فہرست مضامین
منٹو کی غلط تعبیر
اجمل کمال
مئی ۱۹۴۶ کے بعد محمد حسن عسکری نے جو سیاسی موقف اختیار کیا اور اسے ادب پر جس طرح منطبق کرنے کی کوشش کی، اس کے سلسلے میں انھیں ایسی تحریروں کی سخت ضرورت تھی جنھیں وہ اپنے نو وضع کردہ ادبی نظریے کی مثال کے طور پر پیش کر سکیں۔ منٹو کو ترقی پسندوں سے الگ قرار دینا عسکری کی اسی (ادبی؟) ضرورت کا شاخسانہ تھا، ورنہ ان کے پاکستانی ادب کے خزانے میں صرف ’’یا خدا‘‘ کا نام رہ جاتا۔
عسکری اور ان کے ہم خیال نقادوں، خصوصاً ً ممتاز شیریں، کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ منٹو کے اندازِ فکر سے قربت رکھتے ہیں، چنانچہ ان کی تنقیدی تحریروں کی معنویت کو سمجھنے میں مددگار ہو سکتی ہیں۔ میری رائے میں یہ تاثر غلط فہمی پر مبنی اور قطعاً بے بنیاد ہے۔ میں اس باب میں اپنی اسی رائے کی وضاحت کرنے کی کوشش کروں گا۔
عسکری کی تحریروں میں منٹو کے لیے والہانہ پسندیدگی پاکستان بننے سے پہلے کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ جنوری ۱۹۴۶ کی ’’جھلکیاں ‘‘ میں لکھتے ہیں: ۔
’’نئے ادب کی تحریک میں میں بھی شامل رہا ہوں اور اب اس تحریک میں چند سانس اور باقی رہ گئے ہیں، وہ بھی اکھڑے اکھڑے۔ یہ سارا ہنگامہ محض بلوغت کا ابال تھا اور زمانۂ بلوغت لازوال نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ پچھلے دس سال میں اس تحریک نے جو ادب پیدا کیا ہے وہ صرف انڈر گریجویٹ ادب ہے۔ عصمت چغتائی کے مضمون ’’دوزخی‘‘ کو چھوڑ کر (ایسی ایک آدھ چیز اور ہو تو اس وقت یاد نہیں آ رہی) اس ادب میں کوئی چیز ایسی ہے ہی نہیں جو سنجیدہ ذوق رکھنے والے دماغ کو زیادہ دیر تک مصروف رکھ سکے۔ میٹھا برس لگتا ہے تو اسکول کی لونڈیاں تک ایسا ادب پیدا کر لیتی ہیں ‘‘۔
یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے کہ منٹو کے جو افسانے اس وقت تک شائع ہو چکے تھے ان میں ’’نیا قانون‘‘، ’’ہتک‘‘، ’’خوشیا‘‘، ’’دھواں ‘‘، ’’بو‘‘ اور ’’کالی شلوار‘‘ شامل تھے جنھوں نے ’غیر سنجیدہ‘ ذوق رکھنے والے دماغوں کو خاصی دیر تک مصروف رکھا تھا۔ اگر ۱۹۴۶ میں عسکری کے نزدیک منٹو کا یہ سارا کام دریا بُرد کر دینے کے لائق ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ دو سال بعد کس بنیاد پر انھیں اتنا اہم ادیب قرار دینے لگتے ہیں ؟
دستیاب شہادتوں کی روشنی میں اس بات پر یقین کرنے کا خاصا جواز موجود ہے کہ عسکری اور ان کی شاگردہ ممتاز شیریں کی منٹو سے وابستگی کی وجہ موقع پرستی کے سوا کچھ نہیں تھی۔ (موصوفہ بھی منٹو پر ۱۹۴۷ کے بعد ہی فریفتہ ہوئیں۔ ) عسکری کو منٹو پر قبضہ جمانے کا موقع اس وقت ملا جب ترقی پسندوں کے ایک اجلاس نے ایسے ادیبوں اور ادبی رسالوں کا بائیکاٹ کرنے کی احمقانہ قرار داد منظور کی جو ان کی تنگ نظر تعریف کی رو سے غیر ترقی پسند ٹھہرے تھے۔ اس قرار داد کی مدافعت کسی بھی طرح نہیں کی جا سکتی۔
منٹو کی تحریروں کے مطالعے کی بنیاد پر میرے نزدیک منٹو کو غیر ترقی پسند قرار دینا کسی طرح ممکن نہیں ہے، خواہ اسے ثابت کرنے کے لیے ترقی پسند اور عسکری مل کر ہی کیوں نہ زور لگائیں۔ اس کی تصدیق اس حقیقت سے بھی ہوتی ہے کہ آزادی کے بعد کے ابتدائی برسوں میں منٹو اور ترقی پسند آزادی اظہار کے جرم میں کٹہرے میں ساتھ ساتھ کھڑے تھے۔ منٹو کے جن افسانوں پر ’’قوم‘‘ نے سخت گیری کی وہ (بائیکاٹ کی قرار داد کے باوجود) ترقی پسند رسالوں ہی میں چھپے تھے۔
آئیے تقسیم کے بعد ترقی پسندوں اور عسکری کے سیاسی موقف کا جائزہ لیں اور پھر یہ دیکھیں کہ منٹو کا سیاسی موقف ان دونوں میں سے کس کے زیادہ نزدیک ہے۔ ترقی پسندوں کا خیال غالباً فیض کی نظم ’’صبحِ آزادی‘‘ میں سب سے زیادہ معروف طور پر بیان ہوا ہے جو ’’یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر‘‘ سے شروع اور ’’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘ پر ختم ہوتی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ مئی ۱۹۴۶ میں مسلم لیگ کی حمایت کا فیصلہ کرتے ہوے عسکری نے پاکستان کے بارے میں کیسی ’’خوش اندیشانہ‘‘ توقعات ظاہر کی تھیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ عسکری کی یہ توقعات پوری ہوئیں یا نہیں۔ ستمبر ۱۹۴۸ء کی ’’جھلکیاں ‘‘ میں لکھتے ہیں: ۔
’’پاکستان بننے کے بعد مسلمان شاعروں نے پاکستان کا خیرمقدم جس خوبصورتی سے کیا ہے وہ بھی داد کے قابل ہے۔ ہمارے شاعروں کو گلہ ہے کہ ہم نے تو نہ جانے کیا کیا خواب دیکھے تھے اور تعبیر بالکل الٹی ہوئی۔ ابھی ہماری منزل نہیں آئی، ہمیں تو بہت دور جانا ہے ! آپ کو دیکھیے اور آپ کے خوابوں کو دیکھیے ! جیسے تاریخ کو چاہیے تھا حرکت کرنے سے پہلے آپ سے مشورہ کر لیتی کہ لو بھئی، اب میں آگے کھسکتی ہوں، بولو مزدوروں کی اجرت میں پانچ فی صدی اضافہ کرواتے ہو یا دس فی صدی۔ تو جناب، اگر ہمارے شاعر حضرات کی منزل ابھی نہیں آئی تو خدا انہیں ہمت سفر دے، ہم تو ان کے خیرخواہوں میں سے ہیں۔ باقی رہی مسلمان قوم، تو اس کی منزل تو آ گئی، بلکہ اس کی منزل تو اسی دن آ گئی تھی جس دن قوم کے دل میں اپنی ہستی اور انفرادیت کو قائم رکھنے کا احساس پیدا ہوا تھا۔ قیام پاکستان اور اس کے بعد جتنی بھی باتیں ہوں وہ تو سب تفصیلات ہیں۔ قوم نے اپنے آپ کو پا لیا، قوم کی منزل آ گئی۔ ہاں، ویسے اگر آپ کو چلنے ہی کا شوق ہو تو بسم اللہ، پائے مرا لنگ نیست‘‘۔
سبحان اللہ!۔
عسکری کا خیال ہے کہ جو لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ منزل ابھی نہیں آئی وہ قوم کی امنگوں سے بے اعتنائی کا ثبوت دے رہے ہیں اور اگر قوم ان کے ساتھ سخت گیری کرے تو بالکل حق بجانب ہو گی۔ لیکن اُس پروگرام کا کیا ہوا جس کی رو سے پاکستان کو ایک عوامی اور اشتراکی ریاست بننا تھا، سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا تھا اور مستقل امن و امان قائم کرنا تھا؟ ایسے احمقانہ اور گستاخانہ سوال صرف ترقی پسند کیا کرتے ہیں جو مسلمان کو گمراہ کر کے پاکستان سے بد ظن کرنا چاہتے ہیں۔
اب ذرا ایک اور اقتباس کی طرف توجہ کیجیے: ۔
’’۱۴ اگست کا دن میرے سامنے بمبئی میں منایا گیا۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں آزاد ملک قرار دیے گئے تھے۔ لوگ بہت مسرور تھے، مگر قتل اور آگ کی وارداتیں باقاعدہ جاری تھیں۔ ہندوستان زندہ باد کے ساتھ ساتھ پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگتے تھے۔ کانگریس کے ترنگے کے ساتھ اسلامی پرچم بھی لہراتا تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو اور قائد اعظم محمد علی جناح دونوں کے نعرے بازاروں اور سڑکوں میں گونجتے تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہندوستان اپنا وطن ہے یا پاکستان، اور وہ لہو کس کا ہے جو ہر روز اتنی بے دردی سے بہایا جا رہا ہے۔ وہ ہڈیاں کہاں جلائی یا دفن کی جائیں گی جن پر سے مذہب کا گوشت چیلیں اور گدھ نوچ نوچ کر کھا گئے تھے۔ اب کہ ہم آزاد ہوئے ہیں، ہمارا غلام کون ہو گا؟ جب غلام تھے تو آزادی کا تصور کر سکتے تھے۔ اب آزاد ہوئے ہیں تو غلامی کا تصور کیا ہو گا؟ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم آزاد بھی ہوئے ہیں یا نہیں ؟ ہندو اور مسلمان دھڑادھڑ مر رہے تھے۔ کیسے مر رہے تھے ؟ کیوں مر رہے تھے ؟ ان سوالوں کے مختلف جواب تھے، ہندوستانی جواب، پاکستانی جواب، انگریزی جواب۔ ہر سوال کا جواب موجود تھا، مگر اس جواب میں حقیقت تلاش کرنے کا سوال پیدا ہوتا تو اس کا کوئی جواب نہ ملتا۔
’’ہندوستان آزاد ہو گیا تھا۔ پاکستان عالم وجود میں آتے ہی آزاد ہو گیا تھا۔ لیکن انسان ان دونوں مملکتوں میں غلام تھا۔ تعصب کا غلام، مذہبی جنون کا غلام، بربریت کا غلام‘‘۔
یہ کون شخص ہے جس کو اتنا بھی پتا نہیں کہ مسلمان قوم کی منزل تو کب کی آ گئی؟ ضرور کوئی ترقی پسند ہو گا۔
جی ہاں، یہ منٹو ہے۔ یہ اقتباس اداکار شیام کے خاکے ’’مرلی کی دھن‘‘ سے لیا گیا ہے جسے منٹو نے ہجرت کر کے پاکستان آنے کے بعد لاہور میں بیٹھ کر لکھا تھا۔ ملاحظہ کیجیے کہ عسکری اتنا واضح موقف رکھنے والے منٹو کو ترقی پسندی سے دور اور اپنی ’’خوش اندیشیوں ‘‘ کے قریب بتاتے ہیں۔
مظفر علی سید کا کہنا ہے کہ منٹو کے افسانوں پر مقدمے یوں تو فحاشی کے الزام میں قائم کیے گئے لیکن اصل اعتراض منٹو کے سیاسی موقف پر تھا۔ اوپر دیے گئے اقتباس سے بھی یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ ریاست کے لیے منٹو کے سیاسی خیالات کو برداشت کرنا بہت دشوار تھا کیونکہ اس قسم کے خیالات ’’قوم‘‘ کی امنگوں سے بے اعتنائی کا مظہر ہیں اور بقولِ عسکری ’’قوم‘‘ اگر ایسے خیالات رکھنے والوں سے سخت گیری برتتی ہے تو حق بجانب ہے۔ لیکن مظفر علی سید کے برخلاف، عسکری اور ممتاز شیریں کے نزدیک منٹو کے سیاسی خیالات ریاست کے لیے بالکل قابل قبول اور ترقی پسندوں کے موقف سے بالکل الگ ہیں۔
جہاں تک ممتاز شیریں کا تعلق ہے تو ان کی تنقید کی پرواز ان کی تحریروں میں پائے جانے والے ان نادر نکتوں سے ظاہر ہے جن کی نامعلوم گہرائیوں پر ان کے مداحین اور وابستگان آج تک سر دھُنتے دیکھتے جاتے ہیں۔ ’’منٹو کا انسان نوری ہے نہ ناری، وہ آدم خاکی ہے۔ ‘‘ یہ انھوں نے منٹو کی منفرد خصوصیت دریافت کی ہے۔ گویا مثال کے طور پر عظیم بیگ چغتائی، بیدی اور غلام عباس کے کردار یا تو نوری ہوتے ہیں یا ناری۔ یہ ایسا زبردست انکشاف تھا کہ منٹو کے بارے میں شیریں کی کتاب، جسے انھوں نے اپنی زندگی میں شائع کرنا مصلحت کے خلاف جانا تھا، ان کی وفات کے بعد آصف فرخی نے مرتب کر کے ’’نوری نہ ناری‘‘ ہی کے عنوان سے شائع کی۔
ایسا ہی ایک نکتہ منٹو کی کہانی ’’سڑک کے کنارے ‘‘ پر ان کے مضمون سے برآمد ہوتا ہے۔ اس افسانے کا حاصل ممتاز شیریں کے الفاظ میں یہ ہے: ’’ایک عورت، ایک ماں کی زخمی پھڑپھڑاتی ہوئی روح‘‘۔ یہ بھی خاصا کارآمد نکتہ ہے۔ اس ناقدانہ پھڑپھڑاہٹ کی مدد سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’نیا قانون‘‘ میں ایک کوچوان کی زخمی پھڑپھڑاتی ہوئی روح ملتی ہے اور ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ میں ایک پاگل کی زخمی پھڑپھڑاتی ہوئی روح۔
مزید فرماتی ہیں، ’’منٹو کے افسانوں میں عورت ترغیب مجسم ہے۔ ‘‘ منٹو کے افسانوں سے یہ جوے شیر نکالنے کے لیے فرہاد کا نہیں، شیریں کا جگر چاہیے۔ ظاہر ہے، سوگندھی، موذیل، سلطانہ اور مسز اسٹیلا جیکسن کو آپ ترغیب مجسم نہیں کہیں گے تو کیا ’’اپنی نگریا‘‘ میں ہنسی خوشی رہنے والی عفیفائیں قرار دیں گے ؟ شیریں کے پاس لے دے کر ’’فطری انسان‘‘ اور ’’بنیادی گناہ‘‘ جیسے معصوم (اور سیاسی طور پر بے ضر ر) تصورات ہیں جن کی مدد سے وہ منٹو کو سمجھنا اور سمجھانا چاہتی ہیں۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!
ممتاز شیریں تو خیر قابلِ معافی ہیں۔ ایک تو بقول عسکری ان کی تاریخ ہی ان کی شہرت سے شروع ہوئی۔ دوسری وجہ ان کی سادہ خیالی ہے کہ ان کے نزدیک اردو ادب کی معراج بس یہ تھی کہ مغربی ادب کی ایک اچھی سی نقل بن جائے (اور مغربی ادب بھی بس اتنا جتنا ’’آکسفرڈ‘‘ میں پروفیسر ’’بیامبرو‘‘ سے پڑھا تھا اور پاکستان میں عسکری اور اپنے نیک نہاد شوہر سے سن لیا تھا)۔ بے چاری یہی سوچ سوچ کر نہال ہوتی رہتی تھیں کہ منٹو اردو افسانے کے موپاساں ہیں، بیدی چیخوف ہیں، قرۃ العین حیدر ورجینیا وولف ہیں، عزیز احمد آلڈس ہکسلے ہیں، احمد علی (لاحول ولاقوۃ) کافکا ہیں، وہ خود ایملی برونٹے ہیں اور ان کا ’’نیا دور‘‘ پنگوئن نیو رائٹنگ ہے ! چلیے، خوش خیالی سے کسی کا کیا بگڑتا (یا بنتا) ہے۔ عسکری کا تخلیقی مانجھا جوانی ہی میں ڈھیلا نہ پڑ گیا ہوتا تو وہ اپنی خوش خصال شاگردہ کے ہاتھوں شاید چھوٹے موٹے جوئس یا لارنس بن گئے ہوتے۔
ممتاز شیریں کے ادبی کارناموں کی جانب چند اشارے ’’سوغات‘‘، بنگلور کے ایڈیٹر محمود ایاز نے اپنے رسالے کے شمارہ ۳ کے اداریے میں کیے۔ لکھتے ہیں: ۔
’’ان کے جن چند مضامین میں زبان و بیاں کی کم زوریاں نہیں پائی جاتیں ان پر یہ گمان گزرتا ہے کہ یہ مضامین پہلے انگریزی میں لکھے گئے ہیں اور پھر کسی اچھے لکھنے والے سے ان کا اردو میں ترجمہ کرایا گیا ہے، مثلاً ’ادیب اور ذہنی آزادی‘ یا ’کشمیر اداس ہے ‘ کے دیباچے کا وہ حصہ جو مسئلۂ کشمیر سے متعلق ہے۔ ان مضامین میں کوئی جھول نہیں ہے۔ ایسی نپی تلی نثر اور ایسی کفایتِ الفاظ کہ ہر سطر پر انگریزی کا دھوکا ہو۔ اظہار میں ایک روانی بھی ہے اور بیان کی قوت بھی۔ ان مضامین میں حوالوں سے اور دلائل کی بنیاد پر اپنے خیالات کی تائید میں جو زوردار مقدمے قائم کیے گئے ہیں، وہ ایک ایسے تربیت یافتہ ذہن کا پتا دیتے ہیں جو ممتاز شیریں کا یقیناً نہیں تھا۔ پاکستان آنے کے بعد ممتاز شیریں میں جو تبدیلی آئی یا لائی گئی اس کا ذکر تفصیل طلب بھی ہے اور اذیت ناک بھی، اور آج ان کی موت کے بعد یہ باتیں شاید کچھ زیادہ معنی نہیں رکھتیں۔ جبر و استحصال شاید ان کا مقدر تھا اور انہوں نے اسے بہ ظاہر ہنسی خوشی اور بغیر کسی مزاحمت (؟؟) کے اس طرح قبول کر لیا جیسے یہ ان کا اپنا منتخب کردہ راستہ تھا۔ ’میگھ ملہار‘ پر ’سوغات‘ کے تبصرے کی تلخی اور تندی کی وجہ یہی تھی۔ کیا لکھیں کیا نہ لکھیں اور کب لکھیں، یہ باتیں لکھنے والا اپنے طور پر طے کرتا ہے اور جب یہ فیصلے کوئی اور صادر کرنے لگے یا کسی پلاننگ اور منصوبہ بندی کے تحت یہ فیصلے کرنے پڑیں تو رفتہ رفتہ تخلیق کار کی موت ہو جاتی ہے۔ جسمانی موت تو بعد میں آتی ہے “۔
’’منٹو پر کتاب لکھتے لکھتے اچانک رک جانے کا سبب تلاش کرنے کے لیے علم غیب کی ضرورت نہیں۔ کوہِ ندا سے آنے والی آوازیں مختلف لوگوں کے لیے مختلف بلاوے لاتی ہیں، کسی کو وزارت کے تو کسی کو سفارت کے، ان بلاووں کا انتظار کرنے والوں کو ہمیشہ ’با ادب‘ اور ’با وضو‘ رہنا پڑتا ہے، چاہے زندگی بھر بلاوا نہ آئے۔ منٹو کو عسکری کی دوستی نے ’معزز‘ بنا دیا تھا، لیکن منٹو معزز بنا رہنے کے لیے تھوڑے ہی پیدا ہوا تھا۔ ’ٹھنڈا گوشت‘ پر مقدمے کے ساتھ صورت حال الگ ہو گئی۔ اب کم از کم کچھ عرصے کے لیے ’نوری نہ ناری‘ کے خطرناک منصوبے کا التوا ضروری تھا! ’کفارہ‘ کو وہ اپنی بہترین تخلیق سمجھتی تھیں لیکن اس کے مفہوم و معنی کے بارے میں ان کو نظر ثانی پر مجبور ہونا پڑا، کیونکہ کفارے کا عیسوی تصور غیر اسلامی تھا!! ’آگ کا دریا‘ کے بارے میں ان کی رائے اچھی تھی لیکن کسی محفل میں وہ اس رائے کا اظہار نہیں کر سکتی تھیں (کم از کم ۶۱ میں )۔ ہر آدمی کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں جنہیں کوئی دوسرا سمجھ نہیں پاتا‘‘۔
خاصے سنگین الزامات ہیں، اور یہ بھی نہیں کہ ’’ترقی پسندوں ‘‘ کی طرف سے آئے ہوں جو پاکستان بننے کے بعد کمیونسٹ پارٹی کا اشارہ پا کر دن رات یہی رٹ لگائے رکھتے تھے کہ یہاں آزادیِ اظہار کا قحط ہے۔ آصف فرخی کو طلسم کشائی اور سرکاری ٹی وی کی منھ دکھائی کے دلچسپ مشاغل سے کچھ وقت نکال کر ان الزامات سے ممتاز شیریں کے دفاع کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے۔ آخر کچی عمر سے موصوفہ کے درِ دولت سے وابستہ رہے ہیں، کچھ تو حقِ برخورداری ادا کریں۔
خواہ آپ کو ممتاز شیریں سے اور ان کی ’’تخلیقات و تنقیدات‘‘ سے کوئی دلچسپی ہو یا نہ ہو، یہ لطیفہ آپ کو ضرور محظوظ کرے گا کہ کوئی شخص ’’ادب، ادیب اور ذہنی آزادی‘‘ کے موضوع پر کسی کے جبر کے تحت مضمون لکھے۔ تاہم محمود ایاز کے اداریے کے اس اقتباس سے اس گھٹی ہوئی فضا کا کچھ اندازہ ہو سکتا ہے جس نے رفتہ رفتہ منٹو کی جان لے لی۔
اردو کی مایۂ ناز ادیب اور نقاد ہونے کے علاوہ ممتاز شیریں کی ایک حیثیت ’’نیا دور‘‘ کی مدیرہ کی بھی تھی۔ ان کی ادارتی ترجیحات اور محرکات کم و بیش وہی ہیں جن کا اندازہ آپ کو محمود ایاز کے اداریے سے ہو گیا ہو گا۔ اس سلسلے میں ایک نکتے کی طرف منٹو نے اپنے مجموعے ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کے ابتدائیے ’’زحمت مہر درخشاں ‘‘ میں اپنے بے مثال انداز میں اشارہ کیا ہے: ۔
’’اس دوران میں کراچی سے محترمہ ممتاز شیریں کے متعدد خط آ چکے تھے کہ میں ان کے ’نیا دور‘ کے لیے کوئی افسانہ بھیجوں۔ میں نے اٹھا کر ’ٹھنڈا گوشت‘ ان کو روانہ کر دیا۔ کافی دیر بعد جواب آیا کہ ہم دیر تک سوچتے رہے کہ اسے شائع کیا جائے یا نہیں۔ افسانہ بہت اچھا ہے، مجھے بہت پسند ہے لیکن ڈر ہے کہ حکومت کے احتساب کے شکار نہ ہو جائیں۔ ’ٹھنڈا گوشت‘ یہاں سے بھی ٹھنڈا ہو کر واپس میرے پاس پہنچ گیا‘‘۔
حکومت کے احتساب کا یہ خوف تنہا ممتاز شیریں تک محدود نہیں۔ عافیت کوشی کی یہ روایت شاہد احمد دہلوی (مدیر ’’ساقی‘‘) سے ان تک پہنچی ہے۔ شاہد احمد کی نازک مزاجی اور ٹکا سا جواب دے ڈالنے کی عادت اردو ادب کی صنمیات کا حصہ بن چکی ہے (اس صنم تراشی میں خود انھوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے )۔ شاہد احمد کی شاہکار کتاب ’’گنجینۂ گوہر‘‘ میں شامل منٹو کے خاکے کے یہ دو اقتباسات ملاحظہ کیجیے: ۔
’’میں منٹو ہوں، سعادت حسن۔ آپ نے ’ہمایوں ‘ کا روسی ادب نمبر دیکھا ہو گا۔ اب میں ’ساقی‘ کا فرانسیسی ادب نمبر نکالنا چاہتا ہوں۔
پہلی ہی ملاقات میں اس کی یہ ضرورت سے بڑھی ہوئی بے تکلفی طبیعت کو کچھ ناگوار گزری۔ میں نے اس کا پانی اتارنے کے لیے پوچھا، ’آپ کو فرانسیسی آتی ہے ‘۔
بولا، ’نہیں !‘۔
میں نے کہا، ’تو پھر آپ کیا کر سکیں گے ؟‘۔
منٹو نے کہا، ’انگریزی سے ترجمہ کر کے میں آپ کا یہ خاص نمبر ایڈٹ کروں گا‘۔
میں نے کہا، ’اپنا پرچہ تو میں خود ہی ایڈٹ کرتا ہوں۔ پھر ’’ساقی‘‘ کے چار خاص نمبر مقرر ہیں۔ ان کے علاوہ اور کوئی نمبر فی الحال شائع نہیں ہو سکتا‘۔
منٹو نے دال گلتی نہ دیکھی تو فوراً اس موضوع ہی کو ٹال دیا۔
’’دلی آنے کے بعد منٹو کی افسانہ نگاری کا دور جدید شروع ہوا۔ انہوں نے طبع زاد افسانے ایک اچھوتے انداز میں لکھنے شروع کیے۔ ’ساقی‘ کے لیے ہر مہینے ایک افسانہ بغیر مانگے مل جاتا۔ ’دھواں ‘ اسی ریلے میں لکھا گیا اور اس کی اشاعت پر دلی کے پریس ایڈوائزر نے مجھے اپنے دفتر بلوایا۔ وہ پڑھا لکھا اور بھلا آدمی تھا۔ انگریزی ادبیات میں میرا ہم جماعت بھی رہ چکا تھا۔ بولا، ’بھائی! ذرا احتیاط رکھو۔ زمانہ برا ہے۔ ‘ بات آئی گئی ہو گئی۔ میں نے منٹو سے اس کا ذکر کیا۔ حسب عادت بہت بگڑا مگر ’ساقی‘ کے باب میں کچھ احتیاط برتنے لگا‘‘۔
آپ نے دیکھا، ’’اپنا پرچہ تو میں خود ہی ایڈٹ کرتا ہوں ‘‘ کی ہیکڑی اور اپنے مخاطب کا ’’پانی اتارنے ‘‘ کی للک پریس ایڈوائزروں کے سامنے کس طرح پانی بن کر بہہ جاتی ہے اور بات کیسے آئی گئی ہو جاتی ہے۔ منٹو کو یہ بات بھانپنے میں زیادہ دیر نہیں لگی ہو گی کہ شاہد احمد اپنا پرچہ خود ہی ایڈٹ کرتے ہیں اور پریس ایڈوائزروں کے سوا کسی کی مجال نہیں کہ ان کے ادارتی فیصلوں میں دخل دے سکے۔
پریس ایڈوائزروں اور ان کی ہدایات کو مشعل راہ بنانے والوں کے ہاتھوں منٹو کو آگے چل کر اور بہت کچھ بھگتنا تھا، اور انھیں خوب اندازہ تھا کہ آزادیِ اظہار کی اس لڑائی میں کون پریس ایڈوائزروں کے ساتھ ہے اور کون منٹو کے۔ افسوس، شاہد احمد نے دلّی کے اس بھلے مانس پریس ایڈوائزر کا نام نہیں لیا ورنہ وہ بھی اردو ادب کی تاریخ میں اسی طرح محفوظ ہو جاتا جیسے لاہور کے پریس ایڈوائزر چودھری محمد حسین کا نام منٹو کی کتاب ’’لذت سنگ‘‘ کے دو ایڈیشنوں کے انتسابوں کے باعث امر ہو گیا۔ چودھری صاحب پھر بھی اس لحاظ سے کم مضر تھے کہ انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت منٹو پر مقدمے چلانے کی سفارش کرنے کے ساتھ ساتھ خود کو منٹو کا مربی مشہور کرنے کا شوق نہ تھا۔
منٹو کا پالا تو کہیں زیادہ شوقین لوگوں سے پڑا تھا جن کا نقشِ قدم جناب شیخ کی طرح یوں بھی ہوتا ہے اور ووں بھی، مثلاً عسکری، جو منٹو کے سرپرست بھی ہیں اور ساتھ ساتھ پبلک سیفٹی ایکٹ کی حمایت بھی اس شدومد سے کرتے ہیں کہ ’’جنگ‘‘ اور ’’نوائے وقت‘‘ کے درباری کالم نگار تک شرما جائیں۔ اور پھر تربیت یافتہ ذہن رکھنے والوں کے لکھے ہوے مضامین اپنے نام سے شائع کرانے والی ممتاز شیریں اور اپنا رسالہ خود ایڈٹ کرنے والے شاہد احمد ہیں جو منٹو کے غیر محتاط افسانوں کو شائع کرنے سے تا عمر محترز رہے کہ زمانہ برا ہے، لیکن اس سلسلے میں بائیکاٹ کا اعلان کرنے کی حماقت سے گریز کیا تاکہ بعد میں، سازگار زمانہ آنے پر، منٹو کی شخصیت اور فن پر مضامین لکھ کر شہرت بھی حاصل کی جا سکے۔
چودھری محمد حسین کے ان جانشینوں نے جہاں کہیں موقع پایا، منٹو کو اپنے کسی نہ کسی مقصد کے لیے استعمال کرنے کی دلاورانہ کوشش کی۔ یہ سلسلہ عسکری کے ہاتھوں منٹو کی تحریروں کی غلط تعبیر سے شروع ہوا اور اس کی چند برس پہلے کی ایک مثال وہ ہے جب منٹو کو ’’معزز بنانے ‘‘ یا ان کی تحریروں کا دف مارنے کی کوشش کے سلسلے میں سنسر شپ کی قینچی کی مدد سے ’’نیا قانون‘‘ کا ایک نیا روپ تیار کیا گیا تاکہ اسے قوم کے نونہالوں کی تعلیم کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ ’’نیا قانون‘‘ کے اس اصلاح یافتہ روپ سے لطف اور عبرت حاصل کرنے کا موقع آپ کو اگلے باب میں ملے گا، فی الحال کہانی کو آغاز سے شروع کرتے ہوے یہ ملاحظہ کیجیے کہ عسکری کے ہاتھوں منٹو کا کیا حشر ہوا۔
’’فسادات اور ہمارا ادب‘‘ میں عسکری نے اپنی بنائی ہوئی تعریف کے لحاظ سے منٹو کو پاکستانی ادب کی ایک روشن مثال قرار دیا تھا۔ منٹو نے ان کی بات کو کوئی اہمیت نہ دی کیونکہ وہ یہ معقول رائے رکھتے تھے کہ اردو ادب کا بھلا اس میں ہے کہ نقاد جو کچھ کہیں اس کا الٹ کیا جائے۔ بزعم خود منٹو کا مربی بن جانے کے بعد عسکری نے ان سے وقتاً فوقتاً جو توقعات وابستہ کیں انھیں آپ عسکری کی سادہ لوحی بھی سمجھ سکتے ہیں اور منٹو کی حسِ مزاح کا کرشمہ بھی۔ دیکھیے منٹو نے عسکری کو اپنے بارے میں کیسی خوش اندیشیوں میں مبتلا کیے رکھا: ۔
’’۔۔ ۔ پچھلے سال منٹو صاحب نے متعدد کوششیں کیں کہ ترقی پسندی کے مروجہ تصور کو بدلا جائے اور ادیب اسلام کو اپنے تصور حیات کی اساس بنائیں اور اسلامی اصولوں کی بنیاد پر سماجی اور معاشی انصاف کا مطالبہ کریں۔ منٹو صاحب ادیبوں سے گھنٹوں اس بات پر جھگڑتے رہے ہیں کہ ہمارے لیے خالی انسانیت پرستی کافی نہیں ہے، ہمیں انسان کا وہ تصور قبول کرنا ہو گا جو اسلام نے پیش کیا ہے۔ منٹو صاحب نعروں سے ایسا ڈرتے ہیں کہ اب ان کے ذہن میں خالی نعروں سے مطمئن ہو جانے کی صلاحیت بہت کم رہ گئی ہے۔ چنانچہ میں اپنی ذاتی واقفیت کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ ان کی گرم جوشی لفظوں تک محدود نہیں تھی۔ اس زمانے میں خلافت راشدہ کا تصور اس طرح ان کے دماغ پر مسلط تھا کہ وہ چاہتے تھے بس آج ہی پاکستان خلافت راشدہ کا نمونہ بن جائے اور سارے صاحب اقتدار لوگ حضرت عمر کی تقلید کرنے لگیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ پاکستان محض رہنماؤں کی دانش مندی کے طفیل نہیں ملا ہے بلکہ پوری قوم کی متحدہ قوت اور عوام کے جذبۂ ایثار کی بدولت حاصل ہوا ہے۔ لہٰذا انہوں نے چند ایسے افسانے بھی سوچے تھے جن میں یہ دکھایا گیا تھا کہ ہمارے عوام میں اپنی مدد آپ کرنے کی صلاحیت اور تخلیقی اہلیت کتنی زبردست ہے۔ مگر اتفاق سے انہی دنوں منٹو صاحب اپنی فلم میں مصروف ہو گئے اور وہ افسانے لکھے نہیں۔ ‘‘ ( ’’جھلکیاں ‘‘ جون ۱۹۴۹)۔
’’۔۔ ۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ منٹو صاحب ایک ایسا ادبی تجربہ کرنا چاہتے ہیں جس کی توقع عام پڑھنے والوں کو ان سے ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ وہ ایک ایسا افسانہ لکھنا چاہتے ہیں جو شروع سے آخر تک لفظوں کا کھیل ہو۔ ان کا خیال ہے کہ ضلع جگت، رعایت لفظی وغیرہ قسم کی چیزیں جو پہلے ہمارے ادب میں رائج تھیں، اب انہیں پھر سے رواج دینا چاہیے اور ان سے نئے نئے کام لینے چاہییں (یہاں یہ تصریح ضروری ہے کہ منٹو صاحب کے ذہن میں یہ خیال جوئس کی کتاب پڑھ کر پیدا نہیں ہوا)۔ چنانچہ منٹو صاحب اکثر افسوس کرتے ہیں کہ لغت سے میری واقفیت اتنی محدود کیوں ہے، ورنہ میں ایک ایک لفظ کو الٹ پلٹ کر کئی کئی معنوں میں استعمال کیا کرتا۔ منٹو صاحب کے اس رجحان کا اظہار ابھی تک صرف ادھر ادھر فقروں میں ہوا ہے، پورے پیمانے پر نہیں ہوا۔۔ ۔ ان با توں کے علاوہ منٹو صاحب ایک تجربہ یہ کرنا چاہتے تھے کہ چند افسانے ایسے لکھیں جن کا صریحی مقصد تعمیری ہو اور جن میں قوم کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا گیا ہو بلکہ ایک دفعہ تو ان کا ارادہ ہوا تھا کہ اقبال کے مشورے پر عمل کریں اور صحابۂ اکرام کی زندگی سے واقعات لے کر ان کی مدد سے افسانے لکھیں، لیکن سال بھر سے انہوں نے کچھ لکھا ہی نہیں ہے۔ ( ’’جھلکیاں ‘‘، جنوری ۱۹۵۰)۔
کہیے، اس منٹو کی شکل آپ کی پہچان میں آتی ہے ؟ نہیں آتی تو آپ ’’یاروں کو تجھ سے منٹو کیا خوش گمانیاں ہیں !‘‘ کہہ کر قہقہہ لگا سکتے ہیں یا اگر عسکریت بہت زور مارے تو ’’تیرے منھ پر جھوٹ بولوں تو کیا دے گا‘‘ قسم کا فقرہ چست کر سکتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ عسکری کی جوانی چائے کی پیالی میں ڈبکیاں کھانے میں بیت گئی، کبھی مے خانے کے قریب سے گزر ہوا ہوتا تو اندازہ بھی ہوتا کہ رندانِ خانہ خراب واعظ کو کیسا بناتے ہیں۔
بہرحال، جون ۱۹۴۹ کی ’’جھلکیاں ‘‘ میں عسکری مزید لکھتے ہیں: ۔
’’ابھی تک منٹو صاحب ایسا ادب تو پیش نہیں کر سکے جو کھلم کھلا پاکستانی ہو۔ غالباً ان جیسے فن کار کے لیے مناسب بھی نہیں ہے کہ وہ نعروں کو پھیلا پھیلا کر افسانے بنائیں۔ میری مراد اس سے یہ ہے کہ ہمارے بیشتر ادیب نعروں کے بغیر چونکتے ہی نہیں، اس لیے ادب میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہونے سے پہلے شاید تھوڑی سی نعرہ بازی لازمی ہے۔ …بہرحال منٹو صاحب نے ابھی تک افسانوں میں نعرے لگانے سے گریز کیا ہے ‘‘۔
عسکری کے اس اعتراف کو منٹو کے لیے خراج تحسین سمجھنا چاہیے کہ انھوں نے عسکری کے تجویز کردہ نسخے کے مطابق لکھنے کو فراڈ جانا اور اس میں شریک ہونے سے گریز کیا۔ عسکری کا مرغِ دست آموز بننے کے بجائے انھوں نے اپنے تخلیقی ضمیر کی پیروی کی اور ’’موتری‘‘، ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘، ’’یزید‘‘، ’’دو قومیں ‘‘، ’’شہید ساز‘‘، ’’ٹیٹوال کا کتا‘‘، ’’آخری سلیوٹ‘‘، ’’۱۹۱۹ء کی ایک بات‘‘، ’’موذیل‘‘، ’’بابو گوپی ناتھ‘‘ اور ’’نطفہ‘‘ جیسے افسانے لکھے۔ یوں تو عسکری اور ممتاز شیریں پر منٹو کے وقیع ترین نقاد ہونے تک کا بہتان لگا دیا جاتا ہے لیکن ان میں سے کسی کے ہاں منٹو کے ان افسانوں کے سیاسی معنی دریافت کرنے کی ادنیٰ سی کوشش کا بھی سراغ نہیں ملتا۔
عسکری کا کہنا ہے کہ جنوری ۱۹۴۹ سے جنوری ۱۹۵۰ تک کے عرصے میں منٹو نے کچھ لکھا ہی نہیں تھا۔ اس بارے میں میرے پاس کافی معلومات نہیں ہیں۔ البتہ ۲۸ اکتوبر ۱۹۵۱ کو اپنے مجموعے ’’یزید‘‘ کے اختتامیے ’’جیب کفن‘‘ میں منٹو نے لکھا تھا: ۔
’’بٹوارے کے بعد اب تک میں یہ کتابیں ترتیب وار آپ کی خدمت میں پیش کر چکا ہوں۔ ان سے آپ بہ طریق احسن میری دماغی کیفیات کا جائزہ لے سکتے ہیں: (۱) تلخ، ترش اور شیریں (۲) لذت سنگ (۳) سیاہ حاشیے (۴) خالی بوتلیں خالی ڈبے (۵) ٹھنڈا گوشت (۶) نمرود کی خدائی (۷) بادشاہت کا خاتمہ‘‘۔
اگر ’بٹوارے ‘ کے بعد منٹو کو ان با توں کا شوق ہوا ہوتا جو عسکری نے بیان کی ہیں تو یہ گمان کرنا غیر معقول بات نہیں کہ ان آٹھ کتابوں میں سے کسی میں کہیں تو اس شوق کی جھلک دکھائی دے جاتی۔
منٹو کے بارے میں عسکری کی جو تحریریں ملتی ہیں ان میں افسانوں کے متن سے گریز کی دانستہ کوشش دکھائی دیتی ہے۔ عسکری کو معلوم تھا کہ ’’یزید‘‘، ’’ٹیٹوال کا کتا‘‘، ’’موذیل‘‘، ’’آخری سلیوٹ‘‘ اور دوسرے افسانوں سے جو معنی برآمد ہوتے ہیں وہ ان کی برانڈ کا ادب پیدا کرنے میں کسی طرح معاون ثابت نہیں ہوں گے۔ مگر خود انھی کے الفاظ میں، ’’رہا وہ ادب جو پیدا ہو چکا ہے تو اس سے نبٹنے کے لیے پیشہ ور نقاد موجود ہیں۔ وہ بڑے سے بڑے ادب کی ایسی تشریح کرتے ہیں کہ شکل پہچاننے میں نہیں آتی‘‘۔
منٹو کی تحریروں کی ایسی تشریح عسکری کے ہاں ۱۹۴۷ کے بعد جا بجا ملتی ہے، لیکن ان کی سب سے بڑی فتح یہ تھی کہ انھیں منٹو کی کتاب ’’سیاہ حاشیے ‘‘ کا دیباچہ بہ عنوان ’’حاشیہ آرائی‘‘ لکھنے کا موقع ملا۔ اس دیباچے کی طرف آنے سے پہلے منٹو کے مجموعے ’’چغد‘‘ کے دیباچے پر ایک نظر ڈال لینا شاید مفید ثابت ہو۔ منٹو نے اپنی اس تحریر میں ترقی پسندوں کی جانب سے انھیں غیر ترقی پسند قرار دیے جانے کے احمقانہ اقدام پر اپنی کوفت کا اظہار کیا۔ منٹو کو اپنے غیر ترقی پسند ٹھہرائے جانے پر بجا طور پر غصہ تھا۔ ’’سیاہ حاشیے ‘‘ کو منٹو کے بقول ’’نام نہاد‘‘ ترقی پسندوں نے صرف اس وجہ سے پڑھے بغیر مسترد کر دیا کہ اس پر عسکری نے دیباچہ لکھا تھا، جبکہ ’’ہتک‘‘ اور ’’کھول دو‘‘ کو نہ صرف ترقی پسندوں کی تحسین حاصل ہوئی تھی بلکہ یہ افسانے خود انھی نے شائع بھی کیے تھے۔ منٹو نے اپنا دیباچہ اس جملے پر ختم کیا ہے: ۔
’’آخر میں مجھے یہ کہنا ہے کہ ’ترقی پسندی‘ سے مجھے کوئی کد نہیں لیکن نام نہاد ترقی پسندوں کی الٹی سیدھی زقندیں بہت کھلتی ہیں ‘‘۔
’’سیاہ حاشیے ‘‘ اپنی ہیئت کے اعتبار سے منٹو کی تمام کتابوں سے مختلف کتاب ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے طنزیہ پاروں پر مشتمل ہے جن میں منٹو نے کرداروں کو اس طرح تفصیل سے بیان نہیں کیا جس طرح وہ اپنے افسانوں میں کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’’گورمکھ سنگھ کی وصیت‘‘ کے عنوان سے انھوں نے جو افسانہ لکھا، اسے اگر تفصیلات غائب کر کے ایک صفحے یا اس سے کم میں لکھا جاتا تو وہ آسانی سے ’’سیاہ حاشیے ‘‘ کا ایک حصہ بن سکتا تھا۔ طنزیہ پاروں کا یہ مجموعہ اپنی ساخت کے اعتبار سے منٹو کے افسانوں سے الگ سہی لیکن نفس مضمون کے لحاظ سے ان سے دور نہیں ہے۔
میری رائے میں ’’سیاہ حاشیے ‘‘ کی معنویت تک پہنچنے کا ایک راستہ یہ بھی ہے کہ اس کتاب کو الگ الگ تحریروں کے مجموعے کے طور پر نہیں بلکہ بہت سے ٹکڑوں کو جوڑ کر بنائے ہوئے ایک مونتاژ کی صورت میں دیکھا جائے۔ مجھے علم نہیں کہ منٹو کے کسی نقاد نے یہ طریق کار اختیار کر کے منٹو کے اس ہیئتی تجربے کی معنویت دریافت کرنے کی تفصیلی کوشش کی ہے یا نہیں۔
بہرکیف، آئیے اس مسئلے کو فی الحال یہیں چھوڑ کر عسکری کے دیباچے کا جائزہ لیں۔ دیباچے کا پہلا فقرہ یہ ہے، ’’پچھلے دس سال میں نئے ادب کی تحریک نے اردو افسانوی ادب میں گراں قدر اضافے کیے ہیں۔۔ ۔ ‘‘ اسے پڑھیے اور دو برس پہلے کے اس فقرے کو یاد کیجیے جس میں عسکری نے نئے ادب کی ’’پچھلے دس سال‘‘ کی تمام پیداوار کو — ’’دوزخی‘‘ اور ’’ایک آدھ اور تحریر‘‘ کے سوا ( ’’جو اس وقت یاد نہیں آ رہی‘‘ تھی) — دریابُرد کرنے کے لائق قرار دیا تھا اور اس گراں قدر رائے کا اظہار کیا تھا کہ ’’میٹھا برس لگتا ہے تو اسکول کی لونڈیاں تک ایسا ادب پیدا کر لیتی ہیں۔ ‘‘ ان دونوں گراں قدر رایوں کا درمیانی راستہ کہاں سے ہو کر گزرتا ہے، اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد پہلے پیراگراف کے تمام جملے اور اگلے دو پیراگراف فسادات کے ادب کا موضوع نہ بن سکنے کے بارے میں عسکری کی انھی تعمیمات کی ’’حاشیہ آرائی‘‘ پر مشتمل ہیں جن کا دلکش مظاہرہ ہم ’’فسادات اور ہمارا ادب‘‘ میں دیکھ چکے ہیں۔ یہ کہنا غیر ضروری ہے کہ اس بار بھی وہ کسی ادیب یا اس کے کسی گراں قدر یا بے قدر افسانے کے نام پر ٹھٹکے بغیر مندرجہ ذیل نتیجوں تک براہ راست پہنچ جاتے ہیں: ۔
(۱) ’’اکثر و بیشتر‘‘ افسانوں کی محرک تخلیق کی اندرونی لگن نہیں تھی بلکہ خارجی حالات اور واقعات تھے۔ چونکہ نئے ادب کو دریا برد کرتے ہوے عسکری نے منٹو کی کسی تحریر کو بچانے کی کوئی خاص بے تابی نہیں دکھائی تھی اس لیے ہم فرض کر سکتے ہیں کہ ’’نیا قانون‘‘، ’’ہتک‘‘، ’’خوشیا‘‘، ’’دھواں ‘‘، ’’بو‘‘ اور ’’کالی شلوار‘‘— سب کے سب یا ’’اکثر و بیشتر‘‘ — اسی الزام کے سزاوار ٹھہریں گے۔
(۲) ’’ہمارے افسانہ نگاروں ‘‘ کی نشو و نما خارجی دنیا میں ہونے والی با توں پر منحصر ہے (اس بار عسکری نے ’’اکثر و بیشتر‘‘ کا تکلف بھی نہیں کیا)۔ عسکری کے خیال میں جب یہ نشو و نما رک جاتی ہے تو ’’ہمارے افسانہ نگار‘‘ اپنے آپ کو یہ سوچ کر تسلی دے لیتے ہیں کہ خارجی دنیا میں کوئی ایسی بات ہو ہی نہیں رہی جس کے بارے میں لکھا جائے۔ خارجی دنیا میں ہونے والی وہ کون سی باتیں ہیں جن کے نہ ہونے سے ہمارے افسانہ نگاروں کی نشو و نما رک جاتی ہے ؟ عسکری کے اگلے فقرے میں اس کا جواب دیا گیا ہے: ۔
’’چھ سات سال ہوئے میں نے اردو کے ایک افسانہ نگار کو جنہوں نے مفلسی، غلامی اور کشمیر کے متعلق افسانے لکھ لکھ کر خاصی مقبولیت حاصل کر لی تھی، یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ اگر جاپانی ہندوستانی پر حملہ کر دیں اور ملک میں کچھ گڑبڑ ہو تو ادب پہ بہار آئے۔ ‘‘
عسکری نے نام نہیں لیا لیکن اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے یہ بات کرشن چندر سے منسوب کی ہو گی جن کو وہ اپنے ۱۹۴۱ کے (یعنی آٹھ سال پہلے کے ) مضمون ’’کرشن چندر، اردو ادب میں ایک نئی آواز‘‘ میں یہ کہہ کر داد دے چکے تھے کہ ’’اس نے کسی مخصوص تحریک یا نقطۂ نظر کو اپنے اوپر غالب نہیں ہونے دیا۔ نہ تو پرولتاریت کو، نہ جنس کو، نہ رومانیت کو۔ محض ترقی پسندی کو بھی نہیں۔ ‘‘
خیر، کرشن چندر کو جہنم رسید ہونے دیجیے، یہ دیکھیے کہ وہ کون سے خارجی واقعات ہیں جن کے ختم ہو جانے سے ہمارے افسانہ نگاروں کی نشو و نما رک گئی: ’’مفلسی، غلامی اور کشمیر‘‘۔ پاکستان اور ہندوستان کو لوگ بلاوجہ اب تک غریب ملکوں میں شمار کرتے ہیں، عسکری کی ’’حاشیہ آرائی‘‘ تو یہ بتاتی ہے کہ مفلسی ۱۹۴۷ سے پہلے ہی ختم ہو چکی تھی۔ جاپانیوں کے حملے کا خطرہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مہربانی سے ۱۹۴۶ میں ٹل چکا تھا، اور ہندوستان اس وقت تک غالباً انگریزوں کا غلام تھا۔ غلامی ۱۹۴۷ میں عسکری کے خیال سے ضرور ختم ہو گئی، مگر منٹو اور بعض دوسرے ترقی پسند افسانہ نگار اور شاعر ہندوستان اور پاکستان کو ۱۹۴۷ کے بعد بھی غلام کہتے رہے اس لیے یہ موضوع ان کے ہاتھ سے تو نہیں گیا۔ ۳۱ دسمبر ۱۹۴۷ کو شروع ہونے والی پہلی پاک و ہند جنگ کے نتیجے میں کشمیر دو حصوں میں ضرور تقسیم ہو گیا لیکن افسانہ نگار کشمیر کی تصویر کے جن پہلوؤں پر افسانے لکھ لکھ کر مقبولیت حاصل کرتے تھے وہ تو غالباً بدستور ان کی دسترس میں رہے۔ اس تصویر کے جو نئے پہلو سامنے آئے ان پر اوروں کو تو چھوڑیے، خود منٹو نے ’’ٹیٹوال کا کتا‘‘ اور ’’جاؤ حنیف جاؤ‘‘ نامی افسانے لکھے۔
(۳) بہر حال، اس قیمتی نتیجے تک پہنچ کر کہ ’’مفلسی، غلامی اور کشمیر‘‘ کے موضوعات ختم ہو گئے اور افسانہ نگار اپنی نشو و نما کے دوبارہ جاری ہونے کے لیے اطمینان سے بیٹھ کر خارجی واقعات کا انتظار کرنے لگے، عسکری اطلاع دیتے ہیں کہ قحط پڑ ج انے سے افسانہ نگاروں کی نشو و نما پھر چل پڑی اور انھوں نے قحط پر افسانے لکھ لکھ کر شہرت بٹورنی شروع کر دی۔ عسکری نے یہ بات صاف صاف تو نہیں کہی لیکن غالباً فسادات کی طرح قحط بھی ادب کا موضوع نہیں بن سکتا ہو گا۔ یہاں میں آپ کو ایک بار پھر کرشن چندر کے بارے میں عسکری کے مضمون کی یاد دلاؤں گا جس میں انھوں نے کرشن چندر کی حقیقت نگاری کی مدح کی ہے: ۔
’’کرشن چندر کے نزدیک حقیقت نگاری کے صرف ایک معنی ہیں، زندگی کی حقیقت کو جیسا کچھ اس نے سمجھا ہے اس کو بیان کر دینا۔ یہاں بھی وہ اردو افسانوں کی عام روش سے بالکل الگ ہے۔۔ ۔ تقریباً ہمیشہ کرشن چندر کا موضوع سماج ہوتا ہے مگر اس کا مقصد اعداد و شمار جمع کرنا نہیں ہے۔۔ ۔ میں نے بار بار کہا ہے کہ کرشن چندر کے یہاں آپ کو وہ چیزیں نہیں مل سکتیں جو آپ دوسروں میں ڈھونڈتے رہے ہیں۔ نہ اس کے یہاں پلاٹ کی خوبیاں ہیں، نہ کردار نگاری کی، نہ نفسیاتی تجزیے کی اور نہ حسین لفاظی ہے۔ اس کے یہاں ایک چیز ہے جو ان سب سے بلند ہے، زندگی۔ سچ تو یہ ہے کہ زندگی ایسی وسیع اور بسیط اور مبہم چیز ہے جو کسی کے ہاتھ نہیں آتی۔ آرٹسٹ کی معراج، جیسا کہ ہنری جیمس نے کہاں ہے، بس یہ ہے کہ۔۔ ۔ ‘‘۔
عسکری کی کچی عمر کی اس تحریر سے مزید اقتباسات پیش کر کے میں ان کے عقیدت مندوں کو خفیف اور آپ کو بیزار نہیں کرنا چاہتا۔ دیکھنے کی بات، جیسا کہ فلاں شخص نے کہا ہے، بس یہ ہے کہ میٹھا برس لگنے سے پہلے بھی عسکری کا طنطنہ وہی ہے گویا کل ہی رات عرفان حاصل ہوا ہو۔
(۴) چلیے، قحط بھی ختم ہوا۔ اب فسادات کی باری ہے جس کے بارے میں عسکری فرانسیسیوں کی کمک منگا کر ثابت کر ہی چکے ہیں کہ وہ ادب کا موضوع نہیں بن سکتے۔ شکر کا مقام ہے کہ اپنے اس بیان پر وہ اب تک قائم ہیں، یعنی کم سے کم دیباچے کے تیسرے پیراگراف تک۔
’’اور جب ۴۷ء کے فسادات ہوئے تو گویا اللہ میاں نے چھپر پھاڑ کے دیا۔ جی چاہے تو المیہ افسانہ لکھیے ورنہ طنزیہ مضمون ہو سکتا ہے۔ انسان کی درندگی پر دانت پیسیے، سامراج کی چالاکیوں کا پردہ چاک کیجیے۔ ان با توں سے جی بھر جائے تو کچھ عورتوں کی بے حرمتی کے ذکر سے گرمی پیدا کیجیے۔ موقعے موقعے سے یہ دکھاتے چلیے کہ اس بہیمت کے ساتھ ساتھ رحم دلی کے نمونے بھی ملتے ہیں۔ پھر بھولا سا منہ بنا کر تعجب کیجیے کہ ہندو مسلمانوں کی عقل کو کیا ہو گیا۔ کل تک تو بھائی بھائی تھے، آج ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں ہو گئے ؟‘‘۔
یہاں بھی عسکری نے کوئی نام نہیں لیا لیکن فسادات کے موضوع پر لکھے جانے والے افسانوں کے نفس مضمون کے بارے میں کچھ اشارے ضرور کیے ہیں۔ آئیے ان اشاروں کی مدد سے کچھ افسانوں کو پہچاننے کی کوشش کریں۔ بیدی اور منٹو کا ’’جی چاہا‘‘ تو انھوں نے ’’لاجونتی‘‘ اور ’’کھول دو‘‘ لکھ دیے جو اگر المیہ افسانے نہیں ہیں تو پھر میں نہیں جانتا کہ المیہ افسانے کیا ہوتے ہیں۔ طنزیہ مضامین کا ذکر تو آگے آئے گا لیکن ’’موتری‘‘ کے عنوان سے ایک طنزیہ افسانہ لکھنے کا موقع منٹو کو خوب ملا۔ انسانوں کی درندگی پر دانت پیستے ہوے بھی منٹو کو ’’مرلی کی دھن‘‘ کے اس اقتباس میں دیکھا جا سکتا ہے جو اوپر درج کیا گیا ہے۔ سامراج کی چالا کیاں بھی آپ ضرور دیکھنا چاہیں گے۔ دیکھیے: ۔
’’برطانوی سامراج کی حکمت عملی نے وہ شاطرانہ چال چلی کہ ٹھنڈے سے ٹھنڈے دماغوں کو بھی سوچنے کا موقع نہ ملا۔ ہندوستان کو اس چابک دست جراح نے پتھر کی سرد سلوں پر لٹا کر چیرا پھاڑا، ایک سنگین سکون و اطمینان کے ساتھ اس کے حصے بخرے کیے اور یہ جا وہ جا۔ اور وہ جن کے تدبر، وہ جن کی دقیقہ رسی، وہ جن کی شاہیں نگاہی کی سارے عالم میں دھوم تھی، آنکھیں جھپکتے رہ گئے ‘‘۔
یہ بھی منٹو ہے، مضمون کا عنوان ہے ’’محبوس عورتیں ‘‘۔ اگر آپ چاہیں تو موقعے موقعے سے یہ بھی دیکھتے چلیے کہ اس بہیمت کے ساتھ ساتھ رحم دلی کے نمونے بھی ملتے ہیں: ۔
’’فسادات زوروں پر تھے۔ ایک دن میں اور اشوک بمبے ٹاکیز سے واپس آ رہے تھے۔ راستے میں اس کے گھر دیر تک بیٹھے رہے۔ شام کو اس نے کہا، ’چلو میں تمہیں چھوڑ آؤں۔ ‘ شورٹ کٹ کی خاطر وہ موٹر کو ایک خالص اسلامی محلے میں لے گیا۔ سامنے سے ایک برات آ رہی تھی۔ جب میں نے بینڈ کی آواز سنی تو میرے اوسان خطا ہو گئے۔ ایک دم اشوک کا ہاتھ پکڑ کر میں چلایا، ’دادامُنی، یہ تم کدھر آ گئے ؟‘ اشوک میرا مطلب سمجھ گیا۔ مسکرا کر اس نے کہا، ’کوئی فکر نہ کرو‘۔
’’میں کیوں کر فکر نہ کرتا؟ موٹر ایسے اسلامی محلے میں تھی جہاں کسی ہندو کا گزر ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ اور اشوک کو کون نہیں پہچانتا تھا، کون نہیں جانتا تھا کہ وہ ہندو ہے ؟ ایک بہت بڑا ہندو جس کا قتل معرکہ خیز ہوتا۔ مجھے عربی زبان میں کوئی دعا یاد نہیں تھی۔ قرآن کی کوئی موزوں و مناسب آیت بھی نہیں آتی تھی۔ دل ہی دل میں میں اپنے اوپر لعنتیں بھیج رہا تھا اور دھڑکتے ہوے دل سے اپنی زبان میں بے جوڑ سی دعا مانگ رہا تھا کہ اے خدا مجھے سرخرو رکھیو، ایسا نہ ہو کوئی مسلمان اشوک کو مار دے اور میں ساری عمر اس کا خون اپنی گردن پر محسوس کرتا رہوں۔ یہ گردن قوم کی نہیں، میری اپنی گردن تھی مگر یہ ایسی ذلیل حرکت کے لیے دوسری قوم کے سامنے ندامت سے جھکنا نہیں چاہتی تھی“۔
’’جب موٹر برات کے جلوس کے پاس پہنچی تو لوگوں نے چلّانا شروع کر دیا۔ ’اشوک کمار۔۔ ۔ اشوک کمار!‘ میں بالکل یخ ہو گیا۔ اشوک اسٹیئرنگ پر ہاتھ رکھے خاموش تھا۔ میں خوف و ہراس کی یخ بستگی سے نکل کر ہجوم سے یہ کہنے والا تھا کہ دیکھو، ہوش کرو، میں مسلمان ہوں، یہ مجھے میرے گھر چھوڑنے جا رہا ہے، کہ دو نوجوانوں نے آگے بڑھ کر بڑے آرام سے کہا، ’اشوک بھائی، آگے راستہ نہیں ملے گا۔ ادھر باجو کی گلی سے چلے جاؤ‘ ‘‘۔
عورتوں کی بے حرمتی کے ذکر سے گرمی پیدا کرنے کے الزام کا سامنا بھی منٹو نے چودھری محمد حسین کی عنایت سے ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کے سلسلے میں عدالتوں میں کیا۔ اشفاق احمد نے ’’گڈریا‘‘ میں ’’بھولا سا منھ بنا کر تعجب کرنے ‘‘ کی کوشش کی کہ آخر یہ لوگ داؤ جی کو کیوں مار ڈالنا چاہتے ہیں ؟ ایسی ہی ایک کوشش کی مثال ہمیں ایک اور جگہ بھی ملتی ہے: ۔
’’عرصہ ہوا جب تقسیم پر ہندو مسلمانوں میں خونریز جنگ جاری تھی اور طرفین کے ہزاروں آدمی روزانہ مرتے تھے، شیام اور میں راولپنڈی سے بھاگے ہوئے ایک سکھ خاندان کے پاس بیٹھے تھے۔ اس کے افراد اپنے تازہ زخموں کی روداد سنا رہے تھے جو بہت ہی دردناک تھی۔ شیام متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ ہلچل جو اس کے دل و دماغ میں مچ رہی تھی اس کو بھی میں بخوبی سمجھتا تھا۔ جب ہم وہاں سے رخصت ہوئے تو میں نے شیام سے کہا، ’میں مسلمان ہوں۔ کیا تمھارا جی نہیں چاہتا کہ مجھے قتل کر دو؟‘۔
’’شیام نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا، ’اس وقت نہیں۔۔ ۔ لیکن اس وقت جب کہ میں مسلمانوں کے ڈھائے ہوئے مظالم کی داستان سن رہا تھا، میں تمہیں قتل کر سکتا تھا‘۔
’’شیام کے منہ سے یہ سن کر میرے دل کو زبردست دھکا لگا۔ اس وقت شاید میں بھی اسے قتل کر سکتا تھا، مگر بعد میں جب میں نے سوچا کہ اِس وقت اور اُس وقت میں زمین آسمان کا فرق ہے کیا؟ تو ان تمام فسادات کا نفسیاتی پس منظر میری سمجھ میں آ گیا جس میں روزانہ سینکڑوں بے گناہ ہندو اور مسلمان موت کے گھاٹ اتارے جا رہے تھے۔
’’اِس وقت نہیں۔۔ ۔ اُس وقت ہاں۔۔ ۔ کیوں ؟ آپ سوچیے تو آپ کو اس کیوں کے پیچھے انسان کی فطری میں اس سوال کا صحیح جواب مل جائے گا۔ ‘‘۔
( ’’مُرلی کی دھُن‘‘ از سعادت حسن منٹو)
ظاہر ہے یہ تمام تحریریں ادب کی تعریف سے خارج ہیں۔
(۵) اس کے بعد عسکری کہتے ہیں: ۔
’’بس خطرہ یہ رہ جاتا ہے کہ کہیں آپ کے اوپر جانب داری کا الزام نہ آ جائے، تو وہ بھی ایسی مشکل بات نہیں۔ شروع میں اگر پانچ ہندو مارے گئے ہیں تو افسانہ ختم ہوتے ہوتے پانچ مسلمانوں کا حساب پورا ہو جانا چاہیے ‘‘۔
یہ وہی بات ہے جو عسکری نے ’’فسادات اور ہمارا ادب‘‘ میں کہی ہے۔ ممکن ہے ان کے ذہن میں ’’حقیقت نگار‘‘ اور ’’زندگی کے شیدائی‘‘ کرشن چندر کا افسانہ ’’پشاور ایکسپریس‘‘ ہو۔ ایک بار میرا جی چاہا کہ عسکری کے اس خیال کی شماریاتی تصدیق کی جائے، لیکن لاشیں گننا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام وہی کر سکتا ہے جو عسکری کے لفظوں میں ’’فی الحقیقت سنگ دل‘‘ ہو۔ بہرکیف، ممتاز شیریں نے یہ گنتی کی اور نہایت مسرت سے اطلاع دی کہ اس افسانے میں ’’ترازو بہت احتیاط سے پکڑی گئی ہے لیکن اس کے باوجود ایک پلڑا ذرا جھک گیا ہے اور غلط پلڑا‘‘، (!)۔ انھوں نے کانگریس کی ’’صحیح رپورٹ‘‘ کا حوالہ دے کر ثابت کیا کہ نواکھالی میں (مسلمانوں کے ہاتھوں ) مارے جانے والوں کی تعداد ’’دو سو سے کچھ کم‘‘ تھی۔ لاشوں کی یہ ’’سنگ دلانہ‘‘ گنتی کسی تبصرے کی محتاج نہیں۔
ممتاز شیریں ’’پشاور ایکسپریس‘‘ کا احتیاط سے جائزہ لے کر اس نتیجے پر پہنچتی ہیں: ۔
’’یہ ترازو ایک تاریخی حقیقت کو جھٹلاتی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں فسادات کی شدت اور مظلومین اور مقتولین کی تعداد میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ادیب کو تو سچی سچی بات کہنی چاہیے اور چاہے کتنی ہی احتیاط برتی جائے دونوں پلڑے برابر رکھنا پھر بھی مشکل ہے۔ چنانچہ ’پشاور ایکسپریس‘ میں دونوں طرف اعداد کی گنتی برابر ہونے اور جمع تفریق سے پورا پورا حساب چکا دیے جانے کے باوجود ایک پلڑا پھر بھی بھاری نظر آتا ہے کیونکہ ریل گاڑی کے پاکستان کی سرحد پار کرنے کے بعد مظالم کا بیان پھیکا پڑ گیا ہے ‘‘۔
ایک ناقص افسانے کے سلسلے میں کرشن چندر پر لگائے جانے والے الزامات سے ان کی مدافعت کرنے سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ نہ میرے پاس اعدادو شمار ہیں جن کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ ’’فسادات کی شدت اور مظلومین اور مقتولین کی تعداد‘‘ کس طرف زیادہ تھی اور کس طرف کم۔ تاہم، عسکری کے ایک اور پیرو (سابق پیرو؟) انتظار حسین کے شاہکار مضمون ’’فسادات کے افسانوں کا پروپیگنڈائی پہلو‘‘ (مشمولہ ’’ظلمت نیم روز‘‘ از ممتاز شیریں، مرتبہ آصف فرخی) سے پتا چلتا ہے کہ ان کے نزدیک کرشن چندر نے در اصل ’’مسلمان عورت کے کردار پر حملہ‘‘ کیا ہے اور ہندو دیومالا اور خصوصاً ً مہابھارت کے کرداروں کی مدد سے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان عورتوں کا کردار بہت پست ہے۔ ہندو دیومالا اور مہا بھارت کے سلسلے میں تو، کم از کم اردو کے ادیبوں کی حد تک، انتظار حسین کو حرفِ آخر کہنے کا حق حاصل ہو چکا ہے، چنانچہ اس سلسلے میں بحث کرنا بیکار ہے۔ البتہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس قسم کا ایک اعتراض منٹو کے افسانے ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ پر اسلامی حمیت سے انتظار حسین کی طرح سرشار چودھری محمد حسین نے کیا تھا، ’’اس کہانی کی تھیم یہ ہے کہ ہم مسلمان اتنے بے غیرت ہیں کہ سکھوں نے ہماری مردہ لڑکی تک نہیں چھوڑی۔۔ ۔ ‘‘۔
انتظار حسین کہتے ہیں، ’’میں تو کرشن چندر کے ہر نئے افسانے کو راشٹریہ سیوک سنگھ کا ادبی بلیٹن سمجھ کر پڑھتا ہوں۔ ‘‘۔
اس قابل قدر جذبے پر منٹو نے یوں تبصرہ کیا ہے: ۔
’’رات پھر اوٹ پٹانگ خواب دیکھتا رہا۔ شیام سے کئی بار لڑائی ہوئی۔ صبح دودھ والا آیا تو میں کھوکھلے غصے میں اس سے کہہ رہا تھا، ’تم بالکل بدل گئے ہو۔۔ ۔ الو کے پٹھے، ذلیل۔۔ ۔ تم ہندو ہو‘۔
’’نیند کھلی تو میں نے محسوس کیا کہ میرے منھ سے ایک بہت بڑی گالی نکل گئی ہے۔ لیکن جب میں نے خود کو اچھی طرح ٹٹولا تو میرا منھ نہیں تھا، سیاست کا بھونپو تھا جس سے یہ گالی نکلی تھی۔ ‘‘ ( ’’مرلی کی دھُن‘‘)۔
بہرحال، عسکری نے یہ خیال کہیں ظاہر نہیں کیا کہ اردو کے (ہندو؟) افسانہ نگار راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی دی ہوئی لائن کی پیروی میں لکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک تمام ترقی پسند افسانہ نگار غالباً کمیونسٹ پارٹی سے ہدایات حاصل کرتے ہیں اور: ۔
’’پہلا دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم سچ بولیں گے۔ مگر ساتھ ہی انہیں یہ فکر بھی ہوتی ہے کہ نہ ہندو ناراض ہوں نہ مسلمان۔ غیر جانبداری کے معنی یہ لیے جاتے ہیں کہ ایک جماعت کو دوسری جماعت سے زیادہ قصوروار نہ ٹھہرایا جائے۔ یہ ادب ظلم، سنگ دلی اور بہیمیت کو مطعون کرنا چاہتا ہے مگر ظلم کہنے کی طاقت نہیں رکھتا‘‘۔
میرے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ فسادات کے موضوع پر افسانے لکھنے والوں کو غیر جانبداری کا مجرم ٹھہرایا جا رہا ہے یا جانبداری کا۔ بہرحال، یہ نتیجہ شاید نکالا جا سکتا ہے کہ عسکری اور ہمنوا سمجھتے ہیں کہ فسادات میں مسلمان زیادہ مارے گئے ہیں اس لیے ان افسانہ نگاروں کو چاہیے کہ اس بات پر زور دے کر یعنی غیر جانبداری چھوڑ کر، ظلم کو ظلم کہنا سیکھیں۔
عسکری یا ان کے کسی شاگرد (یا شاگردہ )نے فسادات کے موضوع پر منٹو کی متعدد تحریروں اور خصوصاً ’’سیاہ حاشیے ‘‘ میں بکھری ہوئی لاشوں کا شمار کر کے یہ تصفیہ کرنے کی زحمت نہیں کی کہ ان ’’مظلومین اور مقتولین‘‘ میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے یا ہندوؤں اور سکھوں کی، اور یہ کہ منٹو ظلم کو ظلم کہنے میں کامیاب رہے ہیں یا نہیں ؟
(۶) اس کے بعد عسکری ایک تازہ کلیہ پیش کرتے ہیں: ۔
’’در اصل ادب کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ کون ظلم کر رہا ہے، کون نہیں کر رہا، ظلم ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا؟ ادب تو دیکھتا ہے کہ ظلم کرتے ہوئے اور ظلم سہتے ہوئے انسانوں کا خارجی اور داخلی رویہ کیا ہوتا ہے ؟‘‘۔
عسکری کے موقف کے ان بے سروپا تغیرات (یا، منٹو کے الفاظ میں، ’’الٹی سیدھی زقندوں ‘‘) سے کوئی مطلب اخذ کرنا دشوار ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ فسادات کے موضوع پر لکھنے والے کون سے ادیب ظلم کرتے اور سہتے ہوے انسانوں کا خارجی اور داخلی رویہ پیش کرتے ہیں اور کون سے اسی میں الجھ کر رہ جاتے ہیں کہ ’’کون ظلم کر رہا ہے کون نہیں کر رہا، ظلم ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا۔ ‘‘ ظلم کی شدت اور مظلوموں کی تعداد اِس طرف زیادہ ہے یا اُس طرف۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ ترازو کرشن چندر، بیدی اور منٹو کے ہاتھ میں ہے یا ممتاز شیریں اور انتظار حسین کے۔
(۷) عسکری کا اگلا نکتہ یہ ہے کہ فسادات پر لکھنے والے افسانہ نگاروں نے ظلم سے نفرت دلانے کے لیے ’’اکثر‘‘ یہ طریقہ کار استعمال کیا ہے کہ ظلم ہوتا ہوا دکھا کر پڑھنے والوں کے دلوں میں دہشت پیدا کی جائے۔ مگر غیر معمولی ظلم آج کل بے انتہا معمولی چیز بن گئے ہیں، اس لیے اس ذکر سے پڑھنے والوں کا تجسس تک بیدار نہیں ہوتا۔ ’’فسادات والے افسانے ادب نہیں تھے تو نہ ہوتے مگر وہ تو اپنا سماجی مقصد بھی ٹھیک طرح ادا نہیں کر سکتے، کیونکہ جو باتیں یہ افسانے پیش کرتے ہیں وہ تو اب خبریں بھی نہیں رہیں ‘‘۔
میرا اندازہ ہے کہ انسانوں کے دو گروہوں کے درمیان فسادات جیسی کسی بھی بھیانک صورت حال کو موضوع بنا کر لکھنے والوں کو یہ مسئلہ ضرور پیش آتا ہو گا کہ وہ اپنی آواز میں یہ اثر کیونکر پیدا کریں کہ ان کی آواز ان واقعات کے المناک شوروشغب سے اوپر اٹھ کر سنائی دے سکے۔ غالباً یہ ایک فنی مسئلہ ہے اور ہر لکھنے والا اپنی صلاحیت اور فنی ترجیحات کے مطابق اس مسئلے کا حل نکالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فسادات کے موضوع پر جو تحریریں سامنے آئیں وہ اپنی اثرانگیزی اور کامیابی کے اعتبار سے یکساں نہیں ہیں۔ ادب کو پُراثر اور کامیاب بنانا اگر سماجی مقصد ہے تو ادبی مقصد بھی یقیناً ہے، اور میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ عسکری ان دونوں میں کس طرح امتیاز کرتے ہیں، کیونکہ انھوں نے اپنے فیصلے کی کوئی دلیل دینا ضروری نہیں سمجھا۔
(۸) دس صفحوں کی ’’حاشیہ آرائی‘‘ میں سے چار صفحے، فسادات کے موضوع پر کسی ایک بھی تحریر یا اس کے لکھنے والے پر براہ راست تبصرہ کیے بغیر، اس قسم کی بے بنیاد فتوے بازی میں صرف کر دینے کے بعد عسکری آخرکار اس کتاب کے حرماں نصیب مصنف یعنی منٹو کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے: ۔
’’منٹو نے بھی فسادات کے متعلق کچھ لکھا ہے، یعنی یہ لطیفے یا چھوٹے چھوٹے افسانے جمع کیے ہیں۔ ‘‘۔
ہمیں عسکری کے اس قیمتی فقرے کی قدر کرنی چاہیے کیونکہ منٹو کی پوری کتاب یا اس کے اجزا کی ہیئت کے بارے میں یہ واحد فقرہ ہے جو پورے دیباچے میں ملتا ہے۔ تاہم، مجھے اس بات میں شک ہے کہ اس فقرے میں پنہاں بصیرت منٹو کے اس فنکارانہ فیصلے کی وجوہ سمجھنے کے لیے کافی ہو گی جس کے باعث یہ کتاب ان کی گزشتہ کتابوں سے ہیئت کے اعتبار سے بہت نمایاں طور پر مختلف ہے۔ اس نکتے پر عسکری سے زیادہ ذہانت تو ممتاز مفتی کے اس تبصرے میں جھلکتی ہے جسے خود منٹو نے ’’سیاہ حاشیے ‘‘ پر چار دوسرے تبصروں کے ساتھ اپنے رسالے ’’اردو ادب‘‘ میں شائع کیا (اس رسالے کی ادارت میں عسکری بھی منٹو کے ساتھ شامل تھے )۔ مفتی کے تبصرے میں ہمیں ’’سیاہ حاشیے ‘‘ کی مخصوص ہیئت کے بارے میں یہ غیر متوقع فقرے ملتے ہیں: ۔
’’کئی اصحاب کا خیال ہے کہ یہ جھلکیاں مختصر افسانے ہیں۔ مجھے اس خیال سے قطعاً اتفاق نہیں، کیونکہ یہ تحریریں اکثر و بیشتر انفرادی طور پر کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ میرے نقطۂ نظر سے یہ تمام جھلکیاں مل کر ایک مختصر افسانہ پیش کرتی ہیں۔ ایک تراشے ہوئے ہشت پہلو ہیرے کی طرح!‘‘۔
میں نہیں کہتا کہ یہ کوئی ایسی گہری بات تھی جس تک عسکری کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی تھی۔ ’’فن برائے فن‘‘ والے مضمون میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ عسکری اگر چاہیں تو لکھنے والے کے متن کی طرف متوجہ ہو کر اس میں سے کیا کچھ برآمد کرنے کی قدرت رکھتے ہیں (اتفاق کی بات ہے کہ ان کا یہ مضمون بھی ’’اردو ادب‘‘ کے اسی شمارے میں شائع ہوا)۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس ’’حاشیہ آرائی‘‘ میں انھیں منٹو کی کتاب سے نہیں بلکہ اس کے موضوع سے سروکار ہے اور وہ اس موضوع کے بارے میں اپنی تعمیمات پیش کرنے کی بے صبری میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا اگلا فقرہ منٹو کی تحریر کے نہیں بلکہ اس کے موضوع کے بارے میں ہے۔ کہتے ہیں:
’’در اصل میں نے بڑا غلط فقرہ استعمال کیا ہے۔ یہ فسادات کے متعلق نہیں ہیں بلکہ انسانوں کے بارے میں۔ ‘‘۔
اگر اس اعتبار سے عسکری کی مراد یہ ہے کہ منٹو کے ’’سیاہ حاشیے ‘‘ اپنی اثر انگیزی میں دوسرے ادیبوں کی تحریروں سے زیادہ کامیاب ہیں تو اس بات کی کسی طرح وضاحت نہیں ہوتی۔ ورنہ یہ خصوصیت صرف منٹو کی تحریروں میں نہیں بلکہ ان واقعات کے پس منظر میں لکھے جانے والے تمام عمدہ افسانوں میں پائی جاتی ہے، مثلاً ’’لاجونتی‘‘ اور ’’گڈریا‘‘ بھی فسادات اور ان سے دوچار ہونے والے انسانوں دونوں کے بارے میں ہیں۔ فسادات سے متعلق تمام کامیاب تحریروں کے بارے میں یہی بات کہی جا سکتی ہے مگر شاید اس سے عسکری کا مقصد پورا نہیں ہو گا۔
(۹) اس کے بعد عسکری اس بات پر توجہ دیتے ہیں کہ منٹو کی سابقہ تحریروں کے تناظر میں اس نئی کتاب کی معنویت کا تعین کیا جائے۔ لیکن ان کی مجبوری یہ ہے کہ دو برس پہلے تمام نئے ادب کو دریا بُرد کرتے ہوے انھوں نے منٹو کی کسی تحریر کو سنبھال کر نہیں رکھا تھا۔ اس لیے وہ ان غرقاب تحریروں کے بارے میں فقط عمومی قیاس آرائی ہی کر سکتے ہیں۔ فرماتے ہیں: ۔
’’منٹو کے افسانوں میں آپ انسانوں کے مختلف شکلوں میں دیکھتے رہے ہیں، انسان بہ حیثیت طوائف کے، انسان بہ حیثیت تماش بین کے ‘‘۔
اس بصیرت کی گہرائی کی داد نہیں دی جا سکتی۔ یہ بات بالکل ممتاز شیریں کے اس انکشاف کی ٹکر کی ہے کہ ’’منٹو کے افسانوں میں عورت ترغیب مجسم ہے ‘‘ (آخر شاگرد بھی استاد کو ایک آدھ پینترا سکھا ہی سکتا ہے )۔ عسکری طوالت کے خوف سے شاید انسانوں کی اور قسموں کی طرف اشارہ نہیں کر سکے جو منٹو کے افسانوں میں ملتی ہیں، مثلاً انسان بطور کوچوان، انسان بطور ’’رانیں کھجلاتا ہوا نوخیز لونڈا جو بلوغت کے بھتنے کے اثر سے بدحواس ہو کر روزنوں سے جھانکتا پھرتا ہے ‘‘، انسان بطور سات منزلہ عمارت کے نیچے کھڑے ہو کر گالی دینے والا نعرہ باز، وغیرہ۔ کچھ اور نہ بھی ہو تو عسکری کو اس ’’مقبول ترین‘‘ تصور کا پیش رو سمجھا جا سکتا ہے کہ منٹو کے افسانے طوائفوں اور تماش بینوں کے بارے میں ہوتے ہیں۔ اور اس بات سے تو مرحوم مظفر علی سید بھی اتفاق کر لیتے کہ یہ منٹو کے افسانوں کا ’’صحیح ترین‘‘ تصور نہیں ہے۔
خیر، تو منٹو کی سابقہ تحریروں کا اس بے مثال بصیرت کے ساتھ تصفیہ کر کے عسکری ’’سیاہ حاشیے ‘‘ پر آتے ہیں: ۔
’’ان افسانوں میں آپ انسان ہی دیکھیں گے۔ فرق یہ ہے کہ یہاں انسان کو ظالم یا مظلوم کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے ‘‘۔
اگر ’’سیاہ حاشیے ‘‘ فسادات کے موضوع پر لکھے جانے والے ادب یا غیر ادب کے عسکری کے ایجادکردہ تصور پر پوری اترتی ہے تو انھیں کہنا چاہیے تھا کہ اس کتاب میں ہندوؤں اور سکھوں کو ظالم اور مسلمانوں کو مظلوم کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے، تبھی وہ ’’سیاہ حاشیے ‘‘ اور فسادات کے موضوع پر لکھے گئے دوسرے ادیبوں کے افسانوں میں امتیاز کی نشان دہی کر سکتے تھے۔ پتا نہیں انھوں نے یہ بات کیوں نہیں کہی۔
(۱۰) آگے چل کر فرماتے ہیں: ۔
’’اور فسادات کے مخصوص حالات میں سماجی مقصد کا تو منٹو نے جھگڑا ہی نہیں پالا۔ اگر تلقین سے آدمی سدھر جایا کرتے تو مسٹر گاندھی کی جان ہی کیوں جاتی۔ منٹو کے افسانوں کے اثرات کے بارے میں نہ زیادہ غلط فہمیاں ہیں نہ انہوں نے ایسی ذمہ داری اپنے سر لی ہے جو ادب پوری کر ہی نہیں سکتا‘‘۔
یہ اقتباس ’’سیاہ حاشیے ‘‘ لکھتے وقت منٹو کے منشا سے بحث کرتا ہے۔ کسی تحریر کے متن کی معنویت کو سمجھنے کے لیے، شمس الرحمٰن فاروقی نے ’’شعر شور انگیز‘‘ میں ہمیں بڑی تفصیل سے بتایا ہے، مصنف کے منشا کا پتا لگانا ضروری نہیں ہے۔ عسکری کا نکتہ میرے خیال میں یہ ہے کہ منٹو کا منشا فسادات کے موضوع پر لکھنے والے کسی دوسرے ادیب کے منشا سے مختلف ہے۔ اگر ان کی بات کو، جو بے دلیل ہے، درست مان بھی لیا جائے تو ان کے نکالے ہوے اس نتیجے سے اتفاق کرنا مشکل ہے کہ کوئی ادیب اگر اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ اس کے افسانوں کے اثر سے فسادات بند ہو جائیں گے (یا ’’تلوار کا وار قلم پر روکا جا سکے گا‘‘) تو اس کے افسانوں کی ادبی کامیابی کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔
یہاں گاندھی کے نام سے پہلے ’’مسٹر‘‘ کے لفظ کا استعمال قابل غور ہے۔ اگرچہ عسکری نے اس کے بعد، بقول چراغ حسن حسرت، بریکٹ میں یہ نہیں بتایا کہ یہ طنز ہے، لیکن غالباً یہ طنز ہی ہے۔ (اس طنز سے وہ ’’مسٹر‘‘ ابو الکلام آزاد کو بھی کئی بار خاک میں ملا چکے ہیں۔ ) ایک اور طنز منٹو نے کیا ہے کہ ’’سیاہ حاشیے ‘‘ کے پہلے ہی جز کو، جو گاندھی کی موت پر امرتسر، گوالیار اور بمبئی میں شیرینی کی تقسیم کی خبر پر مشتمل ہے، ’’ساعتِ شیریں ‘‘ کا عنوان دیا ہے۔
(۱۱) منٹو کے منشا کے بارے میں فتویٰ جاری کرنے کے بعد عسکری ’’سیاہ حاشیے ‘‘ کی تشریح کے اصل کام کی طرف آتے ہیں: ۔
’’سچ پوچھیے تو منٹو نے ظلم پر بھی کوئی خاص زور نہیں دیا۔ انہوں نے چند واقعات تو ضرور ہوتے دکھائے ہیں مگر یہ کہیں نہیں ظاہر ہونے دیا کہ یہ واقعات یا افعال بنفسہٖ اچھے ہیں یا برے۔ نہ انہوں نے ظالموں پر لعنت بھیجی ہے نہ مظلوموں پر آنسو بہائے ہیں۔ انہوں نے یہ تک فیصلہ نہیں کیا کہ ظالم لوگ برے ہیں یا مظلوم اچھے ہیں ‘‘۔
ابھی پچھلے صفحے پر عسکری کہہ چکے ہیں کہ منٹو کے سوا دوسرے افسانہ نگار ظلم کو ظلم کہنے کی طاقت نہیں رکھتے اور یہ ان کی بہت بڑی خامی ہے۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ’’سچ پوچھیے تو‘‘ منٹو نے ظلم پر بھی ’’کوئی خاص‘‘ زور نہیں دیا، اور ان کے خیال میں یہ منٹو کی خوبی ہے۔ یہ پوچھنا تو حسبِ معمول بے سود ہو گا کہ ظلم پر ’’کوئی خاص‘‘ زور دینے یا نہ دینے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ منٹو نے اس کتاب میں کہیں ’’ظالموں پر لعنت‘‘ یا ’’مظلوموں کے لیے دعاے مغفرت‘‘ کی قسم کے نعرے نہیں لگائے، لیکن انھوں نے اپنی کتاب کا نام ’’سیاہ حاشیے ‘‘ رکھا ہے جو اس بات کی بہت واضح اشارہ ہے کہ وہ فسادات میں ہونے والے ’’چند واقعات یا افعال‘‘ کو بنفسہٖ اچھا سمجھتے ہیں یا برا۔
(۱۲) اس کے فوراً بعد عسکری کہتے ہیں: ۔
’’براعظم ہندوستان کے یہ فسادات ایسی پیچیدہ چیز ہیں، اور صدیوں کی تاریخ سے، صدیوں آگے کے مستقبل سے، اس بری طرح الجھے ہوئے ہیں کہ ان کے متعلق یوں آسانی سے اچھے برے کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔ کم سے کم ایک معقول ادیب کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ایسے ہوش اڑا دینے والے واقعات کے متعلق سیاسی لوگوں کی سطح پر اتر کر فیصلے کرنے لگے ‘‘۔
اس اقتباس کو بہت غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ منٹو کے ادبی طریق کار پر تبصرہ کرتے کرتے انہوں نے اچانک فسادات کے ’’اچھا یا برا‘‘ ہونے کے فیصلے کی بابت اپنا ذاتی خیال پیش کر دیا ہے۔ عسکری کے اس خیال کی رو سے فسادات ’’اچھے ‘‘ بھی ہو سکتے ہیں اور ’’برے ‘‘ بھی، اور اس بات کا فیصلہ کرنا کہ فسادات کس قسم کے ہیں، کسی ’’معقول‘‘ ادیب کی سطح سے فروتر ہے۔ انسان کے تخیل کی کوئی پرواز فسادات کے ’’اچھا‘‘ ہونے کا امکان بھی تسلیم کر سکتی ہے، اس خیال کی غیر انسانی ’’سنگ دلی‘‘ سے فی الحال قطع نظر کیجیے۔ اس وقت میں صرف اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں، حالانکہ یہ اتنی سامنے کی بات ہے کہ عام حالات میں اس پر زور دینے کی ضرورت ہونی ہی نہیں چاہیے، کہ فسادات کو موضوع بنانے والے ہر ’’معقول‘‘ ادیب کی طرح منٹو کی کسی تحریر میں اس قسم کا کوئی ابہام نہیں ملتا کہ فسادات ’’اچھے ‘‘ ہوتے ہیں یا ’’برے ‘‘۔ اس کے برعکس منٹو نے تو فسادات کے واقعات کو ’’صدیوں کی تاریخ‘‘ میں الجھانے اور ’’سیاسی لوگوں کی سطح پر اتر آنے ‘‘ والوں پریوں تبصرہ کیا ہے: ۔
’’ہندو اور مسلمان دھڑادھڑ مر رہے تھے۔ کیسے مر رہے تھے ؟ کیوں مر رہے تھے ؟ ان سوالوں کے مختلف جواب تھے، ہندوستانی جواب، پاکستانی جواب، انگریزی جواب۔ ہر سوال کا جواب موجود تھا، مگر اس جواب میں حقیقت تلاش کرنے کا سوال پیدا ہوتا تو اس کا کوئی جواب نہ ملتا۔ کوئی کہتا، اسے غدر کے کھنڈروں میں تلاش کرو۔ کوئی کہتا، نہیں یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت میں ملے گا۔ کوئی اور پیچھے ہٹ کر اسے مغلیہ خاندان کی تاریخ میں ٹٹولنے کے لیے کہتا۔ سب پیچھے ہی پیچھے ہٹتے جاتے تھے اور قاتل اور سفاک برابر آگے بڑھتے جا رہے تھے اور لہو اور لوہے کی ایسی تاریخ لکھ رہے تھے جس کا جواب تاریخ عالم میں کہیں بھی نہیں ملتا تھا۔ ‘‘
منٹو کا ذکر کرتے کرتے عسکری نے اپنا یہ خیال ظاہر کیا کہ فسادات ’’صدیوں پرانی تاریخ میں الجھے ہوئے ہیں ‘‘ اور ’’معقول‘‘ ادیبوں کا یہ کام نہیں کہ وہ فسادات کو ’’اچھا‘‘ یا ’’برا‘‘ کہیں، اور اس کے فوراً بعد دوبارہ منٹو کا تذکرہ شروع کیا۔
(۱۳) کہتے ہیں: ۔
’’منٹو نے وہی کیا ہے جو ایک ایمان دار (سیاسی معنوں میں ایماندار نہیں بلکہ ادیب کی حیثیت سے ایماندار) اور حقیقی ادیب کو ان حالات میں اور ایسے واقعات کے اتنے تھوڑے عرصے بعد لکھتے ہوئے کرنا چاہیے ‘‘۔
اس جملے میں صرف یہ بات قابل تبصرہ ہے کہ عسکری نے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ ادیب کی حیثیت سے ایماندار ہونا اور سیاسی طور پر ایماندار ہونا دو مختلف باتیں ہیں اور ان کے درمیان تضاد کا تعلق ہونا بھی خارج از امکان نہیں ہے۔ یہ تقریباً وہی منقسم شخصیت والا نظریہ ہے جو عسکری نے ’’فسادات اور ہمارا ادب‘‘ میں پیش کیا تھا (گویا ’’چوری میرا پیشہ ہے اور نماز میرا فرض‘‘ کا عسکری زبان میں ترجمہ فرمایا تھا)۔ منٹو کا بہرحال اس عجیب الخلقت اور ریا کارانہ نظریے سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات اگر منٹو کی تحریروں کے اوپر دیے گئے اقتباسات سے پوری طرح واضح نہیں ہو سکی ہے تو آگے آنے والے اقتباسات سے ہو جائے گی۔
(۱۴) اس کے بعد عسکری کہتے ہیں: ۔
’’انہوں نے نیک و بد کے سوال ہی کو خارج از بحث قرار دے دیا ہے۔ ان کا نقطۂ نظر نہ سیاسی ہے نہ عمرانی نہ اخلاقی بلکہ ادبی اور تخلیقی‘‘۔
منٹو کے لیے فسادات میں حصہ لینے والوں کے ’’نیک‘‘ یا ’’بد‘‘ اور ’’اچھے ‘‘ یا ’’برے ‘‘ ہونے کے سوال واقعی خارج از بحث ہیں۔ فسادات کے — صرف اور محض، بنفسہٖ اور ’’غیر بنفسہٖ ‘‘ — بُرا ہونے میں منٹو کو ہرگز کوئی شبہ نہیں ہے۔ منٹو کے لیے اصل اذیت ناک بات وہی ہے جو فسادات کے موضوع پر لکھنے والے دوسرے ’’حقیقی‘‘ اور ’’ایماندار‘‘ ادیبوں کی اذیت کا سبب ہے، یعنی یہ کہ عام لوگ، جو عام حالات میں قتل و خون کا مشغلہ اختیار نہیں کرتے، آخر اس طرح کے ( ’’برے ‘‘) افعال پر کیونکر آمادہ ہو گئے ؟ اس اذیت ناک سوال کا جواب تلاش کرتے ہوے منٹو کا نقطۂ نظر یقیناً ادبی اور تخلیقی ہے، اس میں کسی کو کیا شبہ ہو سکتا ہے ! اس سوال کے ’’سیاسی‘‘ جواب منٹو کو مطمئن نہیں کرتے کیونکہ یہ جواب انھیں ’’پاکستانی‘‘، ’’ہندوستانی‘‘ یا ’’انگریزی‘‘ نقطۂ نظر تک محدود، اور اس سبب سے غیر ایماندارانہ، معلوم ہوتے ہیں۔ ’’عمرانی‘‘ اور ’’اخلاقی‘‘ نقطہ ہائے نظر سے پتا نہیں عسکری کی مراد کیا ہے۔ اگر اس سے ان کا مطلب یہ ہے کہ منٹو کی تحریروں سے مختلف عمرانی یا اخلاقی سوالوں کی بابت ان کے مخصوص نقطۂ نظر کا سراغ نہیں مل سکتا تو یہ خیالِ خام ہے یا پھر منٹو کی غلط تعبیر کی دانستہ کوشش، اور اس کی تردید کچھ آگے چل کر عسکری کے اپنے اس بیان سے ہو جاتی ہے: ۔
’’چونکہ منٹو کے افسانے سچی ادبی تخلیقات ہیں اس لیے یہ افسانے ہمیں اخلاقی طور پر بھی چونکاتے ہیں حالانکہ منٹو کا بنیادی مقصد یہ نہیں تھا‘‘۔
منو کے بنیادی اور ضمنی مقاصد کے بارے میں تو خیر عسکری کو علم غیب حاصل ہی ہے، لیکن بہرحال ان کے اس اعتراف سے یہ بات ضرور واضح ہو جاتی ہے کہ ’’سیاہ حاشیے ‘‘ میں (اور میرے نزدیک فسادات اور دیگر موضوعات پر اپنی ہر تحریرمیں ) منٹو کا اخلاقی نقطۂ نظر کسی ابہام کے بغیر سامنے آتا ہے اور یہ حقیقت بھی کہ یہ اخلاقی نقطۂ نظر ان کی تحریریں پڑھ کر چونکنے اور برافروختہ ہونے والوں کے اخلاقی نقطۂ نظر سے مختلف ہے۔ برسبیل تذکرہ، منٹو نے رائج الوقت اخلاقی تصورات کو صرف ’’سیاہ حاشیے ‘‘، ’’کھول دو‘‘ اور ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ میں نہیں بلکہ ’’ہتک‘‘، ’’خوشیا‘‘ اور ’’کالی شلوار‘‘ میں بھی چیلنج کیا ہے۔ یہاں میں جان بوجھ کر ’’ہتک‘‘، ’’خوشیا‘‘ اور ’’کالی شلوار‘‘ کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ یہ کہانیاں عسکری کی ’’حاشیہ آرائی‘‘ سے پہلے لکھی اور چھاپی جا چکی تھیں اور منٹو کی معروف تحریروں میں اُس وقت بھی شامل تھیں۔
بہرحال، یہاں عسکری کا یہی خیال ہے کہ منٹو نے ’’نیک و بد‘‘ کے سوال ہی کو خارج از بحث قرار دے دیا ہے اور ان کا نقطۂ نظر اخلاقی نہیں ہے۔ جون ۱۹۴۹ کی ’’جھلکیاں ‘‘ میں انھوں نے ایک اور بصیرت افروز انکشاف کیا: ۔
’’پاکستان بننے کے بعد ان کی افسانہ نگاری میں شدید تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ ممکن ہے ان تبدیلیوں کے محرکات ایک سے زیادہ اور گوناگوں ہوں، مگر میرے خیال میں پاکستان کے وجود میں آنے کا اثر بھی ان کی طبیعت پر بہت گہرا پڑا ہے، مثلاً ایک تو ان کی اخلاقی حس بڑی شدید ہو گئی ہے اور وہ سطح پر رہ کر نہیں بلکہ زندگی کی گہرائیوں میں پہنچ کر نیک وبد کے متعلق واضح فیصلے کرنے لگے ہیں۔ اس کی ایک شہادت ہم نے ’کھول دو‘ میں دیکھی ہے، دوسری طرف دونوں کی شخصیت کا اندر سے جائزہ لیا ہے اور ان کے خارجی افعال کو بالکل نئے پس منظر میں پیش کیا ہے ‘‘۔
آپ ہی بتائیے کہ ان ’’الٹی سیدھی زقندوں ‘‘ سے کیا مطلب اخذ کیا جائے ؟
(۱۵)عسکری کا اگلا نکتہ منٹو کی فنی تدابیر سے تعلق رکھتا ہے: ۔
’’منٹو نے تو صرف یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ ظالم یا مظلوم کی شخصیت کے مختلف تقاضوں سے ظالمانہ فعل کا کیا تعلق ہے ؟ ظلم کرنے کی خواہش کے علاوہ ظالم کے اندر اور کون کون سے میلانات کارفرما ہیں، انسانی دماغ میں ظلم کتنی جگہ گھیرتا ہے، زندگی کی دوسری دلچسپیاں باقی رہتی ہیں یا نہیں ؟ منٹو نے نہ تو رحم کے جذبات بھڑکائے ہیں نہ غصے کے نہ نفرت کے، وہ تو آپ کو صرف انسانی دماغ، انسانی کردار اور شخصیت پر ادبی اور تخلیقی انداز سے غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر وہ کوئی جذبہ پیدا کرنے کی فکر میں ہیں تو صرف وہی جذبہ جو ایک فن کار کو جائز طور پر پیدا کرنا چاہیے۔۔ ۔۔ یعنی زندگی کے متعلق بے پایاں تحیر اور استعجاب۔ فسادات کے متعلق جتنا بھی لکھا گیا ہے اس میں اگر کوئی چیز انسانی دستاویز کہلانے کی مستحق ہے تو یہ افسانے ہیں ‘‘۔
اپنے کرداروں سے فن کارانہ علیحدگی اور معروضی اندازِ نظر کی خصوصیت منٹو کی دوسری تحریروں کی طرح ’’سیاہ حاشیے ‘‘ میں بھی ملتی ہیں۔ یہ ایک باشعور فنکار کی اختیار کردہ تکنیکی دوری ہے تاکہ پڑھنے والے کرداروں اور واقعات کو لکھنے والے کے جذبات کی آمیزش کے بغیر معروضی طور پر دیکھ سکیں۔ یہ منٹو کا فنی طریق کار ہے جسے عسکری ان کی اخلاقی بے نیازی کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ’’نیا قانون‘‘، ’’ہتک‘‘، ’’کالی شلوار‘‘ اور ’’بابو گوپی ناتھ‘‘ میں بھی منٹو نے کرداروں اور واقعات کو اسی محتاط فنی علیحدگی کے ساتھ بیان کیا ہے لیکن پڑھنے والے کو یہ محسوس کرنے میں دقت نہیں ہوتی کہ منٹو ان کرداروں کی بابت ایک واضح اخلاقی نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔
اپنے اس نقطۂ نظر کو صاف صاف لفظوں میں بیان کرنے کی ضرورت منٹو کو کم ہی پیش آتی ہے، لیکن کیا اس بارے میں کسی طرح کے ابہام کی کوئی گنجائش ہے کہ منٹو نے منگو کوچوان، سوگندھی، سلطانہ اور بابو گوپی ناتھ کو کوڑا کرکٹ سمجھنے والے اخلاقی نقطۂ نظر کو باقاعدہ چیلنج کیا ہے ؟
ان افسانوں کی طرح ’’سیاہ حاشیے ‘‘ کے پاروں میں بھی منٹو نے اپنی فنی علیحدگی قائم رکھی ہے بلکہ طنز کے استعمال سے اپنی معروضیت کو مزید مستحکم کیا ہے، لیکن عسکری منٹو کے اس فنی طریق کار کی تشریح یوں کرنا چاہتے ہیں گویا منٹو کو اس سے غرض نہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اچھا ہے یا برا۔ اگر منٹو نے ’’رحم، غصے یا نفرت کے جذبات بھڑکانے ‘‘ سے گریز کیا ہے تو اس لیے کہ وہ راشدالخیری اور آغا حشر سے بلند تر فنکار ہیں۔ ان طنزیہ پاروں کے مجموعے کو ’’سیاہ حاشیے ‘‘ کا بلیغ نام دینے کے بعد اس قسم کی جذباتیت کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی۔
عسکری نے ایک نیا حکم نافذ کر دیا ہے کہ فنکار کے لیے زندگی کے متعلق بے پایاں تحیر اور استعجاب کے سوا کوئی جذبہ پیدا کرنا ناجائز (حرام؟) ہے۔ کیا اس نومولود خیال تک محدود رہ کر مثلاً شیکسپیئر، فلوبیر، چیخوف اور راں بوکی تحسین کی جا سکتی ہے ؟ اور کیا اس سے ان فنکاروں کے فنی امتیازات خاک میں نہیں مل جاتے ؟ اور کیا تحیر اور استعجاب کے علاوہ ’’شدید اخلاقی رد عمل پیدا کرنا‘‘ ناجائز ہو گیا؟ عسکری جو نظریہ گھڑتے ہیں انھیں اس کے صرف فوری افادی پہلو سے غرض ہوتی ہے، اور یہاں غرض یہ ہے کہ لکھنے والے فسادات کے واقعات کو صرف تحیر اور استعجاب سے آنکھیں مل مل کر دیکھتے رہیں اور یہ بات منھ سے نہ نکالیں کہ ہندو، سکھ اور مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ وحشیانہ برتاؤ کر رہے ہیں اور نہ اس انسانی المیے کے اسباب جاننے کی کوشش کریں۔ ’’سیاہ حاشیے ‘‘ میں منٹو کا سب سے نمایاں ہتھیار ان کا طنز ہے اور یہ طنز صرف تحیر اور استعجاب نہیں بلکہ گہرا اضطراب اور شدید اخلاقی ردِ عمل بھی پیدا کرتا ہے۔
(۱۶) اس کے بعد عسکری کی حاشیہ آرائی آخر تک ان کے اسی اچھوتے خیال کی الٹ پھیر پر مبنی ہے۔ منٹو نے عام انسانوں کے روزمرہ افعال کو فسادات کے وحشیانہ افعال کے پہلو بہ پہلو رکھ کر انسانی فطرت کے بارے میں سوال اٹھائے ہیں۔ عسکری ان سوالوں کا سامنا کرنے سے بچتے ہوے صرف اس عمیق فلسفے تک پہنچنا چاہتے ہیں کہ ’’بھئی انسان کا کچھ ٹھیک نہیں، اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی‘‘، کیونکہ اس قسم کے عرفان سے عسکری کی ’’امید بندھتی‘‘ ہے۔
اس فلسفے تک پہنچنے سے پہلے عسکری نے منٹو کی تکنیک کی ایک خصوصیت بڑی خوبی سے اس فقرے میں بیان کی ہے: ’’دہشت تو اس خیال سے ہوتی ہے کہ جن لوگوں میں صفائی اور گندگی کی تمیز باقی ہے وہ بھی قتل کر سکتے ہیں۔ ‘‘ مگر اس سے وہ یہ رجائی نتیجہ زبردستی اخذ کرتے ہیں کہ چلو، قتل و غارت کر رہے ہیں تو کیا ہوا، یہی غنیمت ہے کہ صفائی اور گندگی کی تمیز تو اب تک باقی ہے، یعنی یہ لوگ بھٹک کر بہت دور نہیں گئے۔ اگر اسی کو عسکری رجائیت کا نام دیتے ہیں تو یہ ان کی اپنی ایجاد ہے، منٹو سے اس کا کوئی تعلق ’’سیاہ حاشیے ‘‘ اور ان کی دوسری تحریروں کے متن سے تو اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح منٹو نے اس سے پہلے کی تحریروں میں واضح طور پر کہا تھا کہ ہماری مروج، روزمرہ کی اخلاقیات سوگندھی، خوشیا اور بابو گوپی ناتھ کی بابت غلط فیصلوں تک پہنچتی ہے، اسی طرح ’’سیاہ حاشیے ‘‘ میں ان کا طنز اتنے ہی واضح طور پر یہ کہتا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ ’’صفائی اور گندگی میں تمیز‘‘ کرنے والی، روزمرہ کی اخلاقیات (بشمول مذہبی اخلاقیات) انسان کو وحشیانہ افعال سے روکنے کے لیے قطعاً ناکافی ہے۔ منٹو کا یہ موقف ان کی ’’سیاہ حاشیے ‘‘ کے بعد کی تحریروں میں بھی اتنا ہی واضح ہے۔ ’’موذیل‘‘ کے آخری الفاظ کو ذرا یاد کیجیے۔ یہی وجہ ہے کہ منٹو کی تحریریں، عسکری کے بقول، ہمیں اخلاقی طور پر چونکاتی ہیں۔
عسکری کی بات کہ ’’روزمرہ کی معمولی زندگی ایسی طاقتور چیز ہے کہ انسان اگر بہت اچھا نہیں بن سکتا تو بہت برا بھی نہیں بن سکتا، معمولی زندگی اسے ٹھونک پیٹ کے سیدھا کر ہی لیتی ہے ‘‘، منٹو کے اخلاقی طنز کو بالکل الٹ کر پیش کرتی ہے۔ منٹو کے طنز کا ہدف — ’’سیاہ حاشیے ‘‘ میں بھی اسی طرح جیسے ان کی دوسری تحریروں میں — اچھے اور برے کی رائج الوقت خانہ بندی کی المناک مضحکہ خیزی ہی ہے۔ ان کا واضح اشارہ ہماری روزمرہ زندگی کے دوغلے اخلاقی معیار یا جارج آرویل کی زبان میں ْڈبل تھنکٗ کی طرف ہے جس کی رو سے ہم دوسرے انسان کی جان لے لینے کے انتہائی فعل میں ملوث ہوتے ہوئے بھی خود کو ’’صفائی اور گندگی میں تمیز کرنے ‘‘ کے قابل پا کر مطمئن رہ سکتے ہیں اور اسی مسخ شدہ اخلاقیات کے بل پر اپنی اپنی عبادت گاہ سے اپنی عقیدت کو قائم رکھتے ہوے دوسرے کی عبادت گاہ میں سؤر یا گائے کا گوشت فروخت کر سکتے ہیں۔
(۱۷) اپنی معکوس منطق اور غلط تعبیر کے سہارے عسکری اپنے اس حتمی فیصلے تک پہنچتے ہیں جسے آج بھی منٹو کی کتابوں کی پشت پر بڑی سادہ لوحی (یا حیلہ سازی) کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے:
’’منٹو نہ تو کسی کو شرم دلاتا ہے نہ کسی کو راہ راست پر لانا چاہتا ہے۔ وہ تو بڑی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ انسانوں سے یہ کہتا ہے کہ تم اگر چاہو بھی تو بھٹک کے بہت دور نہیں جا سکتے۔ اس اعتبار سے منٹو کو انسانی فطرت پر کہیں زیادہ بھروسا نظر آتا ہے۔ ‘‘۔
اگر لاکھوں عام آدمیوں کا ایک دوسرے کو قتل کرنے پر آمادہ ہو جانا بھٹک کر بہت دور جانا نہیں ہے تو پھر واقعی آدمی بھٹک کر کہاں جا سکتا ہے ! عسکری کی یہ بات ان کی اس نصیحت کا بدلا ہوا روپ ہے کہ پاکستانی ادیبوں کو چاہیے کہ اس نازک موقعے پر قوم کی ڈھارس بندھائیں۔ بہرحال، یہ رائے عسکری کی ہے، منٹو کی نہیں۔ منٹو کا زہر خند ایسا کوئی دلاسا نہیں دیتا کہ شاباش میرے بچو، اپنے ظلم و ستم کے افعال میں لگے رہو، تم بھٹک کر بہت دور نہیں جا سکتے۔ منٹو کو انسانی فطرت پر یقیناً بھروسا ہے لیکن یہ انسانی فطرت ایشر سنگھ کی انسانیت ہے جو ایک لڑکی لاش کی بے حرمتی کی قیمت اپنی نامردی کی صورت میں ادا کرتا ہے۔ انسانی فطرت کی بابت منٹو کے تصور کو ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘، ’’موذیل‘‘ اور دوسری تحریروں میں بہ آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ انسانی فطرت اور مروج اخلاقیات دو مختلف چیزیں ہیں اور منٹو کا فیصلہ واضح ہے کہ یہ دونوں متضاد ہیں۔
’’خود کو حیوانوں سے کچھ اونچا رکھنے کے لیے انسان نے قتل و غارت گری کے لیے بھی کچھ آداب و قواعد بنا رکھے ہیں۔ لیکن جس قتل و غارت گری کا ہم ذکر کر رہے ہیں، ان آداب و قواعد سے بے نیاز تھی بلکہ یوں کہیے کہ حیوانیت سے بھی یکسر مبرا تھی جس کی تصویر یہ قاتل و غارت گر خود بھی نہ کھینچ سکے۔‘‘
’’اس وقت ہماری نظروں کے سامنے خون کی سوکھی ہوئی پپڑیاں، کٹے ہوئے اعضا، جھلسے ہوئے چہرے، رندھے ہوئے گلے، ٹھٹھری ہوئی جانیں، لٹے ہوئے مکان، جلے ہوئے کھیت، ملبے کے ڈھیر اور بھرے ہوئے ہسپتال ہیں۔ ہم آزاد ہیں۔ ہندوستان آزاد ہے، پاکستان آزاد ہے، اور ہم گرسنگی اور برہنگی، بے سر و سامانی و بے حالی کی ویران سڑکوں پر چل پھر رہے ہیں ‘‘۔
روزمرہ کی یا رائج الوقت اخلاقیات کی بابت منٹو کے اس تخلیقی فیصلے کی مزید تصدیق ’’گورمکھ سنگھ کی وصیت‘‘ سے بھی ہوتی ہے۔
اس طرح دیکھا جائے تو ’’چغد‘‘ کے دیباچے میں منٹو کی یہ شکایت بلاوجہ نہیں تھی کہ ’’نام نہاد‘‘ ترقی پسندوں نے ’’سیاہ حاشیے ‘‘ کو غور سے پڑھنے کی زحمت نہیں کی اور محض اس بنا پر اپنا فیصلہ صادر کر دیا کہ اس کتاب پر عسکری نے دیباچہ لکھا تھا۔ عسکری کے مقلدین نے بھی اس سے کچھ زیادہ بصیرت کا ثبوت نہیں دیا اس لیے کہ ان کی جانب سے ’’سیاہ حاشیے ‘‘ کی تحسین در اصل عسکری کی ’’حاشیہ آرائی‘‘ کی مدح سے آگے نہیں گئی۔
ایک پڑھنے والے کی حیثیت سے میری رائے میں ’’سیاہ حاشیے ‘‘ سے کوئی معنی اخذ کرنے کے لیے اس کتاب کی ہیئت یا ساخت پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ یہ چھوٹے چھوٹے پارے مل کر ایک مکمل صورت بناتے ہیں جو میرے نزدیک منٹو کے افسانوں سے نہیں بلکہ ان کے طنزیہ مضامین سے مماثل ہے۔ منٹو نے اس ہیئت کو اپنی چند اور تحریروں میں بھی اختیار کیا ہے۔ ان تحریروں میں سے تین — ’’پردے کی باتیں ‘‘، ’’پٹاخے ‘‘ اور ’’سویرے جو کل آنکھ میری کھلی‘‘ — منٹو کی متفرق ’’نیم افسانوی‘‘ تحریروں کے مجموعے ’’تلخ، ترش اور شیریں ‘‘ میں شامل ہیں۔ ’’دیکھ کبیرا رویا‘‘ کے عنوان سے ایک تحریر ’’نمرود کی خدائی‘‘ میں ملتی ہے۔
منٹو کی اسی انداز کی ایک اور تحریر ’’باتیں ‘‘ اس لحاظ سے بھی قابل غور ہے کہ یہ ان کے مجموعے ’’منٹو کے مضامین‘‘ (۱۹۴۲ء) میں بھی شامل تھی اور ’’اوپر نیچے اور درمیان‘‘ (۱۹۵۴ء) میں دوبارہ شامل کی گئی۔ اس کی ممکنہ وجہ کا اندازہ اسے پڑھ کر کیا جا سکتا ہے۔ ہیئتی طور پر مماثلت رکھنے کے علاوہ یہ تحریر موضوع کے اعتبار سے بھی ’’سیاہ حاشیے ‘‘ کے قریب ہے۔ ’’باتیں ‘‘ کا موضوع بھی فسادات ہیں لیکن تقسیم کے دنوں کے نہیں بلکہ اس سے کئی برس پہلے کے فسادات (چند عنوانات: ’’اپنی اپنی ڈفلی‘‘، ’’کرچیں اور کرچیاں ‘‘، ’’یوم استقلال‘‘)۔
ان مخصوص تحریروں میں منٹو نے اپنے افسانوں کے برعکس چند کرداروں اور ان کے ساتھ پیش آنے والے چند واقعات کو ایک مربوط پلاٹ کی پابندی کرتے ہوے بیان نہیں کیا ہے۔ ان میں سے ہر تحریر چھوٹے چھوٹے چٹکلوں پر مشتمل ہے۔ ’’پٹاخے ‘‘ میں ’’سیاہ حاشیے ‘‘ کی طرح ہر پارے کو ایک الگ عنوان دیا گیا ہے، ’’باتیں ‘‘ اور ’’پردے کی باتیں ‘‘ میں یہ پارے عنوان کے بغیر ہیں لیکن ہر پارے کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔ ’’سویرے جو کل آنکھ میری کھلی‘‘ صبح کے وقت سیر کو نکلنے والے ایک شخص کے مشاہدات پر مشتمل ہے جنھیں کہیں تبصرے کے بغیر اور کہیں نہایت دھیمے تبصرے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ’’دیکھ کبیرا رویا‘‘ میں ہر چٹکلا کبیر کے تبصرے، یعنی اس کے رونے پر ختم ہوتا ہے سوائے آخری ٹکڑے کے جس کا اختتام کبیر کے ہنسنے پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی نقاد ’’سیاہ حاشیے ‘‘ کو منٹو کی ان تحریروں کے ساتھ رکھ کر سمجھنے کی کوشش کرے تو شاید پڑھنے والوں کو اس اہم کتاب کی معنویت تک پہنچنے کے لیے ایک آدھ نیا نکتہ دستیاب ہو جائے۔
جہاں تک فسادات کی بابت منٹو کے ’’ادبی، تخلیقی، سیاسی، عمرانی اور اخلاقی‘‘ نقطۂ نظر کا تعلق ہے، میری رائے میں ’’سیاہ حاشیے ‘‘ کو فسادات کے موضوع پر منٹو کی دوسری تحریروں سے الگ رکھ کر دیکھنا نامناسب اور غیر محتاط رویہ ہے۔ فسادات کا براہ راست ذکر منٹو کے کئی معروف اور کئی کم معروف افسانوں میں آتا ہے۔ ان کی فہرست بنانے کی کوشش کی جائے تو وہ کچھ یوں ہو گی: ۔
’’ٹھنڈا گوشت‘‘، ’’گورمکھ سنگھ کی وصیت‘‘، ’’کھول دو‘‘، ’’سہائے‘‘، ’’موتری‘‘، ’’ڈارلنگ‘‘، ’’عزت کے لیے ‘‘، ’’شریفن‘‘، ’’ہرنام کور‘‘، ’’وہ لڑکی‘‘، ’’ایک پھسپھسی کہانی‘‘ اور ’’موذیل‘‘۔ شخصی خاکوں پر مشتمل کتاب ’’گنجے فرشتے ‘‘ کی کم سے کم دو تحریروں ’’مرلی کی دھُن‘‘ اور ’’اشوک‘‘ میں فسادات کا ذکر آتا ہے۔ ان کے علاوہ کئی مضامین میں منٹو نے غیر طنزیہ انداز میں فسادات اور اس کے متعلقہ پہلوؤں پر اظہار خیال کیا ہے، ’’محبوس عورتیں ‘‘، ’’قتل و خون کی سرخیاں ‘‘ ایسے مضامین کی مثالیں ہیں۔
منٹو کے کچھ افسانے ایسے بھی ہیں جو براہ راست فسادات سے متعلق نہیں لیکن ان کا موضوع کسی نہ کسی اعتبار سے برصغیر کی تقسیم (منٹو کے بقول ’’بٹوارا‘‘) ہے۔ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘، ’’دو قومیں ‘‘، ’’یزید‘‘، ٹیٹوال کا کتا‘‘، ’’شہید ساز‘‘ ان افسانوں کی مثالیں ہیں (آخرالذکر دو کہانیوں سے منٹو کا شہادت کا تصور بھی واضح ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ بقولِ عسکری ’’ ایمان لائے تھے ‘‘)۔
اگر ان تمام تحریروں کو پڑھ کر ان سے فسادات کی بابت منٹو کا نقطۂ نظر مرتب کیا جائے تو وہ میرے خیال میں عسکری کے بیان کردہ نقطۂ نظر سے بہت مختلف ہو گا۔
اور صرف فسادات پر موقوف نہیں، ۱۹۴۷ سے منٹو کی وفات تک قومی زندگی کے ہر اہم معاملے پر منٹو کا موقف عسکری اور ان کے ہم خیالوں کے موقف سے بنیادی طور پر مختلف رہا کیونکہ یہ دونوں ادب، زندگی اور سیاست کے بارے میں دو متضاد رویوں کی نمائندگی کرتے تھے۔ ان اہم برسوں میں، جنھوں نے قوم کے طور پر ہماری اجتماعی سمت اور مستقبل کے معاشرے کے خدوخال متعین کیے، ان دونوں رویوں کی کشمکش متواتر جاری رہی۔ اس کشمکش کو فنکار اور نقاد کی کشمکش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، اور اس تلخ حقیقت کو پہچانا جا سکتا ہے کہ اس میں فتح نقاد کی ہوئی اور منٹو کو آزادیِ اظہار کے دشمن معاشرے کے ہاتھوں دکھ اٹھانا اور المناک موت کا منھ دیکھنا پڑا۔
٭٭٭
ماخذ:
http://niazamana.com/2016/06/analysis-of-manto-writing/
http://niazamana.com/2016/07/analysis-of-manto-writing-part-2/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید