FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

محبت کی نظمیں اور بے بسی کا گیت

 

 

 

                   پابلو نیرودا

 

 

نیرودا کی عورتوں کے نام

 

 

 

تعارف

 

                   (۱)

 

ادب میں امریکی ماورائیت/ موضوعیت اور فرانسیسی علامت نگاری کے رجحانات بیسویں صدی کے بہت سے شعراء کے ہاں موجود ہیں جن میں پابلو نیرودا نمایاں شخصیت کے طور پر سامنے آتا ہے۔ نیرودا کی شہرۂ آفاق کتاب ’’محبت کی نظمیں اور بے بسی کا گیت‘‘ (Twenty Love Poems and a Song of Despair) میں اِن رجحانات کی واضح بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ان میں جذبے کی شدت اور انفرادی تخیّل، کلاسیکی رومانویت سے مختلف ہے۔ نیرودا، جدے دیت کی دہلیز پر علامت نگاری اور آوان گارد (Avant-garde) کے درمیان کھڑا تھا جسے اپنے لیے ایسے اسلوب کی ضرورت تھی جو دوسرے علامت نگاروں سے زیادہ واضح ہو اوراس میں انقلابی پہلو بھی موجود ہو۔ رینے دی کوسٹا (Ren233 de Costa) نے نیرودا کی نظموں کو نو رومانوی (Neo romantic)کہا ہے اور یہ درست معلوم ہوتا ہے کہ گیت کی موسیقیت بھری ان نظموں میں کم سنی کی شدتِ محبت، اُداسی، بے بسی اور وصال کی خواہش اپنے عروج پر ہے جو اکثر اوقات متشدد اور جابرانہ روپ اختیار کر لیتی ہے اور فطرت اور انسانی جذبات کو مدغم کر تے ہوئے مادی دنیا سے ماورا ہو جاتی ہیں۔ یہ نظمیں فنی اور جمالیاتی اعتبار سے کسی طور بھی انگریزی کے روایتی رومانوی شعراء بائرن (Byron)اور شیلے (Shelley) کے کلام سے کم نہیں ہیں۔

بیسویں صدی کے شعری منظر نامے پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جدے دیت کی جڑیں رومانویت سے جنم لیتی ہیں۔ آگے چل کر اس رومانویت سے دو تحریکیں سامنے آتی ہیں، جن میں ایک امریکی ماورائیت/ موضوعیت اور دوسری فرانسیسی علامت نگاری ہے جن کا اوپر ذکر ہوا۔ ان دو تحریکوں نے گزشتہ صدی کی شعری تشکیل میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ امریکی ماورائیت کے مطابق علم، تجلّیاتی بصیرت سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انسانی شعور صرف مادی دنیا تک محدود ہے اور حتمی سچائی کی مادی تفہیم مکمل حقیقت نہیں۔ لہٰذا فرد کا حسیاتی ادراک علم کا زیادہ وسیع ذریعہ ہے۔ ماورائیت کے نزدیک حتمی سچائی انسانی شعور اور منطقی علوم کے دائرے سے باہر بھی موجود ہے اور اس تک رسائی صرف روحانی تشدید کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یاد رہے کہ ماورائیت کا تصورِ خدا، مذہبی تصورات سے بالکل الگ ہے جس میں خدا ایک موضوعی تصور ہے نہ کہ معروضی حقیقت۔

فرانسیسی علامت نگاروں کے نزدیک کامل سچائی تک رسائی براہِ راست ممکن ہی نہیں ؛ اسے صرف بلاواسطہ طور پر جانا جا سکتا ہے۔ انھوں نے روایتی، مذہبی اور سماجی اقدار کو مسترد کرتے ہوئے ایک جارحانہ انفرادیت سے مظاہر کو دیکھنا شروع کیا اور تخیلاتی اور خواب انگیز کیفیت میں مظاہر کی تفہیم کو اہمیت دی۔ ان علامت نگاروں نے آرٹ کی مروّجہ ہیئتوں کو بھی مسترد کر دیا اور جذبات اور خیالات کے انفرادی اظہار اور داخلی تجربات کے لیے نئی ہیئتیں وضع کیں جو پیچیدہ اور غیر مانوس نوعیت کی تھیں۔

پابلو نیرودا کی شاعری مجموعی طور پر کئی جہتوں پر محیط ہے مگر ابھی ہم صرف اُس کی زیرِ نظر کی نظموں کی تفہیم کی کوشش کریں گے۔ نیرودا کی یہ کتاب 1924ء میں شائع ہوئی۔ یہ اس کی شائع ہونے والی دوسری کتاب تھی۔ 1923ء میں نیرودا کی پہلی کتاب Clepusculario شائع ہوئی جو اپنی غیر مانوس لفظیات، جذبے کی شدت اور جنس کے آزادانہ اظہار کی وجہ سے مقبول ہوئی۔ پہلی کتاب کے بعد اس نے اپنی دوسری کتاب El hondero entusiasta لکھنا شروع کی جس کی تقریباً ستر سے زیادہ طویل نظمیں اس نے ترتیب دیں۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ اس طرز کی طویل سیریز لکھے۔ ۔ ۔ طویل رزمیوں کی شکل میں کئی جلدوں پر مشتمل کام جس میں فطرت، انسان، اس کے جذبات، خواہشات اور زندگی کو وا کیا جائے۔ اس کی یہ خواہش کسی نہ کسی شکل میں تمام عمر اس کے ساتھ رہی اور وہ اس پر کام بھی کرتا رہا۔ اس کی شاعری تقریباً اسی طرز کی مختلف شکلیں ہیں۔ El hondero Entusiasta میں شاعر اپنے محبوب کے ساتھ کائنات کی تفہیم کے لیے جنونی کیفیت میں ہے اور اس کا محبوب کہیں اس کا رہبر ہے، کہیں نجات دہندہ اوراس وسعت میں کہیں اس کا رفیق۔ نیرودا نے اس کتاب کا کچھ حصہ مکمل کر کے اپنے ایک مدیر دوستAliro Oyarzun کو دکھایا تو اس نے ان نظموں پر یوراگوئے (Uraguay) کے مشہور شاعر Sabat Ercasty کے اثرات کی نشان دہی کی۔ اگرچہ یہ نظمیں نیرودا کے اپنے مزاج کا حصہ تھیں لیکن ان میں Sabat Ercasty کی جھلک یقیناً موجود تھی۔ احتیاطاً نیرودا نے اس سارے منصوبے کو ایک طرف رکھا اور اپنے اصل اسلوب میں Clepusculario کے بعد کی نظموں کو مرتب کیا جو تعداد میں صرف بارہ تھیں۔ اس نے پرانے اسلوب سے نکل کر اپنی لسانیات اور شعری آہنگ کی نئی تشکیل کی سنجیدہ کوشش کی۔ اس کی ابتدائی نظموں میں آہنگ، موسیقیت اور شعری پختگی کے ساتھ ساتھ فرانسیسی رومانویت پسندوں اور علامت نگاروں (بادلیئر، پال ورلین اور راں بو) کے واضح اثرات بھی موجود تھے۔

نیرودا کے نقادوں کے مطابق اس کی یہ شہرۂ آفاق کتاب انتہائی احتیاط سے ترتیب دی گئی تھی۔ اس سے پہلے ہسپانوی شاعری میں اس نوعیت کی رومانوی نظموں کی کوئی مثال موجود نہیں تھی۔ اگرچہ یہ کتاب اس کی اہم ترین نظموں پر مشتمل ہے ؛ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نظمیں اس کی پہلی کتاب Clepusculario کی باقیات ہیں جنھیں کچھ نئی نظموں کے ساتھ اس پرانے اسلوب سے نکلنے کے لیے نیرودا نے شائع کروایا تھا۔ اس کتاب کی شہرت کی وجہ اس کا آزاد محبت کا تصور ہے اور نظموں کی شہوت انگیز تشبیہات اور جنسی استعاروں کی وجہ سے لاطینی امریکہ کے لوگوں نے اسے ناقابلِ یقین حد تک قبول کیا اور خصوصاً نوجوانوں میں اسے اتنی پذیرائی ملی کہ انھوں نے اسے محبت کی بائبل کا نام دیا۔ ان نظموں میں شاعر فطرت اور عورت کو ایک ہی روپ میں دیکھتا ہے اور اپنی شدید تنہائی، درد اور غموں سے بچنے کے لیے اس میں پناہ لیتا ہے :

اے عورت کے حسیں جسم

سفیدرانو اَور دودھ بھری چھاتیو!

تم سپر انداز لیٹی، دنیا کے مانند دکھائی دیتی ہو

میرامزدورجسم تمھیں کھودتا ہے

اور زمین کی گہرائی میں ایک ندی تخلیق کرتا ہے

۔ ۔ ۔

میں اپنی آگ سے تمھارے جسم کا نقشہ نشان زد کرتا گیا

تمھارے وجود میں، تمھارے پہلو میں

سہمی ہوئی، پیاس سے ہلکان

میری زبان نے چھُپتی ہوئی خوفزدہ مکڑی کی طرح

تمھارے جسم کا طواف کیا

 

یہاں شاعر اپنی محبوب کے جسم میں اترتا ہے اور زمین کی گہرائی میں ندی تخلیق کرتا ہے۔ یہ وہ ماورائیت ہے جو اسے کلاسیکی رومانویت سے ممتاز کرتی ہے جس میں محبوب کے حسن کی ظاہری تصویر کشی اور فطرت کا سرسری اظہار کیا جاتا ہے جبکہ نیرودا عورت اور زمین کو اِکائی کی شکل میں دیکھتا ہے۔ کی کچھ اور مثالیں دیکھئے :

سورج پر سے پھلوں کی لدی شاخ

تمھارے لباس پر گرتی ہے

عظیم رات کی جڑیں

اچانک تمھاری روح سے پھوٹ آتی ہیں

۔ ۔ ۔

میرے بوسے تم میں لنگر انداز ہوتے ہیں

میری نم آلود خواہش

تمھارے مرمریں بازوؤں میں گھونسلا بناتی ہے

۔ ۔ ۔

سہ پہر کی سمت ڈھلتے ہوئے

میں اپنے مُرجھائے جال

تمھاری گہری آنکھوں میں اُترتے سمندر میں پھینکتا ہوں

۔ ۔ ۔

 

آسمان مچھلیوں سے بھرا جال دکھائی دیتا ہے

آج یا کل، تمام ہوائیں

ہاں تمام ہوائیں انھیں رہا کر دیں گی

۔ ۔ ۔

طوفان خشک پتّوں کا جھکڑ بنتا ہے

اور تمام کشتیاں گرا دیتا ہے

جو گزشتہ رات آسمان سے بندھی ہوئی تھیں

 

ان مصرعوں میں عورت اور فطرت ایک ہی سکے کے دو رخ دکھائی دیتے ہیں اور شاعر دونوں میں سے ایک کے ساتھ موجود ہوتے ہوئے دوسرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ اپنے گہرے وجدان میں وہ تمام مظاہر کو ایک ارفع اکائی محسوس کرتا ہے۔ سورج سے پھلوں کی شاخ کا لباس پر گرنا، سمندروں کا عورت کی گہری آنکھوں میں اترنا، آسمان مچھلیوں کا جال دکھائی دینا اور کشتیوں کا آسمان سے بندھا ہوناسرریئلسٹ(Surrealist) استعارے ہیں جو انسانی تخیل کو ان ظاہری مناظر سے بلند سطح پر جانے کا تقاضا کرتے ہیں۔ ایمرسن اپنے مضمون ’’فطرت‘‘ (Nature) میں لکھتا ہے کہ فطرت کی درست تفہیم کے لیے ہم طبیعی دُنیا کے مظاہر سے بالاتر ہو کر ایک روحانی عرفان سے گزرتے ہیں جہاں ہمارا وجود اپنی اعلیٰ ترین سطح پر ایک وحدانیت میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ موجود سے نا موجود کی سمت قدم آرائی کی ایک حالت ہے۔ نیرودا کی چند نظموں میں اس ماورائیت کے اثرات دیکھئے جہاں وہ محبوب کی موجودگی سے پہلے کی حالت سے آشنا ہوتا ہے یعنی محبوب کی نا موجودگی (Absence) اسے ایک نئی حقیقت اور ایک منفرد جذبے سے متعارف کرواتی ہے۔ محبت کا اظہار ایک غیر مرئی احساس میں متشکل ہوتا ہے جس میں شاعر کھوئے ہوئے متلاشی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ وہ محبوب کو کسی اور شکل میں تصور کرتا ہے :

 

میں تمھارے اُسی روپ کو یاد کرتا ہوں

جو تم اپنی موجودگی سے پہلے تھیں

۔ ۔ ۔

یوں ہے کہ تم موجود نہیں ہو

تم بہت فاصلے سے مجھے سنتی ہو

اور میری آواز تمھیں چھو نہیں سکتی

یوں ہے کہ تمھاری آنکھیں کہیں اُڑ گئی ہیں

اورایک بوسے نے تمھارے ہونٹ سی دیے ہیں

 

نیرودا کی ان نظموں میں عورت یعنی محبوب یا تو نا موجود ہے یا کہیں اور کھویا ہوا ہے۔ اس کی آنکھیں کسی اور منظر میں پیوست ہیں۔ تمام نظموں میں محبوب خاموش اور غیر متحرک (Passive) ہے۔ اس کی موجودگی کا احساس فطری مناظر میں شاعر کے منشا سے ہوتا ہے۔ وہ جس طرح اپنے ارد گرد چیزوں کو محسوس کرتا ہے، اس کا محبوب وہی شکلیں اختیار کر لیتا ہے۔ کہیں بھی شاعر اپنے محبوب سے براہ راست وصال نہیں کرتا۔ ایک تصور، ایک خواب ہے جس میں شاعر اپنے محبوب سے بغل گیر ہوتا ہے اور اسے پہاڑوں، سمندروں، دریاؤں، پھولوں، جنگلوں، پرندوں، بحری جہازوں اور رات کے ستاروں بھرے آسمان جیسے بھاری استعاروں سے گوندھ کر ایک سررئیلسٹ تصویر بناتا ہے۔

نیرودا پر لکھنے والوں میں اکثر نے محبوب کے وجود کو مبہم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ عورت کہیں کہیں بجائے خود زمین کا استعارہ بن جاتی ہے اور شاعر اس استعارے کے ذریعے خود کو فطرت سے متصل کرتا ہے۔ وہ اپنے محبوب کو کبھی جنگل کی شکل میں دیکھتا ہے، کبھی پرندوں میں، کبھی رات کے ستاروں میں اور کبھی تیز آندھی میں اورکبھی سمندر کی لہروں کے شور میں فطرت اور انسان کے باہمی تعلقات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ شاعر عورت کے ذریعے خود کو فطرت کے تخلیقی عمل کا حصہ بناتا ہے۔

 

میں تمہارے ساتھ وہ کرنا چاہتا ہوں

جو بہار چیری کے سفید درختوں سے کرتی ہے

 

کتاب کی آخری نظم ’’بے بسی کا گیت‘‘ میں عورت سب سے زیادہ طاقت وَر چیز بن جاتی ہے جس میں کائنات کی ہر شے جذب ہو جاتی ہے۔ اور جو اپنے گرد ہر شے کو اپنے وجود میں سمو لیتی ہے۔ یہاں شاعر اپنے محبوب سے الوداع ہوتا ہے گویا محبت کا یہ سفر اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ یہاں بھی محبوب خاموش ہے۔ محبت کا یہ تجربہ یک طرفہ اور خودساختہ محسوس ہوتا ہے جس کا آغاز شاعر خود ہی عورت کے سپر انداز لیٹے ہوئے وجود میں پناہ لینے سے کرتا ہے اور اس اعلان کے ساتھ کہ تم میں سارا عالم ڈوب گیا ہے، اس تجربے سے نکل آتا ہے۔ محبت کی اس آفاقی قوت نے اس تعلق کو بھی اپنے اندر جذب کر لیا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے وجود اور اس دنیا کا ادراک کرتا ہے :

 

تم میں سارا عالم ڈوب گیا ہے

لمبے رستوں کے مانند، وقت کے مانند، ساگر کے مانند

تم میں سارا عالم ڈوب گیا ہے

۔ ۔ ۔

او میری محبوبہ

میری ہر اِک چیز سے دُور کھڑی محبوبہ

اب یہ جدائی کا لمحہ ہے

او میری کھوئی ہوئی محبوبہ!

 

نیرودا کا ایک سوانح نگار ڈومینک مورن (Dominic Moran)لکھتا ہے کہ ان نظموں میں نیرودا بیک وقت ایک شے کودو متضاد حالتوں میں یکجا کرتا ہے یعنی ان نظموں میں ایک شے بیک وقت کثیف بھی ہے اور لطیف بھی، جسے چھوا، اور مادی حالت میں محسوس بھی کیا جا سکتا ہے اور وہی چیز اس لمحے علامت کے طور بھی موجود ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک ہی چیز کو دوہری حالت میں پاتے ہیں۔ یہ دُہرا پن ایک استعارے کو نحیف بھی بناتا ہے اور مضبوط بھی کیونکہ ان میں ایک علامت کو داخلی اور خارجی یا فعل اور مفعول کے زمرے میں تقسیم کرنا نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ نظمیں کلاسیکی علامت نگاری (جس میں ایک شے اپنے اکہرے پن کے ساتھ دوسری شے کی نمائندہ بن جاتی ہے )سے آگے کھڑی ہیں، بلکہ یہ نظمیں ٹی ایس ایلیٹ کی اصطلاح میں ’’معروضی تلازمات‘‘ (Objective correlative) کی شکل اپناتی ہیں جہاں ایک جذبے یا کیفیت کو بیان کرنے کے لیے شاعر ایک مخصوص شے یا منظر کواس انداز میں مجسم کرتا ہے کہ جس کی کوئی دوسری صورت ہو ہی نہیں سکتی تھی۔

یہی بات نیرودا کی شاعری میں موجود پراسراریت کو ٹھوس پن عطا کرتی ہے۔ نیرودا خود اپنے ایک انٹرویو میں کہتا ہے کہ :

’’میں علامتوں پر زیادہ یقین نہیں رکھتا۔ یہ سب مادی ہوتی ہیں۔ میرے نزدیک سمندر، مچھلیاں، پرندے اپنا حقیقی وجود رکھتے ہیں۔ لفظ ’’علامت‘‘ میرے خیالات اور احساسات کی درست عکاسی نہیں کرتا۔ جب میں کسی فاختہ کو دیکھتا ہوں تو اسے فاختہ ہی کہتا ہوں، یہ سوچے بغیر کہ وہ اس لمحے وہاں موجود ہے یا نہیں، لیکن میرے لیے اس کا ایک وجود ہے جو بیک وقت موضوعی طور پر بھی موجود ہے اور معروضی طور پر بھی۔ تاہم میرے لیے یہ کبھی بھی فاختہ سے زیادہ کچھ اور نہیں۔‘‘

نیرودا کی نظموں کا حسن یہ ہے کہ اس کی لسانیات کبھی ضرورت سے زیادہ جذباتی نہیں ہوتی۔ ان میں اُداسی، رومانویت، خواہش کا سچا اور شدید احساس قاری کے لیے ناقابلِ فراموش تجربے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور جنون انگیز کیفیت کے اظہار میں بھی ان نظموں کی زبان نہایت متوازن رہتی ہے۔

***

 

 

 

 

                   (۲)

 

اگرچہ اردو حلقوں میں نیرودا کا نام کافی معروف ہے اور نوبل انعام یافتہ شاعر اور بائیں بازو کے اہم لیڈر کے طور پر جانا جاتا ہے اور اس کی نظمیں اور یادداشتیں ترجمہ ہو چکی ہیں، اس کے باوجود اُردو میں نیرودا کی شخصیت اور شاعری کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں۔ اردو میں نیرودا پر چند ایک مضامین بھی لکھے گئے اور تراجم کے ساتھ مختصر تعارف کی شکل میں کچھ چیزیں موجود بھی ہیں ؛ لیکن اس کی شخصیت، سیاسی دلچسپیوں اور لاطینی امریکہ میں اس کی اہمیت کے بارے میں ہم زیادہ نہیں جانتے۔

چلی(Chile) میں نیرودا کے بارے میں کچھ لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ پہلے اس نے اپنی شاعری ’’محبت کی نظمیں اور بے بسی کا گیت‘‘ کے ذریعے ہسپانوی لوگوں کو محبت کرنا سکھایا اور پھر وہ کمیونسٹ سیاسی رزمیہ Canto General لکھ کر لاطینی امریکہ کا ترجمان بن گیا۔ کچھ لوگوں کے نزدیک وہ عظیم شاعر اور سیاسی رہنما ہے جب کہ بعض لوگ اسے طاقت کا بھوکا اور میکاولین طرزِ فکر کا شخص سمجھتے ہیں جو عوام اور el puebloکا کردار تخلیق کر کے ان سے جھوٹی محبت کا اظہار کرتا ہے تاکہ مادی آسودگیاں اور سیاسی و ادبی فوائد حاصل کر سکے۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی قابل اور ذہین شاعر تھا مگر سٹالن کی پیروی میں گمراہ ہو کر اپنے فن کے اصل راستے سے ہٹ گیا۔ لوگوں کی رائے جو بھی ہو لیکن یہ بات عیاں ہے کہ اس کی وفات کے چالیس برس بعد بھی وہ شاعر اور سیاسی رہنما کے طور پر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے اور اس کی شاعری آج بھی پُر اثر اور معنی خیز محسوس ہوتی ہے۔

نیرودا بائیں بازو کی عالمی سیاست میں اتنا مقبول کب ہوا اور اپنی رومانوی شاعری کو ثانوی نوعیت کی غیر اہم چیز سمجھ کر سیاسی نظمیں لکھنے پر راغب کیوں ہوا؟ پراپیگنڈا کے طور پر اپنے فن کو استعمال کرتے ہوئے کیا اس کی شاعرانہ عظمت میں اضافہ ہوا یا تخیل کی عمیقیت سے نکل کر سیاسی اور نظریاتی تنگ دامانیوں میں جکڑا گیا۔ نیرودا کی شاعری اور فنی اپج کو سمجھنے کے لیے ان پہلوؤں کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ ترجمے کے دوران میں، میں نے محسوس کیا کہ ان نظموں کے ساتھ ساتھ نیرودا کی شخصیت کے اس میلان کا ذکر بھی کیا جائے کہ علامت نگار اور نو رومانوی شاعرسیاسی اور پراپیگنڈا شاعری کی طرف کیسے مائل ہوا!

نیرودا کا نو رومانوی اور سرئیلسٹ شاعری سے عوامی شاعری کی طرف جھکاؤ رفتہ رفتہ ہوا۔ خود کو سیاسی لکھاری کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس نے حسیاتی (Sensual) نظموں کو رد کیا اور سیاسی شعور سے بھرپور نظمیں لکھنا شروع کر دیں۔ وہ اپنی یادداشتوں میں بیان کرتا ہے کہ اسے اپنی ابتدائی رومانوی نظمیں غیر معقول محسوس ہونے لگیں اور اسے لگا کہ ایک دفعہ ٹھہر کر سوچے کہ انسانیت کی بہتری کے لیے کیا مفید ہو سکتا ہے جو معاصر ادب سے بے شک الگ ہو لیکن انسانی جد و جہد سے مکمل طور پر ہم آہنگ! نیرودا کی زندگی میں سیاست تب داخل ہوئی جب وہ سانتیاگو (Santiago) میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ ان دنوں تانبے اور نائٹریٹ کا کام کرنے والے ہزاروں مزدور اپنی تنخواہیں نہ ملنے اور کام کی بری صورتِ حال کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے۔ مزدور، حکومتی پالیسیوں اور رویّوں کی وجہ سے بری طرح پس چکے تھے۔ ان مظاہروں کے چلی کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ تب سے نیرودا نے یہ سوچتے ہوئے سیاسی نظمیں لکھنا شروع کیں کہ وہ باہر گلی کی طرف اپنا دروازہ بند نہیں کر سکتا ؛ جس طرح وہ محبت، زندگی، خوشی اور اُداسی کا دروازہ بند نہیں کرتا۔

اس کی شاعری میں نمایاں تبدیلی سپین کی سول جنگ (1936-1939ء)کے دوران میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ یہ جنگ قانونی طور پر منتخب بائیں بازو کے نظریات کے حامل ری پبلکنز  اور دائیں بازو کے باغی قوم پرستوں کے درمیان تھی۔ بائیں بازو کی جماعت اپنی اندرونی لڑائیوں اور اختلافات کے باعث انارکسٹوں، سوشلسٹوں اور اعتدال پسند ری پبلکن گروہوں میں بٹ چکی تھی جب کہ دائیں بازو کی جماعت میں پرانے زمیندار، جاگیر دار، کیتھولک چرچ اور فوج کا بڑا حصہ شامل تھا۔ اس سول جنگ میں مزدوروں اور سوشلسٹوں نے ری پبلکنز کا ساتھ دیا جن میں دوسرے فنکاروں کے ساتھ پابلو پکاسو، گارشیا لورکا اور پابلو نیرودا بھی شامل تھے۔ کچھ ادیبوں نے قوم پرست فاشسٹوں کا ساتھ دیا جن میں مشہور سرئیلسٹ مصور سلواڈور ڈالی (Salvador Dali) بھی شامل تھا۔ ان قوم پرستوں کو سامراجیت اور یورپی حکومتوں کی حمایت حاصل تھی۔ ری پبلکنز کے حامی بہت سے ادیبوں کو اذیتیں دی گئیں اور نیرودا کے نہایت عزیز دوست، عظیم ادیب لورکا کو اغوا کر کے باغی رہنما فرانکو (Franco)نے قتل کروا دیا۔ اس سانحے کا نیرودا کی زندگی اور شاعری پر بہت گہرا اثر ہوا۔ اب یہ نیرودا کی ذاتی جنگ بھی بن چکی تھی۔

پابلو نیرودا کے فنی ارتقا میں یہاں ایک بات غور طلب ہے کہ بے شک نیرودا سپین میں Generation’27 کا حصہ بن چکا تھا اور ری پبلکن جماعت کا پوری طرح ساتھ دے رہا تھا؛ لیکن اس نے کمیونزم کو نظریاتی سطح پر قبول نہیں کیا تھا۔ 1933 ء میں اپنے ایک دوست اینڈی (Eandi) کے نام خط میں لکھتا ہے کہ وہ سیاسی طور پر غیر وابستہ رومانوی شاعر کے طور پر رہنے کی خواہش رکھتا ہے اور اسی خط میں پرولتاری ادب کو کم درجے کا کہتے ہوئے ماسکو، اسلحے سے بھری گاڑیوں اور انقلابی عوامل پر اپنے خوابوں کو ترجیح دیتا ہے۔ جنوری 1935ء میں میگوئل ہرنینڈیز(Migual Hernandez) کے نام خط میں وہ کمیونسٹوں کے لیے بظاہر ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے۔ شاید یہ ڈیلیا ڈل کیرل (Delia del Carril)، جو بعد میں اس کی دوسری بیوی بنی، اور اُس کے کیمونسٹ دوستوں مثلاً البرٹی (Alberi) اور میگوئل ہر نینڈیز(Migual Hernandez)کا اثر تھا جن کے ساتھ پہلے 1932ء اور پھر 1933ء، 1934ء اور 1937ء میں ماس کو کے دوروں کے دوران میں اسٹالن سے ملاقاتیں ہوئیں جو اس کے کمیونزم اختیار کرنے کا سبب بنیں۔

نیرودا نے 1937ء میں اپنی کتاب ’’سپین ہمارے دل میں‘‘ (Espana en el corazon) شائع کی۔ یہ کتاب اتنی اثر انگیز تھی کہ ری پبلکن سپاہی اسے ہمہ وقت اپنے ساتھ رکھتے۔ نیرودا کہتا ہے کہ سپاہی اسے خوراک اور دوسری بنیادی ضرورتوں سے زیادہ اہم سمجھتے تھے۔ اگرچہ نیرودا نے کمیونسٹ پارٹی کی باقاعدہ رکنیت دس برس بعد چلی میں اختیار کی لیکن سپین میں اُسے کمیونسٹ ہی تصور کیا جاتا تھا۔ اپنی یادداشتوں میں وہ لکھتا ہے کہ شاعری پُر امن عمل ہے۔ امن شاعر کے لیے وہی حیثیت رکھتا ہے جو حیثیت روٹی بنانے میں آٹے کی ہے۔ شاعری پُر امن انقلاب برپا کر سکتی ہے۔ ’’سپین ہمارے دل میں‘‘ نیرودا کی نظریاتی شاعری کی پہلی کتاب تھی جس میں حملہ آور قوم پرستوں کے خلاف متشدد اور جذباتی طور پر بھرپور طنزیہ نظمیں اور ری پبلکن سپاہیوں کے لیے ترانے اور منا جاتی گیت شامل تھے۔ یہ کتاب نیرودا کے نئے دور کا باقاعدہ آغاز تھی۔ اس میں وہ اپنی وجودی اور سرئیلسٹ نظموں کی اہم ترین کتاب ”Residencia an la tierra”جو اس نے 1925ء سے 1935ء کے درمیان لکھی، سے اس انداز میں دست بردار ہوتا ہے :

تم پوچھنے پر مجبور ہو

کہ وہ بنفشی پھولوں کی جھاڑیاں کہاں ہیں،

گلِ لالہ کے انباروں سے لدی مابعد الطبیعیات

اور وہ مسلسل برستی، مسمار کرتی بارش کہاں ہے ؟

پرندوں اور چھیدوں بھرے اس کے الفاظ کہاں ہیں ؟

 

میں تمھیں وہ سب بتاؤں گا

جس سے میں گزر رہا ہوں

 

ان نظموں میں نیرودا باغی رہنما فرانکو کی شورش سے پہلے کے پُر سکون سپین کی مثالی تصویر کشی کرتے ہوئے اپنے دوستوں سے مخاطب ہوتا ہے اور اپنی راست گوئی کا اظہار کرتے ہوئے لورکا کی موت کا ذ کر کرتا ہے۔ ایک نظم میں جو دیہی گیت کے رنگ میں ہے، گولیاں چلنے کی آوازوں، شعلوں اور خون کا ذکر کرتا ہے :

 

پھر ایک صبح ہر چیز شعلہ زن ہو گئی

پھر ایک صبح آگ زمین سے نکلی

اور ہر چیز کو زندہ نگل گئی

۔ ۔ ۔

لٹیروں کے ساتھ سیاہ راہب

فضا میں دعائیں بکھیرتے ہوئے بچوں کا قتل کرنے آ گئے

اور گلیوں میں بچوں کا خون بہتا رہا

بہت آرام سے بچوں کا خون بہتا رہا

بالکل بچوں کے خون کی طرح

 

اس نظم میں آخری تشبیہہ کودُہرا کر وحشت اور تباہ کن منظر میں جو شدت پیدا کی گئی ہے، اسے کسی اور تشبیہ کے استعمال سے شاعرانہ رنگ دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہ نظم اپنے اختتام میں وہی سوال تین بار دُہرا کر خیال کی سطح پر دائرہ بناتی ہے اور آواز کی بازگشت میں جواب دیتی ہے :

 

آؤ دیکھو، لہو میں نہائی گلیاں

آؤ دیکھو، لہو میں نہائی گلیاں

آؤ دیکھو، لہو میں

نہائی گلیاں !

 

یہ سیاسی رنگ اپنا نے اور شعوری طور پر اپنی شاعری کو پرولتاری بنانے کے باوجود اُس کی نظموں میں سیاسی اور غیر سیاسی کی تقسیم مشکل کام ہے کہ نیرودا بحیثیت شاعر پیچیدہ لکھاری ہے۔ اس کی بعد کے برسوں کی شاعری واضح طور پر سیاسی طرز کی ہے پھر بھی اس میں سریئلسٹ اور رومانوی عناصر نظر آ جاتے ہیں۔ اسی طرح اپنی ابتدائی شاعری میں بھی وہ ایک فرد سے آگے نکل کر کسی بڑی حقیقت سے اپنا تعلق تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

سپین کی سول جنگ کے اختتام کے بعد چلی کی حکومت نے اسے ری پبلکنز کی حمایت کرنے اور اپنی ذمہ داریوں میں جانب داری دکھانے کی وجہ سے کونسلرکی ملازمت سے ہٹانے کا فیصلہ کیا لیکن نیرودا رضاکارانہ طور پر خود ہی اس ملازمت سے سُبک دوش ہو گیا۔ یہ چلی کی حکومت کے لیے ایک طرح کی ندامت تھی۔ اس کے کچھ برسوں بعد نیرودا 1946ء میں چلی کے صدر گیبریئل ودیلا (Gabriel Videla) کا پراپیگنڈا مینجر تھا۔ ودیلا 1946ء سے 1952ء تک چلی کا صدر رہا۔ نیرودا نے محسوس کیا کہ ودیلا نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی نظریاتی وابستگیاں تبدیل کر لی ہیں اور چلی کی جمہوری اقدار کو نقصان پہنچایا ہے۔ 27 نومبر7 194ء کو نیرودا ایک قومی اخبار میں کھلا خط لکھتا ہے جس میں صدر ودیلاکو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ چلی کی جمہوری روایت کو بیرونی طاقتوں کے دباؤ اور جمہوری طور پر منتخب صدر کی دغا بازی اور منافقت نے تباہ کر دیا ہے۔ اس خط میں نیرودا امریکہ کی چلی کے حکومتی معاملات میں مداخلت کی شدید مذمت کرتا ہے۔ اس پر صدر ودیلا نیرودا کے خلاف تادیبی کارروائی اوراس کی گرفتاری کا حکم دیتا ہے۔ کئی مہینے مختلف جگہوں پر چھپنے کے بعد1948ء میں نیرودا جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ گھوڑوں کی پشت پر سوار ہو کرایندیس (Andes) کا پہاڑی سلسلہ عبور کرتا ہے جہاں وہ لاطینی امریکہ کی قدیم تہذیب کے کھنڈرات دیکھتا ہے اور اپنے تاریخی رزمیے Canto Generalکا ایک اہم باب ’’ماچو پیچو کی بلندیاں‘‘ تحریر کرتا ہے۔ یہ نیرودا کی شاعری کا دوسرا نمایاں اور اہم موڑ ہے جب وہ مکمل طور پر سیاسی رنگ اپنا لیتا ہے۔ کانتوجنرل پورے لاطینی امریکہ کی تاریخ ہے جو ماقبل کولمبیا دور سے شروع ہو کر بیسویں صدی کے جدید دور کا احاطہ کرتی ہے۔

رابرٹ پرنگ مل Robert Pring-Mill) ( لکھتا ہے کہ اس رزمیے نے نیرودا کو براعظم لاطینی امریکہ کا عظیم شاعر بنا دیا ہے۔ اس میں نیرودا بر اعظم کے ملکوں کی تجسیم (Personify) کرتے ہوئے پُر زور انداز میں قدیم حملہ آوروں اور جدید تاجروں کو بر اعظم کی تباہی کا ملزم ٹھہراتا ہے۔ مثلاً وہ بیان کرتا ہے کہ ارجنٹائن کوبندوق کے دستوں سے تاراج کیا گیا۔ پیراگوئے کو کیچڑ اور تشدد سے مقیّد کیا گیا۔ چلی نے جلاوطن بیج کاشت کیے وغیرہ۔ Canto General لاطینی امریکی شاعری میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ نیرودا کے چاہنے والے جہاں یہ کہتے ہیں کہ وہ اس میں تمام دوسرے شاعروں سے عظیم شاعر بن کر سامنے آیا ہے، وہاں نیرودا کے نقاد اس کی کمزوریوں کی نشان دہی بھی کرتے ہیں۔ ڈومینک مورن Dominic Moran) ( لکھتا ہے : اگر اس نظم کی تشبیہات کے عامیانہ پن کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو بھی اس میں کسی مرکزی خیال کی شدید کمی اور اس کے لہجے کا اذیت ناک کھوکھلا پن نمایاں طور پر نظر آ جاتا ہے۔ مثلاً جب نیرودا اپنے محبوب کردار پوئبلو (Pueblo) کی مداح سرائی کرتا ہے تو وہ خود نامیاتی طرز اختیار کر لیتا ہے اور استعاروں کا ایک سیلاب اُمنڈ آتا ہے۔ درخت، دریا، جڑیں، پتھر، دھاتیں، معدنیات، گندم، بیج اور روشنی وغیرہ جیسے استعارے انسان اور فطرت کے باہمی تعلق کے دیرینہ سوالات سے جنم لیتے ہیں۔ یہ سوالات وہ ’’ماچو پیچو کی بلندیاں‘‘ میں بھی اٹھا تا ہے جس میں پرولتاریت کو تاریخی عمل کی بنیاد تصور کیا گیا ہے۔ نظم میں اِس کی بار بار تکرار بالکل میکانکی محسوس ہونے لگتی ہے۔ لاطینی امریکہ کا جو نقشہ وہ اس نظم میں کھینچتا ہے، مسلسل پُر ملال اور مایوسی سے پُر نظر آتا ہے جس میں کہیں کہیں انتہائی نحیف انداز میں امید کی کرن دکھائی دے جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ نظمیں جن میں بھرپور مسرت اور شادمانی کا اظہار ہونا چاہیے، نہایت سست انداز میں آگے بڑھتی ہیں اور اپنے ڈھیلے بیانیے کی وجہ سے اپنی تاثیر کھو دیتی ہیں۔ مثلاً اس کے طویل پانچویں باب ’’مخدوع زمین‘‘ (La arena traicionada) کے آخری حصے کی ایک نظم ’’فتح مند عوام‘‘ میں وہ تقریباً سو سال پر محیط ظلم و جبریت کی تاریخ بیان کرتا ہے۔ رشوت، ظلم اور خونی لڑائیوں کے دہشت ناک جذباتی خطاب کے بعد وہ اچانک اعلان کر دیتا ہے :

 

میرے عوام جیتیں گے

تمام عوام جیتیں گے

یکے بعد دیگرے

فتح کا وقت بہت قریب ہے

 

ہم اس کی جتنی بھی بڑائی بیان کر لیں، اس طرح کے غیر متوقع اور سطحی نتیجے پر اس کا اختتام اس کی شاعری کو کمزور کر دیتا ہے۔ ان تمام اعتراضات کے باوجود نیرودا کے نقاد اسے لاطینی شاعری کا عظیم کارنامہ

سمجھتے ہیں جن کے مطابق اس کی وسعت اور عمیقیت اسے دوسرے تمام شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔

سیاسی اور پروپیگنڈا شاعری کے باوجود اس کے ہاں رومانویت کبھی ختم نہیں ہوئی۔ 1953ء میں اس کی ایک اور نمایاں کتاب "Los Versos del Captain” شائع ہوئی جسے اس نے اپنی تیسری بیوی مِٹلدے یروٹیا (Mitilde Urrutia) کے نام منسوب کیا۔ اس میں مٹلدے کے لیے رومانوی نظمیں بھی شامل ہیں اور سیاسی نوعیت کی نظمیں بھی۔ 1960ء میں اپنے عالمی سفر کے دوران میں وہ یورپ، کیوبا اور چین کا دورہ کرتا ہے۔ کیوبا میں اسے شدید توہین کا احساس ہوتا ہے جب اس کا استقبال خوش آئند طور پر نہیں کیا جاتا۔ مارکسی لیڈر چے گویرا سے ملاقات بڑے عجیب طریقے سے ہونی ہے۔ جب نیرودا اس سے ملنے جاتا ہے تو چے فوجی بوٹ پہنے اپنے پاؤں میز پر رکھے آرام کر رہا ہوتا ہے اور نیرودا کے استقبال میں بالکل غیر رسمی رویہ اختیار کرتا ہے۔ نیرودا کو اپنی ہتک محسوس کرتا ہے۔ فین سٹائن (Feinstein) کہتا ہے کہ نیرودا کو اس سے پہلے فیدل کاسترو کا بیان بھی کافی ناگوار گزرا تھا جس میں وہ اعلان کرتا ہے کہ کیوبا کا انقلاب کسی مخصوص نظریے کے تابع نہیں ہو گا، حتیٰ کہ سوشلزم کے تابع بھی نہیں ہو گا۔ لیکن1961ء میں اس نے بے آف پگِز(bay of pigs) کی یلغار کے وقت اسے سوشلسٹ انقلاب کا نام دے دیا۔ اس کے علاوہ نیرودا کو اپنی کتاب "Cancion de gesta”کو توجہ نہ دیے جانے پر بھی غصہ تھا۔ یہ پہلی کتاب تھی جو اس نے باقاعدہ طور پر انقلاب کے نام منسوب کی تھی۔ اس بے توجہی کا کوئی واضح سبب تو معلوم نہیں لیکن یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی ایک وجہ اُس نظم کی اختتامی سطر ہو سکتی ہے جو اس نے فیدل کاسترو کو مخاطب کرتے ہوئے لکھی جس میں وہ فیدل کاسترو کو مطلق العنانی کے لالچ سے بچنے کی تنبیہ کی گئی تھی:

 

فیدل!

اسے تھامو، اس ساغر کو تھامو

بہت سی امیدوں بھرے اس ساغر کو

اور جب تم اسے نوش کرو گے

تم اپنی فتح میں میرے وطن کی

سرخ انگوری شراب کا لطف محسوس کرو گے

کہ اسے ایک آدمی نے نہیں، بے شمار آدمیوں کی محنت نے بنایا ہے

کہ یہ ایک انگور سے نہیں، بے شمار بیلوں سے کشید کی گئی ہے

کہ یہ ایک قطرے سے نہیں، کئی دریاؤں سے بنی ہے

کہ اسے تنہا سالار نے نہیں، کئی جنگوں نے مل کر حاصل کیا ہے

1956ء کے بعد نیرودا کی شاعری میں غیر محسوس انداز میں ایک نئی تبدیلی واقع ہونے لگتی ہے جب صدر نِکیتا خروشیو(Nikita Khrushchev)، اسٹالین (Stalin)کے دورِ حکومت کے اختتام کا اعلان کرتا ہے اور سٹالنزم کے نام پر کیے جانے والے ناقابلِ بیان مظالم سامنے لائے جاتے ہیں۔ کمیونسٹ دنیا میں بے چینی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور تہلکہ مچ جاتا ہے۔ اگرچہ ان مظالم، جبری اجتماعیت اور بے رحم مشقتی کیمپوں کی تفاصیل مختلف ذرائع سے سامنے آتی رہیں جنھیں جسے کٹر کمیونسٹ دانشور دائیں بازو کا پراپیگنڈا کہہ کر جھٹلاتے رہے، لیکن 1951ء میں جب اکتاویو پاز (Octavio Paz) نے ارجنٹائن کے ایک ثقافتی جریدے ’’سُر‘‘ (Sur)میں نازی کیمپوں سے زندہ بچ نکلنے والے ڈیوڈ روزوئے (David Rossuet) کی اسٹالن مخالف تحریریں شائع کیں تو کمیونسٹوں کے لیے ان حقائق کو جھٹلانا ناممکن ہو گیا۔ عوامی طور پر تو نیرودا خاموش رہا لیکن اس کی شاعری سٹالنزم پر عدم یقینیت اور فریبِ نظر کا اظہار کرنے لگی۔ 1957ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’نظموں کی تیسری کتاب‘‘ (Third Book of Odes) کی ایک نظم ’’سڑک کے لیے نظم‘‘ میں ایک مسافر جو کبھی نہایت پُر اعتماد تھا، اچانک اپنا راستہ کھو دیتا ہے اور بھٹک جاتا ہے، اسی سمت اشارہ کرتی ہیں۔ اسی مجموعے کی بہت سی دوسری نظمیں اپنے لہجے اور مواد میں گزشتہ برسوں کی شاعری کی طرح نہ تو سیاسی ہیں اور نہ ہی امید پرستانہ۔ نیرودا کی آپ بیتی کی طرز پر لکھی شاعری کی کتاب "Isla Negra” کے آخر میں ایک طویل نظم "The Episode” خروشیو(Khrushchev)کے انکشافات کا ردِ عمل ہے۔ بظاہر اس نظم میں سٹالن کو کوئی ذکر نہیں ملتا لیکن اس میں علامتی طور پر واقعات کی تفصیل اس کے سیاق و سباق کو عیاں کر دیتی ہے۔

نیرودا کی ایک اور کم اہم مگر مختلف کتاب "Incitation to Nixoncide and praise of the Chilean revolution” مکمل طور پر سیاسی اور پروپیگنڈا نظموں پر مشتمل ہے۔ اس کا مقصد نو منتخب صدر سلوادور الاندے (Salvador Allende) کی سوشلسٹ حکومت کا دفاع اور امریکی سامراج کی سازشوں کی مذمت کرنا تھا۔ چلی میں 1970ء کے الیکشن شدید اضطراب کا شکار تھے۔ الاندے حکومت کا واضح اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے بنیادی نوعیت کی آئینی اور سماجی تبدیلیاں کرنا دشوار تھا۔ الاندے نے پُر امن طور پر سوشلسٹ طرزِ حکومت نافذ کرنے کی کوشش کی جو چلی کے عوام اور حکومت دونوں کے لیے بالکل نیا تجربہ تھا۔ الاندے حکومت جمہوری دستور کے دائرے میں رہتے ہوئے ان بنیادی سوشلسٹ تبدیلیوں کے مثبت نتائج کے لیے پُر امید تھی۔ معاشی پالیسی میں تانبے کی تمام غیر ملکی کمپنیوں اور بینکوں کو قومیانے کے فیصلے نے امریکہ کو مزید برہم کر دیا۔ الاندے کے ان اقدامات سے ساری دنیا میں ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ اپنے عروج پر تھی۔ اس موقع پر جنوبی امریکہ میں جمہوری طور پر منتخب سوشلسٹ حکومت کا قیام امریکہ(USA) کے لیے بڑے خطرے سے کم نہیں تھا۔ صدر نکسن (Nixon)نے چلی کی معیشت تباہ کرنے کے لیے غیر ملکی نجی کمپنیوں کو چلی میں سرمایہ کاری سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش شروع کر دی۔ مہنگائی ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ چکی تھی۔ چلی کے عوام کے لیے سوشلسٹ طرزِ حکومت کا یہ تجربہ پہلے ہی بالکل غیر یقینی اور نیا تھا۔ لہٰذا چلی کے عوام کا اعتماد اٹھنا شروع ہوا اور ہر طرف مزید اضطراب پھیل گیا۔ سپریم کورٹ نے الاندے حکومت پر تنقید شروع کر دی۔ پولیس سڑکوں پر امن و امان قائم کرنے میں ناکام ہو چکی تھی۔ لہٰذا 1973ء میں پے در پے فوجی بغاوتوں نے الاندے حکومت کو مفلوج کر دیا۔ 11 ستمبر 1973ء کو فوجی جرنیل پینوشے (Pinochet) نے امریکی حکومت کی مدد سے چلی کی پارلیمنٹ اور الاندے کی رہائش گاہ پر بمباری کی اوراقتدارپر قبضہ کر لیا۔ اس ہولناک صورتِ حال میں نیرودا کی کتاب "Incitation to Nixoncide and praise of the Chilean revolution” غصے بھرا ردِ عمل تھا۔ سامراجی سازشوں اور بالادستیوں نے اُن کی ساری زندگی کی سوشلسٹ جد و جہد اور چلی کی ترقی کے خواب چکنا چور کر دیے۔ منظوم شاعری کی اس کتاب میں امریکی صدرنکسن کی شدید توہین اور اس پر الزامات کی بوچھار کی گئی تھی۔ جس کے دیباچے میں نیرودا واضح طور پر لکھتا ہے کہ اس کتاب کا شاعرانہ نزاکت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس میں میری گزشتہ کتابوں کی طرح کوئی موسیقیت موجود ہے۔ میرے پاس دشمن کے خلاف اپنے لوگوں کے دفاع کے لیے اور کوئی راستہ نہیں۔ اگرچہ یہ ایک عارضی ہدف ہے لیکن میں اس کی تکمیل کروں گا۔

نیرودا کا اس قدر کٹر کمیونسٹ بن جانا کوئی غیر متوقع امر نہیں تھا کیونکہ اس نے دوسری طرف سامراجیوں کے مظالم بھی دیکھے تھے اور وہ خود ان کا شکار رہا تھا۔ سپین کی سول جنگ کے دوران میں سامراج اور دائیں بازو کی زیادتیوں اور نا انصافیوں نے اسے سوشلزم کے بارے میں سوچنے پر مائل کیا۔ اس کے علاوہ چلی کے پسے ہوئے عوام سے تعلق اور ذاتی مشاہدات نے اسے معاشی اور سماجی مساوات کی خواہش کا نمائندہ بنا دیا۔ فنی اعتبار سے اس کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ سیاسی نظموں میں وہ نعرہ بازی سے اجتناب کرے۔ اس لیے اس کی شاعری واضح سیاسی موضوعات کے باوجود فطرت، زندگی اور لطیف انسانی جذبات کی تجسیم ہے۔ اس کا فن سادہ لفظیات اور عام تشبیہات کے ذریعے گہری اور پُر اثر معنویت پیدا کر دیتا ہے۔

یہ ترجمے کسی طور بھی نیرودا کی شاعری کا نعم البدل نہیں ہیں۔ نیرودا کی بہت سی نظمیں پہلے بھی اردو میں ترجمہ ہو چکی ہیں لیکن میں نے یہ کتاب اپنی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے ترجمہ کی ہے۔ ممکن ہے اس میں نیرودا کی اصل نظموں کی کچھ جھلک دکھائی دے جائے۔ یہ تراجم ادبی جریدے نقاط میں شائع ہوتے رہے ہیں جن کے لیے میں مدیرِ نقاط  کاشکریہ گزار ہوں۔ اس کے ساتھ ہی میں انور سن رائے اور مہوش جاوید کا بھی ممنون ہوں کہ انھوں نے ان تراجم کو بغور پڑھا اور خامیوں کی نشان دہی کی۔ زین حامد اور ژولیاں کا بھی بے حد شکریہ کہ انہوں نے مجھے نیرودا کی کچھ اہم کتابیں فراہم کیں۔

 

زاہد اِمروز

جون۲۰۱۲ء

 

 

 

 

(نظمیں )

 

عورت کا جسم

 

اے عورت کے حسیں جسم

سفیدرانواور دودھ بھری چھاتیو!

تم سپر انداز لیٹی، دنیا کی مانند دکھائی دیتی ہو

میرامزدورجسم تمھیں کھودتا ہے

اور زمین کی گہرائی میں ایک ندی تخلیق کرتا ہے

 

میں کسی سُرنگ کی طرح ویران تھا

پرندے مجھ میں سے اُڑ گئے

اور رات نے مجھ پر قاتلانہ حملے کیے

اپنی زندگی کی خاطر میں نے تمھیں

کمان کے تیر، غلیل کے پتھر کی جگہ

ہتھیار کے طور پر ڈھال لیا

 

لیکن جب موت پسپاہو جاتی ہے

میں تم سے وصال کرتا ہوں

اے جمی ہوئی کائی

گاڑھے سفید دودھ اور جلد کے لمس!

او چھاتی کے حسین پیالو!

او بے خیالی کی آنکھو!

او پِیڑو کے سفید گلابو!

او تمھاری مدھم اُداس آواز!

 

اے میری عورت کے جسم!

میں تمھارے حسن کا مدّاح رہوں گا

اپنی پیاس، اپنی بے قابو خواہشوں اور بدلتے راستوں کے ساتھ

دریاؤں کے تاریک کناروں پر

جہاں ازلی پیاس بہتی ہے

ایک مستقل دُکھ کے ساتھ

تھکاوٹ جس کا تعاقب کرتی ہے

***

 

 

 

 

روشنی تمہیں بانہوں میں بھرتی ہے

 

روشنی اپنی گرمائش تمہارے گرد لپیٹتی ہے

شام کو پسپا کرتے پرانے حربوں کے مخالف سمت کھڑی

غم آلود روشنی تمہارے گرد لپٹنے لگتی ہے

 

میری دوست!

میں آگ کے شعلوں سے بھرا

برباد دن کا اصل جانشین

وقت کی اِس گہری تنہائی میں خاموش کھڑا ہوں

 

سورج پر سے پھلوں کی لدی شاخ

تمہارے لباس پر گرتی ہے

عظیم رات کی جڑیں

اچانک تمہاری روح سے پھوٹ آتی ہیں

 

تم میں پوشیدہ ہر چیزمجسم ہو جاتی ہیں

تاکہ مرجھائے ہوئے زرد لوگ

تمہارے وجود سے زندگی پائیں

 

او سیاہ اور سنہرے پن میں گھومتے دائروں کے

عظیم اور پُر کشش غلام!

اٹھو !

اٹھو اور پھُوٹتی ہوئی تخلیق بن جاؤ

شدید تخلیق، جس کے پھل بِکھر جاتے ہیں

اور وہ اُداسی سے بھر جاتی ہے

***

 

 

 

 

 

صنوبروں کی وسعت

 

دور تک پھیلی صنوبروں کی وسعت

ہواؤں کی سرسراہٹ

روشنی کے مدھم اشارے

تنہا بجتی گھنٹیاں

تمہاری آنکھوں میں اُترتی شام کا اندھیرا

روئی کی گڑیا

اور اپنے خول میں گنگناتی زمین!

 

تم میں دریا گاتے ہیں

میری روح اِن میں

تمہاری خواہشوں کے تعاقب میں پرواز کرتی ہے

اپنی امیدوں کی کمان سے میری سمت نشانہ باندھو

میں بال افشاں جنون میں اپنے سارے تیر چلاؤں گا

 

تم ہر سمت دھند کی طرح پھیلی ہو

تمہاری خاموشی میرے اذیت ناک لمحوں کا شکار کرتی ہے

میرے بوسے تم میں لنگر انداز ہوتے ہیں

میری نم آلود خواہش

تمہارے مرمری بازوؤں میں گھونسلہ بناتی ہے

تمہاری سریلی آواز میں گجر کی پراسراریت

مرجھاتی شام میں بہت غم آلود ہو جاتی ہے

اسی لیے زوال کے وقت کھیتوں میں

میں نے گندم کی بالیوں کو ہوا سے بجتے سنا ہے

***

 

 

 

 

طوفان آلود صبح

 

گرما کے دل میں طوفان آلود صبح پھیلی ہے

 

الوداعی انداز میں ہلتے سفید رومالوں کی طرح بادل

ہوا کے ہاتھوں میں لہرا رہے ہیں

 

ہوا کے ان گنت دِل

ہماری محبت بھری خاموشی میں دھڑک رہے ہیں

درختوں کے درمیان

خدا اور سازندوں کے جنگی ترانے اور گیت گونج رہے ہیں

ہوا کا تیز جھونکا خشک پتّے گرا دیتا ہے

اور اُڑتے پرندوں کی سمت بدل دیتا ہے

 

ہوا اُسے پھوہار سے خالی لہروں میں ڈھال دیتی ہے

اشیاء کو بے وزن کر دیتی ہے

اور آگ کا سر جھکا دیتی ہے

 

اُس کے بوسوں کا بوجھ گرما کے دروازے پر حملہ کرتا ہے

اور ٹوٹ کر ڈوبنے لگتا ہے

***

 

 

 

 

تم مجھے سن سکو

 

تم مجھے سن سکو

اس لیے میری نظموں کے مصرعے کبھی کبھی

ساحل پر راج ہنسوں کے قدموں کے مہین راستے بن جاتے ہیں

 

تمہارے انگوروں سے گداز ہاتھوں کے لیے

میں ایک مخمور گھنٹی اور گجرا بنا رہا ہوں

 

میں بہت فاصلے سے اپنی نظموں کو دیکھتا ہوں

یہ مجھ سے زیادہ تمہاری ہیں

ان کے مصرعے میرے دکھوں کی ازلی بیل پر لپٹ جاتے ہیں

اسی انداز میں یہ سیلن زدہ دیواروں پر لپٹنے لگتی ہے

 

اس ناقابلِ برداشت کھیل کی مجرم تم ہو

یہ نظمیں میرے تاریک غاروں سے اُڑ رہی ہیں

تم ہر چیز کو بھر دیتی ہو

تم ہر جگہ سرایت کر جاتی ہو

 

تم سے پہلے یہ تنہائی سے بھری پڑی تھیں

تمہارے لمس سے زیادہ میری اُداسی سے مانوس تھیں

 

اب میں چاہتا ہوں

یہ تم سے وہ سب کچھ کہیں جو میں کہنا چاہتا ہوں

اور تم وہ سنو جو میں نہیں سنا سکا

 

شدید کرب کی ہوائیں ابھی تک اِن میں گردش کرتی ہیں

خوابوں کے طوفان اُسی طرح ان میں در آتے ہیں

میری غمیدہ آواز میں تم کئی اور آوازیں سنتی ہو

 

او قدیم وقتوں کے نوحو، قدیم مغفرت کے خون!

مجھے محبت دو

میرے ساتھیو!

 

مجھے سہارا دو

میرے دوستو!

میرے ساتھ رہو

میرے ساتھ رہو

کرب کی اِس شدید گھڑی میں

میرے ساتھ رہو

 

لیکن میرے لفظ تمہاری محبت میں ڈوبے رہتے ہیں

تم ہر ذرّے میں ہو

تم ہر ذرّے میں ہو

 

میں ان نظموں سے

ایک مخمور گھنٹی اور گجرا بنا رہا ہوں

تمہارے انگوروں سے گداز ہاتھوں کے لیے

***

 

 

 

 

میں تمھیں اُسی روپ میں یاد کرتا ہوں

 

میں تمھارے اُسی روپ کو یاد کرتا ہوں

جو گذشتہ خزاں میں تھا

تم خاکستری فوجی ٹوپی کی طرح ایک تھما ہوا دل تھی

تمھاری آنکھوں میں شام کی روشنیاں منّور تھیں

اور خشک پتّے تمھاری روح کے پانیوں پر گرتے

 

میرے بازو پکڑتے ہوئے

پتّوں نے تمھاری دھیمی شانت آواز کو یوں چُنا

جیسے پودے کی ٹہنی پرورش پاتی ہے

میری پیاس غم کی آگ میں جل رہی تھی

اور خودرَو نیلے پھول تمہاری روح پر جھک گئے

 

میں تمھاری مسافر آنکھوں کو محسوس کرتا ہوں

اب خزاں

خاکستری فوجی ٹوپی سے

پرندوں کی آوازوں سے

اور گھرجیسے کشادہ دل سے بہت دُور جا چکی ہے

جن کی سمت میری شدید خواہشوں نے ہجرت کی

جس میں میرے دہکتے کوئلوں سے روشن بوسے ڈوب گئے

 

بحری جہاز سے نظر آتے آسمان

اور پہاڑوں سے دکھائی دیتے کھیت کی طرح

تمھاری یاد روشنی، دھوئیں اور ساکن تالاب سے بنی ہے

تمھاری آنکھوں کے بعد صرف شام روشن تھی

اور خزاں کے پتّے تمھاری روح میں اُڑتے تھے

***

 

 

 

 

سہ پہروں کی سمت ڈھلتے ہوئے

 

سہ پہروں کی سمت ڈھلتے ہوئے

میں اپنے اُداس جال

تمھاری سمندر سی گہری آنکھوں میں پھینکتا ہوں

 

وہاں۔ ۔ ۔ نہایت بلندی پر، روشنیوں میں

ڈوبتے آدمی کے بازوؤں کی مانند

میری تنہائی مزید طویل ہو جاتی ہے

 

میں روشنی کے میناروں کے گرد چھلکتے سمندر جیسی

تمھاری کھوئی ہوئی آنکھوں کی طرف

 

سُرخ روشنیوں کے پیغام بھیجتا ہوں

میری کھوئی ہوئی محبوبہ!

 

تمھارے پاس صرف اُداسی ہے

تمھاری تعظیم میں کبھی کبھی، خدشوں کاساحل اُبھرنے لگتا ہے

 

سہ پہروں کی سمت ڈھلتے ہوئے

میں اپنے مُرجھائے جال

تمھاری گہری آنکھوں میں اُترتے سمندر میں پھینکتا ہوں

 

تم سے محبت کے سمے

پرندے میری روح کی مانند چمکتے شام کے ستارے چُننے لگتے ہیں

 

رات اپنی نیلی جھالریں زمین پر لہراتی ہوئی

گہرے سایوں کے گھوڑے پر بھاگنے لگتی ہے

***

 

 

شہد کی سفید مکھی

 

شہد میں ڈوبی ہوئی مخمور سفید مکھی!

تم میری روح میں بھنبھناتی ہو

تم دھوئیں کے رقصاں دائروں میں پرواز کرتی ہو

 

اس لمحے میں یوں نا امید ہوں

جیسے بازگشت سے محروم آواز

جیسے لُٹا ہوا خالی شخص

اُس آدمی کی طرح

جس کے پاس کبھی ساری دنیا تھی

اے امید کی آخری رسّی!

تم میں میری آخری خواہش چرمراتی ہے

میری بنجر زمین میں تم آخری گلاب ہو

آہ! تم کس قدر خاموش ہو

 

اپنی گہری آنکھیں بند کر لو

ان میں رات پھڑپھڑاتی ہے

او تمہارا ستواں جسم

جیسے کوئی سہما ہوا مجسمہ!

تمہاری گہری آنکھوں میں رات لہراتی ہے

تم پھولوں کی نرمی ہو

تم گلاب کی گود ہو

تمہاری چھاتیاں سفید گھونگوں کی طرح ہیں

سائے کی تتلی تمہارے پیٹ پر سستانے آتی ہے

 

آہ! تم کس قدر خاموش ہو

 

یہاں گہری تنہائی ہے

کہ تم میرے پاس نہیں ہو

بارش ہو رہی ہے

اور سمندر کی ہوا آوارہ پرندوں کا شکار کر رہی ہے

بھیگے راستوں پر پانی ننگے پاؤں چلتا ہے

ان درختوں کے پتّے شکایت کرتے ہیں

کہ وہ مرجھا گئے تھے

 

او شہد کی سفید مکھی!

تم جا چکی ہو

پھر بھی میری روح میں بھنبھناتی ہو

تم ہمہ وقت موجود ہو

مدھم اور خاموش آواز میں

 

آہ! تم کس قدر خاموش ہو

***

 

 

صنوبروں کا خمار

 

گرما کی طرح میں صنوبروں اور طویل بوسوں کے خمار میں ڈوبا

قریب الموت دن کی طرف جھکی

سمندری جنونیت سے لبریز گلاب کی کشتیوں کی سمت نمائی کرتا ہوں

 

میں اپنے جنون کے وحشی پانیوں سے مرجھائے ہوئے

زرد موسم کی ترش مہک میں ڈوب جاتا ہوں

برہنہ موسم پر، ابھی تک جمی ہوئی جھاگ کا تاج

اورکسیلی آوازوں کا لباس لپٹا ہوا ہے

 

میں سورج کی مانند جلتی اور چاند کی مانند ٹھنڈی

شدتِ جذبات سے تنی لہروں پر تیرتا ہوں

جوسفید، شیریں کولہوں سے جزیروں پر شانت ہو جاتی ہیں

 

نم آلود رات میں میرے بوسوں کا لباس لرزتا ہے

اور بے باک خوابوں میں منقسم ہو کر

میرے گلابوں کو خمار آلود کرتا ہوا

تخّیل کی بجلیوں سے دیوانگی میں ڈھل جاتا ہے

 

لہروں کے سینے سے اُٹھتے ہوئے

آسمان کے نیچے پھیلی قوت میں تمہارا جسم

میری روح سے بندھی مچھلی کی طرح

میرے بازوؤں میں جنم لیتا ہے

کبھی یک بار اور کبھی آہستہ آہستہ

***

 

 

 

 

ہم نے اِسے بھی کھو دیا

 

ہم نے اِس شفَق کو بھی کھو دیا

آج شام کسی نے ہمیں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے نہیں دیکھا

اور ہر سمت رات کی نیلاہٹ پھیل گئی

 

پہاڑوں کی چوٹیوں پر غروبِ آفتاب

میں نے کھڑکی سے ہی دیکھا

بعض اوقات سورج کا ایک ٹکڑا

میرے ہاتھوں میں سکّے کی طرح جلتا رہا

 

میں نے تمھیں اپنی اُسی ازلی اُداسی میں گرفتہ روح کے ساتھ یاد کیا

جس سے تم آشنا ہو

 

تم تب کہاں تھی؟

پھر وہاں کون تھا؟

کیا کہتے ہوئے ؟

ابھی میں اداس اور تم سے بہت دور ہوں

پھر اس محبت کی شدّت مجھ پریک بار کیوں آگرے ؟

 

کتاب، جو ہر شام بند ہو جاتی ہو

گرتی ہے اور میرے کندھوں کی چادر زخمی کتے کی طرح

میرے قدموں پر لڑھک جاتی ہے

 

ہمیشہ۔ ۔ ۔ تم ہمیشہ مجسموں کو مٹاتی شام کی طرح

دھندلی روشنیوں کے ساتھ ماند پڑ جاتی ہو

***

 

 

 

 

پورے آسمان میں سے

 

پورے آسمان میں سے نِصف چاند

دو پہاڑوں کے درمیان لنگر انداز ہے

آوارہ پھرتی رات آنکھوں کے خنجر میں ڈھل رہی ہے

دیکھو اب کتنے ستارے تالاب میں گرتے ہیں

 

رات میری آنکھوں کے درمیان

سوگواری کے خط کھینچ کر غائب ہو جاتی ہے

پگھلی ہوئی نیلی دھاتو، خیمہ زن جنگ کی راتو

 

میرا دل بے قابو پہیئے کی طرح گھوم رہا ہے

کبھی کبھی تم آسمان پر بجلی کا کَوندا بنتی ہو

گرجتے بادل، طوفان، قہر آلود بگولے

مسلسل میرے دل میں سے گزرتے ہیں

مقبروں سے آتی ہوا

تمہاری نیند آلود بنیادیں منتشر کر دیتی ہے

 

تمہاری دوسری سمت، تن آور درخت اکھڑے پڑے ہیں

لیکن تم، بن بادل کی لڑکی، دھند کا تجسّس، مکئی کا بھٹہ ہو

تم وہ ہو، جسے ہوا روشن پتّوں سے بنا رہی تھی

رات کے جاگتے پہاڑوں کے پیچھے

نیلوفر کے آتشی سفید پھُول!

آہ! میرے پاس الفاظ نہیں

تم کائنات کی ہر چیز سے بنی ہو

 

خواہش کی شدّت نے میرا سینہ چاک کر دیا ہے

اب وقت ہے کہ میں وہ راستہ اپناؤں

جس پر اُس کی مسکراہٹ نہ پھیلی ہو

گرجے کی گھنٹیاں بجاتے طوفان

اذیت کے کیچڑ آلود بگولے

اب اُسے کیوں چھوتے ہیں ؟

اسے کیوں اداس کرتے ہیں ؟

 

آہ! بغیر موت، بغیر کسی کرب کے

وہ راستہ اپناؤ جو پر چیز سے دور جاتا ہے

جس کے پہلو بہ پہلو

شبنمی آنکھوں میں سرما انتظار کرتا ہے

***

 

 

 

 

تمھارا سینہ کافی ہے

 

میرے دل کے لیے تمھارا سینہ کافی ہے

اور تمھاری آزادی کے لیے میرے پَر

تمھاری روح میں جو بھی سورہا تھا

مجھ میں سے اُٹھ کر جنت میں چلا جائے گا

 

تم میں ہر دن کا التباس ہے

تم پھولوں پر شبنم کی صورت جلوہ گر ہوتی ہو

تم اپنی غیر موجودگی سے اُفق کو بے وقعت کر دیتی ہو

تم لہروں کی طرح ہمیشہ متحرک رہتی ہو

 

میں نے کہا تھا

تم ہوا میں صنوبروں اور کشتیوں کے بادبان کی طرح گاتی ہو

تم انھیں کی طرح دراز قد اور کم گو ہو

تم میں طویل سمندری سفر کی اُداسی ہے

 

تم پرانے راستوں کی طرح اپنے گرد چیزیں سمیٹ لیتی ہو

تمھارا وجود بازگشتوں اور پُرانی یادوں سے بھرا ہُوا ہے

میں جاگا مگر اُس وقت تک

تمام پرندے ہجرت کر چکے تھے

جو کبھی تمھاری روح میں سوتے رہے تھے

***

 

 

 

 

میں نشان زد کرتا گیا

 

میں اپنی آگ سے تمہارے جسم کا نقشہ نشان زد کرتا گیا

تمہارے وجود میں، تمہارے پہلو میں

سہمی ہوئی، پیاس سے ہلکاتی

میری زبان نے چھُپتی ہوئی خوفزدہ مکڑی کی طرح

تمہارے جسم کا طواف کیا

 

شام کے ساحل پر تمہیں کہانیاں سنانے کے لیے

او میری معصوم گڑیا

کہ تم اُداس نہ ہو

ایک کُونج، ایک درخت، کوئی دور کھڑی چیز

متجسس اور خوش گوار

انگوروں کا موسم

رس بھرا زرخیز موسم

 

میں نے پانیوں کے کنارے تم سے محبت کی

وہاں خاموشی اور خوابوں سے میری تنہائی مدغم ہو گئی

بے آواز، بے ہوش، دو سوئے ہوئے ملاحوں کے ساتھ

میں سمندر اور اُداسی کے درمیان اُلجھا رہا

 

ہونٹوں اور آواز کے درمیان کوئی چیز مر جاتی ہے

کوئی چیز، پرندوں کے پروں کے ساتھ

کوئی دُکھ بھری بات، کوئی تغافل

اس طرح تو جال پانی نہیں پکڑ سکتے

 

میری معصوم گڑیا!

ان پر صرف کانپتے ہوئے چند قطرے رہ سکتے ہیں

پھر بھی اِن مفرور لفظوں میں کوئی چیز گا رہی ہے

کچھ گنگنایا جا رہا ہے

کچھ ہے، جو میری پیاسی زبان پر آتا ہے

تمہاری بھر پور تعظیم، تمہارا جشن منانے کے لیے

اپنے تمام شادمان الفاظ کے ساتھ

گاؤ، جلو، ہوا میں لہراؤ

پاگل آدمی کے ہاتھ میں گرجے کی گھنٹی کی طرح

 

میری معصوم اُداسی!

کون تمہیں ایک ہی جست میں گرفت کر لیتا ہے ؟

 

جب میں سب سے حسین اور سردبلندیوں پر پہنچتا ہوں

میرا دل رات کے پھول کی طرح بند ہو جاتا ہے

***

 

 

 

 

ہر روز تم روشنی سے کھیلتی ہو

 

ہر روز تم کائنات کی روشنی سے کھیلتی ہو

دھندلے عکس!

تم کبھی پھول، کبھی پانی بن کر آتے ہو

پھلوں کی اُس ٹوکری سے زیادہ

تم میرے قریب ہو

جو ہر روز میرے ہاتھوں میں تھمی رہتی ہے

 

میری محبوب، تم سی کوئی چیز نہیں

آؤ تمہیں بہار کے پھولوں میں رکھوں

جنوبی ستاروں کے درمیان دھندلے حروف میں

کون تمہارا نام لکھ جاتا ہے ؟

اوہ! میں تمہارے اسی عکس کو یاد کرتا ہوں

جو تم اپنی موجودگی سے پہلے تھی

 

اچانک ہواؤں کا زور میری بند کھڑکی سے ٹکراتا ہے

آسمان مچھلیوں سے بھرا جال دکھائی دیتا ہے

آج یا کل، تمام ہوائیں

ہاں تمام ہوائیں انہیں رہا کر دیں گی

بارش اُس کا لباس اتارتی ہے

 

پرندے اُڑ جاتے ہیں

او ہوا، او ہوا!

میں صرف آدمیوں کے خلاف لڑ سکتا ہوں

طوفان خشک پتّوں کا جھکڑ بنتا ہے

اور تمام کشتیاں گرا دیتا ہے

جو گزشتہ رات آسمان سے بندھی ہوئی تھیں

 

تم یہاں ہو

اوہ کہیں مت جاؤ

تم میری آخری سسکی تک ٹھہرو

اور مجھ سے خوف زدہ شخص کی طرح لپٹ جاؤ

کہ کبھی ایک اجنبی سایہ تمہاری آنکھوں سے گزرا تھا

 

اب بھی، ہاں ابھی بھی تم میرے لیے شہد آشام بنتی ہو

اور تمہارے پستانوں میں اِس کی خوشبو رچی ہے

جس لمحے اُداس ہوا تتلیوں کا قتل کرتے گزرتی ہے

میں تم سے محبت کرتا ہوں

میری مسرت تمہارے ہونٹوں کے میٹھے پھل چکھتی ہے

 

تم نے کس قدر میری عادی ہو جانے کا دکھ سہا ہو گا

میری وحشی، تنہا روح

میرا نام جسے سب چھوڑ جاتے ہیں

کئی بار ہم نے صبح کے بجھتے ستارے کو

ہماری آنکھیں چومتے دیکھا

اور ہمارے سروں پر مٹیالی روشنی کو ہوا میں ڈھلتے دیکھا

 

میرے الفاظ تم پر بارش بن کر برسے

طویل عرصے تک میں نے تمہارے بدن کے چمکتے سِیپ سے محبت کی

میں اکثر سوچتا ہوں

تم میری ساری کائنات ہو

میں تمہارے لیے پہاڑوں سے مسکراتے پھول

 

نیلے سوسن، گہری دھند

اور بوسوں سے بھری ٹوکریاں لاؤں گا

میں تمہارے ساتھ وہ کرنا چاہتا ہوں

جو بہار چیری کے سفید درختوں سے کرتی ہے

***

 

 

 

 

مجھے تمہارا انتظار کرنا اچھا لگتا ہے

 

مجھے تمہارا انتظار کرنا اچھا لگتا ہے

یوں ہے کہ تم موجود نہیں ہو

تم بہت فاصلے سے مجھے سنتی ہو

اور میری آواز تمہیں چھو نہیں سکتی

یوں ہے کہ تمہاری آنکھیں کہیں اُڑ گئی ہیں

اور ایک بوسے نے تمہارے ہونٹ سی دئے ہیں

 

یوں ہے کہ جیسے ہر چیز میری روح سے بھر گئی ہے

تم میری روح سے بھری تمام چیزوں میں بیدار ہوتی ہو

تم میری روح کی طرح ہو

خوابوں کی ایک تتلی

تم ایک لفظ ’’افسردگی‘‘ کی طرح ہو

 

مجھے تمہارا انتظار کرنا اچھا لگتا ہے

تم ابھی تک دور ہو

لگتا ہے تم گہرے کرب میں تھی

جیسے تتلی کسی کوئل کی طرح کوکتی ہو

تم مجھے بہت فاصلے سے سنتی ہو

اور میری آواز تمہیں چھُو نہیں سکتی

 

مجھے اپنی خاموشی سے باتیں کرنے دو

چراغوں سی روشن، گھنٹی جیسی سادہ خاموشی سے

تم جھرمٹوں سے بھری ساکن رات کی مانند ہو

تمہاری خاموشی ستارے کی طرح خفیف اور روشن ہے

 

مجھے تمہارا انتظار کرنا اچھا لگتا ہے

یوں ہے کہ تم موجود نہیں ہو

مجھ سے دور اور غم آلود

جیسے تم زندہ نہیں رہی

تب صرف ایک حرف، ایک مسکراہٹ کافی ہے

اور میں خوش ہوں

خوش ہوں کہ یہ سچ نہیں ہے

***

 

 

میرے آسمان پر شفق

 

شام کی شفَق میں تم میرے آسمان پر بادلوں کی طرح ہو

تمھاری رنگت اور تمھارے بدن کی قوسیں

اِن سے میں شدید محبت کرتا ہوں

تم صرف میری ہو۔ ۔ میری۔ ۔ ہاں صرف میری

اے شہد بھرے ہونٹوں والی عورت!

تمھاری زندگی میں میرے ان گنت خواب زندہ ہیں

 

میری روح کا چراغ تمھارے قدموں میں روشن ہے

میری تُرش شراب تمھارے ہونٹوں پر میٹھی ہو جاتی ہے

او میرے شام کے گیتوں کی آواز!

 

یہ تنہائی میں ڈوبے خواب پُر یقین ہیں

کہ تم میری ہو جائی گی

 

تم صرف میری ہو۔ ۔ میری۔ ۔ ہاں صرف میری

میں سہ پہر کی ہوا سے چیخ چیخ کر کہتا ہوں

اور ہوا میری بیوہ آواز میں رقص کرتی ہے

میری آنکھوں کی گہرائی کی قاتل!

تمھارا وجود متحرک رات کو پانی کی طرح ساکن کر دیتا ہے

 

تم میرے گیتوں اور میری محبت کے جال میں قید ہو

میرے گیتوں کے جال آسمان کی طرح وسیع ہیں

میری روح تمھاری غم آلود آنکھوں کے ساحل پر پیدا ہوتی ہے

اور تمھاری آنکھوں سے خوابوں کی زمین شروع ہوتی ہے

***

 

 

 

 

محوِ سوچ اُلجھے سائے

 

محوِ سوچ

اُلجھے ہوئے

گہری تنہائی میں اُلجھے سائے ہیں

تم بھی دُور ہو

اس قدر۔ ۔ ۔ کہ میری ہر چیز سے زیادہ دور!

میں سوچ میں ڈوبا، پرندوں کو آزاد کرتا ہوں

منظروں کو دھندلاتا اور روشنیوں کو دفناتا ہوں

 

گرجا گھرکی کہر آلود گھنٹی

بلندی پر، کتنی دور ہیں

گہرے شدید دُکھ

مسمار ہوتی دھندلی اُمیدیں

اور خاموش قاتل۔ ۔ ۔

شہر سے بہت دور، تم پر رات چھا جاتی ہے

 

تمھارا وجود کسی غیر ملکی کی طرح اجنبی ہے

تم میں، میں اپنی زندگی کی وسعتیں تلاش کرتا ہوں

سب کے سامنے اپنی زندگی۔ ۔

اپنی تلخ زندگی کی وسعتیں تلاش کرتا ہوں

میری بے ہنگم چیخیں چٹانوں کے درمیان

سمندری جھاگ پر آزاد پھرتی ہیں

سمندر کی باغی تنہائی، چیخیں اور اُداسی بھرا غصہ

متشدد، مغرور انداز میں آسمان کی طرف اُٹھتے ہیں

 

اے عورت، تم وہاں کس رُوپ میں تھی؟

کون سی کرن؟

اُس دیو قامت ہوائی پنکھے کا کون سا پرَ؟

تم مجھ سے اُتنی ہی دور تھی جتنی اب ہو

اے جنگل کی آگ !

ہر طرف سے جلاؤ

جلا دو، جلا دو، مزید بھڑک اُٹھو

اور روشنی کے درخت بن جاؤ

اے آگ! اے آگ!

جلتے ہوئے، تڑختے ہوئے جنگل گِر جاتا ہے

 

اور میری روح تمھارے جلتے دائروں میں رقص کرتی ہے

کون پکارتا ہے ؟

کون بازگشتوں سے خاموشی کو آلودہ کرتا ہے ؟

یادِ ماضی کے، مسرت کے، تنہائی کے لمحے ہیں

یہ لمحے، جو صرف میرے ہیں

 

جس طرح ہوا، بانسری سے گاتی ہوئی گزرتی ہے

رونے کا شدید جوش اُسی طرح میرے وجود میں پھیلا ہوا ہے

جڑیں اُکھاڑتی، لہروں کو پسپا کرتی ہوا

میری نا مختتم خوشی اور غم میں آوارہ پھرتی ہے

 

روشنیوں کو گہری تنہائی میں دفناتے ہوئے

محوِ سوچ رہتا ہوں

تم کون ہو؟

کون ہو تم؟

***

 

 

 

 

اس جگہ میں تم سے محبت کرتا ہوں

 

اس جگہ میں تم سے محبت کرتا ہوں

گھنے صنوبروں میں آوارہ پھرتی ہوا گاتی ہے

خانہ بدوش پانیوں میں چاند فاسفورس کی طرح جلتا ہے

دن ایک دوسرے کا تعاقب کرتے ہیں

 

محوِ رقص وجودوں سے برف جھڑتی ہے

مغربی کناروں سے چاندی رنگ کُونجیں اترتی ہیں

کبھی کبھی کوئی بادبان

کوئی اونچا، بہت اونچا ستارہ گرتا ہے

 

اُفق پر ابھرتا ہوا بحری جہاز کا سیاہ نشان تنہا ہے

جب کبھی میں جلد جاگ جاتا ہوں

میری روح بھیگی ہوتی ہے

یہاں سے دور، سمندر چیختا اور اپنی بازگشت سنتا ہے

 

یہ بندرگاہ ہے

جہاں میں تم سے پیار کرتا ہوں

 

اس جگہ میں تم سے پیار کرتا ہوں

اور اُفق تمہیں اپنے خالی پن میں چھپا لیتا ہے

میں تمہیں ہر چیز پر پھیلی افسردگی میں بھی پیار کرتا ہوں

سمندر عبور کرنے کی خواہش میں بے سمت بھٹکتے ظروف

میرے بوسوں سے بھر جاتے ہیں

میں خود کو پرانے لنگروں کی طرح فراموش محسوس کرتا ہوں

جب سہ پہر لنگر اندار ہوتی ہے

ساحل کے پُشتے غم آلود ہو جاتے ہیں

میری زندگی اُکتا جاتی ہے

ہر خواہش سے بے نیاز میں اُس سے محبت کرتا ہوں

جو میرے پاس نہیں

تم بہت دور ہو

 

میری نفرت کاہل شفق سے گُتھم گُتھا ہو جاتی ہے

لیکن رات میرے لیے گنگناتی ہوئی اُترتی ہے

چاند اپنے گھڑی نما خواب کی کروٹ دیتا ہے

 

سب سے بڑے ستارے تمہاری آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہیں

اور جب میں تم سے محبت کرتا ہوں

صنوبر اپنے سلائی نما پتّوں میں تمہارا نام گانے لگتے ہیں

***

 

 

 

 

سانولی گداز لڑکی

 

 

سانولی گداز لڑکی!

اُس سورج نے

جو پھل اُگاتا ہے

اناج پیدا کرتا ہے

اور سمندری کائی کے گچھے بنا دیتا ہے

تمہارے جسم، تمہاری روشن آنکھوں اور تمہارے منہ کو

خوشی سے بھر دیا ہے

جن میں پانی کی مسکراہٹ تیرتی ہے

 

جب تم بازو پھیلاتی ہو

بُجھا ہوا مشتاق سورج

تمہاری سیاہ زلفوں میں اُلجھ جاتا ہے

تم سورج کے ساتھ چھوٹی ندی کی طرح کھیلتی ہو

یہ تمہاری آنکھوں میں دو سیاہ تالاب بنا دیتا ہے

 

سانولی گداز لڑکی!

میرے لیے تم میں کوئی کشش نہیں

ہر چیز مجھے تم سے دور لے جاتی ہے

جیسے تم دوپہر ہو

جیسے تم شہد کی مکھی کی شوریدہ جوانی ہو

تم لہروں کی مدہوشی، گندم کی بالیوں کی قوت ہو

 

میرا تاریک دل تمہیں تلاش کرتا ہے

میں تمہارے پُر مسرت جسم

تمہاری بہتی ہوئی موہوم سریلی آواز سے محبت کرتا ہوں

سورج اور گندم کے کھیتوں کی طرح نکھری ہوئی

پوست اور پانی کی طرح شیریں

او میری اُداس تتلی!

***

 

 

 

 

 

آج کی رات میں اپنی اداسی لکھ سکتا ہوں

 

 

آج کی رات، میں اپنی تمام تر اُداسی لکھ سکتا ہوں

 

میں لکھ سکتا ہوں۔ ۔ ۔ مثلاً

رات ستاروں سے بھر گئی ہے

اور نیلے ستارے آسمان پر کانپتے ہیں

 

شبِ رفتہ کی ہوا آسمان پر گاتی ہوئی آوارہ پھرتی ہے

 

آج کی رات میں تمام تر اُداسی لکھ سکتا ہوں

میں نے اُس سے محبت کی

اور جواباً اُس نے بھی محبت کی

انھیں راتوں جیسی ایک رات میں

میں نے اُسے بازوؤں میں بھرا

 

اور بے انتہا آسمان کے نیچے

بار بار۔ ۔ ۔ بار بار چوما

 

اُس نے مجھ سے محبت کی

اور جواباً میں نے بھی محبت کی

اُس کی ٹھہری ہوئی گہری آنکھوں سے میں کیوں محبت نہ کرتا!

 

آج کی رات میں اپنی تمام تر اُداسی لکھ سکتا ہوں

یہ سوچ کر کہ اب وہ میری نہیں

اِس احساس کے ساتھ، کہ میں نے اُسے کھو دیا

 

چراگاہوں پر گرتی شبنم کی طرح

میری روح میں اُترتی شاعری کی طویل راتیں

اُس کے بغیر گہری اور مزید طویل ہو جاتی ہیں

 

کیا وجہ تھی کہ میری محبت اُسے روک نہ سکی

ستاروں بھری رات ہے اور وہ میرے ساتھ نہیں

دور فاصلے پر کوئی گا رہا ہے

میری روح مطمئن نہیں جس نے اُسے کھو دیا

 

میری آنکھیں اُسے چھونے کے لیے تلاش کرتی ہیں

میرا دل اُس کا انتظار کرتا ہے

مگر وہ میرے ساتھ نہیں

 

رات اُسی طرح انھیں درختوں کو روشن کر رہی ہے

مگر ہم۔ ۔ ۔ جو تب تھے۔ ۔ ۔ اب نہیں رہے

 

میں اب اُس سے محبت نہیں کرتا

یہی حقیقت ہے

میں نے اُس سے کس شدت سے محبت کی

میری آواز نے اُس کی سماعت چھونے کے لیے ہواؤں کا تعاقب کیا

 

کسی اور کی۔ ۔ ۔ اب وہ کسی اور کی ہو جائے گی

جس طرح اُس کی آواز، اُس کا روشن جسم

اور اُس کی لامتناہی آنکھیں

میرے بوسوں سے پہلے کسی کی تھے

 

میں اب اُس سے محبت نہیں کرتا

مگر شاید میں اُس سے محبت کرتا ہوں

 

محبت بہت مختصر ہے اور اُسے بھلانا بہت طویل

انھیں راتوں میں، میَں نے اُسے بازوؤں میں بھرا تھا

میری روح مطمئن نہیں جس نے اُسے کھو دیا

 

شاید یہ آخری دُکھ ہے جو اُس نے مجھے دیا

اور یہ آخری نظم، جو میں نے اُس کے لیے لکھی

***

 

 

 

 

بے بسی کا گیت

 

میرے گرد کھڑی اس رات سے تیری یاد جنم لیتی ہے

دریا نوحوں سے نڈھال سمندر میں جا گرتا ہے

 

صبح کے سینے میں، گُمی ہوئی گھاٹی کی مانند

او میرے گمنام!

اب یہ جدائی کا لمحہ ہے

 

مرجھائے پھولوں کی پتیّاں میرے دل میں برس رہی ہیں

او پتھروں کے غار، او ٹوٹی کشتی کے خوف بھرے اندھیر!

 

تم میں سارے جھگڑے، سارے پرندے مجمع بنتے ہیں

تم میں گیتوں کے پنچھی اُڑتے ہیں

تم میں سارا عالم ڈوب گیا ہے

 

لمبے رستوں کی مانند، وقت کی مانند، ساگر کی مانند

تم میں سارا عالم ڈوب گیا ہے

 

تم سے ملنا اور بوسوں کا حملہ مسرُور گھڑی تھی

وقت کی قاشوں نے روشن میناروں میں راہ دکھائی

 

اندھے ملّاحوں کی دہشت، گاڑی بانوں کی بے فکری

پیار کا پُر آشوب خمار

تم میں سارا عالم ڈوب گیا ہے

 

پہلے دن کی دھند میں میری زخمی روح

گُما ہوا متلاشی

تم میں سارا عالم ڈوب گیا ہے

 

تم غم کی ڈوری سے بندھی ہوئی ہو

خواہش تم سے لپٹ گئی ہے

گہرے دُکھ نے تم کو بے ہوش کیا ہے

تم میں سارا عالم ڈوب گیا ہے

 

میں نے سائے کی دیوار بنائی

میں خواہش اور عمل کو پیچھے چھوڑ کے چلتا رہتا ہوں

 

او میرے جسم!

او میرے گوشت کے جسم!

میری کھوئی محبوبہ!

میں دھندلے لمحوں میں تیری خواہش کرتا ہوں

میں تم کو اپنے گیت سناتا ہوں

 

تیرے جسم کے کُوزے سے لذّت اُبل رہی ہے

اس ابدیّت میں تم لرزش بن کر بکھر گئی ہو

 

اے پیار بھری عورت!

تیرے بازو مجھ کو ویران جزیروں کی گہری تنہائی میں لے جاتے ہیں

میری پیاس اور بھوک میں، تم اِک پھل تھی

میرے غم اور دُکھ میں، تم اعجاز بنی

 

اے میری عورت!

تم نے مجھے کیسے سمبھالا، مجھے نہیں معلوم

 

اپنی روح کی دھرتی پر، اپنی بانہوں کے گھیرے میں !

کتنی قلیل اور کتنی ہیبت ناک تھی میری خواہش!

کتنی خود غرض اور مدہوش!

کتنی شوقین اور متشدّد!

 

او میرے بوسوں کے قبرستاں !

تیری درگاہ میں اب بھی آگ ہے

اب بھی پھلوں سے لدی ہوئی ڈالی جلتی ہے

پنچھی اُس کو اب بھی چُگنے آتے ہیں

 

او کڑوے منہ، او چُومے ہوئے اعضاء!

او بھوکے دانت، اور ایک ہوئے دو جسم!

 

امیّد اور عزم کی پاگل جوڑی

جس میں ہم ایک ہوئے اور بِچھڑ گئے

 

پانی سا، آٹے سا کومل پن

اور ہونٹوں پر کھلے ہوئے پھولوں سے لفظ

یہی تھی میری منزل، یہی تھا میری خواہش کا سفرِ طویل

 

اس میں میری خواہش ڈوب گئی

تم میں سارا عالم ڈوب گیا

 

او پتّھر کے غار !

تم میں سارا عالم ڈوب گیا

کس آنکھ میں تیرا رنج نہیں ہے !

کون ساغم ہے جس میں تم نہ ڈوبی!

 

مستول پہ بیٹھے کشتی ران کی مانند

لہر لہر تم اب بھی گاتی پھرتی ہو

تم اب بھی گیتوں میں کھِلتی ہو

تم اب بھی لہروں میں ملتی ہو

کھُلے ہوئے غم ناک کنوئیں !

او پتھّر کے غار!

 

تھکا ہوا اِک اندھا غوطہ خور!

بدقسمت جال

گُما ہوا متلاشی

تم میں سارا عالم ڈوب گیا ہے

 

اب یہ جدائی کا لمحہ ہے

درد بھرا یہ لمحہ

جس میں راتیں تیز قدم سے چلتی ہیں

ساگر کی سرگوشی، ساحل کے گرد لپٹ جاتی ہے

 

بُجھے ہوئے تارے متلاتے ہیں

تھکے ہوئے پنچھی اُڑ جاتے ہیں

صبح کے وقت جہازوں کے اُجڑے کمروں کی مانند

خوف بھرے سائے ہاتھوں میں رہ جاتے ہیں

 

او میری محبوبہ

میری ہر اِک چیز سے دُور کھڑی محبوبہ

اب یہ جدائی کا لمحہ ہے

او میری کھوئی ہوئی محبوبہ

ماخذ:

http://www.adbiduniya.com/2015/10/muhabbat-ki-nazmein-aur-bebasi-ka-geet-by-pablo-neruda.Html

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید