فہرست مضامین
منشی پریم چند کی کہانیاں
حصہ دوم
انتخاب: عامر صدیقی
ڈاؤن لوڈ کریں
یہ حصہ:جلد دوم
جلد اول
جلد سوم
جلد چہارم
حج اکبر
منشی صابر حسین کی آمدنی کم تھی اور خرچ زیادہ۔ اپنے بچہ کے لیے دایہ رکھنا گوارا نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن ایک تو بچہ کی صحت کی فکر اور دوسرے اپنے برابر والوں سے ہیٹے بن کر رہنے کی ذلت اس خرچ کو برداشت کرنے پر مجبور کرتی تھی۔ بچہ دایہ کو بہت چاہتا تھا۔ ہر دم اس کے گلے کا بار بنا رہتا۔ اس وجہ سے دایہ اور بھی ضروری معلوم ہوتی تھی۔ مگر شاید سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ وہ مروت کے باعث دایہ کو جواب دینے کی جرات نہ کر سکتے تھے۔ بڑھیا ان کے یہاں تین سال سے نوکر تھی۔ اس نے ان کے اکلوتے بچے کی پرورش کی تھی۔ اپنا کام دل و جان سے کرتی تھی۔ اسے نکالنے کا کوئی حیلہ نہ تھا اور خواہ مخواہ کھچڑ نکالنا صابر جیسے حلیم شخص کے لیے غیر ممکن تھا۔ مگر شاکرہ اس معاملہ میں اپنے شوہر سے متفق نہ تھی۔ اسے شک تھا کہ دایا ہم کو لوٹے لیتی ہے۔ جب دایا بازار سے لوٹتی تو وہ دہلیز میں چھپی رہتی کہ دیکھوں آٹا چھپا کر تو نہیں رکھ دیتی۔ لکڑی تو نہیں چھپا دیتی۔ اس کی لائی ہوئی چیز کو گھنٹوں دیکھتی، پچھتاتی، بار بار پوچھتی اتنا ہی کیوں؟ کیا بھاؤ ہے؟ کیا اتنا مہنگا ہو گیا؟ دایہ کبھی تو ان بد گمانیوں کا جواب ملائمت سے دیتی۔ لیکن جب بیگم زیادہ تیز ہو جاتیں، تو وہ بھی کڑی پڑ جاتی تھی۔ قسمیں کھاتی، صفائی کی شہادتیں پیش کرتی۔ تردید اور حجت میں گھنٹوں لگ جاتے۔ قریب قریب روزانہ یہی کیفیت رہتی تھی اور روز یہ ڈراما دایہ کی خفیف سی اشک ریزی کے بعد ختم ہو جاتا تھا۔ دایہ کا اتنی سختیاں جھیل کر پڑے رہنا شاکرہ کے شکوک کی آب ریزی کرتا تھا۔ اسے کبھی یقین نہ آتا تھا کہ یہ بڑھیا محض بچے کی محبت سے پڑی ہوئی ہے۔ وہ دایہ کو ایسے لطیف جذبہ کا اہل نہیں سمجھتی تھی۔
اتفاق سے ایک روز دایہ کو بازار سے لوٹنے میں ذرا دیر ہو گئی۔ وہاں دو کنجڑنوں میں بڑے جوش و خروش سے مناظرہ تھا۔ ان کا مصور طرز ادا۔ ان کا اشتعال انگیز استدلال۔ ان کی متشکل تضحیک۔ ان کی روشن شہادتیں اور منور روایتیں ان کی تعریض اور تردید سب بے مثال تھیں۔ زہر کے دو دریا تھے۔ یا دو شعلے جو دونوں طرف سے امڈ کر باہم گتھ گئے تھے۔ کیا روانی زبان تھی۔ گویا کوزے میں دریا بھرا ہوا۔ ان کا جوش اظہار ایک دوسرے کے بیانات کو سننے کی اجازت نہ دیتا تھا۔ ان کے الفاظ کی ایسی رنگینی، تخیل کی ایسی نوعیت، اسلوب کی ایسی جدت، مضامین کی ایسی آمد، تشبیہات کی ایسی موزونیت اور فکر کی ایسی پرواز پر ایسا کون سا شاعر ہے جو رشک نہ کرتا۔ صفت یہ تھی کہ اس مباحثہ میں تلخی یا دلآزاری کا شائبہ بھی نہ تھا۔ دونوں بلبلیں اپنے اپنے ترانوں میں محو تھیں۔ ان کی متانت، ان کا ضبط، ان کا اطمینان قلب حیرت انگیز تھا۔ ان کے ظرف دل میں اس سے کہیں زیادہ کہنے کی اور بدر جہا زیادہ سننے کی گنجائش معلوم ہوتی تی،۔ الغرض یہ خالص دماغی، ذہنی مناظرہ تھا۔ اپنے اپنے کمالات کے اظہار کے لیے۔ ایک خالص زور آزمائی تھی اپنے اپنے کرتب اور فن کے جوہر دکھا نے کے لیے۔
تماشائیوں کا ہجوم تھا۔ وہ مبتذل کنایات و اشارے جن پر بے شرمی کو شرم آتی۔ وہ کلمات رکیک جن سے عفونت بھی دور بھاگتی۔ ہزاروں رنگین مزاجوں کے لیے محض باعث تفریح تھے۔
دایہ بھی کھڑی ہو گئی کہ دیکھوں کیا ماجرا ہے۔ پر تماشا اتنا دلاویز تھا کہ اسے وقت کا مطلق احساس نہ ہوا۔ یکا یک نو بجنے کی آواز کان میں آئی تو سحر ٹوٹا۔ وہ لپکی ہوئی گھر کی طرف چلی۔
شاکرہ بھری بیٹھی تھی۔ دایہ کو دیکھتے ہی تیور بدل کر بولی، کیا بازار میں کھو گئی تھیں؟ دایہ نے خطا وارانہ انداز سے سرجھکا لیا اور بولی۔ ’’بیوی ایک جان پہچان کی ماما سے ملاقات ہو گئی اور باتیں کرنے لگی۔‘‘
شاکرہ جواب سے اور بھی برہم ہوئی۔ یہاں دفتر جانے کو دیر ہو رہی ہے تمہیں سیر سپاٹے کی سوجھی ہے۔ مگر دایہ نے اس وقت دبنے میں خیریت سمجھی۔ بچہ کو گود میں لینے چلی۔ پر شاکرہ نے جھڑک کر کہا۔ ’’رہنے دو۔ تمہارے بغیر بے حال نہیں ہوا جاتا۔‘‘
دایہ نے اس حکم کی تعمیل ضروری نہ سمجھی۔ بیگم صاحبہ کا غصہ فرو کرنے کی اس سے زیادہ کار گر کوئی تدبیر ذہن میں نہ آئی۔ اس نے نصیر کو اشارے سے اپنی طرف بلایا۔ وہ دونوں ہاتھ پھیلائے لڑکھڑاتا ہوا اس کی طرف چلا۔ دایہ نے اسے گود میں اٹھا لیا اور دروازہ کی طرف چلی۔ لیکن شاکرہ باز کی طرح جھپٹی اور نصیر کو اس کی گود سے چھین کر بولی۔ ’’تمہارا یہ مکر بہت دونوں سے دیکھ رہی ہوں۔ یہ تماشے کسی اور کو دکھائیے۔ یہاں طبیعت سیر ہو گئی۔‘‘
دایہ نصیر پر جان دیتی تھی اور سمجھتی تھی کہ شاکرہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔ اس کی سمجھ میں شاکرہ اور اس کے درمیان یہ ایسا مضبوط تعلق تھا جسے معمولی ترشیاں کمزور نہ کر سکتی تھیں۔ اسی وجہ سے باوجود شاکرہ کی سخت زبانیوں کے اسے یقین نہ آتا تھا کہ وہ واقعی مجھے نکالنے پر آمادہ ہے۔ پر شاکرہ نے یہ باتیں کچھ اس بے رخی سے کیں اور بالخصوص نصیر کو اس بے دردی سے چھین لیا کہ دایہ سے ضبط نہ ہو سکا۔ بولی۔ ’’بیوی مجھ سے کوئی ایسی بڑی خطا تو نہیں ہوئی۔ بہت ہو گا تو پاؤ گھنٹہ کی دیر ہوئی ہو گی۔ اس پر آپ اتنا جھلا رہی ہیں۔ صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتیں کہ دوسرا دروازہ دیکھو۔ اللہ نے پیدا کیا ہے تو رزق بھی دے گا۔ مزدوری کا کال تھوڑا ہی ہے۔‘‘
شاکرہ: ’’تو یہاں تمہاری کون پروا کرتا ہے۔ تمہاری جیسی مامائیں گلی گلی ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہیں۔‘‘
دایہ: ’’ہاں خدا آپ کو سلامت رکھے۔ مامائیں دائیاں بہت ملیں گی۔ جو کچھ خطا ہوئی ہو۔ معاف کیجئے گا۔ میں جاتی ہوں۔‘‘
شاکرہ: ’’جا کر مردانے میں اپنی تنخواہ کا حساب کر لو۔‘‘
دایہ: ’’میری طرف سے نصیر میاں کو اس کی مٹھائیاں منگوا دیجئے گا۔‘‘
اتنے میں صابر حسین بھی باہر سے آ گئے۔ پوچھا، ’’کیا ہے؟‘‘
دایہ: ’’کچھ نہیں۔ بیوی نے جواب دے دیا ہے۔ گھر جاتی ہوں۔‘‘
صابر حسین خانگی ترددات سے یوں بچتے تھے جیسے کوئی برہنہ پا کانٹوں سے بچے۔ انہیں سارے دن ایک ہی جگہ کھڑے رہنا منظور تھا۔ پر کانٹوں میں پیر رکھنے کی جرأت نہ تھی۔ چیں بہ جبیں ہو کر بولے، ’’بات کیا ہوئی؟‘‘
شاکرہ: ’’کچھ نہیں۔ اپنی طبیعت۔ نہیں جی چاہتا نہیں رکھتے۔ کسی کے ہاتھوں بک تو نہیں گئے۔‘‘
صابر: ’’تمہیں بیٹھے بٹھائے ایک نہ ایک نہ ایک کھچڑی سوجھتی رہتی ہے۔‘‘
شاکرہ: ’’ہاں مجھے تو اس بات کا جنون ہے۔ کیا کروں خصلت ہی ایسی ہے تمہیں یہ بہت پیاری ہے۔ تو لے جا کر گلے باندھو! میرے یہاں ضرورت نہیں ہے۔‘‘
دایہ گھر سے نکلی۔ تو اس کی آنکھیں لبریز تھیں۔ دل نصیر کے لیے تڑپ رہا تھا کہ ایک بار بچے کو گود میں لے کر پیار کر لوں۔ پر یہ حسرت لیے اسے گھر سے نکلنا پڑا۔
نصیر دایہ کے پیچھے پیچھے دروازے تک آیا۔ لیکن جب دایہ نے دروازہ باہر سے بند کر دیا تو مچل کر زمین پر لیٹ گیا اور انا انا کہہ کر رونے لگا۔ شاکرہ نے چمکارا، پیار کیا، گود میں لینے کی کوشش کی۔ مٹھائی کا لالچ دیا۔ میلہ دکھانے کا وعدہ کیا۔ اس سے کام نہ چلا تو بندر اور سپاہی اور لولو اور ہوا کی دھمکی دی۔ پر نصیر پر مطلق اثر نہ ہوا۔ یہاں تک کہ شاکرہ کو غصہ آ گیا۔ اس نے بچے کو وہیں چھوڑ دیا اور گھر آ کر گھر کے دھندوں میں مصروف ہو گئی۔ نصیر کا منہ اور گال لال ہو گئے۔ آنکھیں سوج گئیں۔ آخر وہ وہیں زمین پر سسکتے سسکتے سو گیا۔
شاکرہ نے سمجھا تھا تھوڑی دیر میں بچہ رو دھو کر چپ ہو جائے گا۔ پر نصیر نے جاگتے ہی پھر انا کی رٹ لگائی۔ تین بجے صابر حسین دفتر سے آئے اور بچے کی یہ حالت دیکھی تو بیوی کی طرف قہر کی نگاہوں سے دیکھ کر اسے گود میں اٹھا لیا اور بہلانے لگے۔ آخر نصیر کو جب یقین ہو گیا کہ دایہ مٹھائی لینے گئی ہے تو اسے تسکین ہوئی۔ مگر شام ہوتے ہی اس نے پھر چیخنا شروع کیا۔ ’’انا مٹھائی لائی؟‘‘
اس طرح دو تین دن گزر گئے۔ نصیر کو انا کی رٹ لگانے اور رونے کے سوا اور کوئی کام نہ تھا۔ وہ بے ضرر کتا جو ایک لمحہ کے لیے اس کی گود سے جدا نہ ہوتا تھا۔ وہ بے زبان بلی جسے طاق پر بیٹھے دیکھ کر وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا تھا۔ وہ طائر بے پرواز جس پر وہ جان دیتا تھا۔ سب اس کی نظروں سے گر گئے۔ وہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا۔ انا جیسی جیتی جاگتی پیار کرنے والی، گود میں لے کر گھمانے والی، تھپک تھپک کر سلانے والی گا گا کر خوش کرنے والی چیز کی جگہ ان بے جان، بے زبان چیزوں سے پر نہ ہو سکتی تھی۔ وہ اکثر سوتے سوتے چونک پڑتا۔ اور انا انا پکار کر رونے لگتا۔ کبھی دروازہ پر جاتا اور انا انا پکار کر ہاتھوں سے اشارہ کرتا۔ گویا اسے بلا رہا ہے۔ انا کی خالی کوٹھڑی میں جا کر گھنٹوں بیٹھا رہتا۔ اسے امید ہوتی تھی کہ انا یہاں آتی ہو گی۔ اس کوٹھڑی کا دروازہ بند پاتا تو جا کر کواڑ کھٹکھٹاتا کہ شاید انا اندر چھپی بیٹھی ہو۔ صدر دروازہ کھلتے سنتا تو انا انا کہہ کر دوڑتا۔ سمجھتا کہ انا آ گئی۔ اس کا گدرایا ہوا بدن گھل گیا۔ گلاب کے سے رخسار سوکھ گئے۔ ماں اور باپ دونوں اس کی موہنی ہنسی کے لیے ترس ترس کر رہ جاتے۔ اگر بہت گدگدانے اور چھیڑنے سے ہنستا بھی تو ایسا معلوم ہوتا دل سے نہیں محض دل رکھنے کے لیے ہنس رہا ہے۔ اسے اب دودھ سے رغبت تھی نہ مصری سے۔ نہ میوہ سے نہ میٹھے بسکٹ سے۔ نہ تازی امرتیوں سے۔ ان میں مزہ تھا جب انا اپنے ہاتھوں سے کھلاتی تھی۔ اب ان میں مزہ نہ تھا۔ دو سال کا ہونہار لہلہاتا ہوا شاداب پودا مرجھا کر رہ گیا۔ وہ لڑکا جسے گود میں اٹھاتے ہی نرمی گرمی اور زبان کا احساس ہوتا تھا۔ اب استخواں کا ایک پتلا رہ گیا تھا۔ شاکرہ بچہ کی یہ حالت دیکھ دیکھ کر اندر ہی اندر کڑھتی اور اپنی حماقت پر پچھتاتی۔ صابرحسین جو فطرتاً خلوت پسند آدمی تھے اب نصیر کو گود سے جدا نہ کرتے تھے۔ اسے روز ہوا کھلانے جاتے۔ نت نئے کھلونے لاتے۔ پر مرجھایا ہوا پودا کسی طرح نہ پنپتا تھا۔ دایہ اس کی دنیا کا آفتاب تھی۔ اس قدرتی حرارت اور روشنی سے محروم ہو کر سبزی کی بہار کیونکر دکھاتا؟ دایہ کے بغیر اسے چاروں طرف اندھیرا سناٹا نظر آتا تھا۔ دوسری انا تیسرے ہی دن رکھ لی تھی۔ پر نصیر اس کی صورت دیکھتے ہی منہ چھپا لیتا تھا۔ گویا وہ کوئی دیونی یا بھتنی ہے۔
عالم وجود میں دایہ کو نہ دیکھ کر نصیر اب زیادہ تر عالم خیال میں رہتا۔ وہاں اس کی اپنی انا چلتی پھرتی نظر آتی تھی۔ اس کی وہی گود تھی۔ وہی محبت۔ وہی پیاری باتیں۔ وہی پیارے پیارے گیت۔ وہی مزے دار مٹھائیاں۔ وہی سہانا سنسار وہی دل کش لیل و نہار۔ اکیلے بیٹھے انا سے باتیں کرتا۔ انا کتا بھونکے، انا گائے دودھ دیتی۔ انا اجلا اجلا گھوڑا دوڑتا۔ سویرا ہوتے ہی لوٹا لے کر دایہ کی کوٹھڑی میں جاتا، اور کہتا، ’’انا پانی پی‘‘ دودھ کا گلاس لے کر اس کی کوٹھڑی میں رکھ آتا اور کہتا، ’’انا دودھ پلا۔‘‘ اپنی چار پائی پر تکیہ رکھ کر چادر سے ڈھانک دیتا اور کہتا، ’’انا سوتی۔‘‘ شاکرہ کھانے بیٹھتی تو رکابیاں اٹھا اٹھا انا کی کوٹھڑی میں لے جاتا اور کہتا، ’’انا کھانا کھائے گی۔‘‘ انا اس کے لیے اب ایک آسمانی وجود تھی۔ جس کی واپسی کی اسے مطلق امید نہ تھی۔ وہ محض گذشتہ خوشیوں کی دل کش یاد گار تھی۔ جس کی یاد ہی اس کا سب کچھ تھی۔ نصیر کے انداز میں رفتہ رفتہ طفلانہ شوخی اور بے تابی کی جگہ ایک حسرت ناک تو کل ایک مایوسانہ خوشی نظر آنے لگی۔ اس طرح تین ہفتے گزر گئے۔ برسات کاموسم تھا۔ کبھی شدت کی گرمی۔ کبھی ہوا کے ٹھنڈے جھونکے۔ بخار اور زکام کا زور تھا۔ نصیر کی نجافت ان موسمی تغیرات کو برداشت نہ کر سکی۔ شاکرہ احتیاطاً اسے فلا لین کا کرتا پہنائے رکھتی۔ اسے پانی کے قریب نہ جانے دیتی۔ ننگے پاؤں ایک قدم نہ چلنے دیتی۔ مگر رطوبت کا اثر ہو ہی گیا۔ نصیرکھانسی میں مبتلا ہو گیا۔
صبح کا وقت تھا۔ نصیر چار پائی پر آنکھیں بند کئے پڑا تھا۔ ڈاکٹروں کا علاج بے سود ہو رہا تھا۔ شاکرہ چار پائی پر بیٹھی اس کے سینہ پر تیل کی مالش کر رہی تھی اور صابر حسین صورت غم بنے ہوئے بچہ کو پر درد نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ اس طرف وہ شاکرہ سے بہت کم بولتے تھے۔ انہیں اس سے ایک نفرت سی ہوتی تھی۔ وہ نصیر کی اس بیماری کا سارا الزام اسی کے سر رکھتے تھے۔ وہ ان کی نگاہوں میں نہایت کم ظرف سفلہ مزاج بے حس عورت تھی۔
شاکرہ نے ڈرتے ڈرتے کہا، ’’آج بڑے حکیم صاحب کو بلا لیتے۔ شاید انہیں کی دوا سے فائدہ ہو۔‘‘
صابر حسین نے کالی گھٹاؤں کی طرف دیکھ کر ترشی سے جواب دیا، ’’بڑے حکیم نہیں۔ لقمان بھی آئیں تو اسے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔‘‘
شاکرہ: ’’تو کیا اب کسی کی دوا ہی نہ ہو گی؟‘‘
صابر: ’’بس اس کی ایک ہی دوا ہے اور وہ نایاب ہے۔‘‘
شاکرہ: ’’تمہیں تو وہی دھن سوار ہے۔ کیا عباسی امرت پلا دے گی؟‘‘
صابر: ’’ہاں وہ تمہارے لیے چاہے زہر ہو۔ لیکن بچے کے لیے امرت ہی ہو گی۔‘‘
شاکرہ: ’’میں نہیں سمجھتی کہ اللہ کی مرضی میں اسے اتنا دخل ہے۔‘‘
صابر: ’’اگر نہیں سمجھتی ہو اور اب تک نہیں سمجھا تو روؤ گی۔ بچے سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔‘‘
شاکرہ: ’’چپ بھی رہو۔ کیسا شگون زبان سے نکالتے ہو۔ اگر ایسی جلی کٹی سنانی ہیں تو یہاں سے چلے جاؤ۔‘‘
صابر: ’’ہاں تو میں جاتا ہوں۔ مگر یاد رکھو یہ خون تمہاری گردن پر ہو گا۔ اگر لڑکے کو پھر تندرست دیکھنا چاہتی ہو توا س عباسی کے پاس جاؤ۔ اس کی منت کرو، التجا کرو۔ تمہارے بچے کی جان اسی کے رحم پر منحصر ہے۔‘‘
شاکرہ نے کچھ جواب نہ دیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
صابر حسین نے پوچھا، ’’کیا مرضی ہے۔ جاؤں اسے تلاش کروں؟‘‘
شاکرہ: ’’تم کیوں جاؤ گے۔ میں خود چلی جاؤں گی۔‘‘
صابر: ’’نہیں۔ معاف کرو۔ مجھے تمہارے اوپر اعتبار نہیں ہے۔ نہ جانے تمہارے منہ سے کیا نکل جائے کہ وہ آتی بھی ہو تو نہ آئے۔‘‘
شاکرہ نے شوہر کی طرف نگاہ ملامت سے دیکھ کر کہا۔ ’’ہاں اور کیا۔ مجھے اپنے بچے کی بیماری کا قلق تھوڑے ہی ہے۔ میں نے شرم کے مارے تم سے کہا نہیں لیکن میرے دل میں بار بار یہ خیال پیدا ہوا ہے اگر مجھے دایہ کے مکان کا پتہ معلوم ہوتا تو میں اسے کب کی منا لائی ہوتی۔ وہ مجھ سے کتنی ہی ناراض ہو لیکن نصیر سے اسے محبت تھی۔ میں آج ہی اس کے پاس جاؤں گی۔ اس کے قدموں کو آنسوؤں سے تر کر دوں گی اور وہ جس طرح راضی ہو گی اسے راضی کروں گی۔‘‘
شاکرہ نے بہت ضبط کر کے یہ باتیں کہیں۔ مگر امڈے ہوئے آنسو اب نہ رک سکے۔ صابر حسین نے بیوی کی طرف ہمدردانہ نگاہ سے دیکھا اور نادم ہو کر بولے۔ ’’میں تمہارا جانا مناسب نہیں سمجھتا۔ میں خود ہی جاتا ہوں۔‘‘
عباسی دنیا میں اکیلی تھی۔ کسی زمانے میں اس کا خاندان گلاب کا سر سبز شاداب درخت تھا۔ مگر رفتہ رفتہ خزاں نے سب پتیاں گرا دیں۔ بادِ حوادث نے درخت کو پامال کر دیا۔ اور اب یہی سوکھی ٹہنی ہرے بھرے درخت کی یادگار باقی تھی۔
مگر نصیر کو پا کر اس کی سوکھی ٹہنی میں جان سی پڑ گئی تھی۔ اس میں ہری پتیاں نکل آئی تھیں۔ وہ زندگی جو اب تک خشک اور پامال تھی اس میں پھر رنگ و بو کے آثار پیدا ہو گئے تھے۔ اندھیرے بیابان میں بھٹکے ہوئے مسافر کو شمع کی جھلک نظر آنے لگی تھی۔ اب اس کا جوئے حیات سنگ ریزوں سے نہ ٹکراتا تھا وہ اب ایک گلزار کی آبیاری کرتا تھا۔ اب اس کی زندگی مہمل نہیں تھی۔ اس میں معنی پیدا ہو گئے تھے۔
عباسی، نصیر کی بھولی باتوں پر نثار ہو گئی۔ مگر وہ اپنی محبت کو شاکرہ سے چھپاتی تھی۔ اس لیے کہ ماں کے دل میں رشک نہ ہو۔ وہ نصیر کے لیے ماں سے چھپ کر مٹھائیاں لاتی اور اسے کھلا کر خوش ہوتی۔ وہ دن میں دو دو تین تین بار اسے ابٹن ملتی کہ بچہ خوب پروان چڑھے۔ وہ اسے دوسروں کے سامنے کوئی چیز نہ کھلاتی کہ بچے کو نظر نہ لگ جائے۔ ہمیشہ دوسروں سے بچے کی کم خوری کا رونا رویا کرتی۔ اسے نظر بد سے بچانے کے لیے تعویذ اور گنڈے لاتی رہتی یہ اس کی خالص مادرانہ محبت تھی۔ جس میں اپنے روحانی احتظاظ کے سوا اور کوئی غرض نہ تھی۔
اس گھر سے نکل کر آج عباسی کی وہ حالت ہو گئی جو تھیٹر میں یکا یک بجلیوں کے گل ہو جانے سے ہوتی ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے وہی صورت ناچ رہی تھی۔ کانوں میں وہی پیاری پیاری باتیں گونج رہی تھیں۔ اسے اپنا گھر پھاڑے کھاتا تھا۔ اس کال کوٹھڑی میں دم گھٹا جاتا تھا۔
رات جوں توں کر کے کٹی۔ صبح کو وہ مکان میں جھاڑو دے رہی تھی۔ یکایک تازے حلوے کی صدا سن کر بے اختیار باہر نکل آئی۔ معاً یاد آ گیا۔ آج حلوہ کون کھائے گا؟ آج گود میں بیٹھ کر کون چہکے گا؟ وہ نغمہ مسرت سننے کے لیے جو حلوا کھاتے وقت نصیر کی آنکھوں سے، ہونٹوں سے اور جسم کے ایک ایک عضو سے برستا تھا۔ عباسی کی روح تڑپ اٹھی۔ وہ بے قراری کے عالم میں گھر سے نکلی کہ چلوں نصیر کو دیکھ آؤں۔ پر آدھے راستہ سے لوٹ گئی۔
نصیر عباسی کے دھیان سے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں اترتا تھا۔ وہ سوتے سوتے چونک پڑتی۔ معلوم ہوتا، نصیر ڈنڈے کا گھوڑا دبائے چلا آتا ہے۔ پڑوسنوں کے پاس جاتی تو نصیر ہی کا چرچا کرتی۔ اس کے گھر کوئی آتا تو نصیر ہی کا ذکر کرتی۔ نصیر اس کے دل اور جان میں بسا ہوا تھا۔ شاکرہ کی بے رخی اور بدسلوکی کے ملال کے لیے اس میں جگہ نہ تھی۔
وہ روز ارادہ کرتی کہ آج نصیر کو دیکھنے جاؤں گی۔ اس کے لیے بازار سے کھلونے اور مٹھائیاں لاتی۔ گھر سے چلتی۔ لیکن کبھی آدھے راستہ سے لوٹ آتی۔ کبھی دو چار قدم سے آگے نہ بڑھا جاتا۔ کون منہ لے کر جاؤں؟ جو محبت کو فریب سمجھتا ہو، اسے کون منہ دکھاؤں۔ کبھی سوچتی کہیں نصیر مجھے نہ پہچانے تو بچوں کی محبت کا اعتبار؟ نئی دایہ سے پرچ گیا ہو۔ یہ خیال اس کے پیروں پر زنجیر کا کام کر جاتا تھا۔
اس طرح دو ہفتے گزر گئے۔ عباسی کا دل ہر دم اچاٹ رہتا۔ جیسے اسے کوئی لمبا سفر درپیش ہو۔ گھر کی چیزیں جہاں کی تہاں پڑی رہتیں۔ نہ کھانے کی فکر نہ کپڑے کی۔ بدنی ضروریات بھی خلاء دل کو پر کرنے میں لگی ہوئی تھیں۔ عباسی کی حالت اس وقت پالتو چڑیا کی سی تھی جو قفس سے نکل کر پھر کسی گوشہ کی تلاش میں ہو۔ اسے اپنے تئیں بھلا دینے کا یہ ایک بہانہ مل گیا۔ آمادہ سفر ہو گئی۔
آسمان پر کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں اور ہلکی ہلکی پھواریں پڑ رہی تھیں۔ دہلی اسٹیشن پر زائرین کا ہجوم تھا۔ کچھ گاڑیوں میں بیٹھے تھے، کچھ اپنے گھر والوں سے رخصت ہو رہے تھے۔ چاروں طرف ایک کہرام سا مچا ہوا تھا۔ دنیا اس وقت بھی جانے والوں کے دامن پکڑے ہوئے تھی۔ کوئی بیوی سے تاکید کر رہا تھا۔ دھان کٹ جائے تو تالاب والے کھیت میں مٹر بو دینا اور باغ کے پاس گیہوں۔ کوئی اپنے جوان لڑکے کو سمجھا رہا تھا۔ اسامیوں پر بقایا لگان کی نالش کرنے میں دیر نہ کرنا اور دو روپیہ سیکڑہ سود ضرور مجرا کر لینا۔ ایک بوڑھے تاجر صاحب اپنے منیم سے کہہ رہے تھے۔ مال آنے میں دیر ہو تو خود چلے جائیے گا اور چلتو مال لیجیے گا۔ ورنہ روپیہ پھنس جائے گا۔ مگر خال خال ایسی صورتیں بھی نظر آتی تھیں جن پر مذہبی ارادت کا جلوہ تھا۔ وہ یا تو خاموش آسمان کی طرف تاکتی تھیں یا محو تسبیح خوانی تھیں۔ عباسی بھی ایک گاڑی میں بیٹھی سوچ رہی تھی۔ ان بھلے آدمیوں کو اب بھی دنیا کی فکر نہیں چھوڑتی۔ وہی خرید و فروخت لین دین کے چرچے نصیر اس وقت یہاں ہوتا تو بہت روتا۔ میری گود سے کسی طرح نہ اترتا۔ لوٹ کر ضرور اسے دیکھنے جاؤں گی۔ یا اللہ کسی طرح گاڑی چلے۔ گرمی کے مارے کلیجہ بھنا جاتا ہے۔ اتنی گھٹا امڈی ہوئی ہے۔ برسنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ معلوم نہیں یہ ریل والے کیوں دیر کر رہے ہیں؟ جھوٹ موٹ ادھر ادھر دوڑتے پھرتے ہیں یہ نہیں کہ چٹ پٹ گاڑی کھول دیں۔ مسافروں کی جان میں جان آئے۔ یکا یک اس نے صابر حسین کو بائیسکل لیے پلیٹ فارم پر آتے دیکھا۔ ان کا چہرہ اترا ہوا تھا اور کپڑے تر تھے۔ وہ گاڑیوں میں جھانکنے لگے۔ عباسی محض یہ دکھانے کے لیے کہ میں بھی حج کرنے جا رہی ہوں۔ گاڑی سے باہر نکل آئی۔ صابر حسین اسے دیکھتے ہی لپک کر قریب آئے اور بولے، ’’کیوں عباسی تم بھی حج کو چلیں؟‘‘
عباسی نے فخریہ انکسار سے کہا۔ ’’ہاں! یہاں کیا کروں؟ زندگی کا کوئی ٹھکانا نہیں۔ معلوم نہیں کب آنکھیں بند ہو جائیں۔ خدا کے یہاں منہ دکھانے کے لیے بھی تو کوئی سامان چاہئیے۔ نصیر میاں تو اچھی طرح ہیں؟‘‘
صابر: ’’اب تو تم جاری ہو۔ نصیر کا حال پوچھ کر کیا کرو گی۔ اس کے لیے دعا کرتی رہنا۔‘‘
عباسی کا سینہ دھڑکنے لگا۔ گھبرا کر بولی۔ ’’کیا دشمنوں کی طبیعت اچھی نہیں ہے؟‘‘
صابر: ’’اس کی طبیعت تو اسی دن سے خراب ہے جس دن تم وہاں سے نکلیں۔ کوئی دو ہفتہ تک تو شب روز انا انا کی رٹ لگاتا رہا۔ اور اب ایک ہفتہ سے کھانسی اور بخار میں مبتلا ہے۔ ساری دوائیں کر کے ہار گیا۔ کوئی نفع ہی نہیں ہوتا۔ میں نے ارادہ کیا تھا۔ چل کر تمہاری منت سماجت کر کے لے چلوں۔ کیا جانے تمہیں دیکھ کرا س کی طبیعت کچھ سنبھل جائے۔ لیکن تمہارے گھر پر آیا۔ تو معلوم ہوا کہ تم حج کرنے جا رہی ہو۔ اب کس منہ سے چلنے کو کہوں۔ تمہارے ساتھ سلوک ہی کون سا اچھا کیا تھا کہ اتنی جرأت کر سکوں اور پھر کار ثواب میں رخنہ ڈالنے کا بھی خیال ہے۔ جاؤ! اس کا خدا حافظ ہے۔ حیات باقی ہے تو صحت ہو ہی جائے گی۔ ورنہ مشیت ایزدی سے کیا چارہ؟‘‘
عباسی کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ سامنے چیزیں تیرتی ہوئی معلوم ہوئیں۔ دل پر ایک عجیب وحشت کا غلبہ ہوا۔ دل سے دعا نکلی۔ ’’اللہ میری جان کے صدقے۔ میرے نصیر کا بال بیکا نہ ہو۔‘‘ رقت سے گلا بھر آیا۔ میں کیسی سنگ دل ہوں۔ پیارا بچہ رو رو کر ہلکان ہو گیا اور اسے دیکھنے تک نہ گئی۔ شاکرہ بدمزاج سہی، بد زبان سہی۔ نصیر نے میرا کیا بگاڑا تھا؟ میں نے ماں کا بدلہ نصیر سے لیا۔ یا خدا میرا گناہ بخشیو! پیارا نصیر میرے لیے ہڑک رہا ہے (اس خیال سے عباسی کا کلیجہ مسوس اٹھا اور آنکھوں سے آنسو بہ نکلے ) مجھے کیا معلوم تھا کہ اسے مجھ سے اتنی محبت ہے۔ ورنہ شاکرہ کی جوتیاں کھاتیں اور گھر سے قدم نہ نکالتی۔ آہ! نہ معلوم بچارے کی کیا حالت ہے؟ انداز وحشت میں بولی، ’’دودھ تو پیتے ہیں نا؟‘‘
صابر: ’’تم دودھ پینے کو کہتی ہو۔ اس نے دو دن سے آنکھیں تو کھولیں نہیں۔‘‘
عباسی: ’’یا میرے اللہ! ارے او قلی، قلی! بیٹا! آ کے میرا اسباب گاڑی سے اتار دے۔ اب مجھے حج وج کی نہیں سوجھتی۔ ہاں بیٹا! جلدی کر۔ میاں دیکھئے کوئی یکہ ہو تو ٹھیک کر لیجیے! ‘‘
یکہ روانہ ہوا۔ سامنے سڑک پر کئی بگھیاں کھڑی تھیں۔ گھوڑا آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ عباسی بار بار جھنجلاتی تھی اور یکہ بان سے کہتی تھی، ’’بیٹا جلدی کر! میں تجھے کچھ زیادہ دے دوں گی۔‘‘ راستے میں مسافروں کی بھیڑ دیکھ کر اسے غصہ آتا تھا اس کا جی چاہتا تھا گھوڑے کے پر لگ جاتے۔ لیکن جب صابر حسین کا مکان قریب آ گیا تو عباسی کا سینہ زور سے اچھلنے لگا۔ بار بار دل سے دعاء نکلنے لگی۔ خدا کرے۔ سب خیرو عافیت ہو۔
یکہ صابر حسین کی گلی میں داخل ہوا۔ دفعتہً عباسی کو رونے کی آواز آئی۔ اس کا کلیجہ منہ کو آ گیا۔ سر تیورا گیا، معلوم ہوا۔ دریا میں ڈوبی جاتی ہوں جی چاہا یکہ سے کود پڑوں۔ مگر ذرا دیر میں معلوم ہوا کو عورت میکہ سے بدا ہو رہی ہے۔ تسکین ہوئی۔
آخر صابر حسین کا مکان آ پہنچا۔ عباسی نے ڈرتے ڈرے دروازے کی طرف تاکا۔ جیسے کوئی گھر سے بھاگا ہوا یتیم لڑکا شام کو بھوکا پیاسا گھر آئے۔ اور دروازے کی طرف سہمی ہوئی نگاہ سے دیکھے کہ کوئی بیٹھا تو نہیں ہے۔ دروازہ پرسناٹا چھایا ہوا تھا۔ باورچی بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ عباسی کو ذرا ڈھارس ہوئی۔ گھر میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ نئی دایہ بیٹھی پولٹس پکا رہی ہے۔ کلیجہ مضبوط ہوا۔ شاکرہ کے کمرے میں گئی تو اس کا دل گرما کی دوپہری دھوپ کی طرح کانپ رہا تھا۔ شاکرہ نصیر کو گود میں لیے دروازے کی طرف ٹکٹکی لگائے تاک رہی تھی۔ غم اور یاس کی زندہ تصویر۔
عباسی نے شاکرہ سے کچھ نہیں پوچھا۔ نصیر کو اس کی گود سے لے لیا۔ اور اس کے منہ کی طرف چشم پرنم سے دیکھ کر کہا، ’’بیٹا! نصیر آنکھیں کھولو۔‘‘
نصیر نے آنکھیں کھولیں۔ ایک لمحہ تک دایہ کو خاموش دیکھتا رہا۔ تب یکا یک دایہ کے گلے سے لپٹ گیا اور بولا، ’’انا آئی۔ انا آئی۔‘‘
نصیر کا زرد مرجھایا ہوا چہرہ روشن ہو گیا۔ جیسے بجھتے ہوئے چراغ میں تیل جائے۔ ایسا معلوم ہوا گویا وہ کچھ بڑھ گیا ہے۔
ایک ہفتہ گزر گیا۔ صبح کا وقت تھا۔ نصیر آنگن میں کھیل رہا تھا۔ صابر حسین نے آ کر اسے گود میں اٹھا لیا اور پیار کر کے بولے۔ ’’تمہاری انا کو مار کر بھگا دیں؟‘‘
نصیر نے منہ بنا کر کہا، ’’نہیں روئے گی۔‘‘
عباسی بولی، ’’کیوں بیٹا! مجھے تو تو نے کعبہ شریف نہ جانے دیا۔ میرے حج کا ثواب کون دے گا؟‘‘
صابر حسین نے مسکرا کر کہا، ’’تمہیں اس سے کہیں زیادہ ثواب ہو گیا۔ اس حج کا نام حج اکبر ہے۔‘‘
٭٭٭
گھاس والی
ملیا ہری ہری گھاس کا گٹھا لے کر لوٹی تو اس کا گیہواں رنگ کچھ سرخ ہو گیا تھا اور بڑی بڑی مخمور آنکھیں کچھ سہمی ہوئیں تھیں۔ مہابیر نے پوچھا کیا ہے ملیا؟ آج کیسا جی ہے۔ ملیا نے کچھ جواب نہ دیا۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ اور منہ پھیر لیا۔
مہابیر نے قریب آ کر پوچھا کیا ہوا ہے؟ بتاتی کیوں نہیں؟ کسی نے کچھ کہا ہے؟ اماں نے ڈانٹا ہے؟ کیوں اتنی اداس ہے۔؟
ملیا نے سسک کر کہا۔ کچھ نہیں ہوا کیا ہے اچھی تو ہوں۔
مہابیر نے ملیا کو سر سے پاؤں تک دیکھ کر پوچھا چپ چاپ روتی رہے گی بتائے گی نہیں۔
ملیا نے سرزنش کے انداز سے کہا کوئی بات بھی ہو۔ کیا بتا دوں۔
ملیا اس خارزار میں گلِ صد برگ تھی۔ گیہواں رنگ تھا۔ غنچہ کا سا منہ۔ بیضاوی چہرہ، ٹھوڑی کھچی ہوئی، رخساروں پر دل آویز سرخی، بڑی بڑی نکیلی پلکیں، آنکھوں میں ایک عجیب التجا، ایک دلفریب معصومیت، ساتھ ہی ایک عجیب کشش۔ معلوم نہیں چماروں کے اس گھر میں یہ اپسرا کہاں سے آ گئی تھی۔ کیا اس کا نازک پھول سا جسم اس قابل تھا کہ وہ سر پر گھاس کی ٹوکری رکھ کر بیچنے جاتی۔ اس گاؤں میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جو اس کے تلوؤں کے نیچے آنکھیں بچھاتے تھے۔ اس کی چتونوں کیلیے ترستے تھے جن سے اگر وہ ایک بات بھی کرتی تو نہال ہو جاتے لیکن ملیا کو آئے سال بھر سے زائد ہو گیا۔ کسی نے اسے مردوں کی طرف تاکتے نہیں دیکھا۔ وہ گھاس لینے نکلتی تو اس کا گندمی رنگ طلوع کی سنہری کرنوں سے کندن کی طرح دمک اٹھتا۔ گویا بسنت اپنی ساری شگفتگی اور مستانہ پن لیے مسکراتی چلی جاتی ہو۔ کوئی غزلیں گاتا۔ کوئی چھاتی پر ہاتھ رکھتا۔ پر ملیا آنکھیں نیچی کیے راہ چلی جاتی تھی۔ لوگ حیران ہو کر کہتے اتنا غرور اتنی بے نیازی مہابیر میں ایسے کیا سرخاب کے پر لگے ہیں ایسا جوان بھی تو نہیں۔ نہ جانے کیسے اس کے ساتھ رہتی ہے۔ چاند میں گہن لگ جاتا ہو گا۔
مگر آج ایک ایسی بات ہو گئی جو چاہے اس ذات کی دوسری نازنینوں کے لیے دعوت کا پیغام ہوتی۔ ملیا کے لیے زخم جگر سے کم نہ تھی۔ صبح کا وقت تھا۔ ہوا آم کے بور کی خوشبو سے متوالی ہو رہی تھی۔ آسمان زمین پر سونے کی بارش کر رہا تھا۔ ملیا سر پر ٹوکری رکھے گھاس چھیلنے جا رہی تھی کہ دفعتاً نوجوان چین سنگھ سامنے سے آتا دکھائی دیا۔ ملیا نے چاہا کہ کترا کر نکل جائے۔ مگر چین سنگھ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اور بولا۔ ملیا کیا تجھے مجھ پر ذرا رحم نہیں آتا۔
ملیا کا وہ پھول سا چہرہ شعلہ کی طرح دہک اٹھا۔ وہ ذرا بھی نہیں ڈری۔ ذرا بھی نہیں جھجھکی۔ جھوازمین پر گرا دیا۔ اور بولی مجھے چھوڑ دو۔ نہیں تو میں چلاتی ہوں۔
چین سنگھ کو آج زندگی میں یہ نیا تجربہ ہوا۔ نیچی ذاتوں میں حسن کا اس کے سوا اور کام ہی کیا ہے کہ وہ اونچی ذات والوں کا کھلونا بنے۔ ایسے کتنے ہی معرکے اس نے جیتے تھے۔ پر آج ملیا کے چہرے کا وہ رنگ، وہ غصّہ، وہ غرور، وہ تمکنت دیکھ کر اس کے چھکے چھوٹ گئے۔ اس نے خفیف ہو کر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ ملیا تیزی سے آگے بڑھ گئی۔ چوٹ کی گرمی میں درد کا احساس نہیں ہوتا۔ زخم ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ تو ٹیس ہونے لگتی ہے۔ ملیا جب کچھ دور نکل گئی۔ تو غصّہ اور خوف اور اپنی بے کسی کے احساس سے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اس نے کچھ دیر تک ضبط کیا پھر سسک سسک کر رونے لگی۔ اگر وہ اتنی غریب نہ ہوتی تو کسی کی مجال تھی کہ اس طرح کی آبرو لوٹ لیتا۔ وہ روتی جا رہی تھی اور گھاس چھیلتی جاتی تھی۔ مہابیر کا غصّہ وہ جانتی تھی۔ اگر اس سے کہہ دے تو وہ اس ٹھاکر کے خون کا پیاسا ہو جائے گا پھر نہ جانے کیا ہو۔ اس خیال سے اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اسی لیے اس نے مہابیر کے سوالوں کا کوئی جواب نہ دیا تھا۔
دوسرے دن ملیا گھاس کے لیے نہ گئی۔ ساس نے پوچھا تو کیوں نہیں جاتی اور سب تو چلی گئیں۔ ملیا نے سرجھکا کر کہا۔ میں اکیلی نہ جاؤں گی۔
ساس نے کہا اکیلے کیا تجھے باگھ اٹھا لے جائے گا۔ کیوں اوروں کے ساتھ نہیں چلی گئی۔
ملیا نے اور بھی سرجھکا لیا اور نہایت دبی ہوئی آواز میں بولی اوروں کے ساتھ نہ جاؤں گی۔
ساس نے ڈانٹ کر کہا۔ نہ تو اوروں کے ساتھ جائے گی، نہ اکیلی جائے گی، تو پھر کیسے جائے گی؟ صاف صاف کیوں نہیں کہتی کہ میں نہ جاؤں گی۔ تو یہاں میرے گھر میں رانی بن کر نباہ نہ ہو گا۔ کسی کو چام نہیں پیارا ہوتا۔ کام پیارا ہوتا ہے۔ تو بڑی سندر ہے تو تیری سندرتا لے کر چاٹوں۔ اٹھا جھوا اور جا گھاس لا۔
دروازہ پر نیم کے درخت کے سایہ میں کھڑا مہابیر گھوڑے کو مل رہا تھا۔ اس نے ملیا کو روتی صورت بنائے جاتے دیکھا پر کچھ بول نہ سکا۔ اس کا بس چلتا تو ملیا کو کلیجہ میں بٹھا لیتا۔ آنکھوں میں چرا لیتا۔ لیکن گھوڑے کا پیٹ بھرنا تو ضروری تھا۔ گھاس مول لے کر کھلائے تو بارہ آنے سے کم خرچ نہ ہوں۔ اسے مزدوری ہی کیا ملتی ہے۔ مشکل سے ڈیڑھ دو روپے۔ وہ بھی کبھی ملے کبھی نہ ملے۔
برا ہوا ان موٹر لاریوں کا۔ اب یکے کو کون پوچھتا ہے۔ مہاجن سے ڈیڑھ سو روپے قرض لے کر یکہ اور گھوڑا خریدا تھا۔ اس کے سود کے بھی نہیں پہنچتے۔ اصل کا ذکر ہی کیا۔ ظاہر داری کی۔ نہ جی چاہتا ہو نہ جا، دیکھی جائے گی۔
ملیا نہال ہو گئی۔ آب گوں آنکھوں میں محبت کا سرور جھلک اٹھا۔ بولی گھوڑا کھائے گا کیا؟
آج اس نے کل کا راستہ چھوڑ دیا اور کھیتوں کی مینڈھوں سے ہوتی ہوئی چلی۔ بار بار خائف نظروں سے ادھر ادھر تاکتی جاتی تھی۔ دونوں طرف اوکھ کے کھیت کھڑے تھے۔ ذرا بھی کھڑکھڑاہٹ ہوتی تو اس کا جی سن سے ہو جاتا۔ کوئی اوکھ میں چھپا بیٹھا نہ ہو۔ مگر کوئی نئی بات نہ ہوئی۔ اوکھ کے کھیت نکل گئے۔ آموں کا باغ نکل گیا، سینچے ہوئے کھیت نظر آنے لگے۔ دور ایک کنویں پرپر چل رہا تھا۔ کھیتوں کی مینڈھوں پر ہری ہری گھاس جمی ہوئی تھی۔ ملیا کا جی للچایا۔ یہاں آدھ گھنٹہ میں جتنی گھاس چھل سکتی ہے اتنی خشک میدان میں دوپہر تک بھی نہ چھل سکے گی۔ یہاں دیکھتا ہی کون ہے؟ کوئی پکارے گا تو چپکے سے سرک جاؤں گی۔ وہ بیٹھ کر گھاس چھیلنے لگی۔ اور ایک گھنٹہ میں اس کا جھابا آدھے سے زیادہ بھر گیا۔ اپنے کام میں اتنی محو ہو گئی کہ اسے چین سنگھ کے آنے کی خبر بھی نہ ہوئی۔ یکایک آہٹ پا کر سر اٹھایا تو چین سنگھ کھڑا تھا۔
ملیا کا کلیجہ دھک سے ہو گیا۔ جی میں آیا کہ بھاگ جائے۔ جھابا وہیں الٹ دے اور خالی جھابا لے کر چلی جائے۔ پر چین سنگھ نے کئی گز کے فاصلہ ہی پر روک کر کہا ڈر مت، ڈر مت، بھگوان جانے میں منہ سے کچھ نہ بولوں گا۔ خوب چھیل لے میرا ہی کھیت ہے۔
ملیا کے ہاتھ مفلوج سے ہو گئے۔ کھرپی ہاتھ میں جم سی گئی۔ گھاس نظر ہی نہ آتی تھی۔ جی چاہتا تھا دھرتی پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں، زمین آنکھوں کے سامنے تیرنے لگی۔
چین سنگھ نے دلاسا دیا چھیلتی کیوں نہیں، میں منہ سے کچھ کہتا تھوڑے ہی ہوں۔ یہیں روز چلی آیا کر میں چھیل دیا کروں گا۔
ملیا بت بنی بیٹھی رہی اس کے سینے میں اب اتنی دھڑکن نہ تھی۔
چین سنگھ نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور بولا۔ تو مجھ سے اتنا کیوں ڈرتی ہے کیا تو سمجھتی ہے میں تجھے ستانے آیا ہوں۔ ایشور جانتا ہے کل بھی تجھے ستانے کے لیے تیرا ہاتھ نہیں پکڑا تھا۔ تجھے دیکھ کر آپ ہی ہاتھ بڑ ھ گئے۔ مجھے کچھ سدھ ہی نہ رہی۔ تو چلی گئی تو میں وہیں بیٹھ کر گھنٹوں روتا رہا۔ جی میں آتا تھا اس ہاتھ کو کاٹ ڈالوں، کبھی جی چاہتا زہر کھالوں تبھی سے تجھے ڈھونڈ رہا ہوں۔ آج تو ادھر سے چلی آئی میں سارے بار میں مارا مارا پھرا کیا۔ اب جو سزا تیرے جی میں آوے دے۔ اگر تو میرا سر بھی کاٹ لے تو گردن نہ ہلاؤں گا۔ میں شہدا ہوں، لچا ہوں، لیکن جب سے تجھے دیکھا ہے نہ جانے کیوں میرے من کی کھوٹ مٹ گئی اب تو یہی جی چاہتا ہے کہ تیرا کتا ہوتا اور تیرے پیچھے پیچھے چلتا۔ تیرا گھوڑا تب تو کبھی کبھی میرے منہ پر ہاتھ پھیرتی تو مجھ سے کچھ بولتی کیوں نہیں۔ کسی طرح یہ چولا تیرے کام آوے۔ میرے من کی یہی سب سے بڑی لاسا ہے۔ روپیہ، پیسہ، اناج، پانی۔ بھگوان کا دیا سب گھر میں ہے بس تیری دیا چاہتا ہوں۔ میری جوانی کام نہ آوے۔ اگر میں کسی کھوٹ سے یہ باتیں کر رہا ہوں۔ بڑا بھاگوان تھا مہا بیرہ ایسی دیوی اسے ملی۔
ملیا چپ چاپ سنتی رہی پھر سر نیچا کر کے بھولے پن سے بولی۔ تو تم مجھے کیا کرنے کہتے ہو؟
چین سنگھ نے اور قریب آ کر کہا بس تیری دیا چاہتا ہوں۔
ملیا نے سر اٹھا کراس کی طرف دیکھا اس کا شرمیلا پن نہ جانے کہاں غائب ہو گیا تھا۔ چبھتے ہوئے لفظوں میں بولی تم سے ایک بات پوچھوں برا تو نہ مانو گے؟ تمہارا بیاہ ہو گیا ہے یا نہیں؟
چین سنگھ نے دبی زبان سے کہا۔ بیاہ تو ہو گیا ہے ملیا لیکن بیاہ کیا ہے کھلواڑ ہے۔
ملیا کے لبوں پر ایک حقارت آمیز تبسّم نمودار ہو گیا۔ بولی اگر اسی طرح مہابیر تمہاری عورت کو چھیڑتا تو تمھیں کیسا لگتا؟ تم اس کی گردن کاٹنے پر تیار ہو جاتے کہ نہیں۔؟ بولو کیا سمجھتے ہو مہابیر چمار ہے تو اس کے بدن میں لہو نہیں ہے۔ شرم نہیں آتی ہے اپنی اِجّت آبرو کا کھیال نہیں ہے۔ میرا روپ رنگ تمہیں بھاتا ہے کیا مجھ سے سندر عورتیں، شہر میں ندی کے گھاٹ پر نہیں گھوما کرتیں۔ میرا منہ ان کی تلوؤں کی برابری بھی نہیں کر سکتا۔ تم ان میں سے کسی سے کیوں دیا نہیں مانگتے۔ کیا ان کے پاس دیا نہیں ہے۔ مگر تم وہاں نہ جاؤ گے۔ کیونکہ وہاں جاتے تمہاری چھاتی دہلتی ہے۔ مجھ سے دیا مانگتے ہو۔ اسی لیے تو کہ میں چمارن ہوں۔ نیچ جات ہوں۔ اور نیچ جات کی عورت جرا سی آرجو بنتی، یا جراسے لالچ یا جرا سی گھر کی دھمکی سے کابو میں آ جاتی ہے۔ کتنا سستا سودا ہے۔ ٹھاکر ہو نہ ایسا سستا سودا کیوں چھوڑنے لگے۔
چین سنگھ پر گھڑوں پانی پھر گیا۔ بلکہ سینکڑوں جوتے پڑ گئے۔ خفت آمیز لہجہ میں بولا۔ یہ بات نہیں ہے ملیا میں سچ کہتا ہوں۔ اس میں اونچ نیچ کی بات نہیں ہے، سب آدمی برابر ہیں تو تیرے چرنوں پر سر رکھنے کو تیار ہوں۔
ملیا طنز سے بولی۔ اسی لیے کہ جانتے ہو میں کچھ کر نہیں سکتی جا کر کسی کھترانتی یا ٹھکرائن کے چرنوں پر سر رکھو تو معلوم ہو کہ چرنوں پر سر رکھنے کا کیا پھل ملتا ہے۔ پھر یہ سر تمہاری گردن پر نہ رہے گا۔
چین سنگھ مارے شرم کے زمین میں گڑا جاتا تھا۔ اس کا منہ خشک ہو گیا تھا کہ جیسے مہینوں کی بیماری کے بعد اٹھا ہو۔ منہ سے بات نہ نکلتی تھی۔ ملیا اتنی ذی فہم ہے اس کا اسے گمان بھی نہ تھا۔
ملیا نے پھر کہا۔ میں بھی روز بجار جاتی ہوں۔ بڑے بڑے گھروں کا حال جانتی ہوں، مجھے کسی بڑے گھر کا نام بتادوجس میں کوئی سائیس، کوئی کوچوان، کوئی کہار، کوئی پنڈا، کوئی مہراج نہ گھسا بیٹھا ہو، یہ سبھی بڑے گھروں کی لیلا ہے۔ اور وہ عورتیں جو کچھ کرتی ہیں۔ ٹھیک کرتی ہیں۔ ان کے مرد بھی تو چمارنوں اور کہارنوں پر جان دیتے پھرتے ہیں۔ لینا دینا برا بر ہو جاتا ہے۔ بیچارے گریب آدمیوں کے لیے یہ راگ رنگ کہاں۔؟ مہا بیر کے لیے سنسار میں جو کچھ ہوں میں ہوں۔ وہ کسی دوسری عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ سنجوگ کی بات ہے کہ میں جرا سندر ہوں۔ لیکن میں کالی کلوٹی ہوتی تب بھی مہابیر مجھے اسی طرح رکھتا۔ اس کا مجھے بھروسا ہے۔ میں چمارن ہو کر بھی اتنی کمینی نہیں ہوں کہ جو اپنے اوپر بھروسے کرے اس کے ساتھ دگا کروں۔ ہاں مہابیر اپنے من کی کرنے لگے۔ میری چھاتی پر مونگ دلے تو میں بھی اس کی چھاتی پر مونگ دلوں گی۔ تم میرے روپ ہی کے دیوا نے ہو نہ؟ آج مجھے ماتا نکل آئیں۔ کانی ہو جاؤں، تو میری طرف تاکو گے بھی نہیں۔ بولو جھوٹ کہتی ہوں۔؟
چین سنگھ انکار نہ کر سکا۔
ملیا نے اسی ملامت آمیز لہجہ میں کہا۔ لیکن میری ایک نہیں، دونوں آنکھیں پھوٹ جائیں تب بھی مہابیر کی آنکھ نہ پھرے گی۔ مجھے اٹھاوے گا۔ بٹھاوے گا۔ کھلاوے گا۔ سلاوے گا۔ کوئی ایسی سیوا نہیں ہے جو وہ اٹھا رکھے۔ تم چاہتے ہو۔ میں ایسے آدمی سے دگا کروں، جاؤ اب مجھے کبھی نہ چھیڑنا۔ نہیں اچھا نہ ہو گا۔
جوانی کا جوش ہے، حوصلہ ہے، عزم ہے، رحم ہے، قوت ہے، اور وہ سب کچھ جو زندگی کو روشن، پاکیزہ اور مکمل بنا دیتا ہے۔ جوانی کا نشہ غرور ہے، نفس پروری ہے، رعونت ہے، ہوس پرستی ہے، خود مطلبی ہے اور وہ سب کچھ جو زندگی کو بہیمت، زوال اور بدی کی جانب لے جاتا ہے۔ چین سنگھ پر جوانی کا نشہ تھا۔ ملیا نے ٹھنڈے چھینٹوں سے نشہ اتار دیا۔ عورت جتنی آسانی سے دین اور ایمان کو غارت کر سکتی ہے اتنی ہی آسانی سے ان کو قوت بھی عطا کر سکتی ہے۔ وہی چین سنگھ جو بات بات پر مزدوروں کو گالیاں دیتا تھا۔ آسامیوں کو پیٹتا تھا اب اتنا خلیق اتنا متحمل، اتنا منکسر ہو گیا تھا کہ لوگوں کو تعجب ہوتا تھا۔
کئی دن گذر گئے ایک دن شام کو چین سنگھ کھیت دیکھنے گیا۔ پر چل رہا تھا اس نے دیکھا کہ ایک جگہ نالی ٹوٹ گئی ہے اور سارا پانی بہا چلا جا رہا ہے۔ کیاری میں بالکل پانی نہ پہنچتا تھا۔ مگر کیاری بنانے والی عورت چپ چاپ بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے اس کی ذرا بھی فکر نہیں تھی کہ پانی کیوں نہیں آتا۔ پہلے یہ لا پروائی دیکھ کر چین سنگھ آپے سے باہر ہو جاتا اس عورت کی پورے دن کی مزدوری کاٹ لیتا اور پر چلا نے والوں کو گھڑکیاں جماتا پر آج اسے غصّہ نہیں آیا۔ اس نے مٹی لے کر نالی باندھ دی۔ اور بڑھیا کے پاس جا کر بولا۔ تو یہاں بیٹھی ہے اور پانی سب بہا جا رہا ہے۔
بڑھیا کو تھر تھر کانپتے دیکھ کر چین سنگھ نے اس کی دل جمعی کرتے ہوئے کہا بھاگ مت میں نے نالی بند کر دی ہے۔ بڑھؤ کئی دن سے نہیں دکھائی دیے کہیں کام دھندا کرنے جاتے ہیں کہ نہیں۔‘‘
بڑھیا کا سکڑا ہوا چہرہ چکنا ہو گیا۔ بولی آج کل تو ٹھالے ہی بیٹھے ہیں بھیا۔ کہیں کام نہیں لگتا۔
چین سنگھ نے نرمی سے کہا، تو ہمارے یہاں لگا دے۔ تھوڑا را سن رکھا ہے کات دیں۔ یہ کہتا ہوا وہ کنوئیں کی جانب چلا گیا۔ وہاں چار پر چل رہے تھے پر اس وقت دو ہکوے بیر کھانے گئے ہوئے تھے۔ چین سنگھ کو دیکھتے ہی باقی مزدوروں کے ہوش اڑ گئے۔ اگر ٹھاکر نے پوچھا دو آدمی کہاں گئے۔ تو کیا جواب دیں گے۔ سب کے سب ڈانٹے جائیں گے۔ بے چارے دل میں سہمے جا رہے تھے۔ کہ دیکھ سر پر کون آفت آتی ہے۔
چین سنگھ نے پوچھا وہ دونوں کہاں گئے؟
ایک مزدور نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ دونوں کسی کام سے ابھی چلے گئے ہیں بھیا۔
دفعتاً دونوں مزدور دھوتی کے ایک کونے میں بیر بھرے آتے دکھائی دئیے۔ دونوں خوش خوش چلے آ رہے تھے۔ چین سنگھ پر نگاہ پڑی تو پاؤں من من بھرکے ہو گئے۔ اب نہ آتے بنتا ہے نہ جاتے۔ دونوں سمجھ گئے کہ آج بے طرح مار پڑی، شاید مزدوری بھی کٹ جائے، شش و پنج کی حالت میں کھڑے تھے۔ کہ چین سنگھ نے پکارا۔ آؤ۔ بڑ ھ آؤ کیسے بیر ہیں؟ ذرا مجھے بھی دکھاؤ میرے ہی باغ کے ہیں نہ؟
دونوں اور بھی تھرا اٹھے آج ٹھاکر جیتا نہ چھوڑے گا۔ شاید سر کے بال بھی نہ بچیں۔ بھگو بھگو کر لگائے گا۔
چین سنگھ نے پھر کہا جلدی آؤ جی، کھڑے کیا ہو۔ مگر پکی پکی سب میں لے لوں گا کہے دیتا ہوں۔ ذرا ایک آدمی لپک گھر سے تھوڑا سا نمک تولے لو (مزدوروں سے) چھوڑ دو پر، آؤ بیر کھاؤ اس باغ کے بیر بہت میٹھے ہوتے ہیں۔ کام تو کرنا ہی ہے۔
دونوں خطا واروں کو اب کچھ تشفی ہوئی۔ آ کر سارے بیر چین سنگھ کے سامنے رکھ دئیے۔ ایک مزدور نمک لانے دوڑا۔ ایک نے کنوئیں سے لٹیا ڈور سے پانی نکالا۔ چین سنگھ چرسے کا پانی نہ پیتا تھا، آدھ گھنٹہ تک چاروں پر بندھ رہے۔ سبھوں نے خوب بیر کھائے جب سب بیر اڑ گئے تو ایک مجرم نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ بھاکجی۔ آج جان بکسی ہو جائے بڑی بھوک لگی تھی۔ نہیں تو کام چھوڑ کر نہ جاتے۔
چین سنگھ نے ہمدردانہ انداز سے کہا۔ تو اس میں برائی کیا ہوئی میں نے بھی تو بیر کھائے آدھ گھنٹہ کا ہرج ہوا۔ اتنا ہی تو۔ تم چاہو گے تو گھنٹہ بھر کا کام آدھ گھنٹہ میں کر لو گے۔ نہ چاہو گے تو دن بھر میں بھی گھنٹہ بھر کا کام نہ ہو گا۔
چین سنگھ چلا گیا تو چاروں باتیں کرنے لگے۔
ایک نے کہا۔ مالک اس طرح رہے تو کام کرنے میں جی لگتا ہے۔ یہ نہیں ہر دم چھاتی پر سوار۔
دوسرا: ۔ میں نے تو سمجھا آج کچا ہی کھا جائے گا۔
چوتھا: ۔ سانجھ کو پوری مجوری ملے تو کہنا۔
پہلا: ۔ تم تو ہو گوبر گنیس۔ آدمی کا رکھ نہیں پہچانتے۔
دوسرا: ۔ اب خوب دل لگا کر کام کریں گے۔
تیسرا: ۔ جب انھوں نے ہمارے اوپر چھوڑ دیا۔ تو ہمارا بھی دھرم ہے کہ اپنا کام سمجھ کر کام کریں۔
چوتھا: ۔ مجھے تو بھیا ٹھاکر پر اب بھی بسواس نہیں آتا۔
ایک دن چین سنگھ کو کسی کام سے کچہری جانا تھا۔ پانچ میل کا سفر تھا یوں تو وہ برابر اپنے گھوڑے پر جایا کرتا تھا۔ پر آج دھوپ تیز تھی۔ سوچا یکے پر چلا چلوں۔ مہابیر کو کہلا بھیجا مجھے بھی لیتے جانا۔ کوئی نو بجے مہابیر نے پکارا، چین سنگھ تیار بیٹھا تھا۔ چٹ پٹ یکے پر بیٹھ گیا۔ مگر گھوڑا اتنا دبلا ہو رہا تھا یکے کی گدی اتنی میلی اور پھٹی ہوئی، سارا سامان اتنا بوسیدہ کہ چین سنگھ کو یکے پر بیٹھتے شرم آتی تھی۔ پوچھا یہ سامان کیوں بگڑا ہوا ہے۔ مہابیر۔ تمہارا گھوڑا تو کبھی اتنا دبلا نہ تھا۔ کیا آج کل سواریاں کم ہیں؟
مہابیر نے کہا۔ مالک۔ سواریاں کم نہیں۔ مگر لاریوں کے سامنے یکے کو کون پوچھتا ہے۔ کہاں دو ڈھائی، تین کی مجوری کر کے گھر لوٹتا تھا کہاں اب بیس آنے کے پیسے بھی نہیں ملتے۔ کیا جانور کو کھلاؤں، کیا آپ کھاؤں، بڑی بپت میں پڑا ہوا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ یکہ گھوڑا بیچ کر آپ لوگوں کی مجوری کروں۔ پر کوئی گاہک نہیں لگتا۔ جیا دہ نہیں تو بارہ آنے تو گھوڑے ہی کو چاہیے۔ گھاس اوپر سے۔ جب اپنا ہی پیٹ نہیں چلتا تو جانور کو کون پوچھے۔
چین سنگھ نے اس کے پھٹے ہوئے کرتے کی طرف دیکھ کر کہا۔ دو چار بیگھے کی کھیتی کیوں نہیں کر لیتے۔ کھیت مجھ سے لے لو۔
مہابیر نے معذوری کے اندازسے سر جھکا کر کہا۔ کھیتی کے لیے بڑی ہمت چاہیے۔
مالک۔ میں نے بھی سوچا ہے کوئی گاہک لگ جائے تو یکے کو اونے پونے نکال دوں۔ پھرگھاس چھیل کر بجار لے جایا کروں۔ آج کل ساس بہو دونوں گھاس چھیلتی ہیں۔ تب جا کر دس بارہ آنے پیسے نصیب ہوتے ہیں۔
چین سنگھ نے پوچھا تو بڑھیا بجار جاتی ہو گی؟
مہابیر شرماتا ہوا بولا۔ نہیں راجہ۔ وہ اتنی دور کہاں چل سکتی ہے گھر والی چلی جاتی ہے۔ دوپہر تک گھاس چھیلتی ہے۔ تیسرے پہر بجار جاتی ہے۔ وہاں سے گھڑی رات گئے لوٹتی ہے۔ ہلکان ہو جاتی ہے۔ بھیا۔ مگر کیا کروں تکدیر سے کیا جور۔
چین سنگھ کچہری پہنچ گیا۔ مہا بیر سواریوں کی ٹوہ میں شہر کی طرف چلا گیا۔ چین سنگھ نے اسے پانچ بجے آنے کو کہہ دیا۔
کوئی چار بجے چین سنگھ کچہری سے فرصت پا کر باہر نکلا۔ احاطے میں پان کی دکان تھی احاطے کے باہر پھاٹک سے ملا ہوا ایک برگد کا درخت تھا۔ اس کے سایہ میں بیسوں ہی یکے تانگے بگھیا کھڑی تھیں۔ گھوڑے کھول دیے گئے تھے۔ وکیلوں، مختاروں اور افسروں کی سواریاں یہیں کھڑی رہتی تھیں۔ چین سنگھ نے پانی پیا، پان کھایا اور سوچنے لگا۔ کوئی لاری مل جائے تو ذرا شہر کی سیر کر آؤں کہ یکایک اس کی نگاہ ایک گھاس والی پر پڑ گئی۔ سر پر گھاس کا جھابا رکھے سائیسوں سے مول بھاؤ کر رہی تھی۔ چین سنگھ کا دل اچھل پڑا۔ یہ تو ملیا ہے۔ کتنی بنی ٹھنی، کئی کوچبان جمع ہو گئے تھے۔ کوئی اس سے مذاق کرتا تھا۔ کوئی گھورتا تھا کوئی ہنستا تھا۔
ایک کالے کلوٹے کوچبان نے کہا۔ ملیا گھاس تو اًڑ کے چھ آنے کی ہے۔
ملیا نے نشہ خیز آنکھوں سے دیکھ کر کہا۔ چھ آنے پر لینا ہے۔ تو وہ سامنے گھسیارنیں بیٹھی ہیں۔ چلے جاؤ۔ دو چار پیسے کم میں پاجاؤ گے۔ میری گھاس تو بارہ آنے ہی میں جائے گی۔
ایک ادھیڑ عمر کوچبان نے فٹن کے اوپر سے کہا۔ تیرا جمانا ہے، بارہ آنے نہیں ایک روپیہ مانگ بھائی۔ لینے والے جھک ماریں گے، اور لیگے۔ نکلنے دے وکیلوں کو۔ اب دیر نہیں ہے۔
ایک تانگے والے نے جو گلابی پگڑی باندھے ہوئے تھا کہا بڑھؤ کے منہ میں بھی پانی بھر آیا۔ اب ملیا کا مجاج کا ہے کو ملے گا۔
چین سنگھ کو ایسا غصّہ آ رہا تھا کہ ان بدمعاشوں کو جوتوں سے خبر لے۔ سب کے سب اس کی طرف کیسا ٹکٹکی لگائے تاک رہے ہیں۔ گویا آنکھوں سے پی جائیں گے۔ اور ملیا بھی یہاں کتنی خوش ہے۔ نہ لجاتی ہے نہ جھجھکتی ہے۔ نہ بگڑتی ہے۔ کیسا مسکرا مسکرا کر رسیلی چتونوں سے دیکھ دیکھ کر سر کا آنچل کھسکا کر، منہ موڑ موڑ کر باتیں کر رہی ہے۔ وہی ملیا جو شیرنی کی طرح تڑپ اٹھتی تھی۔
ذرا دیر میں وکیل مختاروں کا ایک میلا سا نکل پڑا۔ کوچبان نے بھی چٹ پٹ گھوڑے جوتے۔ ملیا پر چاروں طرف عینک بازوں کی مشتاق، مستانہ قدرانہ، ہوسناک نظریں پڑنے لگیں۔ ایک انگریزی فیشن کے بھلے آدمی آ کر اس فٹن پر بیٹھ گئے اور ملیا کو اشارے سے بلایا۔ کچھ باتیں ہوئیں ملیا نے گھاس پائدان پر رکھی۔ ہاتھ پھیلا کر اور منہ موڑ کر کچھ لیا۔ پھر مسکرا کر چل دی۔ فٹن بھی روانہ ہو گئیں۔
چین سنگھ پان والے کی دکان پر خود فراموشی کی حالت میں کھڑا تھا پان والے نے دکان بڑھائی۔ کپڑے پہنے اور کیبن کا دروازہ بند کر کے نیچے اترا تو چین سنگھ کو ہوش آیا۔ پوچھا کیا دکان بند کر دی؟
پان والے نے ہمدردانہ انداز سے کہا۔ اس کی دوا کرو ٹھاکر صاحب یہ بیماری اچھی نہیں ہے۔
چین سنگھ نے استعجاب سے پوچھا کیسی بیماری؟
پان والا بولا۔ کیسی بیماری؟ آدھ گھنٹہ سے یہاں کھڑے ہو جیسے بدن میں جان ہی نہیں ہے۔ ساری کچہری خالی ہو گئی مہتر تک جھاڑو لگا کر چل دیے۔ تمہیں کچھ خبر ہوئی؟ جلدی دوا کر ڈالو۔
چین سنگھ نے چھڑی سنبھالی۔ اور پھاٹک کی طرف چلا کہ مہابیر کا یکہ سامنے سے آتا دکھائی دیا۔
یکہ کچھ دور نکل گیا تو چین سنگھ نے پوچھا آج کتنے پیسے کمائے مہابیر؟
مہابیر نے ہنس کر کہا۔ آج تو مالک دن بھر کھڑا ہی رہ گیا کسی نے بیگار میں بھی نہ پکڑا۔ اوپر سے چار پیسے کی بیڑیاں پی گیا۔
چین سنگھ نے ذرا پس و پیش کے بعد کہا۔ میری ایک صلاح مانو۔ عزت ہماری اور تمھاری ایک ہے۔ تم مجھ سے ایک روپیہ روزانہ لے لیا کرو۔ بس، جب بلاؤں تو یکہ لے کر آ جاؤ۔ تب تو تمہاری گھر والی کو گھاس کو لے کر بازار نہ آنا پڑے گا۔ بولو منظور ہے؟
مہابیر نے مشکور نظروں سے دیکھ کر کہا۔ ’’مالک آپ ہی کا تو کھاتا ہوں۔ پرجا بھی آپ ہی کا ہوں۔ جب مرجی ہو بلوا لیجئے۔ آپ سے روپے۔۔۔
چین سنگھ نے بات کاٹ کر کہا۔ نہیں میں تم سے بیگار نہیں لینی چاہتا۔ تم تو مجھ سے ایک ایک روپیہ روز لے جایا کرو۔ گھر والی کو گھاس لے کر بازار مت بھیجا کرو۔ ہاں دیکھو۔ ملیا سے بھول کر بھی اس کی چرچا نہ کرنا۔ نہ اور کسی سے کچھ کہنا۔
کئی دنوں کے بعد شام کو ملیا کی ملاقات چین سنگھ سے ہو گئی۔ وہ آسامیوں سے لگان وصول کر کے گھر کی طرف لپکا جا رہا تھا کہ اسی جگہ جہاں اس نے ملیا کی بانھ پکڑی تھی۔ ملیا کی آواز اس کے کانوں میں آئی۔ اس نے ٹھٹک کر دیکھا تو ملیا دوڑی چلی آ رہی تھی۔ بولا: کیا ہے ملیا؟ دوڑ مت دوڑ مت میں تو کھڑا ہوں۔
ملیا نے ہانپتے ہوئے کہا: اب میں گھاس بیچنے نہیں جاتی۔ کئی دن سے تم سے ملنا چاہتی تھی پر تم کہیں ملتے نہ تھے۔ اور تمہارے گھر جا نہ سکتی تھی۔ آج تمہیں دیکھ کر دوڑی۔ اس پیپل کے پاس دوڑی آ رہی ہوں۔
چین سنگھ نے پیپل کی طرف دیکھ کر معذرت کے انداز سے کہا۔ نا حق اتنی دور دوڑی۔ پسینے پسینے ہو رہی ہے۔ تو نے بڑا اچھا کیا کہ بازار جانا چھوڑ دیا۔
ملیا نے پوچھا: تم نے مجھے کبھی گھاس بیچتے دیکھا ہے کیا؟
چین سنگھ: ہاں ایک دن دیکھا تھا۔ کیا مہابیر نے تجھ سے سب کچھ کہہ ڈالا۔؟ میں نے تو منع کیا تھا۔
ملیا: وہ مجھ سے کوئی بات نہیں چھپاتا۔
دونوں ایک لمحہ تک خاموش کھڑے رہے یکایک ملیا نے مسکرا کر کہا۔ یہیں تم نے میری بانھ پکڑی تھی۔
چین سنگھ شرمندہ ہو کر بولا۔ اس کو بھول جاؤ مولا دیوی۔ مجھ پر نہ جانے کون بھوت سوار تھا۔
ملیا نے بھرائی آواز میں کہا: اسے کیوں بھول جاؤں اسی ہاتھ پکڑنے کی لاج تو نبھا رہے ہو۔ گریبی آدمی سے جو چاہے کر ادے۔ تم نے مجھے ڈوبنے سے بچا لیا۔
پھر دونوں چپ ہو گئے۔
ذرا دیر بعد ملیا نے شرارت آمیز انداز سے پوچھا تم نے سمجھا ہو گا میں ہنسنے بولنے میں مگن ہو رہی تھی؟ کیوں؟
چین سنگھ نے زور دے کر کہا۔ نہیں ملیا مجھے ایسا خیال ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں آیا۔ اتنا کمینہ نہ سمجھ۔
ملیا مسکرا کر بولی۔ مجھے تم سے یہی آسا تھی۔
ہوا سینچے ہوئے کھیتوں میں آرام کرنے جا رہی تھی۔ آفتاب افق کی گود میں آرام کرنے جا رہا تھا۔ اور اس دھندلی روشنی میں کھڑا چین سنگھ ملیا کی مٹتی ہوئی تصویر کو دیکھ رہا تھا۔
٭٭٭
عید گاہ
رمضان کے پورے تیس روزوں کے بعد آج عید آئی۔ کتنی سہانی اور رنگین صبح ہے۔ بچے کی طرح پر تبسم، درختوں پر کچھ عجیب ہریاول ہے۔ کھیتوں میں کچھ عجیب رونق ہے۔ آسمان پر کچھ عجیب فضا ہے۔ آج کا آفتاب دیکھ کتنا پیارا ہے گویا دُنیا کو عید کی خوشی پر مبارکباد دے رہا ہے۔ گاؤں میں کتنی چہل پہل ہے۔ عید گاہ جانے کی دھوم ہے۔ کسی کے کرتے میں بٹن نہیں ہیں تو سوئی تاگا لینے دوڑے جا رہا ہے۔ کسی کے جوتے سخت ہو گئے ہیں۔ اسے تیل اور پانی سے نرم کر رہا ہے۔ جلدی جلدی بیلوں کو سانی پانی دے دیں۔ عید گاہ سے لوٹتے لوٹتے دوپہر ہو جائے گی۔ تین کوس کا پیدل راستہ پھر سینکڑوں رشتے قرابت والوں سے ملنا ملانا۔ دوپہر سے پہلے لوٹنا غیر ممکن ہے۔ لڑکے سب سے زیادہ خوش ہیں۔ کسی نے ایک روزہ رکھا، وہ بھی دوپہر تک۔ کسی نے وہ بھی نہیں لیکن عید گاہ جانے کی خوشی ان کا حصہ ہے۔ روزے بڑے بوڑھوں کے لئے ہوں گے، بچوں کے لئے تو عید ہے۔ روز عید کا نام رٹتے تھے آج وہ آ گئی۔ اب جلدی پڑی ہوئی ہے کہ عید گاہ کیوں نہیں چلتے۔ انہیں گھر کی فکروں سے کیا واسطہ؟ سویّوں کے لئے گھر میں دودھ اور شکر میوے ہیں یا نہیں، اس کی انہیں کیا فکر؟ وہ کیا جانیں ابا کیوں بدحواس گاؤں کے مہاجن چودھری قاسم علی کے گھر دوڑے جا رہے ہیں۔
ان کی اپنی جیبوں میں تو قارون کا خزانہ رکھا ہوا ہے۔ بار بار جیب سے خزانہ نکال کر گنتے ہیں۔ دوستوں کو دکھاتے ہیں اور خوش ہو کر رکھ لیتے ہیں۔ ان ہی دو چار پیسوں میں دنیا کی سات نعمتیں لائیں گے۔ کھلونے اور مٹھائیاں اور بگل اور خدا جانے کیا کیا۔ سب سے زیادہ خوش ہے حامد۔ وہ چار سال کا غریب خوب صورت بچہ ہے جس کا باپ پچھلے سال ہیضہ کی نذر ہو گیا تھا اور ماں نہ جانے کیوں زرد ہوتی ہوتی ایک دن مر گئی۔ کسی کو پتہ نہ چلا کہ بیماری کیا ہے؟ کہتی کس سے؟ کون سننے والا تھا؟ دل پر جو گزرتی تھی سہتی تھی اور جب نہ سہا گیا تو دنیا سے رخصت ہو گئی۔ اب حامد اپنی بوڑھی دادی امینہ کی گود میں سوتا ہے اور اتنا ہی خوش ہے۔ اس کے ابا جان بڑی دور روپے کمانے گئے تھے اور بہت سی تھیلیاں لے کر آئیں گے۔ امی جان اللہ میاں کے گھر مٹھائی لینے گئی ہیں۔ اس لئے خاموش ہے۔ حامد کے پاؤں میں جوتے نہیں ہیں۔ سر پر ایک پرانی دھرانی ٹوپی ہے جس کا گوٹہ سیاہ ہو گیا ہے پھر بھی وہ خوش ہے۔ جب اس کے ابّا جان تھیلیاں اور اماں جان نعمتیں لے کر آئیں گے تب وہ دل کے ارمان نکالے گا۔ تب دیکھے گا کہ محمود اور محسن آذر اور سمیع کہاں سے اتنے پیسے لاتے ہیں۔ دنیا اپنی مصیبتوں کی ساری فوج لے کر آئے، اس کی ایک نگاہِ معصوم اسے پامال کرنے کے لئے کافی ہے۔
حامد اندر جا کر امینہ سے کہتا ہے،’’تم ڈرنا نہیں امّاں! میں گاؤں والوں کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔ بالکل نہ ڈرنا لیکن امینہ کا دل نہیں مانتا۔ گاؤں کے بچے اپنے اپنے باپ کے ساتھ جا رہے ہیں۔ حامد کیا اکیلا ہی جائے گا۔ اس بھیڑ بھاڑ میں کہیں کھو جائے تو کیا ہو؟ نہیں امینہ اسے تنہا نہ جانے دے گی۔ ننھی سی جان۔ تین کوس چلے گا تو پاؤں میں چھالے نہ پڑ جائیں گے؟
مگر وہ چلی جائے تو یہاں سوّیاں کون پکائے گا، بھوکا پیاسا دوپہر کو لوٹے گا، کیا اس وقت سوّیاں پکانے بیٹھے گی۔ رونا تو یہ ہے کہ امینہ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس نے فہیمن کے کپڑے سیے تھے۔ آٹھ آنے پیسے ملے تھے۔ اس اٹھنی کو ایمان کی طرح بچاتی چلی آئی تھی اس عید کے لئے لیکن گھر میں پیسے اور نہ تھے اور گوالن کے پیسے اور چڑھ گئے تھے، دینے پڑے۔ حامد کے لئے روز دو پیسے کا دودھ تو لینا پڑتا ہے اب کل دو آنے پیسے بچ رہے ہیں۔ تین پیسے حامد کی جیب میں اور پانچ امینہ کے بٹوے میں۔ یہی بساط ہے۔ اللہ ہی بیڑا پار کرے گا۔ دھوبن مہترانی اور نائن بھی تو آئیں گی۔ سب کو سیویّاں چاہئیں۔ کس کس سے منہ چھپائے؟ سال بھر کا تہوار ہے۔ زندگی خیریت سے رہے۔ ان کی تقدیر بھی تو اس کے ساتھ ہے بچّے کو خدا سلامت رکھے یہ دن بھی یوں ہی کٹ جائیں گے۔
گاؤں سے لوگ چلے اور حامد بھی بچّوں کے ساتھ تھا۔ سب کے سب دوڑ کر نکل جاتے۔ پھر کسی درخت کے نیچے کھڑے ہو کر ساتھ والوں کا انتظار کرتے۔ یہ لوگ کیوں اتنے آہستہ آہستہ چل رہے ہیں۔
شہر کا سرا شروع ہو گیا۔ سڑک کے دونوں طرف امیروں کے باغ ہیں پختہ چہار دیواری بنی ہوئی ہے۔ درختوں میں آم لگے ہوئے ہیں۔ حامد نے ایک کنکری اٹھا کر ایک آم پر نشانہ لگایا۔ مالی اندر سے گالی دیتا ہوا باہر آیا۔ بچّے وہاں سے ایک فرلانگ پر ہیں۔ خوب ہنس رہے ہیں۔ مالی کو خوب الّو بنایا۔
بڑی بڑی عمارتیں آنے لگیں۔ یہ عدالت ہے۔ یہ مدرسہ ہے۔ یہ کلب گھر ہے۔ اتنے بڑے مدرسے میں کتنے سارے لڑکے پڑھتے ہوں گے۔ لڑکے نہیں ہیں جی بڑے بڑے آدمی ہیں۔ سچ ان کی بڑی بڑی مونچھیں ہیں۔ اتنے بڑے ہو گئے اب تک پڑھنے جاتے ہیں۔ آج تو چھٹی ہے لیکن ایک بار جب پہلے آئے تھے۔ تو بہت سے داڑھی مونچھوں والے لڑکے یہاں کھیل رہے تھے۔ نہ جانے کب تک پڑھیں گے۔ اور کیا کریں گے اتنا پڑھ کر۔ گاؤں کے دیہاتی مدرسے میں دو تین بڑے بڑے لڑکے ہیں۔ بالکل کودن غبی۔ کام سے جی چرانے والے۔ یہ لڑکے بھی اسی طرح کے ہوں گے جی۔ اور کیا نہیں۔ کیا اب تک پڑھتے ہوتے۔ وہ کلب گھر ہے۔ وہاں جادو کا کھیل ہوتا ہے۔ سنا ہے مردوں کی کھوپڑیاں اڑتی ہیں۔ آدمی بے ہوش کر دیتے ہیں۔ پھر اس سے جو کچھ پوچھتے ہیں وہ سب بتلا دیتے ہیں اور بڑے بڑے تماشے ہوتے ہیں اور میمیں بھی کھیلتی ہیں۔ سچ، ہماری اماں کو وہ دے دو۔ کیا کہلاتا ہے۔ ’’بیٹ‘‘ تو اسے گھماتے ہی لڑھک جائیں۔
محسن نے کہا ’’ہماری امّی جان تو اسے پکڑ ہی نہ سکیں۔ ہاتھ کانپنے لگیں۔ اللہ قسم‘‘
حامد نے اس سے اختلاف کیا۔ ’’چلو، منوں آٹا پیس ڈالتی ہیں۔ ذرا سی بیٹ پکڑ لیں گے تو ہاتھ کانپنے لگے گا۔ سینکڑوں گھڑے پانی روز نکالتی ہیں۔ کسی میم کو ایک گھڑا پانی نکالنا پڑے تو آنکھوں تلے اندھیرا آ جائے۔‘‘
محسن لیکن دوڑتی تو نہیں۔ اچھل کود نہیں سکتیں۔
حامد۔ کام آ پڑتا ہے تو دوڑ بھی لیتی ہیں ابھی اس دن تمھاری گائے کھل گئی تھی اور چودھری کے کھیت میں جا پڑی تھی تو تمھاری امّاں ہی تو دوڑ کر اسے بھگا لائی تھیں۔ کتنی تیزی سے دوڑی تھیں۔ ہم تم دونوں ان سے پیچھے رہ گئے۔‘‘
پھر آگے چلے۔ حلوائیوں کی دکانیں شروع ہو گئیں۔ آج خوب سجی ہوئی تھیں۔
اتنی مٹھائیاں کون کھاتا ہے؟ دیکھو نا ایک ایک دکان پر منوں ہوں گی۔ سنا ہے رات کو ایک جنّات ہر ایک دکان پر جاتا ہے۔ جتنا مال بچا ہوتا ہے وہ سب خرید لیتا ہے اور سچ مچ کے روپے دیتا ہے بالکل ایسے ہی چاندی کے روپے۔
محمود کو یقین نہ آیا۔ ایسے روپے جنّات کو کہاں سے مل جائیں گے
محسن۔ ’’جنّات کو روپوں کی کیا کمی؟ جس خزانہ میں چاہیں چلے جائیں کوئی انھیں دیکھ نہیں سکتا۔ لوہے کے دروازے تک نہیں روک سکتے۔ جناب آپ ہیں کس خیال میں۔ ہیرے جواہرات ان کے پاس رہتے ہیں۔ جس سے خوش ہو گئے اسے ٹوکروں جواہرات دے دیے۔ پانچ منٹ میں کہو کابل پہنچ جائیں۔
حامد۔ ’’‘جنات بہت بڑے ہوتے ہوں گے۔‘‘
محسن۔ ’’اور کیا ایک ایک آسمان کے برابر ہوتا ہے۔ زمین پر کھڑا ہو جائے تو اس کا سر آسمان سے جا لگے۔ مگر چاہے تو ایک لوٹے میں گھس جائے۔
سمیع: سنا ہے چودھری صاحب کے قبضہ میں بہت سے جنات ہیں۔ کوئی چیز چوری چلی جائے، چودھری صاحب اس کا پتہ بتا دیں گے اور چور کا نام تک بتا دیں گے۔ جمعراتی کا بچھڑا اس دن کھو گیا تھا۔ تین دن حیران ہوئے، کہیں نہ ملا، تب جھک مار کر چودھری کے پاس گئے۔ چودھری نے کہا، مویشی خانہ میں ہے اور وہیں ملا۔ جنات آ کر انہیں سب خبریں دے جایا کرتے ہیں۔
اب ہر ایک کی سمجھ میں آ گیا کہ چودھری قاسم علی کے پاس کیوں اس قدر دولت ہے اور کیوں وہ قرب و جوار کے مواضعات کے مہاجن ہیں۔ جنات آ کر انہیں روپے دے جاتے ہیں۔ آگے چلئے یہ پولیس لائن ہے۔ یہاں پولیس والے قواعد کرتے ہیں۔ رائٹ لپ، پھام پھو۔
نوری نے تصحیح کی، ’’یہاں پولیس والے پہرہ دیتے ہیں۔ جب ہی تو انہیں بہت خبر ہے۔ اجی حضرت یہ لوگ چوریاں کراتے ہیں۔ شہر کے جتنے چور ڈاکو ہیں سب ان سے ملے رہتے ہیں۔ رات کو سب ایک محلّہ میں چوروں سے کہتے ہیں اور دوسرے محلّہ میں پکارتے ہیں جاگتے رہو۔ میرے ماموں صاحب ایک تھانہ میں سپاہی ہیں۔ بیس روپے مہینہ پاتے ہیں لیکن تھیلیاں بھر بھر گھر بھیجتے ہیں۔ میں نے ایک بار پوچھا تھا، ماموں اتنے روپے آپ چاہیں تو ایک دن میں لاکھوں بار لائیں۔ ہم تو اتنا ہی لیتے ہیں جس میں اپنی بدنامی نہ ہو اور نوکری بنی رہے۔
حامد نے تعجب سے پوچھا، ’’یہ لوگ چوری کراتے ہیں تو انہیں کوئی پکڑتا نہیں؟‘‘ نوری نے اس کی کوتاہ فہمی پر رحم کھا کر کہا، ’’ارے احمق! انہیں کون پکڑے گا، پکڑنے والے تو یہ خود ہیں لیکن اللہ انہیں سزا بھی خوب دیتا ہے۔ تھوڑے دن ہوئے ماموں کے گھر میں آگ لگ گئی۔ سارا مال متاع جل گیا۔ ایک برتن تک نہ بچا۔ کئی دن تک درخت کے سائے کے نیچے سوئے، اللہ قسم پھر نہ جانے کہاں سے قرض لائے تو برتن بھانڈے آئے۔‘‘
بستی گھنی ہونے لگی۔ عید گاہ جانے والوں کے مجمعے نظر آنے لگے۔ ایک سے ایک زرق برق پوشاک پہنے ہوئے۔ کوئی تانگے پر سوار کوئی موٹر پر چلتے تھے تو کپڑوں سے عطر کی خوشبو اڑتی تھی۔
دہقانوں کی یہ مختصر سی ٹولی اپنی بے سر و سامانی سے بے حس اپنی خستہ حالی میں مگر صابر و شا کر چلی جاتی تھی۔ جس چیز کی طرف تاکتے، تاکتے رہ جاتے اور پیچھے سے بار بار ہارن کی آواز ہونے پر بھی خبر نہ ہوتی تھی۔ محسن تو موٹر کے نیچے جاتے جاتے بچا۔
وہ عید گاہ نظر آئی۔ جماعت شروع ہو گئی ہے۔ املی کے گھنے درختوں کا سایہ ہے نیچے کھلا ہوا پختہ فرش ہے۔ جس پر جاجم بچھا ہوا ہے اور نمازیوں کی قطاریں ایک کے پیچھے دوسرے خدا جانے کہاں تک چلی گئی ہیں۔ پختہ فرش کے نیچے جاجم بھی نہیں۔ کئی قطاریں کھڑی ہیں جو آتے جاتے ہیں پیچھے کھڑے ہوتے جاتے ہیں۔ آگے اب جگہ نہیں رہی۔ یہاں کوئی رتبہ اور عہدہ نہیں دیکھتا۔ اسلام کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ دہقانوں نے بھی وضو کیا اور جماعت میں شامل ہو گئے۔ کتنی باقاعدہ منظم جماعت ہے، لاکھوں آدمی ایک ساتھ جھکتے ہیں، ایک ساتھ دو زانو بیٹھ جاتے ہیں اور یہ عمل بار بار ہوتا ہے ایسا معلوم ہو رہا ہے گویا بجلی کی لاکھوں بتیاں ایک ساتھ روشن ہو جائیں اور ایک ساتھ بجھ جائیں۔ کتنا پر احترام رعب انگیز نظارہ ہے۔ جس کی ہم آہنگی اور وسعت اور تعداد دلوں پر ایک وجدانی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ گویا اخوت کا رشتہ ان تمام روحوں کو منسلک کئے ہوئے ہے۔
نماز ختم ہو گئی ہے لوگ باہم گلے مل رہے ہیں۔ کچھ لوگ محتاجوں اور سائلوں کو خیرات کر رہے ہیں۔ جو آج یہاں ہزاروں جمع ہو گئے ہیں۔ ہمارے دہقانوں نے مٹھائی اور کھلونوں کی دُکانوں پر یورش کی۔ بوڑھے بھی ان دلچسپیوں میں بچوں سے کم محظوظ نہیں ہیں۔ یہ دیکھو ہنڈولا ہے۔ ایک پیسہ دے کر آسمان پر جاتے معلوم ہوں گے۔ کبھی زمین پر گرتے ہیں۔ یہ چرخی ہے۔ لکڑی کے گھوڑے، اونٹ، ہاتھی منجوں سے لٹکے ہوئے ہیں۔ ایک پیسہ دے کر بیٹھ جاؤ اور پچیس چکروں کا مزہ لو۔ محمود اور محسن دونوں ہنڈولے پر بیٹھے ہیں۔ آذر اور سمیع گھوڑوں پر۔ ان کے بزرگ اتنے ہی طفلانہ اشتیاق سے چرخی پر بیٹھے ہیں۔ حامد دور کھڑا ہے تین ہی پیسے تو اس کے پاس ہیں۔ ذراسا چکر کھانے کے لئے وہ اپنے خزانہ کا ثلث نہیں صَرف کر سکتا۔ محسن کا باپ بار بار اسے چرخی پر بلاتا ہے لیکن وہ راضی نہیں ہوتا۔ بوڑھے کہتے ہیں اس لڑکے میں ابھی سے اپنا پرایا آ گایا ہے۔ حامد سوچتا ہے، کیوں کسی کا احسان لوں؟ عسرت نے اسے ضرورت سے زیادہ ذکی الحس بنا دیا ہے۔
سب لوگ چرخی سے اترتے ہیں۔ کھلونوں کی خرید شروع ہوتی ہے۔ سپاہی اور گجریا اور راجہ رانی اور وکیل اور دھوبی اور بہشتی بے امتیاز ران سے ران ملائے بیٹھے ہیں۔ دھوبی راجہ رانی کی بغل میں ہے اور بہشتی وکیل صاحب کی بغل میں۔ واہ کتنے خوبصورت، بولا ہی چاہتے ہیں۔ محمود سپاہی پر لٹو ہو جاتا ہے۔ خاکی وردی اور پگڑی لال، کندھے پر بندوق، معلوم ہوتا ہے ابھی قواعد کے لئے چلا آ رہا ہے۔ محسن کو بہشتی پسند آیا۔ کمر جھکی ہوئی ہے اس پر مشک کا دہانہ ایک ہاتھ سے پکڑے ہوئے ہے۔ دوسرے ہاتھ میں رسی ہے، کتنا بشاش چہرہ ہے، شاید کوئی گیت گا رہا ہے۔ مشک سے پانی ٹپکتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ نوری کو وکیل سے مناسبت ہے۔ کتنی عالمانہ صورت ہے، سیاہ چغہ نیچے سفید اچکن، اچکن کے سینہ کی جیب میں سنہری زنجیر، ایک ہاتھ میں قانون کی کتاب لئے ہوئے ہے۔ معلوم ہوتا ہے، ابھی کسی عدالت سے جرح یا بحث کر کے چلے آ رہے ہیں۔ یہ سب دو دو پیسے کے کھلونے ہیں۔ حامد کے پاس کل تین پیسے ہیں۔ اگر دو کا ایک کھلونا لے لے تو پھر اور کیا لے گا؟ نہیں کھلونے فضول ہیں۔ کہیں ہاتھ سے گر پڑے تو چور چور ہو جائے۔ ذرا سا پانی پڑ جائے تو سارا رنگ دھل جائے۔ ان کھلونوں کو لے کر وہ کیا کرے گا، کس مصرف کے ہیں؟
محسن کہتا ہے، ’’میرا بہشتی روز پانی دے جائے گا صبح شام۔‘‘
نوری بولی،’’اور میرا وکیل روز مقدمے لڑے گا اور روز روپے لائے گا‘‘
حامد کھلونوں کی مذمت کرتا ہے۔ مٹی کے ہی تو ہیں، گریں تو چکنا چور ہو جائیں، لیکن ہر چیز کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ ذرا دیر کے لئے انہیں ہاتھ میں لے سکتا۔ یہ بساطی کی دکان ہے، طرح طرح کی ضروری چیزیں، ایک چادر بچھی ہوئی ہے۔ گیند، سیٹیاں، بگل، بھنورے، ربڑ کے کھلونے اور ہزاروں چیزیں۔ محسن ایک سیٹی لیتا ہے محمود گیند، نوری ربڑ کا بت جو چوں چوں کرتا ہے اور سمیع ایک بانسری۔ اسے وہ بجا بجا کر گائے گا۔ حامد کھڑا ہر ایک کو حسرت سے دیکھ رہا ہے۔ جب اس کا رفیق کوئی چیز خرید لیتا ہے تو وہ بڑے اشتیاق سے ایک بار اسے ہاتھ میں لے کر دیکھنے کے لئے لپکتا ہے۔ لیکن لڑکے اتنے دوست نواز نہیں ہوتے۔ خاص کر جب کہ ابھی دلچسپی تازہ ہے۔ بے چارہ یوں ہی مایوس ہو کر رہ جاتا ہے۔
کھلونوں کے بعد مٹھائیوں کا نمبر آیا۔ کسی نے ریوڑیاں لی ہیں، کسی نے گلاب جامن، کسی نے سوہن حلوہ۔ مزے سے کھا رہے ہیں۔ حامد ان کی برادری سے خارج ہے۔ کمبخت کی جیب میں تین پیسے تو ہیں، کیوں نہیں کچھ لے کر کھاتا۔ حریص نگاہوں سے سب کی طرف دیکھتا ہے۔
محسن نے کہا، ’’حامد یہ ریوڑی لے جا کتنی خوشبو دار ہیں۔‘‘
حامد سمجھ گیا یہ محض شرارت ہے۔ محسن اتنا فیاض طبع نہ تھا۔ پھر بھی وہ اس کے پاس گیا۔ محسن نے دونے سے دو تین ریوڑیاں نکالیں۔ حامد کی طرف بڑھائیں۔ حامد نے ہاتھ پھیلایا۔ محسن نے ہاتھ کھینچ لیا اور ریوڑیاں اپنے منھ میں رکھ لیں۔ محمود اور نوری اور سمیع خوب تالیاں بجا بجا کر ہنسنے لگے۔ حامد کھسیانہ ہو گیا۔ محسن نے کہا۔
’’اچھا اب ضرور دیں گے۔ یہ لے جاؤ۔ اللہ قسم۔‘‘
حامد نے کہا، ’’رکھیے رکھیے کیا میرے پاس پیسے نہیں ہیں؟‘‘
سمیع بولا، ’’تین ہی پیسے تو ہیں، کیا کیا لو گے؟‘‘
محمود بولا ’’تم اس سے مت بولو، حامد میرے پاس آؤ۔ یہ گلاب جامن لے لو‘‘
حامد: مٹھائی کون سی بڑی نعمت ہے۔ کتاب میں اس کی برائیاں لکھی ہیں۔
محسن: لیکن جی میں کہہ رہے ہو گے کہ کچھ مل جائے تو کھا لیں۔ اپنے پیسے کیوں نہیں نکالتے؟
محمود: اس کی ہوشیاری میں سمجھتا ہوں۔ جب ہمارے سارے پیسے خرچ ہو جائیں گے، تب یہ مٹھائی لے گا اور ہمیں چڑا چڑا کر کھائے گا۔
حلوائیوں کی دکانوں کے آگے کچھ دکانیں لوہے کی چیزوں کی تھیں۔ کچھ گلٹ اور ملمع کے زیورات کی۔ لڑکوں کے لئے یہاں دلچسپی کا کوئی سامان نہ تھا۔ حامد لوہے کی دُکان پر ایک لمحہ کے لئے رک گیا۔ دست پناہ رکھے ہوئے تھے۔ وہ دست پناہ خرید لے گا۔ ماں کے پاس دست پناہ نہیں ہے۔ توے سے روٹیاں اتارتی ہیں تو ہاتھ جل جاتا ہے۔ اگر وہ دست پناہ لے جا کر اماں کو دے دے تو وہ کتنی خوش ہوں گی۔ پھر ان کی انگلیاں کبھی نہیں جلیں گی۔ گھر میں ایک کام کی چیز ہو جائے گی۔ کھلونوں سے کیا فائدہ۔ مفت میں پیسے خراب ہوتے ہیں۔ ذرا دیر ہی تو خوشی ہوتی ہے پھر تو انہیں کوئی آنکھ اٹھا کر کبھی نہیں دیکھتا۔ یا تو گھر پہنچتے پہنچتے ٹوٹ پھوٹ کر برباد ہو جائیں گے یا چھوٹے بچے جو عید گاہ نہیں جا سکتے ہیں ضد کر کے لے لیں گے اور توڑ ڈالیں گے۔ دست پناہ کتنے فائدہ کی چیز ہے۔ روٹیاں توے سے اتار لو، چولھے سے آگ نکال کر دے دو۔ اماں کو فرصت کہاں ہے بازار آئیں اور اتنے پیسے کہاں ملتے ہیں۔ روز ہاتھ جلا لیتی ہیں۔ اس کے ساتھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ سبیل پر سب کے سب پانی پی رہے ہیں۔ کتنے لالچی ہیں۔ سب نے اتنی مٹھائیاں لیں کسی نے مجھے ایک بھی نہ دی۔ اس پر کہتے ہیں میرے ساتھ کھیلو۔ میری تختی دھو لاؤ۔ اب اگر یہاں محسن نے کوئی کام کرنے کو کہا تو خبر لوں گا۔ کھائیں مٹھائیاں، آپ ہی منہ سڑے گا، پھوڑے پھنسیاں نکلیں گی۔ آپ ہی زبان چٹوری ہو جائے گی۔ تب پیسے چرائیں گے اور مار کھائیں گے۔ میری زبان کیوں خراب ہو گی۔ اس نے پھر سوچا، اماں دست پناہ دیکھتے ہی دوڑ کر میرے ہاتھ سے لے لیں گی اور کہیں گی۔ میرا بیٹا اپنی ماں کے لئے دست پناہ لایا ہے، ہزاروں دُعائیں دیں گی۔ پھر اسے پڑوسیوں کو دکھائیں گی۔ سارے گاؤں میں واہ واہ مچ جائے گی۔ ان لوگوں کے کھلونوں پر کون انہیں دعائیں دے گا۔ بزرگوں کی دعائیں سیدھی خدا کی درگاہ میں پہنچتی ہیں اور فوراً قبول ہوتی ہیں۔ میرے پاس بہت سے پیسے نہیں ہیں۔ جب ہی تو محسن اور محمود یوں مزاج دکھاتے ہیں۔ میں بھی ان کو مزاج دکھاؤں گا۔ وہ کھلونے کھیلیں، مٹھائیاں کھائیں میں غریب سہی۔ کسی سے کچھ مانگنے تو نہیں جاتا۔ آخر ابا کبھی نہ کبھی آئیں گے ہی پھر ان لوگوں سے پوچھوں گا کتنے کھلونے لو گے؟ ایک ایک کو ایک ٹوکری دوں اور دکھا دوں کہ دوستوں کے ساتھ اس طرح سلوک کیا جاتا ہے۔ جتنے غریب لڑکے ہیں سب کو اچھے اچھے کرتے دلوا دوں گا اور کتابیں دے دوں گا۔ یہ نہیں کہ ایک پیسہ کی ریوڑیاں لیں تو چڑا چڑا کر کھانے لگیں۔ دست پناہ دیکھ کر سب کے سب ہنسیں گے۔ احمق تو ہیں ہی سب۔ اس نے ڈرتے ڈرتے دُکاندار سے پوچھا، ’’یہ دست پناہ بیچو گے؟‘‘
دکاندار نے اس کی طرف دیکھا اور ساتھ کوئی آدمی نہ دیکھ کر کہا، وہ تمہارے کام کا نہیں ہے۔
’’بکاؤ ہے یا نہیں؟‘‘
’’بکاؤ ہے جی اور یہاں کیوں لاد کر لائے ہیں‘‘
’’تو بتلاتے کیوں نہیں؟ کے پیسے کا دو گے؟‘‘
’’چھ پیسے لگے لگا‘‘
حامد کا دل بیٹھ گیا۔ کلیجہ مضبوط کر کے بولا، تین پیسے لو گے؟ اور آگے بڑھا کہ دکاندار کی گھرکیاں نہ سنے، مگر دکاندار نے گھرکیاں نہ دیں۔ دست پناہ اس کی طرف بڑھا دیا اور پیسے لے لئے۔ حامد نے دست پناہ کندھے پر رکھ لیا، گویا بندوق ہے اور شان سے اکڑتا ہوا اپنے رفیقوں کے پاس آیا۔ محسن نے ہنستے ہوئے کہا، ’’یہ دست پناہ لایا ہے۔ احمق اسے کیا کرو گے؟‘‘
حامد نے دست پناہ کو زمین پر پٹک کر کہا، ’’ذرا اپنا بہشتی زمین پر گرا دو، ساری پسلیاں چور چور ہو جائیں گی بچو کی
محمود: تو یہ دست پناہ کوئی کھلونا ہے؟
حامد: کھلونا کیوں نہیں ہے؟ ابھی کندھے پر رکھا، بندوق ہو گیا’’ ہاتھ میں لے لیا فقیر کا چمٹا ہو گیا۔ چاہوں تو اس سے تمہاری ناک پکڑ لوں۔ ایک چمٹا دوں تو تم لوگوں کے سارے کھلونوں کی جان نکل جائے۔ تمہارے کھلونے کتنا ہی زور لگائیں، اس کا بال بیکا نہیں کر سکتے۔ میرا بہادر شیر ہے یہ دست پناہ۔
سمیع متاثر ہو کر بدلا، ’’میری خنجری سے بدلو گے؟ دو آنے کی ہے‘‘
حامد نے خنجری کی طرف حقارت سے دیکھ کر کہا ’’میرا دست پناہ چاہے تو تمہاری خنجری کا پیٹ پھاڑ ڈالے۔ بس ایک چمڑے کی جھلی لگا دی، ڈھب ڈھب بولنے لگی۔ ذرا سا پانی لگے تو ختم ہو جائے۔ میرا بہادر دست پناہ تو آگ میں، پانی میں، آندھی میں، طوفان میں برابر ڈٹا رہے گا۔ میلہ بہت دور پیچھے چھوٹ چکا تھا۔ دس بج رہے تھے۔ گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ اب دست پناہ نہیں مل سکتا تھا۔ اب کسی کے پاس پیسے بھی تو نہیں رہے، حامد ہے بڑا ہوشیار۔ اب دو فریق ہو گئے، محمود، محسن اور نوری ایک طرف۔ حامد یکہ و تنہا دوسری طرف۔ سمیع غیر جانبدار ہے جس کی فتح دیکھے گا اس کی طرف ہو جائے گا۔ مناظرہ شروع ہو گیا۔ آج حامد کی زبان بڑی صفائی سے چل رہی ہے۔ اتحادِ ثلاثہ اس کے جارحانہ عمل سے پریشان ہو رہا ہے۔ ثلاثہ کے پاس تعداد کی طاقت ہے، حامد کے پاس حق اور اخلاق، ایک طرف مٹی ربڑ اور لکڑی کی چیزیں دوسری جانب اکیلا لوہا۔ جو اس وقت اپنے آپ کو فولاد کہہ رہا ہے۔ وہ روئیں تن ہے۔ صف شکن ہے۔ اگر کہیں شیر کی آواز کان میں آ جائے تو میاں بہشتی کے اوسان خطا ہو جائیں۔ میاں سپاہی مٹکی بندوق چھوڑ کر بھاگیں۔ وکیل صاحب کا سارا قانون پیٹ میں سما جائے۔ چغے میں منہ چھپا کر لیٹ جائیں۔ مگر بہادر یہ رستمِ ہند لپک کر شیر کی گردن پر سوار ہو جائے گا اور اس کی آنکھیں نکال لے گا۔
محسن نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر کہا ’’اچھا تمہارا دست پناہ پانی تو نہیں بھر سکتا۔
حامد نے دست پناہ کو سیدھا کر کے کہا کہ یہ بہشتی کو ایک ڈانٹ پلائے گا تو دوڑا ہوا پانی لا کر اس کے دروازے پر چھڑکنے لگے گا۔ جناب اس سے چاہے گھڑے مٹکے اور کونڈے بھر لو۔
محسن کا ناطقہ بند ہو گیا۔ نوری نے کمک پہنچائی ’’بچہ گرفتار ہو جائیں تو عدالت میں بندھے بندھے پھریں گے۔ تب تو ہمارے وکیل صاحب ہی پیروی کریں گے۔ بولئے جناب‘‘
حامد کے پاس اس وار کا دفیعہ اتنا آسان نہ تھا، دفعتاً اس نے ذرا مہلت پا جانے کے ارادے سے پوچھا ’’اسے پکڑنے کون آئے گا؟‘‘
محمود نے کہا،’’یہ سپاہی بندوق والا‘‘
حامد نے منھ چڑا کر کہا یہ بے چارے اس رستم ہند کو پکڑ لیں گے؟ اچھا لاؤ ابھی ذرا مقابلہ ہو جائے۔ اس کی صورت دیکھتے ہی بچہ کی ماں مر جائے گی۔ پکڑیں گے کیا بے چارے‘‘
محسن نے تازہ دم ہو کر وار کیا ’’تمہارے دست پناہ کا منھ روز آگ میں جلا کرے گا۔‘‘ حامد کے پاس جواب تیار تھا ’’آگ میں بہادر کودتے ہیں جناب۔ تمہارے یہ وکیل اور سپاہی اور بہشتی ڈرپوک ہیں۔ سب گھر میں گھس جائیں گے۔ آگ میں کودنا وہ کام ہے جو رُستم ہی کر سکتا ہے۔‘‘
نوری نے انتہائی جودت سے کام لیا، ’’تمہارا دست پناہ باورچی خانہ میں زمین پر پڑا رہے گا۔ میرا وکیل شان سے میز کرسی لگا کر بیٹھے گا۔ اس جملہ نے مردوں میں بھی جان ڈال دی، سمیع بھی جیت گیا۔ ’’بے شک بڑے معرکے کی بات کہی، دست پناہ باورچی خانہ میں پڑا رہے گا‘‘
حامد نے دھاندلی کی، میرا دست پناہ باورچی خانہ میں رہے گا، وکیل صاحب کرسی پر بیٹھیں گے تو جا کر انہیں زمین پر پٹک دے گا اور سارا قانون ان کے پیٹ میں ڈال دے گا۔
اس جواب میں بالکل جان نہ تھی، بالکل بے تکی سی بات تھی لیکن قانون پیٹ میں ڈالنے والی بات چھا گئی۔ تینوں سورما منھ تکتے رہ گئے۔ حامد نے میدان جیت لیا، گو ثلاثہ کے پاس ابھی گیند سیٹی اور ربط ریزرو تھے مگر ان مشین گنوں کے سامنے ان بزدلوں کو کون پوچھتا ہے۔ دست پناہ رستمِ ہند ہے۔ اس میں کسی کو چوں چرا کی گنجائش نہیں۔‘‘
فاتح کو مفتوحوں سے وقار اور خوشامد کا خراج ملتا ہے۔ وہ حامد کو ملنے لگا اور سب نے تین تین آنے خرچ کئے اور کوئی کام کی چیز نہ لا سکے۔ حامد نے تین ہی پیسوں میں رنگ جما لیا۔ کھلونوں کا کیا اعتبار۔ دو ایک دن میں ٹوٹ پھوٹ جائیں گے۔ حامد کا دست پناہ تو فاتح رہے گا۔ ہمیشہ صلح کی شرطیں طے ہونے لگیں۔
محسن نے کہا ’’ذرا اپنا چمٹا دو۔ ہم بھی تو دیکھیں۔ تم چاہو تو ہمارا وکیل دیکھ لو حامد! ہمیں اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وہ فیاض طبع فاتح ہے۔ دست پناہ باری باری سے محمود، محسن، نور اور سمیع سب کے ہاتھوں میں گیا اور ان کے کھلونے باری باری حامد کے ہاتھ میں آئے۔ کتنے خوبصورت کھلونے ہیں، معلوم ہوتا ہے بولا ہی چاہتے ہیں۔ مگر ان کھلونوں کے لئے انہیں دعا کون دے گا؟ کون کون ان کھلونوں کو دیکھ کر اتنا خوش ہو گا جتنا اماں جان دست پناہ کو دیکھ کر ہوں گی۔ اسے اپنے طرزِ عمل پر مطلق پچھتاوا نہیں ہے۔ پھر اب دست پناہ تو ہے اور سب کا بادشاہ۔ راستے میں محمود نے ایک پیسے کی ککڑیاں لیں۔ اس میں حامد کو بھی خراج ملا حالانکہ وہ انکار کرتا رہا۔ محسن اور سمیع نے ایک ایک پیسے کے فالسے لئے، حامد کو خراج ملا۔ یہ سب رستم ہند کی برکت تھی۔
گیارہ بجے سارے گاؤں میں چہل پہل ہو گئی۔ میلے والے آ گئے۔ محسن کی چھوٹی بہن نے دوڑ کر بہشتی اس کے ہاتھ سے چھین لیا اور مارے خوشی جو اچھلی تو میاں بہشتی نیچے آ رہے اور عالمِ جاودانی کو سدھارے۔ اس پر بھائی بہن میں مار پیٹ ہوئی۔ دونوں خوب روئے۔ ان کی اماں جان یہ کہرام سن کر اور بگڑیں۔ دونوں کو اوپر سے دو دو چانٹے رسید کئے۔ میاں نوری کے وکیل صاحب کا حشر اس سے بھی بدتر ہوا۔ وکیل زمین پر یا طاق پرتو نہیں بیٹھ سکتا۔ اس کی پوزیشن کا لحاظ تو کرنا ہی ہو گا۔ دیوار میں دو کھونٹیاں گاڑی گئیں۔ ان پر چیڑ کا ایک پرانا پٹرا رکھا گیا۔ پٹرے پر سرخ رنگ کا ایک چیتھڑا بچھا دیا گیا جو بمنزلہ قالین کے تھا۔ وکیل صاحب عالم بالا پہ جلوہ افروز ہوئے۔ یہیں سے قانونی بحث کریں گے۔ نوری ایک پنکھا لے کر جھلنے لگی۔ معلوم نہیں پنکھے کی ہوا سے یا پنکھے کی چوٹ سے وکیل صاحب عالم بالا سے دنیائے فانی میں آ رہے۔ اور ان کی مجسمۂ خاکی کے پرزے ہوئے۔ پھر بڑے زور کا ماتم ہوا اور وکیل صاحب کی میت پارسی دستور کے مطابق کوڑے پر پھینک دی گئی تاکہ بے کار نہ جا کر زاغ و زغن کے کام آ جائے۔
اب رہے میاں محمود کے سپاہی۔ وہ محترم اور ذی رعب ہستی ہے اپنے پیروں چلنے کی ذلت اسے گوارا نہیں۔ محمود نے اپنی بکری کا بچہ پکڑا اور اس پر سپاہی کو سوار کیا۔ محمود کی بہن ایک ہاتھ سے سپاہی کو پکڑے ہوئے تھی اور محمود بکری کے بچہ کا کان پکڑ کر اسے دروازے پر چلا رہا تھا اور اس کے دونوں بھائی سپاہی کی طرف سے ’’تھونے والے داگتے لہو‘‘ پکارتے چلتے تھے۔ معلوم نہیں کیا ہوا، میاں سپاہی اپنے گھوڑے کی پیٹھ سے گر پڑے اور اپنی بندوق لئے زمین پر آ رہے۔ ایک ٹانگ مضروب ہو گئی۔ مگر کوئی مضائقہ نہیں، محمود ہوشیار ڈاکٹر ہے۔ ڈاکٹر نگم اور بھاٹیہ اس کی شاگردی کر سکتے ہیں اور یہ ٹوٹی ٹانگ آناً فاناً میں جوڑ دے گا۔ صرف گولر کا دودھ چاہئے۔ گولر کا دودھ آتا ہے۔ ٹانگ جوڑی جاتی ہے لیکن جوں ہی کھڑا ہوتا ہے، ٹانگ پھر الگ ہو جاتی ہے۔ عملِ جراحی ناکام ہو جاتا ہے۔ تب محمود اس کی دوسری ٹانگ بھی توڑ دیتا ہے۔ اب وہ آرام سے ایک جگہ بیٹھ سکتا ہے۔ ایک ٹانگ سے تو نہ چل سکتا تھا نہ بیٹھ سکتا تھا۔ اب وہ گوشہ میں بیٹھ کر ٹٹی کی آڑ میں شکار کھیلے گا۔
اب میاں حامد کا قصہ سنئے۔ امینہ اس کی آواز سنتے ہی دوڑی اور اسے گود میں اٹھا کر پیار کرنے لگی۔ دفعتاً اس کے ہاتھ میں چمٹا دیکھ کر چونک پڑی۔
’’یہ دست پناہ کہاں تھا بیٹا؟‘‘
’’میں نے مول لیا ہے، تین پیسے میں۔‘‘
امینہ نے چھاتی پیٹ لی۔ ’’یہ کیسا بے سمجھ لڑکا ہے کہ دوپہر ہو گئی۔ نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ لایا کیا یہ دست پناہ۔ سارے میلے میں تجھے اور کوئی چیز نہ ملی۔‘‘
حامد نے خطا وارانہ انداز سے کہا ’’تمہاری انگلیاں توے سے جل جاتی تھیں کہ نہیں؟‘‘
امینہ کا غصہ فوراً شفقت میں تبدیل ہو گیا۔ اور شفقت بھی وہ نہیں جو منہ پر بیان ہوتی ہے اور اپنی ساری تاثیر لفظوں میں منتشر کر دیتی ہے۔ یہ بے زبان شفقت تھی۔ دردِ التجا میں ڈوبی ہوئی۔ اف کتنی نفس کشی ہے۔ کتنی جانسوزی ہے۔ غریب نے اپنے طفلانہ اشتیاق کو روکنے کے لئے کتنا ضبط کیا۔ جب دوسرے لڑکے کھلونے لے رہے ہوں گے، مٹھائیاں کھا رہے ہوں گے، اس کا دل کتنا لہراتا ہو گا۔ اتنا ضبط اس سے ہوا۔ کیونکہ اپنی بوڑھی ماں کی یاد اسے وہاں بھی رہی۔ میرا لال میری کتنی فکر رکھتا ہے۔ اس کے دل میں ایک ایسا جذبہ پیدا ہوا کہ اس کے ہاتھ میں دنیا کی بادشاہت آ جائے اور وہ اسے حامد کے اوپر نثار کر دے۔ اور تب بڑی دلچسپ بات ہوئی۔ بڑھیا امینہ ننھی سی امینہ بن گئی۔ وہ رونے لگی۔ دامن پھیلا کر حامد کو دعائیں دیتی جاتی تھی اور آنکھوں سے آنسو کی بڑی بڑی بوندیں گراتی جاتی تھی۔ حامد اس کا راز کیا سمجھتا اور نہ شاید ہمارے بعض ناظرین ہی سمجھ سکیں گے۔
٭٭٭
دنیا کا سب سے انمول رتن
دلفگار ایک پر خار درخت کے نیچے دامن چاک بیٹھا ہوا خون کے آنسو بہا رہا تھا۔ وہ حسن کی دیوی یعنی ملکہ دلفریب کا سچا اور جانباز عاشق تھا۔ ان عشاق میں نہیں جو عطر پھلیل میں بس کر اور لباس فاخرہ سج کر عاشق کے بھیس میں معشوقیت کا دم بھرتے ہیں، بلکہ ان سیدھے سادے بھولے بھالے فدائیوں میں جو کوہ اور بیاباں میں سر ٹکراتے اور نالہ و فریاد مچاتے پھرتے ہیں۔ دلفریب نے اس سے کہا تھا کہ اگر تو میرا سچا عاشق ہے۔ تو جا۔ اور دنیا کی سب سے بیش بہا شے لے کر میرے دربار میں آ۔ تب میں تجھے اپنی غلامی میں قبول کروں گی۔ اگر تجھے وہ چیز نہ ملے تو خبر دار! ادھر کا رخ نہ کرنا ورنہ دار پر کھینچوا دوں گی۔ دلفگار کو اپنے جذبے کے اظہار کا شکوہ شکایت اور جمال یار کے دیدار کا مطلق موقع نہ دیا گیا۔ دلفریب نے جونہی یہ فیصلہ سنایا۔ اس کے چوبداروں نے غریب دلفگار کو دھکے دے کر باہر نکال دیا۔ اور آج تین دن سے یہ ستم رسیدہ شخص اسی پر خار درخت کے نیچے اسی وحشت ناک میدان میں بیٹھا ہوا سوچ رہا ہے کہ کیا کروں؟ دنیا کی سب سے بیش بہا شے! نا ممکن! اور وہ ہے کیا؟ قارون کا خزانہ؟ آب حیات؟ تاج خسرو؟ جام جم؟ تخت طاؤس؟ زرپرویز؟ نہیں یہ چیزیں ہر گز نہیں دنیا میں ضرور ان سے گراں تر، ان سے بھی بیش بہا چیزیں موجود ہیں۔ مگر وہ کیا ہیں؟ کہاں ہیں؟ کیسے ملیں گی؟ یا خدا میری مشکل کیوں کر آسان ہو گی۔
دلفگار انہیں خیالات میں چکر کھا رہا تھا اور عقل کچھ کام نہ کرتی تھی منیر شامی کو حاتم سا مددگار مل گیا۔ اے کاش کوئی میرا بھی مدد گار ہو جاتا۔ اے کاش مجھے بھی اس چیز کا جو دنیا کی سب سے بیش بہا ہے، نام بتلا دیا جاتا۔ بلا سے وہ شے دستیاب نہ ہوتی مگر مجھے اتنا معلوم ہو جاتا کہ وہ کس قسم کی چیز ہے۔ میں گھڑے برابر موتی کی کھوج میں جا سکتا ہوں۔ میں سمندر کا نغمہ، پتھر کا دل، قضا کی آواز، اور ان سے بھی زیادہ بے نشان چیزوں کی تلاش میں کمر ہمت باندھ سکتا ہوں۔ مگر دنیا کی سب سے بیش بہا شے یہ میرے پر پرواز سے بالا تر ہے۔
آسمان پر تارے نکل آئے تھے۔ دلفگار یکا یک خدا کا نام لے کر اٹھا اور ایک طرف کو چل کھڑا ہوا۔ بھوکا پیاسا، برہنہ تن خستہ و زار وہ برسوں ویرانوں اور آبادیوں کی خاک چھانتا پھرا۔ تلوے کانٹوں سے چھلنی ہو گئے۔ جسم میں تار سطر کی طرح ہڈیاں ہی ہڈیاں نظر آنے لگیں۔ مگر وہ چیز جو دنیا کی سب سے بیش بہا شے تھی۔ میسر نہ ہوئی۔ اور نہ اس کا کچھ نشان ملا۔
ایک روز بھولتا بھٹکتا ایک میدان میں نکلا۔ جہاں ہزاروں آدمی حلقہ باندھے کھڑے تھے۔ بیچ میں عمامے اور عبا والے ریشائیل قاضی شان تحکم سے بیٹھے ہوئے باہم کچھ غرفش کر رہے تھے اور اس جماعت سے ذرا دور پر ایک سولی کھڑی تھی۔ دلفگار کچھ ناتوانی کے غلبے سے۔ اور کچھ یہاں کی کیفیت دیکھنے کے ارادے سے ٹھٹک گیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ کئی برقندار ایک دست و پا بزنجیر قیدی کے لئے چلے آ رہے ہیں۔ سولی کے قریب پہونچ کر سب سپاہی رک گئے۔ اور قیدی کی ہتھکڑیاں بیڑیاں سب اتار لی گئیں۔ اس بد قسمت شخص کا دامن صد ہا بے گناہوں کے خون کے چھینٹوں سے رنگین ہو رہا تھا۔ اور اس کا دل نیکی کے خیال اور رحم کی آواز سے مطلق مانوس نہ تھا۔ اسے کالا چور کہتے تھے۔ سپاہیوں نے اسے سولی کے تختے پر کھڑا کر دیا۔ موت کی پھانسی اس کی گردن میں ڈال دی۔ اور جلادوں نے تختہ کھینچنے کا ارادہ کیا۔ کہ بد قسمت مجرم چیخ کر بولا ’’للہ مجھے ایک دم کے لیے پھانسی سے اتار دو۔ تاکہ اپنے دل کی آخری آرزو نکال لوں۔‘‘ یہ سنتے ہی چاروں طرف سناٹا چھا گیا۔ لوگ حیرت میں آ کر تاکنے لگے۔ قاضیوں نے ایک مرنے والے شخص کی آخری استدعا کو رد کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اور بدنصیب سیہ کار کالا چور ذرا دیر کے لیے پھانسی سے اتار لیا گیا۔
اس مجمع میں ایک خوبصورت بھولا بھالا لڑکا ایک چھڑی پر سوار ہو کر اپنے پیروں پر اچھل اچھل کر فرضی گھوڑا دوڑا رہا تھا۔ اور اپنے عالم سادگی میں مگن تھا گویا وہ اس وقت واقعی کسی عربی رہوار کا شہسوار ہے۔ اس کا چہرہ اس سچی مسرت سے کنول کی طرح کھلا ہوا تھا جو چند دنوں کے لیے بچپن ہی میں حاصل ہوتی ہے۔ اور جس کی یاد ہم کو مرتے دم نہیں بھولتی۔ اس کا سینہ ابھی تک معصیت کے گردو غبار سے بے لوث تھا۔ اور معصومیت اسے اپنی گود میں کھلا رہی تھی۔
بدقسمت کالا چور پھانسی سے اترا۔ ہزاروں آنکھیں اسی پر گڑی ہوئی تھیں۔ وہ اس لڑکے کے پاس آیا اور اسے گود میں اٹھا کر پیار کرنے لگا۔ اسے اس وقت وہ زمانہ یادآیا جب وہ خود ایسا ہی بھولا بھالا ایسا ہی خوش و خرم اور آلائشات دنیوی سے ایسا ہی پاک و صاف تھا۔ ماں گود یوں میں کھلاتی تھی۔ باپ بلائیں لیتا تھا اور سارا کنبہ جانیں و ارا کرتا تھا۔ آہ! کالے چور کے دل پر اس وقت ایام گزشتہ کی یاد کا اتنا اثر ہوا کہ اس کی آنکھوں سے جنھوں نے نیم بسمل لا شوں کو تڑپتے دیکھا۔ اور نہ جھپکی تھیں۔ آنسو کا ایک قطرہ ٹپک پڑا۔ دلفگار نے لپک کر اس درّ یکتا کو ہاتھ میں لے لیا۔ اور اس کے دل نے کہا بیشک یہ شے دنیا کی سب سے انمول چیز ہے جس پر تخت طاؤس اور جام جم اور آب حیات اور زر پرویز سب تصدق ہیں۔
اسی خیال سے خوش ہوتا، کامیابی کی امید سے سرمست، دلفگار اپنی معشوقہ دلفریب کے شہر مینو سواد کو چلا۔ مگر جوں منزلیں طے ہوتی جاتی تھیں۔ اس کا دل بیٹھا جاتا تھا۔ کہ کہیں اس چیز کی جسے میں دنیا کی سب سے بیش بہا چیز سمجھتا ہوں، دلفریب کی نگاہوں میں قدر نہ ہوئی تو میں دار پر کھینچ دیا جاؤں گا۔ اور اس دنیاسے نامراد جاؤں گا پر ہر چہ بادا باد۔ اب تو قسمت آزمائی ہے۔ آخر کوہ و دریا طے کرتے شہر مینوسواد میں آ پہونچا۔ اور دلفریب کے در دولت پر جا کر التماس کی کہ خستہ و زار دلفگار بفضل خدا تعمیل ارشاد کر کے آیا ہے اور شرف قدم بوسی چاہتا ہے۔ دلفریب نے فی الفور حضور میں بلا بھیجا۔ اور ایک زر نگار پر دہ کی اوٹ سے فرمائش کی کہ وہ ہدیہ بیش بہا بیش کرو۔ دلفگار نے ایک عجب امید بیم کے عالم میں وہ قطرہ پیش کیا اور اس کی ساری کیفیت نہایت ہی موثر لہجے میں بیان کی۔ دلفریب نے کل روداد بغور سنی۔ اور تحفہ ہاتھ میں لے کر ذرا دیر تک غور کر کے بولی۔ ’’دلفگار بیشک تو نے دنیا کی ایک پیش قیمت چیز ڈھونڈ نکالی۔ تیری ہمت کو آفریں اور تیری فراست کو مرحبا! مگر یہ دنیا کی سب سے بیش قیمت چیز نہیں۔ اس لیے تو یہاں سے جا اور پھر کوشش کر۔ شاید اب کی تیرے ہاتھ در مقدور لگے اور تیری قسمت میں میری غلامی لکھی ہو۔ اپنے عہد کے مطابق میں تجھے دار پر کھینچوا سکتی ہوں۔ مگر میں تیری جان بخشی کرتی ہوں۔ اس لیے کہ تجھ میں وہ اوصاف موجود ہیں جو میں اپنے عاشق میں دیکھنا چاہتی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ تو ضرور کبھی سرخ رو ہو گا۔ ناکام و نامراد دلفگار اس عنایت معشوقانہ سے ذرا دلیر ہو کر بولا۔ ’’اے محبوب دلنشیں بعد مدتہائے دراز کے تیرے آستاں کی جبہ رسائی نصیب ہوئی ہے۔ پھر خدا جانے ایسے دن کب آئیں گے۔ کیا تو اپنے عاشق جانباز کے حال زار پر ترس نہ کھائے گی اور اپنے جمال جہاں آرا کا جلوہ دکھا کر اس سوختہ تن دلفگار کو آنے والی سختیوں کے چھیلنے کے لیے مستعد نہ بنائے گی۔ تیری ایک نگاہ مست کے نشہ سے بیخود ہو کر میں وہ کر سکتا ہوں جو آج تک کسی سے نہ ہوا ہو۔ دلفریب عاشق کے یہ اشتیاق آمیز کلمات کو سن کر برافروختہ ہو گی اور حکم دیا کہ اس دیوانے کو کھڑے کھڑے دربار سے نکال دو۔ چوبدار نے فوراً غریب دلفگار کو دھکے دے کر کوچۂ یار سے باہر نکال دیا۔
کچھ دیر تک تو دلفگار معشوقانہ ستم کیش کی اس تند خوئی پرآنسو بہاتا رہا۔ بعد ازاں سوچنے لگا کہ اب کہاں جاؤں۔ مدتوں کی رہ نوردی و بادیہ پیمائی کے بعد یہ قطرۂ اشک ملا تھا۔ اب ایسی کون سی چیز ہے جس کی قیمت اس در آبدار سے زائد ہو۔ حضرت خضر! تم نے سکندر کو جاہ و ظلمات کا راستہ دکھایا تھا۔ کیا میری دست گیری نہ کرو گے؟ سکندر شاہ ہفت کشور تھا۔ میں تو ایک خانماں برباد مسافرہوں۔ تم نے کتنی ہی ڈوبتی کشتیاں کنارے لگائی ہیں۔ مجھ غریب کا بیڑا بھی پار کرو۔ اے جبرئیل عالی مقام! کچھ تمہیں اس عاشق نیم جان و اسیر رنج و محن پرترس کھاؤ۔ تم مقربان بارگاہ سے ہو۔ کیا میری مشکل آسان نہ کرو گے؟ الغرض دلفگار بیزار نے بہت فریاد مچائی۔ مگر کوئی اس کی دستگیر کے لیے نمودار نہ ہوا۔ آخر مایوس ہو کر وہ مجنوں صفت دوبارہ ایک طرف کو چل کھڑا ہوا۔
دلفگار نے پورب سے پچھم تک اور اترسے دکھن تک کتنے ہی دیاروں کی خاک چھانی۔ کبھی بر فشانی چوٹیوں پرسویا۔ کبھی ہولناک وادیوں میں بھٹکتا پھرا۔ مگر جس چیز کی دھن تھی وہ نہ ملی۔ یہاں تک کہ اس کا جسم ایک تودۂ استخواں ہو گیا۔
ایک روز وہ شام کے وقت کسی دریا کے کنارے خستہ حال پڑا تھا۔ نشہ بے خودی سے چونکا، دیکھتا ہے کہ صندل کی چتا بنی ہوئی ہے اور اس پر ایک نازنین شہا نے جوڑے پہنے، سولہوں سنگار کئے بیٹھی ہوئی ہے۔ اس کے زانو پر اس کے پیارے شوہر کی لاش ہے۔ ہزاروں آدمی حلقہ باندھے کھڑے ہیں۔ اور پھولوں کی برکھا کر رہے ہیں۔ یکا یک چتا میں سے خود بخود ایک شعلہ اٹھا۔ ستی کا چہرہ اس وقت ایک پاک جذبے سے منور ہو رہا تھا۔ مبارک شعلے اس کے گلے لپٹ گئے۔ اور دم زدن میں وہ پھول سا جسم تودۂ خاکستر ہو گیا۔ معشوق نے اپنے تئیں عاشق پر نثار کر دیا۔ اور دو فدائیوں کی سچی، لافانی اور پاک محبت کا آخری جلوہ نگاہ ظاہر سے پنہاں ہو گیا۔ جب سب لوگ اپنے گھروں کو لوٹے تو دلفگار چپکے سے اٹھا اور اپنے گریبان چاک دامن میں یہ تودۂ خاک سمیٹ لیا۔ اور اس مشت خاک دنیا کی سب سے گراں بہا چیز سمجھتا ہوا کامرانی کے نشہ میں مخمور کوچۂ یار کی طرف چلا۔ اب کی جوں جوں وہ منزل مقصود کے قریب آتا تھا، اس کی ہمتیں بڑھتی جاتی تھیں۔ کوئی اس کے دل میں بیٹھا ہوا کہہ رہا تھا اب کی تری فتح ہے اور اس خیال نے اس کے دل کو جو خواب دکھائے۔ اس کا ذکر فضول ہے۔ آخر وہ شہر مینوسواد میں داخل ہوا۔ اور دلفریب کے آستان رفعت نشان پرجا کر خبر دی کہ دلفگار سرخرو اور با وقار لوٹا ہے اور حضوری میں بار یاب ہوا چاہتا ہے۔ دلفریب کے عاشق جانباز کو فوراً دربار میں بلایا اور اس چیز کے لیے جو دنیا کی سب سے بیش بہا جنس تھی، ہاتھ پھیلا دیا۔ دلفگار نے جرأت کر کے اس ساعد سیمیں کا بوسہ لے لیا اور وہ مشت خاک اس میں رکھ کر وہ ساری کیفیت نہایت دلسوز انداز میں کہہ سنائی اور معشوقہ دلپذیر کے نازک لبوں سے اپنی قسمت کا مبارک اور جانفزا فیصلہ سننے کے لیے منتظر ہو بیٹھا۔ دلفریب نے اس مشت خاک کو آنکھوں سے لگا لیا اور کچھ دیر تک دریائے تفکر میں غرق رہنے کے بعد بولی۔ ’’اے عاشق جاں نثار دلفگار! بیشک یہ خاک کیمیائے صفت جو تو لایا ہے دنیا کی نہایت بیش قیمت چیز ہے۔ اور میں تیری صدق دل سے ممنون ہوں کہ تو نے ایسا بیش بہا تحفہ مجھے پیش کش کیا۔ مگر دنیا میں اس سے بھی زیادہ گراں قدر کوئی چیز ہے۔ جا اسے تلاش کر اور تب میرے پاس آ۔ میں تہہ دل سے دعا کرتی ہوں کہ خدا تجھے کامیاب کرے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پردۂ زر نگار سے باہر آئی۔ اور معشوقانہ ادا سے اپنے جمال جاں سوز کا نظارہ دکھا کر پھر نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ ایک برق تھی کہ کوندی اور اور پھر پردۂ ابر میں چھپ گئی۔ ابھی دلفگار کے حواس بجا نہ ہونے پائے تھے کہ چوبدار نے ملائمت سے اس کا ہاتھ پکڑ کر کوچۂ یار سے نکال دیا۔ اور پھر تیسری بار وہ بندۂ محبت۔ وہ زاویہ نشین گنج ناکامئ یاس کے اتھاہ سمندر میں غوطہ کھانے لگا۔
دلفگار کا ہباؤ چھوٹ گیا۔ اسے یقین ہو گیا کہ میں دنیا میں ناشاد و نامراد مر جانے کے لیے پیدا کیا گیا تھا اور اب بجز اس کے کوئی چارہ نہیں کہ کسی پہاڑ پر چڑھ کر اپنے تئیں گرا دوں۔ تاکہ معشوق کی جفا کاریوں کی لیے ایک ریزہ استخواں بھی باقی نہ رہے۔ وہ دیوانہ وار اٹھا اور افشاں و خیزاں ایک سر بفلک کوہ کی چوٹی پر جا پہنچا۔ کسی اور وقت وہ اتنے اونچے پہاڑ پر چڑھنے کی جرأت نہ کر سکتا تھا مگر اس وقت جان دینے کے جوش میں اسے وہ پہاڑ ایک معمولی ٹیکرے سے زیادہ اونچا نہ نظر آیا۔ قریب تھا کہ وہ نیچے کود پڑے کہ ایک سبز پوش پسر مرد سبز عمامہ باندھے ایک ہاتھ میں تسبیح اور دوسرے ہاتھ میں عصا لیے برآمد ہوئے۔ اور ہمت افزا لہجے میں بولے۔ ’’دلفگار! نادان دلفگار! یہ کیا بزدلانہ حرکت ہے؟ استقلال راہ عشق کی پہلی منزل ہے۔ با ایں ہمہ ادعائے عاشقی تجھے اتنی بھی خبر نہیں۔ مرد بن اور یوں ہمت نہ ہار۔ مشرق کی طرف ایک ملک ہے جس کا نام ہندوستان ہے۔ وہاں جا اور تیری آرزو پوری ہو گی۔‘‘ یہ کہہ کر حضرت غائب ہو گئے۔ دلفگار نے شکریہ کی نماز ادا کی۔ اور تازہ حوصلے، تازہ جوش، اور غیبی امداد کا سہارا پا کر خوش خوش پہاڑ سے اترا اور جانب ہند مراجعت کی۔
مدتوں تک پر خار جنگلوں، شرر بار ریگستانوں، دشوار گزار وادیوں اور ناقابل عبور پہاڑوں کو طے کرنے کے بعد دلفگار ہند کی پاک سرزمین میں داخل ہوا۔ اور ایک خوشگوار چشمہ میں سفر کی کلفتیں دھوکر غلبۂ ماندگی سے لب جوئبار لپٹ گیا۔ شام ہوتے وہ ایک کف دست میدان میں پہونچا جہاں بیشمار نیم کشتہ اور بے جان لاشیں بے گور و گفن پڑی ہوئی تھیں۔ زاغ و زغن اور وحشی درندوں کی گرم بازاری تھی۔ اور سارا میدان خون سے شنگرف ہو رہا تھا۔ یہ ہیبت ناک نظارہ دیکھتے ہی دلفگار کا جی دہل گیا۔ خدایا! کس عذاب میں جان پھنسی۔ مرنے والوں کا کراہنا سسکنا اور ایڑیاں رگڑ کر جان دینا۔ درندوں کا ہڈیوں کو نوچنا اور گوشت کے لوتھڑوں کے لے کر بھاگنا۔ ایسا ہولناک سین دلفگار نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ یکا یک اسے خیال آیا۔ میدان کارزار ہے اور یہ لاشیں سو رما سپائیوں کی ہیں۔ اتنے میں قریب سے کراہنے کی آواز آئی۔ دلفگار اس طرف پھرا تو دیکھا کہ ایک قومی ہیکل شخص، جس کا مردانہ چہرہ ضعف جان کندنی سے زرد ہو گیا ہے۔ زمین پر سرنگوں پڑا ہا ہے۔ سینے سے خون کا فوارہ جاری ہے۔ مگر شمشیر آبدار کا قبضہ پنجے سے الگ نہیں ہوا۔ دلفگار نے ایک چیتھڑا لے کر دہان زخم پر رکھ دیا تاکہ خون رک جائے اور بولا۔ ’’اے جوان مرد تو کون ہے؟‘‘ جوان مرد نے یہ سن کر آنکھیں کھولیں اور دلیرانہ لہجہ میں بولا۔ ’’کیا تو نہیں جانتا کہ میں کون ہوں۔ کیا تو نے آج اس تلوار کی کاٹ نہیں دیکھی؟ میں اپنی ماں کا بیٹا اور بھارت کا لخت جگر ہوں۔‘‘ یہ کہتے کہتے اس کے تیوروں پر بل پڑ گئے۔ زرد چہرہ خشمگیں ہو گیا اور شمشیر آبدار پھر اپنا جوہر دکھانے کے لیے چمک اٹھی۔ دلفگار سمجھ گیا کہ یہ اس وقت مجھے دشمن خیال کر رہا ہے۔ ملائمت سے بولا۔ ’’اے جوان مرد! میں تیرا دشمن نہیں ہوں۔ ایک آوارہ وطن غربت زدہ مسافر ہوں۔ ادھر بھولتا بھٹکتا آ نکلا۔ براہ کرم مجھ سے یہاں کی مفصل کیفیت بیان کر۔‘‘ یہ سنتے ہی زخمی سپاہی نہایت شیریں لہجہ میں بولا۔ ’’اگر تو مسافر ہے تو آ اور میرے خون سے تر پہلو میں بیٹھ جا کیوں کہ یہی دو انگل زمین ہے جو میرے پاس باقی رہ گئی ہے اور جو سوائے موت کے کوئی نہیں چھین سکتا۔ افسوس ہے کہ تو یہاں ایسے وقت میں آیا۔ جب ہم تیری مہمان نوازی کرنے کے قابل نہیں۔ ہمارے باپ دادا کا دیس آج ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ اور اس وقت ہم بے وطن ہیں۔ مگر (پہلو بدل) ہم نے حملہ آور غنیم کو بتا دیا کہ راجپوت اپنے دیس کے لیے کیسی بے جگری سے جان دیتا ہے۔ یہ آس پاس جو لاشیں تو دیکھ رہا ہے۔ یہ ان لوگوں کی ہیں جو اس تلوار کے گھاٹ اترے ہیں (مسکرا کر) اور گو کہ میں بے وطن ہوں۔ مگر غنیمت ہے کہ حریف کے حلقہ میں مر رہا ہوں۔ (سینے کے زخم سے چیتھڑا نکال کر) کیا تو نے یہ مرہم رکھ دیا۔ خون نکلنے دے۔ اسے روکنے سے کیا فائدہ؟ کیا میں اپنے ہی وطن میں غلامی کرنے کے لیے زندہ ہوں؟ نہیں ایسی زندگی سے مرنا اچھا۔ اس سے بہتر موت ممکن نہیں۔
جوان مرد کی آواز مدھم ہو گئی۔ اعضا ڈھیلے ہو گئے۔ خون اس کثرت سے بہا کہ اب خود بخود بند ہو گیا۔ رہ رہ کر ایک آدھ قطرہ ٹپک پڑتا تھا۔ آخر کار سارا جسم بیدم ہو گیا۔ قلب کی حرکت بند ہو گئی۔ اور آنکھیں مند گئیں۔ دلفگار نے سمجھا اب کام تمام ہو گیا کہ مرنے والے نے آہستہ سے کہا۔ ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ اور اس کے سینہ سے آخری قطرہ خون نکل پڑا۔ ایک سچے محب وطن اور دیس بھگت نے حب الوطنی کا حق ادا کر دیا۔ دلفگار اس نظارہ سے بیحد متاثر ہوا۔ اور اس کے دل نے کہا بیشک دنیا میں اس قطرہ خون سے بیش قیمت شے نہیں ہو سکتی۔ اس نے فوراً اس رشک لعل رمّانی کو ہاتھ میں لے لیا۔ اور اس دلیر راجپوت کی بسالت پر عش عش کرتا ہوا عازم وطن ہوا۔ اور وہی سختیاں جھیلتا ہوا بالآخر ایک مدت دراز میں ملکہ اقلیم خوبی اور در صدف محبوبی کے در دولت پر جا پہونچا۔ اور پیغام دیا کہ دلفگار سرخرو و کامگار لوٹا ہے اور دربار گہر بار میں حاضر ہونا چاہتا ہے۔ دلفریب نے اسے فوراً حاضر ہونے کا حکم دیا۔ خود حسب معمولی پردۂ زرنگار کے پس پشت بیٹھی اور بولی۔ ’’دلفگار! اب کی تو بہت دنوں کے بعد واپس آیا ہے۔ لا دنیا کی سب سے بیش قیمت چیز کہاں ہے؟ دلفگار نے پنجۂ حنائی کا بوسہ لے کر وہ قطرۂ خون اس پر رکھ دیا۔ اور اس کی مشرح کیفیت پر جوش لہجے میں کہہ سنائی۔ وہ خاموش بھی نہ ہونے پایا تھا کہ یکا یک وہ پردۂ زرنگار ہٹ گیا اور دلفگار کے رو برو ایک دربار حسن آراستہ نظر آیا۔ جس میں ایک نانین رشک زلیخا تھی، دلفریب بصد شان رعنائی مسند زریں کار پر جلوہ افروز تھی۔ دلفگار یہ طلسم حسن دیکھ کر متحیر ہو گیا۔ اور نقش دیوار کی طرح سکتے میں آ گیا۔ کہ دلفریب مسند سے اٹھی اور کئی قدم آگے بڑھ کر اس کے ہم آغوش ہو گئی۔ رقاصان دلنواز نے شادیانے گانے شروع کئے۔ حاشیہ نشینانِ دربار نے دلفگار کو نذریں گزاریں۔ اور ماہ و خورشید کو بہ عزت تمام مسند پر بیٹھا دیا۔ جب نغمۂ دل پسند بند ہوا تو دلفریب کھڑی ہو گئی۔ اور دست بستہ ہو کر دلفگار سے بولی۔ ’’اے عاشق جان نثار دلفگار! میری دعائیں تیر بہدف ہوئیں اور خدا نے میری سن لی اور تجھے کامیاب و سرخ رو کیا۔ آج سے تو میرا آقا ہے اور میں تیری کنیز ناچیز‘‘۔
یہ کہہ کر اس نے ایک مرصع صندوقچہ منگایا اور اس میں سے ایک لوح نکالا جس پر آب زر سے لکھا ہوا تھا۔
’’وہ آخری قطرۂ خون جو وطن کی حفاظت میں گرے، دنیا کی سب سے بیش قیمت شے ہے۔‘‘
٭٭٭
دودھ کی قیمت
اب بڑے بڑے شہروں میں دائیاں اور نرسیں بھی نظر آتی ہیں لیکن دیہاتوں میں ابھی تک زچّہ خانہ روش قدیم کی طرح بھنگنوں کے ہی دائرہ اقتدار میں ہے اور ایک عرصہ دراز تک اس میں اصلاح کی کوئی امید نہیں۔ بابو مہیش ناتھ اپنے گاؤں کے زمیندار ضرور تھے تعلیم یافتہ بھی تھے۔ زچّہ خانہ کی اصلاح کی ضرورت کو بھی تسلیم کرتے تھے۔ لیکن عملی مشکلات کو کیا کرتے۔ دیہات میں جانے کو کوئی نرس راضی بھی ہوئی تو ایسا معاوضہ طلب کیا کہ بابو صاحب کو سر جھکا کر چلے آنے کے سوا کوئی تدبیر نہ سوجھی۔ لیڈی ڈاکٹر کے پاس جانے کی ہمت ہی کیونکر ہو سکتی ان کا حقِ الخدمت تو غالباً بابو صاحب کی نصف ملکیت بیع ہونے پر بھی پورا ہوتا۔ آخر جب تین لڑکیوں کے بعد یہ چو تھا لڑکا پیدا ہوا تو پھر وہی گوڈر کی بہو۔ بچّے بیشتر رات ہی کو پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ آدھی رات کو بابو صاحب کے چپراسی نے گوڈر گوڈر کی ہانک لگائی۔ چماروں کی ٹولی جاگ اٹھی۔
گوڈر کے گھر میں اس روزِسعید کی مہینوں سے تیاری تھی خدشہ تھا تو یہی کہ کہیں بیٹی نہ ہو جائے۔ نہیں تو پھر وہ ہی بندھا ہوا روپیہ اور وہی ایک ساڑھی مل کر رہ جائے گی۔ اس مسئلہ پر میاں بیوی میں بار بار تبادلہ خیالات ہو چکا تھا۔ شرطیں لگ چکی تھیں۔ گوڈر کی بہو کہتی تھی کہ اگر اب کے بیٹا نہ ہوا تو منہ نہ دکھاؤں۔ ہاں ہاں۔ منہ نہ دکھاؤں اور گوڈر کہتا تھا کہ دیکھو بیٹی ہو گی اور بیچ کھیت بیٹی ہو گی۔ بیٹا پیدا ہوا تو مونچھیں منڈوا لوں گا۔ شاید گوڈر سمجھتا تھا کہ اس طرح بھنگن میں مخالفانہ جوش پیدا کر کے وہ بیٹے کی آمد کے لیے راستہ تیار کر رہا ہے۔
بھنگن بولی۔ اب منڈوا لے مونچھیں ڈاڑھی جا۔ کہتی تھی بیٹا ہو گا پر سنتے ہی نہیں اپنی رٹ لگائے۔ کھد تیری مونچھیں مونڈوں گی۔ کھونٹی تو رکھوں نہیں۔
گوڈر نے کہا۔ ’’اچھا مونڈ لینا بھلی مانس۔ مونچھیں کیا پھر نکلیں گی ہی نہیں۔ تیسرے دن پھر دیکھو گی جوں کی توں ہیں۔ مگر جو کچھ ملے گا اس میں آدھا۔ رکھ لوں گا۔ کہے دیتا ہوں۔‘‘
بھنگن نے انگوٹھا دکھایا اور اپنے تین مہینے کے بچّے کو گوڈر کے سپرد کر، سپاہی کے ساتھ چل دی۔
گوڈر نے پکارا۔ ’’اری سن تو کہاں بھاگی جاتی ہے مجھے بھی تو روشن چوکی بجانے جانا پڑے گا۔
بھنگن نے دورسے ہی کہا۔ ’’تو کون بڑی مشکل ہے وہیں دھرتی پر لٹا دینا اور روشن چوکی بجانا۔ میں آ کر دودھ پلا دیا کروں گی۔‘‘
مہیش ناتھ کے یہاں اب کے بھنگن کی خوب خاطر کی گئی۔ صبح کو حریرہ ملتا۔ دوپہر کو پوریاں اور حلوا۔ تیسرے پہر کو پھر اور رات کو پھر۔ اور گوڈر کو بھی بھر پور پروسا ملتا تھا۔ بھنگن اپنے بچّے کو دن بھر میں دو بار سے زیادہ دودھ نہ پلا سکتی۔ اس کے لیے اوپر کا دودھ مہیا کر دیا جاتا۔ بھنگن کا دودھ بابو صاحب کا بچّہ پیتا تھا اور یہ سلسلہ بارھویں دن بھی بند نہ ہوا۔ مالکن موٹی تازی عورت تھی مگر اب کی کچھ ایسا اتفاق کہ دودھ ہی نہیں۔ تینوں لڑکیوں کی بار اتنے افراط سے دودھ ہوتا تھا کہ لڑکیوں کو بدہضمی ہو جاتی تھی۔ اب کی ایک بوند نہیں بھنگن جنائی بھی تھی اور دودھ پلائی بھی۔
مالکن نے کہا۔ ’’بھنگن ہمارے بچّے کو پال دے پھر جب تک جیے بیٹھی کھاتی رہنا۔ پانچ بیگھے معافی دلوا دوں گی۔ تیرے پوتے تک کھائیں گے۔‘‘
اور بھنگن کالاڈلا اوپر کا دودھ ہضم نہ کر سکنے کے باعث بار بار قے کرتا اور روز بروز لاغر ہوتا جاتا تھا۔ بھنگن کہتی ’’اور مونڈن میں جوڑے لوں گی بہو جی کہے دیتی ہوں۔‘‘
بہو جی۔ ہاں ہاں جوڑے لینا بھائی۔ دھمکاتی کیوں ہے۔ چاندی کے لے گی یا سونے کے۔
’’واہ بہو جی واہ۔ چاندی کے جوڑے پہن کے کسے منہ دکھاؤں گی۔‘‘
’’اچھا سونے کے لینا بھئی کہتی تو ہوں۔‘‘
’’اور بیاہ میں کنٹھا لوں گی اور چودھری (گوڈر) کے لیے ہاتھوں کے توڑے۔‘‘
بہو جی۔ وہ بھی لینا۔ وہ دن تو بھگوان دکھائیں۔
گھر میں مالکن کے بعد بھنگن کی حکومت تھی۔ مہریاں، مہر راجن، مزدورنیں سب اس کا رعب مانتی تھیں۔ یہاں تک کہ خود بہو جی اس سے دب جاتی تھی۔ ایک بار تو اس نے مہیش ناتھ کو بھی ڈانٹا تھا۔ ہنس کر ٹال گئے۔ بات چلی تھی بھنگیوں کی۔ مہیش ناتھ نے کہا تھا دنیا میں اور چاہے کچھ ہو جائے بھنگی بھنگی رہیں گے انھیں آدمی بنانا مشکل ہے۔‘‘
اس پر بھنگن نے کہا تھا۔ ’’مالک بھنگی تو بڑے بڑوں کو آدمی بناتے ہیں۔ انھیں کیا کوئی آدمی بنائے گا۔
یہ گستاخی کر کے کسی دوسرے موقع پر بھلا بھنگن سلامت رہتی۔ سر کے بال اکھاڑ لیے جاتے لیکن آج بابو صاحب ہنسے اور قہقہہ مار کر بولے۔
’’بھنگن بات بڑے پتے کی کہتی ہے۔‘‘
بھنگن کی حکومت سال بھر تک قائم رہی۔ پھر چھن گئی۔ بچّے کا دودھ چھڑا دیا گیا۔ اب برہمنوں نے بھنگی کا دودھ پینے پر اعتراض کیا۔ موٹے رام شاستری تو پرائشچت کی تجویز کر بیٹھے۔ لیکن مہیش ناتھ احمق نہ تھے۔ پھٹکار پلائی۔ پرائشچت کی خوب کہی آپ نے شاستری جی۔ کل تک اسی بھنگن کا خون پی کر پلا۔ اب پرائشچت کرنا چاہیے واہ۔‘‘
شاستری جی بولے ’’بے شک کل تک بھنگن کا خون پی کر پلا۔ گوشت کھا کر پلا۔ یہ بھی کہہ سکتے ہو۔ لیکن کل کی بات کل تھی آج کی بات آج ہے۔ جگن ناتھ پور میں چھوت اچھوت سب ایک ساتھ کھاتے ہیں۔ مگر یہاں تو نہیں کھا سکتے۔ کھچڑی تک کھالیتے ہیں۔ بابو جی اور کیا کہیں۔ پوری تک نہیں رہ جاتے۔ لیکن اچھے ہو جانے پر تو نہیں کھا سکتے۔‘‘
’’تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دھرم بدلتا رہتا ہے کبھی کچھ کبھی کچھ۔‘‘
’’اور کیا! راجہ کا دھرم الگ، پرجا کا دھرم الگ، امیر کا دھرم الگ، غریب کا دھرم الگ۔ راجہ مہاراجے جو چاہیں کھائیں۔ جس کے ساتھ چاہیں کھائیں جس کے ساتھ چاہیں شادی بیاہ کریں۔ ان کے لیے کوئی قید نہیں۔ راجہ ہیں مگر ہمارے اور تمہارے لیے تو قدم قدم پر بندشیں ہیں۔ اس کا دھرم ہے۔ پرائشچت تو نہ ہوا۔ لیکن بھنگن سے اس کی سلطنت چھین لی گئی۔ برتن، کپڑے اناج اتنی کثرت سے ملے کہ وہ اکیلی نہ لے جا سکی اور سونے کے جوڑے بھی ملے۔ اور ایک دو نئی خوبصورت ساڑھیاں۔ معمولی نین سکھ کی نہیں جیسی لڑکیوں کی بار ملی تھیں۔
اسی سال چیچک کا زور ہوا۔ گوڈر پہلے ہی زد میں آ گیا۔ بھنگن اکیلی ہی رہ گئی۔ مگر کام جوں کا توں چلتا رہا۔ بھنگن کے لیے گوڈر اتنا ضروری نہ تھا جتنا گوڈر کے لیے بھنگن۔ لوگ منتظر تھے کہ بھنگن اب گئی اب گئی۔ فلاں بھنگی سے بات چیت ہوئی۔ فلاں چودھری آئے لیکن بھنگن کہیں نہ گئی۔ یہاں تک کہ پانچ سال گذر گئے اور منگل دبلا کمزور اور دائم المرض رہنے پربھی دوڑنے لگا۔ ماں کا دودھ نصیب ہی نہ ہوا۔ دائم المرض کیوں نہ ہوتا۔
ایک دن بھنگن مہیش ناتھ کے مکان کا پرنالہ صاف کر رہی تھی۔ مہینوں سے غلاظت جمع ہو گئی تھی۔ آنگن میں پانی بھرا رہنے لگا تھا۔ پرنالے میں ایک لمبا بانس ڈال کر زور سے ہلا رہی تھی۔ پورا داہنا ہاتھ پرنالے کے اندر تھا کہ یکایک اس نے چلّا کر ہاتھ باہر نکال لیا اور اسی وقت ایک لمبا سا کالا سانپ پرنالے سے نکل کر بھاگا۔ لوگوں نے دوڑ کر اسے تو مار ڈالا۔ لیکن بھنگن کو نہ بچا سکے۔ خیال تھا کہ پانی کا سانپ ہے۔ زیادہ زہریلا نہ ہو گا۔ اس لیے پہلے کچھ غفلت کی گئی۔ جب زہر جسم میں پیوست ہوا اور لہریں آ نے لگیں۔ تب پتہ چلا کہ پانی کا سانپ نہیں کالا سانپ تھا۔
منگل اب یتیم تھا۔ دن بھر مہیش بابو کے دروازے پر منڈلایا کرتا گھر میں اتنا جوٹھا بچتا تھا کہ ایسے ایسے دس پانچ بچّے سیر ہو سکتے تھے۔ منگل کو کوئی تکلیف نہ تھی ہاں دور ہی سے اسے مٹی کے ایک سکورے میں کھانا ڈال دیا جاتا اور گاؤں کے لڑکے اس سے دور دور رہتے تھے۔ یہ بات اسے اچھی نہ لگتی تھی سب لوگ اچھے اچھے برتنوں میں کھاتے ہیں اس کے لیے مٹی کے سکورے۔ یوں اسے اس تفریق کا مطلق احساس نہ ہوتا لیکن لڑکے اسے چڑھا چڑھا کر اس ذلّت کے احساس کو سان پر چڑھاتے رہتے تھے۔ مکان کے سامنے ایک نیم کا درخت تھا۔ اسی کے نیچے منگل کا ڈیرا تھا۔ ایک پھٹا پھٹا سا ٹاٹ کا ٹکڑا، دو سکورے اور دھوتی جو مہیش بابو کے خوش نصیب فرزند سریش کے اتارے کپڑوں میں سے ایک تھی۔ جاڑا، گرمی، برسات، ہر موسم کے لیے وہ ایک سی آرام دہ تھی۔ یہی اس کی خصوصیت تھی اور سخت جان منگل جھلستی ہوئی لو اور کڑاکے کے جاڑے اور مو سلا دھار بارش میں زندہ تھا اور تندرست تھا۔ بس اس کا کوئی رفیق تھا تو گاؤں کا ایک کتّا جو اپنے ہم چشموں کی بد مزاجیوں اور تنگ ظرفیوں سے تنگ آ کر منگل کے زیر سایہ آ پڑا تھا۔ کھانا دونوں کا ایک تھا کچھ طبیعت بھی یکساں تھی اور غالباً دونوں ایک دوسرے کے مزاج سے واقف ہو گئے تھے۔
منگل نے اس کا نام رکھا تھا ٹامی۔ مگر ٹامی مہیش ناتھ کے انگریزی کتّے کا نام تھا۔ اس لیے اس کا استعمال وہ اسی وقت کرتا جب دونوں رات کو سونے لگتے۔
منگل کہتا۔ ’’دیکھو ٹامی، ذرا اور کھسک کر سوؤ۔ آخر میں کہاں لیٹوں۔ سارا ٹاٹ تو تم نے گھیر لیا۔‘‘ ٹامی کوں کوں کرتا اور دم ہلاتا۔ بجائے اس کے کہ کھسک جائے اور اوپر چڑھ آتا اور منگل کا منہ چاٹنے لگتا۔ شام کو وہ ایک بار روز اپنا گھر دیکھنے اور تھوڑی دیر رونے جاتا۔ پہلے سال پھوس کا چھپر گرا۔ دوسرے سال ایک دیوار گری اور اب صرف آدھی دیواریں کھڑی تھیں۔ جس کا اوپر کا حصہ نوک دار ہو گیا تھا۔ یہیں اسے محبت کی دولت ملی تھی وہی مزا وہی یاد وہی کشش اسے ایک بار ہر روز اس ویرانے میں کھینچ لے جاتی اور ٹامی ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتا تھا۔ وہ کھنڈر کی مخروطی دیوار پر بیٹھ جاتا اور زندگی کے آنے والے اور گذشتہ خواب دیکھنے لگتا اور ٹامی دیوار پر کود جانے کی بار بار ناکام کوشش کرتا۔
ایک دن کئی لڑکے کھیل رہے تھے۔ منگل بھی پہنچ کر دور کھڑا ہو گیا۔ سریش کو اس پر رحم آیا یا کھیلنے والوں کی جوڑی پوری نہ پڑتی تھی۔ کچھ ہی ہو اس نے تجویز کی کہ آج منگل کو بھی کھیل میں شریک کر لیا جائے۔ یہاں کون دیکھنے آتا ہے۔
سریش نے منگل سے پوچھا۔ کیوں رے کھیلے گا؟
منگل بولا ’’کھلاؤ گے تو کیوں نہ کھیلوں گا۔؟
سریش نے کہا ’’اچھا تو ہم تینوں سوار بنتے ہیں اور تم ٹٹو بن جاؤ۔ ہم لوگ تمھارے اوپر سوار ہو کر گھوڑا دوڑائیں گے۔‘‘
منگل نے پوچھا۔ ’’میں برابر گھوڑا ہی رہوں گا کہ سواری بھی کروں گا۔‘‘
یہ مسئلہ ٹیڑھا تھا۔ سریش نے ایک لمحہ غور کر کے کہا ’’تجھے کون اپنی پیٹھ پر بٹھائے گا سوچ آخر تو بھنگی ہے کہ نہیں۔‘‘
منگل نے کسی قدر دلیر ہو کر کہا ’’میں کب کہتا ہوں کہ میں بھنگی نہیں ہوں لیکن جب تک مجھے بھی سواری کرنے کو نہ ملے گی میں گھوڑا نہ بنوں گا۔ تم لوگ سوار بنو اور میں گھوڑا ہی بنا رہوں گا۔
سریش نے تحکمانہ لہجہ میں کہا۔ ’’تجھے گھوڑا بننا پڑے گا اس نے منگل کو پکڑنا چاہا۔ منگل بھاگا سریش بھی دوڑا، منگل نے قدم اور تیز کیا۔ سریش نے بھی زور لگایا مگر بسیار خوری نے اسے تھل تھل بنا دیا تھا۔ اور دوڑنے سے اس کا سانس پھولنے لگتا تھا۔ آخر سریش نے رک کر کہا۔ ’’ آ کر گھوڑا بنو ورنہ کبھی پاؤں گا تو بُری طرح پیٹوں گا۔‘‘
’’تمھیں بھی گھوڑا بننا پڑے گا۔‘‘
’’اچھا ہم بھی بن جائیں گے۔‘‘
’’تم بعد میں بھاگ جاؤ گے اس لیے پہلے تم بن جاؤ۔ میں سواری کر لوں پھر میں بنوں گا۔
سریش نے چکمہ دیا۔ منگل نے اس کے مطلب کو برہم کر دیا۔ ساتھیوں سے بولا۔ ’’دیکھو اس کی بدمعاشی، بھنگی ہے۔ ’’تینوں نے اب کے منگل کو گھیر لیا اور زبردستی گھوڑا بنا دیا۔ سریش اپنا وزنی جسم لے کر اس کی پیٹھ پر بیٹھ گیا اور ٹک ٹک کر کے بولا۔ ’’چل گھوڑے چل‘‘ مگر اس کے بوجھ کے نیچے غریب منگل کے لیے ہلنا بھی مشکل تھا دوڑنا تو دور کی بات تھی۔ ایک لمحہ تو وہ ضبط کیے چوپایہ بنا کھڑا رہا لیکن ایسا معلوم ہونے لگا کہ ریڑھ کی ہڈّی ٹوٹی جاتی ہے۔ اس نے آہستہ سے پیٹھ سکوڑی اور سریش کی ران کے نیچے سے سرک گیا سریشگ د سے گر پڑا۔ اور بھونپو بجانے لگے۔ ماں نے سنا سریش کیوں رو رہا ہے۔ گاؤں میں کہیں سریش روئے ان کے ذکی الحسن کانوں میں ضرور آواز آ جاتی تھی اور اس کا رونا تھا بھی دوسرے لڑکوں سے بالکل نرالا جیسے چھوٹی لائن کے انجن کی آواز۔
ایک منٹ میں سریش آنکھیں ملتا ہوا گھر میں آیا۔ آپ کو جب کبھی رونے کا اتفاق ہوتا تھا تو گھر میں فریاد لے کر ضرور آتے تھے۔ ماں چپ کرانے کے لیے کچھ نہ کچھ دے دیتی تھی۔ آپ تھے تو آٹھ سال کے مگر بہت بیوقوف حد سے زیادہ پیارے۔ ماں نے پوچھا۔ کیوں رو رہا ہے سیریش؟ کس نے مارا؟ سریش نے روتے ہوئے کہا ’’منگل نے چھو دیا۔‘‘
پہلے تو ماں کو یقین نہ آیا۔ لیکن جب سریش قسمیں کھانے لگا تو یقین لانا لازم ہو گیا۔ اس نے منگل کو بلوایا اور ڈانٹ کر بولی، کیوں رے منگلو اب تجھے بدمعاشی سوجھنے لگی میں نے تجھ سے کہا تھا کہ سریش کو چھونا نہیں۔ یاد ہے کہ نہیں۔ بول، منگل نے دبی آواز سے کہا۔ ’’یاد ہے‘‘
’’تو پھر تو نے اسے کیوں چھُوا؟۔۔۔ تو نے نہیں چھُوا تو یہ روتا کیوں تھا۔؟
’’یہ گر پڑے اس لیے رونے لگے۔‘‘
’’چوری اور سینہ زوری‘‘ دیوی دانت پیس کر رہ گئیں۔ ماریں تو اسی وقت اشنان کرنا پڑتا۔ قمچی تو ہاتھ میں لینا ہی پڑتی اور چھوت کی برقی رو قمچی کے راستہ ان کے جسم میں سرایت کر جاتی اس لیے جہاں تک گالیاں دے سکیں، دیں اور حکم دیا کہ اسی وقت یہاں سے نکل جا۔ پھر جو تیری صورت نظر آئی تو خون ہی پی جاؤں گی۔ مفت کی روٹیاں کھا کھا کر شرارت سوجھتی ہے۔‘‘
منگل میں غیرت تو کیا ہو گی خوف تھا۔ چپکے سے اپنے سکورے اٹھائے، ٹاٹ کا ٹکڑا بغل میں دبایا، دھوتی کندھے پر رکھی اور روتا ہوا وہاں سے چل پڑا۔ اب وہ یہاں کبھی نہیں آئے گا۔ یہی تو ہو گا کہ بھوکوں مر جاؤں گا کیا ہرج ہے اس طرح جینے سے فائدہ ہی کیا۔ گاؤں میں اور کہاں جاتا۔ بھنگی کو کون پناہ دیتا۔ وہی اپنے بے در و دیوار کی آڑ تھی۔ جہاں پچھلے دنوں کی یادیں اس کے آنسو پونچھ سکتی تھیں۔ وہیں جا کر پڑ رہ۔ اور خوب پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ ابھی آدھ گھنٹہ بھی نہ گذرا ہو گا کہ ٹامی بھی اسے ڈھونڈتا ہوا آ پہنچا۔
لیکن جوں جوں شام ہوتی گئی اس کا احساسِ ذلّت بھی غائب ہوتا گیا۔ بچپن کی بے تاب کرنے والی بھوک جسم کا خون پی پی کر اور بھی بے پناہ ہوتی جاتی تھی۔ آنکھیں بار بار سکوروں کی طرف اٹھ جاتیں۔ اس نے مشورتاً ٹامی سے کہا کھاؤ گے کیا؟ میں تو بھوکا ہی لیٹ رہوں گا۔ ٹامی نے کوں کوں کر کے شاید کہا اس طرح کی ذلتّیں تو ساری زندگی سہنی ہیں پھر ذرا دیر میں دم ہلا ہوتا ہوا اس کے پاس جا پہنچا۔ ہماری زندگی اسی لیے ہے بھائی۔‘‘
منگل بولا۔‘‘ تم جاؤ جو کچھ مل جائے کھا لو۔ میری پرواہ نہ کرو۔‘‘ ٹامی نے پھر اپنی سگستانی بولی میں کہا۔ اکیلا نہیں جاتا تمھیں ساتھ لے چلوں گا۔ ایک لمحہ بعد پھر بھوک نے تالیف کا ایک نیا پہلو اختیار کیا۔ ’’مالکن تلاش کر رہی ہوں گی۔ کیوں ٹامی۔ ’’اور کیا بابوجی اور سریش کھا چکے ہوں گے؟ کہار نے ان کی تھالی کا جوٹھا نکال لیا ہو گا اور ہمیں پکار رہا ہو گا۔ بابو جی اور سریش دونوں کی تھالیوں میں گھی اور میٹھی میٹھی چیز۔ ہاں ملائی۔ ہماری آواز نہ سنائی دے گی۔ تو سب کا سب گھورے پر ڈال دیں گے۔ ذرا دیکھ لیں کہ ہمیں پوچھنے آتا ہے۔ یہاں کون پوچھنے آئے گا۔ کوئی برہمن ہوں۔‘‘
’’اچھا چلو تو وہیں چلیں مگر چھپے ہوئے رہیں گے اگر کسی نے نہ پکارا تو میں لوٹ آؤں گا۔ یہ سمجھ لو۔‘‘
دونوں وہاں سے نکلے اور آ کر مہیش ناتھ کے دروازے پر ایک کونے میں دبک کر کھڑے ہو گئے۔ ٹامی شاید اِدھر ادھر خبر لانے چلا گیا۔ مہیش بابو تھالی پر بیٹھ گئے تھے نوکرآپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ ایک نے کہا۔ ’’آج منگلو نہیں دکھائی دیتا۔ بھوکا ہو گا بے چارہ۔ مالکن نے ڈانٹا تھا۔ اسی لیے بھاگا تھا شاید۔ ’’منگل کے جی میں آیا چل کر اس آدمی کے قدموں پر گر پڑے۔ دوسرے نے جواب دیا۔ ’’اچھا ہوا نکالا گیا۔ نہیں تو سبیرے سبیرے بھنگی کا منہ دیکھنا پڑتا تھا۔ ’’منگل اور اندھیرے میں کھسک گیا۔ اب کیا امید کی جا سکتی تھی۔ مہیش اور سریش تھالی سے اٹھ گئے نوکر ہاتھ منہ دھلا رہا ہے۔ اب بابوجی حقّہ پیں گے۔ سریش سوئے گا۔ غریب منگل کی کسے فکر ہے۔ اتنی دیر ہو گئی کسی نے نہیں پکارا۔ کون پکارے گا۔ منگل آدھ گھنٹے تک وہاں دبکا رہا۔ کسی نے اس کا نام نہ لیا۔ اس نے ایک لمبی سانس لی اور جانا ہی چاہتا تھا کہ اس نے اسی کہار کو ایک تھال میں جوٹھا کھانا لے جاتے دیکھا۔ شاید گھورے پر ڈالنے جا رہا تھا۔ منگل اندھیرے سے نکل کر روشنی میں آ گیا۔ اب صبر نہ ہو سکتا تھا۔ کہار نے کہا ارے تو یہاں تھا۔ ہم نے کہا کہیں چلا گیا۔ لے کھا لے میں پھینکنے لے جا رہا تھا۔ ’’منگل نے کہا میں تو بڑی دیر سے یہاں کھڑا تھا۔ کہار نے کہا تو بولا کیوں نہیں۔‘‘ منگل بولا۔ ’’ڈر لگتا تھا۔‘‘ منگل نے کہار کے ہاتھ سے تھال لے لیا اور اسے ایسی نظر سے دیکھا جس میں شکر اور احسان مندی کی ایک دنیا چھپی ہوئی تھی۔ پھر وہ دونوں نیم کے درخت کے نیچے حسب معمول کھانے لگے۔ منگل نے ایک ہاتھ سے ٹامی کا سر سہلا کر کہا۔ ’’دیکھا پیٹ کی آگ ایسی ہوتی ہے لات کی ماری ہوئی روٹیاں بھی نہ ملتیں تو کیا کرتے؟ ٹامی نے دم ہلائی۔ سریش کو اماں ہی نے پالا ہے ٹامی۔‘‘
ٹامی نے پھر دم ہلا دی۔ لوگ کہتے ہیں دودھ کا دام کوئی نہیں چکا سکتا۔ ٹامی نے دم ہلا دی۔ ’’اور مجھے دودھ کا یہ دام مل رہا ہے۔‘‘ ٹامی نے پھر دم ہلا دی۔
٭٭٭
دو بیل
جانوروں میں گدھا سب سے بیوقوف سمجھا جاتا ہے۔ جب ہم کسی شخص کو پرلے درجہ کا احمق کہنا چاہتے ہیں تو اسے گدھا کہتے ہیں۔ گدھا واقعی بیوقوف ہے۔ یا اس کی سادہ لوحی اور انتہا درجہ کی قوتِ برداشت نے اسے یہ خطاب دلوایا ہے۔ اس کا تصفیہ نہیں ہو سکتا۔ گائے شریف جانور ہے۔ مگر سینگ مارتی ہے۔ کتّا بھی غریب جانور ہے لیکن کبھی کبھی اسے غصّہ بھی آ جاتا ہے۔ مگر گدھے کو کبھی غصّہ نہیں آتا جتنا جی چاہے مار لو۔ چاہے جیسی خراب سڑی ہوئی گھاس سامنے ڈال دو۔ اس کے چہرے پر ناراضگی کے آثار کبھی نظر نہ آئیں گے۔ اپریل میں شاید کبھی کلیل کر لیتا ہو۔ پر ہم نے اسے کبھی خوش ہوتے نہیں دیکھا۔ اس کے چہرے پر ایک مستقل مایوسی چھائی رہتی ہے سکھ دکھ، نفع نقصان سے کبھی اسے شاد ہوتے نہیں دیکھا۔ رشی منیوں کی جس قدر خوبیاں ہیں۔ سب اس میں بدرجہ اتم موجود ہیں لیکن آدمی اسے بیوقوف کہتا ہے۔ اعلیٰ خصلتوں کی ایسی توہین ہم نے اور کہیں نہیں دیکھی۔ ممکن ہے دنیا میں سیدھے پن کے لیے جگہ نہ ہو۔
لیکن گدھے کا ایک بھائی اور بھی ہے۔ جو اس سے کچھ کم ہی گدھا ہے اور وہ ہے بیل، جن معنوں میں ہم گدھے کا لفظ استعمال کرتے ہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں۔ جو بیل کو بیوقوفوں کا سردار کہنے کو تیار ہیں۔ مگر ہمارا خیال ایسا نہیں۔ بیل کبھی کبھی مارتا۔ کبھی کبھی اڑیل بیل بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ اور کبھی کئی طریقوں سے وہ اپنی ناپسندیدگی اور ناراضگی کا اظہار کر دیتا ہے۔ لہٰذا اس کا درجہ گدھے سے نیچے ہے۔
جھوری کاچھی کے پاس دو بیل تھے۔ ایک کا نام ہیرا تھا دوسرے کا موتی۔ دونوں پچھائیں نسل کے تھے۔ دیکھنے میں خوبصورت کام میں چوکس ڈیل ڈول میں اونچے۔ بہت دنوں سے ایک ساتھ رہتے رہتے دونوں میں محبت سی ہو گئی۔ دونوں آمنے سامنے یا ایک دوسرے کے پاس بیٹھے زبانِ خاموش میں ایک دوسرے سے بات چیت کرتے تھے وہ ایک دوسرے کے دل کی بات کیوں کر سمجھ جاتے تھے۔ یہ ہم نہیں کہہ سکتے۔ ضرور ان میں کوئی نہ کوئی ناقابلِ فہم قوت تھی۔ جس کے سمجھنے سے اشرف المخلوقات ہونے کا مدعی انسان محروم ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو چاٹ کر اور سونگھ کر اپنی محبت کا اظہار کرتے تھے۔ کبھی دونوں سینگ ملا لیا کرتے تھے۔ عناد سے نہیں محض زندہ دلی سے محض ہنسی مذاق سے جیسے یار دوستوں میں کبھی کبھی دھول دھپّا ہو جاتا ہے۔ اس کے بغیر دوستی کچھ پھیکی اور ہلکی سی رہتی ہے۔ جس پر زیادہ اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
جس وقت یہ دونوں بیل ہل یا گاڑی میں جوتے جاتے اور گردنیں ہلا ہلا کر چلتے تو ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ زیادہ بوجھ میری ہی گردن پر رہے۔ کام کے بعد دوپہر یا شام کو کھلتے، تو ایک دوسرے کو چوم چاٹ کر اپنی تھکان اتار لیتے۔ ناند میں کھلی بھوسا پڑ جانے کے بعد دونوں ایک ساتھ اٹھتے۔ ایک ساتھ ناند میں منہ ڈالتے اور ایک ہی ساتھ بیٹھتے ایک منہ ہٹا لیتا تو دوسرا بھی ہٹا لیتا تھا۔
ایک مرتبہ جھوری نے دونوں بیل چند دنوں کے لیے اپنے سسرال بھیجے، بیلوں کو کیا معلوم وہ کیوں بھیجے جاتے ہیں۔ سمجھے مالک نے ہمیں بیچ دیا کون جانے بیلوں کو اپنا بیچا جانا پسندآیا یا نہیں۔ لیکن جھوری کے سالے کو انھیں اپنے گاؤں تک لے جانے میں دانتوں پسینہ آ گیا۔ پیچھے سے ہانکتا تو دونوں دائیں بائیں بھاگتے۔ آگے سے پکڑ کر کھینچتا تو دونوں پیچھے کو زور لگاتے۔ مارتا تو دونوں سینگ نیچے کر کے پھنکارتے۔ اگر ان بے زبانوں کے زبان ہوتی تو جھوری سے پوچھتے تم نے ہم غریبوں کو کیوں نکال دیا۔ ہم نے تمھاری خدمت کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ اگر اتنی محنت سے کام نہ چلتا تھا۔ تو اور کام لے لیتے۔ ہم کو انکار نہ تھا۔ ہمیں تمھاری خدمت میں مر جانا قبول تھا۔ ہم نے کبھی دانے چارے کی شکایت نہیں کی۔ تم نے جو کچھ کھلایا سر جھکا کر کھا لیا۔ پھر تم نے ہمیں اس ظالم کے ہاتھ کیوں بیچ دیا۔؟
شام کے وقت دونوں بیل گیا کے گاؤں میں جا پہنچے دن بھر بھوکے تھے۔ لیکن جب ناند میں لگائے تو کسی نے بھی اس میں منہ نہ ڈالا۔ دونوں کا دل بھاری ہو رہا تھا۔ جسے انھوں نے اپنا گھر سمجھا تھا وہ آج ان سے چھوٹ گیا یہ نیا گھر نیا گاؤں نئے آدمی سب انھیں بے گانے لگتے تھے۔ دونوں نے چپ کی زبان میں کچھ باتیں کیں۔ ایک دوسرے کو کنکھیوں سے دیکھا اور لیٹ گئے۔
جب گاؤں میں سوتا پڑ گیا تو دونوں نے زور مار کر پگہے تڑا لیے اور گھر کی طرف چلے۔ پگہے مضبوط تھے کسی کو شبہہ بھی نہ ہو سکتا تھا کہ بیل انھیں توڑ سکیں گے پر ان دونوں میں اس وقت دگنی طاقت آ گئی تھی۔ ایک جھٹکے میں رسیاں ٹوٹ گئیں۔
جھوری نے صبح اٹھ کر دیکھا کہ دونوں بیل چرنی پر کھڑے تھے دونوں کی گردنوں میں آدھا آدھارسّہ لٹک رہا تھا۔ گھٹنوں تک پاؤں کیچڑ میں بھرے ہوئے تھے اور دونوں کی آنکھوں میں محبت اور ناراضگی جھلک رہی تھی۔ جھوری ان کو دیکھ کر محبت سے باؤ لا ہو گیا۔ اور دوڑ کر ان کے گلے سے لپٹ گیا انسان اور حیوان کی محبت کا یہ منظر نہایت دلکش تھا۔
گھر اور گاؤں کے لڑکے جمع ہو گئے اور تالیاں بجا بجا کران کا خیر مقدم کرنے لگے۔ گاؤں کی تاریخ میں یہ واقعہ اپنی قسم کا پہلا نہ تھا۔ مگر اہم ضرور تھا۔ بال سبھا نے فیصلہ کیا کہ ان دونوں بہادروں کا ایڈریس دیا جائے۔ کوئی اپنے گھر سے روٹیاں لایا۔ کوئی گُڑ چوکر، کوئی بھوسی۔
ایک لڑکے نے کہا ’’ایسے بیل اور کسی کے پاس نہ ہوں گے۔‘‘
دوسرے نے تائید کی ’’اتنی دور سے دونوں اکیلے چلے آئے۔‘‘
تیسرا بولا۔ ’’پچھلے جنم میں ضرور آدمی ہوں گے۔‘‘
اس کی تردید کرنے کی کسی میں جرأت نہ تھی۔ سب نے کہا۔
’’ہاں بھائی ضرور ہوں گے۔‘‘
جھوری کی بیوی نے بیلوں کو دروازہ پر دیکھا تو جل اٹھی اور بولی۔
کیسے نمک حرام بیل ہیں ایک دن بھی وہاں کام نہ کیا۔ اور بھاک کھڑے ہوئے۔
جھوری اپنے بیلوں پر یہ الزام برداشت نہ کر سکا۔ بولا ’’نمک حرام کیوں ہیں۔‘‘ چارہ دانہ نہ دیا ہو گا کیا کرتے‘‘؟
عورت نے تنگ آ کر کہا۔ ’’بس تم ہی بیلوں کو کھلانا جانتے ہو اور تو سبھی پانی پلا پلا کر رکھتے ہیں۔‘‘
جھوری نے چڑھا۔‘‘ چارہ ملتا ‘ تو کیوں بھاگتے۔؟
عورت چڑھی۔ ’’بھاگے اس لیے کہ وہ لوگ تم جیسے بدھوؤں کی طرح بیلوں کو سہلاتے نہیں کھلاتے ہیں، تو، توڑ کر جوتتے بھی ہیں، یہ دونوں ٹھہرے کام چور بھاگ نکلے۔ اب دیکھتی ہوں کہاں سے کھلی اور چوکر آتا ہے خشک بھوسے کے سوا کچھ نہ دوں گی کھائیں چاہے مریں۔‘‘
وہی ہوا مزدور کو تاکید کر دی گئی کہ بیلوں کو صرف خشک بھوسا دیا جائے بیلوں نے ناند میں منہ ڈالا تو پھیکا پھیکا۔ نہ چکناہٹ نہ رس کیا کھائیں۔؟ پر امید نگاہوں سے دروازے کی طرف دیکھنے لگے۔
جھوری نے مزدور سے کہا۔ ’’تھوڑی سی کھلی کیوں نہیں ڈال دیتا ہے۔؟‘‘
مزدور۔ ’’مالکن مجھے مار ہی ڈالے گی۔‘‘
جھوری۔ ’’ڈال دے تھوڑی سی۔‘‘
مزدور۔ ’’نہ دادا۔ بعد میں تم بھی انھیں کی سی کہو گے۔‘‘
دوسرے دن جھوری کا سالا پھر آیا اور بیلوں کو لے چلا۔ اب کے اس نے دونوں کو گاڑی میں جوتا۔ دو چار مرتبہ موتی نے گاڑی کو کھائی میں گرانا چاہا مگر ہیرا نے سنبھال لیا۔ اس وقت دونوں میں قوتِ برداشت زیادہ تھی۔
شام کے وقت گھر پہنچ کر گیا نے دونوں کو موٹی رسیوں سے باندھا اور کل کی شرارت کا مزہ چکھایا پھر وہی خشک بھوسہ ڈال دیا۔ اپنے بیلوں کو کھلی چونی سب کچھ کھلایا۔
ہیرا اور موتی اس برتاؤ کے عادی نہ تھے۔ جھوری انھیں پھول کی چھڑی سے بھی نہ مارتا تھا اس کی آواز پر دونوں اڑنے لگے تھے۔ یہاں مار پڑی اس پر خشک بھوسہ۔ ناند کی طرف آنکھ بھی نہ اٹھائی۔
دوسرے دن گیا نے بیلوں کو ہل میں جوتا پران دونوں نے جیسے پاؤں اٹھانے کی قسم کھا لی تھی۔ وہ مارتے مارے تھک گیا۔ مگر انھوں نے قدم نہ اٹھایا۔ ایک مرتبہ جب اس ظالم نے ہیرا کی ناک پر ڈنڈا جمایا تو موتی غصّہ کے مارے آپے سے باہر ہو گیا۔ ہل لے بھاگا، ہل رسی اور جوا جوت سب ٹوٹ کر برابر ہو گئے۔ گلے میں بڑی بڑی رسیاں نہ ہوتیں، تو دونوں نکل گئے تھے۔
ہیرا نے زبان خاموش سے کہا۔ ’’بھاگنا مشکل ہے۔‘‘
موتی نے بھی نگاہوں سے جواب دیا۔ ’’تمھاری تو اس نے جان لے لی تھی۔ اب کے بڑی مار پڑے گی۔‘‘
ہیرا۔ ’’پڑنے دو۔ بیل کا جنم لیا ہے تو مار سے کہاں بچیں گے۔‘‘
گیا دو آدمیوں کے ساتھ دوڑا آ رہا ہے۔ دونوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں ہیں۔
موتی۔ ’’کہو تو میں بھی دکھا دوں کچھ مزا۔؟
ہیرا۔ ’’نہیں بھائی کھڑے ہو جاؤ۔‘‘
موتی۔ ’’مجھے مارے گا، تو میں ایک آدھ کو گرا دوں گا۔‘‘
ہیرا۔ ’’یہ ہمارا دھرم نہیں ہے۔‘‘
موتی دل میں اینٹھ کر رہ گیا۔ اتنے میں گیا آ پہنچا اور دونوں کو پکڑ کر لے چلا۔ خیریت ہوئی کہ اس نے اس وقت مار پیٹ نہ کی۔ نہیں تو موتی بھی تیار تھا۔ اس کے تیور دیکھ کر سہم گیا اور اس کے ساتھی سمجھ گئے کہ اس وقت ٹال جانا ہی مصلحت ہے۔
آج دونوں کے سامنے پھر وہی خشک بھوسا لایا گیا۔ دونوں چپ چاپ کھڑے رہے۔ گھر کے لوگ کھانا کھانے لگے۔ اسی وقت ایک چھوٹی سی لڑکی دو روٹیاں لیے نکلی اور دونوں کے منہ میں دے کر چلی گئی۔ اس ایک ایک روٹی سے ان کی بھوک تو کیا مٹتی مگر دونوں کے دل کو کھانا مل گیا۔ معلوم ہوا۔ یہاں بھی کوئی صاحب دل رہتا ہے یہ لڑکی گیا کی تھی اس کی ماں مر چکی تھی۔ سوتیلی ماں اسے مارتی تھی اس لیے ان بیلوں سے اسے ہمدردی تھی۔
دونوں دن بھر جوتے جاتے۔ اڑتے، ڈنڈے کھاتے۔ شام کو تھان پر باندھ دیے جاتے اور رات کو وہی لڑکی انھیں ایک ایک روٹی دے جاتی۔ محبت کے اس کھانے کی یہ برکت تھی، کہ دو چار خشک بھوسے کے لقمے کھا کر بھی دونوں کمزور نہ ہوتے تھے۔ دونوں کی آنکھوں کی نس نس میں سرکشی بھری تھی۔
ایک دن چپ کی زبان میں موتی نے کہا۔ ’’اب تو نہیں سہا جاتا ہیرا۔‘‘
ہیرا۔ کیا کرنا چاہیے۔؟
موتی۔ ’’گیا کو سینگ پر اٹھا کر پھینک دوں۔‘‘؟
ہیرا۔ ’’مگر وہ لڑکی اس کی بیٹی ہے اسے مار کر گراؤ گے تووہ یتیم ہو جائے گی۔‘‘
موتی۔ ’’تو مالکن کو پھینک دوں، وہ لڑکی کو ہر روز مارتی ہے۔‘‘
ہیرا۔ ’’عورت کو مارو گے بڑے بہادر ہو۔‘‘
موتی۔ ’’تم کسی طرح نکلنے ہی نہیں دیتے تو آؤ آج رسّا تڑا کر بھاگ چلیں۔‘‘
ہیرا۔ ’’ہاں یہ ٹھیک ہے لیکن ایسی موٹی رسّی ٹوٹے گی کیونکر۔‘‘
موتی۔ ’’پہلے رسّی کو چبا لو پھر جھٹکا دے کر تڑالو۔‘‘
رات کو جب لڑکی روٹیاں دے کر چلی گئی۔ دونوں رسّیاں چبانے لگے۔ پر موٹی رسّی منہ میں نہ آتی تھی۔ بچارے بار بار زور لگا کر رہ جاتے۔
معاً گھر کا دروازہ کھلا اور وہی لڑکی نکلی دونوں سر جھکا کر اس کے ہاتھ چاٹنے لگے۔ دونوں کی دُمیں کھڑی ہو گئیں۔ اس نے ان کی پیشانی سہلائی اور بولی: ۔
’’کھول دیتی ہوں۔ بھاگ جاؤ۔ نہیں تو یہ لوگ تمھیں مار ڈالیں گے۔ آج گھر میں مشہور ہو رہا ہے کہ تمھاری ناک میں ناتھ ڈال دی جائیں۔‘‘
اس نے دونوں کے رسّے کھول دیے پر دونوں چپ چاپ کھڑے رہے۔
موتی نے اپنی زبان میں پوچھا۔ ’’اب چلتے کیوں نہیں۔‘‘؟
ہیرا نے جواب دیا۔ ’’اس غریب پر آفت آ جائے گی۔ سب اسی پر شبہہ کریں گے۔‘‘
یکایک لڑکی چلّائی او دادا۔ او دادا۔ دونوں پھوپھا والے بیل بھاگے جا رہے ہیں۔ دوڑو۔ دونوں بیل بھاگے جا رہے ہیں۔‘‘
گیا گھبرا کر باہر نکلا اور بیلوں کو پکڑنے چلا۔ بیل بھاگے گیا نے پیچھا کیا وہ اور بھی تیز ہو گئے۔ گیا نے شور مچایا پھر گاؤں کے کچھ اور آدمیوں کو ساتھ لانے کے لیے لوٹا۔ دونوں بیلوں کو بھاگنے کا موقع مل گیا۔ سیدھے دوڑے چلے گئے یہاں تک کہ راستہ کا خیال نہ رہا۔ جس راہ سے یہاں آئے تھے اس کا پتہ نہ تھا نئے نئے گاؤں ملنے لگے۔ تب دونوں ایک کھیت کے کنارے کھڑے ہو کر سوچنے لگے۔ کہ اب کیا کرنا چاہیے۔؟
ہیرا نے اپنی زبان میں کہا۔ ’’معلوم ہوتا ہے راستہ بھول گئے۔‘‘
موتی۔ ’’تم بھی بے تحاشا بھاگے وہیں اسے مار گراتے۔‘‘
ہیرا۔ ’’اسے مار گراتے تو دنیا کیا کہتی وہ اپنا دھرم چھوڑ دے لیکن ہم اپنا دھرم کیونکر چھوڑ دیں۔‘‘
دونوں بھوک سے بے حال ہو رہے تھے۔ کھیت میں مٹر کھڑی تھی چرنے لگے۔ رہ رہ کر آہٹ لے رہے تھے کہ کوئی آ تو نہیں رہا۔ جب پیٹ بھر گیا اور دونوں کو آزادی کا احساس ہوا تو اچھلنے کودنے لگے۔ پہلے ڈکار لی پھر سینگ ملائے اور ایک دوسرے کو دھکیلنے لگے۔ موتی نے ہیرا کو کئی قدم پیچھے ہٹا دیا۔ یہاں تک کہ وہ ایک کھائی میں گر گیا۔ تب اسے بھی غصّہ آیا سنبھل کر اٹھا اور پھر موتی سے لڑنے لگا۔ موتی نے دیکھا کہ کھیل میں جھگڑا ہو ا چاہتا ہے تو ایک طرف ہٹ گیا۔
ارے یہ کیا کوئی سانڈڈونکتا چلا آتا ہے۔ ہاں سانڈہی تو ہے وہ سامنے آ پہنچا دونوں دوست تذبذب میں پڑ گئے۔
سانڈ بھی پورا ہاتھی۔ اس سے لڑنا جان سے ہاتھ دھونا تھا لیکن نہ لڑنے سے بھی جان بچتی نظر نہ آتی تھی۔ انھیں کی طرف آ رہا تھا کتنا جسیم تھا۔
موتی نے کہا ’’بُرے پھسے جان کیسے بچے گی؟ کوئی طریقہ سوچو۔‘‘
ہیرا نے کہا ’’غرور سے اندھا ہو رہا ہے منّت سماجت کبھی نہ سنے گا۔‘‘
موتی۔ ’’بھاگ کیوں نہ چلیں۔‘‘؟
ہیرا۔ ’’بھاگنا پست ہمتی ہے۔‘‘
موتی۔ ’’تو تم یہیں مرو۔ بندہ نو دو گیارہ ہوتا ہے۔‘‘
ہیرا۔ ’’اور جو دوڑ آئے تو پھر۔‘‘؟
موتی۔ کوئی طریقہ بتاؤ۔ لیکن ذرا جلدی۔ وہ تو آ پہنچا۔
ہیرا۔ طریقہ یہی ہے کہ ہم دونوں ایک ساتھ حملہ کر دیں۔ میں آگے سے اس کو دھکیلوں تم پیچھے سے دھکیلو۔ دیکھتے دیکھتے بھاگ کھڑا ہو گا۔ جوں ہی مجھ پر حملہ کرے تم پیٹ میں سینگ چبھو دینا۔ جان جوکھوں کا کام ہے۔ لیکن دوسرا کوئی طریقہ نہیں۔‘‘
دونوں دوست جان ہتھیلیوں پر لے کر آگے بڑھے سانڈ کو کبھی منظّم دشمن سے لڑنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ وہ انفرادی جنگ کا عادی تھا جوں ہی ہیرا پر جھپٹتا موتی نے پیچھے سے ہلّہ بول دیا۔ سانڈ اس کی طرف مڑا تو ہیرا نے دھکیلنا شروع کیا۔ سانڈ چاہتا تھا ایک ایک کر کے دونوں کر گرالے۔ پھر یہ بھی استاد تھے اسے یہ موقعہ ہی نہ دیتے تھے۔ ایک مرتبہ سانڈ جھلّا کر ہیرا کو ہلاک کرنے چلا۔ تو موتی نے بغل سے آ کر اس کے پیٹ میں سینگ رکھ دیے۔ بے چارہ زخمی ہو کر بھاگا اور دونوں فتحیاب دوستوں نے دور تک اس کا تعاقب کیا۔ یہاں تک کہ سانڈ بے دم ہو کر گر پڑا۔ تب دونوں نے اس کا پیچھا چھوڑ دیا۔
دونوں بیل فتح کے نشہ میں جھومتے چلے جاتے تھے۔ موتی نے اپنے اشاروں کی زبان میں کہا۔ ’’میرا جی تو چاہتا تھا کہ ہتچہ جی کو مار ہی ڈالوں۔‘‘
ہیرا۔ ’’گرے ہوئے دشمن پر سینگ چلانا نا مناسب ہے۔‘‘
موتی۔ ’’یہ سب فضول ہے اگر اس کا داؤ چلتا تو کبھی نہ چھوڑتا۔‘‘
ہیرا۔ ’’اب کیسے گھر پہنچو گے؟ یہ سوچو۔‘‘
موتی۔ ’’پہلے کچھ کھالیں تو سوچیں ابھی عقل کام نہیں کرتی۔‘‘
یہ کہ کر موتی مڑکے کھیت میں گھس گیا ہیرا منع کرتا ہی رہ گیا لیکن اس نے ایک نہ سنی۔ ابھی دو ہی چار منہ مارے تھے کہ دو آدمی لاٹھیاں لیے آ گئے اور دونوں بیلوں کو گھیر لیا۔ ہیرا تو مینڈ پر تھا۔ نکل گیا موتی کھیت میں تھا۔ اس کے کھُر کیچڑ میں دھنسنے لگے نہ بھاگ سکا۔ پکڑا گیا۔ ہیرا نے دیکھا دوست تکلیف میں ہے تو لوٹ پڑا۔ پھنسیں گے، تو اکٹھے۔ رکھوالوں نے اسے بھی پکڑ لیا۔ دوسرے دن دونوں دوست کانجی ہاؤس میں تھے۔
ان کی زندگی میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ سارا دن گذر گیا اور کھانے کو ایک تنکا بھی نہ ملا۔ سمجھ میں نہ آتا تھا۔ یہ کیسا مالک ہے اس سے تو گیا ہی اچھا تھا۔ وہاں کئی بھینسیں تھیں، کئی بکریاں، کئی گھوڑے، کئی گدھے چارہ کسی کے سامنے بھی نہ تھا۔ سب زمین پر مردے کی طرح پڑے تھے۔ کئی تو اس قدر کمزور ہو گئے تھے کہ کھڑے بھی نہ ہو سکتے تھے۔ سارا دن دروازہ کی طرف دیکھتے رہے۔ مگر چارہ لے کر نہ آیا تب غریبوں نے دیوار کی نمکین مٹّی چاٹنی شروع کی مگر اس سے کیا تسکین ہو سکتی تھی۔؟
جب رات کو بھی کھانا نہ ملا، تو ہیرا کے دل میں سرکشی کے خیالات پیدا ہوئے۔ موتی سے بولا۔ ’’مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جان نکل رہی ہے۔‘‘
موتی۔ ’’اتنی جلدی ہمت نہ ہارو بھائی۔ یہاں سے بھاگنے کا طریقہ سوچو۔‘‘
ہیرا۔ ’’آؤ دیوار توڑ ڈالیں۔‘‘
موتی۔ ’’مجھ سے تو اب کچھ نہ ہو گا۔‘‘
ہیرا۔ ’’بس اسی بوتے پر اکڑتے تھے۔‘‘
موتی۔ ’’ساری اکڑ نکل گئی بھائی۔‘‘
باڑے کی دیوار کچی تھی ہیرا نے اپنے نوکیلے سینگ دیوار میں گاڑ دیے اور زور سے مارا تو مٹّی کا ایک چیڑ نکل آیا۔ اس سے اس کا حوصلہ بڑھ گیا۔ اس نے دوڑ دوڑ کر دیوارسے ٹکّریں ماریں ہر ٹکّر میں تھوڑی تھوڑی مٹی گرنے لگی۔
اتنے میں کانجی ہاوس کا چوکیدار لالٹین لے کر جانوروں کی حاضری لینے آ نکلا۔ ہیرا کی وحشت دیکھ کر اس نے اسے کئی ڈنڈے رسید کیے اور موٹی سی رسّی سے باندھ دیا۔
موتی نے پڑے پڑے اس کی طرف دیکھا گویا زبان حال سے کہا آخر مار کھائی کیا ملا۔
ہیرا۔ ’’ زور تو آزما لیا۔‘‘
موتی۔ ’’ایسا زور کس کام کا۔ اور بندھن میں پڑ گئے۔‘‘
ہیرا۔ ’’اس سے باز نہ آؤں گا۔ خواہ بندھن بڑھتے جائیں۔‘‘
موتی۔ ’’جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔‘‘
ہیرا۔ ’’اس کی مجھے پرواہ نہیں۔ یوں بھی مرنا ہے ذرا سوچو اگر دیوار گر جاتی، تو کتنی جانیں بچ جاتیں۔ اتنے بھائی یہاں بند ہیں کسی کے جسم میں جان بھی نہیں۔ دو چار دن یہی حال رہا تو سب مر جائیں گے۔‘‘
موتی نے بھی دیوار میں اسی جگہ سینگ مارا۔ تھوڑی سی مٹّی گری اور ہمّت بڑھی تو دیوار میں سینگ لگا کر اس طرح زور کرنے لگا۔ جیسے کسی سے لڑ رہا ہو۔ آخر کوئی دو گھنٹہ کی زور آزمائی کے بعد دیوار کا کچھ حصّہ گر گیا۔ اس نے دوگنی طاقت سے دوسرا دھکّا لگایا تو آدھی دیوار گر پڑی۔
دیوار کا گرنا تھا کہ نیم جان جانور اُٹھ کھڑے ہوئے تینوں گھوڑیاں بھاگ نکلیں۔ بھیڑ بکریاں نکلیں۔ اس کے بعد بھینسیں بھی کھسک گئیں۔ پر گدھے ابھی کھڑے تھے۔
ہیرا نے پوچھا۔ ’’تم کیوں نہیں جاتے۔‘‘؟
ایک گدھے نے کہا۔ ’’کہیں پھر پکڑ لیے جائیں تو۔‘‘؟
ہیرا۔ ’’پکڑ لیے جاؤ پھر دیکھا جائے گا اس وقت تو موقعہ ہے۔‘‘
گدھا۔ ’’ہمیں ڈر لگتا ہے ہم نہ بھاگیں گے۔‘‘
آدھی رات گذر چکی تھی۔ دونوں گدھے کھڑے سوچ رہے تھے بھاگیں یا نہ بھاگیں۔ موتی اپنے دوست کی رسّی کاٹنے میں مصروف تھا جب وہ ہار گیا تو ہیرا نے کہا۔ تم جاؤ مجھے یہیں رہنے دو۔ شاید کبھی ملاقات ہو جائے۔
موتی نے آنکھوں میں آنسو لا کر کہا۔ ’’تم مجھے خود غرض سمجھتے ہو ہیرا، ہم اور تم اتنے دنوں ساتھ رہے۔ آج تم مصیبت میں پھنسے۔ تو میں چھوڑ کر بھاگ جاؤں۔‘‘
ہیرا۔ ’’بہت مار پڑے گی۔ سمجھ جائیں گے یہ تمھاری شرارت ہے۔‘‘
موتی۔ ’’جس قصور کے لیے تمھارے گلے میں رسّا پڑا۔ اس کے لیے اگر مجھ پر مار پڑے گی۔ تو کیا بات ہے اتنا تو ہو گیا کہ نودس جانوروں کی جان بچ گئی۔‘‘
یہ کہہ کر موتی نے دونوں گدھوں کو سینگ مار مار کر باہر نکال دیا اور اپنے دوست کے پاس آ کر سو گیا۔
صبح ہوتے ہوتے منشیوں، چوکیداروں اور دوسرے ملازموں میں کھلبلی مچ گئی۔ اس کے بعد موتی کی مرمت ہوئی اور اسے بھی موٹی رسّی سے باندھ دیا گیا۔
ایک ہفتہ تک دونوں بیل بندھے پڑے رہے۔ خدا جانے اس کا نجی ہاؤس کے آدمی کیسے بے درد تھے، کہ کسی نے چارے کو ایک تنکا تک نہ ڈالا۔ ہاں ایک مرتبہ پانی دکھا دیا جاتا تھا۔ یہی ان کی خوراک تھی۔ دونوں اتنے کمزور ہو گئے کہ اٹھا تک نہ جاتا تھا۔ ہڈیاں نکل آئیں۔
ایک دن باڑے کے سامنے ڈگڈگی بجنے لگی۔ اور دوپہر ہوتے ہوتے پچاس ساٹھ آدمی جمع ہو گئے۔ تب دونوں بیل نکالے گئے اور ان کی دیکھ بھال ہونے لگی۔ لوگ آآ کر ان کی صورت دیکھتے اور چلے جاتے تھے۔ ایسے نیم جان بیلوں کو کون خریدتا۔؟
معاً ایک آدمی جس کی آنکھیں سرخ تھیں اور جس کے چہرہ پرسخت دلی کے آثار نمایاں تھے۔ آیا اور منشی جی سے باتیں کرنے لگا۔ اس کی شکل دیکھ کر کسی نا معلوم احساس سے دونوں بیل کانپ اٹھے۔ وہ کون ہے اور انھیں کیوں خریدتا ہے۔؟ اس کے متعلق انھیں کوئی شبہہ نہ رہا۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور سر جھکا لیا۔
ہیرا نے کہا۔ ’’گیا کے گھر سے ناحق بھاگے۔ اب جان نہ بچے گی۔‘‘
موتی نے جواب دیا۔ ’’کہتے ہیں۔ بھگوان سب پر مہربانی کرتے ہیں۔ ’’انھیں ہماری حالت پر رحم کیوں نہیں آتا۔‘‘؟
ہیرا۔ ’’بھگوان کے لیے ہمارا مرنا جینا دونوں برابر ہیں۔‘‘
موتی۔ ’’چلو اچھا ہے کچھ دن ان کے پاس رہیں گے۔‘‘
ہیرا۔ ’’ایک مرتبہ بھگوان نے اس لڑکی کے روپ میں بچایا تھا کیا اب نہ بچائیں گے۔
موتی۔ ’’یہ آدمی چھُری چلائے گا دیکھ لینا۔‘‘
ہیرا۔ ’’معمولی بات ہے مر کر ان دکھوں سے چھوٹ جائیں گے۔‘‘
نیلام ہو جانے کے بعد دونوں بیل اس آدمی کے ساتھ چلے دونوں کی بوٹی بوٹی کانپ رہی تھی۔ بچارے پاؤں تک نہ اٹھا سکتے تھے۔ مگر ڈر کے مارے چلے جاتے تھے ذرا بھی آہستہ چلتے تو ڈنڈا جما دیتا تھا۔
راہ میں گائے بیلوں کا ایک ریوڑ مرغزالہ میں چرتا نظر آیا۔ سبھی جانور خوش تھے کوئی اُچھلتا تھا کوئی بیٹھا جگالی کرتا تھا کیسی پُر مسرت زندگی تھی۔ لیکن وہ کیسے خود غرض تھے کسی کو ان کی پرواہ نہ تھی۔ کسی کو خیال نہ تھا، کہ ان کے دو بھائی موت کے پنجہ میں گرفتار ہیں۔
معاً انھیں ایسا معلوم ہوا، کہ یہ راستہ دیکھا ہوا ہے۔ ہاں ادھر ہی تو سے گیا ان کو اپنے گاؤں لے گیا تھا۔ وہی کھیت ہیں وہی باغ وہی گاؤں۔ اب ان کی رفتار تیز ہونے لگی۔ ساری تھکان، ساری کمزوری، ساری مایوسی رفع ہو گئی۔ ارے یہ تو اپنا کھیت آ گیا۔ یہ اپنا کنواں ہے۔ جہاں ہر روز پانی پیا کرتے تھے۔
موتی نے کہا۔ ’’ہمارا گھر نزدیک آ گیا۔‘‘
ہیرا بولا۔ ’’بھگوان کی مہربانی ہے۔‘‘
موتی۔ ’’میں تواب گھر بھاگتا ہوں۔‘‘
ہیرا۔ ’’یہ جانے بھی دے گا اتنا سوچ لو۔‘‘
موتی۔ ’’اسے مار گراتا ہوں۔ جب تک سنبھلے تب تک گھر جا پہنچیں گے۔‘‘
ہیرا۔ ’’نہیں ڈور کر تھان تک چلو۔ وہاں سے آگے نہ چلیں گے۔‘‘
دونوں مست ہو کر بچھڑوں کی طرح کُلیلیں کرتے ہوئے گھر کی طرف دوڑے اور اپنے تھان پر جا کر کھڑے ہو گئے۔ وہ آدمی بھی پیچھے پیچھے دوڑا آتا تھا۔
جھوری دروازہ پر بیٹھا دھوپ کھا رہا تھا۔ بیلوں کو دیکھتے ہی دوڑا۔ اور انھیں پیار کرنے لگا۔ بیلوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ایک جھوری کا ہاتھ چاٹ رہا تھا۔ دوسرا پیر۔
اس آدمی نے آ کر بیلوں کی رسّیاں پکڑ لیں۔ جھوری نے کہا۔ ’’یہ بیل میرے ہیں۔‘‘
’’تمھارے کیسے ہیں۔ میں نے نیلام میں لیے ہیں۔‘‘
جھوری ’’میرا خیال ہے چرا کر لائے ہو چپکے سے چلے جاؤ بیل میرے ہیں بیچوں گا تو بکیں گے، کسی کو میرے بیل کو بیچنے کا کیا حق ہے۔‘‘؟
’’میں نے تو خریدے ہیں۔‘‘
’’خریدے ہوں گے۔‘‘
اس پر وہ آدمی زبردستی بیلوں کولے جانے کے لیے آگے بڑھا۔ اسی وقت موتی نے سینگ چلایا۔ وہ آدمی پیچھے ہٹا۔ موتی نے تعاقب کیا۔ اور اسے ریلتا ہوا گاؤں کے باہر تک لے گیا۔ اور تب اس کا راستہ روک کھڑا ہو گیا وہ آدمی دور کھڑا دھمکیاں دیتا تھا۔ گالیاں دیتا تھا۔ پتھر پھینکتا تھا اور موتی اس کا راستہ روکے ہوئے تھا گاؤں کے لوگ یہ تماشہ دیکھتے تھے اور ہنستے تھے۔
جب وہ آدمی ہار کے چلا گیا تو موتی اکڑتا ہوا لوٹ آیا۔
ہیرا نے کہا۔ ’’میں ڈر رہا تھا کہ کہیں تم اسے مار نہ بیٹھو۔‘‘
موتی۔ ’’اگر نزدیک آتا تو ضرور مارتا۔‘‘
ہیرا۔ ’’اب نہ آئے گا۔‘‘
موتی۔ ’’آئے گا تو دور ہی سے خبر لوں گا۔ دیکھوں کیسے لے جاتا ہے۔‘‘
ذرا دیر میں ناند میں کھلی بھوسہ چوکر دانہ سب کچھ بھر دیا گیا۔ دونوں بیل کھانے لگے۔
جھوری کھڑا ان کی طرف دیکھتا اور خوش ہوتا تھا۔ بیسوں لڑکے تماشہ دیکھ رہے تھے ساراگاؤں مسکراتا معلوم ہوتا تھا۔
اسی وقت مالکن نے آ کر اپنے دونوں بیلوں کے ماتھے چوم لیے۔
٭٭٭
دو بہنیں
دو بہنیں دو سال بعد ایک تیسرے عزیز کے گھر ملیں۔ اور خوب رو دھو کر خاموش ہوئیں۔ تو بڑی بہن روپ کماری نے دیکھا کہ چھوٹی بہن رام دلاری سرسے پاؤں تک گہنوں سے لدی ہوئی ہے۔ کچھ اس کا رنگ کھل گیا۔ مزاج میں کچھ تمکنت آ گئی ہے اور بات چیت کرنے میں کچھ زیادہ مشاق ہو گئی ہے۔ بیش قیمت ساری اور بیلدار عنابی مخمل کے جمپر نے اس کے حسن کو اور بھی چمکا دیا ہے۔ وہی رام دلاری جو لڑکپن میں سر کے بال کھولے پھوہڑ سی اِدھر ادھر کھیلا کرتی تھی۔ آخری بار روپ کماری نے اسے اس کی شادی میں دیکھا تھا۔ دو سال قبل تک بھی اس کی شکل و صورت میں کچھ زیادہ تغّیر نہ ہوا تھا۔ لمبی تو ہو گئی تھی مگر تھی اتنی ہی دبلی۔ اتنی ہی زرد رو اتنی ہی بد تمیز ذرا ذرا سی بات پر روٹھنے والی۔ مگر آج تو کچھ حالت ہی اور تھی۔ جیسے کلی کھل گئی ہو۔ اور حسن اس نے کہاں چھپا رکھا تھا، نہیں نظروں کو دھوکا ہو رہا ہے۔ یہ حسن نہیں محض دیدہ زیبی ہے۔ ریشم مخمل اور سونے کی بدولت نقشہ تھوڑا ہی بدل جائے گا۔ پھر بھی وہ آنکھوں میں سمائی جاتی ہے۔ پچاسوں عورتیں جمع ہیں۔ مگر یہ سحر، یہ کشش اور کسی میں نہیں۔
اور اس کے دل میں حسد کا ایک شعلہ سا دہک اٹھا۔
کہیں آئینہ ملتا تو وہ ذرا اپنی صورت بھی دیکھتی۔ گھر سے چلتے وقت اس نے اپنی صورت دیکھی تھی۔ اسے چمکانے کے لیے جتنا صیقل کر سکتی تھی وہ کیا تھا لیکن اب وہ صورت جیسے یادداشت سے مٹ گئی ہے۔ اس کی محض ایک دھندلی سی پرچھائیں ذہن میں ہے اسے پھر سے دیکھنے کے لیے وہ بے قرار ہو رہی ہے۔ یوں تو اس کے ساتھ میک اپ کے لوازمات کے ساتھ آئینہ بھی ہے لیکن مجمع میں وہ آئینہ دیکھنے یا بناؤ سنگھار کرنے کی عادی نہیں ہے۔ یہ عورتیں دل میں خدا جانے کیا سمجھیں۔ یہاں کوئی آئینہ تو ہو گا ہی۔
ڈرائنگ روم میں تو ضرور ہو گا۔ وہ اٹھ کر ڈرائنگ روم میں گئی۔ اور قد آدم شیشہ میں اپنی صورت دیکھی اس کے خدوخال بے عیب ہیں۔ مگر وہ تازگی وہ شگفتگی وہ نظر فریبی نہیں ہے۔ رام دلاری آج کھلی ہے اور اسے کھلے ہوئے زمانہ ہو گیا لیکن اس خیال سے اسے تسکین نہیں ہوئی۔ وہ رام دلاری سے ہیٹی بن کر نہیں رہ سکتی۔ یہ مرد بھی کتنے احمق ہوتے ہیں کسی میں اصلی حسن کی پرکھ نہیں۔ انھیں تو جوانی، شوخی اور نفاست چاہیے۔ آنکھیں رکھ کر بھی اندھے بنتے ہیں۔ میرے کپڑوں میں رام دلاری کو کھڑا کر دو۔ پھر دیکھو۔ یہ سارا جادو کہاں اڑ گیا ہے۔ چڑیل سی نظر آئے۔ ان احمقوں کو کون سمجھائے۔
رام دلاری کے گھر والے تو اتنے خوش حال نہ تھے۔ شادی میں جو جوڑے اور زیور آئے تھے وہ بہت ہی دل شکن تھے۔ امارت کا کوئی دوسرا سامان ہی نہ تھا۔ اس کے سُسر ایک ریاست کے مختار عام تھے۔ اور شوہر کالج میں پڑھتا تھا۔ اس دو سال میں کیسے ہن برس گیا۔ کون جانے زیور کسی سے مانگ کر لائی ہو۔ کپڑے بھی دو چار دن کے لیے مانگ لیے ہوں۔ اسے یہ سوانگ مبارک رہے۔ میں جیسی ہوں ویسی ہی اچھی ہوں۔ اپنی حیثیت کو بڑھا کر دکھانے کا مرض کتنا بڑھتا جاتا ہے۔ گھر میں روٹیوں کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ لیکن اس طرح بن ٹھن کر نکلیں گی گویا کہیں کہ راجکماری ہیں۔ بساطیوں کے درزیوں کے اور بزاز کے تقاضے سہیں گی شوہر کی گھڑکیاں کھائیں گی۔ روئیں گی روٹھیں گی۔ مگر نمائش کے جنون کو نہیں روک سکیں۔ گھر والے بھی سوچتے ہوں گے کتنی چھچھوری طبیعت ہے اس کی مگر یہاں تو بے حیائی پر کمر باندھ لی۔ کوئی کتنا ہی ہنسے بے حیا کی بلا دور۔ بس یہی دھن سوار ہے کہ جدھر سے نکل جائیں ادھر اس کی خوب تعریفیں کی جائیں۔ رام دلاری نے ضرور کسی سے زیور اور کپڑے مانگ لیے ہیں۔ بے شرم جو ہے۔ اس کے چہرے پر غرور کی سرخی جھلک پڑی۔ نہ سہی اس کے پاس زیور اور کپڑے کسی کے سامنے شرمندہ تو نہیں ہونا پڑتا۔ ایک ایک لاکھ کے تو اس کے دو لڑکے ہیں۔ بھگوان انھیں زندہ سلامت رکھے۔ وہ اسی میں خوش ہے۔ خود اچھا پہن لینے اور اچھا کھا لینے ہی سے تو زندگی کا مقصد پورا نہیں ہو جاتا۔ اس کے گھر والے غریب ہیں پر عزّت تو ہے کسی کا گلہ تو نہیں دباتے۔ کسی کی بد دعا تو نہیں لیتے۔
اس طرح اپنا دل مضبوط کر کے وہ پھر برآمدے میں آئی تو رام دلاری نے جیسے رحم کی آنکھوں سے دیکھ کر کہا۔
’’جیجا جی کی کچھ ترقی ورقی ہوئی کہ نہیں بہن۔، یا ابھی تک وہی پچھتّر پر قلم گھس رہے ہیں۔‘‘
روپ کماری کے بدن میں آگ سی لگ گئی۔ افوہ رے دماغ۔ گویا اس کا شوہر لاٹ ہی تو ہے۔ اکڑ کر بولی۔ ’’ترقی کیوں نہیں ہوئی۔ ا ب سو کے گریڈ میں ہیں۔ آج کل یہ بھی غنیمت ہے۔ میں تو اچھے اچھے ایم۔ اے پاسوں کو دیکھتی ہوں کہ کوئی ٹکے کو نہیں پوچھتا۔ تیرا شوہر اب بی۔ اے میں ہو گا۔‘‘
انھوں نے تو پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ بہن! پڑھ کر اوقات خراب کرنا تھا اور کیا ایک کمپنی کے ایجنٹ ہو گئے ہیں۔ اب ڈھائی سو روپیہ ماہوار کماتے ہیں۔ کمیشن اوپر سے۔ پانچ روپیہ روز سفر خرچ کے بھی ملتے ہیں۔ یہ سمجھ لو پانچ سو کا اوسط پڑ جاتا ہے۔ ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار تو ان کا ذاتی خرچ ہے۔ بہن! اونچے عہدہ پر ہیں تو اچھی حیثیت بھی بنائے رکھنی لازم ہے۔ ساڑھے تین سو روپیہ بے داغ گھر دے دیتے ہیں۔ اس میں سو روپے مجھے ملتے ہیں۔ ڈھائی سو میں گھر کا خرچ خوش فعلی سے چل جاتا ہے۔ ایم۔ اے پاس کر کے کیا کرتے۔‘‘
روپ کماری اسے شیخ چلی کی داستان سے زیادہ وقعت نہیں دینا چاہتی تھی۔ مگر رام دلاری کے لہجے میں اتنی صداقت ہے کہ تحت الشعور میں اس سے متاثر ہو رہی ہے۔ اور اس کے چہرے پر خفّت اور شکست کی بدمزگی صاف جھلک رہی ہے۔ مگر اسے اپنے ہوش وحواس کو قائم رکھنا ہے۔ تو اس اثر کو دل سے مٹا دینا پڑے گا۔ اسے جرحوں سے اپنے دل کو یقین کرا دینا پڑے گا کہ اس میں ایک چوتھائی سےز یادہ حقیقت نہیں ہے۔ وہاں تک وہ برداشت کرے گی۔ اس سے زیادہ کیسے برداشت کر سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کے دل میں دھڑکن بھی ہے کہ اگر یہ روداد سچ نکلی تو وہ کیسے رام دلاری کو منہ دکھا سکے گی۔ اسے اندیشہ ہے کہ کہیں اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑیں۔ کہاں پچھتّر اور کہاں پانچ سو، اتنی رقم ضمیر کا خون کر کے بھی کیوں نہ ملے۔ پھر بھی روپ کماری اس کی متحّمل نہیں ہو سکتی۔ ضمیر کی قیمت زیادہ سے زیادہ سو روپیہ ہو سکتی ہے پانچ سو کسی حالت میں نہیں۔
اس نے تمسخر کے انداز سے پوچھا۔ ’’جب ایجنٹی میں اتنی تنخواہ اور بھتّے ملتے ہیں تو کالج بند کیوں نہیں ہو جاتے؟ ہزاروں لڑکے کیوں اپنی زندگی خراب کرتے ہیں۔‘‘
رام دلاری بہن کی خفت کا مزا اٹھاتی ہوئی بولی۔ ’’بہن تم یہاں غلطی کر رہی ہو ایم۔ اے تو سب ہی پاس ہو سکتے ہیں۔ مگر ایجنٹی کرنی کس کو آتی ہے۔ یہ خدا داد ملکہ ہے۔ کوئی زندگی بھر پڑھتا رہے۔ مگر ضروری نہیں کہ وہ اچھا ایجنٹ ہو جائے۔ روپیہ پیدا کرنا دوسری چیز ہے علمی فضیلت حاصل کرنا دوسری چیز ہے اپنے مال کی خوبی کا یقین پیدا کر دینا یا ذہن نشین کرا دینا کہ اس سے ارزاں اور دیرپا چیز بازار میں مل ہی نہیں سکتی آسان کام نہیں ہے۔ ایک سے ایک گاہکوں سے ان کا سابقہ پڑتا ہے۔ بڑے بڑے راجاؤں اور رئیسوں کی تالیف قلب کرنی پڑتی ہے۔ اوروں کی تو ان راجاؤں اور نوابوں کے سامنے جانے کی ہمّت بھی نہ پڑے اورکسی طرح پہنچ جائیں تو زبان نہ نکلے۔ شروع شروع میں انھیں بھی جھجھک ہوئی تھی۔ مگر اب تو اس دریا کے مگر ہیں۔ اگلے سال ترقی ہونے والی ہے۔‘‘
روپ کماری کی رگوں میں جیسے خون کی حرکت بند ہوئی جا رہی ہے۔ ظالم آسمان کیوں نہیں گر پڑتا۔ بے رحم زمین کیوں نہیں پھٹ جاتی۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ روپ کماری جو حسین ہے تمیزدار ہے کفایت شعار ہے اپنے شوہر پر جان دیتی ہے بچوں کو یہ جان سے عزیز سمجھتی ہے اس کی خستہ حالی میں بسر ہو اور یہ بدتمیز، تن پرور چنچل چھوکری رانی بن جائے۔ مگر اب بھی کچھ امید باقی تھی۔ شاید اس کی تسکین قلب کا کوئی راستہ نکل آئے۔
اسی تمسخر کے انداز سے بولی۔ ’’تب تو شاید ایک ہزار ملنے لگیں۔‘‘
ایک ہزار تو نہیں مگر چھ سو میں شبہہ نہیں۔‘‘
کوئی آنکھ کا اندھا مالک بن گیا ہو گا؟
بیوپاری آنکھ کے اندھے نہیں ہوتے۔ جب تم انھیں چھ ہزار کما کر دو تب کہیں چھ سو ملیں۔ جو ساری دنیا کو چرائے اسے کوئی کیا بیوقوف بنائے گا۔‘‘
تمسخر سے کام چلتے نہ دیکھ کر روپ کماری نے تحقیر شروع کی۔ میں تو اس کو بہت معزز پیشہ نہیں سمجھتی۔ سارے دن جھوٹ کے طومار باندھو۔ یہ ٹھیک بدیا ہے۔‘‘
رام دلاری زور سے ہنسی روپ کماری پر اس نے کامل فتح پائی تھی۔ اس طرح تو جتنے وکیل بیرسٹر ہیں سبھی ٹھیک بدیا کرتے ہیں اپنے موکل کے فائدے کے لیے انھیں جھوٹی شہادتیں تک بنانی پڑتی ہیں۔ مگر ان ہی وکیلوں کو ہم اپنا لیڈر کہتے ہیں۔ انھیں اپنی قومی سبھاؤں کا صدر بناتے ہیں۔ ان کی گاڑیاں کھینچتے ہیں ان پر پھولوں کی اور زر و جواہر کی برکھا کرتے ہیں۔ آج کل دنیا پیسہ دیکھتی ہے، پیسے کیسے آئیں۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا۔ جس کے پاس پیسہ ہو اس کی پوجا ہوتی ہے۔ جو بدنصیب ہیں، ناقابل ہیں، پست ہمت ہیں، ضمیر اور اخلاق کی دہائی دے کر اپنے آنسو پونچھ لیتے ہیں۔ ور نہ ضمیر اور اخلاق کو کون پوچھتا ہے۔
روپ کماری خاموش ہو گئی۔ اب یہ حقیقت اس کی ساری تلخیوں کے ساتھ تسلیم کرنی پڑے گی کہ رام دلاری اس سے زیادہ خوش نصیب ہے۔ اس سے مرم نہیں۔ تمسخر یا تحقیر سے وہ اپنی تنگ دلی کے اظہار کے سوا اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتی۔ اسے بہانے سے رام دلاری کے گھر جا کر اصلیت کی چھان بین کرنی پڑے گی۔ اگر رام دلاری واقعی لکشمی کا بردان پا گئی ہے۔ تو وہ اپنی قسمت ٹھونک کر بیٹھ رہے گی۔ سمجھ لے کہ دینا میں کہیں انصاف نہیں ہے۔ کہیں ایمانداری کی قدر نہیں ہے۔ مگر کیا سچ مچ اس خیال سے اسے تسکین ہو گی۔ یہاں کون ایماندار ہے۔ وہی جسے بے ایمانی کا موقعہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی اتنی ہمت ہے کہ وہ موقعہ پیدا کر لے۔ اس کے شوہر پچھتّر روپے ماہوار پاتے ہیں۔ مگر کیا دس بیس روپے اوپر سے مل جائیں تو وہ خوش ہوکے نہ لیں گے؟ ان کی ایمانداری اور اصول پروری اس وقت تک ہے جب تک موقعہ نہیں ملتا۔ جس دن موقعہ ملا ساری اصول پروری دھری رہ جائے گی۔ اور تب تک روپ کماری میں اتنی اخلاقی قوّت ہے کہ وہ اپنے شوہر کو ناجائز آمدنی سے روک دے۔ روکنا تو درکنار، وہ خوش ہو گی۔ شاید وہ اپنے شوہر کی پیٹھ ٹھونکے۔ ابھی ان کے دفتر سے واپسی کے وقت من مارے بیٹھی رہتی ہے۔ تب دروازے پر کھڑی ہو کر ان کا انتظار کرے گی اور جوں ہی وہ گھر میں آئیں گے ان کی جیبوں کی تلاشی لے گی۔
آنگن میں گانا بجانا ہو رہا تھا۔ رام دلاری امنگ کے ساتھ گا رہی تھی اور روپ کماری وہیں برآمدے میں اداس بیٹھی ہوئی تھی۔ نہ جانے کیوں اس کے سرمیں درد ہونے لگا تھا۔ کوئی گائے۔ کوئی ناچے اسے کوئی سروکار نہیں۔ وہ تو بدنصیب ہے رونے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔
نو بجے رات کے مہمان رخصت ہونے لگے۔ روپ کماری بھی اٹھی یکّہ منگوانے جا رہی تھی کہ رام دلاری نے کہا۔
یکّہ منگوا کر کیا کرو گی بہن مجھے لینے کے لیے ابھی کار آتی ہو گی دو چار دن میرے یہاں رہو پھر چلی جانا۔ میں جیجا جی کو کہلا بھیجوں گی۔‘‘
روپ کماری کا آخری حربہ بھی بے کار ہو گیا۔ رام دلاری کے گھر جا کر دریافت حال کی خواہش یکایک فنا ہو گئی۔ وہ اب اپنے گھر جائے گی۔ اور منہ ڈھانپ کر پڑ رہے گی۔ ان پھٹے حالوں کیوں کسی کے گھر جائے۔ بولی ابھی تو مجھے فرصت نہیں ہے پھر کبھی آؤں گی۔‘‘
’’کیا رات بھر بھی نہ ٹھہرو گی۔‘‘
’’نہیں میرے سر میں زور کا درد ہو رہا ہے۔‘‘
’’اچھا بتاؤ۔ کب آؤ گی۔ میں سواری بھیج دوں گی۔‘‘
’’میں خود کہلا بھیجوں گی۔‘‘
تمھیں یاد نہ رہے گی۔ سال بھر ہو گیا۔ بھول کر بھی نہ یاد کیا۔ میں اسی انتظار میں تھی کہ دیدی بلائیں تو چلوں۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہیں پھر بھی اتنی دور کہ سال بھر گزر جائے اور ملاقات نہ ہو۔‘‘
’’گھر کی فکروں سے فرصت ہی نہیں ملتی کئی بار ارادہ کیا کہ تجھے بلا بھیجوں مگر موقعہ ہی نہ ملا۔‘‘
اتنے میں رام دلاری کے شوہر مسٹر گرو سیوک نے آ کر بڑی سالی کو سلام کیا۔ بالکل انگریزی وضع تھی۔ کلائی پر سونے کی گھڑی۔ آنکھوں پر سنہری عینک بالکل اپ ٹوڈیٹ، جیسے کوئی تازہ وارد سوینیی ہو۔ چہرے سے ذہانت، متانت اور شرافت برس رہی تھی۔ وہ اتناخوش رو اور جامہ زیب ہے۔ روپ کماری کو اس بات کا گمان بھی نہ تھا۔
دعا دے کر بولی۔ ’’آج یہاں نہ آتی تو تم سے ملاقات کیوں ہوتی۔‘‘
گروسیوک ہنس کر بولا۔ ’’بجا فرماتی ہیں۔ الٹی شکایت کبھی آپ نے بلایا اور میں نہ گیا۔‘‘
’’میں نہ جانتی تھی کہ تم اپنے کو مہمان سمجھے ہو۔ وہ بھی تمھارا ہی گھر ہے۔‘‘
’’اب مان گیا بھابی صاحب بے شک میری غلطی ہے۔ انشا اللہ اس کی تلافی کروں گا۔ مگر آج ہمارے گھر رہئے۔‘‘
’’نہیں آج بالکل فرصت نہیں ہے پھر آؤں گی لڑکے گھر پر گھبرا رہے ہوں گے۔‘‘
رام دلاری بولی۔ ’’میں کتنا کہہ کر ہار گئی مانتی ہی نہیں۔‘‘
دونوں بہنیں کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئیں۔ گروسیوک ڈرائیو کرتا ہوا چلا۔ ذرا دیر میں اس کا مکان آ گیا۔ رام دلاری نے پھر روپ کماری سے چلنے کے لیے اصرار کیا مگر وہ نہ مانی۔ لڑکے گھبرا رہے ہوں گے۔ آخر رام دلاری اس سے گلے مل کر اندر چلی گئی۔ گرو سیوک نے کار بڑھائی روپ کماری نے اڑتی ہوئی نگاہ سے رام دلاری کا مکان دیکھا، اور ٹھوس حقیقت سلاخ کی طرح اس کے جگر میں چبھ گئی۔ کچھ دور چل کر گرو سیوک بولا۔
بھابی میں نے اپنے لیے کیسا اچھا راستہ نکال لیا دو چار سال کام چل گیا تو آدمی بن جاؤں گا۔‘‘
روپ کماری نے ہمدردانہ لہجہ میں کہا۔ ’’رام دلاری نے مجھ سے کہا۔ بھگوان جہاں رہو خوش رہو۔ ذرا ہاتھ پیر سنبھال کر رہنا۔‘‘
میں مالک کی آنکھ بچا کر ایک پیسہ لینا بھی گناہ سمجھتا ہوں۔ دولت کا مزا تو جب ہے کہ ایمان سلامت رہے۔ ایمان کھو کے پیسے ملے تو کیا۔ میں ایسی دولت پر لعنت بھیجتا ہوں۔ اور آنکھیں کس کی بچاؤں۔ سب سیاہ سفید تو میرے ہاتھ میں ہے مالک تو کوئی ہے نہیں۔ اس کی بیوہ ہے۔ اس نے سب کچھ میرے ہاتھ میں چھوڑ رکھا ہے میں نے اس کا کاروبار سنبھال نہ لیا ہوتا تو سب کچھ چوپٹ ہو جاتا۔ میرے سامنے تو مالک صرف تین مہینے زندہ رہے۔ مگر بڑا مردم شناس آدمی تھا۔ مجھے سو روپے پر رکھا اور ایک ہی مہینے میں اڑھائی سو کر دیا۔ آپ لوگوں کی دعا سے میں نے پہلے ہی مہینے میں بارہ ہزار کا کام کیا۔
’’کام کیا کرنا پڑتا ہے۔؟‘‘
’’وہی مشینوں کی ایجنسی۔ طرح طرح کی مشینیں منگانا اور بیچنا۔‘‘
روپ کماری کا منحوس گھر آ گیا دروازے پر ایک لالٹین ٹمٹما رہی تھی اس کے شوہر بابو اما ناتھ دروازے پر ٹہل رہے تھے۔ روپ کماری اتری مگر اس نے گرو سیوک سے آنے کے لیے اصرار نہ کیا بے دلی سے کہا ضرور۔ مگر زور نہ دیا اور اما ناتھ تو مخاطب ہی نہ ہوئے۔‘‘
روپ کماری کو وہ گھر اب قبرستان سا لگ رہا تھا۔ جیسے پھوٹا ہوا نصیب ہو، نہ کہیں فرش نہ فرنیچر نہ گملے۔ دو چار ٹوٹی کرسیاں، ایک لنگڑی میز، چار پانچ پرانی دھرانی کھاٹیں۔ یہی اس کے گھر کی بساط تھی۔ آج صبح تک روپ کماری اس گھر میں خوش تھی۔ لیکن اب اسے اس گھر سے مطلق دلچسپی نہ رہی۔ لڑکے اماں اماں کر کے دوڑے۔ مگر اس نے دونوں کو جھڑک دیا۔ سر میں درد ہے وہ کسی سے نہ بولے گی۔ ابھی تک کھانا نہیں پکایا۔ پکاتا کون؟ لڑکوں نے تو دودھ پی لیا ہے مگر اماناتھ نے کچھ نہیں کھایا۔ اسی انتظار میں تھے کہ روپ کماری آئے مگر روپ کماری کے سر میں درد ہے مجبوراً بازار سے پوریاں لانی پڑیں گی۔
روپ کماری نے ملامت آمیز انداز سے کہا۔ تم اب تک میرا انتظار کیوں کرتے رہے میں نے کھانا پکانے کا ٹھیکہ تو نہیں لیا ہے۔ اور جو رات بھر وہیں رہ جاتی؟ آخر ایک مہراجن کیوں نہیں رکھ لیتے۔ یا زندگی بھر مجھی کو پیستے رہو گے؟‘‘
اماناتھ نے اس کی طرف مظلوم اور پرسوال حیرت کی نگاہ ڈالی۔ اس کی برہمی کا کوئی سبب ان کو سمجھ نہ آیا۔ روپ کماری سے انھوں نے ہمیشہ بے عذر اطاعت پائی تھی۔ بے عذر ہی نہیں خوش دلانہ بھی۔ انھوں نے کئی باراس سے مہراجن رکھ لینے کی تجویزاور خواہش ظاہر کی تھی مگر اس نے ہمیشہ یہی کہا کہ آخر میں بیٹھے بیٹھے کیا کروں گی؟ چار پانچ روپے کا خرچ بڑھانے سے کیا فائدہ یہ رقم تو بچ رہے گی تو بچوں کے لیے مکھن آ جائے گا۔ اور آج وہ اتنی بے دردی سے شکایت کر رہی ہے۔
اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے بولے۔ ’’مہراجن رکھنے کے لیے میں نے تم سے کئی بار کہا‘‘
’’تولا کر کیوں نہ دیا۔ میں اسے نکال دیتی تو کہتے۔‘‘
’’ہاں یہ غلطی ہوئی۔‘‘
تم نے کبھی سچّے دل سے نہیں کہا۔ محض مہراجن لینے کے لیے کہا تمھارے دل میں کبھی میرے آرام کا خیال آیا ہی نہیں۔ تم تو خوش تھے کہ اچھی لونڈی مل گئی ہے ایک روٹی کھاتی ہے اور چپ چاپ پڑی رہتی ہے۔ اتنی سستی لونڈی اور کہاں ملتی۔ محض کھانے اور کپڑے پر۔ وہ بھی جب گھر بھر کی ضرورتوں سے بچے پچھتّر روپلیاں لا کر میرے ہاتھ میں رکھ دیتے ہو اور ساری دنیا کا خرچ۔ میرا دل ہی جانتا ہے کہ مجھے کتنی کتر بیونت کرنی پڑتی ہے کیا پہنوں کیا اوڑھوں۔ تمھارے ساتھ زندگی خراب ہو گئی۔ وہ مرد ہی ہوتے ہیں جو بیویوں کے لیے آسمان کے تارے توڑ کر لاتے ہیں۔ گروسیوک ہی کو دیکھو۔ تم سے کم پڑھا ہے۔ عمر میں تم سے کہیں چھوٹا ہے۔ مگر پانچ سو روپیہ مہینہ لاتا ہے اور رام دلاری رانی بنی بیٹھی ہے تمھارے لیے یہ ہی پچھتّر بہت ہیں۔ رانڈ مانڈ میں ہی خوش۔ تم ناحق مرد ہوئے تمہیں تو عورت ہونا چاہئے تھا۔ اوروں کے دل میں کیسے کیسے ارمان ہوتے ہیں مگر میں تو تمھارے لیے گھر کی مرغی، باسی ساگ ہوں۔ تمھیں کوئی تکلیف ہوتی ہی نہیں۔ تمھیں تو کپڑے بھی اچھے چاہئے، کھانا بھی اچھا چاہیے کیوں کہ تم مرد ہو۔ باہر سے کما کر لاتے ہو۔ میں چاہے جیسے رہوں تمھاری بلاسے۔۔۔‘‘
یہ سلسلہ کئی منٹ تک جاری رہا۔ اور بے چارے اماناتھ خاموش سنتے رہے۔ اپنی دانست میں انھوں نے روپ کماری کو شکایت کا کوئی موقعہ نہیں دیا ان کی تنخواہ کم ہے ضرور مگر یہ ان کے بس کی بات تو ہے نہیں۔ وہ دل لگا کر اپنا کام کرتے ہیں۔ افسروں کو خوش رکھنے کی ہمیشہ کوشش کرتے ہیں۔ اس سال بڑے بابو کے چھوٹے صاحبزادے کو چھ مہینے تک بلا ناغا پڑھایا۔ اسی لیے تو وہ خوش ہیں اور اب کیا کریں۔ روپ کماری کی برہمی کا راز تو انھیں معلوم ہو گیا۔ اگر گرو سیوک پانچ سو روپیہ لاتا ہے تو بے شک خوش نصیب ہے۔ لیکن دوسروں کی اونچی پیشانی دیکھ کر اپنا ما تھا تو نہیں پھوڑا جاتا اسے یہ موقعہ مل گیا دوسروں کو یہ موقعے کہاں ملتے ہیں۔ وہ تحقیق کریں گے کہ واقعی اسے پانچ سو ملتے ہیں یا محض گپ ہے اور بالفرض ملتے ہوں گے تو اس پر کیا روپ کماری کو یہ حق ہے کہ انھیں نشانۂ ملامت بنائے اگر وہ اسی طرح روپ کماری سے زیادہ حسین، زیادہ خوش سلیقہ عورت دیکھ کر اسے کوسنا شروع کر دیں تو کیسا ہو۔ روپ کماری حسین ہے۔ شیریں زبان ہے۔ خوش مذاق ہے۔ بے شک۔ لیکن اس سے زیادہ حسین زیادہ شیریں زبان، زیادہ خوش مذاق عورت دنیا میں معدوم نہیں ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ان کی نظروں میں روپ کماری سے زیادہ حسین عورت دینا میں نہ تھی، لیکن وہ جنون اب باقی نہیں رہا۔ جذبات کی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں آئے انھیں ایک مدت گزر گئی اب تو انھیں ازدواجی زندگی کا کافی تجربہ ہے۔ ایک دوسرے کے عیب و ہنر معلوم ہو گئے ہیں۔ اب تو صابر و شاکر رہ کر ہی ان کی زندگی عافیت سے کٹ سکتی ہے۔ روپ کماری اتنی موٹی سی بات بھی نہیں سمجھتی۔
پھر بھی انھیں روپ کماری سے ہمدردی ہوئی۔ اس کی سخت کلامیوں کا انھوں نے کچھ جواب نہ دیا۔ شربت کی طرح پی گئے۔ اپنی بہن کا ٹھاٹ دیکھ کر ایک لمحہ کے لیے روپ کماری کے دل میں ایسے دل شکن، مایوس کن غیر منصفانہ خیالات کا پیدا ہونا بالکل فطری ہے۔ وہ کوئی فلا سفر نہیں۔ تارک الدنیا نہیں کہ ہر حال میں اپنے طبعی سکون کو قائم رکھے۔ اس طرح اپنے دل کو سمجھا کر اماناتھ دریافتِ حال کی مہم کے لیے آمادہ ہو گئے۔
ایک ہفتہ تک روپ کماری ہیجان کی حالت میں رہی۔ بات بات پر جھنجھلاتی۔ لڑکوں کو ڈانٹتی شوہر کو کوستی، اپنی تقدیر کو روتی۔ گھر کا کام تو کرنا ہی پڑتا تھا۔ ورنہ نئی آفت آ جاتی لیکن اب کسی کام سے اسے دلچسپی نہ تھی۔ گھر کی جن پرانی دھرانی چیزوں سے اسے دلی تعلق ہو گیا تھا جن کی صفائی اور سجاوٹ میں وہ منہمک رہا کرتی تھی۔ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتی۔ گھر میں ایک ہی خدمت گار تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ بہو جی خود گھر کی طرف سے لا پرواہ ہیں تو اسے کیا غرض تھی کہ صفائی کرتا۔ دونوں بچے بھی ماں سے بولتے ڈرتے تھے۔ اور اماناتھ تو اس کے سایہ سے بھی بھا گتے تھے۔ جو کچھ ان کے سامنے آ جاتا زہر مار کر لیتے اور دفتر چلے جاتے۔ دفتر سے لوٹ کر دونوں بچوں کو ساتھ لے کر اور کہیں گھومنے نکل جاتے۔ روپ کماری سے کچھ بولتے روح فنا ہوتی تھی۔ ہاں ان کی تفتیش جاری تھی۔
ایک دن اماناتھ دفتر سے لوٹے تو ان کے ساتھ گروسیوک بھی تھے۔ روپ کماری نے آج کئی دن کے بعد زمانہ سے مصالحت کر لی تھی اوراس وقت سے جھاڑن لیے کرسیاں اور تپائیاں صاف کر رہی تھی کہ گروسیوک نے اسے اندر پہنچ کر سلام کیا۔ روپ کماری دل میں کٹ گئی۔ اماناتھ پر بے حد غصّہ آیا۔ انھیں یہاں لا کر کیوں کھڑا کر دیا۔ نہ کہنا نہ سننا۔ بس بلا لائے اسے اس حالت میں دیکھ کر گروسیوک نے دل میں کیا سمجھا ہو گا۔ مگر انھیں عقل آئی ہی کب تھی۔ وہ اپنا پردہ ڈھانکتی پھرتی ہے اور آپ اسے کھولتے پھرتے ہیں۔ ذرا بھی شرم نہیں۔ جیسے بے حیائی کا جامعہ پہن لیا ہے۔ خوامخواہ اسے ذلیل کرتے ہیں۔
دعا دے کر عافیت پوچھی اور کرسی رکھ دی۔ گروسیوک نے بیٹھے ہوئے کہا آج بھائی صاحب نے میری دعوت کی ہے میں ان کی دعوت پر تو نہ آتا۔ لیکن انھوں نے کہا کہ تمھاری بھابی کا سخت تقاضہ ہے۔ تب وقت نکالنا پڑا۔
روپ کماری نے بات بنائی ’’تم سے اس دن رواروی میں ملاقات ہوئی دیکھنے کو جی لگا ہوا تھا۔‘‘
گروسیوک نے در و دیوار پر نظر ڈالی اور کہا۔ ’’اس پنجرے میں تو آپ لوگوں کو بڑی تکلیف ہوتی ہو گی۔‘‘
روپ کماری کو اب معلوم ہوا کہ یہ کتنا بد مذاق ہے۔ دوسروں کے جذبات کی اسے بالکل پرواہ نہیں۔ یہ اتنی سی بات بھی نہیں سمجھتا ہے کہ دینا میں سبھی تقدیر والے نہیں ہوتے۔ لاکھوں میں کہیں ایک ایسا بھاگوان نکلتا ہے کسی قدر ترش ہو کر بولی،
’’پنجرے میں رہنا کٹگھرے میں رہنے سے اچھا ہے۔ پنجرے میں معصوم چڑیاں رہتی ہیں۔ کٹگھر تو درندوں کا مسکن ہوتا ہے۔‘‘
گرو سیوک کنایہ نہ سمجھ سکا بولا۔ ’’مجھے تو اس گھر میں حبس ہو جائے۔ دم گھٹ جائے۔ میں آپ کے لیے اپنے گھر کے پاس ایک گھر طے کر دوں گا خوب لمبا چوڑا۔ آپ سے کچھ کرایہ نہ لیا جائے گا۔ مکان ہماری مالکن کا ہے۔ میں بھی تو اسی کے مکان میں رہتا ہوں۔ سینکڑوں مکان ہیں اس کے پاس سینکڑوں سب میرے اختیار میں ہیں۔ جس کو جو مکان چاہوں دے دوں۔ میرے اختیار میں ہے کرایہ لوں یا نہ لوں۔ میں آپ کے لیے اچھاسا مکان ٹھیک کر دوں گا۔ جو سب سے اچھا ہے میں آپ کا بہت ادب کرتا ہوں۔‘‘
روپ کماری سمجھ گئی۔ حضرت اس وقت نشہ میں ہیں۔ جب ہی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ ان کی آنکھیں سکڑ گئیں ہیں۔ رخسار کچھ پھول گئے تھے۔ زبان میں ہلکی سی لغزش تھی۔ جو ہر لمحہ نمایاں ہوتی جاتی تھی۔ ایک جوان، خوبصورت، شریف چہرہ، رکیک اور بے غیرت بن گیا تھا۔ جسے دیکھ کر نفرت ہوتی تھی۔
اس نے ایک لمحہ بعد پھر بہکنا شروع کیا۔ میں آپ کا بہت ادب کرتا ہوں۔ آپ میری بڑی بھابی ہیں۔ آپ کے لیے میری جان حاضر ہے۔ آپ کے لیے مکان کا انتظام کرنا میرے لیے کچھ مشکل نہیں۔ میں مسز لوہیا کا مختار ہوں۔ سب کچھ میرے اختیار میں ہے سب کچھ، میں جو کچھ کہتا ہوں وہ آنکھیں بند کر کے منظور کر لیتی ہیں۔ مجھے اپنا بیٹا سمجھتی ہے۔ میں ان کی ساری جائداد کا مالک ہوں۔ مسڑ لوہیا نے مجھے بیس روپیہ کا نوکر رکھا تھا۔ بڑا مالدار آدمی تھا مگر یہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس کی دولت کہاں سے آتی تھی۔ کسی کو معلوم نہیں۔ میرے سوا کوئی جانتا نہیں۔ وہ خفیہ فروش ہے۔ کسی سے کہنا نہیں۔ وہ خفیہ فروش تھا۔ کوکین بیچتا تھا۔ لاکھوں کی آمدنی تھی اس کی۔ میں بھی اب وہی کام کرتا ہوں۔ ہر شہر میں ہمارے ایجنٹ ہیں۔ مسڑ لوہیا نے مجھے اس فن میں یکتا کر دیا۔ جی ہاں مجال نہیں کہ مجھے کوئی گرفتار کر لے۔ بڑے بڑے افسروں سے میرا یارانہ ہے۔ ان کے منہ میں نوٹوں کے پلندے ٹھونس ٹھونس کر ان کی آواز بند کر دیتا ہوں۔ کوئی چوں نہیں کر سکتا حساب میں لکھتا ہوں ایک ہزار دیتا ہوں پانچ سو باقی یاروں کا ہے۔ بے دریغ روپے آتے ہیں۔ بے دریغ خرچ کرتا ہوں۔ بڑھیا کو تو رام نام سے مطلب ہے۔ سادھو سنتوں کی سیوا میں لگی رہتی ہے اور بندہ چین کرتا ہے۔ جتنا چاہوں خرچ کروں۔ کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔ کوئی بولنے والا نہیں۔ (جیب سے ایک نوٹوں کا بنڈل نکال کر)یہ آپ کے قدموں کا صدقہ ہے مجھے دعا دیجئے۔ جو ایمان اور اصول کے اپا سک ہیں۔ انھیں دولت لات مارتی ہے۔ دولت تو انھیں پکڑتی ہے جو اس کے لیے اپنا دین ایمان سب کچھ نثار کرنے کو تیار ہیں۔ مجھے برا نہ کہئے۔ جتنے دولت مند ہیں سب لٹیرے ہیں۔ میں بھی انھیں میں ایک ہوں۔ کل میرے پاس روپے ہو جائیں اور میں ایک دھرم شالہ بنوا دوں۔ پھر دیکھئے میری کتنی واہ واہ ہوتی ہے۔ کون پوچھتا ہے۔ مجھے یہ دولت کہاں سے ملی۔ ایک وکیل گھنٹہ بھر بحث کر کے ایک ہزار سیدھا کر لیتا ہے۔ ایک ڈاکٹر ذرا سا نشتر لگا کر پانچ سو روپیہ مار لیتا ہے۔ اگر ان کی آمدنی جائز ہے تو میری آمدنی بھی جائز ہے۔ جی ہاں جائز ہے۔ ضرورت مندوں کو لوٹ کر مالدار ہو جانا ہماری سوسائٹی کا پرانا دستور ہے۔ میں بھی وہی کرتا ہوں جو دوسرے کرتے ہیں۔ زندگی کا مقصد ہے عیش کرنا۔ میں بھی لوٹوں گا۔ عیش کروں گا اور خیرات کروں گا۔ ایک دن لیڈر بن جاؤں گا۔ کہئے تو گنوا دوں۔ یہاں کتنے لوگ جوا کھیل کر کروڑ پتی ہو گئے۔ کتنے عورتوں کا بازار لگا کر کروڑ پتی ہو گئے۔
اماناتھ نے آ کر کہا۔ ’’مسڑ گرو سیوک کیا کر رہے ہو۔ چلو چائے پی لو۔ ٹھنڈی ہو رہی ہے۔‘‘
گروسیوک اٹھا۔ پیر لڑکھڑائے اور زمین پر گر پڑا۔ پھر سنبھل کر اٹھا اور جھومتا جھامتا ٹھوکریں کھاتا باہر چلا گیا۔ روپ کماری نے آزادی کا سانس لیا۔ یہاں بیٹھے بیٹھے اس کا دم گھٹ رہا تھا۔ کمرہ کی ہوا جیسے کچھ بھاری ہو گئی تھی۔ جو ترغیبیں کئی دن سے اچھے اچھے دل آویز روپ بھر کر اس کے سامنے آ رہی تھیں۔ آج اسے ان کی اصلی مکر وہ گھناؤنی صورت نظر آئی۔ جس سادگی، خلوص اور ایثار کی فضا میں اب تک زندگی گزر رہی تھی اس میں حرام کاری اور آبلہ فریبی کا گزر نہ تھا۔ ان داموں میں وہ دنیا کی ساری دولت اور سارے عیش بھی خریدنے کو آمادہ نہ ہو سکتی تھی۔ اب وہ رام دلاری کی تقدیر سے اپنی تقدیر کا بدلہ نہ کرے گی۔ وہ اپنے حال میں خوش ہے۔ رام دلاری پر اسے رحم آیا۔ جو نمود و نمائش کے لیے اپنے ضمیر کا خون کر رہی ہے۔ مگر ایک ہی لمحہ میں گروسیوک کی طرف سے اس کا دل نرم پڑ گیا۔ جس سوسائٹی میں دولت پجتی ہے، جہاں انسان کی قیمت اس کے بینک اکاؤنٹ اور شان و شوکت سے ہانکی جاتی ہے۔ جہاں قدم قدم پر ترغیبوں کا جال بچھا ہوا ہے اور سوسائٹی کا نظام اتنا بے ڈھنگا ہے کہ انسان کی حد، غضب اور فرومائیگی کے جذبات کو اکساتا رہتا ہے۔ وہاں گرو سیوک اگر رو میں بہہ جائے تو تعجب کا مقام نہیں۔
اس وقت اماناتھ نے آ کر کہا۔ ’’یہاں بیٹھا بیٹھا کیا بک رہا تھا۔ میں نے تو اسے رخصت کر دیا۔ جی ڈرتا تھا کہیں اس کے پیچھے پولیس نہ لگی ہو۔ کہیں میں نا کردہ گناہ پکڑا نہ جاؤں گا۔‘‘
روپ کماری نے اس کی طرف معذرت خواہانہ نظر سے دیکھ کر جواب دیا۔ ’’وہی اپنی خفیہ فروشی کا ذکر کر رہا تھا۔‘‘
مجھے بھی مسز لوہیا سے ملنے کی دعوت دے گیا ہے۔ شاید کوئی اچھی جگہ مل جائے۔
جی نہیں آپ کلرکی کیے جائیے اسی میں آپ کی خیریت ہے۔
مگر کلرکی میں عیش کہاں۔ کیوں نہ سال بھر کی رخصت لے کر ذرا ادھر کا بھی لطف اٹھاؤں۔
مجھے اب وہ ہوس نہیں رہی۔
میں تم سے آ کر یہ قصّہ کہتا تو تمھیں یقین نہ آتا۔
ہاں یقین تو نہ آتا۔ میں تو قیاس بھی نہ کر سکتی کہ اپنے فائدے کے لیے کوئی آدمی دینا کو زہر کھلا سکتا ہے۔
مجھے سارا قصّہ معلوم ہو گیا تھا۔ میں نے اسے خوب شراب پلا دی کہ نشہ میں بہکنے لگے اور سب کچھ خود قبول کرے گا۔
للچائی تو تمھاری طبیعت بھی تھی۔
ہاں للچائی تو ہے مگر عیب کرنے کے لیے جس ہنر کی ضرورت ہے وہ کہاں سے لاؤں گا؟
ایشور نہ کرے وہ ہنر تم میں آئے مجھے تو اس بیچارے پر ترس آتا ہے معلوم نہیں راستہ میں اس پر کیا گزر رہی؟‘‘
نہیں وہ تو اپنی کار پر تھے۔
روپ کماری ایک منٹ تک زمین کی طرف دیکھتی رہی پھر بولی۔
تم مجھے دلاری کے گھر پہنچا دو ابھی شاید میں اس کی مدد کر سکوں۔ جس باغ کی وہ سیر کر رہی ہے اس کے چاروں طرف درندے گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ شاید میں اسے بچا سکوں۔‘‘
٭٭٭
تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
یہ حصہ:جلد دوم
جلد اول
جلد سوم
جلد چہارم