فہرست مضامین
منٹو اور میں
مشرف عالم ذوقی
دو حرف ۔۔۔
’آبِ روانِ کبیر‘ جیسی ضخیم کتاب مکمل تو برقی کتاب نہیں بن سکی۔ میں نے اس کے پہلے دو ابواب کے دو حصے کر دئے ہیں۔ اور تیسرا حصہ کیونکہ متفرقات کے ذیل میں تھا، اس کی تین علیحدہ سے برقی کتب بنا دی ہیں۔ ذوقی کا لکھا ’دو لفظ اس کتاب کے تعلق سے‘ محض پہلے حصے میں شامل کیا ہے۔ برادرم ذوقی سے تو اجازت تو اس امر کی اجازت اب تک نہیں لی ہے، اور نہ لے رہا ہوں، اس امید سے کہ وہ برا نہ مانیں گے۔ لیکن یہ نوٹ لکھ رہا ہوں کہ اس مواد کو بطور حوالہ استعمال کرنے والے طلبا، رسرچ سکالر اور ادیب اصل کتاب ’آبِ روانِ کبیر‘ کا ہی حوالہ دیں۔
متفرقات کے باب کے طور پر شامل دوسری دو کتابیں ہیں’ ادبی ڈائری‘ اور ’میری کہانی کی اور دوسری کہانی کار عورتیں‘ ۔
اعجاز عبید
منٹو ہندستانی
منٹوپاکستان ضرور چلے گئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں منٹو کو کبھی بھی پاکستانی تسلیم نہیں کر سکا۔ منٹو تقسیم کے خلاف تھا… تقسیم منٹو کو کبھی راس نہیں آیا… اس لیے میں منٹو کو ہندستان یا پاکستان کے طور پر تقسیم کرنے میں یقین نہیں رکھتا… مگر کیا کیا جائے۔ معاملہ ادب کا ہے تو جی چاہتا ہے، جیسے ہم ہمالیہ یا گنگا پر اتراتے ہیں کہ گنگا میری ہے۔ ہمالیہ میرا ہے۔ ویسے ہی منٹو میرا ہے، کہتے ہوئے کہیں نہ کہیں روح کی تسلی ہو جاتی ہے۔ منٹو اسی طرح ہندستانی ہے، جیسے اقبال تھے۔ اقبال کو لیکر احتجاج کرنے والوں کی کمی نہیں۔ مگر اقبال تو 1938 میں ہی مر گئے یعنی تب جب پاکستان بنا ہی نہیں تھا۔ ہاں اقبال کے عہد کی سیاست نے بھلے ہی اقبال کو مسلم لیگ کا راگ الاپنے کو مجبور کیا ہو، مگر حقیقت دیکھیے تو اس وقت سیاست نے رشتے اور مذہب کے دو حصے تو کر ہی دیئے تھے۔ بہت سے ایسے لوگ تھے جو اس وقت کی نفرت اور انگریزی سازش کا شکار ہو کر پاکستان کا راگ الاپنے لگے تھے، مگر یہی اقبال تھے جنہوں نے ہمالیہ، گرو نانک، رام جی پر بھی نظمیں لکھیں۔ ہندستان کا ترانہ لکھا اور ایسا ادب چھوڑ گئے جسے بھولنا آسان نہیں۔
بڑا ادیب کسی بھی ملک کے وقار میں اضافہ کرتا ہے اور اس کا ادب ایسے خزانہ کی حیثیت رکھتا ہے جس سے آنے والی نسلیں فیضیاب ہوتی رہتی ہیں۔ اسی لیے نہ میں اقبال کو پاکستانی مان سکا نہ منٹو کو۔ فیض احمد فیض اور جوش ملیح آبادی کی بات اور تھی۔ یہ اپنی شرطوں پر گئے تھے۔ جوش کو تو پنڈت نہرو تک جانے سے روکتے رہے لیکن جوش نہیں مانے اور پاکستان جا کر ہی دم لیا۔
منٹو مجبوریوں کے ساتھ پاکستان گئے۔ اور اصل میں منٹو کے خط/ تحریروں کا جائزہ لیجئے تو پاکستان جا کر منٹو خوش کبھی نہیں رہا اور پاکستان جانے کے کچھ عرصہ بعد ہی منٹو کا انتقال بھی ہو گیا۔ ابھی ۱۰۔ ۱۲ برس پہلے ساہتیہ اکادمی کے لیے جب پاکستانی مصنف آصف فرخی نے ’پاکستان کے افسانے‘کتاب مرتب کی تو پہلے افسانہ نگار کے طور پر منٹو کا نام دیکھ کر مجھے افسوس ہوا۔ میں نے ایک مختصر خط میں اپنا احتجاج درج کیا۔ اس خط کا پاکستان میں شائع ہونا تھا کہ وہاں آگ لگ گئی۔ جنگ اور ڈان جیسے اخباروں میں بھی میرے خلاف تحریریں شائع ہوئیں۔ یہاں تک کہ آصف فرخی، حمید شاہد، مبین مرزاجیسے بڑے ادیبوں نے منٹو کو لیکر میرے خلاف مورچہ کھول دیا۔ حمید شاہد نے یہ لکھا کہ بھائی پاکستان کے تمام ادیبوں کو اٹھا کر بھارت لے جاؤ۔ لیکن منٹو کو تو ہمارے پاس رہنے دو۔ چلیے یہ تو ایک رائے تھی— اب منٹو کی زبانی خود ہی سن لیجئے کہ وہ پاکستان جا کر کتنا خوش تھا۔
’’آج میرا دل اداس ہے۔ ایک عجیب کیفیت چھائی ہوئی ہے، چار ساڑھے چار برس پہلے جب میں نے اپنے دوسرے وطن ممبئی کو چھوڑا تھا تو میرا دل اسی طرح دکھی تھا۔ مجھے وہ جگہ چھوڑنے کا صدمہ تھا جہاں میں نے اپنی زندگی کے بڑے مشقت بھرے دن گزرے تھے۔ اس زمین نے مجھ ایسے آوارہ اور خاندان کے دھتکارے ہوئے انسان کو اپنے دامن میں جگہ دی تھی۔ اس نے مجھ سے کہا تھا، تم یہاں دو پیسے روزانہ پر بھی خوش رہ سکتے ہو اور دس ہزار روزانہ پر بھی۔ ‘‘
اور اب منٹو کے دل کی آواز سنیے۔ اس کے درد کو محسوس کیجئے۔
’’میں یہاں پاکستان میں موجود ہوں۔ یہاں سے کہیں اور چلا گیا تو وہاں بھی موجود رہوں گا۔ میں چلتا پھرتا ممبئی ہوں۔ جہاں بھی قیام کرونگا وہیں میرے اپنا جہان آباد ہو جائے گا۔ ‘‘
حقیقت یہ ہے کہ منٹو ممبئی کو بھول ہی نہیں سکا۔ مرتے مرتے منٹو میں ممبئی سانس لیتا رہا۔ اور اسی لیے پاکستان میں رہتے ہوئے بھی وہ چلتا پھرتا ممبئی تھا۔ اب اس خوفناک حقیقت کے بارے میں بھی منٹو سے سنیے کہ تقسیم نے اسے کس حد تک توڑ کر رکھ دیا تھا۔
’’ملک کی تقسیم سے جو انقلاب برپا ہوا، اس سے میں ایک عرصے تک باغی رہا اور اب بھی ہوں۔ لیکن بعد میں اس خوفناک حقیقت کو میں نے تسلیم کر لیا۔
میں نے اس خون کے سمندر میں غوطہ لگایا جو انسان نے انسان کے رنگوں سے بہایا تھا اور چند موتی چن کر لایا، عرق انفعال کے۔ مشقت کے۔ جو اس نے اپنے بھائی کے خون کا آخری قطرہ بہانے میں صرف کی تھی۔ ان آنسوؤں کے جو اس جھنجھلاہٹ میں کچھ انسانوں کی آنکھوں سے نکلے تھے کہ وہ اپنی انسانیت کیوں ختم کر سکے… یہ موتی میں نے اپنی کتاب ’’سیاہ حاشیے‘‘ میں پیش کیے۔ ‘‘
’’ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے نام نہاد دانشوروں نے بڑی جلد بازی سے کام لیا اور رہبری کے شوق میں اپنا نیم رس جوہر ’’پیالے‘‘ میں ڈال دیا جہاں وہ عدم نگہداشت کے باعث گلنے سڑنے لگا۔ ‘‘
٭٭
’’میں آج بہت اداس ہوں … پہلے مجھے ترقی پسند تسلیم کیا جاتا تھا بعد میں مجھے ایک دم رجعت پسند بنا دیا گیا۔ اوہ اب فتوے دینے والے سوچ رہے ہیں اور پھر سے یہ تسلیم کرنے کے لیے آمادہ ہو رہے ہیں کہ میں ترقی پسند ہوں۔ اور فتووں پر اپنے فتوے دینے والی سرکار مجھے ترقی پسند یقین کرتی ہے۔ یعنی ایک سرخہ… ایک کمیونسٹ۔ کبھی کبھی جھنجھلا کر مجھ پر فحش نگاری کا الزام لگا دیتی ہے اور مقدمہ سنا دیتی۔ دوسری طرف یہی سرکار اپنی مطبوعات میں یہ اشتہار دیتی ہے… کہ سعادت حسن منٹو ہمارے ملک میں گزشتہ ہنگامی دور میں بھی رواں دواں رہا… میرا اداس دل لرزتا ہے کہ سرکار خوش ہو کر ایک تمغہ میرے کفن سے ٹانک دیگی جو میرے داغ عشق کی بہت بڑی توہین ہو گی۔ ‘‘
پاکستان میں منٹو کے ساتھ جو سلوک ہوا، اس درد کو ان جملوں میں بہ آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ شاید یہی درد منٹو کی موت کا سبب بھی بنا۔ ورنہ ۴۲ سال کی عمر مرنے کی نہیں ہوتی۔ تقسیم اور ہندستان چھوڑنے کی سزا نے منٹو کو ٹوبہ ٹیک سنکھ کے پاگل میں تبدیل کر دیا تھا۔ منٹو جیسا پاگل اس درد کو آخر کب تک سہتا۔ اسے تو مرنا ہی تھا۔
صاحب یہ منٹو کا وہی بیان ہے جو اس نے پاکستان جا کر دیا— وہ نہ وہاں جانے سے خوش تھا نہ وہاں کی حکومت سے— بلکہ پاکستان میں بھی اس کے اندر ممبئی زندہ رہا۔
ساہتیہ اکادمی کی کتاب اور منٹو پاکستانی
’’اردو افسانہ جب ’سپاٹ بیانی‘ کے عہد میں سانس لے رہا تھا۔ منٹو کی شکل میں غلامی اور فرقہ واریت کے ماحول سے ایک ایسے فنکار نے جنم لیا، جس کی ٹیڑھی میڑھی ’کافر‘ کہانیاں، اردو کہانیوں کی ایک نہ بھولنے والی تاریخ بن گئیں۔ وہی منٹو جس نے ہندستان میں جنم لیا۔ ہندستان میں دھکے کھائے۔ ممبئی اور تب کے بامبے کے فلم اسٹوڈیو میں نوکری کی اور جس کا ’آئرن مین‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ بھی ’نومینس لینڈ‘ کے اس طرف جانے میں یقین نہیں رکھتا تھا، کیا منٹو آن کی آن میں پاکستانی بن گیا…؟
ساہتیہ اکادمی کی شائع کردہ پاکستانی کہانیاں (انتخاب، پیش لفظ: انتظار حسین، آصف فرخی، ترجمہ: عبدل بسم اللہ) سے سب سے پہلا بنیادی سوال تو یہی ہے۔ پاکستان بن جانے اور آخری دنوں میں پاکستان چلے جانے بھر سے کیا منٹو پاکستانی ہو گیا…؟ کیوں کہ ترتیب دی گئی ۳۲ کہانیوں میں پہلی کہانی ’کھول دو‘ منٹو کے ’پاکستانی‘ قرار دیئے جانے کی جو روداد سناتی ہے، وہ ہمیں قبول نہیں۔
تمہید کے تحت اپنے انتظار بھائی نے کئی بہت ہی دلچسپ باتیں اپنے قارئین کے سامنے رکھی ہیں۔ مثلا… پاکستان بننے کے تھوڑے عرصے بعد ہی ہمارے ادب میں یہ سوال کھڑا ہو گیا تھا کہ پاکستانی ادب کی اپنی پہچان کیا ہے؟
ممکن ہے منٹو والی غلط فہمی بھی اسی پاکستانی ادب کی پہچان سے جنمی ہو…پاکستان کو ادبی شناخت کے لیے منٹو کی ضرورت تھی اور منٹو اس اسلامی شناخت کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا— پاگل کہے جانے والے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی فکر بھی یہی تھی۔ ہندستانی کون اور پاکستانی کون؟ شاید یہی فکر منٹو کی بھی رہی ہو۔ نتیجے کے طور پر ٹوبہ ٹیک سنگھ نے جس جگہ اپنی جان دی، وہ جگہ نہ ہندستان کی تھی، نہ پاکستانی کی… وہ نومینس لینڈ تھی۔ منٹو کا آخری وقت میں چلا جانا بدقسمتی ہوسکتا ہے۔ لیکن یہی منٹو تھا جو زندگی بھر بٹوارے کے خلاف لکھتا رہا۔
پاکستانی ادب کی پہچان کا معاملہ دلچسپ ہے۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے منٹو کا کردار ٹوبہ ٹیک سنگھ۔ تقسیم سے پہلے تک تو سارے ہندستانی تھے۔ پھر پاکستانی ادب کا فرق کیسے سمجھا جائے۔
انتظار بھائی آگے لکھتے ہیں …’’ایک تقاضہ یہ بھی تھا، جب ایک ملک بن گیا ہے اور ہم ایک الگ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں تو ہمارے ادب کو بھی ایسا ہونا چاہئے کہ اس کی الگ شناخت ہو۔ ‘‘
لیکن یہیں پر انتظار بھائی مار کھا گئے۔ تقسیم کا عہد یا دو قومی نظریے کی بات چھوڑ دیجئے تو ۴۵ برسوں کے بعد بھی آپ اس شناخت کے سوال پر بٹوارے کی لکیریں نہیں کھینچ سکتے۔ انداز فکر کی سطح پر ادب کا بٹوارہ نہیں ہوسکا۔
لیکن ایک ’’دلچسپ‘ بات کا جاننا ضروری ہے کہ پاکستان بننے کے بعد سے ہی علیحدہ پاکستانی ادب، کی مانگ نے بھی سر اٹھانا شروع کیا تھا۔ آصف فرخی کے نانا یعنی حسن عسکری نے سب سے پہلے اس الگ پاکستانی ادب کی وکالت کی اور منٹو جیسے عوامی مصنف کو نئے اسلامی جمہوریہ کی نئی تمہید میں دیکھتے ہوئے پاکستانی قرار دے دیا—منٹو بیچارہ جو ۴۷ کی تقسیم کے بعد ۴۸ میں پاکستان گیا وہ بھی اپنی بیوی کے زور دینے پر اور ۵۵ میں منٹو کی موت بھی ہو گئی۔ مگر عسکری اسے ہر سطح پر پاکستانی قرار دینے میں لگے رہے۔ نتیجہ کے طور پر انتظار حسین بھی پاکستان اور اسلامی ادب سے گزرتے ادب کی مانگ لے کر سامنے آ گئے۔ شاید اسی لیے پاکستانی کہانی کو ایک دم الگ آنکھ سے دیکھنے کی کارروائی زور پکڑ چکی تھی۔
’’پاکستانی اگر الگ قوم ہے تو اس کی قومی اور تہذیبی شناخت کیا ہے اس کی تاریخ کہاں سے شروع ہوتی ہے اور اس کی جڑیں کہاں ہیں ؟‘‘
ہم یہ ظاہر کر دینا چاہتے ہیں کہ ہندستان سے نکلے پاکستان کی تہذیبی شناخت کی جڑیں ہمیشہ سے ہندستان میں ہی گڑی تھیں اور گڑی ہیں۔ اس کی تاریخ بھی ہندستان سے شروع ہوتی ہے۔ شاید اسی لیے الگ قومی اور تہذیبی شناخت ڈھونڈنے کی کارروائی انہیں بار بار زخمی کرتی رہی ہے۔ سیاسی اکھاڑے سے ادب کے اسٹیج تک کا بھٹکاؤ اسی کنفیوژن کی دین ہے—ان سطور کے تحریر کیے جانے کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ منٹو پر جو صرف آخر ایام کے سات سال تک پاکستان رہا، آپ پاکستانی ہونے کی مہر نہیں لگا سکتے۔
منٹو کو پاکستانی ثابت کرنے کے لیے پاکستانی مصنفین کے پاس بہت سی دلیلیں ہیں۔ لیکن منٹو کی مجبوریاں بھی کسی سے چھپی نہیں تھیں۔ جب آپ ایک نئے ملک میں جاتے ہیں تو آپ کو اس ملک کے لیے ذہنی طور پر بھی تیار کرنا ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان جانے کے سات سالوں میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ منٹو وہاں جا کر خوش تھا—منٹو کو وہ سیاست آخر تک لہولہان کرتی رہی جس نے ایک ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اس وقت جب ہندستانی حکومت نے پاکستان کے لیے پانی بند کیا تو منٹو نے کربلا جیسی کہانی لکھ ڈالی۔ کربلا میں منٹو کے درد کو بہ آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ کہانی کے آخر میں جب بچے کے رونے کی آواز آتی ہے تو اس کا کردار کہتا ہے، میں اس کا نام یزید رکھوں گا— اس جملہ میں جو درد، جو تڑپ ہے اس کو سمجھنے کے لیے تقسیم کے درد کو سمجھنا ضروری ہے—پانی زندگی کی علامت ہے۔ کربلا کے پیاسوں پر یزید نے زندگی تنگ کر دی— تقسیم المیہ نے پانی کی سیاست بھی شروع کر دی تو منٹو کا قلم رو دیا۔ اور یہ قلم پاکستان جانے کے بعد بھی ایسے ہزاروں موقعوں پر روتا رہا۔ منٹو کا سارا ادب پڑھ جائیے تو اپنے عہد میں منٹو واحد لکھاڑی تھا جو مذہب یا تقسیم سے اوپر اٹھ کر لکھ رہا تھا۔ اور یہی چیز منٹو کو اپنے عہد کے دوسرے لکھاڑیوں سے الگ کرتی تھی۔ اسی لیے میں آج بھی منٹو کے ہندستان چھوڑنے کو ایک مجبوری کا ہی نام دیتا ہوں۔ اور منٹو کو پوری طرح ہندستانی تخلیق کار ہی مانتا ہوں۔
٭٭٭
فراڈ منٹو
(محترم رضیہ مشکور صاحبہ— منٹو صدی منائی جا رہی ہے تو منٹو پر مضامین لکھنے والے بھی کم نہیں ہوں گے۔ میں نے کچھ برس پہلے منٹو پر ٹی وی کے لیے ایک خوبصورت سا پروگرام بنایا تھا— فراڈ منٹو— آپ اور قارئین دیدہ ور کی دلچسپی کے لیے خصوصی طور پر یہ منظرنامہ بھیج رہا ہوں۔ امید ہے، پسند کریں گی۔ ذوقی)
کیمرہ اوپن کرتے ہی تھرتھراتی ہوئی لو نظر آتی ہے— شمع کی اس تھرتھراتی لو پر آواز ابھرتی ہے۔
لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں …/
کہانیاں شروع ہوتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں …/
لیکن کچھ یادگار لمحے ہر بار ہمارے درمیان رہ جاتے ہیں …/
جو ہم سے کہتے ہیں …/
’یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں …‘
روشنی کے دائرے کے بیچ اینکر کی انٹری
اینکر :آج اس سفر کی شروعات ہم سعادت حسن منٹو سے کرنے جا رہے ہیں۔ منٹو، جس نے اردو افسانے کا رنگ و آہنگ ہی بدل کر رکھ دیا۔ ایک ایسا فنکار جس نے اردو افسانے کو بلندی پر پہنچا دیا اور جس کے بارے میں یہاں تک کہا گیا…
ممتاز شیریں کی تصویر
(انیمیشن کے ذریعے یہ ایفکٹ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ ممتاز شیریں ہی بول رہی ہیں )
ممتاز شیریں :منٹو ہمارا سب سے بڑا افسانہ نگار تھا۔ ہندوستان اور پاکستان کا سب سے بڑا افسانہ نگار۔ جس کی تخلیقات کا موازنہ عالمی ادب کے کسی بھی شاہکار سے کیا جا سکتا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ منٹو ہی ہمارا موپاساں ہیں تو اس میں شک نہیں ہونا چاہئے۔ منٹو اورموپاساں میں بہت کچھ ایک جیسا ہے۔ لیکن یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ منٹو نے کبھی موپاساں بننے کی کوشش نہیں کی۔ منٹو خود ہی موپاساں تھا۔ منٹو نے سماج کی گندگی اور برائیوں کو تلخی سے محسوس کیا تھا۔ منٹو نے زندگی کا زہر چکھا تھا۔ اور اس طرح چکھا کہ اس کی کڑواہٹ منہ اور حلق سے اُتر کر اس کی روح میں داخل ہو گئی۔ مگر پھر بھی اُسے انسانیت پر یقین رہا۔ اور موپاساں کی طرح وہ ہمیشہ یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا رہا کہ انسانوں میں گندگی بدصورتی یا برائیاں ہوسکتی ہیں۔ مگر اس کے باوجود انسان ہونا فخر کی بات ہے۔
سوپر کیپشن/منٹو کی کہانی، منٹو کی زبانی/فریم کے ایک طرف منٹو کی تصویر/ دوسری طرف لکھا ہوا آئے گا۔
میں منٹو ہوں
اس عہد کا سب سے بڑا فراڈ
کیمرہ روشنی کے دائرے میں اینکر سے اوپن کرتے ہیں۔
اینکر :اس میں کوئی شک نہیں کہ منٹو ہمارے عہد کا موپاساں تھا۔ ادبی سفر کے سو برسوں میں کوئی دوسرا منٹو پیدا نہیں ہوسکا۔ منٹو ۱۱؍ مئی ۱۹۱۲ سمبرالہ ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ باپ کا نام مولوی غلام حسین منٹو تھا۔ منٹو کے آباء و اجداد کشمیر کے تھے۔ مگر یہ لوگ امرتسر میں آ کر بس گئے۔ منٹو کی ابتدائی تعلیم امرتسر میں ہوئی۔ بعد میں یہ علی گڑھ میں پڑھتے رہے مگر انٹر تک ہی تعلیم مکمل کر سکے۔ منٹو کی پہلی کہانی ’تماشہ‘ تھی جو ان کے نام کے بغیر ’خلق‘ امرتسر میں شائع ہوئی۔
(وقفہ)
اینکر:لیکن یہ تمام باتیں آپ کو میں کیوں بتا رہا ہوں۔ چلئے، منٹو سے ہی سنتے ہیں۔ اس کی آپ بیتی— خود کو فراڈ کہنے والا منٹو شاید دنیا کا پہلا افسانہ نگار تھا جو خود کو ذلیل کرتے ہوئے بھی فخر محسوس کرتا تھا۔ دیکھئے، وہ آپ سے کیا کہہ رہا ہے۔ (ہنستے ہوئے) ہے نا گنجا فرشتہ۔
آواز: سعادت حسن منٹو حاضر ہو۔
پہلا سگمنٹ
روشنی کے دائرے میں کردار کے طور پر منٹو خود اپنی کہانی بیان کر رہا ہے۔
منٹو :صاحبان!میرے کے بارے میں اب تک بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے— اعتراف میں کم اور اختلاف میں زیادہ۔ یہ بات اگر پیش نظر رکھا جائے تو کوئی عقلمند منٹو کے بارے میں صحیح رائے قائم نہیں کر سکتا۔ میں یہ بتانے آیا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ منٹو کے بارے میں اپنے خیالات ظاہر کرنا بڑا مشکل کام ہے، لیکن ایک لحاظ سے آسان بھی ہے، اس لیے کہ منٹو سے مجھے قربت حاصل رہا ہے… سچ پوچھئے تو میں منٹو کا ہمزاد یعنی وہ جنّ یا شیطان ہوں جو ہر انسان کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔
اب تک اُس شخص کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے، مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن میں اتنا سمجھتا ہوں کہ جو کچھ اُن مضامین میں پیش کئے گئے ہیں ‘ حقیقت سے دور ہیں۔ بعض لوگ اُسے شیطان کہتے ہیں، بعض گنجا فرشتہ… ذرا ٹھہریئے، میں دیکھ لوں، کہیں یہ کمبخت سن تو نہیں رہا… نہیں نہیں، ٹھیک ہے، مجھے یاد آگیا کہ یہ وہ وقت ہے جب وہ پیا کرتا ہے… اُس کو شام کو چھ بجے کے بعد کڑوا شربت پینے کی عادت ہے۔
کیمرہ عدالت میں بیٹھے لوگوں پر چارج /شور
جج: آڈر… آڈر
کیمرہ ایک بار پھر منٹو پر فوکس کرتا ہے۔
منٹو:ہم اکٹھّے ہی پیدا ہوئے اور خیال ہے کہ اکٹھا ہی مریں گے، لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو نہ مرے، اور مجھے یہ اندیشہ بہت دکھ دیتا ہے، اس لیے کہ میں نے اُس کے ساتھ اپنی دوستی نبھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی… اگر وہ زندہ رہا اور میں مر گیا تو ایسا ہو گا کہ انڈے کا خول تو سلامت ہے اور انڈے کی زردی اور سفیدی غائب ہو گئی ہے۔
کیمرہ عدالت میں بیٹھے ہنستے ہوئے لوگوں پر چارج
جج: آڈر… آڈر…
کیمرہ منٹو پر کلوز ہوتا ہے
منٹو:اب میں زیادہ تفصیل میں جانا نہیں چاہتا، آپ سے صاف کہے دیتا ہوں کہ منٹو ایسا ون ٹو آدمی میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا جسے اگر جمع کیا جائے تو وہ تین بن جائیں۔
کیمرہ ہنستے ہوئے لوگوں پر چارج/ منٹو ان لوگوں کی طرف گھوم کر دیکھتا ہے۔ پھر اپنی بات کہنا شروع کرتا ہے
منٹو:یوں تو منٹو کو میں اُس کی پیدائش ہی سے جانتا ہوں … ہم دونوں اکٹھّے ایک ہی وقت گیارہ مئی ۱۹۱۲ء کو پیدا ہوئے… لیکن اس نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ خود کو کچھوا بنائے رکھے، جو ایک دفعہ اپنا سر اور گردن چھپا لے تو آپ لاکھ تلاش کرتے رہیں ‘ اس کا سراغ نہ ملے… لیکن میں بھی آخر اس کا ہمزاد ہوں، میں نے اُس کی ہر جنبش کا مطالعہ کر ہی لیا ہے۔
کیمرہ بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک پر چارج/وہ آدمی ہاتھ اٹھاتا ہے۔
آدمی: منٹو صاحب، یہ بتائیے آپ افسانہ نگار کیسے بنے
کیمرہ منٹو پر چارج
لیجئے، اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ خر ذات افسانہ نگار کیسے بنا… نقاد بڑے لمبے چوڑے مضمون لکھتے ہیں ‘ اپنی صلاحیت کا ثبوت دیتے ہیں، شوپین ہاور، فرائیڈ، ہیگل، نیتشے، مارکس کے حوالے دیتے ہیں، مگر حقیقت سے کوسوں دور رہتے ہیں۔
منٹو کا کہانی بُننا دو اختلاف کے ٹکراؤ کا نتیجہ ہے… اُس کے والد‘ خدا انہیں بخشے، بڑے سخت گیر تھے اور اس کی والدہ بے حد نرم دل… ان دو پاؤں کے اندر پیس کر یہ گیہوں کا دانا کس شکل میں باہر نکلے گا اس کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں۔ اچھا اب اس کی کہانیوں کے بارے میں ’سنیے‘ وہ اوّل درجے کا فراڈ ہے۔ پہلا افسانہ اُس نے ’تماشہ‘ عنوان سے لکھا۔ جو جالیاں والا باغ کے خونی حادثے کے بارے میں تھا۔ یہ افسانہ اُس نے اپنے نام سے نہیں چھپوایا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پولس کے ہتھے چڑھنے سے بچ گیا۔
سوپر کیپشن منٹو: پہلا چہرہ/
کیمرہ اینکر پر فوکس
اینکر :پہلی کہانی ’تماشہ‘ اور وہ بھی جالیاں والے باغ کے خونی حادثے پر۔ منٹو کتنا انقلابی تھا۔ یہ جاننے کے لیے ایک واقعہ سن لیجئے۔ مطالعے کا شوق منٹو کو بچپن سے تھا۔ اور اس جنون کے لیے گھر سے پیسے چراتے ہوئے بھی اُسے شرم نہیں آتی تھی۔ ایک بار امرتسر ریلوے اسٹیشن کے بُک اسٹال سے وہ کتاب چراتے ہوئے پکڑے گئے۔ جب پولس اُنہیں لے کر تھانے جانے لگی تو منٹو زور زور سے انقلاب زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ چاروں طرف بھیڑ لگ گئی۔ لوگوں نے سوچا کوئی دیش بھگت ہے جسے انگریزوں کے خلاف بولنے کے جرم میں پولس لیے جا رہی ہے۔ آخر پولس کو منٹو کو چھوڑنا پڑا۔ منٹو کتنا انقلابی تھا یہ سردار جعفری کی زبانی سنئے۔
سردار جعفری کی تصویر فریم میں ابھرتی ہے
سردار جعفری: منٹو سے میری پہلی ملاقات ایک مشاعرے میں ہوئی۔ جب میں مشاعرے کے بعد باہر نکلا تو ایک ذہین آنکھوں اور بیمار چہرے والا طالب علم مجھے اپنے کمرے میں یہ کہہ کر لے گیا کہ میں بھی انقلابی ہوں۔ اُس کے کمرے میں وکٹر ہیوگو کی بڑی سی تصویر لگی ہوئی تھی۔ اور میز پر چند دوستوں کے ساتھ اُس کی اپنی تصویر تھی جس کے پیچھے گورکی کی تحریر تھی۔ یہ سعادت حسن منٹو تھا۔ اُس نے مجھے بھگت سنگھ پر مضمون پڑھنے کے لیے دیئے۔ وکٹر ہیوگو اور گور کی سے تعارف کرایا۔
میں جب اپنی تعلیم مکمل کر کے لکھنؤ چلا گیا اور منٹو بمبئی، تو اس نے مجھے کئی بار بمبئی بلایا۔ جب میں کمیونسٹ پارٹی کے ہفت روزہ میں کام کرنے کے لیے ۱۹۴۲ء میں بمبئی پہنچا تو میرے اور منٹو کے درمیان ادبی اختلافات کی کھائی کافی وسیع تر ہو چکی تھی لیکن ہماری دوستی میں فرق نہیں آیا۔ اپنے کڑوے کسیلے لمحے بھی آئے اور تیز و تند کیفیت بھی پیدا ہوئی۔ اس رات منٹو بڑی دیر تک باتیں کرتا رہا اور ہم دونوں نے مل کر ایک رسالہ نکالنے کی اسکیم بھی تیار کی۔ شاہد لطیف نے اس کا نام ’نیا ادب‘ تجویز کیا۔ یہ رسالہ پانچ چھ سال بعد لکھنؤ سے نکلا لیکن منٹو اور شاہد لطیف کے بجائے ’مجاز‘ اور سبطِ حسن میرے ساتھ تھے۔
کیمرہ اینکر پر فوکس
اینکر:تو یہ منٹو کا پہلا چہرہ تھا۔ ایک انقلابی اور وطن پرست کہانی کار کا چہرہ۔ اور منٹو کو خود بھی اس چہرے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ شروعات میں منٹو روسی ادب سے بھی خاصہ متاثر ہوا۔ مارکس، لینن، اسٹالن، گورکی اور والیٹر کے ادب اور آئیڈیالوجی سے بھی متاثر ہوا۔ شہید بھگت سنگھ اور آزادی کے متوالے کی کہانیوں نے اچانک منٹو کے سوچنے سمجھنے کا انداز بدل دیا۔ اور اچانک منٹو میں ایک دوسرے چہرے کا جنم ہوا۔ یہ دوسرا چہرہ سیاسی اور انقلابی چہرے سے مختلف تھا۔ اب اس کی جگہ جنسی استحصال اور باغی تصورات نے لے لیا تھا۔ کالی شلوار‘ دھواں اور ٹھنڈا گوشت جیسی کہانیوں نے ادب میں ہنگامہ برپا کر دیا اور منٹو پر فحش لٹریچر لکھنے کا الزام لگایا گیا۔
کیمرہ منٹو کی تصویر پر مرکوز
اینکر:در اصل منٹو کی کہانیاں بدلے ہوئے وقت کی کہانیاں تھیں۔ فرنگی گھوڑوں کا ظلم اور سسکتی ہوئی غلامی، عورت کا مظلوم چہرہ— منٹو کے اندر کا افسانہ نگار بھلا سب کچھ دیکھتے ہوئے خاموش کیسے رہتا۔ اس لیے منٹو پر جب الزام لگنے شروع ہوئے تو منٹو کو کہنا پڑا— اگر آپ میری کہانیوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا یہ عہد ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ مجھ میں جو خامیاں ہیں وہ اس عہد کی خامیاں ہیں۔ میرے لکھنے میں کوئی قصور نہیں۔ میرے نام سے جس کو وابستہ کیا جاتا ہے وہ در اصل نئے سماج کا قصور ہے۔ میں بدعنوانی نہیں چاہتا۔ میں لوگوں کے خیالوں کو بھڑکانا نہیں چاہتا۔ میں اُس تہذیب کی چولی کیوں اُتارنا چاہوں گا جو خود ننگی ہے۔ میں اُسے کپڑے پہنانے کی کوشش نہیں کرتا کیونکہ یہ درزی کا کام ہے۔
سوپر کیپشن/ منٹو: دوسرا چہرہ/فحش نگار منٹو
کیمرہ اینکر پر فوکس
اینکر:منٹو کی فحش نگاری پر باتیں ہو گئیں۔ اب چلئے منٹو سے خود جانتے ہیں کہ وہ کتنا بڑا فحش نگار تھا۔
کیمرہ روشنی کے دائرے میں کھڑے منٹو پر چارج/ اس زاویے سے وہاں گیلری میں بیٹھے لوگوں پر بھی کیمرہ پین ہوتا ہے۔
منٹو:منٹو حاضر ہے۔ اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں میں منٹو کا ہمزاد ہوں۔ یہ عجیب بات ہے کہ لوگ منٹو کو بڑا غیر مذہبی اور گندہ انسان سمجھتے ہیں، اور میرا بھی خیال ہے کہ وہ کسی حد تک اس درجے میں آتا ہے، اس لیے کہ وہ عام طور پر منٹو گندے موضوعات پر قلم اٹھاتا ہے اور ایسے لفظ اپنی تحریر میں استعمال کرتا ہے، جن پر اعتراض پر گنجائش ہوسکتی ہے‘ لیکن میں جانتا ہوں کہ جب بھی منٹو نے کوئی افسانہ لکھا، پہلے صفحہ کی پیشانی پر 786 ضرور لکھا، جس کا مطلب ہے بسم اللہ… یہ شخص جو اکثر خدا سے انکاری نظر آتا ہے، کاغذ پر مومن بن جاتا ہے… منٹو کاغذی منٹو ہے جسے آپ کاغذی باداموں کی طرح صرف انگلیوں سے توڑ سکتے ہیں ‘ ورنہ لوہے کے ہتھوڑے سے بھی ٹوٹنے والا آدمی نہیں۔
کیمرہ آرٹ گیلری میں بیٹھے لوگوں پر فوکس/ پل بیک کرتے ہی کیمرہ دوبارہ منٹو پر چارج
اب میں منٹو کی شخصیت کی طرف آتا ہوں، چند الفاظ میں بیان کئے دیتا ہوں … وہ چور ہے… جھوٹا ہے… دغا باز ہے… مجمع گیر ہے…اس نے اکثر اپنی بیوی کی غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی کئی سو روپے اڑائے ہیں ! … اِدھر آٹھ سو لا کر دیئے اور اُدھر چور آنکھ سے دیکھتا رہا کہ وہ کہاں رکھ رہی ہے، اور پھر دوسرے ہی دن اُن میں سے ایک سو کا نوٹ غائب کر دیا… جب اس بے چاری کو اپنے نقصان کی خبر ہوئی‘ وہ نوکروں کو ڈانٹنا ڈپٹنا شروع کر دیتی۔
کیمرہ آرٹ گیلری میں بیٹھی ایک عورت پر چارج
عورت (ہنستی ہوئی): یہ کیسے معلوم ہو کہ انسان منٹو کتنا سچا ہے اور فکشن نگار منٹو کتنا جھوٹا
کیمرہ منٹو پر چارج
منٹو:یوں تو منٹو کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سچّا ہے، لیکن میں اِسے ماننے کے لیے تیار نہیں … وہ اوّل درجے کا جھوٹا ہے۔ شروع شروع میں اس کا جھوٹ گھر میں چل جاتا تھا، اس لیے کہ اُس جھوٹ میں منٹو کا خاص ٹچ ہوتا تھا، لیکن بعد میں اس کی بیوی کو معلوم ہو گیا کہ اب تک منٹو کو اس خاص معاملے کے مطابق جو کچھ کہا جاتا رہا ہے، جھوٹا تھا… منٹو جھوٹ کفایت سے بولتا ہے، لیکن اس کے گھر والے، مصیبت یہ ہے، اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اُس کی ہر بات جھوٹی ہے، اُس تل کی طرح جو کسی عورت نے اپنے گال پر سرمے سے بنا رکھا ہو۔
کیمرہ آرٹ گیلری میں بیٹھے لوگوں پر چارج/ دوبارہ منٹو کو کلوز میں لیتا ہے۔
منٹو:وہ ان پڑھ ہے، اس لحاظ سے کہ اُس نے کبھی مارکس کا مطالعہ نہیں کیا، فرائیڈ کی کوئی کتاب آج تک اس کی نظر سے نہیں گذری، ہیگل کا وہ صرف نام ہی جانتا ہے، لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ، میرا مطلب ہے نقاد یہ کہتے ہیں کہ وہ ان تمام دانشوروں سے متاثر ہے… جہاں تک میں جانتا ہوں، منٹو کسی دوسرے شخص کے خیالات سے متاثر ہوتا ہی نہیں … وہ سمجھتا ہے کہ سمجھانے والے سب چغد ہیں، دنیا کو سمجھنا نہیں چاہئے، اس کو خود سمجھنا چاہئے… خود کو سمجھا سمجھا کر وہ ایک ایسی سمجھ بن گیا ہے، جو سمجھ بوجھ سے بالاتر ہے… وہ بعض دفعہ ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرتا ہے کہ مجھے ہنسی آتی ہے۔ میں آپ کو پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ منٹو، جس پر فحاشی کے سلسلے میں کئی مقدمے چل چکے ہیں صفائی پسند ہے، لیکن میں یہ بھی کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ ایک ایسا پا انداز (پاؤں صاف کرنے والا ٹاٹ یا چٹائی) ہے جو خود کو جھاڑتا ہے پھٹکتا رہتا ہے۔
کیمرہ اینکر پر فوکس
اینکر:مشہور افسانہ نگار کرشن چندر نے کہا تھا—اردو میں اچھے افسانہ نگار تو پیدا ہوتے رہیں گے لیکن منٹو دوبارہ پیدا نہیں ہو گا۔ ’کھول دو‘ منٹو کی ایسی کہانی تھی جو سماج کی ننگی سچائیوں کو سامنے لاتی ہے۔ آئیے، اُس کہانی کی چھوٹی سی جھلک دیکھتے ہیں۔
کٹ ٹو
اینکر کو کہانی پڑھتے ہوئے دکھایا جائے گا ساتھ میں Visual چلتے رہیں گے۔
سپر کیپشن
کھول دو
اینکر:ایک دن سراج الدین نے کیمپ میں اُن رضاکار نوجوانوں کو دیکھا۔ وہ لاری میں بیٹھے تھے۔ وہ بھاگا بھاگا ان کے پاس گیا— لاری چلنے ہی والی تھی کہ اُس نے پوچھا: ’’بیٹا… میری سکینہ کا پتہ چلا…؟‘‘سب نے ایک زبان ہو کر کہا : ’’ چل جائے گا، چل جائے گا…‘‘ اور لاری چل پڑی۔ اُس نے ایک بار پھر اُن نوجوانوں کی کامیابی کی دعا مانگی — اور یوں اُس کا جی کسی قدر ہلکا ہو گیا۔
اُسی شام کیمپ میں جہاں سراج الدین بیٹھا ہوا تھا، اُس کے پاس ہی کچھ گڑبڑ ہوئی۔ چار آدمی کچھ اٹھا کر لا رہے تھے۔ اُس نے دریافت کیا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ لڑکی ریلوے لائین کے پاس بیہوش پڑی تھی، لوگ اُسے اٹھا کر لا رہے ہیں۔ وہ اُن کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ اُن لوگوں نے لڑکی کو ہسپتال کے سپرد کیا اور چلے گئے۔ وہ کچھ دیر تک ایسے ہی ہسپتال کے باہر گڑے ہوئے لکڑی کے کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا، پھر آہستہ آہستہ اندر چلا گیا۔ ایک کمرے میں کوئی بھی نہیں تھا، بس ایک اسٹریچر تھا، جس پر ایک لاش سی پڑی تھی۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا بڑھا۔ کمرے میں اچانک روشنی ہوئی۔ اُس نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہوا تل دیکھا، اُس نے پوچھا: ’’ کیا ہے؟‘‘ اس کے حلق سے صرف اتنا نکل سکا: ’’جی میں … جی میں اس کا باپ ہوں …‘‘ ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا، پھر لاش کی نبض ٹٹولی اور اس نے کہا : ’’ کھڑکی کھول دو…‘‘
مردہ جسم میں جنبش ہوئی…بے زبان ہاتھوں نے ازار بند کھولا…اور شلوار نیچے سرکا دی…بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلّایا: ’’ زندہ ہے… میری بیٹی زندہ ہے… ‘‘ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہو چکا تھا۔
تالیوں کی گڑگڑاہٹ /کیمرہ اینکر پر مرکوز
اینکر:تو یہ تھا ہمارا آپ کا منٹو۔ سعادت حسن منٹو۔ منٹو تقسیم کے بعد مجبوری کی وجہ سے پاکستان چلے گئے۔ اور وہاں ۷ برس بعد بیماری کی حالت میں ان کا انتقال ہو گیا۔ یوں منٹو کے مرنے کے بعد منٹو کی شان میں سب نے لکھا۔ لیکن دیویندر ستیارتھی نے جو لکھا— اُس کی نظیر نہیں ملتی۔
کیمرہ دیویندر ستیارتھی کی تصویر پر چارج۔
وائس اوور
منٹو خدا کے دربار میں پہنچا تو عرض کیا تم نے مجھے کیا دیا۔ ۴۲سال کچھ مہینے۔ میں نے تو سوگندھی کو صدیاں دی ہیں۔
(تالیوں کی آواز)
کیمرہ اینکر پر چارج
اینکر:منٹو کو سمجھنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ منٹو کی کہانیوں کو صرف فسادات کے تناظر میں یا نفسیاتی تجزیے کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔ منٹو فحش نگار ہے لیکن اگر اس کی کہانیوں کا مطالعہ کریں تو جن کہانیوں میں منٹو خود کردار کی حیثیت سے ہے، وہاں وہ شریف نظر آتا ہے۔ یہاں بھی وہ فراڈ ہے۔ وہ ہوتا کچھ ہے۔ دکھاتا کچھ اور ہے۔ تقسیم منٹو کو راس نہیں آئی اور اس کے ٹوبہ ٹیک سنکھ نے نو مینس لینڈ پر دم توڑ دیا— منٹو پاکستان ضرور چلا گیا۔ مرا بھی وہیں۔ لیکن اس کی آتما آخر آخر تک ہندستان میں رہی۔ بیشک دوسرا منٹو نہ ہندستان پیدا کر سکتا ہے اور نہ پاکستان— دونوں ملکوں کے لیے ایک ہی منٹو کافی ہے—فراڈ منٹو—
ہلکی میوزک
فیڈ آؤٹ
٭٭٭
منٹو:ایک کولاژ
شیڈ ایک
منٹو کا ذکر آتے ہی اچانک دیوندر سیتارتھی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ منٹو کا تجزیہ کرنا ہو تو منٹو اور منٹو پر لکھے گئے بے شمار مضمون ایک طرف، اور دوسری طرف منٹو پر لکھی گئی سیتارتھی کی چند سطریں جن کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ منٹو مرنے کے بعد خدا کے دربار میں پہنچا تو بولا، تم نے مجھے کیا دیا… بیالیس سال، کچھ مہینے، کچھ دن، میں نے تو سوگندھی کو صدیاں دی ہیں۔
سوگندھی منٹو کے مشہور افسانہ ’’ہتک‘‘ کا کردار ہے۔ لیکن ایک ’ہتک‘ ہی کیا منٹو کا افسانہ پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے ہر افسانہ ’ہتک‘ اور اس سے آگے کی کہانی ہے۔ کیونکہ فکر کی منزل ہر آن بلند سے بلند تر ہوتی چلی جاتی ہے۔
منٹو عام افسانہ نگار نہیں تھا۔ منٹو کا ادبی قد وہی تھا جو چیخوف اور موپاساں کا تھا۔ منٹو کی گنتی ان خوش نصیب افسانہ نگاروں میں ہوتی ہے جن کی فنکارانہ صلاحیتوں کو ان کی زندگی میں ہی تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ شہرت اس کے قدم چومتی تھی۔ ناقد منٹو پر بات کرتے ہوئے اس کا موازنہ چیخوف اور موپاساں سے کرنے لگے تھے۔ منٹو لکھنے سے پہلے بہت زیادہ سوچتا بھی نہیں تھا۔ کہانی اس کے گھر کی پالتو بلی جیسی تھی جو ذرا سا پچکارنے پر اس کے پاس آ جاتی۔ اپنے گھر کے بکھرے ہوئے کمرے میں منٹو قلم اٹھاتا اور کہانی خود بہ خود شروع ہو جاتی۔ ہزاروں کہانیاں — خاکے— مضامین— گنجے فرشتے سے سیاہ حاشیے تک جتنے تجربے منٹو نے کیے اتنے تو شاید چیخوف اور موپاساں نے بھی نہیں کیے ہونگے۔
حقیقت یہ ہے کہ اپنے ہر نئے افسانے کے ساتھ منٹو کا ذہنی معیار اور بلند، پختہ اور تازگی سے بھرپور معلوم ہوتا ہے جو قاری کوسحر آمیز ڈھنگ سے اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔ منٹو کی تخلیقی ہنر مندی یہ ہے کہ وہ اپنے افسانے کی پہلے سطر سے ہی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے جیسے کہہ رہا ہو— پکڑ لیا نہ… اب بچ کر جاؤ گے کہاں ؟ اب آخر تک میرے افسانے کو پڑھ ڈالو۔
’’اس بار میں ایک عجیب سی چیز لکھ رہا ہوں، ایسی چیز جو ایک ہی وقت میں عجیب و غریب اور زبردست بھی ہے اور اصل چیز لکھنے سے پہلے آپ کو پڑھنے کے لیے اکسارہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کہیں آپ کل کو یہ نہ کہہ دیں کہ ہم نے چند سطریں پڑھ کر ہی چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ خشک سی تھی۔ آج اس بات کو قریب قریب تین ماہ گزر گئے ہیں کہ میں بھائی نان کی کے مطابق کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ‘‘
منٹو کی اس قصہ گوئی نے ہی انہیں قاری کا ہیرو بنا دیا تھا۔ منٹو کی قصہ گوئی دراصل اس کے اندرونی کرب کی پیداوار ہے۔ غلامی کا المیہ، ملک کے بٹوارے کا درد، اپنوں کی موت اور ان کی جدائی کا کرب—ان سارے موضوعات نے منٹو کے افسانے کو ایک نیا کینوس دیا۔ اس لیے منٹو کے افسانے محض تفریح طبع کے لیے نہیں ہیں۔ دراصل اس کا ہر افسانہ پچھلے افسانے کی توسیع ہے۔ منٹو شاید اپنے وقت اور اپنے عہد کو سمجھنا چاہتا تھا۔ اپنے عہد کی نئی حقیقتوں، نئے کنزیومر کلچر، اور تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی نئی تہذیب کو جہاں ایک نیا ملک نئے سرے سے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا—منٹو انہیں جاننا چاہتا تھا، جانچنا چاہتا تھا، پرکھنا چاہتا تھا۔ بنتی بگڑتی یہ تصاویر اس وقت دونوں ہی ملکوں کاسچ تھیں —ہر حساس طبیعت انسان کے لیے ملک کا بٹوارہ ضرب کاری تھا۔ ہندستان اور پاکستان جو پہلے ایک تھے، ایک قوم، ایک تہذیب اور ایک سے چولہے رکھنے والے لوگ دو حصوں میں بٹ گئے— بھائی بھائی جدا ہو گئے۔ ملک اور مذہب کی دیواریں کھڑی ہو گئیں — ہندو پاک کے نام کی تختی لگا دی گئی— یہ تختی سرحدوں پر ہی نہیں دلوں پر بھی لگ گئی… یہ زخم ایسا تھا جسے شاید اس وقت کے تمام ترقی پسند تخلیق کاروں میں سب سے زیادہ منٹو نے محسوس کیا، یہ ہم نہیں منٹو کی تحریریں بتاتی ہیں۔ ان موضوعات کو لے کر منٹو کی قصہ گوئی نے اسے اپنے خاص رنگ کا موجد بنا دیا۔ جیسے یہ رنگ دیکھیے۔
’’دھوئیں کا علاقہ ختم ہوا تو پولس کے سپاہیوں نے دیکھا کہ ایک کشمیری مزدور پیٹھ پر وزنی بوری اٹھائے بھاگا جا رہا ہے۔ سیٹیوں کے گلے خشک ہو گئے مگر وہ کشمیری مزدور نہ رکا۔ اسی کی پیٹھ پر وزن تھا۔ معمولی وزن نہیں۔ ایک بھری ہوئی بوری تھی۔ لیکن وہ ایسے دوڑ رہا تھا جیسے پیٹھ پر کچھ ہے ہی نہیں۔
سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور بوری سمیت لے گئے۔ راستے میں کشمیری مزدور نے بار بار کہا، حضرت آپ مجھے کیوں پکڑتے ہیں۔ میں تو غریب آدمی ہوں۔ چاول کی ایک بوری لیتیں … گھر میں کھاتی… آپ ناحق مجھے گولی مارتیں، لیکن اس کی ایک نہ سنے گئی۔ جب وہ تھک ہار گیا تو اس نے اپنی ٹوپی سے ماتھے کا پسینہ پوچھا اور چاول کی بوری کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر تھانیدار کے آگے ہاتھ پھیلا کر کہا۔ ’’اچھا حضرت تم بوری اپنے پاس رکھو… میں اپنی مزدوری مانگتا … چار آنے۔ ‘‘
یہی منٹو کا اپنا انداز ہے— منٹو کے اپنے تیور ہیں۔ افسانہ کہنے اور بننے کا جو سلیقہ منٹو کی کہانی میں نظر آتا ہے وہ نایاب ہے— مختلف ہے—منٹو شروع سے ہی خود کو بڑا افسانہ نگار ہونے کا اعلان کرتا آیا ہے اور حقیقت میں جس وقت کہانیاں روایتی انداز میں لکھی جا رہی تھیں، منٹو نے اس دور میں بھی کہانی کو اپنے حساب سے جیا اور آگے کی رفتار تیز کر دی۔ تجربے بھی کیے۔ اپنے وقت کے ہم عصر افسانہ نگاروں میں بہ یک وقت روایتی بھی تھا اور جدید بھی۔ وہ کالی شلوار، اور کھول دو بھی لکھ رہا تھا، وہیں قیما کے بجائے بوٹیاں جیسی کہانی میں اس کے اندر کے جدید افسانہ نگار کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ منٹو ہر رنگ میں منٹو ہے۔
شیڈ دو
میرٹھ کی قینچی ہو یا لاہور کا کاتب… یہ منٹو ہی تھا جس کے قلم سے شاید ہی کوئی کردار بچا ہو۔ اسی لیے منٹو اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں سے بہت مختلف ہے۔ روز مرہ کی زندگی میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر اس کی گہری نظر رہتی تھی۔ وہ لوگوں کے اندر اتر کر اپنے افسانے کے کردار تلاش کر لیا کرتا تھا۔ لیکن منٹو کے ساتھ ناانصافی یہ ہوئی کہ اس کے چاہنے والوں نے اسے کچھ بڑے افسانوں کا ہی خالق بنا کر رکھ دیا۔ یہ فنکار منٹو کے ساتھ زیادتی تھی۔
منٹو کو سمجھنے کے لیے اس وقت کی ترقی پسند کو سمجھنا جتنا ضروری ہے— اس وقت کے ان چار بڑے ستون کو بھی— جن کے بغیر اردو کہانیوں پر گفتگو ہو ہی نہیں سکتی۔ دراصل اس دور میں سب ہی اچھا لکھ رہے تھے اور سب کی منشا یہی ہوتی کہ کون کسے اپنی کہانی کے ذریعے پچھاڑ دے— لیکن منٹو کا رول اس پچھاڑ میں بھی مختلف رہا۔
چار مضبوط ستون
جب بھی کوئی بڑا فنکار ہمارے درمیان نہیں ہوتا ہے، اس زبان کے چاہنے والوں کے درمیان اس طرح کی باتوں کا بازار گرم ہو جاتا ہے کہ اس پیدا شدہ خلا کو آخر کیسے بھرا جائے گا۔ منٹو کے بعد آج تک تو یہی کہا جاتا رہا ہے کہ دوسرا منٹو نہیں آسکتا— اور یہ بات بڑی حد تک سچ بھی ہے۔ عصمت یا منٹو کے جانے کے بعد جو خلا پیدا ہوا ہے اس کی بھر پائی کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ یہ سچ ہے کہ اردو کے یہی چار مینار رہے ہیں۔ منٹو، بیدی، کرشن کے بعد عصمت ہی آتی تھیں۔ جن کی تخلیق پر بہت شور برپا رہا—جہاں تک میرا اپنا نظریہ ہے، میں نے عصمت کو پسند تو کیا ہے، لیکن اس حد تک نہیں، جتنا کہ تنقید نگاروں نے ان کا ڈھول پیٹا ہے— اس مطلب یہ نہیں ہے کہ عصمت مجھ کو پسند نہیں رہیں۔ لہجے کی ایسی شگفتگی، بے باکی جو عصمت میں تھیں وہ ان کا اپنا انداز تھا۔ بات میں بات پیدا کرنے کا جیسا ہنر عصمت کے پاس تھا وہ ان کا ہی حصہ تھا۔ قلم کی اس ہنر مندی نے ہی انہیں مقبولیت کا درجہ دلوایا۔ لیکن ہاں جب فکر اور فن کی بات ہو گی میں یہ ضرور کہوں گا کہ عصمت نے اپنی بولڈ کہانیوں کے ذریعہ جہاں معاشرے کے ٹھیکیداروں اور پھیلی ہوئی برائیوں اور خامیوں پر بے رحمی سے ضرب لگائی، وہیں ان کے فکر کی چہار دیواری اتنی کمزور رہی کہ جب وہ لحاف، کی باتیں کرتی ہیں تو دیوار پر جھولتے ہاتھی کے علاوہ انہیں کچھ اور نظر نہیں آتا— اور لحاف دو عورتوں کے جسمانی رشتے سے زیادہ آگے نہیں بڑھ پاتی اور صرف ایک بولڈ تجربہ بن کر رہ جاتی ہے۔
اردو افسانے نے آج ترقی کے جو بھی راستے طے کیے ہیں، ان چار قد آور ستونوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ منٹو، کرشن، بیدی، عصمت نے اردو افسانے کی جو باگ ڈور کبھی اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑ لی تھی، ان کے بعد یہ گرفت آہستہ آہستہ کمزور پڑتی چلی گئی۔ ان چار ستونوں کے اپنے اپنے، الگ الگ نظریے تھے۔ سب کے الگ رنگ تھے، کرشن میں جو رومانی فضا تھی، پرکشش الفاظ بازیاں تھیں۔ نرم نرم آنچ تھی، سبک لہجہ تھا، چاشنی تھی اور طنز کے ہلکے پھلکے جھونکے تھے وہ صرف اور صرف کرشن کے قلم کا جوہر تھے۔
بیدی کے یہاں جو تہہ داری تھی، نفسیات کی جو طبق در طبق پرتیں تھیں، وہ بیدی کے افسانوں کا حصہ تھیں — بیدی معاشرے کی ڈھکی چھپی پرتوں کو کھولنے پر آتا ہے تو اپنا آپ بالکل عریاں نظر آنے لگتا ہے۔ بیدی کو انسانی نقاب سے نفرت ہے۔ وہ جب تک اسے بے حجاب نہیں کر دیتا اس کے فن کی پیاس نہیں بجھتی۔ بیدی سے بالکل الگ مجھے منٹو لگتا ہے۔ اسٹیٹ فارورڈ— انسانی نفسیات کی گانٹھیں کھولنے میں اسے بھی لذت ملتی ہے لیکن وہ یہ گانٹھیں اس ہنر مندی سے کھولتا ہے جس طرح ایک منجا ہوا قصاب جانور کے بدن سے چمڑا اتارتا ہے۔ منٹو کی نشتریت چارلی چیپلین کی کامیڈی سامزہ بھی دے جاتی ہے اور اس کا سفاکانہ لہجہ جسم کی عمارت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے— زخمی بھی کرتا ہے۔ نشتر بھی چبھوتا ہے اور مذاق بھی اڑاتا ہے۔
کبھی کبھی سوچتاہوں میری نسل یا مجھ سے پہلے کی نسل ان چار ستونوں میں سب سے زیادہ منٹو سے کیوں متاثر رہی؟ وجہ صاف ہے— تجربوں کا شوق، اس نسل نے منٹو سے ورثے میں لیا۔ ہاں ! یہ بات الگ ہے کہ اس نسل کے زیادہ تر لوگوں کے پاس تجربے کے نام پر وہ زبان نہیں تھی جو منٹو کے پاس تھی۔ منٹو کہانی اور زبان سے کھیلتا تھا۔ فلم ہو، اسکرین پلے یا ضرورت کے تحت کہانی لکھنے کی فارملٹی پوری کرنا، تب بھی اس میں وہی منٹو ہوتا، جس کی تحریریں آگ لگا دیا کرتی تھیں۔ المیہ یہ ہے کہ منٹو کے بعد تحریر کا یہ بانکپن کسی دوسرے فنکار کا حصہ نہیں بن سکا۔
— کیا منٹو کی کہانیاں محدود موضوعات پر مبنی ہیں۔ ؟
—فرقہ پرستی سے بالی ووڈ؟
— اور ایک چونکا دینے والا انجام؟
لیکن بھولیے نہیں کہ اسی منٹو نے پھندنے جیسی کہانی بھی لکھی جو شاید اردو کی پہلی علامتی یا جادوئی حقیقت نگاری کو مرکز میں رکھ کر لکھی گئی کہانی تھی— منٹو کا فن اپنے وقت سے صدیوں آگے کے سفر پر تھا۔ شاید اس لیے موجودہ عہد کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے جب کہانیاں ترقی کی دوڑ میں کافی آگے نکل گئی ہیں، منٹو کو کچھ زیادہ ہی جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
شیڈ تین
منٹو مزاجاً ایک بہتر اور نیک انسان تھا۔ اس لیے اس کی کہانیاں عام انسانی جذبات کی نمائندگی کرتی نظر آتی ہیں۔
منٹو کو سمجھنے کے لیے صرف اس وقت کی غلامی کو ذہن میں رکھنا ہی ضروری نہیں ہے۔ اس لیے منٹو کی کہانیاں صرف تقسیم کا المیہ نہیں ہیں بلکہ تقسیم سے پہلے معاشرے میں جو مد و جزر درپیش آرہے تھے اس نے منٹو کو اپنے تخلیقی عمل میں ایک خطرناک قصاب کی طرح بنا دیا تھا اور وہ کہانی لکھتے وقت اتنا بے رحم ہو جاتا تھا کہ اس کے الفاظ سے لہو رستے دکھائی دیتے تھے— اس کا اظہار اس کے درد کا ترجمان بن جاتا تھا۔ منٹو کے لیے آزادی محض ایک لفظ بھر نہیں تھا۔ منٹو کے لکھنے کی کہانی ایسٹ انڈیا کمپنی کی شروعات، غلامی کے سیاہ دن اور کالا پانی کے خوفناک قصوں سے بھری ہے۔ کہتے ہیں 1857میں کالا پانی کی سزا پانے والے ہندستانی باغیوں نے انڈمان میں ایک نیا ہندستان بنایا تھا۔ ایک ایسے ہندستان کا تصور جس کی نیو یکجہتی اور آپسی بھائی چارے پر رکھی گئی تھی۔ لیکن منٹو پر باتیں کرتے ہوئے اس وقت کے حالات کو سمجھنا ضروری ہے۔ سمندر سے گھرا ہوا ایک ایسا جزیرہ جہاں سے ان قیدیوں کا بھاگنا آسان نہیں۔ چاروں طرف گرجتا ہوا سمندر، دہاڑتا ہوا شور، خوفناک درختوں کے بے رحم سائے، جنگلوں میں رہنے والے دہشت گرد آدی واسی، قسم قسم کے جانور اور زہریلے کیڑے مکوڑے انگریزوں نے ملک پر ست وفادار ہندستانیوں کے لیے کالا پانی کی سزاکا انتخاب کیا تھا۔ جہاں وہ طرح طرح کی بیماریوں کے شکار ہو جائیں یا دردناک موت کے آہنی شکنجے میں پھنس کر اپنا دم توڑ دیں۔ شاید اس طرح کے الم ناک مناظر منٹو کی آنکھوں میں ہر لمحہ رقص کرتے رہتے تھے۔ اپنا پیارا دیش اس وقت منٹو کو کالا پانی ہی نظر آتا تھا۔ شاید اسی لیے اپنے اندرون کی کشمکش سے شب و روز جنگ کرتا منٹو جب قلم اٹھاتا تو ایک سفاک تخلیق کار بن جاتا جس کے ہر منظر عریاں اور ہر کردار بے حجاب ہوتا زندگی کی قیامت آگ کا دہکتا شعلہ بن کر اس کے قلم کی روشنائی کو ہوا دیتی— پھر جو کہانی بنتی وہ خالص منٹو کی کہانی ہوتی — منٹو کے رنگ میں ہوتی … اور منٹو کی ذہنی کیفیت کی فضا، اس کے فکر کی عکاسی کرتی ہوئی ہوتی …
یہی وہ دور تھا جب وقت خاموشی سے منٹو کی تاریخ لکھ رہا تھا… ایسی تاریخ جس نے منٹو کو 100سال بعد بھی زندہ رکھا اور اگلے سو سال تک اس کے نام کے حرف کو کوئی مٹا نہیں سکتا —
مداخلت اور احتجاج کا سچ
سچ پوچھئے تو ادب کی کوئی حدبندی نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے دائروں میں باندھا جا سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ ادب کو حدود میں قید نہیں کیا جا سکتا—جوائز کی ’یولیسز‘ سے وابستہ ایک واقعہ نے ایک وقت ایک نئی بحث کا آغاز کیا تھا۔ یولیسز پر بے حجابی اور عریانیت کا الزام لگا۔ مقدمہ چلا۔ جج کی طرف سے یہ کتاب کچھ ایسی موٹی عورتوں کو پڑھنے کے لیے دی گئیں جن کے مزاج میں سیکس کا غلبہ کچھ زیادہ ہی تھا— لیکن ان عورتوں کی یولیسز پڑھنے کے بعد عام رائے یہ تھی کہ اس میں کچھ بھی ایسا نہیں ہے جو ان کے اندرجنسی جذبات کو بے لگام کر سکتا ہو۔
شروعات سے ہی احتجاج یا مداخلت ہمارے ادب کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ سن 2006 کے ناول انعام یافتہ اورہن پامک کا مکمل ادب بھی اسی مداخلت کے دائرے میں آتا ہے۔ پامک تہذیب کے مد و جزر اور بکھراؤ کو الگ الگ نظریے سے اپنے ناول ’دی وہائٹ کیسل‘، ’دی بلیک بک‘ اور ’مائی نیم از ریڈ‘ میں اٹھا کر سماجی اقدار کے بہانے اپنی مداخلت درج کراتے ہیں۔ دراصل ہم اس مکمل مداخلت کو 1915کے آس پاس ترکوں میں ہو رہے آرمنیائی اور کرد لوگوں کی مخالفت میں ہونے والی خوفناک کارروائی سے وابستہ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ تیس ہزار کرو اور ایک لاکھ آرمنیائی لوگوں کا قتل عام کیا گیا۔ پامک کے اندر جی رہے بے چین تخلیق کار کے لیے یہ سب کچھ برداشت کرنا بے حد مشکل تھا۔ بعد میں وقت کی یہی مداخلت ان کی تخلیقات میں نظر آنے لگی۔
ابھی کچھ دن پہلے ایک ناول پڑھی تھی۔ جو مداخلت یا احتجاج کے نظریے سے ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ لسبین کی قلع بندی کی تاریخ میں یہی ٹکراؤ ایک نئی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ یہاں مداخلت کا مرکزی پوائنٹ ’لفظ‘ بن جاتا ہے۔ لفظ جو ایک ذرا سی پروف کی غلطی کے ساتھ خطرناک اور بھیانک ہو جاتا ہے کہ پوری انسانیت خطرے میں نظر آتی ہے۔ یہ صدیوں سے چلی آنے والی ادبی روایتوں کو محض آگے بڑھانے والی کتاب نہیں ہے۔ جیسے کوئی ماہر آرکیٹکٹ ہوتا ہے، اسے پتہ ہے کہ دنیا کی حسین ترین عمارت بنانے کے دوران چاند جیسا کوئی داغ کیسے چھوٹ جائے— وہ اس دلکش عمارت میں ایک چھوٹی سی اینٹ غلط کھسکا دیتا ہے۔ اس کتاب کے پیچھے ایک ایساہی نفسیاتی نکتہ رہا ہے جو مذہب کے سارے اصولوں سے انکار کا حوصلہ رکھتا ہے۔
منٹو کا احتجاج
منٹو کا سب سے بڑا احتجاج ’ٹوبا ٹیک سنگھ‘ کی شکل میں سامنے آیا— جہاں اس نے ملک کے تقسیم ہونے پر اپنا احتجاج ظاہر کیا۔ لیکن منٹو کی باقی کہانیاں بے رحم قلم کے ساتھ اپنی مداخلت درج کراتی رہیں۔ درحقیقت منٹو اپنے ہمعصروں میں سب سے زیادہ وقت کی نزاکت کو سمجھنے کی پرکھ رکھتا تھا۔ اسی لیے منٹو کی یہ کہانیاں اپنے دور کا ایک دستاویز ہیں جنہیں بھلایا نہیں جا سکتا۔
منٹو کا ادب صرف مداخلت درج نہیں کرتا ہے، ادبی دانشوروں کے فکشن کے بنائے گئے پیمانے کو بھی توڑتا ہے۔ وہ اپنا پیمانہ خود بناتا ہے۔ ٹوبا ٹیک سنگھ کو تقسیم ملک نہیں چاہئے تو نہیں چاہئے— منٹو صرف کہانیوں تک نہیں رکتا۔ اسی لیے سیاہ حاشیوں کے بت بناتا ہے۔ اس کے خاکے پڑھیے تو ہر خاکے میں بھی وہ احتجاج کے مختلف رویوں سے گزر رہا ہے۔ محمد علی جناح کے ڈرائیور سے باتیں کرتے ہوئے— نسیم بانو یا جدن بائی کے تذکرے میں — یا اپنے وقت کے ہیرو اشوک کمار کی نفسیات کا تجزیہ کرتے ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب غلامی یا تقسیم کے المیہ کو لے کر دوسروں کے قلم رو رہے تھے، یہ منٹو ہی تھا جو ادب میں مضبوط طریقے سے اپنا غصہ، احتجاج اور مداخلت درج کرا رہا تھا۔
٭٭٭
تشکر مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید