڑھ کے لیں تکریم سے اُس کے قدم
تم سے ملنے اِک غزالِ وقت گھر آئی تو ہے
٭٭٭
دُکھ کے سکوں نہ سکھ کی خوشی کا سراب ہے
اک رنج رائیگاں کی طلب بے حساب ہے
لغزش کے سہو پر مجھے شرمندگی نہیں
قربت کی ہر کجی مری گل آفتاب ہے
پچھلے برس بھی نیکیاں سب ضائع ہو گئیں
اب کے برس بھی جان! کڑا احتساب ہے
بے شک وہ بے وفا ہے مگر اس کی راہ میں
دل کی طرح چراغ جلانا ثواب ہے
اے صبح نو! لہو کی حرارت بھی کر عطا
ہیں برف حرف لب پہ یہی انقلاب ہے
نفرت بھی وہ کرے تو کوئی دُکھ نہ دے اُسے
اے رب ذوالجلال! مرا انتخاب ہے
آنکھوں میں نفرتوں کے مضامین درج ہیں
دل پر جو ہے رقم وہ ترا انتساب ہے
دریا کے دو کناروں کی صورت ہے ان دنوں
یا ضدِ اختلاف ہے یا اجتناب ہے
فرصت ملے تو اُس کو ہر اک زاویے سے پڑھ
وہ صرف ایک جسم نہیں ہے، کتاب ہے
اندھی سماعتوں کی زمیں پر مقیم ہوں
اب حرف مدعا بھی نشاطِ سراب ہے
احمد وفا کے لفظ کو بد ذائقہ نہ کر
اس عہد میں تو اس کا تصور بھی خواب ہے
٭٭٭
سکوں ہوا نہ میسر ہمیں فرار سے بھی
ملے ہیں زخم ترے قرب کی بہار سے بھی
متاعِ فقر بھی آئی نہ دستِ عجز کے ہاتھ
گریز پا ہی رہا دولتِ وقار سے بھی
ہم اہل دل ہی نہ سمجھے وفا کے منصب کو
ہوئی ہے ہم کو ندامت ستم شعار سے بھی
لہو ہے قلب ترے تمکنت کے لہجے سے
عرق عرق ہے جبیں حرفِ انکسار سے بھی
چراغِ ظلمتِ شب کی مثال ہے ہر سوچ
ہمیں تو کچھ نہ ملا صبحِ انتظار سے بھی
بجھا نہ شعلہ کوئی کرب کے الاؤ کا
ترے لبوں کے تبسم کے آبشار سے بھی
میں اُس کی ذات سے مایوس ہوں، محال ہے یہ
اُسے تو پیار ہے بے حد گناہگار سے بھی
یہ خواہشوں کی مسافت عذاب ہے احمد
نکل کے دیکھ شبِ جسم کے حصار سے بھی
٭٭٭
لرزشِ لب کی دھنک ہیئت تمثیلی تھی
میرے احساس نے خود میری زباں کیلی تھی
تو نے اے شیخِ حرم! چاک حسد تک نہ سیا
ہم فقیرانِ ہوس نے تو قبا سی لی تھی
آنکھ جس قلب میں اُتری وہی آئینہ تھا
ہاتھ جس شاخ پہ رکھا وہی لچکیلی تھی
حرفِ اخلاص بھی لہجے کی طرح سندر تھا
روح پر جسم کی پوشاک بھی چمکیلی تھی
دلِ ہر لفظ ہے آئینۂ احساس مجھے
لبِ اظہار! تری سوچ ہی زہریلی تھی
میں جسے شہر کے ہنگامے میں کھو آیا ہوں
چشمِ اخلاص و تعاون تھی مگر نیلی تھی
کس طرح پاؤں جماتا کوئی اندیشۂ غم
میرے ادراک کی مٹی ہی بہت گیلی تھی
اب تو ہر بندِ سخن جسم معانی پہ ہے چست
اس سے پہلے جو کہی تھی وہ غزل ڈھیلی تھی
وہ بھی ناواقفِ آدابِ وفا تھا احمد
اور کچھ آپ میں بھی پہلے سے تبدیلی تھی
٭٭٭
قصرِ سحر میں ہوں کہ کسی شب کدے میں ہوں
آشوبِ زندگی! میں عجب مخمصے میں ہوں
کیوں جرم بے گناہی پہ دیتا ہے قید سخت
فردِ عمل تو دیکھ، میں کس قاعدے میں ہوں
تو میرے خال و خد کبھی پہچان کے تو دیکھ
آئینہ ساز! میں بھی ترے آئینے میں ہوں
اتنا نہ حد سے بڑھ کہ تجھے دُکھ ہو بعد میں
میں عاقبت شناس ہوں اور حوصلے میں ہوں
کچھ تو بتا اے ذہن حقیقت شناس دہر
حلقہ بگوش وہم میں کس سلسلے میں ہوں
وہ شورشیں تو دکھ کی لحد میں اُتر گئیں
زندہ اگرچہ چشم یقیں دیکھنے میں ہوں
چاہے میں تیرے دکھ کی تلافی نہ کر سکوں
لیکن شریکِ غم تو ترے سانحے میں ہوں
آنکھوں میں رَت جگوں کی تھکن ہی انڈیل دے
تشنہ خلش نہ رکھ کہ ترے میکدے میں ہوں
کن لغزشوں پہ منظر عبرت نظر ہوا
سنگِ رہ تماشہ، یہ کس سلسلے میں ہوں
احمد یہ اور بات تھکن سے ہے چور جسم
مصروف خاکِ خوابِ سکوں چھاننے میں ہوں
٭٭٭
ہم ہر لحظہ مٹانے پہ تلا ہے مجھ کو
ایک تیشہ ہے کہ بس کاٹ رہا ہے مجھ کو
کس لیے آج یکایک مرا دل دھڑکا ہے
کیوں تبسم ترا، آوازہ لگا ہے مجھ کو
مجھ سے پھر آنکھ ملاتے ہوئے کیوں ڈرتا ہے
قتل کرنے پہ جو آمادہ ہوا ہے مجھ کو
مجھ کو اب شہر کے ہنگاموں میں کیوں کھینچتے ہو
کنج تنہائی میں آرام بڑا ہے مجھ کو
میں تجھے کون سی اب دولتِ تسکیں بخشوں
تو تہی دست زمانے میں ملا ہے مجھ کو
کس کو فرصت ہے مرے کرب کی فصدیں کھولے
تم نے اک حرفِ تسلی تو دیا ہے مجھ کو
ہے ابھی دوشِ معانی پہ وہی بارِ حروف
ہنر تیشہ زنی آ تو گیا ہے مجھ کو
پھر کسی خواب نے دی ہے درِ دل پر دستک
پھر دریچے سے کوئی جھانک رہا ہے مجھ کو
آخرِ شب ہے مرے خوں سے چراغاں رکھو
جرسِ صبحِ کی آمد کا پتا ہے مجھ کو
میرے انفاس میں اب دُکھ کی تھکن ہے احمد
اپنی تنہائی کا احساس بڑا ہے مجھ کو
٭٭٭
دھوپ دل میں اُتر گئی ہے بہت
شاخِ خواہش مگر ہری ہے بہت
دیکھ کر بے کسی کا پیرہن
آگہی ضبط پر ہنسی ہے بہت
ایسے شاداب لب جزیرے پر
چند ساعت کی ہمرہی ہے بہت
تیرگی کی اذیتوں کے سفر!
حوصلے میں شگفتگی ہے بہت
راستہ صبح کا بنانا ہے
یوں تو دیوار ڈھے گئی ہے بہت
اب مرا نام شہر جاں کی ہوا
آخری خط میں ڈھونڈتی ہے بہت
ایک کھڑکی جو بند ہے کب سے
دل کے اوراق کھولتی ہے بہت
عمر کی سیڑھیاں نہیں گنتے
جن کی خالق سے دوستی ہے بہت
بور آیا ہے اب تعلق پر
دوستی بے ثمر رہی ہے بہت
نا اُمیدی کے دشتِ تیرہ میں
تیری یادوں کی روشنی ہے بہت
تشنگی برہنہ مسافت ہے
خاک صحرا کی چھانتی ہے بہت
عکسِ آئینہ! آنکھ قاتل کی
وجہِ تسکین ڈھونڈتی ہے بہت
دینے والے کا ظرف دیکھنا ہے
اپنا دامن ابھی تہی ہے بہت
بوئے گل کو بھی قید کر لیتے
اختیارات کی کمی ہے بہت
بند مٹھی کو کھول کر احمد
خود سے شرمندگی ہوئی ہے بہت
٭٭٭
قہر کا پل ہے یہ تو ہوگا
دل بیکل ہے یہ تو ہوگا
کیا قربت تھی، کیا دُوری ہے
جہدِ خلل ہے یہ تو ہوگا
سکھ تھا آنکھ کا تپتا صحرا
دُکھ بادل ہے یہ تو ہوگا
سائیں سائیں کرتا گھر ہے
یا ہوٹل ہے یہ تو ہوگا
صبح مسافت، شام مسافت
خواب کا پھل ہے یہ تو ہوگا
پھول بدن ہے، آنکھیں شبنم
دھُوپ کا تھل ہے یہ تو ہوگا
’’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘‘
ردِعمل ہے یہ تو ہوگا
لب نہ ہلے اور بات وہ سُن لے
صبر کا پھل ہے یہ تو ہوگا
سندرتا کی ایک جھلک کو
من پاگل ہے یہ تو ہوگا
کارِ جنوں میں بارِ خرد سے
بازو شل ہے یہ تو ہوگا
رسّی راکھ تو ہو گئی جل کر
لیکن بل ہے یہ تو ہوگا
من میں چاروں اور اندھیارا
تن مشعل ہے یہ تو ہوگا
صبح کا سورج تو نکلے گا
یہ تو اٹل ہے یہ تو ہوگا
اب تو احمد ایک اک مصرعہ
قوسِ غزل ہے یہ تو ہوگا
٭٭٭
سامنے والے گھر میں بجلی رات گئے تک جلتی ہے
شاید مجھ سے اب تک پگلی آس لگائے بیٹھی ہے
میری کسک، یہ میری ٹیسیں، آپ کو کیوں محسوس ہوئیں؟
آپ کی آنکھوں میں یہ آنسو! دل تو میرا زخمی ہے
نفس نفس اک تازہ سرابِ منزل خواب ہے یہ دُنیا
نظر نظر قدموں سے خواہش سایہ بن کر لپٹی ہے
چپ مت سادھو، جھوٹ نہ بولو، اب تو اطمینان سے ہو
اب تو ہر دن سو جاتا ہے، اب تو ہر شب جاگتی ہے
دل ایسا معصوم پرندہ، اپنے پر پھیلائے کیا؟
اندیشوں کی کالی بلی، گھات لگائے بیٹھی ہے
آپ تو بس اک خاص ادا سے ’’اپنا‘‘ کہہ کر بچھڑ گئے
اب تک اُس اک بات کی خوشبو دوشِ ہوا پر پھیلی ہے
کیسے اپنا دن گزرا، شب کیسے کٹی، کیا پوچھتے ہو
دن بھر شہر کی خاک اُڑائی، رات آنکھوں میں کاٹی ہے
آپ کو دیکھا، دل نہ مانا، ٹھہر گیا، ناراض نہ ہوں
اتنی اچھی صورت اکثر، ہوش اُڑا ہی دیتی ہے
میرے دیس کا چڑھتا سورج کیسے گرہن میں آیا ہے
اے فرزانو! کچھ تو بتاؤ، دُنیا تماشہ دیکھتی ہے
آپ کی تخلیقات پڑھے اب ایک زمانہ بیت گیا
احمد صاحب! تازہ غزل کس الماری میں رکھی ہے
ہمارے گھر کے آنگن میں گھٹا کس روز آئے گی
سکوتِ شامِ ویرانی بتا، کس روز آئے گی
٭٭٭
بہت دن ہو گئے ہم پر کوئی پتھر نہیں آیا
شکستِ شیشۂ دل کی صدا کس روز آئے گی
دُکھوں کے جلتے سورج کی تمازت جان لیوا ہے
مرے حصے میں خوشیوں کی ردا کس روز آئے گی
مسلسل حبسِ قیدِ لب سے دم گھٹنے لگا اب تو
اسیرانِ قفس! تازہ ہوا کس روز آئے گی
مری پلکوں پہ ظرفِ ربِ مفلس جھلملاتا ہے
مری ماں جب یہ کہتی ہے، دوا کس روز آئے گی
کہاں تک شانۂ ہستی یہ بارِ غم اُٹھائے گا
تری دنیا میں جینے کی ادا کس روز آئے گی
بدل دیتی ہے جو احمد مقدر کی لکیریں تک
مرے ہونٹوں پہ دل سے وہ دُعا کس روز آئے گی
٭٭٭
کل رات اُس کا چہرہ مجھے زرد سا لگا
اک آگ کا الاؤ تھا جو سرد سا لگا
مجھ سے قدم ملاتا ہوا دھوپ میں چلا
سایہ بھی آشنائے رہِ درد سا لگا
اُس کے بھی پاؤں میں کوئی چکر ہے ان دنوں
وہ بھی کچھ اپنی طرح جہاں گرد سا لگا
کس دشتِ غم کی خاک اُسے چھاننی پڑی
کیوں چودہویں کا چاند مجھے زرد سا لگا
دیتے رہے ہیں دُکھ جو مجھے پیار کے عوض
وہ بھی اُسی قبیل کا اک فرد سا لگا
وہ شخص جس نے بارِ مسائل اُٹھا لیا
اس شہر بے سکوں میں جوانمرد سا لگا
میں بھی بہت اُداس تھا احمد گذشتہ روز
اُس کا مزاج بھی مجھے کچھ سرد سا لگا
٭٭٭
غمِ حالات سہیں یا نہ سہیں سوچ میں ہیں
ہم دُکھی لوگ کسے اپنا کہیں سوچ میں ہیں
جسم اور روح کے مابین کسک کس کی ہے
ذہن ذی فہم کی کتنی ہی تہیں سوچ میں ہیں
کوئی آواز، نہ پتھر، نہ تبسم، نہ خلوص
اب ترے شہر میں ہم کیسے رہیں سوچ میں ہیں
کیسا اخلاص کہ ہیں مصلحت اندیش تمام
ہم بھی کیوں ان کی طرح خوش نہ رہیں، سوچ میں ہیں
شہر بے خواب میں کب تک تن تنہا احمد
برگِ آوارہ کی مانند رہیں، سوچ میں ہیں
٭٭٭
وا کے ساتھ درختوں کے رابطے تھے بہت
تھا عکسِ ذات فقط ایک، آئینے تھے بہت
تمہارے بعد تو سنسان ہو گیا ہے شہر
عجیب دن تھے وہ، تم تھے تو رتجگے تھے بہت
ہمیں نے ترکِ مراسم کی راہ اپنا لی
یہ اور بات تعلق کے راستے تھے بہت
سحر سے مانگ رہے ہیں وہ عکس خواب و خیال
چراغِ شوق جلا کر جو سوچتے تھے بہت
چھلک اُٹھے ہیں مرے صبر کے تموج سے
رفاقتوں کے جو دریا اُتر گئے تھے بہت
تھا جلوہ ریز مری خلوتوں میں اور کوئی
یہ جب کی بات ہے، جب تم نے خط لکھے تھے بہت
وہ تم نہیں تھے مگر ہوبہو وہ تم سا تھا
اس اعتبار پہ کل رات بھی ہنسے تھے بہت
لبوں پہ حرفِ صدا برف ہو گئے احمد
طلوعِ مہر سے پہلے تو حوصلے تھے بہت
٭٭٭
دشتِ غم میں کھلا پھول جذبات کا
کتنا سندر تھا رنگِ حنا ہات کا
جس جگہ ہر خوشی غم کا عنواں بنے
کون مہماں ہو ایسے محلات کا
بھولی بسری ہوئی یاد کے بادلو
مینہ نہ برسے گا اب پھر ملاقات کا
بعدِ ترکِ تمنا بھی میلے رہے
شہر سونا ہوا کب خیالات کا
زندگی کو نگل جائے گی تیرگی
سر پہ سورج نہ آئے گا حالات کا
ہجر کی زُلف بکھرے تو احمد کبھی
ختم ہوتا نہیں سلسلہ رات کا
٭٭٭
جرمِ اخلاص کے شعلوں کو ہوا دیتی ہے
جب بھی آتی ہے تری یاد رُلا دیتی ہے
بیکراں وقت کی اس کوکھ میں پلتی ہوئی سوچ
اک نئی صبح کی آمد کا پتہ دیتی ہے
سوچتا ہوں کہ کہیں تیرے تعاقب میں نہ ہو
وہ اذیت جو مری نیند اُڑا دیتی ہے
تیری تصویر مرے گھر میں جو آویزاں ہے
خواب کو وہم کی تعبیر دکھا دیتی ہے
غرقِ گردابِ مصائب مجھے کرنے والے!
موجۂ کاہشِ جاں تجھ کو دُعا دیتی ہے
ذہن آسیب زدہ سوچ کا پتھر ہے تو کیا
خواہشِ زیست تو کہسار ہلا دیتی ہے
اتنا لوٹا ہے گھنی چھاؤں نے اک عمر مجھے
اب تو سائے کی بشارت بھی ڈرا دیتی ہے
کوئی پتھر ہو، خدا ہو کہ فرشتہ احمد
اپنی صحبت اُسے انسان بنا دیتی ہے
٭٭٭
اُمید کے صحرا میں جو برسوں سے کھڑا ہے
حالات کی بے رحم ہواؤں سے لڑا ہے
رُسوائی سے بھاگے تو یہ محسوس ہوا ہے
تنہائی کی منزل کا سفر کتنا کڑا ہے
ہیرے کی کنی ہو تو تبسم بھی بہت ہے
لو سامنے اک کانچ کا مینار کھڑا ہے
یوں ذہن پہ برسا ہے تری یاد کا بادل
جیسے کہ کوئی کوہِ الم ٹوٹ پڑا ہے
گزرے ہوئے لمحے کبھی واپس نہیں آتے
کیوں صورتِ دیوار اندھیرے میں کھڑا ہے
اک اختر مبہم ہوں بظاہر میں اُفق پر
کہتے ہیں مرا نام مرے قد سے بڑا ہے
اک میں ہی اکیلا نہیں اس دشتِ خلش میں
جلتا ہوا سورج بھی مرے سر پہ کھڑا ہے
نا قدریِ جذبات کے اس عہد میں احمد
آ جائے اگر راس تو پتھر بھی بڑا ہے
٭٭٭
آج بھی دھوپ میں ہوں ٹھہرا ہوا
ابر کا انتظار کتنا تھا
اک الاؤ تھا رُوٹھنا اس کا
مسکراتی تو پھول کھل جاتا
دل کے در پر یہ کس نے دستک دی
گونج اُٹھا ہے گھر کا سناٹا
تیری قربت مری ضرورت تھی
یوں تو تو نے بھی خواب دیکھا تھا
دو قدم اور ساتھ دے لیتے
حوصلہ آپ کا بھی کم نکلا
کون صحرا میں دے تجھے آواز
کون کھولے طلب کا دروازہ
آؤ قانون کی کتاب پڑھیں
اب صحافت میں کچھ نہیں رکھا
میرے حصے میں غم کی دوپہریں
تیری تقدیر میں گھنا سایہ
آئنے میں تریڑ کیوں آتی
تو کوئی پھول تھا نہ پتھر تھا
خواب سا ہو گیا ہے اب اس کا
منہ چھپا کر اِدھر اُدھر پھرنا
انگلیوں میں عجب حرارت تھی
جسم انگارہ سا دہک اُٹھّا
تھی مخالف ہوائے شہر بہت
قربتوں کا چراغ کیا جلتا
تو تو دھڑکن تھا میرے سینے کی
تو بھی حاکم ہی وقت کا نکلا
تیری آنکھوں میں ڈوب جانے کو
کون سے روز دل نہیں کہتا
کتنا مشکل ہے ان دنوں احمد
شہر میں دشت کی طرح رہنا
٭٭٭
بہشتِ دل میں خوابیدہ پڑی ہے
وہ اک حسرت جو میری زندگی ہے
بہت خوش ہوں میں فن کی سرزمیں پر
مری نیکی بدوں نے لوٹ لی ہے
دریچے کھول دیتا ہوں طلب کے
مجھے جب بھی شرارت سوجھتی ہے
سیاست اب کہاں زنجیر ہوگی
یہ کشتی اب کنارے لگ رہی ہے
بہت نا مطمئن ہے دل کی دھڑکن
کتابِ شوق تسکیں سے بھری ہے
مہینوں بعد دیکھا ہے تبسم
بہت دن میں غزل تازہ کہی ہے
بدن اب تک تر و تازہ ہے لیکن
سفر کی دھول آنکھوں میں جمی ہے
حکومت اک سخی کے ہاتھ میں ہے
غریب شہر کی حالت وہی ہے
لگا ہے جب بھی کوئی زخم تازہ
مرے فن کو توانائی ملی ہے
بہارِ نو کے دروازے نہ کھولو
خزاں سے عمر بھر کی دوستی ہے
مرے دل پر تو کوہِ غم گرا ہے
تمہاری آنکھ کیوں بھیگی ہوئی ہے
تجھے بھی نیند نے دھوکا دیا ہے
تھکن تیری بھی پلکوں پر جمی ہے
وہ کب کی جا چکی ہے اور دل میں
ابھی تک یاد کی کھڑکی کھلی ہے
جسے ہم سائباں سمجھے ہوئے تھے
وہی دیوار سر پر آ گری ہے
میں شہر دل میں اب تنہا ہوں احمد
تعلق کی بصارت چھن چکی ہے
٭٭٭
خزاں میں غم ذرا کچھ کم کیا کر
بہاروں میں بھی آنکھیں نم کیا کر
دلوں میں قید کر رکھا ہے جن کو
وہ باتیں بھی کبھی باہم کیا کر
تمنا ہے کہ زہری چپ کے گیسو
لبوں کے دوش پر برہم کیا کر
ہر آنگن میں سحر کب بولتی ہے
سکوتِ شام کا دُکھ کم کیا کر
تعلق خواب ہے قدرت نہیں ہے
شکستِ دل کا مت ماتم کیا کر
کہیں بہتر ہے جابر سے بغاوت
سرِ تسلیم یوں نہ خم کیا کر
حرارت ڈھونڈ مت مہتابِ جاں میں
لحد پر دن کی اب ماتم کیا کر
زمانہ نفرتیں بھی بانٹتا ہے
زمانے سے محبت کم کیا کر
کبھی دل کو سلگتی دوپہر کر
لہو کی لَو کبھی مدھم کیا کر
معافی دے دیا کر دوستوں کو
تبسم زیر لب پیہم کیا کر
٭٭٭
دھوپ اور چھاؤں کا کربِ ذات لکھتا تھا
دیدہ ور تھا دوری کو اختلاط لکھتا تھا
زخم زخم گنتا تھا روشنی میں جگنو کی
حرف حرف پلکوں پر سچی بات لکھتا تھا
میں بھی ان خلاؤں میں ایک لحظہ پہلے تک
خواب کا مسافر تھا، خواہشات لکھتا تھا
صبحِ جاں کی شبنم ہو، دھُوپ ہو بدن کی تم
سچ بتاؤ یہ جملے کس کا ہات لکھتا تھا
برگِ زرد ہونے تک میں ہوا کی تختی پر
منتظر نگاہوں سے التفات لکھتا تھا
پوچھتے ہیں بام و در، کون، شہر ناپرساں!
آنے والی ہر رُت کو بے ثبات لکھتا تھا
خوب آدمی تھا وہ شہر کی اُداسی پر
خامۂ تبسم سے دن کو رات لکھتا تھا
کتنا اُنس تھا اُس کو میری ذات سے احمد
جو بھی خط وہ لکھتا تھا ’’دل نشاط‘‘ لکھتا تھا
٭٭٭
اے رسم و راہِ شہر کے محتاط ظرف رنگ
ٹھوکر بھی کھا کے آیا نہ جینے کا ہم کو ڈھنگ
آتی نہیں ہے سطحِ یقیں پر وفا کی لہر
رہتی ہے صبح و شام مزاجوں میں سرد جنگ
ہر صبح دُکھ سے چور ملا زخم زخم جسم
ہر شب تھرک تھرک گیا آہٹ پہ انگ انگ
تھا جس سے میرے سچ کے تحمل کا ربطِ خاص
اترا اسی کے غم کا مری روح میں خدنگ
ناآشنائے لذتِ لہجہ تھے سب ہی لوگ
کیا کیا بساطِ لب پہ بکھیری نہ قوسِ رنگ
پیشِ نظر ہے اب بھی کوئی پیکر لطیف
اب بھی ہے دل میں کتنی ہی یادوں سے جلترنگ
میری وجہ سے تو بھی ہوا شہر میں خراب
تیرے سبب ہے مجھ پہ بھی ہر رہگذار تنگ
کچھ تو بتا اے خواہشِ ایذا پسند دل!
کب تک رہے تعاقبِ حاصل میں ہر اُمنگ
سوچوں تو کوئی حلِ مسائل نہ مل سکے
ہے ذہن کی تہوں میں حوادث سے اتنا زنگ
کس نے کہا تھا کھیل رچاؤ خلا میں تم
کیوں ہاتھ مل رہے ہو اگر کٹ گئی پتنگ
ہے منفرد مزاجِ معانی کی تمکنت
لفظوں کے پیرہن میں ہے میری انا کا رنگ
احمد، لہو لہو ہے مرا پیکر نفس
دل پر ہیں داغِ رنج، بدن پر ہیں زخمِ سنگ
٭٭٭
حادثوں میں رہتا ہے چہرہ لالہ گوں اپنا
حوصلے کا آئینہ ہے دلِ زبوں اپنا
تیرا دھیان بھی جیسے کعبۂ تقدس ہو
تیرے بعد بھی رکھا ہم نے سرنگوں اپنا
رخشِ وصل کی باگیں دستِ شوق کیا تھامے
فصلِ انبساط آگیں حال ہے زبوں اپنا
فاصلوں کی دوپہریں رنگ رُخ اُڑاتی ہیں
خون خشک کرتا ہے دور رہ کے کیوں اپنا
عقل بیٹھ جاتی ہے تھک کے جب دو راہے پر
کام آ ہی جاتا ہے جذبۂ جنوں اپنا
تجھ پہ بار کیوں گزرا میری چپ کا سناٹا
تو جو خود سے مخلص ہے میں نہ ساتھ دوں اپنا
ذہن غم کی راہوں میں راستہ سجھاتا ہے
ہر نفس ’’وفا دشمن‘‘ پاسبان ہوں اپنا
بے سکون سچائی، جھوٹ کی علامت ہے
معتدل ہی رہتا ہے قلزم دروں اپنا
ترکِ ربط باہم پر یہ تعلقِ خاطر
رات وہ فسردہ تھا، دُکھ ہوا فزوں اپنا
تیغ بادِ بدخوئی ظرف سے پشیماں ہے
ضبطِ غم کے مقتل میں کر رہا ہوں خوں اپنا
مجھ کو اس کی مٹی بھی زندگی سے پیاری ہے
خوفِ قہر رُسوائی! شہر چھوڑ دوں اپنا
دشتِ روح کی دلدل ہے بدن کی تاریکی
اے لہو کی خوش فہمی! کیا سراغ دوں اپنا
رنگ و بوئے گلزارِ صبح کی ضمانت ہوں
کشتِ ذہن تازہ کو دے رہا ہوں خوں اپنا
بندشِ لبِ نغمہ فن کی سرد چھاؤں میں
مصلحت کی چھینی سے بت تراش لوں اپنا
کتنی خاک چھانی ہے پھر بتاؤں گا احمد
پہلے دُکھ کے صحرا میں دن گزار لوں اپنا
٭٭٭
یاد آؤں گا اُسے، آ کے منائے گا مجھے
اور پھر ترکِ تعلق سے ڈرائے گا مجھے
آپ مسمار کرے گا وہ گھروندے اپنے
اور پھر خواب سہانے بھی دکھائے گا مجھے
مجھ کو سورج کی تمازت میں کرے گا تحلیل
اور مٹی سے کئی بار اُگائے گا مجھے
اپنی خوشبو سے وہ مانگے گا حیا کی چادر
زیب قرطاسِ بدن جب بھی بنائے گا مجھے
ربِ ایقان و عطا! عمر کے اس موڑ پہ کیا
راستے کرب کے ہموار دکھائے گا مجھے
میں کڑی دھوپ کا سایہ ہوں کڑے کوس کا ساتھ
بھولنا چاہے گا وہ، بھول نہ پائے گا مجھے
میری شہ رگ پہ تمسخر کی چھری رکھے گا
گاہے پلکوں پہ تقدس سے سجائے گا مجھے
آنکھ لگ جائے گی جب ہجر کے انگاروں پر
نیند میں آ کے دبے پاؤں جگائے گا مجھے
تو بھی زنجیر پہن لے گا انا کی اک دن
میری غزلیں مرے لہجے میں سنائے گا مجھے
میں تو ہر بار مراسم کی بنا رکھتا ہوں
سوچتا ہوں کہ کبھی تو بھی منائے گا مجھے
جن سے ملتا ہو سراغِ رہِ منزل احمد
وہ لکیریں مرے ہاتھوں پہ دکھائے گا مجھے
٭٭٭
رد جذبے ہوں تو کب نشوونما ملتی ہے
فن کو تہذیب کی بارش سے جلا ملتی ہے
سر میں سودا ہے تو چاہت کے سفرپر نکلیں
کرب کی دھوپ طلب سے بھی سوا ملتی ہے
کون سی سمت میں ہجرت کا ارادہ باندھیں
کوئی بتلائے کہاں تازہ ہوا ملتی ہے
چاند چہرے پہ جواں قوسِ قزح کی صورت
تیری زُلفوں سے گھٹاؤں کی ادا ملتی ہے
ہم تو پیدا ہی اذیت کے لیے ہوتے ہیں
ہم فقیروں سے تو دُکھ میں بھی دُعا ملتی ہے
کتنا دُشوار ہے اب منزلِ جاناں کا سفر
خواہش قربِ بدن آبلہ پا ملتی ہے
بے نمو شاخوں سے پتوں کو شکایت کیا ہو
اب تو پیڑوں کو بھی مشکل سے غذا ملتی ہے
اور بڑھنے دو گھٹن خوف نہ کھاؤ اس سے
شدتِ حبس سے تحریکِ بقا ملتی ہے
کبھی فرصت کی کوئی شام سحر تک دے دے
یوں جو ملتی ہے سرِ راہے تو کیا ملتی ہے
سر سے چادر نہ اُتارو مرے اچھے فنکار!
برہنہ حرف کو معنی کی ردا ملتی ہے
تیرا انصاف عجب ہے مرے جبار و غنی!
جرم ہم کرتے ہیں بچوں کو سزا ملتی ہے
جب سے تنہائی کو اوڑھا ہے بدن پر احمد
تمکنت لہجے میں پہلے سے سوا ملتی ہے
٭٭٭
تو بے سبب ہے مری ذات سے خفا، کچھ سوچ
ہے اس خرابے میں دل کس کا آئنہ، کچھ سوچ
دماغ پر ہے مسلّط سکوت سا کچھ، سوچ
ہے شام ہی سے یہ دل کیوں بجھا بجھا، کچھ سوچ
خفا نہ ہو کہ کڑی دوپہر میں آیا ہوں
میں تنہا کیسے یہ لمحے گزارتا، کچھ سوچ
تھا جس کی لو سے منور یہ خواہشوں کا مکاں
وہ اک چراغ بھی تو نے بجھا دیا، کچھ سوچ
یہ اجتناب، یہ خط فاصلے کا کیسے کھنچا
وہ جذبہ ختم بھلا کیسے ہو گیا، کچھ سوچ
تو جس کے پیار کو اپنی اَنا پہ تیاگ آیا
وہ رات تجھ سے زیادہ اُداس تھا، کچھ سوچ
بس اک نحیف سا جھونکا، بہارِ عہد سکوں!
ہرے درختوں کی شاخیں جھکا گیا، کچھ سوچ
تھا چاروں اور کڑی رنجشوں کی دھوپ کا دشت
میں کس کے پیار کی چھاؤں میں بیٹھتا، کچھ سوچ
وہ ماں کہ جس نے تلاطم سپرد مجھ کو کیا
میں اس کے خواب سے کیسے گلے ملا، کچھ سوچ
وہ باغ جس کی نمو میں رچا ہے میرا لہو
میں اپنے ہاتھوں سے کیسے اُجاڑتا، کچھ سوچ
نجانے کتنی ہواؤں کا زخم خوردہ ہے
وہ ایک پتا زمیں پر جو آ گرا، کچھ سوچ
دروغ گوئی حقیقت کو ڈھانپ لیتی ہے
خلوص دل سے بیاں کر وہ واقعہ، کچھ سوچ
یہ کس زمین پہ رکھی تھی شہر کی بنیاد
دُکھوں کا شور فصیلوں میں رچ گیا، کچھ سوچ
وہ آدمی کہ دلاسہ دیا تھا تو نے جسے
فسردہ ریت پہ خوابوں کی سو گیا، کچھ سوچ
مرے مکان کے باہر بھی تیرگی تھی محیط
میں کیسے تجھ کو دریچے سے جھانکتا، کچھ سوچ
یہ اور بات کہ تھا پرکشش مگر احمد
وہ اجنبی تھا، اُسے کیسے روکتا، کچھ سوچ
٭٭٭
ہم اہلِ دل نے نہ دیکھے بسنت کے لمحے
کھلے نہ پھول کبھی خواب میں بھی سرسوں کے
عجیب مرد تھے زنجیر کرب پہنے رہے
کنارِ شوق کسی شاخِ گل کو چھو لیتے
اُفق پہ صبح کا سورج طلوع ہوتا ہے
ستارے ڈوب چکے، مشعلیں بجھا دیجے
مرے خدا! مری دھرتی کی آبرو رکھ لے
ترس گئی ہیں نئی کونپلیں نمو کے لیے
مری وفا کے گھروندے کو توڑنے والے!
خدا تجھے بھی اذیت سے ہمکنار کرے
بجھی نہ پیاس کبھی تجربوں کے صحرا میں
تمام عمر سفر میں رہے ہیں سپنوں کے
یہ اور بات کہ سروِ سہی تھے شہر میں ہم
جو پستہ قد تھے وہی لوگ سربلند ہوئے
ترے لبوں پہ ترے دل کا آئنہ دیکھا
تعلقات کسی طرح تو برہنہ ہوئے
گداز جسم کی قربت میں اتنی لذت تھی
ہم احترام کے اسباق سارے بھول گئے
وہی درخت گرے منہ کے بل زمینوں پر
جنہیں غرور نے پاگل کیا تھا موسم کے
میں آئنے میں خدوخال کس کے پہچانوں
گئی رُتوں کے، رواں عہد کے یا فردا کے
بڑے خلوص سے جس ذہن کو سنوارا تھا
وہی صلیب کی زینت بنا رہا ہے مجھے
سکوت سے تو پرندے بھی ڈرنے لگتے ہیں
زمیں کے حبس کوئی انقلابِ تازہ دے
گزر گئے ہیں برس صبح کی صلیبوں پر
جو ہو سکے تو شب زندگی عطا کر دے
تمام رات درِ اشتیاق وا رکھا
کٹی نہ شب تو ستاروں سے بات کرتے رہے
٭٭٭
اگر میں ڈوب گیا تھا تو پھر سے اُبھرا کیوں
بتا اے موجۂ گرداب! یہ تماشا کیوں
مجھے پتہ ہے ترے دل کی دھڑکنوں میں ہوں
میں ورنہ دُکھ کی کڑی دوپہر میں جلتا کیوں
رہِ طلب میں مسلسل تھکن سے خائف ہوں
سکوں جو ہاتھ نہ آئے سفر ہو لمبا کیوں
یہ امتحاں تو نمودِ وفا کا جوہر تھا
اُسے یقین جو ہوتا مجھے رُلاتا کیوں
یہ پائے زیست میں زنجیر بے یقینی کیا
رکھا ہے ہم کو لبِ جو بھی اتنا تشنہ کیوں
ابھی تو اگلے ہی زخموں کے پھول تازہ ہیں
بدن کو چھید رہا ہے خیالِ فردا کیوں
خجل تھا کتنا مرے ضبط کے طمانچے پر
میں اپنے مدمقابل سے رات جیتا کیوں
نہ کوئی رنگ، نہ سلوٹ، نہ کوئی حرفِ طلب
ورق ہے دیدہ و دل کا یہ اتنا سادہ کیوں
چھپاؤں کیسے، کروں کس طرح اسے تقسیم
دیا ہے درد کا اتنا بڑا خزانہ کیوں
یہ اور بات کوئی مجھ سے پر خلوص نہیں
مری طرف سے کسی کا بھی دل ہو میلا کیوں
جو تجھ سے پیار نہ ہوتا تو آبرو کی قسم
ہر آتے جاتے ہوئے شخص کو یوں تکتا کیوں
صبا کی پور سے نازک ہے اس کے ظرف کا پھول
دیا ہے سینے میں دل یہ بہ شکل شیشہ کیوں
کسے ہے فرصتِ یک لمحہ رُک کے دُکھ پوچھے
کھڑے ہو دھُوپ میں آزردہ دل یوں تنہا کیوں
وفا ناآشنا اتنا ہی تھا اگر احمد
میں سوچتا ہوں اسے میں نے خط لکھا تھا کیوں
٭٭٭
میں ڈوبتے خورشید کے منظر کی طرح ہوں
زندہ ہوں مگر یاد کے پتھر کی طرح ہوں
آثار ہوں اب کہنہ روایاتِ وفا کا
اک گونج ہوں اور گنبد بے در کی طرح ہوں
اک عمر دلِ لالہ رُخاں پر رہا حاکم
اب یادِ مہ و سال کے پیکر کی طرح ہوں
کس کرب سے تخلیق کا در بند کیا ہے
مت پوچھ کہ صحرا میں بھرے گھر کی طرح ہوں
بپھرے تو کنارے نظر آتے نہیں جس کے
میں ضبط کے اُس ٹھہرے سمندر کی طرح ہوں
بجھ جائے گی صدیوں کی اگر پیاس بھی ہوگی
آغوش کشادہ ہوں میں کوثر کی طرح ہوں
اب کتنا نچوڑے گی لہو ساعتِ شفاف
تہذیب کے سینے پہ صنوبر کی طرح ہوں
بے مہر تعلق کی مسافت سے تھکا ہوں
میں صبح کی خوشبو کے مقدر کی طرح ہوں
خوابیدہ ہی اچھا ہوں کم و بیش سے احمد
بیدار جو ہو جاؤں تو محشر کی طرح ہوں
٭٭٭
بدن کو غسلِ گدازِ حیات دے دے گا
ترا خلوص مجھے اب کے مات دے دے گا
یہ جڑتے ٹوٹتے کاذب مراسموں کا دیار
مرے یقیں کی صداقت کا سات دے دے گا
میں تھک گیا ہوں کڑی دھوپ کی مسافت سے
کوئی سراب تبسم کی رات دے دے گا
دُعا کو ہاتھ اُٹھاؤں تو کس طرح معبود
جو میں کہوں تو مجھے کائنات دے دے گا؟
یقین جان کہ ہر دُکھ کو بھول جاؤں گا
تو میرے ہاتھ میں جب اپنا ہات دے دے گا
یہ مفلسی کا تسلسل، ضرورتوں کا محیط
مجھے سلیقۂ تزئین ذات دے دے گا
وہ ایک لفظ مرے دل پہ ثبت ہے احمد
مری غزل کو جو روحِ ثبات دے دے گا
٭٭٭
مری نظر نے خلا میں دراڑ ڈالی ہے
سکوں کی گم شدہ تصویر پھر سے پا لی ہے
خود اپنی اَور بچھائے ہیں غم کے اَنگارے
سکوتِ رنج سے میں نے نجات پا لی ہے
کدھر کو جائیں، کہاں ہم کریں تلاش کہ اب
سکوں کی دھُن میں بہت خاک چھان ڈالی ہے
میں کس یقیں پہ تحمل کو پائیدار کروں
مرا مزاج ازل ہی سے لا ابالی ہے
مجھے یقیں نہ دلاؤ، میں جانتا ہوں، مگر
وفا کا لفظ تو عہدِ رواں میں گالی ہے
مِلا نہ جب تری قربت کی روشنی کا سُراغ
غموں کی لُو سے شبِ آرزو اُجالی ہے
کسی کے لب پہ چراغِ دُعا نہیں جلتا
ہر ایک شخص کی جیسے زبان کالی ہے
تھا سخت ہم پہ بھی شب خوں پہ آبرو کی قسم
متاعِ شیشہ و نقدِ ہُنر بچا لی ہے
وفا تو پہلے ہی عنقا تھی شہر میں احمد
سُنا ہے اب تو دُکھوں کی بھی قحط سالی ہے
٭٭٭
یہ اور بات کہ تکلیف اِس سفر میں ہے
تمام لُطف، محبت کی رہ گزر میں ہے
تمام عالمِ امکاں کو صَرفِ ہُو کر دے
وہ اک شعور، وہ افسوں تری نظر میں ہے
تمام عمر، جسے ڈھونڈتے ہوئے گزری
سکونِ صبح کی صورت وہ میرے گھر میں ہے
وہ سنگِ زرد کو چاہے تو سرخرو کر دے
یہ ایک خوبی بھی اب دستِ کم ہُنر میں ہے
عروسِ شب! تری قربت میں اس قدر حدّت!
یہ خاصیت تو فقط شعلہ و شرر میں ہے
طلسمِ ذات کے گرداب سے نکل کر دیکھ
بشر کا فائدہ اندازِ درگزر میں ہے
جو پھل کے پکنے سے پہلے ہی سر کو خم کر دے
تمام حُسنِ تدبر تو اُس شجر میں ہے
وہ خوش خصال، جواں سال، تُندخو احمد
دُکھوں سے چور، مکیں شہر کے کھنڈر میں ہے
٭٭٭
ٹائپنگ: نوید صادق
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید