فہرست مضامین
- میر تقی میر کی تمام رباعیات
- پیشکش: تصنیف حیدر
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
میر تقی میر کی تمام رباعیات
پیشکش: تصنیف حیدر
میر کی ساری رباعیاں ادبی دنیا کے ذریعے آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔ ہمیں اپنے ادب کی پرانی اور نئی دونوں طرح کی شاعری کا مطالعہ کرتے رہنا چاہیے، نئی شاعری ہمیں اگر اپنی ترقی یافتہ ادبی شکل سے روبرو کرواتی ہے تو پرانی شاعری ہمیں روایت کے خوبصورت محلات کی سیر کرواتی ہے۔ میر کی یہ تمام رباعیاں ہیں۔ان کو پڑھ کر میر کی سب سے بڑی طاقت یعنی رعایت لفظی کے فن پر میر کے اعتماد اور عبور کا بھرپور اندازہ ہوتا ہے۔ اب اس میں اور کون کون سے فنی جواہر ڈھونڈ نکالتے ہیں ، یہ آپ کا ہنر ہے۔میر نے اپنی غزلوں اور دوسری اصناف کی بہ نسبت رباعیوں کے ساتھ زیادہ انصاف نہیں کیا،لیکن انہوں نے جتنا بھی کہا ہے، شاید طبیعت کے اثر اور فن کے میلان کی وجہ سے کہا ہے، بہر حال یہ رباعیاں اب یونی کوڈ شکل میں آپ سبھی کی امانت ہیں۔انہیں آپ پڑھ سکتے ہیں، دوستوں کے ساتھ شیئر کرسکتے ہیں اور انہیں اپنے آف لائن ادبی ذخیرے کا حصہ بھی بنا سکتے ہیں۔
1
کیسا احساں ہے خلق عالم کرنا
پھر عالم ہستی میں مکرم کرنا
تھا کار کرم ہی اے کریم مطلق
ناچیز کف خاک کو آدم کرنا
2
دل جان جگر آہ جلائے کیا کیا
درد و غم و آزار کھنچائے کیا کیا
ان آنکھوں نے کی ہے ترک مردم داری
دیکھیں تو ہمیں عشق دکھائے کیا کیا
3
شب ابر کہ پیشرو ہو دریا جس کا
آیا دل داغ کر گیا جس تس کا
اس سے ناگاہ ایک بجلی چمکی
کیا جانیے ان نے گھر جلایا کس کا
4
ابرو سے مہ نو نے کہاں خم مارا
ہونٹوں سے ترے لعل نے کب دم مارا
زلفوں کو تری ہم بھی پریشاں دیکھیں
اک جمع کو ان دونوں نے برہم مارا
5
حیرت ہے کہ ہو رقیب محرم تیرا
ہمراز و انیس وقت و ہمدم تیرا
جوں عکس ترے سامنے اکثر وہ ہو
جوں آئینہ منھ تکا کریں ہم تیرا
6
محشر میں اگر یہ آتشیں دم ہو گا
ہنگامہ سب اک لپٹ میں برہم ہو گا
تکلیف بہشت کاش مجھ کو نہ کریں
ورنہ وہ باغ بھی جہنم ہو گا
7
ہر روز نیا ایک تماشا دیکھا
ہر کوچے میں سو جوان رعنا دیکھا
دلی تھی طلسمات کہ ہر جاگہ میرؔ
ان آنکھوں سے ہم نے آہ کیا کیا دیکھا
8
زانو پہ قد خم شدہ سر کو لایا
جائے دنداں کو ہم نے خالی پایا
آنکھوں کی بصارت میں تفاوت آیا
پیری نے عجب سماں ہمیں دکھلایا
9
تا چند تلف میرؔ حیا سے ہو گا
شائستۂ صدستم وفا سے ہو گا
کر ترک ملاقات بتاں کعبے چل
ان سے ہو گا سو اب خدا سے ہو گا
10
مسجد میں تو شیخ کو خروشاں دیکھا
میخانے میں جوش بادہ نوشاں دیکھا
اک گوشۂ عافیت جہاں میں ہم نے
دیکھا تو محلۂ خموشاں دیکھا
11
کاہے کو کوئی خراب خواری ہوتا
کاہے کو ہمیں یہ جان بھاری ہوتا
دلخواہ ملاپ ہوتا تو تو ملتے
اے کاشکے عشق اختیاری ہوتا
12
مت مال کسی کا یار تل کر رکھنا
تو داؤ نہ یاں بہت سا جل کر رکھنا
آیا تو قمار خانۂ عشق میں تو
سربازی ہے یاں قدم سنبھل کر رکھنا
13
پھر عشق میں میرؔ پاؤں دھرتا ہے گا
جی اور منغض اپنا کرتا ہے گا
سب مل کے چلو بارے اسے سمجھاویں
افسوس کہ وہ جوان مرتا ہے گا
14
پیغمبر حق کہ حق دکھایا اس کا
معراج ہے کمترین پایہ اس کا
سایہ جو اسے نہ تھا یہ باعث ہے گا
کل حشر کو سب پہ ہو گا سایہ اس کا
15
تیرا اے دل یہ غم فرو بھی ہو گا
اندیشۂ رزق کم کبھو بھی ہو گا
کھانے کو دیا ہے آج حق نے تجھ کو
کل بھی دیوے گا کل جو تو بھی ہو گا
16
دل جن کے بجا ہیں ان کو آتی ہے خواب
آرام خوش آتا ہے سہاتی ہے خواب
میں غم زدہ کیا اپنے دنوں کو روؤں
میری تو جہاں شب ہوئی جاتی ہے خواب
17
ہم میرؔ برے اتنے ہیں وہ اتنا خوب
متروک جہاں ہم ہیں وہ سب کا محبوب
ہم ممکن اسے وجوب کا ہے رتبہ
ہے کچھ بھی مناسبت کا باہم اسلوب
18
دل تجھ پہ جلے نہ کیونکے میرا بے تاب
یاں تجھ کو توقع ہے کہ لاتا ہے جواب
واں ان نے شراب پی کے مستی میں میرؔ
کر کھائے بھی نامہ بر کبوتر کے کباب
19
دل خوں ہے جگر داغ ہے رخسار ہے زرد
حسرت سے گلے لگنے کی چھاتی میں ہے درد
تنہائی و بیکسی و صحرا گردی
آنکھوں میں تمام آب منھ پر سب گرد
20
طاعت میں جواں ہوتے تو کرتے تقصیر
وہ سر میں نشہ نہیں ہوئے ہیں اب پیر
اب کی روزوں میں یہ سنا ہے ہم نے
میخانے میں بیٹھے معتکف ہو کر میرؔ
21
روئے کوئی کیا گئی جوانی یوں کر
جاتی ہے نسیم و گل کی نکہت جوں کر
پیری آندھی سی میرؔ ناگہ آئی
ہم برگ خزاں سے اس میں ٹھہریں کیوں کر
22
اترا تھا غریبانہ کنارے آ کر
لب خشک موا سو نور چشم حیدر
تر حلق دم آب سے اس کا نہ ہوا
اے آب فرات خاک تیرے سر پر
23
ہم میرؔ سے کہتے ہیں نہ تو رویا کر
ہنس کھیل کے ٹک چین سے بھی سویا کر
پایا نہیں جانے کا وہ در نایاب
کڑھ کڑھ کے عبث جان کو مت کھویا کر
24
ہرچند کہ طاعت میں ہوا ہے تو پیر
پر بات مری سن کہ نہیں بے تاثیر
تسبیح بہ کف پھرنے سے کیا کام چلے
منکے کی طرح دل نہ پھرے جب تک میرؔ
25
اب صوم و صلوٰۃ سے بھی جی ہے بیزار
اب ورد وظائف سے کیا استغفار
عقدے نہ کھلے دل کے بسان تسبیح
اسمائے الٰہی بھی پڑھے سو سو بار
26
ہجراں میں کیا سب نے کنارہ آخر
اسباب گیا جینے کا سارا آخر
نے تاب رہی نہ صبر و یارا آخر
آخر کو ہوا کام ہمارا آخر
27
میرؔ اس کے ہوئے تھے ہم جو یار خاطر
سو یاری بخت سے ہیں بار خاطر
ووں خاک میں آپ کو ملا کر اول
آخر کو ہوئے ہیں یوں غبار خاطر
28
اغلب ہے وہ غم کا بار کھینچے گا میرؔ
منھ دیکھو کہ شکل یار کھینچے گا میرؔ
بیٹھا ہے بنانے اس کی چشم مے گوں
نقاش بہت خمار کھینچے گا میرؔ
29
کہتا ہے یہ اپنی آنکھوں دیکھیں گے فقیر
بینش نہیں رکھتے کیا جواں ہوں کیا پیر
اندھے ہیں جہاں کے لوگ سارے اے میرؔ
سوجھے نہ جسے اسے یہ کہتے ہیں بصیر
30
کی حسن نے تجھ سے بے وفائی آخر
خوبی نہ رہی نہ میرزائی آخر
رونق نہ رہی غبار خط سے منھ پر
اس سبزقدم نے خاک اڑائی آخر
31
جاناں نے ہمیں کبھو نہ جانا افسوس
جو ہم نے کہا سو وہ نہ مانا افسوس
تب آنے میں دیر کی قیامت اب سو
آیا نزدیک جی کا جانا افسوس
32
پوچھو نہ کچھ اس بے سر و پا کی خواہش
رکھتی نہیں حد اہل وفا کی خواہش
جاتے ہیں چلے جی ہی بتوں کی خاطر
معلوم نہیں کیا ہے خدا کی خواہش
33
اندیشۂ مرگ سے ہے سینہ سب ریش
ٹکڑے ہے جگر جیسے لباس درویش
ہاتھوں سے جو آج ہوسکے کر لیجے
پھر کل تو ہمیں ہے اک قیامت درپیش
34
جاں سے ہے بدن لطیف و رو ہے نازک
پاکیزہ تری طبع و خو ہے نازک
بلبل نے سمجھ کے کیا تجھے نسبت دی
گل سے تو ہزار پردہ تو ہے نازک
35
مستی نہ کر اے میرؔ اگر ہے ادراک
دامان بلند ابر نمط رکھ تو پاک
ہے عاریتی جامۂ ہستی تیرا
ہشیار کہ اس پر نہ پڑے گرد و خاک
36
کیا میرؔ کا مذکور کریں سب ہے جہل
پایا ہم نے اسے نہایت ہی سہل
ایسوں سے نہیں مزاج اپنا مانوس
وحشی بے طور بد زبان و نااہل
37
گو میرؔ کہ احوال نہایت ہے سقیم
کہتے ہیں اسے شافی و کافی و حکیم
وہ غیر کرم بندے کے حق میں نہ کرے
یہ بابت مکرمت ہے اللہ کریم
38
اللہ کو زاہد جو طلب کرتے ہیں
ظاہر تقویٰ کو کس سبب کرتے ہیں
دکھلانے کو لوگوں کے دنوں کی ہے صلوٰۃ
پیش انجم نماز شب کرتے ہیں
39
دن فکر دہن میں اس کے جاتا ہے ہمیں
کب آپ میں آ کے کوئی پاتا ہے ہمیں
ہرگز وہ کمر وہم میں گذری نہ کبھو
رہ رہ کے یہی خیال آتا ہے ہمیں
40
اندوہ کھپے عشق کے سارے دل میں
اب درد لگا رہنے ہمارے دل میں
کچھ حال نہیں رہا ہے دل میں اپنے
کیا جانیے وہ کیا ہے تمھارے دل میں
41
کیا کیا ہیں سلوک بد فقط غم ہی نہیں
پھر ہم سے جنوں میں ضعف سے دم ہی نہیں
اک عمر چلی گئی جفائے شب و روز
اب وہ تو نہیں شام و سحر ہم ہی نہیں
42
کچھ میرؔ تکلف تو نہیں اپنے تئیں
ان روزوں نہیں پاتے کہیں اپنے تئیں
اب جی تو بہت بتنگ آیا اے کاش
جاویں ہم چھوڑ کر یہیں اپنے تئیں
43
ہم سے تو بتوں کی وہ حیا کی باتیں
وہ طرز کلام اس ادا کی باتیں
دیکھیں قرآں میں فال غیروں کے لیے
کیا ان سے کہیں یہ ہیں خدا کی باتیں
44
کیا تم سے کہوں میرؔ کہاں تک روؤں
روؤں تو زمیں سے آسماں تک روؤں
جوں ابر جہاں جہاں بھرا ہوں غم سے
شائستہ ہوں رونے کا جہاں تک روؤں
45
ہیں گو کہ سبھی تمھاری پیاری باتیں
پر جی سے نہ جائیں گی تمھاری باتیں
آنکھیں ہیں ادھر روئے سخن اور طرف
یاروں کی نظر میں ہیں یہ ساری باتیں
46
گو روکش ہفتاد و دو ملت ہم ہیں
مرآت بدن نمائے وحدت ہم ہیں
بے اپنے نمود اس کی اتنی معلوم
معنی محبوب ہے تو صورت ہم ہیں
47
اب شہر کی گلیوں میں جو ہم ہوتے ہیں
منھ خون جگر سے دم بدم دھوتے ہیں
یعنی کہ ہر اک جائے پہ جوں ابر بہار
عالم عالم جہاں جہاں روتے ہیں
48
اوقات لڑکپن کے گئے غفلت میں
ایام جوانی کے کٹے عشرت میں
پیری میں جز افسوس کیا کیا جائے
یک بارہ کمی ہی آ گئی طاقت میں
49
پردہ نہ اٹھاؤ بے حجابی نہ کرو
ہووے گی قیامت اک شتابی نہ کرو
عالم عالم بسے ہے خلق عالم
برباد نہ دو ابھی خرابی نہ کرو
50
آب حیواں نہیں گوارا ہم کو
کس گھاٹ محبت نے اتارا ہم کو
دریا دریا تھا شوق بوسہ لیکن
جاں بخش لب یار نے مارا ہم کو
51
میرؔ اس سے ملے کہ جو ملا بھی نہ کبھو
جی یوں ہی گیا وہ آ پھرا بھی نہ کبھو
چپ جس کے لیے لگ گئی ایسی ان کو
ان نے کچھ زیر لب کہا بھی نہ کبھو
52
تجھ رہ سے محال ہے اٹھانا مجھ کو
پھر جنی کہے کوئی سیانا مجھ کو
سر میرا لگا ہے نقش پا سے تیرے
سجدے کو خدا کے بھی بجانا مجھ کو
53
ایسا نہ ہوا کہ ہم نے شادی کی ہو
یا سیر بہار باغ و وادی کی ہو
پژمردہ کلی کے رنگ اس گلشن میں
غالب ہے یہی کہ نامرادی کی ہو
54
آئی نہ کبھو رسم تلطف تم کو
کرتے نہ سنا ہم پہ تاسف تم کو
مرتے ہیں ہم اور منھ چھپاتے ہو تم
ہم سے اب تک بھی ہے تکلف تم کو
55
بس حرص و ہوا سے میرؔ اب تم بھاگو
غفلت کب تک کہے ہمارے لاگو
چلنے سے خبر دے ہے سفیدی مو کی
ہونے آئی ہے صبح اب تو جاگو
56
چپکے رہنا نہ میرؔ دل میں ٹھانو
بولو چالو کہا ہمارا مانو
یک حرف نہ کہہ سکوگے وقت رفتن
چلنے کو زبان کے غنیمت جانو
57
پر پیچ بہت ہے شکن زلف سیاہ
وارفتہ نہ رہ اس کا دلا بے گہ و گاہ
دیوانگی کرنے کی جگہ بھی ٹک دیکھ
جا ملتی ہے یہ کوچۂ زنجیر میں راہ
58
دل غم سے ہوا گداز سارا اللہ
غیرت نے ہمیں عشق کی مارا اللہ
ہے نسبت خاص تجھ سے ہر اک کے تئیں
کہتے ہیں چنانچہ سب ہمارا اللہ
59
حسن ظاہر بھی ہے ہمارا دلخواہ
محو صورت بھی ہوں میں معنی آگاہ
باغ عالم کو چشم کم سے مت دیکھ
کیا کیا ہیں رنگ یہاں بھی اللہ اللہ
60
دامن عزلت کا اب لیا ہے میں نے
دل مرگ سے آشنا کیا ہے میں نے
تھا چشمۂ آب زندگانی نزدیک
پر خاک سے اس کو بھر دیا ہے میں نے
61
اے تازہ نہال عاشقی کے مالی
یہ تو نے طرح ناز کی کیسی ڈالی
سب تجھ سے جہاں بھرا ہے تس کے اوپر
دیکھیں ہیں کہ جائے ہے گی تیری خالی
62
افسوس ہے عمر ہم نے یوں ہی کھوئی
دل جس کو دیا ان نے نہ کی دلجوئی
جھنجھلا کے گلا چھری سے کاٹا آخر
جھل ایسی بھی عشق میں کرے ہے کوئی
63
بت خانے سے دل اپنے اٹھائے نہ گئے
کعبے کی طرف مزاج لائے نہ گئے
طور مسجد کو برہمن کیا جانے
یاں مدت عمر میں ہم آئے نہ گئے
64
لو یار ستمگر نے لڑائی کی ہے
اک ہی تلوار میں صفائی کی ہے
اس کوچے کی راہ نعش میری جاوے
واں میرؔ بہت میں نے گدائی کی ہے
65
ملنا دلخواہ اب خیال اپنا ہے
جی تن میں رہا ہے سو وبال اپنا ہے
آزار بہت کھینچے ہیں اس بن دل نے
ہجراں ہی شاید کہ وصال اپنا ہے
66
چپکا چپکا پھرا نہ کر تو غم سے
کیا حرف و سخن عیب ہے کچھ محرم سے
آخر کو رکے رہتے جنوں ہوتا ہے
اے میرؔ کوئی بات کیا کر ہم سے
67
کیا کہیے ادا بتوں سے کیا ہوتی ہے
جو دل زدگاں پہ یہ جفا ہوتی ہے
یہ کیا کہ سجود میں نہ دیکھا بگڑے
اک وقت نماز بھی قضا ہوتی ہے
68
اب وقت عزیز کو تو یوں کھوؤ گے
پر سوچ کے غفلت کے تئیں روؤ گے
کیا خواب گراں پہ میل روز و شب ہے
جاگو ٹک میرؔ پھر بہت سوؤگے
69
ہر لحظہ رلاتا ہے کڑھاتا ہے مجھے
ہر آن ستاتا ہے کھپاتا ہے مجھے
کل میں جو کہا رنج سے حاصل میرے
بولا ترا آزار خوش آتا ہے مجھے
70
اے میرؔ کہاں دل کو لگایا تو نے
شکل اپنی بگاڑ کر کڑھایا تو نے
جی میں نہ ترے حال نہ منھ پر کچھ رنگ
اپنا یہ حال کیا بنایا تو نے
71
دنیا میں بڑا روگ جو ہے الفت ہے
دق آ گئے ہیں جی سے بھی یہ زحمت ہے
کہتے تھے کہ میرؔ بے وفا ہم کو نہ جان
کی خوب وفا تم نے تمھیں رحمت ہے
72
سن سوز دروں کو اس کے جلیے بھنیے
ہر حرف پہ افسوس سے سر کو دھنیے
کیا کیا اب سانجھ سے کہے گا تا صبح
آؤ ٹک میرؔ کی کہانی سنیے
73
کیا کہیے خراب ہوتے ہم کیسے پھرے
دیکھا یہ بھی کہ سب کی نظروں سے گرے
چپ ایسے ہیں گویا کہ نہیں منھ میں زباں
جب نام ترا لیں تو زباں اپنی پھرے
74
وصف اپنے دنوں کے کس سے کہیے سارے
اس شوخ کی تمکیں نے تو جی ہی مارے
بالوں میں چھپا منھ نہ کبھو یوں پوچھا
کہہ میرؔ گئی ہے رات کیوں کر بارے
75
کیا میرؔ تجھے جان ہوئی تھی بھاری
جو اس بت سنگ دل سے کی تھی یاری
بیمار بھلا کوئی بھی ہووے اس کا
پرہیز کرے جس سے خدائی ساری
76
درپیش ہے میرؔ راہ تجھ کو پیارے
غفلت سے نہیں نگاہ تجھ کو پیارے
آتے ہیں نظر جاتے یہ سارے اسباب
سوجھے گی کبھو بھی آہ تجھ کو پیارے
77
راضی ٹک آپ کو رضا پر رکھیے
مائل دل کو تنک قضا پر رکھیے
بندوں سے تو کچھ کام نہ نکلا اے میرؔ
سب کچھ موقوف اب خدا پر رکھیے
78
کچھ خواب سی ہے میرؔ یہ صحبت داری
اٹھ جائیں گے یہ بیٹھے ہوئے یک باری
کیا آنکھوں کو کھولا ہے تنک کانوں کو کھول
افسانہ ہے پل مارتے مجلس ساری
79
دل خون ہوا ضبط ہی کرتے کرتے
ہم ہو ہی چکے دکھوں کو بھرتے بھرتے
اے مایۂ زندگی ستم ہے نہ اگر
بھر آنکھ تجھے دیکھیں نہ مرتے مرتے
80
کیا کوفت تھی دل کے لخت کوٹے نکلے
ٹکڑے جو ہوئے جگر کے ٹوٹے نکلے
چھاتی جو پھٹی ندان جلتے جلتے
اس میں کے پھپھولے سارے پھوٹے نکلے
81
تم تو اے مہرباں انوٹھے نکلے
جب آن کے پاس بیٹھے روٹھے نکلے
کیا کہیے وفا ایک بھی وعدہ نہ کیا
سچ یہ ہے کہ تم بہت ہی جھوٹھے نکلے
82
کیا کیا اے عاشقی ستایا تو نے
کیسا کیسا ہمیں کھپایا تو نے
اول کے سلوک میں کہیں کا نہ رکھا
آخر کو ٹھکانے ہی لگایا تو نے
83
حیرت کی یہ معرکے کی جا ہے بارے
کیا پوچھتے ہو مرتے ہیں عاشق سارے
مشہور ہے عشق نے لڑائی ماری
اس پر کہ گئے لوگ سب اس کے مارے
84
ملیے اس شخص سے جو آدم ہووے
ناز اس کو کمال پر بہت کم ہووے
ہو گرم سخن تو گرد آوے یک خلق
خاموش رہے تو ایک عالم ہووے
85
ہر صبح غموں میں شام کی ہے ہم نے
خونابہ کشی مدام کی ہے ہم نے
یہ مہلت کم کہ جس کو کہتے ہیں عمر
مر مر کے غرض تمام کی ہے ہم نے
86
مدت کے جو بعد جی بحال آتا ہے
خاطر پہ جہاں جہاں ملال آتا ہے
وے ووں گئے جان یوں چلی جاتی ہے آہ
رہ رہ کے ہمیں یہی خیال آتا ہے
87
اتنے بھی نہ ہم خراب ہوتے رہتے
کاہے کو غم و الم سے روتے رہتے
سب خواب عدم سے چونکنے کے ہیں وبال
بہتر تھا یہی کہ وو ہیں سوتے رہتے
88
ہر صبح مرے سر پہ قیامت گذری
ہر شام نئی ایک مصیبت گذری
پامال کدورت ہی رہا یاں دن رات
یوں خاک میں ملتے مجھ کو مدت گذری
89
تسبیح کو مدتوں سنبھالا ہم نے
خرقہ برسوں گلے میں ڈالا ہم نے
اب آخر عمر میرؔ مے کی خاطر
سجادہ گرو رکھنے نکالا ہم نے
90
حاصل نہیں دنیا سے بجز دل ریشی
رکھتی نہیں اعتبار یاری خویشی
توفیق رفیق ہو تو سب کر کے ترک
ہے جی میں کہ یک چند کریں درویشی
91
ہرچند کہ اے مہ اب تمامی ہے گی
پر ہم جو گلہ کریں تو خامی ہے گی
بندے ہیں ترے کیونکے کریں سرتابی
خدمت تیری ہمیں غلامی ہے گی
92
وہ عہد گیا کہ جور اس کے سہیے
وہ بات نہیں رہی کہ چپکے رہیے
جب جی ہی چلا میرؔ تو صرفہ کیا ہے
بے صرفہ جو کچھ کہ منھ میں آئے کہیے
93
جس وقت شروع یہ حکایت ہو گی
رنجیدگی یک دگر نہایت ہو گی
احوال وفا کا اپنے ہرگز مجھ سے
مت پوچھ کہ کہنے میں شکایت ہو گی
94
گذرا یہ کہ شکوہ و شکایت کیجے
یا آگے سخن اور حکایت کیجے
خوب اتنی تو مجھ پر اب رعایت کیجے
دل میرا مرے تئیں عنایت کیجے
95
اک مرتبہ دل پہ اضطرابی آئی
یعنی کہ اجل میری شتابی آئی
بکھرا جاتا ہے ناتوانی سے جی
عاشق نہ ہوئے کہ اک خرابی آئی
96
اک وقت تھے ہم بھی خوش معاشی کرتے
ہر نالے سے اپنے دل خراشی کرتے
آتے جو کبھو ادھر کو سنتے اس کو
ہم گریے سے اپنے آبپاشی کرتے
97
یکسو یہ کہ عیش و کامرانی کرتے
یا خوب طرح سے زندگانی کرتے
سگ کا نہ ہوا ہمیں تو رتبہ حاصل
تا کوچے کی اس کے پاسبانی کرتے
98
کیا کریے بیاں مصیبت اپنی پیارے
دن عمر کے میرے غم میں گذرے سارے
رنج و ضعف و بلا اذیت محنت
پنپا ہی نہ میں تو ان دکھوں کے مارے
99
یاروں کو کدورتیں ہیں اب تو ہم سے
جس روز کہ ہم جائیں گے اس عالم سے
اس روز کھلے گی صاف سب پر یہ بات
اس بزم کی رونق تھی ہمارے دم سے
100
کوچے میں ترے آن کے اڑ بھی بیٹھے
بے ہیچ ہر اک بات پہ لڑ بھی بیٹھے
حاصل کہ ہماری تیری ہرگز نہ بنی
سو سو طرحوں سے ہم بگڑ بھی بیٹھے
101
کو عمر کہ اب فکر امیری کریے
بن آوے تو اندیشۂ پیری کریے
آگے مرنے سے خاک ہو جے اے میرؔ
یعنی کہ کوئی روز فقیری کریے
102
ہیں قید قفس میں تنگ یوں تو کب کے
رہتے تھے گلے ہزار نیچے لب کے
اس موسم گل میں میرؔ دیکھیں کیا ہو
ہے جان کو بے کلی نہایت اب کے
103
رنجش کی کوئی اس کی روایت نہ سنی
بے صرفہ کسو وقت حکایت نہ سنی
تھا میرؔ عجب فقیر صابر شاکر
ہم نے اس سے کبھو شکایت نہ سنی
104
طوفان اے میرؔ شب اٹھائے تو نے
آشوب بلا آنکھوں دکھائے تو نے
رونے سے ترے رو سی چلی آئی ایک
یہ دو دریا کہاں سے پائے تو نے
٭٭٭
ماخذ:
http://www.adbiduniya.com/2015/07/mir-taqi-mir-ki-rubaaiyaat.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید