FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ا

 

 

 

منتخب سندھی کہانیاں

 

حصہ دوم

 

 

 

انتخاب و ترجمہ: عامر صدیقی

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

حصہ اول

 


ورڈ فائل
ای پب فائل

کنڈل فائل

 

حصہ دوم


ورڈ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

 

اور گنگا بہتی رہی

 

ستیش روہڑا

 

 

رادھا آخر پانی سے باہر نکل آئی اور گھاٹ کی تیسری سیڑھی پر بیٹھ گئی۔ اس کے بالوں اور لباس سے پانی بہتا ہوا نیچے اترتی سیڑھیوں کی قطار میں ملتا جا رہا تھا۔ رادھا نے سامنے دیکھا، سورج کی پہلی کرنیں گنگا کے پانی میں جھلملا رہی تھیں، مگر سورج ابھی پوری طرح ظاہر نہیں ہوا تھا۔

رادھا، سورج کی لالی کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے خیالوں میں کھو گئی۔ وہ صبح کا اجالا ہونے سے کافی پہلے گھاٹ پر پہنچی تھی اور کچھ پل گھاٹ کی آخری سیڑھی پر کھڑے ہونے کے بعد وہ نیچے پانی میں اتر گئی تھی۔ اس کا ارادہ تو پانی میں مزید آگے بڑھنے کا تھا، مگر جب پانی اس کی ناک تک پہنچا تو وہ رک گئی، چاہتے ہوئے بھی آگے نہ بڑھ پائی۔ اس نے وہیں پر ڈبکیاں لینی شروع کیں اور مسلسل لیتی رہی، جیسے وہ آخری ڈبکی کے ساتھ، اندر ہی سما جائے، باہر نہ آئے۔ لیکن جیسے ہی اس کی سانس پھولنے لگی، اس کا سر خود بخود پانی سے باہر نکل آیا۔ چند گھڑیوں کے لیے وہ گردن تک پانی میں کھڑی رہی اور پھر آہستہ آہستہ گھاٹ کی طرف بڑھنے لگی۔ گھاٹ پر پہنچ کر وہ باہر نکل آئی اور گھاٹ کی دو سیڑھیاں چڑھ کر تیسری پر بیٹھ گئی۔ آہستہ آہستہ اندھیرا کم ہوتا جا رہا تھا اور سامنے سورج کی آمد کی تیاریاں صاف نظر آ رہی تھیں۔ رادھا جہاں بیٹھی تھی وہیں بیٹھی رہی۔ سامنے گنگا کی دھارا بہہ رہی تھی اور ساتھ اُس کے بہہ رہی تھی رادھا کی زندگی کی گنگا، جس کا ایک سرا اسے اسکول کے ساتھ جڑا نظر آ رہا تھا۔

رادھا اس وقت دسویں جماعت میں تھی۔ بورڈ کا امتحان نزدیک آ رہا تھا، اس لئے وہ اسکول ٹیچر سے سائنس اور ریاضی کی ٹیوشن لینے اس کے گھر جاتی تھی۔ تھوڑے دنوں کے بعد ٹیچر کا ایک دوست، جو کسی اور اسکول میں پڑھاتا تھا، وہاں آنے لگا۔ وہ سائنس اور ریاضی کے علاوہ دیگر مضامین میں اس کی مدد کرتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے کہا۔

 ’’تمہیں تمام مضامین کے نوٹس بنا کر دیں گے، امتحان میں آنے والے سوالوں کا جواب پہلے ہی لکھوا دیں گے۔ تمہیں اتنے اچھے نمبر ملیں گے کہ تم ’’میرٹ لسٹ‘‘ میں آ سکو گی۔‘‘

بار بار ایسے جملوں سننے کے بعد رادھا کے لئے اور سوچنے کو کچھ نہیں رہا تھا۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ دونوں استادوں نے اپنے کئے ہوئے وعدوں کی قیمت رادھا سے وصول کر لی۔

رادھا نے ٹیوشن پر جانا چھوڑ دیا۔ ماں کے پوچھنے پر کہا، ’’اب امتحان نزدیک آ ہی گئے ہے، میں خود پڑھوں گی۔‘‘

رادھا بورڈ کے امتحان تو دے آئی، پر ایک مہینہ گذرنے کے بعد ماں کو اس بات کے نتیجے کی بھنک پڑ گ ئی۔ رادھا کی ماں اسے پیچھے والے ایک کمرے میں لے گئی اور دروازہ اندر سے بند کر لیا، جسے دیکھ کر رادھا کے دل کی دھڑکنیں سست ہونے لگیں۔ ماں نے اس کو بالوں سے پکڑتے ہوئے ایسازور دار چانٹا مارا کہ رادھا کے اندر کا راز باہر الٹی کی طرح آ گیا۔ ماں نے پھر دو چار چانٹے اور لاتیں اسے یوں ماریں کہ رادھا بس چپ چاپ سہتی رہی اور روتی رہی۔

اپنے کسی رشتہ دار کے یہاں جانے کا کہہ کر، رادھا کی ماں، رادھا کو لے کر بہت دور اپنی ایک سہیلی کے پاس گئی۔ دس پندرہ دن میں رادھا کے جسم پر لگے گناہ کے نشانوں کو مٹوا دیا اور لوٹ آئی۔ اب رادھا گھر کا سارا کام کرتی رہتی ہے، کھاتی ہے، سوتی ہے، بولتی ہے، مگر اس کا روپ رنگ، آنکھوں کی چمک اور چہرے کی رونق غائب ہو چکی ہے۔ گنگا بہتی جا رہی ہے۔

کچھ عرصے کے بعد رادھا کی ماں کا ایک بہت دور کا بھانجا گوپال، اس کے گھر آ کر ٹھہرا۔ گوپال قریب کے ہی شہر میں رہتا ہے۔ اس کا اپنی بیوی کے ساتھ جھگڑا ہوا ہے، جس پر وہ اپنے میکے چلی گئی۔ گوپال اپنے دل کا حال رادھا کی ماں کے ساتھ بانٹتا ہے اور اسے طلاق لینے کی بھی بات بتاتا ہے۔ اس طرح گوپال ہمدردی بٹور کر اکثر ان کے یہاں آ کر رہتا اور طلاق کی بات بار بار دوہراتا۔ جانے کس طرح رادھا کی ماں کو، گوپال کا بیوی کو طلاق دینا، اپنی بیٹی رادھا کی نجات کے ساتھ جڑا ہوا لگتا۔ اس لئے گوپال اور رادھا کے درمیان بھی نزدیکیاں بڑھنے لگیں۔ اس بات کو رادھا کی ماں نظر انداز کرتی رہی۔

 ’’میں اسے طلاق دینے کے بعد تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں، اپنا گھر پریوار ہو گا، میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔‘‘

ایسی باتیں ’’نوٹس اور اچھے نمبروں‘‘ سے زیادہ دلکش تھیں پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ گوپال کا آنا کم ہوتے ہوتے بالکل بند ہو گیا اور رادھا کی ماں چوکنی ہوئی۔ دو چار طمانچے مارے اور رادھا کا اندر خالی ہو گیا، اندر تو کچھ نہیں رہا پر پیٹ۔ رادھا کی ماں نے سوچا شاید گوپال کا ضمیر اب بھی زندہ ہو اور وہ رادھا سے شادی کرنے کے لیے تیار ہو جائے، اس لئے وہ تکلیف اٹھا کر اس کے گھر گئی۔ پہلے تو وہ ہزار بہانے بناتا رہا، پھر بے شرم ہو کر بولا۔

 ’’خالہ تم نے تو دنیا دیکھی ہے۔ جھوٹی تھالی لے کر کون کھانے کی میز پر رکھے گا؟‘‘

رادھا کی ماں بغیر کچھ کہے لوٹ آئی۔ پھر کسی رشتہ دار کے پاس جانے کے بہانے بیٹی کو اسی سہیلی کے پاس لے گئی۔ اس بار رادھا بہت روئی، چیخی چلائی۔ ’’مجھے بچہ چاہئے، میں نے اسے پالوں گی۔‘‘

لیکن سب بیکار، ماں کی مار نے پھر سے رادھا کے جسم کی سلیٹ سے وہ نشانات مٹا دیے اور وہ صاف ستھری ہو کر گھر لوٹی۔

اب رادھا کے اندر سے دنیا کی محبت نکل گئی تھی۔ ماں کے منع کرنے کے باوجود بھی وہ سفید کپڑے پہننے لگی، ہاتھوں میں لوہے کے کڑے اور گلے میں رُدراکش کی مالا ڈال لی۔ اب اس کا زیادہ تر وقت پڑوس کے ایک دربار کی سیوا کرتے گذرتا۔

دربار میں اکثر و بیشتر سادھو سنت آتے رہتے، ست سنگ کرتے رہتے، ان عظیم لوگوں کی تعلیمات سنتے سنتے رادھا بھی ست سنگ کرنا سیکھ گئی۔ اس کی آواز ویسے بھی بہت سریلی تھی، سو اس کے گائے بھجن سب کے دلوں کو چھو لیتے تھے۔ سنتوں کی غیر حاضری میں وہ ست سنگ کرتی اور اس طرح وہ ست سنگیوں کی چہیتی بن گئی، جو اب اسے  ’’سکھی رادھا‘‘ کہہ کر پکارتی تھیں۔

اس دربار کا مرکزی آشرم ہری دوار میں ہے اور بڑے سوامی وہیں رہتے ہیں۔ دیوالی کے موقع پر ہری دوار میں کافی دھوم دھام ہوتی ہے، ہندوستان میں جہاں کہیں بھی ان کی شاخیں ہیں، اس موقع پر سبھی ان سوامی کا درشن کرنے آتے۔ اس بار بھی وہی ہوا، ست سنگیوں نے ہری دوار جانے کا انتظام کیا اور رادھا کے نہ جانے کا سوال ہی نہیں اٹھتا تھا، کیونکہ ایک وہی تو تھی جو سب کا جانے کیلئے حوصلہ بڑھاتی اور بندوبست کرتی رہی۔

ہری دوار میں منتظمین کو بھی یہ پیغام ملا۔ آخر مقر رہ دن پر تمام ست سنگ ہری دوار کے آشرم پہنچے۔ اسٹیشن سے آشرم تک لانے اور وہاں رہائش، طعام کا انتظام بہت اچھا کیا گیا تھا۔ آشرم میں تعلیم، دھیان، مشق، سوامی جی کا پروچن، سبھی عقیدت سے سنتے اور مگن رہتے۔

پانچ دن گزر گئے تھے اس پروگرام کو اور آج سکھی رادھا نے دود ل سوز بھجن گائے، جو کرشن کے فراق میں رادھا کی روح کی بے چینی اور تڑپ کو بیان کر رہے تھے۔ لگا کہ بھجن میں رادھا کرشن کی بے قراری جیسے سکھی رادھا کے روح کی بے چینی تھی۔ ست سنگ پورا ہونے کے بعد دربار کے ایک سیوک نے رادھا کو یہ پیغام دیا کہ آپ کو رات کے کھانے کے بعد سوامی مہاراج کے درشن کے لئے جانا ہے، یہ سوامی جی کی خواہش ہے۔

پیغام سن کر سکھی رادھا کے دل میں ہلچل مچ گئی، طرح طرح کے سوالات دل میں اٹھنے لگے۔ سوامی مہاراج نے اسے کیوں بلایا ہے؟ یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی۔ بھوجن کے دوران بھی اس کے دل میں کافی ہلچل تھی۔ وہ اپنے کمرے میں گئی۔ رادھا کے بال، گھنگھریالے اور بہت خوبصورت بھی ہیں۔ ان کی خوبصورتی چھپانے کے لیے وہ سر پر ایک ریشمی اسکارف باندھ لیا کرتی تھی۔ پتہ نہیں کہ اسکارف کی وجہ اس کے بالوں کی خوبصورتی کم ہوتی ہے یا اس کے چہرے کی کشش مزید بڑھ جاتی ہے۔ آج صبح سے بھجن گاتے وقت تک بھی وہ اسکارف سر پر باندھے ہوئے تھی۔ کمرے میں آتے ہی اس نے اسے کھولا اور برش سے گھنگھریالے بال جھاڑتی رہی اور سنوارتی رہی۔ ایسا اس نے کیوں کیا، اس کا پتہ خود اسے بھی نہیں ہے۔

اس وقت تک تمام ست سنگ بھوجن کر چکے تھے۔ دربار کے بیچ والا میدان خالی تھا۔ دربار کے بالکل پیچھے سوامی مہاراج کا گھر ہے۔ جسے سب ’’سوامی مندر‘‘ کہتے ہیں۔ وہیں سوامی جی اکیلے رہتے ہیں۔ دربار کے اطراف سے ہو کر سوامی مندر میں جایا جا سکتا ہے۔ ویسے دربار میں سے بھی سوامی مندر کے لئے راستہ ہے، پر وہ صرف سوامی جی استعمال کرتے ہیں اور وہ بھی کبھی کبھار ہی۔ رادھا کواس راستے کا علم تھا، اس لئے اسے وہاں پہنچنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ مندر کا دروازہ کھلا پڑا تھا، رادھا اندر پہنچی جہاں سوامی مہاراج تخت پر آلتی پالتی مار کر، آنکھیں بند کئے ہوئے براجمان تھے۔ اس کے باوجود رادھا کے اندر پہنچتے ہی انہوں نے کہا۔

 ’’آؤ دیوی، بیٹھو۔‘‘

رادھا نے سوامی مہاراج جی کے سامنے زمین پر بیٹھنے کا ارادہ کیا تو سوامی مہاراج بولے۔ ’’نہیں دیوی، زمین پر نہیں، کرسی پر بیٹھو۔‘‘

اور رادھا تخت کے سامنے پڑی گدیلی کرسی پر بیٹھ گئی۔ رادھا کی گردن جھکی ہوئی تھی، لیکن اس کے باوجود اس نے یہ دیکھا کہ سوامی جی مہاراج کے ہاتھ میں رُدراکش کی مالا تھی جو وہ آہستہ آہستہ پھرا رہے تھے۔ ویسے تو ان کی آنکھیں بند تھیں، مگر لگتا تھا جیسے وہ بند آنکھوں سے سب دیکھ رہے تھے۔ کچھ وقت کے بعد ’’اوم شانتی‘‘ کہہ کر انہوں نے آنکھیں کھولیں اور ہاتھ میں تھامی مالا کو پاس میں رکھی ایک چھوٹی سی رنگین ریشمی تھیلی میں ڈالا۔ کچھ لمحے وہ رادھا کو دیکھتے رہے اور پھر آواز دی۔

 ’’دیوی!‘‘

رادھا نے سر اٹھا کر سوامی کی طرف دیکھا، سوامی بھی مسلسل رادھا کی جانب دیکھتے رہے، پھر بولے۔

 ’’دیوی، تمہاری پیشانی میں کائناتی روشنی سمائی ہوئی ہے۔ تمہاری آتما، پرماتما سے مل کر ایک ہونے کو بے چین ہے، پر اس کے بیچ میں رکاوٹ ہے تمہارا دل۔‘‘ رادھا نے سوالیہ نظروں سے مہاراج کی طرف دیکھا، جس کو محسوس کرتے ہوئے سوامی مہاراج نے کہا۔ ’’دیوی، تمہارا دل ابھی چنچل ہے، جب تک یہ چنچل رہے گا، اس وقت تک آتما، پرماتما کا ملن نہ ہو پائے گا۔‘‘

رادھا سر جھکائے سنتی رہی، پھر دھیمے لہجے میں بولی۔ ’’مہاراج دل کا چنچل پنا کیسے دور ہو گا؟‘‘

سوامی نے مسکرا کہا۔ ’’دیوی، دل کے چنچل پنے کی وجہ خواہشات ہوتی ہیں، جو خواہشات پوری نہیں ہوتیں، وہ غیر مطمئن دل میں گھر کر لیتی ہیں۔ اسی وجہ سے دل چنچل ہوتا ہے۔ اس لئے سب سے پہلے ضروری ہے کبھی نہ بجھنے والی خواہشات کو ختم کرو۔‘‘

پھر پتہ نہیں پڑا کس کی کبھی نہ بجھنے والی خواہش ختم ہوئی، سوامی جی کی یا رادھا کی۔۔۔

صبح کی تاریکی میں رادھا دربار سے باہر نکل کر گھاٹ کی طرف چلنے لگی۔ ذہن میں سوچتی رہی کہ آج گنگا میا میں آخری ڈبکی لگا کر ہمیشہ کے لئے خود کو قربان کر دے گی۔ گھاٹ پر پہنچ کر رادھا نے پانی میں اترنا شروع کیا، یہ سوچتے ہوئے کہ وہ اس وقت تک پانی میں اترتی جائے گی، جب تک اس کا ساراوجود پانی میں غرق نہیں ہو جاتا۔ لیکن جب پانی اس کی ناک تک پہنچا تو خود بخود اس کے قدم رک گئے۔ اب اس نے سوچا کہ وہ آخری ڈبکی لگا کر پانی میں ہی بیٹھ جائے، پر ایسا بھی نہیں ہو سکا۔ جیسے ہی پانی اس کے منہ اور ناک میں بھرنے لگا، اس کی سانس اکھڑنے لگی اور اس کا سر پانی سے باہر نکل آیا۔ شاید گنگا میا اسے اس طرح قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔ وہ مڑی اور گھاٹ کی طرف چلنے لگی۔ وہاں پہنچ کر وہ باہر نکل آئی، اور گھاٹ کی سیڑھی پر بیٹھ گئی۔ رادھا کے لباس اور بالوں سے پانی بہتا اور سیڑھیاں اترتا گنگا کی ندی میں ملتا رہا۔

اب کافی روشن صبح ہو گئی تھی، گھاٹ پر چائے کی دکان کھل گئی ہے اور ہوٹل میں بجنے والے گیت کی آواز رادھا کے کانوں تک پہنچی۔

رام تیری گنگا میلی ہو گئی، پاپیوں کے پاپ دھوتے دھوتے۔۔۔۔ ۔

اور رادھا سوچنے لگی۔ ’’میری جیون گنگا؟ وہ تو بس بہتی رہتی ہے، وہ کس کے گناہوں کو دھوتی آ رہی ہے، کسی اور کے یا اسی کے؟‘‘

اور سامنے گنگا چپ چاپ بہتی رہی۔

***

 

 

 

 

Bucket List

 

بنسی خوب چندانی

 

 

ہاں سینتیس سال کس طرح پورے ہو گئے، پتہ ہی نہ چلا۔ پتہ کیوں نہیں چلا؟ کبھی کبھی تو آفس میں اتنا شدید ذہنی دباؤ ہوتا تھا کہ ایک دن بھی ایک سال کی مانند لگتا تھا۔ کئی بار تو بھاگ جانے کو جی کرتا تھا۔ پر بھاگیں گے کہاں؟ بیوی، ماں اور دو بچوں کو کون پالے گا؟

 ’’جینا یہاں، مرنا یہاں، تیرے سوا جانا کہاں۔‘‘

راج کپور کی فلم جوکر کے ہیرو کی طرح ہی سینتیس سال گزارے ہیں۔ اب پہلی جولائی کو ریٹائر منٹ لوں گا تو یہ جوکر کا لباس، جوکر کی زبان اور جوکر کا مسکراتا چہرہ اتار کر پھینک دوں گا اور انسان بن کر خود کو مسرور کروں گا۔

ریٹائر ہونے کے بعد پنشن بھی ملے گی اور تیس لاکھ کے قریب ٹرمنل بینیفٹ بھی ملیں گے۔ ’’پھر صبح ہو گی‘‘ ضرور ہو گی۔

آج لنچ روم کے برابر والے سیکشن کے انچارج کشور بھائی مہتا بہت خوش لگ رہے تھے۔ پوچھنے پر بتایا۔

 ’’دیال بھائی، کل میں نے ایک دم مست فلم دیکھی ہے۔ فلم کا نام ہے بَکِٹ لسٹ۔ تم بھی یہ فلم ضرور دیکھنا، تمہارے کام کی ہے یہ فلم۔‘‘

میں نے ان سے پوچھا،  ’’یہ کیسا نام ہے۔‘‘

اس نے قہقہہ مارتے ہوئے کہا، ’’دیال بھائی، تمہیں بَکِٹ کے بارے میں معلوم نہیں؟ بَکِٹ کا مطلب ہے وہ کوفن باکس جس میں مردوں کو دفنانے کے لئے لے جاتے ہیں۔ تمہیں اور مجھے بھی ضرور لے جائیں گے۔‘‘

 ’’پر کشور بھائی، تم اور میں تو ہندو ہیں۔ پھر ہمیں بَکِٹ میں کیسے لے جائیں گے؟ ہمیں تو پھولوں سے ار تھی پر سجا کر ’’رام نام سنگ ہے، گرو بابا سنگ ہے، ستنام سنگ ہے‘‘ کہتے ہوئے شمشان کی طرف لے جائیں گے نا۔‘‘

یہ سنتے ہی کشور بھائی لنچ ٹیبل پر مرنے کا ڈرامہ کرتے ہوئے لڑھک گئے۔ دو لمحے کے بعد وہ قہقہہ مارتے ہوئے کہنے لگے، ’’دیال بھائی، مرنے کے بعد ہمیں قبرستان کی طرف لے جائیں یا شمشان کی طرف، کیا فرق پڑتا ہے؟ مردہ آدمی کے لیے ار تھی بھی ایک سی اور بَکِٹ بھی ایک سا۔‘‘

کشور بھائی اسی طرح قہقہوں کے قمقمے جلا کر سچ کو منور کرتے ہیں۔

میں نے ان سے کہا، ’’یار یہ بات تو سچ ہے پر اتنا تو بتاؤ کہ یہ آخر  ’’بَکِٹ لسٹ‘‘ ہے کیا؟‘‘

کشور بھائی مجھے رکنے کیلئے کہہ کر منہ ہاتھ دھونے چلے گئے۔ واپس لوٹے تو ان کے ڈویژن کا ایک کلرک انہیں یہ کہتے ہوئے لے گیا ہے کہ بڑے صاحب انہیں یاد کر رہے ہیں اور میرا تجسس دھرے کا دھرا رہ گیا۔ پھر سوچا، یہ کون سی بڑی بات ہے رات کو وڈیو کی دکان سے فلم کی ڈی وی ڈی منگوا کر فلم دیکھوں گا اور گرہ سلجھاؤں گا۔

کھانا کھا کر  ’’بَکِٹ لسٹ‘‘ دیکھ رہا ہوں۔ یہ دو انجان آدمیوں کی کہانی ہے جو ایک دوسرے سے بالکل برعکس ہیں۔ ایک بہت دولتمند گورا ہے، تو دوسرا غریب کالا میکینک۔ گورے نے چار شادیاں کیں اور سبھی کو طلاقیں بھی دے دیں اور اب بڑھاپے میں بھی عیش کر رہا ہے۔ بیٹی ہے، مگر اس کے ساتھ رشتہ ناطہ نہیں، کیونکہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ کالا میکینک بھی عمر رسیدہ ہے، پر اپنی بیوی بچوں اور ان کے بچوں کے ساتھ خوش ہے۔

ان دونوں میں ایک بات مشترک ہے، جس کے وجہ سے وہ ایک دوسرے سے ملے ہیں۔ دونوں کو کینسر کی بیماری ہے اور وہ دونوں ایک کینسر ہسپتال میں اک دوسرے کے پاس والے بیڈ پر رہتے ہوئے اپنا علاج کرا رہے ہیں۔ گورے دولت مند کا کردار نبھایا ہے۔ بے مثل اداکار جیک نکلسن نے اور غریب مکینک کا کردار ادا کیا ہے مشہور اداکار مورگن فری میں نے۔

ابتدائی جھگڑوں کے بعد دونوں مریض دوست بن جاتے ہیں۔ ایک دن مورگن ایک صفحے پر کچھ لکھ رہا ہے، جس کے سب سے اوپری حصے پر  ’’بَکِٹ لسٹ‘‘ لکھا ہوا ہے۔ اس لسٹ میں مختلف خواہشات ترتیب وار لکھی ہوئی ہیں، جیسے کہ کسی انجان آدمی کی مدد کرنا، اتنے قہقہے لگانا کہ پیٹ میں درد ہونے لگے، دنیا کے ساتوں عجائبات دیکھنا وغیرہ۔۔۔ مورگن اپنے امیر دوست کو بتاتا ہے کہ یہ لسٹ بنا کر بس وہ اپنا ٹائم پاس کر رہا ہے۔ اس لسٹ میں وہ باتیں ہیں، جو وہ مرنے سے پہلے کرنا چاہتا ہے، یعنی بَکِٹ میں بند ہونے سے پہلے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اسے پتہ ہے وہ غریب ہے اور وہ یہ خواہشات پوری ہوں، ایسا ممکن نہیں۔

جیک اپنے دوست سے وہ  ’’بَکِٹ لسٹ‘‘ لے کر اپنی خواہشات بھی اس میں شامل کر دیتا ہے اور مورگن سے کہتا ہے، ہم دونوں کو جلد ہی مرنا ہے، پھر کیوں نہ ہم اپنی خواہشات پوری کر کے مریں۔ تمہارے پاس پیسہ نہیں ہے، پر میرے پاس تو بہت پیسہ ہے، میں اکیلا ہوں۔ میرا ساتھ دو، تو ہم مل کر اس  ’’بَکِٹ لسٹ‘‘میں لکھی خواہشات کو پورا کریں۔‘‘

پہلے تو مورگن اس بات کے لیے راضی نہیں ہوا۔ وہ کسی کا احسان نہیں لینا چاہتا تھا، تاہم بہت زور دینے کے بعد پھر مان جاتا ہے۔ دونوں ایک پرائیویٹ ’’جیٹ‘‘ میں اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ وہ غل غپاڑہ کرتے ہیں، کار ریسنگ بھی کرتے ہیں۔ تاج محل بھی دیکھتے ہیں، تو چین کی گریٹ وال بھی دیکھتے ہیں، مصر کے پرامڈز پر چڑھتے ہیں، تو برفیلی پہاڑی پر بھی۔ افریقہ کی سیر بھی کرتے ہیں، جیک اپنے بازو پر ٹیٹو بھی گدوا کر اپنی خواہش پوری کر لیتا ہے۔ جب جیک کو پتہ چلتا ہے کہ مورگن زندگی بھر اپنی بیوی سے وفادار رہا ہے تو وہ اس کو خوش کرنے کے لیے ایک ’’کال گرل‘‘ بھیج دیتا ہے۔ مورگن بھی پہلے تو بہکنے لگتا ہے، مگر پھر محبت کرنے والی بیوی کی یاد آتے ہی سنبھل جاتا ہے۔

مورگن کی بیوی جیک سے بہت ناراض ہے۔ وہ اسے فون کر کے کہتی ہے کہ مجھے میرے شوہر لوٹا دو۔ وہ کینسر میں مر جائے اس پر تو وہ کچھ نہیں کر سکتی، پر یوں جیتے جی ہی مجھ سے جدا ہو جائے، یہ بات اسے قطعی نا منظور ہے۔

اس طرح دونوں اپنی اپنی  ’’بَکِٹ لسٹ‘‘ کو نامکمل ہی چھوڑ کر واپس لوٹ آتے ہیں۔ کچھ وقت بعد مورگن گزر جاتا ہے۔ پر مرنے سے پہلے وہ جیک کوا سکی بچھڑی ہوئی بیٹی سے ملا جاتا ہے۔ وہ مرنے سے پہلے ایک اور بات بھی کہہ جاتا ہے۔ ’’ہر ایک تنہا مرنے سے ڈرتا ہے۔ مگر موت سے کس کو رستگاری ہے، مرنا تو سب کو ہے۔‘‘ جیک بھیا کیاسی سال کی عمر میں مرا، مگر تب وہ اکیلا نہیں تھا۔

فلم ختم ہونے کے بعد میں ہال میں آ کر بیٹھتا ہوں۔ کوشلیا اپنے وعظ سنانے لگتی ہے۔ میں سوچ میں ہوں، میرے ذہن میں بھی تو بہت ساری خواہشات ہیں، کیوں نہ میں بھی اپنی ایک  ’’بَکِٹ لسٹ‘‘ بناؤں۔ میں اپنی ڈائری ڈھونڈ کر لے آتا ہوں اور آخری صفحے پر لسٹ بنانے لگتا ہوں۔

۱۔ پہلے تو سفید رنگ کی ایک کار لوں گا، پھر اپنی اور کوشلیا کی دلی تمنا پوری کروں گا۔ جی ہاں، ڈرائیونگ بھی سیکھوں گا۔

۲۔ اجے، بنگلور سے تعلیم مکمل کر کے آئے گا، تو اسے ایک اچھی موٹر بائیک لے کر دوں گا۔

۳۔ کوشلیا کے ساتھ ہردوار، رشی کیش اور چاروں دھاموں کی یاترا کروں گا۔

۴۔ پیاری بٹیا سونی کو ایک ہیرے کی انگوٹھی لے کر دوں گا اور نواسی کو ایک بہترین سائیکل۔

۵۔ انڈمان اور نکوبار کے جزائر کی سیر کو جاؤں گا۔

۶۔ مرنے سے پہلے ہانگ کانگ اور سنگاپور بھی دیکھنا ہے۔

۷۔ اس دن کشور بھائی نے کہا تھا، سدا سکھی رہو، اس لئے ان کے لئے چار بہترین سوٹ ضرور لے لوں گا۔

۸۔ بچپن سے دیکھنے کی تمنا ہے، پھر تو امریکہ کا ایک چکر بھی لگانا ہو گا۔

۹۔ اپنے ہندوستان کے بھی کئی مقامات دیکھنے ہیں جیسے۔ جیسلمیر، جودھپور، بیکانیر، کشمیر، اُوٹی، دارجلنگ وغیرہ۔

۱۰۔ نیپال دیکھا ہے پر نیپال کی ’’پوکھرا جھیل‘‘ نہیں دیکھ پایا ہوں۔ وہ جھیل اور اس کے ارد گرد کی برفیلی پہاڑیاں تو ضرور دیکھوں گا۔

ابھی تو اور بھی بہت ساری خواہشات اس لسٹ میں جوڑنی ہیں۔ اسی لیے میں ڈائری کے صفحات پلٹتا ہوں، تو اس پر پہلے سے ہی لکھا ہوا ایک فارمولہ دیکھتا ہوں:

یہ تو میری ہی لکھائی ہے۔ اب یاد آیا۔ کچھ ماہ پہلے کوشلیا کے کہنے پر مذہبی چینل پر ایک سادھو عورت کی گفتگو سن رہا تھا، تو یہی بات وہ اپنے پاس رکھے بورڈ پر لکھ کر سمجھا رہی تھی۔ اس نے سمجھاتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری تمام خواہشات پوری ہوں تو ہماری خوشی مکمل ہے۔ پر یہ بات ممکن نہیں۔ اس نے پھر بورڈ پر ایک مثال لکھتے ہوئے وضاحت کی تھی۔

اس طرح اگر ہم اپنی خواہشات بڑھائیں گے اور وہ پوری نہ ہوں گی، تو ہماری خوشی کی مقدار گھٹتی رہے گی۔ مجھے اس وقت یہ فارمولہ بہت اچھا لگا تھا اور میں آج کی طرح ہال میں آ کر اپنی ڈائری کے پچھلے صفحے پر لکھ دیتا ہوں۔

مجھے اپنی  ’’بَکِٹ لسٹ‘‘ میں اور بہت خواہشات شامل کرنی ہیں، پر میرا ہاتھ تھم سا گیا ہے۔ میری آنکھیں خوشی کے فارمولا پر ہی ٹکی ہوئی ہیں۔

***

 

 

 

 

ہونٹوں پر اڑتی تتلی

 

شوکت حسین شورو

 

 

عباس علی اتنے دن سے بستر پر لیٹے لیٹے بیزار ہو گیا تھا۔ اب نیند محسوس نہ ہونے پر بھی وہ آنکھیں موندے پڑا رہتا تھا۔ آنکھیں کھولتے ہی وہی ایک سا منظر دیکھ کر اسے ڈر لگنے لگتا اور چاہتا تھا کہ وہاں سے اٹھ کر بھاگے اور باہر نکل جائے۔ مگر باہر بھاگ نکلنے کی طاقت اب اس میں کہاں تھی۔ وہ جیسے اس کمرے کا قیدی بن کر رہ گیا تھا۔ اس میں اس کی مرضی کا کوئی دخل نہیں تھا۔ بیماری کی وجہ سے وہ باہر نکلنے اور گھومنے پھرنے جیسا نہیں رہا تھا۔ ہسپتال میں رہنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں تھا۔ ڈاکٹر اسے جواب دے چکے تھے۔

 ’’کیا کھاؤ گے؟ کیا دلیہ بنا دوں؟‘‘

بانو کی آواز پر اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کب اندر آئی۔

 ’’نہیں، مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا۔‘‘ اس نے دھیمے لہجے میں کہا۔

 ’’نہیں کھاؤ گے تو اور کمزور ہو جاؤ گے۔‘‘ بانو نے فکر مند لہجے میں کہا۔

 ’’اب کھانے اور نہ کھانے سے کون سا فرق پڑے گا۔‘‘ عباس کے خشک ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ ’’بانو بات سنو، کمزوری نہ کھانے کی وجہ سے نہیں ہے اور نہ ہی کچھ کھانے سے ختم ہو جائے گی۔‘‘

 ’’تب بھی، پیٹ میں کچھ تو ہو، میں دلیا بنا لیتی ہوں۔ دو چار چمچے کھا لینا۔‘‘ بانو نے زور دیتے ہوئے کہا۔

 ’’تمہاری مرضی، ویسے میرے دانے پانی کے دن اب پورے ہو چکے ہیں۔ سانس کی ڈور میں کھنچاؤ بڑھ رہا ہے۔ کسی بھی وقت یہ ٹوٹ جائے گی۔‘‘

بانو کے دل کو دھچکا لگا۔

 ’’اللہ، یوں تو نہ کہو۔ میرا تو دم نکلا جا رہا ہے۔ پھر ہمارا کیا ہو گا؟‘‘ بانو کا من بھر آیا۔ وہ عباس علی کے سامنے رو کر اسے مزید مایوس نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اٹھ کر تیز قدموں سے وہ کمرے کے باہر نکل گئی۔

پہلے جب کبھی بھی بانو کہتی تھی، ’’پھر ہمارا کیا ہو گا؟‘‘ تو جواب میں وہ کہتا،  ’’اللہ مالک ہے، پگلی۔‘‘

لیکن پھر اس نے جواب دینا بند کر دیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے الفاظ بانو کو ڈھارس دینے میں ناکام ہو چکے تھے۔ عباس علی سے اب زیادہ بات چیت بھی نہیں ہو پاتی تھی۔ حالانکہ اسے اس بات کا احساس تھا کہ بانو کی پریشانی یوں ہی نہیں تھی۔ وہ گھر میں اکیلا ہی کمانے والا تھا۔ اس کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ابھی چھوٹے ہی تھے۔ اس کی کوئی خاص ملکیت بھی نہ تھی۔

عباس علی کے والد، نیاز علی، پرائیویٹ اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ چار بیٹیوں کے بعد عباس علی ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ نیاز علی کی خواہش تو یہی رہی کہ اس کا بیٹا ڈاکٹر یا انجینئر بنے۔ عباس علی نے ابھی ہی انٹر پاس کیا تھا کہ نیاز علی ریٹائرڈ ہو گئے۔ عباس علی کو انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ نہ مل پایا۔ ویسے بھی اب اسے آگے پڑھانے کی ہمت نیاز علی میں نہ رہی تھی۔ عباس علی نے نوکری کی تلاش کے دوران پرائیویٹ بی اے بھی پاس کر لیا تھا۔ نیاز علی کا ایک پرانا شاگرد اب چیف انجینئر بن گیا تھا۔ نیاز علی نے اس سے درخواست کی، منتیں کیں۔ آخر عباس علی کو انجینئرنگ کے سیکشن میں کلرک کی نوکری مل ہی گئی۔ اسے ڈسپیچ کلرک کی میز پر بٹھایا گیا۔ سرکاری حساب کتاب والے کھاتوں کے رجسٹر میں اندراج کر کے، نمبر لگا کر، ڈاک میں بھیجنے کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی کام نہ تھا۔ اس دوران اس نے ایم اے بھی کر لیا۔ پھر پتہ نہیں آفس انسپکٹر قائم دین کو کیا سوجھی، اس نے صاحب کو کہہ کر عباس علی کو ٹھیکیدار کے بل پاس کرانے والی میز دلوا دی۔ اب تنخواہ کے علاوہ اس کی اوپر کی کمائی بھی شروع ہو گئی۔

عباس علی آنکھیں موندے موندے کافی تھک گیا تھا۔ ان میں کچھ درد کا احساس ہوا۔ آنکھیں کھول کر کمرے میں دیکھا، جس کی ہر اک چیز درہم برہم حالت میں بکھری پڑی تھی۔ ایک کونے میں اس کے اور بچوں کے کپڑے پڑے تھے، تو کہیں بچوں کے اسکول بیگ اور ان کے میلے جوتے پڑے تھے۔ کوئی چیز طریقے سے رکھی ہوئی نہ تھی۔

 ’’اگر فائزہ سے شادی ہوئی ہوتی تو اس گھر کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔۔۔‘‘ اچانک عباس علی کو خیال آیا۔ اتنے سالوں کے بعد اسے فائزہ کی یاد آئی تھی۔ وہ عباس علی کے انسپکٹر قائم دین کی بیٹی تھی۔ فائزہ کسی انگلش میڈیم اسکول میں پڑھی تھی۔ بعد میں اس نے یونیورسٹی سے ایم ایس سی پاس کی تھی۔ ابھی حال ہی میں اس کو لڑکیوں کالج میں لیکچر رشپ ملی تھی۔ وہ ابھی یونیورسٹی میں ہی پڑھ رہی تھی کہ قائم دین نے اس کے لئے رشتے تلاش کرنے شروع کر دیے، پر کہیں بات نہیں بنی۔ ایک دن آفس میں بیٹھے بیٹھے اسے عباس علی کا خیال آیا۔ لڑکا اچھا اور مہذب تھا۔ عباس علی کو پہلے تو حیرت ہوئی کہ قائم دین اچانک اس پر کیوں اتنا مہربان ہوا کہ اسے کمائی والی میز دلوا دی۔ اپنے گھر سے آئے ٹفن سے زبردستی اس کو اپنے ساتھ کھانا کھلاتا تھا۔ پھر وہ اسے اپنے گھر بھی لے گیا اور گھر کے تمام لوگوں سے ملاقات کروائی۔

 ’’اس پہلی ملاقات میں قائم دین کی گھر والی نے اور فائزہ نے جیسے میرا انٹرویو لیا ہو۔ پر وہ انٹرویو نہ ہو کر بھی ایک ٹیڑھی میڑھی پوچھ گچھ رہی۔ میرے ماں باپ، گھر کے دیگر افراد کی بابت، خاندانی دولت اور جائیداد کے بارے میں، جو تھی ہی نہیں۔‘‘

عباس علی کو یاد آیا کہ ان کے سوالات ابھی پورے بھی نہیں ہوئے تھے کہ اچانک فائزہ نے پوچھا تھا، ’’آپ یونیورسٹی میں کب پڑھے تھے؟‘‘

 ’’میں یونیورسٹی میں پڑھنے نہیں گیا۔‘‘ عباس علی نے جواب دیا،  ’’میں نے انٹر کے بعد تمام امتحانات پرائیوٹ دیے ہیں۔‘‘

فائزہ نے اپنی ماں کی طرف دیکھا۔ دونوں کچھ دیر خاموش رہیں۔ عباس علی اب بے دل ہو رہا تھا کہ اس سے یہ سب سوال کیوں پوچھے جا رہے ہیں۔ اس نے اجازت لے کر اٹھنے کی کوشش کی تو قائم دین اور اس کی بیوی بیٹھنے پر اصرار کرنے لگے۔

 ’’نہیں، ایسے کیسے ہو گا؟ پہلی بار ہمارے گھر آئے ہو، کھانا کھائے بغیر کس طرح چلے جاؤ گے؟‘‘

عباس علی کو مجبوراً بیٹھنا پڑا تھا۔ وہ قائم دین کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ فائزہ اٹھ کر باورچی خانے میں چلی گئی اور قائم دین بھی باہر سے کچھ لانے کے لئے چلا گیا۔ اس کی بیوی عباس علی کے پاس بیٹھی رہی۔

 ’’دیکھو بیٹا، دل میں نہ لینا کہ ہم نے تم سے چند ذاتی سوال پوچھے۔ حقیقت میں قائم صاحب تمہیں بہت پسند کرتے ہیں۔ وہ فائزہ کا رشتہ تم سے کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں بھی تم اچھے لگے ہو۔‘‘

عباس علی کا سر چکرا گیا اور اس کی کنپٹیاں سرخ ہو گئیں۔

 ’’اپنی زندگی کے مستقبل کا فیصلہ تمہیں کرنا ہے۔ تم اگرچہ اپنے والد سے صلاح مشورہ کر لو، پر ایک بات ذہن میں رکھنا۔ ایسا رشتہ قسمت والوں کو ملتا ہے۔ فائزہ نا صرف پڑھی لکھی ہے، بلکہ اچھے عہدے پر بھی ہے۔ وہ سگھڑ ہے، گھر کا ہر کام کاج جانتی ہے کہ گھر کو کیسے بنایا جائے، کیسے سجایا جائے۔‘‘

عباس علی نے ایک طویل سانس لی اور بستر پر کروٹ بدلی۔ میں انہیں کیا بتاتا کہ میری قسمت پہلے ہی لکھی  جا چکی ہے۔ میری خالہ زاد بانو کے ساتھ میری منگنی ہو چکی ہے۔ یہ بات مجھے اس وقت ہی آپ کو بتا دینی چاہیے تھی، پر مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کروں۔

عباس علی کو یاد آیا کہ جب کھانا لگا دیا گیا تھا، تب اس کے حلق سے ایک نوالہ بھی نہیں اتر رہا تھا۔ کھانا بھی ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔ جیسے تیسے تھوڑا بہت کھا لیا۔ اوروں نے سمجھا کہ وہ کھانے میں تکلف کر رہا ہے۔

 ’’بیٹا، اسے اپنا گھر ہی سمجھو، فائزہ نے سارا کھانا اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔‘‘ قائم دین کی بیوی نے کہا۔

عباس علی نے مسکرا کر فائزہ کی طرف دیکھا اور داد دیتے ہوئے کہا، ’’واقعی بہت مزیدار بنا ہے۔‘‘

سب نے کھانا کھایا، پھر کچھ دیر بعد عباس نے ان سے جانے کی اجازت طلب کی۔ باہر آ کر اس نے سرد ہوا میں ایک طویل سانس لی۔ جیسے قید خانے سے باہر نکلا ہو۔ اس نے پہلی بار فائزہ پر دھیان دیا۔ رنگت میں سانولی، قد بھی ٹھیک ٹھاک، پر اس کی شکل صورت اور جسم میں ایک خاص دلکشی تھی۔ پھر بانو کا کیا ہو گا؟ بابا اور اماں کبھی نہیں مانیں گے۔ پورے راستے چلتے ہوئے یہی خیال اس کے ذہن میں آتے رہے۔ اپنے کمرے میں آ کر اسے یاد آیا کہ وہ اپنا موبائل فون قائم دین کے گھر ہی بھول آیا تھا۔ رات کے دس بج رہے تھے۔ اس وقت دوبارہ ان کے پاس جانا اس کو ٹھیک نہیں لگا، وہ بھی فون کی خاطر۔

دوسرے دن صبح قائم دین آفس میں اس کا فون لے آیا۔ اسی دن شام کے وقت اس کے فون پر کسی نامعلوم نمبر سے ایس ایم ایس آنے شروع ہو گئے۔ ابتدا شعر بھیجنے سے ہوئی۔ کچھ دنوں بعد ایس ایما یس آیا۔

 ’’شاید آپ کو شاعری میں دلچسپی نہیں۔‘‘

عباس علی نے جواب لکھا، ’’آپ نے کیوں کر جانا کہ مجھے شاعری سے دلچسپی نہیں؟‘‘

جواب آیا، ’’آپ کی جانب سے کوئی بھی جواب نہیں ملا، اس لئے۔‘‘

عباس علی نے لکھا، ’’مجھے پتہ نہیں ہے کہ آپ کون ہیں، اس لئے۔‘‘

جواب آیا، ’’آپ اپنے دل سے پوچھتے تو پتہ چل جاتا۔‘‘

عباس علی سوچ میں پڑ گیا۔ تبھی اس کے ذہن میں جیسے بجلی کوند سی گئی،  ’’یہ فائزہ ہو سکتی ہے۔‘‘

اس نے ایس ایم ایس لکھا، ’’دل نے تو مجھے بتایا ہے، مگر پھر بھی تصدیق کر لینا ضروری ہے۔‘‘

جواب آیا، ’’مطلب آپ اپنے دل کی بات کو اتنی اہمیت نہیں دیتے اور نہ ہی اس کے کہنے کے مطابق کرتے ہیں۔ لگتا ہے، آپ کے پاس بہت ساری لڑکیوں کے ایس ایم ایس آتے ہیں۔ تبھی تو پہچان نہیں پائے کہ میں کون ہوں؟‘‘

عباس علی پریشان ہو گیا کہ اس بات کا کیا جواب دے۔ اپنی باتوں کے جال میں وہ خود پھنس گیا تھا۔ تبھی ایک اور میسیج آیا،  ’’کیا سوچ رہے ہیں؟ جواب دینے میں پریشانی ہے کیا؟‘‘

عباس علی نے لکھا، ’’میرے پاس اس سے پہلے کبھی کسی لڑکی کا ایس ایم ایس نہیں آیا ہے۔ دوسری بات کہ میرا دل پتھر کا بنا ہوا نہیں ہے۔ دوسروں کی طرح ہی دھڑکتا دل ہے۔‘‘

جواب آیا، ’’اچھا مان لیا۔ دھڑکتا دل کیا کہتا ہے کہ میں کون ہوں؟‘‘

عباس علی نے فقط اتنا لکھا،  ’’فائزہ۔‘‘

جواب آیا، ’’ارے واہ کیا اندازہ لگایا ہے۔‘‘

عباس علی کو ہنسی آ گئی۔

پھر آفس میں، گھر میں ایس ایم ایس کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ موبائل فون پر بات بھی ہوتی تھی، مگر ایس ایم ایس رات کو دو تین بجے تک چلتے رہتے تھے۔ کبھی کبھی عباس علی کا دل یہ سوچ کر بیتاب ہو جاتا تھا کہ آخر ایک دن یہ سلسلہ ختم ہونے والا ہے۔ فائزہ کو جب اس بات کا پتہ چلے گا، تب کیا ہو گا؟ میری ساری عمر ان تین لفظوں کی چکی میں۔۔۔‘‘ عباس علی نے ایک طویل سانس لی اور آنکھیں موند لیں۔

بعد ازاں جب وہ گاؤں گیا، تو اس نے گھر میں یہ بات چھیڑی، گھر میں کہرام مچ گیا۔

 ’’میں بہن کو کیا منہ دکھاؤں گی؟‘‘ عباس علی کی ماں نے روتے ہوئے کہا،  ’’خون کے سارے رشتے ٹوٹ جائیں گے عباس۔‘‘

 ’’ہم رشتے ناطے، برادری سب سے ہی کٹ کے رہ جائیں گے۔ تم تو جا کر شہر میں گھربسا لو گے، مگر یہ سوچو کہ تمہاری چار بہنوں کا کیا ہو گا؟ کون ہم سے ناطہ جوڑیں گے؟‘‘ نیاز علی کی آواز میں پریشانی کے ساتھ غصہ بھی تھا۔

عباس علی نے بڑی مشکل کے ساتھ دونوں کو سمجھایا، ’’میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میں نے تو صرف آپ کو حقیقت بتائی ہے۔ باقی ہو گا وہی جو آپ چاہتے ہیں۔‘‘

اب اس کے سامنے یہ دشواری تھی کہ قائم دین سے یہ بات کیسے کرے۔ وہ انہیں بہت دیر تک اندھیرے میں رکھنا نہیں چاہتا تھا۔ آخر دل تھام کر ساری حقیقت قائم دین کے سامنے رکھی، جس نے اس کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے صرف اتنا کہا۔

 ’’میں نے تیرے بھلے کے لئے سوچا کہ تیرا مستقبل بن جائے گا۔ مگر خیر۔۔۔‘‘

اس دن کے بعد عباس علی کے موبائل فون پر ایس ایم ایس آنے بند ہو گئے۔ اس نے مسلسل دو تین دن ایس ایم ایس کئے۔ پر جواب نہیں آیا۔ اس نے فائزہ سے بات کرنی چاہی، مگر ہمت نہیں کر پایا۔

 ’’فائزہ سے شادی کرتا تو شاید حالات ایسے نہ ہوتے، جیسے اب ہیں۔‘‘ عباس علی نے سوچا، ’’اب جب سارا قصہ ہی ختم ہونے والا ہے، تو ان باتوں کو یاد کرنے کا کیا فائدہ۔‘‘

عباس علی کو کچھ دیر پہلے بانو کی وہی بات یاد آئی، ’’پھر ہمارا کیا ہو گا؟‘‘

خود اس کے لئے بھی موت سے زیادہ مہلک سوال یہ تھا کہ بعد میں کیا ہو گا؟ ۔ اس کو ڈاکٹر کے چہرے پر ابھری لکیریں اب تک یاد ہیں، جب اس نے ٹیسٹ کی رپورٹ دیکھی تھی۔ ڈاکٹر اسے بس دیکھتا رہا۔ تب عباس علی نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا تھا۔

 ’’مجھے پتہ ہے ڈاکٹر صاحب، میری رپورٹ اچھی نہیں آئی ہے۔‘‘

  ’’جگر کے آدھے حصے کو کینسر کی وجہ سے شدید نقصان پہنچا ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا،  ’’اس کا علاج صرف اور صرف لیور ٹرانسپلانٹ ہی ہے، جو یہاں نہیں ہوتا۔ اس کے لئے سنگاپور یا ہندوستان جانا پڑے گا۔ سنگاپور کے مقابلے میں ہندوستان پھر بھی سستا ہے۔‘‘

 ’’کتنا خرچ آئے گا، ڈاکٹر صاحب؟‘‘ عباس علی نے پوچھا تھا۔

 ’’تقریباً ساٹھ لاکھ روپے۔‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا۔

 ’’ساٹھ لاکھ۔‘‘ اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ بانو نے جب یہ بات سنی تو وہ بھی دنگ رہ گئی۔ عباس علی نے نوکری کر کے جو بھی کمایا، وہ اس کی چار بہنوں کی شادیوں میں خرچ ہو گیا تھا۔ اس نے قاسم آباد میں ایک فلیٹ بک کروایا تھا، جس میں اب وہ بیوی بچوں کے ساتھ رہ رہا ہے۔

 ’’اپنے پاس اور تو کوئی جمع پونجی نہیں ہے، صرف گھر ہے، وہی فروخت۔۔۔‘‘ بانو نے سوچتے ہوئے کہا۔

 ’’پاگل ہو گئی ہو کیا؟ بچوں کے لئے یہ گھر بنایا ہے وہ فروخت کر دوں۔‘‘ عباس علی نے غصے سے کہا۔

 ’’مگر زندگی سے زیادہ تو کچھ نہیں ہے۔ ہمارا سب کچھ تم ہی ہو۔ تم سلامت رہو گے تو گھر پھر بن جائے گا۔‘‘

 ’’وہ تو ہے۔‘‘ عباس علی سوچ میں پڑ گیا۔

 ’’مگر بانو، ساٹھ لاکھ کوئی چھوٹی رقم تو نہیں۔ فلیٹ فروخت کرنے سے اتنے پیسے تو نہیں ملنے والے۔‘‘

 ’’میرے کچھ زیور ہیں۔ آپ پتہ تو لگاؤ کہ اس گھر کی کتنی کی قیمت ملے گی۔‘‘ بانو نے بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔

عباس علی نے پراپرٹی ڈیلر کے یہاں چکر لگائے، سب کو اس بات کا احساس تو تھا کہ جلد بازی میں گھر فروخت کرنے سے زیادہ سے زیادہ پچیس لاکھ ملنے والے تھے۔ ایسے ہی چھ سات لاکھ زیورات سے ملتے۔ باقی ضرورت کے مزید پیسوں کے ملنے کا امکان اور کہیں سے بہت کم تھا۔

یہاں اس کی حالت مزید بگڑتی رہی۔ ہسپتال سے آخرکار ڈسچارج ہو کر وہ گھر آ کر بستر سے لگ گیا۔

 ’’اب باقی چند مہینے، کچھ ہفتے، کچھ دن مزید بچے ہیں۔‘‘ عباس علی کو خیال آیا۔

  ’’میں نہیں رہوں گا تب میرے بچوں کا کیا ہو گا؟ بابا اور اماں بھی گزر گئے۔ بہنیں اپنے گھروں میں بسی ہوئی ہیں۔ بانو گھر کا انتظام اکیلی کس طرح سنبھال پائے گی؟ بچوں کی خیر خبر کون لے گا؟ پیچھے کوئی سہارا بھی تو نہیں۔ بیٹے تو پھر بھی دھکے کھا کر جوان ہو جائیں گے، شاید وہ پڑھ بھی نہ پائیں۔ کیا پتہ آوارہ بن جائیں۔ مگر پھر بھی مرد ہیں۔ زندگی کا سامنا کر ہی لیں گے۔ آگے ان کی قسمت۔ بیٹی ایک ہے، پر اس کا کیا ہو گا؟‘‘

عباس علی کے ذہن میں اتھل پتھل مچی تھی۔ اسے لگا کہ کمرے میں گھٹن بڑھ گئی ہے یا شاید وہ اس کے دل میں تھی۔

 ’’بیماری نے آہستہ آہستہ تمام جسم کو متاثر کر دیا تھا۔ وہ سوکھ کر ایک ڈھانچا بھر رہ گیا ہے۔ یہ مہلک بیماری دھیمی رفتار سے زہر بن کر اس کے اندر پھیل گئی ہے۔ یہ کتنی خطرناک صورتِ حال ہے آدمی کیلئے۔ جب وہ جانتا ہو کہ وہ موت کی جانب قدم بقدم آگے بڑھ رہا ہے یا موت دھیمی رفتار سے اس کی طرف چلی آ رہی ہو۔ کتنی اذیت دینے والی صورتحال ہے اور آنے والے کل کا خیال، تکلیف، تباہی۔۔۔ اف یہ موت سے بھی زیادہ دہشت ناک ہے۔‘‘

عباس علی آنکھیں موند کر لمبی لمبی سانسیں لے کر خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ تبھی اسے خیال آیا۔

 ’’راستے پر اچانک حادثہ ہو جاتا اور اس میں مر جاتا یا کہیں دھماکے کے وقت میں وہاں موجود ہوتا اور میرے جسم کے ٹکڑے ہواؤں میں بکھر کر کہیں دور جا پڑتے تو؟ سب کچھ اچانک ختم ہو جاتا۔ نہ فکر، نہ بے چینی، نہ مشکلات کا احساس۔ کسی کے مرنے سے دنیا ختم تو نہیں ہو جاتی۔ میں نہ رہوں گا، تب بھی دنیا چلتی رہے گی۔ بعد  میں کیا ہو گا، یہ تشویش بے کار ہے۔ جو زندہ رہیں گے، وہ جینے کی راہ ڈھونڈ ہی لیں گے۔ زندگی اپنا راستہ خود بنا لیتی ہے۔‘‘

عباس علی کو لگا کہ اس کے ذہن سے جیسے وزن کم ہو گیا تھا، پر اس نے خود کو بے حد تھکا ہوا محسوس کیا جیسے وہ پیدل سفر کر کے آیا ہو۔ وہ آرام کرنا چاہتا تھا۔ اب اس کی آنکھیں خود بخود بند ہو گئیں۔

بانو دلیہ کا پیالہ لئے کمرے میں داخل ہوئی، تو وہ پتھرا سی گئی۔ ایک خاموش چیخ کمرے میں گونج اٹھی۔ عباس علی بالکل سیدھا لیٹا تھا۔ ایک خوبصورت رنگین پروں والی تتلی اس کے ادھ کھلے ہونٹوں کے ارد گرد اڑ رہی تھی۔ عباس علی کے ہونٹوں پر معصومانہ مسکراہٹ تھی۔ بانو کو حیرت ہوئی کہ وہ تتلی کمرے میں آئی کہاں سے؟ اسے لگا کہ عباس علی ہمیشہ کی طرح آنکھیں موندے جاگ رہا ہے۔ اس نے آواز دیتے ہوئے پوچھا۔

 ’’جاگ رہے ہو؟‘‘ پر عباس علی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پہلے بانو کو خیال آیا کہ عباس علی کے ہونٹوں کے پاس اڑتی تتلی کو ہٹا کر دور کر دے۔ مگر پھر اس نے یہ خیال رد کر دیا۔ تتلی عباس علی کے ہونٹوں کے پاس اڑتی اچھی لگ رہی تھی۔ بانو کے ہونٹوں پر بھی ایک پوشیدہ مسکراہٹ تھرک گئی۔

***

 

 

 

 

جیل کی ڈائری

 

ویتا شِرنگی

 

 

صبح صبح چائے کا کپ ابھی لبوں تک لایا ہی تھا کہ میری نظریں اخبار میں چھپی ایک خبر پر اٹک گئیں۔

 ’’جیل میں قید قاتلہ کی خود کشی۔‘‘

آج کے قومی اخبار میں یہ خبر سرخی کے طور پر شائع ہوئی تھی۔ میری سوچ پرندوں کی طرح پرواز کرتی ماضی کے صفحے پلٹنے لگی۔ یہ کوئی صدیوں پرانی بات نہیں تھی، قومی اخبار میں چھپی سنسنی خیز خبر کے ساتھ دو تصویریں بھی شائع ہوئی تھیں۔ ایک جانب دو لاشوں کی تصویر تھی، تو دوسری طرف قاتل عورت کی۔ دیوی کے روپ میں چنڈالن، جس نے اپنی معصوم بیٹی اور شوہر کا بے دردی سے قتل کیا تھا، جس نے اپنے جگر کے ٹکڑے کو بھی نہیں بخشا۔ عورت نہیں ڈائن ہی تھی جو ننھی معصوم بچی کو کھا گئی۔

وہ پڑھی لکھی، پر کشش شخصیت کی حامل تھی۔ کورٹ میں اس کو دیکھنے کے لئے لوگوں کا ہجوم جمع ہو جاتا تھا۔ مختلف اخباروں میں اس کی زندگی کے مخفی پہلوؤں پر کوئی نہ کوئی خبر چھپتی ہی رہتی تھی۔ اس کیس کے فیصلے کا نہ صرف مجھے، بلکہ اور بھی بہت سارے لوگوں کو بڑی شدت سے انتظار تھا۔ جب انصاف کے ترازو میں حسینہ کی خوفناک اور دل دہلانے والے کرتوتوں کو مختلف سماعتوں کے ذریعے تولا گیا، تو انصاف کے ترازو کا پلڑا سرکاری وکلاء اور گواہوں کے بیانات کی روشنی میں، گنہگار عورت کے قابلیت اور خصوصیات بھرے ماضی کے مقابلے میں، بھاری ثابت ہوا۔ عدالت نے اس حسینہ کو دل دہلانے والی موت کی سخت سزا سنائی۔

انصاف کا مضبوط ہاتھ اس تک پہنچے، اس سے پہلے ہی اس نے قانون کے چہرے پر زوردار طمانچہ مارا۔ خود اپنا خاتمہ کرتے ہوئے اس نے عدالت کے انصاف کو شکست دے دی۔ خود کشی کر لی اس نے۔

قتل کے الزام میں جب اسے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا، تو اس نے پولیس کی جانب سے لگائے الزام کو خوشی سے قبول کیا تھا۔ اس کے اوپر چلنے والی کار روائی کا احوال اور دلیلیں سن کر بدن تھرتھرا اٹھتا تھا۔ ایک رات جب اس کا شوہر نیند کے آغوش تھا، تب اس خوبصورت ناگن نے اس پر ہتھوڑے سے وار کر کے، نہ صرف اس کے چہرے کو مسخ کیا، بلکہ پہ درپے وار کر کے اس کے بھیجا ہی نکال دیا اور پھر اپنی معصوم بیٹی کا گلا گھونٹ کر ہمیشہ کے لئے اسے بھی گہری نیند سلا دیا۔ ممتا کی گود میں لوری دے کر سلانے کے بجائے، کبھی نہ آنے کیلئے ماضی کے فولادی شکنجے میں دھکیل دیا۔ جس نے بھی دیکھا، سنا، اسے کچھ یوں لگا جیسے بجلی کے تار نے اسے چھو لیا ہو۔

اس نے عدالت کے سامنے اپنے جرم کو فخریہ انداز میں قبول کیا، چہرے پر ملال کی جگہ ایسی مسکراہٹ تھی جیسے فتح پا لی ہو۔ سزا سننے کے بعد اس نے اپنی نازک خوبصورت بانہیں پھیلا کر مضبوط لوہے کی زنجیروں کا خیر مقدم کیا۔

آس پاس رہنے والوں کے مطابق، اس کا شوہر ایک شاندار نوجوان تھا، نشیلی نگاہوں والا، قد آور، اسمارٹ، ملنسار اور ہمدرد انسان تھا۔ جہاں سے گزرتا تھا، وہاں مایوس زندگی پر بہار چھا جاتی تھی۔ مرجھائے چہروں پر جوانی کا رنگ ظاہر ہو جاتا۔ پروانے شمع پر فدا ہو کر اپنی جان نثار کرتے ہیں، مگر اس کے معاملے میں گنگا الٹی بہتی تھی۔ عالیشان بنگلہ، عیش و آرام کے ہر سامان کی اس میں موجودگی، دولت کی دیوی لکشمی جیسے اس پر مہربان تھی۔ ایسے شہزادے جیسے نوجوان کے قتل پر سب کے دلوں سے گھٹی گھٹی چیخیں نکل رہی تھیں۔ سبھی لبوں پر ایک آہ تھی۔ کون سا راز تھا جو قاتلہ نہیں بتانا چاہ رہی تھی؟ کئی سوال اٹھے، پر ان سوالوں کا ایک بھی مناسب جواب کسی کو نہیں ملا۔

قاتلہ کا جرم قبول کئے جانے کی وجہ سے کورٹ کی کار روائی بھی جلد مکمل ہو گئی۔ مگر لوگوں اور اخباروں کے لیے یہ قتل پراسرار بنا رہا۔ اس عورت کی نہ تو کوئی نند، دیور تھے، نہ ہی ساس، سسر۔ مشترکہ خاندان کی جھنجھٹ سے آزاد، اکیلی ہی عیش و آرام کی زندگی بسر کر رہی تھی۔ وہ اب تک ایک ہی بات پر اڑی رہی۔

 ’’خون میں نے کیا ہے۔‘‘

جیل میں قید قاتلہ کی خودکشی کی خبر کے ساتھ یہ بھی اطلاع ملی کہ لاش کے ساتھ ایک ڈائری بھی ملی ہے، جو اس نے جیل کے افسر سے کہہ کر منگوائی تھی۔ ڈائری کے صفحات جب پلٹے گئے، تو ان صفحات پر کچھ الفاظ اور جملے تحریر تھے۔

خوبصورت۔۔۔ محبت کی گرمائش۔۔۔ وعدہ۔۔۔ وفا۔۔۔ مکاری۔۔۔۔ اس رات تم نے میری بہت تعریف کی۔۔ میں آسمان میں آزاد پنچھی کی طرح اڑ رہی تھی جب تم نے کہا میں فرشتہ لگ رہی ہوں۔ جنت کی حور۔۔۔ فاصلے گھٹنے لگے۔۔۔ سانسوں کی گرمی۔۔۔ جذبات کا سیلاب۔۔۔ پیار کے ساگرمیں طوفان۔۔۔ تم نے کہا، خود کو قربان کر دو؟ آج کیوں؟ میں نے تو ہر پل۔۔۔ ہر گھڑی تمہارے نام کر دی ہے۔۔۔!

یادگار لمحہ۔۔۔ وہ رات قیامت کی رات بنی۔۔۔ میں۔۔۔ وہ اور۔۔۔ ایک اور جسم۔۔۔ دوسرا مرد۔۔۔ تمہارا دوست۔۔۔ تم نے تنہائی کو ساتھی بنایا۔۔۔ اور میں نے۔۔۔!

میرا وجود ہل گیا۔

سہانی چاندنی رات۔۔۔ جس نے اُس رات چاندنی کو گناہ کی چادر اوڑھا دی۔۔۔ ہوس کے گرہن کو نگل گئی۔۔۔ میرے لئے چاندنی رات۔۔۔ سیاہ اندھیری رات بنی۔۔۔ نئی صبح کی نئی کرن میرے کیلئے تباہی کی صبح۔۔۔ میں نے اپنی زندگی کا ماتم منایا۔ تم نے کہا تم میرے ہو۔۔۔ تم۔۔۔ میرے دل کی دھڑکن ہو۔۔۔!

پر میرے دل کی دھڑکن میں ایک اور دل کی دھڑکن سما گئی ہے، پل پل میرے لئے عذاب بن گیا ہے۔

تم نے ایک پر مسرت وحشی روح کو دنیا کی روشنی دیکھنے دی، میں تم دونوں کو سانسوں میں سجاؤں گی۔

میرے لئے ہر لمحہ عذاب بن گیا، میرے خون سے ایک اور خون کا ملن۔۔۔ جسمانی ملاپ۔۔۔ ایک اور جسم کا وجود عذاب سہنے کے لیے۔۔۔!

زندگی۔۔۔

وقت کے ساتھ۔۔۔

بھاگنے کی چاہت میں لگی ہے۔۔۔

عمر کے اس محاذ پر۔۔۔ کیا۔۔۔ کس سے تم نے۔۔۔!

آج ایک اور خوفناک رات تھی۔ جس نے میری آنکھوں کے سامنے ماضی کی اس قیامت والی رات کو زندہ کر دیا، جب میں نے تم کو کسی اجنبی شخص سے بات کرتے سنا۔

اجنبی اور تم۔۔۔ کل کی رات تمہارے لئے رنگین رات ہو گی۔ تم نے مجھے محبت کی زنجیروں میں قید ضرور کیا تھا۔۔۔ پر میرے ضمیر کی آواز زندہ تھی۔۔۔ تم نے میرے لئے جس قیامت والی رات کو دعوت دی تھی، اسی کی سیاہ چادر میں، میں نے تمہیں لپیٹنے کا فیصلہ کیا۔ فیصلہ آسان نہ تھا، پر اپنی روح کے سودے کے سامنے تمہاری محبت کا پلڑا ہلکا ہی رہا۔۔۔ تمہاری دولت کے رازوں کی مجھے معلومات نہیں تھیں۔۔۔ آج اس راز کو راز ہی رکھنا چاہتی ہوں۔۔۔ میں نے اپنی روح کو تمہاری زنجیروں سے آزاد کر کے سکون پانا نہیں چاہا۔۔۔ میں نے جب تمہیں خوابوں کی دنیا میں سویا ہوا دیکھا۔۔۔ میں نے چاہا کہ تم ان خوابوں کی دنیا میں ہمیشہ۔۔۔ ہمیشہ۔۔۔!

قہقہوں کی گونج۔۔۔

تمہارے لئے لکشمی کی جھنکار اور رنگین رات۔۔۔

قہقہوں کی گونج۔۔۔ لکشمی کی جھنکار کے الفاظ، بازگشت بن کر چاروں جانب گونجنے لگے۔۔۔

وہ رات گذارنی میرے لئے مشکل ہو گئی۔۔۔ میرے لئے پل پل صدیوں برابر بن گیا۔۔۔۔ کل کی رنگین رات کا چراغ جلنے سے پہلے میں نے اسے بجھانے کی کوشش کی۔۔۔ تمہارا چہرہ بے نقاب ہو چکا تھا۔۔۔ تمہاری امیری کا راز۔۔۔ پرکشش شخصیت کے پیچھے موجود مکروہ چہرہ۔۔۔

میں نے تمہارے جسم کے پنجرے سے تمہاری روح کو آزاد کر دیا۔

میں بہت روئی۔۔۔ تیرے لئے نہیں، پر اس معصوم روح کو آزاد کرتے وقت۔۔۔ جو مجھے ہر وقت اس قیامت والی گناہ کی کالی رات کا احساس کراتی تھی۔۔۔ ماضی کی اس رات اور آج کی رات کی تاریخیں ایک ہی ہے۔۔۔

دنیا کے اس محاذ کے میدان میں آج میں نے زندگی کو شکست دی ہے۔

اس کے چہرے پر تازگی اور سکون تھا۔

***

 

 

جلاوطنی

 

جیٹھو لالوانی

 

اس کے ہاتھ تیزی سے کانپ رہے تھے اور چہرہ زرد ہو گیا تھا۔ دل دھونکنی کی رفتار سے چل رہا تھا۔ ہاتھ میں ٹیلی گرام تھامے وہ دروازے کی چوکھٹ پر کھڑا تھا۔

 ’’آپ وہاں کیوں کھڑے ہیں، اندر چلو، بابا کو لے آنے کی تیاری بھی تو کرنی ہے۔‘‘ اس کی بیوی آسُودی نے کہا۔

پر وہ خاموش کھڑا رہا، اس کی آنکھیں ٹیلی گرام میں گڑی رہیں۔

 ’’آپ سن نہیں رہے، اندر امی بھی آپ کو آوازیں دے رہی ہیں۔‘‘ آسُودی نے ایک بار پھر دہرایا۔

مگر وہ اس بار بھی خاموش رہا۔ آسُودی کچھ ناراض ہوتی ہوئی آگے بڑھی اور اس کے ہاتھ سے ٹیلی گرام چھین لیا۔ رمیش کو جیسے جھٹکا لگا اور اس نے سوالیہ نظروں سے آسُودی کی طرف دیکھا۔

 ’’آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ سب خیریت تو ہے؟‘‘ آسُودی نے سنجیدہ ہوتے ہوئے پوچھا۔

  ’’آسُودی۔۔۔ بابا۔۔‘‘ رمیش کے منہ سے صرف اتنا ہی نکلا۔

 ’’بابا کو کیا ہوا ہے؟‘‘ آسُودی نے بے چینی سے پوچھ لیا۔

حقیقت کا ادراک ہوتے ہی آسُودی صرف اتنا کہہ پائی، ’’ایسا ہو نہیں سکتا۔۔۔ ایسا۔۔۔‘‘ وہ زور سے چیخی اور سکتے کی حالت میں چکر کھا کر وہیں گر پڑی۔

  ’’آسُودی۔۔۔ آسُودی۔۔۔‘‘ کہتے ہوئے اس نے آسُودی کو سنبھالنے کی کوشش کی، مگر اس سے پہلے ہی وہ بے ہوش ہو کر فرش پر گر چکی تھی۔

آسُودی کی ساس نے اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی۔ نند نے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے، پر نہ آسُودی ہوش میں آئی اور نہ اس کی حالت میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی۔

 ’’اے رام میری بہو کو یہ کیا ہو گیا؟‘‘ آسُودی کی ساس نے اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا۔

اتنے میں آسُودی کا دیور تلسی، ڈاکٹر کو لے آیا۔ آسُودی کو پلنگ پر لٹایا گیا۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد بیہوشی کا سبب ’’گہرا صدمہ‘‘ کہہ کر اسے انجکشن لگا کر ہوش میں لانے کی کوشش کی۔

خاندان کے سبھی افراد سوالیہ نگاہوں سے رمیش کی طرف دیکھ رہے تھے، مگر وہ خاموش کھڑا رہا۔ کچھ دیر میں آسُودی ہوش میں آتے ہی بڑبڑائی، ’’بابا۔۔۔ یہ سب کیا ہو گیا؟‘‘

آسُودی کی ساس نے اِس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بیٹے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

رمیش نے ایک نظر گھر والوں کی جانب دیکھتے ہوئے انہیں تار دکھایا، ’’بابا کو چار دن پہلے کپاس کے کارخانے سے آدھی رات کے وقت اغوا کر لے گئے ہیں اور ان کی جان بخشنے کے عوض دس لاکھ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ اطلاع بابا کے دوست سیٹھ رام چندر نے میر پور سے تار کے ذریعہ بھیجی ہے اور پیسے آج کی تاریخ میں لازمی پہچانے ہیں، یہ بتایا ہے۔‘‘

خبر سنتے ہی گھر کے تمام افراد سکتے میں آ گئے، سب کے چہرے اداسی کی دھند میں ڈھک گئے اور وہ خاموشی سے ایک دوسرے سے نگاہوں ہی نگاہوں میں کچھ پوچھ رہے تھے۔۔۔۔

 ’’اب کیا ہو گا؟‘‘

آج شام سیٹھ ٹوپن داس کی اکلوتی بیٹی کی شادی ہے۔ گھر میں بارات آنے کا وقت ہو رہا ہے۔ گھر میں خوشی کا ماحول ہے، سبھی گیت سنگیت کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ آج شام کی فلائٹ سے سیٹھ ٹوپن داس، بیٹی کے کنیا دان کیلئے پہنچنے والے تھے۔ ان کے بیٹے بہویں انہیں ہوائی اڈے سے آنے کے لئے سبھی تیاریاں کر چکے تھے۔

ایسے خوشی کے موقع پر اچانک یہ منحوس خبر ڈاکیا لے آیا اور تار پڑھتے ہی سب کے ہاتھوں سے طوطے اڑ گئے۔

 ’’بھاؤ، اب کیا ہو گا؟‘‘ چھوٹے بھائی تلسی نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔

 ’’بیٹا، تمہیں آج ہی میر پور جانا چاہئے، ان کی جان کو خطرہ ہے۔‘‘ رمیش کی ماں مولی نے لرزتے لہجے میں کہا۔

 ’’اگر میں گیا تو شام کو شادی کیسے ہو گی؟‘‘

 ’’بھاؤ، میں اس وقت تک شادی نہیں کروں گی جب تک بابا نہیں آتے۔‘‘ موہنی نے بھائی کی منت سماجت کرتے ہوئے کہا۔

 ’’بہن یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ گھر میں بارات کے آنے کا وقت ہو گیا ہے، اگر تم نے شادی سے انکار کیا تو ہم لڑکے والوں کو کیا منہ دکھائیں گے؟ بہن، اگر گھر کی چوکھٹ سے بارات واپس گئی تو معاشرے میں کافی بدنامی ہو گی۔‘‘

 ’’مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے۔ آپ لڑکے والوں کو تار دکھا کر انہیں حقیقت سے واقف کرا دیجئے، مجھے یقین ہے کہ وہ ہماری مجبوری کو سمجھ جائیں گے۔‘‘

 ’’پر شبھ مہورت کو ٹالنا اور دروازے سے بارات کو لوٹانا تو اچھا شگون نہیں ہوتا۔‘‘

 ’’میں کچھ نہیں جانتی، اگر بابا نہیں آئے تو میں شادی نہیں کروں گی۔‘‘ موہنی نے روتے ہوئے اپنی بھابھی کی گود میں منہ چھپا لیا۔

آسُودی نے موہنی کو پیار سے اپنی آغوش میں لیتے ہوئے کہا، ’’بیٹے، بیاہتی لڑکی کو اس طرح رونا نہیں چاہیے۔ دل کو مضبوط کرو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

 ’’پر بھابھی۔۔۔ بابا۔۔۔۔‘‘ موہنی نے سسکتے ہوئے کہا اور رونے لگی۔

 ’’بیٹی تیرے بابا کو کچھ نہ ہو گا، تم ہو جاؤ۔‘‘ موہنی کو سمجھاتے ہوئے مولی نے کہا۔

 ’’اماں، مہورت کسی بھی صورت میں ٹالا نہیں کیا جا سکتا۔ آسُودی، تم موہنی کو اندر لے جاؤ اور پھر فلائٹ بھی تو صبح ہے، مہمانوں کے استقبال کی تیاری کرو، تب تک میں ٹکٹ کا بندوبست کر کے آتا ہوں۔‘‘ رمیش نے سب کو اندر جانے کو کہا۔

 ’’اماں، بابا کو کچھ نہیں ہو گا، آپ فکر نہ کریں۔‘‘ کہتے ہوئے وہ پاؤں چھوکر گھرسے باہر نکل گیا۔

مولی، گرو بابا کی منت مانتے ہوئے، جپ صاحب کی پَوڑھی پڑھتے پڑھتے اپنے کمرے کی طرف چل پڑی۔

ملک کے بٹوارے کے وقت سیٹھ ٹوپن داس نے بھی ہندوستان آنے کی کوشش کی تھی۔ مگر ان کے ادھیڑ عمر والدین اپنی جنم بھومی سندھ کو چھوڑنے کو تیار ہی نہیں ہوئے۔ ٹوپن داس اس وقت نوجوان تھے، انہوں نے اپنے والدین کو ہندوستان چلنے کیلئے کافی سمجھایا، پر انہوں نے اپنے پران سندھ میں ہی تیاگنے کا اٹل ارادہ کر لیا تھا۔ ان کے باقی رشتہ دار، پاس پڑوس والے مایوس ہو کر چلے گئے۔

حکومت کے حالات سازگار نہ ہونے کے باوجود وہ وہیں رہ گئے۔ ماحول میں اجتماعی تنگ دلی پھیلی ہوئی تھی۔ غیر محفوظ دور میں انہوں نے اپنی زندگی گذارنی شروع کی۔ اپنوں سے بچھڑنے کے غم پر انہوں نے قابو پانا شروع کیا۔ وقت اپنی تیز رفتاری سے چلتا رہا۔ ٹوپن داس کے والدین وقت کے ساتھ سورگ سدھار گئے۔ پیسہ کمانے کی دوڑ نے اس سے اپنوں کو یاد کرنے کی توفیق چھین لی۔ حکومت کے حالات سازگار نہ ہونے کے باوجود بھی اسے اپنے پھیلے ہوئے کاروبار اور کمائی ہوئی جمع پونجی میں، اپنی سلامتی نظر آنے لگی۔ اس وقت اس کا ایک ہی مقصد تھا، کاروبار بڑھانا اور دولت جمع کرنا۔ اس نے پڑوسیوں، نوکروں، مزدوروں اور حکومتی اہلکاروں کے ساتھ اپنا رشتہ انتہائی مضبوط کر رکھا تھا۔

اچانک پرسکون ماحول میں ایک زور کا طوفان اٹھا۔ چوری ڈاکے، مار دھاڑ، لوٹ مار اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کثرت سے سامنے آنے لگیں۔ تمام آباد دھنوانوں کے دلوں میں خوف چھا گیا۔ غیر محفوظ ہونے کا خطرہ ایک بار پھر سانپ بن کر پھن ہلانے لگا۔ کچھ کو تو سانپ نے ڈس بھی لیا۔

حکومت میں مارشل لاء لگے ہونے کے باوجود بھی اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ہوتی رہیں، کبھی کسی معصوم بچے، تو کبھی کسی کارخانے کے مالک کی لاش اس کے کارخانے سے ہی ملتی، تو کبھی کوئی زمیندار اپنے کھیتوں میں مردہ پایا گیا۔ کچھ پیسے والوں نے تو تاوان کی رقم دے کر اپنی جان بچا لی تھی۔ اپنی حفاظت کے لئے سخت انتظامات بھی کئے گئے تھے۔

لاچار ہو کر ایک بار پھر لوگوں نے خود کو جلاوطن کرنا شروع کر دیا۔ حکومت سے پاسپورٹ بنوا کر اور ویزا لے کرہندوستان کا رخ کیا۔ اپنے کاروبار کو سمیٹ کر، کروڑوں کی جائیداد مٹی کے دام بیچ کر، ہمیشہ کے لئے اپنی جنم بھومی کو الوداع کر کے، احمد آباد، سکندرآباد اور دیگر شہروں میں جا بسے۔

حالانکہ ٹوپن داس کی سیاستدانوں میں بھی خاصی جان پہچان تھی، اس کے اپنے باڈی گارڈ بھی تھے، لیکن ان وارداتوں نے اس کے دل کو بھی دہلا دیا تھا۔ وہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگا تھا۔ ان وارداتوں کا وہ کبھی بھی تر نوالہ بن سکتا تھا۔ کوئی حادثہ ہو اس سے پہلے وہ بھی وہاں سے نکلنے کا ارادہ کرتے ہوئے، ہمیشہ کے لئے سکندرآباد میں خود کو بسانے کے لئے ایک منصوبہ بنا بیٹھا۔ اس نے اپنے گھر کے تمام افراد کے پاسپورٹ اور ویزے تیار کروائے اور سہولت سے باری باری اپنے خاندان والوں کو ہندوستان بھیجتا رہا۔ اپنے تمام خاندان کی جوابداری رمیش نے سنبھال لی اور آج اس کی بہن کی شادی تھی۔ سیٹھ ٹوپن داس اس وقت میر پور میں اکیلا رہ رہا تھا۔ باقی کاروبار سمیٹ کر وہ بھی بچوں کے ساتھ مستقل طور پر رہنے اور اپنی بیٹی کا کنیا دان کرنے کیلئے آج کی فلائیٹ سے سکندرآباد پہنچنے والا تھا۔

لیکن اچانک یہ منحوس تار، سیٹھ ٹوپن داس کے اغوا کی خبر لے آیا۔

دو گھنٹوں کے بعد رمیش ہوائی جہاز کے ٹکٹ لے کر لوٹا۔ بارات گھر آ چکی تھی۔ غم کو دل میں دبائے، وہ بھی مہمانوں کی آؤ بھگت میں لگ گیا۔

شہنائی کے سروں میں، شادی کے گیتوں کی آواز میں، ہنسی مذاق قہقہوں کے بیچ دولہا دلہن کی شادی کی پوجا شروع ہوئی۔ لڑکے والوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے تھے۔ ماحول میں طرح طرح کی خوشبوئیں، پھولوں اور غیر ملکی پرفیوم کی مہک پھیلی ہوئی تھی۔ ایسے خوشنما، دلفریب ماحول میں لڑکی والوں کے چہرے مسکرا رہے تھے، پر دل ہی دل میں ایک انجانا خوف آہستہ آہستہ ان پر غالب ہوتا جا رہا تھا۔

اچانک کمرے میں ٹیلیفون کی گھنٹی زور زور سے بجنی شروع ہوئی۔ رمیش نے اندر جا کر ٹیلیفون اٹھایا، اسے سنا ئی دیا کہ مقر رہ وقت کے اندر تاوان کی رقم نہ ملنے پر سیٹھ ٹوپن داس کو قتل کر کے، اس کی لاش کپاس کے کارخانے پر چھوڑ گئے ہیں۔ خبر سنتے ہی رمیش کے ہاتھ سے فون گر پڑا۔ وہ لڑکھڑانے لگا۔ منتروں کی آوازوں نے اسے سنبھلنے کا موقع دیا۔ وہ بھاری قدموں سے کمرے سے باہر نکل کر پنڈال میں آیا۔ اس کی بہن اگنی کنڈ کے چاروں طرف اپنے شوہر کے ساتھ پھیرے لگا رہی تھی۔ لڑکے والے خوشی سے ناچ رہے تھے، گا رہے تھے۔ اس نے ایک نظر بھر کے بہن کی طرف دیکھا۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسو جھر جھر بہہ رہے تھے۔

شہنائی کی آواز تیز ہوتی گئی۔ رمیش کو اپنے پیروں تلے زمین کھسکتی محسوس ہوئی اور وہ خود کو اگنی کنڈ میں سے نکلتے ہوئے دھوئیں میں گم ہوتے ہوئے محسوس کر رہا تھا۔

***

 

 

 

 

کہانی اور کردار

 

ڈاکٹر کملا گوکلانی

 

 

گورَو بستر پر کروٹیں بدلتا رہا۔ باوجود کوشش کے بھی اس کو نیند نہیں آئی۔ ساتھ میں لیٹی سیما نے پھر سے جاننے کی ناکام کوشش کی۔

 ’’آخر کیا ہوا ہے؟ اتنے پریشان کیوں ہو؟‘‘ لیکن گورَو نے بغیر جواب دیئے دوسری طرف پلٹتے ہوئے پرماتما سے دعا مانگی کہ مانسی نے اس متعلق فیصلہ لیتے وقت اپنے پرانے مزاج سے کام لیا ہو۔

اس کے سامنے کلاس روم کا منظر ابھر آیا۔ بیس برسوں کی نوکری میں اس نے خود کو اتنا چھوٹا کبھی محسوس نہیں کیا۔ بورڈ آف ایجوکیشن کی جانب سے سینئر کلاسز کا امتحان جاری ہے۔ آج اس کی ڈیوٹی روم نمبر ۴ میں رہی۔ اس کمرے میں ڈیوٹی کرنے سے ہر ایک انچارج کتراتا ہے۔ آج کل شاگرد عموماً اڑیل اور غیر ذمہ دار ہی ہیں، مگر روم نمبر ۴ کار کیش، اس کا نام لے کر توبہ کرو۔ اس کو نقل کرنے سے روکنے والے کا وہ خانہ خراب کر دیتا ہے۔ اس لئے راکیش کے معاملے میں دیکھی ان دیکھی کرنی پڑتی ہے، مگر گورَو ایمانداری اور نظم و ضبط پر چلنے والا ہے۔ اس لئے گھر سے نکلتے وقت بھی سیما اسے سمجھاتی رہی کہ اصولوں کے غلام بن کر جان بوجھ کر بن مانگے کی پریشانی نہیں مول لینا۔

کیوں کہ آج بورڈ سے چیکنگ کے لیے ایک خاص پارٹی آ رہی تھی، اس لئے پرنسپل نے جان بوجھ کر اس کی ڈیوٹی روم نمبر ۴میں لگائی۔ راکیش بیل بجنے کے دس منٹ بعد ہی کلاس میں آتا ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہوا، اس لئے گورَو نے یہ سوچ کر کہ دیگر شاگردوں کو لکھنے میں رکاوٹ نہ ہو، اس لئے اس کی تلاشی لئے بغیر بٹھا دیا اور اس نے سوچا کہ چور کو سراغ کے ساتھ پکڑنے کا موقع بھی ملے گا۔

ابھی پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ چیکنگ پارٹی آ گئی۔ اس کے کمرے میں پارٹی کی کنٹرولر مس مانسی پہنچی، جو اپنے سخت مزاج کیلئے مشہور ہے۔ وہ اکثر اخبارات اور میگزینوں میں مانسی کے بارے میں پڑھتا تھا کہ وہ اپنی محنت اور مضبوطی کے بل بوتے پر ایک عام ٹیچر سے اس اہم عہدے پر پہنچی ہے۔ تاہم یہ فقط گورَو جانتا ہے کہ مانسی کے سخت دل ہونے کا ذمے دار وہ خود ہے۔ وہ تو ہنستی، کھلکھلاتی مست رہنے والی ایزی گوئینگ لڑکی تھی۔

 ’’ٹیک اٹ از‘‘ اس کا تکیہ کلام رہا۔ اس قدر کہ زندگی کے اہم ترین اور سنجیدہ موڑ پر بھی اس نے کسی فیصلے کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا۔

جیسے باکی تیز نظریں شکار پر ہوتی ہیں، ویسے ہی مانسی بھی سیدھے راکیش کی ٹیبل کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ راکیش مگن ہو کر کاغذ پر سے سوالات کا جواب ڈھونڈ رہا تھا۔ مانسی نے غصے سے گورَو سے کہا، ’’ماسٹر صاحب۔ اتنی غیر ذمہ داری سے ڈیوٹی دے رہے ہو؟ آپ نے اس لڑکے کی تلاشی لی تھی؟ فوری طور پر اس کی تلاشی لی جائے۔‘‘ اور پھر راکیش سے مخاطب ہو کر سختی سے پوچھا۔

 ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

راکیش نے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ’’۵۳۳۴۹۵‘‘

مانسی نے کہا، ’’اپنا ایڈمشن کارڈ دکھائیں۔‘‘

راکیش نے جیسے ہی جیب سے اپنا کارڈ نکالا، تو ساتھ میں ایک کاغذ زمین پر گر پڑا۔ چیک کرنے پر اس کاغذ پر نقل کے کاغذوں کی فہرست تھی کہ کون سا کاغذ کہاں ہے۔ اس درمیان گورَو نے راکیش کی جیب سے جوابوں کے کچھ کاغذ نکالے، مگر راکیش پر کسی بات کا اثر ہی نہیں ہوا۔ آرام سے جیب سے کنگھی نکالی اور مانسی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بالوں کو سنوارنے لگا۔ اسے دیکھ کر گورَو کچھ جھینپ سا گیا۔ مانسی کو بیس سال پرانے منظر یاد آئے، جب گورَو بھی ایسے ہی اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بال سنوارتے ہوئے کہتا تھا،  ’’مانو بس ایسے ہی عمر بھر تیرے نینوں میں بسا رہوں۔۔‘‘ اور مانسی گردن جھکا کر شرماتی تھی۔ کچھ لمحوں بعد ہی مانسی ماضی کی یادوں سے باہر نکل آئی، جب گورَو چلایا،  ’’ارے اس کی جرابوں میں رامپوری چاقو۔‘‘

راکیش کے خلاف قانونی کار روائی کا کیس تیار کرنے کا فیصلہ پرنسپل اور تمام ٹیم نے لیا، شاید یہ ضروری تھا، مگر جیسے ہی اس غیر ذمہ دارانہ حرکت کے لئے گورَو کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے اس کے خلاف رپورٹ لکھنے کی شروعات مانسی نے کی تو پرنسپل نے ہاتھ جوڑ کر گزارش کی۔

  ’’میڈم، یہ نا انصافی مت کرنا۔ گورَو اس اسکول کا نہایت ہی ایماندار اور محنتی استاد ہے۔ میں نے اس سال اس کا نام استاد ایوارڈ کیلئے بھی پروپوز کیا ہے۔ آپ کی رپورٹ، اس کے تمام سالوں کی خدمت کو داغدار بنا دے گی۔ در اصل راکیش بدلہ لینے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔‘‘

 ’’ہوں۔‘‘ مانسی نے سخت لہجے میں کہا،  ’’وہ آدمی تو میرے خلاف بھی قدم اٹھا سکتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ گنہگار کو گناہ کرنے کی چھوٹ دے دی جائے، اس کے خلاف کوئی کار روائی ہی نہ کی جائے۔‘‘

اتنے میں ’’پارٹ اے‘‘ پیپر کے ختم ہونے پر گھنٹی بجی اور گورَو بھی فارغ ہو کر آفس پہنچا اور نہایت عاجزی سے کہا، ’’میڈم، آئی ایم سوری۔ در اصل راکیش کے کلاس میں دیر سے آنے کی وجہ سے میرے دل میں ڈیوٹی اور گھر کی محبت کے بیچ جنگ چھڑی ہوئی تھی کہ اتنے میں آپ آ گئیں۔ سیما نے چلتے چلتے بھی کہا تھا کہ بچوں کی قسم، جان بوجھ کر کوئی پریشانی مول نہ لینا۔‘‘

حالات دیکھتے ہوئے مانسی نے فی الحال پیپرز فائل میں رکھے۔ وہ ایک بار پھر ماضی کی جانب لوٹ گئی۔ اس سیما نے ہی اسے گورَو سے جدا کیا تھا۔ کچھ دن تو وہ بے حدمایوس رہی، پر جلد ہی خود کوسنبھال کر سارا دھیان کیریئر پر لگا دیا۔ وہ سوچتی رہی،  ’’آج کی سیما کی جگہ وہی گورَو کے بچوں کی ماں ہوتی تو اور کیا چاہتی؟‘‘

اسے یاد آیا کہ وہ اور گورَو ایک ہی اسکول میں ٹیچر تھے۔ ہم خیال ہونے کی وجہ سے دونوں کا اٹھنا بیٹھنا ایک ساتھ ہوتا تھا۔ ہاف ٹائم کے وقت، فری پیریڈ میں بھی، جب دوسرے ٹیچرز غیر ضروری باتوں میں وقت ضائع کرتے تھے، تب یہ دونوں چائے پیتے پیتے کبھی ادب اور کبھی آرٹ کے بارے میں گفتگو یا بحث و مباحثہ کیا کرتے۔ کسی نئی کہانی یا ناول پڑھنے کے بعد اس کا پوسٹ مارٹم کرتے، اس کے کرداروں کی کمزوریوں اور خصوصیات پر اپنی رائے پیش کرتے۔ گورَو ہمیشہ ان ڈراموں پر افسوس کا ا ظہار کرتا، جس کا ہیرو اپنی ہیروئن کو مصائب کی گردش میں چھوڑ کر، بزدلی سے میدان چھوڑ کر بھاگ جاتے۔ بحث کرتے ہوئے مانسی اسے سمجھانے کی کوشش کرتی کہ سچا پیار کرنے والے ہیرو کی ضرور کوئی ایسی مجبوری رہی ہو گی، جو وہ انتہائی لاچاری کی حالت میں محبت کو قربان کرتے ہوئے اس راستے سے مڑ جاتا ہو گا۔ سچا پیار تو امر ہے، کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ بڑی بات تو یہ ہے کہ شادی اور محبت کا اتنا گہرا تعلق نہیں کہ بغیر اس کے دیوانہ پن چھا جائے۔ اس کے برعکس شادی کے بعد فرض اور حقوق کی جنگ میں گرہستی کی اوڑھی ہوئی ذمہ داریوں کی وجہ سے محبت کا نفیس جذبہ قربان ہو جاتا ہے۔

 ’’پاگل ہے وہ ہیرو جو رات دن محبت، محبت تو پکارا کرتے ہیں، مگر وقت آنے پر پیٹھ دکھا کر ہیروئن کو ساری زندگی رونے کے لئے چھوڑ جاتے ہیں۔۔۔‘‘ گورَو بے حد سنجیدگی سے کہتا اور مانسی کھلکھلا کر جواب دیتی۔

  ’’گورَو، ٹیک اٹ ایزی، کیوں سب کچھ سیرئیسلی لیتے ہو۔ کہانی کے کرداروں اور حقیقی زندگی میں بہت فرق ہوتا ہے۔ مصنف کہانی لکھنے سے پہلے اپنے کردار کا اختتام طے کر لیتا ہے، جو کبھی سکھی تو کبھی دکھی ہوتا ہے۔ پر اصلی زندگی میں انسان حالات میں پھنس کر صلح کرتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے۔ ایسے فیصلے عذاب دینے والے اور دکھی بھی ہوتے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی غلط فہمیاں پیدا کرنے والے بھی‘‘ اور پھر دونوں کے درمیان لمبی خاموشی چھا جاتی تھی۔

ان کی گفتگو اب اسٹاف روم تک ہی محدود نہیں رہی تھی۔ ویران وادیاں، پہاڑیاں، آبشاریں، بہتی ندیاں، پیڑ پودے ان کی ملاقات کے ضامن رہے۔ تاریخی عمارتوں کی سیر کرتے وہ دونوں بھی خود کو کسی بادشاہ ملکہ سے کم نہیں سمجھتے۔ کبھی کبھی مانسی، گورَو سے کہتی، ’’اگر تمہارے ماں باپ ہمارے ملن کو برداشت نہ کر پائے تو؟‘‘ گورَو بغیر کچھ سوچے بلند آواز میں مردانگی دکھاتے ہوئے کہتا، ’’مانو، دنیا کی کوئی بھی طاقت تجھے مجھ سے چھین نہیں سکتی۔ میں جلد ہی پتا جی کو منا کر اس رشتے کو سماجی منظوری دلاؤں گا۔‘‘

لیکن، جب گورَو نے مانسی کا ذکر گھر میں کیا تو گویا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ گورَو کو یہ پتہ نہیں تھا کہ گھر میں اسے ایک دھڑکتے دل والا انسان نہیں سمجھا جاتا، بلکہ ایک قسم کا ’’مالِ تجارت‘‘ سمجھتے ہوئے اس کے باپ نے اس کا سودا ایک ساہوکار کی بیٹی سے کر دیا تھا اور ان سے جہیز کی بات چیت کی بنیاد پر اپنی دو بیٹیوں کے رشتے بھی طے کر دیے تھے۔ گورَو بہت تڑپا، مچلا، مگر اس کے باپ نے اسے لکھے ہوئے خط دکھاتے ہوئے کہا کہ اگر وہ انکار کرے گا تو اس کے ماں باپ دونوں خود کشی کر لیں گے۔ پاگل پن کی سرحدوں سے گزرتا ہوا گورَو اسکول سے چھٹی لے کر گھر بیٹھ گیا، شاید مانسی سے نظر ملانے کی اس میں ہمت نہ تھی۔ آخر مانسی خود اس کے پاس آئی اور گورَو نے آج جیسی ہی لاچارگی سے کہا تھا۔

 ’’مانو، میرے دل میں محبت اور فرض کے درمیان۔۔۔‘‘

مانسی نے ٹھنڈے دل سے کہا، ’’ٹیک اٹ ایزی پلیز۔ ہم کوئی کہانی کے کر دار نہیں ہیں۔ میری فکر نہ کرو، مجھ میں یہ صدمہ برداشت کر پانے کی ہمت موجود ہے۔‘‘

آج سیما کا نام سنتے مانسی تھوڑی دیر کیلئے ڈانواں ڈول ہوئی پھر سوچا کہ بے چاری سیما کا کیا قصور؟ یہی ناکہ وہ ایک امیر باپ کی بیٹی ہے اور مانسی کے غریب بیوہ ماں میں جہیز دے سکنے کی طاقت نہیں تھی۔ یہ نہیں تو کوئی اور سیما، گورَو کی جیون ساتھی بن جاتی تھی۔ کوئی بھی عورت کسی اور کا حق چھین کر کہاں سکھ پا سکے گی؟

مانسی نے اس اسکول سے اپنا تبادلہ کرا لیا تھا۔ مگر سیما کے بارے میں عملے سے اطلاع ملی تھی کہ وہ نہایت نرم دل والی عورت تھی۔ اسے اگر پتہ ہوتا تو وہ خود ہی مانسی کے راستے سے ہٹ جاتی۔ خیر، زندگی ایک حقیقت ہے کوئی کہانی نہیں۔ یہ سوچ کر مانسی نے گورَو کے خلاف لکھی ہوئی رپورٹ پھاڑ دی۔

***

 

 

 

خون

 

بھگوان اٹلانی

 

 

میں بری طرح تھکا ہوا ہوں پر نیند نہیں آ رہی۔ گاؤں کے ناہموار کچے راستے پر تقریباً دو گھنٹے سائیکل چلانی پڑی ہو گی۔ ہڈی پسلی ایک ہو گئی ہے۔ چاروں جانب اندھیرا ہے۔ اس گاؤں میں بجلی بھی تو نہیں ہے۔ دور دور تک روشنی کی ایک کرن بھی دکھائی نہیں آتی۔ اوپر سے یہ نیند کا نہ آنا۔

ویسے تو بہت ساری مسکن ادویات ڈسپینسری کی الماری میں موجود ہیں۔ ایک گولی ہی نیند کے لیے کافی ہے، مگر مجھے پتہ ہے کہ گولی کھا کر سونے سے کچھ نہیں ہو گا۔ نیند آئے گی تو خواب میں وہ اندھیری جھونپڑی اور اس جھونپڑی میں دواؤں کے بغیر تڑپتا، دم توڑتا مریض میرا پیچھا کرے گا۔ ایسی نیند سے تو جاگنا بہتر ہے۔

گوبر کا ڈھیر، بدبو دار پانی سے بھرے تالاب، راگ الاپتے مچھر۔ اَن دیکھے ڈر سے مایوس چہرہ، روکھا سوکھاکھانا، کمرتوڑ محنت، صبح سے شام تک مسلسل ماں، باپ، بیوی اور تین بچوں کو زندہ رکھنے کی فکر۔ روزانہ دن بھر کے تین روپے، پھر بھی دن بدن کم ہوتی ہوئی مزدوری اور بازار میں بڑھتی ہوئی مہنگائی۔ چلتی سانسوں کو زندہ رکھنے کی کوشش میں ایک معمولی بیکار آدمی صحت مند ہو، تو بھی لازمی بیمار پڑ جائے۔ بیمار کے ٹھیک ہونے کی کیا امید کی جا سکتی ہے؟

میں سائیکل پر چلتا جاتا ہوں۔ اس گاؤں کی ڈسپینسری میں آئے آج دوسرا دن ہے، پرائیویٹ پریکٹس کا پہلا کیس۔ گاؤں میں آنے سے پہلے ایک سینئر ڈاکٹر نے مشورہ دیا تھا، ’’گاؤں میں کسی سے فیس مانگنے کی غلطی مت کرنا۔ مریض کو دیکھ کر اسے اپنی دوا دے کر، انجکشن لگا کر اس کی قیمت کے نام پر پندرہ روپئے وصول کر لینا۔ ادویات اور انجکشن وغیرہ ڈسپینسری میں سے مفت مل ہی جائیں گے تمہیں۔‘‘

مفت میں دیا جانے والا مشورہ، میں نے گرہ سے باندھ لیا۔ ویسے بھی یہاں نیا آیا ہوں۔ گاؤں والوں پر اپنا اثر ڈالنے کا کام پہلے کرنا چاہئے۔ ایک مریض کا علاج اگر بغیر کچھ لئے مؤثر طریقے سے کیا، تو آگے چل کر یہ بات کام آئے گی۔ یہ سب سوچتے ہوئے میں سائیکل چلا رہا ہوں۔ راستہ بار بار اتنی پگڈنڈیوں میں بٹ جاتا ہے کہ اگر میں اکیلا ہوتا تو یقینی طور پر گمراہ ہو جاتا۔ جو لڑکا مجھے لینے آیا تھا، آگے سائیکل چلاتے ہوئے مجھے راستہ بتا رہا تھا۔ اب تک تو شہر کی پکی سڑکوں پر سائیکل چلائی ہے، کچے راستوں پر سائیکل چلاتے ہوئے بالکل ایسا ہی محسوس ہوتا ہے، جیسے سائیکل سیکھنے کے وقت محسوس ہوتا تھا۔ راستے میں مدار کے پودے، ببول اور بیروں کی جھاڑیوں اتنی آگے جھکی ہیں کہ کپڑے پھٹ جانے یا چہرے پر خراشیں آ جانے کا خطرہ بنا رہتا ہے۔

لڑکا تیزی سے سائیکل چلا رہا ہے۔ ان راستوں پر سائیکل چلانے کی اسے تو پریکٹس ہے، پر مجھے اس کا ساتھ دینے میں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ سائیکل کے کیریئر میں ایمرجنسی بیگ بندھا ہوا ہے۔ مجھے شک ہوتا ہے کہ جھٹکے کھا کر اندر کافی کچھ ٹوٹ پھوٹ گیا ہو گا۔ راستے میں سائیکل پر سے اتر کر بیگ کھولنا میری عزت کے خلاف تھا۔ یہی سوچ کر میں آگے جاتے ہوئے لڑکے کو پکڑنے کیلئے سائیکل کے پیڈل پر دباؤ بڑھاتا ہوں۔

پتہ نہیں مریض کتنا پیسے والا ہے؟ کہتے ہیں گاؤں والوں کا، ان کے گھر میں رکھے سامان اور لباس سے اندازہ کرنا بہت مشکل ہے۔ بظاہر بد حال، پرانے کپڑے پہنے ہوئے غریب نظر آنے والے آدمی کی جھونپڑی کے کس کونے میں کتنا مال دبایا گیا ہے، کچھ کہہ نہیں سکتے۔ اگر پتہ چل جائے کہ مریض کیا کرتا ہے، تو اس کی آمدنی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ فیس کی بات نہ بھی سوچوں، پر دوا تو اپنی جیب سے نہ دینی پڑے۔ میں مزید زور لگا کر لڑکے کے بالکل پیچھے پہنچتا ہوں۔

 ’’سائیکل بہت تیز چلاتے ہو بھائی۔ کیا نام ہے تمہارا؟‘‘ میں بات چیت کا سلسلہ شروع کرتا ہوں۔

 ’’ہوری۔‘‘ وہ شرما کر مسکراتا ہے۔

 ’’پڑھتے ہو؟‘‘

 ’’نہیں۔‘‘

 ’’تو کیا کرتے ہیں؟‘‘

 ’’کھیتوں میں کام کرتا ہوں۔‘‘

 ’’یہ مریض کون ہے؟ تمہارا رشتہ دار ہے؟‘‘

 ’’نہیں۔‘‘

 ’’تو؟‘‘

 ’’ہم ایک ہی گاؤں کے ہیں۔‘‘

 ’’اچھا، وہ کیا کرتا ہے؟‘‘

 ’’مزدوری۔‘‘

 ’’دن میں کتنا کما لیتا ہو گا؟‘‘

 ’’تین روپے۔‘‘

 ’’کھانے والے کتنے لوگ ہیں؟‘‘

وہ کچھ سوچ کر جواب دیتا ہے، ’’سات لوگ۔‘‘

 ’’وہ لوگ اس کے کون ہیں؟‘‘

 ’’ماں باپ، وہ خود، گھر والی اور تین بچے۔‘‘

 ’’ان میں سے کوئی اور نہیں کماتا؟‘‘

 ’’گھر والی اور بڑا لڑکا بھی مزدوری کرتے ہیں۔‘‘

 ’’ان دونوں کو کیا ملتا ہے؟‘‘

 ’’ڈھائی روپے بھابھی کو اور دو روپے بڑے کو۔‘‘

 ’’پھر تو اچھی آمدنی ہے ان کی۔‘‘

وہ اداس ہو گیا ہے، ’’مزدوری پورا سال کہاں ملتی ہے صاحب۔ فصل کے چار مہینے ہی تو ملتی ہے۔‘‘

تین، ڈھائی اور دو۔ ساڑھے سات روپے لو جی، سوا دو سو روپے مہینے کے۔ موٹے اناج کی قیمت بھی آج کل دو سو سے کم نہیں۔ گھر کے سات لوگ بمشکل اپنا پیٹ بھرتے ہوں گے۔

مریض کی مالی حالت کا پتا چلتے ہی یہ مشکل سفر، ناہموار راستہ، ارد گرد کا سارا ماحول مجھے انتہائی ناگوار لگنے لگا۔ کیس مل جانے کے نامعلوم خوشی جھنجھلاہٹ میں تبدیل ہونے لگی۔

 ’’تمہارا گاؤں اور کتنی دور ہے؟‘‘

 ’’یہ سامنے ہی ہے صاحب۔‘‘

گنداسیلن بھرا ہوا پنگھٹ، گھونگھٹ سے منہ ڈھکے، سر پر مٹکے لے کر پنگھٹ سے آتی عورتیں ہمیں دیکھ کر ایک طرف ہو گئیں۔

 ’’ہوری کے ساتھ آج یہ جنٹل مین کون ہے؟‘‘

 ’’نئے ڈاکٹر صاحب ہیں۔ دینو کو دیکھنے آئے ہیں۔‘‘

اپنی معلومات کا سکہ جماتی ہوئی ایک آواز پیچھے سے آ کر مجھے چھیڑ جاتی ہے۔

 ’’خاک ڈاکٹر صاحب ہیں۔‘‘ میں دل ہی دل میں بڑبڑاتا ہوں۔

سائیکل مٹی میں دھنس گئی ہے۔ ہوری سائیکل پر بیٹھے بیٹھے ہی زور لگا کر بیس قدم آگے بڑھ گیا ہے۔ میں نے زور لگانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ سائیکل سے اتر کر اپنے ساتھ سائیکل کو بھی گھسیٹنے لگا ہوں۔

میں یہ کیس دیکھنے جا رہا ہوں۔ جتنی محنت ابھی لگ رہی ہے، اتنی ہی واپس لوٹتے وقت پھر کرنی پڑے گی۔ ایمرجنسی بیگ میں اگر کچھ ٹوٹا پھوٹا ہو گا، تو اس کی تلافی جیب سے کرنی پڑے گی۔ مریض کا چیک اپ کرنا ہو گا۔ اسے دوا دینی پڑے گی۔ وقت ضائع کرنا پڑے گا۔ بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟ صرف اور صرف سر کا درد۔ اس طرح ہو رہا ہے میری پرائیویٹ پریکٹس کا مہورت۔

ہوری رک گیا۔ اس کے ساتھ آ کر میں بھی کھڑا ہو گیا ہوں۔ سامنے ایک سائیکل ٹوٹی پھوٹی حالت میں پڑی ہے۔ تقریباً پانچ فٹ اونچی مٹی کی بے ڈھنگی دیواروں، سڑی ہوئی پاٹی، ٹوٹا ہوا چھپر چرمراتے پٹھوں کا بنا ہوا۔ ہر وقت گرنے کو تیار چھپر، باہر یوں نکلا ہوا کہ ذرا سی لاپرواہی سے سر ٹکرا جائے۔ ہوری اپنی سائیکل کو اسٹینڈ پر لگا کر میرے ایمرجنسی بیگ کی جانب لپکتا ہے۔ میں ہاتھ کے اشارے سے اسے روکتا ہوں۔ سائیکل اسٹینڈ پر کھڑی کر کے ایمرجنسی بیگ کیریئر سے نکالتا ہوں۔

ہوری جھونپڑی کے دروازے میں گم ہو گیا۔ اندھیرا اور منحوسیت۔ اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ پٹی یا چوکھٹ سر سے نہ ٹکرائے، میں کچھ جھک کر اندر قدم رکھتا ہوں۔ تیز بدبو کا ایک جھونکا اچانک میرا استقبال کرتا ہے۔ گھبراہٹ میں میرا سر اوپر کی طرف اٹھتا ہے اور زور سے پٹی کے ساتھ ٹکرا جاتا ہے۔ میرے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ خود کو سنبھالتے ہوئے جیب سے رو مال نکال کر ناک سے لگائے رکھتا ہوں۔

بدبو برداشت کرتے ہوئے، دل مضبوط کر کے میں جھونپڑی میں داخل ہوتا ہوں۔ بغیر چادر کی سن کی رسی کی کھاٹ پر اٹھائیس تیس سال کا ہڈی اور گوشت کا پنجر، بے جان سا پڑا ہے۔ پلنگ کے گرد الٹی کی گندگی ہے۔ کٹیا میں سب کچھ بکھرا ہوا پڑا ہے۔ پیوند لگے کپڑے، گول لپیٹے بستر، چکی، مریض کی کوری کھاٹ، گندگی اور قے۔ یہ سب مجموعی طور پر ایک عجیب سا تاثر پیدا کر رہے ہیں۔ ہوری کے بتائے ہوئے خاندان کے تمام افراد مریض کے ارد گرد کھڑے ہیں۔ اس کی بیوی جھونپڑی کے ایک کونے میں، چہرے پر گھونگھٹ ڈالے ہوئے، گھٹنوں میں اپنا سر دبائے بیٹھی ہے۔ بوڑھا باپ غمگین انداز میں پلنگ کے ایک طرف بیٹھا ہے۔ بوڑھی ماں اور تین بچے پلنگ کے پائیتانے کی طرف بیٹھے ہیں۔

میرے اندر گھستے ہی بوڑھا اپنی جگہ پر کھڑا ہو جاتا ہے اور بڑھیا جھونپڑی میں قائم ماتمی خاموشی کو توڑتی ہوئی میری طرف بڑھتی ہے، ’’میرے بیٹے کو بچا لو، ڈاکٹر صاحب۔‘‘

ناقابل برداشت بدبو کو برداشت کرنے کی کوشش کرتے، بڑھیا کی التجا کرتی ہوئیں آنکھوں اور ڈاکٹر صاحب کا خطاب مجھ میں جھنجلاہٹ کا سبب پیدا کرتا ہے۔ بڑھیا کو ڈانٹنے کو جی کرتا ہے۔ اسی وقت مریض کھاٹ کی لکڑی پر سینہ لگا کر الٹی کرتا ہے۔ چھینٹوں سے بچنے کے لیے میں فوری طور پر دو قدم پیچھے ہٹ جاتا ہوں۔ پھر دھیان دیتا ہوں کہ زمین پر پڑی مٹی میں خون کی مقدار بڑھ گئی ہے۔

گندگی سے بچتے ہوئے میں مریض کے قریب جاتا ہوں۔ ایمرجنسی بیگ کھول کر ٹارچ نکالتا ہوں۔ کٹیا میں اندھیرا اور بے پناہ سیلن ہے۔ بغیر ٹارچ جلائے ایمرجنسی بیگ کی اندر سے بے حال حالت دیکھنا بھی ممکن نہیں۔

ٹارچ جلاتا ہوں، غنیمت ہے کہ ایمرجنسی بیگ میں سب کچھ سلامت ہے۔ مجھے تسلی ہوتی ہے کہ نقصان لگتے لگتے رہ گیا ہے۔ اب پر سکون ہو کر ٹارچ کی روشنی مریض کی آنکھوں پر ڈالتا ہوں۔ دیکھتے ہی چونک جاتا ہوں۔ لگتا ہے پانی کی کمی کی وجہ سے کسی بھی وقت اس کا دم نکل سکتا ہے۔

 ’’کب سے تکلیف ہے؟‘‘ میں محتاط ہو گیا ہوں۔

 ’’کل رات سے دست اور الٹیاں ہیں۔ پانی کی ایک بوند بھی پیٹ میں نہیں ٹکتی۔‘‘

 ’’کل کتنی بار الٹیاں کی ہیں؟‘‘

 ’’بار بار آ رہی ہیں، ڈاکٹر صاحب۔‘‘ بوڑھی عورت نے بے بسی سے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا۔  ’’اب تو خون بھی آ رہا ہے۔‘‘ اس کی آواز بھرّا گئی۔

انٹراوینس گلوکوز اس کی پہلی ضرورت ہے۔ ایمرجنسی بیگ کھول کرا سٹیتھیسکوپ نکالتا ہوں۔ چیک کرتے ہوئے ہدایت کرتا ہوں، ’’کسی صاف برتن میں پانی گرم کرو اور یہ زمین بھی صاف کر دو۔ باہر سے مٹی لا کر اس پر ڈال دو۔‘‘

اچانک مجھے ہوش آتا ہے۔ یہ کیا کر رہا ہوں میں؟ یہاں سے فیس ملنے کی امید تو نہیں ہے، محنت کو بھی گولی مارو۔ مگر کیا انٹراوینس انجکشن بھی اپنی جیب سے لگانا ہو گا؟ ایسا ہی اگر کرتا رہا تو ہو گیا یہاں کام۔ الٹی بند کرنے کا انجکشن اسے پہلے لگانا پڑے گا، جو ڈیڑھ دو روپے کا ہے۔ پر گلوکوز کے انجکشن تو مہنگے پڑ جائیں گے۔

 ’’میں نسخہ لکھ کر دیتا ہوں، تم جلدی سے جا کر لے آؤ۔ پندرہ بیس روپے ساتھ میں لے جانا۔‘‘ اسٹیتھیسکوپ کو سمیٹتے ہوئے میں ہوری سے کہتا ہوں۔

بوڑھے، بڑھیا نے مجبور نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ میں دل میں سوچتا ہوں، ’’ارے تو کیا، تمہاری دوا کا پیسہ بھی ڈاکٹر ہی دے، ہوں۔۔۔‘‘

میں خود کو نسخہ لکھنے میں مصروف رکھتا ہوں۔ پرچی ہوری کو دیتا ہوں۔ بڑھیا، ہوری کو ساتھ لے کر کٹیا کے باہر نکل جاتی ہے۔ باہر سے سرگوشی سنائی دیتی ہے۔ پھر آواز آتی ہے، ’’بہو باہر تو آنا۔‘‘

مریض کی گھر والی پہلی بار اپنی جگہ سے ہلی ہے، اب تک میلے کپڑوں کی گٹھری کی طرح کونے میں پڑی تھی۔ اٹھتے ہی اس کے پاؤں میں پڑے چاندی کے دو موٹے کڑے آپس میں ٹکرا کر آواز پیدا کرتے ہیں۔ جلد ہی بوڑھے کو بھی پکارا جاتا ہے۔ ان تین کمزور بچوں کی موجودگی کے باوجود بھی مجھے، بوڑھے کے باہر جاتے ہی جھونپڑی میں سناٹے کا احساس گھیر لیتا ہے۔ موت سا سناٹا۔

بڑھیا اور اس کی بہو اندر آتی ہیں۔ اس بار آواز نہ سن کر میں اس کے پاؤں کی طرف دیکھتا ہوں۔ وہاں کڑے نہیں ہیں۔ بوڑھا شاید ہوری کے ساتھ چلا گیا ہے۔

میری ہدایتوں پر عمل کیا جا رہا ہے۔ بڑھیا باہر سے مٹی لا کر کھاٹ کے ارد گرد بچھا رہی ہے۔ اس کی بہو المونیم کی کٹوری میں پانی بھر کر باہر گئی ہے۔ میں سرنج اور نیڈل لے کر باہر آتا ہوں۔ الموینم کی کٹوری جلتے ہوئے اوپلوں پر رکھی ہوئی ہے۔ میں جھک کر دیکھتا ہوں کہ پانی صاف ہے یا نہیں، پھر سرنج اور نیڈل پانی میں ڈال دیتا ہوں۔

 ’’کٹوری کو کسی ڈھکن سے ڈھک دو۔‘‘ میں اندر آتے ہوئے کہتا ہوں۔

اسی وقت ہی مریض الٹی کرتا ہے۔ پہلے کی طرح میں جھٹکے سے پیچھے ہٹتا ہوں، پر اس بار کچھ چھینٹے میری جینس کو خراب کر دیتے ہیں۔ غصے بھری نظروں سے پہلے ہانپتے ہوئے مریض کو اور پھر بڑھیا کی طرف دیکھتا ہوں۔ میری آنکھیں بڑھیا کی آنکھوں سے ٹکرا جاتی ہیں۔ اس کی آنکھوں میں تکلیف، مایوسی، التجا، مجبوری اور بے بسی جھلک رہی ہے۔ نہ جانے کیوں اس کی آنکھوں مجھے اندر تک سوراخ کرتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ میں جیب سے رو مال نکال کر خون صاف کرنے لگا ہوں۔ جینس پر خون کے داغ ہیں۔ ابھی ابھی کی گئی الٹی کی طرف دیکھتا ہوں، وہاں بھی خون کے علاوہ کچھ نہیں۔

 ’’اس کی قے میں خون کیوں آ رہا ہے، ڈاکٹر صاحب؟‘‘ بڑھیا نے بے حد گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔

اگر بیگ سے گلوکوز کا انجکشن نکال کر میں نے اسے نہیں لگایا تو وہ مر جائے گا۔ مرضی کے خلاف میرے ہاتھ بیگ کی جانب بڑھے ہیں۔ پر جلد ہی خود کو روک لیتا ہوں۔ میرا تو پیشہ ہی ایسا ہے، کس کس پر رحم کروں گا؟ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا، پیٹ کیسے بھرے گا؟

بڑھیا جواب نہ پا کر مٹی لینے کے لئے پھر باہر چلی گئی ہے۔ اس کی بہو نے ابلتے پانی کا کٹورا لا کر میرے سامنے رکھا ہے۔ میں بیگ کھول کر الٹی روکنے کے انجکشن لگانے کی تیاری میں لگ گیا ہوں۔

بڑھیا ہلکے ہاتھ سے مٹی بچھا رہی ہے۔ اس کی بہو دوبارہ جا کر کونے میں بیٹھ گئی ہے۔

 ’’ہوری گیا؟‘‘ بڑھیا کی آواز سن کر میں دروازے کی طرف دیکھتا ہوں۔ بوڑھا لوٹ آیا ہے۔ سفید بالوں والا اس کا سر ’’اثبات‘‘ میں ہل رہا تھا۔

انجکشن تیار کر کے، ٹارچ جلائی۔ بوڑھے کو ٹارچ کی روشنی دکھانے کا کہہ کر، میں نے اسے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا۔ مریض کی نس پکڑی۔ بوڑھے سے بازو پکڑوایا اور میں نے انجکشن نس میں ڈالا۔ خون سرنج میں آنے لگا۔ میں آہستہ آہستہ انجکشن لگانے لگتا ہوں۔

 ’’ہوری کتنی دیر میں آئے گا؟‘‘ میں بوڑھے سے پوچھتا ہوں۔

 ’’جلد ہی آ جائے گا۔‘‘ وہ رندھے لہجے میں جواب دیتا ہے۔

 ’’اماں، پانی۔‘‘ مریض نے سرگوشی میں کہا۔ بوڑھی عورت پانی لینے کے لیے لپکتی ہے۔ میں اسے روکتا ہوں۔

 ’’نہیں، ابھی پانی مت دو۔ ورنہ پھر الٹی کرے گا۔‘‘

بڑھیا رک گئی۔ لڑکاپیاسی نگاہوں سے ماں کی طرف دیکھ رہا ہے۔ آنکھیں چراتے ہوئے وہ بیٹے کے سرہانے جا کر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔

لڑکے کی پیاسی آنکھیں پھر اوپر اٹھ کر ماں کو تکنے لگیں۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا۔ انگلیاں پھیرتے پھیرتے بڑھیا بیٹے کی پیشانی پر جھک آئی ہے۔ ’’ٹپ ٹپ‘‘ آنکھوں سے نکل کر دو آنسو سیدھے اس کے بیٹے کے منہ میں جا کر گرے۔ لڑکے نے زبان کو ہونٹوں پر پھیرنے کی کوشش کی ہے اور اچانک اس کی آنکھیں گھوم جاتی ہیں۔ سر جھٹکا کے ساتھ بائیں جانب لڑھک گیا ہے۔ میں جلدی سے اس کے دل پر جھک کر، ہاتھ سے نبض پکڑنے کی کوشش کرتا ہوں۔ وہاں کچھ بھی نہیں ہے، پتھرائی آنکھوں میں پیاس لئے، ایک بے جان جسم میرے سامنے ہے، اور بس۔

ایک دردناک چیخ کے ساتھ بڑھیا بیٹے کے اوپر گر پڑی ہے۔ بوڑھے نے زمین پر بیٹھ کر کھاٹ کی لکڑی پر اپنا سر رکھ دیا۔ بہو دوڑتی آئی ہے اور اس سے لپٹ کر ماتم کرتی، رو رہی ہے۔ بڑوں کو روتے دیکھ کر چھوٹے بھی زور زور سے رونے لگے ہیں۔ کٹیا میں کہرام مچ گیا ہے۔

سر جھکائے میں باہر نکل گیا ہوں۔ رونا دھونا لوگوں کو متوجہ کرنے لگا ہے۔ آنے والوں میں سے ایک نے ہچکچاتے ہوئے مجھ سے پوچھا، ’’دینو۔۔۔ دینو۔۔۔ مر گیا کیا؟‘‘

میرے جواب ملنے کا انتظار کرنے سے پہلے ہی وہ جھونپڑی میں گھس گیا ہے۔ میں یہاں سے، اس ماحول سے، اس گاؤں سے جلد از جلد دور نکل جانا چاہتا ہوں۔ پہلا کیس، وہ بھی مر گیا۔ فیس بھی گئی۔ جیب سے انجکشن لگایا، جینس خراب کی، اتنا کرنے کے بعد بھی بدنامی حصے میں آئے گی۔

اندر جانے کی خواہش بالکل نہیں ہے۔ مگر ایمرجنسی بیگ کٹیا میں ہی رہ گیا ہے۔ اندر جانا پڑ رہا ہے۔ وہاں رونے دھونے اور تسلی بھرے دلاسوں کا طوفان برپا ہے۔

کھڑے ہوئے لوگوں میں سے ایک نے میری طرف دیکھا ہے۔ میں نے موقع کا فائدہ اٹھایا، ’’میرا بیگ اٹھا کر دو۔‘‘

بوڑھے کا سر اب بھی کھاٹ پر جھکا ہوا ہے۔ میری آواز سن کر وہ اوپر دیکھتا ہے۔ میں بیگ لے کر باہر نکلتا ہوں، تو وہ بھی میرے پیچھے چلا آتا ہے۔ میں تعزیتی انداز میں کہتا ہوں، ’’مجھے افسوس ہے بابا، میں تمہارے بیٹے کو نہ بچا پایا۔‘‘

 ’’موت کو آج تک کون روک پایا ہے ڈاکٹر صاحب۔‘‘ کہہ کر وہ سسک سسک کر رونے لگا۔

میں بھی گم صم اس کے برابر میں کھڑا رہا ہوں۔ جلد ہی خود کو سنبھال کر، وہ دھوتی کے کونے سے اپنے آنسو پونچھ لیتا ہے۔ پھر انتہائی مغموم لہجے میں کہتا ہے، ’’ڈاکٹر صاحب۔ ہم غریب آپ کی اور کوئی خدمت نہیں کر پائے۔ مگر۔۔۔۔‘‘

پھر دھوتی کی تہوں میں احتیاط سے بندھے ہوئے ایک پانچ اور ایک دو روپے والا نوٹ اپنے دائیں ہاتھ سے نکال کر میری طرف بڑھاتا ہے۔ دائیں ہاتھ کو چھوتی بائیں ہاتھ کی انگلیاں اس کی عقیدت کے جذبات کا اظہار کر رہی تھیں۔

بہو کے کڑے بیچ کر انجکشن کیلئے روپے دینے کے بعد، باقی سات روپے میری فیس۔۔۔ اور کفن۔۔۔؟ اندر پڑی ہوئی لاش کا کفن کہاں سے آئے گا؟

میں جھٹکے سے سائیکل لے کر بھاگ نکلتا ہوں۔

اور اب لیٹے لیٹے سوچ رہا ہوں، میرے ایمرجنسی بیگ میں رکھے گلوکوز کے انجکشن کی قیمت کیا اتنی زیادہ ہے؟ ایک زندگی؟

***

 

 

 

 

کوکھ

 

ارُونا جیٹھوانی

 

 

یہ اس کا آخری بار منالی جانا تھا۔

منالی ایک پڑاؤ تھا، جسے وہ گزشتہ اٹھارہ سال سے ٹالتی چلی آ رہی تھی، پر آج حالات اور تھے۔ اس کی شادی ہو چکی تھی اور اسے چھ ماہ کا حمل تھا۔ ان پچھلے چھ مہینوں میں بہت سارا پانی جذبات کے پل کے نیچے سے بہہ گیا تھا اور وہ اپنے والد کے ساتھ منالی پہنچی تھی۔ یوں کہیں کہ اپنی ماں کے گھر۔

ایسا نہیں ہے کہ ماضی زمانے کی ساری تلخیاں ختم ہو گئی ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ اس کے زخم اب سوکھ چکے ہیں، آج وہ ہر چیز بالکل الگ نظریئے سے دیکھ سکتی تھی۔

ہوٹل بیاس کی بالکنی میں کھڑی سونیا، اپنے بچپن کی آوازیں اپنے چاروں جانب گونجتی ہوئی سن سکتی تھی۔

  ’’میں اماں کے پاس کبھی نہیں جاؤں گی، میں ان انکل کے ساتھ کبھی نہیں جاؤں گی۔ میں دونوں سے نفرت کرتی ہوں۔‘‘ وہ اپنے اندر زہر لئے پھر رہی تھی۔ جیسے ہی اس نے اپنے بچپن کے جذبات، تلخ تجربات پر توجہ دی، تو گرجتی بیاس ندی کے بہاؤ کی جانب اس کا دھیان گیا۔ وہ گھماؤ دار راستوں سے، چھلتی، سر پٹکتی، پہاڑی مقامات سے شور مچاتی، بلوریں چمکتی برف کو ساتھ لئے، بے انتہا خوشی اور اطمینان سے گنگناتے ہوئے آگے بڑھتی رہی تھی۔

 ’’پیاری سونیا، کیا تم تیار ہو؟ کاکا کا ٹرک کسی بھی لمحے یہاں پہنچ سکتا ہے، تم کو لے جانے کے لئے۔‘‘ سیم مُنچس، اس کے باپ نے اپنے کمرے سے آواز دی۔ سونیا جھٹکے سے اپنے خیالوں کی قید سے نکلی۔ اس نے ایک بھیڑ کو دریا کے پار سردی سے کپکپاتے ہوئے دیکھا۔ اس نے پہاڑوں کی پناہ میں ان جھونپڑیوں کا جمگھٹ دیکھا، جو دھوئیں کی کالی تہوں سے لپٹی ہوئی تھیں۔

 ’’آ رہی ہوں پاپا۔‘‘ اس نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد جواب دیا۔ اپنی آنکھوں سے دھند کو ہٹاتے ہوئے، اس نے اپنا پرس کھولا اور ایک پرانا پیلے کاغذ کا ٹکڑا ڈھونڈ نکالا۔ وہ گرمی کے موسم میں خشک پتے کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا تھا۔ یہ اس کی ماں کا لکھا ہوا خط تھا، جو اس نے اس کی بارہویں سالگرہ پر بھیجا تھا۔ اس نے اسے ایک بار پھر پڑھا۔

 ’’میری سب سے انمول بیٹی، میں کس طرح تمہیں اپنے پیار کا یقین دلاؤں؟ ، ماں کی محبت تو دریا کی طرح لامحدود ہوتی ہے۔ تم تو میرے خون اور پوست کا حصہ ہو۔ ناف کا رشتہ ابھی مضبوط اور سلامت ہے۔ اگر تم اپنے باپ کے ساتھ ان گرمیوں کی چھٹیوں میں آؤ گی، تو مجھے بے پناہ خوشی ہو گی۔ مجھ پر یقین کرو کہ سیم اور میں اب بھی اچھے دوست ہیں۔ جب وہ آتا ہے، تو سب کچھ حسین اور خوبصورت ہو جاتا ہے، لیکن تمہاری غیر موجودگی ایک اداسی بھر دیتی ہے۔ تمہارا نہ آنا ہمیشہ کھلتا ہے۔ کاش، تم آ پاتیں۔ میں تمہیں دیکھنے کے لئے تڑپتی ہوں۔ صرف ایک بار۔۔۔ پیار، مما۔‘‘

اسے یاد تھا، منالی میں فقط ماں کے ذکر سے ہی وہ بہت غصے میں آ گئی تھی۔ وہ چیخنے لگی تھی، اس نے آئینہ توڑ دیا تھا، اس نے دیواروں کو بھی اپنے بے لگام غصے میں لاتیں ماری تھیں۔ سیم، اس کے والد نے اسے آئس کریم، چاکلیٹ اور اس کے کزنز کے ساتھ پکنک پر لے جا کر اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی تھی۔

 ’’سونا میری بچی۔‘‘ اس کے والد سیم نے پھر آواز دی۔ جھٹکے سے اسے جیسے ہوش آ گیا اور اسے احساس ہوا کہ وہ ابھی تک تصویر کو تھامے ہوئے تھی۔ برف کی ہلکی سی پرت اس کے جسم پر تھی اور ہوائیں بھی برف کی طرح سرد تھیں۔ وہ گرم کمرے کی طرف مڑی۔ اس کے والد ابھی بھی وہ باسی اخبار پڑھ رہے تھے، جو انہوں نے ٹرین میں خریدا تھا۔ اس نے اپنے پاؤں جھٹکے، اپنے اونی مفلر کو گلے کے ارد گرد سیٹ کیا اور پھر وہسکی کے آخری پیگ کو ختم کیا۔

 ’’ٹرک کسی بھی وقت یہاں آ سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے کنکھیوں سے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

اس نے اپنے ہونٹوں کو بند کر لیا۔

 ’’سونیا اب تم مجھے شرمندہ مت کرنا۔‘‘ ایک پوشیدہ خوف ان کی آنکھوں سے عیاں تھا۔

  ’’ڈیئرسونیا، تم نے وعدہ کیا تھا کہ تم پیچھے نہیں ہٹو گی۔ تمہاری مما بیتابی سے تمہارا انتظار کر رہی ہیں۔‘‘ وہ آنسوؤں کے بیچ مسکرانے کی کوشش کر رہا تھا۔

 ’’نہیں پاپا، کبھی نہیں۔‘‘ ایسا کہتے ہوئے اس نے اپنی بانہیں سیم کے چاروں طرف پھیلا دیں اور انہیں چوم لیا۔

 ’’پاپا، میں مما سے ملنا چاہتی ہوں، میں یقینی۔۔۔‘‘ اس نے لفظوں کو اپنے اندر دباتے ہوئے کہا۔

سیم نے اس کی آنکھوں میں دیکھا، ’’سونیا تم نے کبھی ایک بار بھی یہ نہیں پوچھا کہ کیوں میں نے تمہاری ماں ڈولی کو کاکا کے ساتھ شادی کرنے دی۔‘‘

یہ وہ سوال تھا جو پاپا نے کل رات ٹرین میں بھی اس سے کیا تھا۔ تب اس نے اپنے کندھے اچکا کر اپنا دھیان سرسوں کے کھیتوں کی جانب لگا دیا تھا، جو ٹرین سے پیچھے بھاگتے نظر آ رہے تھے۔ اس نے اپنی توجہ ہماچل پردیش کی کھنڈرات پر، سمادھیوں پر، پہاڑیوں پر، مندر اور برف سے ڈھکے پہاڑوں پر چمکتی سورج کی کرنوں پر مرکوز کر دی تھی۔

 ’’یہ فیصلہ اتنا آسان نہیں تھا۔‘‘ سیم نے اس کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا، ’’پر جس دن مجھے احساس ہوا کہ تمہاری ماں کاکا سے محبت کرتی ہے، میں نے اسے جانے دیا۔ وہ اس کی پہلی محبت تھی، اس کا حق پہلے تھا۔‘‘

سونا کو ان باتوں کا علم تھا کہ اس کی ماں کسی خوبصورت نوجوان کے ساتھ پیار تھا، جو بھیڑوں کے مویشی فارم کے بارے میں پڑھنے آسٹریلیا چلا گیا تھا۔ وہ پانچ سال سے زیادہ وہاں رہا۔ اسی دوران ڈولی کے عمر رسیدہ دادا، دادی نے اسے سیم کے ساتھ شادی کرنے پر مجبور کیا، مگر پہلے پیار کی یہ دلیل اور اس کا دعوی کرنا، اس کے حلق کے نیچے نہیں اتر رہا تھا۔ نہ ہی یہ تصور میں تھا کہ اس کا باپ اب بھی اس کی ماں کا دوست ہے۔ یہ کس طرح کا سہ رخی تعلق ہے۔ وہ سوچتی رہی،  ’’ڈیئر، کاکا یہاں کسی بھی لمحے آ سکتے ہیں۔‘‘ سیم نے اخبار کو لپیٹتے ہوئے کہا۔ سونیا نے لمحے بھر کے لئے غیر اطمینان بخش نظروں سے دیکھا۔ کتنی آسانی سے ’’کاکا‘‘ کا نام ان کی زبان پر آیا، اس آدمی کا، جس نے ان کی پیٹھ میں خنجر گھونپا تھا۔

 ’’پاپا، واقعی اچھے انسان ہیں، جس نے اپنی بیوی اس شخص کو سونپ دی، جس سے وہ پیار کرتی تھیں اور وہ اب دوستی کے ٹکڑوں پر جی رہے ہیں۔‘‘ وہ غور و فکر کرتے ہوئے باتھ روم کی طرف چلی گئی۔

 ’’کاکا۔‘‘ اس میں اب بھی اُس کیلئے کچھ کڑواہٹ موجود تھی۔ وہ آدمی آسٹریلیا سے آ کر ایسے کیسے اس کی ماں کو اس سے اور اس کے باپ سے چھین سکتا ہے۔

باتھ روم میں اس نے اپنے ننگے جسم کی پرچھائیں دیکھی۔ اس کا پیٹ اب واضح طور پر باہر آ گیا تھا۔ لڑکا یا لڑکی۔۔۔ اس نے اور اس کے شوہر اروند نے شرط لگائی تھی۔۔۔ اروند۔۔۔ اس کو اب اس کی ضرورت تھی۔

وہ ہزاروں میل دور تھی، اپنے شوہر اروند سے۔ پھر بھی وہ اس کے پاس تھا۔ یہ ایک جنون تھا، ایک پاگل پن تھا۔ جذبات کا ایک وہرل پول، ایک روح جو پاگل پنے کی حد تک دوسرے کی چاہت رکھتی ہے۔ کیا وہ اسے چھوڑ سکتی ہے؟ کیا اگر پاپا اس کی شادی کسی اور کرنے کا فیصلہ کر لیں، جو معاشرے میں اعلی مقام پر ہو۔ نہیں، نہیں کبھی نہیں۔

  ’’ماں۔۔۔‘‘ وہ بڑبڑائی،  ’’میں تم کو سمجھ رہی ہوں۔۔۔ بالکل سمجھ رہی ہوں۔‘‘ وہ صرف اپنی ماں اور کاکا کے درمیان محبت ہی نہیں سمجھ رہی تھی، اسے بھی اچھی طرح سمجھ رہی تھی کہ بچے دانی میں موجود بچہ اسے اپنی ماں کی جانب کھینچے جا رہا تھا۔ وہ کوکھ جس میں زندگی کو لہرانا ہے۔۔۔ وہ اپنی ماں کا ہاتھ پکڑنے چاہتی تھی۔

دروازے پر ایک زوردار دستک سنتے ہی اس نے جلدی سے کپڑے بدلے۔ ایک ڈھیلا سا جھبلا اور اوپر سے ایک پل اوور۔ کچھ دھیمی آوازیں آئیں تھی، شاید کاکا آ گئے تھے۔ وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی۔ ہوٹل کے باہر خندقوں میں سلگتی آگ، بلوط کے درختوں کے تلے دمک رہی تھی۔ جیسے ہی وہ ناہموار پہاڑی راستے پر سفر کرتے پہنچے، اس کی سوچ تیزی کے ساتھ اروند کی طرف گئی، اس کا خوبصورت چہرہ، بھوری آنکھیں، دھرتی کی طرح بھورا۔ وہ محبت کے جال میں کب پھنسی تھی؟

اٹھارہ ستمبر، شام کے آٹھ بجے کلب میں۔ اسے ایک نظر دیکھا، خواہش کا احساس، محبت کا جلوہ اور پیار کی شدت، چوری چھپے سفر کرتی، اس کے دل کی کھڑکی کھول گئی۔ وہ ایک معجزاتی لمحہ تھا۔ ایک سوغات کا لمحہ، بیداری کا لمحہ، ایک جگاتی ہوئی آواز، عجیب باب، ایک پیاسی بدری کی طرح، جو بارش کو ترستی، تڑپتی ہے۔ کچھ ایسا ہی پیار تھا، اسے اپنے شوہر اروند کیلئے۔ ہو سکتا ہے ایسا ہی پیار ماں کو کاکا سے بھی ہو۔

جیسے ہی جیپ ٹیلے پر پہنچی، کاکا نے دھند کو دیکھتے ہوئے کہا، ’’یہ مِنکرم کی برفیلی پہاڑیاں ہیں۔‘‘ سونیا نے مڑ کر پیچھے دیکھا اور ان کی نظریں ملیں۔ کیا اس نے اروند کا عکس دیکھا ان آنکھوں میں؟

 ’’سونیا، ہم سب تمہاری ماں سے محبت کرتے ہیں۔ تم ایک مہربانی کرنا، اسے تکلیف نہ پہچانا۔‘‘

اس کی آواز مدھر تھی، دیودار کی خوشبو کی طرح۔ ان کی جیپ برف سی خاموشی کے ساتھ چلتی رہی تھی۔ جب تک وہ ایک چھوٹے سے قلعے پر نہیں پہنچے، جو اونچائی پر بنا ہوا تھا۔ کاکا نے اس کے کندھے کو تھپتھپایا۔ وہ ایک شاہی راستے پر چلتے رہے۔ ایک عورت جامنی رنگ کے دوشالے میں لپٹی ہوئی، دروازہ کھول رہی تھی۔

گھر کے اندر کا ماحول گرم تھا۔ چمنی میں لکڑیاں جل رہی تھیں۔ فائر پلیس کے اوپر فریم شدہ تصاویر خوبصورت طریقے سے سجائی ہوئی تھیں۔ اس کے سامنے جھولنے والی کرسی تھی، جس پر شاید اس کی ماں بیٹھتی ہوں گی اونی سوغاتیں بنتے ہوئے، اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے، جب وہ فارغ ہوتی ہوں گی۔

قلعے کی راستے اور گلیارے جانے بِنا، وہ بھاگی بغیر وقت ضائع کئے، وہاں، جہاں اس کی ماں بیمار پڑی ہوئی تھیں۔

 ’’ماں، میں آ گئی ہوں۔‘‘ وہ روئی، جیسے ہی اس نے اپنی ماں کے کمرے کا دروازہ کھولا۔ ایک مرجھائی، اداس عورت مایوسی کی چادر اوڑھے، شیشے اور لکڑی کے نفیس کام والے پر شکوہ بستر پر لیٹی تھی۔ سونیا اس کی طرف لپکی۔

 ’’ماں۔۔۔ ماں۔‘‘ سونیا نے اس کے چہرے کو بوسہ دیا اور آنسوؤں سے تر کر دیا۔ دو مرد کھڑے ہو کر اس جذباتی ملن کو دیکھ رہے تھے۔ دو عورتوں کے درمیان، ایک عمر رسیدہ اور ایک نوجوان۔ ایسا لگتا تھا جیسے بیاس دریا کا زور مارتا پانی پہاڑوں کے درمیان ایک تنگ درے سے نکل رہا ہو۔

چائے کے بعد، سونیا ماں کے بستر پر ایک آرام دہ جگہ پر بیٹھی۔ وہ خود کو گرم اور محفوظ پا رہی تھی۔ وہ سوچ کر حیران تھی کہ وہ کیسے اس عورت سے، اپنی ماں سے نفرت کر پائی گی، جو دیکھنے میں نازک اور پاکیزہ تھی، گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح۔ اس کی ماں نے سرگوشی کی، ’’سونیا، میں نے اس دن کا بہت انتظار کیا ہے۔ مجھے پتہ تھا کہ تم کسی دن جب خود پیار کرنے لگو گی، تو سمجھ سکو گی کہ اس کی طاقت کیا ہے؟ ڈئیر، کیا تم پیار کے بارے میں بہت ہی انوکھا، منفرد سچ جانتی ہو؟‘‘ اس کی ماں نے پوچھا۔

  ’’ہاں مما، ایک کے پیار کی چنگاری دوسری کو جلانے لگتی ہے۔‘‘

اور اس نے اپنی ماں کو دوبارہ چوما۔ پیٹ کے اندر بچے نے اسے زور سے لات ماری۔

 ’’آؤ سونیا، چلو ہم سیر کریں پچھواڑے کے جنگل کی۔‘‘ کاکا نے کہا اور سونیا کو قلعے کے پچھواڑے کا رستہ دکھانے لگے۔ سیم اور ڈولی کمرے میں رہ گئے۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے۔ انہیں خوشی تھی کہ ان کی بیٹی کا اب ماں سے ملن ہو گیا ہے۔ یہ ملن دلوں کو نم کرتا رہا اور گزشتہ برسوں کی دھول کو صاف کرتا رہا۔

پچھواڑے میں دیودار کے درختوں کا ایک گھنا جنگل سا تھا۔ اٹھارہ دیودار کے درخت مختلف عمروں کے، ایک کراماتی کولالج بن کر محبت کا اظہار کر رہے تھے، منالی کی برفیلی پہاڑی پر۔ ہاں، محبت کا کولاج، کیونکہ ہر ایک درخت پر سونیا کی پیدائش کی تاریخ ٹنگی ہوئی تھی۔ سونیا کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ وہ اندر گہرائی تک اس پیار کے آنچ محسوس کر رہی تھی۔ اس کی آنکھیں تر تھیں۔ ہر سال اس کی ماں نے ایک درخت لگایا تھا، دیودار کا درخت، اس کے پیار کا تحفہ، اس کی سالگرہ کا جشن منانے کیلئے، جب بیٹی ماں سے میلوں دور تھی۔ وہ بیٹی جس نے اپنے بچکانے برتاؤ اور غصے سے فاصلے پیدا کئے تھے۔ وہی فاصلے کوکھ میں پنپ رہی نئی جان نے اتنی خوبصورتی سے پاٹ دئے۔

***

 

 

 

 

لالٹین، ٹیوب لائٹ اور فانوس

 

موتی لال جوتوانی

 

 

جیسے ہی منوہر لال ’’اڈیرو لال کرپا‘‘ نامی کوٹھی کے بیرونی فولادی پھاٹک پر پہنچا، ویسے ہی اس نے دیکھا، گوپال کی کار اس دروازے تک پہنچ گئی تھی اور وہ اس کے اندر داخل ہو رہی تھی۔

ڈرائیور نے گاڑی کی ہیڈ لائٹ کی روشنی میں دیکھا، اس دروازے تک آیا ہوا وہ شخص اس کے مالک کا پرانا دوست اور رشتہ دار، پروفیسر منوہر لال تھا۔ اس نے ان دونوں کے باہمی تعلق کو مد نظر رکھ کر، کار کو وہیں روک دیا، تاکہ اس کا مالک گوپال، پروفیسر منوہر لال کو اندر پورٹیکو تک گاڑی میں بٹھا کر لے جائے۔

کار کی رفتار کم ہونے پر گوپال نے بھی منوہر کو دیکھا اور اپنے ڈرائیور کے دل کی بات کو بھانپ کر اس سے کہا، ’’نہیں، گاڑی تم اندر لے چلو، منوہر خود باقی بچا فاصلہ چل کر کوٹھی میں آ جائے گا۔‘‘

اس دروازے کے دونوں کناروں پر لگے بجلی کے فانوسوں کی روشنی میں منوہر لال سے بھی گاڑی میں بیٹھا ڈرائیور اور اس کا مالک گوپال چھپے نہ رہ سکے۔

  ’’ایک ہی لمحے میں تین انسان ایک دوسرے کے لئے انجان نہیں رہے۔‘‘  منوہر لال نے سوچا،  ’’ڈرائیور جانتا تھا کہ گوپال سے اس کا کیا رشتہ ہے، لیکن گوپال ایسی جان پہچان کو آہستہ آہستہ بھولتا جا رہا ہے۔ شاید اس کیلئے وہ خود بھی ذمہ دار نہیں ہے۔ اس کے حالات ہی کچھ ایسے ہیں۔‘‘

پھاٹک سے پورٹیکو تک جاتے ہوئے، منوہر کے ذہن کے آئینے میں کچھ یادیں جاگ اُٹھیں۔ ان یادوں میں لالٹین، ٹیوب لائٹ اور فانوس کے تین بلب آپس میں ٹکرا کر ایک عجیب ساماحول پیدا کر رہے تھے۔

سن انیس سو تریپن میں، دہلی کے پرانے قلعے کے پناہ گزین کیمپ میں رہنے والے دو دوست گوپال اور منوہر، لودھی روڈ کے سندھی اسکول میں ساتھ پڑھتے تھے۔ رات کو ایک ہی بیرک میں لالٹین کی روشنی میں وہ دونوں ماسٹروں کی جانب سے دیا گیا ’’ہوم ورک‘‘ کرتے تھے۔ دونوں دوستوں کے والد بھی پیچھے سندھ کے ایک ہی گاؤں میں، ساتھ ساتھ بیتائی زندگی کے دنوں سے آپس میں دوست تھے اور ان کے بوڑھے چہروں پر لالٹین کی دھیمی دھیمی روشنی پھیلی تھی۔ انیس سو اکسٹھ میں منوہر نے دہلی یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا اور آگے چل کر وہ ایک کالج میں سندھی کا پروفیسر مقرر ہوا۔ گوپال اپنے ماما جی کے ساتھ دھندہ کرنے لگا، اس دھندے میں اس نے خوب دولت کمائی۔

تھوڑے دنوں بعد منوہر کے گھر والے، پناہ گزین کیمپ چھوڑ کر دہلی کے کسی مضافاتی علاقے میں جا کر بس گئے۔ انہوں نے وہاں ایک سو گز کا مکان خریدا تھا۔ لیکن گوپال کے گھر والے نے بڑے بڑے ساہوکاروں کی بستی میں قسطوں پر ایک پلاٹ خریدا۔ اور اس پر دو تین کمرے بنا کر رہنے لگے تھے۔ چونکہ ابھی تک دونوں گھروں میں متوسط گھرانے کا ماحول تھا، گوپال کی اور اس کیا پنی شادی بھی تھوڑی کم پڑھی لکھی، لیکن کھانے پکانے اور سینے پرونے میں ماہر، سلیقہ شعار لڑکیوں کے ساتھ ہوئی۔ وہ دونوں لڑکیوں آپس میں ماموں زاد بہنیں تھیں اور ان دونوں کے گھروں کی طرح ان کے چہروں پر بھی ٹیوب لائٹ کی نرم نرم روشنی پھیلی تھی۔

انیس سو تہتر میں منوہر اپنے کالج میں سندھی کے سینئر ریڈر کے عہدے پر تھا اور گوپال کی گنتی شہر کے بڑے بلڈرز میں ہونے لگی تھی۔ گزشتہ کچھ سالوں کے دوران منوہر نے تعلیم اور ادب کے میدان میں بہت نام کمایا تھا اور گوپال کروڑ پتی سے ارب پتی ہو گیا تھا۔ لیکن چونکہ دونوں کے بچپن کا ایک ہی پس منظر رہا تھا اور ان کی بیویاں بھی شادی سے پہلے متوسط گھرانوں کی اور آپس میں ماموں زاد بہنیں تھیں، اس لئے منوہر نے سوچا کہ اس کے اپنے گھر کی ٹیوب لائٹ کی روشنی میں اور گوپال کی کوٹھی کے فانوس کی روشنی میں کچھ بہت زیادہ فرق نہیں تھا۔ پھر اتنے میں اس نے سوچا، کیا یہ بات ایسی ہی ہے؟

پورٹیکو تک آتے آتے منوہر نے دیکھا، کار گیراج میں  جا چکی تھی اور گوپال پورٹیکو کے اندرونی دروازے کی دہلیز پر کھڑا انتظار کر رہا تھا۔ وہ منوہر کو دیکھ کر اپنے چہرے پر اس کے استقبال میں مسکراہٹ لے آیا اور بولا۔

 ’’آؤ منوہر آؤ۔ میں تمہارے ہی انتظار میں یہاں کھڑا ہوں۔‘‘

منوہر نے جواب دیا، ’’اور کیا خبر ہے گوپال۔ سب خیریت تو ہے۔ دبئی ہوائی اڈے سے تم نے فون کیا تھا کہ میں تم سے تمہاری کوٹھی میں شام کو سات بجے آ کر ملوں۔ اس وقت تک تم بھی یہاں پہنچ جاؤ گے۔‘‘

گوپال نے کہا، ’’اڈیرو لال کے فضل سے سب کچھ ٹھیک ہے۔ آج صبح منیشا نے فون پر بتایا کہ کل یونیورسٹی والوں نے اسے ایم اے کے بعد کوئی دوسری ڈگری دی ہے۔ یہ ڈگری کون سی ہے؟‘‘

منوہر نے اسے بتایا، ’’ایم فل کی ڈگری۔ اب وہ کسی کالج میں لیکچرار لگ سکے گی۔‘‘

گوپال نے خوش ہو کر کہا، ’’بھائی، یہ سب اس کے ساتھ کی گئی، تمہاری محنت کا نتیجہ ہے۔ میں نے سوچا، آج شام کو دہلی پہنچ کر تمہیں اور منیشا کو ایک ہی وقت مل کر مبارک باد دوں۔ ہاں تو کیا تم یہاں گوپی اور بچوں سمیت نہیں آئے ہو؟ میں فون پر ایسا کرنے کیلئے نہ کہہ سکا۔ پھر بھی ان کا اپنا ہی گھر ہے۔ تم انہیں کیوں نہیں لے کر آئے؟‘‘

منوہر جواب میں کچھ کہتا، اس سے پہلے ہی گوپال نے گھر کے اندر آواز لگائی۔ وہ دونوں بات چیت کرتے کرتے ڈرائنگ/ڈائیننگ ہال کے بیچ پہنچ چکے تھے۔

گوپال کی آواز سنتے ہی گھر کے نوکر آ کر حاضر ہوا اور اس ہال کے درمیان سے اوپر جانے والے زینے کی بالکنی میں منیشا اور اس کی ماں بھی آ گئیں۔ گوپال نے منوہر سے کہا۔

 ’’اچھا تم ایسا کرو، یہاں اس ہال میں بیٹھو یا اوپر جا کر اپنی سالی صاحبہ سے اور اپنی ہونہار طالبہ منیشا سے ملو۔ میں جلد ہی باتھ روم سے تازہ دم ہو کر آتا ہوں۔‘‘

پھر وہ اوپر جانے وا لا زینے پر چڑھ کر بالکنی کے پیچھے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔ ہال میں بڑے بڑے سوفے بچھے تھے۔ ان سوفوں کے سامنے شیشے کی میزیں لگی تھیں اور اوپر چھت میں بڑے بڑے فانوس جگمگا رہے تھے۔ چونکہ منوہر یہ سب قیمتی اشیاء کافی عرصے سے دیکھتا آ رہا تھا، اس لئے اس میں اس کی کوئی زیادہ دلچسپی نہ تھی۔ وہ وہاں ایک سوفے پر بیٹھ گیا اور سامنے والی میز سے ایک میگزین لے کر اس کے صفحات پلٹتا رہا، اتنے میں ایک نوکر اس کیلئے شیشے کے گلاس میں شربت لے کر آیا۔ جب منوہر نے اس کے ہاتھوں سے وہ گلاس نہیں لیا، تو وہ بڑے سلیقے سے گلاس اس کے سامنے والی میز پر رکھ کر ایک طرف چلا گیا۔

منوہر کے ذہن میں گوپال اور اس کے گھرکی باتوں کو لے کر ایک تاریکی سی پھیل گئی تھی، جس میں گوپال کی تیار شدہ بڑی بڑی عمارتوں کی کھڑکیوں میں سے آنے والی روشنی کے ٹکڑے یہاں وہاں ٹکرا رہے تھے۔ سامنے رکھے ہوئے گلاس میں سے تھوڑا ساشربت پیتے ہوئے اس نے سوچا کہ گوپال نے سیمنٹ اور لوہے کی کتنی ہی عمارتوں کی تعمیر کا کام کیا ہے اور اسی لیے وہ خود بھی سیمنٹ اور لوہے جیسا بے حس تو نہیں ہو گیا ہے۔ وہ جتنا زیادہ امیرہوتا جا رہا ہے، اتنا زیادہ اپنے گھر کے لئے اور گھر والوں کے لئے بے حس ہوتا جا رہا ہے۔

گوپال کی بیوی یشودھرا، اس کی بیوی گوپی سے تقریباً چھ ماہ چھوٹی ہو گی۔ وہ اپنی بہن گوپی کو دو بدو یا ٹیلی فون پر اپنا حال احوال دیتی رہتی ہے۔ اسے بتاتی رہتی ہے کہ وہ کیسے اپنے ازدواجی زندگی کے ابتدائی دنوں کو یاد کرتی رہتی ہے۔ اب تو اسے اکیلے دن اور اکیلی راتیں گذارنی پڑتی ہیں۔ مہیش اور منیشا دو بچے ہیں۔ اس کا بیٹا مہیش اپنے باپ کے ساتھ بزنس میں ہے اور وہ رات کو اپنے باپ سے الگ ہو کر، سیمنٹ اور لوہے سے بنی عمارتوں کی روشنیوں میں ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ رات کو بہت دیر تک کسی کیبرے ڈانس فلور پر یا کسی بار میں وقت کاٹ کر وہ ’’اڈیرو لال کرپا‘‘ نامی کوٹھی کے اپنے کمرے میں آ کر بستر پر دھڑام سے گر جاتا ہے۔

اتنے میں منوہر کے ذہن میں پھیلی تاریکی میں بجلی کی چنگاری چمکی اور وہ کانپ اٹھا کہ مہیش کی چھوٹی بہن منیشا بھی اسی کی طرح بھٹک جاتی، اگر وہ اپنی چھوٹی سالی یشودھرا اور اس کی بیٹی منیشا کی تنہا تنہا سی زندگی پر ترس نہ کھاتا اور منیشا کو معاشرے کے غلط اثرات سے بچانے کے لیے، اسے یونیورسٹی میں زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرنے کیلئے آمادہ نہ کرتا۔

ابھی اس کی سوچ کے دائرے میں یہ ماں بیٹی تھیں کہ اتنے میں وہ خود اس کے پاس آ کر کھڑی ہو گئیں۔

یشودھرا نے اس کے پاس بیٹھ کر اپنائیت سے پوچھا، ’’کیوں جیجا جی، آپ اکیلے آئے ہیں؟ دیدی اور کشور کو کیوں نہیں لے کر آئے؟ مہینوں ہو جاتے ہیں، ہم آپس میں نہیں مل پاتے ہیں۔ اس میں آپ کی یا آپ کے گھر والوں کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ ہمارے حالات ہی کچھ ایسے ہیں۔‘‘

منیشا نے اپنے خالو کو اور خالو سے کہیں زیادہ اپنے پروفیسر کو پرنام کیا اور کہا، ’’کشور کو دیکھے تو بہت دن ہو گئے ہیں۔ کیا وہ اپنے کام میں اتنا بزی رہتا ہے؟‘‘

منوہر نے دونوں کو ہی ایک ساتھ جواب دیا، ’’ہم دونوں ہی۔ گوپال اپنے کام میں اور میں اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ لکشمی پوجا میں اور میں خیالوں کی دنیا میں۔ اصل میں، میں کالج سے سیدھا کسی اجلاس میں شریک ہونے کے لیے چلا گیا اور وہاں سے براہ راست یہاں آیا ہوں۔ منیشا، کشور واقعی بہت بزی رہتا ہے۔ اس کی کمپنی والے اسے اگلے مہینے یو ایس اے بھیج رہے ہیں۔‘‘

منیشا نے تالی بجا کر اس کی بات کو انجوائے کیا اور کہا، ’’واہ، یہ تو بہت خوشی کی بات ہے۔‘‘

یشودھرا نے بھی اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’کل صبح ہی دیدی سے ٹیلی فون پر بات کرنے کا موقع ملا، تو اس نے تو ایسی خوشخبری نہیں سنائی۔‘‘

اسی دوران نوکر گھر کی دونوں مالکنوں یشودھرا اور منیشا کیلئے بھی شربت کے دو گلاس لا کر میز پر رکھ گیا تھا۔ منوہر نے ان گلاسوں کو دیکھ کر سوچا کہ ماں بیٹی شربت نہیں پئیں گی، دستور نبھانے کیلئے شربت کے وہ گلاس یوں ہی میز پر پڑے رہیں گے۔

اس نے یشودھرا کو جواب دیا، ’’کل صبح تک گوپی کو یا اور کسی کو بھی، ایسی خوش خبری نہیں ملی تھی۔ یہ تو کل دوپہر کو منیشا کے ایم فل کے نتیجے کا اور کشور کے یو ایس اے جانے کا پتہ لگا۔‘‘

اتنے میں گوپال بھی ہال کا بیچ والا زینہ اتر کر نیچے ان کے ساتھ سوفے پر آ بیٹھا اور بولا، ’’بھئی کون یو ایس اے جا رہا ہے؟ کچھ ہمیں بھی تو پتہ چلے۔‘‘

یہ پوچھتے پوچھتے اس نے ایک ہی نظر میں اپنی بیوی اور بیٹی کو دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں ہمیشہ کی طرح شکایت دیکھ کر اس نے اپنے سوال کے جواب کا انتظار نہ کرتے ہوئے کہا، ’’کیا کروں؟ بزنس کیلئے مجھے ادھر ادھر بھاگنا پڑتا ہے۔‘‘

منوہر نے سوچا، ’’’گوپال اپنے تک ہی محدود ہو گیا ہے۔ وہ کسی کے یو ایس اے جانے کی بات پوچھنا بھی بھول گیا ہے۔‘‘’

وہ ابھی اور کچھ کہتا، اس سے پہلے یشودھرا نے اپنے شوہر سے کہا، ’’کشور یو ایس اے جا رہا ہے۔ کشور اور منیشا یہ دونوں بھائی بہن، جیجا جی کی وجہ سے اتنے لائق ہوئے ہیں۔‘‘ پھر کوئی بات یاد کرتے ہوئے اپنے شوہر سے پوچھا، ’’کیوں آپ کے ساتھ مہیش نہیں لوٹا کیا؟ وہ ابھی تک دبئی میں کیا کر رہا ہے؟‘‘

گوپال نے جواب دیا، ’’نہیں، وہ میرے ساتھ ایک ہی پرواز میں آیا ہے۔ اسے کسی فارم ہاؤس کی ڈنر پارٹی میں جانا تھا، سو اس نے ایئر پورٹ پر ہی اپنی الگ کار منگوا لی تھی۔‘‘

جلد ہی، اس نے خوش خبر یوں کی بات یاد کرتے ہوئے کہا، ’’کشور اور منیشا کو مبارک ہو، کشور کو یو ایس اے جانے پر اور منیشا کو ایم فل پر۔‘‘

پھر منوہر سے مخاطب ہو کر کہا، ’’بھائی، یہ لڑکی تو تمہاری بڑی ہی فین ہے۔ مجھے اس کے ساتھ بیٹھنے کا وقت اتنا نہیں ملتا ہے، جتنا تمہیں ملتا ہے .۔ جب بھی میں اس کے ساتھ بیٹھتا ہوں، وہ مجھے تمہاری ہی باتیں بتاتی رہتی ہے۔ تمہیں خالو کے طور پر نہیں، پروفیسر کے طور پر یاد کرتی ہے۔ آج پروفیسر کا ٹی وی پر انٹرویو ہے۔ آج یونیورسٹی کے ٹیگور ہال میں پروفیسر کا فلاں موضوع پر خصوصی لیکچر ہے، وغیرہ وغیرہ۔‘‘

بھلا ان سب باتوں کا منوہر اسے کیا جواب دیتا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ اس کے جواب دینے سے پہلے ہی ایک نوکر دو پلیٹوں میں نمکین کاجو اور سلاد لے آیا، دوسرا نوکر ایک ہاتھ میں کسی مہنگی وہسکی کی بوتل اور دوسرے ہاتھ میں دو خالی گلاس لایا اور تیسرے نوکر نے ایک ہاتھ سے منرل پانی کی ایک بڑی بوتل اور دوسرے ہاتھ سے سوڈا واٹر کی دو بوتلیں میز پر رکھیں۔

گوپال کو ان سب چیزوں کا بے چینی سے انتظار تھا۔ اس نے وہسکی کی بوتل کی مہر توڑ کر اس میں سے دونوں گلاسوں میں وہسکی انڈیلی۔ وہ زیادہ دیر تک رک نہیں سکا اور اپنے گلاس میں پانی ملائے بغیر ہی نیٹ وہسکی ایک ہی گھونٹ میں پی گیا۔ پھر اس نے اپنے گلاس میں وہسکی کی بوتل سے دوسرا پیگ اور پھر منرل واٹر کی بوتل سے پانی ڈالا۔ منوہر کے گلاس میں وہسکی کا پہلا پیگ تھا، اس نے اس میں ابھی سوڈا ڈالا۔

وہسکی نیٹ پینے سے گوپال کو ہلکا سا خمار چڑھ گیا۔ اس خمار میں اس نے منوہر کو اپنا گلاس لینے کے لئے کہا، ’’چیئرز۔‘‘

جب تک وہ اپنا گلاس لے کر ’’چیئرز‘‘ کہتا، اس سے پہلے ہی گوپال نے اس سے کہا، ’’منوہر، منیشا تو منیشا، تمہاری چھوٹی بہن یشودھرا بھی تمہاری عادی ہو گئی ہے۔ جب دیکھو، تب اس گھر میں پروفیسر، پروفیسر یا جیجا جی، جیجا جی کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں۔‘‘

یہ بات سنتے ہی تین دلوں میں بڑا شدید دھماکہ ہوا۔ شاید زمین پھٹی تھی۔ اس کی دراڑیں منیشا اور یشودھرا کے چہروں پر ظاہر ہو گئیں۔ ماں بیٹی کو بڑا دکھ ہوا۔ لیکن منوہر کو گوپال پر بڑا ہی ترس آیا۔ اس نے ایک لمحے کے لیے بھی وہاں رکنا مناسب نہیں سمجھا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ جاتے جاتے اس نے کہا، ’’گوپال میں چلتا ہوں۔‘‘

کچھ عرصے سے اس کے دل میں کسی بات کو لے کر کشمکش چلر ہی تھی۔ اب اُس کی اس بات سے اِس میں ایک خاص قسم کی طمانیت پیدا ہوئی۔

اب اسے گوپال کی زندگی سے اپنی زندگی کہیں زیادہ اچھی لگی۔

***

 

 

 

 

لاٹری

 

واسودیو موہی

 

 

دن بہت اچھا گزرا۔ کافی تاجروں کے یہاں سے وصولی ہو گئی۔ پچاس ہزار کے چیک بھی ہیں۔ ادا ہو جائیں گے، کیش جیسے ہی ہیں۔ میں نے سنبھال کر سبھی نوٹ ایک بڑے لفافے میں ڈالے اور اوپر سے پن لگا دی۔ اتنی بڑی رقم اور پیکٹ کتنا چھوٹا لگ رہا ہے۔ حکومت نے بڑے نوٹ چھاپ کر بڑی سہولت کر دی ہے۔ پیکٹ سیمپلز کے بڑے تھیلے میں ڈال کر، اندر پڑا رو مال نکالا، چہرے سے پسینہ پونچھتا ہوں، بہت گرمی ہے۔ رو مال بیگ میں واپس رکھ کر زپ بند کرتا ہوں۔ اب دادا کو یقین آئے گا، میں کیا کر سکتا ہوں۔ زیادہ پڑھ نہ سکا، دل ہی نہیں لگتا تھا۔ دادا کا ایک ہی جملہ، ’’بیٹا پیٹ میں علم کے دو حروف رہیں گے، تو کبھی تنگی نہ رہے گی، بھوکوں نہ مرو گے، علم راہ روشن کرتا ہے۔‘‘

میری ضد کہ میں دھندہ کروں گا۔ مجھے کسی کی غلامی نہیں کرنی ہے۔ پر دھندے کے لیے پیسہ درکار ہے، ہمارے پاس پیسہ کہاں ہے؟

 ’’بس آپ صرف تین لاکھ کہیں سے دلوا دیں، باقی میں سنبھال لوں گا۔‘‘

دادا نے تا عمر کپڑے کی دکان چلا کر کسی طرح گھر چلایا۔ لاکھ کہاں سے لائیں؟ میں بھی ضد پر اٹل کہ کروں گا تو دھندہ، نہیں تو دو روٹی کھاتا رہوں گا۔ بھابھی اپنے اکلوتے بیٹے کا خیال رکھتی ہے، روٹی پر کچھ زیادہ ہی گھی لگاتی ہے۔

پتہ نہیں دادا کو کیا سوجھا، کسی پرانے دوست سے بات کی۔ دوست نے کم سود پر دو لاکھ دینے کا وعدہ کیا اور نبھایا۔

 ’’پر دادا دو لاکھ میں دھندہ نہ ہو گا۔‘‘

بھابھی نے زیور نکالے۔ میں کچھ خوف زدہ سا ہو گیا۔ دھندے میں نقصان بھی تو ہو سکتا ہے۔ پر دادا نے ہمت بڑھاتے ہوئے کہا، ’’بیٹا اب کوشش کی ہے تو آگے بڑھو۔ جھو لے لال کی کرپا سے برکت پڑے گی۔‘‘

زیورات سے چونسٹھ ہزار حاصل ہوئے۔

کرائے کی اچھی دکان مل گئی۔ معمولی ضرورت کے مطابق فٹنگ کروائی، کپڑا کچھ نقد، کچھ ادھار پر آرام سے مل گیا اور بس دکان شروع ہو گئی۔

شرٹ کا کاروبار بھی کمال کا ہے، صرف قرضے پر چلتا ہے اور بس کاریگروں سے متھا ماری کرنی پڑتی ہے۔ پیکنگ والے بھی کم پریشان نہیں کرتے۔ آج پہلی وصولی پر ہی اچھی کامیابی ملی ہے۔ آرڈر بھی امید سے زیادہ ملے۔ گیسٹ ہاؤس کی جانب رخ کیا۔ بڑودہ میں ہوٹل بہت مہنگے ہیں، پر ایک دن آئے گا، جب میں فائیواسٹار ہوٹل میں جا کر رہوں گا، وصولی کیلئے نہیں، وہ تو میرے نوکر کریں گے، میں تو صرف گاہکوں سے ملنے جاؤں گا۔ میرے شروع کئے ہوئے برانڈ کی ڈیزائننگ کیسی لگتی ہے، کپڑے کیسا لگتا ہے، وہ کیا کہتے ہیں انگریزی میں۔۔۔ ہاں، مارکیٹ سروے۔ ساری عمر صرف یہ آلتو فالتو سستے قسم کی شرٹیں تھوڑی ہی بناتا رہوں گا، وہ کیا کہتے ہیں۔۔ ہاں بڑا سارا مینوفیکچرنگ یونٹ لگاؤں گا، سچ کہتے ہیں دادا، علم ضروری ہے۔ ہاں بڑی گارمنٹ فیکٹری لگاؤں گا۔ بھابھی بہت خوش ہوں گی، اس کے لیے بیس بیس ہزار والی کئی بنارسی ساڑیاں خریدوں گا۔

بھوک لگی ہے۔ گیسٹ ہاؤس کے قریب رکشے سے اترتا ہوں۔ ایک نوجوان لڑکی گاہکوں کو آملیٹ بنا کر دیتے ہوئے دکھی۔ وہ ساتھ میں چائے بھی بنا کر دے رہی تھی۔ کمال کی پھرتی ہے اس میں۔ نقش تیکھے، کالی کالی بڑی آنکھوں، رنگ بالکل صاف۔ یہیں کچھ کھا لوں۔ گیسٹ ہاؤس میں تو لوٹ مار ہے، فقط چائے کے ہی بیس روپے لے لیے۔ گاہک اس لڑکی کے چھوٹے سے ’’ریسٹورنٹ‘‘ کو گھیرے ہوئے ہیں۔ ایک چھوٹا چبوترہ ہے، جس پر اس نے چولہا رکھا ہے، چولہا پر گرم توا ہے، جس پر وہ چمچ سے تیل ڈال کر، انڈے تھوڑ کر، پھینٹ کر، تھوڑا نمک مرچ ملا کر توے پر پھیلا دیتی ہے۔ جلدی سے وہ آملیٹ بناتے بناتے توے کے کنارے ڈبل روٹی کے سلائس بھی سینکنے کیلئے رکھ دیتی ہے۔ بیچ بیچ میں وہ توا اتار کر چائے کی کیتلی بھی چولہے پر رکھ دیتی۔ اس کا پھرتیلا پن دل موہ لیتا ہے۔ میں خاموشی سے کھڑا ہو جاتا ہوں تاکہ وہ مجھ سے پہلے آئے گاہکوں کو نپٹا دے۔ لڑکی کے پیچھے دیوار پر مختصر سے کارڈ بورڈ پر پرائس لکھے ہوئے تھے، جو اندھیرا ہونے کے باوجود بھی صاف نظر آ رہے تھے۔ سنگل انڈہ آملیٹ دو سلائسوں کے ساتھ، ڈبل انڈہ آملیٹ دو سلائسوں کے ساتھ، ٹوسٹ تیل میں، ٹوسٹ مکھن میں، چائے، میں ساری لسٹ نہیں پڑھتا۔ بڑا بیوقوف ہوں جو گیسٹ ہاؤس میں چائے پیوں۔

 ’’کرم جلی، او کرم جلی۔‘‘

 ’’آئی امی۔‘‘ لڑکی نے زور سے آواز کا جواب دیا۔ جیسے کرم جلی اس کا نام ہو۔ وہ چولہے کا شعلہ بالکل ہلکا کر کے، آنکھوں آنکھوں میں گاہکوں سے اجازت لے کر چبوترے کے ساتھ والی تنگ گلی میں چلی جاتی ہے۔ پھر جلد ہی واپس آتی ہے، شاید امی کی کوئی ضرورت پوری کر کے۔ اس نے گھانسلیٹ کی لائٹ جلائی، مگر اندھیرا برقرار رہا۔ گاہک کافی کم ہو گئے ہیں۔ میں چبوترے کے پاس والے بھاکڑے پر بیٹھتا ہوں گرتے گرتے۔ پیچھے دیوار ہونے کی وجہ سے بچ گیا، ایک گاہک بیٹھا ہے اور میں بیگ سنبھال کر گود میں رکھتا ہوں۔ اب لڑکی کا رخ میری جانب ہے۔

 ’’سنگل انڈہ، دو سلائس، چائے۔‘‘

چار گاہک جو ساتھ کھڑے تھے، پیسے دے کر چل دیئے۔ گرمی ہے۔ میں بیگ، بھاکڑے پر رکھ کر زپ کھول کر رو مال نکالتا ہوں۔ بیگ گرتے گرتے بچا۔ میں نے پسینہ پونچھا، نیپکن واپس تھیلے میں رکھتے ہوئے زپ بند کی۔ لڑکی توے پر انڈہ پھیلا کر، چبوترے پر پڑی پلیٹیں اٹھاتی ہے اور پانی سے بھرے ٹب میں ڈال دیتی ہے۔

مغرب کا وقت ہوا ہے، میں اٹھ کر چل پڑتا ہوں۔ گلی میں سے زور کی آواز آتی ہے، ’’ایک دن نماز نہیں پڑھو گے، تو تمہاری جنت خطرے میں نہیں پڑے گی۔ اس سے بہتر ہے تم میری گولیاں لے آؤ، میں مر رہی ہوں۔‘‘ پہلے سے زوردار آواز تھیں، ’’کرم جلی۔‘‘ والی آواز سے بھی۔

سفید داڑھی والا ایک بزرگ لڑکی کے قریب آتا ہے۔ اس کی پیشانی پر گہرا نشان ہے۔ لڑکی انڈہ الٹتی ہے۔

 ’’جمیلہ، سو روپے دے۔ نماز سے لوٹتے ہوئے تیری ماں کی گولیاں لیتا آؤں گا۔‘‘ لڑکی شعلے کو کم کر کے گول ڈبے سے چھوٹے بڑے نوٹ نکال کر گنتی ہے۔

 ’’لو ابو۔‘‘

جلد بازی میں انڈہ توے سے اتارتی ہے، سلائس رکھنا بھول گئی تھی، وہی رکھتی ہے۔ سینک کر مجھے انڈے کے ساتھ پلیٹ میں دیتی ہے۔ اس دوران بھاکڑے پر بیٹھا دوسرا گاہک بغیر کچھ کھائے پیئے ہی چلا جاتا ہے۔ میں تھیلے کو دیکھتا ہوں، زپ بند ہے۔

 ’’آپا، سو روپے دو، سنیماجانا ہے، آئس کریم بھی کھانی ہے۔‘‘

 ’’سینماجانا ہے، ایسے کہہ رہے ہو جیسے کسی بڑی نوکری پر جا رہے ہو۔ کمانا نہیں ہے، پر آنکھ سے عیش کا مزہ بھی لینا ہے۔‘‘ ’’کرم جلی۔ کیوں ان گندے پیسوں کی خاطر اپنے بھائی کے ساتھ بحث کرتی ہے۔ اس بڈھے کو تو جلدی سے پیسہ نکال کر دیتی ہے۔ وہ کیا کماتا ہے، سارا دن داڑھی میلی کرتا رہتا ہے۔ فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشاء کے علاوہ اور کچھ یاد ہی نہیں ہے۔ یہاں بھلے دوزخ میں ہو، وہاں اسے جنت چاہئے، حور یں چاہئیں۔‘‘ لڑکی نے مجھے چائے دی۔

 ’’آپا! ایک دن دیکھنا، اپنے سب تام توبڑے چھوڑ کر، تم میرے سیون اسٹار ہوٹل کی چکن بریانی کھاؤ گی۔‘‘

 ’’ہوا میں باتیں کرنا چھوڑ دو۔ تمام دن جی جان سے کام کر کے کماتی ہوں، ہر روز کوئی لاٹری نہیں کھلتی ہے جو یوں لٹاتے پھرتے ہو۔‘‘

گلی میں سے زور سے کوسنے کی آواز آتی ہے، ’’ہائے اللہ، یہ کیسا جینا ہے، یہ کرم جلی تو بھائی کی دشمن بن بیٹھی ہے۔ یہ سب دیکھنے سے تو بہتر ہے کہ اللہ سائیں مجھے بلا لو، تاکہ اس دوزخ سے تو نجات ملے۔‘‘

 ’’آپا جلدی کر، دیر ہو رہی ہے۔‘‘ وہ گول ڈبے کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے۔

جمیلہ درمیان میں ہی اس کا ہاتھ روکتی ہے، لیکن وہ زور سے جمیلہ کا ہاتھ جھٹک کر ڈبا لے کر نوٹ نکال لیتا ہے اور بغیر گنے ہی جیب کے حوالے کر دیتا ہے۔

 ’’دیکھ بھاگ جا، ورنہ سزا بھگتنی پڑے گی۔ میری تو ساری محنت ہی پانی میں نمک کی مانند گھل جاتی ہے۔‘‘ دکھ بھرے لہجے میں وہ سسک اٹھی۔

گھانسلیٹ کی لائٹ پھک پھک کر کے بجھ جاتی ہے۔ میں پیسے دے کر بیگ اٹھائے گیسٹ ہاؤس کی طرف بڑھتا ہوں۔ کمرے میں بیگ رکھ کر، اندر سے لاک کر کے خود کو پلنگ پر ڈھیر کر دیتا ہوں، آنکھ لگ جاتی ہے۔

آنکھ کھلی، نو بجے ہیں۔ اٹھو، تاجروں کی دی ہوئی رقم کا حساب کروں۔ ہاتھ منہ دھوکر میں بیگ کھولتا ہوں۔ بل بک، رسید بک، سیمپلز نکالتا ہوں۔ اچانک میں چونکتا ہوں، لفافہ کہاں ہے؟

میں تھیلے سے نکالی چیزیں دوبارہ دیکھتا ہوں۔ لفافہ نہیں ہے۔ میرے کان سرخ ہو جاتے ہیں، خون رگوں میں بہہ نہیں رہا ہے، اچھل رہا ہے۔ میں نے تھیلے کا کونا کونا چھان مارا پر لفافہ نہیں ملا۔ میرے سامنے بھابھی کی سرخ آنکھوں گھومنے لگیں۔ دادا کا بھی چہرہ بھی زرد لگا۔ شاید میرا بھی چہرہ ویسا ہی ہو گا، بجھے ہوئے بلب کی طرح۔ میں نے ایک بار پھر سیمپلز جھٹک کر دیکھے۔ رسید بک جھٹکی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ لفافہ ان کے اندر چھپنے والی چیز نہیں۔ میں اٹھا پھر بے جان سا ہو کر پلنگ پر لڑھک گیا۔ لفافہ نہیں ہے، بالکل نہیں ہے۔ میں اپنے آپ کو رونے سے روک نہیں پا رہا ہوں، سامنے آئینہ ہے، میں جیسے خود کو پہچان نہیں پا رہا ہوں۔ آنکھیں، ناک، کان، بال سبھی بیگانے بیگانے لگ رہے ہیں۔

بدحواسی میں باہر نکلتا ہوں، یقیناً بھاکڑے پر بیٹھے اس شخص کا ہی یہ کام ہو گا۔ اس نے ہی لفافہ ہتھیایا ہو گا، اسی لیے ہی تو وہ بغیر کچھ کھائے پیئے، جلدی سے وہاں سے نکل گیا۔ پولیس میں جاؤں، کیا حاصل ہو گا؟ یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں، آخری بار میں نے لفافہ کب دیکھا۔ سب یاد ہے، سنبھال کر وہ تھیلے میں ہی ڈالا تھا اور بیگ تمام وقت ہاتھ میں ہی رہا تھا، کہیں بھی میں نے اسے چھوڑا نہ تھا۔ وہ ظالم شخص پاکٹ مار ہو گا، پیسے لے گیا، مجھے خبر تک نہ ہوئی۔ راستے پر یہاں وہاں دیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہوں، جیسے وہ لاکھوں لے جانے کے بعد یہاں اسی علاقے میں گھوم رہا ہو گا۔ میں چائے کے ٹھیلے کی طرف جاتا ہوں، شاید وہ لڑکی اس شخص کو جانتی ہو، وہ اس کا روزانہ کا گاہک ہو اور چائے پینے آتا ہو۔ بھاکڑا تنہا تنہا جیسے نیند میں ہو، ایک دم پر سکون۔ چاروں طرف اندھیرا تھا۔ چبوترہ خالی تھا۔ میں تنگ گلی میں گھستا ہوں۔ لڑکی کے والدین قہقہہ مار کر ہنس رہے تھے۔ لڑکی نظر نہیں آئی۔ بوڑھے نے میری طرف گھور کر دیکھا۔

 ’’کیا چاہئے؟‘‘

 ’’جی معاف کرنا، وہ آپ کی بیٹی کہاں ہے؟‘‘

 ’’کیا کام ہے؟‘‘ اس کا لہجہ درشت تھا۔

 ’’مجھے اس کے کسی گاہک کے بارے میں پوچھ گچھ کرنی ہے۔‘‘

 ’’خاموش، خبیث، کون سا گاہک، کیسا گاہک؟ چل بھاگ یہاں سے۔‘‘ اس کے لفظ سخت تھے۔ مجھے لگا اگر میں ایک لمحہ بھی وہاں کھڑا رہا تو، وہ وہیں پر میری قبر بنا دے گا۔ میں گلی سے باہر آئے۔

 ’’ختم، سب ختم ہو گیا۔ قرض، قرض، صرف قرض۔ عمر گزر جائے گی اتارتے اتارتے۔ دادا کی طرح مجھے بھی کسی کپڑے کی دکان پر گھسٹنا پڑے گا۔ قدرت کا قانون توڑنے چلا تھا۔ بھول گیا تھا کہ اولاد ماں باپ کے نقشِ پا پر چلتی ہے۔‘‘

 ’’بابوجی۔‘‘ چائے والی لڑکی نے آواز دی۔

 ’’مجھے آپ کا ہی انتظار تھا۔‘‘ اس نے بیگ میں سے لفافہ نکال کر مجھے دیا۔ مجھے لگا میں ہوا میں اڑ رہا ہوں۔ نہیں، میرے پاؤں تو زمین پر تھے۔ شاید میرے دل نے لمبی پرواز بھری تھی۔ لفافے کو پن لگی ہوئی تھی۔ میں نے لفافہ ہاتھ میں لے کر جیسے اسے تولا۔

 ’’آپ جیسے ہی پیسے دے کر واپس گئے، مجھے یہ بھاکڑے کے نیچے سے ملا۔ یقین تھا کہ یہ آپ ہی کا ہے اور کوئی تو وہاں تھا نہیں۔ میں آپ کے پیچھے بھی آئی، پر آپ نظر نہیں آئے۔ میں لوٹ آئی یہ سوچ کر کہ آپ ضرور پوچھنے آئیں گے۔ آخر رقم بھی تو چھوٹی نہیں ہے نا۔ وہ اندر گئی ہی تھی کہ اس کے ابو کی دہاڑ سنائی دی۔

میں اسے دیکھتا رہا، بس دیکھتا رہا، کچھ کہہ نہ پایا۔ جیسے میں جنم سے گوں گا تھا۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ اندھیرے میں بھی اس کی سیاہ آنکھوں کی چمک صاف نظر آ رہی تھی۔

***

 

 

 

 

نجات

 

تیرتھ چاندوانی

 

 

میں نے اسے دیکھا، دیکھ کر ایک عجیب قسم کی جھنجلاہٹ محسوس کی۔ غصے کی وجہ سے ایک بار پھر منہ سرخ ہو گیا۔ لیکن دوسرے لمحے ہی محسوس کیا کہ ایسے تیور دکھانا میری غلطی ہو گی، کیونکہ وہ قرض دہندہ تھا اور میں اس کا قرض دار۔ اس کا گزشتہ دس دنوں میں یہ تیسرا چکر تھا۔

میں خاموشی سے غصہ دبائے، مسکرانے لگا۔ اگرچہ ایسے وقت میں جب کسی آدمی کو دل میں کوسا جائے اور اچانک اسی کے سامنے آ جانے پر نارمل پیش آنا، کچھ دشوار ہوتا ہے۔ اس کے باوجود بھی میں کوشش کر کے پرسکون کیفیت اپنے چہرے پر لا پایا۔ با وقار اور سادہ طریقے سے قرض دہندہ کی طرف دیکھا۔ اس کا حال چال پوچھتے ہوئے اسے کمرے میں لے آیا۔ بیوی کرسی پر بیٹھی چاول چن رہی تھی۔ اس نے نظریں اٹھا کر میرے اس دوست کی طرف دیکھا اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔ سجے سجائے ایک صاف ستھرے کمرے میں ایک بدصورت شخص کا گھل مل نہیں سکنا، ایک حادثہ ہی مانا جاتا ہے۔ میں نے دوسری کرسی اٹھا کر اس کے سامنے رکھی اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں خود سامنے پڑے پلنگ پر بیٹھ گیا۔ وہ چپ چاپ کرسی پر گردن جھکائے بیٹھا رہا۔ میں سوچتا رہا کہ آخر وہ اس طرح گردن جھکا کر بیٹھے بیٹھے کیا سوچتا ہو گا؟

اتنے میں میرا چھوٹا بیٹا دوسرے کمرے سے آیا، اپنی ممی کے پاس جا کر اس سے پوچھنے لگا، ’’ممی یہ کون ہے؟‘‘

ممی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا، ’’یہ انکل ہیں۔‘‘

اس نے گردن اوپر اٹھا کر میرے بیٹے کی طرف دیکھا، پھر اٹھ کر میری بیوی کے پاس کھڑے بچے کو اٹھا لیا۔ منے کو شاید اس کی شکل نہیں بھائی، وہ رونے لگا۔ میں نے فوری طور پر اٹھ کر منے کو اپنی گود میں لے لیا۔ وہ میری بیوی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میری بیوی کافی خوبصورت ہے، شاید اسی لیے۔ اس کا اس طرح بیباکی سے اس کی طرف دیکھنا مجھے بالکل اچھا نہیں لگا۔ لیکن میں خاموش ہی رہا، کیونکہ وہ قرض دہندہ تھا۔ میں کسی بھی حالت میں اس سے تعلقات بگاڑ کر، یکمشت پیسوں کی ادائیگی نہ کر پانے کی وجہ سے، بے عزتی کرانے کے لیے قطعی تیار نہ تھا۔ اس نے میری بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’بھابھی چائے وائے ملے گی؟‘‘

میری بیوی نے مسکرانے کی کوشش کرتے کہا، ’’ہاں ہاں۔۔۔ کیوں نہیں۔۔۔‘‘

وہ اٹھ کر باورچی خانے میں چلی گئی، میں بھی اس کے پیچھے چلا گیا۔ اس نے بتایا کہ چائے بنانے کے لیے دودھ کا ہونا ضروری تھا اور دودھ ابھی تک آیا نہ تھا۔ جس سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا، اب اسی کے لئے باہر سے دودھ لانے کیلئے تیار ہو گیا۔ لیکن بیوی کو اس کے ساتھ تنہا چھوڑنے کی ہمت میں نہیں جٹا پا رہا تھا۔ لیکن پھر قرض کا خیال آتے ہی جرات دکھانے کا خیال ملتوی کرنا پڑا۔ گلاس لے کر اوپرسے مسکان سجائے (اندر سے غصہ کھاتے، جی ہاں، اس وقت میری دماغی حالت اتنی خراب ہو چکی تھی کہ میں ڈھنگ کی کوئی گالی دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھا) اس سے کہا۔

 ’’بیٹھو یار، میں ابھی دودھ لے کر آیا۔‘‘

اس نے بھی مسکراتے ہوئے کہا، ’’نہیں یار نہیں۔ اتنی بھی کوئی طلب نہیں تھی۔‘‘

اس کے ’’یار‘‘ کے لقب سے مجھے محسوس ہوا کہ وہ خاص قسم کا کوئی رشتہ جوڑ کر اپنے تعلق کو مزید مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن میں جان چکا تھا کہ کس طرح میری بیوی کی خوبصورتی، اسے یہاں سے جانے سے روک رہی تھی اور ویسے بھی وہ اب فوری طور پر یہاں سے جانا بھی نہیں چاہتا تھا۔ میں مسکراتا ہوا دودھ لینے چل پڑا۔

بازار سے گزرتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں اپنے فرض، اپنی بیوی کے بارے میں۔ قرضوں کا حساب لگا رہا ہوں۔ اس کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ اس کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ اسے جو بھی وقت، جو بھی لمحات میری طرف آنے کیلئے ملے ہیں، اس نے نکالے ہیں۔ میری بیوی کے سامنے آ کر بیٹھنا چاہا ہے۔ اس کا ساتھ چاہا ہے، اس کے قریب بیٹھ کر اور سچ، جھوٹ بول کر اس کے سامنے اپنی ساہوکاری، رحم دلی اور نیک نامی کا اثر ڈالنا چاہا ہے۔ میں نے ہمیشہ دل و جان سے اسے کوسا ہے۔ میں نے کبھی نہیں چاہا ہے کہ وہ میرے گھر آئے اور میری بیوی سے باتیں کرے۔ پر میرے چاہنے یا نہ چاہنے سے بھلا کیا ہونے والا ہے۔ وہ میرا قرض دہندہ ہے اور میں اس کا قرض گذار۔ اسی وجہ سے مجھے اس کا خیال رکھنا ہے۔ حالانکہ بات ویسے بھی اس کے خیال رکھنے کی نہیں، لیکن میری عزت وہ بازار میں یا میری بیوی کے آگے پیاز کے چھلکوں کی طرح اتار کر مجھے ننگا کر سکتا، بے عزتی کی کھائی میں پھینک سکتا ہے یا ہمیشہ کیلئے نیچا دکھا کر ان کی نظروں میں گرا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے، سوال اپنی عزت کا زیادہ اور اس کی عزت کا کم ہے۔ دوسرے ہی لمحے میں سوچتا ہوں، مجھے کیوں سوچنا چاہئے کہ وہ میری بیوی کی خوبصورتی کی وجہ سے میرے پاس آتا ہو گا۔ ہو سکتا ہے وہ کسی اور ہی کام سے اس جانب آنے کے بعد، میرے پاس بھی چلا آتا ہو۔ اس کے چاہنے سے کیا کچھ ہونے والا ہے؟ وہ کر بھی کیا سکتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ میری بیوی سے دوچار باتیں وہ بیشک کرتا پھرے۔ وہ ویسے بھی بات کرنے میں ہوشیار ہے۔ دوسرے ہی پل مجھے لگا کہ میں تنگ نظر ہوتا جا رہا ہوں۔ آدمی کو آزاد اور بڑی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ لیکن سب سے بڑی بات کہ جب مجھے اپنی بیوی پر مکمل اعتماد ہے تو پھر کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ورنہ کئی بار دیکھا گیا ہے کہ حد سے زیادہ سختی رکھنے پر بیویاں بے وفا بھی ہوئیں ہیں اور بہت زیادہ آزادی ملنے پر بھی انہوں نے رسمِ وفا نبھائی ہے۔ آخر اعتماد کا بھی کچھ مطلب ہوتا ہے۔ پر یہاں یقین یا غیر یقینی کا سوال ہی کہاں ہے؟

سوچتا ہوں۔ کچھ وقت پہلے میں یوں قرض سے گھرا ہوا نہ تھا۔ مگر اس بڑھتی مہنگائی اور زندگی کی سطح کو قائم رکھنے کی ضرورت نے مجھے قرض لینے پر مجبور کیا۔ پیٹ کو بھی تو کچھ چاہیے، کچا پکا، زیادہ کم کچھ تو ملنا چاہیے۔ پھر چاہے وہ قرض لے کر دیا جائے یا کسی صحیح یا غلط کام سے حاصل کر کے دیا جائے۔ صحیح طریقے سے اور ایمانداری سے کام کرنے سے تو پیٹ بھرنا ہی نا ممکن ہے۔ میں بھی ایمانداری سے سرکاری نوکری کرتا ہوں، پھر بھی پیٹ بھرنے کے لیے قرض لیا ہے۔ باقی سوال رہا غلط کا۔ غلط کاموں میں پکڑے جانے کا، پھر پولیس، عدالت کا لفڑا ہونے کا ڈر تو ہمیشہ رہتا ہے۔ ویسے تو زندگی میں ہر لمحے ڈر بنا ہی رہتا ہے۔ کبھی ایکسیڈنٹ کا، کبھی موت کا۔ ڈر شاید انسان میں کہیں نہ کہیں چھپا ہوا رہتا ہے یا یہ انسان کے خون میں ہی ملا ہوا ہے۔ بھائی، ہر چیز میں ملاوٹ ہو گی، تو انسانی خون میں کیسے نہ ہو گی؟ میرے معاملے میں تو پولیس کے ہاتھوں پکڑا جانا ہی مجھے دہلا دیتا ہے۔ پولیس اہلکار کو دیکھتے ہی مجھے جنگل میں رہنے والے کسی شیر کا خیال آتا ہے۔ ایک بار موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر، پولیس اہلکار نے ہمیں سیٹی بجا کر روکا تھا، تب میرا دم ہی نکل گیا تھا۔ میں اس کے قدموں میں گرانے سے خود کوکسی طرح سنبھالے ہوئے تھا۔ جبکہ موٹرسائیکل میں نہیں بلکہ میرادوست چلا رہا تھا، میں تو صرف پیچھے بیٹھا تھا۔ اس وقت میں نے منتیں کر کے، ہاتھ پاؤں جوڑ کرپولیس اہلکار کو اپنا نام لکھوانے اور کیس درج کرنے سے روک ہی لیا۔ اس کے لیے میں نے اسے دس روپے بھی دیئے تھے۔ میرے دوست، جو موٹرسائیکل چلا رہا تھا، وہ جھگڑا کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ لیکن میں نے منتیں کر کے اسے بھی روک لیا۔ بعد میں اس نے مجھے بتایا کہ اس قسم کی خلاف ورزی کیلئے کورٹ میں فقط دو روپے جرمانہ ہی لیا جاتا ہے۔

لیکن کورٹ۔۔۔؟ نا بابا نا۔۔۔ اس کے بعد سے پولیس اہلکار کو کہیں بھی دیکھنے کے بعد، جیسے میں کسی قرض دہندہ کو دیکھ کر اکثر دوسری طرف سا گھوم جاتا ہوں، ٹھیک اسی طرح اگر کہیں بالکل سامنے ہی پولیس والا مل جاتا ہے، تو گردن جھکا کر اس طرح نکل جاتا ہوں جیسے میں نے کوئی بڑا گناہ کیا ہے اور سامنے سے آنے والا پولیس والا صرف مجھے ہی پکڑنے آ رہا ہے۔ اسی وجہ سے کبھی بھی میں نے کوئی چھوٹا، بڑا، کچا، پکا کم یا زیادہ جرم ہی نہیں کیا ہے۔ ایسا نہیں کہ جرم کرنے کی خواہش پیدا نہیں ہوئی ہے۔ جرم اور قانون توڑنے کی خواہش تو ہر ایک آدمی میں تھوڑی بہت چھپی ہی رہتی ہے۔ لیکن اس خواہش کے سامنے، پولیس، خاکی وردی، جیل، عدالت اور ایسی ہی کئی چیزیں ایک زنجیر بن کر میرے ہاتھوں، پیروں، دل اور دماغ کو جکڑ لیتی ہیں۔ میں نے ہمیشہ ان سب کے سامنے خود کو لاچار، بے چارہ اور کمزور محسوس کیا ہے۔ ان سب باتوں نے ایک قسم کا ڈر مجھ میں بھر دیا ہے۔ اسی وجہ سے، چاہتے ہوئے بھی میں نے کوئی چھوٹا یا بڑا  جرم نہیں کیا۔

دودھ لے کر میں گھر آ گیا ہوں۔ ’’اس کی‘‘ طرف دیکھتا ہوں۔ پھراس کے سامنے کرسی پر آ کر بیٹھ جاتا ہوں۔ بیوی اس کے ساتھ کھل کر بات کر رہی ہے۔ یہ دیکھ کر میرے ذہن میں ایک نوع کی ناراضگی، دکھ اور غیر اعتمادی بھر جاتی ہے۔ چہرہ ایک دم اتر جاتا ہے۔ لیکن حالات کے مدِ نظر، وقت کے تقاضے اور قرض خواہ کو سامنے دیکھ کر، میں خاموشی اور زہر کا ایک بڑا گھونٹ بھرتے ہوئے چہرے پر فطری پن لاتے ہوئے، ہونٹوں پر ایک وسیع مگر  پھیکی مسکراہٹ نہ چاہتے ہوئے بھی لانے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ جھنجلاہٹ میں بیوی کو دودھ کا گلاس دیتے ہوئے کچھ لمحے خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا ہوں۔

 ’’یار، بات کچھ ایسی ہے کہ اس طرف سے گزرا، تو خیال آیا کہ تمہارے پاس بھی ہوتا ہوا جاؤں۔‘‘

  ’’ہاں ہاں، یہ اچھا کیا۔ تمہارا ہی گھر ہے۔ ایسے ہی کبھی کبھار چلے آیا کرو۔ ششی بھی اکثر تمہارے بارے میں پوچھتی ہے۔‘‘

 ’’اچھا!‘‘

وہ شاید خوشی میں کہہ اٹھتا ہے، مجھے لگا کہ مجھے ایسا کہنا نہیں چاہئے تھا۔

 ’’کیا حال چال ہیں۔۔۔؟ آج کل کیا چل رہا ہے؟‘‘

سوچ رہا ہوں کیا جواب دوں۔ کچھ لمحے خاموشی سے اسے گھورتا رہا ہوں۔ غور کرتا رہا ہوں، یوں باتوں کو گھما پھرا کر پیسوں کا مطالبہ کرے گا، اس سے تو یہی بہتر ہو گا کہ میں اسے پہلے ہی کوئی بہانہ یا حقیقت۔۔۔ مطلب جو بھی کہنا ہے، کہہ ڈالوں۔

ایک لمحے کے لیے اس کے چہرے سے نظریں ہٹاتا ہوں۔ ایک خوف تیزی سے دل میں گھر کر جاتا ہے۔ اس نے ششی کو تو قرض کے بارے میں بتایا ہو گا؟ ایسا بھی ہو سکتا ہے، اپنی بڑائی کرنے کے شوق میں، میری ایک کمزوری ظاہر کرنے کے جذبے سے، اپنے آپ کو اس پر بھاری پڑنے کے خیال سے، وہ سنا نہ بیٹھا ہو۔ میں پھر اس کے چہرے پر نظریں ٹکا کر، اس کے دلی احساسات کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ لگتا ہے اس نے ابھی ششی سے اس بارے میں بات نہیں کی ہے۔ نظریں باورچی خانے کی طرف گھماتا ہوں۔ ششی چائے بنانے میں مصروف ہے، چولہے کی تیز آواز آ رہی ہے۔ ایک نظر سامنے نہرو کی میلی اور بے رنگ تصویر پر ڈالتا ہوں، جس میں وہ مسکرا رہا تھا۔

مدعے کو ڈھنگ سے کہنے کے بارے میں سوچتا ہوں، خاص کر گلے کو صاف کر کے کہنے کی ہمت کرنا چاہتا ہوں۔ پھر باورچی خانے میں ٹنگی نہرو کی اس تصویر کی طرف بھی دیکھتا ہوں۔ جیسے نہرو کی تصویر اور باورچی خانہ مجھے ’’کہنے‘‘ کی طاقت کو جمع کرنے اور کہنے میں مدد کریں گے۔ ایک بار پھر لگتا ہے جیسے گلے میں کانٹے جیسا، نوک دار کچھ پھنس گیا ہے۔ بہانہ بناتے یا حقیقت بیان ہوئے آہستہ آہستہ جب دل میں یہ یقین پیدا ہوتا ہے کہ اب اس سے ’’کچھ‘‘ کہہ پاؤں گا، تب نہ جانے کہاں سے ایک ڈر پھر ابھر آتا ہے اور دل و دماغ کو گھیر لیتا ہے کہ کہیں ششی چائے بنا کر جلد ہی نہ آ جائے اور ہماری بات سن لے۔ جب یقین ہو جاتا ہے کہ ششی چائے دینے کے بعد لوٹ کر باورچی خانے میں رات کے کھانے کی تیاری میں لگ جائے گی تو ایک طمانیت کا احساس تن و من میں ٹھنڈک کو بھر دیتا ہے۔ سوچتا ہوں کہ جو بات دیر  بدیر کہنی ہے تو کیوں نہ ابھی ہی کہہ دوں؟ جملوں کو سوچ کے مطابق مجتمع کرنے کی کوشش شروع کرتا ہوں۔

  ’’یار، بات یوں ہے کہ۔۔۔ بات یوں ہے کہ میں بہت وقت سے خود تمہارے پاس آنے کا سوچ رہا تھا، لیکن بات یوں ہے کہ۔۔۔ اب یار تم سے کیا چھپا؟ تم تو ہمارے گھر کے ایک فرد کی طرح ہی ہو (مجھے لگا اسے گھر کا فرد بنا کر میں اب اس کے ساتھ کوئی تعلق جوڑنا چاہ رہا تھا، جیسے پہلے وہ جوڑ رہا تھا)۔ وقت آج کل کچھ کم ساتھ دے رہا ہے ،اخراجات کے بارے میں اب کیا کہوں؟ چھوٹا بھائی ابھی میٹرک میں ہے۔ اس کی ٹیوشن کی فیس، کتابوں کا خرچہ اور اوپر سے یہ بڑھتی ہوئی بے لگام مہنگائی۔ ایسے۔۔۔ ایسے خرچے۔۔۔ تم کو لگتا ہو گا کہ میں پیسوں کے معاملات میں کھرا آدمی نہیں ہوں۔ ویسے۔۔۔ ویسے۔۔۔ یار میری مجبوری آڑے آ جاتی ہے۔ تم تو سمجھ رہے ہو اور تمہاری طرح کے ساہوکار لوگوں کو پیسوں کی بھلا کیا پرواہ۔ تم تو اپنے ہو، اسی لیے سب کچھ تمہیں بغیر کسی لگی لپٹی کے صاف صاف بتا رہا ہوں۔ اپنوں سے کیا چھپانا؟ لیکن یار یقین کرو، میں تمہارے پیسے دباؤں گا نہیں۔ خیال مت کرنا، تمہاری ایک ایک پائی لوٹا دوں گا۔ لیکن یار، صرف کچھ وقت کے لئے رک جاؤ، بھائی کو میٹرک پاس کرنے دو۔‘‘

 ’’چھوڑو یار، چھوڑو، تم پھر کبھی اس طرح کی باتیں کرو گے، تو میں تمہارے پاس آنا ہی چھوڑ دوں گا۔ میں کیا صرف پیسوں کے لیے آتا ہوں۔ ایسے تم کیسے کہہ سکتے ہو۔‘‘

ششی نے چائے لا کر ٹیبل پر رکھی ہے۔ اس کے ساتھ بسکٹ بھی ہیں۔ وہ ششی کی طرف دیکھ رہا ہے۔

 ’’بھابھی! بیکار ہی آپ کو تکلیف دی۔ لیکن پچھلے چار دنوں سے آپ کے ہاتھ کی چائے نہیں پی تھی۔ اسی وجہ سے چلا آیا۔‘‘

ششی خاموشی سے اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔ میرے اندر جیسے کوئی آگ بھڑک رہی ہے۔

چائے پینے کے بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا ہے اور میرے ساتھ ہاتھ ملاتا ہے، ’’اچھا یار چلتا ہوں۔‘‘

میں اٹھ کر اسے دروازے تک چھوڑ نے جاتا ہوں اور دو تین لمبے لمبے سانس جلدی جلدی لیتا ہوں۔

***

 

 

 

پینتیس راتیں، چھتیس دن

 

ٹھاکر چاولہ

 

 

  ’’مامی! اگر میری شادی کامیاب ہوتی تو آج میری اپنی سسرال میں پہلی ہولی ہوتی۔ میرا شوہر مجھے گلال لگانے کیلئے پیچھے سے چھپ چھپ کر آنے کے بہانے ڈھونڈتا اور میری ساس بھی تو مجھ پر نچھاور ہوتی۔‘‘

ایسا کہتے ہوئے آشا بھیگی آنکھوں سے بالکنی میں چلی گئی۔ مامی اس کے پیچھے چلی آئی اور اس کی گدی پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ وہ چاہتی تھی کہ آشا اپنے اندر دبے ہوئے غموں کو باہر نکالے۔

سلجھی ہوئی آشا کے خواب چھتیس دن میں ہی تاش کے پتوں سے بنے کسی محل کی طرح منہدم ہو گئے۔ چھ ماہ اور چھتیس دن اس کی زندگی کے رستے کی کہانیاں ہیں۔ جب وہ چھوٹی تھی، اتنی چھوٹی کہ اسے گود میں لیا جا سکے، تب وہ بچوں کی ہسپتال میں مرتے مرتے بچی تھی اور بچپن سے ان ہی بیماریوں کے بیچ بڑی ہوتی رہی۔ یہ ہی وجہ تھی کہ والدین اور نانی کی بے پناہ محبتوں نے اسے لاڈلی بنا دیا۔ وہ کوئی بھی خواہش لبوں پر لاتی اور اس کی تکمیل کے لیے کمر کس لی جاتی۔ پڑھائی ہو یا دنیاوی معاملہ، اس کو بہترین کوچنگ سینٹر میں داخل کروا کر بہت اچھے نمبروں سے کامیاب کروانے کی کوشش کی جاتی۔ سندھی اور سندھی صوفی موسیقی سیکھنے کی خواہش اسے کالج میں مقابلہ موسیقی میں اول لا کر کھڑا کرتی۔

دوسری طرف آشا کے والدین، اس کی خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے لڑکے تلاش کرتے رہے۔ رشتوں کے معاملے میں ہر بات پسند آئے، ایسا تو مشکل ہوتا ہے۔ کتنی ہی ناپسند باتوں کو نظر انداز کرنا پڑتا اور یہی آشا نے بھی کیا اور اس کے والدین نے بھی ایسا ہی کرتے ہوئے اس رشتے کو قبول کیا۔

چھ مہینے منگنی کے بعد وہ بیٹھی رہی۔ ہفتے میں ایک بار وہ اسے کبھی باہر، تو کبھی گھر میں بھی ملنے آیا کرتا تھا۔ تنہائی میں آنے والے سنہرے کل کے چمکتے ستارے دکھاتے ہوئے وہ کہتا۔

 ’’میرا ایک بنگلہ ہے، نئی ممبئی میں پراپرٹی ہے۔ میں اپنی فرم میں منیجنگ ڈائریکٹر ہوں، ایک لاکھ کے قریب مہینے کی آمدنی ہے۔ شادی کے بعد ہنی مون کے لیے تمہیں موریشس یا سوئیزرلینڈ لے چلوں گا۔ تم چاہو تو اپنا آفس بھی کھول سکتی ہو، جس میں تم کمپیوٹر سکھا سکتی ہو۔ تمہارے جنم دن پر تمہیں سیدھے شو روم لے جا کر ایک نئی گاڑی تحفے کے طور دوں گا۔۔۔‘‘

منگنی ہوئی اور شادی کی رسومات پر بحث ہوتی رہی۔ لڑکے نے مطالبہ کیا کہ کوئی رسم ان کی جانب سے نہ ہو گی، کیونکہ یہ ان کے ریتی رواجوں میں شامل نہیں ہے اور سارے کا سارا خرچ بھی لڑکی والوں کو ہی اٹھانا ہو گا۔ شادی کی تمام ہی رسومات ہوئیں پر لڑکی والوں کے خرچ پر اور شادی کا مہورت بھی لڑکے نے اپنے حساب سے ہی طے کیا۔

شادی تو دھوم دھام سے انجام پذیر ہوئی، لیکن لڑکا ازدواجی معاملات نبھانے کے پوری طرح لائق نہیں، یہ بات چھپائی گئی۔ دولہے نے یہ دھوکہ کیا۔ لیکن مجبوراً آشا اور اس کے گھر والوں نے اس کی کمزوری ظاہر نہ کی۔ شادی کی پہلی رات، جہاں دولہا دلہن کا کمرا سجا ہوا ہونا چاہیے تھا، دیواریں سجاوٹ سے آراستہ اور بستر پر ریشمی چادر پھولوں سے مہکی ہوئی ہونی چاہیے تھی، وہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ اس کے کمرے کا دروازہ ساری رات کھلا رہا، جہاں سے زیرو کی روشنی کے بجائے تیز روشنی نظر آتی رہی۔ جہیز سے لائی ہوئی نائٹی پہننے کے بجائے اسے دھلا ہوا کرتا پاجامہ پہننے کو دیا گیا۔ اپنی بیوہ ماں کا پرانا منگل سوتر اسے پہنایا گیا۔ دروازے کے پاس گھر کا پالتو کتا لیٹا رہا اور روتی ہوئی آشا کروٹیں بدلتے سوچتی رہی کہ یہ کیسی شادی ہے۔ نئی نویلی دلہن کی نہ تو گھر داخلے کی رسم ادا ہوئی اور نہ ہی گھونگھٹ ہٹانے کی؟

آشا نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ اس کی ساس نے دوسرے دن صبح کی چائے پیتے ہوئے کہا،  ’’میں سمجھتی تھی کہ ہال میں رکھنے کیلئے تم اپنی ماں سے ڈی وی ڈی اور ۲۹ انچ کا ٹی وی لے کر آؤ گی۔‘‘ میں سن کر حیران ہو گئی۔

شادی کے تیسرے دن والی تاریخ کے صفحے پر آشا نے لکھا ہے،  ’’آج صبح جب میں نے باتھ روم میں شاور چلا کر غسل کیا تو تھوڑا سا پانی باہر نکل آیا اور میرے باہر آتے ہی مجھے نہ صرف اپنے شوہر سے سننا پڑا کہ ’’میں گنوار ہوں، مجھے اچھی تربیت نہیں دی گئی ہے‘‘ بلکہ ساس نے بھی کہا کہ  ’’ماں نے تمہیں کیا سکھایا ہے۔‘‘

مجھے بہت دکھ ہوا اور اس کے بعد میں نے کبھی شاور چھوا تک نہیں۔

 ’’تم اپنے کو سمجھتی کیا ہو، کوئی حور تو ہو نہیں، کالی بھینس کی طرح ہو۔ کیوں نئے نئے کپڑے پہن کر خود کو سنوارتی ہو۔ ممی کی پرانی ساڑیاں نکال کر پہن لو۔‘‘

  ’’ہر بار جب میکے جاؤ، لوٹتے ہوئے کوئی نہ کوئی کام کی چیز لے کر آؤ، پیسے، اوون، گرِلر وغیرہ۔‘‘ یہ ڈائری میں درج ہے۔

جب ہنی مون کیلئے ہوائی جہاز کا ٹکٹ کروانے گیا تو مجھے ساتھ نہیں لے گیا۔ لوٹتے ہی کہا،  ’’ہندوستان سے باہر جانے کا سب دوست منع کر رہے ہیں۔ ماریشس اور سوئیزرلینڈ کی بجائے ساؤتھ میں گھوم آتے ہیں۔‘‘ میں نے خاموشی اختیار کر لی۔ مجھے بحث کر کے بات بڑھانا بے معنی لگا۔ وہاں بھی جب کبھی سمندر کنارے بیٹھ کر کوئی بھی بات کرتے تو وہ بحث بن جاتی۔ وہ اپنی جسمانی کمزوری کو چھپانے کیلئے ہر بات کو موڑ دیتا تھا، یہاں تک کہ جتنے دن ہم گھومنے والے تھے، اس سے چار دن پہلے ہی گھر واپس لوٹ آئے۔

مجھے اب بھی اچھی طرح یاد ہے، اس نے کہا، ’’تم اپنی بات چیت کا انداز اور چال چلن وغیرہ تبدیل کرو اور اس کیلئے میں تمہیں چھ مہینے دیتا ہوں، اگر تم نہ بدلی تو میں تم کو چھوڑ دوں گا۔‘‘

اس طرح شادی کے بعد چھتیس دن میں نے شوہر اور ساس کے طعنے سہے اور ایک دن کہیں سے اڑتی خبر کانوں تک آئی کہ میرے شوہر نے کچھ دن پہلے ہی مردانگی سے جڑا ایک چھوٹا آپریشن کرایا ہے۔ اس بارے میں مجھے کچھ بھی بتایا نہیں گیا، نہ ہی مجھے اعتماد میں لیا گیا۔ ا گر ایسا کرتا تو میں بھی شاید اس کا ساتھ دیتی۔ میرے ساتھ دھوکہ ہوا اس کی مجھے پرواہ نہیں پر اس نے کسی نہ کسی بہانے میرے والدین کو لوٹا، ان سے سونا، زیورات اور قیمتی چیزیں حاصل کرتا رہا۔ آخر صبر کا باندھ ٹوٹا اور چھتیس دنوں کے بعد میں ماں کے آغوش اور دادی کی گود میں رو پڑی۔ اتنا روئی کہ میرے دکھ آبشار بن کر بہنے لگے۔

صبح خوف کے ساتھ اٹھا کرتی تھی، اس خوف میں جیتی تھی کہ آج کا دن جانے کیسے گزرے گا۔ چھتیسویں دن شوہر کی خالہ کے گھر کھانا تھا۔ رات ڈیڑھ بجے لوٹتے وقت دونوں مجھے میری ماں کے گھر چھوڑنے آئے یہ کہتے ہوئے کہ چار پانچ دن یہاں رہ لو، تاکہ دل بہل جائے اور میں بھی سوچنے لگی کہ روز کی جلی کٹی سننے سے کچھ دن کی نجات حاصل ہوئی۔

ڈائری کے بیالیسویں صفحے پر وہ لکھتی ہے،  ’’آج چھ دن بھی پورے ہو گئے ہیں، رات کا ایک بجا ہے۔ ان چھ دنوں میں ایک بار بھی اس نے فون نہیں کیا اور نہ ہی میری کوئی خیر خبر لی۔ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ یہ چھتیس دنوں کی کہانیاں تھیں۔‘‘

کاش رشتوں کی بنیاد اعتماد کی بنیاد پر رکھی گئی ہوتی تو کسی کو بھی فراڈ کا رنج نہ ہوتا، زندگی میں دلوں کے بیچ کی دراڑ وسیع نہ ہوتی۔ تباہی پر روک لگ جاتا، اگر دل کی گہرائیوں سے محبت کے آبشار پھوٹ پڑتے! !

***

 

 

 

محبت بھرا ساتھ

 

جگدیش لچھّانی

 

آج میرے امتحان کا نتیجہ آیا ہے اور میں اچھے نمبروں سے پاس ہوا ہوں۔ اس پر میں بے حد خوش ہوں، امتحان کی کامیابی پر نہیں بلکہ یہ خوش خبری تم تک پہچانے کیلئے۔ میری کامیابی، مجھ سے زیادہ، تمہاری کامیابی ہے۔ تمہاری یاد میرے دل میں بسی ہوئی ہے۔

آج تمہاری صورت میری آنکھوں کے آگے گھوم رہی ہے۔ حالانکہ جسمانی طور پر تم مجھ کافی دور ہو، اتنی دور، جہاں سے نہ تم میری آواز سن سن سکو گی اور نہ ہی میں تمہاری سن سکتا ہوں۔

مجھے پتہ ہے، اداس ہونا تمہارے مزاج میں ہی نہیں ہے، کیونکہ ’’ماضی‘‘ تمہارے لئے کوئی مطلب نہیں رکھتا۔ ماضی کے باب کو تم بیکار اور بے کشش سمجھ کر، ایکدم لاپرواہی سے پلٹ دیتی ہو۔ تمہارے لئے حال ہی سب کچھ ہے اور وہ بھی اس وقت تک، جب تک وہ حال ہی ہے، ماضی میں نہیں بدلا ہے۔ ماضی کے ساتھ ہی وہ بھی، تمہارے لئے غیر اہم بن جاتا ہے۔ پھر چاہے وہ کتنا بھی اہمیت بھرا کیوں نہ ہو؟ اور مستقبل پر تو تمہارا ایمان ہے ہی نہیں۔ اگر ہے بھی تو صرف اتنا ہی کہ مستقبل، حال کو نگل کر ماضی کو جنم دیتا ہے، بس! اس سے زیادہ تم زمانے کو کوئی بھی اہمیت نہیں دیتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی غم تمہاری فطرت میں داخل نہیں ہو سکتا۔

ایک طرف تم ہو بے فکر، بغیر کسی غم کے، ایک صاف، شفاف ندی کی مانند ہمیشہ بہتی ہوئی، جو راہ کے چھوٹے بڑے پتھروں سے مل کر اپنی ہی خوشی کی خماری میں گاتی جاتی ہے۔ تو دوسری طرف میں ہوں، ایک بھاری پہاڑ کی طرح، جو کھسکنے پر اپنے آس پاس کے پہاڑوں کو بھی ہلا جاتا ہے۔ تمہارے پاس خوشیاں ہی خوشیاں ہیں، اور میرے پاس غم ہی غم۔ تمہارے پاس قہقہے ہیں، تو میرے پاس سسکیاں ہیں۔ تمہارے پاس بے فکری ہے، میرے پاس فکرات۔ یہ سب جاننے کے بعد کیا تم بتا سکو گی کہ ایک غم خوشی کے پیچھے کیوں بھاگتا ہے؟ ایک سسکی، قہقہے میں کیوں تبدیل ہونا چاہتی ہے؟ ایک فکر، بے فکری کی عبادت کیوں کرتی ہے؟ ان سوالات کے بارے میں سوچتے سوچتے جب کبھی میں بے انتہا دکھی ہو اٹھتا ہوں، تب میرا غم اور بھی بڑھ جاتا ہے، میری سسکی فریاد میں کیوں بدل جاتی ہے؟

ارے دیکھو نا میں بھی کتنا عجیب انسان ہوں، میں نے تمہیں سنانا کیا چاہا اور سنا کیا بیٹھا؟ ہاں! تو میں نے کہا تھا کہ آج میں امتحان میں پاس ہوا ہوں۔ جب میں امتحان دے کر آیا تھا، تب تم نے کہا تھا، ’’پاس ہونے پر مٹھائی کھلاؤ گے نا؟‘‘

یاد ہے، میں نے تمہیں کیا جواب دیا تھا، ’’میں تو کھلاؤں گا ہی، پر تمہیں بھی مٹھائی کھلانی پڑے گی۔‘‘

تم نے میری اس بات کا مطلب نہ سمجھتے ہوئے کہا تھا، ’’واہ! پاس تم ہو اور مٹھائی میں کھلاؤں۔‘‘

لیکن میں جانتا تھا کہ اگر میں پاس ہوا بھی تو صرف تمہاری شدید محنت کی وجہ سے ہوں گا، مگر اس وقت میں نے زیادہ کچھ نہیں کہہ کر فقط ایک قہقہہ لگایا تھا،  ’’اسی لئے میں تم سے مٹھائی کا مطالبہ کر رہا ہوں۔ کیوں، اب تو تم مٹھائی کھلانے کی وجہ نہیں پوچھو گی؟‘‘

تمہیں یاد ہو گا، جب میں امتحان دینے کے لئے تمہارے گھر آ رہا تھا، تب میرے دل میں نا امیدی تھی۔ میرے سر پر پہاڑ جیسا بوجھ تھا۔ میں نا امیدی اور بوجھ کے درمیان دبتا جا رہا تھا۔ ایسی زخمی ذہنی کیفیت میں، کتاب چھونے کا خیال بھی مجھے چھو نہیں پاتا تھا۔ اس حالت سے گزرتے ہوئے، مجھے یہ یقین ہو گیا تھا کہ میں فیل ہو جاؤں گا۔

مگر مستقبل ہمیشہ مبہم ہوتا ہے۔ کبھی کبھی اس کی دھندلی جھلک دیکھ کر غلط اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے، اور میرا اندازہ، جسے صرف اندازہ ہی نہیں بلکہ یقین بھی کہہ سکتے ہیں، غلط ہی نکلا یا میں یہ کہوں کہ تم نے اسے غلط ثابت کر دیا۔ اپنے پاس ہونے کے اس اعزاز کا حق میں صرف تمہیں ہی دینا چاہتا ہوں، کیونکہ تمہارے جوش اور محنت نے مجھے نہ صرف پاس ہونے میں، بلکہ نا امیدی کی گہرائیوں میں سے بھی باہر نکلنے میں آج مدد کی ہے۔ پھر کہو، بھلا میں اتنا احسان فراموش کیسے ہو سکتا ہوں کہ تمہارا احسان بھی نہ مانو؟

تمہارے گھر میں اور بھی تو لوگ تھے۔ لیکن ان سب سے زیادہ، تم نے ہی میرا خیال رکھا۔ وہ یقیناً میرے دوست کا گھر تھا، لیکن میرا گھر تو نہ تھا۔ اور پھر تمہارا میرا رشتہ بھی کیا تھا؟ تم تھیں میرے دوست کی بہن! میری کچھ بھی نہیں! پھر بھی تمہارا میرے لئے اتنا پیار، اتنی خاطر داری! کیا میں یہ بھلا پاؤں گا؟ تمہیں شاید کچھ بھی یاد نہ ہو، کیونکہ تم کبھی بھی گزرے ہوئے وقت کی جانب مڑ کر دیکھتی ہی نہیں۔

ویسے تو روز صبح تمہارے اٹھنے کا اصول آٹھ بجے تھا۔ لیکن میرے وہاں آ کر رہنے کی وجہ سے، تم کو اپنی نیند میں دو گھنٹے کی کمی کرنی پڑی۔ روز صبح جلدی اٹھ کر تم میرے لیے چائے تیار کرتی تھیں۔ نہانے کیلئے گرم پانی رکھتیں اور جیسے ہی میں نہا کر آتا، میرے استری کئے ہوئے کپڑے میز پر پہلے ہی تیار پڑے ہوتے۔ کبھی کبھی میں دل میں محسوس کرتا تھا کہ میں تمہیں بہت تکلیف دے رہا ہوں۔ ایک دو بار تم سے کہا بھی کہ میری اتنی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، لیکن تم نے میرا کہا، سنا ان سنا کر دیا۔ میری خاطر داری میں کسی طرح کی کمی نہیں رہنے دی، پہلے دن سے ہی تم نے جیسے خود کو مجھے سونپ دیا ہو۔

ہر وقت تمہارے چہرے پر موجود ملکوتی مسکراہٹ مجھے خوشی دیتی تھی۔ تمہاری باتیں مجھے بہلائے رکھتی تھیں۔ بیباکی لئے تمہارا ملنسار مزاج، میری شخصیت پر چھا گیا۔ آہستہ آہستہ ’’ماضی‘‘ دھندلا ہو گیا، جیسے تمہارے ساتھ نے مجھے ’’ماضی‘‘ کی ویران وادیوں میں بھٹکنے سے بچا لیا ہو۔ میں دل لگا کر خوب پڑھنے لگا۔ اپنی محنت کا پھل، تمہیں خوش کرنے کیلئے تمہارے آگے رکھنا چاہتا تھا۔

جب بھی میں کہتا تھا کہ میں فیل ہو جاؤں گا، تب تم کہتی تھیں، ’’فیل ہی ہونا تھا تو اتنا فاصلہ طے کر کے یہاں کیوں آئے ہو؟ میں جانتی ہوں کہ تم اپنی زندگی سے مایوس ہو چکے ہو۔ لیکن امید نام کی کوئی چیز بھی تو دنیا میں ہے، یہ تم کیوں بھلا دیتے ہو؟ تم کو ایک دل لگا کر پڑھنا ہی پڑے گا اور پاس ہونا ہی پڑے گا، نہیں تو میں یہی سمجھوں گی کہ تم تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کر رہے ہو اور جان بوجھ کر فیل ہونا چاہتے ہو۔‘‘

تمہارے ان لفظوں نے واقعی مجھ جادو سا اثر کیا تھا۔ جیسے کسی تھکے ہارے مسافر کے چہرے پر ٹھنڈے پانی کی بوندیں کرتیں ہیں۔

اس طرح تمہارے پیار نے میرے لئے بیابان میں پانی کا کام کیا، اس ڈھارس کی وجہ سے ہی میں اتنا بڑا پہاڑ پار کر کے منزل پر پہنچا ہوں۔

آج اپنی کامیابی کے بارے میں سوچتے ہوئے دل میں خیال آتا ہے کہ کس طرح اتفاق سے ہمارا ملن ہوا، مجھے پندرہ دن تمہارا محبت بھرا ساتھ ملا اور پھر ہم ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ میرے امتحان ختم ہو گئے اور میں اپنے گھر لوٹ آیا۔

پر آج تک تمہاری یاد مجھے بار بار آتی رہتی ہے۔ شاید تمہیں بھی آتی ہو۔ یہ میں کیسے کہوں؟ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تم اپنے ’’ماضی‘‘ کی جانب کبھی نہیں دیکھتیں۔ لیکن کیا میں تمہارے لئے صرف ماضی بھر ہی ہوں، کیوں؟ تم نے ہی مجھے زندگی میں پر امید ہو کر جینا سکھایا ہے، اس لئے میں دل میں سوچ رہا ہوں، میں کوئی ماضی تو نہیں ہوں۔ میں تو ایک حساس انسان ہوں، جو میں ماضی میں بھی تھا، حال میں بھی ہے اور شاید ماضی میں بھی رہے گا۔

***

 

 

 

دھرتی سے رشتہ

 

موتی لال جوتوانی

 

 

بس اسٹاپ پر کافی بھیڑ لگ رہی تھی اور بس کے آتے ہی تمام لوگ اس کے اندر گھسنے کے لیے لپکنے لگے تھے۔ بسنتانی جی کو بس سے نیچے اترنے میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ نیچے اتر کر انہوں ذرا پیچھے کی طرف نظر یں گھما کر دیکھا، بھیڑ میں کچھ عورتیں اور مرد، انہیں عورتیں اور مرد نہیں بلکہ ناکارہ اور جنسی کجروی کی ذہنی بیماری سے دوچار جانور لگے تھے۔

شام گھِر آئی تھی۔ شہروں کی شام گوٹھوں کی شام سے الگ ہو گئی ہے۔ گاؤں کی شام افق سے آہستہ آہستہ پہلے گھروں میں اور پھر کھیتوں پر اترتی ہے۔ شہروں کی شام میں گھر جلد پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں، کوئی اپنائیت نہیں، کوئی خوشگواریت نہیں ہے۔ یہاں بجلی کے ہوتے ہوئے تیز روشنی میں گھر اندھیروں بھری چادر اوڑھے ہوئے نہیں رہتے، سبھی کچھ ننگا ننگا سا ہوتا ہے۔

بسنتانی جی آگے بڑھے۔ فیڈریشن ہاؤس کچھ فاصلے پر ہے۔ بیچ شہر میں ریگل سنیما ہاؤس کے پاس فیڈریشن ہاؤس نامی ایک بڑی عمارت ہے۔ یہ عمارت گویا پورے ہندوستان کا ایک چھوٹا سا روپ ہے۔ اس میں، اس بڑے شہر میں رہنے والے ہندوستان کی سبھی ریاستوں کے لوگوں نے اپنے اپنے ثقافتی مراکز قائم ہیں۔ جب یہ عمارت بن کر تیار ہوئی تھی، تب اس کے سبھی حصے ایسے مراکز سے گھر گئے۔ بسنتانی نے سوچا، ملک کی آزادی کے بعد اس وقت ہمارے لوگوں کا ذہن روٹی، کپڑا اور مکان جیسے بنیادی مسائل میں الجھا ہوا تھا، ورنہ ان کی زبان اور تہذیب کے ثقافتی ادارے کو بھی اس فیڈریشن ہاؤس میں معقول حد تک کوئی مقام مل جاتا۔ ہماری زبان اور تہذیب کے لوگوں کی کوئی ایک ریاست نہیں ہے۔ وہ سبھی ریاستوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ملک کی تقسیم کے حادثے سے سب سے زیادہ نقصان ان کی قوم کا ہوا ہے۔ غنیمت یہ ہے کہ انہیں اس عمارت کی چھت پر ایک کمرہ ڈالنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے بعد سے وہ ہر اتوار کو باقاعدگی سے اپنے اس ادارے کے اجلاس میں شرکت کرتے رہے ہیں۔

شہر کے اس چہل پہل والے حصے میں شام کو گویا ایک میلہ سا لگا رہتا ہے۔ لوگوں کی بہت آمدورفت ہوتی تھی۔ نت نئے رنگوں کے لباسوں میں ملبوس وہ لوگ نہایت مصروف لگتے تھے، لیکن، انہوں نے سوچا، اگر ان کے نزدیک جا کر دیکھیں اور ان کے دلوں میں جھانک کر جانچیں، تو وہ سبھی وقت کاٹنے کے لئے پریشان معلوم ہوں گے۔ انسانی کام کاج آج زیادہ تر ٹیکنالوجی سر انجام دیتی ہے اور انسان اس کے نتیجے میں بچ جانے والا وقت کو ادھر ادھر سنیماگھروں اور آرٹ یا کاروباری نمائشوں میں خرچ کرتا ہے۔ لیکن پھر بھی، اپنا گھر پریوار ہونے کے باوجود، اسے باہر ادھر ادھر جھانکنے تاکنے کے لئے خالی وقت مل ہی جاتا ہے۔

بسنتانی جی تقریباً ساٹھ سال کے ہوں گے۔ لیکن ان کی چال میں وہی چستی اور سوچ میں وہی تندی ہے۔ وہ شہر کی ایک دور دراز بستی میں ایک ڈھائی منزلہ مکان کی ’’برساتی‘‘میں کرائے پر رہتے ہیں۔ اکثر مقامی لوگ اور مالکِ مکان ہی مکانوں کی نچلی منزل میں رہتے ہیں۔ شہر میں باہر سے آئے لوگ اکثر دفتروں میں منشی یا کلرک ہیں۔ ان مکانوں کے ’’برساتی‘‘ کمروں میں ان کی گزر اوقات ہوتی ہے۔ بسنتانی جی خود کلرک نہیں ہیں، لیکن انہیں پتہ ہے کہ ان کی تنظیم کے کچھ گنے چنے لوگ ہیں جو بڑے بڑے کاروبار میں لگے ہیں، دوسری صورت میں وہ اکثر چھوٹے دکاندار یا محض کلرک بھر ہیں۔ انہوں نے سوچا، بنگالیوں کو آدھا بنگال اور پنجابیوں کو آدھا پنجاب ملا۔ لیکن ہم سندھیوں کو؟ ہمارا سندھ تو پورے کا پورا پاکستان بن گیا۔

وہ انہیں خیالات میں جذب، فیڈریشن ہاؤس کے بیرونی برآمدے میں آ پہنچے۔ اتنے میں کسی نے پیچھے سے آ کر ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، موہن خیر مقدمی انداز میں مسکرا کر کہہ رہا تھا۔

  ’’بسنتانی جی، نمسکار۔ تاروں بھرے آکاش تلے مکان کی چھت پر کھاٹ بچھا کر لیٹنے سے آپ کسی خفیہ راز کی بات بوجھ لیتے ہیں۔ پچھلی رات کو بھی آپ نے ایسا ہی کچھ تجربہ ضرور کیا ہو گا۔ بتائیں!‘‘

آج بسنتانی جی کا دل بس سے نیچے اترتے ہی اداس ہو گیا تھا اور جب جب کوئی با شعور، اداس گھڑیاں بِتاتا ہے، تب تب لازمی وہ زندگی کے کسی گہرے سچ تک پہنچ جاتا ہے۔ انہوں نے سنجیدہ ہو کر کہا۔

  ’’کل رات کو تو نہیں، اب اس شام کے وقت مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم شاید ان گنت سالوں تک ایسا کوئی ادبی کارنامہ یا شاہکار نہ دے سکیں گے، جسے کوئی قومی یا بین الاقوامی ایوارڈ ملے۔‘‘

چھ بجے اجلاس کی کار روائی کا آغاز ہونے والا تھا اور چھ بجنے کو تھے۔ الگ الگ راستوں سے دیگر بہت سے لوگ بھی آ پہنچے۔ ان سب کی مصنوعی، کھوکھلی ہنسی میں بسنتانی جی کی بات کھو گئی۔ عمارت کی نچلی منزل پر سمینار کا آغاز ہو چکا تھا۔ اُس سے باہر نکلتے نکلتے رام نے موہن سے کہا،  ’’ہماری اپنی زبان کھچڑی ہوئی جا رہی ہے۔ اب اپنی ایک ریاست نہ ہونے سے ہمارے کان پر طرح طرح کی زبانوں کی آوازیں پڑتی ہیں۔ پھر کیا یہ قدرتی نہیں ہے کہ ان کے الفاظ ہماری زبان یا تحریر پر چڑھ جائیں؟‘‘

موہن نے کوئی جواب نہ دیا، لیکن اس نے دل ہی دل میں یہ ضرور محسوس کیا کہ ہماری زندگی زیادہ تر شہری ہے اور اس لئے ہماری زبان میں، شہروں میں قیام کیلئے ضروری، ناگزیر اور مخلوط الفاظ کا ذخیرہ جمع ہو گیا ہے۔ وہ اپنی کہانی کے مرکزی اقتباسات اور پلاٹ میں کھویا تھا۔ اسے لگا کہ اس کے ساتھیوں کو یہ کہانی ضرور پسند آئے گی۔ واقعی، اس کی کہانی کی ہیروئین ماڈرن کامپلیکس لائف کی صحیح صحیح نمائندگی کرتی ہے۔ وہ ایک اسکول میں ٹیچر ہے۔ اس کی نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ لیکن اس کے چہرے پر شادی کے بعد پیدا ہوئی تازہ چمک جو اکثر نئی نویلی دلہنوں پر نظر آتی ہے، وہ نہیں ہے۔ جب جب اس کا شوہر اس کے قریب آتا ہے اور وہ دونوں ازدواجی معاملات میں بندھ جاتے ہیں، تو اسے یہ خیال ستاتا ہے کہ اسے اس مہینے نہیں بلکہ آنے والے مہینے میں خود کو مکمل طور پر پیش کرنا چاہئے، کیونکہ ایسا کرنے سے ہی وہ اپنی ’’میٹرنٹی لِیو‘‘ کو گرمیوں کی چھٹیوں سے ملا کر اسکول سے پورے چار ماہ کیلئے رخصت پا سکے گی۔

رام نے پوچھا،  ’’تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ کیا سوچ رہے ہو تم؟‘‘

موہن نے اسے اپنی کہانی کی پوری پیچیدگی سے روشناس کرایا۔ پاس ہی بسنتانی جی زینے کی ریلنگ کا سہارا لئے آہستہ آہستہ اوپر سرک رہے تھے۔ عمارت کی دوسری منزل تک آتے ہی رام نے اپنی سگریٹ کا ایک لمبا کش لے کر باقی بچی آدھی سگریٹ کا خیال چھوڑ دیا۔ اس نے سگریٹ بجھاتے ہوئے کہا،  ’’موہن، میری کہانی میں بھی ایک ایسا ہی ’’ٹینشن‘‘ ہے، لیکن میں نے وہ کہانی اصل میں ہندی میں لکھی ہے۔ دوست، میں تو ہندی ادبی دنیا میں جگہ بنانا چاہتا ہوں۔‘‘ اور پھر وہ آدھی سگریٹ کا ٹوٹا پھینک کر دوسری منزل پر ہونے والی ہندی تقریب میں چلا گیا۔ موہن سوچنے لگا، ملک کی تقسیم کرانے میں ہمارا کوئی ہاتھ نہ تھا۔ پھر کیوں رام سے اس کا حقیقی اور مستند ذریعہ چھن جائے گا؟ ایک رام ہندی ادبی دنیا میں کامیابی حاصل کر بھی لے۔ باقی لاکھوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا کیا ہو گا؟ کیا ہم صرف چھوٹے دوکاندار بھر ہو کر ہی رہ جائیں گے؟

بسنتانی جی کا غیر متوقع طور پر سانسا کھڑ گیا۔ پیچھے دو تین اشخاص قریب آ گئے تھے۔ ہری نے بسنتانی جی سے کہا،  ’’کیوں دادا، آج آپ کو اس طرح زینے پر آہستہ آہستہ چڑھتے دیکھ کر مجھے لگ رہا ہے کہ آپ واقعی بوڑھے ہو رہے ہیں۔‘‘

جواب میں بسنتانی جی کی، زینے پر جلنے والے ٹمٹمے زیرو پاور کے بلب کی سی، ایک پھیکی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

عمارت کی چھت پر پہنچے تو دیکھا، ایک دری بچھی ہوئی تھی۔ کتنے وقت سے اس ادارے کے لوگوں نے حکومت سے دیگر دوسرے اداروں کی طرح گرانٹ حاصل کرنے کی درخواست کی ہوئی تھی، جس سے کم از کم دری کے بجائے کرسیاں اور میزیں ڈالی جا سکیں، لیکن یہاں ہماری کون سنتا ہے؟ آج اپنے رسم و رواج کو محفوظ رکھنے کیلئے بھی سیاسی اقتدار درکار ہے۔ اور وہ اقتدار بدلے ہوئے حالات میں ہمارے یہاں کہاں ہے؟

وہ اپنے اپنے جوتوں کے تسمے اتار کر، جوتے ایک کونے پر لگا کر بیٹھ گئے۔ بسنتانی جی کا بیٹھنے کو دل نہ ہوا۔ وہ اندر کمرے میں جا کر دیوار پر ٹنگیں شاہ لطیف، سچل سرمست اور بھائی چین رائے سامی کی روغنی تصاویر کو دیکھنے لگے۔ ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ تمام تصاویر مصور کی انتھک محنت اور بھرپور قوتِ متخیلہ کے نتیجے میں ظہور میں آئی تھیں۔ ماضی بعید کے اس زمانے میں شاعر اور مصنف تصاویر تو ایک طرف رہیں، اپنی زندگی کی تفصیلات تک نہیں چھوڑ کر جاتے تھے۔ لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ مگر کیا آج کے ان شاعروں اور ادیبوں کی یہ تمام فوٹو گراف وقت کی مار سے بچ کر سلامت رہیں گی؟ ۔ وہ باہر نکل آئے اور چھت پر رکھے پھولوں کے گملوں کو دیکھنے لگے۔ وہ انہیں بڑی دیر تک دیکھتے رہے۔ گملوں میں سدا بہار کے پھول کھلے تھے اور بڑے خوبصورت لگ رہے تھے۔

اتنے میں کرشن نے آ کر ان کی محویت کو تحلیل کر دیا۔ کرشن کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ کھیلتی رہتی ہے۔ لیکن اس کی اس مسکراہٹ میں کبھی دوسروں پر رحم کا، تو کبھی خود پر ترس کے الگ الگ پہلو موجود رہتا ہے۔ اس نے نمستے میں اپنی مسکراہٹ کو مزید گہرا بناتے ہوئے بسنتانی جی سے کہا۔

  ’’کیوں بسنتانی جی، یہاں کھڑے ہیں؟ آئیے، چل کر نہ بیٹھیں؟‘‘

بسنتانی جی نے بھی جواب میں سوال ہی کیا،  ’’کیسے ہو، کرشن؟ ۔ آج یہاں اپنی سندھی کافیاں سناؤ گے نا؟ کافی یا وائی سننے کو بڑا جی کر رہا ہے۔‘‘

کرشن بولا،  ’’کافی یا وائی میں سندھو گھاٹی کی وسعت چاہئے۔ آج کل ہم لوگ شہروں کی تنگ گلیوں میں آ بسے ہیں۔ آج کل غزل کے بھی وہ ہی چھوٹے چھوٹے اوزان کام آتے ہیں، جو ہماری اس تنگ زندگیوں سے میل کھاتے ہیں۔‘‘

بسنتانی نے بجھے ہوئے دل سے کہا،  ’’تو تم آج بھی کوئی غزل ہی پڑھو گے؟‘‘

کرشن نے کہا،  ’’ہاں، جدید غزل، جدید پیچ و خم والی زندگی کا بوجھ برداشت کر لیتی ہے۔ آپ کو پتہ ہے، میں نے آج اپنی غزل کے ایک شعر میں کیا کہا ہے؟‘‘

بسنتانی جی کو کرشن کے حساس دل کا پتہ تھا، انہوں نے پوچھا،  ’’کیا؟‘‘

کرشن بولا،  ’’اب بچے پیدا کرنے کے پیچھے باپ کا ایک عظیم فریضہ یا اپنی نسل کو آگے بڑھانے جیسی کوئی بات نہیں رہ گئی ہے۔ بچے اتفاقاً یا ناپسندیدہ جنسی بھوک مٹانے کے نتیجے میں حادثاتی طور پر پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ بچے اب آگے چل کر اگر اپنا ضروری فرض نہیں ادا کرتے، تو اس میں ان کا کیا دوش ہے۔‘‘

اور کرشن قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔ لیکن بسنتانی جی نہ جانے کیوں اس قہقہے میں شریک نہ ہو سکے۔ انہیں لگا، دارالحکومت یا دارالحکومت جیسے بڑے شہروں کی زندگی ہندوستان کے سبھی لوگوں کی زندگی نہیں ہے۔ یہ شہر ان کے گاؤں کی چھتیں ہیں۔ ہم چھتوں پر زندگی کو گزارتے ہیں۔ زمین سے ہمارا ناطہ ٹوٹ گیا ہے، کٹ گیا ہے۔ کیا آج کا مزدور، کسان بھی ایسی بے معنی اور بے کار زندگی گزارتا ہے؟ ۔ کسان اپنے بیلوں کو اپنے بیٹوں جیسا سمجھتا ہے، کیا اُسے بھی یہ بیل ہانکنے کے لئے اپنا بیٹا نہیں چاہئے؟ ۔ کیا اس کا بھی بیٹا اس وقت ہو جاتا ہے، جب وہ چاہتا نہیں ہے؟ اپنے چوپایوں کو اپنی اولاد سمجھنے والے یہ چروا ہے بھی کیا اپنی اولاد کی سچی خواہش نہیں رکھتے؟

انہوں نے کرشن سے کہا،  ’’تم پھولوں کے وہ گملے دیکھتے ہو؟‘‘

کرشن بھونچکا سا گملوں کی طرف دیکھنے لگا۔

بسنتانی جی نے کہا،  ’’اس چھت پر ہم سبھی ان گملوں میں لگے پھول ہیں۔ الگ الگ گملوں میں، مختلف ریاستوں میں، ہمارے سدا بہار آرٹ کی خوشبو اور خوبصورتی یقیناً ترقی پا رہی ہے، لیکن یہ پھول محدود گملوں میں لگے ہیں اور یہ گملے زمین سے بہت اوپر چھت پر رکھے ہیں۔ ہمارا اپنی زمین سے رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔ لہذا ہم لوگوں کیلئے مصنوعی کرداروں کی طرح ہیں۔ وہ نئی دہلی کے کناٹ پیلس یا بمبئی کے فلورا فاؤنٹین جیسے علاقوں میں گھومنے والے کوئی بھی لوگ ہوں۔ ان کرداروں کا کوئی چہرہ مہرہ ہے؟ آل آف دے آ رفیس لیس۔ ان کی کوئی الگ پہچان، کوئی مختلف شخصیت ہے؟ لگتا ہے، سبھی بھیڑ بھاڑ میں کھو گئے ہیں۔‘‘

کرشن ان کی طرف تیز نظروں سے دیکھتا رہا۔

بسنتانی جی نے سانس بھر کر کہا،  ’’آج چھت پر اس اجلاس میں شرکت کرنے کو میرا جی نہیں کر رہا۔‘‘

اور پھر وہ نیچے جانے کے لئے لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے، زینے کی طرف چلے گئے۔ کرشن کے دماغ میں ایک وحشت انگیز خیال بجلی کی طرح کوند گیا،  ’’ارے! ایسا نہ ہو کہ کل اخباروں میں یہ پڑھنے کو ملے کہ دھرتی سے رشتہ جوڑنے کے خیال میں مگن ایک سندھی مصنف کی، فیڈریشن ہاؤس کی چھت پر سے تیزی سے زینہ اترتے ہوئے موت ہو گئی۔‘‘

اور پھر اگلے ہی لمحے، وہ کسی ایسی موت کا انتظار کرنے لگا۔

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

 

حصہ اول

 


ورڈ فائل
ای پب فائل

کنڈل فائل

 

حصہ دوم


ورڈ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل