FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

میر واہ کی راتیں

 

 

 

                   رفاقت حیات

 

پیشکش: تصنیف حیدر

 

 

 

 

آج کی رات اس کی بے کار زندگی کی گزشتہ تمام راتوں سے بے حد مختلف تھی، شاید اسی لیے اس کی نینداس کی آنکھوں سے پھسل کر رات کے گھپ اندھیرے میں کہیں گم ہو گئی تھی مگر وہ اسے تلاش کرنے کی بے سود کوشش کر رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ آج رات اس کے لیے پلک جھپکنا دشوار تھا اور آنکھیں موند کر سونابالکل ناممکن۔ وہ محرابوں والے برآمدے میں چھت کی سیڑھیوں کے قریب چارپائی پر رضائی اوڑھے لیٹا ہوا رات گزارنے کی تدبیر ڈھونڈ رہا تھا۔ وہ اٹھ بیٹھا اور اس نے ہاتھ بڑھا کر اپنے تکیے کے نیچے سے ایک بوسیدہ اور مڑے تڑے صفحات والا رسالہ نکالا اور کئی مرتبہ کی پڑھی ہوئی کہانیوں پر نظر ڈالنے لگا۔ اسے ـ ’مومل رانا‘ کی کہانی بے حد پسند تھی مگر آج اپنی پسندیدہ کہانی پڑھتے ہوئے نجانے کیوں اس کے سر میں درد ہونے لگا۔ باریک لفظوں کی سطریں جو کاغذ کی سطح پر قطار باندھے کھڑی تھیں، دھیرے دھیرے بکھرنے لگیں۔ باریک لفظ موقلم بن کر کاغذ کی سطح پر ایک خاکہ بنانے لگے۔ خاکہ مبہم اور غیر واضح تھا، مگر غور کرنے پرکسی عورت کی پشت معلوم ہوتا تھا۔ عورت کا خیال آتے ہی وہ خاکے پر اور زیادہ غور کرنے لگا، مگر یہ کیا؟ اچانک تمام لفظ کاغذ کی سطح سے یکسر غائب ہو گئے، اور ان کے ساتھ ہی لفظوں سے بنا وہ مبہم سا خاکہ بھی غائب ہو گیا۔ وہ حیرت سے رسالے کے اوراق پلٹنے لگا۔ رسالے کے تمام اوراق لفظوں سے یکسر خالی ہو چکے تھے۔ کسی بھی صفحے پر نہ تو کہانی کا عنوان لکھا نظر آ رہا تھا اور نہ ہی کہانی کی عبارت۔ سارے کے سارے کاغذ کورے اور سادہ نظر آ رہے تھے۔ اسے ایک لمحے کے لیے محسوس ہوا کہ وہ اس وقت مومل کے کاک محل میں موجود ہے۔ اس نے بلا تردد رسالے کو اس کی جگہ واپس رکھ دیا اور تکیے پر اپنا سر رکھ کر وہ سیدھا لیٹ گیا اور رضائی کو اپنے آدھے جسم پر اوڑھ لیا۔ اس نے کئی مرتبہ آنکھیں زور سے میچ کر نیند کے خمار کو اپنے ذہن پر طاری کرنے کی کوشش کی مگر ہر مرتبہ اس کے ذہن نے اس دھوکے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یکے بعد دیگرے کروٹیں لینے کے بعد وہ ایک بار پھر سیدھا لیٹ گیا۔

اس کی آنکھیں خود بہ خود محرابوں والے برآمدے کی اونچی چھت پر بھٹکنے لگیں۔ بے ضرورت اور بے سبب وہ چھت کی کڑیاں گننے لگا۔ اس نے پہلے دائیں سے بائیں اور پھر بائیں سے دائیں چھت کی کڑیوں کو شمار کیا مگر دونوں مرتبہ ان کی تعداد اکیس ہی نکلی۔ اکیس بظاہر تو گنتی کا سیدھا سادہ عدد ہے مگر اس کا خود سری پر آمادہ ذہن اس عدد سے کوئی خاص مطلب برآمد کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے اکیس کے دو اور ایک کو آپس میں جمع کر دیا اور اس کے حاصل جمع تین پر خوامخواہ غور کرنے لگا۔ یہ سادہ سا عدد اس کے ذہن کواقلیدس کے مسئلے کی طرح پیچیدہ معلوم ہو رہا تھا۔ دو کا عدد اس پیچیدگی کا حامل نہیں تھا جو پیچیدگی تین کے عدد میں پنہاں محسوس ہو رہی تھی۔ تین یعنی تیسرا کئی شکوک کو جنم دیتا تھا، شاید اسی مشکوک تیسرے کو مومل کے پہلو میں سویا ہوا دیکھ کر رانا کاک محل چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے چلا گیا تھا۔ وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ مومل نے محض اس کے حاسدانہ جذبے کو انگیخت کرنے اور اس سے تفریح لینے کے لیے اپنی چھوٹی بہن سومل کو رانا کا روپ دیا ہوا تھا۔

مگر نذیر رانا مہندرا سنگھ سوڈو نہیں تھا۔ وہ محرابوں والے برآمدے سے ملحقہ کمرے سے سنائی دینے والی عورت اور مرد کی دھیمی دھیمی سرگوشیاں سنتا رہا۔ ان کی سرگوشیوں کے مختلف اتار چڑھاؤ محسوس کر تے ہوئے، جن میں بعض اوقات دبی دبی ہنسی اور گھٹا گھٹا سا قہقہہ بھی شامل ہوتا تھا، وہ بھی حاسدانہ مخاصمت محسوس کر رہا تھا۔ اس نے ان کی سرگوشیوں میں چھپی باتوں کو سمجھنے کی بہت کوشش کی۔ وہ جتنی زیادہ کوشش کرتا اتنا ہی زیادہ رقابت کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا۔ حسد اور رقابت کے جذبات نے اس کے رگ و پے میں عجیب سنسنی اور گرمی سی پیدا کر دی۔ وہ رضائی اتارنے پر مجبور ہو گیا۔ کچھ دیر بعد کمرے سے سرگوشیاں سنائی دینی بند ہو گئیں، شاید وہ دونوں اب سو گئے تھے۔

وہ کھاٹ سے اُتر کر صحن کے ٹھنڈے فرش پر ننگے پاؤں چلنے لگا۔ اس کے رگ و پے میں دوڑنے والی گرمی دھیرے دھیرے ختم ہو گئی مگر ایک عجیب سی سنسنی اب بھی باقی تھی۔ اس کی زندگی میں ایسی مضطرب اور اذیت بھری رات نہیں آئی تھی۔ا سے توقع تھی کہ اس کی زندگی کا سب سے خوبصورت اور لذیذ واقعہ صرف ایک رات کی مسافت پر تھا مگر یہ رات کسی طور کٹنے کا نام نہیں لیتی تھی۔ اس نے ٹھنڈا سانس لیتے ہوئے آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کی ماند پڑتی روشنی کو دیکھا۔ آج آسمان پر چاند کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ آئندہ شب پیش آنے والی مہم جوئی کے متعلق آسمان سے مدد کی درخواست کرے۔ اسے فوراً خیال آیا کہ آئندہ شب وہ کوئی کار خیر انجام دینے تھوڑا ہی جا رہا ہے کہ وہ آسمان سے مدد کی درخواست کرے۔ ایسی درخواست کرنے کی صورت میں آئندہ شب اسے کسی افتاد کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا تھا۔ اس نے فوراً یہ خیال ترک کر دیا۔

صحن میں ٹہلتے ہوئے اسے دھیمی سی شونکار سنائی دی۔ اسے فوراً یاد آیا کہ رات کی خنکی میں سانپ اور بچھو باہر نکل آتے ہیں۔ وہ فوراً کھاٹ پر جا لیٹا اور ایک بار پھر نیند کی پری کو گرفت میں لینے کی کوشش کرنے لگا۔ اسی کوشش کے دوران اسے نیند آ گئی، نیند کی پری اس پر مہربان ہو گئی۔

وہ رضائی میں سمٹاہوا سو رہا تھا کہ ایک نسوانی آواز نے اسے پکارا۔ اس کا جواب نہ پا کر وہ اس کے قریب آئی۔ اس کے چہرے سے رضائی ہٹا کر چند ثانیے اس کے سوئے ہوئے چہرے کو دیکھتی رہی، پھر اپنے ٹھنڈے ٹھنڈے نرم ہاتھ سے اس نے اس کی پیشانی کو چھوا تو وہ فوراً جاگ گیا۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر حیرت سے چاچی خیر النسا کو تکنے لگا۔

’’نذیرے اب اُٹھ جا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ پیچھے ہٹا لیا۔

وہ بستر سے اُٹھا نہیں اور اس نے اپنے ہونٹوں سے کچھ کہا بھی نہیں۔ وہ حیران تھا کہ آج صبح چاچی خیر النسا اسے حسین اور پرکشش کیوں محسوس ہو رہی تھی۔ شاید اپنے لمس کی وجہ سے وہ اس کے لیے یک دم حسین ہو گئی تھی۔ وہ عجیب ندامت میں لپٹی ہوئی اس کی کھاٹ کے پاس کھڑی تھی۔ اس کا لباس شکن آلود تھا اور بال بکھرے ہوئے تھے۔ اس کے چہرے پر نیند کی سوگواری تھی۔ یکا یک اس نے اپنے سینے سے چادر ہٹائی اور اپنے دونوں ہاتھوں سے پھیلا کراسے دوبارہ اپنے جسم پر تانا اورغسل خانے کی طرف چلی گئی۔

نذیر اس کے جانے کے بعد اس کی خوشبو کو محسوس کرتا رہا۔ اس کے ہاتھ کا نرم گرم لمس اس کی پیشانی میں جذب ہو گیا تھا۔ کچھ دیر بعد اسے غسل خانے کے فرش پر پانی گرنے کی آواز سنائی دینے لگی۔ وہ کھاٹ پر لیٹے لیٹے پانی گرنے کی آواز سنتے ہوئے کسمساتا رہا۔ اس کا جی چاہا کہ وہ اسی لمحے بھاگ کر غسل خانے میں جا گھسے اور ٹاٹ کا پردہ ہٹا کر چاچی کو بے لباس دیکھ لے — وہ جسے لباس میں کئی مرتبہ عریاں دیکھ چکا تھا۔ اس نے اپنے تصور میں ہینڈ پمپ کے پانی کی دھار کے نیچے سمٹے نسوانی جسم کو دیکھا اور ٹھنڈا سانس بھر کے رہ گیا۔ اس نے اپنے جسم سے رضائی ہٹا دی اور صحن کے ساتھ واقع خالی احاطے کی طرف دیکھنے لگا۔ وہاں صبح کی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔

جب وہ ٹھٹھرتی ہوئی غسل خانے سے باہر آئی تو نذیر اسے ٹھیک طرح دیکھ نہیں سکا۔ اس نے اس کے بدن سے اٹھتی صابن کی مہک اور اس کے جسم کے گیلے پن کو محسوس کیا۔ وہ اپنے سامنے کھڑی بھرپور اور پرکشش عورت کو، اس کی نظروں کے سامنے، غور سے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ یہ اس کی فطری کم ہمتی تھی یا بزدلی۔ وہ ایسے موقعے کی تلاش میں تھا جب وہ اس کی جانب سے توجہ ہٹا کر کسی اور طرف دیکھنے لگے، مگر وہ اسی کی طرف دیکھتی ہوئی تولیے سے اپنے بال سکھانے لگی۔

’’اندر نلکے کا پانی کوسا کوسا اے۔ اُٹھ۔ تُو بھی نہا لے۔‘‘ وہ نذیر کو مکمل طور پر مایوس کرتی کمرے میں چلی گئی۔

نذیر نے جماہی لی اور چپلیں پہن کر غسل خانے کی طرف چلا گیا۔ اندر آ کر وہ گیلے فرش اور بھیگی ہوئی دیواروں کو دیکھنے لگا۔ معاً اس کی نظر کیل میں اٹکے ہوئے بلاؤز کی طرف اٹھی تو اس کی رگوں میں سنسنی پھیل گئی۔ اس نے پردہ ہٹا کر باہر دیکھا، کوئی اس طرف تو نہیں آ رہا۔ اطمینان کر لینے کے بعداس نے کیل سے بلاؤز اُتار لیا اور اسے آنکھوں کے قریب لا کر دیکھنے لگا۔ وہ گلابی ریشمی کپڑے سے بنا ہوا اور ہاتھ سے سِلاہوا بلاؤز تھا۔ وہ انگلیوں سے اسے ٹٹولنے لگا۔ بلاؤز کو دیکھنا اور چھونا اسے اچھا لگ رہا تھا۔ اس کے کناروں پر ہلکی سی گرد جمی ہوئی تھی اور کہیں کہیں اکا دکا بال بھی اٹکے ہوئے تھے، دھیرے دھیرے وہ بلاؤز کو اپنی ناک کے قریب لے گیا اور اسے سونگھنے لگا۔ اسے سونگھتے ہوئے اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ وہ خود کو کسی عورت کے قرب میں محسوس کرنے لگا۔ وصل کی سرشاری جیسی سرشاری اس پر طاری ہونے لگی۔ اس نے بلاؤز کو ناک کے قریب سے ہٹایا اور دوبارہ وہیں کیل پر لٹکا دیا۔

اس نے کچھ دیر ہینڈ پمپ چلا یا۔ جب اس میں سے کوسا پانی نکلنے لگا تو اس نے اپنی قمیض اُتار کر اسی کیل پر لٹکا دی۔ اب وہ اپنے سینے اور اپنے بازوؤں کا معائنہ کرنے لگا۔ اسے ان کی سپیدی اور نرمی اچھی لگی۔ اپنی چھاتی پر ابھرے نوخیز بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اس کا ذہن ایک بار پھر چاچی خیر النسا کے لذیذ تصور میں گم ہو گیا۔ اسے اپنی کم مایگی اور نا تجربہ کاری کا احساس ہونے لگا۔

جب وہ اپنی شلوار اتارنے لگا وہاں اسے ایک گدلاسا دھبا دکھائی دیا۔ دھبا دیکھتے ہی وہ اسے مسلتے ہوئے اپنے دانت کچکچانے لگا۔

’’آج یہ نہیں ہونا چاہیے تھا‘‘وہ جھلاہٹ میں بڑبڑایا۔

وہ خود کو کمزور و ناتواں محسوس کرنے لگا، جیسے وہ دھبا کسی جان لیوا مرض کی علامت ہو۔ اسے لگا کہ اس کے بدن سے تمام قوت نکل گئی ہے اور اس کی تمام خواہشیں یکا یک مرجھا گئی ہیں۔ آج کی رات، وہ شدید بے تابی سے جس کا انتظار کرتا رہا تھا، اب زیادہ دور نہیں تھی۔ اس نے سوچا کہ ذرا دیر کے لیے اس کی آنکھ کیا لگی، نیند کی پری اس کی جان ہی نکال کر لے گئی۔ شاید اس نے کوئی خواب دیکھا تھا اور خواب میں کوئی عورت — مگر وہ عورت کون تھی؟ کیسی تھی؟ وہ اپنے ذہن کو ٹٹولتا رہا مگر اسے مطلق یاد نہیں آ سکا۔ خواب میں آنے والی عورت نہ تو چاچی خیر النسا تھی اور نہ ہی رانا مہندر سنگھ سوڈو کی چہیتی مومل۔ سوچتے سوچتے وہ زچ ہو گیا۔ اِس نے افسردگی سے اپنی ٹانگوں کی طرف دیکھا تو وہ اسے سوکھی سڑی معلوم ہوئیں۔

بہ مشکل وہ اپنے ذہن سے تمام خیالات جھٹک کر ہینڈ پمپ چلا کر غسل کرنے لگا۔ غسل کے بعد وہ اپنی شلوار پر چپکے ہوئے مادۂ انزال کو صابن سے رگڑ رگڑ کر دھونے لگا۔ کچھ ہی دیر میں اس نے دھبے کو شلوار سے مٹا ڈالا کیونکہ اسے نماز بھی تو پڑھنی تھی۔ نذیر نادانستہ سرزد ہونے والے عمل پر نادم تھا اس لیے وہ غسل خانے سے نکل کر بھی خود کو ملامت کرتا رہا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ نئے دن کا آغاز کسی بد شگونی سے ہو، مگر اس کی خواہش کے بر خلاف بد شگونی رونما ہو چکی تھی۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ آج رات اس کے ساتھ کیا پیش آنے والا تھا۔ اس کی توقع کی تکمیل ہونی تھی یا اسے ملیا میٹ ہونا تھا۔

جب تک اس کی شلوار سوکھ نہیں گئی وہ بار بار اپنی شلوار کو دیکھتا رہا۔ اطمینان کر لینے کے بعداس نے تکیے کے نیچے پڑا ہوا رو مال اُٹھایا اور اسے اپنے سرپر باندھ لیا۔

اسے چاچی صحن اور برآمدے میں نظر نہیں آئی تو وہ دروازے سے کمرے کے نیم تاریک ماحول میں جھانکنے لگا۔ وہاں چاچی اسے نماز پڑھتی نظر آئی، جبکہ غفور چاچا ابھی تک گہری نیند سویا ہوا تھا۔ وہ مڑ کر پچھلے دروازے کی طرف چلا گیا جو پیچھے والی گلی کی طرف نکلتا تھا۔

گلی میں صبح کی دھندلی سی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ مکانوں کے دروازوں اور کھمبوں پر جلتے بجلی کے بلب صبح کی پھیلتی روشنی کے سبب اپنی چمک کھوتے جا رہے تھے۔ وہ گلی کے پختہ اینٹوں سے بنے فرش پر چلتا رہا۔ اچٹتی ہوئی نیند کے دوران دکھائی دینے والا خواب تو اسے بھول چکا تھا، مگر اس خواب کے دوران ملنے والی لذت کی ہلکی سی رمق اس کے ذہن کے کسی خفیہ گوشے میں اب بھی موجود تھی۔ وہ اس کے بارے میں سوچتا سوچتا رک گیا۔ ایک بار پھر وہ اپنی شلوار کو ٹٹول کر دوبارہ چل پڑا۔

اب روشنی خاصی پھیل چکی تھی۔ ابھی وہ مسجد سے کافی فاصلے پر تھا کہ اسے نمازی مسجد سے باہر نکلتے دکھائی دیے۔ فجر کی نماز پڑھی جا چکی تھی۔ وہ قصبے کی دو چار گلیاں گھوم کر واپس آ گیا تا کہ چاچی کے پوچھنے پر اُسے بتا سکے کہ وہ نماز پڑھ کر آیا ہے۔

وہ گھر میں داخل ہوا تواسے باورچی خانے سے آنکھوں میں چبھنے والا گاڑھا دھواں سارے گھر میں پھیلا ہوا دکھائی دیا۔ وہ دھیرے دھیرے چلتا باورچی خانے میں چلا گیا۔ یہاں صرف دھواں ہی دھواں بھرا نظر آتا تھا۔ نذیر کی آنکھوں سے فوراً پانی بہنے لگا۔ بہت غور کرنے کے بعداسے بہ مشکل چولھے کی آگ نظر آ سکی۔ وہ اپنے پیروں سے زمین ٹٹول کر چلتا ہوا چولھے کے پاس پہنچا تو اسے چاچی کی ناک اور آنکھوں سے بہتا ہوا پانی دکھائی دیا۔ وہ سمجھ گیا کہ ٹال والے نے ایک مرتبہ پھر گیلی لکڑیاں بھیج دیں۔ اس نے دھونکنی اٹھائی اور اس کی مدد سے کچھ دیر تک پھونکیں مارتا رہا۔ اس عمل سے چولھے میں آگ بھڑک اٹھی۔ دھونکنی ایک طرف رکھ کر وہ گیلی لکڑیوں کو چولھے سے نکالنے لگا۔ جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ باورچی خانے میں بھرا ہوا دھواں باہر نکلنے لگا اور دھوئیں کی چبھن بھی دھیرے دھیرے ختم ہونے لگی۔ اس نے چاچی خیر النسا کی طرف دیکھا۔ وہ اپنے دوپٹے سے اپنی ناک اور آنکھیں پونچھ رہی تھی اور اس کا سفید چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ چولھے میں جلتی آگ اس کے چہرے کی تابانی میں اضافہ کر رہی تھی۔ وہ کھنکار کر گلا صاف کرتی ہوئی کہنے لگی، ’’تیرے چاچے کی طبیعت آج خراب ہے۔‘‘

اس نے تجسس سے پوچھا، ’’کیا ہوا؟‘‘

’’ میرا خیال ہے اسے سردی لگ گئی ہے‘‘وہ اپنے ڈوپٹے کی مدد سے چائے کی دیگچی اُتارتے ہوئے بولی۔

’’چاچے کو سردی کیسے لگ گئی ؟ وہ تو کل کہیں باہر گیا ہی نہیں تھا۔‘‘ وہ اپنے سوالوں میں چھپی حیرت کو چاچی سے پنہاں نہ رکھ سکا۔ اس کی حیرانی کو بھانپ کر چاچی نے جواب دینے کے بجائے اپنا سرجھکالیا۔

اس سے پہلے کہ وہ اپنی کرید میں مزید کچھ پوچھتا، اسے چاچے کے کھانسنے کی آواز سنائی دی۔ کھانسی کی آواز سنتے ہی وہ اس کی موجودگی سے غافل ہو گئی اور اپنے لباس کی شکنیں درست کرنے لگی۔ اس کے بعد اس نے اپنی چادر کو سینے پر پھیلا لیا۔ کچھ دیر بعد کھانستا ہوا چاچا غفور سر سے پاؤں تک کھیس میں لپٹا ہوا باورچی خانے کی کوٹھڑی میں داخل ہوا۔

اسے دیکھ کر نذیر فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے اپنی چوکی اسے دے دی اور خود زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔

’’جیتے رہو‘‘چاچا نقاہت سے بولا۔ اس نے اپنے سر سے کھیس اُتار لیا۔ شیو نہ کرنے کی وجہ سے اس کے چہرے پر سفید داڑھی نکل آئی تھی۔ گالوں کی ہڈیاں نمایاں تھیں اور آنکھیں اندر دھنس گئی تھیں۔ وہ ہانپ رہا تھا، جیسے اپنے سانسوں پر اسے کوئی اختیار نہیں تھا۔ چاچی نے ناگواری سے اس کی طرف دیکھا۔

’’ کمرے سے کیوں نکل آئے ؟میں چائے وہیں لے آتی۔‘‘ اس نے منھ بسورتے ہوئے شکایت کی۔

’’میں نے سوچا آگ کے پاس بیٹھوں گا تو سردی کم لگے گی اس لیے یہاں آ گیا۔‘‘ وہ لفظوں پر زور دیتے ہوئے بہ دقت بولا اور دھیرے سے مسکرا کر اپنی بیوی کی طرف دیکھنے لگا۔

چاچی نے اس کی مسکراہٹ نظرانداز کرتے ہوئے نظریں جھکا لیں اور دیگچی اُلٹا کرتا م چینی کے پیالوں میں چائے انڈیلنے لگی۔

’’پتر نذیر!آج میں دکان نہیں جاؤں گا۔ مجھے سردی لگ رہی ہے اور بدن میں کپکپاہٹ سی بھی ہے۔ تُو سویرے ہی دکان پر چلا جا اور دکان کھول لے۔ حاجی اللہ بخش کو بھریا روڈ جانا ہے۔ میں اس کے جوڑے کل ہی سِی کر آیا تھا۔ تو اس سے پیسے لے لینا۔ اور ہاں، کل ماسٹر طفیل کے بیٹے کی شادی ہے۔ وہ بھی شام کو اپنے کپڑے لینے آئے گا۔ کوئی اگر میرا پوچھے تو کہنا کہ بخار چڑھا ہے۔ کل ضرور آؤں گا۔‘‘ باتیں کرتے ہوئے چاچے کی سانس پھول گئی اور وہ مزید بول نہیں سکا۔

نذیر چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے بے دھیانی سے سنتا ہوں ہاں کرتا رہا۔

چاچی خیر النسا پریشان لگ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں چولھے میں راکھ ہوتے اور بجھتے ہوئے انگاروں پر جمی تھیں۔

کچھ دیر بعد چاچا غفور نذیر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا، ’’ سلائی مشین پر تیرا ہاتھ صاف ہو گیا ہے۔ اب میری دکان تیرے حوالے۔‘‘ نذیر نے اثبات میں سر ہلایا۔ یہ بات سن کر چاچی زیر لب مسکرائی۔ اس نے تیکھی نظروں سے بھتیجے کو دیکھا اور اپنے نچلے ہونٹ کو کاٹنے لگی۔

چاچے غفور کی بات سن کر وہ نجانے کیوں ندامت محسوس کر رہا تھا۔ اپنے کندھے پر اس کا کمزور و ناتواں ہاتھ اسے بھاری بھر کم محسوس ہو رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں خود کو چاچے کے اس اعتماد کا مستحق نہیں سمجھتا تھا۔ اپنے نا کردہ گناہوں کا بوجھ اٹھائے وہ چاچی کی طرف دیکھنا چاہتا تھا مگر نہیں دیکھ سکا۔

تھوڑی دیر بعد وہ باورچی خانے سے باہر نکلا۔ معمول کے مطابق اس نے کمرے سے چارپائی نکال کر صحن کی دھوپ میں بچھائی۔ ، پھر چاچے کو سہارا دے کر باورچی خانے سے نکالا اور صحن میں چار پائی پر لٹا دیا۔ آنکھیں مچمچاتا، لمبے سانس بھرتا چاچا غفور اس لمحے اسے بچے کی طرح معصوم دکھائی دیا۔

نہ جانے کیوں نذیر نے ارادہ باندھا کہ وہ کبھی چاچی کو ایک نظر نہیں دیکھے گا۔

وہ چاچے کے پائنتی بیٹھ گیا اور اس کی ٹانگیں دبانے لگا۔

نذیر کو وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ معلوم ہو رہا تھا۔ اس نے کبھی چاچے کی جسمانی حالت پر غور نہیں کیا تھا۔ اس نے کبھی اس کی آنکھوں میں بھی نہیں جھانکا تھا۔ اب تک وہ صرف اس کی آواز سنتا رہا تھا۔ اس بھاری اور گونج دار آواز ہی اس کے لیے چاچے کے مکمل وجود کا درجہ رکھتی تھی، جو سننے والے کو محکوم بنا دیتی تھی۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ پاٹ دار آواز رکھنے والا شخص در حقیقت اس قدر کمزور بھی ہو سکتا تھا۔

چاچی خیر النسا نذیر کے ناشتے کے لیے دیسی گھی سے بنے پراٹھے پر ساگ اور مکھن رکھ کر لے آئی۔ رکابی لیتے ہوئے اس نے چاچی کی انگلیوں کے لمس کو اپنی ہتھیلی پرمحسوس کیا۔ اس نے جھجکتے ہوئے چاچی کے چہرے کی طرف دیکھا تو کچھ پریشان ہو گیا۔ وہ اپنی آنکھوں میں پوشیدہ جذبے کی چمک لیے اب بھی زیر لب مسکرا رہی تھی۔ اس نے جلدی سے رکابی تھام لی اور فوراً اٹھ کرد وسری چار پائی پر جا بیٹھا۔ وہ چارپائی کی ادوائن کے سوراخوں سے سرخ اینٹوں کے فرش کو دیکھتے ہوئے نوالے چباتا رہا۔ اس دوران وہ اپنے آپ کو جبراً چاچی کی طرف دیکھنے سے روکتا رہا۔ وہ اپنے شوہر سے دوچار باتیں کر کے اس کی چارپائی پر آ بیٹھی۔ نذیر نے اس کی آنکھوں کو خود پر گھومتے ہوئے محسوس کیا تو نوالے چباتے ہوئے اس کی زبان دانتوں کے نیچے آنے لگی۔ لذیذساگ اور پراٹھے کا مزہ خراب ہو گیا۔

اس نے نذیر سے کوئی بات نہیں کی، بس اپنی آنکھوں کے کونوں سے شریر انداز میں اسے دیکھتی رہی اور اسے دیکھتے ہوئے اپنی چادر کے کونے کو شہادت کی انگلی پر لپٹتی رہی۔ وہ بار بار اپنے دانتوں سے اپنے نچلے ہونٹ کو دبا تی رہی۔ ایسے میں سانسوں کے زیر و بم سے اس کی چھاتیاں دھیرے دھیرے لرز سی رہی تھیں۔

چاچا غفور اپنی چارپائی پر بیماری کے زیر اثر غافل لیٹا ہوا تھا۔ وہ لاچاری سے ٹھنڈا سانس بھرتی ہوئی اٹھی اور تیز قدموں سے چلتی ہوئی باورچی خانے کی طرف چلی گئی۔ اس کے جاتے ہی نذیر نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ وہ خود کو اس کی پشت دیکھنے سے باز نہیں رکھ سکا۔ چلتی ہوئی عورتوں کی پیٹھ دیکھنا اسے بہت اچھا لگتا تھا۔ ایسے میں وہ کہیں گم ہو جاتا۔ عورت کی پشت کا نظارہ اسے چاند کی چودھویں شب اوس میں بھیگے ہوئے کسی صحرا کی یاد دلاتا تھا، جس کی بھیگی ہوئی نرم نرم ریت پر وہ کچھ دیر سستانا چاہتا تھا۔ اس لمحے بھی اس کے دل میں ایسی ہی خواہش نے سر اٹھایا۔ خوابیدہ جذبے بیدار ہوئے مگر وہ آہ بھرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکا۔ اس نے جلدی سے پراٹھے کا آخری نوالہ توڑ کر اپنے منھ میں ٹھونسا۔

اچانک چاچے غفور کے سینے سے خرخراتی ہوئی کچھ آوازیں سنائی دیں، جو اگلے لمحے کھانسی میں بدل گئیں۔ اس نے بہ دقت کروٹ لی اور زمین پر بلغم تھوکنے لگا۔

نذیر رکابی اٹھائے چاچے کے پاس آیا اور اس کا حال دریافت کیا۔ چاچے نے اس کی طرف دیکھے بغیر ہاتھ کا اشارہ کیا، جس کا مطلب تھا کہ میں ٹھیک ہوں، تم جاؤ۔ وہ باورچی خانے میں رکابی رکھنے گیا تو وہاں اس نے چاچی کو گھٹنوں میں اپنا سردبائے ہوئے دیکھا۔ وہ اس کی آہٹ سن کر چونکی اور اپنا سر اٹھا کر اسے دیکھتی ہوئی خوامخواہ مسکرانے لگی۔ اس کی زرد آنکھیں اوراداس چہرہ دیکھ کر وہ اپنا دل مسوس کر رہ گیا۔

اس کی حوصلہ افزائی کی خاطر وہ گویا ہوا۔ ’’چاچی، پریشان مت ہو، چاچا شام تک بھلا چنگا ہو جائے گا۔‘‘ اس کی یہ بات سن کراس نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے اپنا سر ہلا دیا۔

وہ باورچی خانے میں کچھ دیر ٹھہرنے کے بجائے فوراً وہاں سے باہر چلا گیا۔ چاچے کو خدا حافظ کہہ کر وہ گھر سے نکلا اور دکان کی راہ لی۔

گھر سے نکلنے سے پہلے اس نے کہانیوں والا رسالہ بھی ساتھ لے لیا تھا۔ اس کی طبیعت دکان میں کوئی کام کرنے پر مائل نہیں تھی۔ اس نے سوچا کہ یعقوب کاریگر اکیلا ہی شادی والے کپڑوں کی سلائی کر دے گا اور اس کی تساہل پسندی کے بارے میں چاچے سے شکایت بھی نہیں کرے گا۔

راستوں پر تیزی سے چلنا اس کا معمول تھا، مگر وہ آج گلی کی ڈھلان سے بہت آہستگی سے اُتر رہا تھا۔ وہ زیادہ سوچنے کا عادی نہیں تھا مگر اس وقت اس کے ذہن میں خیالات کی ایک گتھی الجھی ہوئی تھی جسے سلجھانا بہت ضروری تھا۔ وہ اسے جلد از جلد سلجھانا چاہتا تھا مگر درمیان میں کوئی چیز مزاحم تھی۔

گلی کے درمیان چلتے چلتے بے دھیانی میں وہ داہنی طرف بدرو کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ گلی لوگوں سے یکسر خالی تھی اور اس وقت یہاں سے مویشیوں کے کسی ریوڑ کو بھی نہیں گزرنا تھا۔ رفیق حجام کا بیٹا شلوار اتارے نالی پر بیٹھا ٹٹی کر رہا تھا۔ اسے دیکھ کر وہ شرمانے لگا اور بیٹھے بیٹھے اس نے اپنا چہرہ قمیض کے دامن میں چھپا لیا۔

نذیر نے اسے دیکھا تک نہیں اور اپنی دھن میں اس کے قریب سے گزر گیا۔

وہ سوچتا جا رہا تھا کہ اسے چاچے کے پاس رہتے ہوئے تین سال گزر گئے تھے۔ اس دوران اس نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی تھی کہ چاچی خیر النسا اس کے بارے میں کسی بدگمانی میں مبتلا ہو جاتی۔ وہ اسے اچھی لگتی تھی— بالکل جس طرح بھابی خدیجہ اسے اچھی لگتی تھی۔ چاچی کا جسم پر کشش تھا اور اسے چوری چھپے دیکھ کر وہ لطف اندوز ہوتا رہتا تھا۔ اس کی آنکھیں بھی اسے اچھی لگتی تھیں مگر وہ انھیں حسین خیال نہیں کرتا تھا۔

آج اس نے پیشانی پر ہاتھ رکھ کر نیند سے جگایا تھا۔ کیوں ؟اس سے پہلے وہ ہمیشہ اسے آواز دے کر اٹھاتی تھی یا اس کی رضائی کو جھنجھوڑ دیا کرتی تھی۔ رکابی تھماتے ہوئے اس کی انگلی کا لمس۔ .. اسے لگتا تھا کہ چاچی نے جان بوجھ کر اسے چھوا تھا۔

جب وہ نیا نیا یہاں آیا تھا تو چاچی خیر النسا نے کبھی اس کے سامنے اپنے سر سے ڈوپٹہ نہیں اُتارا تھا۔ وہ اس کے سامنے قہقہہ لگانے سے بھی گریز کرتی تھی۔ وہ اس کی موجودگی میں کبھی انگڑائی بھی نہیں لیتی تھی۔ لیکن کچھ دنوں سے وہ ان چیزوں کے حوالے سے لاپروا ہوتی جا رہی تھی۔ اب وہ اس کے سامنے ڈوپٹے کے بغیر گھومتی اور بے نیاز ہو کر انگڑائیاں لیتی۔ اپنا لباس سرکنے سے بے خوف ہو کر وہ گھر بھر میں جھاڑو لگاتی۔ اور تو اور، بعض اوقات وہ اس کے سامنے کھاٹ پر لیٹ جاتی اور قمیض کا دامن بھی درست نہ کرتی۔

تین برسوں سے نذیر کے ذہن میں اس خیال کی پھانس اٹکی ہوئی تھی کہ چاچا غفور ساٹھ برس کا تھا اور چاچی خیر النسا اس سے پچیس سال چھوٹی تھی۔ وہ اکثر سوچتا رہتا تھا کہ وہ لاغر اندام بوڑھے شخص کے ساتھ کس طرح نباہ کرتی رہی تھی۔

چلتے چلتے اسے چاچی کی انگڑائی یاد آئی اور پیشانی پر اس کے ہاتھ کا لمس۔ وہ مسکرانے لگا مگر جب اس نے آس پاس نظر ڈالی تو ٹھٹک کے رہ گیا۔ گلی سے نکل کر اسے بازار والی سڑک کی جانب مڑنا تھا لیکن وہ خیالوں میں چلتے چلتے قصبے کے آخری مکانات تک پہنچ گیا تھا۔ اسے اپنے سامنے گندم کے کھیت دکھائی دے رہے تھے۔

وہ اپنے آپ کو ملامت کرتا گارے اور لکڑی کے مکانوں کو دیکھتا واپس لوٹنے لگا۔ ایک بار پھر وہ خود کوسمجھانے لگا کہ اس کی جانب سے کسی قسم کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ خطرناک ہو سکتا تھا کیونکہ آخر کار چاچا غفور اس کے والد کا سگابھائی تھا۔

بازار کی سڑک پر واقع پرائمری اسکول سے بچوں کا شور سنائی دے رہا تھا۔ اس نے محکمۂ بہبودِ آبادی کے دفتر کے باہر لگے ہوئے بورڈ کو دیکھا۔ جس پر چہروں کے بغیر مرد، عورت اور ایک بچہ بنے ہوئے تھے۔ سڑک پر خاصی چہل پہل تھی۔ دکانیں کھلی ہوئی تھیں۔ دکانداروں کے چھڑکاؤ کی وجہ سے سڑک کیچڑ آلود ہو گئی تھی۔ گرد و پیش کے دیہات سے گدھا گاڑیوں، سوزوکیوں اور بسوں کے ذریعے قصبے میں لوگوں کی آمد شروع ہو گئی تھی۔ چائے خانے بھرنے لگے تھے اور وہاں ٹیپ ریکارڈر پر مشہور گانے بجنے لگے تھے۔

چاچے غفور کی دکان سڑک کے آخری سرے پر چھوٹی سی گلی میں واقع تھی۔ اس گلی میں صرف درزیوں کی دکانیں تھیں۔ یعقوب کاریگر نذیر کو راستے میں ہی مل گیا۔ وہ دکان کی چابیاں لینے گھر جا رہا تھا۔ نذیر نے چاچا غفور کی صحت کے بارے میں اسے بتایا تو اسے تشویش ہونے لگی۔

یعقوب کاریگر نے دکان کا تالا کھولا تو نذیر نے شٹر اُٹھانے میں اس کی مدد کی۔ وہ یعقوب کا احترام کرتا تھا، اس لیے کہ ایک تو وہ ادھیڑ عمر آدمی تھا اور پھر چاچے کا دوست بھی تھا۔ دکان کے بیشتر معاملات اسی کے ہاتھ میں تھے۔ لوگوں کی نظر میں دکان کا مالک چاچا غفور نہیں بلکہ یعقوب کاریگر تھا۔ کئی بہت پرانے گاہکوں کے ناپ اسے زبانی یاد تھے۔ جب انھیں رد و بدل کروانا ہوتا یا وہ نئے فیشن کا ڈیزائن بنواتے تو اپنی فرمائشیں اِسی کو بتاتے۔ وہ دھاگوں، بٹنوں اور بُکرم کی خریداری میں خود مختار تھا۔

اسے بہ یک وقت مردانہ اور زنانہ کپڑوں کی سلائی پر دَسترس تھی۔ مگر نہ جانے کیوں قصبے کی عورتوں میں وہ ایک مثالی درزی کی حیثیت سے مقبول تھا۔ دور دراز گوٹھوں کی عورتیں تک بھی اس کی مہارت کی شہرت پھیل چکی تھی۔ کپڑے سِلوانے والی خواتین دیر تک اس کی فضول باتیں بھی سنتی رہتی تھیں۔

نذیر یعقوب کاریگر کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ کچھ عورتوں سے اس کے گہرے تعلقات تھے شاید اسی لیے اتنی عمر گزرنے کے باوجوداِس نے شادی نہیں کی تھی۔

نذیر کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی تھی کہ دکان کا تالا اور شٹر وہی کھولے اور فرش کی صفائی بھی وہی کرے، لیکن یعقوب ہمیشہ ہی اس کا ہاتھ تھام لیتا تھا۔

’’بابو، تم مالک، میں نوکر، یہ کام تمھارے لیے نہیں۔‘‘

مگر آج نذیر نے اپنے دل کچھ اور ہی ٹھانی ہوئی تھی۔ دکان میں داخل ہوتے ہی نذیر نے جھاڑو اُٹھا لی اور صفائی کرنے لگا۔ یعقوب نے اس کے ہاتھوں سے جھاڑو لینے کی کوشش کی تو اس نے مصنوعی غصہ ظاہر کرتے ہوئے اسے دکان سے باہر جانے کا اشارہ کر دیا۔ سفید بالوں والا کاریگر اپنے سیٹھ کے بھتیجے کا حکم سن کر ہنسی میں کندھے ہلاتا گلی میں جا کھڑا ہوا۔ اس نے قمیض کی جیب سے بیڑیوں کا بنڈل نکالا اور اسے پنے ہاتھ سے نرمی سے دبانے لگا۔ پھر اس میں سے ایک بیڑی نکال کر اسے دانتوں میں چبا کر اس نے اسے سُلگایا۔

اس دوران نذیر نے کرسیوں، سلائی مشینوں اور میز کے نیچے سے کچرا صاف کیا۔ اس نے دھاگوں، لیروں اور بیڑی کے ٹکڑوں کو جمع کر کے اخبار میں سمیٹا اور اخبار کو دکان سے باہر پھینک دیا۔

یعقوب کاریگر آستینیں چڑھاتا دکان میں داخل ہوا اور اپنی، مخصوص نشست پر جا بیٹھا۔ اس نے اپنی ٹانگیں کرسی پر سکیڑ لیں اور مزے سے بیڑی کے کش لیتا رہا۔ بیڑی ختم ہونے پراس نے اسے چپل کے نیچے مَسل دیا۔ اس کے بعد میز کے دراز سے اگر بتّی کا پیکٹ نکالا اوراس میں سے دو اگر بتیاں نکال کر اس نے دیا سلائی کی مدد سے جلائیں، پھر زور سے پھونک مار کر اس نے اگر بتیوں کے شعلے کو بجھایا اور ان کے خوشبو دار دھوئیں میں لمبے سانس بھرنے لگا۔ یعقوب کے لیے صبح دکان کھولتے ہی اگر بتی جلانا ایک مقدس رسم کی طرح تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر بتی کی خوشبو سے دکان پر پڑنے والا ہر قسم کے شر کا سایہ چھٹ جاتا ہے۔ اس نے سلگتی ہوئی ایک اگرب تّی کو میز کے کاؤنٹر میں اٹکایا جبکہ دوسری کو دیوار کے رخنے میں لگا دیا۔

نذیر اپنی سلائی مشین صاف کر رہا تھا کہ اسے چاچے کی بات یاد آ گئی۔ سلائی مشین صاف کرتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ روک لیا اور کاریگر سے مخاطب ہوا۔ ’’وہ، ماسٹر طفیل شام کو کپڑے لینے آئے گا۔ اس کے پانچ جوڑے ہیں شاید‘‘ وہ ہچکچا کر بولا۔ بڑی عمر کے لوگوں سے بات کرتے ہوئے وہ اعتماد کھو بیٹھتا تھا؛ اس کی نگاہ جھک جاتی تھی اور زبان میں گرہ پڑنے لگتی تھی۔

یعقوب نے اس کی بات سنی اور مسکراتے ہوئے بولا، ’’معلوم ہے۔ دو لیڈیز کے ہیں اور تین مردانہ جوڑے۔‘‘

نذیر نے مطلوبہ دھاگے کی نلکی کو سلائی مشین پر چڑھایا اور دھاگے کو مختلف جگہوں سے گزار کر سوئی کے ناکے میں ڈال دیا۔ بیکار کپڑے کو سوئی کے نیچے رکھا اور مشین چلا کر ٹانکوں کا جائزہ لیتا رہا۔

کل صبح ہی انھوں نے ماسٹر طفیل کے کپڑوں کی کٹائی کر لی تھی اور شام تک آدھے جوڑوں کی سلائی بھی ہو چکی تھی۔ اب نذیر کا ہاتھ سلائی مشین پر رواں ہو گیا تھا۔ وہ اکیلا ہی شام تک بیٹھ کر پانچ جوڑوں کی سلائی کر سکتا تھا۔ مگر اس کا مزاج سیمابی تھا اس لیے اس کے لیے ایک جگہ دیر تک بیٹھنا مشکل تھا۔ یکسوئی سے کام کرتے کرتے اچانک اس پر بے قراری کا دورہ پڑتا اور وہ فوراً دکان سے باہر نکل جاتا؛ کچھ دیر سڑک پر ٹہل کر اِدھر اُدھر کی چیزوں کو دیکھتا اور پھر واپس آ کر اپنا کام کرنے لگتا۔

درزیوں کی اس گلی کی ہر دکان پر ٹیپ ریکارڈر اونچے سروں میں بجتا تھا۔ ہر درزی اپنی پسند کے گانے سنتا تھا۔ نذیر بھی فلمی گانے سننے کا شوقین تھا۔ کئی مرتبہ وہ یعقوب کاریگر سے اپنی خواہش کا اظہار کر چکا تھا۔ اسے بھی موسیقی سننا پسند تھا مگر چاچے غفور کو موسیقی سے نفرت تھی۔ گلی میں کوئی درزی جب اونچی آواز میں گانے بجاتا تو چاچا غفور اسے گالیاں دینے لگتا اور ٹیپ بند کروا کے دم لیتا۔ مگر وہ درزی کچھ دیر بعد دوبارہ ٹیپ ریکارڈ بجانا شروع کر دیتا۔ چاچا غفور اس مرتبہ اٹھ کر جانے کے بجائے بیٹھا بڑبڑاتا رہتا۔

یعقوب کاریگر نے ایک اور شوق بھی پال رکھا تھا۔ اس نے کچھ ہٹ دھرمی اور کچھ بے شرمی کی وجہ سے اپنے اس عجیب شوق کی تکمیل کر لی تھی۔ اسے اپنے چاچا غفور کے طعنوں کی بھی پروا نہیں تھی۔ اس نے اخباروں، رسالوں، کتابوں اور پوسٹروں سے رنگین تصویریں کاٹ کاٹ کر دکان کی دیواروں پر چپکا دی تھیں۔ چھت سے فرش تک کوئی جگہ خالی نہیں چھوڑی تھی۔ تمام کی تمام تصاویر فلمی اداکاراؤں اور ٹی وی کی ماڈل لڑکیوں کی تھیں۔ وہ سب کی سب جوان اور پُر کشش دکھائی دیتی تھیں۔ یعقوب کا یہ مشغلہ بہت پرانا تھا اور اس میں کبھی کمی نہیں آتی تھی۔ وہ ہر دوسرے دن ڈھونڈ ڈھانڈ کر کوئی نئی نویلی تصویر لے آتا اور اسے کسی پرانی تصویر کی جگہ لگا دیتا۔ گلی میں ایک اور درزی نے بھی اس کی دیکھا دیکھی یہی شغل اختیار کر لیا تھا۔ وہ گاہے گاہے یعقوب کاریگر کو اپنی تصویروں کے معائنے کے لیے بلاتا رہتا اور اس کی رائے بھی معلوم کرتا۔

نذیر نے بے دلی سے کٹا ہوا کپڑا اُٹھایا اور سلائی کرنے لگا۔

گلی میں گاہکوں کی آمدورفت شروع ہو چکی تھی۔ یہ مختصر بند گلی شام تک لوگوں سے بھری رہتی تھی۔ دکانداروں نے دکانوں پر کپڑوں کے سائبان لگا رکھے تھے، جس کی وجہ سے گلی صبح سے شام تک سایہ دار رہتی تھی۔

چاچے غفور کی بیماری کی خبر پوری گلی میں پھیل گئی۔ تمام دکاندار نذیر سے اس کی خیریت دریافت کرنے آئے مگر واپس جا کر انھوں نے ٹیپ ریکارڈ اونچی آواز میں بجانا شروع کر دیا۔ ہر دکان پر مختلف گانا چل رہا تھا— ملی جلی آوازوں کے بیچ کسی گانے کے بول سمجھ نہیں آتے تھے۔

جب دکان کے آگے سے گزرنے والے کسی شخص کا سایہ اندر پڑتا تو نذیر بے اختیار ہو کر باہر دیکھنے لگتا۔ وہ احتیاط سے کئے جانے والے کام میں جلد بازی برتنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کا ایک ہاتھ تیز رفتاری سے سلائی مشین کے ہینڈل پر گھوم رہا تھا جبکہ دوسرا ہاتھ کپڑے کو تیزی سے آگے سرکا تا جا رہا تھا۔ سوئی چشم زدن میں کپڑے پر ٹانکے پر ٹانکا لگا تی جا رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے سلائی مشین روک دی۔

یعقوب کاریگر نے شلوار مکمل کر لی تھی۔ کچھ سستانے کے لیے اس نے نئی بیڑی سلگائی۔ نذیر اپنی نشست سے اُٹھا اور دکان کے سرے پر کھڑا ہو گیا۔ ہوٹل کا باہر والا کیتلی اور پیالیاں اٹھائے اس کے سامنے سے گزرا تو اس نے اسے دو چائے کے لیے کہہ دیا۔ پھر وہ دکان کے اندر آ کر یعقوب کاریگر کے پاس جا کھڑا ہوا۔ وہ بیڑی کے کش پر کش لگاتا اپنی گدلی آنکھوں سے اپنے سامنے کھڑے نوجوان لڑکے کو دیکھتے ہوئے مسکرایا۔

’’آج کام میں دل نہیں لگ رہا‘‘نذیر جھجکتے ہوئے بولا۔

’’تمھاری جو عمر ہے نا، اس میں یہ دل بڑا تنگ کرتا ہے، جب کہ یہ کام کرنے کے لیے پتہّ مار کر بیٹھنا پڑتا ہے‘‘وہ اپنی سفید اور سیاہ داڑھی کھجاتے ہوئے بولا۔ ’’پروا مت کرو۔ میرے ہوتے ہوئے کوئی غم نہ کرو۔‘‘

’’چاچے کو نہ بتانا۔ ..‘‘نذیر نے اس سے درخواست کی۔ کاریگر نے یہ سن کر قہقہہ لگایا۔ اس کا قہقہہ سن کر نذیر بھی مسکرایا۔ وہ اسٹول کھینچ کر خوش مزاج کاریگر کے پاس بیٹھ گیا اوراس نے یونہی موسم کی شدت کا ذکر چھیڑ دیا۔

’’اس مہینے سردی اور بڑھ جائے گی۔ سنا ہے کوئٹہ میں برف باری ہو رہی ہے !‘‘

یعقوب کاریگر کندھے جھٹک کر ہنستے ہوئے بولا، ’’تمھارے چاچے کو اسی لیے ٹھنڈ لگ گئی۔ .. مگر یار، اس کے پاس تو بہترین ہیٹر ہے۔ اسے ٹھنڈ نہیں لگنی چاہیے تھی۔‘‘

اس کی یہ بات سن کر نذیر نے شرما کر اپنا سرجھکالیا۔

یعقوب اس کے گھٹنے پر ہاتھ مارکر قہقہے میں لوٹنے لگا۔ ’’تم اب بچّے نہیں رہے۔ ماشا اللہ سمجھ دار ہو۔‘‘

باتوں کے دوران چائے والا آ گیا۔ نذیر نے پیالیوں میں چائے ڈالی۔

کاریگر چائے پی کر اُٹھا اور انگڑائی لیتے ہوئے اس نے اپنی کمر کا پٹاخہ نکالا۔

نذیر نے اسے انگڑائی لیتے ہوئے دیکھا تو آج کی رات جو واقعہ پیش آنے والا تھا اس کے تصوّر سے اس کے خون میں سنسنی پھیل گئی۔ اس کا ذہن یعقوب کے فحش مذاق سے نکل کر یکایک کہیں اور پہنچ گیا۔ اسے چاچی خیر النسا کا خیال تک بھی نہیں آیا کیونکہ اس کا ذہن خیالات کے ایک اور بگولے کی زد میں آ کر اِدھر اُدھر بھٹکنے لگا تھا۔ وہ واقعہ جو پینتالیس روز قبل پیش آیا تھا، آج اپنے انجام کو پہنچنے والا تھا۔ وہ بالکل نہیں جانتا تھا کہ آج کی شب اس کی امیدوں کو بر آنا تھا یا انھیں ہمیشہ کے لیے ملیا میٹ ہونا تھا۔ اس کے علاوہ آج شب جو واقعہ رونما ہونے والا تھا اس سے اس کی زندگی کو بھی خطرہ لاحق تھا۔ اگر وہ اس سے کامیاب گزر گیا تو ٹھیک؛ ناکامی کی صورت میں اس کی موت بھی واقع ہو سکتی تھی۔

 

ڈیڑھ مہینہ پہلے چاچا غفور نے اسے پڈعیدن شہر ایک ضروری کام سے بھیجا تھا۔ وہ فجر کے وقت میر واہ سے نکلنے والی پہلی بس پر سوار ہو کر پہلے سیٹھارجہ پہنچا اور وہاں سے ٹرین پکڑ کر تقریباً دس گیارہ بجے پڈعیدن پہنچ گیا۔ اسے کام نمٹاتے نمٹاتے دوپہر ہو گئی۔ پھر ہوٹل میں کھانا کھانے کے بعد وہ سہ پہر کے وقت ریلوے اسٹیشن پہنچا اور ٹرین کا انتظار کرنے لگا جو پون گھنٹے بعد آنے والی تھی۔ بے چینی سے انتظار کرتے ہوئے وہ پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگا۔

پڈعیدن ریلوے اسٹیشن ایک جنکشن تھا، جہاں سے برسوں پہلے نوشہرو فیروز، ٹھارو شاہ، کنڈیارو اور دیگر چھوٹے قصبوں کی طرف ریل جایا کرتی تھی، مگر اب بہت عرصے سے محکمۂ ریلوے نے اس راستے کو منسوخ کر دیا تھا؛ اب یہاں سے صرف مین لائن ٹرینیں ہی گزرتی تھیں۔ لیکن پڈعیدن ریلوے اسٹیشن کا پھیلاؤ اب بھی پہلے جیسا ہی تھا اور اب بھی اس کے نام کے ساتھ بہت سے اسٹیشنوں کی طرح جنکشن کا دم چھلا لگا ہوا تھا۔ اضافی لائنوں پر اکثر ایک یا دو انجن کھڑے شور مچاتے اور دھواں اگلتے رہتے تھے۔ پڈعیدن شہر ریلوے اسٹیشن کی عمارت کے عین مخالف سمت میں واقع تھا۔ وہ بھی اسی راستے سے پیدل چلتا ہوا یہاں پہنچا تھا۔

نذیر کی عادت تھی کہ وہ سفر کرتے ہوئے کسی خوبصورت نسوانی چہرے کی تلاش میں رہتا تھا تاکہ اس کی آنکھوں میں جھانک جھانک کر اور اپنی آنکھوں سے اس کے چہرے کو ٹٹول ٹٹول کر بیزار کن اور اکتاہٹ سے بھرے سفر کو اہم ترین یاد میں تبدیل کیا جا سکے۔ یہ معاملہ ایک ریلوے اسٹیشن سے شروع ہو کر دوسرے پر ختم ہو جاتا تھا مگر اس کی یاد ہمیشہ ذہن میں محفوظ رہتی تھی۔ تین مرتبہ وہ اس معاملے کو طول دینے کی کوشش میں اذیت اور خواری کا تجربہ کر چکا تھا۔

اس کا مشاہدہ تھا کہ عورتیں بھی اس تفریح سے لطف اندوز ہوتی تھیں۔ انھیں اپنے دیکھنے والوں پر اپنی مسکراہٹ، ہنسی اور ادائیں نچھاور کر کے کوئی روحانی مسرت حاصل ہوتی تھی۔ بعض عورتیں اپنے سینے کی نمائش کرنے سے بھی نہیں چوکتی تھیں، اسی لیے وہ بار بار اپنے دوپٹے یا چادر کودرست طریقے سے اوڑھنے کا جتن کرتی رہتی تھیں اور اس طریقے سے وہ مردوں کو لبھانے کی کوشش کرتی تھیں۔ ان خواتین پر اسے حیرانی ہوتی تھی جو مردوں کی گھورتی نظروں سے لاتعلق ہو کر شیر خوار بچوں کو دودھ پلانا شروع کر دیتی تھیں۔ وہ ہمیشہ ریل کے دوسرےدرجے کی بو گیوں میں سفر کرتا تھا کیونکہ وہ ہجوم سے بھری ہوتی تھیں ؛ اس طرح کبھی کبھار اسے کسی نسوانی جسم کو چھونے کا موقع بھی مل جاتا تھا۔ ان بو گیوں میں ہمیشہ نچلے اور نیم متوسط طبقے کی عورتوں کی بھرمار ہوتی تھی۔ نچلے طبقے والی خواتین لباس اور جسم کی صفائی سے بے نیاز ہوتی تھیں اور انھیں دیکھ کر گھن سی آتی تھی، جبکہ نیم متوسط طبقے کی عورتیں رنگین ملبوسات، اپنی پردہ پوشی، زیورات اور خوشبوؤں کے استعمال کی وجہ سے حقیقی نسوانی پیکر دکھائی دیتی تھیں۔ ان کی آنکھیں غمزوں کے ان دیکھے جہان آباد کرتیں۔ ان کے ہاتھوں اور بازوؤں کی سپیدی مردوں کی آنکھوں کو پوشیدہ نظاروں کے لیے تڑپاتی، جن کے دیدار کے نہ کوئی آثار ہوتے اور نہ امکان۔

پلیٹ فارم پر چہل قدمی کرتے ہوئے اس نے ساری خواتین کو دیکھ لیا۔ اسے مایوسی ہوئی کیونکہ ان میں سے کوئی بھی اس کے معیار پر پوری نہیں اتری۔ اپنی جستجو کو مہمیز دیتے ہوئے وہ پرلی طرف والے پلیٹ فارم کی جانب چلا گیا۔ وہاں پر اسے ایک حسین عورت نظر آئی۔ وہ کچھ دیر اسے تکتا رہا، مگر خاتون نے اس میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ نذیر نے محسوس کیا کہ اس کے التفات کی ندی کا رخ کسی اور جانب تھا۔ وہ شخص پتلون اور شرٹ میں ملبوس تھا اوراس نے چشمہ بھی لگا رکھا تھا۔ نذیر اسے دیکھ کر احساسِ کمتری میں مبتلا ہو گیا کیونکہ اس نے کبھی پتلون شرٹ زیب تن نہیں کی تھی۔ وہ وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ وہ ایسی پرکشش، حسین اور مقامی نوجوان خاتون کی تلاش میں تھا جو انگریزی لباس پسند نہ کرتی ہو۔

پلیٹ فارم کے دونوں سروں کے درمیان چکر لگاتے ہوئے اس نے ایک برقع پوش نوجوان خاتون کو منتخب کیا جو ایک ادھیڑ عمر عورت کے ساتھ پتھر کی نشست پر بیٹھی تھی۔ نذیر نے چائے کے اسٹال کے پاس کھڑے ہو کر انھیں کچھ دیر تاکنے کے بعد اندازہ لگا لیا کہ ان کے ساتھ کوئی مرد نہیں تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ نوجوان پردہ نشین اس کی مسلسل تاکا جھانکی کا برا نہیں مان رہی تھی بلکہ وہ بھی بار بار اپنی نظروں کے تیر اس کی طرف پھینک رہی تھی۔ نذیر نے اس کا انتخاب اس لیے نہیں کیا تھا کہ وہ بھی مسلسل اس کی نظروں کا جواب دے رہی تھی بلکہ اسے اس کی گہری سیاہ آنکھیں اور اس کی کمان جیسی بھنویں بے حد پرکشش لگ رہی تھیں۔ نجانے کیوں وہ ان میں اپنے لیے پسندیدگی اور دلچسپی محسوس کر رہا تھا— ہو سکتا ہے یہ اس کی خوش فہمی ہو، مگر وہ جس طرح اسے دیکھ رہی تھی، اسے اس کے دیکھنے کا انداز بھا گیا۔ اس کا جوان حُسن اس کی آنکھوں سے آشکار تھا۔ وہ ٹکٹکی لگائے اس کے نازک سفیدہاتھوں، گلکاری والی چپل میں محفوظ پیروں اور برقعے میں چھپے ہوئے اس کے جسم کو دیکھتا رہا اور اس کے پوشیدہ حسن کی کشش کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر وہ اس کے بازوؤں کا جائزہ لینے لگا۔ اس کی کلائی بہت نازک اندام اور اس کے ہاتھوں کی انگلیاں بہت گداز تھیں۔

نذیر چائے کے اسٹال پر کہنی ٹکا کر، اس کے حسن سے مبہوت، اسے تکتا ہی رہا۔ چائے کے اسٹال کا مالک من موجی مگر زیرک شخص تھا۔ وہ اس کی نیت فوراً بھانپ گیا۔ نذیر کے پاس آ کر اس نے اس کے کان میں سرگوشی سے کہا،  ’’استاد!موقع اچھا ہے۔ اسے گرما گرم چائے پلا کر اس کے دل میں گرمجوشی پیدا کرو۔ دودھ پتّی چائے فس کلاس ہو گی اور اسے پلانا میرا کام ہے۔‘‘ اس کے منھ سے نسوار کی بُو آ رہی تھی اور وہ ہنستے ہوئے اپنے بدنما دانتوں کی نمائش کر رہا تھا۔

اس کی پیشکش سن کر نذیر چونکا۔ اس نے شک بھری نظر سے اس کی طرف دیکھا اور نفی میں سرہلا دیا۔ اس نے اسے صرف اپنے لیے چائے لانے کے لیے کہا۔

پردہ نشین حسینہ کچھ دیر پہلے تک سکون سے بیٹھی اپنے فطری انداز میں آس پاس کی چیزوں کو دیکھ رہی تھی مگر اب اچانک اس کے وجود میں عجیب سی ہلچل نظر آنے لگی تھی۔ وہ بے چینی سے پہلو بدلنے لگی تھی اور بار بار اپنے نقاب کو ہلا ہلا کر اس کی شکنیں درست کر رہی تھی۔ وہ بے اختیار ہو کر ذرا ذرا دیر بعد نذیر کو دیکھتی۔ اس کی ساتھی عورت سوگوار سے لہجے میں مسلسل کچھ بول رہی تھی۔ برقع پوش کی توجہ اس کی باتوں پر نہیں تھی، وہ ہوں ہاں کر کے اسے ٹال رہی تھی۔ دھیرے دھیرے اس کی آنکھوں میں فطری نرمی کی جگہ ایک بے قراری لیتی جا رہی تھی۔

نذیر اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر چائے کے میٹھے پن کو محسوس کر رہا تھا۔ وہ ابھی تک چائے کے اسٹال والے کی پیش کش میں الجھا ہوا تھا۔ اسے برقع پوش کی توجہ حاصل ہو چکی تھی۔ اب وہ بار بار اپنی گردن موڑ کراسے دیکھ رہی تھی۔ اس کی اپنی طرف متوجہ بڑی بڑی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے نذیر کے خون میں پراسرار سی سرسراہٹ ہونے لگی تھی، جس کے باعث اس کی کنپٹیوں اور اس کے سر کے پچھلے حصے پر پسینہ آنے لگا تھا۔

بہت دیر سوچنے کے بعد نذیر نے اسٹال والے کو بلایا اور اسے چائے بنانے کے لیے کہا۔ اس نے طے کر لیا تھا اب بات کو آگے بڑھانا چاہیے۔

برقع پوش کی ساتھی ادھیڑ عمر عورت جو بظاہر اب تک ان دونوں کے معاملے سے لاعلم تھی، لگتا تھا شاید اب اسے اس معاملے کی بھنک پڑ گئی تھی۔ وہ وقفے وقفے سے اپنی مسکراتی ہوئی شریر نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی تھی۔

مٹی کے تیل سے جلتے چولھے پر چائے ابلنے لگی تو اسٹال والے نے دھلی ہوئی صاف پیالیوں میں دودھ پتّی انڈیل دی۔ مسکراتے ہوئے اس نے نذیر کو آنکھ ماری مگر وہ اس وقت شدید بے چینی محسوس کر رہا تھا۔ اسے خدشہ تھا کہ کہیں پردہ نشین ناراض ہو کر انکار نہ کر دے یا غصے میں آ کر اسے گالیاں نہ دینے لگے۔ وہ ایسے اندیشوں میں گھرا چائے کے اسٹال سے پرے ہٹ گیا اور ان کی نشست کے بہت پیچھے جا کر ٹہلنے لگا۔ اس نے اپنی کلائی اٹھا کر گھڑی دیکھی تو ریل کے آنے میں اب بھی پندرہ منٹ باقی تھے۔

چائے اسٹال والا جھوم کر اپنی چال چلتا ان کے پاس پہنچا اور جھک کر سلام کرتے ہوئے اس نے انھیں چائے پیش کی۔

برقع پوش نے ہچکچا کر نفی میں سرہلایا اور بے اختیاری سے اس طرف دیکھنے لگی، جہاں کچھ دیر پہلے وہ کھڑا تھا۔ اسے وہاں نہ پاکر وہ پریشان سی ہوئی۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا مگر وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہی رہا۔ اس کی اس کیفیت سے ادھیڑ عمر خاتون لطف اندوز ہوتی رہی۔ اس نے معمولی سے رد و کد کے بعد چائے کے اسٹال والے سے پیالیاں لے لیں۔

چند منٹوں کے بعد وہ زیرِ لب مسکراتا ہوا دوبارہ اپنی جگہ پر آ کھڑا ہوا۔ اسے دیکھ کر برقع پوش کی آنکھوں میں خفگی کی شدید لہر دکھائی دی، جبکہ اس کی ساتھی عورت پہلے والی جگہ پر اس کی دوبارہ موجودگی سے محظوظ ہوتی چائے کی سُڑکیاں لیتی رہی۔

نذیر نے سوچا کہ جو عورتیں ناراض ہو جائیں انھیں منانے کا جتن بہرحال کرنا ہی پڑتا ہے۔ اس نے ارادہ باندھا کہ اگر وہ سیٹھا رجہ کے اسٹیشن پر اُتری تووہ اسے منانے کی خاطراس کے گوٹھ یا اگر ممکن ہوا تو اس کے گھر تک اسے چھوڑنے ضرور جائے گا۔

نذیر نے ممنون نگاہوں سے چائے اسٹال والے کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی جیب سے پیسے نکال کر اس کی طرف بڑھائے۔ پیسے لیتے ہوئے اسٹال والے نے اس کے قریب آ کر آہستگی سے کہا، ’’ مرد کی شان ہوتی ہے کہ پسند آنے والی چیز کو اپنی مٹھی میں اچھی طرح کس لے۔ معشوق کے سامنے ڈٹ جائے اور کسی طرح پیچھے نہ ہٹے۔‘‘ اس کی بات سن کر نذیر نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔

بہت دور سے ریل کی سیٹی سنائی دی تو پلیٹ فارم پر انتظار سے اونگھتے ہوئے لوگ یک بہ یک ہوشیار ہو کر اس سمت دیکھنے لگے جدھر سے ریل آنے والی تھی۔ خوابیدہ اور خاموش پلیٹ فارم پوری طرح بیدار ہو گیا۔ سامنے کی پٹریوں سے سنائی دینے والی گڑ گڑاہٹ کی آواز ٹرین کی آمد پر طوفانی گھن گرج میں تبدیل ہو گئی۔ پلیٹ فارم پر ٹرین کے رکتے ہی لوگوں نے اس پر سوار ہونے کے لیے کوششیں شروع کر دیں کیونکہ ٹرین مسافروں سے بھری ہوئی تھی۔ ہر بو گی کے دروازے پر لوگ آلتی پالتی مارے ہوئے بیٹھے تھے۔

نذیر کی کوشش تھی کہ جس بو گی پر بھی وہ دونوں عورتیں سوار ہوں، وہ بھی ان کے آس پاس ہی اپنے لیے جگہ تلاش کر ے۔ وہ دونوں ٹرین پر سوار ہونے کی تگ و  دو میں آخری بو گیوں تک چلی گئیں۔ دروازوں پر قبضہ جمائے ہٹ دھرم لوگ انھیں سوار ہونے کے لیے راستہ دینے پر تیار نہیں تھے۔ نذیر کو ان لوگوں پر غصہ آیا۔ کچھ دیر بعد اس کی برداشت جواب دے گئی تو ایک بو گی کے دروازے پر کھڑے ہو کر اس نے چیخنا چلانا شروع کر دیا، تب کہیں جا کر انھیں اور اُسے بہ مشکل سوار ہونے کی جگہ مل سکی۔ نذیر چاہتا تو ہجوم کا فائدہ اُٹھا کر پردہ نشین خاتون کے جسم کو چھو کر ذرا سا محسوس کر سکتا تھا مگر اس نے اپنے آپ کو روکے رکھا اور ایساکچھ نہیں کیا۔ پلیٹ فارم پر شتابی سے چلتے ہوئے اس بے نام حسینہ کا جسم اسے بہت پُر کشش لگ رہا تھا۔ اس کی کمر نشیب میں واقع کسی سرسبز و شاداب وادی کی طرح طویل مشاہدے کی متقاضی تھی۔ وہ پر امید تھا کہ آنے والا وقت اس پر ایسے مشاہدات کے بہت سے در وا کر نے والا تھا۔

انجن کا ہارن بجتے ہی ریل چل پڑی۔ ان کی بو گی لوگوں سے کھچا کھچ بھری تھی۔ گھسٹ گھسٹ کر آگے بڑھتے ہوئے انھیں اور اسے آرام سے کھڑا ہونے کو تھوڑی سی جگہ مل گئی۔ وہ ان کے قریب کھڑا ہو گیا۔ ادھیڑ عمر عورت اپنی پردہ نشین رفیق کی حفاظت کی خاطر ان دونوں کے درمیان کھڑی ہوئی تھی۔

کچھ فاصلے پر نذیر کو کنڈکٹر گارڈ دکھائی دیا۔ وہ فوراً اس کے پاس جا کراس سے نشست کے لیے درخواست کرنے لگا مگر وہ اسے روکھا ساجواب دے کر چلتا بنا۔ اس کے بعد اس نے گزرنے والے ایک پولیس کے سپاہی سے مدد چاہی تو اس نے تیس روپے کے عوض عورتوں کے لیے نشست کا بندوبست کر دیا۔ جب اس نے ادھیڑ عمر عورت کو بتایا تو وہ حیرت سے اس کا منھ تکنے لگی۔ اس نے اپنی ساتھی خاتون کو اس کی پیشکش سے آگاہ کیا۔ اس نے اپنی مشکور نظروں سے نذیر کی طرف دیکھتے ہوئے سر کے خفیف اشارے سے اس کا شکریہ ادا کیا، اور کسی ہچکچاہٹ کے بغیر وہ کچھ دور تک اس کے ساتھ جا کر اس نشست پر بیٹھ گئیں۔ وہ اس حسینہ کو اپنا قبلہ بنا کر ذرا فاصلے پر کھڑا ہو گیا، جبکہ وہ عورت احسان مندی سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔

مختصر سے وقت میں یہ اس کی دوسری کامیابی تھی۔ وہ اس پر مسرور تھا مگر ساتھ ہی وہ یہ بات سوچ کر خوفزدہ بھی تھا کہ معلوم نہیں یہ دونوں کب اور کون سے اسٹیشن پر اتر جائیں۔ پڈعیدن سے سیٹھارجہ زیادہ دور نہیں تھا۔ درمیان میں صرف چاراسٹیشن پڑتے تھے۔ ہر اسٹیشن پر ریل کی رفتار کم ہونے پراس کا دل ڈوبنے لگتا تھا اور جب گاڑی وہاں سے نکلنے لگتی تووہ کچھ مطمئن ہو جاتا تھا۔ یہ عارضی نا امیدی اور عارضی اطمینان اس کے لیے بہت اذیت ناک تھا۔

جب ٹرین محراب پور جنکشن سے نکلی تو وہ ایک مرتبہ پھر پُر امید نظروں سے ان کی طرف دیکھنے لگا۔ اسے ان کے چہروں پر بے چینی کے آثار نظر آنے لگے۔ ان کے بار بار کھڑکی سے جھانکنے کے عمل سے اس کی ڈھارس بندھ رہی تھی۔ ڈیپارجہ کا گمنام اسٹیشن بھی چپکے سے گزر گیا اور اس کے بعد چھوٹی نہر بھی سرعت سے پیچھے چلی گئی۔ سیٹھارجہ آنے کو ہی تھا۔ ریل کی رفتار ایک بار پھر دھیمی ہونے لگی۔

اسے اپنی نظروں پر یقین نہیں آیا جب اس نے دیکھا کہ ان دونوں نے اپناسامان اٹھا لیا تھا اور برقع پوش اپنے برقعے کو ٹھیک کرنے لگی تھی۔

ٹرین کے بریک چرچرائے اور اگلے ہی لمحے وہ تھم گئی۔

نذیر وقت سے ہجوم کے درمیان راستہ بناتا ہوا بو گی کے دروازے تک پہنچا اور لکڑی کی سیڑھیوں سے نیچے اُترا۔ وہ نیم پختہ پلیٹ فارم پر سفیدے کے قد آور درخت کے قریب کھڑا ہو گیا۔ اگلے ہی ثانیے اس نے ان دونوں کو بو گی سے اترتے ہوئے دیکھا۔ نیچے اُترتے ہی برقع پوش جوان عورت نے بھرپور نظروں سے اسے دیکھا اور آنکھیں گھما کر اسے ایک اشارہ کیا اور سیڑھیوں والے پل کی طرف چل دی۔ پل کے قریب پہنچ کر ان کی نگاہیں کسی کو ڈھونڈ نے لگیں۔ ایک دُبلا شخص ہانپتا کانپتا ان کے قریب آ کھڑا ہوا اور کھِیسیں نکال نکال کران سے باتیں کرنے لگا۔ نذیر اس آدمی کو دیکھ کر اندازہ لگانے کی کوشش کرتا رہا کہ اس کا ان سے کیا تعلق ہے ؟اس کا لباس میلا کچیلا تھا، اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے اور چہرے پر شیو ابھری ہوئی تھی۔ اس نے پکوڑوں کا تھال اٹھایا ہوا تھا۔ وہ اپنی وضع قطع سے ادھیڑ عمر خاتون کا شوہر معلوم ہوتا تھا کیونکہ وہ اس سے لہک لہک کر باتیں کر رہی تھی۔ وہ دونوں آپس میں بہت بے تکلف دکھائی دے رہے تھے۔ نذیر کو محسوس ہوا کہ وہ اسے کہیں دیکھ چکا تھا۔ اس نے اپنے ذہن پر بہت زور دیا مگراسے یاد نہیں آ سکا۔

سیٹھارجہ کی آبادی بھی اسٹیشن کی عمارت کے مخالف سمت تھی۔ پل کے ذریعے سے انھوں نے پٹریاں عبور کیں اور آبادی کی طرف جانے والے راستے پر چلنے لگے۔ قصبے کی آبادی کچھ زیادہ نہ تھی۔ دائیں طرف محلے اور گلیاں واقع تھیں جبکہ بائیں طرف کچھ دور جا کر سیٹھارجہ کا بازار شروع ہوتا تھا۔ بازار کی دکانیں کولتار سے بنی نئی سڑک کے دونوں طرف واقع تھیں۔ گارے اور سرخ اینٹوں سے بنی دکانیں بہت پرانی اور خستہ حال تھیں۔ نئی سڑک کی وجہ سے ان کی سطح بہت نیچی ہو گئی تھی۔ شام ڈھلنے والی تھی اس لیے خریداروں کی تعداد برائے نام تھی۔ قصبے کے لوگ یوں ہی اِدھر اُدھر گھوم رہے تھے۔ کہیں کہیں بعض دکاندار کرسیاں بچھائے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ وقفے وقفے سے کوئی سائیکل، گدھا گاڑی یا موٹر سائیکل سڑک سے گزر جاتی تھی۔

وہ پردہ نشین اب چونکہ ایک مرد کی معیت میں تھی اس لیے اس سے نگاہیں ملانا بہت مشکل تھا۔ نذیر سوچ رہا تھا کہ ہو سکتا ہے، وہ یہیں رہتی ہو اور شاید اچانک کسی گلی میں مڑ جائے۔ اگر ایسا ہوا تواسے کم از کم برقع پوش کا پتا معلوم ہو جائے گا۔ وہ ان سے کچھ فاصلہ رکھ کر ان کا تعاقب کر رہا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی کو اس پر کسی قسم کا شک گزرے۔ چلتے چلتے اچانک برقع پوش عورت نے اسے مڑ کر دیکھا۔ اس کے مڑ کر دیکھنے کو نذیر نے تعاقب جاری رکھنے کا اشارہ سمجھا۔ اسے اندازہ ہونے لگا تھا کہ وہ یقینی طور پر اس قصبے کی رہنے والی نہیں ہے۔

قصبے سے باہر نکلنے والی سڑک پر ٹھری میرواہ جانے والی پرانی دھرانی ایک بس کھڑی تھی۔ وہ تینوں اس پرسوار ہو گئے۔ بس چلنے میں ابھی دیر تھی۔ ذرا فاصلے پر نذیر کو ایک چھوٹی سی مانڈلی دکھائی دی۔ اس نے وہاں سے سگریٹ خرید کر سلگایا اور جلدی جلدی کش لے کر دھواں اُڑانے لگا۔

ابھی سگریٹ ختم بھی نہ ہوا تھا کہ ڈرائیور ہارن بجانے لگا۔ اس نے جلدی سے جوتے کے نیچے سگریٹ مسلا اور بس پر سوار ہو گیا۔ چند لمحوں میں بس چل پڑی۔ نذیر کو ان کے قریب کوئی خالی نشست نہ مل سکی۔

سڑک دو تین بل کھا کر قصبے سے باہر نکل جاتی تھی۔ قصبے کی آخری تعمیرات یعنی اسکول، ہاسپٹل، واٹر سپلائی، اور ٹاؤن کمیٹی وغیرہ پیچھے رہ گئے۔ پرانی گول باڈی بس کی کھڑکیوں کے شیشے اور چھت پر لٹکی آرائشی جھالریں ہل ہل کر مسلسل شور مچانے لگیں۔ بس کا انجن شور بھی مچا نے لگا جبکہ بیٹھے ہوئے اکثر مسافر اس ہنگامے سے بے نیاز اپنی باتوں میں مگن تھے۔

نذیر پیچھے بیٹھا ہوا بار بار ان کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ برقع پوش وقفے وقفے سے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھ لیتی تھی، دو لمحوں کے لیے ہی سہی، وہ اس سے آنکھیں چار کر لیتا تھا، مگر آنکھیں چار کرنے سے اس کی تشفی نہیں ہو رہی تھی۔ وہ ان کے پاس تھال سنبھال کر بیٹھے ہوئے پکوڑا فروش کی جگہ لینا چاہتا تھا، اس اجنبی عورت سے اس کا نام پوچھنا چاہتا تھا، اس کے ساتھ ہنسنا اور قہقہے لگانا چاہتا تھا۔ ایسی اور نجانے کتنی خواہشوں کی منھ زور لہریں تھیں جو اس کے دل کے ساحل پر بار بار زور سے اپنا سر پٹخ کر لوٹ جاتی تھیں۔ وہ آہیں اور ٹھنڈے سانس بھرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

پکوڑا فروش اور ادھیڑ عمر عورت آپس میں جس طرح باتوں میں محو تھے، انھیں دیکھ کر اسے یقین ہوتا جا رہا تھا کہ یہ لوگ بھی اس کے ہمراہ بس کے آخری اسٹاپ پر ہی اُتریں گے۔

کھڑکھڑاتی ہوئی بس ہر چھوٹے بڑے بس اسٹاپ پر رکتی آگے بڑھ رہی تھی۔ مغربی افق پر سورج ڈوبنے سے پہلے آخری دم لے رہا تھا۔ اس کی رنگت گہری سرخ تھی لیکن اس کی روشنی ماند پڑتی جا رہی تھی۔ آسمان پر دور تک شفق پھیلی تھی، اس کی زردی اور سرخی نے زمین کو گلنار بنا رکھا تھا۔ کچھ دیر قبل اپنی جزئیات کے ساتھ دکھائی دینے والے کھجور، کیکر، شیشم اور سفیدے کے پیڑوں کے رنگ ماند پڑنے لگے تھے اور ان کی جزئیات غائب ہونے لگی تھیں۔ گندم کے نوخیز پودوں کی شوخ رنگت بھی شام کے ملگجے پن میں گم ہونے لگی تھی۔ راستے میں پڑنے والے مختلف گوٹھوں کے مکانوں سے اٹھنے والے دھوئیں کی بو، دھواں چھوڑتی بس کے ڈیزل کی بو سے گھل مل رہی تھی۔

نذیر پر بیزاری اور اکتاہٹ طاری ہونے لگی۔ اس نے برقع پوش کو ملامت کرتے ہوئے اپنا سر اگلی نشست کی پشت پر ٹکا دیا۔ اس کے ذہن میں پڈعیدن اسٹیشن سے شروع ہونے والے واقعے کی جزئیات گھومنے لگیں۔ اس نے خود کو احمق خیال کیا جو ایک حماقت پوری سنجیدگی اور تندہی سے انجام دیتا آ رہا تھا۔ وہ یہ بات بخوبی جانتا تھا کہ اسے آگے بیٹھی عورت سے محبت نہیں تھی، پھر کیوں پچھلے بہت سے وقت سے وہ اس کے خیالات و احساسات پر چھائی ہوئی تھی؟اس نے خود کو سمجھایا کہ یہ معاملہ کھیل جیسا تھا، اس میں زیادہ سنجیدگی برتنا اصول کے خلاف تھا۔

بہت دیر بعد ایک بار پھر بالآخر پردہ نشین نے اسے مڑ کر دیکھا۔ نذیر کئی لمحوں سے اس کی آنکھیں دیکھنے کا منتظر بیٹھا تھا۔

سورج غروب ہونے کے بعد دھیرے دھیرے آسمان سے شفق بھی معدوم ہو گئی۔ اطراف میں اندھیرا پھیلنے پر بس کے اندر روشنیاں جلا دی گئیں۔ بس میں داخل ہونے والی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے بچنے کے لیے لوگوں نے کھڑکیاں بند کر لیں۔

بس ایک تاریک کھوہ میں سفر کر رہی تھی۔ گرد و پیش کے تمام مناظر اندھیرے کی چادر میں چھپنے کی وجہ سے بس کا ماحول بے کیف اور یکساں ہو گیا، جس کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی نذیر کو اونگھ سی آ گئی۔ بہت دیر بعد جب بس ایک جھٹکے سے اپنے آخری اسٹاپ پر کھڑی ہوئی تو نذیر فوراً ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔

اس نے ان تینوں کو بس سے اترتے دیکھا تو اس کی خوشی کا کوئی حساب نہ رہا۔ وہ اپنی توقع پوری ہونے پر مسرور تھا کہ وہ لوگ یہیں رہتے تھے۔ اب اسے پورا یقین ہو گیا کہ اس نے پکوڑا فروش کو ضرور کہیں دیکھا ہو گا۔

دیگر قصبوں کی طرح ٹھری میرواہ کا بازار بھی ایک طویل سڑک پر واقع تھا۔ یہ طویل سڑک ایک جانب سے قصبے میں داخل ہو کر دوسری جانب سے میرواہ نہر تک چلی جاتی تھی۔ اس کے اطراف چھوٹی چھوٹی گلیوں کا جال بچھا تھا۔ رات ابھی شروع ہی ہوئی تھی مگر قصبے کی بیشتر دکانیں بند ہو چکی تھیں۔ چائے خانے تقریباً سبھی کھلے ہوئے تھے اور وہاں سے ٹی وی پر چلنے والے پروگراموں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔

بس سے اترنے کے بعد وہ تینوں اسی مرکزی سڑک پر چلنے لگے۔ نذیر ایک بار پھر ان کا تعاقب کرنے لگا۔

پہلے چاچا غفور کے مکان والی گلی اور اس کے بعد اس کی دکان والی گلی پیچھے رہ گئی، مگر اس نے پروا نہیں کی اور دھیرے دھیرے آگے بڑھتا رہا۔ اسے تجسس تھا کہ وہ تینوں کون سی گلی میں داخل ہوتے ہیں، مگر وہ لوگ کسی گلی میں داخل ہونے کے بجائے سیدھے چلتے چلے گئے۔ آگے جہاں سے سڑک بل کھا کر نہر کی طرف جاتی تھی وہ تینوں اسی راستے کی طرف مڑ گئے۔ نذیر ان کے پیچھے، مگر ان سے خاصی دور، سڑک پر کھڑا انھیں دیکھتا رہا۔

نہر کے پُل سے پہلے قصبے کی آبادی ختم ہو جاتی تھی۔ نذیر تیز رفتاری سے دوڑتا ہوا پل تک پہنچا تو وہ لوگ پل سے اتر کر آگے بڑھ گئے تھے۔ نذیر ہانپتا کانپتا پل پر کھڑا انھیں تاریکی میں تحلیل ہوتے ہوئے دیکھتا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ پل سے اترنے والی کچی سڑک گوٹھ ہاشم جو گی کی طرف جاتی تھی۔ وہ تیرگی میں چھوٹے سے پل پر مبہوت کھڑا رہا۔ اسے پردہ نشین کی آنکھیں یاد آ رہی تھیں، وہ ایک بار پھر ان میں جھانکنا چاہتا تھا، انھیں جی بھر کر دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ ٹھنڈا سانس بھرتا پل کی دیوار پر بیٹھ گیا۔ اس کے لیے اس وقت آگے جانا ممکن نہیں تھا۔ پل کے نیچے سے گزرتے پانی کی وجہ سے وہاں بے حد خنکی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ دیوار سے اٹھ کر چند قدم اس طرف بڑھاجس طرف وہ لوگ گئے تھے۔ مزید آگے بڑھنے کی وہ ہمت نہ کر سکا۔ اس نے دور واقع گوٹھ کی طرف دیکھا، جہاں دوچار ٹمٹماتی ہوئی روشنیاں دکھائی دے رہی تھیں۔

 

اس شب وہ سونے کے لیے محراب دار برآمدے میں چارپائی پر بچھے اپنے بستر پر لیٹا تواسے محرابوں کی جگہ دو بڑی بڑی آنکھیں دکھائی دینے لگیں۔ کبھی وہ آنکھیں بازو بن کر اس کے وجود کے گرد پھیل جاتیں اور کبھی ہونٹ بن کر اس کی سماعت میں مبہم لیکن مسحور کر دینے والی سرگوشیاں کر نے لگتیں۔ نیند کے دوران خواب میں اس نے ان آنکھوں کو زیرِ زمین غلام گردش میں تبدیل ہوتے دیکھا، وہ جس میں داخل ہوا تو پھر اسے وہاں سے نکلنے کا راستہ نہیں مل سکا۔ غلام گردش میں وہ ان آنکھوں کی مالکن کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گیا مگر وہ اسے کہیں دکھائی نہیں دی۔ صبح کو چاچی خیر النسا نے جب اسے نیند سے جگایا تو وہ ہانپ رہا تھا اور اس کا چہرہ پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔

وہ آنکھیں اس کے اعصاب پر اتنی بری طرح سوار ہوئیں کہ اگلے کئی روز تک وہ گوٹھ ہاشم جو گی کے پھیرے ہی لگاتا رہا لیکن اسے معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ وہ پردہ نشین کون تھی اور کس کے گھر میں رہتی تھی۔ نذیر کبھی پیدل اور کبھی سائیکل پر گوٹھ کے آس پاس منڈلاتا رہا۔ وہ وقفے وقفے سے بہانہ بنا کر دکان سے چھٹی لیتا اور آدھے پون گھنٹے میں چکر لگا کر لوٹ آتا۔ ایک مرتبہ اس نے گوٹھ سے آنے والے راستے پر نگاہ رکھنے کے لیے گنے کے کھیت کو منتخب کیا۔ وہ بہت دیر تک وہاں دبک کر بیٹھا رہا اور گاؤں آنے جانے والوں پر نظر رکھتا رہا، مگر اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ اس نے گوٹھ ہاشم جو گی آنے جانے والے تمام راستوں کا پتا چلایا اور وہ وہاں بھی پہرہ دیتا رہا، مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔

 

تین مرتبہ اسے برقع پوش عورتوں کو دیکھ کراس پردہ نشین کا گمان گزرا۔ اس نے تندہی سے ان کا تعاقب کیا۔ ان کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا وہ نہر عبور کر کے قصبے کی طرف نکل آیا اور بازار کے اطراف کی گلیوں میں گھومتا پھرا۔ نذیر کے لیے عورتوں کو ان کی چال کے ذریعے پہچاننا مشکل تھا مگر جب اس نے ایک نظر ان کی آنکھوں میں جھانکا تواسے فوراً پتا چل گیا کہ وہ برقعے کی وجہ سے دھوکا کھا گیا تھا۔

اسے اپنی کوششوں کے رائے گاں چلے جانے پر بے حد قلق تھا۔ وہ اپنے آپ سے خفا بھی تھا کہ اس معاملے میں وہ کس قدر انہماک سے مبتلا ہو گیا تھا۔ا یک ایسی عورت کے لیے اس کی جستجواورخواری کے کیا معنی؟اس کے لیے جس سے ملاقات کرنا ناممکن، جسے دیکھنا شدید دشوار اور جس سے گفتگو کرنا بالکل محال تھا۔ اس نے خود کو ذلیل ترین آدمی تصور کیا۔ اس نے اپنے آپ سے پیمان باندھا کہ وہ آئندہ اس کے بارے میں بالکل نہیں سوچے گا۔ اس نے غصے میں آ کر اپنے آپ سے پیمان تو باندھ لیا مگر وہ اچھی طرح جانتا تھا، اس کی ذات کے پاتال میں پیوست دو آنکھیں اسے بے قراری سے اپنی جانب بلاتی رہیں گی اور ان کے بلاوے پر وہ اپنا پیمان، اپنا غصہ وغیرہ سب فراموش کر دے گا، اور ایک نئے عزم کے ساتھ پردہ نشین کی جستجو میں نکل پڑے گا۔

ایک دوپہر کو نذیر وڈیرے کریم بخش جلبانی کی حویلی میں سلائی شدہ کپڑے پہنچا کر لوٹ رہا تھا کہ اسے ایک گلی میں وہی پکوڑا فروش اپنے پکوڑوں سے بھرے تھال سمیت نظر آیا۔ اسے دیکھتے ہی اس کے پاؤں ساکت ہو گئے۔

پکوڑا فروش ایک دیوار کے سائے میں تھال زمین پر رکھ کر بیٹھا تھا۔ اس کے آس پاس چار بچوں نے حلقہ بنا رکھا تھا اور شور مچا مچا کر وہ سب اس سے پکوڑے مانگ رہے تھے۔ وہ ان کی مانگ پرہنستا ہوا اخباری کاغذ کے کٹے ہوئے ٹکڑوں پر پکوڑے رکھ کر، ان پر مسالہ چھڑک کر بچوں کو تھما دیتا۔ جس بچّے کو پکوڑے مل جاتے وہ اسے پیسے تھما کر بھاگ جاتا۔ اس کی چابکدستی کی وجہ سے تھوڑی ہی دیر میں بچوں کی بھیڑ چھٹ گئی۔ پکوڑوں سے بھرا تھال تقریباً آدھا فروخت ہو چکا تھا۔ پکوڑا فروش اپنی آمدنی کا حساب لگا کر پیسے اپنی جیب میں رکھنے لگا۔ اس دوران اس کی نظر اس سے کچھ فاصلے پر کھڑے نذیر پر جا ٹھہری، جو اس سے بظاہر لاتعلقی ظاہر کرتا یوں ہی اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔

پکوڑا فروش ٹھنڈاسانس بھرتے ہوئے اسے شک بھری نظر سے دیکھتا اٹھ کھڑا ہوا۔ اپنے کاندھے سے انگوچھا اُتار کر اپنے چہرے کی گرد صاف کرتے ہوئے وہ منھ ہی منھ میں بڑبڑایا۔ اس نے کھڑے کھڑے جیب سے پولو فلٹر کا سگریٹ نکال کر سلگا یا اور دو تین لمبے کش کھینچے۔ اس کے بعد وہ اپنے تھال کو سر پر رکھ کر وہاں سے چل پڑا۔

جانے سے پہلے اس نے ایک بار پھر نذیر کو مشکوک نظروں سے دیکھا مگر وہ دوسری جانب دیکھتا رہا اور اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔ پکوڑا فروش کے جانے کے بعد وہ مخمصے میں تھا کہ اس کا پیچھا کرے یا نہ کرے۔ اس دوران معاً اس کا ہاتھ اپنی جیب تک گیا تو وہاں چند نوٹوں کی موجودگی نے اسے مخمصے کے عالم سے نکالا۔ وہ تیز رفتاری سے اس سمت بھاگنے لگا جس طرف وہ گیا تھا۔

اگلی گلی کے موڑ پر اسے دور سے پکوڑا فروش جاتا ہوا دکھائی دیا۔ تیز دوڑنے کی وجہ سے بے حدّت دھوپ کے باوجود نذیر کی بغلیں سلگنے لگیں اور وہاں سے بہتا پسینہ قمیض سے ہوتا اس کی شلوار میں داخل ہونے لگا۔ اسے لگ رہا تھا کہ جب وہ پکوڑا فروش کے پاس پہنچے گا تو وہ قہقہے لگائے گا اور پوشیدہ بات آشکار ہو جائے گی۔ اپنا پسینہ خشک کرنے کی خاطر وہ دھیرے سے چلتا اس کا تعاقب کرنے لگا۔ آگے چل کر ایک سایہ دار گلی میں اس نے پکوڑا فروش کو آواز دی: ’’ پکوڑے والے، رکنا!‘‘

وہ اپنے سرسے تھال اُتارے بغیر رک گیا اور پلٹ کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔

نذیر آہستگی سے چلتا اس کے قریب آیا اور اس سے کھردرے لہجے میں پوچھنے لگا، ’’تھال میں جو پکوڑے بچ گئے ہیں، وہ کتنے کے بیچو گے ؟‘‘

پکوڑا فروش اس کے لہجے کے تحکم سے متاثر ہوا۔ اس کی آنکھوں سے شک کے سبب پیدا ہونے والی درشتی غائب ہو گئی۔ وہ اپنی نظروں سے تھال میں پڑے پکوڑوں کو تولنے لگا۔ ’’سائیں وڈا! یہ سارے آپ اکیلے کھا نہیں سکیں گے۔‘‘

نذیر گھورتے ہوئے بولا، ’’تمھیں اس سے مطلب؟‘‘

’’غلطی معاف! پورا تھال چھتیس روپے کا دے دوں گا۔‘‘

’’مطلب، پکوڑوں کے ساتھ تھال بھی؟‘‘اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

پکوڑا فروش عاجزی سے مسکرانے لگا۔ ’’یہ تو میری روزی کا وسیلہ ہے، سائیں !‘‘

’’تم کوئی گاڈا یا ٹھیلا کیوں نہیں خرید لیتے ؟‘‘وہ اس کے مرعوب ہونے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔

’’بھوتار! میں غریب آدمی ہوں، گاڈا خریدنا میرے بس سے باہر ہے‘‘ یہ بات کہتے ہوئے اس نے تھال پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔

نذیر نے اس کا نام پوچھا تو اس نے بتایا: ’’نُورل جو گی۔‘‘

سارے پکوڑے اخبار میں لپیٹنے کے بعد اس نے اپنے تھال کو فوراً اپنی بغل میں دبا لیا۔ اس نے یہ دیکھ کر خود کو مسکرانے سے بمشکل روکا۔ جب نورل نے اخبار میں لپٹے ہوئے پکوڑے اس کی طرف بڑھائے تو نذیر نے پکوڑے لینے سے انکار کر دیا۔

اس کا انکار نورل جو گی کے لیے غیر متوقع تھا۔ وہ بار بار پلکیں جھپک کر اسے دیکھنے لگا۔ نذیر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پچاس کا نوٹ اس کی جیب میں رکھتے ہوئے بولا، ’’نورل، تم بہت اچھے آدمی ہو اور یہ تمھاری خرچی ہے۔‘‘

اس کی بات سن کر وہ ہکا بکا رہ گیا، پھر اس نے اپنے آپ کوسنبھالا اور اپنے ہاتھ جوڑ کر اس کا شکریہ ادا کیا۔

نذیر نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور خوش دلی سے اسے ساتھ چلنے کی پیشکش کرنے لگا۔ ’’آؤ ! چل کر ہوٹل پر بیٹھتے ہیں۔‘‘

یہ سن کر نورل کی باچھیں کھل اٹھیں۔ وہ نذیر کو صاحبِ ثروت خیال کرنے لگا۔ وہ تابعداری اور جی حضوری کے جذبات سے سرشار ہو کر اس کے ساتھ چلنے لگا۔ اس نے اپنی حیرت اور پریشانی نذیر پر ظاہر نہیں ہونے دی۔ وہ اندر سے سہما ہوا تھا کیونکہ اس وقت اس کی جیب میں تھوڑی سی چرس پڑی تھی۔ اسے خدشہ تھا کہ یہ نوجوان سخی بابو کسی ایجنسی کا اہلکار نہ ہو اور اسے پچاس روپے اوراس کی چائے کی پیشکش کے عوض نورل کو کہیں تین مہینے حوالات میں نہ کاٹنے پڑ جائیں۔ چائے خانے تک پیدل جاتے ہوئے وہ اسے کریدنے کی کوشش میں اس سے الٹے سیدھے سوال پوچھتا رہا۔ نذیر بھی اس کی ذہنی کیفیت کو بھانپ چکا تھا۔ وہ اس کے بے تکے سوالوں کے بے تکے جواب دیتا رہا۔ وہ اس بات سے بھی بے نیاز ہو گیا کہ چھوٹے سے قصبے میں حقیقت کو چھپانا مشکل ہوتا ہے۔ اس نے اپنے آپ کو یہ سوچ کر تسلی دے کر مطمئن کر لیا تھا کہ اس کا تعلق اس قصبے سے نہیں تھا۔ یہی سوچ کر اس نے دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے نورل کے سامنے خود کو وڈیرے کریم بخش جلبانی کے دوست کا بیٹا ظاہر کر دیا۔ نورل نے اس کے جھوٹ پر یقین کر لیا اوراسے اطمینان ہو گیا کہ یہ چھوکرا اسے حوالات میں بند نہیں کروائے گا۔

چند چھوٹی بڑی گلیوں سے گزرتے وہ بازار تک پہنچے اور بازار سے گزر کر نہر کے وسیع و عریض بند پر واقع ایک چائے خانے تک۔ یہ میرواہ نہر کا دایاں کنارہ تھا اور آگے اس کنارے پر واقع کئی گوٹھوں کے لیے یہ بنداچی سڑک کا کام بھی دیتا تھا۔ اس سڑک پر گاڑیوں کی آمدورفت برائے نام ہوتی تھی۔ اسی کا فائدہ اٹھا کر چائے خانے کے مالک نے سڑک پر کرسیاں بچھا دی تھیں۔ اس چائے خانے کے آس پاس چندخستہ سی دکانیں تھیں۔ کسی دکان میں حجام کام کر رہا تھا تو کسی میں بڑھئی۔ ان دکانوں کے عقب میں مکانوں کی طویل قطار ان سے متصل تھی۔ مکانوں کی یہ قطار تھوڑی دور جا کر ختم ہو جاتی تھی۔ سب سے آخر میں محکمۂ آبپاشی کا ڈاک بنگلہ واقع تھا جبکہ سامنے، بائیں کنارے پر، کھیتوں کا طویل سلسلہ تھاجس کے درمیان کہیں کہیں چھوٹے بڑے گوٹھ نظر آتے تھے۔

نذیر بند پر درختوں کے نیچے بچھی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ اس کے چہرے کا رخ گوٹھ ہاشم جو گی کی طرف تھا جہاں اسے متحیر کرنے والی، بے باک اور چمکدار دو آنکھوں کی جوڑی کی مالکن رہتی تھی۔ اس کے دل میں بسی برقع پوش کی یاد کی آگ دھیرے دھیرے آنچ دینے لگی۔ نورل بلاسبب اپنے پیلے دانتوں کی نمائش کرتا، اپنا تھال اس کے سامنے رکھ کر چائے خانے کے اندر چلا گیا۔

نذیر کو اس سے بے حد اہم باتیں پوچھنی تھیں۔ وہ منھ بسورتے ہوئے نہر کی طرف دیکھنے لگا۔ نہر میں پانی بہت کم تھا۔ کناروں کے اندر پانی سے زیادہ مٹی نظر آ رہی تھی۔ شیشم کے ٹنڈ منڈ درخت بند پر دور تک قطار وار کھڑے تھے۔

نورل جو گی نے واپس آنے میں کچھ زیادہ ہی دیر لگا دی مگر جب وہ آیا تو چائے کی پیالیاں ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے آیا۔ اس کی آنکھیں گہری سرخ ہو رہی تھیں اور اس کا چہرہ سوجا ہوا تھا۔

نذیر فوراً بھانپ گیا کہ پکوڑا فروش نے اندر ضرور چرس یا بھنگ کا نشہ کیا ہے اسی لیے اس کی یہ درگت بنی ہوئی ہے۔ اس نے مسکرا کر اسے دیکھا اور چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے نذیر اس سے چرس کا سگریٹ پلانے کی فرمائش کی۔ اس کی فرمائش سن کر پکوڑا فروش نے قہقہہ لگایا اور کسی توقف کے بغیر جیب سے سگریٹ نکال کر اسے خالی کرنے لگا۔ اس کے ہاتھ سرعت سے کام کر رہے تھے۔ اس دوران وہ چند لمحوں کے لیے دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو گیا۔ چرس کا سگریٹ بننے کے بعد اس نے اپنے ایک ہاتھ پر دیاسلائی اور دوسرے پر چرس کا سگریٹ رکھ کر اسے پیش کر دیا۔ نذیر کو چرس پیتے دیکھ کر اس کے ذہن میں بسے دیگر شکوک و شبہات بھی ختم ہو گئے۔

نذیر پہلی بار چرس کے سگریٹ کو اپنے ہونٹوں سے لگا رہا تھا۔ اس نے جیسے ہی پہلا کش لگایا تو اسے محسوس ہوا کہ اس کی چھاتی پر کسی نے زوردار مُکّا مار دیا ہو۔ وہ فوراً کھانسنے لگا اور اس کا سر اتنی تیزی سے چکرانے لگا کہ اس کی آنکھوں سے پانی رواں ہو گیا اور اس کے حلق میں کڑوا ذائقہ پھیل گیا۔ اس نے اپنے سر کو دو تین بار زور سے جھٹکا اور ایک لمحے کے لیے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ دیر بعد اس کے سر نے چکرانا بند کر دیا اور گرد و پیش کی چیزوں کا گھومنا بھی تھم گیا۔

نورل بھاگتا ہوا گیا اور پانی سے بھرا گلاس لے آیا۔ اس نے پانی سے بھرا گلاس نذیر کو تھمایا۔ پانی کے چند گھونٹ پی کر اس کے حلق میں پھیلی تلخی ختم ہو گئی۔ اس کے بعد اس نے بے حد اصرار کے نورل سے ایک مرتبہ پھر چرس کا سگریٹ لیا اور دو تین کش لگائے۔ اس بار بھی وہ کش کے ذریعے زیادہ دھواں نہیں کھینچ سکا۔

نورل اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہنے لگا، ’’میرے سائیں، یہ فقیر فقرا کا پسندیدہ نشہ ہے۔ اس کے کش لگا کر آدمی کا ذہن عرش پر پہنچ جاتا ہے۔‘‘

نذیر نے اس کی بات سمجھے بغیر اثبات میں سر ہلایا، مگر در حقیقت اس کا دماغ ماؤف ہو چکا تھا۔ اسے نورل جو گی سے بہت کچھ پوچھنا تھا مگر چرس کے چند کش لگا کر وہ اپنی جرأتِ اظہار کھو چکا تھا۔ اس کے لیے سوال پوچھنا تو درکنار، بات کرنا بھی سخت دشوار ہو رہا تھا۔ وہ اپنے آپ کو ملامت کرتا ہوا پکوڑا فروش سے بس اتنا ہی کہہ سکا۔ ’’نورل، آج سے اپنی دوستی پکی۔ ٹھیک ہے ؟‘‘

’’ہاں، بالکل ٹھیک ہے بھوتار!‘‘ اس نے تابعداری سے جواب دیا۔

کچھ دیر بعد نذیر نے رخصت لیتے ہوئے اسے خدا حافظ کہا اور ڈگمگاتے قدموں سے ڈاک بنگلے کی طرف چل پڑا۔ وہ ایسی حالت میں دکان پر نہیں جانا چاہتا تھا۔ اسے خوف تھا کہ اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کرسب لوگوں کو پتا چل جائے گا کہ اس نے نشہ کیا ہوا ہے۔ وہ ڈاک بنگلے کے عقب میں واقع سرسبز قطعۂ زمین پر نیم کے گھنے پیڑوں کی چھاؤں میں کچھ دیر سستانے کی غرض سے دراز ہو گیا۔ خنک ہوا اور نشے کی وجہ سے اس کی آنکھیں مندنے لگیں اور اس کے اعصاب پر نیند کا خمار چھانے لگا۔

 

نذیر کو میرپور  ماتھیلو سے ٹھری میرواہ آئے ہوئے چھ مہینے سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ اسی لیے یہاں زیادہ لوگوں سے اس کی جان پہچان نہیں تھی۔ وہ اپنے والدین کی آٹھ اولادوں میں چوتھے نمبر پر تھا، اس لیے اس کے حصے میں ماں باپ کا اتنا پیار نہیں آ سکا جتنا اس کے سب سے بڑے بھائی اور سب سے چھوٹے بھائی کے حصے میں آیا تھا۔ اس کا بچپن اور لڑکپن ماں باپ اور بڑے بھائیوں کی گھرکیاں کھاتے ہوئے گزرا۔ پانچ برس کی عمر میں جب اسے اسکول میں داخل کروایا گیا تو پہلے ہی دن ایک لنگڑے استاد نے کسی وجہ کے بغیر اسے تین زوردار تھپڑ رسید کیے۔ اب معلوم نہیں یہ استاد کے تھپڑوں کا اثر تھا یا اس کی طبیعت کا من موجی پن، کہ وہ آٹھویں جماعت سے آگے نہیں پڑھ سکا۔ اسکول کو خدا حافظ کہنے کے بعد اس نے آوارہ گردی کا شغل اپنایا۔ وہ صبح سے شام تک میرپور ماتھیلو کے گلی محلوں کی خاک چھانتا پھرتا۔ اپنی والدہ کی ڈانٹ ڈپٹ کو وہ خاطر میں نہیں لاتا تھا، مگر اپنی آوارہ گردیوں کی وجہ سے وہ اکثر اپنے بڑے بھائیوں کے ہاتھوں مار کھاتا۔ اس کے والد میرپور ماتھیلو کے مشہور حلوائی تھے اور وہاں ان کی مٹھائی کی بہت بڑی دکان تھی۔ اس کے تین بڑے بھائی دکان پر والد کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ نذیر کی آوارہ گردیوں سے تنگ آ کر اس کے والد نے اسے بھی دکان پر رکھ لیا۔ اس کی عمر کا یہ وہی دور تھا جب اپنی ہم عمر لڑکیاں بلا کسی سبب کے اچھی لگنے لگتی ہیں۔ راہ چلتے ہوئے کسی حسین دوشیزہ کی ایک جھلک ہی اسے راستے سے بھٹکانے کے لیے کافی ہوتی تھی۔ وہ اپنے والد اور بھائیوں کے بتائے ہوئے کام فراموش کر کے اس حسین دوشیزہ کو اس کے گھر تک پہنچانے کا فریضہ انجام دینے لگتا تھا۔ بعد میں جب اس کے بھائی اور والد کام میں ہونے والی تاخیر کے متعلق دریافت کرتے تو وہ بغلیں جھانکنے لگتا۔ ایسے میں اس کے بھائیوں اور والد کے طمانچے اس کے چودہ طبق روشن کر دیتے۔ گھر پہنچ کر وہ اپنی ماں کو بھائیوں اور والد کی اس کارگزاری کے بارے میں بتاتا تو وہ دکھ اور افسوس سے اس کے سرخ گالوں پر اپنے ہاتھ پھیرتی۔

نذیر کے بھائی اور والد اسے کبھی شہر بدر نہ کرتے اگر وہ میرپور  ماتھیلو کے چکلے کی بد نامِ زمانہ رنڈی زوری کی زلفوں کا اسیر نہ ہو جاتا۔ وہاں کا راستہ اسے ایک دوست نے دکھایا، اس کے بعد وہ خود ہی آنے جانے لگا۔ مگر زوری بہت منھ زور تھی۔ اس جیسے کم عمر بالک پر اپنی نظرِ الفت ڈالنا اسے اپنے شایانِ شان نہیں لگتا تھا۔ ہر مرتبہ وہ تھوڑی دیر تک زوری کا دیدار کر کے لوٹ آیا۔ ایک روز اس کے والد نے اسے پچاس ہزار روپے بینک میں جمع کروانے کے لیے دیے، مگر اس کے دل میں نہ جانے کیا سمائی کہ وہ رقم جیب میں لیے چکلے پہنچ گیا۔ وہاں پہنچنے کے بعد جب اس نے زوری کے سامنے نوٹوں کی گڈی نکالی تو وہ اس پر توجہ کرنے پر مجبور ہو گئی۔ مگر وہ بھی ایک گھاگ عورت تھی، نذیر جیسے نوخیز لڑکے کو بہلانا اس کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ وہ شام تک اسے اپنی لچھے دار باتوں سے بہلاتی رہی۔ دوسری طرف دکان پر اس کے واپس نہ آنے پر ڈھنڈیا مچ گئی۔ اس کے بھائیوں نے اس کے دوستوں سے مل کر اور انھیں کرید کر پتا چلا لیا کہ اس وقت وہ کہاں چھپا بیٹھا ہے۔ انھوں نے اپنے والد کی معیت میں چکلے پر چھاپہ مارا تو وہ زوری کے کمرے سے برآمد ہوا۔ اس کے بھائیوں اور والد نے زوری کو دھمکیاں دے کر اس سے سارے پیسے نکلوا لیے اور نذیر کو پیٹتے ہوئے وہاں سے لے گئے۔ اس واقعے کے اگلے دن اس کے والد نے اس کی حرکتوں سے نالاں ہو کر اسے اپنے چھوٹے بھائی کے پاس ٹھری میرواہ بھجوا دیا۔

 

نورل پکوڑا فروش سے اگلی دو ملاقاتوں میں بھی نذیر اپنے دل و دماغ میں پیوست آنکھوں کی مالکن کے متعلق کوئی بات نہیں پوچھ سکا۔ مگر نورل سے اس کی دوستی مضبوط ہو گئی تھی۔ وہ مطمئن تھا کہ مسحورکن آنکھوں والی کا شجرۂ نسب معلوم کرنا اب اس کی دسترس میں تھا۔ مگر اسے یہ احساس بھی شدت سے تھا کہ اس معاملے میں اسے مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ یہی سوچ کر ایک روز نذیر نے شام ڈھلے نورل کو نہر کے کنارے اسی ہوٹل پر بلایا۔ یہ ان کی چوتھی ملاقات تھی۔ نذیر چاہتا تھا کہ اس عورت کے بارے میں آج ساری تفصیلات معلوم کر کے کوئی نہ کوئی حتمی فیصلہ کر لے، کہ اسے اس عورت تک رسائی کے لیے کوشش کرنی چاہیے یا اس کی یاد کو ہمیشہ کے لیے طاقِ نسیاں پر رکھ دینا چاہیے۔ اپنی پہلی غلطی کے خمیازے کے طور پر نذیر کو ہر ملاقات پراس کے ساتھ چرس کا سگریٹ پینا پڑ رہا تھا۔ اس نے نورل کو خوش کرنے کے لیے اس بتایا کہ وہ اسے دیکھتے ہی پہچان گیا تھا کہ یہ آدمی ایک موالی ہے — اسی وجہ سے تو اس نے اس کے ساتھ دوستی کی تھی۔ نورل اس کی یہ بات سن کر اپنے آپ پر فخر محسوس کرنے لگا۔ نذیر گزشتہ ملاقاتوں کی طرح اس بار بھی اس سے تفصیلات معلوم کرنے میں ناکام رہا۔ اسے اپنی کم ہمتی پر غصہ آ رہا تھا کہ وہ ایک معمولی سے آدمی کے سامنے کھل کر بات کرنے سے گھبرا رہا ہے۔ اسے دل ہی دل میں یقین تھا کہ وہ جب بھی پکوڑا فروش سے اس بابت دریافت کرے گا، وہ اسے کسی رد و کد کے بغیر سب کچھ بتا دے گا۔ مگر چرس کے سگریٹ پینے کے بعد وہ نجانے کیوں گھگھیانے لگتا تھا۔ عام سی باتیں کرتے ہوئے بھی اس کی زبان میں گرہ لگ جاتی تھی۔ اس نے چرس پر تمام الزام رکھ کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی۔ مگر وہ بھول رہا تھا کہ ایک مرتبہ بھی نورل نے اسے چرس پینے کی پیشکش نہیں کی تھی بلکہ ہر بار اسی نے اصرار کر کے اس سے چرس پینے کی خواہش کی تھی۔

نذیر دھیرے دھیرے چرس کا عادی ہونے لگا تھا۔ اسے اس نشے میں لطف آنے لگا تھا۔ اس کے چند کش لگانے کے بعد وہ خود کو پردہ نشین کے قرب میں محسوس کرنے لگتا تھا۔ وہ اس کے ذہن و دل میں ایستادہ دھیرے دھیرے اپنا نقاب اتارتی تووہ مبہوت ہو کر اس کے جمال کا مشاہدہ کرنے لگتا تھا۔ اس کا مکمل چہرہ اسے اس کی آنکھوں سے زیادہ تابناک محسوس ہوتا۔ ایسے لمحوں میں اسے یقین ہونے لگتا کہ یہ حسینہ غیر زمینی جمال لے کر اس کرۂ ارض پر اتری ہے۔ نذیر ہولے ہولے برقع پوش کی حقیقت سے زیادہ اس کے خیال کی لو سے متاثر ہو رہا تھا۔

اسی لیے نذیر پکوڑا فروش کے ساتھ ایسی تمام جگہوں پر جانے لگا جہاں موالی اکٹھے ہوتے تھے۔ نورل کے ساتھ اسے ہر جگہ خوش دلی سے قبول کیا جاتا اور ان دونوں کی چرس اور چائے سے خوب آؤ بھگت کی جاتی۔

چرس کے زیادہ استعمال کی وجہ سے نذیر احساسِ جرم محسوس کرنے لگا۔ اس عرصے میں چاچا اور چاچی نے کئی مرتبہ اس سے اس کی صحت کے بارے میں پوچھا مگر اسے ہر بار جھوٹ بول کر انھیں جھانسا دینا پڑا۔

نذیر کے دوست حیدری کو بھی اس گڑبڑ کا احساس ہو گیا تھا۔ نذیر نے ایک دن اس کے پاس جا کر پڈعیدن اسٹیشن سے شروع ہونے والے اس قصے کی مکمل تفصیلات بتا دی تھیں اور اس کے بعد کے معاملات سے بھی اسے باخبر رکھتا رہا تھا۔ ۔ حیدری نے ہر مرتبہ اس کی سادہ لوحی کا مذاق اڑایا کیونکہ وہ پکوڑا فروش کو اچھی طرح جانتا تھا۔ نذیر نے حیدری کی منت سماجت اور خوشامد کر کے اسے اپنی مدد کرنے پر آمادہ کر لیا۔ حیدری نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اسے اپنے ساتھ دکان پر لے آئے۔

 

نذیر شام کی نیم تاریکی میں ہوٹل پہنچا تو اس نے دیکھا کہ نورل شیشم کے درخت کی کی آڑ میں بیٹھا ہواچرس کا سگریٹ بنا رہا تھا۔ اس کے سر پر مچھروں کا غول منڈلا رہا تھا مگر وہ اس سے بے پروا سگریٹ بھرنے میں مگن تھا۔ نذیر نے اسے دیکھتے ہی کہا، ’’تم یہاں چھپ کر بیٹھے ہو؟‘‘

نورل گردن موڑ کر اسے دیکھتا مسکراتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے چرس کے تازہ تازہ سگریٹ کو اپنے انگوٹھے کے ناخن پر آخری مرتبہ ٹھوکا اور اگلے ہی لمحے وہ سگریٹ سلگاتے ہوئے بولا، ’’ میں چھپ کر نہیں، سرِ عام بیٹھا ہوں اور مجھے یہاں بیٹھے ہوئے بہت دیر ہو چکی ہے۔‘‘

نذیر نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، ’’میں بندوبست کرنے میں مصروف تھا۔‘‘

اس کی بات سن کر نورل چونکا۔ ’’کس چیز کا بندوبست؟‘‘

’’ایک بہت ہی خاص چیز کا۔ تم اٹھ کر میرے ساتھ چلو۔‘‘

اس نے سگریٹ کے کش کھینچ کر اسے نذیر کی طرف بڑھا دیا۔ ’’ پہلے اسے پی لیں، اس کے بعد چلتے ہیں۔‘‘

سرد ہواؤں کی وجہ سے بڑھنے والی خنکی کے سبب چائے خانے کا عملہ اندر تھا۔ ویران اور کچی راہگزر پر چند کرسیاں پڑی تھیں۔ نہر سے اتر کر گوٹھ ہاشم جو گی جانے والا راستہ دھول سے اٹا تھا۔ دھند اور دھوئیں کی دبیز تہہ گوٹھ کے مکانوں کے گرد حصار بناتی ٹھہر سی گئی تھی۔ آسمان پر شفق کی سرخی، سرمئی رنگ میں تبدیل ہو کر، آہستہ آہستہ مغرب سے امڈتی ہوئی تاریکی میں جذب ہوتی جا رہی تھی۔ سگریٹ کا آخری کش لگا کر نورل نے سگریٹ کا ٹکڑا نہر کی طرف اچھال دیا، پھر اپنے دونوں ہاتھ اپنے سر کے اوپر لے جا کر تالیاں بجا کر مچھروں کو مارنے لگا۔ اس کی یہ حرکت دیکھ کر نذیر نے ہنستے ہوئے اسے دھکا دیا۔ نورل نے خود کو گرنے سے بمشکل بچایا۔ اس کے بعد وہ دونوں بازار کی طرف چل پڑے۔

نہر کے پُل کے قریب گھورے کے ڈھیر پر کتّے اور بلیاں اپنے پنجوں کی مدد سے اپنے لیے خوراک ڈھونڈ رہے تھے۔ دن کے وقت پل کے اطراف پھلوں اور کھانے پینے کی اور چیزوں کے ٹھیلے لگے ہوتے تھے اور یہاں کھانے کے شوقین لوگوں کا ہجوم رہتا تھا، مگر شام ڈھلنے سے پہلے پہلے یہاں کی رونق ختم ہو جاتی تھی۔ اس وقت پُل کی دیوار پر بیٹھ کر دو لڑکے آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔

ایک کتے اور کتیا کو جفتی کرتے ہوئے دیکھ کر نورل قہقہہ لگا یا۔ ایک پتھر اٹھا کر ان کی طرف پھینکتے ہوئے پل سے اترنے والی ڈھلان پر دوڑتا چلا گیا۔ نذیر نے مذاقاً اسے ایک گالی سے نوازا۔ شام کے وقت بازار کی دکانیں بند ہونے کی وجہ سے سڑک بہت کشادہ معلوم ہو رہی تھی۔ سڑک پر کچھ دور جا کر وہ دونوں داہنی طرف واقع ایک گلی کی طرف مڑ گئے۔ اس گلی میں حیدری کی تمباکو کی دکان تھی۔

حیدری اپنی دکان کھولے بیٹھا ان کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے اپنے والد کو بہت دیر پہلے گھر بھیج دیا تھا۔ وہ ان کے انتظار میں بار بار اٹھ کر سڑک پر نگاہ ڈالتا اور بیٹھ جاتا۔ مختصر سی دکان بہت خستہ حال تھی۔ گلی میں اس کے دروازے کے نیچے سے ایک بد رو گزرتی تھی۔ حیدری کا باپ اس بدرو کی وجہ سے ٹاؤن کمیٹی کو ستا رہتا تھا کیونکہ اس کے سبب دکان کی بنیادوں اور دیواروں میں سیلن آ گئی تھی۔ دکان کے فرش پر تمباکو کی کھلی ہوئی بوریاں پڑی رہتی تھیں جس کی وجہ سے تمباکو کی گہری خوشبواس کے در و دیوار میں رچی بسی ہوئی تھی۔

حیدری ایک بار پھر اٹھا، اس نے الماری کے پاس جا کر اس کا ایک پٹ کھولا اور وہاں رکھے ہوئے لفافے کو ٹٹولنے لگا۔ لفافے میں موجود شے کو محسوس کر کے اسے اطمینان سا ہوا۔

نذیر نالی پھلانگ کر دکان میں داخل ہوا، جبکہ نورل نے چھلانگ لگا کر بدرو پار کی اور اندر داخل ہوا۔ تمباکو کی گہری بو کے زیرِ اثر نورل لگاتار چھینکیں مارنے لگا۔ مسلسل چھینکنے سے اس کی جو حالت ہو رہی تھی اس سے محظوظ ہوتے ہوئے وہ دونوں ہنسی میں لوٹنے لگے۔ نورل نے سو کینڈل پاور کے بلب کی زرد روشنی میں دکان کا جائزہ لیا تو وہ اسے قبر جیسی معلوم ہوئی۔ قبر کا خیال آتے ہی اس نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا اور زیرِ لب توبہ توبہ کرنے لگا۔ نذیر نے اسے تمباکو سے بھری بوری پر بٹھاتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے اس کی دعوت کے طور پر اس کی خاطر شراب کا بندوبست کیا ہے۔ شراب کا ذکر سنتے ہی نورل نے اٹھ کر فوراً جیے شاہ نورانی اورجیے لاہوتی کا نعرہ بلند کیا۔ حیدری نے اسے جھڑکا کہ گلی سے گزرنے والے لوگ بلاسبب ان کی متوجہ ہو جائیں گے اور یہ دعوتِ بادہ و ساغر برباد کر دیں گے۔ جھڑکی سننے کے بعد نورل نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ لی۔ اس کی آنکھوں میں حریصانہ چمک واضح طور پر دکھائی دے رہی تھی۔ حیدری ایک بار پھر اٹھ کر الماری تک گیا اور اس کا ایک پٹ کھول کر لفافہ باہر نکالا اور اس کے ساتھ ہی پانی سے بھرا جگ اور تین خالی گلاس بھی نکال لیے۔ نذیر نے حیدری کے ہاتھ سے لفافہ لے لیا اور اس میں سے بوتل نکال کر نورل کو دکھانے لگا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے کانچ کی بوتل اور اس میں بھرے آتشیں محلول کو دیکھنے لگا۔

نذیر اس کا تجسس مزید بڑھانے کے لیے اسے بتانے لگا: ’’اس شراب کا انگریزی نام لائن ہے۔ لائن کو سندھی زبان میں شینھ کہتے ہیں۔ مطلب، اسے پینے کے بعد آج کی رات تم شیر بن جاؤ گے۔ بس ہم دونوں کا خیال رکھنا، باقی سب خیر ہو گی۔‘‘

اس بات پر وہ تینوں بے ساختہ ہنسنے لگے۔ نورل جو گی نے اچھی طرح بھانپ لیا کہ یہاں کا ماحول دوستانہ ہے۔ اس کا فائدہ اٹھا کر وہ انھیں اپنی شراب نوشی کی تاریخ سنانے لگا۔ وہ پلاسٹک کی بوتلوں میں ملنے والی دیسی شراب اب تک سات مرتبہ پی چکا تھا۔ وہ اپنی زندگی میں پہلی بار شیشے کی بوتل والی شراب پی رہا تھا۔ وہ اس قدر افزائی کے لیے نذیر کا بے حد ممنون تھا۔

حیدری نے ناپ تول کر شراب کے تین پیگ بنائے اور اس کے بعد ان میں ملانے لگا۔ جب وہ نورل کے پیگ میں پانی ملانے لگا تو اس اس کا ہاتھ روک لیا اور اسے اپنی شراب میں پانی نہیں ملانے دیا۔ تینوں نے اپنے اپنے گلاس تھام لیے اور چسکیاں لے لے کر پینے لگے۔

حیدری نے اس کے گھٹنے پر ہاتھ مار تے ہوئے اس سے پوچھا، ’’نورل ! ہمیں بتاؤ۔ کبھی تم نے کسی سے محبت کی؟‘‘

پکوڑا فروش تو پہلے سے ہی موج میں تھا۔ شراب کی وجہ سے اس کا نشہ دو آتشہ ہو گیا تھا۔ وہ انھیں قصبے میں بھیک مانگنے والی باگڑی عورتوں کے متعلق بتانے لگا، چند روپوں کے عوض وہ جن سے مباشرت کر چکا تھا۔ ان عورتوں میں سے ایک لچھمی اسے آج بھی بہت یاد آتی تھی۔ وہ جب اس سے ملا تھا تب وہ سولہ سال کی تھی اور اس کے تن پر جوانی کی باڑھ آئی ہوئی تھی۔ اس سے ملنے والی لذت کو وہ آج بھی اپنے رگ و ریشے میں محسوس کرتا تھا۔

نورل کے بعد حیدری اپنا فرضی معاشقہ سنا نے لگا۔ اس دوران نذیر گم سم بیٹھا رہا۔ اسے اس حال میں دیکھ کر نورل نے ہنستے ہوئے کہا، ’’ مجھے لگتا ہے، یہ محبت میں ناکام ہو گیا ہے۔ یا پھر کسی نے اس کے ساتھ محبت ہی نہیں کی۔‘‘ وہ اپنے سوال پر خود ہی کھیسیں نکالنے لگا۔

نذیر گلاس سے گھونٹ بھر کر سنجیدگی سے بولا، ’’میرا دل ایک پردہ نشین کی آنکھوں میں غرق ہو چکا ہے۔ وہ پڈعیدن سے ٹرین میں آتے ہوئے مجھے راستے میں ملی تھی۔‘‘ اس نے جان بوجھ کر پڈعیدن کا ذکر کیا تھا تاکہ نورل کوئی ردِ عمل ظاہر کرے مگر وہ اس شراب سے طاری ہونے والی کیفیت سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔

یہ بات سن کر حیدری چونکا جیسے اسے بہت اہم کام یاد آ گیا ہو۔ وہ جلدی سے پکوڑا فروش سے مخاطب ہوا۔ ’’ نورل!ہمارا یار بہت دکھی ہے۔ ہم پر خدا کی لعنت ہو اگر ہم اپنے دوست کی مدد نہ کریں۔ کیوں بھئی؟‘‘

نورل نے فوراً اثبات میں سرہلاتے ہوئے کہا، ’’ ہاں ہاں ! جو یار کی مدد نہ کرے اس پر لعنت ہو بے شمار۔‘‘

حیدری نے بات آگے بڑھائی۔ ’’ مگر نورل، ایک مسئلہ ہے۔ ہمارے یار کی معشوق ذات کی جو گی ہے اور رہتی بھی تمھارے گوٹھ میں ہے۔‘‘

’’اچھا؟ وہ میرے گوٹھ میں رہتی ہے ؟ پھر نذیر یار، تجھے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مجھے بس اس کا نام بتاؤ۔‘‘

’’ یہی تو مسئلہ ہے۔ میں اس کا نام نہیں جانتا۔‘‘ نذیر اسے پڈعیدن سے ٹھری میرواہ تک کے اپنے سفر کی روداد سنانے لگا۔ روداد مکمل ہونے پراس نے نورل سے پوچھا، ’’اب تم ہی بتا سکتے ہو، اس پردہ نشین کا نام کیا ہے ؟‘‘

اس کی بات ختم ہوتے ہی نورل نشے کی جھونجھ میں سرہلاتے ہوئے بولا۔ ’’ ہاں۔ میں سب سمجھ گیا۔ وہ۔ ..وہ میرے گوٹھ کے معمولی وڈیرے اور ٹیلی فون آپریٹر موسیٰ جو گی کی زال ہے اوراس کا نام شمیم ہے۔ اسے وہ پیار سے چھمی کہہ کر بلاتا ہے۔‘‘

’’تم کس طرح اس سے نذیر کے بارے میں بات کرو گے ؟‘‘حیدری نے اسے کریدا۔ نورل نے فوراً اس کے جواب میں کہا، ’’ وہ میری ماموں زاد بہن ہے اور میرا اس کے گھر آنا جانا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے، وہ اپنے شوہر سے خوش نہیں ہے۔‘‘

’’وہ کیوں ؟‘‘نذیر نے بے چینی سے دریافت کیا۔

نورل اس تفصیل بتانے لگا۔ ’’ موسیٰ جو گی اسے گھر کا خرچہ نہیں دیتا کیونکہ وہ چوٹی کا رنڈی باز اور جواری ہے۔ وہ آئے دن اس کی پٹائی کرتا رہتا ہے۔‘‘

’’کیا تم اپنی بیوی کے ذریعے اس سے میرے بارے میں بات نہیں کر سکتے ؟‘‘ نذیر نے جھجکتے ہوئے اس سے اپنے دل کی بات کہہ دی۔

نورل نے یہ سن کر کچھ دیر کے لیے چپ سادھ لی۔ چند لمحوں بعد وہ کہنے لگا، ’’ کچھ دن پہلے میری بیوی نے مجھے بتایا تھا کہ موسیٰ جو گی کی بیوی پڈعیدن سے آتے ہوئے راستے میں کسی کو دیکھ دیکھ کر ہنستی رہی تھی۔‘‘

’’تم اس کے ذریعے میرے یار کی بات چلاؤ‘‘حیدری نے کرسی کے نیچے سے بوتل نکالتے ہوئے کہا۔

نورل بوتل کے سحر میں مبتلا، سر ہلاتے ہوئے بولا، ’’جوسنگت کی صلاح۔‘‘

انھیں شراب پینے کی عادت نہیں تھی۔ اس لیے انھیں اس کے نشے کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کو یقین دلانے کی کوشش کر رہے تھے کہ انھیں نشہ نہیں چڑھا ہے، جبکہ باتیں کرتے ہوئے ان کے لہجے بگڑ گئے تھے اور لفظوں کے تلفظ تک بالکل غلط ہو گئے تھے۔ وہ گفتگو میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ہڑبونگ مچا رہے تھے۔

ان کے بلند آہنگ لہجے سن کر گلی سے گزرتے ہوئے راہگیر ٹھٹک کر دکان کے سامنے رک گئے اور شور مچانے کا سبب پوچھنے لگے۔ انھیں یہ ہوش نہیں رہا تھا کہ وہ مرکزی سڑک سے متصل گلی میں حیدری کی دکان پر بیٹھے تھے۔ کسی واقف کار یا رشتے دار کی آمد اِن کی شراب نوشی کو تمام قصبے کے باسیوں کے لیے گفتگو کا دلچسپ موضوع بناسکتی تھی۔ .. اور پھر بات صرف گفتگو تک ہی محدود نہ رہتی۔

نذیر اور حیدری کو خدشہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو پکوڑا فروش موالی اپنے گھر پہنچ کر اپنی بیوی سے اس ضمن میں بات کرنا بھول جائے۔ وہ اسے یہ بات یاد رکھنے لیے اپنی دوستی کے ساتھ ساتھ مولا مشکل کشا اور شاہ نورانی کے واسطے دیتے رہے جبکہ پکوڑا فروش بار بار سر ہلا کر انھیں یقین دلاتا رہا کہ وہ نشے میں نہیں ہے اور وہ گھر پہنچ کر اپنی گھر والی سے ضرور بات کرے گا۔ وہ انھیں یہ یقین بھی دلاتا رہا کہ اب اس کی ان دونوں سے پکی دوستی ہے اور وہ ان کے لیے اپنی جان بھی قربان کر سکتا ہے۔ اس بات پر نذیر نے اٹھ کر اس کا ما تھا چوم لیا اور ساتھ ہی اس سے یہ وعدہ بھی کر لیا کہ ٹیلی فون آپریٹر کی بیوی سے اس کا تعلق قائم ہو جانے پر وہ اسے گھوڑا مار کہ بوسکی کا کپڑا خرید کر اور اس کا جوڑ اپنے ہاتھوں سے سی کر اسے دے گا۔ اس پیشکش پر نورل نے اسے ایک فوجی کی طرح کھڑے ہو کرسلیوٹ کیا اور اپنا قدم آگے بڑھایا۔ وہاں پڑی ہوئی تمباکو کی بوری اسے دکھائی نہیں دی اور وہ اس پر سے ڈگمگا کر نیچے گر گیا۔ کھلی ہوئی بوری سے نکل کر تمباکو فرش پر پھیل گیا۔ حیدری یک دم اٹھا اور فرش پر گرا ہوا تمباکو بوری میں بھرنے لگا۔

پکوڑا فروش موقع تاک کر حیدری کی کرسی پر براجمان ہو گیا۔ اپنی اس کارگزاری پر وہ کھیسیں نکالنے لگا۔ حیدری اسے کرسی پر بیٹھا دیکھ کر بہت جزبز ہوا۔ اس نے اسے الف ننگی گالیاں دیں جنھیں سنتے ہوئے پکوڑا فروش ہنس ہنس کر محظوظ ہوتا رہا۔ حیدری نے کلائی پر بندھی گھڑی کو آنکھوں کے نزدیک لے جا کر اس پر وقت دیکھا تو دس بجنے والے تھے۔ وہ سٹپٹایا کیونکہ اسے گھر پہنچ کر والد کے طمانچوں کا خیال آنے لگا تھا۔ وہ سہم گیا کہ اگر والد کو اس کی شراب نوشی کا پتا چل گیا تو وہ اسے کھڑے کھڑے گھر سے نکال دے گا۔ اسے معلوم تھا کہ اگلے دن تک اس کے منھ سے شراب کی بو نہیں جائے گی۔

دکان کے دروازے پر کسی قوی الجثہ شخص کا سایہ دیکھ کر حیدری خوف سے کانپ کر رہ گیا۔ اس کی آنکھیں پھیل گئیں اور زبان سے ایک لفظ تک نہیں نکلا۔ نذیر اور پکوڑا فروش بھی مبہوت ہو کر اسے تکنے لگے اور اندازہ لگانے لگے کہ یہ کوئی بشر ہے یا جن بھوت۔ اس طویل قامت ہیولے جیسے شخص نے اپنے چہرے کو ڈاٹھا باندھ کر چھپایا ہوا تھا۔ اس کے پورے جسم پر چادر پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے ایک ہاتھ میں لکڑی کا بڑا سا ڈنڈا تھام رکھا تھا اور دوسرے ہاتھ میں ٹارچ پکڑی ہوئی تھی۔ اس نے ٹارچ سے باری باری ان تینوں کے چہروں پر روشنی ڈالی۔

نذیر اور حیدری کے اوسان خطا ہو چکے تھے۔ انھوں نے دکان پر کھڑے طویل قامت شخص کو واقعی کوئی ماورائی ہستی تصور کر لیا تھا، مگر نورل جو گی مسلسل اسے دیکھتے رہنے کی وجہ سے پہچان گیا کہ وہ ٹھری میرواہ کے بازار کا پرانا چوکیدار ہے۔ اس کے ہونٹوں سے بے ساختہ نکلا: ’’ارے لاہوتی سلیمان شر، یہ تم ہو کیا؟ کیا تمھارے نازل ہونے کا وقت ہو گیا۔ آدھی رات گزر گئی ہے کیا؟‘‘

یہ سن کر جناتی قد کاٹھ والے سلیمان شر نے قہقہہ لگایا۔ ’’ ارے نورل! پکوڑے بیچنے والے، اس وقت تیرا یہاں کیا کام؟‘‘

چوکیدار کو پہچانتے ہی حیدری پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔ ’’ ارے سلیمان شر!تو نے تو ہماری روح فنا کر ڈالی۔‘‘

چوکیدار مسکراتا ہوا دکان کے اندر داخل ہوا۔ وہ سامنے زمین پر پڑے ہوئے گلاس، جگ اور بوتل کو دیکھ کر فوراً معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا۔

وہ افسوس سے اپنے سر کو جنبش دیتا دونوں لڑکوں سے مخاطب ہوا۔ ’’تم دونوں کیوں حرام چیز اپنے منھ سے لگا کر اپنے بزرگوں کی عزت خراب کر رہے ہو؟ تم دونوں کو شرم آنی چاہیے۔‘‘ انھیں ڈانٹنے کے بعد وہ نورل جو گی پر برسنے لگا۔ شاید اسے پکوڑا فروش سے کوئی پرانی پرخاش تھی۔ وہ اسے اسے تھانے میں بند کروانے کی دھمکیاں دینے لگا تھا۔ پکوڑا فروش زیرلب مسکراتے ہوئے اس کی ڈانٹ سنتا رہا۔ وہ چوکیدار کے ہنگامہ خیز مزاج سے بخوبی آشنا تھا۔ دھمکیاں دیتے دیتے اس نے نورل کو بازو سے پکڑ کر کرسی سے اٹھایا جیسے وہ اسے اسی وقت تھانے لے جانا چاہتا ہو۔ یہ دیکھ کر حیدری اور نذیر اس کی مدد کے لیے لپکے اور چوکیدار کو برا بھلا کہنے لگے۔ نورل کا ایک ہاتھ تو اس کی گرفت میں تھا مگر اس نے اپنے دوسرے ہاتھ کو استعمال کرتے ہوئے اپنی جیب سے تھوڑی سی چرس نکال ہی لی۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر وہ چوکیدار کو دکھائی تو اس نے فوراً اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ نورل کی ہوشیاری پر نذیر مسکرانے لگا۔

چوکیدار نے نورل سے چرس لینے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا تو اس نے فوراً چرس جیب میں ڈال لی اور اسے تنگ کرنے لگا۔ اب اسے کھری کھری سنانے کی نورل کی باری تھی۔ اس نے سلیمان شر کی تمام گالیاں اسے سود سمیت واپس کر دیں۔ سلیمان شر نے زبان نہیں کھولی اور چپ چاپ سنتا رہا۔

نذیر اور حیدری نے اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی مگر ان دونوں کا رویہ سمجھ نہیں آ سکا۔ کچھ دیر بعد حیدری نے اپنی دکان بند کرنے کا اعلان کیا تو وہ سب جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔

نورل نے اپنے گھر پر حقہ پینے کے لیے حیدری سے تمباکو مانگا تو اس نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر بہت سا تمباکو اسے دے دیا۔

دکان کو تالا لگانے کے بعد حیدری ان سے ہاتھ ملا کر اپنے گھر کی طرف چلا گیا۔ چوکیدار سلیمان شر سیٹی بجاتا سڑک کے دوسری جانب چل پڑا جبکہ نذیر اور نورل نہر کے پل کی سمت چلے گئے۔

کھلی سڑک پر نذیر کو ٹھنڈ لگنے لگی۔ نہر کے پُل پر پہنچ کراس نے پکوڑا فروش کو ایک مرتبہ پھر وعدہ یاد دلایا اور ڈگمگاتے ہوئے قدموں سے ڈاک بنگلے کی طرف چل پڑا۔

 

نذیر سے الگ ہو کر پل سے نیچے اترتے ہی نورل کا دھیان ایک ست رنگے لیکن مست خیال کے زیرِ اثر آ گیا۔ وہ لڑکھڑا کر چلتے ہوئے دھیرے دھیرے اپنے گوٹھ کی طرف بڑھنے لگا۔ گھر پہنچ کراس نے بھوک سے بلبلاتے ہوئے اپنے معدے کے بارے میں نہیں بلکہ صرف اپنی رگوں میں سرسراتے ہوئے نشے کے بارے میں سوچا جس کی وجہ سے آج اسے مباشرت بھری ایک طویل رات میسر آنے والی تھی۔ گوٹھ کی حدود میں داخل ہوتے ہی آوارہ کتوں کا ایک غول اسے دیکھ کر اس کی جانب لپکا، مگراس کے قریب آ کراس کے بدن کی مانوس بو محسوس کرنے کے بعد وہ سب اس کے پاؤں میں لوٹنے لگے۔ وہ اپنے گھر میں داخل ہوا تو یہاں تاریکی اور سکوت نے اس کا خیرمقدم کیا۔ وہ ڈگمگاتے قدموں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔ دروازے کو دھکیل کر کھولتے ہوئے اندر داخل ہو کر وہ ٹھہر گیا اور اندھیرے میں آنکھیں مچمچا کر دیکھتے ہوئے وہ اپنی گھر والی کی چارپائی ڈھونڈنے لگا۔ اس کی چارپائی نظر آتے ہی وہ آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھنے لگا۔ اس کے قریب پہنچ کر اس نے جھک کر ہولے سے اپنی بیوی کے پیروں کو چھواتواس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ وہ خوف سے چیخنے ہی لگی تھی کہ نورل کے ہنسنے کی آواز سن کروہ سمجھ گئی کہ اس کا شوہر گھر واپس آ گیا ہے۔ وہ خفگی سے بڑبڑانے لگی۔ نورل اس کے پہلو میں لیٹ گیا اور اس نے اس کے بڑبڑاتے ہونٹوں پر اپنے جلتے ہوئے ہونٹ رکھ کر اسے خاموش ہونے پر مجبور کر دیا۔

اگلے دن پکوڑا فروش کی بیوی نوراں سویرے ہی اٹھ گئی۔ اس نے اٹھ کر اپنے سر پر ڈوپٹہ باندھتے ہوئے خود کو بیمار محسوس کیا۔ آج اس نے دو سیر دودھ خریدا اور اپنے بچوں کو نورل سے چغلی نہ کھانے کی نصیحت کر نے کے بعد وہ اس میں سے ایک سیر دودھ غٹاغٹ پی گئی۔ دودھ پینے کے بعد کل شب کی صحبت سے زائل ہونے والی توانائی کو اس نے قدرے بحال ہوتے محسوس کیا، مگر نجانے کیوں چائے کی دو پیالیاں پیتے ہی اس کا دل ڈوبنے لگا۔ مگر وہ مضبوط کاٹھی کی عورت تھی، اس لیے دل کے ڈوبنے کو خاطر میں نہیں لائی اور جھاڑو اٹھا کر گھر کی صفائی میں مصروف ہو گئی۔

اس نے جان بوجھ کر نورل کو نیند سے جلدی نہیں جگایا۔ وہ اس کی نیند خراب نہ کر کے اس کی کل رات کی محبت کا قرض چکا نا چاہتی تھی۔ کام کاج سے فارغ ہو کر وہ کمرے میں گئی تو چند لمحے اس کی چارپائی کے پاس کھڑی اسے تکتی رہی۔

نورل کی ٹانگ اور چہرہ لحاف سے باہر نکلے ہوئے تھے۔ اس کی بے ترتیب مونچھوں اور بکھرے ہوئے بالوں کو دیکھ کر نوراں مسکرائی۔ مگر پھر یکایک نجانے کیوں اسے اپنے شوہر پر غصہ آنے لگا۔ وہ پکوڑوں سے بھرا ہوا تھال اندر لے گئی اور اسے اچھی طرح ڈھانپ کر زمین پر رکھ دیا۔ پھر کمرے میں واپس آ کر اس نے نورل کی رضائی کو اُتار کر پھینک دیا۔ وہ آنکھیں مسلتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ اس نے صحن میں پھیلی ہوئی دھوپ دیکھی تو دیر سے جگانے پر اپنی بیوی کو ملامت کرنے لگا۔ اس کے بعد وہ کھیتوں کی طرف چلا گیا۔

گنے کے کھیت میں رفعِ حاجت کے بعد وہ اپنے وڈیرے کی اوطاق میں لگے ہوئے نلکے پر غسل کر کے گھر واپس آیا۔ نوراں نے اسے چائے کی پیالی لا کر تھمائی۔ سڑکیاں لگا کر چائے پیتے ہوئے اسے نذیر کی باتیں یاد آنے لگیں۔ اس نے فوراً آواز دے کر نوراں کو بلایا۔

نوراں اسے شک بھری نظر سے دیکھتی کھاٹ پر اس کے برابر بیٹھ گئی۔ نورل چائے کا گھونٹ لینے کے بعد اس سے مخاطب ہوا۔ ’’تیری ساس مرے، ایک بات غور سے سن۔ مگر بات سننے سے پہلے مجھ سے وعدہ کر کہ میں تجھ سے جیسے کہوں گا، تو ہو بہو ویسے ہی کرے گی۔‘‘

اپنے شوہر کی مضحکہ خیز سنجیدگی پر اسے ہنسی آنے لگی مگر وہ اپنی ہنسی پر بمشکل ضبط کرتے ہوئے سر ہلاتے ہوئے بولی، ’’ اچھا اچھا، وعدہ کرتی ہوں۔‘‘

نورل اپنا مدعا بیان کرنے سے پہلے اسے کچھ دیر کے لیے چمکدار خوابوں کی دنیا میں لے گیا۔ اس نے رنگین چوٹیوں، مرزا کمپنی کی مضبوط چیل، پھول دار ملبوسات اور لیس والے ریشمی دوپٹوں کا ذکر کچھ ایسے پر کشش انداز سے کیا کہ ان سب چیزوں کے لیے ترسی ہوئی نوراں خود کو تھوڑی دیر کے لیے وڈیرے ہاشم جو گی کی بہو خیال کرنے لگی۔ اس دوران وہ اپنے بے رنگ ڈوپٹے میں اپنے سفید اور کالے بال چھپاتی ہوئے نورل کی باتوں میں کھوئی رہی۔

اپنی کامیابی پر زیرِ لب مسکراتے ہوئے نورل نے اس کے پڈعیدن جانے کا ذکر چھیڑ دیا۔ اس سفر کے بارے میں سنتے ہی نوراں نے اپنے شوہر کو صاف صاف بتا دیا کہ اس لڑکے نے بڑے پُل تک ان کا پیچھا کیا تھا اور شمیم ابھی تک اسے بھول نہیں سکی تھی، اور اکثر اس ذکر کسی نہ کسی بہانے سے کرتی رہتی تھی۔

پکوڑا فروش نے اپنی بیوی کو یہ بتا کر حیران کر دیا کہ وہ اس لڑکے کو اچھی طرح جانتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ اصل مقصد کی طرف آیا اور کہنے لگا، ’’وہ لڑکا اب میرا اچھادوست ہے اور میں اسے زبان دے چکا ہوں۔ سمجھتی ہونا؟وہ بیچارہ اس کی محبت میں چرس پینے لگا ہے۔ مگر وہ سگریٹ بھی نہیں پیتا تھا پہلے۔‘‘

نذیر کی حالتِ زار کا سن کر نوراں کا دل پسیجنے لگا اور وہ اس سے ہمدردی محسوس کرتے ہوئے آہ بھر کر بولی، ’’وے چارو!‘‘

پکوڑا فروش نذیر کا حال بڑھا چڑھا کر بیان کرتا رہا اور ساتھ ہی اپنے فائدے کی بات بھی کرتا رہا، جس کا اس کی بیوی پر بہت اثر ہوا اور اس نے تباہ حال نوجوان کی مدد کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔

پکوڑوں سے بھرا ہوا تھال اٹھاتے ہوئے اس نے اپنی بیوی کو آخری نصیحت کی۔ ’’اور یہ بات اچھی طرح سن لو!شمیم کو میرے بارے میں نہ بتانا۔ اسے کہنا کہ وہ لڑکا تمھیں بازار میں اچانک ملا تھا اور تمھارے قدموں میں آ کر گر پڑا تھا۔ اگر تم نے اس کے سامنے میرا نام لے لیا تو وہ اس سے ملنے پر رضا مند نہیں ہو گی۔ سمجھ گئیں نا؟‘‘

نوراں یہ سن کر ذرا سی پریشان تو ہوئی مگر پھر کہنے لگی، ’’ایسے معاملے میں اگر کوئی مرد درمیان میں آ جائے تو عورت فوراً بدک جاتی ہے۔‘‘

پکوڑا فروش اپنی بیوی کی ذہانت پر اس کی تعریف کرنے لگا اور تھال سر پر رکھ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔

 

نورل نے گاؤں کی شریف اور معتبر عورت کے دل میں نذیر کے لیے موجود محبت کو کچھ دنوں تک اس سے چھپائے رکھا۔ وہ ایک طرف اپنے دوست کے جذبوں کی شدت کا اندازہ لگانا چاہتا تھا مگر دوسی طرف وہ اپنے گوٹھ کی عورت کی رسوائی سے بھی خوفزدہ تھا۔ اسے معلوم تھا کہ ذرا سی بے احتیاطی سے یہ معاملہ قصبے اور گرد و پیش کے دیہات کے لوگوں کی اجتماعی یادداشت کا حصہ بن سکتا تھا اور اس عورت کے لیے ہمیشہ رسوائی اور ذلت کا باعث بھی بن سکتا تھا۔ اس نے نذیر کو بھی اس معاملے میں راز داری برتنے کی تنبیہ کی اور اسے اس کی محبت کے ہر ممکنہ انجام کے متعلق بھی آگاہ کیا۔

نورل نے اپنی باتوں سے اپنے دوست کے دل میں مایوسی کو گھر بنانے نہیں دیا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ہر نوجوان عاشق کا دل قنوطی ہونے کے باوجود کبھی بھی بے آس نہیں ہوتا— وہ ہمیشہ کسی نہ کسی معجزے کی رونمائی کا منتظر رہتا ہے۔

نذیر جو ہر وقت اسے کریدتا رہتا تھا اور اس کی باتوں کی ٹوہ لیتا رہتا تھا، تو وہ یہ بے سبب نہیں کرتا تھا— وہ پوری سنجیدگی اور انہماک سے پردہ نشین خاتون سے تعلق استوار کرنا چاہتا تھا۔

نذیر نے ان معاملات کو غفور چاچا اور یعقوب کاریگر سے چھپایا ہوا تھا۔ اب وہ دن کا بیشتر وقت دکان پر گزارتا تھا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد چاچا غفور قیلولہ کرنے کی غرض سے چند گھنٹوں کے لیے گھر چلا جاتا تھا۔ نذیر اور کاریگر سہ پہر تک جمائیاں لیتے کام کرتے رہتے اور شام کو چاچے کی آمد سے پہلے تک چاق و چوبند ہو جاتے۔

نذیر کو شام سے پہلے ہی دکان سے چھٹی مل جاتی۔ اس کے بعد وہ رات نو بجے تک حیدری کے ساتھ قصبے میں آوارہ گردی کرتا رہتا۔

اس نے پچھلے کچھ عرصے کے دوران جیب خرچ بچا بچا کر جتنی بھی رقم جمع کی تھی وہ نورل سے ملاقاتوں میں اس کے بہت کام آئی تھی۔ کپڑوں کی خریداری کے بعد وہ پریشان ہو گیا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اظہارِ محبت کے بعد بھی اسے روپوں کی ضرورت پیش آئے گی۔ لوگوں سے محبت کی کہانیاں سن سن کر اس نے یہ اصول اخذ کیا تھا کہ دولت کے بغیر کسی محبوبہ کا دل نہیں جیتنا ممکن ہی نہیں ہے۔

دو دن کے لیے جب پکوڑا فروش قصبے کی طرف نہیں آیا تو نذیر اسے ڈھونڈتا دیر تک گلیوں میں گھومتا رہا۔ اس کے تمام ممکنہ ٹھکانوں پر جا کر اسے مایوسی ہوئی۔ وہ تھک ہار کر نہر کے کنارے چائے خانے پر جا بیٹھا اور گرد و پیش نظر دوڑانے لگا۔ آسمان گہرا نیلا تھا، اس کے کناروں پر بہت دور کہیں کہیں سفید بادل اپنا سر نکالے نظر آ رہے تھے۔ سورج کی کمھلائی پیلی دھوپ نہر کے پانی اور کھیتوں پر دور دور تک پھیلی تھی۔ نہر کے پُل پر اکا دکا سائیکلوں اور چھکڑوں کی آمدورفت جاری تھی۔

نذیر سوچتا رہا کہ جتنے روز نورل سے ملاقات ہوتی رہی، اُس کے طفیل وہ بلا سبب برقع پوش کی قربت کو محسوس کرتا رہا۔

اسے وہاں بیٹھے بیٹھے بہت دیر گزر گئی۔ دھیرے دھیرے شام ڈھلنے لگی توآسمان اچانک پرندوں کی آوازوں سے بھر گیا۔

ہولے ہولے تاریکی پھیلنے لگی تو نذیرمایوس ہو کر اٹھ کھڑا ہوا اور نہر کے کنارے چلنے لگا۔ اس کا ذہن الجھا ہوا تھا۔ وہ بہت بے قراری محسوس کر رہا تھا۔ بار بار اسے یہ خیال تنگ کر رہا تھا کہ اس نے بلا ضرورت بیکار کی پریشانی مول لے لی تھی۔

نہر کے آس پاس سب ٹھیلے والے جا چکے تھے۔ پل کی دیوار پر ایک بوڑھا آدمی بیٹھا کھانس رہا تھا۔ نذیر پرانے اور خستہ سے پُل پر چلتا ہوادوسری طرف پہنچا اور گوٹھ ہاشم جو گی سے اٹھنے والے دھوئیں کی بو سونگھنے لگا۔ گاؤں سے آنے والے کچے راستے پر اس نے ایک شخص کو لحاف اوڑھ کر پل کی طرف آتے ہوئے دیکھا۔

آہستہ آہستہ دھندلائے  منظر بھی اندھیرے میں معدوم ہونے لگے مگر نذیر وہیں کھڑا رہا۔ پل پر بیٹھا ہوا بوڑھا آدمی بھی جا چکا تھا۔ وہ دن بھر خاموشی سے بہنے والے پانی کی مدھم مدھم سی سرگوشیاں سننے لگا۔ وہ کچھ کہہ رہا تھا — اس پرہنس رہا تھا یا شاید رو رہا تھا۔ تاریکی میں ٹھنڈے سانس بھرتے ہوئے وہ پُل کی دیوار پر جا بیٹھا۔

اچانک کسی نے کھڑکھڑاتے ہوئے لہجے میں اس کا نام پکارا تو اس نے فوراً چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ نورل جوگی تھا۔ سرد ہواسے بچنے کی خاطر اس نے سر سے پیر تک لحاف اوڑھا ہوا تھا۔

نذیر سے مصافحہ کرتے ہوئے اس نے قہقہہ لگایا جو اگلے ہی لمحے شدید کھانسی میں تبدیل ہو گیا۔ کھانستے ہوئے اس کا جسم جھک گیا۔ چند لمحوں بعد کہیں جا کر اس کی کھانسی تھمی۔

نذیر پکوڑا فروش سے کوئی بات سننا چاہتا تھا۔ اس نے اس سے کوئی سوال نہیں پوچھا۔ اسے معلوم تھا کہ پکوڑا فروش موالی طوطے کی طرح خودبخود بولنا شروع کر دے گا۔ وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کی پیٹھ تھپتھپانے لگا۔

سگریٹ سلگاکرنورل اسے اپنی بیماری کے متعلق بتانے لگا۔ وہ اپنے گاؤں کی اوطاق میں چرس اور بھنگ پیتا رہا تھا۔ وہیں پر اسے ٹھنڈ لگ گئی۔ اس نے بتایا کہ اگر اسے آج چرس نہ خریدنا ہوتی تو آج بھی قصبے کی طرف نہ آتا۔

تھوڑی دیر بعد اس نے ہنستے ہوئے نذیر کو بتایا۔ ’’بھوتار، تیرے لیے ایک خاص خبر ہے، اور ایک خاص پیغام بھی۔‘‘

اس کی بات سن کر نذیر خود کو مسکرانے سے نہیں روک سکا۔

نورل نے اگلے ہی لمحے کسی تردّد کے بغیر اسے بتا ہی دیا کہ اس نے پڈعیدن اسٹیشن پر شمیم کو جو چائے پلائی تھی، وہ اس چائے کی پیالی کو ابھی تک نہیں بھولی تھی۔ وہ نذیر سے ملنا چاہ رہی تھی۔

یہ سنتے ہی نذیر خوشی سے بے قابو ہو کر پکوڑا فروش سے لپٹ گیا۔

 

 

 

نذیر کی زندگی میں شمیم پہلی عورت تھی جس نے اس سے ملنے کے لیے اسے پیغام بھیجا تھا، ورنہ اس سے پہلے بھی وہ بے شمار لڑکیوں اور عورتوں کا تعاقب کر چکا تھا، مگر ان میں سے کسی کی جانب سے پیغام آنا تو درکنار، اسے انھیں دیکھنے کو دوسرا موقع تک میسر نہیں آ سکا تھا۔ وہ سب کی سب اپنے گھروں میں جانے کے بعد اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھول گئی تھیں۔ پکوڑا فروش کے ذریعے موصول ہونے والے پیغام کی اس کے لیے بہت خاص اہمیت تھی۔ اسی لیے اس کا اپنا بیکار وجود بھی اس کی اپنی نظروں یکایک کچھ اہم ہو گیا تھا۔ بار بار کسی سبب کے بغیر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ جاتی تھی۔ اسے محسوس ہونے لگتا تھا کہ انسانوں سے بھری ہوئی اس دنیا میں ایک عورت ایسی بھی ہے جو اس کے بارے میں سوچتی ہے۔ اس کے لیے یہ خیال بہت مسحورکن تھا۔ مگر اس سے بھی زیادہ مسحورکن خیال آج کی شب پیش آنے والے وصل کی لذت کا خیال تھا، جس کا ہلکا سا احساس ہی اس کے بدن پر سرشاری طاری کر رہا تھا۔

اسی خیال کے زیرِ اثر وہ بہت دیر تک متواترسلائی مشین چلاتا رہا۔ اسے وقت کے تیزی سے گزرنے کا احساس ہی نہیں ہو رہا تھا۔ بہت دیر کے بعد اس نے اپنا ہاتھ روکا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ اس کی نظر یعقوب کاریگر کے چہرے پر جا کر ٹھہر گئی جو ایک ریشمی لباس کی سلائی میں مصروف تھا۔ اس کی آنکھیں سلائی مشین کی ٹانکے لگاتی باریک سوئی کو شوق بھری نظر سے دیکھ رہی تھیں۔ اس کے ہاتھوں کی انگلیاں ریشمی کپڑے کو کچھ اس طرح جھجکتے ہوئے چھو رہی تھیں جیسے وہ کسی عورت کے جسم کو اس کی اجازت کے بغیر اور اس سے چھپ کر چھو رہی ہوں۔

نذیر نے حیرت سے سوچا کہ نسوانی کپڑوں کی سلائی کے دوران یعقوب کاریگر اپنے گرد و پیش سے کتنا لاتعلق ہو جاتا تھا کہ اسے بیڑی پینے کا ہوش بھی نہیں رہتا تھا۔ عجیب لذت سے تمتماتا ہوا اس کا چہرہ دیکھ کر نذیر کو اس کے ہاتھوں کے ہنر کی مقبولیت کا راز معلوم ہو گیا۔

ابھی شام ڈھلنے میں خاصا وقت تھا اور آدھی رات ہونے میں تو اس سے بھی زیادہ وقت باقی تھا۔ یکایک وہ محسوس کرنے لگا کہ ہیجان خیز محسوسات و خیالات کی یورش کی وجہ سے دھیرے دھیرے اس کے جذبات کند ہونے لگے ہیں اور وہ اپنے آپ کو فاترالعقل سمجھنے لگا۔ اپنا ذہن بٹانے کا سوچ کراس نے دیوار پر چسپاں تصویروں پر ایک نگاہ ڈالی۔ فلمی اداکاراؤں کے میک اپ سے بھرے ہوئے چہرے اس کی نگاہوں سے خود بخود اوجھل ہو گئے۔ اسے صرف کسے کسائے ملبوسات میں پھنسے ہوئے بدن دکھائی دیے۔ اسے محسوس ہونے لگا کہ دکان کی چھت سے فرش تک صرف نسوانی اعضا کی تصویریں لگی ہوئی ہیں اور ہر نسوانی عضو ہر قسم کی نزاکت اورحسن سے یکسر عاری ہے اور اس میں سے صرف شہوانیت کا اظہار ہو رہا ہے۔ وہ کچھ دیر تک بھرے بھرے جسموں کی گداز چھاتیوں اور ابھرے ہوئے پیٹ کی ناف کو دیکھتا رہا۔ اس عمل سے اچانک اس کا خون گرم ہو گیا اور اس کی ناک کے نتھنوں سے گرم گرم سانسیں نکلنے لگیں۔

یعقوب کاریگر اسے محویت سے تصویروں کو تاکتے دیکھ کر مسکرانے لگا۔ اسے مسکراتا دیکھ کر نذیر کھسیانا ہو کر اٹھا اور دکان سے باہر چلا گیا۔ گلی سے نکل کر وہ سڑک پر آیا اور یہاں کی کھلی فضا میں لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے اپنی طبیعت بحال کرنے لگا۔

سڑک کے پرلی طرف کپڑے کی ایک دکان پر لٹکی ہوئی پھول دار چادریں اور ڈوپٹے ہوا کے جھونکوں سے ہل رہے تھے۔ ایک دکاندار اپنی پردہ نشین گاہک کے سامنے ریشمی کپڑے کا تھان کھول رہا تھا۔ نذیر اس برقع پوش عورت کی طرف دیکھنے لگا۔ دکان پر پڑتی سورج کی تیز روشنی کے سبب اس کے برقعے میں عجیب سی چمک پیدا ہو گئی تھی۔ اسے لگا کہ وہ یہاں کھڑا ہو کر زیادہ دیر تک اس برقعے کی چمک کو اپنی آنکھوں میں جذب نہیں کر سکتا۔

تھوڑی دیر بعد وہ دکان پر لوٹ آیا۔ یعقوب کاریگر اسے دیکھتے ہی بولا، ’’آج میں دکان پر بہت اکیلائی محسوس کر رہا ہوں۔ آج میرے یار کی طبیعت خراب ہے، اس لیے وہ نہیں آیا۔ اور تم ہو کہ مجھ بوڑھے سے کوئی بات ہی نہیں کرتے۔‘‘ وہ ایک بیڑی سلگا کرسُلگاکر کش لینے لگا۔

نذیر اس کے قریب رکھے ہوئے اسٹول پر جا کر بیٹھ گیا اور وہ دونوں چاچے غفور کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔ زیادہ تر باتیں پرانی تھیں جو وہ پہلے بھی کئی بار کر چکے تھے۔ نذیر کو نئی بات نہیں سوجھ رہی تھی اس لیے وہ خاموش ہو گیا، کیونکہ کاریگر باتیں کرنے کی موج میں آیا ہوا تھا۔ نذیر کو اچانک چاچی خیر النسا یاد آئی۔ آج چاچا بھی گھر پر موجود تھا۔ اس نے اپنی چشم تصور پر کمرے میں ایک دوسرے کے ساتھ پیوست سایوں کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا۔

یعقوب کاریگر کی باتیں سنتے ہوئے اسے لگا کہ چاچے غفور سے اس کی دوستی کی ضرور کوئی خاص وجہ رہی ہو گی، جس کے بارے میں کاریگر نے بھول کر بھی باتوں میں کوئی اشارہ نہیں کیا تھا۔ نذیر نے سوچا کہ اگر کسی دن وہ کاریگر کو  اعتماد میں لے کر اس سے پوچھ گچھ کرے تو شاید اسے کچھ گڑے مُردوں کا پتا چل جائے۔

دکان کے باہر ایک سائیکل کو رکتا دیکھ کر وہ دونوں چپ ہو گئے۔

ماسٹر طفیل اپنی دھوتی سنبھالتاہواسائیکل سے اتر کر دکان میں داخل ہوا۔

’’ میں تمھارا ہی کام کر رہا تھا ماسٹر۔ صرف قمیص کے بٹن لگانے رہ گئے ہیں۔‘‘ یعقوب نے خوش مزاجی سے اسے اس کے کپڑوں کے بارے میں بتایا۔ ماسٹر طفیل کچھ دیر بعد آنے کا کہہ کر چلا گیا۔

گلی میں دکانوں کے شٹر بند ہونے کی کھڑاک پڑاک شروع ہو گئی۔ تمام درزی ہنستے، شور مچاتے ہوئے اپنی اپنی دکانوں سے نکلے۔ تھوڑی دیر بعد اذان بھی سنائی دینے لگی۔

ماسٹر طفیل کو اس کے کپڑے دینے کے بعد انھوں نے بھی دکان بند کر دی اور یعقوب کاریگر چاچے غفور کی عیادت کے لیے اس کے ساتھ چل پڑا۔

ملگجی شام میں چاچی خیر النسا کشادہ صحن میں جانماز پرسمٹی ہوئی بیٹھی نماز پڑھ رہی تھی۔ اس کے ہونٹ دعا مانگتے ہوئے لرز رہے تھے۔ نذیر کے قدموں کی چاپ سن کر اس نے مڑ کر دیکھا اور اس کے ہونٹ تیزی سے دعا ختم کرنے لیے ہلنے لگے۔

نذیر دو محرابوں کے درمیان کھڑا عبادت ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ صحن میں پھیلتی تاریکی کو دیکھ کر اس نے بلب روشن کرنے کی خاطر دیوار پر نصب کالا بٹن دبایا تو برآمدے میں روشنی پھیل گئی۔ اس نے تاریک کمرے پر نظر دوڑائی۔ غفور چاچا وہاں رضائی اوڑھ کر لیٹا ہوا تھا۔ اس کے خراٹوں کی خرخراہٹ سن کر وہ مسکرایا۔

چاچی کو جا نماز اٹھاتا دیکھ کر اس نے اس کے پاس جا کر اسے یعقوب کاریگر کی آمد کے بارے میں بتایا۔ وہ فوراً اپنے شوہر کو جگانے کے لیے کمرے میں چلی گئی۔ چاچا غفور اپنے یار کا نام سن کر فوراً اُٹھ بیٹھا۔

چاچی خیر النسا پردے کی خاطر باورچی خانے والی کوٹھڑی میں چلی گئی۔

یعقوب کاریگر کو دیکھ کر بوڑھا مریض خوشی سے کھل اُٹھا۔

نذیر اپنی گھڑی پر وقت دیکھ رہا تھا، کیونکہ پہلوان کے چائے خانے پر نورل جو گی اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اسی بے چینی میں وہ باورچی خانے میں چاچی کے سامنے چوکی پر جا بیٹھا۔ چاچی خیر النسا نے اپنے شوہر اور کاریگر کی پرانی دوستی کا ذکر چھیڑ دیا۔

باتوں کے دوران نذیر کو پہلے اس کے ہاتھ کا لمس یاد آیا اور پھر غسل خانے میں لٹکا ہوا اس کا بلاؤز۔ بیٹھے بیٹھے وہ چاچی کے سرخ و سفید ہاتھوں کو دیکھنے لگا۔ اس نے سوچا کہ ان ہاتھوں میں پوشیدہ حدت کتنی نرم و ملائم ہو گی۔ اس کا جی چاہا کہ وہ اسی وقت انھیں چھوکر محسوس کرے اور ان کی ہتھیلیوں پر ایک بوسہ ثبت کر دے۔ اس نے خود کو گستاخی پر آمادہ محسوس کیا۔ وہ اس کے کشادہ سینے کے زیر و بم کو دیر تک محویت سے دیکھتا رہا۔

وہ حیران تھا کہ اس کی باتوں میں عدم دلچسپی کے باوجود وہ بے خبری کے عالم میں دیر تک باتیں کرتی رہی۔ جب وہ چولھے میں پھونک مارنے کے لیے جھکی تو نذیر نے چپ چاپ اس کی چھاتی کے ابھار کو دیکھا، مگر اگلے لمحے چاچی خیر النسا اپنے سینے پر ہاتھ باندھ کر اسے شک بھری نظروں سے گھورنے لگی۔ اس کے گھورنے پر وہ جھینپ سا گیا۔ اسے الجھن سی ہونے لگی۔ وہ باتونی نہیں تھا مگر وہ چاہتا تھا کہ پُر کشش جسم والی اس حسین عورت سے دیر تک لچھے دار باتیں کر کے اس کا دل بہلائے۔

چاچی نے پتیلی اٹھا کر چینک میں چائے انڈیلی۔ وہ ٹرے میں رکھی چینک اور پیالیاں اٹھائے ہوئے باورچی خانے سے باہر چلا گیا۔

کمرے میں ان کے سامنے چائے رکھنے کے بعد وہ آدھے گھنٹے تک وہ ان دو بوڑھے آدمیوں کے ساتھ بیٹھا رہا۔ ان کی باتیں سنتے ہوئے اس نے سوچا کہ غفور چاچا دلچسپ گفتگو کرنے کا ماہر تھا، اسی لیے اس نے ابھی تک چاچی کو اپنے قابو میں رکھا ہوا تھا۔

کچھ دیر بعد یعقوب کاریگر نے چاچے سے جانے کی اجازت مانگی۔ وہ اسے رخصت کرنے گلی کے آخر تک چلا گیا۔ الوداعی مصافحے کے بعد وہ کچھ وقت وہیں کھڑا اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ اس کے بعد وہ پہلوان کے چائے خانے کی طرف چل پڑا۔

چائے خانے میں نوجوان لڑکے ڈبو کھیلتے ہوئے شور مچا رہے تھے۔ وہاں ٹیپ ریکارڈر پر جلال چانڈیو کا گانا بج رہا تھا۔ ایک طرف پڑے ہوئے موڑھوں پر دوچار آدمی بیٹھے دھیمے لہجوں میں گفتگو کر رہے تھے، جبکہ نورل منھ بسورتا ہوا اکیلا بیٹھا تھا۔

نذیر پکوڑا فروش پاس گیا تو وہ اسے دیکھ کر مسکرایا۔ انھوں نے موڑھے اٹھا کر ایک کونے میں کھسکالیے اور آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے۔

پکوڑا فروش نے راز داری سے اسے بتایا کہ آج رات ایک بجے وہ اپنے گھر کے پچھلے دروازے سے نکل کر پانی کے نالے کے پاس اس کا انتظار کرے گی۔ اس پر لازم تھا کہ وہ ایک بجے سے پہلے وہاں پہنچ جائے۔ اس نے اسے مزید یقین دلایا کہ ملاقات کے دوران وہ دونوں عاشقوں کے آس پاس منڈلا تا رہے گا۔

نذیر نے اس کی ہر بات غور سے سنی۔ اس نے اپنے ذہن میں پہلی ملاقات کا جو تصور باندھا تھا، اس پر خوف کی پرچھائیں لہرانے لگی۔ اس کے باوجود چائے خانے سے اٹھ کر جاتے ہوئے نذیر نے وعدہ کیا کہ وہ ساڑھے بارہ بجے تک نہر سے اُترنے والی سڑک پر پہنچ جائے گا۔

نورل نے بھی سنجیدگی سے اپنا وعدہ دُہرایا اور وہاں سے چلا گیا۔

 

کل وہ اپنے بستر پر جس شب کے انتظار میں لیٹا ہوا کروٹیں لے رہا تھا، وہ شب آ پہنچی تھی اور اپنے بازو پھیلا کر اسے دعوتِ نشاط دے رہی تھی۔ مگر یہ کیا؟گزرتے ہوئے لمحوں کے ساتھ نہر پار جانے کے خیال سے اس کے دل میں دہشت بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ خود کو کسی طور پر ڈرپوک ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس نے بزدلی کو واہمہ قرار دے دیا اور اس کے خیال کو جھٹکنے کے لیے وہ چاچے غفور کے ساتھ اس وقت کمرے میں بند چاچی خیرالنسا کے بارے میں سوچنے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر اس کا ذہن اس پل چاچی کے متعلق کچھ بھی سوچنے کے لیے آمادہ نہیں ہوا۔ اسے کوئی بات نہیں سوجھی، اس کے دل میں کوئی احساس پیدا نہیں ہوا، حتیٰ کہ چاچی کے گداز سینے کا خیال بھی اس کے ذہن کو اپنی طرف مائل نہ کر سکا۔ اور دوسری طرف کسی کوشش کے بغیر اس کا ذہن بار بار خود بخود شمیم کے بارے میں سوچنے لگتا تھا۔ اگرچہ اس نے اب تک اس برقع پوش شمیم کی آواز نہیں سنی تھی، اس کے ہونٹ اور اس کے سینے کا شاہد نہیں ہوا تھا، اس کے باوجود فوراً اس کے ذہن میں دراز قد اور بھرپورجسم کی ایک شاندار عورت در آئی تھی۔ وہ اس کے سحر انگیز حُسن کی باریکیوں میں اُلجھ گیا۔

اس نے اپنی چشمِ تخیل میں کتھئی لباس میں ملبوس ایک جوان عورت کو دیکھا جس کے جسم سے چنبیلی کی خوشبو کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ اس کے سر سے چادر ڈھلکی ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس کے بالوں کی مانگ نظر آ رہی تھی۔ وہ کہیں کھڑی ہوئی شدت سے اس کی منتظر تھی۔

چند لمحوں کے بعد وہ ٹھنڈی آہیں بھرتا ہوا اپنے تخیل کے اڑن کھٹولے سے نیچے اترا اور چھت کی کڑیوں کی طرف دیکھتے ہوئے بلا سبب مسکرانے لگا۔ کچھ دیر قبل اس کے لیے شعوری طور پرجس چیز کے لیے سوچنا محال ہو رہا تھا، اب اس کا ذہن اس کے بارے میں خود بخود سبک روی سے سوچنے لگا۔ شمیم کے تصور کے بعد اب وہ چاچی کا تصور باندھنے لگا۔ سوچتے سوچتے اس نے لحاف اتارا اور چار پائی سے اتر کروہ کمرے کے دروازے کے پاس گیا اور اس سے کان لگا کر وہ کچھ دیر تک ان کی آپس کی باتیں سننے کی کوشش کرتا رہا۔ اس کے جی میں آیا کہ وہ دروازے کو دھکا دے کر اسی لمحے کھول دے اور اپنی آنکھوں سے انھیں قابلِ اعتراض حالت میں دیکھے۔ مگر اگلے ہی ثانیے وہ دروازے سے ہٹ گیا اور ٹہلتا ہوا برآمدے سے صحن میں آ گیا۔ وہ سوچنے لگا کہ پہلی ملاقات پر اسے کیا باتیں کرنی چاہییں اور کس انداز سے کرنی چاہییں ؟کس طرح چکنی چپڑی اور دل لبھانے والی باتوں کے ذریعے شمیم کو شیشے میں اُتارنا چاہیے ؟ اس حوالے سے اسے خود پر اعتماد نہیں ہو رہا تھا کیونکہ ماضی میں دو مرتبہ پہلے بھی وہ ایسے معاملات میں ناکامی کی اذیت برداشت کر چکا تھا۔

اپنی بہن کی سہیلی سے پہلی بار ملتے ہی اس نے اس سے محبت کا اظہار کر دیا تھا۔ اس کے بے سلیقہ اظہار کا برا مان کروہ لڑکی اس سے بدک گئی اور اس نے اس کی بہن سے بھی ہمیشہ کے لیے ملنا ترک کر دیا تھا۔ دوسرا واقعہ اسی قصبے میں پیش آ چکا تھا۔ ایک دن وہ پرائمری اسکول کی عمارت کے قریب سے گزر رہا تھا۔ اس نے ایک لڑکی کو اپنے گھر کے دروازے سے باہر جھانکتے ہوئے دیکھا۔ وہ اسے پہلی نظر میں ہی بھا گئی۔ اس کے بعد وہ کئی روز تک اس کے گھر کے باہر چکر لگاتا رہا۔ کبھی کبھار وہ دکھائی دے جاتی لیکن ہر بار اسے دیکھتے ہی پردہ گرا کر اندر بھاگ جاتی۔ ایک شام وہ اسے ایک سنسان گلی میں دکھائی دے گئی۔ اس نے فوراً اپنا دل کھول کر اس کے سامنے پیش کر دیا۔ لڑکی نے اس کا دل اپنے پیروں تلے روند ڈالا اوراسے برا بھلا کہتی ہوئی چلی گئی۔

اسے خدشہ تھا کہ شمیم بھی کہیں اس کی بے ربط اور اکھڑی باتیں سن کر اس سے اکتا نہ جائے۔ پچھلے کچھ برسوں سے وہ شادی شدہ عورتوں سے ذاتی تعلقات قائم کرنے کے خواب دیکھتا رہا تھا۔ اب اس نے لڑکیوں کو اپنی محبت کے لائق سمجھنا چھوڑ دیا تھا۔ ان کے نخروں کو برداشت کرنا اس جیسے کم ہمت کے بس کی بات نہیں تھی۔ جوانی کے حُسن اور فطری کشش کے باوجود اب قصبے کی لڑکیاں اسے بالکل اچھی نہیں لگتی تھیں۔

وہ اپنے خیالوں میں گم صحن کے ٹھنڈی اینٹوں والے فرش پر چہل قدمی کرتا رہا۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ صحن کے چاروں کونوں سے بچھو اور سانپ اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس احساس سے خوفزدہ ہو کروہ فوراً بھاگ کر برآمدے میں پڑی ہوئی چارپائی پر چڑھ گیا اور رضائی اپنے جسم پر اوڑھ کر بیٹھ گیا۔

بستر یخ بستہ ہو رہا تھا۔ اپنی رضائی پاؤں پر اچھی طرح اوڑھنے کے باوجود بہت دیر تک اس کے پیر گرم نہیں ہو سکے۔ تنگ آ کر وہ انھیں اپنے ہاتھوں سے مسلنے لگا۔

اسے اپنی حماقت کا احساس بہت تاخیر سے ہوا۔ اوس سے بھیگی رات میں صرف شلوار قمیض پہنے ہوئے گھر سے نکلنا بہت دشوار تھا۔ کمرے میں رکھے ہوئے اپنے صندوق سے چادر، مفلر اور جرابیں نکالنا اسے یاد نہیں رہا تھا۔ اس کے پاس صرف بغیر آستینوں والا سویٹر تھا۔ اس سویٹر کی مددسے سردیوں کی رات کی ٹھنڈ اور پالے کا رُکنا محال تھا۔

اسے محسوس ہونے لگا کہ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی ہے۔ گھڑی پر وقت دیکھنے کے لیے برآمدے کا بلب جلانا ممکن نہیں تھا۔ اس کے پاس کوئی ماچس بھی نہیں تھی۔ وہ چارپائی سے اُتر کے دبے پاؤں باورچی خانے کی کوٹھڑی تک گیا۔ اس کے ٹھنڈے ہاتھ چولھے کی راکھ اور اس کے گرد و پیش کی زمین ٹٹولتے رہے لیکن اسے وہاں ماچس نہیں ملی۔ اندازے سے اس نے خانوں والی الماری کھول کر اس میں ہاتھ مارا تو وہاں اسے ماچس مل گئی۔ دیاسلائی جلا کر اس کے شعلے کی روشنی میں اس نے گھڑی پر وقت دیکھ ہی لیا۔ بارہ بج کر دس منٹ ہو رہے تھے۔ وہ دیواریں ٹٹولتا باورچی خانے سے باہر نکلا اور دھیرے دھیرے چلتا ہوا برآمدے میں اپنی چارپائی تک پہنچا۔ اس نے رات کے پالے سے بچنے کے لیے حفظِ ماتقدم کے طور پر بستر سے چادر اتار کر اپنے گلے میں ڈال لی۔ پھر تکیے کو بستر کے درمیان رکھ کر اسے رضائی میں چھپا دیا تا کہ اگر کمرے سے کوئی باہر نکلے تو ابھری ہوئی رضائی دیکھ کر وہ یہ سمجھے کہ وہ یہاں سو رہا ہے۔ رضائی کا اونچا ابھار بنا کر وہ خاصا مطمئن ہو گیا۔ اس کے بعد وہ دبے پاؤں چلتا ہوا گھر سے باہر نکلنے والے دروازے تک گیا۔ دروازے سے نکلنے کے بعد اس نے کنڈی چڑھا دی اور احتیاط سے چلتا گلی میں نکل گیا۔

گلی میں گہراسناٹا تھا۔ موسمِ زمستاں کی یہ شب کہر آلود تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے آسمان سے یخ بستہ بوندیں برس رہی ہوں۔ گلی سے نہر کے پُل تک اسے بہت سی گلیوں سے گزرنا تھا۔ وہ اپنے بے اعتماد قدموں اور بے ترتیب سانسوں کی آوازیں سنتا نپے تلے قدموں سے چلتا رہا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ بہت مرتبہ کی دیکھی بھالی اور دن کے وقت مہربانی سے پیش آنے والی گلیاں آدھی رات کو جانی دشمن کی طرح نظر آ رہی تھیں۔

چوکیدار کی سیٹی سن کر وہ ہر بار چونک جاتا تھا۔ اسے محسوس ہوتا کہ وہ برابر والی گلی سے گزر رہا ہے۔ وہ اس کے قدموں کی آہٹ سننے کی کوشش کرتے ہوئے آگے بڑھتا رہا۔ ہر گلی کے دونوں طرف دیواروں کا طویل سلسلہ تھا۔ ہر موڑ کے بعد نئی دیواریں آ جاتیں اور وہ ان کے بیچ سہما ہوا اور خوف سے لرزتا ہوا قدم بڑھاتا رہا۔

ایک ڈھلان کی چڑھائی چڑھنے کے بعد وہ نہر کے کنارے پر پہنچ گیا۔ تیز چلنے کی وجہ سے اس کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں۔ قصبے کی آبادی سے نکل کر کھلی فضا میں آتے ہی اسے سردی زیادہ محسوس ہونے لگی۔ وہ درختوں کی قطار کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ اس کی نظریں پُل پر جمی ہوئی تھیں جو دور سے دھند اور کہرے میں لپٹا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے نہر کے پانی کی سطح پر چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھا تو حیران رہ گیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے پانی میں موتی جگمگا رہے ہوں۔ رات کے اس پہر پُل ویران پڑا تھا۔ اس نے ٹھٹھرتے ہوئے تیز رفتاری سے چل کر پل عبور کیا۔ پل سے نیچے اتر کر اسے تھوڑی دور چلنے کے بعد دائیں جانب کی جھاڑیوں سے گاڑھا دھواں اُٹھتا ہوا دکھائی دیا۔ دھواں دیکھتے ہی وہ ٹھٹک کر رک گیا۔ اس نے چرس کی مخصوص خوشبو کو پہچان لیا تھا۔ وہیں کھڑے کھڑے وہ دھیرے سے کھنکارا تو اسے جھاڑیوں میں سے کسی کے کھانسنے کی آواز سنائی دی۔ کھانسی کی آواز پہچانتے ہوئے وہ جھاڑیوں کی طرف چلا گیا۔ وہاں نورل جو گی اس کا انتظار کرتے ہوئے چرس کی سلفی پینے میں مگن تھا۔

رات کے اس پہر ہوا مکمل طور پر بند تھی۔ تمام چیزوں پر سکوت طاری تھا۔ آسمان کی چاروں انتہاؤں سے یخ بستگی زمین پر ٹپک رہی تھی اور دھیرے دھیرے ساری فضا میں پھیل رہی تھی۔ نذیر محسوس کر رہا تھا کہ اس کے کپڑے بھی آسمان سے گرتی اوس سے بھیگنے لگے تھے اور اس کی ناک کے نتھنوں میں سانسیں جم رہی تھیں۔ اس کے باوجود پکوڑا فروش کی فراخدلانہ پیشکش ٹھکراتے ہوئے اس نے سلفی پینے سے انکار کر دیا۔ اس کے انکار کے بعد نورل جو گی نے بھی اصرار نہیں کیا۔ وہ نشے کی کثرت کے باوجود بچے رہ جانے والے اپنے ہوش وحواس کو بروئے کار لاتے ہوئے نذیر کو گوٹھ میں واقع شمیم کے مکان کا حدود اربعہ سمجھانے لگا۔

’’وہ دیکھو۔ .. اُس طرف ! ہاں، وہ جوسیمنٹ سے بنی ہوئی صاف ستھری عمارت ہے نا، وہ ہمارے گوٹھ کی یونین کونسل ہے۔ کبھی بھول کر بھی اس کے قریب سے مت گزرنا۔ یونین کونسل کا چوکیدار شام ڈھلتے ہی اس کے باہر کتے چھوڑ دیتا ہے۔ بڑے مادر چود کتے ہیں وہ۔ ایک بار انھوں نے میری پنڈلی بھی نوچ کھائی۔ میں پورے چار مہینے چارپائی پر لیٹا رہا تھا۔ اچھا؟ ہاں، اس یونین کونسل سے کچھ آگے ہاریوں کی جھونپڑیاں ہیں۔ یہ سب کے سب ہاری گوپانگ قبیلے سے ہیں۔ گوپانگ پورے خیرپور میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کی عورتیں ضلع بھر میں مشہور ہیں۔ ہرسال ہمارے جو گیوں کا بھی بہت سا روپیہ ان پر خرچ ہو جاتا ہے۔ اگر تمھاری ٹھرک بڑھ جائے تو بتانا۔‘‘ بات کرتے کرتے وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگا۔

نذیر دیکھ رہا تھا کہ پکوڑا فروش دن بھر قصبے میں جوتیاں چٹخانے کے بعد اس وقت تھکن سے چور چور تھا اور نشے کی زیادتی کی وجہ سے اس کے اعصاب مضمحل لگ رہے تھے۔

اس نے مسکراتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’یہ گوپانگ ہم جو گیوں کی عزت پر داغ ہیں۔ مگر ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ کچھ بھی نہیں کر سکتے ! ان بھڑووں کو اپنے گوٹھ سے نہیں نکال سکتے کیونکہ ہمارے وڈیرے ایک نمبر کے رنڈی باز ہیں۔‘‘

اس کی بے تکی باتیں سن کر نذیر اونگھنے لگا تھا۔ اس نے ماچس کی تیلی جلا کر گھڑی پر وقت دیکھا۔ نورل سے چرس کا سگریٹ بنانے کی درخواست کرتے ہوئے اس کے دانت کٹکٹانے لگے تھے۔ اس کی آنکھیں شدید تکان کے سبب بند ہو رہی تھیں۔

نورل جو گی کے ہاتھوں نے چابکدستی سے سگریٹ بنا کر اس کی طرف بڑھایا۔ نذیر نے اسے دیا سلائی سے سلگاتے ہوئے ایک زوردار کش لگایا۔ سگریٹ پینے کے بعد وہ خود کو بہتر محسوس کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے پوری طرح اپنے ہاتھ پھیلا کر انگڑائی لی اور اس کے بعد ڈنڈ نکالنے لگا۔

وہ رات کے اس پہر ویران سڑک پر چلنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔ جھاڑیوں کے ساتھ ہی گنے کے کھیت واقع تھے۔ وہ جھاڑیوں کے بیچ چلتے چلتے گنے کے کھیتوں میں داخل ہو گئے۔ گنے کے قد آور پودے ان کے جسموں سے ٹکرا ٹکرا کر دھیما سا شور مچانے لگے۔ نورل نے اس کے پاس آ کر سرگوشی میں کہا، ’’تمام گوٹھوں کے عاشقوں کے لیے کماد کی فصل خدا کی طرف سے ایک انمول تحفہ ہے۔‘‘

یہ بات سن کر نذیر خود کو ہنسنے سے نہیں روک سکا۔

گنے کی فصل میں کچھ دور تک چلنے کے بعد وہ رک گئے۔ انھوں نے فصل سے باہر سر نکال کر اِدھر اُدھر دیکھا، پھر احتیاط سے دبے پاؤں چلتے ہوئے گاؤں کی طرف جانے والا راستہ پار کیا اور تیزی سے پرلی طرف کے کھیت میں گھس گئے۔ چلتے چلتے نذیر کی چپلیں گیلی مٹی لگنے کی وجہ سے بھاری ہو گئی تھیں۔ مزید آگے جا کر پانی بہنے کی سرسراہٹ سنائی دی۔ یہ آواز پانی کے نالے سے آ رہی تھی۔ کچھ دور جانے کے بعد انھیں وہ نالہ دکھائی دینے لگا۔ سیمنٹ سے بنے ہوئے اس نالے کے پاس جا کر فصل ختم ہو جاتی تھی۔

نورل نذیر کو نالے کے پاس، شیشم کے ایک درخت کی اوٹ میں کھڑا ہونے کا مشورہ دے کر غائب ہو گیا۔ نذیر پگڈنڈی پر تیزی سے چلتے اس کے پیروں کی دھپ دھپ سنتا رہا۔ اس کے بعد وہ گرد و پیش نگاہ ڈال کر آہستہ آہستہ چلتا شیشم کے پیڑ کی اوٹ میں جا کھڑا ہوا۔ کچھ دیر بعد وہ کھڑا رہ رہ کر تھک گیا تو نالے پرجا کر بیٹھ گیا۔ نالے کاسیمنٹ اس وقت یخ ہو رہا تھا۔

گوٹھ کے مکانوں کا پچھلا حصہ اس کی نظروں کے سامنے تھا۔ وہ ان مکانوں میں شمیم کا مکان تلاش کرنے لگا۔ اسے یقین تھا کہ بائیں طرف بنے ہوئے تین پختہ مکانوں میں سے ایک میں شمیم رہتی تھی۔ کپاس کی لکڑیوں اور شرینہہ کے پیڑوں کے سایوں کی وجہ سے وہ ان مکانوں کے دروازے نہیں دیکھ سکا۔

وہ شیشم کے جس طویل قامت پیڑ کے نیچے کھڑا تھا اس نے جب اس کے موٹے سے تنے کو دیکھا تو اس کے رگ و پے میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ بچپن میں سنے ہوئے بھوتوں اور چڑیلوں کے قصّے اسے یاد آنے لگے۔ وہ زمین پر پھیلے ہوئے اس درخت کے سائے کو دیکھتا رہا۔

نجانے کیوں بار بار اس کا دل کہہ رہا تھا کہ وہ یہاں نہیں آئے گی، مگر اس کے باوجود وہ دیر تک وہاں سرجھکائے بیٹھا رہا۔ اس نے گھڑی پر وقت بھی نہیں دیکھا۔ اسے اندازہ تھا کہ اب شاید رات کے دو بجنے والے ہوں گے۔ وہ اپنے تخیل کی مدد سے سوچنے لگا۔ ’’شاید وہ اپنے کمرے سے باہر آ گئی ہو مگر اپنے شوہر کو دھوکا نہ دینا چاہتی ہو اور برآمدے میں ٹہلتی ہوئی کوئی فیصلہ کرنے کی کوشش میں ہو۔‘‘

اچانک ایک لرزا دینے والے خیال نے اس کے خوف میں اضافہ کر دیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں پکوڑا فروش نے اسے کوئی فریب نہ دیا ہو؛ کہیں اس کی سنائی ہوئی ساری باتیں جھوٹی نہ ہوں اور کہیں اس نے اس کے کوئی سازش تیار نہ کر رکھی ہو۔ اس کا ذہن مختلف وسوسوں اور اندیشوں سے بھر گیا۔ اسی کیفیت کے زیرِ اثر وہ سیمنٹ کے نالے سے اُٹھ کر چلتا ہوا کماد کے کھیت میں جا چھپا۔ بہت دیر تک وہ وہاں چھپا سامنے کی طرف دیکھتا رہا۔ اس کی نگاہ شرینہہ کے دیو قامت پیڑوں کے سایوں پر جمی تھیں۔

اچانک اسے کسی کے قدموں کے نیچے کپاس کی سوکھی لکڑیوں کے کچلنے کی دھیمی دھیمی سی چرمراہٹ سنائی دی۔ اس کے بعد اس نے چاندنی میں وہاں ایک سائے کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ اطمینان کا سانس لیتے ہوئے گنے کی فصل سے باہر نکلا اور شیشم کے درخت کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اب وہ واضح طور پر دیکھ رہا تھا کہ شمیم ہولے ہولے قدم اٹھاتی اس کی طرف بڑھتی آ رہی تھی، مگر چلتے چلتے وہ اچانک کھڑی ہو گئی۔ چادر میں لپٹی ہوئی شمیم نے اسے اشارہ کرتے ہوئے اپنی طرف بلایا۔ اس کے اشارے پر وہ حواس باختگی سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا تیزی سے اس کے قریب پہنچا۔

شمیم لجاتے اورکسمساتے ہوئے اس سے مخاطب ہوئی۔ ’’نزدیک ہی ایک محفوظ جگہ ہے۔ آؤ چل کر وہاں بیٹھتے ہیں۔‘‘

سردیوں کی رات کے گہرے سکوت میں اس کی آواز نذیر کو کسی شیریں نغمے جیسی محسوس ہوئی۔ وہ اس کی آواز کی تعریف کرنا چاہتا تھا مگر سر جھکائے چپ چاپ اس کے پیچھے چلنے لگا۔ سردی کے سبب اس کا جسم کپکپا رہا تھا۔ اس کے بند ہونٹ ہل رہے تھے۔ وہ آگے چلتی ہوئی کپڑوں میں سمٹی ہوئی عورت کو دیکھ رہا تھا جو بے آواز قدم اٹھا تی چل رہی تھی۔

کچھ دور جا کر وہ ٹھہر گئی۔ اسے دیکھ کر نذیر بھی رک گیا۔ نذیر نے جگہ کے انتخاب کی بہت تعریف کی۔ شمیم اسے بتانے لگی کہ اسے اس علاقے کے چپے چپے کی خبر تھی۔

آج بھی اس نے اپنا چہرہ نقاب میں چھپایا ہوا تھا۔ اندھیرے کے سبب وہ اس کی تابناک آنکھوں کو نہیں دیکھ سکا۔ اس کے جسم کا کوئی حصہ بھی چادر سے باہر نہیں تھا۔

کچھ دیر بعد اس نے دو قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے اپنے چہرے سے نقاب اُتار دیا۔

نذیر بہت غور سے اسے دیکھنے لگا۔ وہ زیادہ خوبصورت نہیں تھی مگر اس وقت اسے بے حد پر کشش محسوس ہو رہی تھی۔ وہ سندھی گانوں کی مدد سے اس کی تعریف کرنے لگا۔ اس کے چہرے کو چاند اور آنکھوں کو ستاروں سے تشبیہ دینے لگا۔ ایک نوجوان لڑکے سے اپنی تعریفیں سن کر شمیم مسکرانے لگی۔ وہ کئی برسوں کے بعد کسی کے ہونٹوں سے اپنی اتنی تعریف سن رہی تھی۔ اس کی نظر یں جھکی ہوئی تھیں۔ وہ اسے اپنی معمولی زندگی کی معمولی سی باتیں مزے لے لے کر سنانے لگی۔

نذیر کو حیرت ہو رہی تھی کہ اب تک اس نے اپنے شوہر کے خلاف کوئی جملہ نہیں کہا تھا، جبکہ پکوڑا فروش نے اسے بتایا تھا کہ ان دونوں کے تعلقات ٹھیک نہیں چل رہے۔

شمیم کو نذیر سے ملاقات کے لیے جن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ ان کا بیان مبالغہ آرائی سے کرتی رہی۔ اس کی گنگناتی آواز سنتے ہوئے وہ اپنی تمام اذیت بھول گیا۔ وہ صرف اس کی صورت دیکھتا اور اس کی باتیں سنتا رہا۔ اس نے اس کے نزدیک کھڑے ہو کراس کے بالوں کی مانگ کو دیکھا، پھر اس کی پیشانی اور اس کی آنکھوں کو، اس کے بعد اس کے ہونٹوں اور گالوں کو۔ اس نے اس کی جلد کی سفید رنگت کو دیکھا۔ اس کلائی کی چوڑیوں کو دیکھا جو بار بار خود بخود کھنک پڑتی تھیں۔ اس کا مترنم اور دھیما لہجہ اس پر فسوں طاری کر رہا تھا۔ اوڑھی ہوئی چادر کے باوجود اس کے سینے کا زیر و بم صاف دکھائی دے رہا تھا۔

شمیم بھی اس کی نظروں سے غافل نہیں تھی۔ وہ اس کی نگاہوں کی خاموش تعریف سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچانک کسی احساس کے زیرِاثراس کے لہجے کی بے ساختگی ختم ہو گئی اور وہ اٹک اٹک کر باتیں کرنے لگی۔

نذیر کے لیے یہ لمحات اس کی زندگی کے سب سے زیادہ مسرور لمحات تھے۔ ایک شادی شدہ جوان خاتون اس کے پہلو میں تھی اور اس کی خاطر اپنی جان داؤ پر لگا کراس سے ملنے آئی تھی۔ وہ دونوں آنے والے دنوں میں اپنی ملاقاتوں کے بارے میں گفتگو کرنے لگے۔

شمیم نے اسے بتایا کہ آئندہ اس کے لیے رات کے وقت کھیتوں میں آنا ممکن نہیں ہو گا۔ وہ خوفزدہ تھی۔ اس نے کہا کہ وہ اس سے ملنے کے لیے کوئی اور بندوست کرے گی۔ اس نے اپنے دل میں امڈتی ہوئی محبت کا اظہار کیا اور نذیر کی تعریفیں کرنے لگی۔ وہ مسکرایا اور اس نے موج میں آ کر، آگے بڑھ کر شمیم کو اپنے بازوؤں میں لے لیا۔ اس نے پہلی بار نسوانی جسم کے اضطراب اور اس کی نرمی کو محسوس کیا۔ اسے لگا کہ وہ ریشم کے نرم و ملائم تھان سے لپٹ گیا ہے۔ وہ اس کے بازوؤں میں کسمسانے لگی۔ اس کے بدن سے اٹھتی کسی عطر اور پاؤڈر کی خوشبو اسے بے حد مسحورکن محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے پہلابوسہ اس کے داہنے ہاتھ پر دیا، وہ جس کی مدد سے اپنا چہرہ چھپا نے کی کوشش کر رہی تھی۔ نذیر نے اپنے ہاتھوں سے اس کے دونوں ہاتھ ہٹا کر اس کے نرم ہونٹوں کو چومنے لگا۔ وہ ان لمحوں کے ذریعے اپنی زندگی بھر کی محرومی کو سیراب کرنا چاہتا تھا۔ وہ اس کی چادر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس میں چھپی ہوئی اس کی چھاتیوں کو محسوس کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اسے نجانے کیا ہوا کہ وہ اس کی چادر کو چومتے چومتے اس کے سینے سے نیچے آیا اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا۔

شمیم گڑبڑا گئی۔ اس نے اس کے بوسوں کے خلاف برائے نام مزاحمت کی۔ اس نے اپنے نوآموز عاشق کے وحشی پن کا بُرا نہیں مانا اگرچہ اس کے تیزوتندبوسوں نے اس کے انگ انگ میں ہیجان برپا کر دیا تھا۔ نذیر بھی اپنے آپ میں نہیں تھا۔ وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ کراس کی ٹانگوں کو بھینچتا رہا۔ اس صورتِ حال میں شمیم کو خود کو سنبھالنے کا موقع مل گیا۔

کچھ دیر بعد وہ زمین سے اٹھا اور اس نے دوبارہ اس کی کمر کے گرد بازو ڈالنے کی کوشش کی مگر اس مرتبہ وہ پیچھے ہٹ گئی۔ اس نے دھیمے لہجے میں اسے سرزنش کی۔

عورت کے جسم سے پہلی ہم آغوشی نے نذیر کو نشے سے چُور کر دیا تھا۔ وہ اس کے ہمراہ زمین پر اگی ہوئی گھاس پر، گنے کے کھیتوں میں، شیشم کے پیڑ کے نیچے، غرض ہر جگہ لوٹنا چاہتا تھا، اس کے جسم کو آغوش میں لے کر رقص کرنا چاہتا تھا، مگر شمیم نے اگلے ہی ثانیے اسے دھکا دے کر سب کچھ ختم کر دیا۔ وہ نذیر پر طاری ہونے والی پیار کی وحشت سے خوفزدہ ہو گئی تھی۔ اس سے الگ ہوتے ہی وہ اپنی بھٹکتی ہوئی سانسوں کو سنبھالنے لگی۔ نذیر نے اس کے قریب آ کر اس سے اپنے رویے پر معذرت کی تو وہ مسکرانے لگی۔

اگلے ہی لمحے اس نے اپنا رخ روشن نقاب میں چھپا لیا۔ نذیر سے مخاطب ہو کر اس نے اسے ’’اللہ وائی‘‘ کہا اور اس کے بعد پلٹ کر سبک خرامی سے چلتی ہوئی، دیو قامت شرینہہ کے درختوں کے سائے میں غائب ہو گئی۔

اس کے جانے کے فوراً بعد نذیر کو احساس ہوا کہ شاید اس نے اپنے رویے سے اسے سہمادیا۔ اپنے احمقانہ رویے کی تلافی کی خاطر اس نے اسے آواز دی مگر اس کی آواز گوٹھ کے مکانوں کے در و دیوار سے ٹکرا کر واپس آ گئی۔ وہ دیر تک وہیں پر مبہوت کھڑا اسی سمت دیکھتا رہا، کچھ دیر پہلے وہ جس طرف گئی تھی۔

گھر سے گوٹھ ہاشم جو گی کی جانب آتے ہوئے خوف کے سبب نذیر کے رگ و ریشے میں جو کپکپی طاری تھی، واپس جاتے ہوئے اس کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ آتے ہوئے اسے جو راستہ طویل اور لا متناہی محسوس ہو رہا تھا، واپسی پراسے پتا ہی نہیں چلا اور وہ سبک روی سے چلتا ہوا گھر تک پہنچ گیا۔

 

صبح کو چاچی خیر النسا اس کی چارپائی کے پاس کھڑی ہو کراسے جگانے کی کوشش کرتی رہی۔ اس نے گنگناتے ہوئے دھیمے لہجے میں دو تین مرتبہ اس کا نام پکارا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس کی گہری نیند پر وہ حیرت سے کھڑی اسے دیکھتی رہی۔ وہ لحاف اوڑھے اوندھے منھ بستر پر سو رہا تھا۔ اس کا جسم مکمل طور پر بے حس تھا اور اس کے اکھڑے ہوئے، بے ترتیب سانسوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ آخر تنگ آ کر چاچی نے اس کے چہرے سے رضائی اُتار دی۔ اس کی آنکھیں زور سے مندی ہوئی تھیں اور اس کے ہونٹ آپس میں ایک دوسرے سے مضبوطی سے جڑے ہوئے تھے۔

وہ اس کے ہونٹوں کی سرخی کو اچھی طرح جانتی تھی کیونکہ اکثر خوابوں میں وہ اس کے سرخ ہونٹوں کو چوم چکی تھی۔ مگر اس وقت وہ اس کے ہونٹوں کی نیلا ہٹ دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ چاچی نے جھجکتے ہوئے آگے بڑھ کراس کی پیشانی کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے چھوا، پھر اس کے گالوں اور ہونٹوں کو مس کیا۔ اسے اس کی پیشانی، گالوں اور ہونٹوں سے خفیف سی گرم لہریں اٹھتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ا س نے فوراً اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور گھبرائی ہوئی کمرے کے دروازے سے اندر جھانکنے لگی۔

اس کا شوہر وہاں گہری نیند میں سو رہا تھا۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد وہ دوبارہ نذیر کی طرف متوجہ ہو گئی۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ بیمار ہو گیا ہے۔ اس نے جھک کر اس کے کندھے کو دھیرے سے ہلا یا مگر اس مرتبہ بھی اس نے کوئی جنبش نہ کی۔

اس نے فکر مندی سے آس پاس نظر دوڑائی اور صحن میں بڑھتی ہوئی روشنی کو دیکھا۔ فجر کی نماز کا وقت نکلا جا رہا تھا۔ اس نے نذیر کو اس کے حال پر چھوڑا اور خود دیوار پر کیل میں لٹکا ہوا مصلّیٰ اتار کر اسے زمین پر بچھانے لگی۔

ابھی اس نے مصلیٰ بچھایا ہی تھا کہ اسے نذیر کے منھ سے نکلتی بے معنی آوازیں سنائی دیں۔ اس کے جسم نے اضطراب سے ایک کروٹ لی اور اس کا لحاف اس کے جسم سے اتر کر نیچے جا گرا۔

نذیر کی طرف دیکھتے ہی چاچی کو فوراً یہ محسوس ہوا کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا ہے۔ ایک سنسنی سی اس کے تن و پے میں گہرائی تک دوڑتی چلی گئی۔ کسی مقناطیسی کشش نے اس کی آنکھوں کو اپنی طرف کھینچ لیا اور وہ اپنی نظر کو وہاں سے نہیں ہٹا سکی۔ اس کی آنکھیں چند لحظوں تک اس کی مرضی کے خلاف پلکیں جھپکے بغیراس منظر کو دیکھتی رہیں۔ اس کا چہرہ ذرا سی دیر میں سرخ ہو گیا اور اس کے کانوں کی لویں گرم ہونے لگیں۔ اس نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے اوڑھی ہوئی چادر کا کونا اپنے دانتوں میں دبا لیا مگر اگلے ہی لمحے وہ توبہ استغفار کرتی ہوئی اپنے آپ کو ملامت کرنے لگی۔

مصلے کو دیوار پر دوبارہ لٹکا کر ایک مرتبہ پھر اس نے کمرے میں جھانکا اور اطمینان کرنے کے بعد وہ دھیرے دھیرے چلتی چارپائی کے قریب گئی۔ وہ نادانستہ طور پر اب کوشش کر رہی تھی کہ اس کی نظر نذیر کے جسم پر نہ پڑے۔ اس نے اپنی نظریں پرے لے جاتے ہوئے زمین سے رضائی اٹھا کر اسے دوبارہ اُڑھا دی۔

اپنی نگاہوں کی کوتاہی پر وہ اپنے آپ کوسرزنش کرنے لگی۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کا وضو ٹوٹ چکا ہے۔ ہینڈ پمپ سے نکلتے ٹھنڈے پانی کے باوجود اسے دوبارہ وضو کرنا پڑا۔

اس دوران صحن اور برآمدے میں روشنی پھیل گئی تھی۔ اس نے پڑوسیوں کی چھت پر گرتی سورج کی شعاعوں کو دیکھا توا یک مرتبہ پھر استغفار کرتی، جلدی سے مصلیٰ بچھا کر نماز قضا کر کے پڑھنے لگی۔

نذیر کے جسم کے منظر کو ذہن سے نکالنا مشکل ہو گیا تھا۔ اس نے جیسے تیسے نماز ختم کر کے یہ فرض ادا کیا۔ اس کے بعد اس نے کمرے میں جا کر اپنے شوہر کو نیند سے جگایا اور خود باورچی خانے کی طرف چلی گئی۔

کچھ دیر کے بعد غفور کھانستا ہوا صبح کی چائے پینے کے لیے باورچی خانے میں آیا تو وہ اسے نذیر کی صحت کے بارے میں بتانے لگی۔ ’’پتا نہیں آج اسے کیا ہو گیا ہے۔ میں نے کئی دفعہ اسے جگایا مگر ایک بار بھی اس کی آنکھ نہیں کھلی۔‘‘

جب وہ دونوں چائے پی چکے تو اٹھ کر برآمدے میں سوئے ہوئے نذیر کے پاس گئے۔ چاچی ذرا پیچھے ہٹ کر فاصلے پر کھڑی ہو گئی جبکہ غفور اپنے بھتیجے کو جگانے میں مصروف ہو گیا۔ جھنجھوڑے جانے پر نیند کے عالم میں اس کا بدن کسمایا اور اس نے عجیب انداز سے ہاتھ اوپر اٹھاتے ہوئے آنکھیں کھول دیں اور حیرت سے ان دونوں کو تکنے لگا۔

’’کیا بات ہے نذیر ؟ تیری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘غفور چاچا نے فکر مندی سے پوچھا۔

’’ہاں، میں ٹھیک ہوں۔‘‘ وہ آنکھیں مسلتا ہوا اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کے اٹھ کر بیٹھنے پر وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے۔

’’جوانی کی نیند بہت دیوانی ہوتی ہے‘‘چاچے نے شرارت آمیز نظر سے اپنی بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

نذیر انگڑائی لے کر اٹھنے کے بعد کچھ دیر ٹانگیں لٹکائے اورسرجھکائے بیٹھا رہا۔ پھر چارپائی سے اٹھتے ہوئے بڑبڑایا: ’’پتا نہیں کیوں، آج میرے جسم میں درد ہو رہا ہے۔‘‘ اس کی آنکھیں گہری سرخ ہو رہی تھیں اوراس کا چہرہ کمزور لگ رہا تھا۔

’’اچھا۔ آج تو گھر پر آرام کر لے۔ دکان میں چلا جاتا ہوں‘‘غفور چاچا نے تشویش سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’ٹھیک ہے‘‘ جواب دیتے ہوئے وہ غسل خانے کی طرف چلا گیا۔

واپس آ کر نذیر دوبارہ چارپائی پر لیٹ گیا۔ اس کے سر میں تیز درد ہو رہا تھا۔ اس کے منھ کا ذائقہ شاید کل رات چرس پینے کی وجہ سے اب تک کڑوا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر موٹی سی پپڑی جمی ہوئی تھی۔ اس کا حلق اس طرح سوکھ رہا تھا جیسے اس نے کئی دن پانی پیے بغیر طویل مسافت طے کی ہو۔ وہ لحاف میں دبکا ہوا اپنی عجیب حالت پر سوچ رہا تھا۔ کل شب کے لذت بھرے واقعے کی وجہ سے اس کے بدن کو سبک اور لطیف ہونا چاہیے تھا، مگراس وقت اس کے بدن کا عضو عضو درد سے اینٹھ رہا تھا۔ اس کے باوجود اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے اسے بار بار شمیم کے ہونٹوں کی نرمی یاد آ رہی تھی۔ وہ حیرانی سے سوچ رہا تھا۔ شب کے تیسرے پہراس مہربان عورت کے چلے جانے کے بعد وہ بہت دیر تک زمین پر گھٹنے ٹیکے ہوئے اسے جاتے ہوئے تکتا رہا تھا۔ اس وقت اس نے اپنے آپ کو وہ زمین خیال کیا تھا جس کی چھاتی پر پاؤں دھرتی ہوئی وہ جس طرف سے آئی تھی اسی طرف واپس لوٹ گئی۔ ۔ رات میں فضا سے گرنے والی اوس نے نہ صرف اس کے کپڑوں کو گیلا کیا تھا بلکہ زمین پر اگی ہوئی گھاس کا سبز رنگ بھی ان پر لگ گیا تھا۔ اس وقت وہ خوف کی جگہ سخت اذیت میں مبتلا تھا۔ اس کے پیٹ میں عجیب سے مروڑ اٹھ رہے تھے اور اس کی ٹانگوں سے جیسی ساری جان نکل گئی ہو۔ مسکراتے ہوئے اس نے دل ہی دل میں اپنے آپ سے کہا، ’’ایسی حسین اور دلربا رات کی خاطرایسی لاکھ اذیتیں بھی برداشت کرنی پڑیں تو کر لینی چاہییں۔ اس سخی عورت کی وجہ سے آخر میری انگلیوں نے پہلی بار خالص نسوانی لمس کا ذائقہ چکھا ہے اور میرے ترسے ہوئے ہونٹ بوسوں کی لذت سے ہم کنار ہوئے ہیں۔‘‘ اس نے ایک لذیذ سی آہ بھرتے ہوئے بستر پر کروٹ لی۔

کچھ دیر بعد چاچی خیر النسا اس کے لیے چائے کا پیالہ ہاتھ میں لیے ہوئے چارپائی کے پاس آئی اور اسے مخاطب کر کے چائے پینے کے لیے کہا۔ نذیر نے اٹھ کر اس کے ہاتھوں سے چائے کا پیالہ لیتے ہوئے اپنی انگلیاں اس کے پورے ہاتھ کے ساتھ مس کیں۔ نذیر نے جرأت سے اپنا سر اٹھا کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا تو اس نے اپنی نظریں جھکا لیں اور اپنا ڈوپٹہ ٹھیک کرتی ہوئی فوراً چلی گئی۔ وہ گم سم ہو کراس کے ہاتھوں سے بنی میٹھی چائے کی چسکیاں لینے لگا۔

کچھ وقت گزرنے کے بعد چاچا غفور اسے ڈاکٹر کے پاس جا کر دوا لینے اور آرام کرنے کی تنبیہ کر کے گھر سے باہر چلا گیا۔

چاچی خیر النسا اسٹیل کی تھالی میں اس کے لیے دو اُبلے ہوئے انڈے لے آئی۔ اس کی چارپائی پر اس کے قریب بیٹھ کروہ انڈوں پر سے چھلکے اُتارنے لگی۔ اسے کام میں محو دیکھ کر وہ اپنی آنکھوں سے چاچی کا جسم ٹٹولنے لگا۔ وہ بھی اپنے لباس کی شکنوں سے بے نیاز تھی۔ معاً وہ انڈے چھیلتے ہوئے کہنے لگی، ’’مجھے لگتا ہے کہ تجھے بخار ہو گیا ہے۔ اور دیکھ!سردی کا بخار اچھا نہیں ہوتا۔ میں دن میں تین بار انڈے ابال کر تجھے کھلاؤں گی۔ تیرا چاچا دکان سے کسی کے ہاتھ مرغی کا گوشت بھی بھجوا دے گا۔ یخنی کا شوربہ پی کر تیری صحت بہتر ہو جائے گی۔ سوتے میں تجھے اپنی رضائی کا بھی ہوش نہیں رہتا۔ رضائی اترنے سے تجھے سردی لگ گئی ہے۔‘‘

وہ انڈے کا ٹکڑا اپنے منھ میں رکھتے ہوئے بولا، ’’معاف کرنا چاچی، میری وجہ سے تجھے تکلیف کرنی پڑی۔ تیری پریشانی ختم ہونے کے بجائے بڑھ گئی۔ چاچا بھلا چنگا ہوا تو اب میں بیمار پڑ گیا۔‘‘

اپنی صبح سے اب تک کی مصروفیت کا حال سنا نے کے بعد چاچی نے اس سے کہا، ’’تُو آرام سے بیٹھ کر یہ کھا، میں تیرے لیے صحن میں چارپائی بچھا دیتی ہوں۔ تجھے دھوپ اچھی لگے گی۔ کام سے فارغ ہو کر میں تیرے سر کی مالش بھی کر دوں گی۔‘‘

’’ہاں چاچی، واقعی میرے سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔‘‘ وہ دل جمعی سے انڈے کھانے لگا۔ انڈے کا آخری ٹکڑا منھ میں رکھ کر وہ اٹھا اور تیز دھوپ میں جا کھڑا ہوا۔ اس نے اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ آسمان کی طرف دیکھا تو دیکھ نہیں سکا۔ اس کی آنکھیں چندھیا گئیں اور وہ لمبے سانس بھرنے لگا۔

اس نے چاچی خیر النسا کو جھک کر چارپائی اٹھاتے ہوئے دیکھا تو دنگ رہ گیا۔ وہ اس کی قمیض سے باہر آتی چھاتیوں کو تکتا ہی رہ گیا۔ یہ منظر دیکھتے ہوئے اچانک اس کا سر چکرایا۔ وہ صحن میں گرتے گرتے بچا۔

چارپائی کے صحن میں بچھتے ہی وہ تکیے پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔ کچھ ہی دیر میں اس کی آنکھیں بند ہو گئیں اور وہ گہری نیندسو گیا۔

 

دو روز تک اس کا بخار نہیں اترا اور وہ گھر سے باہر نہیں جا سکا۔

شمیم سے ملاقات کی یاد دھیرے دھیرے اس کے ذہن سے محو ہوتی جا رہی تھی۔ جب بھی اس ملاقات کا عکس اس کی نگاہوں میں جھلملاتا تو خودبخود چپکے چپکے مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل جاتی اور وہ جلد از جلد صحت یاب ہونے کی خواہش کرنے لگتا۔

اسے غسل کیے ہوئے بھی تین روز گزر گئے تھے۔ اس کی گردن پر میل کی تہہ جم گئی تھی اور اسے اپنے بدن میں سوئیاں سی چبھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔

بخار کے پہلے روز تو وہ چاچی خیر النسا کی خدمت سے بہت لطف اندوز ہوا۔ اسے کھاٹ پر اُبلے ہوئے انڈے، گرم یخنی اور چائے وغیرہ ملتی رہی۔ شام کو اس نے اس کے لیے خس خس کا حلوہ بھی تیار کیا۔ دوسرے دن چاچی سرسوں کے تیل سے اس کے سر کی مالش کرنے لگی تو وہ تلملا اُٹھا۔ اس کے بھاری ہاتھوں کی رگڑ اتنی تیز تھی کہ اس نے اس کی منّتیں کر کے اپنی جان چھڑائی۔ اسے حیرت ہوئی کہ جن ہاتھوں کو کئی مرتبہ اس نے چومنے کی خواہش کی تھی وہ در حقیقت کتنے سخت اور کٹھور نکلے۔

چارپائی پر لیٹے لیٹے وہ عاجز آ گیا تھا۔ کئی بار وہ اٹھ کر صحن میں چہل قدمی کرنے لگا اور دروازے کے پاس جا کر گلی میں بھی جھانکنے لگا۔

گھر میں رہتے ہوئے اس نے کسی معاملے پر بھی احتجاج نہیں کیا۔ وہ اپنی پیاری چاچی کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ جب وہ اس کے سر کی مالش کر رہی تھی تو اس دوران اس کا سر بارہا نرم اور گداز چھاتیوں سے ٹکرایا تھا۔ نذیر کو سر کی مالش کروانا پسند نہیں تھا مگر وہ زبردستی اس کے سر کی مالش کرتی رہی تھی۔

ایک مرتبہ تو نذیر کی صحت یابی کے لیے اس نے گیارہ دفعہ سورۂ یٰسین پڑھ ڈالی اور جب اس پر پھونک مارنے کے لیے وہ اس کے قریب ہوئی تو نذیر نے شرارت کرتے ہوئے اچانک اپنا سراٹھا کر اس کے ہونٹوں کابوسہ لے لیا تھا۔ وہ ایک بوسہ اس کے لیے بہت اہمیت رکھتا تھا مگر وہ زیادہ عرصے تک اس بوسے کو یاد نہیں رکھ سکا۔

 

آج کاسورج بھی غروب ہو چکا تھا اورآسمان پر پھیلی شفق معدوم ہوتی جا رہی تھی۔

اسے اپنے معمولات کی یکسانیت پر وحشت سی ہونے لگی تھی۔ آج پورے تین دن ہو گئے تھے اور اس نے گھر سے باہر قدم نہیں نکالا تھا۔ اسے معلوم تھا، اس کے لیے نئی ملاقات کا سندیسہ لے کر نورل جو گی قصبے کی گلیوں اور چائے خانوں میں اسے ڈھونڈتا پھر رہا ہو گا۔

اس کے دل میں چاچی کے لیے کینہ توز مخاصمت بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ اچھی طرح جان گیا تھا کہ وہ اس کے سامنے کبھی بھی کھل کر اپنے جذبات کو ظاہر نہیں کرے گی۔ اس کے رویے میں ہمیشہ ایک پراسراریت رہے گی۔ وہ کبھی اس بات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے گا کہ وہ آخر اس سے کس بات کی متقاضی تھی؟وہ پورے ایک دن تک اس سے اس کے معمولی بوسے پر خفا رہی جبکہ مالش کے دوران وہ خود اپناسینہ اس کی پیٹھ سے ٹکراتی رہی تھی۔

نذیر نے سوچا کہ شمیم تک رسائی کے بعد اسے بے ضرر چیزوں میں نہیں الجھنا چاہیے۔ چاچی خیر النسا کے معاملے میں اس کا جلد یا بدیر احساسِ گناہ سے دوچار ہونا طے ہو چکا تھا اور اس گناہ کے نتیجے میں خاندان بھر میں اس کا ذلیل و رسوا ہونا بھی طے ہو چکا تھا۔

 

شام ڈھلتے ہی گھر کے دروازے پر تیز دستک ہوئی۔ نذیر نے جا کر کنڈی کھولی تو باہر حیدری کھڑا اسے دیکھ کر مسکرانے لگا۔ اس نے ہاتھ ملاتے ہوئے اسے جلدی سے بتایا کہ نورل جو گی پہلوان کے چائے خانے پر بیٹھا اس کا انتظار کر رہا ہے۔ نذیر کے دل میں نجانے کیا سمائی کہ وہ چاچی خیر النسا کو بتائے بغیر اس کے ساتھ چل دیا۔

راستے میں حیدری اس سے چھیڑ چھاڑ کرتا رہا۔ اس نے شکایت کی کہ وہ پچھلے کچھ دنوں سے اسے نظر انداز کر رہا ہے۔ وہ در اصل اب اس کے راز جاننا چاہتا تھا، مگر نذیر ہوشیار تھا، اس نے اسے عام سی باتیں بتا کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی۔ اس نے دوست کا دل رکھنے کی خاطر روکھے پھیکے انداز سے رات کی اپنی مہم کو بیان کیا۔ پھر اسے اپنی بیماری کے متعلق بتانے لگا۔

پہلوان دستی کے چائے خانے تک پہنچنے تک حیدری کی ساری چونچالی ختم ہو گئی اور وہ دل ہی دل میں اپنے دوست سے حسد کرنے لگا کیونکہ اس کی کسی عورت سے دوستی نہیں تھی۔

نذیر گھر میں اپنی تین دن کی اسیری سے نکل کر چائے خانے کے ماحول میں قید نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے رفیقوں سے درخواست کی کہ وہ قصبے سے باہر نکلنے والی سڑک پر چہل قدمی کے لیے اس کے ساتھ آئیں۔

وہ تینوں اپنی بے تکی باتیں کرتے ہوئے وہاں ٹہلنے لگے۔ سڑک پر واقع دکانیں کچھ دور تک جا کر ختم ہو گئیں۔ وہ تعلقہ ہسپتال کے قریب سے گزرے، پھر آگے چل کر ٹاؤن کمیٹی اور سیشن کورٹ کی عمارتیں آئیں۔ واٹرسپلائی کی اونچی ٹنکی تاریکی میں کسی دیو کی طرح کھڑی نظر آ رہی تھی۔ سڑک پر بجلی کے کھمبوں میں بلب نہیں تھے۔

نورل جو گی اپنی اندھی عقیدت کے جوش میں چند روز پیشتر گرد و نواح میں رو نما ہونے والے ایک معجزے کا ذکر کرنے لگا۔ اس کے خیال میں یہ معجزہ قیامت کے نزدیک آنے کی علامت تھا۔ وہ جوشِ عقیدت سے کہہ رہا تھا، ’’ہم ظالم لوگ ہیں، ظالم لوگ!سادات خاندان کے معصومین پر ہونے والے جبر کو چپ چاپ سہہ گئے۔ ہم باطل کی آواز میں آواز ملاتے رہے۔ پہلے سیہون شریف میں سیاہ علم پر حضرت امام حسین کاسردکھائی دیا ہے۔ ان کے چہرے پر نور ہی نور تھا اور ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ ان کی مسکراہٹ حقیقت میں حق کی فتح ہے۔ سیہون شریف کے بعد اب سیٹھارجہ اور پیروسن میں بھی امام عالی مقام کی شبیہ نظر آئی ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ہاں۔ معجزہ ہے، معجزہ!‘‘

نذیر اور حیدری اس کی باتوں پر اور اس کے جذباتی انداز پر ہنستے رہے۔

حیدری نے مذاقاً اس کے چٹکی لی۔ ’’بھنگ اورچرس پی کر تو چاروں طرف شبیہیں ہی شبیہیں نظر آتی ہیں۔‘‘

نورل جانتا تھا کہ اس کا والد وہابی ہے مگر وہ اس بات پر حیران بھی تھا کہ اس کے وہابی باپ نے آخر کیا سوچ کر اس کا نام حیدری رکھ دیا تھا۔ اس کی یہ بات سن کر حیدری پھٹ پڑا۔ نذیر بہ مشکل ان دونوں میں صلح کروا کر انھیں چپ کرواس کا۔

وہ تینوں ہائی اسکول کے میدان میں جا بیٹھے۔ کھیل کا یہ میدان ناہموار تھا اور وہاں اس پر جا بجا خود رو جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں۔ نذیر کی فرمائش پرنورل چرس کا سگریٹ بنانے لگا۔ اس دوران حیدری چرس اور شراب کا موازنہ کرنے لگا۔ اس کے خیال کے مطابق شراب چرس سے بہت بہتر تھی۔ اس کی باتیں سنتے ہوئے پکوڑا فروش کے لیے خاموش رہنا محال ہو گیا۔ وہ اس کے خیال کو باطل قرار دیتے ہوئے چرس کی خوبیاں بیان کرنے لگا۔ کچھ دیر تک وہ دونوں آپس میں الجھتے رہے۔ نذیر خاموشی کے گرد و پیش کے ماحول کو دیکھتا رہا۔

چاند مشرقی سمت سے آسمان پر طلوع ہو چکا تھا۔ شام کی مدھم مدھم ہوا چل رہی تھی۔ سڑک تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ بہت دور واقع پٹرول پمپ کی روشنیاں نظر آ رہی تھیں۔

نورل نے چرس کا سگریٹ بنانے کے بعد اسے دیا سلائی دکھا کر سر کیا اور اس کا طویل کش لیا۔ اس کے بعد وہ کھنکھار کر گلہ صاف کرنے کے بعد سنجیدگی سے کہنے لگا، ’’کل شمیم میری بیوی سے ملنے آئی تھی۔ وہ بتا رہی تھی، کل وہ سچل سرمست کے مزار پر حاضری کے لیے درازہ شریف جائے گی۔ اس کے ساتھ اس کے شوہر کے علاوہ میری بیوی بھی ہو گی۔ وہ سب وہاں رات گزار کر صبح واپس آ جائیں گے۔‘‘

’’کیا اس نے میرے لیے کوئی پیغام بھیجا ہے ؟ کیا وہ چاہتی ہے کہ میں بھی وہاں آؤں ؟‘‘

’’ہاں، اس نے پیغام بھیجا ہے کہ تم ضرور آؤ‘‘نورل نے اسے سگریٹ تھماتے ہوئے کہا۔

نذیر نے سوال پوچھا، ’’کیا تم نہیں چلو گے ؟‘‘

’’ میں نہیں جاؤں گابھوتار۔‘‘

’’اگر میں تم سے چلنے کی درخواست کروں تو؟‘‘

پکوڑا فروش جواب دینے کے بجائے مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ میں اس کی رضامندی پنہاں تھی۔

نذیر کے لیے پوری رات گھر سے باہر گزارنا مشکل تھا۔ اگر وہ چاچی سے اجازت مانگتا تو وہ اسے چاچے سے بھی اجازت دلا دیتی مگر وہ چاچی سے مدد مانگنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اس کی گھر سے باہر شب گزاری کے حوالے سے خوامخواہ شک میں مبتلا ہو سکتی تھی۔

حیدری کے تعاون سے اس کی یہ دشواری حل ہو گئی۔ اس نے دکان پر جا کر چاچے غفور سے درخواست کی کہ کل رات ہنگورجہ میں اس کے رشتے دار کی شادی ہونے والی ہے اور وہ نذیر کو وہاں اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے۔ حیدری سے یہ سن کر چاچے غفور کو حیرت ہوئی کہ اس کے گھر والوں نے شادی کے موقع پر اس سے کپڑے کیوں نہیں سلوائے ؟حیدری نے اسے اطمینان دلایا کہ وہ ان کے دور پار کے رشتے دار ہیں اور دور پار کے رشتے داروں کی شادی کے لیے ایسے لوازمات کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کی مضبوط دلیل سن کر چاچا غفور نے نذیر کو جانے کی اجازت دے دی۔

سچل سرمست کے مزار پر شب گزارنا دونوں دوستوں کی پرانی خواہش تھی۔ حیدری نے بھی اپنے والد سے جھوٹ بول کر درازہ شریف جانے کی اجازت حاصل کر لی۔

پکوڑا فروش نے انھیں پہلے سے ہی بتا دیا تھا کہ وہ لوگ ڈھائی بجے والی بس سے پہلے ہنگورجہ جائیں گے، پھر وہاں سے بس تبدیل کر کے وہ درازہ شریف کے لیے دوسری بس میں سوار ہوں گے۔

وہ دونوں قصبے کے مختصر سے بس اسٹاپ پر دوپہر ڈھائی بجے سے پہلے ہی پہنچ گئے اور کھڑکھڑاتی ہوئی گول باڈی بس کے قریب کھڑے ہو کران کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔ دوپہر کو قصبے سے باہر جانے والے لوگوں کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ پھر بھی انھوں نے بس کی سیٹوں پر ایک رو مال رکھ کر اپنے لیے نشستیں محفوظ کر لیں۔ وقت گزارنے کے لیے وہ دونوں مونگ پھلیاں کھاتے رہے۔

کچھ دیر بعد انھوں نے دو عورتوں اور دو مردوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی ٹولی کو اس طرف آتے ہوئے دیکھا۔ مرد آگے چل رہے تھے جبکہ دونوں عورتیں ان کے پیچھے آ رہی تھیں۔ انھوں نے دیکھا کہ پکوڑا فروش تو اپنے پرانے اور بوسیدہ لباس میں تھا جبکہ شمیم کا ٹیلی فون آپریٹر شوہر عجیب رنگ میں نظر آ رہا تھا۔ اس نے کلف سے اکڑا ہوا سفیدلباس اور اس پر سرخ رنگ کی واسکٹ زیب تن کی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ گردن میں اجرک، سر پر شیشے کے کام والی سندھی ٹوپی اور آنکھوں پرسیاہ چشمہ بھی لگا رکھا تھا۔ وہ میلہ گھومنے نکلا تھا۔

نذیر نے برقعے میں شمیم کو پہچان لیا۔ آج نذیر کو اس کی آنکھیں کچھ زیادہ ہی چمکدار اور تابناک لگ رہی تھیں۔ نورل کی ادھیڑ عمر بیوی بھی آج برقعے میں لپٹی ہوئی تھی۔ شمیم نے بس پر سوار ہوتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر اپنے ابرو سے ایک اشارہ کیا۔ نذیر اس اشارے کا مطلب نہیں سمجھ سکا۔

تھوڑی دیر بعد جب انھوں نے ڈرائیور کو اپنی نشست پر بیٹھتے ہوئے دیکھا تو وہ دونوں بھی اندر جا بیٹھے۔ بس جو کھڑی ہوئی بہت دیر سے کانپ رہی تھی، بالآخر اسٹان سے چل پڑی۔

پردہ دار عورتیں ڈرائیور کے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھی تھیں جبکہ نورل اور ٹیلی فون آپریٹر داہنی طرف کی سیٹوں پر بیٹھے تھے۔ نذیر سوچ رہا تھا کہ ہنگورجہ تک شمیم کا اسے اپنی گردن موڑ کر کر دیکھنا مشکل تھا۔ وہ حیدری سے اسی لیے بلند آہنگ لہجے میں باتیں کرتا رہا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی آواز شمیم تک پہنچتی رہے۔ وہ بار بار پہلو بدلتے اس کے جسم کی بے چینی کو محسوس کر رہا تھا۔ دفعتاً اس کی نگاہ ڈرائیور کے سامنے لگے آئینوں پر جا کر ٹھہر گئی اور اس کی مسرت کی کوئی حد نہ رہی۔ سامنے لگے ہوئے ہر آئینے میں اسے اس کی جھلک نظر آ رہی تھی۔ نذیر کی آنکھیں ان آئینوں کے درمیان بھٹکنے لگیں۔

اس نے برقع پوش شمیم کو بھی ان آئینوں میں جھانکتے ہوئے دیکھ لیا۔ ان دونوں کی نظریں آئینوں میں باہم ملنے لگیں۔ اس نے اپنے شوہر کی موجودگی کی پروا کیے بغیر اپنا نقاب ذرا سا الٹ دیا اور زیرِ لب مسکراتی اپنے نوخیز عاشق کومستی بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔

نذیر بہت چوکنا بیٹھا تھا اس لیے اس نے کچھ ہی دیر میں بھانپ لیا کہ اس کا ٹیلی فون آپریٹر شوہر سفید چادر میں لپٹی ہوئی ایک لڑکی کی طرف متوجہ تھا۔

شمیم کی نشیلی آنکھوں میں گم خود اسے باہر سے گزرتے ہوئے مقامات کا کوئی پتہ نہ تھا۔ گول باڈی بس گرد اڑاتی سڑک پر چلتی رہی۔ اس کے اطراف میں کہیں گندم کا کھیت نظر آتا تو کہیں کماد کی فصل، کہیں لیموں تو کہیں کھجور کا باغ، اور کہیں کہیں سیم و تھور سے متاثرہ زمینیں بھی گزرتی جا رہی تھیں۔

سواگھنٹے بعد وہ ہنگورجہ پہنچ گئے۔ یہ قصبہ سپرہائی وے کے ساتھ ہی واقع تھا۔ سپر ہائی وے پر واقع اسٹاپ پر بس کے رکتے ہی سارے مسافر ذرا سی دیر میں نیچے اُتر گئے۔ وہاں سے کوئی سواری سیدھی درازہ شریف نہیں جاتی تھی، اس لیے وہ لوگ مجبوراً سکھر جانے والی بس پرسوار ہو گئے جس نے انھیں رانی پور میں بابِ سچل سرمست کے قریب اتار دیا۔

وہاں سے ایک سوزوکی پر بیٹھ کر وہ درازہ پہنچے۔ شام ڈھلنے میں تھوڑی سی دیر باقی تھی، جب وہ سچل سرمست کے مزار کے احاطے میں داخل ہوئے۔

مزار پر واقع مسجد میں لوگ مغرب کی نماز ادا کر رہے تھے۔ ہوا سے ہلتا پھریرے کھاتا ہوا مزار کا سیاہ علم بہت بلندی پر قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔ کشادہ اور وسیع لنگر گاہ میں ان قمقموں کی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ وضو خانے کے نلوں سے پانی بہنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ لوگ مزار کے وسیع و عریض احاطے میں واقع قبروں پر فاتحہ پڑھتے اور لنگر گاہ کے فرش پر بیٹھ جاتے۔

اشرف اور نذیر مزار سے باہر ٹھیلے والوں کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے اور چلغوزے خرید کر کھانے لگے۔ مزار پر پہنچتے ہی شمیم نے برقع اُتار دیا اور سر پر صرف چادر اوڑھ کر مسکرا تے ہوئے ان کی طرف دیکھا۔ وہ دونوں اندر مزار کے احاطے کی طرف نہیں گئے۔ انھوں نے ٹیلی فون آپریٹر کے شک کو بھانپ لیا تھا۔ کسی بدمزگی سے بچنے کی خاطر انھوں نے فاصلے پر رہنے کا ارادہ کر لیا تھا۔

وہ دونوں چلغوزے کھا کتے ہوئے باہر ہی ٹہلتے رہے۔ تھوڑی دیر بعد نورل جو گی ان کے پاس آیا تو انھوں نے اس کے ہاتھ میں بھی کچھ چلغوزے تھما دیے اور مزار کے قریب سے گزرنے والی سڑک پر واقع ہوٹل کی طرف چل پڑے۔

کوٹھڑی نما ہوٹل لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ وہاں اندر وی سی آر پر کوئی پنجابی فلم چل رہی تھی۔ وہ دونوں باہر چولھے کے پاس بنچ پر بیٹھ گئے جبکہ حیدری پنجابی فلم دیکھنے ہوٹل کے اندر چلا گیا۔

نورل نذیر کے پاس بیٹھ کر ٹیلی فون آپریٹر کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالتا رہا۔ نذیر کو ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لیے ہوٹل کے بیرے کے چائے کی پیالی لاتے ہی اس نے موضوع بدل دیا۔

پکوڑا فروش نے اسے بتانے لگا کہ کھانے کے لنگر کے بعد محفلِ موسیقی شروع ہو گی جو صبح فجر سے پہلے تک جاری رہے گی۔ بے سرے شوقین فنکار صبح تک عارفانہ کلام گائیں گے۔ ہو سکتا ہے ان کی گائیکی سے بیزار ہو کر ٹیلی فون آپریٹر رَلّی بچھا کر وہیں سوجائے، مگراس خبیث کا کچھ پتا نہیں، اگر اسے کوئی عورت بھا گئی تو حرامی رات بھر آنکھ نہیں جھپکے گا۔ خیر، چاہے کچھ بھی ہو جائے، اس کی بیوی شمیم کو لے کر قبرستان پہنچ جائے گی جہاں ان دونوں کو ملاقات میسر آ سکے گی۔

نذیر مطمئن ہو گیا کہ اس کا یہاں آنا اکارت نہیں جائے گا۔ اس نے سچل سرمست سائیں کی عظمت کا ذکر چھیڑ دیا اور نورل عقیدت سے اس کی باتیں سنتے ہوئے اپنا سر دھننے لگا۔ بہت دیر تک وہ بیٹھے باتیں کرتے رہے۔

جب اندر پنجابی فلم ختم ہو گئی توسب لوگ انگڑائیاں لیتے ہوئے باہر نکلے۔ حیدری ٹھنڈی آہیں بھرتا ہوا آیا اور اِن کے پاس بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد وہ تینوں وہاں سے اٹھے اور ٹہلتے ہوئے دوبارہ مزار تک آئے اور لنگر گاہ میں گھومنے لگے۔

ٹیلی فون آپریٹر نے ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہوئے نورل کو بلایا۔ اس نے رات میں بھی کالا چشمہ آنکھوں پر پہن رکھا تھا۔

نورل کے جانے کے بعد ان دونوں نے وضو خانے میں جا کر ہاتھ منھ دھویا اور اس کے بعد دونوں نے سچل کے مزار کے اندر جا کر فاتحہ خوانی کی۔ فاتحہ خوانی کر کے نکلے تو صحن میں شمیم برگد کے ایک گھنے پیڑ کے نیچے اپنے شوہر کے قریب بیٹھی ہوئی نورل کی بیوی سے باتیں کر رہی تھی۔ اسے دیکھنے کے لیے نذیر حیدری کے ساتھ کچھ دیر وہاں گھومتا رہا۔ وہ اسے اپنے گرد و پیش منڈلاتے دیکھ کر لطف اندوز ہو رہی تھی۔ جب وہ ٹہلتا ہوا اس کے نزدیک سے گزرتا تو وہ مسکراہٹ سے اسے دیکھتی، اپنی آنکھوں کے کونوں سے اشارے کرتی اور اپنے شوہر سے نظر بچا کر ہاتھ بھی ہلاتی۔

لنگر شروع ہوتے ہی لنگر خانے میں دیگوں کے گرد لوگوں کا ہجوم جمع ہو گیا۔ مزار کے خلیفے اور مجاور زائرین کو کو صبر کی تاکید کرتے رہے۔ جسے مٹی کی تھالی میں اپنے حصے کا لنگر ملتا وہ وہاں سے دور جا بیٹھتا۔ حیدری نے ہمت کرتے ہوئے ہجوم میں راستہ بنا کر لنگر حاصل کر لیا۔ مٹّی کی تھالی میں گرما گرم چاولوں نے انھیں بہت مزہ دیا۔ چاول ختم ہونے کے بعد وہ دونوں اپنی انگلیاں چاٹنے لگے۔

سماع گاہ میں فرش کی صفائی کے بعد کھلے صحن میں چٹائیاں بچھا دی گئیں۔ مقامی فنکار طبلے اور ہارمونیم سنبھالے اپنی مخصوص نشستوں پر آ کر بیٹھ گئے۔ لنگر ختم ہونے کے بعد محفلِ سماع سے لطف اندوز ہونے والے بہت کم لوگ باقی رہ گئے تھے۔

کچھ ہی دیر میں پورے احاطے میں طبلے کی تھاپ اور ہارمونیم کے سُرپھیل گئے اور سب کے سب سروں کی کشش میں کھنچے سماع گاہ میں آ آ کر ڈیرہ ڈالنے لگے۔

نذیر شمیم سے بے خوف و خطر ہو کر ملاقات کرنا چاہتا تھا۔ وہ یہاں کے اجنبی لوگوں سے ہرگز خوفزدہ نہیں تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ یہاں کا سارا اہتمام صرف اس کی ملاقات کے لیے کیا گیا ہے۔

رات ہولے ہولے دبے پاؤں گزر رہی تھی۔ کئی لوگ قوالی سنتے سنتے اپنی چٹائیوں پر ہی گہری نیندسوگئے اور بہت سے دھیرے دھیرے اٹھ اٹھ کر رخصت ہو گئے۔

ٹیلی فون آپریٹر بھی تھکاوٹ اور اکتاہٹ کی وجہ سے جماہی پر جماہی لے رہا تھا۔ شمیم نے اس کے لیے رلّی بچھائی۔ اس نے اپنی ٹوپی، چشمہ اور بٹوا اس کے حوالے کیا اور خود اجرک اوڑھ کر سو گیا۔

محفل سماع چل رہی تھی۔ بوڑھے قوال اپنا اپنا ہنر دکھا کر چلے گئے تو ہارمونیم اور طبلے پر نوخیز قوالوں کی اجارہ داری قائم ہو گئی۔ وہ اپنی محرومیوں اور نا آسودہ خواہشوں کا غبار چیخ چلّا کر نکالنے لگے۔

نذیر نے اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی۔ سماع گاہ کے فرش پر لوگ ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے۔ مسجد کے مینار اور محرابیں تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ مسجد سے متصل مزار کی اونچی اور سیاہ دیوار تھی۔ بہت دیر تک بیٹھے رہنے کی وجہ سے نذیر کو بھی اونگھ سی آنے لگی تھی۔ نورل نے آ کراسے جھنجھوڑا اور اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے اسے باہر چلنے کو کہا۔

نذیر اٹھ کر اس کے ساتھ باہر نکل آیا۔ سب ٹھیلے والے وہاں سے جا چکے تھے۔ نذیر لمبے سانس بھرتا سامنے واقع خالی ڈھنڈار میدان کی طرف دیکھنے لگا۔ وہاں یکہ و تنہا کھڑا ہوا کھجور کا درخت آسمان کے نیچے اپنے پنکھ پھیلائے کھڑا تھا۔ اس کے تنے کی کھردراہٹ اور میلی رنگت رات کی تاریکی کے سبب اوجھل ہو گئی تھی۔ اس کی ٹیڑھی میڑھی شباہت میں اسے عجیب حسن دکھائی دے رہا تھا۔ شاعرِ ہفت زبان کے مزار کے سامنے اسے رات کے اس پہر کھجور کا یہ درخت پرکشش محسوس ہو رہا تھا۔ نورل اسے اکیلا چھوڑ کر واپس چلا گیا تھا۔

کچھ دیر بعد اس نے شمیم کو نورل کے ساتھ آتے دیکھا تو اسے کھجور کے درخت کے لیے اپنے دل میں پیدا ہونے والی پسندیدگی کی حقیقت معلوم ہو گئی۔ شمیم اس وقت بھی سرتاپا برقعے میں لپٹی ہوئی تھی۔ نذیر نے اپنے جگری یار حیدری کو قبرستان کے باہر پہرے داری پر مامور کیا اور خود شمیم سے ذرا تسلی سے بیٹھ کر دو باتیں کرنے چلا گیا۔

اس مختصر سے قبرستان میں جا بجا کیکر اور بوڑھ کے ٹنڈ منڈ درخت کھڑے تھے جن کے بیچ بہت سی چمگادڑیں اڑتی پھرتی تھیں۔ وقفے وقفے سے ان کی نوکیلی آواز گونجتی اور پورے قبرستان میں پھیل جاتی۔

وہ اس سے آگے احتیاط سے چل رہا تھا تاکہ کوئی ایسی جگہ ڈھونڈ سکے، جہاں ان کا کچھ دیر بیٹھنا ممکن ہو سکتا۔ ’’اس پراسرار ماحول سے شمیم کہیں خوفزدہ نہ ہو جائے‘‘ اس نے سوچا۔

پیڑوں کے بیچ چلتے ہوئے وہاں واقع ایک چھوٹے سے خستہ اور بوسیدہ مزار کی داہنی دیوار کے ساتھ انھیں کچھ جگہ مل گئی۔ اس نے اپنے جوتوں کی مدد سے وہ جگہ صاف کی اور آس پاس کی زمین پر اینٹوں کے ایسے ٹکڑے تلاش کرنے لگا جن پر تھوڑی دیر بیٹھنا ممکن ہو سکتا۔

ایک سبک رو چمگادڑ شمیم کے کانوں کے قریب سے گزر گئی۔ چمگادڑ کو اپنے بہت قریب دیکھ کر اور اس کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سن کر شمیم دہشت زدہ ہو گئی اور اس کے منھ سے ایک زوردار چیخ نکلی۔ اس کی چیخ سن کر قبرستان کے باہر موجود پکوڑا فروش دوڑتا ہوا آیا۔ اس نے شمیم کی ہمت بندھانے کے چند جملے کہے اور اس کے بعد واپس چلا گیا۔

نذیر اینٹوں کے ٹکڑوں کی تلاش میں کچھ دور نکل گیا تھا۔ وہ اینٹوں کے دو بڑے ٹکڑے اٹھائے واپس آیا تو شمیم تاریکی میں اسے دیکھ کر بھی سہم گئی۔ نذیر نے دیوار کے پاس اینٹوں کے ٹکڑے لگا کر بیٹھنے کے لیے جگہ بنائی۔ شمیم اس کے ساتھ ہی ایک ٹکڑے پر بیٹھ گئی۔ وہ ابھی تک سہمی ہوئی تھی۔ چمگادڑ کے علاوہ وہ شاید قبرستان کے وحشت ناک ماحول سے بھی سراسیمہ لگ رہی تھی، اس لیے کچھ دیر گزرنے کے باوجود اس نے نذیر سے کوئی بات نہیں کی۔

نذیر نے دھیرے دھیرے اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کے شانے پر رکھ دیا اور اسے ہولے ہولے سے دبانے لگا۔ مردانہ ہاتھ کے بے صبر مگر اپنائیت بھرے لمس نے اسے خوف کی دلدل سے نکالا تو وہ اپنی بزدلی پر ندامت محسوس کرتی مسکرانے لگی۔

نذیر کا ہاتھ اس کے نرم کندھے سے ہوتا ہوا اس کے گداز بازو کے نرم گودے میں اتر گیا۔ شمیم کا ذہن بٹانے کے لیے اس نے پچھلی ملاقات کا ذکر چھیڑتے ہوئے اس کی جرأت و بہادری کو سراہا۔ اس کی حوصلہ افزائی کی۔ نذیر سے اپنی تعریف سننا اسے اچھا لگ رہا تھا۔

وہ اسے آہستگی سے اپنی طرف کھینچتے ہوئے ہنس کر بولا، ’’تم مجھ سے زیادہ اچھی طرح جانتی ہو کہ اگر تمھارے شوہر کے خاندان میں کسی کو ہمارے اس تعلق کے بارے میں ذرا سی بھنک بھی پڑ گئی تو ہم دونوں کو کاروکاری کر کے مار دیا جائے گا۔ ہم آگ کے دریا کے او پر بندھی ہوئی باریک سی ڈوری پر چل رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر تم مجھ پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتی رہیں تو ہم آگ کے دریا کے پار ضرور اتریں گے۔‘‘ اس نے شمیم کی تابناک آنکھوں میں جھانکا۔ وہ اس کی بے باک نگاہوں کی تاب نہیں لا سکی اوراس نے اپنا سر جھکا لیا۔ وہ بھی اپنے دل کے منجمد دریا کو پگھلا نے والے اور اسے ایک پُر شور ندی میں تبدیل کرنے والے، اپنے اس محسن کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی مگر نذیر کے ہاتھوں کی جنبش اسے بے خودی کی خواب آگیں وادیوں کی طرف لیے جا رہی تھی۔ لذت کا ست رنگا پرندہ اس کی پور پور میں دھیرے دھیرے اپنے پر پھیلانے لگا تھا۔

نذیر نے اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا، ’’ہمارا آج کا یہ ملاپ ہمارے پیار کی یادگار ہے۔ میں اسے زندگی بھر بھول نہیں سکوں گا۔ آج حضرت سچل سرمست بھی ہمارے پیار کے گواہوں میں شامل ہو گئے۔‘‘ اس کا ہاتھ اس کے بازو کے گداز سے پھسل کر اس کے سینے کی گولائیوں کو ناپنے لگا۔ وہ اس کے اور نزدیک آ گیا۔ ’’دیکھو!تم گاؤں کی عورت ہو، اور تمھیں ڈرنا نہیں چاہیے۔‘‘

وہ مزاحمت کرنا چاہتی تھی مگر اس کے شریر ہاتھوں کے اس کے حواس معطل کر دیے تھے۔ اس کے بدن کے رگ و ریشے میں ایک بے چینی اور بے اطمینانی سی پھیلتی جا رہی تھی۔ وہ لذت کے ست رنگے پرندے کو اپنے بدن کی تمام پہنائیوں اور تمام وسعتوں میں مائل بہ پرواز دیکھنا چاہتی تھی۔ اس خواہش میں وہ اپنی ملاقات کا محل وقوع تک فراموش کر بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھیں خود بخود بند ہو رہی تھیں۔ اپنے بوجھل پپوٹے بمشکل پوری طرح کھول کر اس نے نذیر کی طرف دیکھا اور پہلی بار اپنے بازو پھیلا کر اس نے اسے اپنے بدن سے لپٹا لیا۔ نذیر کے تشنہ لبوں کا بوسہ لینے کے بعد اس نے بمشکل اسے اپنے آپ سے علیحدہ کر دیا۔ الگ ہونے کے بعد نذیر نے گرد و پیش نظر دوڑائی تو اسے پہلی بار اس محلِ وقوع کی حرمت کا خیال آیا۔ شب کا نجانے کون سا پہر تھا اور وہ انسانی لاشوں کے مدفن میں اس وقت کیا کر رہا تھا۔

اسے خاموش پا کروہ سمجھی کہ شاید وہ برا مان گیا۔ وہ اس کا دھیان بٹانے کے لیے اپنے ٹیلی فون آپریٹر شوہر کے خلاف باتیں کرنے لگی۔ وہ اس کی باتوں کے بیچ بیچ میں اسے لقمہ دیتا، اپنا غبارِ دل نکالنے میں اس کی مدد کرتا رہا۔

اچانک قبرستان کے باہر سے پکوڑا فروش کی پکار سنائی دی۔ وہ نذیر کا نام لے کر اسے بلا رہا تھا۔ نورل کی پکار سن کر وہ دونوں چونکے۔ شمیم فوراً اٹھ کر اپنے لباس کی شکنیں درست کرنے لگی۔ اس نے برقعے کا نقاب اچھی طرح کس کر باندھا اور جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ تشنہ لذت کی عدم تکمیل سے پیدا ہونے والی اذیت کا بوجھ اٹھائے ہوئے وہ دونوں نڈھال قدموں سے چلنے لگے۔

نذیر تلخ سانس بھرتا ہوا قبروں کو روند تا ہوا چل رہا تھا۔ قبرستان کے باہر پہنچنے پر حیدری نے اسے ٹیلی فون آپریٹر کے نیند سے جاگنے کی خبر سنائی تو وہ اپنی کامیابی پر زیرِ لب مسکرانے لگا۔

شمیم نورل کے ساتھ لنگر گاہ کی طرف چل پڑی جبکہ نذیر حیدری کے ساتھ سڑک کی جانب۔

 

ٹھری میرواہ واپس پہنچنے کے بعد کچھ روز تک وہ دکان پر نہیں گیا۔ نجانے کیوں ایک جگہ بیٹھ کر کام کرنے کے خیال سے ہی اسے وحشت ہونے لگی تھی مگر اس کے لیے سارا دن گھر پہ رہنا بھی ممکن نہیں رہا تھا۔ چاچی خیر النسا کے لیے اس کی آنکھوں سے حیا ختم ہو گئی تھی۔ وہ جب چولھے پر جھکتی تو وہ ڈھٹائی سے اس کے سینے کی طرف دیکھنے لگتا اور ٹکٹکی لگائے دیکھتا ہی رہتا۔

ایک شام وہ صحن میں پیڑھی پر بیٹھی وضو کرتے ہوئے اپنی ایڑیوں کا میل اُتار رہی تھی۔ بے دھیانی میں اس نے اپنی شلوار گھٹنوں تک کھینچ لی تھی۔ نذیر کو انھیں تاکنے کا موقع مل گیا۔ اس کی پنڈلیاں اسے بہت گداز محسوس ہوئیں۔ چاچی نے معاً اس کی طرف دیکھا تو اس کی بے حیا نظروں سے جھینپ کے رہ گئی اور فوراً اُٹھ کر جا نماز پر نماز کی نیت باندھ کر کھڑی ہو گئی۔

وہ انتظار میں رہنے لگا تھا کہ وہ اسے چارپائی پرسوئی ہوئی نظر آ جائے۔ ایسے میں اس کی قمیض ذرا سی کھسک جاتی تھی اور اس کا لو دیتا بدن جھانکنے لگتا تھا۔

اگر کبھی اسے غسل خانے میں چاچی کے لٹکے ہوئے ریشمی کپڑے مل جاتے۔ وہ ان کی ملائمت محسوس کرنے کی خاطر انھیں اپنی انگلیوں کی پوروں سے چھوتا اور اپنے ہونٹوں سے لگا کر انھیں چومتا۔

اس کے لیے چاچی سے گفتگو کرنا مزید مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ اس سے باتیں کرتے ہوئے اچانک اس کی نظریں اس کے بدن پر بھٹکنے لگ جاتی تھیں۔ وہ اس کے گداز بھرے بازو کو دیکھنے لگتا تو خود بخود اس کی زبان میں لکنت پیدا ہو جاتی۔ اسے موقع محل کے مطابق مناسب لفظ نہ سوجھتا اور وہ جملوں کو توڑ کر بچوں کی طرح بولنا شروع کر دیتا۔

ایک بار وہ پورے انہماک اور سنجیدگی کے ساتھ اس سے دست درازی کرنے کے متعلق سوچتا رہا مگر ایسا کرنے کی وہ اپنے اندر ہمت محسوس نہیں کر سکا۔ اسے لگتا تھا کہ چاچی جان بوجھ کر اس کی آنکھوں کے لیے منظر بناتی تھی لیکن اس کی بے لگام آنکھوں کو برداشت بھی نہیں کر پاتی تھی۔ اس کا لگاتار دیکھنا بھی اسے اچھا نہیں لگتا تھا۔ وہ جلد ہی بیزار ہو جاتی اور اس کے چہرے پر تنفر اور بیزاری کے آثار پیدا ہو جاتے اور وہ فوراً اپنا جسم ڈھانپنا شروع کر دیتی۔ کئی مرتبہ اس نے اس کی بے معنی سی بڑبڑاہٹ بھی سنی تھی۔ اس عورت کے سامنے دل کھولنا آسان نہیں تھا۔ وہ سوچتا، دوری کے اس سراب کے درمیان قرب کا دھوکا شاید ختم ہو جائے۔ وہ دونوں جہاں پر تھے، کیا پتا آنے والے دنوں میں اس سے اور زیادہ پیچھے چلے جائیں۔

چاچی خیر النسا کے وجود سے اٹا یہ مکان اکثر اسے کاٹنے لگتا۔ اس لیے وہ صبح سویرے گھر سے نکل جاتا اور شام کو واپس لوٹتا۔ وہ شمیم سے دوبارہ ملنا چاہتا تھا۔ ملاقات کا ڈول ڈالنے کی اس نے پوری کوشش کی مگر اس کے کسی بھی پیغام کا مثبت جواب نہیں آیا۔ جب اس نے پکوڑا فروش سے اس کی وجہ جاننی چاہی تواس نے بتایا کہ وہ عورت ذات ہے، تھوڑا بہت نخرہ تو کرے گی۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس رات کے پچھلے پہر درازہ شریف کے قبرستان کا ماحول بہت خوفناک تھا۔ شاید اس پر کوئی اثر ہو گیا ہو اور کسی آسیب یا سائے کی وجہ سے وہ اس سے ملنے سے گریز کرنے لگی ہو۔

نذیر نے نورل کی اس بات کو من گھڑت سمجھا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس رات کے بعد اب شمیم اس سے اپنا تعلق ختم کرنا چاہتی ہے۔ وہ حیران تھا کہ اس سے ملنے کی خاطر وہ دو مرتبہ خطرہ مول لینے کے بعد اب کیونکر محتاط ہو گئی تھی۔ دوسرے رقیب کا خدشہ بھی خارج از امکان نہیں تھا یا پھر ہو سکتا ہے کہ اس کے ٹیلی فون آپریٹر شوہر کے کان میں ان کے پیار کی بھنک پڑ گئی تھی۔

اسے نورل پر بھی شک ہونے لگا تھا کہ اس نے اس کے شوہر سے مل کر ساز باز نہ کر لی ہو یا نذیر سے دوستی کی آڑ میں اس کے لیے بھڑوت گیری کرنے سے وہ بیزار نہ ہو گیا ہو۔ مگر شاید اس کا خیال غلط تھا کیونکہ پکوڑا فروش ویسے کا ویسا ہی تھا۔ وہ اب اس سے روپے بھی نہیں لیتا تھا۔

ایک مرتبہ اسے یہ اذیت ناک خیال آیا کہ شمیم سے ملاقاتوں میں دونوں مرتبہ وہ اپنی بھرپور مردانیت کا مظاہرہ نہیں کر سکا تھا۔ اسی لیے وہ اس سے روٹھ گئی اور اس کے حصے میں چندبوسوں کے علاوہ کچھ نہیں آ سکا۔ وہ چند بوسے اسے بہت ناکافی محسوس ہو رہے تھے۔ وہ اس کے وصل کی پوری لذت سے بہرہ یاب ہونا چاہتا تھا۔

شمیم کے ہجر کے ان روز و شب میں وہ خود کو زیادہ اکیلا محسوس کرنے لگا تھا۔ حیدری مذاق کے طور پر اسے جو طعنے دیتا اور جو پھبتیاں کستا، وہ اس کی تکلیف کو مزید بڑھا دیتیں۔ وہ سمجھنے لگتا کہ اپنی کم ہمتی اور نا تجربہ کاری کے سبب اس نے خود کو ایک شادی شدہ عورت کی نظروں میں بے وقعت ظاہر کر دیا تھا، اسی لیے اب وہ اس سے ملنے سے گریز کر رہی تھی۔

کچھ نئی عادتیں اور نئے مشغلے بھی اس کی اذیت کو کم نہیں کر سکے۔ اگرچہ قصبے کی ساری گلیاں اور سارے مکان اس کے دیکھے بھالے تھے، اس کے باوجود وہ بہت سا وقت آوارہ گردی میں گزارنے لگا۔ اس دوران راستے میں اسے کوئی لڑکی یا برقع پوش عورت نظر آتی تو وہ اس کے پیچھے پیچھے چلنا شروع کر دیتا۔ وہ خاتون یا لڑکی جس مکان میں داخل ہوتی وہ اس کے دروازے پر ٹکٹکی لگائے اس گلی میں کھڑا ہو جاتا اور خوامخواہ اس مکان کی دیواروں کے رخنوں اور دروازے کی دزدوں سے جھانکنے لگتا۔ کبھی کبھار کوئی آدمی اس کی اس حرکت کا برا منا کر اسے للکار تا تووہ فوراً وہاں سے بھاگ کھڑا ہوتا۔

قصبے کی دکانوں پر ویڈیو گیم اور کیرم بورڈ، ڈبو، اور بلیئرڈ کھیل کھیل کر اس کی طبیعت اب ان سے بھی سیر ہو گئی تھی۔

وہ شمیم کے نرم و لذیذ لمس اور بوسوں کو فراموش کرنا چاہتا تھا۔ جب تک اس نے اس کے شوہر کو نہ دیکھا تھا، تب تک وہ اپنی تصور اتی دنیا میں خود کو اس کے پر شباب اور پر لطف جسم کا اکلوتا مالک سمجھتا تھا، مگر اب ٹیلی فون آپریٹر ایک ایسی حقیقت بن کر سامنے آ چکا تھا، اس کے لیے جسے جھٹلانا ناممکن تھا۔

وہ یہ سوچ کر کڑھتا رہتا اور دل ہی دل میں تاؤ کھاتا رہتا کہ وہ ٹیڑھا بینگا شخص اس جسم کا یکہ و تنہا مختارتھا۔ وہ اس کے نکاح میں داخل تھی۔ اس کے روز و شب اس شخص کی خاطر مدارات میں بسر ہو رہے تھے۔ وہ جب چاہتا، اس سے خلوت میں وصل کی لذت سے ہمکنار ہو سکتا تھا۔ نذیر کے لیے سب سے کربناک بات یہی تھی۔ یہ ہر وقت اس کے ذہن پر مسلط رہتی تھی اور اس کے لیے اس سے نجات پانا ممکن نہیں تھا۔ جب بھی ان خیالات کی اذیت ناکی حد سے بڑھنے لگتی تووہ دانت کچکچانے لگتا، بے بسی سے اپنی مٹھیاں بھینچتا اور ہیجانی انداز میں زیرِ لب بڑبڑاتا۔ ’’وہ سر تا سرگہرے سرور سے بھری ہوئی ایک صراحیِ مے ہے جو پوری کی پوری اس کڈھب آدمی کی دسترس میں ہے۔‘‘

اس پر یہ مجنونانہ کیفیت عارضی طاری ہوتی۔ جب وہ اس کیفیت سے باہر آتا تو سکون کے لمحوں میں اپنے آپ کو سمجھانے لگتا۔ اس کی زندگی میں وہ پہلی عورت تھی جس نے اس کے غیر سنجیدہ رومان کا جواب پورے خلوص اور سنجیدگی سے دیا تھا۔ وہ اس رات صرف اس کی خاطر اپنے گھر، اپنے شوہر، اپنے گرم بستر اور لحاف کو چھوڑ کر اس سے ملنے آئی تھی۔ وہ اس کی دست درازی اور اس کی بوسہ باری کو برداشت کرتی رہی تھی۔ وہ ہرگز کوئی فاحشہ نہیں تھی اور نہ ہی قیمتی چیزوں پر مرنے والی تھی۔ شاید اسے محبت کی ضرورت تھی، اور وہ اس کی یہ ضرورت پوری کرنے کو تیار تھا۔ اس نے اپنی بے لگام جسمانی خواہشوں کو ملعون و مطعون قرار دیا۔

کیا وہ پردہ نشین شمیم کے لیے اپنے دل میں محبت محسوس کرنے لگا تھا؟اس کے لیے اپنے بدن میں اٹھتے طوفانوں اور ہیجانوں کو محبت قرار دینا بہت مشکل تھا۔ یہ کوئی اور ہی چیز تھی، محبت سے بھی زیادہ گہری، پراسرار اور عمیق چیز۔

بہت سوچ بچار کے بعد بالآخراس نے فیصلہ کیا کہ شمیم کو ایک آخری تحفہ بھجوائے۔ ہو سکتا ہے، تحفہ پا کراس کے دل میں امڈ کر ہیجان برپا کرنے کے بعد یخ بستہ ہونے والی اس کے پر جوش جذبات کی پرانی رو ایک مرتبہ پھر عود کر آئے۔ یہی خیال ذہن میں لا کروہ رحیم سنار کے پاس گیا جو قصبے کا پرانا اور مشہور زر گر تھا۔ اس نے سوچا کہ شاید زیور کی بدولت اس سے دوبارہ ملنے کی سبیل پیدا ہو جائے۔

زیورات کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتا تھا۔ وہ زرگر گلی میں واقع میلے شو کیسوں والی ایک دکان میں داخل ہوا تو اپنے کام میں مصروف بوڑھے سنارنے اپنا سر اٹھا کر ٹوہ لینے والی آنکھوں سے اسے دیکھنے کے بعد، مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ اس نے اپنے ایک ہاتھ میں پکڑا جلتا ہوا دِیا اور دوسرے ہاتھ میں پکڑا زیور ایک طرف رکھ دیا اور اپنے نوجوان گاہک کی طرف متوجہ ہوا۔

نذیر میلی کچیلی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا، ’’میں نے آپ کے کام کی بہت دھوم سنی ہے۔ مجھے آپ سے ایک چھوٹا سا زیور بنوانا ہے۔‘‘

اپنی تعریف سن کر بوڑھا زرگر ہنسا، پھر اپنی موٹے شیشوں والی عینک کو اپنی میلی قمیض سے صاف کرتے ہوئے بولا، ’’عزت اور ذلت دینا میرے رب سائیں کا کام ہے، میرا کام صرف محنت کرنا ہے۔‘‘

نذیر نے اس سے ہار بنانے کی فرمائش کرتے ہوئے کہا کہ ہار بے شک چاندی کا بنا ہوا ہو مگر پہلی نظر میں دیکھنے پر وہ سونے کا معلوم ہونا چاہیے۔ اس کی چمک اتنی جلدی ماند نہ پڑے اور اس کی قیمت بھی بہت زیادہ نہ ہو۔

نذیر کی باتیں سن کر رحیم سنار کو اس کے دل تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔

’’یہ کام تو میرے بائیں ہاتھ کا ہے۔ مگر میں اس کے پیسے ایڈوانس لوں گا۔‘‘

نذیر نے مطلوبہ رقم زرگر کے حوالے کی تو وہ کہنے لگا کہ پرسوں آ کر وہ اپنا ہار لے جائے۔ نذیر دکان سے مطمئن ہو کر نکلا۔

 

دکان سے اس کی لگا تار غیر حاضری پر چاچا غفور یہی سمجھتا رہا کہ اب تک اس کے بھتیجے کی صحت بہتر نہیں ہے۔ وہ ہر روز نذیر کو گھر میں سوتا ہوا چھوڑ کر اکیلا ہی دکان پرجاتا رہا۔ جب دکان سے اس کی غیر حاضری طول پکڑنے لگی تو چاچے کے دل میں شکوک و شبہات سر اٹھانے لگے۔ اس نے ان شکوک و شبہات کو کچل کر دل سے نکالنے کی بہت کوشش کی، مگر ان کی خودسری بڑھنے لگی۔ اس نے یعقوب کاریگر کو اپنے اندیشوں میں شریک نہیں کیا۔ سُبکی کے خوف سے پہلی بار اس نے کاریگر سے کوئی بات چھپائی۔ اس کا خیال تھا کہ شاید وہ اس کا مذاق اڑاتا اور اس کے لیے زندگی بھر کے لیے کوئی پھبتی ایجاد کر لیتا۔ اسی خوف کے سبب اس نے اسے شاملِ راز نہیں کیا۔

جب اس کے دل میں پہلے شک نے رینگتے ہوئے جگہ بنائی تو وہ بہت جزبز ہوا تھا، اوراس نے اسے پوری شدت سے رد کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر وہ کانٹے کی طرح اس کے دل میں پیوست ہو گیا تھا۔ اس نے خود کو ملامت کی تھی کہ اس کا بھتیجا ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔ وہ اسے اچھی طرح جانتا تھا۔

روزانہ گھر سے نکلتے وقت وہ برآمدے میں کھاٹ پر بے سدھ سوئے نذیر کو گھور کر دیکھتا۔ اس وقت اسے محسوس ہوتا کہ وہ رضائی کے نیچے آنکھیں کھول کر لیٹا ہو گا اور اس کے گھر سے جانے کا انتظار کر رہا ہو گا۔ بوڑھا درزی ایسے خیالات کو جھٹکنے کے لیے بار بار اپناسرہلانے لگتا، اور گھر کی دہلیز سے نکلتے وقت اس کا دل ڈوبنے لگ جاتا۔ گلی میں چلتے ہوئے بار بار اس کے قدم ٹھٹک کر رک جاتے۔ وہ مڑ کر لمحہ بھر کے لیے سوچتا مگر اپنے گھر واپس لوٹنے سے گریز کرتا۔

دکان پر تمام دن وہ اسی ادھیڑ بن میں مبتلا رہتا۔ شام کو جب واپس لوٹتا تو گھر کے کونوں کھدروں میں جھانکتا پھرتا، جیسے کوئی ثبوت تلاش کرنا چاہتا ہو۔ وہ باتوں کے دوران اپنی بیوی کو کرید کر بھتیجے کے رویے اور اس کی عادتوں کے متعلق پوچھتا رہتا۔

چاچی خیر النسا کے گمان میں نہیں تھا کہ اس کے ذہن میں کیسے خیالات رینگ رہے تھے۔ اس کی ذہنی حالت سے بے بہرہ، وہ عام سے انداز میں اسے دن بھر کی مصروفیات کا احوال سنادیتی۔ اس کی باتیں سنتے ہوئے چاچا اس کے چہرے کو گہری نظروں سے گھورتا رہتا۔ پھر مایوس ہو کر کوئی خاص بات معلوم نہ کر سکنے کے دکھ میں مبتلا ہو کر وہ ٹھنڈے سانس بھرنے لگتا اور اپنے ایک ہاتھ کی مٹھی کو دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر مارتا رہتا۔

ایک روز دوپہر کو اچانک کام روک کر وہ یعقوب کاریگرسے بہانہ بنا کر دکان سے نکلا۔ وہ پُر امید جوش میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اپنی گلی میں داخل ہوا۔ مگر جوں جوں گھر کے قریب پہنچنے لگا، اس کے اوسان خطا ہونے لگے۔ کچھ اور آگے جا کراس کا سر چکرایا اور پاؤں ڈگمگائے مگر اس نے خود کو سنبھال لیا۔ وہ گھرکے دروازے تک پہنچا اور کچھ دیر تک کان لگائے وہاں کھڑا رہا مگر اسے اندر سے کوئی آواز نہیں سنائی دی۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ یہاں سے اندر داخل ہوا تو وہ لوگ اس کے قدموں کی چاپ سن لیں گے۔ وہ برسوں سے مقفل دروازے پر گیاجس کا راستہ دوسری گلی سے تھا جو ایک بند گلی تھی۔ وہ وہاں کھڑا بند گلی کو دیکھتا رہا۔ اس کے گھر کی پرانی دیوار زیادہ اونچی نہیں تھی۔ پہلی بار دروازے پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ پیٹھ کے بل گلی کے کنارے پر بنی ہوئی نالی میں گرتے گرتے بچا۔ دوسری مرتبہ اس نے دروازے پر مضبوطی سے پیر جمایا اور کنڈی کے لوہے کو زور سے پکڑا اور گھر کے پچھلے حصے میں کود گیا۔ غسل خانے کی طرف سے کپڑے دھونے کی دھپ دھپ سن کر اسے سخت مایوسی ہوئی۔ اس نے سوچا کہ اگر  وہ اس جانب سے گھر میں داخل ہوا تو وہ اسے دیکھ کر پریشان ہو جائے گی۔ وہ چپکے سے دبے پاؤں واپس چلا گیا، مگر شک کا کانٹا کسی طور اس کے دل سے نہیں نکل سکا۔

شام کو دکان سے واپس آنے کے بعداس نے دبے لفظوں میں نذیر سے دکان پر نہ آنے کی شکایت کی تو ندامت محسوس کرتے ہوئے اس نے اگلے دن دکان پر جانے کا وعدہ کر لیا۔

اگلی صبح وہ دکان جانے کے لیے تیار ہو کر گھر سے نکلا، مگر اس کے قدم اسے بہکا کر میرواہ کے کنارے واقع چائے خانے پر لے گئے جہاں اس کی مڈبھیڑ نورل سے ہو گئی۔ اس کے ہمراہ چرس پینے کے کے بعد دکان جانے کا خیال اس کے ذہن سے نکل گیا۔ اس نے چاچے غفور کی نافرمانی کی اور وہ مزید کچھ روز تک جان بوجھ کر دکان نہیں گیا۔ چاچے نے اپنے بھتیجے کی ہٹ دھرمی دیکھتے ہوئے اسے دوبارہ کہنا مناسب نہیں سمجھا۔

چاچا غفور نہیں چاہتا تھا کہ اس حوالے سے کوئی بھی بات نکل کر  مشہور ہو جائے۔ وہ خاندان بھر میں اپنی بدنامی سے خوفزدہ تھا۔ اس لیے اس نے اپنے بھتیجے پر دھونس نہیں جمائی، اسے ڈانٹا ڈپٹا نہیں۔

اس نے میرپور  ماتھیلو میں رہنے والے اپنے بڑے بھائی سے ایک مرتبہ نذیر کو اس کے پاس بھیجنے کے لیے کہا تھا۔ اس لیے وہ سوچ رہا تھا کہ اگر اس نے گالم گلوچ کر کے اسے نکال دیا تواس کی بہت جگ ہنسائی ہو گی اور پوری برادری میں اس کی ناک ہمیشہ کے لیے کٹ جائے گی۔

 

شام کی آوارہ گردی کے دوران ایک گلی میں اس کی مڈبھیڑ نورل سے ہو گئی۔ اس نے نذیر کو ایک ایک حیران کن مگر خوشی سے لبریز خبر سنائی۔ کچھ دیر پہلے ہی نذیر نے زرگر کی دکان پر جا کر اس سے ہار وصول کیا تھا۔ ہار کے بارے میں پکوڑا فروش کو بتانے سے پہلے ہی اس نے اسے مژدۂ جاں فزا سنا دیا۔

نذیر وہ بات سن کر اس پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس کے تو سان گمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی عورت اتنی جراَت مند اور دلاور بھی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے گھر میں اپنے عاشق کو ملاقات کے لیے دعوت دے دے۔ خوشی میں اس نے بے اختیار ہو کر نورل کے کھردرے گالوں کو چوم لیا اور اس کی بے ترتیب مونچھوں کو تھپتھپانے لگا۔ اس کے بعد شام بھر وہ پکوڑا فروش کو ساتھ لیے مختلف چائے خانوں میں گھومتا پھرا۔ اس نے نورل کو خوش کرنے کے لیے پچاس روپے کا نوٹ زبردستی اس کی جیب میں ڈال دیا۔ اس نے ہار والی بات جان بوجھ کر اس سے پوشیدہ رکھی مبادا اس کے دل میں حرص پیدا ہو جائے اور وہ اپنی بیوی کے ذریعے مسرتوں بھری آئندہ ملاقات میں کھنڈت ڈال دے۔ رات نو بجے کے آس پاس اس نے اسے میرواہ کے پل پر خدا حافظ کہا۔

 

صبح کو عجیب واقعہ رونما ہوا۔ نذیر گہرے خوابوں میں گم مزے کی نیند سورہا تھا۔ غفور چاچا غصے میں بپھرا ہوا برآمدے میں آیا اور اس نے بلند لہجے میں اسے مخاطب کرتے ہوئے شانوں سے پکڑ کر اسے جھنجھوڑ کر جگایا۔ اس نے ہڑبڑاتے ہوئے آنکھیں کھول دیں۔ اس نے آج پہلی بار چادر میں لپٹے ہوئے اپنے چاچا کو غیظ و غضب کے عالم میں دیکھا۔ اس کے چہرے پر شدید تناؤ تھا۔ اس کی مٹھیاں بھنچی ہوئی تھیں اور غصے کی شدت سے اس کا پورا جسم کانپ رہا تھا۔

نذیر چارپائی پر اٹھ کر بیٹھا تو بوڑھے درزی نے اسے سنبھلنے کا کوئی موقع نہیں دیا۔ وہ اسے گریبان سے پکڑ کر اس کے چہرے اور سینے پر زور دار مکے رسید کرنے لگا۔

ایسی بے موقع پٹائی کے بارے میں نذیر نے سوچا بھی نہیں تھا۔ دو چار لمحوں تک وہ اپنے جسم پر چاچے کے زوردار گھونسوں کی ضربیں برداشت کرتا رہا۔ اس نے آس پاس نگاہ دوڑائی مگر چاچی خیر النسا اسے کہیں نظر نہیں آئی۔ اس نے اپنے ہاتھ اور منھ سے جواب دینے کے بجائے خود کو بچانا ہی مناسب سمجھا۔

وہ چاچے کی کرخت اور فحش گالیوں کا جواب اپنے مسکین سوالوں سے دیتا رہا۔ کچھ دیر بعد وہ لاچار اٹھا اور وہ بوڑھے درزی کو دھکا دیتا ہوا صحن کی طرف بھاگ نکلا۔ اس کے دھکے سے چاچا غفور فرش پر گر گیا اور ہانپتا ہوا اُٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔

چاچی خیر النسا غسل خانے سے باہر آئی تو اس نے پہلے نذیر کی طرف اور پھر اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔ کچھ دیر تک وہ سمجھ ہی نہیں پائی کہ ان دونوں کے درمیان کیا چل رہا ہے۔ چاچا ایک مرتبہ پھر نذیر پر حملہ کرنے کے لیے اس کی طرف لپکا تواسے چاچی نے روک لیا اور اسے سمجھاتی ہوئی زبردستی کمرے میں لے گئی مگر اس کے منھ سے لگاتار گالیاں سنائی دیتی رہیں۔

نذیر نے غصے میں چاچے کی بڑبڑاہٹ سے اندازہ لگا لیا تھا کہ بوڑھے زرگر نے کل شام نے اس کے پاس جا کر اسے ہار کے متعلق بتا دیا تھا جو اس نے اسے بنا کر دیا تھا۔ اس نے زیرِ لب اس رذیل سنار کو جی بھر کر گالیاں دیں۔

غسل خانے میں ہاتھ منھ دھونے کے بعد وہ چائے پینے کے لیے باورچی خانے میں جا کر بیٹھ گیا تاکہ چاچا کی غضب ناک آنکھوں سے دور رہ سکے۔ پتیلی میں موجود چائے کو چھان کر اس نے پیالی میں ڈالا اور بلند آہنگ سڑپے لے کر چائے پیتے ہوئے وہ بار بار دروازے کی طرف دیکھنے لگا۔

اس کے ذہن میں خیالات کی رو چل رہی تھی۔ آج رات اسے شمیم سے ملنے جانا تھا اور صبح سویرے ایسی بدمزگی کا رونما ہونا اسے اچھا شگون نہیں لگ رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ غفور چاچا کے دل میں اس کے لیے جو نفرت بھر گئی ہے کسی طرح سے وہ ختم ہو جائے۔

وہ بار بار سوچ کر خود کو تیار کر رہا تھا کہ کچھ بھی ہو وہ جو گیوں کے گوٹھ ضرور جائے گا۔ اس نے کئی مرتبہ شلوار کی جیب میں رکھے ہار کو ٹٹول کر اس کی موجودگی کو محسوس کیا۔

باورچی خانے کی طرف آتے ہوئے قدموں کی آہٹ سن کر وہ چونکا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو چاچی خیر النسا کو آتے دیکھ کر اسے اطمینان ہوا۔

چولھے کے قریب بیٹھتے ہوئے اس نے نذیر کو گہری نظر سے دیکھا۔ اس کی جھکی ہوئی نگاہ اور جھکا ہوا سر دیکھ کراس کے چہرے پر تمسخرآلود تاثر نمایاں ہونے لگا۔ اس سے کوئی بات کیے بغیر اس کے منھ سے ہونہہ کی آواز نکلی۔ نذیر نے یہ آواز کو سنتے ہی اس کا مطلب سمجھ لیا۔ وہ صبح ہونے والی اپنی پٹائی کی وجہ سے اس کے سامنے عجیب سی خفت محسوس کر رہا تھا۔ اس نے خالی پیالے کو ایک بار پھر چائے سے بھر دیا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی موضوع پر اس سے بات چیت شروع ہو مگر  وہ پہل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہا تھا۔ وہ سر جھکائے صرف اس کے سانسوں کی آوازسنتا رہا۔

خاموشی میں اس کے سانسوں کی آواز نے اسے چاچی خیر النسا کے اس وقت کے محسوسات کے بارے میں بہت کچھ بتا دیا۔ بے دھیانی میں چسکی لیتے ہوئے چائے کا گھونٹ اچانک اس کی سانس کی نالی میں چلا گیا۔ وہ اتنے زور سے کھانسا اور چھینکا کہ اس کے حلق اور ناک سے نکلتے چائے کے ذرّے چاچی کے کپڑوں پر جا گرے۔ اس کا ہاتھ کانپا اور چائے کا پیالہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔

اس کی یہ حالت دیکھ کر چاچی بے ساختہ ہنسنے لگی۔ اس نے زمین پر پڑے ہوئے اوندھے پیالے کو سیدھا کر دیا، کیونکہ اوندھی پڑی ہوئی چیزیں اس کے خیال میں بد شگونی کی علامت ہوتی تھیں۔

ایسے حساس ترین موقعے پر اس کا ہنسنا نذیر کو ناگوار محسوس ہوا۔ اس نے نزدیک ہی رکھے ہوئے گھڑے سے پانی نکال کر اپنا منھ اور ناک صاف کیا۔

چاچی کچھ دیر تک اسے کریدنے والی نگاہوں سے دیکھتی رہی۔ پھرکسی تمہید کے بغیر اس سے پوچھنے لگی، ’’تم نے وہ ہار آخرکس لیے بنوایا تھا؟‘‘

’’کون سا ہار؟!‘‘وہ خود کو سنبھالتے ہوئے صاف مکر گیا۔

’’وہی جو تم نے رحیم سنار سے بنوایا تھا؟‘‘

’’کیا یہ بات سنار نے خود چاچے کو بتائی ہے ؟‘‘نذیر اس قضیے کے ماخذ تک پہنچنا چاہتا تھا۔

’’ہاں ! اسی نے تیرے چاچے کو بتایا ہے۔‘‘ وہ اس کی طرف دیکھتی اس کی دلی کیفیت کو آنکنے کی کوشش کر رہی تھی۔

’’میں نے وہ ہار۔ ..‘‘وہ کہتے کہتے رک گیا۔ اچانک اسے ایک اور خیال سجھائی دیا اور اس نے بغیر سوچے بے دھڑک کہہ دیا، ’’میں نے۔ ..وہ ہار۔ .. تیرے لیے بنوایا تھا۔ میں وہ تجھے دینا چاہتا تھا۔ مگر کل رات وہ میری جیب سے کہیں گر گیا۔‘‘ اپنی جرأتِ اظہار پروہ خود حیران تھا۔

’’میرے لیے ؟‘‘اس کی بات سن کر اس کی حیرانی کی کوئی حد نہ رہی۔ ’’مگر میرے لیے کیوں ؟‘‘

’’ اس لیے کہ کچھ دن پہلے جب میں بیمار ہوا تھا تو تُو نے میری بہت خدمت کی تھی‘‘ وہ معصومیت سے بولا۔

چاچی اسے گھورتی رہی، پھر جھرجھری لیتے ہوئے بولی، ’’اپنے چاچا کو مت بتانا، ورنہ وہ ہم دونوں کو جان سے مار دے گا۔‘‘ اس نے سہمی نظر سے دروازے کی طرف دیکھا۔

’’میں نے اچھی طرح سوچ لیا ہے کہ اسے کیا بتانا ہے۔‘‘

بے یقینی سے اس کی طرف دیکھنے کے بعد وہ ناشتے کی تیاری میں مصروف ہو گئی جبکہ وہ وہیں چپ چاپ بیٹھا رہا۔ جب ناشتہ تیار ہو چکا تو وہ اسے اپنے ساتھ غفور کے کمرے میں لے گئی۔

چاچے کے تیور اب تک ویسے ہی تھے۔ اس کے ماتھے پر شکنیں پڑی ہوئی تھیں۔ انھیں کمرے میں آتے دیکھ کر اس نے اپنا منھ دوسری طرف پھیر لیا۔

’’رحیم سنار کی بات سچی ہے یا نہیں ؟‘‘اس نے تحکم آمیز لہجے میں اس سے سوال کیا۔

’’اس کی بات میں سچائی ہے، مگر میں نے وہ ہار حیدری کے کہنے پر بنوایا تھا۔‘‘

’’ حیدری کے کہنے پر؟وہ کیوں ؟‘‘

’’اس کا کسی لڑکی کے ساتھ کوئی چکر ہے‘‘نذیر نے بتایا۔

اس کا جواب سن کر چاچے کے لبوں پر خود بخود مسکراہٹ پھیل گئی۔ ’’ اچھا، اس کا چکر ہے ! کہیں تمھارا بھی کوئی چکر تو نہیں ہے ؟‘‘

اس نے سنجیدگی سے جواب دیا، ’’نہیں چاچا۔‘‘

وہ ہنستے ہوئے اپنی بیوی کو دیکھنے لگا جو پائینتی پر بیٹھی ہوئی تھی۔

چاچے کا مزاج بدلتا دیکھ کر نذیر کے علاوہ چاچی نے بھی اطمینان کا سانس لیا۔

 

ناشتہ کرتے ہوئے نذیر کو اپنی کوتاہی کا احساس ہو گیا۔ اسے دکان کی طرف سے تغافل نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میرپور ماتھیلو سے شہر بدر ہوتے ہوئے اس کے والد نے اسے نصیحت کی تھی کہ ٹھری میرواہ جا کر درزی کے کام میں دل لگانا۔ آدمی کے پاس کوئی ہنر ہو تو اس کی زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے چاچا کے پاس کام کرنے آیا تھا۔ پچھلے کئی دنوں سے دکان سے اپنی غیر حاضری کے حوالے سے وہ اس کی تشفی نہیں کر سکا تھا۔ اس کے چھوٹے موٹے بہانے زیادہ عرصے تک کارآمد نہیں ہو سکتے تھے۔ اسی لیے سنار کی بات سن کر وہ حصے سے لال بھبھوکا ہو کر اس پر برس پڑا تھا۔ چاچا کے غصے میں بھرے ہوئے سرخ چہرے میں نذیر کو اپنے والد کی جھلک دکھائی دی تھی۔

چاچا غفور سے تعلقات میں کشیدگی ختم کرنے کے لیے اس نے دکان پر وقت گزارنے کا فیصلہ کیا تاکہ اگر آج رات کسی نے اس کا خالی بستر دیکھ لیا تو وہ اس پر مچنے والے ممکنہ فساد کو دبانے میں کامیاب ہو سکے گا۔ نجانے کیوں اس کے دل کو دھڑکا لگا ہوا تھا کہ آج کی شب اس کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آنے والا ہے۔

چاچی خیر النسا ناشتے کے برتن اٹھانے کے لیے جھکی تو وہ خود کو اس کے سینے کی لکیر دیکھنے سے باز نہیں رکھ سکا۔ ’’کیا یہ اس نے مجھ پر ایک اور مہربانی کی ہے ؟‘‘وہ یہ سوچتا ہوا دکان جانے کے لیے اٹھا۔

 

وہ دکان پر پہنچا تو وہاں چاچا کو نہ پا کر سخت حیران ہوا۔ اس کے سوال پوچھنے پر یعقوب کاریگر نے اسے بتایا کہ وہ کسی کام سے رانی پور گیا ہوا ہے۔ اس نے اپنی پریشانی ظاہر کی کہ اس کا دوست پچھلے کچھ دنوں سے کسی ادھیڑ بن میں مبتلا ہے۔ اب اس کی ہنسی پہلے کی طرح بے ساختہ نہیں رہی تھی اور باتیں کرتے کرتے وہ اچانک کہیں کھو سا جاتا تھا۔ اس سے بہت پوچھنے اور اسے کریدنے کے باوجود اس نے اپنی الجھن کے بارے میں اسے نہیں بتایا۔ بتاتے بتاتے اس نے اپنی سلائی مشین بند کر دی اورکرسی پر آلتی پالتی مار کر بیٹھتے ہوئے اس نے بیڑی سلگائی اور بات کا سلسلہ وہیں سے دوبارہ شروع کیا۔ ’’میں یہ سمجھا کہ وہ کام کی وجہ سے پریشان ہے مگر وہ گھبرانے والا آدمی بھی نہیں۔ پھر مجھے خیال آیا کہ ہو سکتا ہے وہ دکان سے تمھاری غیر حاضری پر کڑھتا ہو، لیکن یہ بات مجھ سے چھپانے والی تو نہیں۔ کچھ اور ہی معاملہ لگتا ہے۔‘‘ اس نے چٹکی بجا کر اپنی بیڑی کی راکھ فرش پر جھٹکی۔

نذیر اب تک محویت سے اس کی باتیں سنتا رہا تھا۔ وہ وہ اس کیفیت سے نکل کر، اس کے قریب جا کر راز داری سے سے کہنے لگا، ’’چاچا غفور پہلے ایسا نہیں تھا۔ آج تو اس نے رحیم سناروالی بات پر صبح صبح میری دھنائی کر دی۔‘‘

یہ سن کر کاریگر داڑھی کھجا کر زور سے ہنسنے لگا۔ ’’مجھے کل ہی لگ رہا تھا کہ وہ گھر جا کر تمھیں نہیں چھوڑے گا۔ میں نے کل اسے بہت سمجھایا تھا کہ جوانی میں ہر آدمی دل لگی کرتا ہے۔ بلکہ اس نے خود کیا کچھ نہیں کیا، اور ابھی تک کرتا پھر رہا ہے۔‘‘

’’یعقوب، مذاق مت کرو۔ چاچا ایسا آدمی نہیں‘‘وہ ہچکچاتے ہوئے بولا۔

’’ارے تمھیں کیا معلوم! وہ تو شادی بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے کہ اسے ایسا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس نے لڑکپن میں ہی لیڈیز کپڑوں کا کام سیکھ لیا تھا اور اس زمانے میں تو عورتیں بھی گھروں سے کم ہی نکلتی تھیں۔ غفور کا باتیں کرنے کا انداز اتنا میٹھا ہوتا تھا کہ جو عورت اس کے ساتھ ایک یا دو مرتبہ بات کر لیتی، وہ اسی وقت اس کے شیشے میں اتر جاتی۔ جب کبھی وہ کسی کے کپڑے پہنچانے اس کے گھر جاتا تو دروازے ہی پرہی دو تین جملوں میں اس نازنین کا دل جیت لیتا۔ اس کی بے شمار راتیں گلیوں میں بھاگتے، دیواریں پھلانگتے اور معشوقاؤں کے گھروں چھتیں ٹاپتے گزرتی تھی۔ کبھی اس کی کسی محبوبہ کا بھائی تو کبھی کسی کا شوہر یا باپ نیند سے اٹھ جاتا۔ ہر بار وہ اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر اپنی جان بچا کر بھاگ نکلا۔ صرف ایک مرتبہ وہ بہت برے طریقے سے پھنس گیا تھا اور اسے پورا ہفتہ حوالات میں گزارنا پڑا تھا۔ ہوا کچھ اس طرح تھا کہ میروں کے محلے میں ایک درزی تھا سائیں بخش۔ تین سال پہلے وہ مرگیا۔ غفوراس کی دکان پر کام کرتا تھا۔ دکان کی چابیاں ہمیشہ اسی کے پاس ہوتی تھیں۔ دکان والی گلی میں ایک بیوہ رہتی تھی۔ وہ غفور پر جان دیتی تھی۔ ایک شام اس نے بیوہ کو دکان پر بلوا لیا اور دکان کا شٹر گرا کر اس سے ملنے لگا۔ کسی نے بیوہ کو اندر گھستے ہوئے دیکھ لیا تھا، جس کی وجہ سے باہر شور مچ گیا۔ شٹر اٹھا تو لوگوں نے بیوہ کو تو جانے دیا مگر تمھارے چاچے کو تھانے میں بند کروا دیا۔‘‘ یعقوب کاریگر یہ باتیں سنانے کے بعدہنسی میں لوٹنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اسے محسوس ہوا کہ اس نے اس کے بھتیجے کو کچھ زیادہ ہی بتا دیا۔ یہ سوچ کراس نے فوراً سنجیدگی اختیار کر لی۔

نذیر اس کی باتیں سن کر بہت محظوظ ہوا۔

’’وہ میرا استاد ہے، مگر اب اسے خدا جانے کیا ہوا ہے، وہ مرجھاتا جا رہا ہے‘‘وہ افسردہ ہو کر بولا۔

کاریگر کے خاموش ہوتے ہی نذیر اپنی نشست پر جا بیٹھا اور پھر سے سلائی کے کام میں مصروف ہو گیا۔ اس کے بعدسارادن انھوں نے کوئی خاص بات نہیں کی۔

شام سے ذرا پہلے غفور چاچا بکھرے ہوئے بالوں اور گرد میں اٹے ہوئے چہرے کے ساتھ دکان میں داخل ہوا۔ اپنی تھکاوٹ اور اضطراب چھپانے کے لیے اس نے ہنس کر ان سے دوچار باتیں کیں۔ یعقوب کاریگر نے اس سے رانی پور جانے کا سبب پوچھا تو اسے ٹالنے کے لیے اس نے گول مول جواب دے دیا۔ نذیر کو پتا چل گیا کہ وہ اس سے جھوٹ بول رہا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ چاچا غفور سے اجازت لے کر دکان سے چلا گیا۔

نذیر شام ڈھلنے سے کچھ دیر پہلے نہر کنارے واقع چائے خانے پر پہنچا تو وہاں پکوڑا فروش کو اپنا منتظر پایا۔ وہ چائے پینے کا خواہشمند تھا مگر نورل نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا۔

وہ تاریک گلیوں میں چلتے ہوئے قصبے کے شمال میں واقع ایک مے خانے میں پہنچے۔ اندرون سندھ کے بیشتر گوٹھوں اور قصبوں میں ایسے مے خانے عموماً مزاروں اور درگاہوں کا حصہ ہوتے ہیں، مگر قابلِ تعظیم سادات گھرانے کے معتقدین کی بڑی تعداد نے پنجتن پاک سے منسوب مخصوص نشان سے آراستہ بڑے بڑے سیاہ علم لگا کر مختلف جگہوں پر ایسے مے خانے قائم کر رکھے ہیں۔ یہاں چرس اور بھنگ کے موالیوں کا ڈیرہ رہتا ہے۔ یہاں آنے والے ہر خاص و عام کی تواضع بھنگ اور چرس سے کی جاتی ہے۔ یہاں سادات گھرانے سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ لاہوتیوں کو خاص احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ مے خانے عموماً کسی قسم کی شان و شوکت اور آرائش سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ موالی نشے کی جھونجھ میں سادات گھرانے کی قربانی، ان کے ساتھ ہونے والے مظالم، ان سے منسوب کرامات اور معجزات کا ذکر بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں۔

وہ دونوں کسی دروازے کے بے نیاز ایک مختصر سے احاطے میں داخل ہوئے جس کے اطراف دیواروں کے بجائے سوکھی شاخوں اور جھاڑیوں کی باڑھ تھی۔ یہاں کی زمین کچی مگر ہموار تھی۔ احاطے کے بیچوں بیچ مٹی کے چبوترے پر نصب ایک موٹے سے بانس پر سیاہ علم لگا تھا، جس پر پنجتن پاک کی نسبت سے مخصوص پنجے کی شکل کا نشان بنا ہوا تھا۔ اس کے اوپر ایک بلب روشن تھا، جس کی پھیکی سی روشنی میں ہوا سے لہراتا ہوا علم دکھائی دے رہا تھا۔ نیچے چبوترے پر دو چراغ جل رہے تھے جن کی لویں ہوا کے جھونکوں سے لرز رہی تھیں۔

احاطے کے ایک کونے میں گھاس پھوس کی ایک جھونپڑی سے بار بار موالیوں کے نعرے بلند ہوتے سنائی دے رہے تھے۔ جھونپڑی میں داخل ہوتے ہی نورل نے بھی نعرۂ حیدری بلند کر کے اپنی آمد کا اعلان کیا۔ کشادہ سی جھونپڑی کے عین وسط میں چھوٹے سے گول دائرے میں آگ میں مختصر سا الاؤ روشن تھا، جس کے گرد پندرہ بیس موالی حلقہ بنائے بیٹھے تھے۔ ان کے قریب ہی ان دونوں کو زمین پر بچھی پیال پر بیٹھنے کی جگہ مل گئی۔ اس وقت وہاں چرس کی سلفی کا دور چل رہا تھا اور پوری جھونپڑی چرس کے دھوئیں اور بو سے بھری ہوئی تھی۔

موالیوں نے آس پاس ہٹ کر انھیں الاؤ کے قریب ہو کر بیٹھنے کے لیے جگہ دی۔ نذیر نے جیب سے پچاس روپے نکال کر ایک موالی کو دیے اور اسے بھنگ اور چرس لانے کے لیے کہا۔ وہاں بیٹھے موالی اس کی سخاوت سے متاثر ہوئے اور نورل سے پوچھ پوچھ کر تعارف حاصل کرنے لگے۔ نذیر عام طور پر زیادہ گفتگو نہیں کرتا تھا مگر ان بیکار لوگوں کے بیچ بے دھڑک بولنے لگا۔

الاؤ کے گرد بیٹھے لوگوں کے چہرے نشے کی کثرت سے سوجے ہوئے تھے اور ان کی آنکھیں گہری سرخ ہو رہی تھیں۔ نذیر کے تعارف کے بعد وہ سب ایک دوسرے پر تصوف کی جھوٹی سچی باتیں جھاڑنے لگے۔ ہر آدمی زیارتوں اور مزاروں کے قصّے سنارہا تھا، جن سے نذیر کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وقفے وقفے سے کسی درگاہ کا کوئی بھولا بھٹکا درویش ادھر آ نکلتا تومے خانے کی رونق اور بڑھ جاتی۔

نذیر نے اپنے نشے کی حد سے تجاوز کرتے ہوئے بھنگ کے دو گلاس چڑھائے اور گاہے بگاہے چرس کی سلفی کے کش بھی کھینچتا رہا۔ اسے خود پر اعتماد تھا کہ نشے کی زیادتی کے باوجود نہیں بہکے گا۔ جب اس نے بہت زیادہ نشہ کر لیاتواس کے دل میں کسی سے بھی بات کرنے کی خواہش یکسر ختم ہو گئی۔ الاؤ کے گرد بیٹھے ملنگوں کی بے سروپالن ترانیوں پر وہ بار بار اپنا سر دھنتا رہا۔ دھیرے دھیرے اس کی سماعت کے در بند ہونے لگے اور وہ ان کی آوازوں سے دور ہو تا چلا گیا۔ وہ یوں ہی خالی خالی نظروں سے موالیوں کے چہروں کو دیکھنے لگا۔ الاؤ کی مچلتی اور تلملاتی لپٹوں کی روشنی میں وہ سب کے سب اسے اس وقت بد روحوں جیسے معلوم ہونے لگے تھے۔ ان کے چہروں کی تمام سرخی ان کی آنکھوں میں سمٹ آئی تھی۔

جھونپڑی سے باہر گہری رات پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی نظر جھونپڑی میں داخل ہونے کے لیے بنے چوکھٹے پر ٹھیر گئی۔ آسمان پر ٹمٹماتے ہوئے تارے اسے صاف دکھائی دیے۔ اس نے ایک حواس باختہ شخص کو زور سے زمین پر پاؤں پٹختے ہوئے دیکھا اور ایک جھرجھری سی لی۔ ذرا فاصلے پر نورل جو گی بیٹھا تھا۔ نذیر نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے اسے چلنے کا اشارہ کیا۔ وہ اپنے کپڑے جھاڑتا ہوا پیال سے اٹھا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر مے خانے کے موالیوں کو اللہ وائی کہا اور ڈگمگاتے ہوئے قدموں سے جھونپڑی سے باہر چلا گیا۔

وہ دونوں لہرا تے ہوئے آہستگی سے قدم اٹھاتے ہوئے گلیوں میں چلنے لگے۔ رات کا پہلا پہر ابھی ختم نہ ہوا تھا مگر قصبے کی گلیوں اور سڑکوں سے زندگی ختم ہو گئی تھی، لیکن نذیر کو شب کے تیسرے پہر کا شدت سے انتظار تھا۔ وہ مضطرب تھا مگر اس نے رستے بھر نورل سے کوئی بات نہ کی۔ وہ بار بار اپنے تخیل میں ایک دیہاتی حویلی کی خوابگاہ میں حجاب سے بے نیاز شمیم کے بدن کے مہین خدوخال دیکھ رہا تھا، جو بے قراری سے وہاں اس کے لیے منتظر تھی۔ وہ اس کے ساتھ اپنی گزشتہ بے ڈھب ملاقاتوں کو یاد کرتا رہا۔ اس کے ہاتھوں کی انگلیوں کی پوریں اس کے اعضائے بدن کے لمس اور اس کے ہونٹ اس کے لبوں کے نرم گرم بوسوں کے لیے مچل رہے تھے۔ اس کے گزشتہ لمس اور پرانے بوسوں میں لذت و سرور سے زیادہ افسوس اور تشنگی شامل تھی۔

گلیوں سے گزرتے ہوئے نورل اسے مختلف نصیحتیں کرتا رہا۔ ’’اس کے گھر پہنچنے کے لیے گاؤں کے اندرونی راستوں سے جانا تمھارے لیے ٹھیک نہیں ہو گا۔ اس نے جو بندوبست کیا ہے اس سے لگتا ہے وہ ذہین عورت ہے۔ اس لیے اس نے تمھاری آمد کے لیے پچھلے راستے کو منتخب کیا۔ اور دیکھو! اگر کوئی گڑبڑ ہو جائے تو تم اسی راستے سے باہر نکلنا۔ مولا مشکل کشا تمھاری مدد کرے گا۔‘‘

’’نورل!اب مجھے وہاں جانے سے کوئی خوف نہیں‘‘نذیر نے اعتماد سے کہا۔

پکوڑا فروش نے چلتے چلتے جماہی لی۔ ’’مگر یاد رکھنا! کسی کے گھر میں گھس کر اس کی عورت سے ملنا اتنا آسان نہیں۔‘‘

اپنے گھر والی گلی کے کونے پر پہنچ کر ہاتھ ملاتے ہوئے کر اس نے نورل سے کہا، ’’تم اسی پرانی جگہ پر میرا انتظار کرنا۔ میں بالکل ٹھیک وقت پر پہنچ جاؤں گا۔‘‘

 

دروازے میں ہاتھ ڈال کر کنڈی کھول کر وہ گھر میں داخل ہوا اور ہولے ہولے چلتا ہوا برآمدے میں اپنی چارپائی تک پہنچا۔

چاچی خیر النسا نے شاید اس کی آہٹ سن لی۔ اسی لیے وہ کمرے سے باہر نکل آئی۔ چاچا غفور کے خراٹے برآمدے میں نذیر کو بھی سنائی دے رہے تھے۔

اسے دیکھ کر نذیر حیران ہوا مگر اپنی حیرت چھپاتے ہوئے کہنے لگا، ’’میں نے دروازے پر کنڈی لگا دی ہے۔ معاف کرنا میری وجہ سے تیری نیند ٹوٹ گئی۔ تو دوبارہ جا کر سوجا۔ میں خود ہی روٹی نکال کر کھا لوں گا۔‘‘

خیر النسا نے اپنے چہرے سے بال ہٹاتے اور سر پر چادر اوڑھتے ہوئے کہا، ’’میں نے تیرے لیے آج روٹی نہیں پکائی، اور سالن بھی تو گرم کرنا ہو گا۔‘‘

یہ بات یکسر خلافِ معمول تھی اس لیے اسے شدید حیرت ہوئی، لیکن وہ چپ سادھے رہا۔ وہ جماہی لیتی ہوئی باورچی خانے کی طرف چلی گئی۔

نذیر نے برآمدے کا بلب روشن کر دیا اور دوبارہ آ کر چارپائی پر بیٹھ گیا اور وہاں سے بیٹھے بیٹھے کمرے میں جھانک کر چاچے کی طرف سے ایک بار پھر اطمینان کرنے لگا۔ پھر وہ اٹھ کر غسل خانے میں جا کر ہاتھ منھ دھونے لگا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ چاچی کو اس کے نشے کے بارے میں کچھ معلوم ہو۔

وہ دھیرے دھیرے چلتا باورچی خانے میں داخل ہوا اور چولھے کے پاس رکھی پیڑھی پر جا بیٹھا۔ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اس نے دھیمے لہجے میں کہنا شروع کیا: ’’ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ میں جب سے یہاں آیا ہوں تُو میرا بہت خیال رکھتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تُو میری دور کی رشتے دار بھی نہیں لگتی۔ جو میرے رشتے دار ہیں، وہ سب کے سب مجھے گالیاں دیتے ہیں۔ میر پور ماتھیلو میں تھا تو وہاں ابا اور بھائی مجھے گالیاں دیتے تھے۔ اور یہاں پر میرا چاچا دیتا ہے۔ میں نے اچھی طرح سوچ لیا ہے کہ تھوڑے ہی دن میں ٹھری میرواہ بھی چھوڑ کر چلا جاؤں گا، اور کسی ایسی جگہ جاؤں گا جہاں سے کسی کو میری کوئی خبر نہیں مل سکے گی۔ ۔ آخر مجھے تو ہی بتا، کیا میں بہت خراب ہوں ؟کیا میں واقعی بہت برا شخص ہوں ؟‘‘کہتے کہتے وہ اچانک خاموش ہو گیا۔

اس کے کہے ہوئے جملوں نے چاچی کے دل پر بہت اثر کیا۔ وہ اس کے لیے پہلے سے جو ہمدردی محسوس کر رہی تھی اس کی یہ باتیں سن کراس میں اضافہ ہو گیا۔ آج کا تمام دن اس نے نذیر کے بارے میں سوچتے ہوئے گزارا تھا۔ اس نے پہلی بار اپنے ذہن میں اس کے لیے ابھرنے والی جذبات کی رو کو دبایا نہیں تھا۔ اپنے شوہر کے نامناسب طرزِ عمل پر وہ اسے جی ہی جی میں ملامت کرتی رہی تھی اور اسے مسترد کرتی رہی تھی۔ وہ بھی چاہتی تھی کہ نذیر سے صرف ایک بار ہی سہی مگر کھل کر بات کرے۔

اس نے اندازہ لگا رکھا تھا کہ شاید وہ اس سے کبھی کوئی بات نہ کرے، کیونکہ وہ اس کے گھر میں مہمان کی حیثیت سے رہتا تھا اور ان کے رشتے کی نوعیت بھی بے حد حساس تھی۔ اس نے سوچ کر خود سے ہی طے کر لیا تھا کہ بات کرنے میں وہ پہل کرے گی۔ نذیر کی اس کے لیے دلچسپی کے متعلق اسے اب پورا یقین ہو چکا تھا۔ وہ اس بات کا بخوبی اندازہ لگا چکی تھی کہ وہ ہار اب بھی اسی کے پاس تھا اور وہ موقع محل دیکھ کر اسے دینا چاہتا تھا مگر صبح کو پیش آنے والے واقعے کی وجہ سے اس نے جھوٹ بول دیا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ اپنے لیے بنوایا جانے والا ہار دیکھے اور اسے اپنے گلے میں سجائے۔

مگر۔ ..اس کے ہونٹوں سے ٹھری میراہ چھوڑ کر جانے کی بات سن کر وہ دھک سے رہ گئی تھی۔ اس کی افسردگی دیکھ کر وہ بھی آزردہ خاطر ہو گئی تھی۔ کاش وہ اسے بانہوں میں بھر سکتی اور اس کے لبوں کو چوم چوم کر اس کا غم اپنے اندر جذب کر سکتی۔

وہ کسمساتے ہوئے بولی، ’’دیکھ! تیرے چاچے کو بدگمانی اور غلط فہمی ہو گئی تھی، مگر تُو نے اس کا شک دور کر کے اسے مطمئن کر دیا۔ میں نے بھی اس سے بہت کچھ کہا سنا۔ اس کے بارے میں ایک بات میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ وہ دل کا برا نہیں ہے۔ تم اسے چھوڑ کر نہیں جاؤ گے، ورنہ وہ ٹھری میرواہ میں اکیلا رہ جائے گا۔‘‘

نذیر غور سے اس کی طرف دیکھتا اس کی باتیں سنتا رہا۔

چاچی خیر النسا نے مزید کہا، ’’میں اپنی شادی سے پہلے تمھاری رشتے دار نہیں تھی مگر اب تیری چاچی لگتی ہوں۔ اگر تم میری عزت کرتے ہو تو میرواہ چھوڑ کر نہیں جاؤ گے۔ نہیں جاؤ گے نا؟‘‘

وہ جواب میں کچھ نہیں بولا۔ اپناسرجھکائے چپ چاپ روٹی کا نوالہ چباتا رہا۔

وہ نذیر سے مثبت جواب سننا چاہتی تھی مگر اس کی خاموشی سے وہ تلملا کر رہ گئی۔

’’میں اسے اچھی طرح سمجھاؤں گی۔ آج کے بعد وہ تجھے کچھ نہیں کہے گا‘‘وہ پیڑھی پر بیٹھی بیٹھی پہلو بدل کر بولی۔

’’بس چاچی، میں نے فیصلہ کر لیا ہے !‘‘نذیر نے حتمی بات کہہ دی۔

اس کی خموشی کو اس کا اٹل فیصلہ سمجھ کر چاچی خیر النسا چپ ہو گئی اور اذیت بھرے سانس لینے لگی۔

نذیر نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا تو وہاں اسے کرب کی خفیف سی لہر دکھائی دی۔

وہ رہ رہ کر سوچ رہی تھی کہ اس کے جانے بعد کیا ہو گا۔ اس کے بغیر اپنے بنجر ماہ و سال کا خیال اسے بہت ہولناک محسوس ہو رہا تھا۔ زندگی پھر ویسی ویران اور بے مزہ ہو جائے گی جیسی کہ پہلے تھی۔

نذیر دل ہی دل میں سوچ رہا تھا: ’’یہ آخر رات کے اس پہر یہاں کیوں بیٹھی ہے ؟ اپنے کمرے میں جا کرسو کیوں نہیں جاتی؟‘‘

خیر النسا نے دونوں بازو پھیلا کر انگڑائی لی تو وہ خود کو اس کے سینے کے پرکشش ابھار دیکھنے سے نہیں روک سکا۔ وہ ہٹ دھرمی سے اس کے بدن کا جائزہ لیتا رہا۔ اس کی رانوں سے چپکی ہوئی شلوار اور اس کے ابھرے ہوئے پیٹ کو دیکھ کر اسے محسوس ہوا کہ وہ اگر چاہے تو صرف لمحے بھر میں اس سے ہمکنار ہو سکتا تھا۔ شاید وہ اسی خاطر وہ اب تک یہاں بیٹھی تھی۔

کچھ دیر بعد وہ جھرجھری سی لیتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی، ’’کیا تُو واقعی ہمیشہ کے لیے میرواہ سے چلا جائے گا؟‘‘

نذیر اس کی تشویش پر مسکراتے ہوئے اٹھا اور نفی میں سرہلاتے ہوئے باورچی خانے کے دروازے تک گیا۔ وہ اس کی مسکراہٹ اور اس کے اٹھ کر جانے کو نہیں سمجھ سکی۔ وہ دو لمحوں تک باہر جھانکنے کے بعد پلٹ آیا اوراس کے نزدیک آ کھڑا ہوا۔ ’’نہیں جاؤں گا۔ میں یہاں سے کبھی نہیں جاؤں گا۔ اور وہ بھی صرف تیری خاطر۔‘‘

اس کا جواب سن کر وہ ضبط کی کوشش کے باوجود ہنسنے لگی۔ ’’تو مجھے تنگ کرنے کے لیے یہ بات کر رہا تھا۔ جانتی ہوں تجھے !‘‘

نذیر اس کے قدموں کے قریب بیٹھ گیا۔ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اس نے اس کے ہاتھ تھام لیے اور انھیں بے طرح چومنے لگا۔ اپنے ہاتھوں پراس کے بوسوں کو محسوس کر کے وہ لرز کر رہ گئی۔ اس کے وجود پر چڑھا ہوا کوئی پرانا میل اتر رہا تھا اور اس کے بدلے اس کے وجود پر ایک انوکھا اور منفرد رنگ چڑھتا جا رہا تھا۔ اس نے کچھ دیر کے لیے کبوتر کی طرح آنکھیں میچ لیں۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ اسے ہلکا سا دھکا دے کر اپنے ہاتھ چھڑا کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔

دھکا لگنے سے وہ لڑکھڑا گیا۔ مگر اگلے ہی لمحے سنبھل کر وہ تیزی سے آگے بڑھا اور اس نے خیر النسا کو اپنے بازوؤں میں سمیٹ لیا۔ دونوں کے بدن کچھ دیر کے لیے ایک وجود معلوم ہونے لگے۔ وہ اس کے شانے کو چومتا ہوا اس کے چہرے تک پہنچا اور والہانہ انداز سے اس کے ہونٹوں پر بوسہ باری کرنے لگا۔ وہ اسے خود سے الگ کرنے کی کوشش کرتی رہی۔

نذیر نے اس کی سماعت میں شیریں سی سرگوشی کرتے ہوئے کہا، ’’میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ میں تم سے پیار کرتا ہوں۔ تم بہت اچھی ہو۔‘‘

وہ اس کے بوسوں کا جواب دینے کے بجائے کسمسارہی تھی اور دھیرے دھیرے کہہ رہی تھی۔ ’’وہ جاگ جائے گا۔ وہ جاگ گیا تو بہت برا ہو گا۔ میں جاتی ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے نذیر کو اپنے آپ سے الگ کیا اور تیزی سے وہاں سے چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد وہ باورچی خانے میں کھڑا کچھ دیر تک اپنی بپھری ہوئی سانسیں درست کرتا رہا۔ پھر وہ جا کر برآمدے میں کھاٹ پر لیٹ گیا۔

لیٹے لیٹے وہ حیرت سے مسکرایا، پھر آہستگی سے ہنسنے لگا۔ وہ حیران تھا کہ اتنی بڑی انہونی آخر کیسے ہو گئی؟ مگر جو کچھ بھی ہوا وہ اچانک اور اس کے کسی ارادے کے بغیر ہوا تھا۔ اس نے اس کی دست درازی کا برا نہیں مانا۔ اس نے کسی خفگی کا اظہار بھی نہیں کیا۔ اپنی اس غیر متوقع کامیابی پر خوش ہوتے ہوئے اس نے اندھیرے میں اپنے ہاتھوں کو دیکھا اور انھیں اپنے ہونٹوں کے پاس لے جا کر چومتے ہوئے ان میں چھپے لمس کو محسوس کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے سوچا کہ اس کی زندگی میں چند اور خوشگوار لمحوں کا اضافہ ہو گیا۔ وہ مدت سے ایسی عورت کی تلاش میں سرگرداں تھا جو چند لمحوں کے لیے سہی، اس کے لیے اپنے جسم کی آغوش وا کر دے۔ وہ مستقبل سے وابستہ اپنی توقعات کے بارے میں سوچ سوچ کر لذت کشید کرنے لگا۔

آج کی رات اس کی زندگی کی سب سے خوش نصیب رات تھی۔ دو طرف سے اس پر لطف و کرم کی پھوار گرنے لگی تھی۔ یہ پھواراس کے بے قرار اعضائے بدن کو قرار دے رہی تھی۔ وہ چارپائی سے اتر کر صحن میں آ گیا۔ اس کی نگاہ اٹھ کر آسمان پر گئی اور وہاں چمکتے ہوئے ستاروں پر بھٹکتی رہی۔ ہر ستارہ اسے آج خوشی کا چراغ معلوم ہو رہا تھا۔ اس کا رنگ، اس کی چمک گویا کسی شادمانی کا اظہار کر رہی تھی۔ اس نے اس گھر کے در و دیوار سے ملحقہ مکانوں کے ابھرے ہوئے نوکدار سایوں کو دیکھا۔ رات کے اس پہر ہر مکان خاموشی اور تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اور تمام کھڑکیاں اور روشندان بند تھے۔

ٹہلتے ٹہلتے اسے چاچے غفور کا خیال آیا۔ وہ اس کی لاعلمی پر دھیرے دھیرے ہنسنے لگا، مگر اگلے ہی لمحے اس نے خود کو ملامت کرتے ہوئے اس عجیب و غریب انتقام پر حیران ہونے لگا۔ اس نے اپنے دل میں چاچے کے لیے ہمدردی محسوس کی۔ اس نے گناہ کے شدید احساس کو ذہن سے نکالنے کی کوشش کی۔ خود کو سمجھایا کہ یہ سارا معاملہ اس کی مرضی کے بغیر خود بہ خود طے ہوا ہے۔ اس نے اس راز کے کھلنے کی صورت میں اپنے لیے منتظر بدنامی اور ذلت کے بارے میں سوچاتواس کے جی میں آیا کہ اسی وقت دروازہ کھول کر کمرے کے اندر گھس جائے اور بوڑھے درزی کو ہلاک کر دے۔

جو گیوں کے گوٹھ جانے کا خیال کچھ وقت کے لیے اس کے ذہن سے محو ہو گیا تھا۔ اسے شمیم یاد آئی تو چونک پڑا۔ اس نے گھڑی پر وقت دیکھا۔ ابھی اس کے گھر سے نکلنے میں پون گھنٹہ باقی تھا۔ پچھلی مرتبہ کی طرح اس بار بھی یہ سفر اسے دشوار گزار معلوم ہو رہا تھا لیکن وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اس کے لیے یہ سفر ناگزیر ہو چکا ہے۔

کچھ دیر آرام کرنے کے بعد وہ چارپائی سے اٹھا اور پہلے کی طرح اپنے تکیے کو رضائی کے نیچے رکھ کر اسے اس کے اوپر بچھا دیا۔ چپل پہن کر وہ دھیرے دھیرے دروازے کی طرف بڑھا۔ دہلیز پار کرنے کے بعد اس نے باہر سے دروازے پر کنڈی لگائی اور چل پڑا۔ وہ محتاط انداز میں دبے پاؤں چلتا ہوا مختلف گلیوں سے گزرا۔ اس نے مختلف جگہوں پر تعینات چوکیداروں کی سیٹیوں کو سنا تو اس کے حوصلے خطا ہونے لگے۔ ایک گلی میں داخل ہوتے ہی آپس میں گتھم گتھا دو آوارہ کتے اچانک اس کے سامنے آ گئے۔ اس کی سانسیں لمحہ بھر کے لیے ساکت ہو گئیں۔ ان کی چیخوں میں وحشت کے ساتھ ساتھ دہشت بھی تھی۔

ابھی بمشکل آدھا راستہ طے ہوا تھا۔ وہ چلتے ہوئے چاروں سمتوں میں بار بار دیکھتا رہا۔ جوں جوں راستہ کٹ رہا تھا، اس کے قدموں میں ایک عجیب سی ڈگمگاہٹ آتی جا رہی تھی۔ اسے اپنے پورے وجود میں ڈر پھیلتا محسوس ہو رہا تھا۔ا ایک بجلی کے کھمبے کے سائے سے خوف کھا کر اس نے لوٹ جانے کے بارے میں سوچا۔ چلتے چلتے وہ ٹھٹک کر رکا، مگر پھر دھیمی رفتار سے آگے بڑھنے لگا۔

اسے بار بار یہ خیال ستا رہا تھا کہ کسی لمحے کوئی شخص اچانک اسے پکڑ لے گا اور اسے چور یا ڈاکو سمجھ کر پولیس اسٹیشن لے جائے گا۔ وہ ہر مکان کے دروازے کو غور سے دیکھتا ہوا گزر رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ اچانک سب کے سب مکانوں کے دروازے بھک سے کھل جائیں گے اور وہاں سے اچانک بہت سے لوگ باہر نکلیں گے اور اسے ہلاک کر ڈالیں گے۔ اس نے خود کو ملامت کی کہ آج کی شب اس نے بھنگ اورچرس کا استعمال ضرورت سے کچھ زیادہ ہی کر لیا۔ اسی وجہ سے اس کا ذہن واہموں اور وسوسوں سے بھر گیا تھا۔ ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے وہ تیز رفتاری سے چلنے لگا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا تو اسے حیرت ہوئی۔ اسے اپنے گھر سے خوش باش نظر آنے والے ستارے یکسر تبدیل ہو گئے تھے اور وہ بھی آنکھیں مچمچاتے ہوئے اسے کینہ توز نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اسے لگ رہا تھا، زمیں و آسمان کے تمام مظاہر اور مناظر آج کی رات اس کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔

وہ نہر کے کنارے پہنچا تو سردی کا احساس شدت اختیار کر گیا، مگر آج وہ سویٹرکے اوپر جرسی پہن کر آیا تھا۔ اس کے گلے میں مفلر بھی تھا مگر اس کے باوجود درختوں کے قریب سے گزرتے ہوئے وہ ٹھنڈسے کپکپانے لگا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے نہر کے پل تک پہنچا۔ یہاں ہر چیز دھند میں اٹی ہوئی تھی اور کہرا پڑ رہ تھا۔ پل کے نیچے سے گزرتا پانی مدھم سی سرگوشیاں کر بہہ رہا تھا۔ اس نے پل کی دیوار پر اپنا ہاتھ رکھا تو اس کا ہاتھ گیلا ہو گیا۔ پل سے نیچے اترنے سے پہلے اس رک کر گرد و پیش کے منظر پر نظر دوڑائی۔ گہری تاریکی کے باوجود ایک مدھم سی روشنی سارے میں پھیلی ہوئی تھی۔ پل سے نیچے اتر کر وہ کچھ دیر کچی سڑک پر چلتا رہا۔ اس کے بعد وہ داہنے ہاتھ پر واقع کھیتوں کے اندرگھس گیا اور گیلی گھاس پر پاؤں جما کر چلنے لگا۔ کچھ آگے جا کر وہ ٹھہر گیا اور پکوڑا فروش کو آواز دینے لگا۔ اس نے آس پاس بہت غور سے دیکھا۔ اسے نہ کہیں سے اٹھتا ہوا دھواں نظر آیا اور نہ ہی فضا میں چرس کی خوشبو محسوس ہوئی۔ وہ ہاتھ سے جھاڑیوں کو ٹٹولتا رہا مگر نورل اسے کہیں بھی نہیں ملا۔

اس نے انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ایسی جگہ کھڑا ہو گیا جہاں سے اسے پُل آسانی سے دکھائی دے۔ بہت وقت گزرنے کے بعد بھی کوئی نہیں آیا۔ وہ مخمصے میں تھا۔ اسے اپنے دوست سے اس بات کی توقع نہیں تھی۔ وہ اس پر ہمیشہ اندھا اعتماد کرتا رہا تھا۔

ملاقات کے لیے مقررہ وقت میں تھوڑی دیر باقی تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ ہو سکتا ہے شمیم نے اس کے لیے دروازہ کھول دیا ہو، مگر رہ رہ کر اسے پکوڑا فروش کی دغا بازی تنگ کر رہی تھی۔ اس کے بغیر وہ خود کو بے آسرا اور بے بس محسوس کر رہا تھا۔ وہ گومگو کے عالم میں کچھ دیر وہیں کھڑا رہا۔ پچھلی بار بھی وہ اسی کے سہارے وہاں تک چلا گیا تھا، مگر آج وہاں تک جانا اسے پُرخطرمحسوس ہو رہا تھا۔ اس کا ذہن اسے بار بار وہاں سے چلے جانے کے لیے کہہ رہا تھا مگر اس کا دل اس کے قدم روکے ہوئے تھا۔ رہ رہ کر اسے شمیم کا مخملیں بدن یاد آ رہا تھا۔ اس کی یاد کی کشش خودبخود اس کے قدموں کو اپنی طرف کھینچنے لگی۔

وہ چاروں طرف سے کماد کی فصل میں گھرا ہوا تھا۔ اِدھر اُدھر نظر ڈالنے پر اسے ایک پگڈنڈی دکھائی دینے لگی اور وہ اس پگڈنڈی پر چلنے لگا۔ کچھ آگے جا کر وہ فصل سے باہر نکلا۔ احتیاط سے آس پاس دیکھتے ہوئے اس نے گوٹھ کی جانب جانے والا راستہ عبور کیا اور اس طرف کھڑی فصل کے اندر چلا گیا۔ فصل کے درمیان چلتے چلتے اسے پانی کی قلقاریاں سنائی دینے لگیں۔ پانی کا نالا قریب ہی واقع تھا۔ کچھ دور جا کر وہ ایک بار پھر کماد کی فصل سے باہر نکلا۔ اور سیمنٹ سے بنے پختہ نالے کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ شرینہہ کے درخت کے پاس پہنچ کر وہ نالے کے کنارے پر بیٹھ گیا۔ آج اس کی سطح اس دن سے بھی زیادہ ٹھنڈی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ ٹھنڈ سے کانپنے لگا تھا۔ نورل کی غیر حاضری پر اسے جی ہی جی میں غصہ آ رہا تھا۔ اس کا ذہن اب بھی اسے واپس جانے پر اکسا رہا تھا۔ وہ بار بار اس خیال کو رد کر رہا تھا۔ اس کے دل کہیں یہ خواہش بھی چٹکی لے رہی تھی کہ وہ جا کر حویلی کے اس دروازے کو نزدیک سے دیکھ لے، جہاں سے اس دن شمیم آئی اور گئی تھی۔

اس نے آس پاس نگاہ دوڑائی۔ کماد کی فصل میں یخ ہوا کے جھونکے سرسرا رہے تھے۔ ان کی سرسراہٹ پر اسے بار بار کسی چڑیل کی ہنسی کا گمان گزرتا تھا۔ وہ گردن موڑ موڑ کر اس جانب دیکھنے لگتا تھا۔ اس طرف پانی کے نالے کی لکیر دور تک چلی گئی تھی جبکہ دوسری طرف ایک کھیت خالی پڑا ہوا تھا۔ وہاں اگلے مہینے کپاس کا بیج ڈالا جانا تھا۔

وہ ٹھٹھرتا کانپتا ہوا نالے پر بیٹھا ہوا شمیم سے اب تک ہونے والی ملاقاتوں کو یاد کرتا رہا۔ یاد کی شدت نے اسے اٹھنے پر مجبور کیا۔ وہ اٹھ کر خالی کھیت کی جانب بڑھا۔ کھیت میں چلتے ہوئے اس کے پاؤں کے نیچے سوکھی لکڑیاں چرچرانے لگیں۔

’’وہ شاید آخری مکان میں رہتی ہو گی، نورل جسے بار بار حویلی کہہ رہا تھا‘‘اس نے سوچا۔ وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا اس کے قریب پہنچا اور ارد گرد دیکھنے لگا۔

اسے معاً کسی دروازے کی کنڈی اترنے کی آواز اور پھر اس کی چرچراہٹ سنائی دی۔ چند لمحوں کے بعد ایک دھیمی سی ہشکار اس کے کانوں میں پڑی۔ اس نے شمیم کے سائے کو دروازے سے باہر جھانکتے ہوئے دیکھا تو اطمینان کا لمبا سانس لیا۔ اس کے ذہن سے تمام اندیشے اور وسوسے آناً فاناً مٹ گئے۔ ناہموار زمین پر دھیرے دھیرے چلتا ہوا وہ اس کے قریب پہنچ گیا۔ رات کے تیسرے پہر جب دنیا گھٹا ٹوپ اندھیروں کے فسوں میں لپٹی، نیند کے خمار میں ڈوبی ہوئی تھی، دو پیار کرنے والوں کے سائے ایک دوسرے کے نزدیک آ کر، ٹھٹک کر، رک گئے۔ ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹوں کے جگنو دو لمحوں کے لیے جگمگائے اور انھیں لاحق تشویش کی دھند میں چھپ گئے۔

’’ میں بہت دیر سے تمھاری منتظر ہوں۔ تین بار دروازے سے باہر جھانک کر دیکھا مگر تم نظر نہیں آئے۔ میں پریشان اور مایوس ہو رہی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ تم نہیں آؤ گے۔ شاید تم مجھ سے روٹھ گئے۔ .. یا۔ ..‘‘ وہ دھیمے لہجے میں بات کرتی کرتی رک گئی۔ اس کے لہجے کے اتار چڑھاؤ سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اپنی موجودہ صورتِ حال سے گھبرائی ہوئی ہے اور اسے اپنی باتوں میں ظاہر نہیں کرنا چاہتی۔

نذیر نے آہستگی سے کہنا شروع کیا: ’’میں یہاں بہت پہلے پہنچ جاتا مگر میرا راز دار عین وقت پر آج مجھے دھوکا دے گیا۔ پھر تم جانتی ہی ہو کہ آدھی رات کو قصبے سے نکل کر اس طرف آنا کتنا بڑا جوکھم ہے۔ ہے کہ نہیں ؟‘‘ وہ اپنے استفسار کے بعد شمیم کی طرف دیکھنے لگا۔

وہ جواب دینے سے پہلے دھیرے سے ہنسی۔ اس کی ہنسی کی مدھم سی کھنک نے سناٹے کا سینہ چاک کر دیا۔ ’’جوکھم تو ہے، مگر تم سے زیادہ بڑا جوکھم تو میں مول لیا ہے۔ سنو!میرے سب گھر والے اس وقت گہری نیند سو رہے ہیں۔ تم چیزوں کو دیکھ بھال کر آہستہ آہستہ میرے پیچھے آؤ۔ دیکھو، کسی چیز سے ٹکرا کر گر مت جانا!‘‘اس کے لہجے سے جھلکتی شوخی یہ عندیہ دے رہی تھی کہ وہ اپنی تشویش اور گھبراہٹ پر قابو پاتی جا رہی ہے۔

وہ آگے بڑھی تو نذیر بولایا ہوا سا دروازے کو بھیڑتا ہوا اندر داخل ہوا۔

شمیم نے پلٹ کر اسے دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’سمجھ گئے نا؟آؤ۔‘‘

نذیر نے چند قدم آگے بڑھا کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’کوئی خطرہ تو نہیں ہے ؟‘‘

یہ بات سن کر اس نے بمشکل اپنے آپ کو ہنسنے سے روکا۔ ’’ڈرتے ہو تو یہاں تک آئے کیوں تھے ؟‘‘ یہ کہہ کر وہ آگے چل پڑی جبکہ وہ ہولے ہولے اس کے پیچھے آنے لگا۔

دروازے سے کچھ دور جا کر ایک طویل برآمدہ شروع ہوتا تھا جہاں کئی ستون قطار وار کھڑے تھے۔ برآمدے میں ایک طرف تین کمرے واقع تھے جن کے دروازے بند تھے۔ برآمدے سے گزر کر وہ ایک کشادہ صحن میں آ گئے۔ صحن میں سو کینڈل پاور کے ایک بلب کی پھیکی سی روشنی پھیلی تھی۔ نذیر دبے پاؤں چلنے کی کوشش کر رہا تھا مگر اس کے بے ترتیبی سے پڑتے ہوئے قدم آواز کر رہے تھے، جبکہ شمیم اس طرح بے آواز قدم اٹھا رہی تھی جیسے پانی کی سطح پر چل رہی ہو۔

کشادہ صحن میں چلتے چلتے داہنی طرف واقع ایک بڑے سے چھپر کے نیچے پہنچ کر وہ دونوں ٹھہر گئے۔

’’ میں نے تمھارے لیے بہت پہلے سے ہی چائے تیار کر لی تھی۔ تم یہاں کھاٹ پر بیٹھو۔ میں چائے لے آتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کشادہ صحن کے کونے پر واقع باورچی خانے کی سمت چلی گئی۔

نذیر اسے بلب کی پھیکی روشنی میں جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ وہ اپنے دل و دماغ میں شدید بے قراری محسوس کر رہا تھا۔ اس وجہ سے اس کے لیے بیٹھ جانا ممکن نہیں ہو رہا تھا۔ وہ چھپر کے نیچے دھیرے دھیرے ٹہل کر گھر کا جائزہ لینے لگا۔ یہاں سے اس کی نگاہ پورے گھر کا احاطہ کر رہی تھی۔ اس نے باورچی خانے سے ملحقہ لکڑی کے اونچے سے دروازے کو دیکھا جو شاید گھر میں داخل ہونے کا مرکزی راستہ تھا۔

شمیم کو واپس آتا ہوا دیکھ کر وہ بیٹھ گیا۔ اس نے ایک ہاتھ میں کیتلی اور دوسرے میں دو پیالیاں اٹھا رکھی تھیں۔ چھپر کے نیچے پہنچ کر اس نے پیالیاں کھاٹ پر رکھ دیں اور کیتلی سے ان میں چائے انڈیلنے لگی۔

نذیر خوش دلی سے گویا ہوا، ’’تم نے بہت اچھا کیا کہ اس وقت چائے بنا لی۔‘‘

شمیم چائے کی پیالی اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی، ’’رات میں سردی بہت زیادہ ہوتی ہے اور پالا بھی گرتا ہے۔ اس لیے اس وقت چائے بہت ضروری تھی۔‘‘

’’میں پہلی بار تمھارے ہاتھ سے بنی چائے پیوں گا‘‘ نذیر نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا۔ اس شمیم کی طرف دیکھا تو وہ اپنے سر پر ڈوپٹہ اوڑھے ہوئے بیٹھی تھی۔

’’تم جانتے ہو، مہمان نوازی تو ہماری رگ رگ میں شامل ہے۔‘‘

’’بالکل ٹھیک کہتی ہو‘‘وہ چائے کا گھونٹ لے کر کہنے لگا۔ ’’درازہ شریف میں ہونے والی ملاقات کے بعد میں سمجھا کہ تم ڈر گئیں اور اب مجھ سے ملنا نہیں چاہتی۔‘‘

وہ ہنسی۔ ’’میں تم سے نہیں ملنا چاہتی؟ اچھا! تو تم میرے بارے میں یہ سوچتے رہے ؟ مجھے تاپ چڑھ گیا تھا۔ پورا ایک ہفتہ میں کھاٹ پر بیمار پڑی رہی۔ نوراں نے تمھارے پیغام مجھ تک پہنچائے تو تھے مگر میں نے ملنے سے منع کر دیا تھا۔‘‘

’’ مگر میں تمھاری بیماری کے متعلق کچھ نہیں جانتا۔‘‘

’’میں نے اسے کہا تو تھا کہ وہ اس بارے میں تمھیں بتا دے۔‘‘ وہ بار بار گردن گھما کر برآمدے کی طرف دیکھ رہی تھی۔

’’اس روز تمھارے شوہر کو مجھ پر شک تو نہیں ہوا؟‘‘

وہ کسمساکر بولی، ’’ اسے شک نہیں ہوا۔ ویسے قبرستان بہت خوفناک جگہ ہے۔ قبروں کے درمیان پیار کی باتیں کرنا مجھے عجیب لگ رہا تھا۔ مگر تم مجھے اچھے لگتے ہو اس لیے تم سے ملنے میں وہاں چلی آئی۔‘‘ وہ مسکرائی۔

’’ملنے کے لیے جب کوئی اور جگہ نہیں مل سکی تو قبرستان کا انتخاب کرنا پڑا۔‘‘ وہ پہلی بار ہنسا۔ ’’تمھارے ہاتھوں کی چائے بہت مزے دار ہے۔‘‘

اپنی تعریف سن کر وہ مسکرائی، پھر وہ اسے اپنے شوہر اور اپنے سسرال والوں کے بارے میں بتانے لگی۔ اس کی یہ باتیں سنتے ہوئے نذیر جماہیاں لینے لگا۔ وقفے وقفے سے گوٹھ کے آوارہ کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ چھپر کے کسی کونے میں چھپا ہوا جھینگر مسلسل شور مچا رہا تھا۔

اس کی باتوں کے دوران نذیر نے اپنی جیب سے اس کے لیے بنوایا ہوا ہار نکالا اور اسے ہاتھ میں لہرا کر اسے دکھاتے ہوئے کہنے لگا، ’’میں نے سنارسے تمھارے لیے یہ ہار بنوایا ہے۔‘‘

ہار کو دیکھ کر شمیم اپنی خوشی کو دبا نہ سکی۔ وہ بے ساختہ ہنسنے لگی۔ ’’میرے لیے ؟‘‘

’’ہاں، تمھارے لیے۔ اگر تم اجازت دو تو میں یہ ہار تمھاری گردن میں پہنا دوں۔‘‘

اسے جواب دینے کے بجائے وہ شرمانے لگی۔ نذیر اٹھ کر اس کے نزدیک آ کھڑا ہوا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں ہار تھام لیا اور ذراسا جھک کر اپنے یخ بستہ ہاتھ اس کی نرم گردن تک لے گیا۔ اس کی انگلیاں اس کی مخملیں گردن کو چھونے لگیں۔

اس نے چہرہ جھکا لیا تھا۔ اس کی انگلیوں کو گردن پر محسوس کرتے ہوئے اسے گدگدی سی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ اپنے آپ کو ہنسنے سے مشکل سے روکے ہوئے تھی۔ اس کی بنجر اور بیزار زندگی کے لیے یہ لمحات مسرت و شادمانی سے بھرپور تھے، مگر ساتھ ہی اس کے دل کو گھر کے کسی فرد کے جاگ اٹھنے کا دھڑکا بھی لگا ہوا تھا۔ اسی لیے وہ اپنی خوشی کا دبا دبا اور گھٹا گھٹا سا اظہار کر رہی تھی۔

کم روشنی کی وجہ سے نذیر ہار کی زنجیر بند نہیں کر سکا۔ عاجز آ کراس نے ہار شمیم کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ ’’یہ تم خود ہی پہن لینا۔ ۔ اور اب اپنے پیارے پیارے ہاتھ مجھے دکھاؤ۔‘‘ وہ اس مقابل آ کر زمین پر بیٹھ گیا اور اس کے سمٹے ہوئے نرم ہاتھوں کو اپنے کھردرے ہاتھوں میں لے کر انھیں دبانے لگا۔ پھر انھیں اپنے چہرے پر لے جا کر محسوس کرتا رہا۔ اس کے بعد وہ اس کی ہتھیلیوں کو اپنے ہونٹوں سے چومنے لگا۔

’’ہار نیچے گر گیا‘‘اس نے سرگوشی سے کہا۔

نذیر فوراً اس کے ہاتھوں کو چھوڑ کر، زمین پر جھک کر مٹی میں ہاتھ مارتے ہوئے ہار ڈھونڈنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں وہ اسے مل گیا۔ اس نے اپنی قمیض سے ہار صاف کر کے اسے تھما دیا۔ ’’تم پہن لو ابھی۔‘‘

شمیم نے اس کا کہا مان لیا اور ہار پہن لیا۔ا س کے بعداس نے کیتلی اٹھائی اوراس میں سے چائے انڈیل کر اسے پینے کے لیے دوسری پیالی پیش کی۔ چائے پیتے ہوئے وہ مسلسل اس کی تعریف کرتا رہا۔ شمیم نے جب اس سے ہار کی قیمت دریافت کی تواس نے ہار کی جھوٹی قیمت بتائی۔ زیادہ قیمت کا سن کروہ مرعوب ہوئی اور اسے اپنے زیور ات کے متعلق بتانے لگی۔

اس کی بات کاٹتے ہوئے نذیر نے کہا، ’’آج میں صبح تک تمھارا مہمان ہوں۔‘‘

’’ہاں میرے پیارے۔‘‘

اس مرتبہ نذیراس کے نزدیک ہی بیٹھ گیا اور بیٹھتے ہی اس نے اپنا ہاتھ اس کی کمر کے گرد حمائل کر دیا۔ اگلے ہی لمحے کسی مزاحمت کے بغیر شمیم اس سے لپٹ گئی۔ نذیر کے پیاسے اور خشک ہونٹ شمیم کے نازک اور شیریں لبوں سے زندگی کا رس کشید کرنے لگے۔ وہ اس کے بوسوں کی شدت سے عاجز اور بے بس تھی۔ اس نے آنکھیں زور سے میچ لی تھیں اور اور خود کو اس کے پیار کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی ندی کے دھارے پر چھوڑ دیا تھا، جو اس کے لبوں سے ہوتا ہوا دھیرے دھیرے اس کے وجود کو بھی بھگونے لگا تھا۔ نذیر کا جوش جتنا بڑھتا جا رہا تھا وہ اس کے بازوؤں میں اتنی ہی سمٹتی جا رہی تھی۔ پگھلتی جا رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں دونوں قباؤں سے بھی یکسر بے نیاز ہو گئے۔

پہلی بار کسی عورت کا جسم نذیر کے سامنے پوری طرح کھلا تھا۔ خود کو سنبھالنے کی کوشش کے باوجود اس کی وحشت بے قابو ہوتی جا رہی تھی۔ پہلے پہل وہ ذرا ہچکچا تا رہا تھا۔ پھر اس کے لمس کی حرارت اور بوسوں کی شدت اس کی جانگھوں تک پھیلتی چلی گئی۔

شمیم آنکھیں میچے لمبے سانس بھر رہی تھی۔ اس کا ہر سانس، اس کی ہر سسکی، اس کی ہر لذت بھری آہ، نذیر کی احسان مند تھی۔ اس کی رگوں میں عرصے سے جما ہوا اس کا لہو کسی آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑا تھا۔ اس کی نرم و گداز اندام نہانی گلاب کے پھول کی طرح کھلی ہوئی تھی اور عضوِ خاص کے لیے مچل رہی تھی۔

چھپر کی چھت سے اچانک ایک غراتی اور چیختی ہوئی بلی نذیر کی پشت پر آ گری۔ اسے محسوس ہوا کہ کوئی چڑیل آ کر اس کی پیٹھ سے چمٹ گئی ہے۔ نذیر کا منھ زوردار چیخ کے لیے کھلنے ہی والا تھا کہ شمیم نے اس پر ہاتھ رکھ دیا، مگر اس بیچارے کی روح فنا ہو چکی تھی۔ بلی کے پنجوں نے نذیر کی پشت کو زور سے رگیدا۔ اس کے بعد وہ اس کی پشت سے     کر چھپر کے کونے میں کہیں غائب ہو گئی۔

بلی کے پنجوں کی رگڑ، اس کے جسم کے وزن اور اس کی لجلجاہٹ نے اسے لذت بھرے طلسمی دریاسے نکال کر باہر اچھال دیا۔ وہ چند لمحے نسوانی جسم پر بے سدھ لیٹا رہا۔ اس بدن کے بوجھ سے شمیم کی سانسیں گھٹنے لگیں۔ وہ اس کے نیچے تڑپ رہی تھی اور آہیں بھر رہی تھی۔ دفعتاً نذیر نے اپنا سر اٹھایا اور صحن سے ملحقہ برآمدے کی طرف دیکھا اور گھر کی دیگر اشیا پر بھی نگاہ ڈالی۔ اسے محسوس ہونے لگا کہ نیند اور سکوت میں ڈوبا ہوا گھر اور اس کی تمام چیزیں یک بہ یک بیدار ہو گئی ہیں اور اس بلی کی طرح غراتی ہوئی اس کی جانب لپک رہی ہیں۔ ڈر اور خوف کے سبب اس کے جسم کے ایک ایک عضو میں تشنج کی لہر سی دوڑ گئی۔

شمیم کا ہاتھ اٹھا اور اس کے سر کے بالوں سے اٹکھیلیاں کرنے لگا۔ وہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے دھیرے سے گویا ہوئی، ’’کیا ہوا؟ تم ایک بلی سے ڈر گئے ؟‘‘

نذیر نے سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھا۔ ’’اس نے تو میری جان ہی نکال دی‘‘ اس نے تیز اور طویل سانس کھینچتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے لگا کہ وہ کوئی بلی نہیں، بلکہ کوئی غیر مخلوق ہے۔‘‘ اس کی یہ بات سن کر شمیم افسوس سے سر ہلانے لگی۔

اسے سر ہلاتے دیکھ کر نذیر کو اپنی شکست کا احساس ہونے لگا۔ وہ اپنی خفت مٹانے کے لیے اس پر دوبارہ دراز ہو گیا اور اس کے کانوں کی لووں کے آس پاس کے نرم و گداز علاقے پر اپنے بوسوں کی بارش کرنے لگا۔ مگر اس مرتبہ اس کے بوسوں میں نہ پہلے والی حدت رہی تھی اور نہ ہی وہ شدت۔ پہلے بوسوں کے دوران اس کے انگ انگ پر عجیب سی مستی چھا گئی تھی۔ وہ ایک طائرِ آزاد کے مانند فضائے جسم کے تمام گوشے دریافت کرتا رہا تھا اور نت نئی دریافتوں کے لیے کوشاں تھا، لیکن اب اس کے ہر بوسے سے بیزاری کا احساس نمایاں ہو رہا تھا۔ اس کے لیے وہ کارِ لذت سے زیادہ عذابِ جاں بن کر رہ گیا تھا۔ وہ اس کی گردن کی مہین و نازک جلد کو اپنے لبوں سے چومتا اور نوکِ زبان سے چاٹتا رہا مگر اس کے اندر کی تحریک مردہ ہو چکی تھی اور اس کے لہو میں سنسناتے، کلبلاتے، تڑپتے، تلملاتے سارے جذبے سرد پڑ چکے تھے۔ اچانک وہ شمیم کے اوپر سے ہٹا اور اس کے برابر میں لیٹ گیا۔

شمیم کروٹ لیتی ہوئی اٹھی اور کھاٹ سے اتر کر جلدی جلدی کپڑے پہننے لگی۔ نذیر نے کھاٹ پر لیٹے لیٹے اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی طرف کھینچا، مگر اس نے ایک ہی جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔ اس کی گرفت مضبوط نہیں تھی۔ اس نے دھیمے لہجے میں آواز دے کر اسے بلانا چاہا، مگر وہ اس کے قریب نہیں آئی۔ وہ ذرا پرے ہو کر آہیں بھرتی اپنے لباس کی شکنیں درست کرتی رہی۔ پھر وہ آنگن میں رکھی گھڑونچی کی طرف گئی، اس نے مٹکے کو لٹا کر کٹورے میں پانی انڈیلا اور اس کے بعد زمین پر بیٹھ کر گھونٹ گھونٹ پانی پینے لگی۔

نذیر شدید اذیت میں تھا۔ وہ کچھ دیر تک بے تکے انداز میں چارپائی پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھا رہا، پھر نیچے اتر کر کپڑے اٹھائے کونے میں چلا گیا۔ شمیم پیتل کے کٹورے میں اس کے لیے پانی لے آئی۔ وہ اس کے ہاتھ سے پانی کا کٹورا لے کر کئی دنوں کے پیاسے شخص کی طرح یک ہی گھونٹ میں سارا پانی پی گیا۔

’’میری ساس تھوڑی دیر میں اٹھنے والی ہے، اگراس نے دیکھ لیا تو یہ ہم دونوں کے لیے اچھا نہیں ہو گا‘‘ وہ دھیمے لہجے میں بولی اور اس کے ہاتھ سے کٹورا لے کر دور ہٹ کر کھڑی ہو گئی۔

وہ اس سے کچھ باتیں کرنا چاہتا تھا، اسے اپنی حالتِ زار کے بارے میں بتانا چاہتا تھا، لیکن اس کی بات سننے کے بعد اس میں کچھ بھی کہنے کا حوصلہ نہ رہا۔ وہ ہونق نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔ اسے احساس ہو چکا تھا کہ اب اس کی تمام گرمجوشی پر اوس پڑ چکی ہے۔ نذیر اٹھا۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور دھیرے دھیرے صحن کی طرف بڑھنے لگا۔

صحن سے برآمدے میں آتے ہوئے وہ ایک ستون سے ٹکرایا۔ وہ خود کو سنبھالنا چاہتا تھا مگر اس کے اعصاب پر ایک حواس باختگی طاری ہو چکی تھی۔ کھیتوں کی طرف کھلنے والے دروازے سے نکلتے ہوئے اس کا پیر چوکھٹ سے بھی ٹکرا یا۔ اس مرتبہ وہ لڑکھڑایا اور باہر کی طرف منھ کے بل گرتے گرتے بچا۔ وہ سنبھل تو گیا مگر اس کے پاؤں کی ڈگمگاہٹ ختم نہیں ہو سکی۔ وہ گھر سے باہر نکلا تو اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھایا ہوا تھا۔ اسے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، نہ راستہ، نہ مکان، نہ کھیت۔ وہ ڈگمگاتا اور لڑکھڑاتا ناہموار زمین پر چلتا رہا۔ وہ پلٹ کر دیکھنا چاہتا تھا مگر دیکھ نہیں سکا۔ وہ جانتا تھا کہ پیچھے دو آنکھیں اسے رخصت کرنے کے لیے موجود ہیں۔ اپنی ندامت اور خفت کے سبب اس کے لیے ان آنکھوں کی طرف دیکھنا ممکن نہ تھا۔ وہ جلد از جلد یہاں سے دور جانا چاہتا تھا تاکہ ان آنکھوں کی پہنچ سے نکل جائے۔

شمیم گھر کے دروازے سے لگ کر نڈھال کھڑی آہیں بھرتی رہی اوراسے جاتے ہوئے تکتی رہی۔ کچھ دیر بعد اس نے دروازہ بند کر دیا اور اس کی کنڈی چڑھا دی۔

نذیر کا وجود درد کا گولہ بنا ہوا تھا۔ اس کی ٹانگیں دکھ رہی تھیں۔ بازوؤں میں اتنا شدید درد تھا کہ اسے لگتا تھا کہ وہ کٹ کر اس کے کاندھے سے جھول رہے ہیں۔ زمستاں کی رات میں گرتے کہرے اور پالے میں اسے اپنا خون اور اپنی سانسیں منجمدمحسوس ہو رہی تھیں۔ وہ اوبڑ کھابڑ زمین پر دقت کے ساتھ قدم اٹھاتا رہا۔

وہ شرینہہ کے دیو قد پیڑ کے پاس پانی کے نالے پر بیٹھ گیا۔ آنے کے بعد وہ اسی جگہ بیٹھ کر شمیم کا انتظار کرتا رہا تھا۔ نالے کی سیمنٹ کی سطح اسے پہلے سے بہت زیادہ یخ محسوس ہو رہی تھی۔ وہ بیٹھ کر اپنے ہاتھوں کو مسلنے لگاتا کہ وہ گرم ہو سکیں، مگر بہت دیر تک ہاتھ مسلتے رہنے کے باوجود ان میں حرارت پیدا نہ ہو سکی۔ اس کی ٹانگیں بھی وقفے وقفے سے کانپ رہی تھیں۔

وہ اچانک اُٹھا اور ایک پگڈنڈی پر دوڑ کر رگوں میں جامد خون کو گرم کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ کچھ دور جا کر رات کے پالے سے بھیگی ہوئی پگڈنڈی پراس کا پاؤں پھسلا اور وہ کماد کی فصل میں جا گرا۔ اس کے کپڑے اور پاؤں گیلی مٹی میں آلودہ ہو گئے۔ گرنے سے اس کا بدن اور زیادہ دکھنے لگا۔ کماد کے کھیت میں دشواری سے چلتے ہوئے وہ دھیرے دھیرے گوٹھ ہاشم جو گی سے دور ہوتا چلا گیا۔

بہت آگے جا کر وہ جھاڑیوں سے باہر نکلا اورآہستہ آہستہ چلتے ہوئے وہ نہر کے پُل پر پہنچ گیا اور اندھیرے کے سبب سیاہ نظر آتے پانی کو دیکھنے لگا۔ نہر کا پانی اپنے کناروں سے نیچے نیچے بہہ رہا تھا۔ اس کی سطح پر ٹمٹماتے ستاروں کا عکس جھلملا رہا تھا۔

ہولے ہولے اس کا خوف زائل ہوتا جا رہا تھا۔ درختوں کا عکس پانی میں دھندلے دھبوں کی طرح نظر آ رہا تھا۔

اس نے قصبے کے مکانوں کی جانب نگاہ کی تو وہ سب مکانات اسے ایک ڈھیر کی صورت ایک دوسرے کے اوپر تلے پڑے ہوئے دکھائی دیے۔ وہ مکانات کے اس ڈھیر میں چھپی ہوئی گلیوں سے اس طرف آیا تھا۔ پل پر کھڑے کھڑے اس نے اپنی چشمِ تصور سے شمیم کو بستر پر دراز دیکھا اور اس کی تلخ آہوں کو سنا۔ اس نے بے بسی اور لاچاری سے دانت کچکچائے۔ اپنی دونوں مٹھیاں بھینچ لیں۔ اس کے وجود میں ایک ساتھ اذیت کی کئی لہروں نے سر اٹھایا۔ اس کے دل نے چاہا کہ وہ بلند آہنگ انداز سے چیخے چلائے اور سینہ کوبی کرتے ہوئے اپنی چھاتی کو زخمی کر ڈالے۔ اسے اپنے وجود کے وہ سب حصے جن سے اس نے شمیم کو چھوا تھا، قابلِ نفریں محسوس ہوئے۔ اس نے اپنی انگلیوں کی طرف دیکھا اور اپنے ہاتھ سے اپنے ہونٹوں کو ٹٹولا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہاں سے خون رسنے لگے۔ اس نے نہر کنارے کسی درخت پر رسی باندھ کر خودکشی کے بارے میں سوچا۔

وہ بڑبڑایا: ’’آج کے دن کی شروعات منحوس طریقے سے ہوئی تھی۔‘‘

اس کے بدن میں اب بھی درد تھا اور اس کے اعضا کی دکھن بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ وہ پل سے اتر کر نہر کے کنارے پیڑوں کی قطار کے نیچے چلنے لگا۔ کچھ دور جا کر وہ ایک ایسی جگہ پر کنارے سے نیچے اترنے لگا جہاں پر نہر کا پانی اسے زیادہ گہرا دکھائی دے رہا تھا۔ وہ بے سوچے سمجھے نہر کنارے کی ٹھنڈی ٹھنڈی گھاس پر بیٹھ گیا۔ کچھ آگے کھسک کراس نے اپنی چپلوں سمیت اپنے پاؤں نہر میں ڈال دیے۔ نہر کا پانی اسے بہت ٹھنڈا محسوس ہو رہا تھا۔ اس کی یخ لہریں اس کے ٹخنوں اور پنڈلیوں میں گھسنے لگیں۔ مگر نذیر کے سر میں عجیب سودا سمایا ہوا تھا۔

وہ نہر کے پانی میں لرزتا ہوا اپنا دھندلا دھندلا عکس دیکھتا رہا۔ وہ اپنی رگوں میں اپنے جامد خون کو گرمانا چاہتا تھا۔ شمیم سے ملاقات کے دوران اسے جس ہزیمت اور اذیت کا بوجھ اٹھانا پڑا تھا، وہ اس کا کفارہ ادا کرنا چاہتا تھا۔

اپنے عضوِ لذیذ کو بہت دیر تک رگڑنے اور مسلنے کے بعداس کے جسم میں حرارت پیدا ہونے لگی۔ اسے اور زیادہ حرارت کی ضرورت تھی۔ اس کے ہاتھوں کی حرکت دھیرے دھیرے مجنونانہ اور وحشیانہ انداز اختیار کرتی چلی گئی۔ اگر اس وقت اسے کوئی شخص اس حال میں دیکھ لیتا تو یقیناً فاترالعقل یا سودائی خیال کرتا۔

اس کے رگ و ریشے میں یکلخت کئی الاؤ جلنے لگے۔ اس کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں نمایاں ہونے لگیں۔ اس کی سانسیں کسی دھونکنی کی طرح چل رہی تھیں۔ وہ اپنے ہاتھوں کی حرکت میں مزید تیزی پیدا کرتاگھاس پر لیٹ گیا اور سیاہ آسمان کو تکنے لگا۔

ایک شدید ہیجان خیز لمحے میں وہ سرعت سے اٹھ کھڑا ہوا اور نہر کے پانی میں انزال کی بوندیں گرانے لگا۔ اگلے ہی وہ گھاس پر نڈھال ہو کر گر پڑا اور زور زور سے سسکیاں لینے لگا۔ اس کو معلوم نہیں تھا کہ صبحِ صادق اب صرف چند لمحوں کی منتظر تھی۔

 

صبح دیر سے جاگنے کے باوجود نذیر کے جسم میں کل شب کی ہزیمت اور اذیت کے آثار باقی تھے۔ اس نے کمرے میں جا کر صندوق سے استری شدہ لباس نکالا۔ وہ جلدازجلدغسل کرنا چاہتا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ چاچی اس کے کپڑوں پرمٹی اورگھاس کے نشان دیکھ لے اور کسی شک میں مبتلا ہو جائے، مگر وہ جیسے ہی برآمدے میں آیا چاچی خیرالنسا اسے برآمدے میں ٹہلتی دکھائی دی۔ وہ اسے دیکھ کر تولیے سے اپنے بال سکھانے لگی۔

چاچی اس کے پاس آ گئی اور اسے ٹوہ لینے والی نظروں سے دیکھنے لگی۔

اس نے سنجیدگی سے کہا، ’’تیرا چاچا آج سویرے سویرے ہی دکان پر چلا گیا۔‘‘

نذیر نے اسے دیکھا مگر کوشش کے باوجود اس سے آنکھیں نہیں ملا سکا۔ وہ کتھئی رنگ کے ریشمی لباس میں تھی جو اِس کی سفید رنگت سے مل کر پرکشش تاثر پیدا کر رہا تھا۔ اس کی گردن اور کلائی کا رنگ نکھرا نکھرا لگ رہا تھا۔ اس کے سر سے دوپٹہ اُترا تو اس کی خوبصورتی دوچند ہو گئی۔

’’آج تو دیر تک گہری نیند سوتا رہا۔ دکان جانے سے پہلے تیرے چاچے نے تجھے ایک دو بار جگانے کی کوشش کی، مگر تو ہلا جلا ہی نہیں‘‘اس نے بے تکلفی سے کہا۔

وہ اس کے ہونٹوں پر پہلی بار لگی ہوئی لپ اسٹک کی تہہ دیکھ کر بولا، ’’رات جب تو کمرے میں چلی گئی تو اس کے بعد میں سونہیں سکا۔‘‘ پہلی بار اسے چاچی کے بھرپور خدوخال روکھے پھیکے سے محسوس ہو رہے تھے۔

’’مجھے بھی نیند مشکل سے آئی۔‘‘ وہ چاہتی تھی نذیر آج بھی اس کی تعریفیں کرے اور اس سے اپنی چاہت کا اظہار کرے۔ مگر وہ اس سے کھنچا کھنچا سا تھا۔ اس کی آنکھوں میں پژمردگی تھی اور لہجے میں گرمجوشی کے بجائے سوگواری تھی۔ وہ اسے نظر انداز کرتا نیلے آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا، جہاں پرندے اُڑتے پھر رہے تھے۔ ’’تیرے لیے ناشتہ تیار ہے‘‘ وہ ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے بولی۔

’’غسل کر کے کھا لوں گا‘‘یہ کہتے ہوئے وہ کپڑے اٹھائے غسل خانے کی طرف چل دیا۔

ناشتے کے بعد اس نے ایک اور چائے پینے کی فرمائش کر دی۔ وہ باورچی خانے جا کر اس کے لیے ایک اور چائے کی پیالی لے آئی۔ وہ اس سے گریزاں سا تھا۔ اس کا جسم اور چہرہ دیکھ کر اسے تکلیف ہو رہی تھی۔ اسے بالکل یاد نہیں تھا کہ اس نے کل رات اس سے کیا کیا باتیں کی تھیں۔ اس کے اعصاب اور حواس پر شمیم سے ملنے کے دوران ہونے والی شکست سوار تھی۔ وہ اپنی ناکامی کے عذاب میں مبتلا تھا۔

’’آج تو نے پیٹ بھرکے ناشتہ نہیں کیا۔‘‘

’’بھوک ہی کم تھی۔‘‘

وہ سوچ رہی تھی کہ آج اچانک اسے کیا ہو گیا۔ وہ پہلے تو اکیلا ہی چار پانچ روٹیاں کھا جاتا تھا۔ ’’آج تجھے دکان پر جانے کی ضرورت نہیں۔ مجھے تیری طبیعت خراب لگ رہی ہے۔ تو آرام کر لے‘‘ اس نے اپنائیت سے کہا۔

’’دکان پر تو نہیں مگر ذرا دیر کو باہر گھومنے جاؤں گا۔‘‘

اس کی بات سن کروہ افسردہ ہو گئی۔

نذیر نے اچانک اس کے بارے میں سوچا کہ کیا وہ اس عورت سے وصل کر کے اپنی جذباتی شکست کا مداوا کر سکتا تھا۔ اسے اچانک باورچی خانے میں پیش آنے والے واقعے کی جزئیات یاد آئیں تو وہ حیران رہ گیا۔ اس نے کس طرح اسے چومتے ہوئے اپنے بازوؤں میں بھر لیا تھا؟

ان خیالات کا سلسلہ بھی اس کے مزاج کی سرد مہری کو ختم نہیں کر سکا۔ وہ پیالی سے چائے کی آخری چسکی لے کر باہر جانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔

’’سن! تیرا چاچا ہار والی بات بھول گیا ہے۔‘‘

وہ روکھی مسکراہٹ سے بولا، ’’اچھا؟‘‘اس کے بعدٹھنڈاسانس لیتے ہوئے وہ گلی کی طرف چل پڑا۔

گلی سے گزرتے ہوئے تنہائی میں وہ سوچتا رہا کہ کل رات کے تیسرے پہر جو کچھ پیش آیا وہ محض ایک اتفاق تھا۔ اگر بلی چھپر کی چھت سے اس کی پیٹھ پر چھلانگ نہ لگاتی تو اس کا شاد کام ہونا یقینی تھا۔ وہ اپنے آپ کو تسلی دینے لگا کہ اسے احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ بالکل ٹھیک تھا۔ اس کی مردانگی پوری طرح بحال تھی اور نہر کنارے بیٹھ کر اپنے انزال کے آب دار موتی نہر کے پانی میں گرا چکا تھا۔ یہ سب باتیں سوچنے کے باوجود وہ خود پر اپنے یقین اور اعتماد کو بحال نہیں کر سکا۔

اس نے پان کی مانڈلی سے کچھ سگریٹ خریدے اور دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا کھیتوں کی طرف چل دیا۔ وہ سگریٹ سلگا کر اس کے لمبے کش لیتا آگے ہی آگے بڑھتا رہا۔

مکمل تنہائی میں مکمل خودسپردگی کے لیے آمادہ عورت سے مباشرت میں ناکامی غیر معمولی اور شرمناک بات تھی۔ شمیم خود کو ملامت کرتی رہی ہو گی اور اسے ایک نامرد تصور کرتی رہی ہو گی اور دل ہی دل میں اس کا مضحکہ اڑاتی رہی ہو گی۔ نذیر نے فیصلہ کیا کہ وہ اب ہمیشہ کے لیے اس سے قطع تعلق کر لے گا اور آئندہ کبھی نورل کی شکل بھی نہیں دیکھے گا۔ اپنے آپ سے یہ عہد کرتے ہوئے وہ جانتا تھا کہ اس کی خاطر اس کا دل بری طرح مچلے گا اور کیا پتا وہ نیند میں اُٹھ کر نہر کی طرف دوڑتا چلا جائے۔

وہ قصبے کی مشرقی سمت میں واقع آخری مکانوں تک پہنچا اور انھیں عبور کرتا ہوا کھیتوں میں داخل ہو گیا۔ تا حدِ نظر زمین پر سبزیوں اور گندم کے پودے لہلہا رہے تھا۔ سورج آسمان کے وسط میں چمک رہا تھا اور سارے میں پیلی سی دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ گرد و پیش اچٹتی سی نگاہ ڈال کر وہ سرجھکائے ایک پگڈنڈی پر چلنے لگا۔

وہ اپنے آپ کو بار بار سمجھاتارہا کہ اس کے ساتھ جو واقعہ پیش آ چکا تھا، وہ اس کے اناڑی پن کی وجہ سے پیش آیا تھا۔ اس نے پہلی اور بنیادی غلطی پکوڑا فروش کے ہمراہ مے خانے جا کر کی تھی۔ وہاں اس نے چرس اور بھنگ کا بے محابا استعمال کیا تھا، جس کی وجہ سے اس کے حواسِ خمسہ کند ہو گئے تھے۔ پھر شدید سردی کے موسم میں آدھی رات کو چوری چھپے گھر سے نکلنا، ویران اور تاریک گلیوں میں خوفزدہ چلنا، آہٹوں پر چونکنا اور کھیتوں کے پاس کانپتے ہوئے انتظار کرنا—یہ تمام چیزیں بھی تواس افسوسناک عمل کی رونمائی میں شامل تھیں۔

سوچتے سوچتے اس کا دماغ شل ہو گیا اور وہ تھک کر ایک بلند قامت شیشم کے پیڑ کے نیچے پگڈنڈی پرہی بیٹھ گیا۔

چاچی خیر النسا کے بارے میں سوچتے ہوئے اس نے عجیب شرمندگی محسوس کی لیکن اسے معلوم تھا کہ یہی وہ عورت ہے جو اس کے اعتماد کو بحال کر سکتی ہے۔

وہ بیٹھے بیٹھے تین سگریٹ پھونکنے کے بعد اپنی الجھنوں کو سلجھائے بغیر اُٹھا اور قصبے کی طرف واپس چل دیا۔

 

اگلے دن وہ سویرے اٹھا اور چابیاں لے کر دکان چلا گیا۔

جانے سے پہلے باورچی خانے میں ناشتہ کرتے ہوئے اس نے محسوس کیا کہ چاچی اسے ملامت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اس کی نگاہوں کی تاب نہ لا کراس کے ہاتھ سے چائے سے بھرا پیالہ نیچے گر گیا اور گرم چائے نے اس کے پاؤں کو جلا دیا۔ اپنی تکلیف کو چھپاتے ہوئے وہ اس سے آنکھیں ملائے بغیر اٹھا اور باورچی خانے کی کوٹھڑی سے باہر نکل گیا۔

دکان پر پہنچ کر اس نے اپنی جیب سے چابیاں نکالیں اور شٹر پر لگے ہوئے تالے کھولے۔ شٹر اٹھا کر دکان کھول کر وہ صفائی کرنے کے بجائے دیواروں پر چسپاں فلمی اداکاراؤں کی تصویروں کو غور سے دیکھنے لگا۔ اس نے محسوس کیا کہ کچھ نئی تصویروں کا اضافہ ہو گیا تھا۔ وہ تصویروں کے نزدیک ہو کر انھیں ٹٹول ٹٹول کر دیکھ رہا تھا کہ اسے اچانک ایک بھاری سی مردانہ آواز نے اسے چونکا دیا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو یعقوب کاریگر اس کے قریب ہی کھڑامسکرارہا تھا۔ وہ نذیر کو ڈرانے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔

’’دیوار پر لگے نئے نئے فوٹو کیسے ہیں ؟میرے ایک دوست نے مجھے باہر کے ملک کا ایک رنگین رسالہ تحفے میں دیا تھا۔ میں نے اس میں سے بہترین تصویریں نکال کر یہاں لگا دیں۔ ذرا دیکھو! اس فوٹو کا تو جواب نہیں۔‘‘

’’ویسے تمھاری پسند کا بھی کوئی جواب نہیں۔‘‘

کاریگر اپنی تعریف سن کر اس تصویر کی خصوصیات پر روشنی ڈالنے لگا۔ ’’اسے غور سے دیکھو! اس کے بالوں کا رنگ بالکل سونے جیسا ہے۔ اس کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ دیکھ کر ہم جیسا خوامخواہ خوش ہونے لگتا ہے۔ ذرا اس کی چمڑی کو دیدے پھاڑ کر دیکھو، کتنی چمکیلی اور نرم ہے۔ اور اس کے ممّے تو…‘‘ وہ بے قابو ہو رہا تھا۔

وہ آگے بڑھ کر چمکیلے رنگین کاغذ کی سطح پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ پھر تصویر کو چومتے ہوئے کہنے لگا۔ ’’’پتا نہیں کہاں اور کون سے دیس میں رہتی ہیں یہ پریاں۔ ہماری قسمت میں تو باگڑی اور بھیل بھکار نیں لکھی ہیں۔‘‘ وہ بیڑی سلگاتے ہوئے اپنی سلائی مشین کے پاس لگی اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔

نذیر نے اسے چھیڑا۔ ’’تمھارے پاس کپڑے سلوانے خوبصورت عورتیں بھی آتی ہیں۔ پھر ان سے دوستی کیوں نہیں کرتے ؟‘‘

’’وہ بہت چالاک اور ہوشیار ہوتی ہیں۔ آسانی سے ہاتھ بھی نہیں آتیں۔ پھر انھیں قابو کرنے کے لیے پیسوں کی بہت ضرورت پڑتی ہے۔ میں ٹھہرا ایک غریب درزی۔ تمھارے چاچے کی قسمت بہت اچھی ہے کہ اسے زندگی بھر کے لیے ایک حسین اور جوان عورت مل گئی۔‘‘

نذیر نے اس سے یونہی ایک بات پوچھی۔ ’’اب اس کی پریشانی کا کیا حال ہے ؟‘‘

یعقوب کاریگر یہ سننے کے بعد اپنی آنکھیں پھیلا کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ اپنی بیڑی کی راکھ جھٹکتے ہوئے اُٹھا اور گلی میں جھانکنے کے بعد نذیر کے پاس آ بیٹھا۔ وہ راز داری سے کہنے لگا، ’’میں جانتا ہوں تم شریف آدمی ہو، اسی لیے میں تمھیں پسند کرتا ہوں مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ تمھاری وجہ سے پریشان ہے۔ اس نے کل یہ بات مجھ سے راز داری رکھنے کی قسم لینے کے بعد بتائی۔‘‘

’’میری وجہ سے ؟‘‘

’’اسے شک ہے کہ تم اس کی بیوی کے ساتھ خراب ہو۔‘‘ اس نے بیڑی کو فرش پر پھینکا اوراسے پاؤں کے نیچے مسلتے ہوئے کہنے لگا، ’’وہ تھوڑی دیر میں آنے والا ہو گا۔ دکان بند ہونے کے بعد تم مجھ سے جو گی کے چائے خانے پر ملو۔‘‘

واقعی تھوڑی دیر بعد چاچا غفور دکان پہنچ گیا۔ یعقوب کاریگر سلائی میں مصروف تھا جبکہ نذیر قمیص کے بٹن لگا تا رہا۔ اس دوران غفور نے ایک بار بھی نذیر سے کوئی بات تک نہ کی۔ وہ سر جھکائے اپنے کام میں لگا رہا۔

 

شام ڈھلنے سے کچھ پہلے ہی نذیر چائے خانے پر جا بیٹھا۔ وہ گرد و پیش کی چیزوں کو دیکھنے کے بجائے بار بار فکر مندی سے کاریگر کی بتائی ہوئی باتوں کے متعلق سوچتا رہا۔

غفور چاچا کی پریشانی کا راز جاننے کے بعد وہ شدید احساسِ گناہ میں مبتلا تھا۔ وہ خود کو ملامت کرتا رہا کہ اس نے جانے یا انجانے میں چاچی کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ حیران تھا کہ چاچے کو اس معاملے کی خبر آخرکیسے مل گئی۔ اب وہ فرار چاہتا تھا تاکہ اس کی وجہ سے یہ محترم رشتہ کہیں پامال نہ ہو جائے۔ مگر اس کے دل کی گہرائی میں کوئی شدید جذبہ موجود تھاجس کے آگے وہ خود کو پوری طرح بے بس محسوس کر رہا تھا۔ اس کے لیے اب وسوسوں اور اذیت کے مہیب جنگل میں چاچی خیر النسا ہی واحد پناہ گاہ رہ گئی تھی۔

وہ ان ہی سوچوں میں گم تھا کہ اس نے یعقوب کاریگر کو آتے ہوئے دیکھا۔ وہ آتے ہی چپ چاپ کرسی پر بیٹھ گیا اور جلدی جلدی بیڑی پھونکتا رہا۔ اس کی پیشانی پر دو گہری لکیریں تھیں۔

اس نے چٹکی بجا کر راکھ کو جھٹکا اور استغراق سے نکل کر نذیر کو گہری نظر سے دیکھتے ہوئے کھنکار کر اپنا گلا صاف کرنے لگا۔ پھراس نے اس کی طرف تھوڑا جھک کر دھیمے لہجے میں کہا، ’’غفور سے میری دوستی بہت پرانی پرانی ہے۔ تمھاری عمر سے بھی زیادہ پرانی۔ اس نے بڑی بد فعلیاں کیں۔ تم اندازہ نہیں لگا سکتے۔ تین ضلعوں میں کوئی چکلا نہیں بچا ہو گا جہاں جا کر اس نے زنا نہ کیا ہو۔ اس کے بیسیوں معاشقے اس کے علاوہ ہیں۔ اسی وجہ سے جب اس نے شادی کی تو کچھ عرصے کے بعد اسے پہلی مرتبہ اپنی کمزوری کا احساس ہوا۔ وہ مجھ سے چھپ چھپ کر اپنا علاج کرواتا رہا۔ مگر اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا۔ ایک دن پریشان ہوتے ہوئے اس نے شرمندگی سے مجھے بتا ہی دیا۔ میں اسے رانی پور میں ایک واقف حکیم کے پاس لے گیا۔ اس کی دوا سے غفور کی قوت بحال ہونے لگی اور وہ شادی کے مزے سے ہمکنار ہوا۔‘‘ کہتے کہتے وہ خاموش ہوا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔

نذیراس کے ہونٹوں سے نکلنے والا ایک ایک لفظ بغور سن رہا تھا۔

کاریگر نے چائے کا گھونٹ بھرا اور سرگوشی میں پھر سے کہنے لگا، ’’کل پہلی بار اس نے مجھ سے تمھارے قتل کے بارے میں بات کی۔ دکان کے کام میں تمھاری عدم دلچسپی کی وجہ سے اسے شک ہونا شروع ہوا۔ وہ اندر ہی اندر کڑھنے لگا۔ کئی مرتبہ اس نے تمھاری جاسوسی کی۔ دیوار پھاند کر اپنے گھر میں گھسا۔ رحیم سنار والے مسئلے پر اس نے تم پر ہاتھ اٹھانے کے بارے میں مجھے بتایا تو میں نے اس پر لعن طعن کی کہ اسے تم پر شک نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ اس نے چائے کی پیالی ختم کی اور نئی بیڑی سلگائی۔

تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر گویا ہوا۔ ’’اس کی باتوں نے مجھے پریشان کر دیا۔ میں رات بھر سوچتا رہا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ تم سے ضرور بات کروں گا۔ شاید غفور اپنی بیوی کو وہ آسودگی نہیں دے سکا جو اس کا حق تھا۔ اسے ہر وقت کھٹکا لگا رہتا ہے کہ وہ اسے چھوڑ کرکسی اور سے اپنا تعلق جوڑ لے گی۔ یہ معاملہ تمھارے حق میں خطرناک ہو سکتا ہے۔ تم اس کے گھر میں رہتے ہو اور تمھاری اس کی بیوی کے ساتھ بے تکلفی بھی ہے۔‘‘ وہ جواب طلب نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔

نذیر ٹھنڈا سانس بھر کر بولا، ’’تمھارا اندازہ ٹھیک ہے۔‘‘

’’میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ تم اپنی عزت اور زندگی بچاؤ اور میرپور ماتھیلوواپس چلے جاؤ۔ تمھیں یہاں سے جانے کے لیے وہ کبھی نہیں کہے گا لیکن اگرکسی دن اس کا مغز گھوم گیا تو پتا نہیں کیا کر بیٹھے۔‘‘ اس کے لہجے میں تشویش تھی۔

’’تم یہ بات کیسے کہہ سکتے ہو؟‘‘

کاریگرہنسا۔ ’’مت بھولو میں اس کا پرانا دوست ہوں۔ وہ اپنی دو محبوباؤں کے شوہروں کو زخمی کر چکا ہے۔ یہاں غیرت کا مسئلہ بھی ہے اور کل بے ساختگی میں اس کے منھ سے نکل گیا کہ اسے ثبوت ملنے کی صورت میں اس نے تمھیں قتل کرنے کا منصوبہ بھی تیار کر رکھا ہے۔ وہ تمھیں کارا کر کے مار ڈالے گا، کیا سمجھے ؟‘‘

نذیر یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ ناقابلِ یقین بات کی حقیقت کواسے اپنے دل سے تسلیم کرنا پڑا۔

شام ڈھلے کچھ ہی دیر ہوئی تھی۔ آسمان پرستارے نکل آئے تھے۔ چائے پینے والے سب گاہک بھی جا چکے تھے۔ ہوٹل کا مالک برتن سمیٹ رہا تھا۔ وہ اٹھے اور نہر کے پل تک ساتھ چلتے ہوئے گئے۔ وہاں سے نیچے اترنے والے راستے پر وہ ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔

کچھ دور تک اس کے ذہن میں کاریگر کی باتیں گھومتی رہیں۔ یہ سب تو اس کے سان گمان میں بھی نہیں تھا مگر اب اسے اندازہ ہونے لگا تھا کہ یہاں رہتے ہوئے اس کے ساتھ کوئی واقعہ بھی پیش آ سکتا ہے۔ اسے غفور چاچا پیشہ ور قاتل معلوم ہوا۔ اس کی سماعت میں اس کی پاٹ دار آواز گونجنے لگی۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں اسے یاد آئیں جن میں ہر وقت اسے اپنے لیے عناد بھرا محسوس ہوتا تھا۔ اسے گزشتہ روز کی مار پیٹ یاد آئی۔ وہ کتنے نفرت انگیز لہجے میں اسے مخاطب کرتا ہوا چیخ رہا تھا۔

نذیر نے خود کو اپنے گھر والوں سے دور، اجنبی لوگوں کے درمیان مکمل طور پر غیر محفوظ محسوس کیا۔

وہ نیم تاریک سڑک پر روشنی کے کمزور دائروں میں چلتا رہا۔ اس نے سوچا کہ کیا خبر اس کا چاچا یعقوب کاریگر کے ساتھ مل کر اسے قصبے سے بھگانا چاہتا ہو تاکہ اس کے تمام خدشات ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں۔

وہ گھر جانے کے بجائے پہلوان دستی کے چائے خانے پر جا بیٹھا۔

اسے کاریگر پر اعتماد تو تھا مگر وہ فرار ہونے کے خیال سے ہچکچا رہا تھا۔ چاچی خیر النسا کے بارے میں سوچتے ہوئے اس کے دل سے بار بار ہوک سی اٹھ رہی تھی۔ اسے اس کا طویل قامت جسم یاد آیا، اس کے فسوں کار انگ یاد آئے۔ اس نے چاچی کو دیکھنے، اس کے پاس بیٹھنے اور اس سے لپٹنے کی ناقابلِ مزاحمت خواہش کو محسوس کیا۔

وہ چائے خانے پر بیٹھا رہا اور ٹھری میر واہ میں اپنے گزرے ہوئے وقت کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس کے دل میں گناہ کا احساس دھیرے دھیرے ختم ہو رہا تھا۔ کل اسے سوچتے ہوئے جو ندامت محسوس ہو رہی تھی اب وہ مٹتی جا رہی تھی۔ اب وہ عورت واقعی اس کی محبوبہ بن گئی تھی۔ وہ خود سے کہتا رہا کہ پہلی بار اسے محبت ہوئی ہے اور اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کے متعلق جو چاہے سوچتا رہے۔ اس نے چاچے کو رقیب جان کر اس کے خلاف اپنے دل میں شدید نفرت محسوس کی۔ نفرت سےا س کے اعصاب تن گئے اور وہ مٹھیاں بھینچ کے رہ گیا۔ اسے معلوم تھا کہ اپنی محبت کی خود غرضی کے باوجود وہ اسے ہمیشہ کے لیے حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ وہ اسے اپنے ساتھ لے کر فرار نہیں ہو سکتا تھا۔ بہت دیر تک وہ ذہنی کشمکش سے دوچار رہا۔

ڈبو کھیلنے والے لڑکے شور مچا رہے تھے۔ پہلوان دستی اپنے دکھل کے پاس اونگھ رہا تھا۔ رات کے دس بجنے والے تھے۔ قصبے سے باہر جانے والی گاڑیاں شام سے پہلے ہی بند ہو جاتی تھیں۔

وہ چائے خانے سے اٹھا اور جھجکتے ہوئے قدموں سے اس مکان کی طرف چل دیا جو اب اس کا گھر نہیں رہا تھا۔ گلی میں پہنچ کر وہ کچھ دیر کے لیے ٹھیر گیا۔ سارے مکان تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ایک خیال کی دہشت سے جھرجھری لیتے ہوئے اس نے پاؤں آگے بڑھایا۔

دروازے کی کنڈی کھول کر وہ اندر آیا تو اس نے باورچی خانے والی کوٹھڑی کو بند پایا۔ وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا برآمدے میں بچھی اپنی چارپائی تک پہنچا اور بیٹھ گیا۔ اسے بھوک نہیں تھی۔ وہ اپنا سر ہاتھوں میں لیے بیٹھا رہا۔

کچھ دیر بعد کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز سن کر وہ چونکا اور اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو چاچی خیر النسا دروازے سے باہر نکلتی دکھائی دی۔ وہ اسے دیکھ کر عجیب انداز میں مسکرائی۔ اس نے فوراً آگے بڑھ کر برآمدے کی بتّی جلادی۔

نذیر پریشانی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’چاچا جاگ جائے گا۔‘‘

’’آج وہ صبح سے پہلے نہیں جاگے گا۔‘‘ وہ ایک بار پھر مسکرائی۔

’’کیوں ؟‘‘نذیر نے حیرت سے پوچھا۔

’’نیند کی ایک گولی اس نے خود کھائی اور دو میں نے دودھ میں گھول کر اسے پلا دیں۔‘‘

’’آخر ایسا کیوں کیا؟‘‘

چاچی خیر النسا نے لجاتے ہوئے کہا، ’’تم سے ملنے کے لیے۔‘‘

نذیر نے خود کو اس عورت کے زیرِ اثر محسوس کیا۔ وہ دونوں باورچی خانے کی کوٹھڑی میں جا بیٹھے۔

’’میرے لیے کھانا مت گرم کرنا۔ میں نے باہر کھا لیا ہے۔‘‘

وہ چولھے کے پاس بیٹھی تھی جبکہ نذیر اس کے قریب پٹڑے پر۔ اس نے لمبا سانس لیتے ہوئے خود کو پراعتماد پایا۔ وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرایا۔

’’مجھے تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں‘‘ وہ بولا۔

’’کہو۔‘‘

’’تو میرے چاچے کی بیوی ہے مگر میں تجھ سے محبت کرتا ہوں‘‘اس نے بے جھجک اپنے دل میں سمائی بات کہہ دی۔

’’میں جانتی ہوں یہ گناہ اور بے حیائی ہے مگر تو بھی جان لے کہ تو مجھے اچھا لگتا ہے۔ اسی لیے آج رات میں نے بڈھے کو نیند کی گولیاں کھلا دیں۔ میں جانتی ہوں تواس کا احترام کرتا ہے۔‘‘ وہ بہت آہستہ بول رہی تھی۔ ’’میں بھی تیری طرح ڈرتی ہوں اس سے لیکن تو خود سوچ!اس کے اور میرے درمیان کتنا فرق ہے۔‘‘

اسے اداس دیکھ کر وہ پریشان ہو گیا۔ ’’آدھی عمر کا فرق ہے ! اور میں جب سے یہاں آیا ہوں، یہی سوچ رہا ہوں۔ تو اس سے بہت چھوٹی ہے اور خوبصورت بھی بہت ہے۔‘‘ وہ مسکرانے لگا۔ ’’پرسوں رات میرے اور تیرے بیچ جو کچھ ہوا میں اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ میں سمجھا کہ تو مجھ سے بہت ناراض ہو گی اور مجھے تجھ کو منانا پڑے گا۔‘‘

یہ سن کر چاچی خیر النسا اپنی مسکراہٹ کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتی رہی مگر مسکراہٹ خود بخود اس کے ہونٹوں پر نمایاں ہو گئی تھی۔

نذیر نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ یعقوب کاریگر سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں اسے کچھ نہیں بتائے گا۔ اس نے تشویش سے اس سے ایک سوال پوچھا، ’’صبح چاچے کو گولیوں کے بارے میں پتا نہیں چل جائے گا؟‘‘

’’نہیں چلے گا۔ وہ یہی سمجھتا رہے گا کہ جو گولی اس نے کھائی یہ اسی کا نشہ ہے۔‘‘ وہ پھر مسکرانے لگی۔

’’میں پہلے تیرے بارے میں جب بھی سوچتا تھا تو خود کو بڑا گناہ گار سمجھتا تھا‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا۔

’’اور اب؟‘‘چاچی نے شرارت سے پوچھا۔

’’اب تیری محبت کو میں اپنا حق سمجھتا ہوں۔‘‘

’’میں تو اندر سے کانپ رہی ہوں۔ وہ گہری نیند کر رہا ہے، میں پھر بھی یہاں سہمی ہوئی ہوں، اور یہ گناہ ہے، بڑا گناہ!‘‘اس نے جھرجھری لی اور آنکھیں میچ لیں۔

’’یہ گناہ نہیں ہے، محبت کبھی گناہ نہیں ہوتی‘‘ وہ بلند لہجے میں بولا۔

’’آخر تم رشتے میں میرے بھتیجے لگتے ہو۔‘‘

’’توُ اپنی مرضی سے میری چاچی نہیں بنی اور میں۔ ..‘‘وہ جذبے کی شدت سے خاموش ہو گیا۔

’’کچھ بھی ہو، میں اس بوجھ سے نہیں بچ سکتی۔ .. مگر خود کو روکنا بھی مشکل ہے‘‘ وہ آہ بھر کر بولی۔

نذیر اس کے سوگوار چہرے کو دیکھتا رہا۔ وہ حیران تھا کہ اسے کیا ہو گیا۔ وہ اسے خوش دیکھنا چاہتا تھا مگر اس کے پاس تمام الفاظ ختم ہو گئے تھے۔ اسے خوشی سے ہمکنار کرنے کے لیے اور اپنی باقی ماندہ زندگی کے لیے ایک خوشگوار یاد کو اپنے سینے میں محفوظ رکھنے کے لیے وہ اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے اس کے بدن کا لمس کشید کرنے لگا۔ وہ ایک نئی لذت سے آشنا ہوتا جا رہا تھا۔

انھوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکا اور ہنسنے لگے۔ کچھ دیر بعد وہ برآمدے میں بچھی ہوئی چارپائی پرجا کر ایک دوسرے کے پہلو میں لیٹ گئے اور ان کے ترسے ہوئے جسم نہ جانے کب تک ایک دوسرے میں مدغم ہانپتے کانپتے رہے۔

 

بہت دیر کے بعد چاچی خیر النسا اپنے کپڑے اٹھا کر غسل خانے کی طرف چلی گئی مگر وہ وہیں چارپائی پر لیٹا رہا۔

غسل خانے سے باہر نکل کر چاچی نے نذیر کے ہونٹوں پر آخری بوسہ دیا اور اسے نگاہ بھر دیکھنے کے بعد کمرے میں اپنے سوئے ہوئے شوہر کے پاس چلی گئی۔

اس کے جانے کے بعد نذیر آہ بھرتے ہوئے مسکرایا۔ اس نے چاچی خیر النسا کو پا کر کھو دیا تھا، ہمیشہ کے لیے۔ مگر اپنے لیے ایک یاد کو محفوظ کر لیا تھا۔

 

وہ بہت دیر تک جاگتا رہا۔ پھراس نے دیکھا کہ صبح کی روشنی پھیلنے والی ہے۔ اس نے اٹھ کر کپڑے پہنے۔ غسل خانے میں گیا لیکن غسل نہیں کیا۔ ہینڈ پمپ چلا کر وہ اپنے ہاتھ اور منھ دھو کر باہر نکل آیا۔ وہ صحن میں چند لمحے ٹہل کر کچھ اور وقت گزرنے کا انتظار کرتا رہا۔ اس نے کمرے کے دروازے سے کان لگا کر ان دونوں کے سانسوں کی آواز سنی اور دھیرے دھیرے چلتا باہر کی طرف چل پڑا۔

وہ جانتا تھا کہ اس وقت قصبے سے باہر جانے کے لیے سواری نہیں ملے گی۔ اس نے چلتے ہوئے گلی عبور کی، سڑک پر پہنچا۔ پہلوان دستی کے چائے خانے کے قریب سے گزرا۔

آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا وہ قصبے کی حدود سے باہر نکل گیا۔

٭٭٭

تشکر: ادبی دنیا ڈاٹ کام

http://www.adbiduniya.com/2015/10/meerwaah-ki-raatein.html

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید