FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

جنگی قبرستان

اور دوسری  کہانیاں

 

                   ارشد نیاز

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

جنگی قبرستان

 

 

وہ ________

اس خاموش نگری میں آہستہ آہستہ قدم بڑھا رہا تھا جہاں کوئی اجنبی طاقت اسے کھینچ لائی تھی ۔

وہ بڑھ رہا تھا ۔

خاموشی میں ڈوبی کرب انگیز خواہشیں کروٹیں لے رہی تھیں اور اس کے جسم میں سیمابی لہریں یکے بعد دیگرے دوڑ رہی تھیں اسے محسوس ہواجیسے اس کا اپنا بیٹا اس سکوت انگیز فضا میں گم ہو گیا ہو اس کی آنکھیں اشکوں سے لبریز ہو گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے آنسو کا ایک قطرہ اس مقبرے پر گر کر جذب ہو گیا جس کے کتبے پر یہ درج تھا ________

 

ڈبلیو ۔ اے ۔ انگرام

۲۵؍ نومبر ۱۹۴۶

عمر ۲۱؍برس

’’خدا کا وعدہ ہے کہ جب آنکھوں کے آنسو خشک ہو جائیں گے تو ہم لوگ پھر اکٹھے ہوں گے‘‘۔

 

یہ پڑھتے ہی اسے احساس ہوا جیسے یہ بندوق دھاری فوجی اپنی وردی میں قبر سے باہر نکل آیا ہو اور اپنا لہو لہان چہرہ لئے اس کی حالت پر مسکرارہاہو۔

’’بند کرو ، یہ مسکراہٹ‘‘۔

دفعتاً اس کی آواز گونج اٹھی اوریوں لگا جیسے اس جنگی قبرستان کے تمام بہادر اپنی اپنی قبروں سے باہر نکل آئے ہوں ۔

یہ دیکھ کراس نے اپنی آنکھوں کو مسلا ، یقین دلانا چاہا کہ اس وقت جو کچھ بھی اس کے روبرو ہے ، محض ایک دھوکا ہے مگر بیکار، حقیقت چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی ________

یہ دوسری عالم گیر جنگ کے وہ بہادر ہیں جنہوں نے فاشزم کے خلاف جنگ لڑ کر خود کو امر بنا لیا۔ہاں ! انہیں دیکھو ، ایک ایک چہرے کو پہچانو ، یہ کھلی کتابیں ہیں ۔ انہیں پڑھو ، تب تمہیں معلوم ہو گا کہ جس زندگی کے ایک پریشان کن لمحے سے انسان گھبرا کر موت کی دعا کرتا ہے اس کی اہمیت کیا ہے۔ اب اس کی نگاہیں اطراف کا جائزہ لینے لگیں ________

ایئر فورس کے جوان ایک طرف سینہ تانے کھڑے تھے تو دوسری طرف بحری فوج کے کچھ جوان اپنی المناک داستان سنانے کے لئے حسرت مآب نگاہوں سے اسے ایک ٹک دیکھ رہے تھے جب کہ بری فوج کے جوانوں سے الگ ہٹ کر بندوق دھاری ڈبلیو ۔ اے ۔انگرام اسے عجیب نظروں سے گھور رہا تھا۔

’’تم مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو؟‘‘

اچانک اس نے پوچھا اور اس کے قدم اس کی جانب اٹھ گئے ، قریب پہنچا توپہلے وہ مسکرایا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔

’’کیوں انگرام؟ کیوں۔۔۔۔۔۔؟ ! ‘‘

اس نے پوچھا ہی تھا کہ انگرام کی آنکھوں میں تیرتے آنسو جھرنے کی طرح گرنے لگے ۔ اسنے اپنے آپ کو قابو میں کرتے ہوئے کہا ________

’’میں اپنی ماں سے اپنی موت سے قبل نہیں مل سکامگر اس کی یادوں کے سہارے ہم کیا اس وجہ سے کہ وہ درختوں کے پھلوں کو کھائیں، کھیتوں سے نکلے ہوئے اناجوں کو اُبال کر اپنا پیٹ بھریں یا پھر اپنی طاقت کے بل بوتے پر کمزوروں پہ ظلم ڈھائیں اور اپنے آپ کو آقا کہلوائیں  یا اپنی مخالف جنس کے پہلو میں پڑے رہیں۔

اگر پیدا ہونے کا مقصد صرف یہی ہے تو پھر جانوروں میں اورانسانوں میں کیا فرق ہے؟________

یہی کہ انسان کھانے کے لئے ہاتھوں کا سہارا لیتا ہے اور جانور اپنے منھ کا۔

یہ یقیناً ہمارے پیدا ہونے کا مقصد نہیں ہے۔‘‘

’’پھر کیا ہو سکتا ہے؟‘‘

کسی نے حقیقت جاننے کی کوشش کی۔

ارگاتم بھی یہاں آ کر اٹک سا گیا۔ اس کی سوچ کا پرندہ پھڑ پھڑانے لگا۔ زندگی اپنی معنوی حقیقت اجاگر کرنے سے قاصر ہو گئی اور خود اس کی اپنی زندگی بے مقصد نظر آنے لگی۔

اس مقام پر پہنچ کر وہ تلملا سا گیا۔

اسے خبر تو تھی کہ اس کائنات کو بنانے والی کوئی طاقت ہے مگر اسے یہ علم نہیں تھا کہ زندگی کو سکون و راحت بخشنے والا نظام یعنی روح بھی موجود ہوتی ہے۔انگنت سی نامعلوم چیزیں معلوم ہونے کے لئے خود اس کی ذات میں تڑپ رہی تھیں۔

اور وہ بے چین ہو رہا تھا۔

اسی دوران اس کی زندگی میں ایک خوبصورت سی لڑکی نیرسانام کی منڈلانے لگی جو اسThinkerکو ایک نئی روشنی سے آشنا کرنا چاہتی تھی مگر خیالات میں ڈوبے ہوئے لوگOpposite Sex میں کم ہی دلچسپی دکھاتے ہیں۔

ارگاتم بھی اسی مرحلے سے گزرنے لگا مگر کب تک ________

حسن کے آگے زمانہ سر جھکاتا ہے ،اسے بھی جھکانا ہی پڑا۔

عشق کی لذت نے اس پر زندگی کے بہت سے راز افشا کر دیئے۔

اس کے نظریات بدلنے لگے اور تجربات میں اضافہ ہونے لگا۔

یوں زندگی اس کی کسوٹی پر پرکھی جانے لگی۔

وقت گزرنے لگا اور اس کے ہم خیالوں میں اضافہ بھی ہوتا رہا اور نیرسا اسے زندگی کا جام پلاتی رہی۔

پھر ایک دن بڑے وثوق کے ساتھ اسی چبوترے پر حاضر ہوا۔

وہاں بڑی گہما گہمی تھی۔

وہ مجمع کے سامنے مسکراتے ہوئے اپنے تجربات بیان کرنے لگا ۔

’’زندگی صرف محبت کرنے کے لئے وجود میں آتی ہے۔جس انسان نے ایک دوسرے انسان سے محبت کی دراصل اس نے زندگی گزار لی۔ جس نے نفرت و عداوت کی بھٹی کو اپنی الفت کی مینہ سے سرد کیا،اس نے زندگی کو حاصل کیا۔جس نے دوسروں کے دکھوں اور غموں میں آ کر خوشی حاصل کی،وہ زندگی کی لذت سے آشنا ہوا۔ حقیقتاً محبت ہی وہ عظیم شئے ہے جس سے ہر جنگ جیتی جا سکتی ہے۔‘‘

وہ ہنوز تقریر کر رہا تھا کہ اسی اثناء میں ایک طوفان اٹھا________

دھول اڑاتا ہوا، گھوڑوں کے ٹاپوں تلے زمین کو روندتا ہوا۔

ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔

ارگاتم اور اس کی جماعت اس افراتفری کا شکار ہو گئی۔

چیخیں بلند ہونے لگیں۔ تلوار ،نیزے اور طپنچے قہر برسانے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ چھو ٹی سی خوبصورت ریاست قبرستان میں بدل گئی کہ فاتح کے سامنے زندگی ایک جنگ ہے جسے وہ ہر قدم پر جیت لینا جانتا ہے،خیر و شر سے بے نیاز________!!!

٭٭٭

 

 

 

لق بق کہانی نمبر دو

 

 

یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔لق بق جو حال ہی میں سرکس میں آیا تھا ،بھاگ گیا ہے۔گاؤں کے لوگ سکتے کے عالم میں پڑے ہوئے تھے کہ انہیں یہ یقین ہو چکا تھا کہ اُسے عنقریب گو لیوں سے بھون دیا جائے گا اور اُسک وجود اب قصے اور کہانیوں میں ہی پایا جائے گا۔” نہیں میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔”اُس نے سوچا اور اُس لق بق کی تلاش میں نکل پڑا جیسے کہا جاتا ہے کہ وہ کئی جانداروں کی آمیزش کا نتیجہ ہے۔” لق بق کہاں گیا ہو گا؟ کیا اُس جنگل میں جہاں خونخوار جانوروں کی حکومت ہوتی ہے۔جہاں انسان قدم رکھتے ہوئے بھی ڈرتا ہے۔”وہ جنگل تو پاس ہی میں تھا اور لق بق کی محبت نے اُسے جنگل میں جانے پر مجبور کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ چلتا رہا آگے بڑھتا رہا اور پھر اُس نے دیکھا۔لق بق ایک پیڑ کے نیچے بیٹھے اُسے ایسے دیکھ رہا تھا گویا وہ اُسی کا انتظار کر رہا ہو۔وہ چلانے لگا۔” میرے پیارے لق بق،دیکھو میں آ گیا۔چلو ! اب ہم گاؤں میں ایک ساتھ رہیں گے۔”لق بق شیر کی طرح غرایا۔یہ دیکھ کر وہ سہم گیا۔” کیا تم مجھے کھا کر اپنی بھوک مٹاؤ گے؟”لق بق یہ سُنتے ہی اُس پر جھپٹ پڑا اور اسی کے ساتھ تابڑ توڑ گولیاں چل پڑیں۔فوجی دستہ  نے اُسے بچا لیا۔اور وہ لق بق،لق بق،لق بق بُدبُداتے ہوئے فوجی دستے کے ساتھ گاؤں چلا آیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آتشی مخلوق

 

 

بات کی ابتدا اُن آتشی میٹورائٹ سے ہوئی تھی جنہیں ڈاکٹر ریچرڈ بی ہوور نے انٹارکٹکا،سائبریا اور الاسکا وغیرہ سے اپنی دس سال کی جدوجہد سے پتہ لگایا تھا ۔ان کی تعداد صرف نو ہی تھی جو ان مختلف مقامات سے پائے گئے تھے اور جن میں زندگی کی علامتیں پائی گئی تھیں۔ان ہی کی بدولت ناسا کے سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا کہ کائنات میں ہم تنہا نہیں ہیں مگر اس کائنات میں زندگی کہاں ہے؟یہ یقین سے بتانا اب بھی مشکل تھا۔یہ ثابت کرنا ماہرینِ فلکیات کے بس میں نہیں تھا۔ان ہی چند باتوں کو لے کر وہ بھی فکر میں ڈوبا ہوا تھا۔ہندوستان کے ہمالیہ پہاڑ کے ترائی علاقوں سے اس نے اسی قسم کا ایک عجیب دسواں میٹورائٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔اپنے ریسرچ روم میں اُس زندگی کا وہ بغور مطالعہ کر رہا تھا۔اُس کی جسامت ،اُسکی ساخت سب کچھ اس کے لئے اجنبی تھا۔

’’کہیں ایسا تو نہیں کہ کائنات میں کہیں آتشی مخلوق کی دنیا آباد ہے جس کی یہ نشاندہی ہے۔‘‘

اُس نے سوچا اور اپنے ریسرچ کرنے کے طریقے کو بدل ڈالا اور اسے حیرت ہوئی واقعی آتشی مخلوق کہیں آباد ہے مگر کہاں؟

وہ پھر سوچ کے ہچکولے کھانے لگا۔

میٹورائٹ میں جامد زندگی کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے وہ کوششوں میں جٹ گیا۔

عام آگ میں اُسے زندہ نہیں کیا جا سکتا ہے،اُس کے لئے جس توانائی کی ضرورت ہو گی وہ ایٹمی توانائی کے برابر ہونی چاہئے۔لہٰذا اُس نے اپنے لیباریٹری روم میں ہی nano atomic plantبٹھانے کا ارادہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اپنے ارادے میں کامیاب بھی ہو گیا۔یہ ریسرچ اُس کے لئے بہت ہی مشکل تھا ۔بلاواسطہ اُس نمونے کو atomic plant میں ڈالنے سے اُس کے جل جانے کا خطرہ تھا۔اس لئے اُس نے ایک مصنوعی Ice Fieldتیار کیااوراس نمونے پر اپنا تجربہ جاری رکھا۔پھر اُس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اُس نے دیکھا کہ وہ نمونہ ایک کثیف روشنی میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔آخرش وہ ایک کثیف روشنی کا ہیولا بن گیا۔ہیولا بالکل انسانوں سے مشابہت رکھتا تھا جو آہستہ آہستہ جسمانی شکل اختیار کرتا گیا۔اُس کی رگوں میں نامعلوم سے روشنی دوڑ رہی تھی۔اُس نے احساس کیا جیسے وہ ہیولا اُس سے ہمکلام ہونے کی کوشش بھی کر رہا ہو مگر اُس کے منھ سے روشنی کی لہریں ہی خارج ہو رہی تھیں۔مسئلہ اُس کے سامنے یہ تھا کہ وہ خارج ہوتی ہوئی روشنی کی لہروں کو آواز میں کیسے تبدیل کرے۔اس کے لئے اُسے ناسا کے سائنسدانوں سے اُسے رجوع کرنا پڑا اور یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا۔وہ اب اُس سے باتیں کرسکتا تھا۔اُس نے پوچھا۔

’’تم کون ہو؟تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘

ہیولا نے جواب دیا۔

’’میں آتشی مخلوق ہوں۔ہزاروں ہزار سال قبل ہماری بستیاں سورج کے باطنی حصے میں آباد تھیں۔مگر ایک طوفان نے ہماری بستیوں کو اُجاڑ دیا اور ہم سب اُس طوفان کا نوالہ بن گئے۔کہتے ہیں سورج پگھل کر ٹوٹ گیا تھا اور اُسی ٹکڑے کے ساتھ ہم سب بھی بہہ گئے تھے۔‘‘

’’کیا یہ سچ ہے کہ سورج کے باطنی حصے میں زندگی آباد تھی یا تم مجھے بے وقوف بنا رہے ہو؟‘‘

’’نہیں یہ بالکل ہی سچ ہے اور ہوسکتا ہے کہ آج بھی ہماری نسلیں وہاں آباد ہوں۔‘‘

’’کیا تم وہاں جانا چاہو گے؟‘‘

’’کائنات میں ہم آزاد مخلوق ہیں۔ہم کہیں بھی آزادانہ سفر کرسکتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ اس زمین پر اس وقت بھی آتشی مخلوق موجود ہوں مگر تم انہیں دیکھ نہیں سکتے ہو۔‘‘

’’کیا تم مجھے اپنی دنیا کا سفر کرا سکتے ہو؟‘‘

’’میں ضرور کرا سکتا ہوں۔اگر میں تمہاری لیباریٹری سے آزاد ہوا تو!‘‘

مگر وہ اُسے آزاد کرانے کے موڈ میں نہیں تھا۔اُس نے ناسا میں اپنے تجربے کی تفصیل بتائی مگر ناسا والے اُس کی ایجاد کو پاگل پن قرار دیکر ٹھکرا دئے ۔اُن کے مطابق زمین پر یہ تجربہ ناممکن ہے اور آتشی مخلوق کی کہانی بالکل ہی فرضی ہے بھلا سورج جو ایک جلتا ہو آگ کا سمندر ہے اُس میں زندگی کا تصور کرنا پاگل پن کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ناسا کے ذریعہ رد کئے جانے سے وہ بہت اداس ہوا مگر ہمت نہیں ہارا بلکہ اپنے اخراجات پر وہاں کے ایک سائنسداں کو اپنے یہاں بلا ہی لیا۔یہ وہی سائنسداں تھا جس نے کہا تھا کہ کائنات میں زندگی کسی دوسری شکل میں موجود ہو سکتی ہے ۔اُس کے آتے ہی وہ بہت خوش ہوا۔اُسے اپنے پروجیکٹ سے متعلق تفصیلات صرف سنایا ہی نہیں بلکہ اسے د گاکڑ سری دوصادق،تھا درِکھایا بھی۔ناسا کے اس سائنسداں کو بہت حیرت ہوئی۔

’’آپ ہندوستانی بھی کمال کے ہیں ،اس لیباریٹری میں Nano Atomic Plantآسانی سے بیٹھا لینا اوروں کے لئے بالکل ہی ناممکن ہے۔کم از کم یہ ایجاد تو پوری دنیا میں برقی انقلاب پیدا کر دے گی۔اب کوئی بھی گاؤں تاریک نظر نہیں آئے گا صرف یہی نہیں اس ایندھن کو اب آسانی سے خلائی شٹل اور ہوائی جہازوں ،عام گاڑیوں وغیرہ میں استعمال کیا جائے گا۔‘‘

وہ اپنی تعریف سن کر بہت ہی خوش ہو رہا تھا اور اسے لگ رہا تھا کہ واقعی اس نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیدیا ہے۔جب اُس نے اُس سائنس داں کو آتشی مخلوق سے روبرو کیا تو وہ اور بھی حیرت میں ڈوب گیا۔

’’کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ آپ نے ناممکن کو ممکن بنا دیا ہے۔آتشی مخلوق اب سوچ ہی نہیں ہے بلکہ ایک سچ ہے جسے پوری دنیا کو اب تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔میں اس سے کلام کرنا چاہوں گا۔‘‘

’’بے شک آپ بات کرسکتے ہیں اور ان سے متعلق اپنے معلومات میں اضافہ کرسکتے ہیں۔‘‘

اُس نے پوچھا۔

’’تم آتشی مخلوق ہو اس لئے کہ تم آگ ہی میں پیدا ہوتے ہو،تمہاری عمر ہزاروں ہزار سال کی ہے کیا تم بتا سکتے ہو کہ تمہاری دنیا کے ساتھ ہماری دنیا کی بھی تشکیل ہوئی تھی۔‘‘

’’ہم آج بھی آزاد مخلوق ہیں۔تمہاری دنیا ایک وقت میں ویران تھی ۔نہ یہاں زندگی تھی اور نہ ہی زندگی کی علامتیں۔‘‘

’’پھر یہاں زندگی کیسے شروع ہوئی؟‘‘

’’یہ بتانا بہت ہی مشکل ہے میں اُس وقت ابھی پختگی کے مرحلے سے گزر رہا تھا سنا ہوں کہ اچانک یہاں سب کچھ ہو گیا۔‘‘

یہ سن کر وہ ہنسا اور سوچا۔

’’کیا ڈارون کا فلسفہ ارتقا ایک نظریۂ محض ہے۔یہ ممکن نہیں کہ سب کچھ اچانک ہو جائے۔شاید اسے بھی کچھ نہیں معلوم؟‘‘

اور پھر اُس نے پوچھا۔

’’کیا آج بھی تمہاری نسلیں آباد ہیں؟‘‘

’’بے شک !ہماری نسلیں آباد ہوں گی۔اُن کا وجود آج بھی سورج کے کسی نہ کسی حصّے میں ضرور ہو گا۔تم مجھے آزاد کر دو تو میں تمہیں بتا سکتا ہوں کہ اس وقت اس دنیا میں اُن کی کتنی نسلیں ابھی محفوظ ہیں۔‘‘

’’ہم تمہیں کس طرح آزاد کرسکتے ہیں؟‘‘

’’بہت آسان ہے ،تم اس تجربے گاہ سے گزرتے ہوئے کرنٹ کو منقطع کر دو۔میں آزاد ہو جاؤں گا۔‘‘

’’مگر ابھی نہیں!‘‘

یہ کہتے ہوئے ناسا کے اس سائنسداں نے اُسے یقین دلایا کہ وہ اس کے تجربے کو کامیابی دلانے مین ہر ممکن کوشش کرے گا اور لوگوں کو یقین دلائے گا کہ یہ سچ ہے۔‘‘

پھر وہ روانہ ہو گیا ۔جس جہازسے وہ سفر کر رہا تھا اچانک راستے ہی میں حادثے کا شکار ہو گیا اور وہ مارا گیا۔آج اُس کی امیدوں کے چراغ گل ہو گئے مگر خواب پلتے رہے۔

’’وہ اپنے مشن میں کامیابی حاصل ضرور کرے گا۔‘‘

اسی یقین کے سہارے وہ دیگر آتشی مخلوق سے رابطہ کرنے کی جدوجہد میں جٹ گیا۔پھر یوں ہوا اس کے لیباریٹری میں عجیب و غریب نامعلوم سی چیزون کا آنا جانا شروع ہو گیا گویا انجانی طاقتین اس آتشی مخلوق کی آزادی کے لئے کوشاں ہوں۔وہ فوراً اُس سے رجوع کیا۔

’’یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘

’’میں نے تم سے کہا تھا کہ اس دنیا میں بھی ہماری نسلوں کا آنا جانا لگا ہوا ہے اور یہ طئے ہو چکا ہے کہ آج بھی سورج میں ہماری آبادیاں محفوظ ہیں۔اس لئے اب تم مجھے آزاد کر دو ورنہ انجام اچھا نہیں ہو گا۔!‘‘

’’جب تک تم میرے پاس ہو کوئی مجھے ہاتھ بھی لگا نہیں سکتا ہے ۔یاد کرو کہ میں نے ہی تمہیں ازسرِنو زندگی بخشی ہے اور میں انسان ہوں کسی چیز کو بنا بھی سکتا ہوں اور اسے ضرورت پڑنے پر تباہ بھی کرسکتا ہوں۔‘‘

’’تم مجھے دھمکی دے رہے ہو!‘‘

’’جو بھی تم سمجھ لو۔‘‘

وہ آتشی مخلوق سے بات کر کے خوش نہیں تھا۔چاہتا تھا کہ وہ اس قصّے کو ابھی ہی تمام کر دے مگر اس کی خواہش تھی کہ وہ پوری دنیا کو یہ باور کرا سکے کہ اس کائنات میں ایک ایسی مخلوق بھی آباد ہے جس کی پیدائش آگ سے ہوتی ہے۔جو انسانوں کی طرح ایک دوسرے سے بات چیت بھی کرتے ہیں اور کائنات میں آزادانہ سفر بھی کرتے ہیں۔انہیں دیکھا جا سکتا ہے ۔اُن سے باتیں بھی کی جا سکتی ہیں اور اُنہیں انسانی کام میں استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔

اس مقصد کے لئے وہ حد سے بھی گذرنے کو تیار تھا۔

’’اب اُسے کیا کرنا چاہئے؟‘‘

ایک گو مگو کی کیفیت بھی اُس پر طاری تھی۔وہ اس انکشاف کو اُس وقت تک عام کرنا بھی نہیں چاہتا تھا جب تک کہ وہ خود مطمئن نہیں ہو جاتا ہیو ورنہ یہ تجربہ سچ بن کر پوری دنیا میں آگ کی طرح پھیل جائے گا اور وہ سکون سے اپنا تجربہ جاری نہیں رکھ سکے گا۔اُسے یقین تھا کہ اُس کی محنت،اُس کی کاوشیں اور اُس کی دولت جو اس پروجیکٹ پر خرچ ہو رہی ہیں اُسے کامیابی سے ہمکنار ضرور کریں گی۔اب اُس کے اندر سورج میں بسنے والی مخلوق کی بستیوں کو دیکھنے کا شوق جاگا۔اُس نے آتشی مخلوق سے پھر بات چیت کی۔

’’کیا تم مجھے سورج میں بسنے والی بستیوں کا دیدار کرا سکتے ہو۔‘‘

یہ سن کر وہ ہنس پڑا۔

’’خاک سے بنا ہوا انسان سورج کی بستیوں کا نظارہ کرے گا۔کیا تمہیں نہیں معلوم کہ تم جلکر پھر خاک بن جاؤ گے۔تمہاری دنیا میں ایسی کوئی تیکنیک ایجاد نہیں ہوئی ہے جو سورج کے اندر بہ آسانی سما سکے۔تم محض خواب دیکھ سکتے ہو،حقیقت کا سامنا نہیں کرسکتے۔‘‘

’’تمہاری دنیا میں کوئی بھی تو طریقہ ہو گا جس سے میں وہاں کا سفر کرسکوں اور اس دنیا کو بتا سکوں کہ یہ کہانی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔‘‘

’’تمہیں معلوم ہے ہم روشنی کی رفتارسے سفر کرتے ہیں جو تمہارے لئے ناممکن ہے۔ہاں میں تمہیں وہ سب کچھ دیکھا سکتا ہوں جس کے تم متمنی ہو۔پہلے تم مجھے آزاد کرو۔میرا وعدہ ہے کہ میں تمہیں دھوکہ نہیں دوں گا اور تمہاری مدد کروں گا۔‘‘

وہ کچھ دیر تک سوچتا رہا اور پھر اُس نے وہی کیا جو آتشی انسان چاہتا تھا۔

آزادی کتنی پیاری ہوتی ہے ۔وہ آزاد ہوتے ہی مسکرایا اور اُس سے کہا۔

’’تمہیں معلوم ہے ۔تمہارے خاکی جسم کے ساتھ ایک نوری جسم بھی موجود ہوتی ہے۔وہ جسم جو روشنی کی رفتار سے بھی تیزسفر کرتی ہے مگر اُس پر تم انسانوں کا کوئی بھی اختیار نہیں ہے۔میں اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا اور تم اپنے بستر پر لیٹے لیٹے سورج کی بستیوں کا خواب دیکھتے رہو گے۔آتشی انسانوں کی حرکت سے لطف اندوز ہوتے رہو گے۔‘‘

اُس کی دانائی کی باتیں سن کر وہ حیرت میں ڈوب گیا اور سوچا۔

’’انسان نے ترقی کی حدوں کو عبور کرنے کا دعویٰ کر لیا مگر خود کو نہیں سمجھ پایا۔کتنے راز پوشیدہ ہیں اس جسمانی کائنات میں ابھی تک آشکار نہیں ہو پایا۔کیا یہ بھی ایک انکشاف نہیں ہے۔!‘‘

پھر اُس نے پوچھا۔

’’تمہارے اطراف میں آجکل کیا ہو رہا ہے؟کیسی سرگرمی ہلچل مچائی ہوئی ہے؟‘‘

آتشی انسان نے جواب دیا۔

’’جس سرگرمی کے لئے ہلچل مچی ہوئی تھی ،وہ ختم ہو گئی کہ تم نے مجھے آزاد کردیا ورنہ ممکن تھا کہ یہ جگہ آگ میں ڈوب جاتی اور تمہاری کہانی بھی ختم ہو جاتی۔مگر یہ میں تھا جس نے ابھی تک سب کچھ سنبھال رکھا تھا اور تمہیں زندہ رکھنے کے حق میں تھا۔‘‘

یہ سُن کر وہ اور بھی حیرت میں ڈوب گیا۔

’’کیا یہاں سب کچھ اُس کے اختیارمیں نہیں ہے۔کیا وہ آتشی مخلوق کے شکنجے میں آ گیا ہے؟‘‘

عجیب عجیب سوالات اُس کے ذہن میں اُٹھنے لگے تھے۔تجربے کی آنچ میں وہ سلگنے لگا تھا۔وہ اپنی ہی دریافت شدہ دنیا سے ڈرنے لگا تھا۔اُس نے کئی جگہ فون کئے،کئی مقامات پر فیکس کیا ،لیکن ہر جگہ سے ایک ہی جواب ملا کہ کیا تم جاگتے خواب دیکھ رہے ہو،دوسروں کو کیوں اپنی جادوئی دنیا سے محصور کرنا چاہتے ہو۔کیا یہ بے وقوفی نہیں ہے کہ تم سورج میں زندگی کی تلاش میں ہو؟کیا یہ پاگل پن نہیں ہے کہ ایسی ایک مخلوق تمہاری قید میں ہے؟جاؤ کسی ماہر نفسیات سے اپنے دماغ کا علاج کراؤ۔

اُداسی اور مایوسی کے بادل اُس کے سر پر چھانے لگے۔

اُس نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور سورج کی بستیوں کا نظارہ کرنے کے لئے تن تنہا ہی تیار ہو گیا۔

’’اب اُسے کیا کیا کرنا چاہئے؟‘‘

’’کچھ نہیں!بس ایک خطرہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہارا نورانی جسم کا رشتہ اگر تم سے ٹوٹ گیا تو تم مرسکتے ہویا وہ جسم دوبارہ تمہاری طرف لوٹ کر واپس نہیں آسکتا ہے۔‘‘

’’کچھ بھی ہو،میں چلنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘

اور پھر آتشی انسان نورانی جسم کے ساتھ محوِ سفر ہو گیا ۔

وہ گھر میں گہری نیندسویا رہا اور خواب سے لطف اندوز ہوتا رہا۔وہ دیکھتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورج کے اطراف میں ننھے منے بے شمار میٹورائٹ چکر لگا رہے تھے۔وہ اور اندر کی طرف گیا جہاں آگ جہنم کا نظارہ پیش کر رہی تھی۔

’’وہ یہاں تو جل جائے گا۔‘‘

اُس نے سوچا اور آتشی انسان نے کہا۔

’’گھبراؤ نہیں تم نور ہو۔جسے کوئی بھی آگ جلا نہیں سکتی اور کسی بھی سمندر کا پانی بجھا نہیں سکتا ۔یہ مادے کی چوتھی شکل ہے جو لافانی ہے۔‘‘

وہ جہنم نما آگ کو چیرتے ہوئے آگے بڑھتا رہا اور پھر گہرے اندھیرے میں ڈوب گیا۔

’’یہ کیا ہے؟‘‘

’’ہماری دنیا کو تحفظ دیتا ہوا لائف پروٹیکٹر ہے،یہ کاربن سے بنا ہے۔‘‘

وہ اس سے بھی گذر گیا مگر اب سردی اسے چھونے لگی۔

’’اب یہ کونسا مقام ہے؟‘‘

’’یہی تو ہے جس کی وجہہ سے آتشی مخلوق کائنات میں زندہ ہیں اور جس کی وجہ سے سورج کی نکلتی ہوئی شعاعیں اندر داخل نہیں ہو پاتی ہیں اور ہم اپنی بستیوں میں آسانی سے رہتے ہیں جیسے تم انسان اپنی دنیا میں رہتے ہو۔‘‘

اب وہ سورج کے داخلی کرّہ میں اُتر رہا تھا۔

یہاں عجیب منظر تھا ۔روشنی کی دیوار ،روشنی کی چھتیں اور روشنی سے بنی جگہ بہ جگہ انوکھی چیزیں اسے حیران کررہی تھیں۔

کیا روشنی قید کرنے کی چیز ہے؟

اُس نے صرف سوچا اور اُسے جواب مل گیا۔

’’کیا تمہیں نہیں معلوم کہ روشنی میں طاقت ہوتی ہے اور ہر طاقت ور چیز کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے ۔یہاں روشنی ٹھوس شکل میں پائی جاتی،یہاں روشنی رقیق شکل میں بھی موجود ہے جو کائنات میں کہیں بھی پائی نہیں جاتی ہے۔‘‘

وہ اب روشنی کے شہر میں اُتر چکا تھا۔آتشی مخلوق سے مل رہا تھا ۔

یہ مخلوق بھی جنس لطیف اور جنس کرخت پر مشتمل تھی یہاں بھی سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا کہ انسانوں کی دنیا میں ہوتا رہا ہے۔وہ یہاں کی رعنائیوں میں کھو گیا۔

اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔

زمین پر ایک زوردار زلزلہ آیا۔

پورا شہر تہس نہس ہو گیا۔وہ جہاں سویا ہوا تھا منوں ٹن مٹی کے نیچے دب گیا۔اُس کی روح اٹکی ہوئی تھی۔نورانی جسم تیزی سے اس کی طرف لپکا اورسورج کی بستیوں کے راز کے ساتھ ساتھ آتشی مخلوق کی کہانی بھی زلزلے کی نذر ہو گئی۔!!!

٭٭٭

 

 

 

بھگوان دیکھتا ہے

 

 

جس گناہ کی لذت سے بچنے کے لئے وہ سادھو بنا اب وہی اسے گھیرے ہوئے تھی۔

"مجھے گناہ کر لینا چاہئے،پتا نہیں اسی میں مکتی ہو۔”

اُس نے اپنے آپ سے کہا اور گہرے دھیان میں ڈوبنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"اے ایشور،گواہ رہناگناہ ہم انسانوں کی تخلیق نہیں ہے۔اس کی آگ ہمارے من کو جھلسا رہی ہے،ہمیں دعوت دے رہی ہے کہ ہم اس سے آشنا ہو جائیں۔اے ایشور چالس سال کی محنت کے عوض گناہ کرنے کے لئے میرے پاس ایک دیوی بھیج دے۔”

ایشور نے سب سنا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک حسین و جمیل دیوی اس کے روبرو لا کھڑا کر دیا۔دیوی اسے دیکھ کر مسکرائی۔

"میں تمہاری تپسیا ہوں،مجھ سے جو چاہو کام لے سکتے ہو۔”

"دیوی میں گناہ کرنا چاہتا ہوں۔”

"میں تمہاری تپسیا ہوں،تم مجھ سے گناہ نہیں کرسکتے۔تمہیں کسی انجانے جنس لطیف کے ساتھ یہ کرنا ہو گا۔”

"تم میرے لئے ایسا ہی کچھ کرو۔”

دیوی نے فوراً جواب دیا۔

"راجہ کی بیٹی آج باغیچے میں اکیلے ٹہل رہی ہے،جاؤ اسے اپنی بانہوں میں جکڑ لو اور گناہ کی لذت سے آشنا ہو جاؤ۔”

سادھو دوڑتے دوڑتے باغیچے میں جا پہنچا۔واقعی وہاں ایک خوبصورت اور جوان لڑکی ٹہل رہی تھی ۔وہ گناہ کرنے پر آمادہ ہو گیا اور اندھا ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھراس کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔

بھرے دربار میں رسیوں میں جکڑ کر اسے قیدی بنا کر لایا گیا۔بادشاہ کا چہرہ غضبناک ہو رہا تھا۔اس نے اسے دیکھتے ہی اس کا سر قلم کرنے کا حکم دیا۔اس حکم سے سادھو کے ہوش اڑ گئے۔اس نے ایشور کو پکارا مگر وہ دیوی نمودار ہو گئی۔

"میں تمہاری تپسیا ہوں اور تم نے میرا دل توڑا ہے،اب اس کا خاموشی سے بھگتان بھرو۔”

تلوار اس کی گردن پر چلنے ہی والی تھی کہ وہ گہرے دھیان سے اُبال کھایا اور کہا۔

"اے ایشور ،تو نے مجھے بچا لیا۔”

پھر وہ ایشور کے دھیان میں لگ گیا۔۔۔۔!!!

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ایک گمنام راستہ

 

 

ہم سب لوٹ کر آرہے تھے

کہاں سے لوٹ کر آرہے تھے یہ خبر ہمیں نہیں تھی مگر ہم سب تھک چکے تھے  تبھی کسی نے کہا تھا چلو لوٹ چلیں اپنے اپنے گھروں کی طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر کیا تھا سب کے چہروں پرمسکان کی لکیریں کھینچ آئیں اور سب دیکھتے ہی دیکھتے واپسی کے لئے تیار ہو گئے تھے۔

ہم سب لوٹ رہے تھے ،اسی راتے سے جس راستے پے ہم نے سفر کیا تھا مگر یہ کیا ۔یہ راستہ تو بدل سا گیا ہے۔!

ایک نوجوان نے حیرتی نگاہوں سے پوچھا۔

"کچھ نہیں بدلا ہے ،تمہارے سوچنے کا انداز بدل گیا ہے،تمہارے ذہن میں تبدیلی رونما ہو گئی ہے،اسلے پُرانی چیزیں بھی تمہیں نئی معلوم پڑ رہی ہیں۔”

ایک بوڑھے نے اس کے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے کہااور وہ سوچ مٰیں پڑگیا۔

"یہ کیسے ممکن ہے۔!”

وہ سوچتا رہا اور قافلے کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔

"کیا یہ سب بوڑھے سٹھیا گئے ہیں،انہیں اندازہ نہیں ہو رہا ہے کہ یہ راستہ بدل گیا ہے۔”

اسی سوچ میں غرق ہو کر اس کا بھی سفر اس قافلے کے ساتھ ساتھ واپسی کی طرف ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر یوں ہوا۔۔۔۔۔۔۔

وہ چلتے رہے

وہ مسلسل پیچھے کی طرف بڑھتے رہے۔

مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کیا صدیاں بیت گئیں۔وہ ابھی تک اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ نہیں پائے ہیں جبکہ ان کے گھر والے کہتے ہیں کہ انہیں اسی راستے نے نگل لیا ہے جس پر وہ چل رہے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

شر

 

 

 

"چلو اندھیرے میں ہم سب سما جائیں۔یہاں بس اُجالے کا ہی کھیل ہے۔بہتر ہے کہ ہم سب اس اُجالے سے نجات پالیں۔”

"ہاں چلو،اندھیرے کے سمندر میں ہم سب کود پڑیں،اُجالا شر کو جنم دیتا ہے اور ہم سب شر سے ہی تو پناہ مانگ رہے ہیں۔”

پھر وہ قافلہ چل پڑا اندھیرے کی تلاش میں ۔چلتا رہا ،آگے بڑھتا رہا یوں چلتے چلتے وہ سب تھکنے لگے۔

"اب کیا ہو گا!”

ایک نوجوان نے پوچھا۔

"فضول ہے ،بکواس ہے! اس کائنات میں کوئی بھی ایسا گوشہ نہیں ہے جو تاریکی میں دفن ہو۔ہر طرف روشنی ہی روشنی ہے۔”

ایک بوڑھے نے کہا اور نوجوان نے جواب دیا۔

"اس کا مطلب یہ ہوا کہ شر کی کوکھ سے ہی کائنات کی بقا ہے۔!”

اس کی باتوں پر وہ قافلہ بالکل ہی خاموش ہو گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے منتشر ہو گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

               تماشہ

 

 

 

ہاں،یہ سچ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کے انسان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے

وہ ہاتھ اُٹھائے پرکھوں کے نظریوں کی بھیک مانگ رہا ہے۔ہزاروں سالوں میں یہ پہلا اتفاق ہے کہ آدمی کھوکھلا ہو چکا ہے۔کھوکھلے نعرے بلند کر رہا ہے اور کھوکھلے نظریوں کے لئے اپنی جان دینے پر تلا ہوا ہے۔کیا اس صدی میں ان ننگوں اور بھوکوں کے لئے کوئی آگے آنے والا نہیں ہے ،کوئی انہیں یہ بتانے والا نہیں ہے کہ تم اور تمہاری ذات سب سے زیادہ مقدس ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ممکن نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

جب ہابل نے قابل کو قتل کیا تھا،یہی اشارہ دیا تھا کہ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔بس ایک بہانہ چاہئے ایک دوسرے کو قتل کرنے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لو قتل کرتے رہو،زمین کو اپنے بھائی کے خون سے رنگتے رہو اور خوش ہوتے رہو کہ تم فاتح ہو۔کیا تمہیں نہیں معلوم کہ یہ زمین تمہیں نگلنے کے لئے بے قرار رہتی ہے۔کیا تم نہیں جانتے ہو کہ یہ آسمان تمہیں مٹانے کے لئے ہمیشہ بضد رہتا ہے۔نہیں! تمہیں کچھ بھی نہیں معلوم ،تم تو دنیا کے چکر میں اندھے ہو گئے ہو اور تم اندھے ہی ایک دن مر جاؤ گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے بعد کیا ہو گا!

تم قہقہہ لگاتے ہو کہ اس کے بعد قصہ تمام ہو جائے گا!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ خواہ مخواہ چلاتا رہا۔

راہ گیر اسے پاگل سمجھ کر مسکراتے اور آگے بڑھ جاتے۔

"اس دنیا میں یہ تماشا بھی روز ہوتا رہتا ہے ”

میں بھی بُدبُداتا رہا اور آگے بڑھتا رہا۔

٭٭٭

 

 

 

سرگوشی

 

 

اُس کی سانسوں کی سرگوشی سنائی دے رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات جیسے گلاب کی طرح شبنم کی بارش میں تر و تازہ ہوتی جا رہی تھی۔دور آسمان میں ننھے منے تارے ایسا لگ رہا تھا جیسے مسکرا رہے تھے۔ہوا کی موسیقیت سماعت کے پردے میں مسلسل ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ہر طرف خوشنما خوشنما روشنی پھیلتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔حقیقتاً اس کا مزاج ہی خوشیوں کے گلدستے سے خود کو ہم آہنگ کر لیا تھاجس کی وجہ سے کرشماتی طور پر کرب انگیز ماحول اس کے دل میں عفریت پیدا کرنے کی بجائے وجد آفریں کیفیت سے اسے دوچار کر دیا تھا۔ابھی کل ہی کی بات ہے۔اسی علاقے میں ایک شریف انسان کو کاٹ کر سڑک پر پھینک دیا گیا تھا۔اسی کے خون سے وہاں لکھا ہوا تھا۔۔۔

انقلاب زندہ باد۔

اس خبر نے پورے گاؤں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کر دیا۔لوگ ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔معلوم نہیں کون اس تحریک کا حصہ ہے۔کون اس بربریت کا ذمہ دار ہے ۔وہ سب ایک دوسرے سے سرگوشی بھی کر رہے تھے۔

’’ہمارے درمیان میں ہی وہ بھیڑیا چھپا ہوا ہے۔کیا ہم اس کی پہچان کرسکتے ہیں؟‘‘

’’بھائی یہاں توہم لوگ سب کو جانتے ہیں۔محنت مزدوری کرنے والے اُن ہاتھوں کو بھی جنہوں نے کبھی کوئی خواب بنا ہی نہیں۔اُن آنکھوں کو بھی جن میں سپنوں نے بسیرابنایا نہیں۔اُن کند ذہنوں کو بھی جہاں مستقبل نام کا کوئی پرندہ اپنا پر پھڑپھڑاتا تک نہیں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ہم میں سے ہی کوئی ایک ہے۔!‘‘

’’ یہ ممکن ہے کہ اب خواب ہمارے یہاں بھی پلنے لگے ہیں۔‘‘

طرح طرح کی باتیں ہو رہی تھیں مگر قاتل کا کوئی سراغ اور دنوں کی طرح اس بار بھی نہیں مل رہا تھا۔

’’معلوم نہیں کون کب اس کے ہاتھوں شکار ہو جائے ۔پولس بھی آتی ہے تو بھولے بھالے لوگوں کو ہی لے کر چلی جاتی ہے۔انہیں جیل میں لے جا کر بے قصور مارتی ہے۔ان پر ظلم و تشدد کرتی ہے اور وہ بے چارے۔۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

    کثبان

 

وہ تاریکی ہی میں گم تھا حقیقتاً تاریکی اسے تخلیقیت کے مرحلے سے گزار رہی تھی۔ مگر کب تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیرا کوئلے میں تیار ہو چکا تھا

اب وہ تاریکی کا جز نہیں رہا

روشنی کی طرف اسے آنا ہو گا۔

پھر ایک حادثہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ظلمت کدے میں آگ لگی اور اس کی آنکھیں چوندھیا گئیں۔وہ ادھر اُدھر بھاگنے لگا اور بھاگتے بھاگتے آئینہ کے روبرو ہو گیا…۔۔۔۔۔۔۔

حور سے بھی زیادہ خوبصورت ایک عکس نمودار ہوا۔

اور وہ اس پر فدا ہو گیا۔

یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خود،خودی میں ڈوبتا ابھرتا رہا

کیا یہی زندگی ہے!

اس کے ذہن میں یہ سوچ جیسے ہی پیدا ہوئی

پھر یوں ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کا رشتہ اپنے آپ سے ٹوٹا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ حقیقی دنیا میں آ موجود ہوا۔

” یہ کیسی جگہ ہے خدایا! یہاں تو ہر ایک شخص کے ہاتھوں میں ایک پرچم بلند ہے۔سب اپنے اپنے پرچم کے گیت الاپ رہے ہیں۔انہیں کون بتلائے گا کس کا پرچم کتنا بلند ہے۔”

ایک آواز آئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

                              کہانی سننے والا

 

 

بچے کو ضد ہے کہ وہ پریوں کی کہانی سنے گا مگر دادی ماں اسےسکنرر کی کہانی سنا رہی تھی ۔پہلے اس نے سمجھا کہ دادی اس کی کہانی سنارہی ہے مگر جیسے ہی احساس ہوا کہ وہ کہانی کسی اور کی ہے ،وہ زور زور سے رونے لگا اور روتے روتے اپنی ماں کے پاس پہنچ گیا۔

"ماں ،دادی میری کہانی نہیں سنا رہی ہیں۔”

"ارے میرے بچے، آؤ میں تمہیں تمہاری کہانی سنا دے رہی ہوں۔”

اور پھر اس کی ماں نے کہا۔

بہت پہلے پریوں کا ایک دیس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بچہ کہانی ختم ہونے سے پہلے ہی سوگیا تھا۔

٭٭٭

ماخذ: مصنف کے کتاب چہرے پروفائل سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید