FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

میری پسند کے پرویز مظفر کے اشعار

 

 

                محمد فیاض عادلؔ فاروقی

 

 

 

 

 

بادِ سحر جب تُو چلتی ہے

گلشن میں جھاڑو چلتی ہے

 

کانٹے پیلے پڑ جاتے ہیں

کلیوں پر خوشبو چلتی ہے

 

اِسکولوں سے خارج ہو کر

فِلموں میں اردو چلتی ہے

٭٭

 

عافیت اِس دور میں انسان کی ناپید ہے

ظلم کابل میں کبھی، بغداد و بصرہ میں کبھی

 

گاڑ دیتے ہیں کبھی بُوڑھوں کو جلتی ریت میں

لوگ زندوں کو بہا دیتے ہیں گنگا میں کبھی

٭٭

 

آپ اقتدار میں ہیں سر افراز کم نہیں

جو سر پسند آئے اسے کاٹ لیجئے

٭٭

 

اوپر سے نقلی قہقہے

لیکن گڑے دہشت میں ہیں

٭٭

 

آ گلے مل، درد کا رشتہ ہے اپنے درمیاں

اتنے زوروں سے نہ ہندُستان پاکستان کر

٭٭

 

ہر ایک شخص میں کوئی کمی تو ہوتی ہے

بہت قریب سے دیکھو نہ ان حسینوں کو

 

انھیں کی ذات سے غزلوں کے عیب دور ہوئے

عزیز رکھتا ہے پرویزؔ نکتہ چینوں کو

٭٭

 

جانے کیا مجھ کو ہوا ہے کہ ہر اک باجے سے

آتی رہتی ہے صدا کانوں میں ماتم کی طرح

 

آپ پرویزؔ مظفر سے کبھی پوچھیں تو

کس لئے عید مناتے ہیں محرم کی طرح

٭٭

 

وہ نہیں تو جیسے گھر میں

رنگ و روغن کم ہوا ہے

 

ان گنت راون ہوئے ہیں

ایک ہی گوتم ہوا ہے

٭٭

 

 

جل رہے ہیں پھول اپنے رنگ و بو میں

جو بھی آتا ہے وہ آنکھیں سینکتا ہے

 

تھا کبھی وہ بھی عصا بردار میرا

میرے سینے پر جو برچھی ٹیکتا ہے

٭٭

 

چلتا ہے تلوار پہ سچ

نیچے گہری کھائی ہے

٭٭

 

اس توقع پہ ’جہانگیر‘ بنا بیٹھا ہوں

آتے جاتے کوئی زنجیر ہلا ہی دے گا

 

ہم نے بارود جو سینے میں دبا رکھی ہے

ایک چنگاری کوئی شخص لگا ہی دے گا

٭٭

 

وہ دب گئے خود ہی اُن کے نیچے

عمارتیں جو گرا رہے تھے

 

اسی شجر کے بنے ہیں دشمن

اسی کے پھل آپ کھا رہے تھے

٭٭

 

 

مسکرا کر جو ہمیں دیکھ لیا ہے اس نے

جھوم کر خون کا لہرانا ہمارے اندر

٭٭

 

رات قسمت میں ہزاروں کی ہے

بات بس چاند ستاروں کی ہے

 

زندگی چار دنوں کی پرویزؔ

وہ بھی محتاج سہاروں کی ہے

٭٭

 

 

رہنے دو ہم کو اپنے دل کے قریب

تحفہ پھر ’ہائی فائی‘ مت دینا

 

ہتھکڑی بن نہ جائیں یہ کنگن

ان میں اپنی کلائی مت دینا

٭٭

 

رکنا ہے بیکار

کہتی جائے دھار

٭٭

 

میں تو مجبور تھا عادت سے، نہیں جھک پایا

اور کچھ لوگ اسے سمجھے بغاوت میری

 

مدتوں بعد وطن آیا ہوں پرویزؔ جہاں

مجھ سے پہلے ہی چلی آئی ہے شہرت میری

٭٭

 

 

جلتا ہے نگر نظر تو ڈالو

اخبار میں کچھ خبر تو ڈالو

 

منزل پہ بھی جا لگو گے اک دن

راہوں میں کوئی سفر تو ڈالو

٭٭

 

دل پہ جب میرے ہاتھ رکھیے گا

کچھ خلوص اس میں ساتھ رکھیے گا

٭٭

 

دیکھ لینا اب مسلسل ظلم ہوں گے

تم نے ہنس کر ظلم پہلے کیوں سہا تھا

 

کیا بتائیں جیت میں یا ہار میں ہیں

دونوں جانب خون اپنا ہی بہا تھا

٭٭

 

صرف اک شخص نے گناہ کیا

داغ سب خاندان پر آیا

 

ڈرتے بھی ہو، شکار کرتے بھی ہو

شیر اچھل کر مچان پر آیا

٭٭

 

ظالم تو اسی طرح جلائیں گے گھروں کو

جو لوگ سسکتے ہیں سسکتے ہی رہیں گے

 

سچ کہنے میں ہوتا نہیں کچھ ہم کو تکلف

ہم آپ کی آنکھوں میں کھٹکتے ہی رہیں گے

 

لازم ہے ہر اک حال میں ہونٹوں پہ تبسم

خنجر تو میاں دل پہ لپکتے ہی رہیں گے

٭٭

 

چلو چل کے تھوڑی سی نیکی کمائیں

وہاں اک شرابی سڑک پر پڑا ہے

٭٭

 

جل کر ہے مرا جس کا شوہر

عورت وہ جلائی جائے گی

 

چنگاری لگانے کی عادت

کب میرے بھائی جائے گی

٭٭

 

سسکتی رہیں تلملاتی رہیں

مگر ڈالیاں گُل کھلاتی رہیں

 

وہ بوسیدہ ساحل تھا کٹتا رہا

نئی کشتیاں آتی جاتی رہیں

 

سمندر مِری آنکھ میں چھپ گیا

سمندر کو موجیں بلاتی رہیں

 

لباسوں کے فیشن بدلتے رہے

دراڑیں تعلق میں آتی رہیں

 

سنا ہے کہ لندن میں پرویزؔ کو

وہ قصبے کی سڑکیں ستاتی رہیں

٭٭

 

 

دل کو اپنا جو لیا ہے اس نے

اب مِرا جسم پرایا ہو گا

٭٭

 

مرنا تو ہے مریں گے مگر شان سے میاں

ڈرتے رہے تو جائیں گے ہم جان سے میاں

 

سوغات اس کی ہوں گے مگر زرد ہو گئے

یہ پھول اب نکال دو گلدان سے میاں

٭٭

 

 

ان سے پرویزؔ ایسی محبت نہ کر

آ نہ جائے خلل تیرے ایمان میں

٭٭

 

بایاں ہاتھ ایک ظالم اُڑا لے گیا

اور خبر بھی نہیں داہنے ہات کو

٭٭

 

فوّاروں سے پوچھ رہا ہوں

پیڑ پیاسے کب سے کھڑے تھے

٭٭

 

محسوس کر سکو تو خدا دور بھی نہیں

موجود ہر جگہ ہے زمین آسمان میں

٭٭

 

غم بڑی انمول شے ہے دوستو

غم کو سینے سے لگانا چاہئے

 

سربلندی جان کو آ جائے گی

سر کسی در پر جھکانا چاہئے

٭٭

 

پیار کا راستہ ہے ناہموار

خیر جو ہو گا دیکھا جائے گا

٭٭

 

صلح کی بات کرتے رہے ہر جگہ

لوگ نفرت کو دل میں چھپائے ہوئے

٭٭

 

کس طرح پوچھئے پاگل سے کہ جی میں کیا ہے

نوچ کر دیکھ رہا ہے کہ کلی میں کیا ہے

 

ہنستے ہنستے بھی نکل آتے ہیں اکثر آنسو

وہ بھی انداز ہے رونے کا، ہنسی میں کیا ہے

٭٭

 

 

شمع کا کام ہے جلتے رہنا

خود چلے آئیں گے آنے والے

 

شہر بھی تجھ کو نہ پہچانے گا

گاؤں سے روٹھ کے جانے والے

 

گرد ہے دل میں تِرے، سر میں بھی

چاند پر دھول اُڑانے والے

٭٭

 

جنہیں تعمیر کرنے کے لئے مجبور کرتے ہو

وہی ان شیش محلوں پر کبھی پتھر اٹھائیں گے

 

ہنر پرویزؔ کو آتا ہے سچے شعر کہنے کا

کوئی برچھی چلائے گا تو ہم نشتر اٹھائیں گے

٭٭

 

پرورش ہم نے کی ہے زخموں کی

دل نہیں ، پوٹلی ہے زخموں کی

٭٭

 

باپو ہو یا ماتا ہو

سب سے بڑا رُپیّا رے

 

اتنی ندیاں ، اتنے کھیت

بھوکی بھارت میّا رے

 

پانی آگ لگاتا ہے

اب کیا ہو گا دَیّا رے

٭٭

 

آرزوئے وصال، توبہ کرو

اتنا اوچھا خیال، توبہ کرو

 

نیکیوں کا صلہ ہے کیا پرویزؔ

بے تُکا ہے سوال، توبہ کرو

٭٭

 

مانا ریت بہت ہے ریگستانوں میں

دریا کیا تیری بھی ہمت ’نئیں ‘ ہوتی؟

 

تم نے کڑوا سچ کیوں کہہ ڈالا پرویزؔ

چلیے اپنے گھر، اب دعوت ’نئیں ‘ ہوتی

٭٭

 

تِرا خیال نہیں ہو اگر ہمارے قریب

تو مر ہی جائیں تِرے غم کے مارے ہجر کی رات

 

خدا کرے کہ کسی روز وہ بھی اے پرویزؔ

ہمارے ساتھ میں آ کر گزارے ہجر کی رات

٭٭

 

مل کے ہمسایوں نے ہر جانب سے

میرے آنگن میں گرائی دیوار

 

پہلے دیوار اٹھائی گھر میں

پھر اٹھا لے گئے بھائی دیوار

 

اب کوئی غیر نہیں ہے پرویزؔ

درمیاں سے جو ہٹائی دیوار

٭٭

 

عجیب ہیں یہ زمانے والے کہ بھول کر طمطراق اس کا

زمین اُسی کی چُرا رہے ہیں اڑا رہے ہیں مذاق اس کا

 

وہ دل میں روشن ہے نور بن کر، رواں رگوں میں سرور بن کر

سیاہیوں کو اجالتا ہے، چراغ اس کا ہے طاق اس کا

 

جنابِ پرویزؔ میرے داتا کی بات دنیا سے ہے نرالی

اِدھر سبھی جھولیاں بھری ہیں اُدھر لبالب طباق اس کا

٭٭

 

محبت کی قیمت نہیں چاہتے

ہم ان کی عنایت نہیں چاہتے

 

فقط چار تنکوں کا اک آشیاں

چمن کی خلافت نہیں چاہتے

 

ہم اس کی رضا چاہتے ہیں میاں

عبادت سے جنت نہیں چاہتے

٭٭

 

سایہ ہو کہ بستر ہو، آرام نہیں ملتا

مجبور جوانوں کو جب کام نہیں ملتا

 

پھل دیتے ہیں سایہ بھی فطرت ہے یہی ان کی

حالانکہ درختوں کو انعام نہیں ملتا

 

میخانے میں پی کر بھی مدہوش نہیں کوئی

مسجد میں مسلماں ہیں اسلام نہیں ملتا

٭٭

 

پچھلے موسم میں تو مایوسی بہت اُگ آئی تھی

دوستو اس فصل میں امید بونا چاہئے

٭٭

 

وہ قتل کرنا چھوڑ کر

لکھنے لگے ہیں مرثیے

٭٭

 

سینے پہ تو پرویزؔ عدو وار کریں گے

احباب سے ہے جنگ و جدل اور طرح کی

٭٭

 

اتنا ہو گا اثر دعاؤں میں

جتنی مومن کی آنکھ تر ہو گی

 

ہم سے ہنس کر ملیں گے وہ پرویزؔ

اور بیٹھک عدو کے گھر ہو گی

٭٭

 

نیکیاں ہوں کہ بدنامیاں

سب ندی میں بہا دیجئے

 

سچ بہت دیر تک کہہ چکے

آئیے سر کٹا دیجئے

٭٭

 

تنگ آ کر راس آئے گی

دنیا کو دو اِتنا پیار

٭٭

 

سجائے جائیں گے تمغے تمھارے سینے پر

تمھیں تو وردی میں لوگوں کو مارا کرتے ہو

 

تمھارے سینے میں چنگاریاں ہیں کیا پرویزؔ

تم اپنے شعر کو اکثر شرارہ کرتے ہو

٭٭

 

جل بجھا شہر، صرف قاتل کا

اک اکیلا مکان باقی ہے

 

خود ہی مر جاؤں گا نہ ہو بدنام

اور تھوڑی سی جان باقی ہے

٭٭

 

دعویٰ کرتے ہیں کہ دنیا کو کریں گے تسخیر

گھر کی دہلیز کو جو پار نہیں کر سکتے

٭٭

 

اگر چلے وہ نہ چال الٹی

زمانہ پیچھے سے وار کر دے

 

ہَوا کو آزاد چھوڑ دیں تو

ہر ایک پھل داغ دار کر دے

٭٭

 

ہم بھی خوش ہیں کہ روشنی ہو گی

لوگ آئے ہیں گھر جلانے کو

 

جھونپڑی اس نے پھر بنا لی ہے

اور سرکار کے گرانے کو

٭٭

 

ادھوری چھوڑ کے مَیں اپنی داستاں نکلا

ستارہ ٹوٹ کے بھی فخرِ آسماں نکلا

٭٭

 

میاں وہ خوشبو ہی خوشبو ہے سر سے پاؤں تلک

کہ اس کی یاد بھی آتی ہے عطر ملتے ہوئے

٭٭

 

پرویزؔ اس میں درد چھپا ہے زمانے کا

میری کتابِ عشق طلسمی کتاب ہے

٭٭

 

موج لے آئی پھر کنارے پر

آپ کشتی ڈبو گئے تو کیا

٭٭

 

حاضر میری سب خوشیاں

پیارے کیوں غم کرتے ہو

 

سورج سر پر آ پہنچا

شب کا ماتم کرتے ہو

٭٭

 

مٹا دو نفرتیں دل سے اگر خواہش ہے جینے کی

یہی جذبہ بھری بستی کو ریگستان کرتا ہے

 

ہمیشہ باغ میں پتھر چلاتا ہے درختوں پر

ادھر وہ شہر میں آئینوں کی دوکان کرتا ہے

٭٭

 

خود اپنے عمل میں نہیں تھا خلوص

زمانے پہ الزام دھرنے لگے

٭٭

 

دل پہ لقوے کا ہو گیا ہے اثر

خون کی بوند دان کر دیکھو

٭٭

 

اپنی گردن بھی رکھ دیجیے دھار پر

صرف تلوار تلوار مت کیجئے

 

ایک تاریخ ہے صرف مسجد نہیں

دیکھئے اس کو مسمار مت کیجئے

 

وہ بغاوت بھی کر سکتے ہیں ایک دن

نوجوانوں کو بیکار مت کیجئے

٭٭

 

کیسے پرویزؔ وہ حرام کا مال

چندہ دے کر حلال کرتے ہیں

٭٭

 

پرویزؔ آدمی ہے کھلونا نہیں کوئی

دل سے جلن مٹائے تو سونا ہے آدمی

٭٭

 

سچ بولنے کا فیصلہ کیا تھا

خنجر سے نظر ہٹی رہے گی

٭٭

 

زمانہ سمندر ہے اک ریت کا

بھنور پڑ رہے ہیں سنبھلنا میاں

٭٭

 

مسکرا کر لُو کے نیزے جھیلتے ہیں ہم غریب

برف کی صحبت میں تم کمرے کے اندر جل گئے

٭٭

 

کوئی رونق نہ رہی دنیا میں

آپ نے چھوڑ دیا ہے جب سے

٭٭

 

زمانہ برا کہہ رہا ہے مجھے

زمانے کی شہرت بھی اچھی نہیں

٭٭

 

ہمارے گھر کو بصد شوق پھونک دو پرویزؔ

مگر جواز بھی ایجاد کر دیا جائے

٭٭

 

آئنے دوسروں کو دکھائے بہت

کچھ تو اپنے کئے پر بھی شرمائیے

٭٭

 

فکر لے کر گلاس بیٹھی ہے

میرے شعروں میں پیاس بیٹھی ہے

 

دل کا وہ حال جیسے سینے میں

ایک چڑیا اداس بیٹھی ہے

 

صحن میں آنکھ موند کر نکلو

چاندنی بے لباس بیٹھی ہے

 

دھوپ چشمہ لگائے چھتری میں

پھر سمندر کے پاس بیٹھی ہے

٭٭

 

 

ہماری عمروں نے دیوار سی کھڑی کر دی

نیا مزاج پرانے سے کس طرح ملتا

٭٭

 

تم کو نفرت ہے صداقت سے، دکھائی کیا دے؟

مصلحت کانوں میں ٹھونسے ہو، سنائی کیا دے؟

 

پھول کے پاس ہے لے دے کے ذرا سی خوشبو

پالکی اٹھتی ہے شبنم کی، بِدائی کیا دے؟

٭٭

 

تیری رسوائی مِرے نام ہُوا چاہتی ہے

ایک جنگل میں مجھے شام ہُوا چاہتی ہے

 

زندگی بخش جو سورج کی کرن ہے سب کو

اوس کی موت کا پیغام ہُوا چاہتی ہے

٭٭

 

بس ایک چیخ مارنے کی دیر تھی

تمام فتنے شہر بھر سے آ گئے

٭٭

 

انسان میں دیکھی ہے فرشتے کی صفت بھی

پھر ہم نے درندہ اُسی انسان میں دیکھا

 

اعمال تو اعمال ہیں نیت کا اثر بھی

اللہ کے انصاف کی میزان میں دیکھا

 

پل بھر کے لئے شاخوں پہ لہرائے تھے پرویزؔ

پھر ہم نے اُنھِیں پھولوں کو گلدان میں دیکھا

٭٭

 

اک محل بن گیا آپ کا

سینکڑوں دربدر ہو گئے

٭٭

 

تن پر سجا ہے جو بھی

سب کچھ ادھار کا ہے

٭٭

 

کس وقت کہاں کون جلاتا ہے چراغ

اتنی تو پتنگے بھی خبر رکھتے ہیں

٭٭

 

عینک نہ چڑھا لینا آنکھوں پہ تعصب کی

پہلو نظر آئے گا نیکی میں برائی کا

٭٭

 

کیسی پُر بہار قتل گاہ تھی

راستے میں بے شمار پھول تھے

٭٭

 

ہر سمت وہی موج، وہی موج، وہی موج

اکتا کے سمندر سے کنارے نکل آئے

٭٭

 

پارک میں جا بہ جا بورڈ آویزاں ہیں

اے پرندو یہاں چہچہا مت کرو

٭٭

 

ہر جانب خون خرابا  ہے

ہولی کیسا تیوہار ہوئی

٭٭

 

توفیق ہو تو شعر ہمارے پڑھا کرو

دنیا میں آن بان سے جینا سکھائیں گے

٭٭

 

ہم اگر موت سے خوف کھاتے رہے

کوئی غدّار سلطان ہو جائے گا

 

حسن پر اس قدر ناز اچھا نہیں

جسم کا قلعہ میدان ہو جائے گا

 

لوگ پرویزؔ کے شعر پڑھنے لگے

آج کرفیو کا اعلان ہو جائے گا

٭٭

 

تم ہی جانو قصور کس کا تھا

ہم بھنور میں تھے، تم کنارے تھے

٭٭

 

تیری بندوق میرے شانے پر

اور مَیں ہی تِرے نشانے پر

 

تتلیوں کا قصور بخشا جائے

غنچے کھِلتے ہیں چومے جانے پر

٭٭

 

اس کو مرنا ہے رکھ رکھاؤ کے ساتھ

ڈوبنے جا رہا ہے ناؤ کے ساتھ

 

ہم نے اس کو گلے لگایا ہے

بات کی جس نے ہم سے تاؤ کے ساتھ

 

کچھ مزے دھار کاٹنے میں ہیں

ورنہ بہتے رہو بہاؤ کے ساتھ

٭٭

 

آئیے تیر چلانے کے لئے

ہم بھی حاضر ہیں نشانے کے لئے

 

ہم نے آنکھوں میں جلا رکھے ہیں

دیپ دریا میں بہانے کے لئے

٭٭

 

چوم رہے ہیں اس کا خنجر

اترا بوجھ ہمارے سر سے

 

پرویزؔ اب گُل مت کر دینا

شمع، سحر ہونے کے ڈر سے

٭٭

 

بانٹ لو اپنی مسرت پرویزؔ

سب کا حق ہے یہ تمھارا ہی نہیں

٭٭

 

یاد آتی ہے پیپل کے اس پیڑ کی

بیٹھتے تھے پرندے کچھ آرام سے

٭٭

 

بڑا ہے اس کا دل دیکھو

پہلے فون کا بل دیکھو

 

جیسے تارے روشن ہوں

رخساروں کے تل دیکھو

 

دیکھو مرجھا جاؤ گے

پیارے تھوڑا کھل دیکھو

 

آنکھوں میں انگارے ہیں

پوشاکیں جھِلمل دیکھو

٭٭

 

دل میرا کب تک ٹوٹے گا

سینے میں بس چھَن چھَن چھَن ہے

٭٭

 

ہمیں کس نے مارا نہیں جانتے

زباں لڑکھڑاتی بتانے میں ہے

٭٭

 

ٹوٹنے سے گھر بچا سکتے ہیں آپ

دوستی ہم شاعروں سے پال کر

 

پہلے ان کے گھر جلا دے رات کو

دن میں جا کر پرسشِ احوال کر

٭٭

 

اچھی صورت پائی ہے نا

کچھ نیندیں بیکار کرو گے

٭٭

 

شکر پانے پہ ادا کرنا تھا

اب یہ احساس ہوا ہے کھو کر

٭٭

 

گاؤں سے لوگ شہروں کو جانے لگے

شاید اپنی حویلی ٹھکانے لگے

٭٭

 

اپنے بچوں کو سجاتے ہیں نمائش کے لئے

لوگ کیا کچھ نہیں کرتے ہیں ستائش کے لئے

٭٭

 

اپنے ہونے سے ہے آباد یہ دنیا پرویزؔ

خوشنما چاند ستارے تو ہیں گردش کے لئے

٭٭

 

اچھا پتّہ کھُل جائے گا

سر البتّہ کھُل جائے گا

٭٭

 

یہ تو سچ ہے اپنے بس میں رہنے میں عافیّت ہے

لیکن اپنے بس میں رہنا میرے بس کی بات نہیں

٭٭

 

آؤ بگولو چلتے ہیں

بھٹکیں گے صحراؤں میں

 

ہم نے دنیا دیکھی ہے

پھر بھی آ گئے داؤں میں

 

دنیا چاہوں عقبیٰ بھی

اک بچہ دو ماؤں میں

٭٭

 

آپ گلشن پہ حق جتاتے ہیں

کیا کوئی پھول بھی کھلایا ہے؟

٭٭

 

لوگ مرنے نہیں دیتے مجھ کو

اور مَیں جینے کو تیار نہیں

٭٭

 

آسماں کچھ قریب لگتا ہے

ہم اسے دیکھتے ہیں جب چھت سے

٭٭

 

صبح کو اب پوچھتا ہی کون ہے

آج کل چرچے بہت ہیں شام کے

 

جن غریبوں کا کوئی والی نہیں

نام لیوا ہیں وہی اسلام کے

٭٭

 

بھاگ اس مقبولیت سے جس کو پانے کے لئے

سر کو خم کرنا پڑے، جو ہے اٹھانے کے لئے

 

سنگ باری زور پر ہے پوچھتے جاتے ہیں لوگ

کتنی اینٹیں چاہئیں اک گھر بنانے کے لئے

٭٭

 

دہشت گرد امریکہ کے

گردن ہے صدّام کی

٭٭

 

ظلم کا حوصلہ بڑھاتی ہے

یہ روایت خموش رہنے کی

 

پھول کو بس ہے چاک دامانی

اس کو حاجت نہیں ہے گہنے کی

٭٭

 

کانٹوں سے کہو کہ ہوش میں آئیں

تتلی تو گلاب دیکھتی ہے

 

عبرت کی نگاہ گل رخوں میں

مٹی کے حَباب دیکھتی ہے

٭٭

 

مجھ کو کہتی ہے پاگل

دنیا خود دیوانی ہے

 

ٹھوکر میں رکھیو پرویزؔ

دولت آنی جانی ہے

٭٭

 

پَر نکلنے لگے خموشی کے

اور پھر سرنگوں رہا نہ گیا

 

مر گئے سانپ آستینوں کے

پھر بھی سینے سے اژدہا نہ گیا

٭٭

 

مقتل میں ہوں ، سوچ رہا ہوں

کیا قیمت ہے میرے سر کی

 

باون گز کا قد ہے ان کا

جن کی دنیا ہے گز بھر کی

٭٭

 

ظرف کتنا ہے میاں پرویزؔ کا

دوجہاں کا درد سارا چاہئے

٭٭

 

محشر میں کیا اے پرویزؔ

غزلیں لے کر جائے گا؟

٭٭

 

کسی نے کروٹیں بدلی ہیں اس پر رات بھر کتنی

کسی کو ریشمی بستر سے اندازہ نہیں ہو گا

 

ہمارے دل سلگتے ہیں ہمارے زخم روشن ہیں

اندھیرے کا ہمارے گھر سے اندازہ نہیں ہو گا

٭٭

 

کس شان سے رہتا ہے ویرانے میں دیوانہ

آباد ہے یہ دنیا اِن خانہ خرابوں سے

٭٭

 

سکھ میں بھی مجھے دکھ ہے، دکھ میں بھی مجھے سکھ ہے

اب آپ اسے سمجھیں دانائی کہ نادانی

٭٭

 

ایک اک مسجد، سارے مندر، ہر گُردوارا ڈوب گیا

بجلی گھر کا باندھ بنا تو گاؤں ہمارا ڈوب گیا

 

بستی والوں سے کہتا تھا گھبرانا مت مَیں جو ہوں

ناؤ بنانے والا مانجھی وہ بیچارا ڈوب گیا

 

جانے کیسے اتنا پانی چھلکا چاند کٹورے سے

جس میں ہر اک جگمگ جگمگ ٹِم ٹِم تارا ڈوب گیا

 

ایک پریمی جوڑا جس دریا میں ڈوبا تھا کل رات

آج سمندر میں جا کر وہ دریا سارا ڈوب گیا

 

اپنی قسمت کو کوسیں یا کشتی کو روئیں پرویزؔ

ہم ساحل پر پہنچے ہی تھے اور کنارا ڈوب گیا

٭٭

 

لڑے ہیں کچھ اتنا زندگی سے

کہ زندگی اک عذاب سی ہے

 

بتائیں کیا زندگی ہماری

کسی پرانی کتاب سی ہے

٭٭

 

منہ میں اپنے زبان چاہتے ہیں

وہ بنارس کا پان چاہتے ہیں

 

جان جن پر نثار کی ہم نے

وہ ہماری ہی جان چاہتے ہیں

 

وہ جنھوں نے زمین گِروی کی

اب وہ ہم سے لگان چاہتے ہیں

 

ہم کہ اپنی زمین سے کٹ کر

گھر میں ہندوستان چاہتے ہیں

 

عمر بھر ٹیکسی چلائی ہے

سوٹ میں جھوٹی شان چاہتے ہیں

٭٭

 

خنجر کرتا ہوں شعروں کو

تُو آنچل کو پرچم کر دے

 

اب میں تیرے ہاتھوں میں ہوں

نشتر کر دے مرہم کر دے

 

دل میں آگ لگانے والے

شعلوں کو کچھ مدھّم کر دے

 

پرویزؔ اونچا رکھنا ہے تو

سر اس کے آگے خم کر دے

٭٭

 

جس ڈال پہ مسکن ہے اسے کاٹ رہے ہیں

افسوس کہ اپنا ہی لہو چاٹ رہے ہیں

٭٭

 

آ کر وطن سے دور ترقی کے داؤں میں

پردیس ہم نے باندھ لئے اپنے پاؤں میں

 

رہ کر عظیم شہروں میں پرویزؔ آج بھی

دل کا قیام ہے اسی چھوٹے سے گاؤں میں

٭٭

 

مرعوبیت کی عینک اترتی تو دیکھتے

ہم لوگ فاختائیں ہیں امریکہ باز ہے

٭٭

 

اب ہم کو کچھ کرنا ہو گا

ورنہ سب سے ڈرنا ہو گا

 

دنیا میں جینے کی خاطر

پہلے ہنس کر مرنا ہو گا

٭٭

 

قدیم ہو یا جدید پرویزؔ

غزل میں کچھ تازگی تو ہوتی

٭٭٭

تشکر: شاعر جن سے فائل کا حصول ہوا

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید