فہرست مضامین
- منتخب پنجابی کہانیاں
- ایک اور فالتو عورت ۔۔۔ اجیت کور
- ڈیڈ لائن ۔۔۔ پریم پرکاش
- اکائی ۔۔۔ سکھبیر
- سندیسہ ۔۔۔ نوتیج سنگھ پریتلڑی
- سانجھ ۔۔۔ گردیال سنگھ
- لوہے کا گیٹ ۔۔۔ رام سروپ انکھی
- پھرسوں کا موسم ۱۔۔ مہندر سنگھ سرنا
- ایک جیوی ایک رتنی، ایک خواب ۔۔۔ امرتا پریتم
- کھلے آسمان میں ۔۔۔ جسونت سنگھ وِردی
- سنساری ۔۔۔ گرمیت کڑیاوالی
منتخب پنجابی کہانیاں
حصہ اول
انتخاب و ترجمہ: عامر صدیقی
ڈاؤن لوڈ کریں
حصہ اول
حصہ دوم
ایک اور فالتو عورت ۔۔۔ اجیت کور
وہ اپریل کے شروعاتی دنوں کی ایک اداس شام تھی۔ تھکا دینے والی گرمی اور اُمس سے بھری ہوئی۔ ہم سڑکوں پر بھٹک رہے تھے۔ کچھ دیر ہم جن پتھ ہوٹل کے کافی لاونج میں بیٹھے رہے تھے۔ دھیرے دھیرے، بہت ہی دھیرے، کافی کے تین تین کپ ختم کئے تھے ہم نے۔ نہ جانے کتنا زمانہ ان تین پیالوں کے گھونٹوں کے بیچ میں سے پھسلتا، رینگتا ہوا گزر گیا تھا۔ آخر بچی تھی ایک کڑواہٹ اور خالی پن۔
دوسرا کپ اوم نے، اوم یعنی اوم پرکاش نے کیتلی میں سے انڈیلا تھا۔
کافی کا تھوڑا سا خالی پیالہ بھر کر جب وہ اس میں دودھ ڈالنے لگا تو میں نے کہا،‘‘نہیں، دودھ نہیں۔‘‘
’’چینی؟’’
’’چینی بھی نہیں۔‘‘
’’کالی کافی؟’’
’’ہوں۔‘‘
’’روسیوں کی طرح؟’’ اور اوم مسکرا دیا۔
مجھ سے جواب میں مسکرایا نہیں گیا۔ عجیب حالت تھی دل کی۔ اوم کی زندگی میں اپنے فالتو ہونے کا احساس، جس وقت بہت ٹیس پہنچاتا تھا تو میرا دل کرتا تھا، میں کوئی ایسی نشتر جیسی تیز بات کہوں کہ اس کا ثابت اور نارمل خول کٹ جائے۔ ایسے وقت اس کے باہری ثابت پن سے مجھے بڑی کوفت ہوتی تھی۔ کچھ تو ایسا ہو جو کاٹ دے، بیشک آدھا انچ ہی سہی، اس چکنے خول کو، غلاف کو۔ اندر کا گودڑ کہیں سے تو نظر آئے؟
مگر جب میں کترن کاٹ دیتی تھی، کترن بھی نہیں، ایک تیکھی، سیدھی لکیر، چمکتے تیز دھار والے چاقو سے کٹی ہوئی دراڑ، تو اس کی تلملاہٹ دیکھ کر مجھے افسوس ہونے لگتا تھا، اپنے کمینے پن پر۔
کیا چاہتی تھی میں؟ شاید کوئی بہت ہی معصوم چیز۔ جیسے ایک محبت کی گرماہٹ سے بھرا گھر، اس کے کسی کمرے کی خلوت میں اور قربت میں اوم کی چھاتی پر سر رکھ کر بیٹھی ہوئی میں۔ اور کتابیں، موسیقی اور۔۔۔ شاید کچھ اور بھی۔
جو چاہئے تھا، اس کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ بس، اتنا پتہ تھا کہ جو چاہئے، وہ نہیں ہے۔
اور اگر وہ نہیں تھا تو اس کی سراسر ذمے داری اوم کی تھی، کیونکہ سبھی اہم فیصلے اوم کے ہاتھوں میں ہی تھے۔
کافی کے تین پیالے ختم ہوتے ہوتے ساڑھے سات بج گئے تھے۔ اوم نے گھڑی دیکھی۔ جب بھی اوم کی ناک کے عین اوپر ماتھے کے عین درمیان میں، تین لکیریں پڑ جاتیں، تب وہ ایک ایسی گھڑی ہوتی تھی، جس میں کوئی بات وہ سمجھ نہیں پا رہا ہوتا تھا۔
تاہم ایسی گھڑی کبھی کبھی ہی آیا کرتی تھی۔ اکثر ہر بات ہر وقت اس کی سمجھ میں پوری طرح آ جاتی تھی۔ لگتا تھا جیسے آس پاس کی ہر چیز پر، ارد گرد بھٹکتی ہوئی ہوا پر بھی اس کی پوری اور کڑی گرفت ہو۔
ماتھے کے بیچ پڑنے والی ان تین لکیروں کو دیکھ کر اکثر اس پر مجھے بیحد رحم آ جاتا تھا۔ رحم اور پیار۔ دل پگھل کر بلا وجہ اس کی جانب بہنے لگتا تھا۔
’’کیوں، کیا سوچ رہے ہو؟’’
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’کوئی اپائنٹمنٹ تو یاد نہیں آ گئی؟’’ میں مسکرائی۔
(کمبخت عورت بھی ماں کے پیٹ سے ایکٹنگ سیکھ کر آتی ہے۔ اپنے مرد کو خوش کرنے کے لئے ایکٹنگ، اپنے لئے چھوٹی سے چھوٹی رعایت لینے کی خاطر ایکٹنگ۔ اڑوس پڑوس، رشتے داروں کی غمی خوشی میں ساتھ دینے کے وقت ایکٹنگ۔ اسی کو ’’تریا چرتر’’ کہتے ہیں؟ طعنے میں۔ ملامت میں۔ لیکن کیوں؟ اس میں جو محنت خرچ ہوتی ہے، اس کی مزدوری کا حساب کیوں نہیں کیا جاتا۔)
’’نہیں، نہیں۔‘‘ وہ فوراً بولا۔
’’پھر؟’’
’’تم نجومی کو کیسے پتہ چل جاتا ہے؟’’ اس نے برجستہ کہا اور مسکرا دیا۔
اوم مسکراتا تھا تو اس کے سامنے کے دو دانتوں کے کونوں پر کچھ چمکتا تھا۔ جیسے کھلی ہوئی دھوپ میں ریت میں پڑی سیپیاں چمک رہی ہوں۔۔۔۔۔ باقی دانت پیلی ریت کے رنگ کی طرح۔۔۔ بالکل عام سے، بلکہ تھوڑے تھوڑے بھدے بھی۔ لیکن آگے کے دونوں دانتوں کے کونے چاندی کے رنگے ہوئے سے۔ جیسے سیپیوں کے اندر کا رنگ۔ اوم کی چمک اس کے دماغ میں نہیں، آگے کے دونوں دانتوں میں تھیں۔ مجھے رجھانے کے لئے اوم کو مور کی مانند رقص کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بس، ایک مسکراہٹ میں اگلے دونوں دانتوں کو چمکانے کی دیر ہوتی تھی کہ میرا سارا جسم موم بتی کی طرح پگھلنے لگ جاتا تھا۔
’’نجومی نہیں، غیب دان۔‘‘
’’ہاں بابا، غیب دان۔‘‘
’’پھر بتاؤ کیا سوچ رہے تھے؟ اس غیب دان بابا سے کچھ نہ چھپانا۔‘‘
’’یہی کہ ساڑھے سات بجے گئے ہیں۔ پکچریں بھی شروع ہو گئیں ہیں اور پلے بھی۔ اب کہاں چلا جائے؟’’
ایک کالا بادل پورے آسمان پر دکھائی دیا۔ ایک بار بجلی بھی کوندتی ہوئی چمکی۔ غصے کی، الزام کی، بیچارگی کی۔ اس مرد نے میرے ساتھ مل کر ایک گھر بنانے کے بجائے مجھے جپسی بنا دیا تھا۔ خانہ بدوش؟
لیکن، پھر اندر بیٹھی ایک دائمی عورت نے، جو دائمی ایکٹریس بھی ہوتی ہے، گویا خبر دار کیا،‘‘دیکھنا؟ ہوشیار؟’’
ایک مسکراہٹ کو میں نے لپ اسٹک کی طرح آہستہ سے ہونٹوں پر ملا۔
’’جگہ تو ہے ایک شہنشاہ عالم؟ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں؟’’
’’بولو جی۔‘‘ وہ ہنسا۔
’’جہنم میں جایا جائے تو کیسا رہے؟’’
’’ٹھیک ہے، چلتے ہیں۔‘‘
قریب سے گزر تے ویٹر سے اس نے بل منگوایا، پیسے دیئے۔ جیسا کہ اس کی عادت ہے، بل واپس لیا اور ہم اٹھ کر باہر آ گئے۔
ساتھ ہی ایک سوال بھی ہمارے ساتھ اٹھ کر باہر آ گیا کہ باقی بچی شام کہاں گزاری جائے؟
ٹیکسی کے پاس رک کر اس نے پوچھا، ‘‘رانو کے گھر چلیں؟’’
’’تم نے تو بتایا تھا کہ اپنی کوٹھی وہ چھوڑ رہے ہیں۔‘‘
’’ہاں، کالو ولایت روانگی سے پہلے نئے مکان میں شفٹ کر گیا تھا۔ میرے پاس پتہ ہے۔‘‘
کالو یعنی اوما کا دوست۔ ویسے نام تو کچھ اور تھا، جیسا کہ دادیاں، نانیاں اپنی روح کی نجات کے لئے رکھ دیا کرتی ہیں۔ سبھی دوست اس کو کالو ہی کہ کر پکارتے تھے۔
’’ٹھیک ہے، چلو۔‘‘ میں نے کہا۔
میں جانتی تھی کہ اس شام کی قسمت میں ضائع ہونا ہی لکھا ہے، پھر بحث سے بھی بھلا کیا فائدہ۔
ایک بڑے سے بنگلے کے آگے ٹیکسی رک گئی۔ کوئی سرکاری بنگلہ ہی تھا یہ بھی۔ گیٹ کے اندر گھس کر ہم بنگلے کی بغل سے ہوتے ہوئے پچھواڑے پہنچ گئے۔ ایک بے حد ویران سا لان تھا، جس کی گھاس وقت سے پہلے ہی بوڑھی ہو گئی تھی۔ لان کی دوسری طرف ایک کونے میں ایک بہت بڑا پیڑ تھا، جس کی ٹہنیوں میں گھنا اندھیرا چھپ کر بیٹھا معلوم ہوتا تھا۔ بڑا منحوس لگ رہا تھا وہ پیڑ اور اجاڑ سا لان۔
پچھواڑے کے ایک دروازے پر دستک دی۔ دروازہ رانو نے کھولا۔
’’آئیے۔۔۔ آج کیسے راستہ بھول گئے ادھر؟’’
’’نہیں، راستہ تو نہیں بھولے، خاص طور پر آئے ہیں، تمہارا حال احوال جاننے۔‘‘ ایک چھوٹی سی سیڑھی چڑھ کر کمرے کے اندر جاتے ہوئے اوم نے کہا۔ پیچھے پیچھے میں بھی۔ رانو کے بالوں میں بھی باہر لان میں کھڑے پیڑ کی ٹہنیوں جیسا اندھیرا چھپا ہوا تھا۔ بے حد اداس اور بدحواس سی لگ رہی تھی وہ۔
یہ کمرہ شاید اس بڑے بنگلے کی کوٹھری رہا ہو گا، جہاں پہلے لکڑی کوئلہ رکھا جاتا ہو گا۔ یا پھر چوکا برتن کرنے والے منڈو کی کھولی۔
بہت چھوٹا سا کمرہ۔ ایک کونے میں چارپائی تھی جس نے آدھا کمرہ گھیرا ہوا تھا۔ دوسرے کونے میں بجلی کا چھوٹا سا چولہا رکھا تھا۔ پاس میں ہی لا وارث سے لڑھکے ہوئے دو تین کپ، پلیٹیں، عجیب بدحواسی میں۔ قریب ہی پانچ سات جام کی خالی شیشیاں اور کافی کے خالی ڈبے پڑے ہوئے تھے۔ شاید ان میں نمک مرچ مسالے بھرے ہوئے تھے۔ میلے ڈھکن، جن کی رنگت سے ہی معلوم ہو رہا تھا کہ ان ڈبوں میں کیا ہے۔
چولہا بھی جب جل نہ رہا ہو، بجھا ہوا ٹھنڈا چولہا، تو کیا بہت افسردہ نہیں لگتا؟ زبوں حال، اداس؟
کمرے میں اگر کوئی پرانے زمانے کی چیز تھی تو وہ تھی وہی ریشمی رضائی، جس کا رنگ اب آتشی نہیں رہا تھا۔ تاہم بجھتے ہوئے چولہے کے انگاروں کی طرح ابھی بھی اس رضائی میں پرانی گرماہٹ اور پرانی شوخی تھوڑی بہت بچی ہوئی تھی۔ دوسری چیز تھی ٹرانزسٹر۔ وہی ٹرانزسٹر جسے کالو نے رانو کو پہلے تحفے کے روپ میں دیا تھا جب وہ اسے اس کے دوستوں کے مطابق، چنڈی گڑھ سے اڑا لایا تھا۔
معمولی سے گھر میں پلی اور چنڈی گڑھ سیکریٹریٹ میں ٹائپ رائٹر کوٹنے والی رانو، کالو کی دولت کی چکا چوند اور محبت کے رٹے ہوئے فارمولوں سے مد ہوش ہو گئی۔ ہوش واپس لوٹا تو وہ لکڑی کوئلے والی ایک کوٹھری میں تھی، اکیلی۔ کالو اپنی بیوی کو ولایت کی سیر کرانے لے گیا تھا، رشوت کے طور پر۔
ایک عورت جس کا نام بیوی ہوتا ہے، جب اس کا مرد اس سے کچھ چراتا ہے تو اسے رشوت دیتا ہے۔ جتنی بڑی چوری، اتنی ہی بڑی رشوت۔ لیکن دوسری عورت جو فالتو ہوتی ہے، رکھیل، اسے صرف روٹی اور کپڑے زیور دے کر بہلایا جا سکتا ہے۔ اگر فالتو عورت اس مرد کی محبت میں گرفتار ہو جائے تو اسے خدا بھی نہیں بچا سکتا۔
ہمارے اندر آ جانے سے یا تو کمرہ سکڑ گیا تھا، یا پھر اس کے اندر کی ہوا تین لوگوں کے لئے کافی نہیں تھی۔ کچھ تھا، جو گھٹن پیدا کر رہا تھا۔ کچھ تھا، جو سانس کو بھاری کر رہا تھا۔ بھاری اور کھردرا۔
’’سناؤ پھر، کیا حال چال ہیں؟’’ وام چارپائی کی بیچوں بیچ پھیل کر بیٹھ گیا، بانہوں سے پیچھے کی طرف سہارا لے کر۔ ایک پائے پر میں نے بھی خود کو ٹکا لیا، پتانے کی طرف۔
رانو چولہے کے پاس رکھی پیڑھی پر بیٹھ گئی۔
’’دیکھ ہی رہے ہو۔۔۔‘‘ اس نے عجیب اداسی بھرا جواب دیا۔
’’کوئی خط وغیرہ آیا؟’’
’’آیا تھا، کوئی دس دن ہوئے۔‘‘ پچھلے دس دنوں کا خالی پن، خط کا انتظار اور مایوسی، یہ سب رانو کی آواز کا حصہ تھے۔
’’راضی خوشی؟’’
’’ہاں، راضی خوشی۔‘‘
’’اور تم؟’’
’’میں؟’’ اس نے ایکا ایک چونکتے ہوئے اوما کی طرف دیکھا۔
’’تم ٹھیک ہو؟’’
’’ٹھیک ہوں۔‘‘ وہ جیسے کنویں میں سے بولی، روہانسی آواز میں۔
کچھ دیر تک پورے کمرے میں خاموشی پھیلی رہی۔ ایسی خاموشی جو سیاہ رات میں چیختے ہوئے سائرن کی آواز کے بعد فضا میں لٹک جاتی ہے، اور ہر وقت ایک خطرہ بھی ہوا میں لٹکا رہتا ہے اس کے ساتھ۔ اور کان اگلی آواز سننے کے لئے اندھیرے میں اینٹنا اٹھا کر کھڑے رہتے ہیں۔ شاید پھٹتے ہوئے بم کی آواز سننے کی خاطر۔
’’کالو کا خط آیا تھا۔ لکھا تھا، پلیٹ فارم پر جو سامان چھوڑ آیا ہوں، اس کا خیال رکھنا۔‘‘ اوم مختصر سی ہنسی ہنسا۔
’’اچھا۔‘‘ ایک بے حد گہرا اندھیرا تھا جو رانو کی آواز سے جھڑ رہا تھا، راکھ جیسا، بھربھرا سا۔
میں نے اوما کی جانب دیکھا۔ ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا تھا کہ وہ ہڑبڑا کر بات کا جواب تلاش کرے۔
رانو ایک نامعلوم سا چیلنج، ایک للکار سی آنکھوں میں بھر کر اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
’’کوئی خاطر نہیں کرو گی ہماری؟ تمہارے مہمان آئے ہیں۔‘‘ اوما نے چیلنج کو ٹالا اور پینترا بدلا۔
’’دودھ نہیں ہے، نہیں تو چائے۔۔۔۔‘‘
’’کم پیا کرو نہ دودھ، چائے کے لئے بچا کر رکھا کرو۔‘‘
’’نہیں، آج سویرے لائی ہی نہیں تھی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’رات میں گرمی لگتی ہے، نیند نہیں آتی۔ بڑی اُمس ہوتی ہے کمرے میں۔ سویرے جا کر آنکھ لگتی ہے۔ تب تک دودھ کا ڈپو بند ہو جاتا ہے۔‘‘
میں نے کمرے میں چاروں طرف نگاہیں دوڑائیں۔ چار انگل جگہ کے گرد کھڑی ہوئی دیواروں سے ٹکرا کر میری نظر واپس لوٹ آئی۔ کوئی کھڑکی نہیں تھی۔ روشندان کا تو ویسے ہی آج کل رواج نہیں رہا ہے۔ پچھلی دیوار میں ایک دروازہ تھا جو یقینی طور پر بند لگ رہا تھا۔ شاید، دوسری طرف سے مکان مالک نے بند کیا ہو گا۔
جب رانو، چنڈی گڑھ سے کالو کے ساتھ بھاگ کر آئی تھی، تب شاید وہ نہیں جانتی تھی کہ کالو کی دولت اسے گھر نہیں دے سکتی تھی۔
’’کوئی وہسکی شسکی نکالو۔‘‘
’’وہسکیوں والے تو ولایت چلے گئے۔ یہاں تو بس خالی بوتلیں ہیں۔‘‘ رانو نے گہری سانس لی۔
’’اچھا؟’’ اوم جھینپتے ہوئے ہنسا۔ کچھ دیر خاموشی رہی۔
’’دن بھر کیا کرتی رہی ہو؟’’
’’سڑکیں ناپا کرتی ہوں۔‘‘
’’کون کون سی ناپ لی؟’’
’’نام یاد نہیں رکھتی۔‘‘
’’سڑکیں بھی زیادہ نہیں ناپا کرو۔ سڑکوں پر چلنے والی اکیلی عورتوں کو جانتی ہو، ولایت میں کیا کہتے ہیں؟’’
’’کیا؟’’
’’اسٹریٹ واکر۔‘‘ اوم ہنسا۔
میں نے کانپ کر رانو کے چہرے کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ ویران سڑک سا سپاٹ تھا۔ جیسے بات اس کی سمجھ میں نہ آئی ہو۔
’’اچھا، کہتے ہو نگے۔‘‘ وہ شاید کچھ اور ہی سوچ رہی تھی۔
میں نے اوما کی طرف دیکھا۔ ایک عجیب سا احساس ہوا کہ یہ آدمی خونخوار ہونے کی حد تک ظالم ہو سکتا ہے، جلاد؟
قاعدے سے تو اس وقت مجھے اوم سے بھڑ جانا چاہئے تھا، رانو کی حمایت میں، کیونکہ وہ بھی میرے قبیلے کی ہی عورت تھی، فالتو عورتوں کے قبیلے کی۔ اور فالتو عورتیں لڑا نہیں کرتی۔ لڑنے کا حق فقط بیویوں کے پاس ہوتا ہے۔ فالتو عورت کے لئے اپنے مرد سے لڑنا، جانتے بوجھتے کنویں میں کودنے جیسی بات ہوتی ہے۔ اور تب میرے اندر دب کے بیٹھے کمینے پن نے فیصلہ لیا کہ میرا ارادہ ابھی خودکشی کرنے کا نہیں ہے۔
پھر بہت دیر تک سب خاموش بیٹھے رہے۔
’’چلیں اب؟’’ اوم نے میری طرف دیکھا۔
’’ہوں۔۔۔۔‘‘ میں اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
رانو بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’اگلی بار خط لکھے تو لکھ دینا کہ ساہنی چوتھے پانچویں دن آ کر بیس روپے دے جاتا ہے۔ اور میں بھوکی مر رہی ہوں۔‘‘
’’ساہنی آتا ہے؟’’ اوم محتاط ہو گیا۔
’’وہ ہی اسے کہہ کر گئے تھے۔‘‘
رانو نے باہر کا بھڑا ہوا دروازہ کھول دیا۔ اندر کی امس کے بعد اس اندھیرے اجاڑ جیسے لان میں گھومتی ہوا بڑی بھلی لگی۔ آسانی سے سانس آئی۔
چپ چاپ، چھوٹے چھوٹے قدموں سے بنگلے کی بغل سے ہوتے ہوئے ہم تینوں گیٹ پر پہنچ گئے۔ باہر سڑک روشنی میں چمک رہی تھی۔
ہلکی ہوا اور روشنی۔
’’اچھا،‘‘ کہہ کر ہم وداع لینے لگے۔
رانو نے دھیمی آواز میں کہا، ’’پھر جلدی پھیرا لگانا۔‘‘
سڑک خاموش تھی۔ آمدورفت بہت کم تھی اس طرف شاید۔ سڑک کے دونوں اطراف بڑے بڑے پیڑ کھڑے تھے۔ گہرے اندھیرے کی چادر اوڑھے ہوئے۔ سر لپیٹے۔ شاید جامن کے پیڑ تھے۔
ہوا اس وقت بھی دھیمی دھیمی چل رہی تھی، جب ہم ایک پیڑ کے نیچے سے ہلکے قدموں سے چلتے ہوئے گزر رہے تھے۔ پیڑ میں سے آہستہ آہستہ سسکنے کی آواز آئی۔
’’یہ کیا ہے؟’’ میں ٹھٹک کر کھڑی ہو گئی۔ چونک کر اور ڈر کر بھی شاید۔
’’کیا ہے؟’’
’’کوئی سسک رہا ہے۔‘‘
’’کہاں؟’’ اوم نے پوچھا۔
’’کہیں نہیں۔‘‘ میں چل پڑی۔
٭٭٭
ڈیڈ لائن ۔۔۔ پریم پرکاش
ست پال، ایس کے پی آنند، ستی یا پالی، مرنے والے کے ہی نام تھے۔ جب میں اس گھر میں بیاہ کر آئی تھی تو معاشرتی رشتے میں وہ میرا دیور تھا۔ آنگن میں گیند سے کھیلنے والا، چھوٹی چھوٹی بات پر روٹھنے والا اور جو بھی سبزی بنتی، اسے نہ کھانے والا، لیکن جذباتی رشتے سے وہ میرا بیٹا تھا، بھائی تھا اور پریمی بھی۔
آج اس کی پہلی برسی تھی۔ براہمنوں کو بھوج کرایا گیا۔ دان پنیہ کیا گیا اور گھر میں اس کی جو بھی نشانی بچی تھی، دان کر دی گئی، تاکہ اس کی ماں جیسی بھابھی، دیوتا جیسا بھائی اور آدھے فالج کے مریض باپ کی آتما کو شانتی مل سکے۔ مرنے والے کی روح کیا معلوم کہاں جنم لے چکی ہو یا ابھی بھی اس گھر میں یا اپنی منگیتر کے گھر میں بھٹکتی گھوم رہی ہو! ہو سکتا ہے، تایا کی پتر ودھو سنتوش کے چوبارے پر آ بیٹھتی ہو۔ آنند صاحب سے کہوں گی، ’’چلو، پہووا جا کر ایک بار گتی کروا آئیں۔ پتاجی کی آتما تو چین سے رہے گی۔‘‘
دن بھر رشتے داروں اور عزیزوں کی بے معنی سی باتیں سن سن کر، انہیں چائے پانی پوچھ پوچھ کر مشکل سے فرصت ملی ہے۔ تھک کر نڈھال سی پڑی ہوئی سوچ رہی ہوں، پرماتما نے پچھلے نو مہینوں میں کیا لیلا دکھا دی! ستی اپنی عمر کے آخری نو ماہ پچھلے تیئس سالوں سے بھی زیادہ طویل کر کے جی گیا۔
گلے کے کینسر کے بارے میں ڈاکٹر پوری کی رپورٹ ملنے کے بعد اس نے نو مہینے کی زندگی کیسے گزاری، یہ مرنے والا ہی جانتا تھا یا پھر میں۔ کینسر کے مریضوں کے بارے میں، میں نے جو کچھ پڑھ رکھا تھا، وہ آدھا جھوٹ تھا۔ سچ تو وہ تھا جو ہم پر بیتا تھا۔
بی اے کر کے ایک سال کی بیروزگاری کے بعد ستی کو نوکری ملے اور منگنی ہوئے ابھی پورا سال بھی نہیں بیتا تھا کہ گلے میں ہونے والی خارش کا نام کینسر پڑ گیا، جس کی رپورٹ دیتے ہوئے ڈاکٹر پوری، جو رشتے میں ماموں بھی لگتے تھے، کے چاند جیسے سرپر پسینے کی بوندیں چمکنے لگی تھیں۔ انہوں نے میرے اور آنند صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا، ’’بیٹا، چھ مہینے بعد یہ اپنا نہیں رہے گا۔ علاج کا کوئی فائدہ نہیں۔ پھر بھی پیسے خرچ کرنا ہی چاہتے ہو تو کہیں دھرم ارتھ لگا دو۔ نام کے لئے میں دوا دیتا رہوں گا۔‘‘
لیکن ڈاکٹر پوری کو کیا معلوم کہ بنا کوئی چارہ کئے جینا کتنا کٹھن ہوتا ہے۔ شام کے وقت میں نے سترہ ہزار روپے والی مشترکہ کھاتے کی پاس بک اس کے بھائی کے آگے رکھ کر کہا، ’’یہ پیسہ ہم کس کے لئے بچا کر رکھیں گے؟’’
شادی کے سال بھر بعد مجھے سیزیرئین آپریشن سے ایک بچی ہوئی تھی، لیکن میں اسے چھ مہینے بھی دودھ نہ پلا سکی۔ جس نے دی تھی، اسی نے واپس بلا لی۔ تبھی، میں نے نوکری چھوڑ دی تھی۔ کس کے لئے اتنی دولت اکٹھا کرنی تھی؟
ستی کی رپورٹ لا کر ہم، بابوجی کے کمرے میں دروازے کے پاس کھڑے تھے، کاغذ تھامے۔ وہ ہمیں اس طرح دیکھ رہے تھے، مانو ہم شاپنگ کر کے لوٹے ہوں اور ان کے لئے پھل لائے ہوں۔ ہم ان کی وہ نظر جھیل نہیں سکے۔ جلدی ہی اپنے کمرے میں چلے گئے۔
ستی ابھی دفتر سے لوٹا نہیں تھا۔ ’’اسے کیسے بتائیں گے؟’’ یہ سوال آنند صاحب نے مجھ سے کیا اور پھر خود ہی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر رو دیئے۔ میرے بھی آنسو نکل آئے۔ لیکن میں نے جلدی ہی آنکھیں پونچھ کر ان کو دلاسا دیا کہ یہ کام میں کروں گی۔ مجھے لگا کہ ساس کے بعد یہ ذمے داری میری ہی ہے۔ میں اس گھر کی ماں ہوں۔ سوچا، اگر میں بھی رو پڑی تو پھر ستی روئے گا، پتاجی روئیں گے، یہ گھر کیسے چلے گا؟
رات میں آنند صاحب سیر کرنے چلے گئے۔ پتاجی کھا پی کر سو گئے تو میں ستی کے ساتھ کینسر کی باتیں کرنے لگی۔ ہم مریضوں کے بارے میں پہیلیاں سی بوجھتے رہے۔ آخر ہم اس جگہ پہنچ گئے، جہاں مریض باقی بچی زندگی کو خوش و خرم بنانے کے لئے جد و جہد کرتے ہیں اور بغیر کسی ڈر خوف کے ہی موت قبول کر لیتے ہیں۔ اور پھر میں نے ڈاکٹر پوری کا فیصلہ، شک بنا کر کہہ ڈالا۔
سن کر وہ ڈرا نہیں، لیکن اس کے چہرے کی مسکان مفقود ہو گئی۔ بولا، ’’میں خود ڈاکٹر پوری سے پوچھوں گا۔‘‘ میں نے رپورٹ اس کے آگے رکھ دی۔ اس پر کینسر تو نہیں لکھا تھا، ڈاکٹری زبان میں کچھ اور ہی تھا۔ اس نے ایک بار دیکھ کر رپورٹ اسی طرح تہہ کر کے ٹکا دی۔ ایک بار کھانسا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
میں کھڑی دیکھتی رہی۔ وہ دو تین منٹ اپنی میز کا سامان ادھر ادھر کرتا رہا اور پھر باہر برآمدے میں آ کر رک گیا۔ سامنے گیٹ کے پاس کیاری میں لگے پھولوں کی اور دیکھتا رہا۔ مجھے لگا کہ لو، یہ موت کا چکر شروع ہو گیا!
رات میں آنند صاحب آئے۔ پلنگ پر لیٹ کر سگریٹ سلگا کر بولے، ’’ہم ستی کا علاج کروائیں گے۔ کئی مریض دس دس سال جی جاتے ہیں۔‘‘ وہ اپنے دوستوں سے صلاح مشورہ کر کے آئے تھے۔
میں نے دو ہزار روپے نکال کر ان کے سامنے رکھ دیئے۔ وہ شرمندہ ہو اٹھے۔ غصے میں بولے تو مجھے خیال آیا کہ خرچ تو مجھے ہی کرنا ہے۔ علاج بھی میں نے ہی کرنا ہے۔ پتی سے معافی مانگ کر میں ستی کے کمرے میں گئی تو دیکھا، وہ سو رہا تھا۔
صبح ستی کے لئے چائے لے کر گئی تو وہ ابھی اٹھا نہیں تھا۔ اس کے لمبے گھنگھریالے بال اس کے سنہرے ماتھے پر آئے تھے۔ چوڑی پیشانی، گھنے پر چھوٹے بالوں والی بھنویں اور ان کے بیچ باریک باریک روئیں سے، مجھے شروع سے ہی اچھے لگتے تھے۔ کہتے ہیں، پرماتما جسے بہت روپ دیتا ہے، اسے جلدی ہی اٹھا لیتا ہے۔ دل ہوا، بالوں کو ہٹا کر اس کا ماتھا چوم لوں۔
جب میں اس گھر میں بیاہ کر آئی تھی تو وہ گود میں کھیلتا بچہ تھا۔ انبالہ والی خالہ نے اسے پکڑ کر میری گود میں بٹھا دیا تھا۔ یہ کوئی رسم تھی یا پھر پرارتھنا کہ پرماتما اس گودی میں لڑکے بٹھائے۔ لیکن مجھے لگا تھا کہ مجھے یاد کرایا گیا ہے کہ توُ اس کی ماں بھی ہے۔
اپنے گھر میں میں اپنے چھوٹے بھائی سبھاش کو اس کول بھیجنے کے لئے تیار کیا کرتی تھی، یہاں آ کر ستی کو کرنے لگ گئی تھی۔
ستی سوکر اٹھا۔ مجھے دیکھ کر مسکرایا۔ مگر تبھی اداس ہو گیا۔ شاید اسے میرے مسکراتے چہرے کے نیچے چھپی اداسی دکھائی دے گئی تھی۔ آنند صاحب بھی پاس آ کر کھڑے ہو گئے تھے، لیکن ان کا چہرہ کھڑکی کی جانب تھا۔ بولے، ’’ستی، تو فکر نہ کر، اس کا علاج ہو سکتا ہے۔ ہم آج کرسچین اسپتال چلیں گے۔‘‘
اسپتال میں ڈاکٹر جوزف کا یہ کہنا، ’’جان بخشنا تو خدا کا کام ہے، علاج کرنا بندے کا، آؤ خدا کے نام سے شروع کریں۔‘‘۔ ہمیں کوئی تسلی نہ دے سکا۔ پھر بھی علاج چلتا رہا۔ نوٹ کاغذ کے پرزوں کی مانند اڑتے رہے۔ ایک مہینے کے علاج کے بعد جب مرض خوب بڑھ گیا تو فیروز پور کے ایک سادھو کا علاج چلا۔ پھر ایک اشتہاری حکیم کی ہلدی سے بنائی گئی دوا چلی۔ پھر کروکشیتر کے وید کی، اور پھر۔۔
میری ہمیشہ یہی کوشش رہتی تھی کہ ستی اکیلا نہ رہے۔ ہم تاش، کیرم جیسے کھیل کھیلتے یا فلمیں دیکھنے چل پڑتے۔ تاش وہ انگوٹھے اور انگلی کو تھوک لگا کر بانٹتا تھا۔ روٹی کھاتا تو میری کٹوری میں نوالے ڈبو لیتا۔ شرط لگاتا تو میرے ہاتھ پر ہاتھ مارتا، میں ڈر جاتی۔
ایک دن ڈاکٹر پوری کے پاس گئی۔ وہ بولے، ’’کینسر چھوت کا مرض نہیں ہے، لیکن پرہیز میں کیا ہرج ہے۔‘‘
میں اوپر سے ہنس دیتی لیکن اندر سے ڈرتی۔ لیکن کبھی کبھی میرا پیار اتنا زور مارتا کہ میں سب کچھ بھول جاتی۔
ایک دن ہم دونوں انگلش مووی دیکھ کر لوٹے۔ چوبارے کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے ستی نے فلمی اسٹائل میں سہارے کے لئے اپنا ہاتھ پیش کر دیا۔ میں نے بھی فلمی انداز میں سہارا لے کر آخری قدمچے پر جا کر اس کا ہاتھ چوم لیا۔ وہ عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ میں بے پرواہ سی کرسی پر بیٹھ کر الماری کے شیشے میں اس کے چہرے کی بدلتی رنگت دیکھتی رہی۔ وہ سرخ ہو کر زرد پڑنے لگا تھا۔
’’کیا بات ہے، اداس کیوں ہو؟’’ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پیار سے پوچھا تو وہ میری گود میں سر دے کر رو پڑا۔ میں نے اس کے سر اور پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے دونوں بانہوں میں کس دیا، ’’تم تو میری جان ہو، پیاری پیاری!’’
اس نے نے سانس چھوڑ کر انگریزی میں کہا، ’’میں زندگی کھو چکا ہوں۔‘‘
اسکی اتنی سی بات سے میری جان نکل گئی۔ موت کے بارے میں یہ پہلی بات تھی، جو اس نے کہی تھی، خود اپنے منہ سے۔ میں نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے انگریزی میں ہی کہا، ’’میرا سب کچھ تجھ پر قربان ہے، مائی ڈئیر!’’
ڈر کی وجہ سے ستی کی نیند اڑ گئی۔ وہ اب دیر رات تک جاگتا رہتا۔ یہ بات ہماری نیند بھی اڑانے کے لئے کافی تھی۔
ایک رات ڈیڑھ ایک بجے آواز آئی، جیسے ستی نے پانی مانگا ہو۔ میں نے جلدی میں بیچ کا دروازہ کھول کر دیکھا۔ ستی تکیے میں منہ دیئے اوندھا پڑا تھا۔ اس کے بدن کا بڑا حصہ رضائی سے باہر تھا۔ اتنی ٹھنڈ میں بھی پیاس لگ سکتی ہے؟ نہ جانے اندر کیا طوفان مچ رہا ہو گا! یہی سوچ کر میں اس کے پاس پہنچی۔ سرہانے بیٹھ کر اس کا سر سہلاتے ہوئے پوچھا، ’’کیا بات ہے، نیند نہیں آتی؟’’
’’نہیں، دو گھنٹے سے جاگ رہا ہوں۔‘‘
میں نے اسے ’کامپوز‘ دی، جو اب آنند صاحب کو اور کبھی کبھی مجھے بھی کھانے کی عادت پڑ گئی تھی۔
’’بھابھی، میرا شراب پینے کو دل کرتا ہے۔‘‘ اس نے نظر اٹھائے بنا ہی دھیمے سے اس طرح کہا کہ کہیں بھائی نہ سن لیں۔
’’اچھا، ڈاکٹر سے پوچھیں گے۔ اب توُ سو جا۔‘‘ کہ کر میں اسے رضائی سے ڈھک کر اپنے بستر پر آ کر کروٹیں بدلنے لگی۔
صبح کام نبٹا کر ڈاکٹر پوری کے پاس گئی۔ انہوں نے فوراً کہہ دیا، ’’وہ جو مانگتا ہے، دو۔ اس کی روح کو پرسکون رکھو اور سمجھو کہ یہی قسمت کا فیصلہ ہے۔ پریشان مت کیجئے۔۔۔۔‘‘
ڈاکٹر پوری کا لیکچر دوسروں کے لئے ہی ہے، سوچ کر میں تیزی سے کلینک سے باہر آ گئی۔ وہ کیا جانے کسی نوجوان کی موت کیسے اندر سے کمزور اور کھوکھلا کرتی ہے؟ کیسے موت کا ڈر ہمارے گھر کی اینٹ اینٹ پر بیٹھ گیا تھا! ہر چہرے پر ماتمی حاشیہ چسپاں تھا۔ ایک پتاجی ہی نہیں جانتے تھے لیکن شکست خوردہ سے چہرے دیکھ کر وہ بھی ڈرے رہتے تھے۔ میں ان کے کئی سوالوں کا جواب کیسے دیتی، ’’توُ اداس کیوں رہتی ہے؟ ستی دفتر کیوں نہیں جاتا؟ تم لوگ اسے کہاں لے کر جاتے ہو؟’’
ایک دن دل میں آیا کہ بتا دوں، پتاجی، تمہارے لاڈلے کے مرنے میں اب کچھ وقت ہی بچا ہے۔ ہم اسے ہر اس جگہ پر لے کر جاتے ہیں، جہاں کینسر کا علاج ہوتا ہے۔
ایک شام ستی پی کر آیا۔ لڑکھڑاتے قدموں سے اپنے کمرے میں جاتا ہوا وہ دہلیز پر گر پڑا۔ میں نے سہارا دے کر اٹھایا۔ اس نے میرے گلے میں بازو ڈال دیا اور بستر پر گرتے ہوئے میری دوپٹہ کھینچ کر اپنے منہ پر لپیٹ لیا۔ آدھا دوپٹہ میرے کندھے پر تھا اور آدھا اس کے منہ پر۔ وہ رو رہا تھا۔ شاید موت کے ڈر سے۔ موت سے پہلے آدمی اپنی ناکام تمناؤں کے بارے میں کیا سوچتا ہے، میں نے سوچا اور ڈر گئی۔
ڈیڑھ ایک گھنٹے بعد اس کے بھائی اسے دیکھنے آیا تو وہ الٹیاں کر رہا تھا۔ اس میں خون کے دھبے تھے، جو میں نے آنند صاحب کی نظر سے بچا کر جلدی سے پونچھ دیئے۔
اگلے دن اتوار تھا۔ ہمیشہ کی طرح ہون کرنے بیٹھے تو ستی کا من ٹک نہیں رہا تھا۔ پہلے وہ پورے ذوق و شوق سے بیٹھا کرتا تھا۔ شام کے وقت سندھیا بھی کرتا تھا، آچمن کرتا تھا اور اس کا ویر تتھا میں بڑے دل سے منتروچار کرتے ،۔ پتاجی پلر کے سہارے بیٹھے صرف سنتے رہتے۔
ستی نے نیم دلی سے ہون کنڈ میں اگنی جلائی اور ہر منتر کے بعد سواہا کہہ کر آہتی ڈالتا ڈالتا اچانک رک گیا۔ پیچھے ہٹ کر دیوار کا سہارا لے کر بیٹھ گیا اور آنکھیں بند کر لیں۔
شام کو وہ فلم دیکھ کر لوٹا۔ تھوڑی دیر بیٹھ کر دوا کھائی اور باہر جانے لگا۔ میں نے روک لیا۔ الماری میں سے شراب کا کوارٹر نکال کر میز پر ٹکا دیا۔ وہ مسکرا دیا۔ میں نے کہا، ’’گھر میں بیٹھ کر پی لے۔ تایا جی کے یہاں نہیں جانا۔ جانے وہاں کیا کیا کھا آتا ہے؟’’
سچ، مجھے اچھا نہیں لگتا تھا کہ وہ رشتے داروں کے یہاں کھائے پیئے، ان کے آوارہ لڑکوں کے ساتھ بیٹھ کر شراب پئے، بعد میں باتیں مجھے سننی پڑیں۔ ان کی بہو سنتوش کی زبان گز بھر کی ہے۔ اور ویسے بھی اس کا چال چلن ٹھیک نہیں۔ پتہ نہیں کس کو چوبارے پر لئے بیٹھی رہتی ہے۔
میں رسوئی کا کام نپٹا کر آئی تو وہ ساری بوتل ختم کئے بیٹھا تھا۔ اس نے پوچھا، ’’بھابھی، ویر جی کتنے بجے آئیں گے؟’’
’’ شاید سویرے آئیں۔ راستے میں انہیں انبالہ بھی جانا ہے، خالہ کے پاس۔‘‘
’’اور ہے کیا؟’’ اس نے نظر گلاس کی جانب کرتے ہوئے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
دل ہوا، جواب دے دوں، زیادہ نقصان ہی کرے گی۔ پھر سوچا، اب دو ڈھائی مہینوں میں کیا ہونا ہے؟
’’ہے، پر دوں گی نہیں۔‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
وہ مایوس سا ہو گیا تو مجھے ایک دم سے اس پر پیار آ گیا۔ مرنے والے سے جھوٹ بولنا، اسے دھوکا دینا، مجھے پاپ سا لگا۔ میں نے اٹھ کر الماری کھول لی۔ وہ میرے ساتھ آ کھڑا ہوا۔ اس کی سانس تیز ہو رہی تھی۔ میں نے اسے کوارٹر میں سے بچا کر رکھی ہوئی بھی دے دی۔ اس نے شیشی پکڑ کر میرے کندھے چوم کر رسمی طور پر شکریہ ادا کیا۔ شاید کچھ اور بھی کہا تھا، لیکن میں نے وہ سنا نہیں۔ ایک لہر میرے بدن کو کپکپاتی ہوئی سی نکل گئی تھی۔
میں سامنے کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ وہاں بیٹھ کر اسے دیکھتی رہی۔ اس نے دوسرا گلاس رکھ کر اس میں بھی انڈیل دی۔ نہ جانے اسے میرے دل کی بات کیسے معلوم ہوئی! آدمی جوں جوں موت کے قریب ہوتا جاتا ہے، اس کی چھٹی حس تیز ہوتی جاتی ہے شاید۔
میرے نہ نہ کرتے بھی اس نے مجھے بانہوں میں کس کر دوا کی طرح وہ تیکھی کڑوی چیز پلا دی۔ زندگی میں دو بار پہلے بھی میں نے یہ پی تھی۔ ایک بار کنواری تھی میں تب، سہیلی کے گھر۔ تب تو کچھ پتہ ہی نہیں چل پایا تھا۔ اور دوسری بار آنند صاحب کے ساتھ مل کر پی لی تھی۔ ایک دم سے چڑھ گئی تھی۔ بہت کڑوے میٹھے تجربات ہوئے تھے۔ لیکن صبح اٹھنے کے بعد میری طبیعت اتنی خراب ہو گئی تھی کہ پھر تو کبھی منہ لگانے سے میں ڈرتی رہی۔
لیکن اس دن پیارے ستی کا کہنا نہ ٹھکرا سکی۔ یوں لگتا تھا کہ میں اس کی کوئی بھی بات ٹھکرانے لائق نہیں رہی۔ وہ کہہ کر تو دیکھے۔
میں روٹی پروس کر لائی تو اس کے ہاتھ نوالہ توڑ کر منہ میں ڈالتے ہوئے غلطیاں کر رہے تھے۔ در اصل نوالہ توڑتے ہوئے، سبزی لگاتے ہوئے بھی اس کی نظر مجھے پر ٹکی تھی۔ اس نے کھانا بند کر دیا۔ اچانک، تیز آواز میں بھابھی جی کہہ کر میز پر بانہیں ٹکا کر بیٹھ گیا۔
میں نے پیار سے اس کا سر سہلاتے ہوئے کہا، ’’ستی، چل اٹھ۔ لیٹ جا، سو جا۔‘‘
اس نے چہرہ اوپر اٹھایا تو لال سرخ ہو رہا تھا۔ آنکھیں بھی لال تھیں۔ میں سمجھ گئی کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ میرا دماغ سن ہوتا جا رہا تھا۔ میں سوچ رہی تھی کہ ہندو دھرم اس روح کے لئے کیا کہتا ہے، جو عورت کے پیار کے لئے بھٹکتی ہوئی، اپنا جسم چھوڑ جائے؟
میں اسے سہارا دے کر اس کے بستر تک لے گئی۔ مجھے لگا، میرے پیر بھی ٹھیک سے نہیں ٹک رہے تھے۔
رضائی اس پر ٹھیک کر کے میں ہٹنے لگی تو اس نے میرا بازو پکڑ لیا۔ بولا، ’’بھابھی، مجھے ایک بار نرمل سے ملا دو۔‘‘
میرے اندر سے ہوک نکلی۔
’’میں کہاں سے لاؤں تیرے لئے نرمل؟ میرے پیارے ستی، وہ تو تجھے ایک بار بھی دیکھنے نہیں آئی۔ تیرا سسر آیا تھا، حال چال پوچھ کر چلا گیا۔‘‘
مجبور ہو کر، دل پر ایک بوجھ لے کر میں اس کے بستر پر بیٹھ گئی۔ اسے چوما اور پیار سے اس کا سر اٹھا کر اپنی گود میں لے لیا۔ اس نے بے بسی میں بانہیں پھیلائیں اور مجھے بانہوں کی سخت گرفت میں لے لیا، جیسے ڈرا ہوا بچہ اپنی ماں سے لپٹ جاتا ہے۔
ایک بار تو میں منجمد ہو گئی۔ پھر نہ اسے خیال رہا، نہ مجھے کہ ہم کون تھے۔ میں اس کی بھابھی تھی، بہن تھی، ماں تھی یا بیوی۔
میرے سامنے اس کا چمکتا ماتھا، گھنی بھنووں اور پتلے ہونٹوں والا چہرہ تھا، یا چہرہ بھی نہیں، فقط جسم تھا۔۔۔ بھٹی میں تپے لوہے سا، یا صرف روح تھی۔ نا فہم، نا اہل اور نہ جانے کیا کیا، جس پر کوئی لبادہ نہیں تھا۔ روحیں برہنہ تھیں، کپڑے تو جسموں پر تھے۔۔۔ بس، ہون ہو رہا تھا۔ آہتی پڑ رہی تھی۔ ہر آہتی پر اگنی پرچنڈ ہوتی تھی، ’’سواہا سواہا’’ کی آواز ہو رہی تھی۔
شانت پاٹھ ہوا تو وہ تھکان سے چور سا سونے لگا۔ میں اس کے ساتھ لیٹی اس کے معصوم چہرے کی جانب دیکھتی رہی۔ مجھے تب یاد آیا کہ اس کے نین نقش اس لڑکے سے ملتے جلتے تھے، جسے ایک بار دیکھنے کے لئے میں کتنی دیر منڈیر پر کھڑی رہتی تھی۔ میں نے اٹھ کر اسے بھنووں کے بیچ چوما۔ رضائی دے کر اپنے بستر پر آ گئی۔ سوچتی رہی، ہم نے کیا کیا ہے؟ کیا ہم دھرم کی نظر میں پتھ بھرشٹ ہو گئے ہیں؟ نرک کے بھاگی بن گئے ہیں؟ مجھے لگا، میں نے دھرم گرنتھوں میں جو کچھ پڑھا، وہ جھوٹ ہے۔ سچ یہی ہے جو حالات ہمیں دیتے ہیں، جس میں برہم ہتیا بھی پاپ نہیں ہو سکتی۔
صبح اتوار تھا۔ آنند صاحب سات بجے ہی آ گئے۔ شاید وہ ہر اتوار کے ہون کرنے کے اصول کو توڑنا نہیں چاہتے تھے۔ اس کے ساتھ ان کا کوئی وہم منسلک ہو گا۔ میں نے ستی کو جگایا کہ اٹھ کر نہا لے۔
ہون کنڈ کے ارد گرد آنند صاحب میرے بائیں جانب بیٹھے تھے اور ستی دائیں جانب۔ سامنے پتاجی بیٹھے تھے، پلر کا سہارا لے کر۔ ہون کنڈ کے ارد گرد چاروں سمتوں میں پانی گرا کر جسم کے سبھی انگوں کے لئے طاقت کی پرارتھنا کر کے میں نے انجری میں سے پانی کے قطرے اوپر پھینکنے کے ساتھ ساتھ ستی پر بھی پھینک دیئے۔ تبھی مجھے لگا، ہم اتنی امیدیں باندھتے ہیں جسمانی اعضاء کی طاقت کے لئے، سو سال جینے کے لئے، ستی کے پاس تو اب تیس دن بھی باقی نہیں رہے؟
دوسرے کمرے میں جا کر میں نے آنند صاحب سے پوچھا، ’’کروکشیتر والے وید نے کیا بتایا؟’’
’’کیا بتاتا! بولا، بیماری پک چکی ہے، دوا لینی ہو تو لے جاؤ ورنہ کوئی بات نہیں۔ میں پندرہ دن کے لئے دوا لے آیا ہوں۔‘‘
برآمدے میں ہون کنڈ میں سے آگ جل رہی تھی۔ پتاجی پلر کے سہارے بیٹھے تھے۔ ان کی نظر کبھی ستی کی جانب اٹھتی، کبھی اگنی کی جانب تو کبھی آسمان کی طرف۔
میں نے گہری سانس چھوڑی تو آنند صاحب نے پوچھا، ’’کیوں نہ چنڈی گڑھ لے چلیں۔ ایک نیا علاج ہونے لگا ہے وہاں۔ ران پر لکیریں ڈال کر دوائی پیٹ میں کر دیتے ہیں، ہفتے بھر اس کا اثر دیکھتے ہیں۔ ساتھ ہی، بجلی بھی لگاتے ہیں۔ کتنے روپے بچے ہیں؟’’
’’بہت ہیں۔۔۔ جیسی آپکی خواہش۔‘‘ کہہ کر میں رسوئی میں چلی گئی۔ سوچتی رہی، معلوم نہیں، کسے کہاں کہاں کی دوا کھا کر، کہاں کس بستر پر مرنا ہے۔ چنڈی گڑھ کیا بنے گا؟ چلو، ہرج ہی کیا ہے؟
شام کے وقت ستی دن بھر گھوم کر آیا تو اس کا دل ٹکتا ہی نہیں تھا۔ وہ زور دے کے مجھے چوبارے میں لے گیا۔ گھما پھرا کر بات کرنے لگا۔ میں سمجھ گئی، اس کا دل پینے کو ہو رہا ہے۔ لیکن آنند صاحب کا ڈر تھا۔ میں اسے سب کچھ وہیں پکڑا آئی۔
آنند صاحب، ساگودانہ لینے بازار گئے تو ستی فوراً نیچے اتر آیا۔ رسوئی میں میرے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ اس کی سانس بہت تیز چل رہی تھی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا، اس کی آنکھیں بھی لال تھیں۔ اس نے انگریزی میں کہا، ’’پلیز، کس می۔‘‘
میں نے اس کے ماتھے پر سے بال ہٹائے اور کس کر اسے چوم لیا اور کچھ دیر اسے اسی طرح سینے سے چمٹا کر کھڑی رہی۔ تبھی محسوس ہوا کہ یہیں سے گناہ شروع ہوتا ہے، جب انسان اپنے مزے کے لئے کچھ کرتا ہے۔ میں ایک دم پیچھے ہٹ گئی۔ لیکن وہ نہیں ہٹ رہا تھا۔ میں نے سمجھایا، اسے آنند صاحب کا ڈر دلایا، ساتھ تسلی دی تو وہ برآمدے میں جا کر بیٹھ گیا۔ اسی سبب سے میں نے صفائی اور برتنوں کے لئے گھر پر کام کرنے آنے والی لڑکی ہٹا دی تھی۔ اسی ڈر سے میں اسے تایا کی بہو سنتوش کے پاس نہیں جانے دیتی۔
کھانا کھا کر آنند صاحب سیر کرنے نکلے تو ستی پھر سے بچوں کی طرح ضد کرنے لگا۔ میرے روکتے روکتے اس نے بیڈروم کی بتی بجھا دی۔
وہ پرسکون ہو کر سستانے لگا تو مجھے لگا، گویا میرا مرنے والا بچہ میرے ساتھ لیٹا ہے۔ میں ابلتے دودھ والی چھاتی اس کے منہ میں دے دیتی ہوں، لیکن اس میں چوسنے کی طاقت نہیں۔۔۔ مجھے ہوش آیا تو میں اسی طرح ستی کو لئے بیٹھی تھی، جیسے کوئی ماں اپنے دودھ پیتے بچے کو دودھ پلاتی ہوئی، سو گئی ہو اور پھر بچہ بھی۔
اٹھ کر میں تیزی سے باتھ روم میں گئی۔ برش لے کر کلی کی۔ میرے اندر ڈر بیٹھ گیا۔ شروع شروع میں میں اپنے ہونٹ بچانے کے لئے منہ پر کپڑا رکھتی تھی، لیکن کچھ اس کے زور ڈالنے پر، اور کچھ اپنی بے بسی میں میں یہ بھول ہی بیٹھی کہ وہ کینسر کا مریض تھا۔
دوپہر میں ڈاکٹر پوری کے پاس گئی۔ انہیں نئی آئی نوکرانی کے ساتھ ستی کی بات جوڑ کر بتائی تو وہ بولے، ’’کوئی بات نہیں۔ نو انفیکشن۔‘‘ لیکن میرا وہم دور نہ ہوا۔
چنڈی گڑھ میں ہمارے کئی جاننے والے ہیں، لیکن ہم کسی کے یہاں نہیں گئے۔ مریض کے ساتھ جانا کیا اچھا لگتا؟ اسپتال کے پاس پندرہ سیکٹر میں ایک کمرہ رسوئی کرائے پر لے کر رہنے لگے۔ اسپتال سے فارغ ہو کر ہم دیور بھابھی پکاتے، کھاتے، تاش کھیلتے، شام کو سیر کے لئے نکل جاتے۔ شاپنگ سینٹروں میں لوگوں کی بھیڑ میں ستی کا دل لگتا تھا۔ وہ جو بھی پسند کرتا، میں خرید دیتی۔ کئی کاسمیٹکس وہ میرے لئے بھی پسند کرتا، میں وہ بھی خرید لیتی۔ ایک دن اس نے ایک اسکارف پسند کیا۔ اتنے گہرے لال، نیلے، پیلے رنگوں کا وہ اسکارف مجھے کیا اچھا لگتا بھلا، لیکن ستی کی خواہش تھی یا ضد، مجھے دوکان سے وہی باندھ کر اس کے ساتھ چلتے ہوئے گھر تک آنا پڑا۔ اسی کو باندھ کر بستر پر لیٹنا پڑا۔
سردی جا چکی تھی، تو بھی وہ چاہتا تھا کہ رات کو دروازے کھڑکیاں بند رہیں۔ عورت کو دیکھنے کی اس کی بھوک مٹتی نہیں تھی۔ کبھی کبھار وہ مجھے دیکھتا، سوچتا اور پھر میری چھاتیوں میں ناک گھسا کر رونے لگ جاتا۔
اسپتال میں مجھ سے کوئی پوچھتا، ’’کیوں بی بی، یہ تیرا بھائی ہے؟ میں ’’ہاں‘‘ کہہ دیتی۔ اسی طرح کوئی پوچھتا، ’’تیرا بیٹا ہے؟’’ میں تب بھی ’’ہاں‘‘ کہہ دیتی۔ مگر کوئی پوچھتی، ’’یہ تیرا کیا لگتا ہے؟’’ میں چپ ہی رہتی۔ کیا بتاتی؟ چنڈی گڑھ میں وہ میرا شوہر بن کر رہ رہا تھا، میرے جسم کا مالک۔
اب عورت اس کے لئے کوئی راز، کوئی اسرار نہیں رہی تھی، ایک معمول بن گئی تھی۔ اس کا اپنا بدن دن بدن کمزور ہونے لگا تھا۔ بجلی کے علاج کے سبب یا اس کی ذہنی ابتری کی وجہ سے، کچھ تھیک سے کہا نہیں جا سکتا۔ اس کی ضد اور مانگ بھی کم ہونے لگی تھی۔ کھانے پہننے سے بھی اس کا جی اچاٹ ہونے لگا تھا۔ وہ کبھی شراب پیتا، کبھی سمادھیاں لگاتا، تو کبھی گیتا کے اشلوک اونچی آواز میں پڑھتا رہتا۔ میں سوچتی کہ بار بار اس کا یہ اشلوک پاٹھ کسی کو کیسے سہارا دے سکتا ہے؟ آتما کے امر اجر ہونے سے اسے کیا فرق پڑتا ہے؟
کورس پورا کر کے ہم گھر لوٹے تو اب اسے دلیہ کھانا بھی محال ہو گیا تھا۔ کبھی کبھی حالت ایک دم بگڑ جاتی۔ سانس لینا مشکل ہو جاتا۔ وہ صبح سے شام تک برآمدے میں اپنی کھاٹ پر لیٹا گیٹ کی طرف دیکھتا رہتا۔ کبھی کبھی اچانک ڈر جاتا۔ اس کے ہاتھ، ٹانگیں یا سارا جسم کانپ جاتا، جیسے بچے سپنا دیکھ کر ڈر جاتے ہیں۔
شام کو چائے کے وقت پتاجی نے ستی کو بلایا۔ وہ سامنے کرسی پر آ بیٹھا۔ پتاجی دیکھتے رہے۔ پھر کچھ سرگوشی کر کے ہاتھ جوڑے اور آنکھیں میچ لیں۔ میں نے ستی کو فوری طور پر اٹھا دیا۔
ایک دن برآمدے میں ستی کو سگریٹ پیتے ہوئے چھوڑ کر رسوئی میں گئی تو چیخ سنائی دی۔ میں دوڑ کر آئی، وہ آرام کرسی سے گر پڑا تھا، سگریٹ فرش پر پڑی سلگ رہی تھی۔ سہارے سے وہ اٹھ بیٹھا، بولا، ’’بھابھی، میری سانس رکنے لگی تھی۔‘‘
میں اس کے گلے پر دیسی گھی ملتی رہی۔
آخر ڈیڈ لائن بھی آ گئی۔ وہ آخری رات تھی۔ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ آنند صاحب گائتری منتر کا پاٹھ کر رہے تھے۔ لیکن ستی سو رہا تھا۔ میں اسی دوران دو بارہ سے دیکھ چکی تھی۔
اچانک اس کی کٹھن سانسوں کی آواز رک گئی۔ کچھ پل میں سانس روک کر لیٹی رہی۔ پھر اٹھ کر اس کے کمرے میں گئی۔ دھیمے سے چادر کا پلو ہٹا کر دیکھا۔ اس کی سانس چل رہی تھی۔ لیکن اس کا چہرہ پیلا ہو گیا تھا۔ جھک کر میں اس کے چہرے کو دیکھتی رہی، چہرہ جو کبھی لال گلاب تھا۔
وہ رات نکل گئی، ڈاکٹر پوری کی ڈیڈ لائن۔
صبح اٹھ کر آنند صاحب نے پھر ہون کیا۔ پتاجی کے حکم کے مطابق کتنا سارا اناج، کپڑے ستی کے ہاتھ سے دان کروائے۔ تیسرے پہر ستی آرام کرسی پر بیٹھا بیٹھا گر پڑا۔ آنند صاحب گھر پر ہی تھی۔ ہم جلدی میں اٹھا کر ڈاکٹر پوری کے کلینک لے گئے۔ انہوں نے نہ جانے کیسے کیا کیا کہ سانس ٹھیک ہو گئی۔ پھر دس ہی دن میں صحت مند ہو کر اس نے ڈاکٹر پوری کو بھی حیران کر دیا۔ وہ گھوڑے جیسا تگڑا ہو گیا تھا۔ سب کچھ کھاتا پیتا اور آوارہ گردی کرتا۔ پھر وہ وہی سب کام کرنے لگا، جو مجھے پسند نہیں تھے، جن کے سبب مجھے اس پر اور خود پر شرم آتی۔ اکثر وہ سنتوش کے پاس اس کے چوبارے میں بیٹھا رہتا۔ تایا جی کے لفنگے لڑکوں کے ساتھ پیتا، نیچ سی حرکتیں کرتا۔ زبردستی میرے پرس میں سے پیسے نکال کر لے جاتا۔ یہاں تک کہ کبھی میں اسے پیار کرتی تو اس کی نظر میں وہ پیار ہی نہ دکھائی دیتا۔ لگتا، جیسے کوئی بدمعاش دیکھتا ہو، جیسے مجھے پکڑنا اس کا حق ہو، جیسے کسی سے بھی کوئی چیز ادھار لے لینا یا مانگ لینا اس کا حق بن گیا ہو۔ وہ دوسروں کے سر پر پلنے والا بدمعاش بن گیا تھا، جس کی بدمعاشی کا سبب طاقت نہیں، کینسر تھا۔ کینسر اسے مار رہا تھا اور کینسر کی وجہ سے وہ ہمیں مار رہا تھا۔
ڈیڑھ ایک ماہ بعد اس کی طبیعت پھر بگڑنے لگی۔ تھوک میں خون جیسا کچھ نکلتا تو وہ دہل جاتا۔ آنند صاحب گھبرا جاتے۔ میں نے پھر دوائیوں پر زور دیا۔
ایک شام تھکے ہارے آنند صاحب سوچتے ہوئے بولے، ’’نہ جانے اور کتنی دیر یہ۔۔۔؟’’
’’پرماتما کا نام لو، سب مصائب کٹ جائیں گے۔‘‘ ان کی بات کا جواب میں نے دے تو دیا، لیکن یہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس کے نرک کی بات کرتے تھے۔ ستی کے، پتاجی کے یا اپنے؟ من میں آیا کہ کہہ دوں، جو کچھ تم بھوگ رہے ہو، وہ نرک ہے تو جو میں بھوگ رہی ہوں، وہ کیا ہے؟
ستی دن میں نہ جانے کہاں گھومتا رہتا لیکن اندھیرا ہوتے ہی گھر لوٹ آتا۔ وہ ڈرا سا ہوتا اور رات کو بستر پر پڑا پڑا دھرم گرنتھ پڑھتا رہتا۔ اس کا چہرہ ہمیشہ گیٹ کی جانب ہوتا تھا۔ کبھی کبھی اس کے چہرے پر اتنا سکون ہوتا کہ بھکتوں کے چہروں پر بھی کیا ہوتا ہو گا۔ لیکن کبھی اتنی بے چینی ہوتی کہ لگتا، جیسے وہ بہت جلدی میں ہے۔ گویا وہ کسی کا منتظر ہو۔ مانو کوئی پلیٹ فارم پر بیٹھا گاڑی کا انتظار کر رہا ہو یا جیسے گاڑی نکل گئی ہو اور پلیٹ فارم پرسونا پڑا ہو۔
ایک دن وہ پالتھی مارے بیٹھا تھا، آنکھیں موندے۔ میں اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ اس نے آنکھیں کھولیں، پھر بند کر لیں اور ہاتھ جوڑ کر سر جھکا دیا۔
مرنے سے ایک رات پہلے نہ جانے اسے کیسے معلوم ہو گیا تھا۔ اس نے آواز سے مجھے اپنے پلنگ پر بلایا۔ بیچ والے دروازے کا بولٹ لگا کر میں اس کے پاس بیٹھ گئی۔ پھر اس کے زور دینے پر ساتھ لیٹ گئی۔ وہ میری طرف دیکھتا رہا، دیکھتا ہی رہا۔ پھر اس کی بجھی سی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اچانک میں نے اس کا چہرہ اپنی چھاتی سے لگا لیا۔ ’’کیا بات ہے میرے بچے؟’’ میرے منہ سے بے اختیار نکل پڑا۔
اس نے آنکھیں موند لیں جیسے دھیان میں چلا گیا ہو۔
دوسری صبح اس نے بیڈ ٹی نہیں پی۔ نہا کر اگر بتی جلائی اور پاٹھ کرنے بیٹھ گیا۔ ابھی پرار مبھک منتر ہی پڑھا ہو گا کہ اس کے ہاتھ میں سے کتاب گر گئی اور وہ فرش پر ٹیڑھا ہو گیا۔
میں رسوئی میں سے بھاگتے ہوئے آئی۔ اسے سنبھالا تو میری چیخ نکل گئی۔ آنند صاحب کانپتے ہوئے سے دوڑے آئے۔ لیکن وہ ختم ہو چکا تھا جس کا انتظار ستی کو تھا، آنند صاحب کو بھی اور مجھے بھی۔ آج اس حادثے کو ہوئے کوئی ایک سال بیت گیا۔ لیکن مجھے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا کہ وہ میرا کون تھا؟
٭٭٭
اکائی ۔۔۔ سکھبیر
کمرے میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں تھی جو اس کی بصارت کو خاص طور پر اپنی جانب کھینچتی۔ وہ جانا پہچانا کمرہ تھا، جس کا ایک کونا ایک طرف کو بڑھا ہوا تھا۔ شروع میں اس کو یہ کمرہ دیکھ کر عجیب سا لگا تھا۔ اس کا چوکور نہ ہونا اس کی نظر میں عیب تھا۔ اس کو دیکھ کر ہر وقت ٹیڑھی چارپائی کا خیال آتا تھا۔ اور جیسے ٹیڑھی چارپائی پر سونا بے ڈھنگا سا لگتا ہے، اس کمرے میں بیٹھ کر یا فرش پر بچھے بستر پر لیٹ کر بھی بے ڈھنگا سا لگتا تھا مانو کوئی چیز آپ کا ڈھانچہ بگاڑ بیٹھی ہو۔
یہ احساس کچھ وقت تک ہی رہا تھا۔
پھر، آہستہ آہستہ اس کو گویا عادت پڑ گئی تھی۔ اس کو لگا تھا کہ کمرہ اس طریقے کا بھی ہو سکتا ہے۔ اس شہر میں کئی عمارتیں تھیں۔ تکونی سمت چوکور پلاٹوں پر بنی ہوئیں، جن میں کچھ کمرے ایسے بھی تھے۔
ہاں، کمرے کی کسی بھی شے نے اس کا دھیان اپنی جانب نہیں کھینچا۔ وہی طے شدہ، روز دکھائی دینے والی چیزیں تھیں۔ اس میں کھونٹیوں پر بڑی صفائی سے ٹنگے ہوئے کپڑے، نیچے لکڑی کے چھوٹے سے ریک میں بڑے قرینے سے رکھی ہوئی کتابیں، رسائل اور اخبارات۔ اسی طرف بڑھے ہوئے ایک کونے میں پڑے کچھ برتن، ڈبے اور اسٹوو، ایک صاف ستھری چھوٹی سی رسوئی اور اسی طرح کی کچھ دیگر اشیاء۔ وہ بستر پر بیٹھا ہوا تھا اور سامنے خالی ذہن سے دیکھ رہا تھا۔ اس خالی پن میں ہلکی سی دھند تھی۔ یا یہ کہ یہ اس کی آنکھوں کی دھند تھی؟ ہاں، اس کی آنکھوں کی ہی دھند تھی۔ اور وہ دھند اس کے دماغ میں بھی تھی۔
کچھ وقت پہلے وہ دھند بہت مسرور تھی۔ راہی مل گیا تھا اور اس کو جبراً کھینچ کر شراب کے اڈے پر لے گیا تھا۔ راہی کو شراب پینے کے لئے ساتھ چاہئے تھا۔ بغیر کسی ساتھ کے وہ شراب نہیں پی سکتا۔ اور شراب پینے کے چکر میں ہی راہی نے اس کا زیادہ دیر تک ساتھ نہیں دیا تھا۔ کچھ دیر گھومنے کے بعد ایک جگہ رک کر اس نے پوچھا تھا، ’’اب کیا پروگرام ہے؟’’
’’کوئی خاص نہیں۔‘‘ اس نے کہا تھا۔
’’اچھا، تو میں چلتا ہوں۔ ایک ضروری کام ہے۔ پھر کب ہو گی ملاقات؟’’
’’دیکھو۔۔۔۔‘‘ اس کے منہ سے نکلا تھا۔
راہی ٹیکسی پکڑ کر چلا گیا تھا۔
اسکے چلے جانے کے بعد وہ کچھ دیر تک وہیں کھڑا رہ گیا تھا۔ اس کو سمجھ نہیں آیا کہ کہاں جائے، کیا کرے۔ اس کو بے تحاشہ اکیلا پن محسوس ہوا تھا۔ اس کو لگا تھا، وہ شاید کسی اجاڑ بیابان میں کھڑا ہو۔ آخر اس کے قدم بے اختیار ہی اپنے کمرے کی جانب چل پڑے تھے۔ اس نے وہاں سے بس نہیں پکڑی تھی۔ دماغ کی بوجھل حالت اور بے دھیانی میں ہی وہ چلتا رہا تھا اور اپنے کمرے کے سامنے پہنچ گیا تھا۔ کمرے میں پہنچ کر اس کا ڈر کچھ کم ہوا تھا، لیکن اکیلا پن کم نہیں ہوا تھا، وہ مزید بڑھ گیا تھا۔
کیسا اکیلا پن تھا وہ؟ سونا اور خالی۔
وہ کچھ دیر اسی کیفیت میں گھرا رہا تھا۔
پر اب اکیلا پن نہیں تھا۔ بس، ایک معدوم سا احساس تھا، خلا جو اس کے باہر بکھرا ہوا تھا، جو اس کے اندر بھرا ہوا تھا۔
کمرے میں کوئی بھی چیزایسی نہیں تھی جو اس کی بصارت کو خاص طور پر اپنی جانب کھینچتی۔
رات کافی بیت چکی تھی، پر اس کی آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔
وہ اسی طرح سامنے خلا میں دیکھتا رہا۔ کچھ دیر بعد اس کو سامنے والی دیوار دکھائی دی، میلی اور سیلن بھری، جس پر سے سفیدی اڑی ہوئی اور کچھ جگہوں پر سے پپڑیاں اتری ہوئیں۔ اس پر میلے رنگ کے چھوٹے بڑے دھبے تھے۔ اور ان دھبوں میں ایک طرف جہاں دیوار کا حصہ بڑا صاف اور سپاٹ تھا، ایک فوٹو ٹنگا ہوا تھا۔
پہلے تو اس کو وہ فوٹو، دیگر دھبوں کے مانند ایک دھبا ہی محسوس ہوا، لیکن جب اس کی نظر اس پر ٹکی ہی رہی تو وہ دھبا نہ رہا۔ اس میں سے ایک شکل ابھرنے لگی۔ وہ شکل گویا ہل رہی تھی۔ اس کی لکیریں اور رنگ ہلتے ہوئے اس پر جڑ رہے تھے۔
اب وہ فوٹو کو ایک ٹک دیکھ رہا تھا۔ فوٹو نے جیسے اس کی نظروں کو پوری طرح سے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ لیکن وہ خود ابھی بھی فوٹو کو پوری طرح پکڑ نہیں پا رہا تھا۔
وہ جب بھی اس فوٹو کو دیکھتا، وہ کچھ دیر اس کی پکڑ میں نہ آتا۔ اس کے آپس میں الجھے ہوئے رنگ ڈھلکتے رہتے، آپس میں پھنسی ہوئی لکیریں تھرکتی رہتیں اور ایک چہرہ رہ رہ کر بدلتا ہوا نئی ہیئت اختیار کرتا رہتا۔ آخر میں، وہ شکل ایک جگہ پر کھڑی ہو جاتی اور اس کی نظروں کی پکڑ میں آ جاتی۔
وہ فوٹو اس کو مُکل گھوش نے دیا تھا۔
مُکل؟ اس کو مُکل گھوش کا خیال آیا اور اپنے اس اکیلے پن کو محسوس کرتے ہوئے اس نے سوچا، میں مُکل کی طرف کیوں نہیں چلا گیا؟ راہی کے چلے جانے کے بعد میں مُکل کی طرف چلا گیا ہوتا تو اچھا تھا۔ مگر اس وقت خیال ہی نہیں آیا۔ خیر، اب بھی جایا جا سکتا ہے۔ اب؟ نہیں، اب تو رات بہت ہو چکی ہے۔ اور مُکل یہاں سے بہت دور ہے۔ کم سے کم ایک گھنٹہ لگ جائے گا اس تک پہنچنے میں۔
مُکل! اس نے پھر سوچا اور فوٹو میں اس کی شکل دیکھنے لگا۔ وہ فوٹو مُکل کا سیلف پورٹریٹ تھا۔ بڑا شوق تھا اس کو اپنے پورٹریٹ بنانے کا۔ وہ اپنے ان گنت پورٹریٹ بنا چکا تھا۔ جیسے آدمی خالی کاغذ سامنے دیکھ کر اس پر لکھنے لگ جائے اور بار بار اپنا نام لکھے، کچھ اسی طرح مُکل سیلف پورٹریٹ بنایا کرتا تھا۔ پر اتنے سیلف پورٹریٹ بنانے پر بھی اس کی تسلی نہیں ہوئی تھی۔ وہ ہمیشہ کہا کرتا، ’’ان سیلف پورٹریٹوں میں، میں خود کو پہچاننے کی سعی کر رہا ہوں، خود کو کھوجنے کی جد و جہد کر رہا ہوں۔ لیکن ابھی تک میں اپنے آپ کو پکڑ نہیں سکا ہوں۔‘‘
مُکل سے اس کی ملاقات ہوئی تھی تو پہلی ہی ملاقات میں وہ اس کی جانب راغب ہو گیا تھا۔ بڑی دلچسپ شخصیت تھی اسکی۔ اس کا چہرہ بھی دلچسپ تھا اور اس کی باتیں بھی۔ وہ ایک ہوسٹل میں رہتا تھا، ہوسٹل کے کونے والے ایک چھوٹے سے کمرے میں۔ وہی اس کا اسٹوڈیو تھا، بکھرے ہوئے فوٹوؤں سے بھرا ہوا۔ کئی اصناف کے فوٹوز تھے وہ۔ ان فوٹوؤں میں بھی مُکل خود کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور سفر طے کرتا ہوا کسی منزل پر پہنچنا چاہ رہا تھا۔
’’پر منزل ہے کہاں؟’’ وہ کہتا۔
’’منزل کہیں نہیں ہے۔ بس، سفر ہی سفر ہے۔‘‘
تصویروں کا سفر؟ اس نے سوچا۔ اور ان فوٹوؤں میں سیلف پورٹریٹوں کا سفر؟ مُکل رات دن وہ سفرطے کر رہا تھا۔
وہ سفرطے کر رہا تھا، لیکن منزل پر نہیں پہنچنا چاہ رہا تھا، کیونکہ اس کے اپنے لفظوں کے مطابق، ’’جس دن میں منزل پر پہنچ گیا، اس دن خودکشی کر لوں گا۔ منزل پر پہنچ کر جینے کا کیا فائدہ؟ اور کیونکہ میں خودکشی سے ڈرتا ہوں، اسی لئے منزل پر پہنچنے سے بھی ڈرتا ہوں۔ ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ منزل کہیں نہیں ہے۔ بس، سفر ہی سفر ہے۔‘‘
مُکل کو بھی وہ پہلی ملاقات میں اچھا لگا تھا اور وہ اس کو اپنے کمرے پر لے گیا تھا۔
وہاں مُکل کے بہت سارے سیلف پورٹریٹ دیکھ کر اس کو حیرانی ہوئی تھی۔ کئی اصناف کے برہنہ اور نیم برہنہ سیلف پورٹریٹ تھے، جو آپس میں ایک دوسرے سے اتنا ہی ملتے تھے، جتنا وہ مُکل کے چہرے سے ملتے تھے۔ مُکل نے بتایا تھا، ’’ان میں، میں نے اس اصلیت کو پکڑنے کا جتن کیا ہے، جو میرے چہرے کے نقوش میں نہیں، بلکہ نقوش کے اس پار ہیں۔‘‘
پھر، وہ مُکل کے کمرے پر جانے لگ گیا تھا۔
ایک بار وہ گیا تھا تو مُکل اپنا پورٹریٹ بنا کر ہٹا ہی تھا۔ اس میں جھنجھلاہٹ تھی، کیونکہ وہ اپنے نقوش کے اس پار کی اصلیت کو پکڑ نہیں سکا تھا۔
مگر، اس سیلف پورٹریٹ نے اس کا دھیان خاص طورسے کھینچا تھا۔ اس میں اس کو جیسے مُکل کی نہیں، اپنی خود کی شکل دکھائی دی تھی، ایک چہرہ، جس میں اس کے چہرے کے ٹکڑے جڑے ہوئے تھے۔
’’بات بنتی بنتی رہ گئی ہے۔‘‘ مُکل نے فوٹو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
اس نے آنکھوں میں سوال بھر کر مُکل کی جانب دیکھا تھا۔
’’یعنی کہ بات نہیں بنی۔‘‘ مُکل ہنسا تھا، جیسے اس کو خوشی تھی کہ وہ منزل پر نہیں پہنچا تھا۔
’’بڑی عجیب بات ہے مُکل۔‘‘ آخر اس نے کہا تھا، ’’کہ اس میں تیری ہی نہیں، مجھے اپنی بھی شکل دکھائی دیتی ہے۔ جیسے تو نے میرا پورٹریٹ بنایا ہو۔‘‘
’’سچ؟’’ مُکل کے منہ سے نکلا تھا اور اس نے بغور فوٹو کو دیکھا تھا۔
’’کیوں؟ نہیں دکھتی؟’’
کچھ دیر دیکھتے رہنے کے بعد مُکل نے کہا تھا، ’’شاید، اس کو بناتے وقت شاید میرا تخیل تجھے دیکھ رہا ہو گا۔ یا۔۔۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں نے اپنے چہرے کی کچھ چیزوں کو جنرلائز کرنے کی کوشش کی ہے۔ یعنی کہ کسی حد تک یہ بتانے کا جتن کیا ہے کہ یہ چہرہ میرا ہی نہیں، آج کے دور میں سے گزرنے والے ایک عام آدمی کا بھی ہے۔‘‘
جواب میں میں اس نے کہا تھا، ’’جیسے جیسے میں اس کو دیکھتا ہوں، اس میں سے مجھے اپنی ہی شکل ابھرتی دکھتی ہے۔ اس کو ہمیشہ دیکھتے رہنے کو دل کرتا ہے۔‘‘
’’تو پھر تو اسے رکھ لے اور ہمیشہ دیکھا کرنا۔‘‘ مُکل مسکرایا تھا۔
’’میرا مطلب یہ نہیں تھا۔‘‘ اس کو کچھ جھجھک محسوس ہوئی تھی۔
’’پر میرا یہی مطلب ہے۔‘‘ مُکل ہنسا تھا اور اس نے فوٹو اس کو دے دیا تھا۔
اس نے فوٹو کو فریم کروا لیا تھا اور گھر لا کر دیوار پر ٹانگ دیا تھا۔
یہ اس فوٹو کے سبب ہی تھا کہ اس کا غریب سا کمرہ ایک بار تو بڑا اہم بن گیا تھا۔ ویسے اس کو یہ بھی لگا تھا کہ وہ فوٹو اس جیسے کمرے میں ٹانگا جانے والا نہیں تھا۔ اسے تو کسی بہت حسین کمرے کا سنگھار ہونا چاہئے تھا۔ لیکن کچھ عرصے بعد وہ اس کو اس کمرے کا ایک حصہ محسوس ہونے لگ گیا تھا۔ جیسے وہ خود اس کمرے کا ایک حصہ بنا ہوا تھا۔ بس، فرق تھا تو اتنا کہ وہ فوٹو کمرے کی دیگر اشیاء کی طرح معمولی سا نہیں لگتا تھا۔
وہ کمرے میں بیٹھا ہوتا، تو کئی بار کتنی کتنی دیر تک فوٹو کو دیکھتا رہتا۔ اس میں اپنے آپ کو کھوجنے کا، اس کو پکڑنے کی کوشش کرتا رہتا۔ کسی وقت اس میں سے مُکل کی شکل کا وہم پیدا ہوتا، پر اسی وقت وہ شکل بکھر جاتی اور اس کی اپنی شکل بننے لگتی۔
ایک بار بھربھری دیوار میں لگی کیل اکھڑ جانے پر فوٹو نیچے گر پڑا تھا تو اس کا شیشہ ٹوٹ گیا تھا۔ اس میں دو بال پڑ گئے تھے۔ شیشے کے تین ٹکڑے ہو گئے تھے، پر وہ فریم میں سے نکلے نہیں تھے۔
اس نے دوسری جگہ پر کیل گاڑ کر اس فوٹو کو ٹانگ دیا تھا۔
پھر، جب اس نے دیکھا تھا، تو اس کو شیشے کے نہیں، اپنے فوٹو والے چہرے کے تین ٹکڑے ہوئے محسوس ہوئے تھے۔ وہ چہرہ جو کئی ٹکڑوں میں جڑا ہوا تھا، تین ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا۔
تب ایک ٹک دیکھتے ہوئے اس کو فوٹو میں اپنی شکل کہیں زیادہ صاف دکھنے لگی تھی۔ اب اس کا چہرہ کئی ٹکڑوں کے میں نہیں، صرف تین ٹکڑوں میں ٹوٹا ہوا تھا۔ چہرے کے تین ٹکڑے؟ اس نے سوچا تھا۔ یا تین ٹکڑوں والا چہرہ؟ ان میں سے ایک ٹکڑا ہے جو حال ہے۔ ایک ٹکڑا ماضی ہے۔ اور تیسرا ٹکڑا مستقبل ہے۔ ’’واہ؟’’ اس کے منہ سے نکلا تھا۔ یہ تو ایک نیا تجزیہ ہو گیا اس پورٹریٹ کا۔ کتنا حسین خیال سوجھا ہے؟ مُکل کو بتانا چاہئے۔ بڑا خوش ہو گا یہ تجزیہ سن کر۔ وقت کے تین ادوار میں پھیلا چہرہ۔ ٹوٹا ہوا، پر جڑا ہوا۔ زندگی کی چوکھٹ میں جڑا ہونے کے سبب جڑا ہوا۔
اس وقت فوٹو کو دیکھتے ہوئے اس کو خیال آیا کہ کہیں اس کا چہرہ حقیقتاً ہی اس طرح ٹوٹا ہوا نہ ہو۔ اس نے دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرے، لیکن کچھ پتہ نہ لگا۔ تب اس نے شیشہ اٹھایا اور اس میں دیکھنے لگا۔ شیشے کا پانی کچھ جگہوں سے اترا ہوا تھا۔ ویسے بھی شیشہ صاف نہیں تھا۔ شراب کے نشے کی وجہ سے اس کی نظر بھی صاف نہیں تھی۔ اس کو اپنا چہرہ صاف طور پر دکھائی نہیں دیا تو اس نے شیشہ رکھ دیا اور سوچا، اب یہ نیا ہی لانا پڑے گا۔ پہلے بھی کئی بار نیا لانے کے بارے میں سوچا ہے، پر اب تو نیا لانا ہی پڑے گا۔ یوں دوسری بھی کئی چیزیں ہیں، جو نئی لانے والی ہیں۔ تولیہ، جو پرانا ہو کر جگہ جگہ سے پھٹ چکا ہے، بوٹ، جن میں اب مزید مرمت نہیں ہو سکتی۔ بستر کی اکلوتی گھسی ہوئی چادر جو۔۔۔۔ اور ہاں، بیدی کا ناول، ایک چادر میلی سی۔ کتنا دل ہوتا ہے اس ناول کو پڑھنے کا! ایک بار ادیبوں کی محفل میں اسے بیدی کے منہ سے سنا تھا۔ لیکن بیدی نے سناتے وقت کئی بار رو کر ناول کا مزا ہی خراب کر دیا تھا۔ رونا تو سننے والوں کو چاہئے تھا۔ بیدی بھلا کیوں رویا؟ عجیب بات نہیں ہے کہ اتنے تحمل سے لکھنے والا آدمی سناتے وقت خود ہی رو پڑتا ہے؟ لکھتے وقت بھی ضرور رو روکر لکھتا ہو گا۔ پر اس کی تحریر میں یہ رونا کہیں بہت نیچے چھپا ہوتا ہے۔ مجال ہے کہ اس کا ایک فقرہ بھی جذباتی محسوس ہو۔ ایسے ضبط سے لکھنا بیدی کا ہی کام ہے۔ اور آج کل سکھ اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ناول میں سکھّوں کے بارہ بجنے کو لے کر ایک لطیفہ ہے، جو سکھّوں کے حق میں جاتا ہے۔ پر سکھ اسے سمجھ نہیں سکے اور بیدی پر مقدمہ کرنے کو آمادہ ہیں۔ کسی دن چل کر بیدی سے سکھّوں کے بارے میں کوئی لطیفہ سننا چاہئے۔ بڑا کرارا لطیفہ سنائے گا۔ در اصل، بیدی کے اندر کوئی بڑی گہری تلخی چھپی ہوئی ہے جس کے سبب وہ ایسا لطیفے باز ہے۔ اس تلخی کو لطیفوں کے ذریعے سے باہر نکال کر وہ ہلکا ہو جاتا ہے۔ پر ادیب کے طور پر کتنا سنجیدہ ہے؟ اس کا ہنر۔۔۔ لو، یہ بیدی بھی کدھر لے چلا ہے۔
وہ، بیدی اور اپنے آپ پر ہلکا سا مسکرایا اور پھر سوچنے لگا کہ کیا سوچ رہا تھا۔ اسے کچھ یاد نہ آیا۔ تب اس کے سامنے پھر دیوار والا فوٹو ابھرا اور اس کے ایک ٹکڑے کو وہ ایک ٹک دیکھنے لگا۔ یہ ٹکڑا، اس نے من میں کہا، چہرے کے حال کا ٹکڑا ہے۔ حال کا چہرہ۔ سڑکوں کی گردش کا چہرہ۔ اس شہر کی بھیڑ کا چہرہ۔ بغیر آنکھوں والی بھیڑ جو شہر میں بکھری پڑی ہے، بھاگ دوڑ کر رہی ہے اور شہر کی حدود میں پھنسی پڑی ہے۔ یہ شہر جو حال ہے، اس شہر میں سے نکلا نہیں جا رہا۔ زندگی اس شہر میں پھنسی ہوئی ہے۔ ہاں، یہ حال کا چہرہ، اس شہر میں پھنسا ہوا چہرہ ہے۔ اپنے گاؤں سے ٹوٹا ہوا، کھیتوں سے اور گاؤں والے گھر سے بچھڑا ہوا۔۔۔
اس کو اپنا گاؤں دکھائی دیا، بہت دور۔ اور اس گاؤں میں اپنا گھر دکھا، اور اپنا پریوار۔ ماں، باپ، دونوں بہنیں اور چھوٹا بھائی۔ بھوری بھینس اور کالی بکری۔ تین، سوا تین برس ہو گئے تھے گھر کو چھوڑے، گھر والوں سے بچھڑے اور وہ گاؤں نہیں جا سکا تھا۔ وہ شہر میں پھنسا ہوا تھا اور نکل نہیں پا رہا تھا۔ اس شہر میں آ کر اس کا چہرہ، جیسے فریم کے سبب جڑا ہوا تھا۔ اس کو یاد آیا کہ بہت پہلے اس نے کہیں پڑھا تھا، ہوٹل میں بیٹھے ایک آدمی کے بارے میں، جو اس طرح اداس بیٹھا ہوا تھا کہ اس کے چہرے سے اس کی نظر ٹوٹی ہوئی تھی، نظر سے اس کی سوچیں ٹوٹی ہوئی تھیں اور سوچوں سے۔۔۔۔ تب اس بات کو وہ پوری طرح سمجھ نہیں پایا تھا۔ پر یہاں آ کر، اس شہر میں آ کر یہ بات اتنی اچھی طرح سمجھ میں آئی تھی کہ اس چہرے کو وہ کئی بار اپنے خیالوں میں دیکھا کرتا تھا۔ اس شہر میں آ کر اس کا چہرہ کئی چہروں کا بنا تھا، کلرک کا چہرہ، بیکار آدمی کا چہرہ، اس منگتے کا چہرہ، جو وہ بن نہیں سکا تھا اور بھوک کا چہرہ اور فلم ڈائریکٹر کے چوتھے اسسٹنٹ کا چہرہ، اور ایک ناکام کہانی نویس کا چہرہ۔۔۔۔۔
ہاں، یہی وہ الگ الگ چہرے ہیں، اس نے سوچا، جن کے ٹکڑوں کو جوڑ کر مُکل سیلف پورٹریٹ بناتا ہے۔ گویا اس کے اس سیلف پورٹریٹ کے اندر کئی ٹکڑے ہیں، لیکن نہیں، اب تو وہ صرف تین ہی ٹکڑے ہیں۔ ایک ٹکڑا جو حال ہے۔ دوسرا ٹکڑا جو ماضی ہے، زندگی کے بیتے ہوئے برسوں کا چہرہ۔ زندگی کے بیتے ہوئے سال۔۔۔۔
اس نے اس ٹکڑے کی جانب دیکھتے ہوئے کہیں پیچھے کی طرف دیکھا، اپنی زندگی کے بیتے ہوئے برسوں کو۔ وہ دھندلے سے لگے۔ اس نے ان کو واضح دیکھنے کے لئے اپنے دماغ پر زور ڈالا۔ لیکن اس کے سامنے جو دھند تھی، اس میں وہ سال صاف دکھائی نہ دیئے۔ اس نے سوچا، ان برسوں میں میرا چہرہ کیسا رہا ہو گا؟ وہ اس کا اندازہ نہ کر سکا۔ تب اس نے اپنے کسی پرانے فوٹو کو سامنے لانے کا سوچا۔ کالج کے دنوں کا ایک فوٹو اس کے سامنے آیا، جو اس کے ’’آئیڈینٹٹی کارڈ’’ پر لگا ہوا تھا۔ کالج میں اس کا وہ پہلا سال تھا اور آخری بھی۔ آگے کی کالج کی پڑھائی اس سے چھوٹ گئی تھی۔ مگر وہ ایک سال اس کی زندگی کا کیسا سال تھا۔ تب وہ آج جیسا نہیں تھا۔ تب کا چہرہ، وہ اپنے آئیڈینٹٹی کارڈ والے چہرے کے سامنے لایا تو اس کے ساتھ ہی ایک اور چہرہ اس کے سامنے آ گیا، ترپتا، نہیں ترپتی کا چہرہ۔ ’’ترپتا’’ اس کو کچھ عجیب سا لگتا تھا۔ وہ اس کے بارے میں جب بھی سوچتا، من میں ’’ترپتی’’ کہہ کر ہی سوچتا۔ وہ اس کو بے حد اچھی لگتی تھی۔ وہ سارا دن اس کے بارے میں سوچتا رہتا، لیکن اس کے ساتھ کبھی بات کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکا تھا۔ وہ بس یہی سوچتا تھا کہ کبھی موقعہ ملا تو اپنے آپ بات ہو جائے گی۔ آخرکار ایک بار جب اس نے ترپتی کو کسی دوسرے لڑکے کے ساتھ، وہی جگ موہن کے ساتھ جو کالج میں سب سے زیادہ شوقین مزاج اور لوفر لڑکا تھا، پارک کے ایک کونے میں ہنس ہنس کر باتیں کرتے دیکھا تھا تو اس کو لگا تھا کہ ترپتی کانچ کی ایک لڑکی تھی، جو اسی لمحے ٹوٹ کر چور چور ہو گئی تھی اور اس کے ان گنت ٹکڑے اس کی زندگی میں دھنس گئے تھے۔ ان کی چبھن آج بھی باقی تھی۔ اس وقت اس کو اپنا چہرہ بہت ویران محسوس ہوا تھا۔ ویسے کتنے تیکھے نین نقش تھے اس کے۔ گورا رنگ تھا، بھورے بال۔ بالکل اس کی ماں کا چہرہ لگتا تھا، حسین اور کومل، لڑکیوں جیسا۔ اسکول کے ڈراموں میں اس نے کئی بار لڑکی کا رول کیا تھا۔ پھر اس کی داڑھی آ گئی، بھورے، ملائم، گھنگھریالے بال۔ اور اس داڑھی کی وجہ سے اس کا چہرہ کچھ اور ہی بن گیا تھا۔ ویسے بھی، اس کا چہرہ بھر گیا تھا اور بڑا مردانہ محسوس ہونے لگا تھا۔ لیکن اس شہر میں آ کر اس نے داڑھی اور کیس کٹوا ڈالے تھے۔ ’’یہاں تو اپنے آپ کو سنبھالنا ہی کٹھن ہے، داڑھی کیس کون سنبھالے؟’’ اس نے کہا تھا۔ پھر ایک بار حالات ایسے بن گئے تھے کہ داڑھی بڑھنے لگی تو بڑھتی ہی رہی تھی۔ وہ کٹوا نہیں سکا تھا۔ بیکاری کا وہ بہت کٹھن دور تھا۔ ویسے ان دنوں داڑھی رکھنے کا اس کو کچھ فائدہ ہی ہوا تھا۔ اندر کی جانب دھنسا اور پچکا چہرہ جو بہت ہی کمزور سا لگتا تھا، داڑھی کی وجہ سے کچھ رعب دار بن گیا تھا۔ اسے خود کو بھی لگتا تھا کہ وہ اتنا کمزور تو نہیں ہوا تھا۔ پھر ایک بار جب چوتھے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر ستر روپے کی نوکری کر رہا تھا، تو فلم میں ایک چھوٹا سا رول ملنے پر اس کو داڑھی کٹوانی پڑی تھی۔ اس رول میں مشکل سے پندرہ سیکنڈ کا کام تھا اس کا۔ اور اس کے ڈھائی سو روپے ملے تھے اس کو۔ بعد میں اسی کردار کے روپ میں فلم میں آگے چل کر اس کو ایک بار پھر رول ملا تھا۔ ڈائریکٹر نے اس کے کام کی بہت تعریف کی تھی۔ تب اس کو ایک آس بندھی تھی کہ اگر فلم چل گئی تو اس رول کی وجہ سے اس کو دوسری فلموں میں بھی کام ملنے لگے گا۔ مگر، فلم جب ریلیز ہوئی تو اس کا رول کہیں نہیں تھا۔ ایڈیٹنگ کے بعد وہ کردار ہی فلم میں سے نکال دیا گیا تھا۔ ویسے، فلم چلی بھی نہیں تھی۔ فلم نہیں چلی تھی تو اس کا ڈائریکٹر بھی نہیں چلا تھا۔ اس کے بعد اس کو کوئی فلم نہیں ملی تھی۔ سو، اس کے ساتھ چوتھے اسسٹنٹ کے روپ میں اس کی نوکری بھی جاتی رہی تھی۔ تب پھر وہی سڑکوں کی گردش تھی۔
ایک بات سے وہ خوش تھا کہ اس کو ابتداً ہی فلم لائن سے چھٹکارا مل گیا تھا، نہیں تو وہ سالوں سال اس میں پھنسا رہتا اور حال میں پھنسا کسی امید میں مستقبل کی جانب دیکھتا رہتا۔ فلم لائن میں مستقبل کتنا سنہرا اور شاندار دکھائی دیا کرتا تھا۔
اب وہ پیچھے کی جانب نہیں، آگے کی طرف دیکھ رہا تھا، آگے اپنے مستقبل کی سمت۔ فلمی زندگی والے مستقبل کی جانب نہیں، اپنی حالیہ زندگی کے مستقبل کی جانب۔
لیکن مستقبل اس کو اندھیرا دکھ رہا تھا۔
مستقبل کے اس اندھیرے میں اس نے اپنا چہرہ دیکھنا چاہا، پر وہ دکھائی نہ دیا۔
مستقبل کا چہرہ؟ اس نے سوچا اور سامنے فوٹو کی سمت دیکھا۔ اس کے ایک ٹکڑے کو وہ دیر تک دیکھتا رہا، پر اس میں سے بھی اپنا مستقبل کا چہرہ نہ دیکھ سکا۔
شاید کچھ لوگوں کا مستقبل ہوتا ہی نہیں۔ اس نے سوچا۔
کچھ دیر بعد اس کو اپنی آنکھیں بوجھل ہوتی محسوس ہوئیں۔ ان میں نیند تھی اور تھکان تھی۔ پر وہ فوٹو کی اور ایک ٹک دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھیں مندنے لگیں۔ آخرکار وہ لیٹ گیا اور اس کو نیند آ گئی۔
سوئے ہوئے اس نے جیسے سپنے میں دیکھا، فوٹو کے ٹوٹے ہوئے شیشے کی جگہ نیا ثابت شیشہ لگا ہوا تھا۔ اور وہ کئی ٹکڑوں والا چہرہ بھی جیسے ثابت ہو گیا تھا۔ مُکل کے بنائے چہرے سے وہ بالکل ہی الگ چہرہ محسوس ہو رہا تھا۔ اور وہ چہرہ، اس نے جھٹ پہچان لیا، اس کی ماں کا چہرہ تھا۔ بالکل ماں کا چہرہ۔ لیکن تب اس نے دیکھا، ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اور اس کے ہونٹوں پر جو دائمی مسکان ہوتی تھی، وہ غائب تھی۔ اس مسکراہٹ کے بغیر، اس کو لگا، وہ چہرہ اس کی ماں کا نہیں تھا۔ وہ کوئی بے حد پرایا چہرہ تھا۔
٭٭٭
سندیسہ ۔۔۔ نوتیج سنگھ پریتلڑی
تو جانتے ہو سردار جی، آزادی سے پہلے کا میں اس روٹ پر بس چلا رہا ہوں۔ تب آدھے سے زیادہ راستہ کچا ہوتا تھا۔ اب تو آخر تک پکی سڑک کی بادشاہی ہے۔ تب شہر سے باہر ہوئے نہیں اور بس، پھر کیا، بجلی کا لاٹو ختم۔۔۔ اور اب ایشور کی کرپا سے سارے راستے ہی لاٹوؤں کی جھلمل اور کئی جگہوں پر بمبوں کی گھوں گھوں۔۔۔۔
اور اب تو ایک بہت عمدہ قانون بن گیا ہے۔ ہمیں حکم دے دیا گیا ہے کہ بارہ برس سے کم عمر کے لڑکے لڑکیوں کو اسکول جاتے وقت یا چھٹی ہونے پر گھر لوٹتے وقت بس میں مفت چڑھایا جائے۔
کئی تو شک کرتے ہیں کہ یہ قانون ووٹ ڈلنے تک ہی لاگو ہے، بعد میں کوئی نہیں پوچھے گا۔
سردار جی، میں تو ایک زمانے سے بچوں کو اپنی بس میں چڑھاتا رہا ہوں، تب بھی جب میری ساری روٹ پر قسم کھانے کو ایک اسکول نہیں ہوا کرتا تھا۔ اب تو آزادی کے بعد ایشور کی کرپا سے بڑے اسکول کھل گئے ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ پڑھنے والوں کی گنتی سے ان اسکولوں کی تعداد بہت کم ہے، پر کئی ڈریور بڑے اڑیل ہوتے ہیں جی۔۔۔ انہیں اب اس قانون کے سبب بچے چڑھانے ہی ہو نگے۔
ایک بار کی بات یاد آ رہی ہے۔ تب ابھی یہ دو میل کا ٹکڑا کچا ہی ہوتا تھا۔ مجھے مہر کا تاپ چڑھ گیا۔ میری جگہ سرین سنگھ ڈریور آیا۔ چڑھی دوپہر کتابیں اٹھائے بچے ننگے پاؤں تپتے رہتے، پر وہ باپ کا بیٹا سرین سنگھ بس ہی نہ روکے۔ بچے بھی بڑے شرارتی ہوتے ہیں۔ انہوں نے اس کچے راستے کی پلیا کی اینٹیں نکال دیں۔ بہت پریشانی ہوئی، پر سرین سنگھ نے آگے کے لئے کانوں کو ہاتھ لگا لئے اور بچوں کو روز بس میں چڑھانے لگ پڑا۔ جس سرین سنگھ سے اڈے پر کنٹرولر سہمتے تھے، اس کو چھوٹے چھوٹے بچوں نے بندہ بنا دیا۔
بغل میں بستہ دبائے، ننگے پیروں والے بچوں کو جب بس میں بیٹھا لیں، تو وہ میٹھا میٹھا آپکی طرف تکتے ہیں۔ ان کے چہروں پر چھائی خوشی دیکھ کر پل بھر کو تازہ تازہ ہوئے چالان کا دکھ بھی بھول جاتا ہے۔ اور یہ بھی بھول جاتا ہے کہ پہلی تاریخ کب کی چڑھی ہوئی ہے اور دفتر کی طرف سے بلائے جانے کا ابھی کوئی اتا پتہ نہیں۔ قسم رب کی، کوئی بڑھیا سے بڑھیا ولیتی شراب بھی کیا غم غلط کرے گی؟
جب سے یہ نیا قانون بنا ہے، بہت سارے لڑکے چھٹی ہونے پر نہر کے پل کے قریب آم کے پیڑوں کے نیچے بیٹھ کر بس کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ کوئی کوئی تو وہیں بیٹھ کر گھر کے لئے ملے سوال نکالنے لگ جاتا ہے۔ کوئی گھاس پر یوں ہی ٹیڑھا ہو کر لیٹ جاتا ہے۔ اور جب میں پل پر پہنچ کر ان کے لئے بس روکتا ہوں، تو وہ ناچتے کودتے مجھے گھیر لیتے ہیں۔ اور میں ان سے کہتا ہوں، ’’میں تمہیں بس میں کسی لحاظ سے نہیں چڑھا رہا۔ اب ہمارا دیش آزاد ہو گیا ہے اور پڑھنے والے بیٹے بیٹیوں کو بس میں مفت سواری کا حق دے دیا گیا ہے۔‘‘
میری زندگی کے بارے میں پوچھتے ہیں، سردار جی؟ زندگی خوب گزری ہے اور خوب گزر رہی ہے۔ ہمارے اس پیشے میں زندگی روز نئی ہوتی رہتی ہے، نت نئے لوگوں سے واسطہ جو پڑتا رہتا ہے۔ گاؤں سے شہر میں سندیسے پہنچاتے ہیں، شہر سے گاؤں والوں کے لئے کئی چیزیں لے کر جاتے ہیں۔
اس روٹ پر بہت پرانے وقت سے چلتے ہونے کی وجہ سے سندیسوں کے آمد و رفت اور چیزوں کے لانے لے جانے کی بھرمار رہتی ہے۔ پر میں بھی کبھی منع نہیں کرتا۔ ذرا سی پریشانی سے دوسرے کا اتنا کام ہو جاتا ہے۔ اور لوگوں کے چہروں کی مسرور یاد رات کو اس طرح نیند لاتی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اپنے ٹبر سے دور بس کی کڑی چھت پر نہیں بلکہ پھولوں کی سیج پر سویا ہوا ہوں۔
اور چیزیں پوچھتے ہو سردار جی! سندیسوں اور چیزوں کی کئی قسمیں ہیں۔ کوئی نتیجے والے دن اخبار چھپا کر منگواتا ہے، کوئی بیمار بیوی کے لئے ٹیکے منگواتا ہے، کسی کے گھر میں کوئی بہت اونچی ناک والا مہمان آیا ہوا ہوتا ہے، جس کی سیوا کے لئے شہر سے پھل، سبزی منگوائے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔ کبھی شہر کے بڑے اسپتال میں کسی کا سگار شتے دار داخل ہوتا ہے، اس کے لئے گھر کا دودھ پہچانا پڑتا ہے۔ اور پھر گاؤں کی ہر موسم کی نعمتیں، گنے، سرسوں کا ساگ، ڈیلے اور بہت کچھ، کسی کا کسی کے لئے شہر پہچانا ہوتا ہے۔ شہر والے اڈے پر اس گاؤں کے ایک اچھے حلوائی کی دوکان ہے، اسی کے حوالے سب کچھ کر دیتے ہیں۔ آگے جس کا سندیسہ ہوتا ہے یا جس کی چیز ہوتی ہے، وہ خود آ کر لے جاتا ہے۔
جیسے پڑھے لکھے نوجوانوں کے لئے تو کبھی کبھار جوڑے سجائے، عینکوں والی جوان لڑکیوں کے سندیسے بھی لے جاتے ہیں جی؟ اب کبوتروں کے ہاتھ نہیں، ڈریوروں کے ہاتھ سندیسے آتے ہیں۔
آپ کو میں نام نہیں بتاتا۔ کبوتروں نے بھید چھپا کر رکھنے کی بڑی اچھی روایت ڈالی ہے۔ ہم ڈریور اس روایت کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ ایک دن ایک بہت سندر سی لڑکی شہر کے بس اڈے پر مجھے آپ کے جیسے گاؤں کے ایک اچھے پڑھے لکھے لڑکے کے لئے چٹھی پکڑا گئی۔ جب میری بس آپ کے گاؤں پہنچی، وہ لڑکا وہاں پہلے سے ہی کھڑا تھا۔ اس نے چٹھی لے کر میری طرف اس طرح دیکھا، گویا میں اس کے لئے سات سورگ لے آیا ہوں۔ اگلی صبح وہ لڑکا بس چلنے سے دس منٹ پہلے ہی میری بس میں آ بیٹھا۔ اس کے ہاتھ میں سفید اور گلابی کنول کے پھول تھے۔ ان پھولوں جیسی ہی چمک اس کے چہرے پر بھی تھی۔ پہلے جب بھی وہ شہر جاتا تھا، دوڑتے بھاگتے ہوئے ہی بس پکڑتا تھا اور کچھ پریشان پریشان ہوتا تھا۔ آج جیسا اس کا چہکتا چمکتا چہرہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
میری بس میں اتنے برس ہزاروں مسافر چڑھے اترے ہوں گے۔ چیزیں آئی گئی ہوں گی، لیکن ایسے چہرے والا کبھی کوئی نہیں چڑھا تھا، کنول کے پھول کبھی کوئی لے کر نہیں آیا تھا۔
موڑ کے بائیں جانب جو گِلوں کا تالاب ہے، وہ سارے کا سارا کنولوں سے ہی بھرا پڑا ہے۔ چار پانچ کنال جگہ ہو گی۔ پر یہاں کے لوگ یہ کبھی نہیں کہتے کہ کنول لگا رکھے ہیں۔ بلکہ کہتے ہیں، ’’بھیں‘‘ لگا رکھی ہے۔ اور ساون میں کئی کئی بوری یہاں سے نکال کر میری بس میں لادتے رہتے ہیں، بھیں شہر بھیجی جاتی ہیں۔ لیکن آج تک کنول کے پھول کوئی میری بس میں نہیں لے گیا تھا۔
شہر میں جب بس پہنچی، وہ چٹھی والی لڑکی اس کنول والے لڑکے کا انتظار کر رہی تھی۔ شام کو آخری بس پر وہی لڑکی اس لڑکے کو چھوڑنے آئی۔ اب کنول کے پھول اس لڑکی کے ہاتھ میں تھے۔
سبھی سواریاں بیٹھ گئیں، سامان اور بہت کچھ چھوٹا موٹا لاد لیا گیا۔ مگر وہ دونوں آخر تک باہر چپ چاپ کھڑے رہے۔ ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ دونوں کی کیا عجب حسرت تھی یا پیاس تھی، جسے وہ آخری قطرے تک پی لینا چاہتے تھے۔ سرکتی بس میں لڑکا چڑھا، لیکن پھر بھی پیچھے کی طرف دیکھتا رہا۔
ہمیں کہاں آتی ہے لکھنی جی؟ ہاں، شاعری پڑھنے کا شوق ضرور ہے۔
میں بھی پڑھتا ہوں، پر پتہ نہیں جیسی زندگی میں نت نئی ہوتی دیکھتے ہیں، ویسی کہانیاں لکھنے والے کیوں نہیں لکھتے۔
ہاں، یہ ٹھیک ہے۔ ہماری مسافری والی زندگی میں بہت کچھ ہوتا رہتا ہے۔ اگر مجھے کہانی لکھنی آتی ہوتی تو میں بہت کچھ قلم بند کرتا۔ میری ان کہانیوں میں ہنر کا تو پتہ نہیں، پر آپکی قسم، وہ زندہ ضرور لگتیں۔
اگر مجھے کہانی لکھنی آتی تو میں سب سے پہلے کنول کے پھولوں والے لڑکے اور لڑکی کی کہانی نہیں لکھتا۔ ایک دوسری کہانی لکھتا۔ ایک چھوٹے سے لڑکے، بس آٹھ نو برس کے بچے نے اپنے باپ کے پاس پہچانے کے لئے مجھے ایک بار سندیسہ دیا تھا۔ اس لڑکے اور اس سندیسے کی کہانی میں سب سے پہلے لکھتا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب اس علاقے کے گاؤں میں نئی نئی بجلی آئی تھی۔ میرا ناچنے کو دل کرتا تھا بجلی، میرے لوگوں کے لئے روشنی؟ پر لوگ میری طرح ناچ کیوں نہیں رہے، یہ میری سمجھ سے باہر تھا۔
انہیں دنوں ایک دن نہر کے پل کے پاس سے گزرتے ہوئے میں نے بس روکی تو ایک آٹھ نو برس کا بچہ مجھے اپنے باپ کے لئے ایک سندیسہ دے گیا۔ اپنی زندگی میں یہی ایک سندیسہ شاید میں پورا نہیں کر سکا تھا۔
یہ بات نہیں کہ یہ مجھے یاد نہیں رہا تھا۔ یاد تو یہ مجھے تب بھی ہو گا، جس گھڑی میں اس دنیا سے رخصت ہو رہا ہوں گا۔ اور سب کچھ بھلے ہی بھول جائے، وہ کنول کے پھول بھی بیشک بھول جاؤں، مگر اس سندیسے کی کسک صدیوں زندہ رہے گی۔ در اصل، اس پورے سندیسے کو بھولنے کا حوصلہ ہی مجھ میں نہیں ہوا تھا۔
ہاں، تو میں کہہ رہا تھا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب نئی نئی بجلی ہمارے علاقے کے گاؤں میں آئی تھی۔ آپ کو یاد ہو گا، آپکے گاؤں کے اڈے پر بجلی کے ایک ٹھیکیدار نے دوکان کھولی تھی۔ ٹھیکیدار کے مستری کے پاس نرینا کام کیا کرتا تھا۔ اسی نرینے کے بیٹے نے یہ سندیسہ مجھے دیا تھا۔ نرینے کا گاؤں نہر کے ساتھ لگتا ہے۔ آپکے گاؤں میں تو وہ رزق کا مارا آیا ہوا تھا۔
نرینے کے بیٹے نے جو سندیسہ مجھے دیا تھا، وہی میں آپ کو بتانے جا رہا تھا۔ نہر کے پل کے پاس جب میں نے بس کو روکا تو یہ بچہ میرے پاس آیا۔ بولا، ’’بھاجی، میرے باپو کو آپ جانتے ہو نہ؟’’ اس نے اتنے سادہ سے انداز میں مجھ سے پوچھا گویا وہ باپو کی پیچھے چھوٹ گئی کوئی چیز اس تک پہچانے کے لئے مجھے دینے آیا ہو۔ پھر اس نے کہا، ’’جہاں آخر میں آپکی بس جا کر کھڑی ہوتی ہے، وہیں بجلی کی ایک دوکان پر میرا باپو کام سیکھتا ہے۔ دوکان تو اس وقت بند ہو گی، پر رات میں وہ سوتا بھی دوکان میں ہی ہے۔ آپ بھاجی اس کو کہہ دینا کہ میری ماں کہتی تھی، آج بھی ہم آٹا ادھار لے کر آئے ہیں۔‘‘
وہ بچہ تو جیسے آیا تھا، ویسے ہی لوٹ گیا، لیکن میں پورے راستے سوچتا رہا، اگر بجلی کا کام سیکھنے والے اس نرینے کے گھر کوئی سخی اپنے پلے سے بجلی کا لاٹو لگوا بھی دے، تو نرینے کے لئے یہ روشنی کس کام کی؟ ادھار لیا آٹا گوندھتی اپنی بیوی اور کچھ دن بعد کی خالی پرات اور اپنے بچے کا بھوکھا پیاسا منہ دیکھنے کے لئے بجلی کے لاٹو کی کیا ضرورت تھی؟
بجلی آ گئی ہے، بڑا اچھا ہوا ہے، سردار جی! پر روشنی ہونے میں ابھی دیر ہے؟
٭٭٭
سانجھ ۔۔۔ گردیال سنگھ
ریل سے اتر کر ایک عورت الجھن کی حالت میں ادھر ادھر جھانک رہی تھی۔ بنتو ٹیڑھا سا ہو کر اس کی جانب بڑھا۔ نظر کچھ کمزور سی ہو جانے کے سبب اسے اتنی دور سے آدمی کی پہچان نہیں ہوتی تھی۔ قریب جا کر غور سے دیکھا تو اسے لگا جیسے وہ جے کور ہو۔
’’کون ہے؟’’
’’میں جے کور۔‘‘
’’تو یہاں کیسے؟’’
اور ساتھ ہی ساتھ بنتو کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ جے کور پل دو پل کچھ جھجکی، پھر دھیمی آواز میں بولی، ’’شہر سے آئی تھی۔ بڑی بہو اسپتال میں داخل ہے۔‘‘
’’خیر تو ہے؟’’
’’ہاں، بچہ ہونا ہے۔‘‘
’’آ، پھر چلیں۔‘‘
جے کور کو کوئی جواب نہ سوجھا۔ وہ شش و پنج میں پڑ گئی۔ دن چھپ چلا تھا اور گاؤں تک پہنچتے پہنچتے رات کی روٹی کا وقت ہو جانا تھا۔ واقعی، گاڑی سے کوئی تیسرا بندہ نہیں اترا تھا۔ پہلے کبھی گاڑی اتنی دیر سے نہیں پہنچی تھی۔ دن کے اجالے میں ہی پہنچ جایا کرتی تھی پر، آج اتنی تھک گئی تھی۔ ایک بار اس کے دل میں آیا کہ رات یہیں اپنی بھتیجی کے گھر گزار لے۔ لیکن کل پھر اسے دوپہر کی گاڑی سے لوٹنا تھا۔ گھڑی بھر اس نے سوچا اور پھر سامنے کھڑے بنتو کی جانب دھیان سے دیکھا۔ بنتو کی آنکھوں میں ایک انوکھی چمک دکھی اور اس کا پورا رویہ عجیب سا محسوس ہوا۔
’’اچھا، چل۔‘‘ جے کور نے من کڑا کر کے کہا۔
جب بنتو نے لمبا ڈگ بھرا تو اس کے سر پر رکھی سودے سلف والی گٹھری ڈول گئی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اسے سنبھالتے ہوئے یوں پچکارا جیسے شیطان بچھڑے کو ٹکا رہا ہو۔ اس کے بعد وہ کچھ بدبدایا اور پھر خود ہی مسکرا پڑا۔
’’اور سنا جے کرے۔۔۔‘‘ دھیمی آواز میں بنتو نے راہ پکڑتے ہوئے بات چھیڑی، ’’قبیل داری تو ٹھیک ٹھاک ہے؟’’
’’سب کرپا ہے گرو کی۔‘‘
’’شکر ہے، شکر ہے۔‘‘کہہ کر بنتو نے کھانسا، دائیں بائیں دیکھا اور چھپے سورج کی ڈھل رہی سرخی دیکھ کر اسے کسی پوشیدہ خوشی کا احساس ہوا۔ لیکن ابھی تک باجرے کے لمبے سٹوں کی کوروں کو چمکتے دیکھ کر اس نے پھر نظریں جھکا لیں۔
چاروں جانب اتنا سناٹا تھا کہ راستے کے دونوں اطراف کھڑے گھنے درختوں کے پتوں میں چھپی چڑیاں، جب ان کی قدموں کی چاپ سن کر ایک ساتھ بولنے لگتی تھیں تو ان کے شور سے آسمان پھٹنے کو ہو جاتا۔ جب چڑیاں چپ ہو جاتیں تو پھر سے ویسا ہی سناٹا پھیل جاتا۔ بنتو کتنی ہی دور تک یوں ہی اپنے پیچھے پیچھے آتی جے کور کی جوتیوں کی تھاپ سنتا رہا۔ اس آواز میں سے اسے گردوارے میں بجتے ’’ڈھولکی چھینوں‘‘ کی تال کی طرح جھنکار سنائی دیتی تھی۔
’’ہمیں آپس میں ملے، ہو گئے ہوں گے کئی برس جے کرے؟’’
’’ہاں؟’’ جے کور نے جیسے ڈری ہوئی آواز میں اتر دیا۔
’’چھ سات برس تو توُ شاید اپنے چھوٹے بھتیجے کے پاس راجستھان میں بھی رہ کر آئی ہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
جے کور نے آنکھیں اوپر اٹھا کر بنتو کی طرف دیکھا تو وہ کانپ اٹھی۔ وہ کھڑا ہو کر پیچھے کی سمت دیکھ رہا تھا اور جوتی میں لگی ریتی کو جھاڑنے میں لگا تھا۔ اس کی آنکھیں سورج کی ڈھلتی لالی جیسی چمک سے کپکپا رہی تھیں۔ لیکن، لیکن اس کی داڑھی دیکھ کر جے کور کا دل قابو میں آ گیا۔ اب اسے بنتو سے بالکل بھی کوئی ہچکچاہٹ یا ڈر نہیں لگ رہا تھا۔ اب تک گویا اسے بنتو کے اتنا بوڑھا ہو جانے کا خیال ہی نہیں آیا تھا۔ جب بنتو یوں ہی تھوڑا سا مسکرا کر آگے بڑھا اور ان کے بیچ کا فاصلہ ایک قدم ہی رہ گیا تو جے کور اس کے جسم کو ایڑی سے لے کر سر تک اچھی طرح دیکھ سکتی تھی۔ بنتو کی پنڈلیاں سوکھ کر لکڑی جیسی ہو گئی تھیں۔ گردن پر گوشت لٹک آیا تھا۔ پیٹھ جھک چکی تھی اور کندھوں کے اوپر کی ہڈیاں، کٹے کے سینگ کی بھانتی اوپر کی جانب ابھر آئی تھیں۔ اس کے کپڑوں میں کتنی کتنی میل تھی۔
اور، اس وقت جے کور کی آنکھوں کے متوازی ایک اور بنتو آ کھڑا ہوا۔۔۔ اس بنتو کے ماتھے پر راجاؤں جیسی شان تھی؟ لمبا قد، سڈول بدن، چوڑا مضبوط سینہ اور رسیلی آنکھیں جن کی تاب جھیلی نہیں جاتی تھی۔ یہی بنتو جب۔۔۔
جے کور کو اسی وقت کپکپی چھوٹ گئی۔ وہ پھر ڈر کر بنتو کی طرف دیکھنے لگی۔ لیکن دوسرے ہی پل اس کے ہونٹوں سے ہنسی نکل گئی۔
’’تو کیوں اتنا کمزور ہوا پڑا ہے؟’’ ترس بھری آواز میں جیسے ہمدردی جتاتے ہوئے جے کور نے خاموشی کو توڑا، ’’کہیں بیمار شیمار تو نہیں رہا؟’’
بنتو نے تبھی ایک گہری سانس لی اور جواب دیا، ’’اب تو جے کرے۔۔۔ بس، کچھ نہ پوچھ؟’’
’’کوئی نہیں، اتنا دل نہیں ہارا کرتے۔۔۔‘‘ جے کور نے دلاسا دیا، ’’گھر گھر میں یہی حال ہے۔ قبیل داری جو ہوئی، یہ تو جنجال ٹھہرا؟’’
’’جنجال تو ہے جے کرے، پر زمانہ اتنا برا آ گیا ہے کہ کوئی کسی کی بات ہی نہیں پوچھتا۔ یہ میری عمر بھلا اب دھکے کھانے کی ہے؟ دس برس ہو گئے جب بیٹوں کو جائیداد بانٹ دی تھی، وہی آنکھیں پھیر گئے۔ دونوں بہویں ایسی چندری آئی ہیں کہ کہتی ہیں، بس بڈھے کی جتنی کھال اتارنی ہے، اتار لو، اس نے کون سا دوسرے کام آنا ہے۔ وقت سے روٹی نہیں دینی، نہانے کو پانی نہیں دینا، کپڑا نہیں دھونا، پھر کسی سے کیا، سبھی طرف یہی حال ہے۔ اپنی لکھی بھگتنی ہے، جے کرے؟’’
جے کور کو بنتو اچانک اُس بچے سا لگنے لگا جو مار کھا کر شکایت کر رہا ہو۔
’’کوئی بات نہیں، اتنا اداس نہیں ہوا کرتے۔‘‘ جے کور کڑک دار لہجے میں بولی، ’’میرے جیسوں کی جانب دیکھ جو در در بھٹکتے پھرتے ہیں۔ ایک تو رب نے ساری عمر سنی نہیں، اوپر سے بھتیجوں کے در پر دھکے کھانے پڑے۔ بھائیوں کی بات اور ہوتی ہے۔ من آتما دکھی ہے۔ کہتے ہیں نہ، ’’نانک دکھیا سب سنسار؟’’ کسی کا کوئی بس ہے؟ اپنا بویا کاٹنا ہے۔ کہتے ہیں، جیہا بی جے سو لنے، کر ماں سندڑا کھیت؟’’
جے کور بولتی گئی اور بنتو کے من کو ڈھارس ملتی رہی۔ جیسے ایک دکھی کو دیکھ کر دوسرے دکھی کے من کو تسلی ہوتی ہے، ویسی ہی تسلی اسے ہو رہی تھی۔ ایک طرح سے اس سے بھی زیادہ کیونکہ جے کور سے اس کا گہرا لگاؤ تھا۔
بنتو نے بائیں طرف دیکھا۔ سورج کی سرخی بالکل ڈھل چکی تھی اور نکھرے آسمان میں کئی چھوٹے چھوٹے تارے چمکنے لگ گئے تھے۔ ہوا بند ہونے کی وجہ سے اُمس بڑھ گئی تھی اور ’’چریگوار’’ کے پتوں کی کھڑکھڑاہٹ بھی سنائی نہیں دیتی تھی۔ راستہ آگے جا کر مزید تنگ ہو گیا تھا۔ جے کور بے جھجک اس کے پیچھے پیچھے چلی آ رہی تھی۔ اس کی بھاری آواز، ابھی تک نہ ڈھلا ہوا بدن، چوڑا ماتھا، گورا رنگ اور ڈھلتے نین نقش، جن میں ابھی بھی عورت والا کھنچاؤ تھا، اسے بہت اچھے لگ رہے تھے اور ایک بار کھڑے ہو کر اسے دیکھنے کو اس کا دل کر رہا تھا۔
’’جے کرے، یہ اپنا کھیت ہے۔‘‘ پیر ملتے ہوئے جوتی میں سے ریت جھاڑتا ہوا بنتو دفعتاً کھڑا ہو گیا تھا اور دائیں جانب کے گھنے سمبل کی سمت ہاتھ کر کے اسے بتا رہا تھا، ’’اس بار پانچ ساڑھے پانچ گھماؤ بویا ہے۔ وہ۔۔۔ شیشم کے پیڑ تک۔‘‘
جے کور ایک دم رک گئی۔ اس کی سانسیں تیز ہو اٹھیں اور دل زوروں سے دھڑکنے لگ گیا۔ جس شیشم کے پیڑ کی سمت بنتو نے اشارہ کیا تھا، یہ۔۔۔ وہی شیشم تھا جس کے پاس، آج سے تیس پینتیس برس پہلے ایک بار بنتو اسے گھیرے کھڑا تھا اور اس نے بے جھجک جے کور کا بازو پکڑ لیا تھا۔ اس وقت جے کور ایک بارگی تو ڈر ہی گئی تھی لیکن پھر اس کا من کیا تھا کہ بنتو یوں ہی اس کا بازو پکڑے رہے۔ جے کور کو سچ مچ کپکپی چھوٹ گئی۔ بنتو جوتی میں سے ریتی جھاڑنے کے بہانے کتنی ہی دیر تک آگے نہیں بڑھا تھا اور آنکھیں پھاڑ کر جے کور کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ جے کور نے ایک دو بار اس کی طرف دیکھا اور نظریں جھکا لیں۔ اسے بنتو سے سچ میں ڈر لگنے لگا اور اس کا جھریوں بھرا چہرہ بڑا گھناؤنا سا لگا۔
’’اس شیشم کے ساتھ ہی باجرہ لگا ہے۔‘‘ بنتو نے جیسے شرارت میں کہا ہو، ’’میں نے تو کہا تھا، وہاں بھی سمبل بو دیتے ہیں، پر تو تو سمجھدار ہے، بوڑھوں کی کہاں سنی جاتی ہے۔ سب اپنی اپنی مرضی کرتے ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔‘‘
’’وہ شیشم، جے کرے میرے بیاہ کے وقت باپو بیچنے چلا تھا، لیکن میں نے کہا، چاہے زمین گروی رکھ دے لیکن میں یہ شیشم نہیں بیچنے دوں گا۔‘‘
جے کور کے پورے بدن میں ایک بار پھر سنسناہٹ پھیل گئی۔ بنتو پھر سے شیشم کی بات چھیڑے جا رہا تھا۔ اب جب وہ پھر سے راستے پر چلنے لگے تو جے کور آہستہ آہستہ پیچھے رہ گئی اور ان کے بیچ کا فاصلہ پانچ چھ قدموں کا ہو گیا۔ اب بنتو کو جے کور کے قدموں کی چاپ سنائی نہیں دے رہی تھی۔ وہ بولتے بولتے پھر رکا اور پیچھے مڑ کر دیکھنے لگ پڑا۔
’’آ جا، آ جا، بس اب تو آ ہی گئے۔‘‘ حوصلہ دیتے ہوئے بنتو نے کہا، ’’وہ سامنے گاؤں کھڑا ہے، اب کہاں دور ہے؟’’
جے کور نے نگاہ اوپر اٹھا کر دیکھا، گاؤں آدھے کوس کی دوری پر تھا۔ وہ جلدی جلدی دو تین قدم بڑھا کر پھر سے بنتو کے ساتھ آ ملی۔
’’جے کرے۔۔۔ جب سے تیری بھرجائی مری ہے، لگتا ہے جیسے یوں ہی سانسوں کو بلو رہے ہیں۔‘‘
’’تیری بھرجائی’’ کے لفظ جب بنتو نے کچھ دبا کر کہے تو جے کور کے ہونٹوں پر ہنسی پھیل گئی۔
’’جے کرے؟’’ بنتو پھر بولا، ’’عمر عمر کی باتیں ہیں۔ جب جوان ہوتے تھے، کبھی رب کو یاد نہیں کیا تھا، پر اب لگتا ہے، یوں ہی بیکار میں دن کاٹے جا رہے ہیں۔ اگر مر جائیں تو اچھا؟ پر مانگنے سے موت بھی کہاں ملتی ہے۔‘‘
’’رے، ابھی کس لئے دعائیں مانگتا ہے مرنے کی؟’’ جے کور بولی، ’’اپنے پوتوں کے بیاہ دیکھ کر جانا۔ پڑ پوتوں کو کھلا کر جانا۔ اور پھر، پڑ پوتوں کا ار تھی کو ہاتھ لگے بنا تو گتی بھی نہیں ہوتی۔‘‘
بنتو کا دل جے کور کی بات سے کسی عجب رو میں بہہ چلا۔ اس کا جیسے ایک ہی وقت میں مرنے کو بھی من کرتا تھا اور جینے کو بھی۔
’’بات تو تیری ٹھیک ہے، پر کیا لینا اب گھٹنے گھسٹ کر۔ گتی اپنے آپ ہوتی رہے گی۔ یہ کوئی زندگی ہے؟ صبح ہوتے ہی کتے کی طرح پورے ٹبر سے ’’در در’’ کرواتے پھرو۔ ہنس کر کوئی روٹی کا ٹکڑا بھی تو نہیں پکڑاتا۔‘‘
جے کور کو بنتو کی بات سچ لگی۔ اس کے دل میں بنتو کے لئے وہی گہری سانجھ نمودار ہو اٹھی، جو آج سے تیس پینتیس برس پہلے بھی نمودار ہوئی تھی۔ جب وہ دونوں ایک جیسے کنوارے تھے۔ ابھی بھی دونوں ایک جیسے تھے، دوسرے کے ہاتھوں کی طرف دیکھنے پر مجبور۔ وہ خود بیس برس بال بچے کے لئے ترستی رہی تھی، پر کسی پیر فقیر نے، کسی دیوی دیوتا نے اس کی جھولی نہیں بھری تھی۔ اور آخر میں اس کے پتی کی اچانک ہوئی موت نے ساری امید ہی ختم کر دی تھی۔ اور اب سات برس ہو گئے، وہ کبھی چار دن سسرال میں کاٹ آتی تھی، اور کبھی میکے میں۔ کبھی بھتیجیوں کے دروازے آ بیٹھتی تھی۔ روٹی کے لئے اسے کس کس کی غلامی نہیں کرنی پڑی تھی۔
’’ان بیٹوں پوتوں کی غلامی کر کے ہی روٹی کھانی پڑتی ہے، جے کرے؟ نہیں تو سات سو گالیاں دے کر گھر کے باہر والے چھپر کے نیچے چارپائی ڈال دیتے ہیں، کتے بھگانے کے لئے؟’’
بنتو ابھی اپنی ہی رام کہانی سنائے چلا جا رہا تھا اور دھیرے دھیرے وہ پھر سے پہلے والی رو میں آتا جا رہا تھا۔
’’جے کرے، یہ کوئی زندگی ہے؟ جب مرنے کے بعد کوئی یاد کرنے والا ہی نہ ہو تو وہ موت بھی کیسی؟ اکیلے آدمی سے تو موت بھی بھاگتی ہے۔‘‘
بنتو بولتا جا رہا تھا، لیکن جے کور کا دھیان اب اس کی باتوں کی جانب نہیں تھا۔ وہ سامنے گاؤں کے دیوں کی طرف دیکھ رہی تھی، جو اسے کسی چتا کی لپٹوں کی روشنی کی مانند دکھ رہے تھے۔
مڑ کر اس نے بنتو کی اور دیکھا۔ سوکھے ڈنڈوں سی اس کی ٹانگیں اندھیرے میں گم ہو گئی تھیں۔ اس کا مجروح جسم ہل رہا تھا۔ جے کور کو اس پر ترس آیا۔
’’اچھا، میں باہر والی سڑک پر چلتی ہوں۔‘‘ اس نے بنتو سے کہا، ’’زیادہ اداس نہ ہوا کر۔ جو چار دن اور کاٹنے ہیں، ہنس کر کاٹیں، ریں ریں کرنے پر کوئی ہمیں پلنگ پر بٹھانے والا نہیں ہے۔‘‘
’’ستیہ ہے، ستیہ ہے، ’’ کہتا ہوا بنتو اپنے راستے کی سمت مڑ گیا۔
٭٭٭
لوہے کا گیٹ ۔۔۔ رام سروپ انکھی
اور اس دن لوہے کا گیٹ بن کر پوری طرح تیار ہو گیا۔ میں نے سکھ کی سانس لی۔ چلو، آج تو لگ ہی جائے گا گیٹ۔ نہیں تو پچھلے پندرہ دنوں سے گھر کا دروازہ کھلا پڑا تھا۔ حالانکہ دروازے کے دونوں کناروں کے بیچ آدمی کے کندھے کے برابر اونچی اینٹوں کی عارضی دیوار بنا دی گئی تھی، جس سے کوئی ڈھور ڈنگر اندر نہیں آتا تھا۔ گلی میں گھومتے سور نہیں آتے تھے۔ پھر بھی رات میں کتے دیوار پھاند کر اندر آ جاتے اور آنگن میں پڑے جھوٹے برتن چاٹتے گھومتے۔ کتوں سے زیادہ مجھے چور کا ڈر ستاتا تھا۔ دیوار پر سے کود کر کوئی اندر آ سکتا تھا۔ اسی لئے مجھے رات کو آنگن میں سونا پڑتا۔ گرمی کا مہینہ تھا، بیشمار مچھر تھے۔ گیٹ بند ہو تو اندر کمرے میں بجلی کے پنکھے کے نیچے آرام سے سویا جا سکتا تھا۔ کمرے میں تو کولر بھی تھا۔ ہر روز میں خفا ہوتا، ’’یہ کمبخت لوہار گیٹ بنا کر دیتا کیوں نہیں؟ جب بھی جاؤ نیا بہانہ گڑھ دے گا۔ گیٹ کا فریم بنا کر رکھ چھوڑا ہے۔‘‘ پوچھو تو کہے گا ’’بس، کل آپ کا تالا لگوا دیں گے۔‘‘ اسی طرح کئی کل بیت چکے تھے۔ کوئی اور بہانہ نہیں چلتا تو پوچھنے لگتا، ’’گیٹ کا ڈیزائن کیسا رکھنا ہے؟’’ میں جل بھن جاتا، ’’بابا جی، ڈیزائن تو پہلے دن ہی آپکی کاپی پر نوٹ کرا دیا تھا۔ اب دوبارہ پوچھنے کا کیا مطلب؟ یہ تو وہی بات ہوئی کہ کسی ٹیلر کے پاس اقرار والے دن اپنی قمیض لینے جاؤ اور وہ پوچھنے لگے کالر کیسے بنانے ہیں؟ بٹن کتنے لگائیں؟ جیبیں دو یا ایک؟’’
اصل بات یہ تھی کہ وہ آس پاس کے گاؤوں سے آنے والے لوگوں کا کام کر کے دیئے جا رہے تھے اور میں اپنے گاؤں کا ہی تھا۔ مجھے کدھر جانا تھا۔ میرا کام تو کبھی بھی کر کے دے سکتے تھے۔ میری تو ان سے کچھ جان پہچان بھی تھی۔ دوسرا کوئی ہوتا تو کہہ دیتا، ’’نہیں بنا کر دینا گیٹ تو نہ بناؤ میں کہیں اور سے بنوا لیتا ہوں۔‘‘ لیکن ان کے سامنے میری آنکھوں کی شرم مجھے روکے تھی۔ اور پھر گیٹ کا فریم بنا کر سامنے رکھا پڑا تھا۔
بوڑھا بابا ایک کرسی لے کر سامنے بیٹھا رہتا، کام تو چار دیگر آدمی کیا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک ادھیڑ عمر کا تھا اور تین جوان تھے۔ وہ مہینے کی تنخواہ لیتے تھے۔ بابا کا بیٹا بھی تھا۔ وہ اوپر کے کام کے لئے اسکوٹر لے کر شہر میں گھومتا رہتا۔ ورکشاپ میں لوہے کے گیٹ اور کھڑکیوں کی گرلیں بنتیں۔ بیٹا گاہک کے گھر جا کر گیٹ اور کھڑکی کا ناپ لیتا۔ پھر بازار سے لوہا خرید کر لاتا۔ کبھی کبھار کسی بڑے شہر میں بھی چلا جاتا۔
جوان مستریوں میں سب سے چھوٹا تھا چرنی۔ سب اس سے مذاق کیا کرتے۔ بابا اسے جھڑک بھی دیتا، پر وہ ہنستا رہتا۔ وہ کسی بات پر غصہ نہیں کرتا تھا۔ بوڑھا بابا زیادہ تو اس پر تب خفا ہوتا، جب وہ باتیں کرتے وقت اپنے ہاتھ میں لیا ہوا کام چھوڑ کر بیٹھ جاتا۔
کوئی گاہک گیٹ بنوانے کی خاطر پوچھنے آتا تو بابا سوال کرتا، ’’کتنا چوڑا، کتنا اونچا؟’’ یا پھر، ’’مکان یہیں ہے یا پاس کے کسی گاؤں میں؟’’
ایسے وقت، چرنی سر اٹھا کر گاہک کی جانب دیکھنے لگ جاتا اور سوال کر بیٹھتا، ’’کتنے کمرے ہیں مکان کے؟’’
بابا ٹوٹ پڑتا، ’’اوئے، تو نے کیا کمروں سے لینا ہے؟ ہمیں تو گیٹ تک مطلب ہے، کمروں تک جا کر کیا کرنا ہے تجھے؟’’
یا کوئی آتا اور مکان بتا کر کھڑکیوں کی بات کرتا تو چرنی کا سوال ہوتا ’’مکان پر کتنے ہزار خرچ آ گیا؟’’
’’اوئے، تم اپنا کام کرو۔۔۔‘‘ بابا ناراض ہو اٹھتا۔ دوسرے مستری چھپ کر ہنستے۔ بابا پر بھی اور چرنی پر بھی۔
ادھیڑ عمر کے مستری کنڈھا سنگھ کو جب کبھی چرنی کو کوئی کام سمجھانا ہوتا تو وہ اسے ’’جنڈو صاحب’’ کہہ کر بلاتا۔ کبھی کہتا، ’’مستری گرچرن سنگھ جی۔۔۔۔‘‘ کبھی خفا ہو رہا ہوتا تو بولتا، ’’پتی کس کر پکڑ، اوئے جنڈل۔ سالے کے ماروں گا ایک چانٹا۔‘‘
گیٹ آٹھ فٹ چوڑا تھا، سات فٹ اونچا۔ پانچ فٹ چوڑا دایاں پلہ تھا اور تین فٹ کا بایاں پلہ۔ پانچ فٹ والے پلے پر میں نے کہہ کر لوہے کی ایک پلیٹ الگ سے لگوائی تھی تاکہ اس پر اپنا نام لکھوایا جا سکے۔ یہ بڑا والا پلہ عام طور پر بند ہی رہنا تھا۔ گھر کے دروازے پر نیم پلیٹ تو ضرور ہونی چاہئے، نہیں تو نئے آدمی کے لئے شہر میں مکان ڈھونڈنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ نیم پلیٹ دو پیچوں کی مدد سے پلے پرکسی ہوئی تھی۔ پیچ نکال کر اکیلی پلیٹ کو مجھے پینٹر کے پاس لے جانا تھا اور اس پر اپنا نام لکھوا کر پلیٹ کو گیٹ پر پیچ کس سے فٹ کر دینا تھا۔
گیٹ کو لگانے دو مستری آئے تھے۔ کنڈھا سنگھ اور چرنی۔ آدھا گھنٹہ وہ دونوں پلوں کو اوپر نیچے اور ادھر ادھر کرتے رہے۔ جب سب کچھ ٹھیک ہو گیا تو میری گھر والی دوکان پر لڈو لینے چلی گئی۔ مکان کی صورت تو گیٹ لگنے پر ہی بنی تھی۔ گیٹ تھا بھی بہت بھاری اور دیکھنے میں خوبصورت بھی تھا۔ گیٹ نے تو مکان کو کوٹھی یعنی بنگلہ بنا دیا تھا۔ گھر میں خوشی تھی، لڈو تو ضروری تھے۔ لڈوؤں کے انتظار میں ہم تینوں دو چارپائیاں بچھا کر بیٹھ گئے۔ میرے بچے ادھر ادھر ناچ اچھل رہے تھے۔ وہ اسکول سے لوٹے تھے اور گیٹ کی خوشی میں اپنے بستے انہوں نے آنگن میں ہی پھینک دیئے تھے۔ کنڈھا سنگھ، چرنی سے چھوٹے چھوٹے مذاق کر رہا تھا۔ اس کے مذاق، پیار محبت کے ہلکے عکس بھی لئے تھے۔
چرنی ادھر ادھر کمروں کی اور دیکھ رہا تھا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں وہ کچھ دیکھ پرکھ کر رہا تھا۔ اس کا دھیان کنڈھا سنگھ کی طرف نہیں تھا۔ اچانک اس نے پوچھ ہی لیا، ’’کب بنایا تھا یہ مکان؟’’
’’اسے بنے تو دس سال ہو گئے گرچرن سنگھ، بس تمہارے ہاتھوں گیٹ ہی لگنا تھا۔‘‘جیسے میں بھی اس سے میٹھا مذاق کر بیٹھا تھا۔
’’کمرے تین ہیں کیا؟’’ ادھر ادھر گردن گھما کر اس نے پوچھا۔
’’ہاں تین کمرے ہیں۔ یہ برآمدہ، باتھ روم،ا سٹور اور کچن۔ ا سکوٹر رکھنے کو شیڈ، یہ سب بھی گن لو۔‘‘
’’مکان اتنا تو ہونا ہی چاہئے۔‘‘ چرنی نے کہا۔
کنڈھا سنگھ پھر مسکرایا، مونچھوں میں، بولا ’’اصل میں جی کیا ہے، جنڈو صاحب نے خود بھی بنانا ہے اب ایک مکان۔‘‘
اسکی بات پر چرنی کی آنکھوں میں جیسے اچانک روشنی کے دیپ جل اٹھے ہوں۔ اس کے چہرے پر ایک امنگ اور حسرت تھی۔
’’اچھا، پہلے کیا کوئی مکان نہیں ہے؟’’ حیرانی میں میں نے پوچھا۔
’’پہلے کہاں جی، وہیں بیٹھا ہے یہ بیچارہ، کھولی میں۔‘‘
’’کیوں، ایسا کیوں؟’’
چرنی خود بتانے لگ گیا، ’’ہمارا گھر جی کبھی یہاں سب سے اوپر ہوا کرتا تھا، اب سب نیچے لگے بیٹھے ہیں۔ میں اکیلا ہوں، بس ایک میری ماں ہے۔ ہمارے یہاں بھی اسی طرح مستری رکھے ہوئے تھے۔‘‘
اسکی بات کو بیچ میں کاٹ کر کنڈھا سنگھ بتانے لگا، ’’ اس کا باپ، بھائی صاحب، کیا مستری تھا؟ وہ لوہے کے ہل بنایا کرتا تھا! ان دنوں لوہے کا ہل نیا نیا ہی چلا تھا۔ ٹریکٹر تو کسی کسی کے گھر میں ہوتا۔ آج والی بات نہیں تھی۔ لکڑی کا ہل تھا، لیکن نیچے کی جگہ لوہے کا ہی سارا ڈھانچہ فٹ کر دیا تھا اس کے باپ نے۔ ٹوٹ پڑے گاؤوں کے گاؤں۔ بس، یہ دیکھ لو، ایک دن میں بیس ہل نکل جاتے، تیس بھی اور کسی کسی دن تو پچاس ہل بیچ لیتا تھا اس کا باپ۔ ان کے یہاں میں بھی مستری رہا ہوں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے سب دیکھا ہے۔ بہت کمائی کی اس کے باپ نے۔ پر جی، سب برباد ہو گیا۔‘‘
’’کیوں، وہ کیسے؟’’
’’شراب پینے کی عادت پڑ گئی تھی جی اسے۔‘‘ کنڈھا سنگھ نے ہی بتایا۔
’’اچھا۔‘‘
’’شراب پینے کا بھی ڈھنگ ہوتا ہے بھائی صاحب۔ پر وہ تو تڑکے ہی شروع ہو جاتا۔ دن میں بھی، شام کو بھی، کام کی طرف اس کا دھیان کم ہو گیا۔ اور پھر مال پورا تیار نہیں ہو پاتا تھا۔ دوسرے مستریوں نے بھی یہی کام شروع کر دیا۔‘‘
’’پھر؟’’
’’پھر جی، وقت ہی بدل گیا۔ ٹریکٹر بڑھنے لگے۔ لوہے کے ہلوں کی مانگ کم ہو گئی۔ اس کے باپ کا کام تو سمجھو، بند ہی ہو گیا۔ لیکن اس کی شراب اسی طرح جاری تھی۔ مرے بندے کی برائی نہیں کرنی چاہئے لیکن اس نے بھائی صاحب، گھر میں تنکا بھی نہیں چھوڑا۔ اوزار تک بیچ دیئے۔ چرنی کی ماں چرنی کو لے کر میکے جا بیٹھی۔ چار پانچ برس کا تھا یہ بس۔‘‘
چرنی میرے لڑکے کے بستے میں سے ایک سلیٹی لے کر آنگن کے فرش پر ہل کی تصویر بنانے لگا تھا۔ تبھی میری گھر والی لڈوؤں کا لفافہ لے کر آ گئی۔ ہماری باتیں وہیں رہ گئیں۔ ہمیں دو دو لڈو دے کر اس نے ایک ایک لڈو بچوں کو دیا اور پھر پڑوس کے گھروں میں بانٹنے چلی گئی۔
دونوں مستریوں نے اپنے اوزار اٹھائے اور مجھے ’’ست سری اکال’’ کہہ کر چلے گئے۔
کچھ دیر میں آنگن میں بیٹھا رہا۔ پھر باہر نکل کر گلی میں جا کھڑا ہوا یہ دیکھنے کے لئے کہ باہر سے لوہے کا گیٹ کیسا لگتا ہے۔
میں نے دیکھا، گیٹ کی نیم پلیٹ پر سلیٹی سے لکھ ہوا تھا، ’’گربچن سنگھ جنڈو۔‘‘
٭٭٭
پھرسوں کا موسم ۱۔۔ مہندر سنگھ سرنا
(۱۔ پھَرسا: کلہاڑی)
دہکتے کوئلوں سے بھری بھٹی پر جھکے، دینے لوہار کا لوہے کے رنگ جیسا بدن، تانبے کی مانند چمکنے لگ گیا تھا۔ اس کے بدن کا حجم تانبے میں ڈھلے ایک تن درست محنتی مزدور کو ششدر کرتا، ایک بت سا محسوس ہوتا تھا۔ ہاتھوں میں پکڑے ہتھوڑے کو ایک تیز جھٹکے سے اس نے اپنے سر کے اوپر گھمایا تو اس کے کسرتی بدن کی مچھلیاں پھڑک اٹھیں اور ایک زبردست چوٹ تپتے ہوئے لوہے کے انگار پر بجی۔
چوٹ مسلسل گونجتی رہی۔ کام میں مگن دینا، دین دنیا کو تب تک بھلائے بیٹھا رہا، جب تک کھڑکی کے راستے بھادوں کی بھٹیاری دھوپ نے اس کی ہڈیوں کو چاٹنا شروع نہیں کر دیا۔ ہڑبڑا کر اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ سورج سر پر تھا۔ دوپہر اتنی جلدی ہو گئی اور ابھی اس کا آدھا کام بھی نہیں ہوا۔ دھوپ کی شدت سے بچنے کے لئے اس نے کھڑکی بند کر دی، مگر کھڑکی کے بند ہونے پر اس کی سانس گھٹنے لگی اور ماتھے پر چپچپا پسینہ ابھر آیا۔ کل رات خوب بارش ہوئی تھی۔ آسمان میں سے پرنالے بہہ اٹھے تھے۔ سویرے بھی بوندا باندی ہوتی رہی تھی۔ لیکن اب سورج چڑھنے کے بعد سے بڑی امس ہو گئی تھی۔ اس نے کھڑکی کھول دی اور پھر سے بھٹی پر جھک گیا۔ پسینہ اس کے کانوں سے ہوتا ہوا اب اس کی گردن پر دھاریاں بناتا بہہ رہا تھا۔ کہنی سے اس نے اپنے ماتھے کا پسینہ نچوڑا۔ موٹی بوندیں انگیٹھی میں گریں، ’’سوں‘‘ کی آواز ہوئی اور لمحے بھر کو ہی سہی، ایک کوئلے کی زندگی نے بھی راحت محسوس کی۔
دھوپ اور بھٹی کے ملے جلے ملاپ نے اس کے بدن کو بہت تپا دیا تھا۔ وہ آگ اس کے رگوں میں گھلی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ یہ تپش اس کی ہڈیوں کے اندرونی گودے کو بھی بھون رہی تھی۔ بھٹی کے سرخ انگارے اچانک اس کی آنکھوں میں جل اٹھے تھے۔ اپنے بدن کا ایک ایک رواں اسے ایک فلیتہ محسوس ہو رہا تھا۔ اسے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ ابھی کوئی فلیتہ آگ پکڑ لے گا اور اس کا جسم کسی ایک بڑے پٹاخے کی مانند پھٹ جائے گا۔
اچانک وہ ہتھوڑا نیچے رکھ کر اٹھا اور کھڑکی کے آگے جا کر کھڑا ہو گیا۔ باہر پورے آسمان میں بھادوں کی چلچلاتی دھوپ تنی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ جب اس کی نظریں صاف ہوئیں تو اس نے اپنے سامنے دور دور تک پھیلے کھیتوں کی جانب دیکھا اور پھر اس ریتیلی پگڈنڈی کی طرف جو کھیتوں کہ بیچوں بیچ سفید لکیر کی مانند افق تک چلی گئی تھی۔ پگڈنڈی کے دائیں طرف کپاس کے کھیت تھے اور کہیں کہیں گنے کے کھیت میں پانی چاندی کی طرح چمکتا تھا۔ پگڈنڈی کے بائیں طرف کیاریاں بوائی کے انتظار میں تھیں۔ تازہ برسات سے نم ہوئی مٹی کی سوندھی مہک اس کے نتھنوں کو بڑی پیاری لگ رہی تھی۔ اس کا دل ہوا کہ وہ کھلی کھڑکی میں سے باہر کود جائے، کھیتوں میں لیٹ لیٹ جائے اور گیلی مٹی کی نمی اپنے روئیں روئیں میں بھر لے۔
اسے کھیتوں سے پیار تھا۔ بوائی اور کٹائی کے دنوں میں اس کا خوب جی لگتا تھا۔ وہ مضبوط قد کاٹھی کا شخص تھا، گاؤں کا لوہار، لیکن گاؤں میں لوہاری کا کام بھلا ہوتا ہی کتنا ہے۔ زیادہ تر وقت وہ کھیتوں میں کسانوں کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ اس کے جیسی کٹائی سات گاؤوں میں کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ نہ ہی اس کے برابر کوئی پولی اٹھا سکتا تھا۔ اچانک اس کے ہاتھ درانتی کی ہتھی کے لئے بیتاب ہو اٹھے۔
چاندنی رات میں جھومتے گنے، میلوں تک سنہری بالیوں کی ’’سرر سر ر’’ اور دھرتی کی کوکھ سے پیدا گیتوں کی۔۔۔ اور وہ بھول گیا کہ اس کی پشت پر پیچھے جہنم جیسی بھٹی تپ رہی تھی اور پچھلے بیس دنوں سے اس نے پھرسے، گنڈا سے اور بلم بنانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا تھا۔ ہاں، درانتیوں اور ہنسیوں کا موسم جا چکا تھا۔ وہ پھرسوں اور بلموں کا زمانہ تھا۔ اور کیسے دن آئے تھے، کٹائی کے اس دفعہ کہ گیہوں کے مقام پر گیہوں بونے اور کاٹنے والے خود کٹ گئے تھے۔
یہ کیسی آفت مول لے بیٹھا تھا وہ۔ یہ کیسی بیگار اس نے اپنے گلے باندھ لی تھی؟ اس کی حالت سے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے نئے بنے پاکستان کے کل مجاہدوں کے لئے ہتھیار بنانے کی ساری ذمے داری اسی کے سر پر پڑ گئی ہو! پاکستان تو بن گیا تھا، مگر پاکستان کی تکمیل کے لئے پاکستان میں رہنے والے ہندوؤں سکھّوں کا نعش کرنا ضروری تھا۔ بیشک یہ بات دینے کی سمجھ میں ابھی تک نہیں آئی تھی، لیکن کہہ سبھی یہی رہے تھے۔ گاؤوں کے چودھریوں سے لے کر مسجدوں کے اماموں تک سب کے سب یہی کہہ رہے تھے۔ اور یہ جہاد تبھی پورا ہو سکتا تھا، جب اس کی بھٹی تپتی رہے اور بلموں، پھرسوں کی شکل میں موت کی زبانیں اگلتی رہے۔
اس نے مڑ کر بھٹی کی اور دیکھا۔ کوئلوں کے بیچ ٹکائے لوہے کے نو کدار ٹکڑے، انگاروں سے بھی زیادہ سرخ ہو گئے تھے۔ ان کی جانب دیکھ کر اسے چکر سا آ گیا۔ اس نے اپنی کمر کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ کوئی تیز اور گرم چیز اس کی کمر کو چیر رہی تھی۔ دفعتاً اسے یاد آیا کہ اسے بہت تیز بھوک لگی ہوئی تھی۔ سویرے سے اس نے پانی کا گھونٹ بھی نہیں پیا تھا۔ اور اب بھوک اس کی انتڑیوں کو کاٹ رہی تھی اور اس کے ہونٹ سوکھ کر لکڑی ہو گئے تھے۔
’’بشیرے کی ماں؟’’ اس نے گھر کے اندر جھانکتے ہوئے اونچی آواز میں پکارا، ’’پانی دینا۔ جلدی۔‘‘
قریب پینتالیس سالہ عورت تانبے کے کٹورے میں پانی لے کر آئی۔ اس کے ناک میں نتھ تھی اور کانوں میں چاندی کے بندے۔ اس نے اپنے گھر والے کی سمت دیکھا، جو پیاس کے سبب ہانپ رہا تھا۔ صبح سے تین بار وہ اسے روٹی پانی کے لئے پوچھ کر جا چکی ہے، پر اس نے تو اس کی بات پر غور ہی نہیں کیا تھا اور بھٹی جھونکتا رہا تھا۔ اور اب اچانک جانے کیسے اسے اپنی بھوک پیاس یاد آ گئی تھی۔ عورت نے بھٹی کی دہکتی آگ کی طرف دیکھا، لوہے کے ان ٹکڑوں کی جانب دیکھا جو کالے کوڑھ کی مانند چاروں طرف فرش پر بکھرے پڑے تھے۔ اس نے ایک جانب رکھے گونٹھے میں پھرسوں اور بلموں کے پڑے ڈھیر کو بھی دیکھا اور پھر کتنی ہی دیر تک اس کی نظریں اپنے گھر والے کے چہرے پر بھٹکتی رہیں، جیسے وہ اسے پہچانتی نہ ہوں۔
دینے نے پانی کا کٹورا ایک ہی گھونٹ میں ختم کر دیا۔
’’اور۔۔۔‘‘ وہ ہانپتا ہوا بولا۔
وہ مزید پانی لے آئی اور اسے پیتے ہوئے دیکھنے لگی۔
’’بس۔۔۔‘‘ وہ بولا۔ اس کے دماغ اور گردن کی تنی ہوئی نسیں کچھ ڈھیلی ہو گئیں۔ اس کا ہانپنا بھی کم ہو گیا، لیکن ٹھیک اسی پل ایک جھینپ، ایک گھبراہٹ اس کے چہرے پر جھلکی اور وہ بول اٹھا، ’’میری طرف ایسے کیوں دیکھ رہی ہے؟ اور میرے ساتھ بولتی کیوں نہیں؟ دور ہٹ کر کیوں کھڑی ہے؟ کیا مجھے طاعون ہو گیا ہے؟’’
عورت نے کوئی جواب نہیں دیا اور چپ چاپ اندر سے روٹی ڈال کر لے آئی۔
’’اری، میں تجھے کہہ رہا ہوں۔‘‘ دینے نے اس کا کندھا پکڑ کر ہلایا، ’’کچھ پھوٹتی کیوں نہیں؟ منہ میں کچھ ابلنے کے لئے رکھا ہوا ہے کیا؟’’
عورت ابھی بھی کچھ نہ بولی۔
دینے نے روٹی مروڑ کر کچھ موٹے لقمے منہ میں ڈالے۔ جب روٹی کے موٹے لقمے گلے سے نیچے اترنے سے انکار کرنے لگے، پانی کے کچھ گھونٹ بھرے اور روٹیوں والی ٹوکری ایک طرف سرکاتے ہوئے بولا، ’’میرے ساتھ بولتی نہیں۔ بس، دیکھے جا رہی ہے، جیسے مجھ سے جن چپٹے ہوں۔‘‘
’’اللہ نہ کرے۔۔۔‘‘ عورت بولی، ’’پر مجھے تو یہی لگتا ہے۔‘‘
دینا ہکا بکا رہ گیا۔ اسے امید نہیں تھی کہ بشیرے کی ماں بولے گی، کہ اتنے دنوں کی ہٹھیلی خاموشی کو آج وہ اچانک اس طرح توڑ دے گی۔
کچھ دیر تک حیرانگی نے اسے سنبھلنے نہ دیا۔
’’میں جانتا ہوں، تیرے دل میں کیا ہے۔ پر میں کیا کروں؟ تیرے بیٹے ہی مجھے جینے نہیں دیتے، اب بشیرا کل شام تک پچاس پھرسے تیار کر کے رکھنے کو بول گیا تھا۔ اگر میں نے کام پورا نہیں کیا تو وہ میرے گلے پڑ جائے گا۔ میں تو کہتا ہوں، اگر میں ذرا بھی ان کی بات سے انکار کروں گا تو وہ میرے ٹکڑے کر دیں گے۔‘‘
’’بیٹے وہ تیرے ہیں یا کسی اور کے؟’’ بشیرے کی ماں نے پوچھا اور پھر اپنے اس سوال پر خود ہی شرمسار ہو اٹھی۔
’’میرے ہی ہیں۔‘‘ دینے نے بیوقوفوں کی مانند کہا۔
’’پھر ڈرنا انہیں تجھ سے چاہئے کہ تجھے ان سے؟’’
’’تیرے لئے باتیں بنانا آسان ہے۔‘‘ وہ بولا، ’’جیسے توُ تو اپنے بیٹوں کو جانتی ہی نہیں۔ کتنے سنگ دل ہیں؟ میری کیا مجال کہ میں ان سے کچھ کہہ سکوں۔ میری چمڑی ادھیڑ کر نہ پھینک دیں گے۔‘‘
’’بیٹے تو وہ میرے بھی ہیں۔‘‘ عورت کا لہجہ کچھ نرم ہو گیا، ’’تو دیکھتا نہیں، کیسے ہر وقت مجھے کاٹنے کو دوڑتے ہیں، کیسے بات بات پر مجھ سے لڑتے ہیں، پر میں ان کے لئے پھرسے نہیں بناتی۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟’’ وہ بولا، ’’میں صرف بناتا ہی تو ہوں، لوگوں کو کاٹتا تو نہیں ہوں۔‘‘
’’یہ کاٹنے سے بھی برا ہے۔‘‘ عورت نے کہا، ’’کاٹنے والا تو ایک دو یا حد سے حد پانچ کو کاٹتا ہے، پر تیرے ہاتھ کا بنایا ایک ایک پھرسا بیسیوں کو کاٹتا ہے۔‘‘
کپکپاہٹ، دینے کی ریڑھ میں سے گزر گئی۔ پھر ایک کپکپاہٹ اس کے روئیں روئیں میں پھیل گئی۔ کتنی ہی دیر تک وہ کچھ نہ بول سکا۔ جب اس کی گویائی لوٹی تو وہ بولا، ’’مجھ سے کہہ رہی ہے، بیٹوں کو نہیں روکتی جو سلار بنے گھومتے ہیں۔ ایک ایک رات میں دو دو گاؤں پھونک ڈالتے ہیں۔‘‘
’’میری وہ سنتے ہیں؟ تو سنتا ہے؟’’ عورت کا لہجہ مزید نرم ہو گیا تھا، ’’میں کسی کو کیا کہنے لائق ہوں۔ ہر کسی نے اپنے اپنے گناہوں کا جواب دینا ہے۔ مجھے کیا ضرورت پڑی ہے کچھ کہنے کی؟’’
کچھ دیر تک دونوں چپ چاپ فرش کو تکتے رہے۔
یکبارگی عورت بولی، ’’اور توُ روٹی کیوں نہیں کھا رہا؟ بھوکھا رہ کر سوکھنا ہے کیا؟’’ روٹیوں والی ٹوکری کھینچ کر اس نے دینے کے سامنے رکھ دی۔
باہری دروازے پر ہوئے دھیمے کھڑکے نے دینے کو چونکا دیا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ وہ جانتا تھا، بشیرے یا اس کے ساتھیوں کو چھوڑ کر اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ ہاں، وہ اسے بتانے آئے تھے۔ کنڈے پر پڑا اس کا ہاتھ کشمکش میں پڑ گیا۔ اس نے بھٹی کی طرف دیکھا۔ وہ بھبک رہی تھی۔ سب ٹھیک ٹھاک اور معمول پر تھا۔ اس نے کنڈا کھول دیا۔ ساون بھادوں کی برسات میں سیلے ہوئے دروازے کی چول چیخی۔
گھبرا کر دینا اندر کی طرف دوڑ پڑا اور بھٹی سے ٹھوکر کھاتے کھاتے بمشکل بچا۔ اس کی گھر والی کا رنگ ہلدی جیسا ہو گیا اور ایک چیخ اچانک اس کے منہ سے نکل پڑی۔ دروازے میں ٹھاکر دوارے والی بوڑھی پروہتائن کھڑی تھی۔ اس کے ہلدی جیسے پیلے چہرے پر جھریوں کا جال بچھا تھا اور اس کی سفید لٹوں والا سر کانپ رہا تھا۔ ڈری ڈری آنکھوں سے دینا اور اس کی گھر والی، بڑھیا کی طرف دیکھتے رہے۔ وہ بالکل ویسی ہی تھی جیسی جیتے جی ہوا کرتی تھی، پر اب وہ بھوت بن چکی تھی۔
آخر، دینے کی گھر والی نے حوصلہ کیا اور پوچھا، ’’چاچی، تو ابھی زندہ ہے؟’’
بڑھیا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تبھی دینے کی گھر والی کو یاد آیا کہ پروہتائن تو اونچا سنتی تھی۔ شاید، مرنے کے بعد بھی اس کا بہرہ پن ٹھیک نہیں ہوا تھا۔ بڑھیا کے اور نزدیک ہو کر اس نے اپنی بات دہرائی۔
بڑھیا کی آنکھیں چمکیں، وہ بولی، ’’تمہیں دکھائی نہیں دیتا، میں ابھی جندا ہوں۔ سات دن مجھے مہر کا تاپ چڑھتا رہا۔ اندر کوٹھری میں پڑی میں اکیلی جان بھنتی رہی۔ کسی نے مجھے پانی کا گھونٹ نہیں پوچھا۔ تلسی بہت دنوں سے ساتھ والے گاؤں میں گیا ہوا ہے۔ شاید، میں اس کے پیچھے مر ہی جاتی اور پھر بندے کا بھروسہ ہی کیا ہے۔ آج میرا تاپ اترا۔ مجھ سے اٹھ کر کھڑا نہیں ہوا جاتا تھا، پر میں نے اپنے اندر ہمت پیدا کی اور یہاں تک آ گئی۔ تم دونوں اتنے بھونچکے کیوں ہو؟’’
بولنے کی وجہ سے بڑھیا پسینے سے بھیگ گئی تھی۔ وہ ہانپ رہی تھی۔ کنپٹیوں کو دباتے ہوئے وہ پیروں کے بل وہیں فرش پر بیٹھ گئی۔ اس کی آنکھوں کی پتلیاں بے جان ہوئی جاتی تھیں اور ہر سانس اس کی آخری سانس محسوس ہوتی تھی۔
بڑے ہمت کے ساتھ دینے اور اس کی گھر والی نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ یہ حقیقت تھی کہ وہ پروہتائن ہی تھی، پروہتائن کا بھوت نہیں تھا۔ مہر کے تاپ نے اسے اس ہونی سے بچا لیا تھا، جو گاؤں کے لوگوں کے ساتھ بیتی تھی۔ اس کے بہرے پن نے اس کے کانوں میں اس حادثے کی بھنک نہیں پڑنے دی تھی، جو پرسوں جمعرات کو اس گاؤں میں کھیلا گیا تھا۔ وہ ابھی تک نہیں جانتی تھی کہ اس کا گاؤں پاکستان میں آ گیا تھا اور گاؤں کے ہندوؤں سکھّوں میں سے ایک بھی زندہ نہیں بچا تھا۔ سوائے کچھ لڑکیوں کے جنہیں فسادیوں نے رکھ لیا تھا۔
پھر پروہتائن بولی، ’’ارے او دینے، میری بکری تو نہیں دیکھی کہیں؟’’
بکری؟ دینے نے سوچا، ان دنوں جب فسادیوں کے ٹولوں نے ہتھیائے مویشی پکا کر ڈکار لئے تھے، پروہتائن نے اپنی بکری کی بھلی پوچھی۔
’’نہ جانے کہاں دوڑتی پھرتی ہے؟’’ بڑھیا کہتی گئی، ’’اور اب تو وہ بیانے والی ہے۔ مجھ سے تو اب خود کو نہیں سنبھالا جاتا، اسے کہاں کھوجتی پھروں اور اس نے کون سی بخشش دے دینی ہے؟ رب تیرا بھلا کرے، اگر کہیں نظر آ جائے تو پکڑ کر باندھ لینا۔ دیکھو نہ، بیانے والی جو ہے۔ میں تو ڈرتی ہوں، کہیں باہر ہی نہ بیا جائے۔‘‘
دینا بولا، ’’مائی، کوئی نہیں رہی تیری بکری۔ وہ کھا پی لی گئی ہے۔ لوگوں کو تو اس کی ڈکاریں بھی آ رہی ہیں۔‘‘
لیکن بوڑھی کو کچھ سنائی نہ دیا۔ وہ اپنی بات اونچی آواز میں دوہرانے ہی لگا تھا کہ اس کی گھر والی نے اسے اشارے سے روک دیا۔
’’اور دیکھ نہ۔‘‘ پروہتائن بولی، ’’یہ سنگلی مجھے ٹھاکر دوارے کی دہلیز کے پاس ملی ہے۔ پتہ نہیں پگلی سنگلی کیسے تڑا بیٹھی۔ دیکھ تو سہی، یہ تو چھلّا ہی کٹ گیا ہے، جس میں کنڈی پھنساتے ہیں۔ میں نے بھی سوچا، چلو چل کر دینے سے کہتی ہوں کہ سنگلی جوڑ دے۔‘‘
دینے نے دیکھا، بوڑھی نے اپنے ہاتھ میں بکری کو باندھنے والی سنگلی، جو بیچ میں سے ٹوٹ گئی تھی، پکڑ رکھی تھی۔ بکری کی گردن پر پڑے کسی تیز گنڈا سے کے وار نے سنگلی کو بھی کاٹ دیا تھا۔
بہت دیر سے دینے کی گھر والی بوڑھی پروہتائن کو ایک ٹک دیکھ رہی تھی۔ اس کے اندر کوئی اتھل پتھل مچی ہوئی تھی، ایسا لگتا تھا۔ آخر، اس کی سوچ کے آخری دہانے پر کوئی جھروکا کھلتا ہواسا لگا اور وہ بولی، ’’چاچی، ٹھاکر دوارے تو ایک دم اکیلی پڑی رہتی ہے، تو یہیں ہمارے گھر میں رہ۔ یہیں اپنا بنا پکا لینا، بھانڈے ٹینڈے بھی اپنے یہیں لے آ، تیرا ہندو دھرم ہے نہ اس لئے۔ تلسی، پڑوسی گاؤں سے لوٹ آئے، پھر تو چلی جانا۔‘‘
پروہتائن تو کچھ زیادہ ہی بہری لگتی تھی۔ شاید، مہر کے کے تاپ نے اس کے کانوں کو بند کر دیا تھا۔ اتنی لمبی بات میں سے اس نے صرف تلسی کا نام ہی سنا۔
’’میں جو تجھے بتا رہی ہوں کہ تلسی پڑوس کے گاؤں گیا ہے۔ رامے شاہ کی لڑکی کا شگون لے کر نئے سمدھیوں کے گھر گیا ہے۔ پہلی کو پریتو کی شادی نکلی ہے۔ شاہ سے میں نے کہا ہے کہ اب کی مجھے ایک گائے دینا۔ اور کیا، شاہوں کے گھر کوئی روز روز ایسے موقعے آتے ہیں۔ پھر تو تو خود سیانی ہے۔ تلسی کی خشک جان ہے، گھر میں دودھ دہی کی موج رہے گی۔‘‘ بوڑھی کی بات ان سنی کرتی ہوئی دینے کی گھر والی، دینے کی نظروں کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی، کچھ مشورہ کرنا چاہتی تھی، پر اس کے بولنے سے پہلے ہی دینا بول اٹھا، ’’تیرے دل میں کیا ہے، میں جانتا ہوں۔ لیکن یہ بات ہم پوری نہیں کر سکتے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں، پر اسے کسی بھڑولے میں ڈال کر رکھے گی۔ ابھی وہ تیرے پیٹ کے جائے آدم بو، آدم بو کرتے ہوئے آئیں گے اور تو جانتی ہے، ان سے کوئی بات چھپی نہیں رہتی۔ انہیں آج ہی پتہ چل جائے گا۔ اور پھر وہ ہمارا وہ حال کریں گے، جو کبھی کسی نے نہیں کرا ہو گا۔‘‘
’’بوڑھی جان ہے۔‘‘ دینے کی گھر والی نے گذارش کی، ’’اپنے گاؤں کے کھتریوں کی اکلوتی نشانی ہے۔ ٹھاکر دوارے کی پروہتائن اللہ کا نام لینے والی ہے۔ دوچار دن کی بات ہے، اس کا بیٹا پڑوس کے گاؤں سے لوٹ آئے، پھر انہیں کسی دوسرے گاؤں میں بھیج دیں گے۔‘‘
’’کون سے گاؤں میں بھیجے گی انہیں؟’’ دینے نے چیخ کر کہا، ’’کون سا گاؤں رہ گیا ہے جہاں یہ بچی رہے گی۔ اور اس کا بیٹا، وہ اب نہیں لوٹنے والا۔ وہ اب کی اس گاؤں گیا ہے، جہاں سے کوئی نہیں لوٹتا۔ نئے چک کے سبھی کھتری مارے گئے ہیں۔ کوئی بیج ڈالنے لائق بھی نہیں بچا۔‘‘
عورت کا منہ اتر گیا۔ کانپتی ہوئی انگلی اس نے اپنے ہونٹوں سے لگائی اور بولی، ’’دھیرے نہیں بول سکتا تو۔ اب اسے سنا کر ہی مانے گا کہ تیرا بیٹا مارا گیا ہے۔‘‘
ابھی تک زیادہ تر باتیں انہوں نے کانا پھوسی میں ہی کی تھیں، لیکن یہ کانا پھوسی بالکل ہی بلا وجہ تھی۔ وہ کتنی ہی اونچی آواز میں بات کیوں نہ کرتے، بوڑھی کے کان میں کچھ بھی نہیں پڑنے والا تھا۔
بوڑھی نے تاپ میں تپتی آنکھیں ان کے چہروں پر گاڑ دیں اور چڑ کر بولی، ’’تم دونوں نے یہ کیا کھسر پھسر لگا رکھی ہے۔ اور تو تو دینے، میری طرف دیکھتا ہی نہیں۔ او نکمّے؟ ذرا سنگلی ہی جوڑ دیتا۔ یہ بھی کوئی کام ہے، بھلا۔‘‘
’’کل آنا مائی۔‘‘ اپنا منہ بوڑھی کے کان سے لگا کر دینا بولا، ’’آج مجھے فرصت نہیں ہے۔ توُ اب جا بھی گھر کو۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ گھٹنوں پر ہاتھ رکھتی ہوئی بوڑھی کراہی، ’’اٹھوں۔ تو کل کے لئے بولتا ہے تو کل ہی سہی۔ پر، میری بکری کا دھیان رکھنا۔ لے، میں اب تجھے کہہ جا رہی ہوں، دکھائی دے تو باندھ لینا۔ پتہ نہیں کمبخت کہاں دوڑی پھرتی ہے۔‘‘
اس سے پہلے کہ دینے کی گھر والی اسے روکتی، لڑکھڑاتی ہوئی بوڑھی باہر گلی میں نکل گئی۔
اس بڑھیا نے کتنا وقت خراب کر دیا تھا۔ کام میں ہوئے ہرج کا، دینے کو پچھتاوا ہو رہا تھا۔ اتنی دیر میں تو وہ پانچ پھرسے تیار کر لیتا۔ اور بشیرا یہ تو پوچھنے سے رہا کہ وہ کون سی بیکار کی سرکھپائی میں لگا رہا۔ اس نے تو پچاس پھرسے گن کر رکھوا لینے تھے۔
اس نے کام میں ڈوب جانا چاہا پر، وہ ڈوب نہ سکا۔ ایک دہکتی آگ اس کے دل میں لگ گئی تھی۔ کانپتی سفید لٹوں کے پیچھے ان بخار کی ماری آنکھوں کا خیال، بار بار اس کے اندر آ کھڑا ہوتا۔ آگ کے دو موٹے شعلوں کی طرح وہ آنکھیں، اس کے دماغ میں دھنستی چلی گئیں۔
جو بات اسے سب سے زیادہ پریشان کر رہی تھی، وہ بوڑھی کی لا علمی تھی۔ وہ کچھ نہیں جانتی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ تلسی کو کبھی پڑوس کے گاؤں سے لوٹ کر نہیں آنا تھا۔ نہ ہی پریتو کی کبھی شادی ہونی تھی۔ پریتو کو تو اس کے باپ کی حویلی سمیت بشیرے نے سنبھال لیا تھا۔
بشیرے نے یہ بہت برا کیا تھا۔ بہن بیٹیوں کی عزت سب کی ساجھی تھی۔ پرائی بیٹیوں کی عزت اپنی بیٹیوں جیسی تھی اور کون تھا جو اپنی بیٹیوں کی بے عزتی کو اچھا کام کہتا۔
اچانک ایک بھیانک منظر دینے کی آنکھوں کے آگے ابھر آیا۔ پریتو دہاڑیں مار مار روتی ہوئی اپنے باپ کی لاش سے لپٹ رہی تھی۔ اور بشیر،ا اسے چٹیا سے پکڑ کر کھینچتا ہوا لے گیا تھا۔ چیختی چلاتی، منتیں کرتی وہ اس کے پیچھے پیچھے گھسٹتی چلی گئی تھی۔ پھر اچانک وہ چپ ہو گئی تھی جیسے حلال ہونے سے پہلے بھیڑ چپ ہو جاتی ہے۔
اور وہ، بشیرے کا باپ، دہلیز میں کھڑا کھڑا چپ چاپ یہ ہولناک منظر دیکھتا رہا تھا۔ اس نے بشیرے کو نہیں روکا تھا۔ اسے گردن سے پکڑ کر نیچے نہیں گرایا تھا۔ اپنی بیٹی کی آبرو بچانے کا کوئی جتن نہیں کیا تھا۔
پریتو کے پیلے زرد چہرے کے دھندلے سے عکس، دینے کی آنکھوں کے سامنے ناچنے لگے اور اس کی چیخ و پکار اس کے کانوں میں گونجنے لگی۔ اچانک وہ کانپنے لگ گیا، بہت زور کی کپکپی اٹھی، جو لگتا تھا، ٹھنڈی برف سی موت کا سندیسہ تھی۔ اسے لگا، اس کپکپی کو کم کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ وہ بھٹی میں تپتے لوہے کے ٹکڑے اٹھا کر اپنی چھاتی میں دبا لے۔
اسے لگا، وہ پاگل ہو جائے گا۔ کچھ کر بیٹھے گا۔ اسے بھاگ جانا چاہئے تھا، دور، اس سب سے دور۔ اچانک ہی اس نے کھڑکی کھولی اور باہر کود گیا۔ کتنی ہی دیر وہ بے تحاشہ کھیتوں میں دوڑتا رہا۔
تیسرا پہر شام میں بدل رہا تھا۔ افق پر کسی نے سورج کا قتل کر دیا تھا۔ معصوموں کے لہو سے سارا آسمان رنگ گیا تھا۔ یہ لہو کھیت کی نالیوں کے پانی میں بھی گھل گیا تھا۔ یہ گنا کس نے چوسنا تھا، جس پر لہو کے چھینٹے پڑے تھے۔ یہ کپاس کس نے استعمال کرنی تھی جس کی سنچائی لہو سے ہوئی تھی۔ اور لہو سے سینچی گئی ان کیاریوں میں کیسی گیہوں کی فصلیں اگنی تھیں۔ چاروں جانب لہو کا چھڑکاؤ اس کے خود کے ہاتھوں بنائے گئے پھرسوں سے کیا گیا تھا۔ ہڈیوں اور پوست کی فصل اس کے اپنے ہاتھوں تیار کئے گئے بلموں اور گنڈاسوں سے بوئی گئی تھی اور جو دو چار گاؤں بچ گئے تھے، ان کے لئے پھرسے وہ تیار کر کے ہٹا تھا۔ کل رات تک ان کا بھی صفایا ہو جانا تھا۔
وہ گنہگار تھا، شدید گنہگار؟ بشیرے کی ماں نے سچ کہا تھا، کم سے کم نئے بنائے ہوئے پھرسوں کو اسے بشیرے کے ہاتھ نہیں لگنے دینا چاہئے۔ ایسا کرنے پر اس کے گناہوں کا خلاصی نہیں ہونے والی تھی، لیکن اب وہ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔
وہ بے تحاشہ گاؤں کی سمت دوڑ پڑا۔ بشیرے کے آدمیوں کے پہنچنے سے پہلے وہ گھر پہنچ جانا چاہتا تھا۔ پھرسوں، گنڈاسوں کو کسی کنوئیں یا نالے میں پھینک دینا چاہتا تھا، جہاں ان کا سراغ نہ مل سکے۔
جب وہ گاؤں کے قریب پہنچا تو رات چھا چکی تھی اور چاند کی مدھم روشنی گلی میں گھروں کے دھندلے سائے پھینک رہی تھی۔ رات کی برسات سے گلیوں میں کیچڑ ہو گیا تھا۔ بار بار اس کے پیر کیچڑ میں پھنس جاتے تھے، تاہم وہ تیز تیز چلتا رہا۔ پھر اچانک وہ کانپ کر رک گیا۔ کچھ ہی دوری پر آوازیں سنائی دیں۔ یہ آوازیں تو اس کے ہی گھر سے آ رہی تھیں۔ تو کیا وہ لوگ آ پہنچے تھے؟ اسے دیر ہو گئی تھی۔ بشیرے کی لچر ہنسی اب اسے واضح سنائی دے رہی تھی۔
گھر کے باہر کسی بھاری چیز سے اسے ٹھوکر لگی اور وہ منہ کے بل گر پڑا۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی، پر اٹھ نہ سکا۔ ٹھنڈا برف سا درد اس کے پیروں سے لپٹ گیا تھا۔ اس نے اپنے پیر چھڑانے کی کوشش کی، مگر وہ اور بھی بری طرح جکڑ گئے تھے۔ ایک ڈر نے اس کے دل میں نزول کیا اور اس کے ماتھے پر پسینے کی ٹھنڈی بوندیں ابھر آئیں۔ جسم کی پوری طاقت لگا کر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ چاند کی چاندنی میں کچھ سفید لٹیں ہل رہی تھیں۔ پھرسے کا ایک لمبا کٹ بوڑھی کے ماتھے پر تھا اور اس کی پتھرائی آنکھیں پھٹکارتی محسوس ہوتی تھیں۔ اس نے اپنے پیروں کی طرف دیکھا۔ بوڑھی کی بانہوں میں الجھی سنگلی نے اس کے پیروں کو جکڑ رکھا تھا۔
ایک چیخ اس کے منہ سے نکلی اور وہ بیہوش ہو گیا۔ اس رات اسے بہت تیز بخار چڑھا۔ ساری رات وہ چارپائی پر کروٹیں بدلتا رہا۔ پوری رات اس کے بڑبڑانے کی آواز گاؤں کی سنسان خامشی میں گونجتی رہی، ’’مجھے نہ مارو، مجھے پھرسوں سے نہ مارو۔۔۔ یہ سنگلی میری گردن سے ہٹاؤ ہائے، میری بیٹی؟ میری بیٹی کو کچھ نہ کہو۔۔۔ پریتو کو کچھ نہ کہو۔۔۔ ہائے، یہ سنگلی؟ اللہ کا واسطہ، مجھے پھرسوں سے نہ مارو۔۔۔ مجھے نہ مارو؟’’
٭٭٭
ایک جیوی ایک رتنی، ایک خواب ۔۔۔ امرتا پریتم
’’پالک ایک آنے گٹھی، ٹماٹر چھ آنے رتّل اور ہری مرچیں ایک آنے کی ڈھیری۔‘‘ پتہ نہیں سبزی بیچنے والی عورت کا چہرہ کیسا تھا کہ مجھے لگا پالک کے پتوں کی ساری نرمی، ٹماٹروں کی ساری سرخی اور ہری مرچوں کی ساری خوشبو اس کے چہرے پر موجود تھی۔
ایک بچہ اس کی جھولی میں دودھ پی رہا تھا۔ ایک مٹھی میں اس نے ماں کی چولی پکڑ رکھی تھی اور دوسرا ہاتھ وہ بار بار پالک کے پتے پر پٹکتا تھا۔ ماں کبھی اس کا ہاتھ پیچھے ہٹاتی تھی اور کبھی پالک کی ڈھیری کو آگے سرکاتی تھی، پر جب اسے دوسری طرف بڑھ کوئی چیز ٹھیک کرنی پڑتی تھی، تو بچے کا ہاتھ پھر پالک کے پتوں پر پڑ جاتا تھا۔ اس عورت نے اپنے بچے کی مٹھی کھول کر پالک کے پتوں کو چھڑاتے ہوئے گھور کر دیکھا، پر اس کے ہونٹوں کی ہنسی اس کے چہرے کی سلوٹوں میں سے اچھل کر بہنے لگی۔ سامنے پڑی ہوئی ساری سبزیوں پر، جیسے اس نے اپنی ہنسی چھڑک دی ہو اور مجھے لگا کہ ایسی تازی سبزیاں کبھی کہیں اگی نہیں ہوں گی۔
بہت سارے سبزی بے چنے والے میرے گھر کے دروازے کے سامنے سے گزرتے تھے۔ کبھی دیر بھی ہو جاتی، پر کسی سے سبزی نہ خرید پاتی تھی۔ روز اس عورت کا چہرہ مجھے بلاتا رہتا تھا۔
اس سے خریدی ہوئی سبزی جب میں کاٹتی، دھوتی اور برتن میں ڈال کر پکانے کے لئے رکھتی تو سوچتی رہتی کہ اس کا شوہر کیسا ہو گا۔ وہ جب اپنی بیوی کو دیکھتا ہو گا، چھوتا ہو گا، تو کیا اس کے ہونٹوں میں پالک کا، ٹماٹروں کا اور ہری مرچوں کا سارا ذائقہ گھل نہ جاتا ہو گا؟
کبھی کبھی مجھے خود پر شرمندگی ہوتی کہ اس عورت کا خیال کس طرح سے میرے پیچھے پڑ گیا تھا۔ ان دنوں میں ایک گجراتی ناول پڑھ رہی تھی۔ اس ناول میں روشنی کی لکیر جیسی ایک لڑکی تھی، جیوی۔ ایک مرد اس کو دیکھتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ اس کی زندگی کی رات میں ستاروں کے بیج اگ آئے ہیں۔ وہ ہاتھ لمبے کرتا ہے، پر ستارے ہاتھ نہیں آتے اور وہ مایوس ہو کر جیوی سے کہتا ہے۔
’’تم میرے گاؤں میں اپنی ذات کے کسی آدمی سے شادی کر لو۔ مجھے دور سے تمہاری صورت ہی نظر آتی رہے گی۔‘‘
اس دن کا سورج جب جیوی کو دیکھتا ہے، تو وہ اسی طرح سرخ ہو جاتا ہے، جیسے کسی نے کنواری لڑکی کو چھو لیا ہو۔ کہانی کی ڈوریں لمبی ہو جاتی ہیں اور جیوی کے چہرے پر دکھوں کی لکیریں پڑ جاتی ہیں۔ اس جیوی کا خیال بھی آج کل میرے پیچھے پڑا ہوا تھا، پر مجھے شرمندگی نہیں ہوتی تھی، وہ تو دکھوں کی لکیریں تھیں، وہی لکیریں جو میرے گیتوں میں تھیں اور لکیریں، لکیروں میں مل جاتی ہیں۔ لیکن یہ دوسری جس کے ہونٹوں پر ہنسی کی بوندیں تھیں، اصل میں زعفران کے ریشے تھیں۔
دوسرے دن میں نے اپنے پیروں کو روکا کہ میں اس سے سبزی خریدنے نہیں جاؤں گی۔ چوکیدار سے کہا کہ یہاں جب سبزی بیچنے والا آئے تو میرا دروازہ کھٹکھٹانا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ ایک ایک چیز کو میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا۔ آلو نرم اور داغدار۔ پھر پھلیاں جیسے ان کے دل خشک ہو گئے ہوں۔ پالک جیسے وہ دن بھر کی دھول پھانک کر بہت تھک گئی ہو۔ ٹماٹر جیسے وہ بھوک کی وجہ سے بلکتے ہوئے سو گئے ہوں۔ ہری مرچیں جیسے کسی نے ان کی سانسوں میں سے خوشبو نکال لی ہو، میں نے دروازہ بند کر لیا۔ اور پاؤں میرے روکنے پر بھی اس سبزی والی کی طرف چل پڑے۔
آج اس کے پاس اس کا شوہر بھی موجود تھا۔ وہ منڈی سے سبزی لے کر آیا تھا اور اس کے ساتھ مل کر سبزیوں کو پانی سے دھو کر الگ رکھ رہا تھا اور ان کے بھاؤ لگا رہا تھا۔ اس کی صورت جانی پہچانی سی تھی۔ اسے میں نے کب دیکھا تھا، کہاں دیکھا تھا۔ ایک نئی بات میرے پیچھے پڑ گئی۔
’’بی بی جی آپ!’’
’’ ہاں میں، پر میں نے تمہیں پہچانا نہیں۔‘‘
’’اسے بھی پہچانا نہیں کیا؟ یہ رتنی۔‘‘
’’ مانکو، رتنی۔‘‘ میں نے اپنی یادوں میں ڈھونڈا، لیکن مانکو اور رتنی کہیں نہیں موجود تھے۔
’’تین سال ہو گئے ہیں، بلکہ مہینہ اوپر ہو گیا ہے۔ ایک گاؤں کے پاس کیا نام تھا اس کا بھلا، آپ کی موٹر خراب ہو گئی تھی۔‘‘
’’ ہاں ہوئی تو تھی۔‘‘
’’اور آپ وہاں سے گزرتے ہوئے ایک ٹرک میں بیٹھ کر دھولیا آئے تھے، نیا ٹائر خریدنے کے لئے۔‘‘
’’ہاں ہاں۔‘‘ اور پھر میری یادداشت کے نہاں خانوں میں مجھے مانکو اور رتنی مل گئے۔
رتنی تب ادھ کھلی کلی جیسی تھی اور مانکو اسے پرائے پودے پر سے توڑ لایا تھا۔ ٹرک کا ڈرائیور مانکو کا پرانا دوست تھا۔ اس نے رتنی کو لے کر فرار ہونے میں مانکو کی مدد کی تھی۔ اس لئے راستے میں وہ مانکو کے ساتھ ہنسی مذاق کرتا رہا تھا۔
راستے کے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں کہیں خربوزے بک رہے ہوتے، کہیں ککڑیاں، کہیں تربوز اور مانکو کا دوست، مانکو سے اونچی آواز میں کہتا، ’’بڑی نرم ہیں، ککڑیاں خرید لے۔ تربوز تو ایک دم لال ہیں اور خربوزہ بالکل میٹھا ہے۔ خریدنا نہیں ہے تو چھین لے واہ رے رانجھے۔‘‘
’’ارے چھوڑ مجھے رانجھا کیوں کہتا ہے؟ رانجھا سالاعاشق تھا کہ حجام تھا؟ ہیر کی ڈولی کے ساتھ بھینسیں ہانک کر چل پڑا۔ میں ہوں ایسابولو۔‘‘
’’واہ رے مانکو۔ توُ تو مرزا ہے مرزا۔‘‘
’’مرزا تو ہوں ہی، اگر کہیں صاحباں نے مروا نہ دیا تو۔‘‘ اور پھر مانکو اپنی رتنی کو چھیڑتا، ’’دیکھ رتنی، صاحباں نہ بننا، ہیر بننا۔‘‘
’’واہ رے مانکو، تو مرزا اور یہ ہیر۔ یہ بھی جوڑی اچھی بنی۔‘‘ آگے بیٹھا ڈرائیور ہنسا۔
اتنی دیر میں مدھیہ پردیش کا ناکہ گزر گیا اور مہاراشٹر کی سرحد آ گئی۔ یہاں پر ہر ایک موٹر، لاری اور ٹرک کو روکا جاتا تھا۔ مکمل تلاشی لی جاتی تھی کہ کہیں کوئی مارفین، شراب یا کسی طرح کی کوئی اور چیز تو نہیں لے جا رہا۔ ٹرک کی بھی تلاشی لی گئی۔ کچھ نہ ملا اور ٹرک کو آگے جانے کے لئے راستہ دے دیا گیا۔ جوں ہی ٹرک آگے بڑھا، مانکو بے تحاشا ہنس دیا۔
’’سالے مارفین تلاش کرتے ہیں، شراب تلاش کرتے ہیں۔ میں جو نشے کی بوتل لے جا رہا ہوں، سالوں کو نظر آئی ہی نہیں۔‘‘
اور رتنی پہلے اپنے آپ میں سکڑ گئی اور پھر دل کی ساری پتیوں کو کھول کر کہنے لگی، ’’دیکھ کہیں نشے کی بوتل توڑ نہ دینا۔ سارے ٹکڑے تمہارے تلووں میں اتر جائیں گے۔‘‘
’’کہیں ڈوب مر۔‘‘
’’میں تو ڈوب جاؤں گی، تم گر سمندر بن جاؤ
میں سن رہی تھی، ہنس رہی تھی اور پھر ایک دکھ سا میرے دل میں ابھر آیا، ’’ ہائے ری عورت، ڈوبنے کے لئے بھی تیار ہے، اگر تیرا چاہنے والا ایک سمندر ہو۔‘‘
پھر دھولیا آ گیا۔ ہم ٹرک میں سے اتر گئے اور چند منٹ تک ایک خیال میرے دل کو کرے دتا رہا۔ یہ ’’رتنی’’ ایک ادھ کھلی کلی جیسی لڑکی۔ مانکو اسے پتہ نہیں کہاں سے توڑ لایا تھا۔ کیا اس کلی کو وہ اپنی زندگی میں مہکنے دے گا؟ یہ کلی کہیں قدموں میں ہی تو نہیں مسلی جائے گی؟
گزشتہ دنوں دہلی میں ایک واقعہ ہوا تھا۔ ایک لڑکی کو ایک ماسٹر وائلن سکھایا کرتا تھا اور پھر دونوں نے سوچا کہ وہ بمبئی بھاگ جائیں۔ وہاں وہ گایا کرے گی، وہ وائلن بجایا کرے گا۔ روز جب ماسٹر آتا، وہ لڑکی اپنا ایک آدھ کپڑا اس کو پکڑا دیتی اور اسے وہ وائلن کے ٹوکری میں رکھ کر لے جاتا۔ اس طرح تقریباً مہینے بھر میں، اس لڑکی نے کئی کپڑے ماسٹر کے گھر بھیج دیے اور پھر جب وہ اپنے تین کپڑوں میں گھر سے نکلی، کسی کے ذہن میں شک کے سائے تک نہ تھے۔ اور پھر اس لڑکی کا بھی وہی انجام ہوا، جو اس سے پہلے کئی اور لڑکیوں کا ہو چکا تھا اور اس کے بعد کئی اور لڑکیوں کا ہونا باقی تھا۔ وہ لڑکی بمبئی پہنچ کر فن کی مورتی نہیں، آرٹ کی قبر بن گئی اور میں سوچ رہی تھی، یہ رتنی، یہ رتنی کیا بنے گی؟
آج تین سال بعد میں نے رتنی کو دیکھا۔ ہنسی کے پانی سے وہ سبزیوں کو تازہ کر رہی تھی۔ ’’پالک ایک آنے گٹھی، ٹماٹر چھ آنے رتل اور ہری مرچیں ایک آنے ڈھیری۔‘‘ اس کے چہرے پر پالک کے پتوں کی ساری نرمی، ٹماٹروں کی ساری سرخی اور ہری مرچوں کی ساری خوشبو موجود تھی۔
جیوی کے چہرے پر دکھوں کی لکیریں تھیں، و ہی لکیریں، جو میرے گیتوں میں تھیں اور لکیریں لکیروں میں مل گئی تھیں۔
رتنی کے چہرے پر ہنسی کی بوندیں تھیں، وہ ہنسی، جب خواب میں اگ آئیں، توا وس کی بوندوں کی طرح ان پتیوں پر پڑ جاتے ہیں اور وہ خواب میرے گیتوں کے بند بنتے تھے۔
جو خواب جیوی کے دل میں تھا، وہی خواب رتنی کے دل میں تھا۔ جیوی کا خواب ایک ناول کے آنسو بن گیا اور رتنی کا خواب گیتوں کے بند توڑ کر آج اس کی جھولی میں دودھ پی رہا تھا۔
٭٭٭
کھلے آسمان میں ۔۔۔ جسونت سنگھ وِردی
گرمیوں کے دنوں میں میرے گھر کے پیچھے اکثر ہلچل مچی رہتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ میری بیوی پرندوں کے لئے ڈھیر سارے دانے اور روٹی کے ٹکڑے گھر کے پیچھے پھینک دیتی ہے۔ پر یہ ہلچل کی وجہ سے نہیں ہے۔
بہت سے پرندے خود دانہ چگتے ہیں اور دوسرے پرندوں کو بھی آوازیں لگاتے ہیں۔ لیکن بہت سارے صرف خود دانہ چگتے ہیں اور دوسروں کو پاس بھی نہیں پھٹکنے دیتے۔ پر ہلچل کا سبب یہ بھی نہیں ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ جب معصوم چڑیاں دیوار یا باتھ روم کے کونوں میں اپنے گھونسلے بنا لیتی ہیں، تب مینائیں فوراً حاضر ہو جاتی ہیں۔ چڑیاں جو بھی تنکے اکٹھا کرتی ہیں۔ مینائیں ان کو ایک ایک کر بکھیر دیتی ہیں۔ پر چڑیاں اپنے محاذ پر ڈٹی رہتی ہیں۔
ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے۔ کچھ دنوں پہلے جب میری بیوی دوپہر کے بعد گھر کے پیچھے گئی تو اس نے دیکھا کہ گھونسلے کے نیچے زمین پر ایک انڈا ٹوٹا پڑا تھا۔
’’یہ میناؤں کی شرارت ہے۔‘‘ اس نے غصے سے کہا۔ ’’میں میناؤں کو اس گھر میں نہیں آنے دوں گی۔‘‘
’’تو کیسے روکو گی؟’’
’’میں روک لوں گی۔‘‘
’’پرندوں پر کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔‘‘
’’پھر انہوں نے چڑیا کا انڈا کیوں توڑا؟’’
’’چلو ہمیں کیا۔‘‘
’’کیوں؟ کیوں نہیں؟’’ اس نے غصے سے کہا۔ ’’ چڑیا نے ہمارے گھر میں گھونسلہ بنا کر انڈے دیئے ہیں۔ ہمارا فرض ہے اس کی حفاظت کرنا۔‘‘
اس دن بات وہیں ختم ہو گئی۔ کیونکہ وہ بہت جذباتی نظر آ رہی تھی اور عورت جب جذباتی ہو تو اس کے ساتھ مقابلہ نہیں ہو سکتا۔
کالج میں چھٹیاں تھیں اور میں سپت سندھو کے لوگوں کے بارے میں اپنا مقالہ پورا کر رہا تھا۔ ویدک دور کے آریہ لوگوں سے لے کر آج تک سپت سندھو یا پنجاب کے لوگوں کو غیر ملکی حملہ اوروں اور فطرت کی بے رحم طاقتوں سے جنگ کرنی پڑی ہے۔ تب کہیں جا کر وہ اپنے آپ کو اس دھرتی پر آباد کر سکے ہیں۔ اب تو اس دھرتی پر چاروں طرف ایسے جذباتی لوگ بکثرت ہیں جو ہر کسی کو ظلم کے خلاف اٹھنے کے لئے بڑھاوا دیتے ہیں۔ میں دوپہر تک لکھتا ہوں اور پھر کھانا کھا کر سو جاتا ہوں۔ سوتے ہوئے بھی میں پرانے بہادر پنجابی لوگوں کے کارناموں کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔
ایک دن دوپہر کے وقت میری آنکھ ابھی لگی ہی تھی کہ میں نے گھر کے پچھواڑے سے پرندوں کی چیخ و پکار اور بہت زور کا شور سنا۔ میں فوری طور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ میری بیوی کہہ رہی تھی۔ ’’ان میناؤں نے چڑیا کے بچے کو نہیں چھوڑنا۔‘‘
’’کیا کر لیں گی؟’’
’’مار دیں گی۔‘‘
’’کیوں؟ کیا پرندوں میں بھی جلن ہوتی ہے؟’’
’’آپ کا کیا خیال ہے؟ آدمیوں میں ہی ہوتی ہے؟’’
پل بھر رک کر اس نے پھر کہا۔ ’’پرسوں چڑیا کا بچہ نیچے گر گیا تھا۔‘‘
’’پھر؟’’
’’میں نے اس کو اٹھا کر گھونسلے میں رکھ دیا۔‘‘
’’وہ تم سے ڈرا نہیں؟’’
’’نہیں۔۔۔ پرندوں کو بھی اپنے چاہنے والوں کا پتہ ہوتا ہے۔‘‘
ابھی ہم بات کر ہی رہے تھے کہ چڑیوں کی چیں چیں کا بہت بڑا طوفان اٹھا اور میری بیوی فوری طور پر اٹھ کر آگے آئی۔ پر میں نے اس کے بازو کو پکڑ کر اسے روک لیا۔
’’کیا بات ہے؟’’
’’ چڑیوں کو اپنی مدد خود کرنے دو۔‘‘ میں نے کہا۔
وہ جلدی سے بولی۔ ’’وہ کمزور ہیں۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ تم ہی ان کو کمزور سمجھتی ہو۔‘‘
’’تو کیا۔۔۔؟’’
’’تم انہیں میناؤں کے خلاف لڑنے دو۔ ہمیں ہر وقت تو ان کے ساتھ نہیں رہنا۔‘‘میں نے کہا۔ ’’زیادہ سے زیادہ وہ بچہ ختم ہی تو ہو جائے گا۔۔۔‘‘
’’ ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔‘‘
’’پر چڑیاں ڈٹ کر لڑنا سیکھ جائیں گی۔‘‘
اس نے تجسس سے کہا۔ ’’میں دیکھ تو لوں کیا ہو رہا ہے۔‘‘
’’ضرور دیکھو۔۔۔ پر ان کی جنگ میں دخل مت دو۔‘‘
’’اس طرح برائی کو سہارا ملتا ہے۔‘‘ اس نے نئی بحث چھیڑی۔
میں نے کہا۔ ’’جس کے ساتھ برائی ہوتی ہے وہ بھی تو برائی کے خلاف ڈٹے۔‘‘
’’اچھا پھر۔۔۔ لڑنے دو۔‘‘ میری بیوی نے بات ختم کر دی۔
گھر کے پیچھے دو پہر کا سورج گرما رہا تھا۔ ہمارے گھر کا منہ مشرق کی طرف ہے، جس کی وجہ سے ہم گرمیوں میں صبح گھر کے پیچھے مغرب کی طرف بیٹھتے ہیں اور بعد از دوپہر جب سورج مغرب کی جانب جھک جاتا ہے، تب گھر کے سامنے مشرق میں بیٹھ جاتے ہیں۔
ہم نے پیچھے برآمدے میں جا کر جالی کے دروازے سے دیکھا تو پانچ میناؤں نے چڑیوں کے گھونسلے کو گھیرا ہوا تھا۔ چڑیا اور چڑا دونوں ہی گھونسلے کے آگے بیٹھے شکاریوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔ کسی وقت دو مینائیں گھونسلے پر حملہ کرتیں اور تو کبھی تین۔ بچہ گھونسلے کے پیچھے بیٹھا زور زور سے چیں چیں کر رہا تھا۔ پتہ نہیں کیا کہہ رہا تھا۔
’’کل ایک گھونسلے پر منہ بھی مار رہا تھا۔‘‘میری بیوی نے گھبراہٹ میں کہا۔ ’’پر میں نے اس کو بھگا دیا۔ یہ مینائیں تو پیچھے ہی پڑ گئی ہیں۔‘‘
’’کوئی بات نہیں۔ تم ان کا مقابلہ دیکھو۔‘‘
چڑیا کے گھونسلے پر حملہ کرنے والی مینائیں بہت لڑاکا اور پھرتیلی تھیں۔ ان کے سانولے رنگ اور پیلی چونچیں نکیلی تھیں۔ وہ جب بولتیں تو بڑی سریلی آواز نکلتی۔ پر وہ کام کیا کر رہی تھیں؟۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا۔ ’’ ان کا سانولا رنگ ان کی جلن کی وجہ سے ہی ہوا ہو گا۔‘‘
’’کیا کہا جا سکتا ہے؟’’
’’یہی بات معلوم ہوتی ہے۔‘‘
’’آپ نے کہیں پڑھا ہے کیا؟’’
’’نہیں۔ یہ تجربے کی بات ہے اور تجربے کی گواہی کبھی غلط نہیں ہوتی۔‘‘
پل بھر وہ رک کر بولی۔ ’’میں انہیں اڑانے لگی ہوں۔‘‘
’’روزانہ اڑاؤ گی؟’’
’’پھر کیا کروں؟ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔۔۔۔‘‘
’’پھر تم چڑیاؤں کو گھر میں گھونسلے مت بنانے دو۔‘‘
’’مجھ سے یہ نہیں ہو سکے گا۔‘‘
’’پھر اسے برداشت کرو۔‘‘
’’کسے؟’’
’’جو کچھ ہو رہا ہے۔‘‘
’’پر یہ تو زیادتی ہے۔‘‘
میں نے جواب نہیں دیا۔
ویسے میں سوچ رہا تھا۔ ’’مینائیں کیاسوچ رہی ہوں گی؟ اگر زمین اور آسمان میں چڑیاں ہی چڑیاں ہو گئیں تو ہمارا کیا بنے گا؟ اس لئے ٹھیک یہی ہے کہ چڑیوں کی نسل کو بڑھنے ہی نہ دیا جائے۔‘‘
اس وقت جتنے غصے سے میناؤں نے چڑیوں پر حملہ کیا اور چڑیوں نے جس طرح حملے کو روکا۔ اس طرح اکثر آدمی بھی نہیں کر سکتے۔
دوپہر کا وقت تھا اور پرندے ایک دوسرے کا مقابلہ کر کر کے تھک گئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ مینائیں مایوس ہو گئی تھیں۔ ان کی اڑان میں پہلے جیسا جوش نہیں تھا۔ چڑیا اور چڑا بھی بھی ڈٹے ہوئے تھے۔ بھلے وہ تھکے ہوئے تھے اور ان کی سانسیں تیزی سے چل رہی تھیں۔ پر انہیں لگ رہا تھا کہ اگر آج وہ اپنے بچے کو نہ بچا سکیں تو شرم سے مر جائیں گی۔
’’بات کیا ہے؟ ایک بلی بھی گھونسلے کی طرف جھانک رہی تھی۔‘‘ میری بیوی بولی۔ ’’پر وہ اوپر نہیں پہنچ سکتی تھی۔‘‘
’’ چڑیوں کے دشمن بہت ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’لیکن پھر بھی یہ ہر جگہ ہوتی ہیں۔ کھلے آسمان میں اڑتی ہیں اور کبھی کسی کے دباؤ میں نہیں آتیں۔‘‘
میری یہ بات سن کر میری بیوی کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ ’’آپ کی یہ بات تو ٹھیک ہے۔‘‘
اس وقت ہم نے دیکھا چڑیاں چیں چیں کر کے میناؤں کو للکار رہی تھیں کہ ہمت ہے تو آؤ کرو مقابلہ۔
میں نے کہا۔ ’’حملہ اور میں اس وقت تک ہمت ہوتی ہے جب تک کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرتا۔ کیونکہ ظلم کرنے والے کے پاس اخلاقی قوت نہیں ہوتی۔‘‘
سورج مغرب کی جانب غروب ہو رہا تھا۔ ہم لوگ برآمدے میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ اب تک بچے بھی اٹھ گئے تھے، لیکن ان کو بالکل معلوم نہ تھا کہ چڑیوں نے میناؤں کا کس طرح مقابلہ کیا۔ میری بیوی مطمئن تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اگر ظلم کرنے والے کا مقابلہ کیا جائے تو ظلم رک سکتا ہے۔
ابھی ہم نے چائے ختم بھی نہیں کی تھی کہ پیچھے سے پھر پرندوں کا شور اٹھا اور میری بیوی نے گھبرا کر کہا۔ ’’اس بار مینائیں چڑیوں کے بچے کو نہیں چھوڑیں گی۔‘‘
’’پھر گھبرا گئیں۔‘‘
’’بات ہی گھبراہٹ والی ہے۔‘‘
’’پر تم فکر نہ کرو۔‘‘
یہ بات سن کر ہمارا بیٹا ’’کاکا‘‘ تیزی سے آنگن کی طرف بڑھا اور پھر فوراً واپس آ گیا اور بولا۔ ’’ممی جی بھاگ کر آؤ”
’’کیا ہوا؟’’
’’بہت دلچسپ نظارہ ہے۔‘‘
ہم سب جلدی سے پچھواڑے کی طرف گئے۔ منظر واقعی بہت دلچسپ تھا۔
چڑیا کا بچہ گھونسلے میں سے نکل کر صحن میں آ گیا تھا اور ساری چڑیاں اس کو اپنے ساتھ اڑنا سکھا رہی تھیں۔ اس کے پر پوری طرح اڑنے کے لئے تیار تھے اور اس کا جسم بھی طاقتور تھا۔
وہاں ایک بھی مینا نہیں تھی۔
’’یہ تو کچھ ہی دنوں میں اتنا بڑا ہو گیا۔‘‘ میری بیوی نے خوش ہو کر کہا۔ ’’واہ واہ۔‘‘
’’تمہیں معلوم نہیں۔‘‘میں نے کہا۔ ’’مقابلہ انسان کو طاقتور بنا دیتا ہے۔‘‘
اگلے لمحے ہی ایک زوردار چیں چیں کی آواز گونجی اور وہ بچہ پوری طاقت سے دیوار کے اوپر سے، بجلی کی تاروں کو پار کرتا ہو کھلے نیلے آسمان میں اڑ گیا۔
٭٭٭
سنساری ۔۔۔ گرمیت کڑیاوالی
سنساری کی موت کی خبر آگ کی طرح پھیلی تھی۔ دسمبر کی کڑاکے دار سردی میں صبح لوگوں نے اس کے جسم کو سڑک کے کنارے پڑا دیکھا تھا۔ پل بھر میں ہی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح قصبے میں اور اس سے ملحقہ دیہاتوں میں پھیل گئی تھی۔
ابھی کل ہی تو وہ بڑے آرام سے پیٹ بادشاہ کو رشوت دینے کے لئے سڑک کے کنارے بیٹھا مانگ رہا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ وہ کوئی پیشہ ور بھکاری تھا۔ پیشہ ور بھکاری تو آج کل سرکاری دفتروں، اسمبلیوں، اور پارلیمنٹ میں براجمان ہو گئے ہیں۔ وہ تو ضرورت کے مطابق کبھی کبھی مانگتا تھا۔ وہ بھی دوسرے تمام تاجروں، دکانداروں اور جواریوں کی طرح شہر کا ہی ایک حصہ تھا۔ رات میں کہاں جاتا ہے، کسی نے خیال نہیں کیا تھا۔ کئی کئی بار تو کئی کئی دن غائب رہتا تھا۔
ان دنوں میں سب سے زیادہ تکلیف سٹے والوں کو ہوتی تھی۔ ان کی نظریں سنساری کو تلاش کرتی رہتی تھیں، ان کے چہرے پر پریشانی کی جھلک دکھائی دینے لگتی، کیونکہ سٹے کا نمبر وہ سنساری سے پوچھ کر ہی لگاتے تھے۔ جو نمبر سنساری بتاتا تھا، وہ لگا دیتے تھے۔ بتانے کا مطلب یہ نہیں کہ سنساری ان کو نمبر بول کر الاٹ کرتا تھا۔ اس کو بولتے ہوئے آج تک قصبے کے کسی آدمی نے نہیں سنا، وہ صرف اُو۔۔۔ اُو۔۔۔ با۔۔۔ با۔۔۔ کرتا تھا۔ جب وہ بولتا نہیں تھا تو پھر سننے والوں کو تکلیف ہونے لگتی تھی۔ سٹے والے سنساری کو کیا کہتے ہیں، سنساری کو بھی پتہ نہیں چلتا، وہ تو صرف ان کے جذبات کو سمجھ لیتا تھا اور جواب میں اُو۔۔۔ آ۔۔۔ کرتے ہوئے اپنی انگلی کو اوپر نیچے کرتا۔ ان انگلیوں کی ہی کرامت تھی کہ نمبر لگانے والے ان انگلیوں کے اشارے کو ہی سمجھ لیتے تھے کہ کون سا نمبر بنتا ہے۔ اتفاق سے نمبر آ جاتا تو وہ خوش ہو کر سنساری کو بھی اس کا حصہ دے جاتے۔ جن کا نمبر نہیں آتا وہ اپنی قسمت کو کوستے اور یہ کہتے کہ انہیں نمبر سمجھنے میں غلطی ہو گئی۔ وہ اپنی اس غلطی پر پچھتاتے ہوئے صبر کرتے۔
سنساری سے آشیرباد حاصل کرنے والوں میں قصبے اور گاؤں کے کچھ لڑکے بھی شامل تھے۔ ان کو جب بھی کسی ’’ مہم‘‘ پر جانا ہوتا تو وہ اس دن کے بارے میں سنساری سے پیشگوئی کروانے آتے۔ سنساری ان سے ملی رقم سے کئی دنوں تک اپنا گزارا چلا لیتا تھا اور پھر کتنے ہی دن سڑک کنارے دکھائی نہیں دیتا تھا۔ بھکاریوں کی مانند پیسہ جمع کرنا، یا دیس بدیس کے بینکوں میں انہیں جمع کروانا، اس کی عادت نہیں تھی۔ سنساری کو اگر ان لڑکوں کے مقصد کا پتہ ہوتا تو وہ کبھی بھی ہاتھ کے اشاروں سے پیشگوئی نہیں کرتا۔ ہاتھ کے اشاروں کو وہ لڑکے، فقیر بابا سے ملی آشیرباد سمجھتے۔ اگر سنساری کو اس کا علم ہوتا کہ جس دن لڑکوں کی ٹولی اس کے پاس آتی ہے، اس دن کوئی کنواری بچی یا لڑکی کی قسمت ’’سیٹھ غریب داس’’ کے شہر کے باہر لگے اڈے میں لکھی جاتی ہے تو وہ کبھی بھی ان کی رقم قبول نہیں کرتا۔ سنساری تو ان کو اپنا ہمدرد، عقیدت مند اور پیسے دینے والا سمجھتا تھا بس۔
سنساری کے بارے میں ان سٹے والوں اور لڑکوں کے بجائے ایک پھٹیچر ڈھابے والے کو ہی پتہ تھا کہ سنساری شام کو کہاں جاتا ہے، کیونکہ پیٹ بھرنے کے لئے وہ شام کو اس کے پاس کھانا کھانے آتا تھا۔ ویسے تو سنساری کے لئے لنگر شہر کے گرو دواروں اور مندروں میں بھی کافی دستیاب تھا۔ کسی نہ کسی مذہبی مقام پر کوئی نہ کوئی اجتماع چلتا ہی رہتا تھا، لیکن کبھی کبھی سنساری کا من ’’دس انگلیوں‘‘ کی کمائی سے حسبِ منشا روٹی کھانے کو کرتا تھا۔ کبھی کسی نے اس کی خواہش نہیں سمجھی۔ کتنے بے غرض، سیدھے اور بھولے ہیں یہ لوگ۔ سوائے ان ’’چند لوگوں کے‘‘۔ سنساری سوچتا تھا۔ یہ لوگ تو جیسے اس کے لئے قدرت نے فرشتے ہی بنا کر بھیج دیئے ہیں۔ سب لوگ ان کے جیسے ہی کیوں نہیں ہو جاتے؟ عظیم ہے ایشور، جس نے ایسے نیک انسان بنائے، ورنہ پتہ نہیں اس کے جیسے غریب آدمیوں کا کیا بنتا۔
واقعی سنساری کتنی دور کی سوچتا تھا۔ اگر ایسے نیک انسان نہ پیدا ہوتے تو غریب لڑکیوں کی جوانی بیکار ہی چلی جاتی۔ غریب داس کے اڈے میں لائی گئی ہر نئی ’’چیز’’ کو ایسے ہی کہا جاتا تھا، یہ مت سمجھنا کہ ہم تمہارے ساتھ زبردستی کرتے ہیں۔ ہمیں تو تمہاری جوانی پر ترس آتا ہے۔ اس جوانی کو جوانی کی ضرورت ہے اور ہم سا جوان اس شہر میں کوئی نظر نہیں دیتا، بہن۔
کتنی سچائی تھی سنساری کی سوچ میں۔ اگر امیر لوگ نہ ہوتے تو غریبوں کو کام کون دیتا، اگر غریبوں کو کام نہ ملے تو وہ کدھر جائیں؟ اگر یہ لوگ حکومت نہ چلائیں تو پھر کیا ہو؟ لوگ تو ایسے ہی پاگل ہیں، ایسے ہی تیسرے چوتھے دن شور مچانے لگ جاتے ہیں، پر یہ لوگ کریں بھی تو کیا؟ خالی بیٹھے ہیں، کام تو ہے نہیں ان کے پاس۔ اگر حکومت چلانی پڑے یا لیڈری کرنی پڑے یا پھر لڑکوں کی طرح غریب لڑکیوں کی شادیاں کرنی پڑیں تو پھر پتہ چلے۔ ایسے ہی ٹیں ٹیں کرتے ہیں یہ لوگ۔ سنساری ہمیشہ یہی سوچتا رہتا۔
سنساری ان ٹولی والوں کو ہی سب سے بڑا نیکوکار سمجھتا تھا اور اگر وہ ایسا سمجھتا تھا تو اس میں غلط کیا تھا۔ دیکھو اس وقت شہر میں سات مذہبی مقامات ہیں، دو عورتوں کے مندر بنائے گئے، جہاں دکھی لوگوں کی مشکلات کو دور کیا جاتا ہے، لوگوں پر سے جن وغیرہ بھگائے جاتے ہیں، اگر ان کو بھی شامل کر لیا جائے تو پورے نو مذہبی مقامات بن جائیں گے۔ یہ نوجوان اور شہر کے نیلی پیلی، سفید سبز، لال گلابی پارٹیوں کے لیڈر ہی تو ہیں جو مذہبی مقامات کو چلا رہے ہیں۔ کوئی کسی مذہبی مقام کا منیجر ہے تو کوئی صدر۔ ایسا کوئی بھی مذہبی مقام نہیں ہے جس کا ہیڈ یا کمیٹی منیجر ان میں سے نہ ہو۔ شہر میں جو رام مندر ہیں، ان میں اکثر رام لیلا چلتی رہتی ہے، لنگر چلتا ہے، ٹن ٹن کی آواز آتی رہتی ہے، چوبیس گھنٹے منتر تنتر اور پوجا پاٹھ جاری رہتی ہے۔ میلے یا کسی خاص تہوار میں تو اتنے یاتری آتے ہیں کے اس کا کوئی حساب ہی نہیں رہتا۔ اس مندر کا کام کاج ایک دن بھی نہ چلے اگر سیٹھ مراری لال نہ ہو۔ کتنی بھاگ دوڑ کرتا ہے بیچارا مندر کی خاطر۔ جنتا جو ہے نا، کسی کا قرض نہیں رکھتی۔ ہر بار ووٹ مراری لال کو ڈال دیتی ہے۔ ایسے ہی تو نہیں وہ ہر بار میونسپل کمشنر بن جاتا۔ سب ایشور اور جنتا کی خدمت کا پھل ہے۔ قسمت والا ہے، نہیں تو اتنی خدمت کوئی اور کر لے گا۔ مراری لال ایسے ہی سنساری کا عقیدت مند نہیں ہے۔ کیا بولا؟ لوگ جھوٹ بولتے ہیں، لوگوں کی تو عادت ہے جھوٹ بولنے کی۔ ہر اچھے آدمی میں کوئی نہ کوئی کمی ڈھونڈتے رہنا۔ لال گردھاری مل کی لڑکی کو مندرسے اٹھوانے میں مراری لال کا ہاتھ تھا۔ یہاں دوپہر کو پوجا کرنے آئی تھی اور زبردستی گاڑی میں ڈال کر لے جانے والوں میں مراری بھی تھا۔ لو بتاؤ؟ لوگوں کا کیا ہے، لوگ تو ایشور پر بھی کیچڑ پھینک دیں۔ یہ تو پھر مراری ہے۔ دوسری طرف دیکھو، لوگ کیا کیا بولتے رہے مراری کے بارے میں۔ یہ مراری ہی تھا جو گردھاری مل کی لڑکی کو پندرہ دن بعد واپس لے آیا۔ مراری تو مراری ہی ہے، اس کا ان اوٹ پٹانگ باتوں سے کیا واسطہ ہے۔
جُوالی والا گرودوارہ، کچھ سال پہلے جس میں دو کمرے ہوتے تھے۔ اب دیکھو وہاں پر جا کر چاروں طرف بہاریں ہی بہاریں نظر آتی ہیں۔ جب سے سدھو صاحب کمیٹی کے سربراہ بنے ہیں، آئے سال کچھ نہ کچھ بنتا رہتا ہے۔ لوگوں کے بیٹھنے کے لئے بڑا ہال، لنگر کھانے کے لئے بڑا لنگر ہال، لوگوں کے رہنے کے لئے ہوٹل، فرشوں پر سنگ مرمر لگا ہوا، سب سدھو صاحب کی مہربانی ہے۔ اونچی پہنچ والا آدمی ہے۔ کئی بار باہر جا چکا ہے۔ بڑے بڑے وزراء کے ساتھ سیدھی بات ہے۔ کیا کہا، سدھو صاحب کی لاکھوں کی کوٹھی ہے؟ وہ تو میں پہلے کہہ چکا ہوں، لوگوں کو جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے۔ یہاں سدھو صاحب کی دو ایکڑ میں بنی لاکھوں روپے کی لاگت سے یہ کوٹھی، ایشور کی دِین ہے۔ ایشور کا نام لے کر لاکھوں روپے ’’چندہ’’ جمع کر کے ملک میں لایا اور ایشور کے نام سے اپنی کوٹھی پر لگا دیا۔ لوگوں کی لوگ ہی جانیں۔ سنساری کوبس اتنا معلوم تھا کہ سدھو صاحب جیسا مذہبی انسان شہر میں ہے ہی نہیں۔
شہر میں بالمیکی جی کا گھر بھی لیڈروں کی جماعت کی مہربانی ہے۔ اس کمیٹی کے صدر ناجر کو بھی آج کل شہر کے نامی گرامی انسانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ نامی گرامی لوگوں میں نام کیوں نہ ہو، پورا محلہ اس کی جیب میں ہے۔ ناجر کہے تو اس محلے کے لوگ، سارے شہر کی ناک میں دم کر دیں۔ کسی بات پر شہر کے کرتا دھرتاؤں کے سا تھ ناراضگی ہوئی نہیں کہ شہر میں جہنم کا نظارہ پیش ہو جاتا ہے۔ یہ ناجر ہی تھا جو شہر میں کسی بھی پارٹی کے لیڈر کی طرف سے کی جانے والی ریلی، جلوس، اور دھرنے کے لئے بندوں کا انتظام کرتا تھا۔ لہذا ناجر کو نیوٹرل پالیسی پر چلنے والا سمجھا جاتا تھا۔ پارٹی کوئی بھی ہو، ناجر اس میں آدمی بھیج کر اس پارٹی کی واہ واہ کروانے کے لئے، بڑی محنت سے کام کرتا تھا۔ سنساری کی آنکھوں دیکھی بات ہے کہ کچھ سال پہلے یہ ناجر میونسپل میں جھاڑو لگاتا تھا۔ میونسپل میں آتے جاتے لیڈروں سے اس کو لیڈری کا ایسا شوق جاگا کہ اب تو مانے ہوئے لیڈروں میں اس کا شمار ہونے لگا ہے۔ اب تو لیڈری کے میدان میں ناجر مہاراج کی طوطی بو لتی تھی۔ اچھے اچھے آفیسرز اور عہدے دار، ناجر سے ڈرتے تھے۔ ابھی گزشتہ سال ہی ناجر کے محلے میں مندر کے لئے میونسپل کے سربراہ نے پچیس ہزار اینٹیں، پچاس بوری سیمنٹ اور محلے میں اسٹریٹ لائٹیں نہیں لگوائیں تھیں، نالی پکی کرنے کے کام میں سے ناجر کا جو حصہ بنتا تھا، وہ بھی اُس نے اپنی جیب میں نہیں ڈالا۔
ناجر کی میونسپل کے سربراہ کے ساتھ تو تو میں میں ہو گئی۔ ناجر نے اس بہانے کی آڑ میں کہ میونسپل کے سربراہ نے اس کی ذات کے بارے میں غلط الفاظ کہے ہیں، شہر کے تمام صفائی ملازمین کی ہڑتال کروا دی تھی۔ ملازمین نے نالوں کی ساری گندگی شہر کے بازاروں میں اور سربراہ کے گھر کے آگے ڈھیر کر دی۔ ان ملازمین نے شہر میں وبا پھیلانے میں بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ شہر کی ممبر اسمبلی بی بی سرلا کہیں باہر گئی ہوئی تھی۔ جب وہ واپس آئی، تب اس کو ہڑتال کے بارے میں پتہ چلا۔ اس نے فون کر کے فوری طور کمیٹی کے سربراہ کو اپنے ’’غریب خانے‘‘ میں بلا لیا تھا۔
’’ تم سربراہ کی کرسی پر بیٹھنے کے قابل نہیں ہو۔‘‘
ممبر اسمبلی بی بی سرلا کے تیور چڑھے دیکھ کر، سربراہ نے خاموش رہنا ہی ٹھیک سمجھا تھا۔
’’الیکشن سر پر ہے اور ہم ان لوگوں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ آپ کو پتہ ہے کہ ان کو پٹانے کے لئے اپوزیشن پارٹی والے ان کو ہاتھوں پر اٹھائے گھومتے ہیں۔‘‘بی بی کی آواز میں آہستہ آہستہ نرمی آنے لگی تھی۔
’’ آج رات تک یہ معاملہ نمٹ جانا چاہیے۔‘‘ بی بی جی کا فرمان لے کر سربراہ وہاں سے چلے گئے تھے۔
اس رات پچیس ہزار روپے ناجر کے پہنچ گئے تھے۔
’’ سربراہ صاحب آپ کی ساری ڈیمانڈیں ماننے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ جلد ہی ساری ڈیمانڈیں پوری کر دی جائیں گی۔‘‘ناجر کے اس حکم کے مطابق ہڑتال ختم کر دی گئی تھی۔
محلے کے اندر اسٹریٹ لائٹیں بھلے نہیں لگیں، لیکن ناجر کے کمرے میں سنگ مرمر ضرور لگ گیا تھا۔ اگر ناجر آگے لگ کر جد و جہد نہ کرے، تو کیا یہ شہر والے اس کو کچھ کہہ رہے ہیں؟
سنساری ناجر کو ایک مثالی شخصیت سمجھتا تھا۔ محلے کے غریب لوگوں کے لئے لڑنے مرنے والا۔ سنساری کچھ غلط تو نہیں سمجھتا تھا۔
دیوی ماتا کے مندر کی کمیٹی کے جوان سیٹھ برہم آنند جی کے شہزادے ’’ستی سوروپ’’ کا بھی شہر کے لیڈروں میں اپنا مقام تھا۔ ہر منگل مندر میں جگراتا ہوتا، یہ ’’ستی سوروپ’’ کی ہمت کے کارن ہی ہوتا تھا نہیں تو پہلے کیوں نہیں ہوا۔ وہ تو ستی سوروپ جی تھے جو ہر سال مفت میں دو گاڑیاں، دیوی ماتا کے غریب بھگتوں کو لے کر درشن کروانے پہاڑوں پر بھیجتے تھے۔ ستی سوروپ ہی تھے جو لوگوں کی بہن بیٹیوں کو رات کی محفلوں میں اٹھنے بیٹھنے کا موقع فراہم کرتے تھے۔
اتنے پُن اور ثواب کا کام کرنے والا بھلا شخص شہر کے نامور لیڈروں میں کیسے داخل نہ کیا جاتا؟ اگر سنساری ’’ستی سوروپ’’ کو دھرماتما اور بھلا شخص سمجھتا تھا، تو کچھ غلط تو نہیں سمجھتا تھا؟
بابا دھرم داس کی شہر اور آس پاس کے دیہاتوں میں اچھی خاصی عزت تھی۔ کبھی کوئی انہونی بات نہیں ہوئی۔ یہ بابا جی کی لگن اور نیکی سے ہی تھی۔ بابا جی جیسے نیک، عظیم انسان، مردِ صالح کوئی اور بن سکتا ہے؟ اتنا ٹیڑھا، چکر دار راستہ، اس کا پالن بابا جی ہی کر سکتے تھے۔ وہ سوا سوا مہینے اناج کو منہ نہیں لگاتے تھے، صرف دودھ پی کر گزارا کرتے تھے۔ توبہ توبہ، اتنی بڑی قربانی۔ ایسے ہی تو بابا جی نے بڑی بڑی چیزیں بس میں نہیں کی ہوئی تھیں۔ نوجوان لڑکے بھی بابا جی کے چرنوں میں لگے ہوئے تھے، زندگی بہتر بنانے کے لئے۔ بابا جی کے ڈیرے میں ہی رہتے تھے۔ دل لگنے کی بات ہے، ورنہ کیا گھر کی محبت کم ہوتی ہے؟ بابا جی جو بھی منہ سے بولتے وہ پورا ہو جاتا۔ بابا جی کے ڈیرے سے پتہ نہیں کتنی ہی عورتوں نے دودھ اور بیٹے کی بخشش حاصل کی تھی۔ کئی بار تو کنواری لڑکیوں کو بھی یہ بخشش دی تھی۔ بات تو بابا جی کے خوش ہونے کی ہے، اتنے عظیم اور طاقتور انسان، جس کی دنیا جے جے کار کرتی تھی۔ سنساری اگرایسے عظیم انسان کو ’’ بھگوان’’ سمجھتا تھا تو کیا غلط سمجھتا تھا؟
اب جب کے سنساری مر گیا تھا توسبھی مذاہب سے جڑے لوگوں، شہر کی نامور ہستیوں اور رنگ برنگی پارٹیوں کے لیڈروں کا یہ فرض بن گیا تھا کہ سنساری کے جسد خاکی کو سنبھالیں۔ پولیس سنساری کو لا وارث سمجھ کر اس کے جسم کو قبضے میں لئے بیٹھی تھی۔ حکومت کے بھاڑے کے ٹٹوؤں کو کیا پتہ تھا کہ سنساری لا وارث نہیں ہے، تمام شہر ہی اس کے وارثوں کا تھا۔
سنساری ہی شہر میں ایک شخص تھا، جو سب کے لئے ایک تھا۔ اکائی کی ایک سچی مثال سنساری ہی تھا۔ سنساری ہی تھا جو روپے پیسوں کی محبت سے پرے سب کا بھلا مانگنے والا تھا۔ ہر وقت شہر اور شہر کے لوگوں کی بھلائی کے لئے ایشور سے دعا مانگتا تھا۔ سنساری جیسے فقیروں کی دعا ہی ہوتی ہے، جس کے سہارے دنیا چل رہی ہے۔ پھر ایسے فقیر کی دنیا سے رخصت ہو جانے پر ان کے لئے اجتماع منعقد کرنا اور اس کو یاد کرنا، کس کا فرض نہیں بنتا؟
سنساری نے اس دنیا سے رخصت کیا لی، شہر کے لئے وہ ایک مقدس ہستی بن گیا۔ اس کا آخری دیدار کرنے کے لئے شہر کے لوگوں میں ایک دوڑ سی مچ گئی تھی۔ سبھی محلوں کے چودھریوں کی اپنے اپنے محلوں میں خفیہ میٹنگیں شروع ہو گئی تھیں۔ محلے اور شہر کے ان چودھریوں کے سر پر سنساری کے کریا کرم کی بھاری ذمہ داری آ گئی تھی۔ شہر کے تمام دھرموں اور مذہبوں کے لیڈر سنساری کے ’’مقدس جسم’’ کو حاصل کرنے کے لئے اپنے اپنے داؤ پیچ کرنے میں لگے تھے۔ سنساری کے مردہ جسم کے پاس میلے کچے لے، پھٹے پرانے کپڑوں کو ٹھوس ٹھوس کر بھری ہوئی گٹھری میں سے بھگوان رام کی فوٹو نکلی تھی۔ گٹھری میں بھگوان رام کی نئی فوٹو کس طرح اور کہاں سے آ گئی تھی؟۔ اس کے بارے میں لوگ چاہے کچھ بھی کہیں پر مراری اور اس کے ساتھیوں کا سنساری کے مردہ جسم پر حق ظاہر ہو گیا تھا۔ مراری اور اس کے ساتھی، سنساری کو ’’ دھرم کا فقیر’’ ہونے کی اس سے بڑی مثال اور کیا دے سکتے تھے۔ مراری نے اپنے مذہب اور محلے کے لوگوں کے جذبات کو ذہن میں رکھتے ہوئے سنساری کے مردہ جسم کو حاصل کرنے کے لئے چاروں جانب سے گھیرا بندی کر لی۔ یہی تو ایک موقع تھا، جس سے مراری محلے کے لوگوں کو اپنی طرف مائل کر سکتا تھا۔ سنساری کے مردہ جسم کو حاصل کرنے کے لئے محلے کے لوگوں کا متحد ہونا بہت ضروری تھا، کیونکہ یہ سبھی مذاہب کی حفاظت کی بات تھی۔ ایک رام بھگت، ہندو مرد کو اگر اور کسی مذہب کے رسم و رواج کے مطابق دفنا دیا جائے تو مہا پاپ ہو جائے گا۔ مراری اور اس کے ساتھیوں کے ہوتے ہوئے اس محلے میں ایسا مہا پاپ ہو جائے یہ کیسے ہو سکتا تھا؟ ساتھ میں مراری کے پاس یہی تو ایک موقع تھا جو وارڈ کے مخالف کو رواج مخالف اور دھرم مخالف ہونے کا فتوی لگوا سکتا تھا۔ لہذا مراری اور اس کے ساتھیوں نے جد و جہد کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
بھائی سنساری سنگھ کے مردہ جسم کو سکھ مذہب کی ریتی رواج کے مطابق ہی انتم کریا کرم کیا جانا چاہیے۔ یہ مقدس کام سدھو صاحب کی قیادت کے بغیر کیسے ممکن ہو سکتا تھا۔ سنساری کے گلے میں ایک لاکٹ اور گٹھری میں سے مذہب سے متعلق ایک کتاب ملی تھی جو سنساری کے سکھ ہونے کا ثبوت پیش کرتی تھی۔ سکھ مذہب سے تعلق رکھے بغیر سنساری اپنے گلے میں گرو مہاراج کی تصویر والا لاکٹ کس طرح ڈال سکتا تھا؟ چنانچہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ایک سکھ مذہبی شخص کے جسم کو دوسرے مذہب والے لوگ ادھر ادھر لے جائیں، اس کی ذلت کرانے۔ گرو کا سکھ اپنے جیتے جی ایسا ہوتے کس طرح دیکھ سکتا تھا۔ یہ ہندوؤں کی حکومت اور دوسرے مذاہب کے لوگ تو یہی چاہتے ہیں کہ سکھ مذہب کے عظیم انسان کا جسم ایسے ہی سڑکوں پر لا وارثوں کی طرح پڑا رہے اور ذلیل ہوتا رہے، لیکن سدھو صاحب اپنے جیتے جی یہ کیسے برداشت کر سکتا تھا۔ وہ تو اپنا انگ انگ کٹوا سکتا تھا۔ اس نے فوری طور پر محلے کے سرداروں کو جمع کر لیا اور اس کام کو تمام کرنے کے لئے ’’جکرا’’ بھی لگا دیا تھا۔ طرح طرح کی میٹنگیں ہونے لگیں۔ میٹنگوں کے اندر بھائی سنسار کے ایک سچے صاف ستھرے انسان ہونے کے بارے میں روشنی ڈالی گئی۔ سکھ مذہب میں اس کے مقام کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ سدھو صاحب نے یہ اعلان کر دیا کہ گرودوارے کے ساتھ لگتی ہوئی جگہ پر لائبریری کھولی جائے گی۔ یہ جگہ میونسپل سے حاصل کرنے کے لئے اعلی عہدے داروں سے بات کرنے اور منتریوں سے ملنے کا بوجھ سدھو صاحب نے اپنے نازک کندھوں پر لے لیا۔ اپنے مذہب کے لوگوں کو اس مشکل گھڑی میں اکٹھے ہونے اور جد و جہد کرنے کا اعلان بھی سدھو صاحب نے کر دیا تھا۔ مذہب پر آئے ہوئے اتنے بڑے بحران کے خلاف محاذ لگانے کی نوبت بھی آ سکتی تھی۔
شہر کے اونچی ذات والے لوگ ایسے ہی شور مچا رہے تھے۔ سنساری ہر دوسرے چوتھے دن والمیکی کے مندر میں سیوا کرنے آتا تھا، کس کو پتہ نہیں تھا؟ اگر وہ والمیکی کا بھگت نہیں تھا تو والمیکی کے گھر میں آ کر سیوا کرنے کا کیا مطلب تھا۔ اگر سنساری اس سماج سے جڑا نہیں تھا تو دوسرے مذہب کے لوگوں نے اسے در در بھٹکنے کیوں دیا؟ اب ان کو اچانک سنساری کی یاد کیوں اور کیسے آ گئی؟ اپنے رشیوں، عظیم لوگوں اور فقیروں کو ناجر اور اس کے ساتھی دوسرے مذاہب والوں کو کیسے سونپ سکتے تھے۔
اب تو قوم جاگ چکی ہے۔ جب سوئی ہوئی تھی، تب سو رہی تھی۔ اب بیداری آ گئی ہے پھر بھلا فقیر درویش کس طرح دوسرے کے ہاتھوں سے بے ادب ہوں گے۔ ناجر یہ کیسے ہونے دیتا؟ وہ سنساری کی میت کو کسی دوسرے کے ہاتھ نہیں لگنے دے گا۔ ناجر کا کہنا تھا کہ ان کے بزرگوں کو اب تک ان اعلی ذات کے لوگوں نے اپنے رسم و رواج میں کبھی شامل نہیں کیا، اب درویش کا اپنے رسم و رواج کے مطابق کریا کرم چاہتے ہیں۔ کم سے کم ناجر کے ہوتے تو یہ نہیں ہو سکتا تھا۔ ناجر کی قیادت میں شہر کی گندگی بازار میں آنے لگی۔ ناجر جی مہاراج نے سنساری کا آخری کریا کرم کرنے کے لئے اپنے گھر کے ساتھ والامیونسپل کا ڈھائی کنال کا پلاٹ کو بھی مقرر کر لیا تھا۔ کریا کرم کے بعد سنساری کی یادگار بنانے کے بہانے خالی پڑے پلاٹ پر قبضے کا اس سے اچھا موقع ناجر کے لئے اور کیا ہو سکتا تھا؟ ناجر نے شہر کی ممبر اسمبلی میڈم کو بھی یہ واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ خود مداخلت کر کے سنساری کی میت انہیں دلوانے میں مدد فرمائیں، نہیں تو وہ اس کے جسم کو حاصل کرنے کے لئے کسی بھی طرح کے مناسب یا غیر مناسب اقدام کر گزرے گا۔ اس کی ذات کے نوجوان لڑکوں نے کوئی ایسا ویسا کام کر دیا تو اس کے لئے ناجر ذمہ دار نہیں ہو گا۔ ناجر نے میونسپل کے پلاٹ کو سنساری کی یادگار بنانے کے لئے ان کو واضح طریقے سے بتاتے ہوئے کمیٹی کے سربراہ تک بھی اطلاع دی تھی۔
دیوی ماتا کے بھگت سیٹھ برہم آنند کے شہزادے ’’ستی سوروپ’’ اور اس کے شاگردوں کی منڈلی کے پاس سنساری کے دیوی ماتا کے بھگت ہونے کے ثبوت کم نہیں تھے۔ پھر بھلا یہ منڈلی سنساری کے مردہ جسم پر اپنا حق کیوں نہیں جتاتی؟ سنساری جیسے دیوی ماتا کے سچے بھگت کو سڑک کے کنارے اس طرح پڑے رہنا، سچ مچ میں آنند جی کے شہزادے ’’ستی سوروپ’’ کے لئے ہی نہیں بلکہ دیوی ماتا کے سبھی بھگتوں کے لئے بڑی شرم کی بات تھی۔ ستی سوروپ اور اس کی منڈلی کے پاس یہی ایک موقع تھا، جس میں وہ سنساری کے آخری کریا کرم کے لئے چندہ جمع کر سکتے تھے۔ مندر کے پیچھے عورتوں کے پوجا پاٹ کے لئے ایک مخصوص کمرہ بنانے کا کام کتنے عرصے سے ادھورا پڑا تھا، جو اب مکمل ہو سکتا تھا۔ کتنی تکلیف برداشت کرنا پڑ تی تھی ان عورتوں کو پوجا پاٹ کے لئے، یہ سب سنساری کی وجہ سے ہی مکمل ہو سکتا تھا۔
بابا دھرم داس کے ڈیرے میں بھی سنساری کے آخری کریا کرم کی خبر پہنچ چکی تھی۔ بابا دھرم داس نے اپنے آس پاس کے گاؤں میں اپنے مبلغین کے ذریعے یہ خبریں پھیلا دیں کہ ڈیرے سے متعلق ایک عظیم انسان اپنے فانی جسم کو ترک کر کے سورگ جا چکے ہیں۔ گاؤں کے اندر جتنے بھی ڈیرے کے شردھالو تھے یا جتنی بھی عورتوں نے بابا سے دودھ اور بیٹے کی بخشش حاصل کی تھی، ان کی طرف سے سنساری کی یاد میں لنگر بانٹنے کے لئے کافی مقدار میں رسد آنے لگی تھی۔ ڈیرے کے رہنے والے اور چھوٹی سی عمر میں ایشور کے ساتھ منسلک ہونے پر وہ دنیا ترک کر چکے تھے۔ بابا دھرم داس کے شاگردوں کے لئے سنساری کے جنازے کے یہی دس دن اچھے گزرنے والے تھے۔ ڈیرے کے ساتھ جڑے ہوئے دیہاتوں اور قصبے کی عورتوں کے لئے مسلسل دس بارہ دن بابا دھرم داس کے فضل سے ڈیرے میں خدمت کرنے کے لئے آنے کا موقع اور سبب بنا تھا۔ بابا دھرم داس کے شاگرد یہ موقع ہاتھ سے کس طرح جانے دیتے؟ انہیں سنساری کے مردہ جسم پر جھوٹا دعوی تو کرنا نہیں تھا، سنساری کے گردن میں ڈلی ہوئی مالا سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا تھا کہ وہ پکے بھگت نہیں ہیں۔
سنساری کی موت کے چوبیس گھنٹے بعد بھی شہر کے اندر غیر یقینی کا ماحول بنا ہوا تھا۔ مذہب سے متعلق ایسا مسئلہ اب سے پہلے کبھی نہیں اٹھا تھا۔ اس طرح کے مذہبی بحران کا سامنا پہلے کبھی نہیں کرنا پڑا تھا۔ ہر مذہب کے اور مذہبی مقاموں سے وابستہ لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ سنساری کا مقدس جسم ان کو حاصل ہو جائے گا۔ اب محلوں اور مذہبی مقامات پر سنساری کے مردہ جسم کو حاصل کرنے کے لئے خفیہ اجلاس ہونے لگے تھے۔ اب عام شہریوں کے چہرے پر کیا ہو گا، کا سوال نظر آ رہا تھا۔ دکان، مکان، گلی، محلے، جہاں کہیں بھی چار آدمی اکٹھے ہوتے یہی بات چلتی سنساری کا مردہ جسم کسے حاصل ہو گا؟ ہر چودھری کی جانب سے یہی یقین دلایا جا رہا تھا کہ بدن انہیں ہی ملے گا، چاہے اس کے لئے انہیں کتنی ہی بڑی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔ شہر کے اندر کشیدگی کا ماحول بن گیا تھا۔ شہر کے اندر پیدا ہوئی اس کشیدگی کو ذہن میں رکھتے ہوئے پولیس نے بھی اپنی گشت بڑھا دی تھی۔ شہر کے کشیدگی والے نازک علاقوں میں سخت ڈیوٹی دی جانے لگی۔ ہر موڑ اور چوک پر ناکے لگا دیئے گئے، بیرونی افواج کو اس موقع پر فائدہ اٹھانے کی خبریں بھی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارا شہر چھاؤنی میں تبدیل ہو گیا تھا۔
شہر کی اس سنگین صورتِ حال کو بھانپتے ہوئے کچھ امن پسند لوگ بھی آگے آ گئے تھے۔ ان کے ہوتے ہوئے شہر میں شانتی کس طرح تحلیل ہو سکتی تھی؟ لوگوں کے اندر کشیدگی کو کم کرنے کے لئے ان کا آنا ضروری تھا۔ صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لئے الگ الگ محلے سے تمام مذاہب کے ذہین لوگ اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے آگے آئے تھے۔ سیٹھ امن چند باغی اس شانتی یونین گروپ کا لیڈر تھا۔
’’امن چند باغی’’ شہر میں اپنا راستہ بنائے رکھنے کے لئے کافی دیر سے کوشش کر رہا تھا۔ شہر میں اپنا اثر ڈال کر چندہ جمع کرنا اور خیر سگالی کے اجتماع کرانے کا بیڑا اس نے اپنے سر پر اٹھا رکھا تھا۔ اس کام سے متعلق اس نے کمیٹی بھی بنائی ہوئی تھی، جس کے سربراہ، خزانچی، سیکرٹری کے تمام مشکل عہدوں پر وہ خود اکیلا ہی کام کر رہا تھا۔ انسانی حقوق محافظ کمیٹی کا سربراہ گردے و سنگھ بھی شانتی یونین گروپ کا اہم متحرک شخص تھا۔ اپنی بہو کو مرضی کے مطابق خود کشی کرنے کا موقع دینا، تھانے میں رشوت دے کر مجرموں کو چھڑوانا، جیسے انسانی حقوق سے متعلق معاملات میں ہیر پھیر کرنے میں اس کی پورے علاقے میں واہ واہی تھی۔
شانتی پسند شہریوں کی تنظیم میں لالہ کوڑ چند، سردار مخبر سنگھ، سیٹھ غریب داس سمیت کئی اور لوگ بھی تھے، جو اپنے علاقے کی مانی ہوئی شخصیات تھیں۔ شہر کے با اثر آدمیوں کے اس گروپ نے پولیس کے اعلی حکام اور تمام مذاہب کے رہنماؤں اور ممبر بی بی کے ساتھ بھی مختلف میٹنگز کر کے مناسب حل تلاش کرنے کی اپنی پوری طاقت لگا دی تھی۔
آخر ان شانتی اور انصاف پسند شہریوں کے تعاون اور کوششوں سے تمام مذاہب کے محافظ، چودھریوں اور رہنماؤں کی ایک میٹنگ ممبر اسمبلی بی بی جی کے ’’غریب خانے‘‘ پر بلا لی گئی۔ غیر ملکی کپ میں چائے پیتے اور قیمتی غیر ملکی پلیٹوں میں طرح طرح کی مٹھائیاں کھاتے اور قہقہے مارتے ہوئے تمام مذاہب کے نسل پرست لیڈروں نے متفقہ طور پر اس بحران کا حل ڈھونڈ نکالا تھا۔
میٹنگ میں اتفاق رائے کے ساتھ یہ فیصلہ کیا گیا کہ سنساری کا انتم سنسکار مسٹر ناجر جی کے گھر کے قریب خالی پڑے پلاٹ میں سکھ مذہب کے دستور رواج کے مطابق ہی کیا جائے گا۔ چونکہ سنساری تمام مذاہب کا مشترک شخص تھا، اس لئے اس طرح فقیر پرسب کا برابر کا حق بنتا ہے۔ سنساری کی استھیاں (ہڈیاں)آدھی رام جی کے مندر کی کمیٹی کو اور آدھی گرودوارہ منیجر کمیٹی کو دیئے جانے کا فیصلہ ہوا۔ دیوی ماتا کے گھر میں سنساری کی یاد میں جگراتا رکھا جائے گا اور بابا دھرم داس کے ڈیرے میں تمام مذاہب کی جانب سے اجتماعی لنگر لگائے جانے کا اعلان کیا گیا۔ ایک مذہبی ہم آہنگی ریلی نکالنے کا فیصلہ بھی کیا گیا، ان تمام مذہب کے ٹھیکیداروں کی طرف سے۔
تمام مذاہب کے محافظ اس فیصلے پر بہت خوش نظر آ رہے تھے۔ سب کے چہروں پر چمک دکھائی دے رہی تھی اور ممبر اسمبلی بی بی تو خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھی، کیونکہ پہلی بار اس نے سارے شہر پر اپنا غلبہ قائم کیا تھا۔ اس کی تندہی اور کوششوں سے ہی شہر پر آیا اتنا بڑا مذہبی بحران ٹل گیا تھا۔ تمام مذاہب کے رہنما اپنے لوگوں کے درمیان جیت کی ڈینگ ہانکنے پر لگے ہوئے تھے۔ اپنی اپنی جیت کی دلیلیں دینے میں جٹھے ہوئے تھے۔
اور ہاں؟ پولیس کے اہم افسر کو بحران کے دوران شانتی برقرار رکھنے کے بدلے میں اعزاز دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کی رقم جمع کرنے کی ذمہ داری مذہبی ہم آہنگی کمیٹی کے سربراہ سیٹھ امن چند باغی نے اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔ مراری اپنی جیت پر خوشی منا رہا تھا۔ پورا محلہ اس بحران کی گھڑی میں اس کی پیٹھ پر آ کر کھڑا ہو گیا۔
لیکن بے چارہ سنساری؟ جس کو اپنے جیتے جی پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ شہر کا اتنا اہم اور عظیم انسان ہے۔
٭٭٭
تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
حصہ اول
حصہ دوم