فہرست مضامین
- منٹو کے باقی افسانے
- پھاہا
- سجدہ
- کبوتروں والا سائیں
- الو کا پٹھا
- تلون؟
- وہ خط جو پوسٹ نہ کئے گئے
- پہلا خط مسز کرپلانی کے نام
- دوسرا خط مسز ایڈوانی کے نام
- تیسرا خط مسٹر ایوب خان انسپکٹر پولیس کے نام
- چوتھا خط مس ڈی سلوا کے نام
- پانچواں خط کو شلیا دیوی کے نام
- چھٹا خط مسٹر سعید حسن جرنلسٹ کے نام
- ساتواں خط مسز قاسمی کے نام
- آٹھواں خط مس راجکماری کے نام
- نواں خط مسٹر صالح بھائی کنٹریکٹر کے نام
- دسواں خط مس رضیہ صلاح الدین کے نام
- مصری کی ڈلی
- ماتمی جلسہ
- قبض
- ایکٹریس کی آنکھ
- نا مکمل تحریر
منٹو کے باقی افسانے
سعادت حسن منٹو
یہ افسانے منٹو کی حیات میں غیر مطبوعہ رہے، اور انتقال کے بعد ان کے کاغذات سے دستیاب ہوئے۔ انہیں ’باقیاتِ منٹو‘ نامی کتاب سے لیا گیا ہے۔
پھاہا
گوپال کی ران پر جب یہ بڑا پھوڑا نکلا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے۔
گرمیوں کا موسم تھا۔آم خو ب ہوئے تھے۔ بازاروں میں ،گلیوں میں ،دکانداروں کے پاس پھیری والوں کے پاس، جدھر دیکھو، آم ہی آم نظر آ تے۔ لال، پیلے، سبز رنگا رنگ کے …. سبزی منڈی میں لاکھوں کے حساب سے ہر قسم کے آم آتے تھے اور نہایت سستے داموں پر فروخت ہو رہے تھے۔ یوں سمجھئے کہ پچھلے برس کی کسر پوری ہو رہی تھی۔
اسکول کے باہر چھو ٹو رام پھل فروش سے گوپال نے ایک روز جب جی بھر کے آم کھائے اور جیب میں سے ایک مہینے کے بچائے ہوئے جتنے پیسے جمع تھے۔ سب کے سب ان آموں پر خرچ کر دئیے۔ جن کے گودے اور رس میں شہد گھلا ہوا تھا۔
اس روز چھٹی کے وقت آم کھانے کے بعد انگلیاں چاٹتے ہوئے گوپال کو اسکول کے حلوائی سے دودھ کی لسی پینے کا خیال آیا تھا اور اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر اس نے گنڈا رام حلوائی سے پاؤ پھر دودھ کی لسی بنانے کو کہا تھا مگر حلوائی نے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا۔’’ بابو گوپال، پہلا حساب چکا دو تو اور ادھار دو ں گا، ورنہ نہیں۔‘‘
گو پال نے اگر آم نہ کھائے ہوتے۔یا اگر اس کی جیب میں تھوڑے بہت پیسے ہوتے تو وہ وہیں کھڑے کھڑے گنڈا رام کا حساب چکا دیتا اور کچھ نہیں تو نقد دام دے کر لسی کا وہ گلاس لے لیتا۔ جس میں برف کا ٹکڑا ڈبکیاں لگا رہا تھا اور جسے حلوائی نے برا سا منہ بنا کر اپنے پیچھے لوہے کے تھال میں رکھ دیا تھا مگر گوپال کچھ بھی نہ کر سکا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چوتھے روز اس کی ران پر یہ بڑا سا پھوڑا نکل آیا اور تین چار روز تک ابھرتا رہا۔
گوپال کے اوسان خطا ہو گئے۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے؟ وہ پھوڑے سے اتنا پریشان نہیں تھا جتنا اس کے درد سے…. اور سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ پھوڑا دن بہ دن لال ہوتا چلا جا رہا تھا اور اس کے منہ پر بدن کی جھلی پھٹنا شروع ہو گئی تھی۔ بعض اوقات گوپال کو یہ معلوم ہوتا کہ پھوڑے کے اندر کوئی ہنڈیا ابل رہی ہے اور اس کے اندر سے سب کچھ ایک ہی ابال میں نکلنا چاہتا ہے۔ یہ چیز اسے بہت پریشان کر رہی تھی اور پھوڑے کی جسامت دیکھ کر ایک مرتبہ تو اسے ایسا معلوم ہوا تھا کہ اس کی جیب سے کانچ کی گولی نکل کر اس کی ران میں گھس گئی ہے۔
گوپال نے گھر میں پھوڑے کی بابت کسی سے ذکر نہ کیا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر پتا جی کو اس کا پتہ چل گیا تو وہ اپنے تھانے کی مکھیوں کا سارا غصہ اس پر نکالیں گے اور بہت ممکن ہے کہ وہ اسے اس چھڑی سے پیٹنا شروع کر دیں جو تھوڑے روز ہوئے گردھاری وکیل کے منشی نے وزیر آباد سے انہیں تحفے کے طور پر لا کر دی تھی۔ ماں کا مزاج کم گرم نہ تھا۔ وہ اگر اسے آم کھانے کے جرم کی سزا نہ دیتی تو اس غلطی پر اس کے کان کھینچ کھینچ کر ضرور لال کر دیتی کہ اس نے گھر کے باہر اکیلے اکیلے اتنے آم کیوں اڑائے۔ اس کی ماں کا اصول تھا کہ’’ گوپال اگر تجھے زہر بھی کھانا ہو تو گھر میں کھا۔‘‘ گوپال اچھی طرح جانتا تھا کہ اس اصول کے پیچھے اس کی ماں کی صرف یہ خواہش تھی کہ گوپال کے منہ کے ساتھ اس کا منہ بھی چلتا رہے۔
کچھ بھی ہو، گوپال کی ران پر پھوڑا نکلنا تھا نکل آیا۔ اس کا باعث جہاں تک گوپال سمجھ سکا تھا۔ وہی آم تھے۔ اس نے پھوڑے کی بابت گھر میں کسی سے ذکر نہ کیا تھا۔ اس کو اپنے پتا جی کی وہ ڈانٹ اچھی طرح یاد تھی جو غسل خانے کے اندر بتائی گئی تھی۔ اس کے پتا جی لالہ پرشوتم داس تھانے دار لنگوٹ باندھے نل کی دھار کے نیچے اپنی گنجی چندیا رکھے اور بڑی توند بڑھائے مونچھوں میں سے آم کا رس چوس رہے تھے۔ سامنے بالٹی میں ایک درجن کے قریب آم پڑے تھے جو اس نے صبح سویرے ایک ٹھیلے والے سے اس کا چالان کاٹ کر حاصل کئے تھے۔ گوپال باپ کی پیٹھ مل ر ہا تھا اور میل کی مروڑیا بنا رہا تھا۔جب اس نے ہاتھ صاف کر نے کے لئے بالٹی میں ڈالے اور چپکے سے ایک آم اڑانا چاہا تو لالہ جی نے بڑے زور سے اس کا ہاتھ جھٹک کر چھوٹے سے آم کو مونچھوں سمٹ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا تھا’’ بے شرم….تجھے بڑوں کا لحاظ کرنا، جانے کب آئے گا؟‘‘
اور جب گوپال نے رونی صورت بنا کر کہا تھا۔’’ پتا جی…. آم کھانے کو میرا بھی تو جی چاہتا ہے۔‘‘ تو تھانیدار صاحب نے آم کی گٹھلی چوس کر موری میں پھینکتے ہوئے کہا تھا۔’’ گوپو، تیرے لئے یہ آم گرم تھا۔ پھوڑے پھنسیاں چاہتا ہے تو بیشک کھا لے…. دو تین بارشیں اور ہو لینے دے۔ پھر خوب ٹھاٹ سے کھائیو، تیری ماں سے کہوں گا۔ وہ لسی بنا دے گی…. چل اب پیٹھ مل۔‘‘ اور گوپال نے یہ رکاوٹ کی بات سن کر خاموشی سے اپنے پتا کی پیٹھ ملنا شروع کر دی اور آم کی کھٹاس نے جو پانی اس کے منہ میں بھر دیا تھا۔ اسے دیر تک نگلتا رہا تھا۔
اس کے دوسرے روز اس نے آم کھائے اور چوتھے روز اس کی ران پر پھوڑا نکل آیا۔ اس کے پتا کی بات سچی ثابت ہو ئی۔
اب اگر گوپال گھر میں کسی سے پھوڑے کی بات کرتا تو ظاہر ہے کہ خوب پٹتا۔ یہی وجہ ہے۔ کہ وہ خاموش رہا اور پھوڑے کا بڑھاؤ بند کر نے کی تدبیریں سوچتا رہا۔
ایک روز اس کے پتا جی تھانے سے واپسی پر جب گھر آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک لمبی سی بتی تھی۔ گوپال کی ماں کو آواز دے کر انہوں نے یہ بتی اس کے ہاتھ میں دے کر کہا۔’’ لے آج بڑے کام کی چیز لایا ہوں۔ بمبئی کا مرہم ہے۔ سو دواؤں کی ایک دوا ہے…. پھوڑے پھنسی کی بہار ہے۔ ذرا سا پھاہے پر لیپ کر کے لگا دو گی،یوں آرام آ جائے گا…. یوں …. بمبئی کا’’ نخالص‘‘ مرہم ہے۔ اسے سنبھال کے رکھ!‘‘
گوپال اپنی بہن نرملا کے ساتھ صحن میں گیند بلا کھیل رہا تھا۔ اتفاق کی بات ہے۔ کہ جب تھانیدار جی مرہم دے کر اپنی پتنی کو کچھ سمجھا رہے تھے تو نرملا نے زور سے گیند پھینکی گوپال کا دھیان باپ کی طرف تھا۔ گیند زور سے پھوڑے پر لگی۔ گوپال بلبلا اٹھا۔ لیکن درد کو اندر ہی اندر پی گیا۔ وہ اسکول میں ماسٹر ہری رام کے مشہور بید کی مار کھا کر درد سہنے کا عادی ہو چکا تھا۔
ادھر گوپال کے پھوڑے پر گیند لگی۔ ادھر اس کے باپ کی آواز بلند ہوئی۔’’ ذرا سا پھاہے پر لیپ کر کے لگا دو گی…. یوں آرام آ جائے گا…. یوں۔‘‘ اور یوں کے ساتھ اس کے باپ کی چٹکی نے گویا گوپال کے سوئے ہوئے دماغ کی چٹکی بھر لی۔ اس کو اپنے درد کا علاج معلوم ہو گیا۔
اس کی ماں نے مرہم کی بتی سامنے دالان میں سلائی کی پٹاری میں رکھ دی۔ گوپال کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کی ماں عام طور پر سلائی کی پٹاری ہی میں سب سنبھالنے والی چیزیں رکھا کرتی ہے۔ سب سے زیادہ سنبھالنے والی چیز وہ موچنا تھا۔ جس سے اس کی ماں ہر دسویں پندرھویں روز اپنے تنگ ماتھے کے بال صاف کیا کرتی تھی۔ یہ بلا شک و شبہ سلائی کی پٹاری میں اس پڑیا سمیت موجود تھا۔ جس میں کوئلوں کی سفید راکھ جمع رہتی تھی۔ جو اس کی ماں بال نوچ کر ماتھے پر لگایا کرتی تھی۔
تاہم گوپال نے اپنا اطمینان کرنے کے لئے گیند دالان میں پھینک دی۔ اور اس کو پلنگ کے نیچے سے نکالتے ہوئے اپنی ماں کو سلائی کی پٹاری میں مرہم رکھتے دیکھ لیا۔
دوپہر کو اس نے اپنی بہن کو ساتھ ملا کر چھوٹی قینچی، جس سے اس کا باپ انگلیوں کے ناخن کاٹتا تھا۔ مرہم کی بتی اور اپنے باپ کے پائجامے سے بچا ہوا لٹھے کا وہ ٹکڑا حاصل کر لیا۔ جس سے اس کی ماں ایک اور ٹکڑے کو ساتھ ملا کر شلوار کی میانی بنانا چاہتی تھی۔
دونوں یہ چیزیں لے کر اوپر کوٹھے پر چلے گئے اور برساتی کے نیچے کوئلوں کی بوریوں کے پاس بیٹھ گئے۔
نرملا نے اپنی جیب سے لٹھے کا ٹکڑا نکال کر اپنی ران کے پھسلتے ہوئے ریشمی کپڑے پر پھیلا کر جب گوپال کی طرف اپنی ناچتی ہوئی آنکھوں سے دیکھا تو اس وقت ایسا معلوم ہوا کہ گیارہ برس کی یہ کمسن لڑکی جو دریائی سر کنڈے کی طرح نازک اور لچکیلی تھی۔ ایک بہت بڑے کام کے لئے اپنے آپ کو تیار کر رہی ہے۔
اس کا ننھا سا دل جو اس وقت تک صرف صرف ماں باپ کی جھڑ کیوں اور اپنی گڑیوں کے میلے ہوتے ہوئے چہروں کی فکر سے دھڑکا کرتا تھا۔ اب اپنے بھائی کی ران پر پھوڑا دیکھنے کے خیال سے دھڑک رہا تھا۔ اس کے کان کی لویں لال اور گرم ہو گئی تھیں۔
گوپال نے گھر میں اپنے پھوڑے کے بابت کسی سے ذکر نہ کیا تھا۔ لیکن اب اسے نرملا کو ساری بات سنانا پڑی کہ کس طرح اس نے چوری چوری آم کھائے ا ور لسی پینا بھول گیا اور اس کی ران پر پیسے کے برابر پھوڑا نکل آیا۔ جب اس نے اپنی رام کہانی’’ سنا کر نرملا سے راز دانہ لہجے میں کہا تھا۔’’ دیکھ، نرملا! گھر میں یہ بات کسی سے نہ کہیو۔‘‘ تو نرملا نے بڑی متین صورت بنا کر جواب دیا تھا۔’’ میں پاگل تھوڑی ہوں۔‘‘
گوپال کو یقین تھا کہ نرملا یہ بات اپنے دل ہی میں رکھے گی۔ چنانچہ اس نے پاجامے کو اوپر اڑس لیا۔ نرملا کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ جب گوپال نے بیٹھ کر اپنا پھوڑا دکھایا اور نرملا نے دور ہی سے اپنی انگلی سے چھوا۔ تو اس کے بدن پر ایک جھرجھری سی طاری ہو گئی۔ سی سی کرتے ہوئے اس نے اس ابھرتے ہوئے لال پھوڑے کی طرف دیکھا اور کہا۔’’ کتنا لال ہے۔‘‘
’’ ابھی تو اور ہو گا۔‘‘ گوپال نے اپنے مردانہ حوصلے کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا۔
نرملا نے حیرت سے کہا۔’’ سچ؟‘‘
’’ ابھی تو کچھ لال نہیں ہے، جو پھوڑا میں نے چرنجی کے منہ پر دیکھا ہے۔ اور اس سے کہیں زیادہ بڑا اور لا ل تھا۔‘‘ گو پال نے پھوڑے پر دو انگلیاں پھیریں۔
’’ ابھی اور بڑھے گا؟‘‘ نرملا آگے سرک آئی۔
’’ کیا پتا ہے…. ابھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔‘‘ گوپال نے جیب میں سے مرہم کی بتی نکال کر کہا۔
نرملا سہم سی گئی۔’’ اس مرہم سے تو آرام آ جائے گا نا؟‘‘
گوپال نے بتی کے ایک سرے پر سے کاغذ کی تہہ جدا کی اور اثبات میں سر ہلا دیا’’ اس کا ایک پھاہا لگانے ہی سے پھٹ جائے گا۔‘‘
’’ پھٹ جائے گا!‘‘ نرملا کو ایسا معلوم ہوا کہ اس کے کان کے پاس ربڑ کا غبارہ پھٹ گیا ہے۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔
’’ اور اس کے اندر جو کچھ ہے پھوٹ بہے گا!‘‘ گوپال نے مرہم کو انگلی پر اٹھاتے ہوئے کہا۔
نرملا کا گلابی رنگ اب بمبئی کے مرہم کی طرح پیلا پڑ گیا تھا۔ اس نے دھڑکتے ہوئے دل سے پوچھا۔’’ مگر یہ پھوڑے کیوں نکلتے ہیں بھیا؟‘‘
’’گرم چیزیں کھانے سے!‘‘ گوپال نے ایک ماہر طبیب کے سے انداز میں جواب دیا۔
نرملا کو وہ دو انڈے یاد آ گئے جو اس نے دو ماہ پہلے کھائے تھے، وہ کچھ سوچنے لگی۔
گوپال اور نرملا کے درمیان چند باتیں اور ہوئیں۔ اس کے بعد وہ اصلی کام کی طرف متوجہ ہوئے۔ نرملا نے لٹھے کا ایک گول پھا ہا کاٹا۔ بڑی نفاست سے، یہ روپے کے برابر تھا اور اس کی گولائی میں مجال سے جو ذرا سا نقص بھی ہو۔ اسی طرح گول تھا جس طرح نرملا کی ماں کے ہاتھ کی بنی ہوئی روٹی گول ہوتی تھی۔
گوپال نے اس پھاہے پر تھوڑا سا مرہم لگا دیا اور اسے اچھی طرح پھیلانے کے بعد پھوڑے کی طرف غور سے دیکھا۔ نرملا گوپال کے اوپر جھکی ہوئی تھی اور گوپال کی ہر حرکت کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔ گوپال نے جب پھاہا اپنے پھوڑے کے اوپر جما دیا تو وہ کانپ گئی جیسے اس کے بدن پر کسی نے برف کا ٹکڑا رکھ دیا ہے۔
’’ اب آرام آ جائے گا نا؟‘‘ نرملا نے نیم سوالیہ انداز میں کہا۔
گوپال جواب دینے بھی نہ پایا تھا کہ برساتی کے برابر والی سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آواز سنائی دی۔ ان کی ماں تھی جو غالباً کوئلے لینے کے لئے آ رہی تھی۔
گوپال اور نرملا نے بیک وقت ایک دوسرے کے چہرے کی طرف دیکھا اور کچھ سنے بغیر سب چیزیں اکٹھی کر کے اس پرانے صندوق کے نیچے چھپا دیں۔ جہاں ان کی بلی سندری بچے دیا کرتی تھی اور چپکے سے بھاگ گئے۔
یہاں سے بھاگ کر گوپال جب نیچے گیا تو اس کے باپ نے اسے باہر فالودہ لانے کے لئے بھیج دیا۔ جب واپس آیا تو اسے گلی میں نرملا ملی۔ فالودے کا گلاس اس کے حوالے کر کے وہ چرنجی کے گھر چلا گیا اور اس طرح ان چیزوں کو اپنی جگہ پر کھنا بھول گیا جو ماں کے اچانک آ جانے سے اس نے اور نرملا نے صندوق کے پیچھے چھپا دی تھیں۔
چرنجی کے یہاں وہ دیر تک تاش کھیلتا رہا۔ کھیل سے فارغ ہو کر جب وہ چرنجی کی بغل میں ہاتھ ڈالے کمرے سے باہر نکل رہا تھا تو کسی بات پر اس کا دوست ہنسا اور اس کے داہنے گال پر پھوڑے کا نشان لمبی سے لکیر بن گیا۔ اور اس کو دیکھ کر فوراً ہی اپنے پھوڑے کا گوپال کو خیال آیا اور اس خیال کے ساتھ ہی اسے و ہ چیزیں یاد آ گئیں جو صندوق کے پیچھے پڑی تھیں۔ چرنجی کی بغل سے ہاتھ نکال کر وہ بھاگا۔
گھر پہنچ کر اس نے وہاں کی فضا دیکھی۔ اس کی ماں صحن میں بیٹھی اس کے باپ سے ’’ ملاپ‘‘ اخبار کی خبریں سن رہی تھی۔ دونوں کسی بات پر ہنس رہے تھے۔ گوپال کو اطمینان ہو گیا کہ ابھی تک اس کی ماں نے اپنی سلائی کی پٹاری نہیں دیکھی۔ چنانچہ وہ چپکے سے کوٹھے پر چلا گیا۔
بڑے کوٹھے کو طے کر کے دروازے کے اندر داخل ہونے والا ہی تھا۔ کہ اس کے قدم رک گئے۔
صندوق کے پاس بیٹھی نرملا کچھ کر رہی تھی۔ گوپال پیچھے ہٹ گیا اور چھپ کر دیکھنے لگا۔
نرملا بڑے انہماک سے پھاہا تراش رہی تھی۔ اس کی پتلی پتلی انگلیاں قینچی سے بڑا نفیس کام لے رہی تھیں۔ پھاہا کاٹنے کے بعد اس نے تھوڑا سا مرہم نکال کر اس پر پھیلایا اور گردن جھکا کر اپنے کرتے کے بٹن کھولے۔ سینے کے داہنی طرف چھوٹا سا ابھار تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نلکی پر صابن کا چھوٹا سا نا مکمل بلبلہ اٹکا ہوا۔
نرملا نے پھاہے پر پھونک ماری اور اسے اس ننھے سے ابھار پر جما دیا۔
٭٭٭
سجدہ
گلاس پر بوتل جھکی تو ایک دم حمید کی طبیعت پر بوجھ سا پڑ گیا، ملک جو اس کے سامنے تیسرا پیگ پی رہا تھا فوراً تاڑ گیا کہ حمید کے اندر روحانی کشمش پیدا ہو گئی ہے۔ وہ حمید کو سات برس سے جانتا تھا، اور ان سات برسوں میں کئی بار حمید پر ایسے دورے پڑ چکے تھے جن کا مطلب اس کی سمجھ سے ہمیشہ بالا تر رہا تھا۔ لیکن وہ اتنا ضرور سمجھتا تھا کہ اس کے لاغر دوست کے سینے پر کوئی بوجھ ہے، ایسا بوجھ جس کا اثر شراب پینے کے دوران میں کبھی کبھی حمید کے اندر یوں پیدا ہوتا ہے، جیسے بے دھیان بیٹھے ہوئے آدمی کی، پسلیوں میں کوئی زور سے ٹہوکا دے دے۔
حمید بڑا خوش باش انسان تھا، ہنسی مذاق کا عادی، حاضر جواب، بذلہ سنج اس میں بہت سی خوبیاں تھیں جو زیادہ نزدیک آ کر اس کے دوست ملک نے معلوم کی تھیں۔ مثال کے طور پر سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بے حد مخلص تھا۔ اس قدر مخلص کہ بعض اوقات اس کا اخلاص ملک کے لئے عہد تحقیق کا رومانی افسانہ بن جاتا تھا۔
حمید کے کردار میں ایک عجیب و غریب بات جو ملک نے نوٹ کی یہ تھی کہ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے نا آشنا تھیں۔ یوں تو ملک بھی رونے کے معاملے میں بڑا بخیل تھا مگر وہ جانتا تھا کہ جب کبھی رونے کا موقع آئے گا۔ وہ، ضرور رو دے گا۔ اس پر غم افزا باتیں اثر ضرور کرتی تھیں۔ مگر وہ اس اثر کو اتنی دیر اپنے دماغ پر بیٹھنے کی اجازت دیتا تھا۔ جتنی دیر گھوڑا اپنے تنے ہوئے جسم پر مکھی کو۔
غموں سے دور رہنے والے اور ہر وقت ہنسی مذاق کے عادی حمید کی زندگی میں نہ جانے ایسا کون سا واقعہ الجھا ہوا تھا کہ وہ کبھی کبھی قبرستان کی طرح خاموش ہو جاتا تھا۔ ایسے لمحات جب اس پر طاری ہوتے تو اس کا چہرہ ایسی رنگت اختیار کر لیتا تھا جو تین دن کی باسی شراب میں بے جان سوڈا گھولنے سے پیدا ہوتی ہے۔
سات برس کے دوران میں کئی بار حمید پر ایسے دورے پڑ چکے تھے مگر ملک نے آج تک اس سے ان کی وجہ دریافت نہ کی تھی۔ اس لئے نہیں کہ ان کی وجہ دریافت کرنے کی خواہش اس کے دل میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔ دراصل بات یہ ہے کہ ملک پرلے درجے کا سست اور کاہل واقع ہوا تھا اس خیال سے بھی وہ حمید کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت نہیں کرتا تھا کہ ایک طول طویل کہانی اس سے سننا پڑے گی۔ اور اس کے چوتھے پیگ کا سارا سرور غارت ہو جائے گا۔’’ شراب پی کر لمبی چوڑی آپ بیتیاں ‘‘ سننا یا سنانا اس کے نزدیک بہت بڑی بد ذوقی تھی۔۔ اس کے علاوہ کہانیاں سننے کے معاملے میں وہ بہت ہی خام تھا، اسی خیال کی وجہ سے کہ وہ اطمینان، سے حمید کی داستان نہیں سن سکے گا۔ اس نے آج تک اس سے ان دوروں کی بابت دریافت نہیں کیا تھا۔
کرپا رام نے حمید کے گلاس میں تیسرا پیگ ڈال کر بوتل میز پر رکھ دی، اور ملک سے مخاطب ہو کر،’’ ملک اسے کیا ہو گیا ہے۔‘‘
حمید کی یہ بہت بڑی کمزوری تھی کہ وہ کسی بات کو چھپا نہیں سکتا تھا اور اگر چھپانے کی کوشش کرتا تو اس کی وہی حالت ہوتی جو آندھی میں صرف ایک کپڑے میں لپٹی ہوئی عورت کی ہوتی ہے۔
ملک نے اپنا تیسرا پیگ ختم کیا اور اس فضا کو جو کچھ عرصہ پہلے طرب افزا باتوں سے گونج رہی تھی۔ اپنی بے محل ہنسی سے خوشگوار بنانے کے لئے اس نے کرپا رام سے مخاطب ہو کر کہا:۔ کرپا تم مان لو اسے اشوک کمار کا فلمی عشق ہو گیا ہے…. بھئی یہ اشوک کمار بھی عجیب چیز ہے۔ پر دے پر عشق کرتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے۔ کاسٹر آئل پی رہا ہے۔‘‘
کرپا رام، اشوک کمار کو اتنا ہی جانتا تھا کہ مہاراجہ اشوک اور اس کی مشہور آہنی لاٹھ کو فلم اور تاریخ سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی، البتہ وہ ان کے فوائد سے ضرور آگاہ تھا۔ کیونکہ وہ عام طور پر کہا کرتا تھا’’ مجھے، اگر کبھی بے خوابی کا عارضہ لاحق ہو جائے تو میں یا تو فلم دیکھنا شروع کر دوں گا یا چکرورتی کی لکھی ہوئی تاریخ پڑھنا شروع کر دوں گا۔‘‘
وہ ہمیشہ حساب داں چکرورتی کو مورخ بنا کر اپنی مسرت کے لئے ایک بات پیدا کر لیا کرتا تھا۔
کرپا رام پیگ پی چکا تھا۔ چار پیالہ پیگ، نشہ اس کے دماغ کی آخری منزل تک پہنچ چکا تھا، آنکھیں سکیڑ کر اس نے حمید کی طرف اس انداز سے دیکھا جیسے وہ کیمرے کا فوکس کر رہا ہے۔’’ تمہارا گلاس ابھی تک ویسے کا ویسا پڑا ہے۔‘‘
حمید نے درد سر کے مریض کی شکل بنا کر کہا۔’’ بس اب مجھ سے زیادہ نہیں پی جائے گی۔‘‘
’’تم چغد ہو…. نہیں چغد نہیں کچھ اور ہو…. تمہیں پینا ہو گی، سمجھے، یہ گلاس اور اس بوتل میں جتنی پڑی ہے سب کی سب تمہیں پینا ہو گی، شراب سے جو انکار کرے وہ انسان نہیں حیوان ہے۔ حیوان بھی نہیں ، اس لئے کہ اگر حیوانوں کو انسان بنا دیا جائے اور وہ بھی اس خوبصورت شئے کو کبھی نہ چھوڑیں ، تم سن رہے ہو ملک…. میں نے اگر یہ ساری شراب اس کے حلق میں نہ اُتار دی تو میرا نام کرپا رام نہیں گھسیٹا رام آرٹسٹ ہے۔‘‘
گھسیٹا رام آرٹسٹ سے کر پا رام کو سخت نفرت تھی، اس لئے کہ آرٹسٹ ہو کر اس کا نام گھسیٹا رام تھا۔
ملک کا منہ سوڈا ملی وسکی سے بھرا ہوا تھا۔ کرپا رام کی بات سن کر وہ بے اختیار ہنس پڑا۔ جس کے باعث اس کے منہ سے ایک فوارا سا چھوٹ پڑا۔’ ’ کرپا رام تم خدا کے لئے گھسیٹا رام آرٹسٹ کا نام نہ لیا کرو۔ میری انتڑیوں میں ایک طوفان سا مچ جاتا ہے۔ لا حول ولا میری پتلون کا ستیا ناس ہو گیا ہے۔ لو بھئی حمید اب تو تمہیں پینا ہی پڑے گی، کرپا رام، گھسیٹا رام بنے یا نہ بنے۔ لیکن میں ضرور کرپا رام بن جاؤں گا۔ اگر تم نے گلاس خالی نہ کیا…. لو پئیو…. پی جاؤ…. ارے منہ کیا دیکھتے ہو…. یہ تمہارے چہرے پر قیامت کیسی،برس رہی ہے…. کرپا رام اٹھو…. لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے…. زبر دستی کرنا ہی پڑے گی۔‘‘
کرپا رام اور ملک دونوں اٹھے اور حمید کو زبر دستی پلانے کی کوشش کرنے لگے۔ حمید کو روحانی کوفت تو ویسے ہی محسوس ہو رہی تھی۔ جب کرپا رام اور ملک نے اس کو جھنجھوڑنا شروع کیا تو اس کو جسمانی اذیت پہنچی۔ جس کے باعث وہ بیحد پریشان ہو گیا۔
اس کی پریشان سے کرپا رام اور ملک بہت محفوظ ہوئے، چنانچہ انہوں نے ایک کھیل سمجھ کر حمید کو اور زیادہ تنگ کرنا شروع، کرپا رام نے گلاس پکڑ کر اس کے سر میں تھوڑی سی شراب ڈال دی اور نائیوں کے انداز میں جب اس نے حمید کا سر سہلایا تو وہ اس قدر پریشان ہوا کہ اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آ گئے، اس کی آواز بھرا گئی، اس کے سارے جسم میں تشنج سا پیدا ہو گیا اور ایک دم کاندھے ڈھیلے کر کے اس نے رونی، اور مردہ آواز میں کہا۔’’ میں بیمار ہوں …. خدا کے لئے مجھے تنگ نہ کرو۔‘‘
کرپا رام اسے بہانہ سمجھ کر حمید کو اور زیادہ تنگ کرنے کے لئے کوئی نیا طریقہ سوچنے ہی والا تھا کہ ملک نے ہاتھ کے اشارے سے اسے پرے ہٹا دیا۔’’ کرپا، اس کی طبیعت واقعی خراب ہے…. دیکھو تو رو رہا ہے۔‘‘
کرپا رام نے اپنی موٹی کمر جھکا کر غور سے دیکھا۔ ارے، تم تو سچ مچ رو رہے ہو۔
حمید کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ جس پر سوالوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔
’’ کیا ہو گیا ہے تمہیں ؟…. خیر تو ہے؟‘‘
’’ یہ تم کیوں رو رہے ہو؟‘‘
’’ بھئی حد ہو گئی…. ہم تو صرف مذاق کر رہے تھے۔‘‘
’’ کچھ سمجھ بھی تو آئے کیا تکلیف…. ہے تمہیں ؟‘‘
ملک اس کے پاس بیٹھ گیا۔’’ بھئی مجھے معاف کر دو۔ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو۔‘‘
حمید نے جیب سے رومال نکال کر اپنے آنسو پونچھے اور کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گیا۔ جذبات کی شدت کے باعث اس کی قوت گویائی جواب دے گئی ہے۔
تیسرے پیگ سے پہلے اس کے چہرے پر رونق تھی۔ اس کی باتیں سوڈے کے بلبلوں کی طرح تر و تازہ اور شگفتہ تھیں۔ مگر اب وہ باسی شراب کی طرح بے رونق تھا۔ وہ سکڑ سا گیا تھا۔ اس کی حالت ویسی ہی تھی۔ جیسی بھیگی ہوئی پتلون کی ہوتی ہے۔
کرسی پروہ اس انداز سے بیٹھا تھا۔ گویا وہ اپنے آپ سے شرمندہ ہے۔ اپنے آپ کو چھپانے کی بھونڈی کوشش میں وہ ایک ایسا بے جان لطیفہ بن کے رہ گیا تھا۔ جو بڑے ہی خام انداز میں سنایا گیا ہو۔
ملک کو اس کی حالت پر ترس آیا۔’’ حمید، لو اب خدا کے لئے چپ ہو جاؤ…. واللہ تمہارے آنسوؤں سے مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔ مزا تو سب کرکرا ہی ہو گیا تھا مگر یوں تمہارے ایکا ایکی آنسو بہانے سے میں بہت مغموم ہو گیا ہوں …. خدا جانے تمہیں کیا تکلیف ہے؟‘‘
’’ کچھ نہیں میں بہت جلد ٹھیک ہو جاؤں گا۔ کبھی کبھی مجھے ایسی تکلیف ہو جایا کرتی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھا۔’’ اب میں اجازت چاہتا ہوں۔‘‘
کرپا رام بوتل میں سجی ہوئی شراب کو دیکھتا رہا اور ملک یہ ارادہ کرتا رہا کہ حمید سے آج پوچھ ہی لے کہ وقتاً فوقتاً اسے یہ دورے کیوں پڑتے ہیں مگر وہ جا چکا تھا۔
حمید گھر پہنچا تو اس کی حالت پہلے سے زیادہ خراب تھی، کمرے میں چونکہ اس کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ اس لئے وہ رو بھی نہ سکتا تھا۔ اس کی آنسوؤں سے لبالب بھری ہوئی آنکھوں کو کرسیاں اور میزیں نہیں چھلکا سکتی تھیں۔
اس کی خواہش تھی کہ اس کے پاس کوئی آدمی موجود ہو۔ جس کے چھیڑنے سے وہ جی بھر کے رو سکے۔ مگر ساتھ ہی اس کی یہ خواہش بھی تھی کہ وہ اکیلا ہو…. ایک عجیب کش مکش اس کے اندر پیدا ہو گئی۔
وہ کرسی پر اس انداز سے اکیلا بیٹھا تھا جیسے شطرنج کا پٹا ہوا مہرہ بساط سے بہت دور پڑا ہے۔ سامنے میز پر اس کی پرانی تصویر چمک دار فریم میں جڑی رکھی تھی۔ حمید نے اداس نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا تو سات برس اس تصویر اور اس کے درمیان تھان کی طرح کھلتے چلے گئے۔!
ٹھیک سات برس پہلے برسات کے ان ہی دنوں میں رات کو وہ ریلوے ریسٹوران میں ملک عبدالرحمن کے ساتھ بیٹھا تھا….اُس وقت کے حمید اور اس وقت کے حمید میں کتنا فرق تھا…. کتنا فرق تھا۔ حمید نے یہ فرق اس شدت سے محسوس کیا کہ اسے اپنی تصویر میں ایک ایسا آدمی نظر آیا جس سے ملے اس کو ایک زمانہ گذر گیا ہے۔
اس نے تصویر کو غور سے دیکھا تو اس کے دل میں یہ تلخ احساس پیدا ہوا کہ انسانیت کے لحاظ سے وہ اس کے مقابلے میں بہت پست ہے۔تصویر میں جو حمید ہے اس کے حمید کے مقابلے میں بدرجہا افضل و برتر ہے جو کرسی پر سر نیوڑھائے بیٹھا ہے۔ چنانچہ اس احساس نے اس کے دل میں حسد بھی پیدا کر دیا۔
ایک سجدے…. صرف ایک سجدے نے اس کا ستیا ناس کر دیا تھا۔ آج سے ٹھیک سات برس پہلے کا ذکر ہے برسات کے یہی دن تھے رات کو ریلوے ریسٹوران میں اپنے دوست ملک عبد الرحمن کے ساتھ بیٹھا تھا۔ حمید کو یہ شرارت سوجھی تھی کہ بغیر بو کی شراب جس کا ایک پورا پیگ لیمونیڈ میں ملا کر اس کو لا دے اور جب وہ پی جائے تو آہستہ سے اس کے کان میں کہے۔’’ مولانا ایک پورا پیگ آپ کے ثوابوں بھرے پیٹ میں داخل ہو چکا ہے۔‘‘
بیرے سے مل ملا کر اس نے اس بات کا انتظام کر دیا تھا کہ آرڈر دینے پر لیمونیڈ کی ایک بوتل میں جن کاایک پیگ ڈال کر ملک کو دے دیا جائے گا،چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حمید نے وسکی پی اور ملک بظاہر بے خبری کی حالت میں جن کا پورا پیگ چڑھا گیا۔
حمید کیونکہ تین پیگ پینے کا ارادہ رکھتا تھا اس لئے ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اس نے پوچھا۔’’ ملک صاحب، آپ یوں بے کار نہ بیٹھئے۔ میں تیسرا پیگ بڑی عیاشی سے پیا کرتا ہوں۔ آپ ایک اور لیمونیڈ منگوا لیجئے۔‘‘
ملک رضا مند ہو گیا چنانچہ ایک اور لیمونیڈ آگیا۔ اس بیرے نے اپنی طرف سے جن کا ایک پیگ ملا دیا تھا۔
ملک سے حمید کی نئی نئی دوستی ہوئی تھی۔ چاہئے تو یہ تھا کہ حمید اس شرارت سے باز رہتا مگر ان دنوں وہ اس قدر زندہ دل اور شرارت پسند تھا کہ جب بیر ا ملک کے لے لیمونیڈ کا دوسرا گلاس لایا اور اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا تو وہ اس خیال سے بہت خوش ہوا کہ ایک کے بجائے دو پیگ ملک کے پیٹ کے اندر چلے جائیں گے۔
ملک آہستہ آہستہ لیمونیڈ ملی جن پیتا رہا اور حمید دل ہی دل میں اس کبوتر کی طرح گٹکتا رہا جس کے پاس ایک کبوتری آ بیٹھی ہو۔‘‘
اس نے جلدی جلدی اپنا تیسرا پیگ ختم کیا اور ملک سے پوچھا۔’’ اور پئیں گے آپ۔‘‘
’’ملک نے غیر معمولی سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا نہیں۔‘‘ پھر اس نے بڑے روکھے انداز میں کہا۔’’اگر تمہیں پینا ہے تو پئیو۔ میں جاؤں گا۔ مجھے ایک ضروری کام ہے۔‘‘
اس مختصر گفتگو کے بعد دونوں اٹھے۔ حمید نے دوسرے کمرے میں جا کر بل ادا کیا۔ جب وہ ریسٹوران سے باہر نکلے تو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ حمید کے دل میں یہ خواہش چٹکیاں لینے لگی کہ وہ ملک پر اپنی شرارت واضح کر دے۔ مگر اچھے موقع کی تلاش میں کافی وقت گذر گیا۔ ملک بالکل خاموش تھا۔ اور حمید کے اندر پھلجھڑی چھوٹ رہی تھی۔ بیشمار ننھی ننھی خوبصورت اور شوخ و شنگ باتیں اس کے دل و دماغ میں پیدا ہو کر بجھ رہی تھیں۔
وہ ملک کی خاموشی سے پریشان ہو رہا تھا اور جب اس نے اپنی پریشانی کا اظہار نہ کیا تو آہستہ آہستہ اس کی طبیعت پر ایک افسردگی سے طاری ہو گئی۔ وہ محسوس کرنے لگا کہ اس کی شرارت اب دم کٹی گلہری بن کر رہ گئی ہے۔
دیر تک دونوں بالکل خاموش چلتے رہے جب کمپنی باغ آیا تو ملک ایک بنچ پر مفکرانہ انداز میں بیٹھ گیا۔ چند لمحات ایسی خاموشی سے گذرے کے حمید کے دل میں وہاں سے اٹھ بھاگنے کی خواہش پیدا ہو گئی مگر اس وقت زیادہ دیر تک دبے رہنے کے باعث اس کی تمام تیزی اور طراری ماند پڑ چکی تھی۔
ملک بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا۔’’ حمید، تم نے مجھے روحانی تکلیف پہنچائی ہے…. تمہیں یہ شرارت نہیں کرنی چاہئے تھی۔‘‘ اس کی آواز میں درد پید ہو گیا۔ تم نہیں جانتے کہ تمہاری اس شرارت سے مجھے کس قدر روحانی تکلیف پہنچی ہے…. اللہ تمہیں معاف کرے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور حمید اپنے آپ کو بڑی شدت کا گنہگار محسوس کرنے لگا۔ معافی مانگنے کا خیال اس کو آیا ، مگر ملک باغ سے نکل کر باہر سڑک پر پہنچ چکا تھا۔ ملک کے چلے جانے کے بعد حمید گناہ اور ثواب کے چکر میں پھنس گیا۔ شراب کے حرام ہونے کے متعلق اس نے جتنی باتیں لوگوں سے سنی تھیں۔ سب کی سب اس کے کانوں میں بھنبھنانے لگیں۔
’’شراب اخلاق بگاڑ دیتی ہے…. شراب خانہ خراب ہے۔ شراب پی کر آدمی بے ادب اور بے حیا ہو جاتا ہے۔ شراب اسی لئے حرام ہے۔ شراب صحت کا ستیا ناس کر دیتی ہے۔ اس کے پینے سے پھیپھڑے چھلنی ہو جاتے ہیں …. شراب۔‘‘
شراب، شراب کی ایک لامتناہی گردان حمید کے دماغ میں شروع ہو گئی۔ اس کی تمام برائیاں ایک ایک کر کے اس کے سامنے آ گئیں۔
’’ سب سے بڑی برائی تو یہ ہے۔‘‘ حمید نے محسوس کیا۔’’ کہ میں نے بے ضرر شراب سمجھ کر ایک شریف آدمی کو دھوکے سے شراب پلا دی ہے۔ ممکن ہے وہ پکا نمازی اور پرہیزگار ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غلطی میری ہے اور سارا گناہ میرے ہی سر ہو گا۔ مگر اسے جو روحانی تکلیف پہنچی ہے اس کا کیا ہو گا؟ واللہ باللہ میرا یہ مقصد نہیں تھا کہ اسے تکلیف پہنچے۔ میں اس سے معافی مانگ لوں گا…. لیکن اس سے معافی مانگ کر بھی تو میرا گناہ ہلکا نہیں ہو گا۔ایک میں نے شراب پی دوسرے میں نے اس کو دھوکہ دے کر پلائی۔‘‘
وسکی کا نشہ اس کے دماغ میں جمائیاں لینے لگا۔ جس سے اس کا احساس گناہ گھناؤنی شکل اختیار کر گیا۔ مجھے معافی مانگنی چاہئے مجھے شراب چھوڑ دینی چاہئے…. مجھے گناہوں سے پاک زندگی بسر کرنی چاہئے۔‘‘
اس کو شراب شروع کئے صرف دو برس ہوئے تھے۔ ابھی تک وہ اس کا عادی نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ اس نے گھر لوٹتے ہوئے۔ راستے میں سے دوسری باتوں کے ساتھ اس پر بھی غور کیا۔ ’’ میں شراب کو ہاتھ تک نہیں لگاؤں گا یہ کوئی ضروری چیز نہیں۔ میں اس کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہوں …. دنیا کہتی ہے…. دنیا کہتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ منہ سے لگی ہوئی یہ چھوٹ ہی نہیں سکتی میں اسے بالکل چھوڑ دوں گا…. میں اس خیال کو غلط ثابت کر دوں گا۔
یہ سوچتے ہوئے حمید نے خود کو ایک ہیرو محسوس کیا۔ پھر ایک دم اس کے دماغ میں خدا کا خیال آیا۔ جس نے اسے تباہی سے بچا لیا تھا۔ مجھے شکر بجا لانا چاہئے کہ میرے سینے میں نور پیدا ہو گیا ہے۔میں نہ جانے کتنی دیر تک اس کھائی میں پڑا رہتا۔
وہ اپنی گلی میں پہنچ چکا تھا۔ اوپر آسمان گدلے بادلوں میں چند صابن کے جھاگ لگے گالوں کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔ ہوا خنک تھی۔ فضا بالکل خاموش تھی۔ حمید پر خدا کے رعب اور شراب نوشی سے بچ جانے کے احساس نے رقت طاری کر دی۔ اس نے شکرانے کا سجدہ ادا کرنا چاہا۔ اس خیال سے کہ کوئی اسے دیکھ لے گا وہ کچھ دیر کے لئے ٹھٹک گیا مگر فوراً ہی یہ سوچ کر کہ خدا کی نگاہوں میں اس کی وقعت بڑھ جائے گی۔ وہ ڈبکی لگانے کے انداز میں جھکا اور اپنی پیشانی گلی کے ٹھنڈے ٹھنڈے پتھریلے فرش کے ساتھ جوڑ دی۔
جب وہ اٹھا تو اس نے اپنے آپ کو ایک بہت بڑا آدمی محسوس کیا۔ اس نے جب آس پاس کی اونچی دیواروں کو دیکھا تو وہ اسے اپنے قدم کے مقابلے بہت پست معلوم ہوئیں۔
اس واقعہ کے ڈیڑھ مہینے کے بعد اسی کمرے میں جہاں اب حمید بیٹھا اپنی سات برس کی پرانی تصویر پر رشک کھا رہا تھا۔ اس کا دوست ملک آیا۔ اندر آتے ہی اس نے اپنی جیب سے بلیک اینڈ وائٹ کا ادھا نکالا اور زور سے میزپر رکھ کر کہا۔’’ آؤ حمید…. آج پئیں اور خوب پئیں …. یہ ختم ہو جائے گی اور تو لائیں گے۔‘‘
حمید اس قدر متحیر ہوا کہ وہ اس سے کچھ بھی نہ کہہ سکا ملک نے دوسری جیب سے سوڈے کی بوتل نکالی، پتائی پر سے گلاس اٹھا کر اس پر شراب انڈیلی۔ سوڈے کی بوتل، انگوٹھے سے کھولی، اور حمید کی متحیر آنکھوں کے سامنے وہ دو پیگ غٹا غٹ پی گیا۔
حمید نے تتلاتے ہوئے کہا۔’’ لیکن…. لیکن…. اس روز تم نے مجھے اتنا برا بھلا کہا تھا….‘‘
ملک نے ایک قہقہہ بلند کیا۔’’ تم نے مجھ سے شرارت کی میں نے بھی اس کے جواب میں تم سے شرارتاً کچھ کہہ دیا۔ مگر بھئی ایمان کی بات ہے جو مزہ اس روز جن کے دو پیگ پینے میں آیا ہے۔ زندگی بھر کبھی نہیں آئے گا۔ لو اب چھوڑو اس قصے کو…. وسکی پئیو جن ون بکو اس ہے شراب پینی ہو تو وسکی پینی چاہئے۔‘‘
یہ سن کر حمید کو ایسا محسوس ہوا تھا کہ سجدہ اس نے گلی میں کیا تھا۔ ٹھنڈے فرش سے نکل کر اس کی پیشانی پر چپک گیا ہے۔
یہ سجدہ بھوت کی طرح حمید کی زندگی سے چمٹ گیا تھا۔ اس نے اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے پھر پینا شروع کیا۔ مگر اس سے بھی کچھ فائدہ نہ ہوا۔
ان سات برسوں میں جو اس کی پرانی تصویر اور اس کے ، درمیان کھلے ہوئے تھے یہ ایک سجدہ بے شمار مرتبہ حمید کو اس کی اپنی نگاہوں میں ذلیل و رسوا کر چکا تھا۔ اس کی خودی، اس کی تخلیقی قوت، اس کی زندگی کی وہ حرارت جس سے حمید اپنے ماحول کو گرما کے رکھنا چاہتا تھا۔اس سجدے نے قریب قریب سردہی کر دی تھی۔ یہ سجدہ اس کی زندگی میں ایسی خراب بریک بن گئی تھی جو کبھی کبھی اپنے آپ کو اس کے چِتے ہوئے پہیوں کو ایک دھکے کے ساتھ ٹھہرا دیتی تھی۔
سات برس کی پرانی تصویر اس کے سامنے میز پر تھی۔ جب سارا واقعہ اس کے دماغ میں پوری تفصیل کے ساتھ دہرایا جا چکا تو اس کے اندر ایک نا قابل بیان اضطراب پیدا ہو گیا۔وہ ایسا محسوس کرنے لگا جیسے اس کو قے ہونے والی ہے۔
وہ گھبرا کر اٹھا اور سامنے کی دیوار کے ساتھ اس نے اپنا ما تھا رگڑنا شروع کر دیا جیسے وہ اس سجدے کا نشان مٹانا چاہتا ہے۔ اس عمل سے اسے جب جسمانی تکلیف پہنچی تو وہ پھر کرسی پر بیٹھ گیا…. سر جھکا کر اور کاندھے ڈھیلے کر کے اس نے تھکی ہوئی آواز میں کہا۔’’ اے خدا میرا سجدہ مجھے واپس دے دے….‘‘
٭٭٭
کبوتروں والا سائیں
پنجاب کے ایک سرد دیہات کے تکئے میں مائی جیواں صبح سویرے ایک غلاف چڑھی قبر کے پاس زمین کے اندر کھدے ہوئے گڈھے میں بڑے بڑے اپلوں سے آگ سلگا رہی تھی۔ صبح کے سرد اور مٹیالے دھندلکے میں جب وہ اپنی پانی بھری آنکھیں سکیڑ کر اور اپنی کمر کو دہرا کر کے منہ قریب قریب زمین کے ساتھ لگا کر اوپر تلے رکھے ہوئے اپلوں کے اندر پھونک گھسیڑنے کی کوشش کرتی ہے تو زمین پر سے تھوڑی سی راکھ اڑتی ہے اور اس کے آدھے سفید اور آدھے کالے بالوں پر جو کہ گھسے ہوئے کمبل کا نمونہ پیش کرتے ہیں بیٹھ جاتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بالوں میں تھوڑی سی سفیدی اور آ گئی ہے۔
اپلوں کے اندر آگ سلگتی ہے اور یوں جو تھوڑی سی لال، لال روشنی پیدا ہوتی ہے مائی جیواں کے سیاہ چہرے پر، جھریوں کو اور نمایاں کر دیتی ہے۔
مائی جیواں یہ آگ کئی مرتبہ سلگا چکی ہے۔ یہ تکیہ یا چھوٹی سی خانقاہ جس کے اندر بنی ہوئی قبر کی بابت اس کے پر دادا نے لوگوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ وہ ایک بہت بڑے پیر کی آرام گاہ ہے، ایک زمانے سے ان کے قبضہ میں تھی،گاما سائیں کے مرنے کے بعد اب اس کی ہوشیار بیوی ایک تکئے کی مجاور تھی۔ گاما سائیں سارے گاؤں میں ہر دل عزیز تھا۔ ذات کا کمہار تھا مگر چونکہ اسے تکئے کی دیکھ بھال کرنی ہوتی تھی۔ اس لئے اس نے برتن بنانے چھوڑ دیئے تھے، لیکن اس کے ہاتھ کی بنائی ہوئی کونڈیاں اب بھی مشہور ہیں۔ بھنگ گھوٹنے کے لئے سال بھر میں چھ کونڈیاں بنایا کرتا تھا، جن کے متعلق وہ بڑے فخر سے کہا کرتا تھا کہ چوہدری لوہا ہے لوہا،…. فولاد کی کونڈی ٹوٹ جائے پر گاما سائیں کی یہ کونڈی دادا لے تو اس کا پوتا بھی بھنگ گھوٹ کر پئے۔
مرنے سے پہلے گاما سائیں چھ کونڈیاں بنا کر رکھ گیا تھا، جواب مائی جیواں بڑی احتیاط سے کام میں لاتی تھی۔
گاؤں کے اکثر بڈھے اور جوان تکئے میں جمع ہوتے تھے، اور سردائی پیا کرتے تھے، گھوٹنے کے لئے گاما سائیں نہیں تھا پر اس کے بہت سے چیلے چانٹے جو اب سر اور، بھوئیں منڈا کر سائیں بن گئے تھے، اس کی بجائے بھنگ گھوٹا کرتے تھے، اور مائی جیواں کی سلگائی ہوئی آگ سلفہ پینے والوں کے کام آتی تھی۔
صبح اور شام تو خیر کافی رونق رہتی تھی مگر دوپہر کو آٹھ دس آدمی مائی جیواں کے پاس بیری کی چھاؤں میں بیٹھے ہی رہتے تھے۔ ادھر ادھر کونے میں لمبی لمبی بیل کے ساتھ ساتھ کئی، کابک تھے، جن میں گاما سائیں کے ایک بہت پرانے دوست ابو پہلوان نے سفید کبوتر پال رکھے تھے، تکئے کی دھوئیں بھری فضا میں ان سفید چتکبرے کبو تروں کی پھڑپھڑاہٹ بہت بھلی سی معلوم ہوتی تھی۔ جس طرح تکئے میں آنے والے لوگ شکل و صورت سے معصومانہ حد تک بے عقل نظر آتے تھے۔ اسی طرح یہ کبوتر جن میں سے اکثر کے پیروں میں مائی جیواں کے بڑے لڑکے نے جھانجھر پہنا رکھے تھے بے عقل اور معصوم دکھائی دیتے تھے۔
مائی جیواں کے بڑے لڑکے کا اصلی نام عبد الغفار تھا۔ اس کی پیدائش کے وقت یہ نام شہر کے تھانیدار کا تھا، جو کبھی گھوڑی پر چڑھ کر موقعہ دیکھنے کے لئے گاؤں میں آیا کرتا تھا اور گاما سائیں کے ہاتھ کا بنا ہوا ایک پیالہ سردائی کا ضرور پیا کرتا تھا۔ لیکن اب وہ بات نہ رہی تھی جب وہ گیارہ برس کا تھا تو مائی جیواں اس کے نام میں تھانیداری کی بو سونگھ سکتی تھی۔ مگر اس نے بارہویں سال میں قدم رکھا تو اس کی حالت بگڑ گئی۔ خاصا تکڑا جوان تھا۔ پر نہ جانے کیا ہوا کہ بس ایک دو برس میں ہی سچ مچ کا سائیں بن گیا یعنی ناک سے رینٹھ بہنے لگا اور چپ چپ رہنے لگا۔ سر پہلے ہی چھوٹا تھا پر اب کچھ اور بھی چھوٹا ہو گیا اور منہ سے ہر وقت لعاب سا نکلنے لگا۔ پہلے پہل ماں کو اپنے بچے کی اس تبدیلی پر بہت صدمہ ہوا مگر جب اس نے دیکھا کہ اس کی ناک سے رینٹھ اور منہ سے لعاب بہتے ہی گاؤں کے لوگوں نے اس سے غیب کی باتیں پوچھنا شروع کر دی ہیں اور اس کی ہر جگہ خوب آؤ بھگت کی جاتی ہے تو اسے ڈھارس ہوئی کہ چلو یوں بھی تو کما ہی لے گا۔ کمانا و مانا کیا تھا۔ عبد الغفار جس کو اب کبوتروں والا سائیں کہتے تھے، گاؤں میں پھر پھرا کر آٹا چاول اکٹھا کر لیا کرتا تھا۔وہ بھی اس لئے کہ اس کی ماں نے اس کے گلے میں ایک جھولی لٹکا دی تھی۔ جس میں لوگ کچھ نہ کچھ ڈال دیا کرتے تھے۔ کبوتروں والا سائیں اسے اس لئے کہا جاتا تھا کہ اسے کبوتروں سے بہت پیار تھا، تکئے میں کتنے کبوتر تھے ان کی دیکھ بھال ابو پہلوان سے زیادہ یہی کیا کرتا تھا۔
اس وقت وہ سامنے کوٹھڑی میں ایک ٹوٹی ہوئی کھاٹ پر اپنے باپ کا میلا کچیلا لحاف اوڑھے سو رہا تھا، باہر اس کی ماں آگ سلگا رہی تھی….!
چونکہ سردیاں اپنے جوبن پر تھیں اس لئے گاؤں ابھی تک رات اور صبح کے دھوئیں میں لپٹا ہوا تھا۔ یوں تو گاؤں میں سب لوگ بیدار تھے اور اپنے کام دھندوں میں مصروف تھے، مگر تکیہ جو کہ گاؤں سے فاصلہ پر تھا ابھی تک آباد نہ ہوا تھا ، البتہ دور کونے میں مائی جیواں کی بکری ممیا رہی تھی۔
مائی جیواں آگ سلگا کر بکری کے لئے چارہ تیار کرنے ہی لگی تھی کہ اسے اپنے پیچھے آہٹ سنائی دی، مڑ کر دیکھا تو اسے ایک اجنبی سرپر تھاٹا اور موٹا سا کمبل اوڑھے نظر آیا، پگڑی کے ایک پلو سے اس آدمی نے اپنا چہرہ آنکھوں تک چھپا رکھا تھا۔ جب اس نے موٹی آواز میں ’’ مائی جیواں السلام علیکم‘‘ کہا تو پگڑی کا کھر درا کپڑا اس کے منہ پر تین چار مرتبہ سکڑا اور پھیلا۔
مائی جیواں نے چارہ بکری کے آگے رکھ دیا اور اجنبی کو پہچاننے کی کوشش کئے بغیر کہا’’ وعلیکم السلام۔ آؤ بیٹھو۔ آگ تاپو۔‘‘
مائی جیواں کمر پر ہاتھ رکھ کر اس گڑھے کی طرف بڑھی جہاں ہر روز آگ سلگتی رہتی تھی۔ اجنبی اور وہ دونوں پاس بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر ہاتھ تاپ کر اس آدمی نے مائی جیواں سے کہا۔’’ ماں اللہ بخشے گاما سائیں مجھے باپ کی طرح چاہتا تھا، اس کے مرنے کی خبر ملی تو مجھے صدمہ ہوا مجھے آسیب ہو گیا تھا۔ قبر ستان کا جن ایسا چمٹا تھا کہ اللہ کی پناہ۔ گاما سائیں کے ایک ہی تعویذ سے یہ کالی بلا دور ہو گئی۔‘‘
مائی جیواں خاموشی سے اجنبی کی باتیں سنتی رہی جو کہ اس کے شوہر کا بہت ہی معتقد نظر آتا تھا۔ اس نے ادھر ادھر کی اور بہت سی باتیں کرنے کے بعد بڑھیا سے کہا۔’’ میں بارہ کوس سے چل کر آیا ہوں ، ایک خاص بات کہنے کے لئے۔‘‘ اجنبی نے راز داری کے انداز میں اپنے چاروں طرف دیکھا کہ اس کی بات کو ئی تو نہیں سن رہا اور بھنچے ہوئے لہجے میں کہنے لگا۔’’ میں سندر ڈاکو کے گروہ کا آدمی ہوں ، پرسوں رات ہم لوگ اس گاؤں پر ڈاکہ مارنے والے ہیں ، خون خرابہ ہو گا، اس لئے میں یہ کہنے آیا ہوں کہ اپنے لڑکے کو دور ہی رکھنا، میں نے سنا ہے کہ گاما سائیں مرحوم نے اپنے پیچھے دو لڑکے چھوڑے ہیں جوان آدمیوں کا لہو ہے بابا، ایسا نہ ہو کہ جوش مار اٹھے اور لینے کے دینے پڑ جائیں۔ تم ان کو پرسوں گاؤں سے کہیں باہر بھیج دو تو ٹھیک رہے گا…. بس مجھے یہی کہنا تھا، میں نے اپنا حق ادا کر دیا ہے۔
’’ السلام علیکم‘‘
اجنبی اپنے ہاتھوں کو آگ کے الاؤ پر زور زور سے مل کر اٹھا اور جس راستے سے آیا تھا۔ اسی راستے سے باہر چلا گیا۔
’’ سندر جاٹ بہت بڑا ڈاکو تھا۔ اس کی دہشت اتنی تھی کہ مائیں اپنے بچوں کو اسی کا نام لے کر ڈرایا کرتی تھیں۔‘‘ بے شمار گیت اس کی بہادری اور بے باکی کے گاؤں کی، جوان لڑکیوں کو یاد تھے۔ اس کا نام سن کر بہت سی کنواریوں کے دل دھڑکنے لگتے تھے۔ سندر جاٹ کو بہت کم لوگوں نے دیکھا تھا، مگر جب چوپال میں لوگ جمع ہوتے تھے، تو ہر شخص اس سے اپنی اچانک ملاقات کے من گھڑت قصے، سنانے میں ایک خاص لذت محسوس کرتا تھا، اس کے قدو قامت اور ڈیل ڈول کے بارے میں مختلف بیان تھے۔ بعض کہتے تھے کہ وہ بہت قد آور جوان ہے۔ بڑی بڑی مونچھوں والا، ان مونچھوں کے بالوں کے متعلق یہ مشہور تھا کہ وہ دو بڑے بڑے لیموں ان کی مدد سے اٹھا سکتا ہے بعض لوگوں کا یہ بیان تھا کہ اس کا قد معمولی ہے مگر بدن اس قدر گٹھا ہوا ہے کہ گینڈے کا بھی نہ ہو گا۔ بہر حال سب متفقہ طور پر اس کی طاقت اور بے باکی کے معترف تھے۔
جب مائی جیواں نے یہ سنا کہ سندر جاٹ ان کے گاؤں پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے آ رہا ہے تو اس کے آئے اوسان خطا ہو گئے اور وہ اس اجنبی کے سلام کا جواب تک نہ دے سکی اور نہ اس کا شکریہ ہی ادا کر سکی، مائی جیواں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ سندر جاٹ کا ڈاکہ معنی رکھتا ہے، پچھلی دفعہ جب اس نے ساتھ والے گاؤں پر حملہ کیا تھا تو سکھی مہا جن کی ساری جمع پونجی غائب ہو گئی تھی اور گاؤں کی سب سے سندر اور چنچل چھو کری ایسی گم ہوئی تھی کہ اب تک اس کا پتہ نہیں ملتا تھا، یہ بلا اب ان کے گاؤں پر نازل ہونے والی تھی اور اس کا علم سوائے مائی جیواں کے گاؤں کے کسی اور کونہ تھا۔ مائی جیواں نے سوچا کہ وہ اس آنے والے بھونچال کی خبر کس کس کو دے چوہدری کے گھر خبر کر دے ، لیکن نہیں وہ تو بڑے کمینے لوگ تھے، پچھلے دنوں اس نے تھوڑا سا ساگ مانگا تھا تو انہوں نے انکار کر دیا تھا۔گھسیٹا رام حلوائی کو متنبہ کر دے…. نہیں ، وہ بھی ٹھیک آدمی نہ تھا۔
وہ دیر تک ان ہی خیالات میں غرق رہی،گاؤں کے سارے آدمی وہ ایک ایک کر کے اپنے دماغ میں لائی اور ان میں سے کسی ایک کو اس نے مہربانی کے قابل نہ سمجھا، اس کے علاوہ اس نے سوچا اگر اس نے کسی کو ہمدردی کے طور پر راز سے آگاہ کر دیا تو وہ کسی اور پر مہربانی کرے گا۔ اور یوں سارے گاؤں والوں کو پتہ چل جائے گا، جس کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا۔ آخر میں وہ فیصلہ کر کے اٹھی کہ اپنی ساری جمع پونجی نکال کر وہ سبز رنگ کی غلاف چڑھی قبر کے سرہانے گاڑ دے گی۔ اور رحمان کو پاس والے گاؤں میں بھیج دے گی۔
جب وہ سامنے والی کوٹھڑی کی طرف بڑھی تو دہلیز میں اسے عبد الغفار یعنی کبوتروں والا سائیں کھڑا نظر آیا، ماں کو دیکھ کر وہ ہنسا۔ اس کی یہ ہنسی آج خلاف معمولی معنی خیز تھی مائی جیواں کو اس کی آنکھوں میں سنجیدگی اور متانت کی جھلک بھی نظر آئی جو کہ ہوش مندی کی نشانی ہے۔
جب وہ کوٹھڑی کے اندر جانے لگی تو عبد الغفار نے پوچھا’’ ماں یہ صبح سویرے کون آدمی آیا تھا؟‘‘
عبد الغفار اس قسم کے سوال عام طور پر پوچھا کرتا تھا۔ اس لئے اس کی ماں جواب دیئے بغیر اندر چلی گئی اور اپنے چھوٹے لڑکے کو جگانے لگی۔’’ ارے رحمان‘ ارے رحمان اٹھ اٹھ۔‘‘
بازو جھنجھوڑ کر مائی جیواں نے اپنے چھوٹے لڑکے رحمان کو جگایا، اور جب وہ آنکھیں مل کر اُٹھ بیٹھا اور اچھی طرح ہوش میں آگیا تو اس کی ماں نے ساری بات سنا دی رحمان کے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ بہت ڈرپوک تھا۔ گو اس کی عمر اس وقت بائیس سال کی تھی اور کافی طاقتور جوان تھا۔ مگر اس میں ہمت اور شجاعت نام تک کو نہ تھی۔ سندر جاٹ!…. اتنا بڑا ڈاکو جس کے متعلق یہ مشہور تھا کہ وہ تھوک پھینکتا تھا، تو پورے بیس گز کے فاصلے پر جا گرتا تھا پرسوں ڈاکہ اور لوٹ مار کرنے کے لئے آ رہا تھا۔وہ فوراً اپنی ماں ، کے مشورے پر راضی ہو گیا، بلکہ یوں کہئے کہ وہ اسی وقت گاؤں چھوڑنے کی تیاریاں کرنے لگا۔
رحمان کو نیتی چمارن یعنی عنایت سے محبت تھی، جو کہ گاؤں کی ایک بیباک اور شوخ چنچل لڑکی تھی۔ گاؤں کے سب لڑکے شباب کی یہ پوٹلی حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے، مگر وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی، بڑے بڑے ہوشیار لڑکوں کو وہ باتوں باتوں میں اڑا دیتی تھی، چوہدری دین محمد کے لڑکے فضل دین کو کلائی پکڑنے میں کمال حاصل تھا، اس فن کے بڑے بڑے ماہر دور دور سے اس کو نیچا دیکھانے کے لئے آئے تھے مگر اس کی کلائی کسی سے بھی نہ مڑی تھی وہ گاؤں میں اکڑ اکڑ کر چلتا تھا مگر اس کی یہ ساری اکڑ فوں نیتی نے ایک ہی دن میں غائب کر دی، جب اس نے دھان کے کھیت میں اس سے کہا۔’’ فجے، گنڈا سنگھ کی کلائی موڑ کر تو اپنے من میں یہ مت سمجھ کہ بس اب تیرے مقابلے میں کوئی آدمی ہی نہیں رہا…. آ میرے سامنے بیٹھ، میری کلائی پکڑ۔ ان دو انگلیوں کی ایک ہی ٹھمکی سے تیرے، دونوں ہاتھ نہ اڑا دوں تو نیتی نام نہیں۔‘‘
فضل دین اس کو محبت کی نگاہوں سے دیکھتا تھا اور اسے یقین تھا ، کہ اس کی طاقت اور شہ زوری کے رعب اور دبدبے میں آ کر وہ خود بخود ایک روز رام ہو جائے گی۔ لیکن جب اس نے کئی آدمیوں کے سامنے اس کو مقابلے کی دعوت دی تو وہ پسینہ پسینہ ہو گیا، اگر وہ انکار کرتا ہے تو نیتی اور بھی سر چڑھ جاتی ہے اور وہ اگر اس کی دعوت قبول کرتا ہے تو لوگ یہی کہیں گے، عورت ذات سے مقابلہ کرتے ہوئے شرم تو نہیں آئی مرد کو۔ اس کو سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے، چنانچہ اس نے نیتی کی دعوت قبول کر لی تھی۔ اور جیسا کہ لوگوں کا بیان ہے۔ اس نے جب نیتی کی گدرائی ہوئی کلائی اپنے ہاتھ میں لی تو وہ سارے کا سارا کانپ رہا تھا۔ نیتی کی موٹی موٹی آنکھیں اس کی آنکھوں میں دھنس گئیں۔ ایک نعرہ بلند ہوا، اور نیتی کی کلائی فضل کی گرفت سے آزاد ہو گئی…. اس دن سے لے کر اب تک فضل نے پھر کبھی کسی کی کلائی نہیں پکڑی۔
ہاں تو رحمان کو اس نیتی سے محبت تھی، جیسا کہ وہ آپ ڈرپوک تھا۔ اسی طرح اس کا پریم بھی ڈرپوک تھا۔ دور دور سے دیکھ کر وہ اپنے دل کی ہوس پوری کیا کرتا تھا۔ اور جب کبھی اس کے پاس ہوتی تو اس کو اتنی جرا_¿ت نہیں ہوتی تھی۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ چھو کرا جو درختوں کے تنوں کے ساتھ پیٹھ ٹیکے کھڑا رہتا ہے اس کے عشق میں گرفتار ہے۔ اس کے عشق میں کون گرفتار نہ تھا؟ سب اس سے محبت کرتے تھے۔ اس قسم کی محبت جو کہ بیریوں کے بیر بکنے پر گاؤں کے جوان لڑکے اپنی رگوں کے تناؤں کے اندر محسوس کیا کرتے ہیں۔ مگر وہ ابھی تک کسی کی محبت میں گرفتار نہیں ہوئی تھی۔ محبت کرنے کی خواہش البتہ اس کے دل میں اس قدر موجود تھی، کہ بالکل اس شرابی کے مانند معلوم ہوتی تھی، جس کے متعلق ڈر رہا کرتا ہے کہ اب گرا اور اب گرا….وہ بے خبری کے عالم میں ایک اونچی چٹان پر پہنچ چکی تھی۔اور اب تمام گاؤں والے اس کی افتاد کے منتظر تھے، جو کہ یقینی تھی….
رحمان کو بھی اس افتاد کا یقین تھا۔ مگر اس کا ڈرپوک دل ہمیشہ اسے ڈھارس دیا کرتا تھا کہ نہیں۔ نیتی آخر تیری ہی باندی بنے گی۔ اور وہ یوں خوش ہو جایا کرتا تھا۔
جب رحمان دس کوس طے کر کے دوسرے گاؤں میں پہنچنے کے لئے تیار ہو کر تکئے سے باہر نکلا تو اسے راستے میں نیتی کا خیال آیا۔ مگر اس وقت اس نے یہ نہ سوچا کہ سندر جاٹ دھاوا بولنے والا ہے۔ وہ دراصل نیتی کے تصور میں اس قدر مگن تھا اور اکیلے میں اس کے ساتھ من ہی من میں اتنے زوروں سے محبت کر رہا تھا کہ اسے کسی اور بات کا خیال ہی نہ آیا۔ البتہ جب وہ گاؤں سے پانچ کوس آگے نکل گیا تو ایکا ایکی اس نے سوچا کہ نیتی کو بتا دینا چاہئے تھا کہ سندر جاٹ آ رہا ہے۔ لیکن اب واپس کون جاتا۔
عبد الغفار…. یعنی کبوتروں والا سائیں تکئے سے باہر نکلا، اس کے منہ سے لعاب نکل رہا تھا کہ میلے کرتے پر گر کر دیر تک گلیسرین کی طرح چمکتا رہتا تھا۔ تکئے سے نکل کر سیدھا کھیتوں کا رخ کیا کرتا تھا اور سارا دن وہیں گذار دیتا تھا۔ شام کو جب ڈھور ڈنگر واپس گاؤں کو آتے تو ان کے چلنے سے جو دھول اڑتی ہے اس کے پیچھے کبھی کبھی غفار کی شکل نظر آ جاتی تھی۔ گاؤں اس کو پسند نہیں تھا، اجاڑ اور سنسان جگہوں سے اسے غیر محسوس طور پر محبت تھی۔یہاں بھی لوگ اس کا پیچھا نہ چھوڑتے تھے۔ اور اس سے طرح طرح کے سوال پوچھتے تھے۔ جب برسات میں دیر ہو جاتی تو قریب قریب سب کسان اس سے درخواست کرتے تھے کہ وہ پانی بھرے بادلوں کے لئے دعا مانگے اور گاؤں کے عشق پیشہ جو ان اس سے اپنے دل کا حال بیان کرتے اور پوچھتے کہ وہ کب اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے، نوجوان چھوکریاں بھی چپکے چپکے دھڑکتے ہوئے دلوں سے اس کے سامنے اپنی محبت کا اعتراف کرتی تھیں اور جاننا چاہتی تھی کہ ان کے ’’ ماہیا۔‘‘ کا دل کیسا ہے۔ عبد الغفار ان سوالوں کے اوٹ پٹانگ جواب دیا کرتا تھا۔ اس لئے کہ اسے غیب کی باتیں کہاں معلوم تھیں ، لیکن لوگ جو اس کے پاس سوال لے کر آتے تھے اس کی بے ربط باتوں میں اپنا مطلب ڈھونڈ لیا کرتے تھے۔
عبد الغفار مختلف کھیتوں میں ہوتا ہوا اس کنوئیں کے پاس پہنچ گیا جو کہ ایک زمانے سے بیکار پڑا تھا۔ اس کنوئیں کی حالت بہت ابتر تھی۔ اس بوڑھے بر گد کے پتے جو کہ سالہا سال سے اس کے پہلو میں کھڑا تھا اس قدر جمع ہو گئے تھے، کہ اب پانی نظر ہی نہ آتا تھا اور ایسا ہی معلوم ہوتا تھا کہ بہت سی مکڑیوں نے مل کر اپنی کی سطح پر موٹا سا جالا بن دیا ہے۔ اس فضا میں اس نے اپنے وجود سے اور بھی اداسی، پیدا کر دی۔
دفعتاً اڑتی ہوئی چیلوں کی ادا س چیخوں کو عقب میں چھوڑتی ہوئی ایک بلند آواز اٹھی۔ اور بوڑھے برگد کی شاخوں میں ایک کپکپاہٹ سی دوڑ گئی۔
نیتی گا رہی تھی
ماہیا مرے نے باغ لوایا
چمپا، مہ وا خوب کھلایا
اسیں تے لوائیاں کھٹیاں وے
راتیں سون نہیں دیندیاں اکھیاں وے
اس گیت کا مطلب یہ تھا کہ میرے ماہیا یعنی چاہنے والے نے ایک باغ لگایا ہے، اس میں ہر طرح کے پھول اگائے ہیں چمپا، مہ وا وغیرہ کھلائی ہیں اور ہم نے تو صرف نارنگیاں لگائی ہیں ، رات کو آنکھیں سونے نہیں دیتیں۔ کتنی انکساری برتی گئی ہے۔ معشوق عاشق کے لگائے ہوئے باغ کی تعریف کرتا ہے۔ لیکن وہ اپنی جوانی کے باغ کی طرف نہایت انکسارانہ طور پر اشارہ کرتا ہے جس میں حقیر نارنگیاں لگی ہیں اور پھر شب خوابی کا گلہ کس خوبی سے کیا گیا ہے۔
گو عبد الغفا ر میں جذبات نازک بالکل نہیں تھے…. پھر بھی نیتی کی جوان آواز نے اس کو چونکا دیا اور وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا اس نے پہچان لیا کہ یہ نیتی کی آواز ہے۔
نیتی گاتی کنوئیں کی طرف آنکلی۔ غفار کو دیکھ کر وہ دوڑی ہوئی اس کے پاس آئی اور کہنے لگی۔’’ اوہ غفار سائیں …. تم …. اوہ مجھے تم سے کتنی باتیں پو چھنا ہیں …. اور اس وقت یہاں تمہارے اور میرے سوا، اور کوئی بھی نہیں …. دیکھو میں تمہارا منہ میٹھا کراؤں گی اگر تم نے میرے دل کی بات بوجھ لی۔ اور…. لیکن تم تو سب کچھ جانتے ہو…. اللہ والوں سے کسی کے دل کا حال چھپا تھوڑی رہتا ہے۔‘‘
وہ اس کے پاس زمین پر بیٹھ گئی۔اور اس کے میلے کرتے پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ خلاف معمول کبوتروں والا سائیں مسکرایا مگر نیتی اس کی طرف دیکھ نہیں رہی تھی۔ اس کی نگاہیں گاڑھے کے تانے بانے پر بغیر کسی مطلب کے تیر رہی تھیں ، کھر درے کپڑے پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے اس نے گردن اٹھائی اور آ ہوں میں کہنا شروع کیا۔’’ غفار سائیں تم اللہ میاں سے محبت کرتے ہو اور میں ایک آدمی سے محبت کرتی ہوں۔ تم میرے دل کا حال سمجھو گے!…. اللہ میاں کی محبت اور اس کے بندے کی محبت ایک جیسی ہو نہیں سکتی…. ارے تم بولتے کیوں نہیں …. کچھ تو بولو…. کچھ کہو…. اچھا تو میں ہی بولے جاؤں گی…. تم نہیں جانتے کہ آج میں کتنی دیر بول سکتی ہوں …. تم سنتے سنتے تھک جاؤ گے میں نہیں تھکوں گی…. یہ کہتے کہتے وہ خاموش ہو گئی اور اس کی سنجیدگی زیادہ بڑھ گئی، اپنے من میں غوطہ لگانے کے بعد جب وہ ابھری تو اس نے ایکا ایکی عبد الغفار سے پوچھا، سائیں میں کب تھکوں گی‘‘
’’ عبد الغفار کے منہ سے لعاب نکلنا بند ہو گیا، اس نے کنوئیں کے اندر جھک کر دیکھتے ہوئے کہا بہت جلد۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس پر نیتی نے اس کے کرتے کا دامن پکڑ لیا اور گھبرا کر پوچھا۔ ’’کب؟…. کب؟….سائیں کب؟‘‘
عبد الغفار نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور ببول کے جھنڈ کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔ نیتی کچھ دیر کنوئیں کے پاس سوچتی رہی، پھر تیز قدموں سے جدھر سائیں گیا تھا ادھر چل دی!
وہ رات جس میں سندر جاٹ گاؤں پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے آ رہا تھا۔ مائی جیواں نے آنکھوں میں کاٹی۔ ساری رات وہ اپنی کھاٹ پر لحاف اوڑھے جاگتی رہی۔ وہ بالکل اکیلی تھی، رحمان کو اس نے دوسرے گاؤں بھیج دیا اور عبد الغفار نہ جانے کہاں سو گیا تھا، ابو پہلوان کبھی کبھی تکئے میں آگ تاپتا تاپتا وہیں الاؤ کے پاس سو جایا کرتا تھا۔مگر وہ صبح ہی سے دکھائی نہیں دیا تھا۔ چنانچہ کبوتروں کو دانہ مائی جیواں ہی نے کھلایا تھا۔
تکیہ گاؤں کے اس سرے پر واقع تھا جہاں سے لوگ گاؤں کے اندر داخل ہوتے تھے۔ مائی جیواں ساری رات جاگتی رہی، مگر اس کو ہلکی سی آہٹ بھی سنائی نہ دی۔ جب رات گذر گئی اور گاؤں کے مرغوں نے اذانیں دینا شروع کر دیں تو وہ سندر جاٹ کی بابت سوچتی سوچتی سو گئی۔
چونکہ رات کو وہ بالکل نہ سوئی تھی۔ اس لئے صبح بہت دیر کے بعد جاگی۔ کوٹھڑی سے نکل کر جب وہ باہر آئی تو اس نے دیکھا کہ ابو پہلوان کبوتروں کو دانہ دے رہا ہے اور دھوپ سارے تکئے میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس نے باہر نکلتے ہی اس سے کہا۔’’ ساری رات مجھے نیند نہیں آئی یہ موا بڑھاپا بڑا تنگ کر رہا ہے۔ صبح سوئی ہوں اور اب اٹھی ہوں …. ہاں تم سناؤ کل کہاں رہے ہو؟‘‘
’’ ابو نے جواب دیا۔’’ گاؤں میں۔‘‘
اس پر مائی جیواں نے کہا۔’’ کوئی تازہ خبر سناؤ۔‘‘
ابو نے جھولی کے سب دانے زمین پر گرا کر جھپٹ کر ایک کبوتر کو بڑی صفائی سے اپنے ہاتھ میں دبوچتے ہوئے کہا۔ آج صبح چوپال پر نتھا سنگھ کہہ رہا تھا۔ کہ گام چمار کی وہ لونڈیا…. کیا نام ہے اس کا؟…. ہاں وہ نیتی کہیں بھاگ گئی ہے؟…. میں تو کہتا ہوں اچھا ہوا…. حرام زادی نے سارے گاؤں کو سر پر اٹھا رکھا تھا۔‘‘
’’ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے یا کوئی اٹھا کر لے گیا ہے؟‘‘
مائی جیواں کو اس گفتگو سے اطمینان نہ ہوا۔ سندر جاٹ نے ڈاکہ نہیں ڈالا تھا۔ پر ایک چھو کری تو غائب ہو گئی تھی، اب وہ چاہتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح نیتی کا غائب ہو جانا سندر جاٹ سے متعلق ہو جائے۔ چنانچہ وہ تمام لوگوں نے نیتی کے بارے میں پوچھتی رہی جو کہ تکئے میں آتے جاتے رہے۔ لیکن جو کچھ ابو نے بتایا تھا اس سے زیادہ اسے کوئی بھی نہ بتا سکا۔
شام کو رحمان لوٹ آیا۔ اس نے آتے ہی ماں سے سندر جاٹ کے ڈاکہ کے متعلق پوچھا، اس پر مائی جیواں نے کہا’’ سندر جاٹ تو نہیں آیا بیٹا‘ نیتی کہیں غائب ہو گئی ہے…. ایسی کہ کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔‘‘
رحمان کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کی ٹانگوں میں دس کوس اور چلنے کی تھکاوٹ پیدا ہو گئی ہے، وہ اپنی ماں کے پاس بیٹھ گیا۔ اس کا چہرہ خوفناک طور پر زرد تھا۔
ایک دم یہ تبدیلی دیکھ کر مائی جیواں نے تشویشناک لہجہ میں اس سے پوچھا۔’’ کیا ہوا بیٹا۔‘‘
رحمان نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور کہا۔’’ کچھ نہیں ماں …. تھک گیاہوں۔‘‘
’’ اور نیتی کل مجھ سے پوچھتی تھی، میں کب تھکوں گی؟‘‘
رحمان نے پلٹ کر دیکھا تو اس کا بھائی عبد الغفار آستین سے اپنے منہ کا لعاب پونچھ رہا تھا۔ رحمان نے گھور کر دیکھا اور ’’ پوچھا کیا کہا تھا اس نے تجھ سے۔‘‘
عبد الغفار الاؤ کے پاس بیٹھ گیا۔’’ کہتی تھی کہ میں تھکتی ہی نہیں …. پر اب وہ تھک جائے گی۔‘‘
رحمان نے تیزی سے پوچھا’’ کیسے؟‘‘
غفار سائیں کے چہرے پر ایک معنی خیز سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔
’’ مجھے کیا معلوم؟…. سندر جاٹ جانے اور وہ جانے۔‘‘
یہ سن کر رحمان کے چہرے پر اور زیادہ زردی چھا گئی اور مائی جیواں کی جھریاں اور زیادہ گہرائی اختیار کر گئیں۔
٭٭٭
الو کا پٹھا
قاسم صبح سات بجے لحاف سے باہر نکلا اور غسل خانے کی طرف چلا، راستے میں ، یہ اس کو ٹھیک طور پر معلوم نہیں ، سونے والے کمرے میں ، صحن میں ، یا غسل خانے کے اندر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ کسی کو الو کا پٹھا کہے، بس صرف ایک بار غصے میں طنزیہ انداز میں کسی کو الو کا پٹھا کہہ دے، قاسم کے دل میں اس سے پہلے کئی بار بڑی انوکھی خواہشیں پیدا ہو چکی تھی۔ مگر یہ خواہش سب سے نرالی تھی۔ وہ بہت خوش تھا۔ رات کو اس کو بڑے پیار کی نیند آئی تھی۔ وہ خود کو ترو تازہ محسوس کر رہا تھا۔لیکن پھر یہ خواہش کیسے اس کے دل میں داخل ہو گئی۔ دانت صاف کرتے وقت اس نے ضرورت سے زیادہ وقت صرف کیا۔ جس کے باعث اس کے مسوڑے چھل گئے۔ دراصل وہ سوچتا رہا کہ عجیب و غریب خواہش کیوں پیدا ہوئی۔ مگر وہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکا۔
بیوی سے وہ بہت خوش تھا۔ ان میں کبھی لڑائی نہ ہوتی تھی۔ نو کروں سے بھی وہ ناراض نہیں تھا۔ اس لئے غلام محمد یا نبی بخش دونوں خاموشی سے کام کرنے والے مستعد نو کر تھے موسم بھی نہایت خوشگوار تھا۔ فروری کے سہانے دن تھے۔ جن میں کنوار کے پتے کی تازگی تھی۔ ہوا خنک اور ہلکی…. دن چھوٹے نہ راتیں لمبی۔ نیچر کا توازن بالکل ٹھیک اور قاسم کی صحبت بھی خوب تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کسی کو بغیر وجہ سے الو کا پٹھا کہنے کی خواہش اس کے دل میں کیونکر پیدا ہوئی۔
قاسم نے اپنی زندگی کے اٹھائیس برسوں میں متعدد لوگوں کو الو کا پٹھا کہا ہو گا۔ اور بہت ممکن ہے کہ اس سے بھی کڑے لفظ اس نے بعض موقعوں پر استعمال کئے ہوں گے۔ اور گندی گالیاں دی ہوں گی۔ مگر اسے اچھی طرح یاد تھا کہ ایسے موقعوں پر خواہش بہت پہلے اس کے دل میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔ مگر اچانک طور پر اس نے محسوس کیا تھا کہ وہ کسی کو الو کا پٹھا کہنا چاہتا ہے اور یہ خواہش لمحہ بہ لمحہ شدت اختیار کرتی چلی گئی، جیسے اس نے اگر کسی کو الو کا پٹھا نہ کہا تو بہت بڑا حرج ہو جائے گا۔
دانت صاف کرنے کے بعد اس نے چھلے ہوئے مسوڑوں کو اپنے کمرے میں جا کر آئینے میں دیکھا، مگر دیر تک ان کو دیکھتے رہنے سے بھی وہ خواہش نہ دبی جو ایکا ایکی اس کے دل میں پیدا ہو گئی تھی!
قاسم منطقی قسم کا آدمی تھا۔ وہ بات کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کا عادی تھا۔ آئینہ میزپر رکھ کر وہ آرام کرسی پر بیٹھ گیا۔وہ ٹھنڈے دماغ سے سوچنے لگا۔
’’ مان لیا کہ میرا کسی کو الو کا پٹھا کہنے کو جی چاہتا ہے۔…. مگر یہ کوئی بات تو نہ ہوئی…. میں کسی کو الو کا پٹھا کیوں کہو؟…. میں کسی سے ناراض بھی تو نہیں ہوں ….‘‘
یہ سوچتے سوچتے اس کی نظر سامنے دروازے کے بیچ میں رکھے ہوئے حقے پر پڑی۔ ایک دم اس کے دل میں یہ باتیں پیدا ہوئیں۔ یہ عجیب واہیات نو کر ہے دروازے کے عین بیچ میں یہ حقہ ٹکا دیا ہے۔ میں ابھی اس دروازے سے اندر آیا ہوں ، اگر ٹھو کر سے بھری ہوئی چلم گر پڑتی تو پا انداز جو کہ مونج کہ بنا ہوا ہے جلنا شروع ہو جاتا اور ساتھ ہی قالین بھی۔
اس کے جی میں آئی کہ غلام محمد کو آواز دے، جب وہ بھاگتا ہوا اس کے سامنے آ جائے تو وہ بھر ہوئے حقے کی طرف اشارہ کر کے اس ے صرف اتنا کہے۔’’ تم نرے اُلو کے پٹھے ہو۔‘‘ مگر اس نے تامل کیا اور سوچا کہ یوں بگڑنا اچھا معلوم نہیں ہوتا اگر غلام محمد کو الو کا پٹھا کہہ بھی دیا تو وہ بات پیدا نہ ہو گی۔ اور پھر…. اس بے چارے کا کوئی قصور بھی تو نہیں ہے۔ میں دروازے کے پاس بیٹھ کر ہی تو ہر روز حقہ پیتا ہوں۔‘‘
چنانچہ وہ خوشی جو ایک لمحہ کے لئے قاسم کے دل میں پیدا ہوئی تھی کہ اس نے الو کا پٹھا کہنے کے لئے ایک موقعہ تلاش کر لیا غائب ہو گئی۔
دفتر کے وقت میں ابھی کافی دیر تھی، پورے دو گھنٹے پڑے تھے، دروازے کے پاس کرسی رکھ کر قاسم اپنے معمول کے مطابق بیٹھ گیا اور حقہ نوشی میں مصروف ہو گیا۔
کچھ دیر تک وہ سوچ و چار کئے بغیر حقے کا دھواں پیتا رہا۔ اور دھوئیں کے انتشار کو دیکھتا رہا۔ جونہی وہ حقے کو چھوڑ کر کپڑے تبدیل کرنے کے لئے ساتھ کے کمرے میں گیا تو اس کے دل میں وہی خواہش نئی تازگی کے ساتھ پیدا ہوئی۔
قاسم گھبرا گیا۔ بھئی حد ہو گئی…. الو کا پٹھا…. میں کسی کو الو کا پٹھا کیوں کہوں اور بفرض محال میں نے کسی کو الو کا پٹھا کہہ بھی دیا تو کیا ہو گا….
قاسم دل ہی دل میں ہنسا۔ وہ صحیح الدماغ آدمی تھا۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ جو خواہش اس کے دل میں پیدا ہوئی ہے وہ بالکل بیہودہ اور بے سرو پا ہے،لیکن اس کا کیا علاج تھا کہ ، دبانے پر اور بھی زیادہ ابھر آتی ہے۔
قاسم اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ بغیر کسی وجہ کے الو کا پٹھا نہ کہے گا۔ خواہ یہ خواہش صدیوں تک اس کے دل میں تلملاتی رہے، شاید اسی احساس کے باعث یہ خواہش جو بھٹکی ہوئی چمگادڑ کی طرح اس کے روشن دل میں چلی آئی تھی۔ اس قدر تڑپ رہی تھی۔
پتلون کے بٹن بند کرتے وقت جب اس نے دماغی پریشانی کے باعث اوپر کا بٹن نچلے کاج میں داخل کر دیا تو وہ جھلا اٹھا، بھئی ہو گا…. یہ کیا بیہودگی ہے…. دیوانہ پن نہیں تو اور کیا ہے…. الو کا پٹھا کہو…. الو کا پٹھا کہو اور یہ پتلون کے سارے بٹن مجھے پھر بند کرنے پڑیں گے، لباس پہن کر وہ میز پر آ بیٹھا۔ اس کی بیوی نے چائے بنا کر اس کے سامنے رکھ دی اور توس پر مکھن لگانا شروع کر دیا۔ روزانہ معمول کی طرح ہر چیز ٹھیک ٹھاک تھی، تو س اتنے اچھے سکے ہوئے تھے کہ بسکٹ کی طرح کر کرے تھے اور ڈبل روٹی بھی اعلیٰ قسم کی تھی، خمیر سے خوشبو آ رہی تھی، مکھن صاف تھا، چائے کی کیتلی بے داغ تھی، اس کی ہتھی کے، ایک کونے پر قاسم ہر روز میل دیکھا کرتا تھا۔ مگر آج وہ بھی دھبہ نہیں تھا۔
اس نے چائے کا ایک گھونٹ پیا، اس کی طبیعت خوش ہو گئی، خالص دارجلنگ کی چائے تھی، جس کی مہک پانی میں بھی بر قرار تھی دودھ کی مقدار بھی صحیح تھی۔
قاسم نے خوش ہو کر اپنی بیوی سے کہا۔’’ آج چائے کا رنگ بہت ہی پیارا ہے۔ اور بڑے سلیقے سے بنائی گئی ہے۔
بیوی تعریف سن کر خوش ہو ئی۔ مگر اس نے منہ بنا کر ادا سے کہا۔’’ جی ہاں۔ بس آج اتفاق سے اچھی بن گئی ہے، ورنہ ہر روز تو آپ کو نیم گھول کر پلائی جاتی ہے…. مجھے سلیقہ کہاں سے آتا ہے…. سلیقے والیاں تو وہ موئی ہوٹل کی چھوکریاں ہیں۔ جن کے آپ ہر وقت گن گایا کرتے ہیں۔‘‘
یہ تقریر سن کر قاسم کی طبیعت مکدر ہو گئی۔ ایک لمحے کے لئے اس کے جی میں آئی کہ چائے کی پیالی میز پر الٹ دے اور وہ نیم جو اس نے اپنے بچے کی پھنسیوں کے لئے غلام محمد سے منگوائی تھی اور وہ سامنے بڑے طاقچے پر پڑی تھی۔ گھول کر پی لے۔ مگر اس نے بردباری سے کام لیا۔’’ یہ عورت میری ہے‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی بات بہت ہی بھونڈی ہے۔مگر ہندوستان میں سب لڑکیاں بیوی بن کر ایسی بھونڈی باتیں ہی کرتی ہیں۔‘‘ اور بیوی بننے سے پہلے اپنے گھروں میں اپنی ماؤں سے کیسی باتیں سنتی ہیں ؟ بالکل ادنیٰ قسم کی باتیں اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ عورتوں کو عمومی زندگی میں اپنی حیثیت کی خبر ہی نہیں …. میری بیوی تو پھر بھی غنیمت ہے۔ یعنی صرف ایک ادا کے طور پر ایسی بھونڈی بات کہہ دیتی ہے، اس کی نیت نیک ہوتی ہے بعض عورتوں کا تو یہ شعار ہوتا ہے۔ کہ ہر وقت بکواس کرتی رہتی ہیں۔
یہ سوچ کر قاسم نے اپنی نگاہیں طاقچے پر سے ہٹا لیں۔ جس میں نیم کے پتے دھوپ میں سوکھ رہے تھے اور بات کا رخ بدل کر اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’ دیکھو آج نیم کے پانی سے بچے کی ٹانگیں ضرور دھو دینا۔ نیم زخموں کے لئے بڑی اچھی ہوتی ہے…. اور دیکھو موسمبیوں کا رس ضرور پیا کرو…. میں دفتر سے لوٹتے ہوئے ایک درجن ضرور لے آؤں گا۔ یہ رس تمہاری صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔‘‘
بیوی مسکرا دی۔’’ آپ کو تو بس ہر وقت میری صحت کا خیال رہتا ہے۔ اچھی بھلی تو ہوں ، کھاتی ہوں ، پیتی ہوں ، دوڑتی ہوں ، بھاگتی ہوں …. میں نے جو آپ کے لئے بادام منگوا کے رکھے ہیں …. بھئی آج دس بیس آپ کی جیب میں ڈالے بنا نہ رہوں گی…. لیکن دفتر میں کہیں نہ بانٹ دیجئے گا۔‘‘
قاسم خوش ہو گیا کہ چلو موسمبیوں کے رس اور باداموں ، نے اس کی بیوی کے مصنوعی غصے کو دور کر دیا اور یہ مرحلہ آسانی سے طے ہو گیا۔ دراصل قاسم ایسے مرحلوں کو آسانی کے ساتھ ان طریقوں ہی سے طے کیا کرتا تھا۔ جو اس نے پڑوس کے پرانے شوہروں سے سیکھے تھے، اور اپنے گھر کے ماحول کے مطابق ان میں بہت یا تھوڑا رد و بدل کر لیا تھا۔
چائے سے فارغ ہو کر اس نے جیب سے سگریٹ نکال کر سلگایا اور اٹھ کر دفتر جانے کی تیاری کرنے ہی والا تھا کہ پھر وہی خواہش پیدا ہو گئی۔ اس مرتبہ اس نے سوچا، میں اگر کسی کو الو کا پٹھا کہہ دوں تو کیا ہرج ہے زیر لب بالکل ہولے سے یہ کہہ دوں الو…. کا،…. پٹھا…. تو میرا خیال ہے کہ مجھے، دلی تسکین ہو جائے گی۔یہ خواہش میرے سینے میں بوجھ بن کر بیٹھ گئی ہے کیوں نہ اس کو ہلکا کر دوں۔ دفتر میں۔
اس کو صحن میں بچے کا کموڈ نظر آیا، یوں صحن میں کموڈ رکھنا، سخت بد تمیزی تھی اور خصوصاً اس وقت جب کہ ناشتہ کر چکا تھا اور خوشبو دار کُرکُرے توس اور تلے ہوئے انڈوں کا ذائقہ ابھی تک اس کے منہ میں تھا…. اس نے زور سے آواز دی۔’’ غلام محمد۔‘‘
قاسم کی بیوی جو ابھی تک ناشتہ کر رہی تھی بولی۔’’ غلام محمد باہر گوشت لینے گیا ہے…. کوئی کام تھا آپ کو اس سے؟‘‘
ایک سیکنڈ کے اندر اندر قاسم کے دماغ میں بہت سی باتیں آئیں ، کہہ دوں ، یہ غلام محمد الو کا پٹھا ہے…. اور یہ کہہ کر جلدی سے باہر نکل جاؤں …. نہیں …. وہ خود تو موجود ہی نہیں ، پھر…. بالکل بیکار ہے…. لیکن سوال یہ ہے کہ بے چارے غلام محمد ہی کو کیوں نشانہ بنایا جائے۔ اس کو تو میں ہر وقت الو کا پٹھا کہہ سکتا ہوں ….
قاسم نے ادھ جلا سگریٹ گرا دیا اور بیوی سے کہا۔’’ کچھ نہیں میں اسے یہ کہنا چاہتا تھا کہ دفتر میں میرا کھانا بے شک ڈیڑھ بجے لے آیا کرے…. تمہیں کھانا جلدی بھیجنے میں بہت تکلیف کرنی پڑتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا جو فرش پر اس کے گرائے ہوئے سگریٹ کو دیکھ رہی تھی۔ قاسم کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا، یہ سگریٹ اگر بجھ گیا اور یہاں پڑا رہا تو اس کا بچہ رینگتا رینگتا آئے گا، اور اسے اٹھا کر منہ میں ڈال لے گا۔ جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کے پیٹ میں گڑ بڑ مچ جائے گی۔ قاسم نے سگریٹ کا ٹکڑا اٹھا کر غسل خانے کی موری میں پھینک دیا۔ یہ بھی اچھا ہوا کہ میں نے جذبات سے مغلوب ہو کر غلام محمد کو الو کا پٹھا نہیں کہہ دیا۔ اس سے اگر غلطی ہوئی ہے تو ابھی ابھی مجھ سے بھی تو غلطی ہوئی تھی۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ میری غلطی زیادہ شدید تھی….
قاسم بڑا صحیح الدماغ آدمی تھا۔ اسے اس بات کا احساس، تھا کہ وہ صحیح خطوط پر غور و فکر کرنے والا انسان ہے۔ مگر اس احساس نے اس کے اندر برتری کا خیال کبھی پیدا نہیں کیا تھا، یہاں پر پھر اس کی صحیح الدماغی کو دخل تھا کہ وہ احساس برتری کو اپنے اندر دبا دیا کرتا تھا۔
موری میں سگریٹ کا ٹکڑا پھینکنے کے بعد اس نے بلا ضرورت صحن میں ٹہلنا شروع کر دیا۔ وہ دراصل کچھ دیر کے لئے بالکل خالی الذہن ہو گیا تھا۔
اس کی بیوی ناشتے کا آخری توس کھا چکی تھی، قاسم کو یوں ٹہلتے دیکھ کر وہ اس کے پاس آئی اور کہنے لگی۔’’ کیا سوچ رہے ہیں آپ۔‘‘
قاسم چونک پڑا۔’’ کچھ نہیں …. کچھ نہیں …. دفتر کا وقت ہو گیا کیا؟ یہ لفظ اس کی زبان سے نکلے اور دماغ میں وہی الو کا پٹھا کہنے کی خواہش تڑپنے لگی۔‘‘
اس کے جی میں آئی کہ بیوی سے صاف صاف کہہ دے کہ یہ عجیب و غریب خواہش اس کے دل میں پیدا ہو گئی ہے۔ جس کا سر ہے نہ پیر بیوی ضرور سنے گی اور یہ بھی ظاہر ہے۔ کہ بیوی کو ساتھ دینا پڑے گا۔ چنانچہ یوں ہنسی ہنسی میں الو کا پٹھا کہنے کی خواہش اس کے دماغ سے نکل جائے گی۔ مگر اس نے غور کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ، بیوی ہنسے گی اور میں خود بھی ہنسوں گا۔ لیکن ایسا نہ ہو کہ یہ بات مستقل مذاق بن جائے…. ایسا ہو سکتا ہے…. ہو سکتا ہے، کیا‘ ضرور ہو جائے گا۔ اور بہت ممکن ہے کہ انجام کار خوشگواری پیدا ہو۔ چنانچہ اس نے اپنی بیوی سے کچھ نہ کہا اور ایک لمحہ تک اس کی طرف یوں ہی دیکھتا رہا۔
بیوی نے بچے کا کموڈ اٹھا کر کونے میں رکھ دیا اور کہا۔’’ آج صبح کو آپ کے بر خور دار نے وہ ستایا کہ اللہ کی پناہ…. بڑی مشکلوں کے بعد میں نے اسے کموڈ پر بٹھایا۔ اس کی مرضی یہ تھی کہ بستر ہی کو خراب کرے…. آخر لڑکا کس کا ہے….؟‘‘
قاسم کو اس قسم کی چیخ پسند تھی۔ ایسی باتوں میں وہ تیکھے مزاح کی جھلک دیکھتا تھا۔ مسکرا کر اس نے بیوی سے کہا۔’’ لڑکا میرا ہی ہے مگر…. میں نے تو آج تک کبھی خراب نہیں کیا۔ یہ عادت اس کی اپنی ہو گی۔‘‘
بیوی نے اس کی بات کا مطلب نہ سمجھا۔قاسم کو مطلقاً افسوس نہ ہوا۔ اس لئے کہ ایسی باتیں وہ صرف اپنے منہ کا ذائقہ درست رکھنے کے لئے کیا کرتا تھا۔ وہ اور بھی خوش ہوا۔ جب اس کی بیوی نے جواب نہ دیا اور خاموش ہو گئی۔
اچھا ! بھئی اب میں چلتا ہوں۔ خدا حافظ!‘‘
یہ لفظ جو ہر روز اس کے منہ سے نکلتے تھے آج بھی اپنی پرانی آسانی کے ساتھ نکلے اور قاسم دروازہ کھول کر باہر چل دیا۔
کشمیری گیٹ سے نکل کر جب وہ نکلسن پارک کے پاس سے گذر رہا تھا تو اسے ایک ڈاڑھی والا آدمی نظر آیا ایک ہاتھ میں کھلی ہوئی شلوار تھامے وہ دوسرے ہاتھ سے استنجا کر رہا تھا۔ اس کو دیکھ کر قاسم کے دل میں پھر الو کا پٹھا کہنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ لو بھئی۔ یہ آدمی ہے جس کو الو کا پٹھا کہہ دینا چاہئے۔ یعنی جو صحیح معنوں میں الو کا پٹھا ہے…. ذرا انداز ملاحظہ ہو…. کس انہماک سے ڈرائی کلین کئے جا رہا ہے…. جیسے، کوئی، اہم کام سر انجام پا رہا ہے…. لعنت ہے!
لیکن قاسم صحیح الدماغ آدمی تھا۔ اس نے تعجیل سے کام نہ لیا اور تھوڑی دیر غور کیا۔میں اس فٹ پاتھ پر جا رہا ہوں اور وہ دوسرے فٹ پاتھ پر۔ اگر میں نے بلند آواز میں بھی اس کو الو کا پٹھا کہا تو وہ چونکے گا نہیں۔ اس لئے کہ کمبخت اپنے کام میں بہت بری طرح مصروف ہے۔ چاہئے تو یہ کہ اس کے کان کے پاس زور سے نعرہ بلند کیا جائے اور جب وہ چونک اٹھے تو شریفانہ طور پر سمجھا یا جائے۔ قبلہ آپ الو کے پٹھے ہیں …. لیکن اس طرح بھی، خاطر خواہ نتیجہ بر آمد نہ ہو گا۔
چنانچہ قاسم نے ارادہ ترک کر دیا۔
اسی اثناء میں اس کے پیچھے سے ایک سائیکل نمودار ہوئی۔ کالج کی ایک لڑکی اس پر سوار تھی۔ اس لئے کہ پیچھے بستہ بندھا ہوا تھا۔ آناً فاناً اس لڑکی کی ساڑھی فری وہیل کے دانتوں میں پھنسی، لڑکی نے گھبرا کر اگلے پہئے کا بریک دبایا۔ ایک دم سائیکل بے قابو ہوئی اور جھٹکے کے ساتھ لڑکی سائیکل سمیت سڑک پر گر پڑی۔
قاسم نے آگے بڑھ کر لڑکی کو اٹھانے میں عجلت سے کام نہ لیا۔ اس لئے کہ اس نے حادثے کے رد عمل پر غور کرنا شروع کر دیا تھا۔ مگر جب اس نے دیکھا کہ لڑکی کی ساڑھی، وہیل کے دانتوں نے چبا ڈالی ہے۔ اور اس کا بورڈر بہت بری طرح ان میں الجھ گیا ہے۔ تو وہ تیزی سے آگے بڑھا، لڑکی کی طرف دیکھے بغیر اس نے سائیکل کا پچھلا پہیہ ذرا اونچا اٹھایا۔ تاکہ اسے گھما کر ساڑھی کو فری وہیل کے دانتوں ، میں سے نکال لے، اتفاق ایسا ہوا کہ پہیہ گھمانے سے ساڑھی کچھ اس طرح تاروں کی لپیٹ میں آئی کہ ادھر پیٹی کوٹ کی گرفت سے باہر نکل آئی، قاسم بوکھلا گیا۔ اس کی بوکھلا ہٹ نے لڑکی کو بہت زیادہ پریشان کر دیا۔ زور سے اس نے ساڑھی کو اپنی طرف کھینچا۔فری وہیل کے دانتوں میں ایک ٹکڑا اڑا رہ گیا اور ساڑھی باہر نکل آئی۔
لڑکی کا رنگ لا ل ہو گیا، قاسم کی طرف غضبناک نگاہوں سے دیکھا اور بھنچے ہوئے لہجہ میں کہا۔ ’’الو کا پٹھا۔‘‘
ممکن ہے کچھ دیر لگی ہو گی۔ مگر قاسم نے ایسا محسوس کیا کہ لڑکی نے جھٹ پٹ نہ جانے اپنی ساڑھی کو کیا کیا۔ اور ایک دم سائیکل پر سوار ہو کر نظروں سے غائب ہو گئی۔
قاسم کو لڑکی کی گالی سن کر بہت دکھ ہوا۔ خاص کر اس لئے کہ وہ یہی گالی خود کسی کو دینا چاہتا تھا۔ مگر وہ بہت صحیح الدماغ تھا۔ ٹھنڈے دل سے اس نے اس حادثہ پر غور کیا اور اس لڑکی کو معاف کر دیا۔ اس کو معاف کرنا ہی پڑے گا۔ اس لئے کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں۔ عورتوں کو سمجھنا بہت مشکل کام ہے اور ان عورتوں کو سمجھنا تو اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جو سائیکل پر سے گری ہوئی ہوں۔ لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اس نے اپنی لمبی جراب میں اوپر ران کے پاس تین چار کاغذ کیوں اڑس رکھے تھے۔‘‘
٭٭٭
تلون؟
بارش کا شور…. آہستہ آہستہ یہ شور شدت پکڑتا ہے۔
نیلم: ( ڈرتے ہوئے لہجہ میں ) کھڑکی بند کر دو جمیل…. باہر رات کا اندھیر ا ایسا معلوم ہوتا ہے۔ گویا ہمیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا ہے…. اف، یہ کالی رات کیسی بھیانک ہے۔
جمیل: ( ہنستا ہے) ان کالی رسیوں سے، جو سانپ کی طرح بل تو کھاتی ہیں۔ مگر ڈس نہیں سکتیں ہنستا ہے تمہارے سر کے یہ کالے دھاگے صرف شاعروں ہی کے لئے جال بن سکتے ہیں۔ نیلم…. ہاں تو کھڑکی کیا سچ مچ بند کر دوں …. کیا تمہیں واقعی ڈر لگتا ہے۔
نیلم: اس بھیانک رات سے زیادہ اس وقت مجھے تم سے خوف محسوس ہو تا ہے۔
( کھڑکی بند کر دیتی ہے)
جمیل: ( جلدی سے) اتنی بھیانک نہیں جتنی تمہاری کالی زلفیں ہیں
نیلم: تو ڈرنا چاہئے۔ آپ کو۔
جمیل: خوف…. مجھ سے تمہیں خوف محسوس ہوتا ہے…. ہونا چاہیے۔ اس لئے کہ خوف ہی تم جیسی عورتوں کو آرام کر سکتا ہے…. وہ شاعر …. وہ شاعر…. کیا نام تھا اس شاعر تھا؟
نیلم: اب تم اپنے دوست کو اتنی جلدی بھول گئے۔
جمیل: میں اسے اس کی موت کے بعد بھولا ہوں۔’’ اس لئے کہ اب اس کو یاد رکھنے سے کوئی فائدہ نہیں تھا…. اور تم اسے تو اس کی زندگی ہی میں بھول گئی تھیں۔
نیلم: خدا کے لئے…. خدا کے لئے گڑے مردے نہ اکھاڑو جمیل!
جمیل: جو تم کفنائے بغیر دفن کر چکی ہو…. نیلم واللہ اگر میں کبھی تمہاری محبت میں گرفتار ہو جاؤں ، تو مزا آ جائے…. تمہیں اپنی اس انگوٹھی میں نگینے کی، طرح نہ جڑلوں تو میرا نام جمیل نہیں …. وہ لوگ بیوقوف تھے جو تمہارے عشق میں آہیں بھرتے مر گئے…. مجھے تعجب ہے کہ ان میں سے کسی نے تمہارا گلا کیوں نہیں کاٹ ڈالا۔ یہ سفید سفید گلا۔ جس میں سے تم اتنے اچھے سر نکال سکتی ہو، اور اپنے راگ کا جادو چلاتی ہو۔
نیلم: تم کیوں نہیں کاٹ ڈالتے۔
جمیل: اس لئے کہ میں تم سے محبت نہیں کرتا۔
نیلم: مانتی ہوں ، لیکن پھر تم مجھ میں دلچسپی کیوں لیتے ہو؟
جمیل: سیاح جب بمبئی آتے ہیں تو مالا بار کی پہاڑی پر وہ مقام دیکھنے کے لئے ضرور ٹھہر جاتے جہاں باؤ لا قتل کیا گیا تھا…. تم سے ملتا ہوں اس لئے کہ تم ایک ایسا تاریخی مقام بن گئی ہو، جہاں کئی بیوقوفوں نے جان دے دی ہے۔
نیلم: تم چاہو تو شاعر بن سکتے ہو۔
جمیل: مگر تم چاہو تو کچھ بھی نہیں بن سکتیں …. عورت ازل سے ایک ہی راگ لے کر آئی ہے، جسے وہ وقت بے وقت گاتی رہتی ہے…. بتاؤ تمہارے ساز حیات میں دھوکے اور فریب کے سوا کیا اور کوئی راگ ہے۔
نیلم: بہت سے راگ ہیں۔ جب تم مجھ سے محبت کرو گے تو سناؤں گی۔ فی الحال یہ چند شعر سنو۔
جمیل: کیا اُس بیوقوف شاعر کے ہیں
نیلم: نہیں میرے اپنے ہیں۔
( باجے پر انگلیاں چلاتی ہے اور ذیل کے شعر گاتی ہے)
زندگی ایک سر گرانی ہے
یہ مرا عالمِ جوانی ہے
یہ جو پلکوں پہ قطرۂ خوں ہے
تیرے اکرام کی نشانی ہے
مسکرانا جسے نصیب نہ ہو
وہ جوانی بھی کیا جوانی ہے
( احمد ندیم قاسمی)
جمیل: اچھا گاتی ہو….( گلاس میں شراب انڈیلتا ہے)…. اور یہ شراب بھی بری نہیں۔
نیلم: (آخری شعر گاتی ہے)….
ہے ان آنکھوں کا رنگ پانی میں
ورنہ کیا ہے شراب پانی ہے
جمیل: خود ستائی کا دوسرا نام عورت ہے، کیوں نیلم….؟’’ اور معلوم ہوتا ہے آج کسی نے تمہاری آنکھوں کی تعریف نہیں کی۔ جب ہی تمہیں ان کا رنگ شراب میں گھولنا پڑا…. بخدا نیلم تم بڑی دلچسپ عورت ہو۔تمہاری پلکوں میں پھنسے ہوئے آنسو دیکھ کر مجھے ریگستان کے کنوئیں یاد آ جاتے ہیں ، ہاں یہ تو بتاؤ آج تم رو کیوں رہی ہو…. اگر مجھے مرغوب کرنے کے لئے تم نے یہ آنسو بہائے ہیں ، تو میں کہوں گا کہ تم نے ناحق تکلیف کی۔ میرے دل کی چھت ٹپکتی نہیں۔‘‘
نیلم: ( باجے کے پردے چھیڑتی ہے اور ایک ٹھنڈی سانس بھرتی ہے) جمیل عورتیں روتی ہیں …. جانتے ہو عورتیں کیوں روتیں ہیں ؟
جمیل: کہ مرد زیادہ شراب پئیں۔( اور گلاس میں شراب ڈالتا ہے)
نیلم: ( تنگ آ کر بلند آواز میں …. جمیل…. ایک دم آواز دبا کر) اب میں تم سے کیا کہوں جمیل؟
جمیل: کہو کہ جمیل تم خوبصورت ہو…. تمہاری گفتگو ایسی ہے جیسے شراب کے یہ متحرک بلبلے…. تمہاری جوانی ایسی ہے جسے ساز کے تنے ہوئے تار…. تم عورتوں کا…. تم حسین عورتوں کا…. کہو کیا کہو گی…. ہاں کہو کہ تم حسین عورتوں کا خوابِ جمیل ہو…. کہو کچھ ایسا ہی کہو اور کہے چلی جاؤ…. اگر عورتیں اپنی تعریف سے خوش ہو سکتی ہیں تو کیا ایک مرد نہیں ہو سکتا، ہاں یہ تو بتاؤ نیلم، آج تمہاری شراب سسکیاں کیوں بھر رہی ہے…. میں نے دو گھونٹ پئے ہیں اور مجھے ایسا محسوس ہوا ہے کہ میرے حلق میں دو آہیں نیچے اتر گئی ہیں …. یہ شراب کسی دل جلے کا تحفہ تو نہیں ؟
( کھڑکی ہوا کے دباؤ سے کھل جاتی ہے اور بارش کا شور سنائی دیتا ہے۔)
جمیل: کھڑکی بند کر دو۔ نیلم۔ باہر رات کا اندھیرا ایسا معلوم ہوتا ہے۔ گویا ہمیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا ہے…. اُف یہ کالی رات کتنی بھیانک ہے۔
نیلم: اتنی بھیانک نہیں جتنی تمہاری گفتگو ہے۔
جمیل: تو مجھ سے ڈرنا چاہیے تمہیں۔
نیلم: ہنستی ہے، ڈرنا چاہئے…. تمہاری ان باتوں سے جو بالکل کھو کھلی ہیں ( ہنستی ہے) ان،چنگاریوں سے جن میں خود بھی چلنے کی قوت نہیں۔ ہاں تو کھڑکی کیا، سچ مچ بند کر دوں۔ کیا تمہیں واقعی ڈر لگتا ہے؟
( کھڑکی بند کر دیتی ہے)
جمیل: مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان تمام مردوں ، کی روحیں ، جو۔’’تمہاری محبت کا زہر بن کر اس دنیا سے اٹھ گئے ہیں ، آج رات اس کالی بارش میں نہا رہی ہیں …. نیلم ذرا خیال کرو۔ اگر سچ مچ یہ روحیں تمہارا راستہ روک کر کھڑی ہو جائیں تو…. تو….‘‘
نیلم: اگر تمہاری روح بھی اس قطار میں ہوتی تو شاید مجھے ایک لمحہ کے لئے ٹھٹکنا پڑے۔
جمیل: کیوں ؟
نیلم: اس کیوں کا جواب اس وقت دوں گی۔ جب تمہاری روح کالی بارش میں نہائے گی اور میرا راستہ روک کر کھڑی ہو جائے گی….
جمیل: تم اب دلیر ہو گئی ہو۔
نیلم: تم اسے دلیری کہتے ہو۔ مگر یہ عورت کی سب سے بڑی بزدلی ہے۔
جمیل: کیا؟
نیلم: یہی…. یہی دلیری!
جمیل: تمہاری باتیں اس وقت شراب کے گھونٹوں سے زیادہ مزے دے رہی ہیں۔
نیلم: تو شراب چھوڑ دو۔ یہی پیؤ۔
جمیل: بخدا آج تم نے میری طبیعت خوش کر دی۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں۔ جب میرے ہوش و حواس بجا نہ رہے تو چند دنوں کے لئے تم سے ضرور محبت کروں گا جانتی ہو محبت کسے کہتے ہیں ؟
نیلم: ہوش و حواس بجا نہ رہنے کی صورت میں کسی عورت سے چند دنوں کے لئے کھیلنا۔
جمیل: تمہاری یہ باتیں مجھے کسی روز مجبور کر دیں گی کہ میں …. کہ میں ….
نیلم: کہو…. کہو۔
جمیل: کہ میں تمہیں ایک کتاب بنا کر اپنی الماری میں رکھ لوں۔ تم جیسی عورتوں کو فرصت کے وقت ضرور پڑھنا چاہیے۔
نیلم: پہلے قاعدہ تو پڑھ لیا ہوتا۔
جمیل: ہوشیار طالب علموں کے لئے ابتدائی معلومات اتنی ضروری نہیں ہوتیں۔
نیلم: ہائے تمہاری ہوشیاری…. تمہیں اس ہوشیاری پر کتنا ناز ہے۔ لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری ہوشیاری کسی عورت کے سامنے گھٹنے ٹیک دے۔
جمیل: میری ہوش مندی شاعروں کی ہوش مندی نہیں …. ہاں یہ تو بتاؤ تم نے اس بیچارے شاعر سے اتنا برا سلوک کیا؟
نیلم: اس لئے کہ مجھ سے تمہارا سلوک اچھا نہیں تھا۔
جمیل: یہ منطق میری سمجھ میں نہیں آئی۔
نیلم: اور نہ کبھی آئے گی…. اپنے گھروں میں آسانی کے ساتھ سوٹ کیسوں کا تالا کھولنے والے مرد جب کسی عورت کے دل کا تالا کھولنا چاہیں تو یہی مشکل پیش آیا کرتی ہے۔ اور وہ لوگ جو تم ایسے مشکل پسند ہوتے ہیں۔ آسانیاں ان کے لئے دشواریاں ہوتی ہیں۔
جمیل: کون سی آسان بات سمجھنا میرے لئے دشوار ہے۔
نیلم: کہ تمہارے برے سلوک نے مجھے تمہارے شاعر دوست سے برا سلوک کرنے پر مجبور کر دیا۔
جمیل: کتنی آزادانہ مجبوری ہے
نیلم: تمہیں سیدھی سادھی بات میں الجھاؤ پیدا کر کے شاید لطف آتا ہے۔ لیکن یاد رکھو کسی روز تم خود ان بھول بھلیوں میں ایسے پھنسو گے کہ نکلنے کا نام نہ لو گے…. حقائق کا ہر وقت منہ چڑانا بھی اچھا نہیں۔ تم جانتے ہو…. تم محسوس کرتے ہو۔ اس لئے کہ محسوس کرنا جاننے سے بہت بہتر کہ تمہارے دوست شاعر کی محبت کو میں نے صرف اس لئے ٹھکرا یا کہ تمہاری ٹھو کروں سے مجھے پیار ہو گیا تھا۔
جمیل: میں زیادہ شراب تو نہیں پی گیا؟
نیلم: نہیں تم نے صرف دو گلاس پئے ہیں۔ مدہوش میں ہو رہی ہوں۔
جمیل: تو پھر کوئی حرج نہیں …. کہو کیا کہہ رہی تھیں۔ تم نے میرے شاعر دوست کی محبت کو صرف اس لئے ٹھکرا دیا کہ میری ٹھو کروں سے تمہیں پیار ہو گیا تھا…. ہاں پھر کیا ہوا؟
نیلم: جو ہونا تھا۔
جمیل: یعنی۔
نیلم: شاعر کے سینکڑوں شعر میں ہر روز پھانکتی رہی مگر میرے دل میں محبت کی شعریت پیدا نہ ہوئی اور تمہاری خشک باتوں نے….( کھڑکی شو ر کے ساتھ کھلتی ہے۔ ہوا کی تیز سیٹیاں کمرے میں پھیل جاتی ہیں۔ عباس کھڑکی کے راستے اندر داخل ہوتا ہے۔ نیلم چیختی ہے)…. عباس۔
عباس: ( زور سے کھڑکی بند کر دیتا ہے اور فرش پر اپنے وزنی بوٹوں سے چلتا نیلم کے پاس آ جاتا ہے)۔ ہاں شاعر عباس…. مگر یہ چیخ کیسی…. کیا پرانے دوستوں کا استقبال ایسی چیخوں سے کیا جاتا ہے؟ اور جمیل تم کیوں ڈر گئے…. کیا میں تمہارا عزیز دوست عباس نہیں ہوں ، جس کے سینکڑوں شعر روز پھانکنے پر بھی نیلم کے دل کا ہاضمہ درست نہیں ہوا…. خبر دار جو تم اپنی جگہ سے ہلے…. میرا پستول شعر نہیں کہتا۔ ایسا نہ ہو کہ اس سے بد کلامی ہو جائے…. ہاں کہو نیلم تم کیا کہہ رہی تھیں …. جمیل کی خشک باتوں نے۔ جمیل کی خشک باتوں نے کیا کیا؟
نیلم: ( بھنچے ہوئے لہجہ میں )…. عباس تم زندہ ہو!
عباس: مجھے خود تو یہی محسوس ہوتا ہے۔
جمیل: ریل گاڑی کے حادثہ میں تمہارے مر جانے کی، افواہ….
عباس: غلط تھی۔ لیکن آج شب کے حادثے میں تمہارے مر جانے کی افواہ غلط نہ ہو گی۔
جمیل: تو مجھے ابھی ابھی وصیت کر دینا چاہئے‘ اور اپنی ساری جائیداد تمہارے حق میں محفوظ کر دینا چاہئے۔
عباس: تمہاری جائیداد…. کیا ہے تمہاری جائیداد؟
جمیل: میری خشک باتیں جو تمہارے شعروں کے ساتھ مل کر نیلم کا دل موہ سکیں۔
عباس: ( ایک دم غصے میں آ کر)…. جو میں نہ موہ سکا، یہی چاہتے ہو نا تم …. دبی زبان میں آج تم نے جس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اگر مجھے پہلے معلوم ہوتی تو میرے دل کا بوجھ اس قدر زیادہ نہ ہوتا،…. وہ بوجھ جو اب تمہیں اپنے کاندھوں پر اٹھانا پڑے گا…. میں بیوقوف ہوں …. جیسا کہ تم نیلم سے کہہ رہے تھے، شاعر بیوقوف ہی ہوا کرتے ہیں۔مگر وہ تم جیسے غدار نہیں ہوتے، بھیڑ کی کھال میں تم جیسے چیتے نہیں ہوتے…. تم….تم اپنی طرف سے شاید ایک وہپ کھیل کھیلتے رہے۔مگر جانتے ہو تم نے مجھے بے حد دکھ پہنچایا ہے۔ تم نے میری حساس روح کو پاؤں تلے روند دیا ہے…. تم نے شاعر کو تکلیف نہیں دی، ایک انسان کو دکھ دیا ہے۔ جو محبت میں گرفتار تھا…. جانتے ہو محبت کرنے والے انسانوں کی روح بہت حساس ہوتی ہے۔
جمیل: میں نے کبھی محبت نہیں کی۔
عباس: لیکن اب تمہیں کرنا ہو گی۔
جمیل: کس سے۔
عباس: نیلم سے….اس عورت سے جس سے میں محبت کرتا ہوں۔اس مغنیہ سے جس کے حلق سے نکلے ہوئے سروں میں اتنے برس میری روح آشیانہ بناتی رہی اور جس کے تنکے تم نے ہوائی بگولا بنا کر اڑا دیئے…. سنتے ہو! اس عورت سے۔ جس کی نسوانیت میری نرم و نازک شاعری نے بنائی ہے تم اپنی کھردری باتوں سمیت محبت کرو گے۔
جمیل: اور تم؟
عباس: میں …. میں تمہارا تماشا دیکھو گا۔
جمیل: تمہیں کیسے معلوم ہو گا کہ میں واقعی نیلم سے محبت کرتا ہوں
عباس: تمہیں اس بات کا ثبوت دینا ہو گا۔ اور اس سے میری محبت کا ثبوت یہ ہے کہ آج نصف شب کے بعد شاعر عباس، نیلم پر اپنی جان قربان کر دے گا…. اس دنیا سے چلا جائے گا جہاں شعریت ہی شعریت ہے۔
جمیل: دوسرے لفظوں میں مجھے اس دنیا میں جانا پڑے گا، جہاں شعریت ہی شعریت ہے۔
عباس: تم میرا مطلب سمجھ گئے ہو۔
نیلم: عباس خدا کے لئے عباس ایسے بے رحم نہ بنو۔
عباس: اس سے تمہاری محبت کا ثبوت لینا کوئی بے رحمی نہیں …. میں بھی تو اس بات کا ثبوت دوں گا، کہ مجھے تم سے محبت ہے۔
نیلم: کیسے؟
عباس: اس گلاس میں جس میں جمیل شراب پیتا رہا ہے۔ میں زہر گھول رہا ہوں ( گلاس کی آواز)…. پہلا گھونٹ جمیل پئے گا۔ جب زہر اس کو ہلاک کر دے گا تو دوسرا گھونٹ میں پیوں گا۔
نیلم: یہ کیسے ہو سکتا ہے عباس…. تمہارا دماغ بہک گیا ہے۔
جمیل: اور اگر میں انکار کر دوں ؟
عباس: تو میرا پستول کب انکار کرے گا۔
جمیل: پستول کی گولی سے مرنا شاندار نہیں …. میں زہر ہی پیوں گا مجھے مجھے اس بات کا یقین ہونا چاہئے کہ میری موت کے بعد تمہاری موت بھی ہو گی…. کیا نیلم مجھے اس بات کا یقین دلا سکتی ہے۔
نیلم: میں …. میں …. لیکن عباس شاعر ہے۔
جمیل: تو ایسا ہو سکتا ہے کہ پہلے عباس زہر پئے اور اس دنیا کا دروازہ کھٹکھٹائے جہاں شعریت ہی شعریت ہے۔ میں اس پیچھے آنے کا وعدہ کرتا ہوں …. اس تھوڑے وقفے میں مجھے نیلم کی محبت میں گرفتار، ہونے کا موقع بھی مل جائے گا۔
نیلم: ایسا کیوں نہ ہو کہ یہ سارا زہر میں ہی اپنے حلق سے نیچے اتار لوں …. اور پھر ایک دوسرے کے دوست بن جاؤ…. ایک دوسرے سے محبت کرنا شروع کر دو۔
عباس: ( بلند آواز میں ) نہیں …. ہر گز نہیں
موت کایہ جال میری مرضی کے مطابق پانی میں ڈالا جائے گا…. جمیل پہلے تم اس جال میں آؤ گے پھر میں …. اور نیلم زندہ رہے گی…. اس کو زندہ رہنا پڑے گا…. جب زہر تمہارے اندر سرایت کر جائے گا اور موت کا مضبوط ہاتھ تمہیں رسی کی مانند بٹ دے گا۔ تو نیلم کے دل پر تریڑے پڑیں گے۔ اس نیلم کے دل پر جس نے شاعر عباس کے دل کو فضول سمجھ کر توڑ دیا…. تم مرو گے اور میں جیوں گا۔ میں جیوں گا اور تم مرو گے( دیوانہ وار ہنستا ہے)…. ہاں ہاں تمہیں مرنا ہو گا…. میں خود مروں گا۔ مگر زندہ ہو کر۔اور تم مرو گے ادھ موئے ہو کر (ہنستا ہے) برف کے ٹکڑوں سے اپنی تابانی ادھار لینے والی نیلم کے لئے آج کڑی آزمائش کا دن ہے…. اس کی آنکھوں کے سامنے آج اس کے دو چاہنے والے موت کی گہرائیوں میں اتریں گے۔
جمیل: مذاق ختم ہو چکا…. رات بہت گذر چکی ہے عباس میں سمجھتا ہوں کہ اب تماشے کو بند کر دینا چاہئے۔ نیلم برف کی سلوں سے اپنی تابانی ادھار لیتی ہے۔ تم ان سے تھوڑی سی سردی مانگ لو۔ اور خدا کے لئے اس آگ کو بجھاؤ…. میں آگ تاپنے کا عادی نہیں ہوں۔
عباس: زور سے قہقہہ لگاتا ہے، صرف باتیں ہی بنانے کے عادی ہو…. تم آگ لگا سکتے ہو مگر آگ لگا کر اس کا تماشا دیکھنے کی تاب تم میں نہیں …. نیلم تمہاری ٹھوس چٹان چٹخنا شروع ہو گئی…. بس اب کچھ دم میں ریزہ ریزہ ہوا چاہتی ہے….( ہنستا ہے)…. تمہیں عورتوں سے کھیلنا پسند ہے۔ مگر ز ہر کا ایک گھونٹ تم سے نہیں پیا جاتا…. میرے دوست، عورتیں زہر سے زیادہ زہریلی ہوتی ہیں۔
جمیل: ہوں گی مگر ان کے لئے جو ان سے دلچسپی لیتے ہیں ….
نیلم: عباس…. جمیل ٹھیک کہتا ہے…. اسے مجھ سے صرف اس قدر دلچسپی تھی کہ میں اس کی باتوں سے دلچسپی لوں۔
عباس: کیا دلچسپ بات ہے…. اور زہر کے یہ گھونٹ بھی کچھ کم دلچسپ نہیں …. کتنے پیؤ گے، میرے لئے تو ایک کافی ہو گا۔
جمیل: نہیں پیوں گا۔
عباس: تمہیں پینا ہو گا….( گلاس اٹھاتا ہے) اسی شراب میں زہر ہے۔ نیلم لپک کر ہاتھ سے گلاس گرا دیتی ہے عباس اس کی کلائی پکڑ لیتا ہے۔( نیلم کی چوڑیاں کھنکھناتی ہیں ) زہر کی پڑیا واپس دے دو نیلم(نیلم) عباس کی زبردست گرفت کے باعث کراہتی ہے اور کہتی ہے میری کلائی ٹوٹ جائے گی۔‘‘) …. میرا دل ٹوٹ چکا ہے …. لاؤ…. یہ زہر میرے حوالے کر دو۔(نیلم کی ہلکی، سی چیخ)…. بس اب ایک طرف ہو جاؤ اور ہمارا تماشا دیکھو…. خبر دار جمیل…. اپنی جگہ پر کھڑے رہو( گلاس اٹھاتا ہے اور اس میں زہر کی پڑیا گھول دیتا ہے) لو…. اس کا ایک گھونٹ پی جاؤ…. گلاس ہاتھ میں لو…. ورنہ….
جمیل: ( ڈرتے ہوئے لہجے میں )…. نیلم…. کیا سچ مچ مجھے یہ زہر پینا پڑے گا۔
نیلم: حالات کا تقاضا یہی ہے۔
جمیل: حالات کا تقاضا…. حالات کا تقاضا…. مجھے حالات سے کیا واسطہ ہے…. مجھے کسی سے کوئی واسطہ نہیں ہے…. نیلم یہ کیا ہو رہا ہے…. خدا کے لئے مجھے موت سے بچاؤ۔
عباس: ہنستا ہے۔
نیلم: پی جاؤ۔میرا منہ کیا دیکھتے ہو…. شہد سمجھ کے پی جاؤ۔
جمیل: شہد…. شہد….
عباس: ( بلند آواز میں )پی جاؤ…. ورنہ….
نیلم: پی جاؤ۔ تمہیں کچھ نہ ہو گا۔
جمیل: کیسے۔ کیسے۔
عباس: پی جاؤ۔
نیلم: پی جاؤ۔ پی جاؤ۔
عباس: بس ایک گھونٹ…. باقی میری طرف بڑھا دو۔
نیلم: پی جاؤ۔ ڈرو نہیں۔
جمیل: پی جاؤں ؟
عباس: ہاں ، ہاں پی جاؤ۔
نیلم: پی جاؤ۔
جمیل: تم بھی پئیو گے۔
عباس: وقت ضائع نہ کرو۔
نیلم: ڈرتے کیوں ہو۔
جمیل: گلاس میں سے زہر پیتا ہے، حلق میں غرغراہٹ پیدا ہوتی ہے، پھر کھانستا ہے۔
نیلم: بس اتنی سی بات تھی۔
عباس: بس اتنی سی بات تھی….لاؤ گلاس مجھے دے دو…. شاباش…. ارے تمہارا رنگ اتنی جلدی زرد کیوں ہو گیا….ابھی تو زہر تمہارے اندر ٹھیک طور پر اترا بھی نہیں۔
نیلم: گھبراؤ نہیں جمیل…. حوصلہ رکھو۔
عباس: حوصلہ!…. زہر پی کر یہ کس قسم کا حوصلہ کر سکتا ہے۔ لو دیکھو مٹھیاں بھینچنا شروع ہو گئیں۔
جمیل: عباس۔
عباس: عباس کو کیوں پکارتے ہو…. اس کا نام نہ لو ورنہ تمہاری جان اٹک جائے گی۔
نیلم: پریشان کیوں ہوتے ہو جمیل…. تم نہیں مرو گے۔
جمیل: نیلم…. میں ….
عباس: ( زور زور سے ہنستا ہے) ہا ہاہا…. بس پانچ منٹ میں تمہاری لاش اس فرش پر ہو گی اور مکھیاں بھنبھنا رہی ہوں گی۔ تمہارے اس منحوس جھولے پر جو ابھی سے نیلا پڑ گیا ہے۔
جمیل: نیلا؟….تم قاتل ہو…. تم میرے قاتل ہو…. میں شور مچا نا شروع کر دوں گا۔
میں شور مچانا شروع کر دوں گا۔
عباس: کچھ فائدہ نہ ہو گا…. چیخنے اور چلانے سے جوکا م تم کرنا چا ہتے ہو وہ میں خود کرنے والا ہوں ،اس گلاس کا باقی زہرا بھی میرے اندر چلا جائے گا…. مگر تم میری جان کنی کا تماشا نہیں دیکھو گے۔ اس کا مزا صرف، میں لوں گا۔ (ہنستا ہے) نیلم۔ ذرا اس بہادر کی حالت تو دیکھو۔ جس کی ٹھوکروں سے تمہیں پیار ہو گیا تھا( ہنستا ہے) ہاہاہا…. تم کانپ رہے ہو جمیل،…. تمہارا روآں روآں کانپ رہا ہے…. زہر نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا…. بس اب تم چند گھڑیوں کے مہمان ہو۔
جمیل: ( دیوانہ وار)…. میں نہیں مرنا چاہتا
میں نہیں مرنا چاہتا۔کوئی مجھے بچائے۔ کوئی مجھے بچائے۔
عباس: شریف آدمیوں کی طرح جان دو جمیل۔
یوں چیخو چلاؤ نہیں۔موت بہت حساس ہوتی ہے۔
جمیل: موت…. موت….
نیلم: ڈرو نہیں ، تم زندہ رہو گے۔
عباس: (ہنستا ہے) تم زندہ رہو گے اس لئے کہ تم اس صورت کے لئے اپنی جان دے رہے ہو( ہنستا ہے) تمہارا رنگ اب بالکل نیلا پڑ گیا ہے۔ تمہارے ہونٹ خزاں دیدہ پتوں کے مانند کانپ رہے ہیں۔ تمہاری آنکھیں بلبلوں کی طرح ابل رہی ہیں۔( ہنستا ہے۔) بس اب تم چند گھڑیوں کے مہمان ہو کچھ کہنا ہو تو کہہ لو نیلم سے ( ہنستا ہے) میں کتنا خوش ہوں ….( ہنستا ہے)…. قہقہوں کے درمیان جمیل دیوانہ وار چلاتا ہے۔ پانی، پانی،
نیلم کہتی ہے۔’’ تمہیں کیا ہو گیا ہے جمیل…. تم تو سچ مچ مر رہے ہو‘‘…. عباس ہنستا رہتا ہے۔ آخر میں دھڑام سے جمیل زمین پر گر پڑتا ہے۔
عباس: مر گیا…. لو اب میں چلا….( اسی گلاس میں زہر پیتا ہے اور ہونٹ چاٹتا ہے۔…. لوگ کہتے ہیں زہر کڑوا ہوتا ہے مگر یہ تو میٹھا تھا)۔
نیلم: جمیل!…. جمیل!…. جمیل!…. عباس، جمیل تو سچ مچ مر گیا۔
عباس: تو کیا جھوٹ کی موت مرتا۔ نیلم اب اس کا ذکر نہ کرو۔ جو مر کھپ چکا ہے۔ میرے ساتھ باتیں کرو جو ابھی مرا نہیں ہے۔ ( ہنستا ہے)موت…. موت اور زندگی میں فرق ہی کیا ہے…. زندگی ایک نیند ہے۔ جس میں آنکھیں کھلی رہتی ہیں ، اور موت ایسی نیند ہے۔ جس میں آنکھیں بند رہتی ہیں۔
نیلم: (آہ بھر کر) جمیل مر گیا
عباس: لو اب میری باری ہے۔ ایک مرد جس سے تمہیں محبت تھی۔ موت کی آغوش میں جا چکا ہے…. دوسرا جس کو تم سے محبت ہے جانے کی تیاریاں کر رہا ہے
نیلم: تم غلط کہتے ہو…. مجھے جمیل سے محبت نہیں تھی۔
عباس: پھر کس سے تھی؟
نیلم: اس کی خشک باتوں سے …. تم لوگ اتنی معمولی سی بات کیوں نہیں سمجھتے…. بادلوں میں گھرے لوگ کیا آسمان کی خواہش نہیں کرتے…. برف کے تودوں میں دبی ہوئی چیزیں کیا سورج کی تپش کے لئے نہیں تڑپتیں۔ زمین، پر رہنے والے کیا تاروں کی طرف للچائی ہوئی، نظروں سے نہیں دیکھتے…. کیا فرشتوں نے آسمان چھوڑ کر زمین پر آنے کی غلطی نہیں کی شعروں کے نرم و نازک بستر سے نکل کر حقیقت کے پتھروں پر چلنے پھرنے کی خواہش کیا دل میں پیدا نہیں ہو سکتی…. اور پھر نیلم تو ایک عورت ہے۔
عباس: عورتوں اور چڑیوں کا چڑیوں کا فلسفہ میری سمجھ سے ہمیشہ اونچا رہا ہے۔
نیلم: اس لئے کہ تم شاعر زیادہ اور آدمی کم ہو…. عباس، ہر شے کو شعریت کی نظروں سے دیکھو…. مگر عورت کو ہمیشہ اپنی نظروں سے دیکھو۔
عباس: ( ہنستا ہے) یہ دونوں آنکھیں اب موت ہمیشہ کے لئے میچ دے گی( حیرت سے) مگر اس زہر نے مجھ پر اثر کیوں نہیں کیا…. میں …. میں موت کو اپنے قریب محسوس کیوں نہیں کرتا۔ میرا حلق بھی تو خشک نہیں ہوا۔ میرا رنگ بھی ویسے کا ویسا ہے۔
نیلم: اس لئے کہ تم نے زہر نہیں پیا۔
عباس: (حیرت سے) زہر نہیں پیا…. جمیل کیسے مر گیا؟
نیلم: مر گیا…. اس کی ہوشیاری اور چالاکی اس کی مدد نہ کر سکی…. حالانکہ میں نے دونوں کو بچانے کی کوشش کی تھی…. زہر کی پڑیا کی بجائے میں نے شکر کی پڑیا بڑی پھرتی سے تمہارے ہاتھ میں دے دی تھی۔
عباس: پہیلیاں بوجھنے کے فن سے میں بالکل کورا ہوں نیلم!
نیلم: اس لئے تم مرے نہیں تھے۔ اگر جمیل نے زہر پیا ہوتا تو وہ شاید نہ مرتا۔ مگر شکر نے اس پر زہر کا کام کیا…. اب چھوڑ دو ان باتوں کو وہ کھڑکی ہوا کے دباؤں سے کھل جاتی ہے، بارش کا شور سنائی دیتا ہے۔
نیلم: کھڑکی بند کر دو عباس…. باہر رات کا اندھیرا ایسا محسوس ہوتا ہے، گویا ہمیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جمیل کی روح اس کالی بارش میں نہا رہی ہے۔ اف یہ کالی رات کتنی بھیانک ہے….
عباس: انتی بھیانک نہیں جتنا تمہارا سفید چہرہ ، ہے….
( کھڑکی بند کر دیتا ہے)
٭٭٭
وہ خط جو پوسٹ نہ کئے گئے
حوا کی ایک بیٹی کے چند خطوط جو اس نے فرصت کے وقت محلے کے چند لوگوں کو لکھے۔ مگر اُن وجوہ کی بنا پر پوسٹ نہ کئے گئے۔ جو ان خطوط میں نمایاں نظر آتی ہے۔
( نام اور مقام فرضی ہیں )
پہلا خط مسز کرپلانی کے نام
خاتون مکرم
آ داب عرض۔ معاف فرمائیے گا میں یہ سطور بغیر تعارف کے لکھ رہی ہوں۔ مگر چند ضروری باتیں مجھے آپ سے کہنا ہیں۔ آپ کو میں ایک عرصے سے جانتی ہوں ، ہر روز صبح ساڑھے آٹھ بجے جب میں بستر سے اُٹھ کر بالکنی میں آتی ہوں تو آپ کو بازار میں سیر سے واپس آتے دیکھا کرتی ہوں ، مجھے تعجب ہے کہ مسٹر کرپلانی جنہیں ساڑھے آٹھ بجے گھر سے دفتر پہنچنے، کے لئے نکل جانا ہوتا ہے، صرف بڈھی نوکرانی کی موجودگی اور آپ کی غیر حاضری میں ناشتہ کیسے کرتے ہیں۔ کپڑے کیوں کر تبدیل کرتے ہیں اور پھر آپ کا بچہ بھی تو ہے اس کی دیکھ بھال کون کرتا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیر آپ کی صحت کے لئے مفید ہے۔ اس سیر کا اثر آپ کے شوہر پرکیا پڑے گا۔ کیا آپ نے اس کی بابت کچھ غور کیا ہے…. میں نے پرسوں مسٹر کرپلانی کو دیکھا ان کی حالت قابل رحم تھی۔ آپ نے سر پر ہیٹ الٹا رکھا تھا۔ اور اگر میری نگاہوں نے دھوکہ نہیں دیا۔ تو ان کے بوٹ کا ایک تسمہ کھلا ہوا تھا۔ جو بار بار ان کے پاؤں میں الجھ، رہا تھا، کل بھی آپ کی حالت ایسی ہی تھی، ان کی پتلون…. شکنوں سے بھر پور تھی، اور ٹائی کی گرہ بھی درست نہیں تھی۔
اگر آپ کی صبح کی سیر اسی طرح جاری رہی تو مجھے اندیشہ ہے، ایک روز مسٹر کرپلانی اس افراتفری میں دفتر کا رخ کریں گے۔ کہ راہ چلتی عورتوں کو اپنی آنکھیں بند کرنی پڑیں گی۔
اور ہاں ، دیکھئے کل آپ نے جو ساڑھی پہن رکھی تھی، وہ آپ کی نہیں ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مسز ایڈوانی نے یہ ساڑھی پچھلی دیوالی پر خریدی تھی، دوسروں کے کپڑے پہننا بہت معیوب ہے۔ آپ کے پاس کم از کم بیس ساڑھیاں موجود ہیں۔ مسز ایڈوانی کی ساڑھی مستعار لے کر آپ نے کیوں پہنی۔ یہ میں ابھی تک نہیں سمجھ سکی۔
ایک بات اور ، وہ یہ کہ آپ کو بغیر آستینوں کا بلاؤز اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ آپ کے کاندھوں پر ضرورت سے زیادہ گوشت ہے۔ جس کی نمائش آنکھوں پر بہت گراں گذرتی ہے۔ آپ کے جسم کا یہ عیب آستینوں والے بلاؤز میں چھپ جاتا ہے۔ اس لئے آپ کو ہمیشہ اسی تراش کا بلاؤز پہننا چاہئے؟
اونچی ایڑی کا شوز آپ کیوں پہنتی ہیں …. آپ کا قد ماشاءاللہ کافی اونچا ہے۔ پرسوں آپ نے غیر معمولی ایڑی کا سینڈل پہن رکھا تھا۔ معاف فرمائیے۔ معلوم ہوتا تھا کہ آپ پیروں کے ساتھ اسٹول بندھے ہوئے ہیں۔اونچی ایڑی کا جوتا پہن کر آپ آسانی سے چل بھی، نہیں سکتیں …. خواہ مخواہ کیوں اپنے آپ کو تکلیف دیتی ہیں۔
آپ کی……..
***
دوسرا خط مسز ایڈوانی کے نام
محترم بہن
تسلیمات۔ میں نے پیچھے دنوں آپ کو باندرہ میلے پر چند سہیلیوں کے ساتھ دیکھا تھا، آپ نے پیلے رنگ کی جارجٹ کی ساڑھی پہن رکھی تھی۔ بورڈ ر کے بغیر، بلاؤز کالی ساٹن کا تھا، کھلے گلے کا آستینوں کے بغیر گلے پر زرد رنگ کی ساٹن کا پائپنگ تھا اور سامنے سینے پر اسی رنگ کا پھول۔ پاؤں میں آپ کے سنہری سینڈل تھی۔ چھاتا سیاہ رنگ کا تھا۔ جس کی مونٹھ زرد رنگ کے سیلولائیڈ کی تھی…. کالے بالوں میں پیلا ربن تھا۔ سیاہی اور زردی کا یہ میل مجھے بہت پسند آیا تھا۔ آپ کے ذوق کی میں ، بے حد معترف ہوں۔ رنگوں کے صحیح احترام کا آپ خوب سلیقہ رکھتی ہیں۔ مگر کل آپ جب بس پر سے اتریں تو مجھے یہ دیکھ کر سخت صدمہ ہوا کہ آپ نے کالی ساڑھی کے ساتھ بھوسلے رنگ کا بلاؤز پہن رکھا ہے۔ آپ کے بالوں میں نیلا ربن گندھا ہے اور جوتا سفید کینوس کا پہن رکھا ہے۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ ایسی اعلیٰ ذوق رکھنے والی خاتون نے کیوں کر ایسے بھونڈے لباس میں باہر نکلنا گوارا کیا۔ اور پھر غضب یہ ہے کہ آپ بس میں کہیں دور گئی تھیں۔ آئندہ اگر میں نے آپ کو ایسے بے تکے لباس میں دیکھا تو مجھے اتنا صدمہ ہو گا کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔
ایک بات اور میری سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ کی نوکرانی اتنا سنگھار کیوں کرتی ہے؟ اس کی عمر میرے اندازے کے مطابق اٹھارہ برس ہے۔ بظاہر وہ کنواری ہے۔ اس عمر میں اور خاص کر کنوار پنے میں اس کا یوں بن سنور کر سودا سلف لینے باہر بازار میں نکلنا اتنا خطرناک نہیں۔ جتنا کہ اس کا آپ کے گھر میں اپنے سنگھار پر توجہ دینا ہے۔ آپ عموماً گھر سے باہر رہتی ہیں اور مسٹر ایڈوانی چونکہ دفتر نہیں جاتے اور اس لئے وہ اکثر گھر ہی میں رہتے ہیں …. آپ کی، غفلت حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ میں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہہ سکتی۔
میرا خیال ہے کہ آپ کی دائیں آنکھ بائیں آنکھ سے کچھ، چھوٹی ہے…. اگر آپ چشمہ پہنا کریں تو عیب بالکل دور ہو جائے گا۔ کیونکہ شیشوں میں سے یہ معمولی فرق نظر نہ آئے گا۔
ہاں ، یہ آپ سہیلیوں کو اپنی ساڑھیاں پہننے کے لئے کیوں دیے دیا کرتی ہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ بدعت معاشرتی نقطہ نظر سے بڑی ہے۔ اس کے علاوہ سہیلیاں خواہ کتنی ہی محتاط ہوں ، مستعار کپڑے کو نہایت بے دردی کے ساتھ استعمال کرتی ہیں۔ اگر آپ کو یقین نہ ہو تو اس سفید ساڑھی کو غور سے دیکھئے۔ جو آپ نے، مسز کرپلانی کو پہننے کے لئے دی تھی۔ اس کا تلے کا کام کئی جگہ سے اکھڑ گیا ہے۔
بازار میں چلتے وقت آپ بار بار ساڑھی کا پلو نہ سنبھالا کریں۔ مجھے اس سے بڑی الجھن پیدا ہوتی ہے۔
آپ کی……..
***
تیسرا خط مسٹر ایوب خان انسپکٹر پولیس کے نام
مکرمی محترمی۔ سلام مسنون
کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ دن میں دو بار اپنی ڈاڑھی منڈوانا چھوڑ دیں …. میں سمجھتی ہوں کہ نارمل آدمی کی ڈاڑھی کے بال نارمل حالت میں اتنے جلدی کبھی نہیں اُگتے۔ پولیس اسٹیشن جاتے ہوئے اور وہاں سے شام کو آتے ہوئے آپ کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ سیلون میں داخل ہو جائیں۔ میرا خیال ہے کہMANTA آپ کو ہو گیا ہے۔ اگر آپ کا دماغی توازن درست ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ دن میں دو بار صبح و شام اپنی ڈاڑھی پر استرا پھیرائیں۔ کیا سیلون کا نائی آپ کی اس عجیب و غریب عادت پر زیر لب کبھی نہیں مسکرایا۔‘‘
اور پھر یہ آپ اپنے سر کے بال کس طور سے کٹواتے ہیں ؟…. واللہ بہت برے معلوم ہوتے ہیں ، گردن سے لے کر کھوپڑی کے بالائی حصے تک آپ بالوں کا صفایا کرا دیتے ہیں اور کانوں کے اوپر تک باریک مشین پھروا کر آخر آپ کیا فیشن پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت آپ کی گردن بہت بھدی ہے اور آپ کے سر کے نچلے حصے پر پھوڑوں کے نشان ہیں۔ جو صرف بال ہی چھپا سکتے ہیں۔ اور کیا آ پ نے کبھی غور فرمایا ہے کہ بار بار مونڈنے سے آپ کی گردن موٹی ہو جائے گی۔
آپ کے کان بہت بڑے ہیں۔ جس فیشن کی حجامت کا آپ کو شوق ہے اس سے یہ اور بھی زیادہ بڑے دکھائی دیتے ہیں۔ میری رائے ہے کہ آپ قلمیں رکھیں اور کانوں کے قریب سے بال زیادہ نہ کٹوائیں۔ گردن پر اگر آپ تھوڑے سے بال اُگنے دیں تو کوئی حرج نہیں۔ اس سے آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔
ہاتھ میں چھڑی لے کر جب آپ بازار میں چلتے ہیں تو دماغ میں اس خیال کو جگہ نہ دیا کریں کہ ہر اسکول کی جانے والی لڑکی آپ کو دیکھ رہی ہے۔ کسی شائستہ مذاق لڑکی کی آنکھیں آپ کی طرف نہیں اٹھ سکتیں۔ اس لئے کہ آپ اپنے کندھوں پر ایسا بھونڈا سر اٹھائے پھرتے ہیں۔ جس کو ،آپ کے ایجاد کردہ فیشن نے اور بھی زیادہ بد نما بنا رکھا ہے۔ بار بار آپ اپنے کوٹ سے کیا جھاڑا کرتے ہیں ؟ کیا گردو غبار کے ذرے صرف آپ ہی کے کوٹ پر آ بیٹھے ہیں …. یا پھر آپ حد سے زیادہ نفاست پسند ہیں ؟
کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ چالیس برس کے ہونے پر بھی آپ کنوارے ہیں ؟ اگر یہ سچ ہے تو اس سے آپ کو،عبرت حاصل کرنا چاہئے۔ میرا مشورہ لیجئے۔ اور دن میں دو بار سیلون میں جا کر ڈاڑھی منڈوانا چھوڑ دیجئے۔ خدا آپ کی حالت پر رحم کرے
آپ کی مخلص……..
***
چوتھا خط مس ڈی سلوا کے نام
ڈیئر مس ڈی سلوا
تمہاری حالت پر مجھے بہت افسوس ہوتا ہے تم روز بروز موٹی ہو رہی ہو۔ اگر تمہارا موٹاپا اسی رفتار سے بڑھتا گیا تو مجھے اندیشہ ہے کہ تم کسی مرد کے قابل نہ رہو گی۔ اسکول جانے کے لئے جب تم’’ جم‘‘ پہن کر گھر سے نکلتی ہو تو میرے دل میں عجیب و غریب خیال پیدا ہوتے ہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ اس کرسمس پر تم ڈانس کیسے کر سکو گی۔ ایک دو قدموں ہی میں تمہارا پسینہ چھوٹ جائے گا۔ اور تمہارا ساتھی کیونکر تمہاری بانہوں کو حسب منشا حرکت میں لا سکے گا۔ تمہاری بغلوں کے نیچے اس قدر گوشت جمع ہو رہا ہے۔ کہ تم ڈانس کرنے کے بالکل قابل نہیں رہی ہو۔ خدا کے لئے اپنا علاج کرو اور اس موٹاپے کو جلد از جلد ختم کرنے کی کوشش کرو۔
ایک نصیحت میری اور سن لو۔ شام کو تم ہر زور ٹیرس پر اکیلی جاتی ہو۔ اور سامنے والے مکان پر ڈی کوسٹا کے بڑے لڑکے کو اشارے کرتی رہتی ہو۔ اول تو یہ شریف لڑکیوں کا کام نہیں۔ دوسرے یہ اشارے چربی بھرے، گوشت کے مانند بھدے اور بے لذت ہوتے ہیں۔ تم جیسی موٹی لڑکیوں کو ایسی اشارہ بازی نہیں کرنی چاہئے۔ اس لئے کہ اشارہ ایک لطیف یعنی باریک اور پتلی چیز کا نام ہے، تمہارے اشارے،اشارے نہیں ہوتے، ان کے لئے مجھے کوئی اور نام تلاش کرنا ہو گا۔
جس لونڈے کے ساتھ تم رومان لڑانا چاہتی ہو،اس کے متعلق بھی سن لو۔وہ ایک آوارہ مزاج لڑکا ہے، ڈھائی مہینے سے کالی کھانسی میں مبتلا ہے۔ ماں باپ نے ناقابل اصلاح سمجھ کر اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ اس کے پاس صرف تین پتلونیں ہیں۔ جن کو بدل بدل کر پہنتا ہے، ہر روز اپنی قمیص اور پتلون پر دوبارہ استری کرتا ہے۔ تاکہ باہر کے لوگوں کی نظروں میں اس کی وضع داری قائم رہے۔ مجھے ایسے آدمیوں سے نفرت ہے۔
تم اپنی پنڈلیوں کے بال استرے سے نہ مونڈا کرو۔ بال اڑانے کے سب پاؤڈر اور سب کریمیں بھی فضول ہیں بال ہمیشہ کے لئے کبھی غائب نہیں ہو سکتے۔ اس لئے تم اپنی پنڈلیوں پر ظلم نہ کرو۔ بال رہنے دو۔ لمبی جرابیں ، پہنا کرو۔‘‘
تمہارا دوست آج دوپہر کو اپنا پھٹا ہوا جوتا خود مرمت کر رہا تھا!
تمہاری خیر خواہ……..
***
پانچواں خط کو شلیا دیوی کے نام
شریمتی کو شلیا دیوی۔ نمسکار
اس میں کوئی شک نہیں۔ اپنے گھر میں ہر شخص کو اختیار ہے کہ وہ آرام دہ سے آرام دہ لباس پہنے اور تکلفات سے آزاد رہے۔ مگر دیوی جی آپ ململ کی باریک دھوتی پہن کر اس آزادی سے نا جائز فائدہ اٹھا رہی ہیں اور پھر یہ دھوتی آپ کچھ اس’’ بے تکلفی‘‘ سے پہنتی ہیں کہ جب آپ اتفاق سے، نظر آ جائیں تو سوچنا پڑتا ہے۔ کہ آپ کو کس زاویے سے دیکھا جائے۔
آپ کو معلوم ہونا چاہئے۔ روشنی کے سامنے کھڑے ہونے سے آپ کی ململ کی دھوتی کا وجود ہونے نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ آپ کی عمر اس وقت چوالیس برس کے قریب ہے۔ عمر کی اس زیادتی نے آپ کے جسم کو بالکل ڈھیلا کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باریک دھوتی سے، آپ کی بھدی ٹانگوں کی نمائش آنکھوں پر’’ گوہانجنی‘‘ بن کر رہ جاتی ہے۔
آپ کے فلیٹ کا دروازہ عام طور پر کھلا رہتا ہے اور میں نے اکثر آپ کو باورچی خانہ کے پاس یہی باریک دھوتی پہنے دیکھا ہے۔ اگر آپ کو اس کا استعمال ترک نہیں کرنا ہے تو براہ کرم اپنے فلیٹ کا دروازہ بند رکھا کریں۔
آپ کی……..
***
چھٹا خط مسٹر سعید حسن جرنلسٹ کے نام
جناب من تسلیم۔
آپ ہر روز صبح بالکونی میں پتلون پہنتے ہیں۔ آپ کا بھی فعل کمیونزم کی بد ترین مثال ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ خط آپ پڑھ کر ضرور شرمسار ہوں گے، اور آئندہ سے پتلون شریف آدمیوں کی طرح اپنے کمرے میں پہنا کریں گے۔
مخلص……..
مکرر۔ آپ کے بال بہت بڑھ گئے ہیں۔ سیلون آپ کے مکان کے نیچے ہے۔ ہمت کر کے آج ہی کٹوا دیں۔
***
ساتواں خط مسز قاسمی کے نام
خاتون مکرم۔ السلام علیکم!
میں بہت عرصہ سے آپ کو خط لکھنے کا ارادہ کر رہی تھی۔ مگر چند در چند وجوہ کے باعث ایسا نہ کر سکی۔ میں نے سنا ہے کہ دو گھروں میں نفاق پیدا کرنے کے لئے آپ کو بہت سے گُر زبانی یاد ہیں۔ مسز ایڈوانی اور مسز کرپلانی کے درمیان ایک دفعہ آپ ہی کی کوششوں سے رنجش پیدا ہوئی تھی۔ اور پچھلے دنوں سیٹھ گوپال داس کی لڑکی پشپا کے بارے میں آپ نے جو افواہیں مشہور کی تھیں۔ ان سے سیٹھ گوپال داس اور رام داس کے خاندانوں میں اچھا خاصہ ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔ مجھے آپ کی صلاحیتوں کا اعتراف ہے۔ مگر میں ، سوچتی ہوں کہ ابھی تک آپ کے اور مسز قانون گو کے درمیان کشیدگی پیدا کیوں نہیں ہوئی۔ اب تک آپ نے جس عورت کو اپنی سہیلی بنایا ہے اس سے تیسرے چوتھے مہینے آپ کی توتو میں میں ضرور ہوتی ہے لیکن مسز قانون گو سے آپ کی دوستی کو چھ مہینے ہو گئے ہیں جو کئی برسوں کے برابر ہیں۔ میں اب زیادہ دیر تک انتظار نہیں کر سکتی۔ اس مہینے میں مسز قانون گو سے آپ کی چخ پخ ضرور ہو جانی چاہیے۔ آپ کو اپنی روایات برقرار رکھنی چاہئیں۔
ہاں یہ ضرور بتائیے کہ آپ کہاں پیدا ہوئی تھیں۔ یہ تو مجھے معلوم ہے کہ آپ پنجاب کی رہنے والی ہیں۔ مگر آپ کا چہرہ نیپالیوں ، اور تبتیوں سے کیوں ملتا جلتا ہے؟ آپ کی ناک بالکل نیپالیوں کی طرح چپٹی ہے اور گالوں کی ہڈیاں بھی انہی کی طرح ابھری ہوئی ہیں البتہ آپ کا قد ان کی طرح پست نہیں۔
آپ نے عید پر جو ساڑھی پہنی تھی، مجھے پسند نہ آئی، آپ کا ذوق نہایت فضول ہے۔ اگر آپ بھڑ کیلے اور شوخ رنگوں کے بجائے ہلکے رنگ کے کپڑے انتخاب کیا کریں تو بہت اچھا ہو۔ لمبے قد کی عورتوں کو کھڑی لکیروں کی قمیص نہیں پہننی، چاہئے۔ اس سے وہ اور لمبی ہو جاتی ہیں ، اسی طرح آپ کو پف سلیوز کا بلاؤز نہیں پہننا چاہئے۔ کیونکہ لمبے قد کی عورتوں کے لئے یہ موزوں نہیں ہوتا۔ اور پھر آپ تو ویسے ہی دبلی پتلی ہیں۔ آپ کے کاندھے پر بلاؤز کے اٹھے ہوئے’’ پف‘‘ بہت برے معلوم ہوتے ہیں۔
آپ کی خیر اندیش……..
***
آٹھواں خط مس راجکماری کے نام
مس راجکماری۔
مجھے تم سے نفرت ہے، تم عورت نہیں ہو سوٹ کیس ہو۔
تم سے نفرت کرنے والی….
***
نواں خط مسٹر صالح بھائی کنٹریکٹر کے نام
جناب صالح صاحب۔ تسلیم!
مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں۔ لیکن پھر بھی میں آپ کو پسند نہیں کرتی، نہ معلوم کیا وجہ ہے کہ آپ کو دیکھ کر میرے دل میں غیظ و غضب پیدا ہو جاتا ہے۔ آپ بہت شریف آدمی ہے،آپ کی شکل و صورت میں کوئی خاص بُری نہیں۔ لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کو میں نا پسندیدگی کی نگاہ سے کیوں دیکھتی ہو۔
آپ کے چہرے پر یتیمی برستی ہے، آپ کی چال بھی نہایت واہیات ہے۔
آپ کی ہمدرد……..
***
دسواں خط مس رضیہ صلاح الدین کے نام
ڈیئر مس رضیہ۔ سلام مسنون!
تم ابھی ابھی پنجاب کے کسی گاؤں سے آئی ہو۔ پہلے ساڑھی پہننے کی عادت اختیار کرو،پھر اس لباس میں باہر نکلو۔ تمہیں یہ لباس پہننے کا بالکل سلیقہ نہیں ہے۔ خدا کے لئے اپنے آپ کو تماشا نہ بناؤ۔
تمہاری خیر خواہ……..
٭٭٭
مصری کی ڈلی
پچھلے دنوں میری روح اور میرا جسم دونوں علیل تھے۔ روح اس لئے کہ میں نے دفعتاً اپنے ماحول کی خوفناک ویرانی کو محسوس کیا تھا۔ اور جسم اس لئے کہ میرے تمام پٹھے سردی لگ جانے کے باعث چوبی تختے کے مانند اکڑ گئے تھے، دس دن تک میں اپنے کمرے میں پلنگ پر لیٹا رہا…. پلنگ…. اس چیز کو پلنگ ہی سمجھ لیجئے۔ جو لکڑی کے چار بڑے پائیوں ، پندرہ بیس چوبی ڈنڈوں اور ڈیڑھ دو من وزنی مستطیل آہنی چادر پر مشتمل ہے۔ لوہے کی یہ بھاری بھرکم چادر، نواڑ اور سوتلی کا کام دیتی ہے۔ اس پلنگ کا فائدہ یہ ہے کہ کھٹمل دور رہتے ہیں اور یوں بھی کافی مضبوط ہے( یعنی صدیوں تک قائم رہ سکتا ہے)
یہ پلنگ میرے پڑوسی سلیم صاحب کا عنایت کردہ ہے۔ میں زمین پر سوتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے یہ پلنگ جو انہیں کمرے کے ساتھ ملا تھا مجھے دے دیا۔ تاکہ میں سخت فرش پر سونے سے بجائے لوہے کی چادر پر آرام کروں ، سلیم صاحب اور ان کی بیوی کو میرا بہت خیال ہے اور میں ان کا بہت ممنون ہوں۔ اگر میں معمولی سے معمولی چارپائی بھی بازار سے لیتا تو کم از کم چار پانچ روپے خرچ ہو جاتے۔
خیر، چھوڑیئے اس قصے کو۔ میں یہ بات کر رہا تھا کہ پچھلے دنوں میری روح اور میرا جسم دونوں علیل تھے۔ دس دن اور دس راتیں میں نے ایسے خلا میں بسر کیں۔ جس کی تفصیل میں بیان ہی نہیں کر سکتا۔ بس ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں ہونے اور نہ ہونے کے بیچ میں کہیں لٹکا ہوں لو ہے کے پلنگ پر لیٹے لیٹے یوں بھی میرا جسم شل ہو گیا تھا دماغ ویسے ہی منجمد تھا جیسے یہ کبھی تھا ہی نہیں میں کیا عرض کروں میری کیا حالت تھی۔
دس دن اس ہیبت ناک خلا میں رہنے کے بعد میرے جسم کی علالت دور ہو گئی۔
دس بجے کا عمل تھا۔ دھوپ سامنے کار خانے کی بلند چمنی سے پہلو بجاتی، کمرے کے فرش پر لیٹ رہی تھی۔ میں لوہے کے پلنگ پر سے اٹھا تھکے ہوئے جسم میں انگڑائی سے حرکت پیدا کرنے کی کوشش کے بعد جب میں نے کمرے کی طرف نگاہ دوڑائی تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ کمرہ وہ نہیں تھا۔ جو پہلے ہوا کرتا تھا۔میں نے غور سے دیکھا۔ دائیں ہاتھ کونے میں ڈریسنگ ٹیبل تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا میز ہمارے کمرے میں ہوا کرتا تھا۔ مگر اس کا پالش اتنا چمکیلا کبھی نہیں تھا۔ اور بناوٹ کے اعتبار سے بھی اس میں اتنی خوبیاں میں نے نہیں دیکھی تھی۔ کمرے کے وسط میں جو بڑا میز پڑا رہتا تھا وہ بھی مجھے نا مانوس معلوم ہوا۔ اس کا بالائی ہشت پہلو تختہ چمک رہا تھا۔ دیوار پر پانچ چھ تصویریں آویزاں تھیں جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔
ان میں سے ایک تصویر میری نگاہ میں جم گئی میں بڑھا اور اس کو قریب سے دیکھا جدید فوٹو گرافی کا عمدہ نمونہ تھا۔ ہلکے بھوسلے رنگ کے کاغذ پر ایک جواں سال لڑکی کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ بال کٹے ہوئے تھے اور کانوں پر سے، ادھر کواڑ رہے تھے، سینہ سامنے سے ناف کے ننھے سے دباؤ تک ننگا۔ اس نرم و نازک عریانی کو اس کی گوری باہیں جو اس کے چہرے تک اٹھی ہوئی تھیں ، چھپانے کی دلچسپ کوشش کر رہی تھیں۔ پتلی پتلی لمبے لمبے ناخنوں والی انگلیوں میں سے چہرے کی حیا چھن چھن کر باہر آ رہی تھی۔ کہنیوں نے ننھے سے پیٹ کے اختتامی خط پر آپس میں جڑ کر ایک دلکش تکون بنا دی تھی۔ جس میں سے، ناف کا گدا گدا گڈھا جھانک رہا تھا۔ اگر اس چھوٹے سے گڈھے میں ڈنڈی گاڑ دی جاتی تو اس کا پیٹ سیب کا بالائی حصہ بن جاتا۔
میں دیر تک اس نیم عریاں و نیم مستور شباب کو دیکھتا رہا۔ مجھے حیرت تھی کہ یہ تصویر کہاں سے آ گئی۔ اسی حیرت میں غرق، میں غسل خانے کی طرف بڑھا۔ کمرے کے چوتھے، کونے میں نل کے نیچے فرش میں سل لگی ہوئی ہے۔ اس کے ایک طرف چھوٹی سی منڈیا بنا دی گئی ہے۔ یہ جگہ جہاں جست کی بالٹی، صابن دانی، دانتوں کے دو برش، ڈاڑھی مونڈنے کے دو استرے، صابن لگانے کی دو کوچیاں ، منجن کو بوتل، اور پانچ چھ استعمال شدہ اور زنگ آلود بلیڈ پڑے رہتے ہیں۔ ہمارا غسل خانہ ہے۔ نذیر صاحب جن کا یہ کمرہ ہے۔ علی الصبح بیدار ہونے کے عادی ہیں۔ چنانچہ ڈاڑھی مونڈ کر وہ فوراً ہی غسل خانے سے فارغ ہو جاتے ہیں۔ میں سویا رہتا ہوں۔ اور وہ مزے سے ننگے نہاتے رہتے ہیں۔
اس غسل خانے کی طرف جاتے ہوئے میں نے ایک بار پھر تمام چیزوں پر نگاہ دوڑائی۔ اب مجھے وہ کسی قدر مانوس معلوم ہوئیں۔ منڈیر پر میرا استرا اور گھسا ہوا برش اسی طرح پڑا تھا۔ جس طرح میں ہر روز دیکھا کرتا تھا، بالٹی بھی بلا شک و شبہ وہی تھی جو ہر روز نگاہوں کے سامنے آتی تھی۔ اس میں ڈونگا بھی وہی تھا جس میں جا بجا گڑھوں میں میل جما رہتا تھا۔
منڈیر پر بیٹھ کر جب میں نے برش سے دانت گھسنے شروع کئے تو میں نے سوچا کہ کمرہ وہی ہے جس میں ایک سو بیس راتیں میں گذار چکا ہوں۔ راتیں میں نے غور کیا…. معاملہ صاف ہو گیا۔ کمرے اور اس کی اشیاء کے نامانوس ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ میں نے اس میں صرف ایک سو بیس راتیں ہی گذاری تھیں صبح سات یا آٹھ بجے جلدی جلدی کپڑے بدل کر جو میں ایک دفعہ باہر نکل جاتا تو پھر رات کو گیارہ بارہ بجے کے قریب لوٹنا ہوتا تھا۔ اس صورت میں یہ کیونکر ممکن تھا کہ مجھے کمرے کی ساخت اور اس پر پڑی ہوئی چیزوں کو دیکھنے کا موقعہ ملتا اور پھر نہ کمرہ میرا ہے اور نہ اس کی کوئی چیز میری ملکیت ہے۔ اور یہ بھی تو سچی بات ہے کہ بڑے شہر انسانیت کے مر قدو مدفن ہوتے ہیں۔
میں جس ماحول میں چار مہینے سے زندگی بسر کر رہا ہوں اس قدر یکساں اور ایک آہنگ ہے کہ طبیعت ہار ہار کر اکتا گئی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ شہر چھوڑ کر کسی ویرانے میں چلا جاؤں۔صبح جلدی جلدی نہانا۔ پھر عجلت میں کپڑے پہن کر دفتر میں کاغذ کالے کرتے رہنا، ہاں وہاں سے شام کو فارغ ہو کر ایک اور دفتر میں چھ سات گھنٹے اسی اکتا دینے والے کام میں مصروف رہنا اور رات کے گیارہ بارہ بجے اندھیرے ہی میں کپڑے اتار کر سلیم کے دیئے ہوئے پلنگ پر سونے کی کوشش کرنا…. کیا یہ زندگی ہے؟
زندگی کیا ہے؟…. یہ بھی میری سمجھ میں نہیں آتا میں سمجھتا ہوں کہ یہ اونی جراب ہے۔ جس کے دھاگے کا ایک سر ا ہمارے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے۔ہم اس جراب کو ادھیڑتے رہتے ہیں۔ جب ادھیڑتے ادھیڑتے دھاگے کا دوسرا سرا ہمارے ہاتھ میں آ جائے گا۔ تو یہ طلسم جسے زندگی کہا جاتا ہے ٹوٹ جائے گا۔
جب زندگی کے لمحات کٹتے محسوس ہوں اور حافظے کی تختی پر کچھ نقش چھوڑ جائیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ آدمی زندہ ہے۔ اور اگر مہینوں گذر جائیں اور یہ محسوس تک نہ ہو کہ مہینے گذر گئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے۔ کہ’’ انسان کی حسیات مردہ ہو گئی ہیں۔ زندگی کی کتاب میں اگر اوپر تلے خالی اوراق ہی شامل ہوتے چلے جائیں تو کتنا دکھ ہوتا ہے۔ دوسروں کو بھی اس کا احساس ہوتا ہے یا کہ نہیں۔ اس کی بابت میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن میں تو اس معاملے میں بہت حساس ہوں۔ زندگی کی یہ خالی کاپی جو ہمارے ہاتھ میں تھمائی گئی ہے۔ آخر اسی لئے تو ہے کہ اس کے ہر ورق کو ہم استعمال کریں۔ اس پر کچھ لکھیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مجھے کوئی ایسی بات ہی نہیں ملتی جس کے متعلق میں کچھ لکھوں۔ لے دے کر میری اس کاپی میں صرف دو تین ورق ایسے ہیں جن پر میں نقش و نگار بنے دیکھتا ہوں۔ یہ ورق مجھے کتنے عزیز ہیں اگر آپ ان کو نوچ کر باہر نکال دیں۔ تو میری زندگی ایک بیا بان بن جائے گی۔ آپ یقین کیجئے۔ میری زندگی واقعی چٹیل میدان کی طرح ہے۔ جس میں اُن بیتے ہوئے دنوں کی یہ سہانی یاد ایک خوبصورت قبر کی طرح لیٹی ہوئی ہے، چونکہ میں نہیں چاہتا کہ اچھے دنوں کی یہ سہانی رات مٹ جائے۔ اس لئے میں اس قبر پر ہر وقت مٹی کا لیپ کرتا رہتا ہوں۔
میرے سامنے دیوار پر ایک پرانا کیلنڈر لٹک رہا ہے۔ جس کے میلے کاغذ پر چیڑ کے لانبے لانبے درختوں کی تصویر چھپی ہے۔ میں اسے ایک عرصہ سے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہوں اس کے پیچھے دور بہت دور مجھے اپنی زندگی کے کھوئے ہوئے ٹکڑے کی جھلک نظر آ رہی ہے۔
میں ایک پہاڑی کے دامن میں چیڑوں کی چھاؤں میں بیٹھا ہوں بیگو بڑے بھولے پن سے گھٹنے ٹیک کر اپنا سر میرے قریب لاتی ہے اور کہتی ہے آپ مانتے ہی نہیں …. سچ میں بوڑھی ہو گئی ہوں ، اب بھی یقین نہ آئے گا۔ لیجئے میرے سر میں سفید بال دیکھ لیجئے۔
چودہ برس کی دیہاتی فضا میں پلی ہوئی جوان لڑکی مجھ سے کہہ رہی تھی کہ میں بوڑھی ہو گئی ہوں معلوم نہیں کہ وہ کیوں اس بات پر زور دینا چاہتی تھی۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی مرتبہ مجھ سے یہی بات کہہ چکی تھی۔ میرا خیال ہے کہ جوان آدمی کو شباب کے دائرے سے نکل کر بڑھاپے کے دائرے میں داخل ہونے کی بڑی خواہش ہوتی ہے۔ یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ میرے دل میں بھی اس قسم کی خواہش کئی، بار پیدا ہو چکی ہے۔ میں نے متعدد بار سوچا ہے۔ کہ میری کنپٹیوں پر اگر سفید سفید بال نمودار ہو جائیں تو چہرے کی متانت اور سنجیدگی میں اضافہ ہو جائے گا۔ کنپٹیوں پر اگر سفید بال ہو جائیں تو چاندی کے مہین تاروں کی طرح چمکتے ہیں اور دوسرے سیاہ بالوں کے درمیان بھلے دکھائی دیتے ہیں ممکن ہے کہ بیگو کو یہی چاؤ ہو کہ اس کے بال سفید ہو جائیں اور اپنی کم عمری کے با وجود بڈھی دکھائی دے۔
میں نے اس کے خشک گرم نرم بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرنا شروع کی اور کہا۔’’ تم بوڑھی نہیں ہو سکتیں۔‘‘
اس لئے کہ تم میں آس پاس کے درختوں ، پہاڑوں اور ان میں بہتے ہوئے نالوں کی ساری جوانی جذب ہو گئی ہے!
وہ قریب سے قریب سرک آئی اور کہنے لگی۔’’ جانے آپ کیا اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں۔ بھئی میری سمجھ ، میں تو کچھ بھی نہیں آیا …. درختوں اور پہاڑوں کی بھی جوانی ہوتی ہے۔‘‘
’’ تمہاری سمجھ میں آئے نہ آئے پر میں نے تو جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا۔‘‘
’’ بہت اچھا کیا آپ نے…. پر آپ میرے بالوں میں اس طرح کرتے رہیں۔‘‘ بیگو نے اپنے ہاتھ سے سر کو کھجلاتے ہوئے کہا۔’’ مجھے بڑا مزہ آتا ، ہے۔‘‘
’’ بہت اچھا جناب۔‘‘ کہہ کر میں نے انگلیوں سے اس کے بالوں میں کنگھی کرنا شروع کر دی اور آنکھیں بند کر لیں۔ اس کو مزہ آ ہی رہا تھا، مجھے خود ہی مزہ آنے لگا۔ میں یہ کرنے لگا کہ اس کے بال میرے الجھے ہوئے خیال ہیں۔ جن کو میں اپنے ذہن کی انگلیوں سے ٹٹول رہا ہوں۔‘‘ دیر تک میں اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتا رہا۔ وہ خاموشی سے سر جھکائے لیٹی رہی۔ پھر اس نے اپنی خمار آلود نگاہیں میری طرف اٹھائیں اور نیند میں بھیگی ہوئی آواز میں کہا۔’’ میں اگر سو گئی تو؟‘‘
’’ میں جاگتا رہوں گا؟‘‘
نیم خوابیدہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پیدا ہوئی اور وہ زمین پر وہیں میرے سامنے لیٹ گئی، تھوڑی دیر کے بعد نیند نے اس کو اپنی آغوش میں لے لیا۔
بیگو سور ہی تھی۔ مگر اس کی جوانی جاگ رہی تھی۔ جس طرح سمندر کی پر سکون سطح کے نیچے گرم لہریں دوڑتی رہتی ہیں۔ بائیں بازو کو سرکے نیچے رکھے اور ٹانگوں کو اکٹھا کئے وہ سو رہی تھی۔ اس کا ایک بازو میری جانب سرکا ہوا تھا۔میں اس کی پتلی انگلیوں کی مخروطی تراش دیکھ رہا تھا کہ ان میں خفیف سی کپکپاہٹ پیدا ہوئی، جیسے مٹر کی پھلیاں ارتعاش پذیر ہو جائیں۔ یہ ارتعاش اس کی انگلیوں سے شروع ہو کر اس کے سارے جسم پر پھیل گیا۔ جس طرح تالاب میں پھینکی ہوئی کنکری اس کی آبی سطح پر چھوٹا سا بھنور پیدا کرتی ہے اور یہ بھنور دائرے بناتا ہوا پھیلتا جاتا ہے۔ اسی طرح وہ کپکپاہٹ اس کی انگلیوں سے شروع ہو کر اس کے سارے جسم پر پھیل گئی۔ نہ جانے اس کی جوانی کیسے ارتعاش پیدا کرنے والے خواب دیکھ رہی تھی۔
اس کے نچلے ہونٹ کے کونوں میں خفیف سی تھرتھراہٹ کتنی بھلی معلوم ہوتی تھی۔ اس کے سینے کے ابھار میں دل کی دھڑکنیں زندگی پیدا کر رہی تھیں۔ گریبان کے نچلے دو بٹن کھلے تھے۔ اس طرح جسم سے تھوڑی سی نقاب اٹھ گئی تھی، اور دو نہایت ہی پیاری قوسیں باہر جھانک رہی تھیں ، سینے کی ننھی سی وادی میں دونوں طرف کے ابھار بڑی خوبصورتی سے آپس میں گھل مل گئے تھے۔
میری نگاہ اس کے سینے پر کرتے کی ایک طرف بنی ہوئی جیب پر رک گئی۔ اس میں خدا معلوم کیا کچھ بیگو نے ٹھونس رکھا تھا کہ وہ ایک گیند سی بن گئی تھی۔ میرے دل میں دفعتاً یہ معلوم کرنے کا اشتیاق پیدا ہوا کہ اس میں کیا کیا چیزیں ہیں ، آہستہ سے اس کی جیب تلاشی لینے کا ارادہ جب میں نے کیا تو وہ جاگ پڑی۔ سیدھی لیٹ کر اس نے دھیرے دھیرے اپنی آنکھیں کھولیں۔ لمبی لمبی پلکیں جو آپس میں ملی ہوئی تھیں تھر تھرائیں۔ اس نے نیم باز آنکھوں سے میری طرف دیکھا پھر اس کے ہونٹوں پر ہلکے سے تبسم نے انگڑائی لی اور کہا۔ آپ بڑے وہ ہیں ؟
’’ کیوں میں نے کیا کیا ہے؟‘‘
وہ اٹھ بیٹھی۔’’ ابھی آپ نے کچھ کیا ہی نہیں۔ میں سچ مچ سو گئی اور آپ نے جگانے تک کی تکلیف نہ کی۔ میں اگر ایسے ہی شام تک سوتی رہتی تو؟‘‘ تو اس نے آنکھوں کی پتلیاں نچائیں اور دفعتاً کچھ یاد کر کے کہا۔’’ ہائے میرے اللہ …. میں اپنی جان ہیر کو بھول ہی گئی۔‘‘
سامنے پہاڑی پر اُگی ہوئی سبز جھاڑیوں کی طرف جب اس نے دیکھا تو اطمینان کا سانس لے کر کہنے لگی۔’’ کتنی اچھی ہے میری ہیر۔‘‘
اس کو اپنی بھینس کی فکر تھی، جو ہمارے سامنے پہاڑی پر گھاس چر رہی تھی۔
میں نے اس سے پوچھا۔’’ تمہاری ہیر تو موجود ہے پر رانجھا کہاں ہے؟‘‘
’’ رانجھا؟‘‘ اس کے لب مسکراہٹ کے ساتھ کھلے، آنکھوں ہی آنکھوں میں اس نے مجھے کچھ بتانے کی کوشش کی۔ اور پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔’’ رانجھا‘‘…. رانجھا…. رانجھا۔‘‘ اس نے یہ لفظ کئی مرتبہ دہرایا۔’’ میری ہیر کا رانجھا…. مجھے کیا معلوم نگوڑا کہاں ہے؟‘‘
میں نے کہا۔’’ تمہاری ہیر کا کوئی رانجھا تو ضرور ہو گا، مجھ سے چھپانا چاہتی ہو تو الگ بات ہے۔‘‘
’’ اس میں چھپانے کی بات ہی کیا ہے۔‘‘ بیگو نے آنکھیں مٹکا کر کہا۔’’ اور اگر کوئی ہے تو ہیر کو معلوم ہو گا۔ چاہے ا س سے پوچھ لیجئے۔ پر کان میں کہئے گا اور آہستہ سے کہئے گا۔ بتاؤ تمہارا رانجھا کہاں ہے؟‘‘
’’ میں نے پوچھ لیا۔‘‘
’’ کیا جواب ملا؟‘‘
’’ بولی بیگو سے پوچھ لو۔ وہی سب کچھ جانتی ہے۔‘‘
’’ جھوٹ…. جھوٹ۔ اس کا اول جھوٹ، اس کا آخر جھوٹ۔ بیگو بچوں کی طرح اچھل اچھل کر کہنے لگی۔’’ میری ہیر تو بڑی شرمیلی ہے۔ ایسے سوالوں کا وہ کبھی جواب دے ہی نہیں سکتی۔ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ اس نے تو آپ کو غصے میں کہا تھا، چلو ہٹو، کنواریوں سے ایسی باتیں کرتے تمہیں شرم نہیں آتی۔‘‘
’’ یہی کہا تھا اور اس کا جواب اس کو یوں ملا تھا، یہ تمہارا اتنا بڑا بچھڑا کہاں سے آ گیا ہے۔ کیا آسمان سے ٹپک پڑا تھا۔‘‘
بیگو یہ بچھڑے والی دلیل سن کر لاجواب ہو گئی۔ مگر وہ چونکہ لاجواب ہونا نہیں چاہتی تھی۔ اس لئے اس نے بیکار چلانا شروع کر دیا۔’’ جی ہاں آسمان ہی سے ٹپکا تھا۔ اور سب چیزیں آسمان ہی سے تو آتی ہیں …. نہیں میں ’’بھولی…. اس بچھڑے کو تو میری ہیر نے گود لیا ہے یہ اس کا بچہ نہیں کسی اور کا ہے…. اب بتائیے آپ کے پاس کیا جواب ہے؟‘‘
میں نے ہار مان لی۔ اس لئے کہ میری نگاہیں پھر اس کی ابھری ہوئی جیب پر پڑیں۔ جس میں خدا معلوم کیا کچھ ٹھونسا ہوا تھا…. میں ہار گیا…. آپ کی ہیر کنواری ہے۔ دنیا کی سب بھینسیں اور گائیں کنواریاں ہیں۔ میں کنوارا ہوں ، آپ کنوار ی ہیں ، لیکن یہ بتائیے کہ آپ کی اس کنواری جیب کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘
اس نے اپنی پھولی ہوئی جیب دیکھتی تو دانتوں میں انگلی دبا کر میری طرف ملا مت بھری نظروں سے دیکھ کر کہا۔’’ آپ کو شرم نہیں آتی…. کیا ہوا ہے میری جیب کو، میری چیزیں پڑی ہیں اس میں۔‘‘
’’ چیزیں …. اس سے تمہارا مطلب؟‘‘
’’ آپ تو بال کی کھال نکالتے ہیں۔ چیزیں پڑی ہیں میرے کام کی۔’’ اور کیا میں نے پتھر ڈال رکھے ہیں۔‘‘
’’ تو جیب میں تمہارے کام کی چیزیں پڑی ہیں۔ میں پوچھ سکتا ہوں کہ یہ کام کی چیزیں کیا ہیں ؟‘‘
’’ آپ ہر گز نہیں پوچھ سکتے، اگر آپ پوچھیں بھی تو میں نہیں بتاؤں گی۔ اس واسطے کہ آپ نے مجھے اپنے چمڑے، کے تھیلے کی چیزی کب دکھائی ہیں۔ میں اگر آپ سے کہوں بھی تو آپ کبھی نہ دکھائیں گے۔‘‘
’’ میں ایک ایک چیز دکھانے کے لئے تیار ہوں ‘‘…. یہ رہا تھیلا…. میں نے اپنا چرمی تھیلا اس کے سامنے رکھ دیا۔’’ خود کھول کر دیکھ لو۔ مگر یاد رہے مجھے اپنی جیب کی سب چیزیں تمہیں دکھانی پڑیں گی۔‘‘
’’ پہلے میں اس تھیلے کی تلاشی تو لے لوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے میرا تھیلا کھولا اور اس کی سب چیزیں ایک ایک کر کے باہر نکالنا شروع کیں۔ انگریزی کا ایک ناول، کاغذوں کا پیڈ، دو پنسلیں ، ایک ربڑ، دس بارہ لفافے اور آٹھ آنے والے سٹیمپ، خالی لفافہ اور لکھے ہوئے کاغذ کا ایک پلندہ…. یہ میری’’ چیزیں تھیں۔‘‘
جب وہ ایک ایک چیز اچھی طرح دیکھ چکی تو میں نے اس سے کہا۔’’ اب اپنی جیب کا منہ ادھر کر دیجئے۔‘‘
اس نے میری بات کا جواب نہ دیا۔ تھیلے میں تمام چیزیں ، رکھنے کے بعد اس نے مجھ سے تحکمانہ لہجہ میں کہا۔’’ اب اپنی جیب دکھائیے۔‘‘
’’ میں نے اپنی جیب کا منہ کھول دیا۔ اس نے ہاتھ ڈال کر اس میں جو کچھ بھی تھا، باہر نکال لیا، ایک بٹوا اور چابیوں کا گچھا تھا۔ جس میں چھوٹا سا چاقو بھی شامل تھا۔ یہ چاقو کچھے میں سے نکال کر اس نے ایک طرف زمین پر رکھ دیا اور باقی چیزیں مجھے واپس دے دیں۔ یہ چاقو میں نے لے لیا ہے کھیرے کاٹنے کے کام آئے گا۔‘‘
’’ لے لو یہ مجھے ٹالنے کی کوشش نہ کرو…. میں جب تک تمہاری جیب کی ایک ایک چیز نہ دیکھ لوں۔ چھوڑوں گا نہیں۔‘‘
’’ اگر میں نہ دکھاؤں تو؟‘‘
’’ لڑائی ہو جائے گی۔‘‘
’’ ہو جائے…. میں ڈر تھوڑی جاؤں گی۔‘‘ یہ کہہ کر فوراً ہی اپنے دو پیٹے کا تنبو بنا کر اس میں چھپ گئی اور جیب میں سے کچھ نکالنے لگی۔ اس پر میں نے رعب دار آواز میں کہا۔’’ دیکھو یہ بات ٹھیک نہیں ، تم کچھ چھپا رہی ہو۔‘‘
’’ آپ مان لیجئے۔ میں سب کچھ دکھا دوں گی….اللہ کی قسم سب چیزیں ایک ایک کر کے دکھا دوں گی…. یہ تو میں اپنے من سمجھوتے کے لئے کر رہی ہوں۔‘‘
میں نے پھر رعب دار آواز میں کہا۔’’ کیا کر رہی ہو۔ میں تمہاری سب چالاکیاں سمجھتا ہوں۔ سیدھے من سے تمام، چیزیں دکھا دو۔ ورنہ میں زبر دستی سب کچھ دیکھ لوں گا۔‘‘
تھوڑی دیر کے بعد وہ دوپٹے سے باہر نکل آئی اور آگے بڑھ کر کہنے لگی۔’’ دیکھ لیجئے!‘‘
میں اس کی جیب میں ہاتھ ڈالنے ہی والا تھا کہ اس کے تنے ہوئے سینے کو دیکھ کر رگ گیا…. تم خود ہی ایک ایک چیز نکال کر مجھے دکھاتی جاؤ…. لو اتنا لحاظ میں تمہارا کئے دیتا ہوں۔ یوں تمہاری ایمان داری بھی معلوم ہو جائے گی۔‘‘
’’ نہیں آپ خود نکالتے جائیے، بعد میں آ پ کہیں گے، میں نے سب چیزیں نہیں دکھائیں۔‘‘
’’ میں دیکھ جو رہا ہوں۔ تم نکالتی جاؤ۔‘‘
’’جیسے آپ کی مرضی۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے آہستہ سے اپنی جیب میں دو انگلیاں ڈالیں اور سرخ رنگ کے ریشمی کپڑے کا ایک ٹکڑا باہر نکالا، اس پر میں نے پوچھا۔’’ کپڑے کا یہ بیکار سا ٹکڑا تم ساتھ ساتھ کیوں لئے پھرتی ہو؟‘‘
’’ جی آپ کو کیا معلوم، یہ بہت بڑھیا کپڑا ہے، میں اس کا رومال بناؤں گی۔ جب بن جائے گا تو پھر آپ دیکھئے گا، جی ہاں ‘‘ یہ کہہ کر اس نے کپڑے کا ٹکڑا اپنی جھولی میں رکھ لیا، پھر جیب سے کچھ نکالا اور بند مٹھی میرے بہت قریب لا کر کھول دی، سیلو لائیڈ کے تین مستعمل کلپ، ایک چابی او سیپ کے دو بٹن، اس کی ہتھیلی پر مجھے نظر آئے!
میں نے اس سے کہا۔’’ یہ اپنی جھولی میں رکھ لو اور باقی چیزیں جلد ی جلدی نکالو۔‘‘
اس نے جیب میں جلدی جلدی ہاتھ ڈال کر باری باری یہ چیزیں باہر نکالیں ، سفید دھاگے کی گولی اس میں پھنسی ہوئی زنگ آلود سوئی، لڑکی کی میلی کچیلی کنگھی، چھوٹا سا آئینہ اور ایک پیسہ!
میں نے اس سے پوچھا۔’’ کوئی اور چیز باقی تو نہیں رہی؟‘‘
’’ جی نہیں۔‘‘ اس نے اپنے سر کو جنبش دی، سب چیزیں آپ کے سامنے رکھ دی ہیں۔ اب کوئی باقی نہیں رہی۔
’’ غلط‘‘۔ میں نے اپنا لہجہ بدل کر کہا۔’’تم جھوٹ بولتی ہو اور جھوٹ بھی ایسا بولتی ہو جو بالکل کچا ہو۔ ابھی ایک چیز باقی ہے۔‘‘ جونہی یہ لفظ میرے منہ سے نکلے، غیر ارادی طور پر اس کی نگاہیں یک لخت اپنے، دوپٹے کی طرف مڑیں۔ میں نے تاڑ لیا کہ اس نے کچھ چھپا رکھا ہے۔’’بیگو سیدھے من سے مجھے یہ چیز دکھا دو جو تم نے چھپائی ہے، ورنہ یاد رکھو وہ تنگ کروں گا کہ عمر بھر یاد رکھو گی، گدگدی ایسی چیز ہے کہ….‘‘
گدگدی کے تصور ہی نے اس کے جسم کو اکٹھا کر دیا۔ وہ سکڑ سی گئی اس پر میں نے ہوا میں اپنے ہاتھوں کی انگلیاں نچائیں۔’’ یہ انگلیاں ایسی گدگدی کر سکتی ہیں کہ جناب کو پہروں بھی ہوش نہ آئے گا۔‘‘
وہ کچھ اس طرح سمٹی جیسے کسی نے بلندی سے ریشمی کپڑے کا تھان’’ کھول کر نیچے پھینک دیا ہے۔‘‘ نہیں ، نہیں …. خدا کے لئے کہیں ایسا نہ کر دیجئے گا…. میں مر جاؤں گی۔‘‘
جب میں سچ مچ اپنے ہاتھ اس کے کندھوں تک لے گیا تو وہ بے تحاشا چیختی، ہنستی سمٹاتی اٹھی اور بھاگ گئی…. دوپٹے میں سے کوئی چیز گری جو میں نے دوڑ کر اٹھا لی…. مصری کی ایک ڈلی تھی جو وہ مجھ سے چھپا رہی تھی…. جانے کیوں ؟
٭٭٭
ماتمی جلسہ
رات رات میں یہ خبر شہر کے اس کونے تک پھیل گئی کہ اتا ترک کمال مر گیا۔ ریڈیو کی تھرتھراتی زبان سے یہ سنسنی پھیلانے والی خبر ایرانی ہوٹلوں میں سٹے بازوں نے سنی جو چائے کی پیالیاں سامنے رکھے آنے والے نمبر کے بارے میں قیاس دوڑا رہے تھے۔ اور وہ سب کچھ بھول کر کمال اتا ترک کی بڑائی میں گم ہو گئے۔
ہوٹل میں سفید پتھر والے میز کے پاس بیٹھے ہوئے ایک سٹوری نے اپنے ساتھی سے یہ خبر سن کر لرزاں آواز میں کہا۔’’ مصطفی کمال مر گیا!‘‘
اس کے ہاتھ سے چائے کی پیالی گرتے گرتے بچی۔’’ کیا کہا مصطفی کمال مر گیا!‘‘
اس کے دونوں میں اتاترک کمال کے متعلق بات چیت شروع ہو گئی۔ ایک نے دوسرے سے کہا۔’’ افسوس کی بات ہے، اب ہندوستان کا کیا ہو گا؟ میں نے سنا تھا یہ مصطفی کمال، یہاں حملہ کرنے والا ہے…. ہم آزاد ہو جاتے، مسلمان قوم آگے بڑھ جاتی…. افسوس، تقدیر کے ساتھ کسی کی پیش نہیں چلتی۔
دوسرے نے جب یہ بات سنی تو اس روئیں بدن پر چیونٹیوں کے مانند سر کنے لگے اس پر ایک عجیب و غریب کیفیت طاری ہو گئی۔ اس کے دل میں جو پہلا خیال آیا یہ تھا۔’’ مجھے کل جمعہ کی نماز شروع کر دینی چاہیے۔‘‘
اس خیال کو بعد میں اس نے مصطفی کمال پاشا کی شاندار مسلمانی اور بڑائی میں تحلیل کر دیا۔
بازار کی ایک تنگ گلی میں دو تین کو کین فروش کھاٹ پر بیٹھے، باتیں کر رہے تھے۔ ایک نے پان کی پیک بڑی صفائی سے بجلی کے کھمبے پر پھینکی اور کہا میں مانتا ہوں ، مصطفی کمال بہت بڑا آدمی تھا لیکن محمد علی بھی کسی سے کم نہیں تھا، یہاں بمبئی میں تین چار ہوٹلوں کا نام اسی پر رکھا گیا ہے۔‘‘
دوسرے نے جو اپنی ننگی پنڈلیوں پر سے ایک کھردرے چاقو سے میل اتارنے کی کوشش کر رہا تھا اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا۔’’ محمد علی کی موت پر بڑی شاندار ہڑتال ہوئی تھی….‘‘
’’ ہاں بھئی تو کل ہڑتال ہو رہی ہے کیا تیسرے نے ایک کی پسلیوں میں کہنی سے ٹہوکا دیا۔ اس نے جواب دیا کیوں نہ ہو گی ارے اتنا بڑا مسلمان مر جائے اور ہڑتال نہ ہو۔‘‘
یہ بات ایک راہ گیرنے سن لی۔ اس نے دوسرے چوک میں اپنے دوستوں سے کہی اور ایک گھنٹے میں ان سب لوگوں کو جو دن کو سونے اور رات کو بازاروں میں جاگتے رہنے کے عادی ہیں معلوم ہو گیا کہ صبح ہڑتال ہو رہی ہے۔
ابو قصائی رات کو دو بجے اپنی کھولی میں آیا۔ اس نے آتے ہی طاق پر سے بہت سی چیزوں کو ادھر ادھر پلٹ کرنے کے بعد ایک پڑیا نکالی اور ایک دیگچی میں پانی بھر کر اس کو اس میں ڈال کر گھولنا شروع کر دیا۔
اس کی بیوی جو دن بھر کی تھکی ماندی ایک کونے میں ٹاٹ، پر سو رہی تھی برتن کی رگڑ سن کر جاگ پڑی۔ اس نے لیٹے لیٹے کہا۔ ’’ آ گئے ہو؟‘‘
’’ ہاں آگیا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر ابو نے اپنی قمیص اتار کر دیگچی میں ڈال دی اور اسے پانی کے اندر مسلنا شروع کر دیا۔
اس کی بیوی نے پوچھا۔’’ تم یہ کیا کر رہے ہو!‘‘ مصطفی کمال مرگیا ہے۔ کل ہڑتال ہو رہی ہے!‘‘ اس کی بیوی یہ سن کر گھبراہٹ کے مارے اٹھ کھڑی ہوئی۔’’ کیا مارا ماری ہو گی؟ میں تو ان ہر روز کے فسادوں سے تنگ آ گئی ہوں۔‘‘ وہ سر پکڑ کر رہ گئی۔ میں نے تجھ سے ہزار مرتبہ کہا ہے۔کہ تو’’ ہندوؤں کے اس محلے سے اپنا مکان بدل ڈال پر نہ جانے تو کب سنے گا!‘‘
ابو جواب میں ہنسنے لگا۔ اری پگلی…. یہ ہندو مسلمانوں کا فساد نہیں ہے۔مصطفی کمال مر گیا ہے …. وہی جو بہت بڑا آدمی تھا۔ کل اس کے سوگ میں ہڑتال ہو گی۔‘‘
’’ جانے میری بلا یہ بڑا آدمی کون ہے…. پر یہ تو کیا کر رہا ہے؟‘‘ بیوی نے پوچھا’’ سوتا کیوں نہیں ہے!‘‘ قمیص کو کالا رنگ دے رہا ہوں …. صبح ہی ہڑتال کرانے جانا ہے!‘‘ قمیص، یہ کہہ کر اس نے قمیص نچوڑ کر دو کیلوں کے ساتھ لٹکا دی جو دیوار میں گڑی ہوئی تھیں۔‘‘
دوسرے روز صبح کو سیاہ پوش مسلمانوں کی ٹولیاں کالے جھنڈے لئے بازاروں میں چکر لگا رہی تھیں۔ یہ سیاہ پوش مسلمان دوکانداروں کی دوکانیں بند کرا رہے تھے اور یہ نعرہ لگا رہے تھے۔’’ انقلاب زندہ باد۔انقلاب زندہ باد۔‘‘
ایک ہندو نے جو اپنی دوکان کھولنے کے لئے جا رہا تھا۔ یہ نعرے سنے اور نعرے لگانے والوں کو دیکھا تو چپ چاپ ٹرام میں بیٹھ کر وہاں سے کھسک گیا۔ دوسرے ہندو اور پارسی دوکانداروں نے جب مسلمانوں کے ایک گروہ کو چیختے چلاتے اور نعرے مارتے دیکھا تو انہوں نے جھٹ پٹ دو کانیں بند کر لیں۔
دس پندرہ سیاہ پوش گپیں ہانکتے ایک بازار سے گذر رہے تھے۔ ایک نے اپنے ساتھی سے کہا۔’’ دوست ہڑتال ہوئی تو خوب ہے، پر ویسی نہیں ہوئی، جیسی محمد علی کی ٹیم پر ہوئی تھی…. ٹرامیں تو اسی طرح چل رہی ہیں۔‘‘
اس ٹولی میں جو سب سے جوشیلا تھا۔ اور جس کے ہاتھ میں سیاہ جھنڈا تھا، تنگ کر بولا۔آج بھی نہیں چلیں گی!‘‘ یہ کہہ کر وہ اس ٹرا م کی طرف بڑھا جو لکڑی کے ایک شیڈ کے نیچے مسافروں کو اتار رہی تھی۔ ٹولی کے باقی آدمیوں نے اس کا ساتھ دیا اور ایک لمحہ کے اندر سب کے سب ٹرام کی سرخ گاڑی کے ارد گرد تھے۔ سب مسافر زبر دستی اتار دیئے گئے۔
’’ شام کو ایک وسیع میدان میں ماتمی جلسہ ہوا۔ شہر کے سب ہنگامہ پسند جمع تھے۔ خوانچہ فروش اور پان بیڑی والے چل پھر کر اپنا سودا بیچ رہے تھے۔ جلسہ گاہ کے باہر عارضی دوکانوں کے پاس ایک میلہ لگا ہوا تھا۔ چاٹ کے چنوں اور ابلے ہوئے آلوؤں کی خوب بکری ہو رہی تھی۔
جلسہ گاہ کے اندر اور باہر بہت بھیڑ تھی۔ کھوئے سے کھوا چھلتا تھا۔ اس ہجوم میں کئی آدمی ایسے بھی چل پھر رہے تھے۔ جو یہ معلوم کرنے کی کوشش میں تھے کہ اتنے آدمی کیوں جمع ہو رہے ہیں۔ ایک صاحب گلے میں دور بین لٹکائے ادھر ادھر چکر کاٹ رہے تھے دور سے اتنی بھیڑ دیکھ کر اور یہ سمجھ کر کہ پہلوانوں کا دنگل ہو رہا ہے۔ وہ ابھی ابھی اپنے گھر سے نئی دور بین لے کر دوڑے دوڑے آ رہے تھے اور اس کا امتحان لینے کے لئے بیتاب ہو رہے تھے، میدان کے آہنی جنگلے کے پاس دو آدمی کھڑے آپس میں بات چیت کر رہے تھے اور ایک نے اپنے ساتھی سے کہا۔’ ’بھئی یہ مصطفی کمال تو واقعی کوئی بہت بڑا آدمی تھا…. میں جو صابن بنانے والا ہوں ، اس کا نام’’ کمال سوپ‘‘ رکھوں گا…. کیوں کیسا رہے گا؟‘‘
دوسرے نے جوا ب دیا’’ وہ بھی برا نہیں تھا۔‘‘ جو تم نے پہلے سوچا تھا۔’’ جناح سوپ…. یہ جناح مسلم لیگ کا بہت بڑا لیڈر ہے!‘‘
’’ نہیں نہیں کمال سوپ اچھا رہے گا…. بھائی مصطفی کمال اس سے بڑا آدمی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے ساتھی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔’’ آؤ چلیں جلسہ شروع ہونے والا ہے۔‘‘وہ دونوں جلسہ گاہ کی طرف چل دئیے۔ جلسہ شروع ہوا۔
آغاز میں نظمیں گائی گئیں۔ جن میں مصطفی کمال کی بڑائی کا ذکر تھا، پھر ایک صاحب تقریر کرنے کے لئے اٹھے، آپ نے کمال اتا ترک کی عظمت بڑے بلند بانگ لفظوں میں بیان کرنا، شروع کی۔ حاضر ین جلسہ اس تقریر کو خاموشی سے سنتے رہے جب کبھی مقرر کے یہ الفاظ گونجتے۔’’ مصطفی کمال نے درہ_¿ دانیال سے انگریزوں کو لات مار کر باہر نکال دیا۔‘‘ یا ’’ کمال نے یونانی، بھیڑوں کو اسلامی خنجر سے ذبح کر ڈالا۔‘‘ تو اسلام زندہ باد کے نعروں سے کانپ کانپ اٹھتا۔‘‘
یہ نعرے مقرر کی قوت گویائی کو اور تیز کر دیتے اور وہ زیادہ جوش سے اتاترک کمال کی عظیم الشان، شخصیت پر روشنی ڈالنا شروع کر دیتا۔
مقرر کا ایک ایک لفظ حاضرین جلسہ کے دلوں میں ایک جوش و خروش پیدا کر رہا تھا۔
جب تک تاریخ میں گیلی پولی کا واقعہ موجود ہے، برطانیہ کی گردن ٹرکی کے سامنے قلم رہے گی۔ صرف ٹرکی ہی ایک ایسا ملک ہے۔ جس نے برطانوی حکومت کا کامیاب مقابلہ کیا اور صرف مصطفی کمال ہی ایسا مسلمان ہے جس نے غازی صلاح الدین ایوبی کی سپاہیانہ عظمت کی یاد تازہ کی، اس نے بہ نوک شمشیر یورپی ممالک سے اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔ ٹرکی کو یورپ کا مرد بیمار کہا جاتا تھا۔ مگر کمال نے اسے صحت اور قوت بخش کر مرد آہن بنا دیا۔‘‘
’’ جب یہ الفاظ جلسہ گاہ میں بلند ہوئے تو’’ انقلاب زندہ باد، انقلاب زندہ باد‘‘ کے نعرے پانچ منٹ تک متواتر بلند ہوتے رہے۔‘‘
اس سے مقرر کا جوش اور بڑھ گیا۔ اس نے اپنی آواز کو اور بلند کر کے کہنا شروع کیا۔’’ کمال کی عظمت مختصر الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی۔ اس نے اپنے ملک کے لئے وہ خدمات سرانجام دی ہیں جن کو بیان کرنے کے لئے کافی وقت چاہئے…. اس نے ٹرکی میں جہالت کا دیوالہ نکال دیا۔ تعلیم عام کر دی تھی نئی روشنی کی شعاعوں کو پھیلایا۔ یہ سب کچھ اس نے تلوار کے زور سے کیا۔ اس نے دین کو جب علم سے علیحدہ کیا تو بہت سے قدامت پسندوں نے اس کی مخالفت کی۔ مگر وہ سر بازار پھانسی پر لٹکا دیئے گئے اس نے جب یہ فرمان جاری کیا کہ کوئی ترک رومی ٹوپی نہ پہنے تو بہت سے جاہل لوگوں نے اس کے خلاف آواز اٹھا نا چاہی۔ مگر یہ آواز ان کے گلے ہی میں دبا دی گئی…. اس نے جب یہ حکم دیا کہ اذان ترکی زبان میں ہو تو بہت سے ملاؤں نے عدول حکمی کی مگر وہ قتل کر دیئے گئے….‘‘
’’یہ کفر بکتا ہے‘‘…. جلسہ گاہ میں ایک شخص کی آواز بلند ہوئی اور فوراً ہی سب لوگ مضطرب، ہو گئے۔
’ یہ کافر ہے…. جھوٹ بولتا ہے۔‘‘ کے نعروں میں مقرر کی آواز گم ہو گئی۔ پیشتر اس کے کہ وہ اپنا ما فی الضمیر بیان کرتا اس کے ماتھے پر ایک پتھر لگا اور وہ چکرا کر اسٹیج پر گر پڑا۔ جلسہ میں بھگدڑ مچ گئی۔
…. اسٹیج پر مقرر کا ایک دوست اس کے ماتھے پر سے خون پونچھ رہا تھا….اور جلسہ گاہ ان نعروں سے گونج رہی تھی’’…. مصطفی کمال زندہ باد‘‘…. ’’ مصطفی کمال زندہ باد‘‘….’’مصطفی کمال زندہ باد۔‘‘
٭٭٭
قبض
نئے لکھے ہوئے مکالمے کا کاغذ میرے ہاتھ میں تھا۔ ایکٹر اور ڈائریکٹر کیمرے کے پاس سامنے کھڑے تھے، شوٹنگ میں بھی کچھ دیر تھی۔ اس لئے کہ اسٹوڈیو کے ساتھ والا صابن کا کار خانہ چل رہا تھا۔ ہر روز اس کار خانے کی شور کی بدولت ہمارے سیٹھ صاحب کا کافی نقصان ہوتا تھا۔ کیونکہ شوٹنگ کے دوران میں ایکا ایکی جب اس کار خانے کی کوئی مشین چلنا شروع ہو جاتی تو کئی کئی ہزار فٹ فلم کا ٹکڑا بیکار ہو جاتا۔ اور ہمیں نئے سرے سے کئی سینوں کی دوبارہ شوٹنگ کرنا پڑتی۔
ڈائریکٹر صاحب ہیرو اور ہیروئن کے درمیان کیمرے کے پاس کھڑے سگریٹ پی رہے تھے۔ اور میں سستانے کی خاطر کرسی پر ٹانگیں سمیت بیٹھا تھا۔ وہ یوں کہ میری دونوں ٹانگیں کرسی کی نشست پر تھیں۔ اور میرا بوجھ نشست کے بجائے ان پر تھا۔ میری اس عادت پر بہت سے لوگوں کا اعتراض ہے۔ مگر یہ واقعہ ہے کہ مجھے اصلی آرام صرف اسی طریقے پر بیٹھنے سے ملتا ہے۔
نینا جس کی دونوں آنکھیں بھینگی تھیں۔ ڈائریکٹر صاحب کے پاس آیا اور کہنے لگا۔’’ صاحب‘ بولتا ہے کہ تھوڑا کام باقی رہ گیا ہے پھر شور بند ہو جائے گا۔‘‘
یہ روز مرہ کی بات تھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ ابھی آدھ گھنٹے تک کار خانے میں صابن کٹتے اور ان پر ٹھپے،لگتے رہیں گے۔ چنانچہ ڈائریکٹر صاحب ہیرو اور ہیروئن سمیت اسٹوڈیو سے باہر چلے گئے۔ میں وہیں کرسی پر بیٹھا رہا۔
سقفی لیمپ کی ناکافی روشنی میں سیٹ پر جو چیزیں پڑی تھیں ان کا درمیانی فاصلہ اصلی فاصلے پر کچھ زیادہ دکھائی دے رہا تھا۔ اور گیروے رنگ کے تھری پلائی وڈ کے تختے جو دیواروں کی صورت میں کھڑے تھے۔ پست قد دکھائی دیتے تھے۔ میں اس تبدیلی پر غور کر رہا تھا کہ پاس ہی سے آواز آئی۔ ’’السلام علیکم‘‘۔ میں نے جواب دیا۔’’ وعلیکم السلام۔‘‘اور مڑ کر دیکھا تو مجھے ایک نئی صورت نظر آئی۔ میری آنکھوں میں۔’’ تم کون ہو؟‘‘ کا سوال تیر نے لگا آدمی ہوشیار تھا، فوراً کہنے لگا۔جناب میں آج ہی آپ کی کمپنی میں داخل ہوا ہوں ،…. میرا نام عبد الرحمن ہے۔ خاص دہلی شہر کا، رہنے والا ہوں …. آپ کا وطن بھی تو شاید دہلی ہی ہے۔!
’’ میں نے کہا جی نہیں …. میں پنجاب کا باشندہ ہوں۔‘‘
عبد الرحمن نے جیب سے عینک نکالی۔’’ معاف فرمائیے گا۔‘‘ چونکہ ڈائریکٹر صاحب نے عینک اتار دینے کا حکم دیا تھا اس لئے….
اس دور ان میں اس نے عینک بڑی صفائی سے کانوں میں اٹکا لی اور میری طرف پسندیدہ نگاہوں سے دیکھنا شروع کر دیا۔’’ واللہ میں تو یہی سمجھا تھا کہ آپ دہلی کے ہیں ، یعنی آپ کی زبان میں قطعاً پنجابیت نہیں …. ماشاءاللہ کیا مکالمہ لکھا ہے…. قلم توڑ دیا ہے واللہ…. یہ اسٹوری بھی تو آپ ہی نے لکھی ہے؟‘‘
’ عبد الرحمن نے جب یہ باتیں کیں تو اس کا قد بھی میری نظر میں تھری پلائی وڈ کے تختوں کی طرح پست ہو گیا۔ روکھے پن سے کہا۔’’جی نہیں ‘‘
وہ اور زیادہ لچکیلا ہو گیا۔’’ عجب زمانہ ہے صاحب، جو اہلیتوں کے مالک ہیں ان کو کوئی پوچھتا ہی نہیں …. یہ بمبئی شہر بھی تو میری سمجھ میں بالکل نہیں آیا، عجب اوٹ پٹانگ زبان، بولتے ہیں یہاں کے لوگ، پندرہ دن مجھے یہاں آئے ہو گئے ہیں ، مگر کیا عرض کروں سخت پریشان ہو گیا ہوں ، آج آپ سے ملاقات ہو گئی …. اس کے بعد اس نے اپنے ہاتھ مل کر اس روغن کی مروڑیاں بنانا شروع کر دیں جو چہرے پر، لگاتے وقت اس کے ہاتھوں پر رہ گیا تھا۔
میں نے جواب میں صرف’’ جی ہاں۔‘‘ کر دیا اور خاموش ہو گیا۔
تھوڑی دیر کے بعد میں نے کاغذ کھولا اور روا داری میں لکھے ہوئے مکالموں پر نظر ثانی شروع کر دی۔ چند غلطیاں جن کو درست کرنے کے لئے میں نے اپنا قلم نکالا۔ عبد الرحمن ابھی تک میرے پاس کھڑا تھا، مجھے اس کے کھڑے ہوئے نے کے انداز سے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔ چنانچہ ، میں نے پوچھا۔’’ فرمائیے۔‘‘
اس نے بڑی لجاجت کے ساتھ کہا۔’’ میں ایک بات عرض کروں۔‘‘
’’ بڑے شوق سے۔‘‘
’’ آپ اس طرح ٹانگیں اوپر کر کے نہ بیٹھا کریں۔‘‘
’’ کیوں ؟‘‘
اس نے جھک کر کہا۔’’ بات یہ ہے کہ اس طرح بیٹھنے سے قبض ہو جایا کرتا ہے۔‘‘
’’قبض؟‘‘ میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ قبض کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ کہہ کر میرے جی میں آئی کہ اس سے کہوں ’’ میاں ہوش کی دوا کرو۔ گھاس تو نہیں کھا گئے۔
مجھے اس طرح بیٹھتے بیس برس ہو گئے۔ آج کیا تمہارے، کہنے سے مجھے قبض ہو جائے گا۔‘‘ مگر یہ سوچ کر چپ ہو گیا۔ کہ بات بڑھ جائے گی۔ اور مجھے بے کار کی مغز دردی کرنا پڑے گی!
وہ مسکرایا۔ عینک کے شیشوں کے پیچھے اس کی آنکھوں کے آس پاس کا گوشت سکڑ گیا۔’’ آپ نے مذاق سمجھا ہے، حالانکہ صحیح بات یہی ہے کہ ٹانگیں جوڑ کر پیٹ کے ساتھ لگا کر بیٹھنے سے معدے کی حالت خراب ہو جاتی ہے، میں نے اپنی نا چیز رائے پیش کی ہے۔ مانیں نہ مانیں یہ آپ کو اختیار ہے۔‘‘
میں عجب مشکل میں پھنس گیا۔ اس کو اب میں کیا جواب دیتا قبض…. یعنی قبض ہو جائے گا۔ بیس برس کے، دوران میں مجھے قبض نہ ہوا۔ لیکن آج اس مسخرے کے، کہنے سے مجھے قبض ہو جائے گا۔ قبض کھانے پینے سے ہوتا ہے نہ کہ کرسی یا کونچ پر بیٹھنے سے۔ جس طرح میں کرسی پر بیٹھتا ہوں ، اس سے تو آدمی کو راحت ہوتی ہے۔ دوسروں کو نہ سہی لیکن مجھے تو، اس سے آرام ملتا ہے اور یہ سچی بات ہے کہ مجھے ٹانگیں جوڑ کر سینے کے ساتھ لگا دینے سے ایک خاص قسم کی فرحت حاصل ہوتی ہے۔ اسٹوڈیو میں عام طور پر شوٹنگ کے دوران میں کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ جس سے آدمی تھک جاتا ہے۔ دوسرے نا معلوم کس طرح سے اپنی تھکن دور کرتے ہیں۔ مگر میں تو اسی طریقے سے دور کرتا ہوں۔کسی کے کہنے پر میں اپنی یہ عادت کبھی نہیں چھوڑ سکتا، خواہ قبض کے بجائے مجھے سرسام ہو جائے۔ یہ ضد نہیں ، دراصل بات یہ ہے کہ کرسی پر اس طرح بیٹھنے کا انداز میری عادت نہیں بلکہ میرے جسم کا ایک جائز مطالبہ ہے۔
جیسا کہ اس سے پہلے میں عرض کر چکا ہوں۔ اکثر لوگوں کو میرے اس طرح بیٹھنے کے انداز پر اعتراض ہو رہا ہے، اس اعتراض کی وجہ میں نے ان لوگوں سے نہ کبھی پوچھی ہے اور نہ انہوں نے کبھی بتائی ہے۔ اعتراض کی وجہ خواہ کچھ بھی ہو، میں اس معاملے میں دلیل سننے کے لئے بھی تیار نہیں۔ کوئی آدمی بھی مجھے قائل نہیں کر سکتا۔
جب عبد الرحمن نے مجھ پر نکتہ چینی کی تو میں بھنا گیا۔ اور اس کا یوں شکریہ ادا کیا، جیسے کوئی یہ کہے۔’’ لعنت ہو تم پر۔‘‘
اس شکریہ کی رسید کے طور پر اس نے اپنے موٹے ہونٹوں پر میلی سی مسکراہٹ پیدا کی اور خاموش ہو گیا۔ اتنے میں ، ڈائریکٹر ، ہیرو اور ہیروئن آ گئے اور شوٹنگ شروع ہو گئی، میں ، نے خدا کا شکر ادا کیا کہ چلو اسی بہانے عبد الرحمن کے قبض سے نجات حاصل ہو ئی۔
اس کی پہلی ملاقات پر ذیل کی باتیں میرے دماغ میں آئیں :
(1) یہ ایکسٹرا جو کمپنی میں نیا بھرتی ہوا ہے بہت بڑا چغد ہے،
(2) یہ ایکسٹرا جو کمپنی میں نیا بھرتی ہوا ہے سخت بد تمیز ہے۔
(3) یہ ایکسٹرا جو کمپنی نے نیا بھرتی کیا ہے پرلے درجے کا مغز چاٹ ہے۔
(4) یہ ایکسٹرا جو کمپنی میں نیا داخل ہوا ہے مجھے اس سے بیحد نفرت پیدا ہو گئی ہے۔
اگر مجھے کسی شخص سے نفرت پیدا ہو جائے تو اس کا مطلب یہ کہ اس کی زندگی کچھ عرصہ کے لئے زیادہ متحرک ہو جائے گی۔ میں نفرت کرنے کے معاملے میں کافی مہارت رکھتا ہوں۔ آپ پوچھیں گے کہ نفرت کرنے میں مہارت کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن میں آپ سے کہوں گا کہ ہر کام کرنے کے لئے خاص سلیقے کی ضرورت ہوتی ہے اور نفرت میں چونکہ شدت زیادہ ہے۔ اس لئے اس کے عامل کا ماہر ہونا اشد ضروری ہے، محبت ایک عام چیز ہے۔ حضرت آدم سے لے کر ماسٹر نثار تک سب، محبت کرتے آئے ہیں۔ مگر نفرت بہت کم لوگوں نے کی ہے، اور جنہوں نے کی ہے ان میں سے اکثر کو اس کا سلیقہ نہیں آیا۔ نفرت محبت کے مقابلے میں بہت زیادہ لطیف اور شفاف ہے محبت میں مٹھاس ہے جو اگر زیادہ دیر تک قائم رہے تو دل کا، ذائقہ خراب ہو جاتا ہے، مگر نفرت میں ایک ایسی ترشی ہے جو دل کا قوام درست رکھتی ہے۔
میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ نفرت اس طریقے سے کرنا، چاہئے کہ اس میں محبت کا مزہ ملے۔ شیطان سے نفرت کرنے کا جو سبق ہمیں مذہب نے سکھایا ہے مجھے اس سے سو فیصدی اتفاق ہے۔ یہ ایک ایسی نفرت ہے جو شیطان کی شان کے خلاف نہیں اگر دنیا میں شیطان نام کی کوئی ہستی موجود ہے تو وہ یقیناً اس نفرت سے جو کہ اس کے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے خوش ہوتی ہو گی اور سچ پوچھئے تو یہ عالمگیر نفرت ہی شیطان کی زندگی کا ثبوت ہے۔ اگر ہمیں اس سے نہایت ہی بھونڈے طریقے پر نفرت کرنا سکھایا جاتا تو دنیا ایک بڑی ہستی کے تصور سے خالی ہوتی۔
میں نے عبد الرحمن سے نفرت کرنا شروع کر دی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میری اور اس کی دونوں کی زندگی میں حرکت پیدا ہو گئی۔ اسٹوڈیو میں اور اسٹوڈیو کے باہر جہاں کہیں اس سے میری، ملاقات ہوتی، میں اس کی خیریت دریافت کرتا اور دیر تک باتیں کرتا رہتا۔
عبد الرحمن کا قد متوسط ہے اور بدن گٹھا ہوا۔ جب وہ نیکر پہن کر آتا تو اس کی بے بال پنڈلیوں کا گوشت فٹ بال کے نئے کورے چمڑے کی طرح چمکتا ہے۔ ناک موٹی جس کی کوٹھڑی ابھری ہوئی ہے، چہرے کے خطوط منگولی ہیں۔ ما تھا چوڑا جس پر گہرے زخم کا نشان ہے۔ اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی شیطان لڑکے نے اپنے ڈیسک کی لکڑی میں چاقو سے چھوٹا سا گڑھا بنا دیا ہے۔ پیٹ سخت اور ابھرا ہوا حافظ قرآن ہے چنانچہ بات بات میں آیتوں کے حوالے دیتا ہے کمپنی کے دوسرے ایکٹر اس کی اس عادت کو پسند نہیں کرتے اس لئے کہ انہیں احترام کے باعث چپ ہو جانا پڑتا ہے۔
ڈائریکٹر صاحب کو جب میری زبانی معلوم ہوا کہ عبد الرحمن صاف زبان بولتا ہے اور غلطی نہیں کرتا تو انہوں نے اسے ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ایک ہی فلم میں اسے دس مختلف آدمیوں کے بھیس میں لایا گیا۔ سفید پوشاک پہنا کر اسے ہوٹل میں بیرا بنا کر کھڑا کر دیا گیا۔ سر پر لمبے لمبے بال لگا کر اور چمٹا ہاتھ میں دے کر ایک جگہ اس کو سادھو بنا دیا گیا۔ چپڑاسی کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس کے چہرے پر گوند سے لمبی ڈاڑھی چپکا دی گئی۔ ریلوے، پلیٹ فارم پر بڑی مونچھیں لگا کر اس کو ٹکٹ چیکر بنا دیا گیا،…. یہ سب میری بدولت ہوا۔ اس لئے کہ مجھے اس سے نفرت پیدا ہو گئی تھی۔
عبد الرحمن خوش تھا کہ چند ہی دنوں میں وہ اتنا مقبول ہو گیا اور میں خوش تھا کہ دوسرے ایکسٹرا اس سے حسد کرنے لگے ہیں۔ میں نے موقع دیکھ کر سیٹھ سے سفارش کی، چنانچہ تیسرے مہینے، اس کی تنخواہ میں دس روپے کا اضافہ بھی ہو گیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کمپنی کے پچیس ایکسٹراؤں کی آنکھوں میں وہ خار بن کے کھٹکنے لگا…. لطف یہ ہے کہ عبد الرحمن کو اس بات کے متعلق خبر نہ تھی کہ میری وجہ سے اس کی تنخواہ میں اضافہ ہوا ہے۔ اور میری سفارشوں کے باعث کمپنی کے دوسرے ڈائریکٹر اس سے کام لینے لگے ہیں۔
فلم کمپنی میں کام کرنے کے علاوہ میں وہاں ایک مقامی ہفتہ وار اخبار کو ایڈٹ کرتا ہوں۔ ایک روز میں نے اپنا اخبار عبد الرحمن کے ہاتھ میں دیکھا۔ جب وہ میرے قریب آیا تو مسکرا کر اس نے پرچے کی ورق گردانی شروع کر دی۔’’ منشی صاحب…. یہ رسالہ آپ ہی….‘‘
میں نے فوراً جواب دیا۔’’ جی ہاں۔‘‘
ماشاءاللہ، کتنا خوبصورت پرچہ نکالتے ہیں آپ
کل رات اتفاق سے یہ میرے ہاتھ آگیا…. بہت دلچسپ ہے، اب میں ہر ہفتے خریدا کروں گا۔‘‘
یہ اس نے اس انداز میں کہا جیسے مجھ پر احسان کر رہا ہے، میں نے اس کا شکریہ ادا کیا ، چنانچہ بات ختم ہو گئی۔
کچھ دنوں کے بعد جبکہ میں اسٹوڈیو کے باہر نیم کے پیڑ تلے ایک ٹوٹی ہوئی کرسی پر بیٹھا…. اپنے اخبار کے لئے ایک کالم لکھ رہا تھا۔ عبد الرحمن آیا اور بڑے ادب کے ساتھ کھڑا ہو گیا میں نے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا۔’’ فرمائیے۔‘‘
’’ آپ فارغ ہو جائیں تو میں ….‘‘
’’ میں فارغ ہوں …. فرمائیے آپ کو کیا کہنا ہے۔‘‘
اس نے جواب میں ایک رنگین لفافہ کھولا اور اپنی تصویر میری طرف بڑھا دی۔ تصویر ہاتھ میں لیتے ہی جب میری نظر اس پر پڑی تو مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی، یہ ہنسی چونکہ بے اختیار آئی تھی۔ اس لئے میں اسے روک نہ سکا۔ بعد میں جب مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ عبد الرحمن کو یہ ناگوار معلوم ہوئی ہو گی تو میں نے کہا۔ ’’عبد الرحمن صاحب، اتفاق دیکھئے، میں صبح سے پریشان تھا کہ ٹائٹیل پیج کے بعد کا صفحہ کیسے پُر ہو گا، دو تصویروں کے بلاک مل گئے تھے۔ مگر ایک کی کمی تھی…. اس وقت بھی میں یہی سوچ رہا تھا کہ آپ نے اپنا فوٹو میری طرف بڑھا دیا…. بہت اچھا فوٹو ہے…. بلاک بھی اس کا خوب بنے گا۔‘‘
عبد الرحمن نے اپنے موٹے ہونٹ اندر کی طرف سکیڑ لئے۔’’ آپ کی بڑی عنایت ہے …. تو …. کیا یہ تصویر چھپ جائے گی؟‘‘
میں نے تصویر کو ایک نظر دیکھا اور مسکرا کر کہا، کیوں نہیں اس ہفتے ہی کے لئے تو میں یہ کہہ رہا تھا۔‘‘
اس پر عبد الرحمن نے دوبارہ شکریہ ادا کیا۔’’ پرچہ میں تصویر کے ساتھ ایک چھوٹا سا نوٹ بھی نکل جائے تو میں اور بھی ممنون ہوں گا…. جیسا آپ مناسب خیال فرما دیں …. تو…. معاف کیجئے، میں آپ کے کام میں مخل ہو رہا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اپنے ہاتھ آہستہ آہستہ ملتا ہوا چلا گیا۔
میں نے اب تصویر کو غور سے دیکھا۔ آڑی مانگ نکلی ہوئی تھی، ایک ہاتھ میں بھاری بھر کم ڈائریکٹری تھی جس پر چھپے ہوے حروف بتا رہے تھے کہ سن سولہ کی یہ کتاب فوٹو گرافر نے اپنے گاہکوں کو تعلیم یافتہ دکھانے کے لئے ایک یا دو آنے میں خریدی ہو گی۔ دوسرے ہاتھ میں جو اوپر کو اٹھا ہوا تھا ایک بہت بڑا پائپ تھا۔ اس پائپ کی ٹونٹی عبد الرحمن نے اس انداز سے اپنے منہ کی طرف بڑھائی تھی معلوم ہوتا تھا کہ چائے کا پیالہ پکڑے ہے، لبوں پرچائے کا گھونٹ پیتے وقت جو ایک خفیف سا ارتعاش پیدا ہوا کرتا ہے وہ تصور میں اس کے ہونٹوں پر جما ہوا دکھائی دیتا تھا۔ آنکھیں کیمرے کی طرف دیکھنے کے، باعث کھل گئی تھیں۔ ناک کے نتھنے تھوڑے پھول گئے تھے،سینے میں ابھار پیدا کرنے کی کوشش رائیگاں نہیں گئی تھی، کیونکہ وہ اچھا خاصا کار ٹون بن گیا تھا۔ یاد رہے کہ عبد الرحمن انگریزی پڑھنا لکھنا بالکل نہیں جانتا اور تمبا کو سے پرہیز کرتا ہے۔
میں نے اپنی گرہ سے دام خرچ کر کے اس کے فوٹو کا بلاک بنوایا اور وعدے کے مطابق تعریفی نوٹ کے ساتھ پرچے، میں چھپوایا۔
دوسرے روز دس بجے کے قریب میں کمپنی کے غلیظ ریسٹوران میں بیٹھا کڑوی چائے پی رہا تھا کہ عبد الرحمن تازہ پرچہ جس میں اس کی تصویر چھپی تھی۔ ہاتھ میں لئے داخل ہوا اور آداب عرض کر کے میرے پاس کھڑا ہو گیا۔ اس کے ہونٹ اندر کی طرف سمٹ رہے تھے۔ آنکھوں کے آس پاس کا گوشت سکڑ رہا تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ممنون ہو رہا ہے، بغل میں پرچہ دبا کر اس نے ہاتھ بھی ملنے شروع کر دیئے، شکرئیے کے کئی فقرے اس نے دل ہی دل میں بنائے ہوں گے۔ مگر ناموزوں سمجھ کر انہیں منسوخ کر دیا ہو گا۔ جب میں نے اسے اس ادھیڑ بن میں دیکھا تو ماتم پرسی کے انداز میں اس سے کہا’’ تصویر چھپ گئی آپ کی…. نوٹ بھی پڑھ لیا، آپ نے؟‘‘
’’ جی ہاں …. آپ…. کی بڑی نوازش، ہے۔‘‘
ایک دم میرے سینے میں درد کی ٹیس اٹھی۔ میرا رنگ پیلا پڑ گیا۔ یہ درد بہت پرانا ہے۔ جس کے دورے اکثر مجھے پڑتے رہتے ہیں۔ میں اس کے دفیعے کے لئے سینکڑوں علاج کر چکا ہوں مگر لاحاصل چائے پیتے پیتے یہ درد ایک دم اٹھا۔ اور سارے سینے میں پھیل گیا۔ عبد الرحمن نے میری طرف، غور سے دیکھا اور گھبرائے ہوئے لہجہ میں کہا۔’’ آپ کے دشمنوں کی طبیعت ناساز ہے۔‘‘
میں اس وقت ایسے موڈ میں تھا۔ کہ دشمنوں کو بھی اس موذی مرض کا شکار ہوتے دیکھ سکتا۔ چنانچہ میں نے بڑے روکھے پن سے کہا، کچھ نہیں ، میں بالکل۔ ٹھیک ہوں۔
’’ جی نہیں ، آپ کی طبیعت نا ساز ہے….‘‘وہ سخت گھبرا گیا۔’’ میں آپ کی خدمت کر سکتا ہوں۔‘‘
’’ میں بالکل ٹھیک ہوں ، آپ مطلق فکر نہ کریں ، سینے میں معمولی سا درد ہے۔ ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
’’ سینے میں درد ہے‘‘…. یہ کہہ کر وہ تھوڑی دیر کے لئے سوچ میں پڑ گیا۔’’ سینے میں درد ہے تو…. اس کا مطلب ہے کہ آپ کو قبض ہے اور قبض….‘‘
قریب تھا کہ میں بھنا کر اس کو دو تین گالیاں سنا دوں مگر میں نے ضبط سے کام لیا۔’’آپ …. حد کرتے ہیں۔ آپ….سینے کے درد سے قبض کو کیا تعلق ؟‘‘
’’ جی نہیں …. قبض ہو تو ایک سو ایک بیماری پیدا ہو جاتی ہے اور سینے کا درد تو یقیناً قبض ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ آپ کی آنکھوں کی زردی صاف ظاہر کرتی ہے کہ آپ کو پرانا قبض ہے اور جناب، قبض کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کو ایک دو روز تک اجابت نہ ہو۔ جی نہیں۔ آپ جس کو با فراغت سمجھتے ہیں ممکن ہے یہ قبض ہو…. سینہ اور پیٹ تو پھر بالکل پاس پاس ہیں۔ قبض سے تو سر میں درد شروع ہو جاتا ہے…. میرا خیال ہے کہ آپ…. دراصل آپ کی کمزوری کا، باعث بھی یہی قبض ہے۔‘‘
عبد الرحمن چند لمحات کے لئے بالکل خاموش ہو گیا۔ لیکن فوراً ہی اس نے اپنے لہجہ میں زیادہ چکناہٹ پیدا کر کے کہا۔’’آپ نے کئی ڈاکٹروں کا علاج کیا ہو گا…. ایک معمولی سا علاج میرا بھی کر دیکھئے…. خدا کے حکم سے یہ مرض بالکل دور ہو جائے گا۔‘‘
میں نے پوچھا۔’’ کون سا مرض؟‘‘
عبد الرحمن نے زور زور سے ہاتھ ملے۔’’ یہی….یہی، قبض!‘‘
لا حول ولا، اس بیوقوف سے کس نے کہہ دیا کہ مجھے ، قبض ہے۔ صرف میرے سینے میں درد ہے جو کہ بہت پرانا ہے اور سب ڈاکٹروں کی متفقہ رائے ہے کہ اس کا باعث اعصاب کی کمزوری ہے۔ مگر یہ نیم حکیم خطرہ جان برابر کہے جا رہا ہے۔ کہ مجھے قبض ہے۔ قبض ہے، قبض ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ میں غصے میں آ کر اس کے سر پر چائے کا پیالہ دے ماروں ، عجب نا معقول آدمی ہے، اپنی طبابت کا پٹارہ کھول بیٹھا ہے اور سنتا ہی نہیں۔
غصے کے باعث میں بالکل خاموش ہو گیا۔ اس خاموشی کا، عبد الرحمن نے فائدہ اٹھایا اور قبض کا علاج بتانا شروع کر دیا، خدا معلوم اس نے کیا کچھ کیا….
’’ بات یہ ہے کہ پیٹ میں آپ کے سدے پڑ گئے ہیں۔ آپ کو ہر روز اجابت تو ہو جاتی ہے۔ مگر یہ سدے باہر نہیں نکلتے معدے کا فعل چونکہ درست نہیں رہا۔ اس لئے انتڑیوں میں خشکی، پیدا ہو گئی ہے۔ رطوبت یعنی لیس دار مادہ جو فضلے کے نیچے پھیلنے، میں مدد دیتا ہے آپ کے اندر بہت کم ہو گیا ہے۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ رفع حاجت کے وقت آپ کو ضرورت سے زیادہ زور لگانا پڑتا ہو گا۔ قبض کھولنے کے لئے عام طور پر جو انگریزی مسہل دوائیں بازار میں بکتی ہیں بجائے فائدے کے نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس لئے کہ ا ن سے عادت پڑ جاتی ہے اور جب عادت پڑ جائے تو آپ خیال فرمائے کہ ہر روز پاخانہ لانے کے لئے آپ کو دو تین آنے خرچ کرنے پڑیں گے…. یونانی دوائیں اوّل تو ہم لوگوں کے مزاج کے موافق ہوتی ہیں دوسرے….‘‘
میں نے تنگ آ کر اس سے کہا۔’’ آپ چائے پئیں گے؟ اور اس کا جواب سنے بغیر ہوٹل والے کو آرڈر دیا۔’’ گلاب، ان کے لئے ایک ڈبل چائے لاؤ۔‘‘
چائے فوراً ہی آ گئی۔ عبدالرحمن کرسی گھسیٹ کر بیٹھا تو میں اٹھ کھڑا ہوا۔‘‘ معاف کیجئے گا، مجھے ڈائریکٹر صاحب کے سین کے متعلق بات چیت کرنا ہے، پھر گفتگو ہو گی۔‘‘
یہ سب کچھ اس قدر جلدی میں ہوا کہ قبض کی باقی داستان عبد الرحمن کی زبان پر منجمد ہو گئی اور ریسٹوران سے باہر نکل گیا۔ درد شروع ہونے کے باعث میری طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ اس کی باتوں نے اس مکدر میں اور بھی اضافہ کر دیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کیونکر اس بات پر مصر ہے کہ مجھے قبض ہے۔ میری صحت دیکھ کر وہ کہہ سکتا تھا کہ مد قوق ہوں جیسا کہ عام لوگ میرے متعلق کہتے آئے ہیں۔ وہ یہ کہہ سکتا تھا کہ مجھے سل ہے میر ی انتڑیوں میں ورم ہے۔ میرے معدے میں رسولی ہے میرے دانت خراب ہیں مجھے گٹھیا ہے۔ مگر بار بار اس کا اس بات پر زور دینا کیا معنی رکھتا تھا کہ مجھے قبض ہو رہا ہے یعنی اگر واقعی مجھے قبض تھا تو اس کا احساس مجھے…. پہلے ہونا چاہیے تھا نہ کہ حافظ عبد الرحمن کو…. کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ خواہ مخواہ مجھے قبض کا بیمار کیوں بنا رہا تھا۔
ہوٹل سے نکل کر میں ڈائریکٹر صاحب کے کمرے میں چلا گیا وہ کرسی پر بیٹھے ہیرو، ہیروئن اور تین چار ایکٹرسوں کے ساتھ گپیں ہانک رہے تھے۔ آؤٹ ڈور شوٹنگ چونکہ بادلوں کے باعث ملتوی کر دی گئی تھی۔ اس لئے سب کو چھٹی تھی۔ جب مجھے ہیرو کے پاس بیٹھے تین چار منٹ گذر گئے۔ تو معلوم ہوا کہ حافظ عبد الرحمن کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ہمہ تن گوش ہو گیا۔ ایک ایکسٹرا نے اس کے خلاف کافی زہر اگلا۔ دوسرے نے اس کی مختلف عادات کا مضحکہ اڑایا۔ تیسر نے اس کے مکالمے ادا کرنے کی نقل اتاری۔ ہیرو کو حافظ عبدالرحمن کے خلاف یہ شکایت تھی کہ وہ اس کی بول چال میں زبان کی، غلطیاں نکالتا رہتا ہے۔ دلن نے ڈائریکٹر صاحب سے کہا۔’’ بڑا واہیات آدمی ہے صاحب، کل ایک آدمی سے کہہ رہا تھا کہ میرا ایکٹنگ بالکل فضول ہے۔آپ اس کو ایک بار ذرا ڈانٹ کر بنا دیجئے۔
ڈائریکٹر صاحب ان سے مسکرا کر کہنے لگے۔’’ تم سب کو اس کے خلاف شکایت۔ مگر اسے میرے خلاف ایک زبردست شکایت ہے۔‘‘
تین چار آدمیوں نے اکٹھے پوچھا۔’’ وہ کیا۔‘‘
ڈائریکٹر صاحب نے پہلی مسکراہٹ کو طویل بنا کر کہا۔’’ وہ کہتا ہے کہ مجھے دائمی قبض ہے۔ جس کے علاج کی طرف میں نے کبھی غور نہیں کیا میں اس کو کئی بار یقین دلا چکا ہوں کہ مجھے قبض و بض نہیں ہے۔ لیکن وہ مانتا ہی نہیں۔ابھی تک اس بات پر اڑا ہوا ہے کہ مجھے قبض ہے، کئی علاج بھی مجھے بتا چکا ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ، مجھے اس طرح ممنون کرنا چاہتا ہے۔‘‘
میں نے پوچھا۔ ’’ وہ کیسے؟‘‘
یہ کہنے سے کہ مجھے قبض ہے اور اس کا علاج بتانے سے…. وہ مجھے ممنون کرنا چاہتا ہے۔ ورنہ پھر اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ اسے صرف اسی مرض کا علاج معلوم ہے۔یعنی اس کے پاس چند ایسی دوائیں موجود ہیں۔ جس سے قبض دور ہو سکتا ہے۔ چونکہ مجھے وہ خاص طور پر ممنون کرنا چاہتا ہے اس لئے ہر وقت اس تاک میں رہتا ہے کہ جونہی مجھے قبض ہو وہ فوراً علاج شروع کر کے مجھے ٹھیک کر دے۔ آدمی، دلچسپ ہے۔‘‘
ساری بات میری سمجھ میں آ گئی اور میں نے زور زور سے ہنسنا شروع کر دیا۔’’ ڈائریکٹر صاحب…. آپ کے علاوہ حافظ صاحب کی نظر عنایت خاکسار پر بھی ہے…. میں نے کل ان کا فوٹو اپنے پرچے میں چھپوایا ہے۔ اس احسان کا بدلہ اتارنے کے لئے ابھی ابھی ہوٹل میں انہوں نے مجھے یقین دلانے کی کوشش کی کہ مجھے زبردست قبض ہو رہا ہے…. خدا کا شکر ہے کہ میں ان کے اس حملے سے بچ گیا۔ اس لئے کہ مجھے قبض نہیں ہے۔‘‘
اس گفتگو کے چوتھے زور مجھے قبض ہو گیا۔ یہ قبض ابھی تک جاری ہے،یعنی اس کو پورے دو مہینے ہو گئے ہیں۔ میں کئی پیٹنٹ دوائیں استعمال کر چکا ہوں۔ مگر ابھی تک اس سے نجات حاصل نہیں ہوئی، اب میں سوچتا ہوں کہ حافظ عبد الرحمن کو اپنی خواہش پوری کرنے کا ایک موقعہ دے ہی دوں کیا حرج ہے؟…. مجھے اس سے محبت تو ہے ہی نہیں۔‘‘
٭٭٭
ایکٹریس کی آنکھ
’’ پاپوں کی گٹھڑی ‘‘ کی شوٹنگ تمام شب ہوتی رہی تھی، رات کے تھکے ماندے ایکٹر لکڑی کے کمرے میں جو کمپنی کے ولن نے اپنے میک اپ کے لئے خاص طور پر تیار کرایا تھا۔ اور جس میں فرصت کے وقت سب ایکٹر اور ایکٹرسیں سیٹھ کی مالی حالت پر تبصرہ کیا کرتے تھے، صوفوں اور کرسیو پر اونگھ رہے تھے۔ اس چوبی کمرے کے ایک کونے میں میلی سی پتائی کے اوپر دس پندرہ چائے کی خالی پیالیاں اوندھی سیدھی پڑی تھیں جو شاید رات کو نیند کا غلبہ دور کرنے کے لئے ان ایکٹروں نے پی تھیں۔ کمرے کے باہر ان کی بھنبھناہٹ سن کر کسی نووارد کو یہی معلوم ہوتا تھا کہ اندر بجلی کا پنکھا چل رہا ہے۔
دراز قد ولن جو شکل و صورت سے لاہور کا کوچوان معلوم ہوتا تھا۔ ریشمی سوٹ میں ملبوس صوفے پر دراز تھا۔ آنکھیں کھلی تھیں۔ اور منہ بھی نیم وا تھا۔ مگر وہ کراہ رہا تھا۔ اسی طرح، اس کے پاس ہی آرام کرسی پر ایک مونچھوں والا ادھیڑ عمر کا ایکٹر اونگھ رہا تھا۔ کھڑکی کے پاس ڈنڈے سے ٹیک لگائے ایک اور ایکٹر سونے کی کوشش میں مصروف تھا، کمپنی کے مکالمہ نویس یعنی منشی صاحب ہونٹوں میں بیڑی دبائے اور ٹانگیں میک اپ ٹیبل پر رکھے شاید وہ گیت بنانے میں مصروف تھے جو انہیں چار بجے سیٹھ صاحب کو دکھانا تھا۔
’’ اوئی…. اوئی…. ہائے…. ہائے‘‘
دفعتاً یہ آواز باہر سے اس چوبی کمرے میں کھڑکیوں کے راستے اندر داخل ہوئی ولن صاحب جھٹ سے اٹھ بیٹھے اور اپنی آنکھیں ملنے لگے۔ مونچھوں والے ایکٹر لمبے لمبے کانوں سے ایک ارتعاش کے ساتھ اس نسوانی آواز کو پہچاننے کے لئے تیار ہوئے۔ منشی صاحب نے میک اپ ٹیبل پر سے اپنی ٹانگیں اٹھا لیں اور ولن صاحب کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا۔
’’ ائی، اوئی، اوئی…. ہائے …. ہائے۔‘‘
اس پر ولن ، منشی اور دوسرے ایکٹر جو نیم غنودگی کی، حالت میں تھے چونک پڑے، سب نے کاٹھ کے اس بکس نما کمرے سے اپنی گردنیں باہر نکالیں۔
’’ ارے کیا ہے بھئی۔‘‘
’’ خیر تو ہے!‘‘
’’ کیا ہوا؟‘‘
’’ اماں ، یہ تو…. دیوی ہیں !‘‘
’’ کیا بات ہے!دیوی؟‘‘
جتنے منہ اتنی باتیں …. کھڑکی میں سے نکلی ہوئی گردن بڑے اضطراب کے ساتھ متحرک ہوئی اور ہر ایک کے منہ سے گھبراہٹ میں ہمدردی اور ملے جلے استفسار کے، جذبات کا اظہار ہوا۔
’’ ہائے ، ہائے ، ہائے…. اوئی…. اوئی!‘‘
…. دیوی، کمپنی کی ہر دلعزیز ہیروئن کے چھوٹے سے منہ سے چیخیں نکلیں اور باہوں کو انتہائی کرب و اضطراب کے تحت ڈھیلا چھوڑ کر اس نے اپنے چپل پہنے پاؤں کو زور زور سے اسٹوڈیو کی پتھریلی زمین پر مارتے ہوئے چیخنا شروع کر دیا۔
ٹھمکا ٹھمکا بوٹا سا قد۔ گول گول گدریا ہوا ڈیل کھلتی ہوئی گندمی رنگت، خوب خوب کالی بھوئیں ، کھلی پیشانی پر گہرا کسم کا ٹیکہ…. بال کالے بھنورے سے جو سیدھی مانگ نکال کر پیچھے جوڑے کی صورت میں لپیٹ دے کر کنگھی، کئے ہوئے تھے، ایسے معلوم ہوتے تھے جیسے شہد کی مکھیاں چھتے پر بیٹھی ہوئی ہیں۔
کنارے دار سفید سوتی ساڑھی میں لپٹی ہوئی، چولی گجراتی تراش کی تھی، بغیر آستینوں کے جن میں سے جوبن پھٹا پڑتا تھا، ساڑھی بمبئی کی طرز سے بندھی تھی، چاروں طرف میٹھا میٹھا جھول دیا ہوا تھا…. گول گول کلائیاں جس میں کھلی کھلی جاپانی ریشمین چوڑیاں کھنکھنا رہی تھی۔ ان ریشمین چوڑیوں میں کھلی ہوئی ادھر ادھر ولایتی سونے کی پتلی پتلی کنگنیاں جھم جھم کر رہی تھی۔ کان موزوں اور لویں بڑی خوبصورتی کے ساتھ جھکی ہوئیں۔ جن میں ہیرے کے آویزے شبنم کی دو تھراتی ہوئی بوندیں معلوم ہو رہی تھیں۔
چیختی چلاتی اور زمین کو چپل پہنے پیروں سے کوٹتی۔ دیوی نے داہنی آنکھ کو ننھے سے سفید رومال کے ساتھ ملنا شروع کر دیا۔
’’ ہائے میری آنکھ…. ہائے میری آنکھ…. ہائے۔‘‘
کاٹھ کے بکس سے باہر نکلی ہوئی کچھ گردانیں اندر کوہو گئیں اور جو باہر تھیں ، پھر سے ہلنے لگیں۔
’’ آنکھ میں کچھ پڑ گیا ہے؟‘‘
’’ یہاں کنکر بھی بے شمار ہیں …. ہوا میں اڑتے پھرتے ہیں۔‘‘
’’ یہاں جھاڑو بھی تو چھ مہینے بعد دی جاتی ہے۔‘‘
’’ اندر آ جاؤ، دیوی۔‘‘
’’ ہاں ،ہاں ،آؤ…. آنکھ کو اس طرح نہ ملو۔‘‘
’’ ارے بابا…. بولا نہ تکلیف ہو جائے گی۔ تم اندر آ جاؤ۔‘‘
آنکھ ملتی ملتی، دیوی کمرے کے دروازے کی جانب بڑھی۔
ولن نے لپک کر تپائی پر سے بڑی صفائی کے ساتھ ایک ، رومال میں چائے کی پیالیاں سمیٹ کر میک اپ ٹیبل کے آئینے کے پیچھے چھپا دیں اور اپنی پرانی پتلون سے ٹیبل کو جھاڑ پونچھ کر صاف کر دیا۔باقی ایکٹروں نے کرسیاں اپنی اپنی جگہ پر جما دیں اور بڑے سلیقے سے بیٹھ گئے۔ منشی صاحب نے پرانی ادھ جلی بیڑی، پھینک کر جیب سے ایک سگریٹ نکال کر سلگانا شروع کر دیا۔
دیوی اندر آئی۔ صوفے پر سے منشی اور ولن اٹھ کھڑے ہوئے منشی صاحب نے بڑھ کر کہا۔’’ آؤ، دیوی بیٹھو۔‘‘
دروازے کے پاس بڑی بڑی سیاہ و سفید مونچھوں والے بزرگ بیٹھے تھے۔ ان کی مونچھوں کے لٹکے اور بڑھے ہوئے بال تھرتھرائے اور انہوں نے اپنی نشست پیش کرتے ہوئے گجراتی لہجہ میں کہا: ’’ادھر بیسو۔‘‘
دیوی ان کی تھرتھراتی ہوئی مونچھوں کی طرف دھیان دیئے بغیر آنکھ ملتی اور ہائے ہائے کرتی آگے بڑھ گئی۔ ایک نوجوان ہیرو سے جو معلوم ہو رہے تھے اور پھنسی پھنسی قمیص پہنے ہوئے تھے جھٹ سے ایک چوکی نما کرسی سرکا کر آگے بڑھا دی۔ اور دیوی نے اس پر بیٹھ کر اپنی ناک کے بانسے کو رومال سے، رگڑنا شروع کر دیا۔
سب کے چہرے پر دیوی کی تکلیف کے احساس نے، ایک عجیب و غریب رنگ پیدا کر دیا۔ منشی صاحب کی قوت احساس چونکہ دوسرے مردوں سے زیادہ تھی۔ اس لئے چشمہ ہٹا کر، انہوں نے اپنی آنکھ ملنا شروع کر دی تھی۔
جس نوجوان نے کرسی پیش کی تھی اس نے جھک کر دیوی کی آنکھ کا ملا حظہ کیا اور بڑے مفکرانہ انداز میں کہا۔’’آنکھ کی سرخی بتا رہی ہے کہ تکلیف ضرور ہے۔‘‘
ان کا لہجہ پھٹا ہوا تھا۔ آواز اتنی بلند تھی کہ کمرہ گونج اٹھا۔
یہ کہنا تھا کہ دیوی نے اور زور زور ے چلانا شروع کر دیا۔
اور سفید ساڑھی میں اس کی ٹانگیں اضطراب کا بے پناہ مظاہرہ، کرنے لگیں۔
ولن صاحب آگے بڑھے اور بڑی ہمدردی کے ساتھ اپنی سخت کمر جھکا کر دیوی سے پوچھا۔’’ جلن محسوس ہوتی ہے یا چبھن!‘‘
ایک اور صاحب جو اپنے سولا ہیٹ سمیت کمرے میں ابھی ابھی تشریف لائے تھے، آگے بڑھ کر پوچھنے لگے پپو ٹوں کے نیچے رگڑی محسوس نہیں ہوتی۔‘‘
دیوی کی آنکھ سرخ ہو رہی تھی۔ پپوٹے ملنے اور آنسوؤں کی نمی کے باعث میلے میلے نظر آ رہے تھے، چتو نوں میں لال لال ڈوروں کی جھلک، چک میں سے آفتاب غروب کا سرخ سرخ منظر پیش کر رہی تھی۔ داہنی آنکھ کی پلکیں نمی کے باعث بھاری اور گھنی ہو گئی تھی۔ جس سے ان کی خوبصورتی میں چار چاند لگ گئے تھے۔ باہیں ڈھیلی کر کے دیوی نے دکھتی آنکھ کی پتلی نچاتے ہو کہا:۔
’’ آں ….بڑا تکلیپھ ہوتی ہے…. ہائے…. اوئی!‘ ‘ اور پھر سے آنکھ کو گیلے رومال سے ملنا شروع کر دیا۔
سیاہ و سفید مونچھوں والے صاحب نے جو کونے میں بیٹھے تھے۔ بلند آواز میں کہا۔’’ اس طرح آنکھ نہ رگڑو خالی پیلی کوئی اور تکلیبھ ہو جائے گا۔‘‘
’’ہاں ، ہاں …. ارے ، تم پھر وہی کر رہی ہوں۔‘‘ پھٹی آواز والے نوجوان نے کہا۔
ولن جو فوراً ہی دیوی کی آنکھ کو ٹھیک حالت میں دیکھنا چاہتے تھے بگڑ کر بولے’’ تم سب بیکار باتیں بنا رہے ہو…. کسی سے ابھی تک یہ بھی نہیں ہوا کہ دوڑ کر ڈاکٹر کو بلا لائے…. اپنی آنکھ میں یہ تکلیف ہو تو پتہ چلے، یہ کہہ کر انہوں نے مڑ کر کھڑکی، میں گردن باہر نکالی اور زور زور سے پکارنا شروع کیا۔ ارے…. کوئی ہے…. کوئی ہے….؟گلاب؟گلاب!‘‘
جب ان کی آواز صدا لبصحرا ثابت ہوئی تو انہوں نے گردن اندر کو کر لی اور بڑبڑانا شروع کر دیا۔ خدا جانے ہوٹل والے کا یہ چھوکرا کہاں غائب ہو جاتا ہے…. پڑا اونگھ رہا ہو گا۔ اسٹوڈیو میں کسی تختے پر…. مردو و نابکار۔‘‘پھر فوراً ہی دور اسٹوڈیو کے اس طرف گلاب کو دیکھ کر چلائے۔ جو انگلیوں میں چائے کی پیالیاں لٹکائے چلا آ رہا تھا۔’’ ارے گلاب…. گلاب!‘‘
گلاب بھاگتا ہوا آیا اور کھڑکی کے سامنے پہنچ کر ٹھہر گیا۔ ولن صاحب نے گھبرائے ہوئے لہجے میں اس سے کہا۔’’ دیکھو ایک گلاس میں پانی لاؤ جلدی سے…. بھاگو!‘‘
گلاب نے کھڑے کھڑے اندر جھانکا، یہ دیکھنے کے لئے کہ گڑ بڑ کیا ہے…. اس پر ہیرو صاحب للکارے’’ ارے دیکھتا کیا ہے…. لانا گلاس میں تھوڑا سا پانی…. بھاگ کے جا، بھاگ کے جا!‘‘
گلاب سامنے ٹین کی چھت والے ہوٹل کی طرف روانہ ہو گیا۔ دیوی کی آنکھ میں چبھن اور بھی زیادہ بڑھ گئی اور اس، کی بنارسی لنگڑے کی کیری ایسی ننھی منی روتی بچے کی طرح کانپنے لگی اور وہ اٹھ کر درد کی شدت سے کراہتی ہوئی…. صوفے پر بیٹھ گئی۔ دستی بٹوے سے ماچس کی ڈبیا کے برابر ایک آئینہ نکال کر اس نے اپنی دکھتی آنکھ کو دیکھنا شروع کر دیا۔ اتنے میں منشی صاحب بولے گلاب سے کہہ دیا ہوتا…. پانی میں تھوڑی سے برف ڈالتا لائے!‘‘
’’ ہاں ، ہاں سرد پانی اچھا رہے گا۔‘‘ یہ کہہ کر ولن صاحب کھڑکی میں سے گردن باہر نکال کر چلائے ’’گلاب…. ارے گلاب …. پانی میں تھوڑی سی برف چھوڑ کے لانا۔‘‘
اس دوران میں ہیرو صاحب جو کچھ سوچ رہے تھے کہنے، لگے’’ میں بولتا ہوں کہ رومال کو سانس کی بھاپ سے گرم کرو اور اس سے آنکھ کو سینک دو، کیوں دادا؟‘‘
’’ ایک دم ٹھیک رہے گا!‘‘ سیاہ و سفید مونچھوں والے صاحب نے سر کو اس بات میں بڑے زور سے ہلائے کہا۔
ہیرو صاحب کھونٹیوں کی طرف بڑھے اپنے کوٹ میں سے ایک سفید رومال نکال کر دیوی کو سانس کے ذریعے سے اس کو گرم کرنے کی ترکیب بتائی اور الگ ہو کر کھڑے ہو گئے دیوی نے رومال لے لیا اور اسے منہ کے پاس لے جا کر گال پھلا پھلا کر سانس کی گرمی پہنچائی۔ آنکھ کو ٹکور دی مگر کچھ افاقہ نہیں ہوا۔
’’ کچھ آرام آیا؟‘‘ سولا ہیٹ والے صاحب نے دریافت کیا۔
دیوی نے رونی آواز میں جوا ب دیا۔’’ نہیں …. نہیں …. ابھی نہیں نکلا…. میں مر گئی….‘‘
اتنے میں گلاب پانی کا گلاس لے کر آگیا، ہیرو اور ولن دوڑ کر بڑھے اور اور دونوں نے مل کر دیوی کی آنکھ میں پانی چوایا، جب گلا س کا پانی آنکھ کو غسل دینے میں ختم ہو گیا، تو دیوی پھر اپنی جگہ پر بیٹھ گئی اور آنکھ جھپکانے لگی۔
’’ کچھ افاقہ ہوا؟‘‘
’’ اب تکلف تو نہیں ہے؟‘‘
’’ کنکری نکل گئی ہو گی۔‘‘
’’ بس تھوڑی دیر میں آرام آ جائے گا!‘‘
آنکھ دھل جانے پر پانی کی ٹھنڈک نے تھوڑی دیر کے لئے دیوی کی آنکھ میں چبھن رفع کر دی، مگر فوراً ہی پھر سے اس نے درد کے مارے چلانا شروع کر دیا۔
’’ کیا بات ہے؟‘‘یہ کہتے ہوئے ایک صاحب باہر سے اندر آئے اور دروازے کے قریب کھڑے ہو کر معاملے کی اہمیت کو سمجھنا شروع کر دیا۔
نو وارد کہنہ سال ہونے کے باوجود چست و چالاک معلوم ہوتے تھے۔ مونچھیں سفید تھیں جوب یڑی کے دھوئیں کے باعث سیاہی مائل زرد رنگت اختیار کر چکی تھیں ، ان کے کھڑے ہو نے کا انداز بتا رہا تھا کہ فوج میں رہ چکے ہیں۔
سیاہ رنگ کی ٹوپی سر پر ذرا اس طرف ترچھی پہنے ہوئے تھے، پتلون اور کوٹ کا کپڑا معمولی اور خاکستری رنگ کا تھا۔ کولہوں اور رانوں کے اوپر پتلون میں پڑے ہوئے جھول اس بات پر چغلیاں کھا رہے تھے کہ ان کی ٹانگوں پر گوشت بہت کم ہے ، کالر میں بندھی ہوئی میلی نکٹائی کچھ اس طرح نیچے لٹک رہی تھی کہ معلوم ہوتا تھا وہ ان سے روٹھی ہوئی ہے پتلون کا کپڑا گھٹنوں پر کھچ کر آگے بڑھا ہوا تھا جو یہ بتا رہا تھا کہ اس بے جان چیز سے بہت بڑا کام لیتے رہے ہیں ، گال بڑھاپے کے باعث پچکے ہوئے آنکھیں ذرا اندر کو دھنسی ہوئیں ، جو بار بار شانوں کی جنبش کے ساتھ سکیڑ لی جاتی تھیں۔
آپ نے کاندھوں کو جنبش دی اور ایک قدم آگے بڑھ کر کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے پوچھا۔’’ کنکر پڑ گیا ہے؟‘‘ اور اثبات میں جواب پا کر دیوی کی طرف بڑھے۔ ہیرو اور ولن کو ایک طرف ہٹنے کا اشارہ کر کے آپ نے کہا۔’’ پانی سے آرام نہیں آیا…. خیر…. رومال ہے کسی کے پاس؟‘‘
نصف درجن رومال ان کے ہاتھ میں دے دئیے گئے، بڑے ڈرامائی انداز میں آپ نے ان پیش کردہ رومالوں میں سے ایک منتخب کیا اور ان کا ایک کنارہ پکڑ کر دیوی کو آنکھ پر سے ہاتھ اٹھا لینے کا حکم دیا۔
جب دیوی نے ان کے حکم کی تعمیل کی تو انہوں نے جیب میں سے مداری کے سے انداز میں ایک چرمی بٹوا نکالا اور اس میں سے اپنا چشمہ نکال کر کمال احتیاط سے ناک پر چڑھا لیا، پھر چشمے کے شیشوں میں سے دیوی کی آنکھ کا دور ہی سے اکڑ کر معائنہ کیا۔ پھر دفعتاً فوٹو گرافر کی سی پھرتی دکھاتی ہوئے آپ نے اپنی ٹانگیں چوڑی کیں اور اور جب انہوں نے اپنی پتلی پتلی انگلیوں سے دیوی کے پپوٹوں کو وا کرنا چاہا تو ایسا معلوم ہوا کہ وہ فوٹو لیتے، وقت کیمرے کا لینس بند کر رہے ہیں۔
دو تین مرتبہ ڈرامائی انداز سے اپنے کھڑے ہونے کا رخ بدل کر انہوں نے دیوی کی آنکھ کا معائنہ کیا اور پھر پپوٹے کھول کر بڑی آہستگی سے رومال کا کنارہ ان کے اندر داخل کر دیا….’’ حاضرین‘‘ خاموشی سے اس عمل کو دیکھتے رہے۔
پانچ منٹ تک کمرے میں قبر کی سی خاموشی طاری رہی۔ آنکھ صاف کرنے کے بعد اسی ڈرامائی انداز میں فوٹو گرافر صاحب نے…. چونکہ وہ بزرگ فوٹو گرافر ہی تھے…. چشمہ اتار کر چرمی بٹوے میں رکھ کر دیوی سے کہا۔’’ اب کنکر نکل گیا ہے۔ تھوڑی دیر میں آرام آ جائے گا!‘‘
دیوی نے آنکھ کے پپوٹوں کو انگلیوں سے چھوا اور ننھا سا آئینہ نکال کر اپنا اطمینان کرنے لگی۔
’’ کنکری نکل گئی نا؟‘‘
’’اب تو درد محسوس نہیں ہوتا!‘‘
’’ سالا، اب نکل گیا ہو گا…. بہت دکھ دیا ہے اس نے!‘‘
’’ دیوی…. اب طبیعت کیسی ہے؟‘‘
یہ شور سن کر فوٹو گرافر صاحب نے کاندھوں کو زور سے جنبش دی اور کہا۔’’ تم سارا دن کوشش کرتے رہتے مگر کچھ نہ ہوتا…. ہم فوج میں پچیس سال بھاڑ نہیں جھونکتا رہا…. یہ سب کام جانتا ہے…. کنکر نکل گیا ہے، اب صرف جلن باقی ہے، وہ بھی دور ہو جائے گی۔‘‘
یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ دیوی جو آئینے میں رونی صورت بنائے اپنا اطمینان کر رہی تھی، ایکا ایکی مسکرائی اور پھر کھلکھلا کر ہنس دی…. چوبی کمرے میں مترنم تارے بکھر گئے۔
’’ اب آرام ہے…. اب آرام ہے۔‘‘ یہ کہہ کر دیوی سیٹھ کی جانب روانہ ہو گئی جو ہوٹل کے پاس اکیلا کھڑا تھا اور سب لوگ دیکھتے رہ گئے۔
ہیرو صاحب صوفے پر بیٹھنے لگے تو منشی صاحب کی ران نیچے دب گئی آپ بھنا گئے۔’’ اب کیا پھر سونے کا ارادہ ہے۔ چلو بیٹھو۔‘‘ مجھے کل، والے سین کے ڈائیلاگ سناؤ۔‘‘
ہیرو کے دماغ میں اس وقت کوئی اور ہی سین تھا۔
٭٭٭
نا مکمل تحریر
میں جب کبھی ذیل کا واقعہ یاد کرتا ہوں ، میرے ہونٹوں میں سوئیاں سی چبھنے لگتی ہیں۔
ساری رات بارش ہوتی رہی تھی۔جس کے باعث موسم خنک ہو گیا تھا۔ جب میں صبح سویرے غسل خانے کے ہوٹل سے باہر نکلا تو دھلی ہوئی پہاڑیوں اور نہائے ہوئے ہر ے بھرے پیڑوں کی تازگی دیکھ کر طبیعت پر وہی کیفیت پیدا ہوئی جو خوبصورت کنواریوں کے جھرمٹ میں بیٹھنے سے پیدا ہوتی ہے۔
بارش بند تھی البتہ ننھی ننھی پھوار پڑ رہی تھی۔ پہاڑیوں کے، اونچے اونچے درختوں پر آوارہ بد لیاں اونگھ رہی تھیں۔ گویا رات بھر برسنے کے بعد تھک کر چور چور ہو گئی ہیں۔
میں چشمے کی طرف روانہ ہوا۔ کاندھے پر تولیہ تھا۔ ایک ہاتھ میں صابن دانی تھی، دوسرے میں ، نیکر، جب سڑک کا موڑ طے ، کرنے لگا تو آنکھوں کے سامنے دھند ہی دھند نظر آئی بادل کا ایک بھولا بھٹکا ٹکڑا تھا جو شاید آسمانی فضا سے اکتا کر ادھر آ نکلا تھا اس بادل نے سڑک کے دوسرے حصے کو آنکھوں سے بالکل اوجھل کر دیا تھا۔ میں نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا۔ وہاں بھی سپیدی ہی نظر آئی اور معلوم ہوا کہ اوپر سے کوئی دھنکی ہوئی روئی بکھیر رہا ہے!
اتنے میں ہوا کے تیز جھونکوں نے اس سپیدی میں ارتعاش پیدا کیا اور اس دھند میں سے دور مثال بخارات علیحدہ ہونے لگے اور میری ننگی باہوں سے مس ہوئے۔ برف سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کی سردی کے احساس سے وہی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو ان بخارات نے پیدا کی۔
اس بادل میں سے گذرتے وقت سانس کے ذریعے سے یہ سپید سپید بخارات میرے اندر داخل ہو گئے، جس سے پھیپھڑوں کو بڑی راحت محسوس ہوئی۔ میں نے جی بھر کے اس سے لطف اٹھایا۔ جب بادل کے اس ٹکڑے کو طے کر کے میں باہر آیا تو آنکھوں کو کچھ سجھائی نہ دیا۔ میرے چشمے کے شیشے کاغذ کے مانند سفید ہو گئے تھے۔ پھر ایکا ایکی مجھے سردی محسوس ہونے لگی اور جب میں نے اپنے کپڑوں کی طرف دیکھا تو وہ شبنم آلود تکئے کی طرح گیلے ہو رہے تھے!
میں غسل خانے کے معاملے میں بہت ست ہوں اور سردیوں کے موسم میں تو روزانہ غسل کا میں بالکل قائل نہیں ہوں۔ دراصل نہانے دھونے کا فلسفہ میری سمجھ سے ہمیشہ بالا تر رہا ہے۔ غسل کا مطلب یہ ہے کہ غلاظت دور کی جائے اور زور نہانے کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی رات…. میں غلیظ اور گندہ ہو جاتا ہے۔ ہاتھ منہ دھو لیا جائے، پیر صاف کر لئے جائیں سر کے بال دھو لئے جائیں۔ اس لئے کہ یہ سب چیزیں ، جلدی میلی ہو سکتی ہیں۔ مگر ہر روز بدن کیوں صاف کیا جائے، جب کہ یہ بہت دیر کے بعد میلا ہوتا ہے۔ گرمیوں میں تو خیر میں نہانے کا مطلب سمجھ سکتا ہوں۔ مگر سردیوں میں اس کا مصرف مجھے نظر نہیں آتا۔ آخر کیا مصیبت پڑی ہے کہ ہر روز صبح سویرے انسان غسل خانے میں جائے۔ سردی کے مارے پورے دو گھنٹوں تک دانت بجتے رہیں ، انگلیاں سن ہو جائیں اور ناک برف کی ڈلی بن جائے…. غسل نہ ہوا۔ اچھی خاصی مصیبت ہوئی۔
غسل کے بارے میں اب بھی میرا یہی خیال ہے، لیکن جس پہاڑی گاؤں کا میں ذکر کر رہا ہوں ، وہاں کی فضا ہی کچھ اس قسم کی تھی کہ جو چیز مجھے اب مہمل نظر آتی ہیں یا اس سے پہلے نظر آیا کرتی تھیں وہاں بامعنی دکھائی دیتی تھیں …. اس غسل ہی کو لیجئے جو اس پہاڑی گاؤں میں جتنا عرصہ میں رہا ہر روز میرا کام پہلا یہ ہوتا تھا کہ نہاؤں ، دیر تک نہاتا رہوں۔
چشمے پر پہنچ کر میں نے کپڑے اتارے، نیکر پہنی اور جب پانی کی اس گرتی ہوئی دھار کے پاس گیا جو پتھروں پر گر کر ننھے ننھے چھینٹے اڑا رہی تھی تو پانی کی ایک سرد بوند میری پیٹھ پر آ پڑی۔ میں تڑپ کر ایک طرف ہٹ گیا۔ جہاں بوند گری تھی اس جگہ گدگدی پر کار کی، نوک کی طرح چبھی اور سارے جسم پر پھیل گئی۔ میں سمٹا، کانپا اور سوچنے لگا مجھے واقعی نہانا چاہئے۔ یا کہ نہیں۔ قریب تھا کہ میں باغی ہو جاؤں۔ لیکن آس پاس نگاہ دوڑائی تو ہر شے نہائی ہوئی نظر آئی۔ چنانچہ جو باغیانہ خیال میرے دماغ میں اس شریر بوند نے پیدا کئے تھے ٹھنڈے ہو گئے۔
سرد پانی کی گدگدیاں شروع شروع میں تو مجھے بہت ناگوار گذریں۔ مگر جب میں جی کڑا کر کے نیچے بیٹھ گیا تو لطف آیا کہ بیان نہیں کر سکتا۔ دونوں ہاتھ کے ساتھ زور زور سے پانی کے چھینٹے اڑانے سے سردی کی شدت کم ہو جاتی ہے، چنانچہ جب میں نے یہ گُر معلوم کر لیا تو پھر اس لطف میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔
سرد پانی کی موٹی دھار نے عجیب کیفیت پیدا کر دی…. پھر جب پانی کے دباؤ سے بال پیشانی پر سے نیچے لٹک آئے اور انہوں نے آنکھوں اور منہ میں گھسنا شروع کر دیا تو زور زور سے پھونکیں مار کر ان کو ہٹانے کی ناکام سعی نے مزا اور بھی دوبالا کر دیا۔ کبھی کبھی ڈوب کر ابھرتے ہوئے آدمی کا احساس بھی مجھے ہوا۔ اور میں نے سوچا کہ جو لوگ ڈوب کر مر جاتے ہیں ان کو ایسی موت میں بے حد لطف آتا ہو گا۔ چشمے کا پانی آنسوؤں کی طرف شفاف تھا مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میرے ارد گرد بلبلوں اور پانی کے چھینٹوں کا مشاعرہ ہو رہا ہے۔
غسل سے فارغ ہو کر میں نے تولئے سے بدن پونچھا اور سردی کا احساس کم کرنے کے لئے دھیمے دھیمے سروں میں ایک گیت گنگنا نا شروع کر دیا۔ کبھی کبھی یہ سریلی گنگناہٹ ہوا کے جھونکوں سے مرتعش ہو جاتی اور میں یہ سمجھتا کہ میرے بجائے کوئی اور آدمی بہت دور گا رہا ہے۔ اس پر میں تولئے کو زیادہ زور کے ساتھ بدن پر ملنے لگا۔
بدن خشک ہو گیا تو میں نے کپڑے پہنے اس اثناء میں بوندا باندی شروع ہو گئی۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا۔میرے عین اوپر بادل کا ایک ٹکڑا سفنج نما چھتری کی طرح پھیلا ہوا تھا، میں نے جلدی جلدی پہاڑی پر سے اترنا شروع کیا اور فوراً ہی کودتا پھاندتا سڑک میں اتر آیا متوقع بارش سے بچنے کے لئے میں نے قدم تیز کر دیئے۔ لیکن ابھی سڑک پر بمشکل ایک جریب کا فاصلہ طے کرنے پایا تھا کہ اے بکری بکری‘‘ کی آواز بلند ہوئی، پھر اس کے ساتھ ہی دو پہاڑیوں نے اس آواز کو دبوچ کر دوبارہ ہوا میں اچھال دیا۔ میرے جی میں آئی کہ میں بھی اس آواز کو گیند کی طرح دبوچ لوں اور ہمیشہ کے لئے اپنی جیب میں ڈال لوں۔
میں ٹھہر گیا۔ وہی مانوس دل صدا تھی جو اس سے قبل میں کئی مرتبہ سن چکا تھا بظاہر’’ اے بکری بکری۔‘‘ تین معمولی لفظ ہیں۔ اور کاغذ پر کوئی ایسا تصور پیش نہیں کرتے جو اُلّو کہا حسین ہو مگر واقعہ ہے کہ میرے لئے ان میں سب کچھ تھا جو روح کو مسرور کر سکتا ہے۔ جوں ہی یہ آواز میری سماعت سے مس ہوتی…. مجھے یہ معلوم ہوتا کہ پہاڑ کی چھاتی میں سے صدیوں کی رکی ہوئی آواز نکلی ہے…. اور سیدھی آسمان تک پہنچ گئی ہے۔
’’ اے‘‘ بالکل دھیمی آواز میں اور ’’ بکری بکری‘‘ بلند اور فلک رس سروں میں ایک لمحہ کے لئے یہ نعرہ_¿ شباب پہاڑیوں کی سنگین دیواروں میں گونجتا، ڈوبتا، ابھرتا، تھرتھراتا اور ارباب کے تاروں کی آخری لرزش کی طرح کانپتا فضا میں گھل مل جاتا۔
کالی کالی بدلیاں چھا رہی تھیں۔ فضا نم آلود تھی، ہوا کے جھونکوں نے اس نمی میں غنودگی کی سی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ میں نے اوپر پہاڑی پر اگی ہوئی ہری ہری جھاڑیوں کی طرف دیکھا اور ان کے عقب میں مجھے دو تین بکریاں نظر آئیں میں نے اوپر چڑھنا شروع کر دیا۔ ایک منہ زور بکری، وزیر کو گھسیٹے لئے جا رہی تھی اور وہ اس کو ڈانٹ بتانے کے لئے’’ اے بکری، بکری۔‘‘ پکار رہی تھی۔ اس کا منہ غصہ اور زور لگانے کے باعث پگھلتے ہوئے تانبے کی رنگت اختیار کر گیا تھا۔ بکری کے گلے میں بندھی ہوئی رسی کو پوری طاقت سے کھینچنے میں اس کا سینہ غیر معلوم طور پر عریاں ہو گیا تھا، سر پیچھے جھکایا تھا۔ دونوں ہاتھ آگے بڑھے ہوئے سر پر سے دوپٹہ اتر کر باہوں میں چلا آیا تھا۔ پیشانی پر، سیاہ بالوں کی لٹیں بل کھاتی ہوئی سنپولیاں معلوم ہو رہی تھیں۔
ایک سبز جھاڑی کے پاس پہنچ کر بکری دفعتاً ٹھہر گئی اور اس کے نرم نرم پتوں کو اپنی تھو تھنی سے سونگھنا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر وزیر نے اطمینان کا سانس لیا اور اپنا اترا ہوا دوپٹہ ایک بڑے سے پتھر پر رکھ کر اس نے پاس والے درخت کے تنے سے بکری کے گلے میں بندھی ہوئی رسی باندھی اور دوسرے پیڑ کی جھکی ہوئی ٹہنی پکڑ کر جھولا جھولنے لگی۔
میں جھاڑیوں کے پیچھے کھڑا تھا۔ بازو اوپر اٹھانے کے باعث اس کی کھلی آستینیں نیچے ڈھلک آئیں ، کپڑے کے چھلکے سے جب‘‘ اترے تو اس کے بازو کندھوں تک عریاں ہو گئے۔ بڑی خوبصورت باہیں تھیں ، یوں معلوم ہوتا تھا کہ ہاتھی کے دو بڑے دانت اوپر کو اٹھے ہوئے ہیں ، بے داغ ہموار اور زندگی سے بھر پور۔
وہ جھولا جھول رہی تھی اور اس کے دونوں بازو کچھ اس انداز سے اوپر کی جانب اٹھے ہوئے تھے کہ مجھے یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ وہ آسمان کی طرف پرواز کر جائے گی۔ جھاڑیوں کے عقب سے نکل کر میں اس کے سامنے آ گیا۔ دفعتاً اس نے میری طرف نگاہیں اٹھائیں۔ سٹ پٹائی ٹہنی کو اپنی ہاتھوں کی گرفت سے آزاد کر دیا۔ گری سنبھلی اور حلق میں سے ایک مدھم چیخ نکالتی دوڑ کر دوپٹہ لینے کے لئے پتھر کی طرف بڑھی…. مگر دوپٹہ میری بغل میں تھا۔
اس نے دوپٹہ کی تلاش میں یہ جانتے بوجھتے کہ وہ میرے بغل میں ہے ادھر ادھر دیکھا اور مسکرا دی اور اس کی آنکھوں میں حیا کے گلابی ڈورے ابھر آئے۔ گال، اور سرخ ہو گئے اور وہ سمیٹنے کی کوشش کرنے لگی۔ دونوں بازوؤں کی مدد سے اس نے اپنے سینے کی شوخیوں کو چھپا لیا اور انہیں ، اور زیادہ چھپانے کی کوشش کرتی اور پتھر پر بیٹھ گئی اور اس پر بھی جب اسے اطمینان نہ ہوا تو اس نے گھٹنے اوپر کر لئے اور مجھ سے بگڑ کر کہنے لگی۔
یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔’’ میرا دوپٹہ لائیے۔‘‘
میں بڑھا اور بغل میں سے دوپٹہ نکال کر اس کے گھٹنے پر رکھ دیا، مجھے اس کے بیٹھنے کا انداز بہت پسند آیا، چنانچہ میں بھی اسی طرح اس کے پاس بیٹھ گیا۔ اس کی طرف غور سے دیکھا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ وزیر جوان آوازوں ا ایک بہت بڑا انبار ہے اور میں …. اور میں خدا معلوم کیا ہوں اس کو ہاتھ لگاؤں تو وہ باجے کی طرح بجنا شروع ہو جاوے گی ایسے سر اس میں سے نکلیں گے جو مجھے بہت اوپر لے جائیں گے، اور زمین و آسمان کے درمیان کسی ایسی جگہ معلق کر دیں گے جہاں میں کوئی آواز نہ سن سکوں گا۔
وزیر نے مجھے جنگلی بلی کی طرح گھور کر دیکھا گویا کہنا چاہتی ہے اب جاؤ۔ یہاں دھرنا دے کر کیوں بیٹھ گئے ہو، میں نے اس کے اس خاموش حکم کی کوئی پرواہ نہ کی اور کہا:۔
چشمے سے واپس آ رہا تھا کہ تمہاری آواز سنی بے اختیار کھنچا چلا آیا وزیر …. تمہاری یہ آواز مجھے یقیناً پاگل بنا دے گی…. جانتی ہو….پاگل آدمی بڑے خطر ناک ہوتے ہیں۔‘‘
میری یہ بات سن کر اس کو حیرت ہوئی۔’’ یہ کیا پاگل پن ہے…. میری آواز کسی کو کیوں پاگل بنانے لگی۔‘‘
میں نے کہا۔’’ جیسے کچھ جانتی ہی نہیں ہو…. دنیا میں یہ راگ راگنیاں کہاں سے آئی ہیں …. لیکن چھوڑ و اس قصے کو یہ بتاؤ میری ایک بات مانو گی؟‘‘
مان لوں گی، پر آپ یہ تو کہئے کہ بات کیا ہے؟‘‘
’’ ایک دفعہ میری خاطر’’ اے، بکری بکری، کا نعرہ بلند کرو۔‘‘
’’ مجھے ہاتھ سے دھکا دے کر اس نے تیز لہجے میں کہا۔ یہ کیا پاگل پن ہے، بنانے کے لئے ، صرف میں ہی ایک رہ گئی ہوں۔‘‘
وزیر، بخدا میں تمہیں بنا نہیں رہا۔مجھے تمہاری آواز پسند ہے۔جھوٹ کہوں تو…. لے اب مان بھی جاؤ، بس ایک بار!‘‘
’’ جی نہیں۔‘‘
’’ میں تم سے التجا کرتا ہوں۔‘‘
’’ میں نے یہ آواز نہ کبھی نکالی ہے۔ اور نہ اب نکالوں گی۔‘‘
’’ میں ایک بار پھر درخواست کرتا ہوں۔‘‘
’’ یا اللہ…. یہ کیا مصیبت ہے۔‘‘ وزیر نے اپنا بدن سکیڑ لیا۔’’ اور اگر میں نہ مانوں تو…. یعنی یہ بھی کیا ضروری ہے کہ میں اسی وقت آپ کے کہنے پر بے کار چلانا شروع کر دوں …. آپ تو خواہ مخواہ چھیڑخانی کر رہے ہیں اور میں نگوڑی جانے کیا سمجھ رہی ہوں …. بھئی ہو گا، مذاق اچھا نہیں لگتا۔‘‘
’’ وزیر! میں نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہا۔’’ میری، طرف دیکھو…. میرے چہرے سے تم اس بات کا اطمینان کر سکتی ہو کہ میں ہنسی مذاق نہیں کر رہا۔ ‘‘
اس نے میرے چہرے کی طرف مصنوعی غور سے دیکھا اور میری ناک پر انگلی رکھ کر کہا۔’’ آپ کی ناک پر یہ ننھا سا تل کتنا بھلا دکھائی دیتا ہے۔‘‘
اس وقت میرے جی میں آئی کہ اس پتھر پر جس پر وہ بیٹھی ہے، میں اپنی ناک گھسانا شروع کر دوں ، تاکہ وہ ننھا سا تل ہمیشہ کے لئے مٹ جائے۔ وزیر نے میری طرف، دیکھا تو وہ، یہ سمجھی کہ میں روٹھنے کا ارادہ کر رہا ہوں ، چنانچہ اس نے فوراً اپنی بکریوں کی طرف دیکھا اور مجھ سے کہا۔’’ بابا آپ خفا نہ ہو جیئے….‘‘
قریب تھا کہ وہ مخصوص آواز بلند کرے۔ کہ ایکا ایکی، جھجک اس پر غالب آ گئی۔ بہت زیادہ شرما کر اس نے اپنی گردن جھکا لی۔’’ پر میں پوچھتی ہوں ، کہ اس میں خاص بات ہی کیا ہے!‘‘
میں نے بگڑ کر کہا۔’’ وزیر،تم اب باتیں نہ بناؤں۔‘‘
دوسری طرف منہ کر کے اس نے ایکا ایکی بلند آواز میں ’’ اے بکری‘‘ پکارا۔ اس کے بعد شرمیلی ہنسی کا ایک فوارہ سا اس کے منہ سے پھوٹ پڑا۔ میں بلندیوں میں پرواز کر گیا…. کتنی صاف اور شفاف آواز تھی۔ دھلی ہوئی فضا میں اس کی گونج دیر تک دور، نظر سے اوجھل ہو جانے والے پرندوں کے پروں کی طرح چمکتی رہی، پھر جذب ہو گئی۔
وزیر کی طر ف میں نے دیکھا۔ کہ اب وہ خاموش تھی۔ اس کا چہرہ غیر معمولی طور پر صاف تھا۔ آنکھیں ، نہائی ہوئی چڑیوں کی طرح بے قرار تھیں۔ ہنسنے کے باعث ان میں آنسو بھر آئے۔ہونٹ اس انداز، سے کھلے ہوئے تھے کہ میرے ہونٹوں میں سرسراہٹ پیدا ہو گئی…. خدا معلوم کیا ہوا…. میں نے وزیر کو اپنے بازوؤں میں لے لیا۔ اس کا سر میری گودی میں ڈھلک آیا۔…. لیکن ایکا ایکی زور سے وہ اپنا بازو میرے جھکے ہوئے سر اور اپنے متحیر چہرے کے درمیان لے آئی۔ اور دھڑکتے ہوئے لہجے میں کہنے لگی’’ آہ ہٹائیے،ہٹائیے ان ہونٹوں کو!‘
میری گود سے نکل کر وہ بھاگ گئی اور میرے ہونٹوں کی تحریر نامکمل رہ گئی۔
اس واقعہ کو ایک زمانہ گذر چکا ہے۔ مگر جب کبھی میں اس کو یاد کرتا ہوں۔ تو میرے ہونٹوں میں سوئیاں سی چبھنے لگتی ہیں …. یہ نامکمل بوسہ ہمیشہ میرے ہونٹوں پر اٹکا رہے گا۔‘‘
٭٭٭
کتاب ’باقیاتِ منٹو‘ سے ماخوذ
ماخذ:
http://www.urdunagri.com/controller.php?action=Bookpage_List&nId=8
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید