FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

مملکتِ اسلامیہ

 

                   ڈاکٹر حمید اللہ

 

خطبہ نمبر ۷

 

 

صدر محترم! محترم وائس چانسلر صاحب! محترم اساتذہ کرام!محترم مہمانان!

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

قرآن مجید کے مطابق، مذہب اسلام کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ جسے اس آیت کریمہ (201:2) میں بیان کیا گیا ہے (رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیا حَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً) یعنی اسلام دین و دنیا دونوں جہانوں کی بھلائی چاہتا ہے، دونوں عالم کے لیے کوشش کرنے کی اجازت دیتا ہے اور دونوں جہانوں میں کامیاب بننے کا راستہ بتاتا ہے۔ دین اسلام میں جہاں ایک طرف نماز، روزہ اور حج جیسی روحانی چیزوں کا ذکر ہے، وہاں زکوٰۃ کا ذکر بھی ہے، جو ایک مالی مسئلہ ہے لیکن اسے رکن ایمان اور رکن دین بنایا گیا ہے۔ آج میرے پیش نظر صرف یہ بتانا ہے کہ کن حالات میں پیغمبر اسلامﷺ کو اس بات پر مجبور ہونا پڑا کہ ایک حکومت قائم فرمائیں۔ حکومت کی اقامت پر مجبور ہونے کا لفظ میں اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ نبی دنیا اور دنیوی اقتدار کا طالب نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود پیغمبر اسلامﷺ ایک مملکت قائم کرتے ہیں اور اس مملکت کے حاکم اعلیٰ کی حیثیت سے حکمرانی بھی فرماتے ہیں۔ یہ کن حالات میں ہوا اور کس طرح یہ مشکل کام انجام پایا؟ اور پھر اس مملکت میں، جس کا وجود ہی نہ تھا، ہر چیز کا نظم و نسق آپﷺ نے قائم کر دیا اور ایسا نظم و نسق چھوڑا کہ وہ آپ کے بعد صدیوں تک چلتا رہا اور نسل آدم آنحضرتﷺ کے نظام جہاں بانی سے فائدہ اٹھاتی آ رہی ہے۔ بہرحال قبل اس کے اسلامی مملکت کے متعلق کچھ عرض کروں، غالباً بے محل نہ ہو گا کہ جزیرہ نمائے عرب میں رسول پاکﷺ سے پہلے مملکت کی کیا صورت حال پائی جاتی تھی، اس کی طرف کچھ مختصراً اشارہ کروں۔

یہ حیرت انگیز بات ہے کہ شہر روما ہی نہیں، بلکہ ایتھنز شہر کے وجود میں آنے سے بھی پہلے جنوبی عرب خصوصاً یمن میں ایک مملکت پائی جاتی تھی۔ دوسرے لفظوں میں عرب کا تمدن یورپ کے قدیم تمدنوں سےبھی زیادہ قدیم ہے۔ جو مملکتیں یمن میں قائم کی گئی ہیں، ان کا نظم و نسق اچھا خاصا ترقی یافتہ نظر آتا ہے۔ یمن کے آثار قدیمہ اور وہاں کے کتبوں سے جو معلومات حاصل کی گئی ہیں، ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عربوں کو امور حکمرانی اور رعایا کے فلاح و بہبود کے انتظامات سے بہت دلچسپی رہی اور وہاں ایسے کارنامے وجود میں آئے کہ آج ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ ایک چھوٹے سے صحرائی ملک میں یہ کام کیسے انجام پائے؟ مثال کے طور پر قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ وہاں ایک مرتبہ "سیل العرم” کے سانحہ کا ذکر ہے، جو یمن میں رونما ہوا تھا۔ ایک مقام پر دریا میں بند باندھ کر ایک بہت بڑا تالاب بنایا گیا تھا۔بند ٹوٹ جانے سے زبردست سیلاب آیا اور بہت نقصان ہوا تھا۔ وہاں کی رعایا کو ترک وطن کر کے دیگر علاقوں میں بسنے پر مجبور ہونا پڑا۔ وہ تالاب جو آج بھی یمن میں موجود ہے، اپنی اس شکست حالت میں بھی اتنا عظیم الشان ہے کہ اس کی مرمت کے لیے کئی ارب روپے درکار ہیں۔ یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب قدیم یونان کا مشہور شہر ایتھنز بھی وجود میں نہیں آیا تھا۔ بہرحال عرض کرنا یہ ہے کہ یمن میں ملکہ بلقیس کی حکمرانی تھی جو حضرت سلیمان ؑ کی ہم عصر تھی۔ اس کے بعد عرصہ دراز تک مختلف حکمران وہاں حکومت کرتے رہے اور وہاں کی فطری زرخیزی اور مختلف قیمتی پیداواروں کی وجہ سے اس ملک پر ایشیا، یورپ اور افریقہ، غرضیکہ ہر طرف سے حملے بھی ہوتے رہے۔ چنانچہ یونانیوں نے بھی یمن پر حملہ کیا اور ان کے یونانی کتبے آج تک یمن میں بعض مقامات پر ہمیں ملتے ہیں۔ عہد نبویؐ سے پہلے حبشہ کے بادشاہ نے وہاں کے حکمرانوں کو شکست دے کر یمن پر قبضہ کر لیا۔ کہتے ہیں کہ وہاں جو عیسائی حبشی بادشاہ تھا، اس نے اپنے پایۂ تخت صنعاء میں ایک عظیم الشان گرجا بھی بنایا تھا۔ اسے جلن یہ ہوئی تھی کہ لوگ صحرا کے بے آب و گیاہ شہر مکہ میں حج کے لیے کیوں جاتے ہیں؟ چنانچہ اس بادشاہ نے ایک فوج تیار کرائی اور کعبہ کو ڈھانے کے عزم سے مکہ کی طرف روانہ ہوا۔ قرآن مجید  کے "سورۂ فیل” (105) میں اسی کا ذکر ہے۔ ہمارے مورخ لکھتے ہیں کہ جس سال اصحاب الفیل کا مکہ پر حملہ ہوا اسی سال رسول اکرمﷺ کی ولادت ہوئی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ حملہ یمن کے مقامی لوگوں کی مرضی کے خلاف ہوا تھا۔ یمن میں حبشیوں کی حکومت تھی جو اجنبی لوگ تھے۔ چنانچہ مقامی یمنی باشندوں نے حبشیوں کے تسلط سے آزاد ہونے کے لیے ایک قومی تحریک شروع کی اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے یمن کے سردار ایران گئے، اور ایران کے بادشاہ سے مدد کی درخواست کی۔ اس روایت کے دلچسپ الفاظ یہ ہیں کہ ایک سردار نے کسریٰ سے کہا کہ ہمارے ملک پر کوؤں نے قبضہ کر لیا ہے، آپ ہمیں مدد دیجیے۔ اس نے پوچھا کون سے کوے؟ ہندوستان کے کوے یا افریقہ کے؟ کسریٰ نے خیال کیا کہ عرصے سے جو تمنا تھی کہ میں یمن پر قبضہ کروں، اب یہ موقع ہاتھ آیا ہے، اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ لہذا اس نے فوج سے مدد کی، جنگ میں حبشیوں کو شکست دی اور اس علاقے پر ایرانیوں کے ماتحت مقامی سردار کی سربراہی میں حکومت قائم ہوئی۔ اس زمانے میں مکہ سے عبد المطلب یمن جاتے ہیں اور اس حکمران کو اپنی طرف سے اور اپنے ملک کی طرف سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اس کی تفصیل ہمیں ملتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یمن اور مکہ کے تعلقات بہت قریبی تھے۔

یمن میں یمنی حکمران برائے نام حاکم تھا۔ جلد ہی ایرانیوں نے اپنے قبضے اور اپنی فوج کی موجودگی سے بے جا فائدہ اٹھا کر اسے بے دخل کر دیا اور خود ہی وہاں حکومت کرنے لگے۔ عہد نبویؐ کے دورِ آخر میں جب یمن میں اسلام کی اشاعت ہوئی تو اس زمانے میں ایران میں ایرانی حکومت ضعف و انحطاط کا شکار ہو چکی تھی۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر یمنیوں نے ایران کے خلاف بغاوت کی۔ اس وقت یمن کا جو ایرانی گورنر تھا، اس نے اسلام قبول کر لیا۔ اس طرح اس نے اپنے آپ کو اور اپنے ہم نسل ایرانی ساتھیوں کو، جو یمن میں تھے، بچانے کی کوشش کی،جس سے یمن میں ایک انٹرنیشنل پیچیدگی پیدا ہو گئی۔ اس پہلو پر بحث کا موقع نہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ عرب میں قدیم ترین حکومتیں ہمیں یمن میں نظر آتی ہیں اور صرف وہیں نہیں اور مقامات پر بھی حکومتوں کا پتہ چلتا ہے۔

اب میں مکے کی طرف آتا ہوں کیونکہ یہاں پر رسول اکرمﷺ کی ولادت ہوئی۔ ہم اولاً یہ معلوم کریں گے کہ وہاں کوئی حکومت تھی یا نہیں؟ اگر تھی تو کس قسم کی حکومت تھی؟ مکہ کے متعلق آپ سب اچھی طرح واقف ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ نے اس شہر کی بنا ڈالی تھی۔ حضرت ابراہیمؑ کو جب اللہ نے حکم دیا کہ اپنے بیٹے حضرت اسمعیلؑ اور ان کی ماں حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کو فلسطین سے لا کر اس بے آب و گیاہ میدان میں چھوڑ دیں تب وہاں کوئی آبادی نہیں تھی۔ حضرت ابراہیمؑ واپس چلے جاتے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد حضرت اسمعیل کو پیاس محسوس ہوتی ہے۔ جہاں وہ پیاس کی شدت سے ایڑیاں رگڑ رہے تھے وہیں زمزم کا چشمہ ابل پڑتا ہے۔ اتفاق سے ایک قافلہ ادھر سے گزر رہا تھا۔ پانی کے آثار دیکھ کر قافلے والے وہاں ٹھہر جاتے ہیں۔ پھر وہاں پانی کی کثرت کی خبر سن کر اور لوگ بھی آ کر بسنے لگتے ہیں۔ رفتہ رفتہ آبادی بڑھنے لگتی ہے۔ حضرت اسمعیل علیہ السلام اپنی ماں کے ساتھ وہیں رہتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد ان کی شادی مقامی عرب قبیلے کے ایک گھرانے سے ہوتی ہے اور اس قبیلے کی آبادی مکے میں پھیلتی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں اب تک ایک اہم واقعہ، یعنی کعبے کی از سر نو تعمیر کا ذکر کرنا ہے۔ اسلامی روایت کے مطابق جب حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں آئے اور جنت کی جگہ زمین پر رہنے لگے تو یہاں ان کو ایک طرح کی کمی محسوس ہوئی۔ وہ جنت میں دیکھتے تھے کہ فرشتے خدا کی عبادت کے لیے بیت المعمور کے اطراف طواف کرتے ہیں، زمین پر کوئی عبادت گاہ موجود نہیں تھی۔ انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے عبادت گاہ کی نعمت سے محروم نہ رکھا جائے۔ چنانچہ اللہ نے فرشتوں کو آدم علیہ السلام کے لیے مامور کیا کہ زمین پر بھی بیت المعمور کی طرح عبادت گاہ تعمیر کی جائے۔ فرشتوں نے زمین پر بھی بیت المعمور کے عین نیچے ایک مقام کا انتخاب کیا اور وہاں کعبہ کی تعمیر کی۔ حدیث میں علامتی طور پر (symbolically) یہ الفاظ ہیں کہ اگر بیت المعمور سے کوئی پتھر پھینکا جائے تو سیدھے کعبے کی چھت پر گرے گا۔ یہ کعبہ جو حضرت آدم علیہ السلام کے لیے بنایا گیا وہ زمین پر حضرت نوح علیہ السلام کے طوفان کے زمانے تک قائم رہا۔ طوفان کے بعد اس کے کوئی آثار باقی نہیں رہے۔حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں اس کی تعمیر جدید کا کوئی پتہ نہیں چلتا لیکن ان کے بعد جو بڑے پیغمبر آئے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے۔ اللہ نے انہیں حکم دیا کہ کعبہ کو ازسر نو تعمیر کریں۔ انہوں نے آمنا و صدقنا، سر آنکھوں پر، لیکن مجھے معلوم نہیں کہ پہلا کعبہ کس مقام پر واقع تھا؟ اللہ نے کہا دیکھو، تمہارے سامنے بادل کا جو ٹکڑا اس وقت حرکت کرتا ہے، تم اس کے سائے کے پیچھے پیچھے چلو اور جس مقام پر سایہ رک جائے گا، وہی مقام ہے جہاں کعبہ تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس سائے کے پیچھے چلتے گئے۔ بالآخر وہ اس مقام پر پہنچے جہاں اب کعبہ ہے اور یہاں بادل نے حرکت ختم کر دی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس سائے کے طول و عرض پر نشان لگائے اور یہ تھا کعبہ کا خاکہ۔ انہوں نے وہاں تھوڑی سی کھدائی کی تو پرانی بنیاد کے آثار وہاں موجود ہیں۔ اسی بنیاد پر انہوں نے نئی عمارت کی تعمیر شروع کر دی۔ اس وقت ان کے بیٹے اسمعیل علیہ السلام بھی بڑے ہو چکے تھے۔ چنانچہ اپنے بیٹے کی مدد سے انہوں نے وہاں چار دیواروں سے گھیر کر ایک بہت ہی سادہ قسم کی عمارت بنائی۔ جب وہ دیواریں قد سے بھی اونچی ہونے لگیں تو اس وقت انہیں ضرورت پیش آئی کہ دیواروں کو مزید بلند کرنے کے لیے کوئی سہارا لیا جائے۔ چنانچہ وہ ایک پتھر پر کھڑے ہو کر کعبہ کی تعمیر کرنے لگے۔ یہ پتھر "مقام ابراہیم” کے نام سے آج بھی موجود ہے۔ ایک زمانے میں وہ کعبہ کے عین سامنے دیوار کے پاس تھا، جہاں کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام عمارت بناتے تھے۔ اسلامی مورخ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ طغیانی آئی تو یہ پتھر بہہ گیا اور بہت مشکل سے دستیاب ہوا۔ تب اس کو پرانے مقام پر رکھنے کے بجائے کعبہ کے اندر رکھ دیا گیا۔ پھر کچھ زمانے کے بعد اس کو نکالا گیا اور ایک دوسرے مقام پر رکھ دیا گیا اور اب سعودی دور میں تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ کعبے کے سامنے اس کو ایک کانچ کے صندوق کے اندر بند کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ بہرحال حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک عبادت گاہ تعمیر کی اور اس کو خدائے واحد کا مکان (بیت اللہ) قرار دیا۔ بائبل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جو قصہ بیان کیا گیا ہے اس میں لکھا ہے کہ جب وہ عراق سے ترک وطن کر کے فلسطین آئے تو انہوں نے مختلف مقامات پر "بیت ایل” تعمیر کیے۔ "بیت” وہی لفظ ہے جو عربی میں ہے اور "ایل” کے معنی ہیں "اللہ کا گھر۔ بائبل کے مطابق انہوں نے فلسطین کے بہت سے مقامات پر اللہ کی عبادت گاہیں تعمیر کیں اور مقامی باشندوں کو بتایا کہ اپنے پروردگار اور خالق کی کس طرح عبادت کریں۔

یہ مقام حیرت نہیں کہ جب ابراہیم علیہ السلام اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ عرب میں آئے تو مکہ میں اس بچے اور اس کی اولاد کے لیے اور دوسرے رشتہ داروں کے لیے بھی انہوں نے ایک "بیت ایل” یا بیت اللہ تعمیر کیا جو اب تک چلا آتا ہے۔ قرآن مجید (إِنَّ أَوَّلَ بَیتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِینَ  96:3) میں ذکر ہے کہ کعبہ دنیا میں وہ قدیم ترین عبادت گاہ ہے جو اللہ کے لیے تعمیر کی گئی ہے۔ اگر ہم یہ بیان ان معنوں میں لیں کہ وہ قدیم ترین گھر جو اب تک دنیا میں موجود ہے تو اس میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا لیکن اگر یہ کہیں کہ سب سے پہلے جو گھر تعمیر کیا گیا وہ کعبہ ہے تو اس لحاظ سے اعتراض ہو گا کہ آخر اور بھی تو پیغمبر دنیا میں آ چکے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام وغیرہ ہوئے ہیں ان کے زمانے میں بھی اللہ کی عبادت و اطاعت ہوتی تھی اور ان کے ہاں بھی کوئی عبادت گاہ ہو گی جو کعبہ سے پہلے ہو گی اس لیے اگر ہم کعبہ کا بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قرار نہ دیں بلکہ اس سے پہلے یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی بنائی ہوئی عبادت گاہ قرار دیں تو پھر قرآن کے بیان میں کسی کو اعتراض نہیں ہو گا۔ صرف میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو مکان بنایا، اس پر یہودیوں اور عیسائیوں کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اور بھی مقامات پر "بیت ایل” بنائے تھے۔ جب اور بھی گھر بنائے تھے تو حجاز میں بنانے پر کیوں اعتراض کیا جائے؟ بہرحال بیت اللہ کا حج جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے معین کیا تھا، اس کا سلسلہ کافی عرصہ تک جاری رہا اور اس کے نگراں پہلے حضرت اسمعیل علیہ السلام تھے اور اس کے بعد ان کی اولاد اس کی متولی رہی۔ بعد میں جنگیں ہوئیں اور بیرونی لوگ مکہ پر آ کر قابض ہوتے رہے ہیں۔ یہ ایک طویل قصہ ہے جس میں اس وقت بیان نہیں کر سکتا۔ کہنا یہ ہے کہ جس زمانے میں آنحضرتﷺ پیدا ہوئے اس وقت مکہ کی چند خصوصیتیں ہمیں حیرت انگیز نظر آتی ہیں، وہ یہ کہ مکہ نہ صرف بہت مالدار اور تجارتی شہر تھا بلکہ ساتھ ساتھ اس کے نظم و نسق کے لیے ایک حکومت بھی پائی جاتی تھی۔ جس میں بارہ وزیر ہوا کرتے تھے۔ یہ چیزیں ایسی ہیں جن پر ہمیں حیرت ہوتی ہے۔ میں اس کا حال مختصر طور پر آپ سے بیان کروں گا۔ جہاں تک تجارت کا تعلق ہے وہ آنحضرتﷺ کی ولادت سے بہت پہلے نسل ہا نسل کے انتظامات کا نتیجہ تھی قرآن مجید کی "سورۂ قریش” (106) سے آپ واقف ہیں جس میں مکے والوں کو یاد دلایا گیا ہے کہ اللہ ہی نے تمہیں سردی اور گرمی کے سفر کے ذریعے مال بھی دیا اور خوف سے بھی تم کو بچا لیا لہذا اس اللہ کا تمہیں شکرگزار ہونا چاہیے۔

جغرافیائی نقطہ نگاہ سے مکہ ایک اہم مقام تھا کہ عرب کے شمال اور جنوب کے لوگ جب تجارت کے لیے جاتے تھے تو انہیں مکہ سے گزرنا پڑتا تھا۔ کہتے ہیں کہ یورپ کی تجارت ہندوستان سے مکہ کے راستے ہوا کرتی تھی۔ اس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ مکہ کی جغرافیائی اہمیت کیا تھی۔ اس زمانے میں تجارتی قافلوں اور کاروانوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ غذا،  پانی اور ٹھہرنے کی جگہ کا بندوبست کریں۔ مکہ میں جو زمزم کا چشمہ یا کنواں تھا وہ ایسی چیز تھی کہ اسے کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لہذا تمام قافلے وہاں سے گزرا کرتے تھے۔ مکے کی اس تجارتی حیثیت کو اور بھی مستحکم کرنے کے لیے آنحضرتﷺ کے ایک جد امجد عبد مناف قصی نے ایک مرتبہ اپنے بیٹوں میں سے ایک کو قیصر کے پاس بھیجا، دوسرے کو کسریٰ کے پاس بھیجا، تیسرے کو نجاشی کے پاس اور چوتھے کو یمن کے حکمرانوں کے پاس بھیجا اور ان سے ایلاف یعنی معاہدہ یہ کیا کہ ہمیں اس بات کی اجازت ہو کہ ہم تجارتی قافلے تمہارے ملک میں لائیں، اپنا مال وہاں فروخت کریں اور تمہارے ملک کی پیداوار خرید کر اپنے ملک کو لے جائیں۔ اس تجارتی معاہدے کو ان حکمرانوں نے بھی پسند کیا اور قبول کر لیا۔ اس کے متعلق ہمارے پاس تفصیلی معلومات ہیں اس وقت میں ان کو بیان نہیں کروں گا کہ اس پر میرا ایک مضمون البلاغ کراچی (جون 1968ء) میں چھپ چکا ہے۔

مکے والوں نے یہ سوچا کہ ممکن ہے لٹیرے بدوؤں کے قبیلے تجارتی قافلوں کو اپنے علاقوں سے گزرتے دیکھ کر چھاپہ ماریں اور انہیں لوٹ لیں، اس لیے مکے کی زیارت گاہ اور مال تجارت کی حفاظت کا کچھ نہ کچھ انتظام کیا جائے۔ چنانچہ مکے کے افسروں نے ان تمام قبائل کے سرداروں سے جو کاروان تجارت کے راستوں میں پڑتے تھے، گفتگو کی اور ان سے کہا کہ ان تجارتی قافلوں سے ہمیں جو منفعت ہو گی اس میں سے کچھ حصہ تمہیں بھی دیا جائے گا۔ اس لالچ میں انہوں نے قبول کیا کہ ہم تمہارے کاروانوں پر حملہ نہیں کریں گے۔ اس سلسلے میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ مکی سرداروں نے کہا کہ اگر تمہارے پاس کچھ فروخت کرنے کا سامان ہو، مثلاً بھیڑ، بکریوں کے چمڑے یا زیتون کا تیل وغیرہ، تو وہ ہمیں دے دو، ہم اسے فروخت کریں اور قیمت اور پورا منافع غیر کسی معاوضے کے تمہیں پہنچا دیا کریں گے۔ غرض ان قبائلی سرداروں سے معاشی معاہدوں اور ہر طرف سے انتظامات کے باعث مکہ معظمہ عرب کا سب سے بڑا تجارتی مرکز اور انتہائی مال دار شہر بن گیا تھا۔ اس کی دولت مندی کا اس سے اندازہ لگائیے کہ ہجرت مدینہ کے بعد کے ابتدائی زمانے میں ایک اسلامی دستے نے ایک بار مشرکین کے ایک کارواں پر چھاپہ مارا تھا اور اس میں جو مال غنیمت ملا، اس کی مالیت ایک لاکھ درہم تھی۔ اس زمانے میں ایک لاکھ درہم کی قیمت کل کروڑوں کے برابر تھی۔ یہ صرف ایک کارواں کا سرمایہ تھا، اس سے ہم قریش کی دولت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ چونکہ قریش کاروانی راستوں کے قبیلوں سے دوستی اور حلیفی کر چکے تھے، اس سے وہ مزید فائدہ یوں اٹھانے گے کہ اگر کسی اور قبیلے کا کارواں سفر پر جانا چاہتا تو ایک قریشی شخص، معاوضہ لے کر، اس میں شریک ہو جاتا۔ اس سے نقارہ یا بدرقہ کہتے اور اس کی وجہ سے قریش کا کوئی حلیف قبیلہ اس کارواں کو بھی نہ چھیڑتا۔

جہاں تک سیاسی نظم و نسق کا تعلق ہے، شہر مکہ میں ایک شہری مملکت تھی، جس کا رقبہ (حدود حرم کی اساس پر) تقریباً ایک سو تیس مربع میل تھا۔ وہاں بادشاہت کی جگہ ایک طرح کی جماعتی گورنمنٹ تھی۔ یعنی ایک مجلس وزراء اس کے انتظام کی ذمہ دار تھی۔ اس کی تفصیلیں بھی ہمیں ملتی ہیں۔ نہایت ہی مختصراً ذکر کروں گا کہ اس میں دیوانی مقدمات اور فوجداری مقدمات کے لیے الگ الگ وزیر تھے، کعبہ کے انتظام کے لیے، یعنی دروازہ کھولنے اور بند کرنے کے لیے ایک وزیر تھا، اس طرح وہاں غیب دانی کے لیے یعنی یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کوئی کام ہمیں کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے، ان کے پاس تیر ہوا کرتے تھے جن سے وہ فال نکلا کرتے تھے۔ ان تیروں کی نگرانی کرنے والا ایک وزیر ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح کعبے میں باہر سے آنے والے زائرین چڑھاوے چڑھایا کرتے تھے، ان چڑھاووں کی حفاظت کے لیے ایک اور وزیر مقرر تھا۔ اسی طرح ٹیکسیشن کے لیے بھی ایک وزیر تھا۔ یعنی شہر مکہ کے باشندے ہر سال اپنے افسر متعلقہ کو کچھ رقم بطور ٹیکس دیتے تھے جس کا اولاً مقصد یہ بیان کیا گیا تھا کہ اگر کوئی حاجی کسی وجہ سے مکہ میں اپنے آپ کو بے بس پائے یا اس کے پاس پیسے بالکل نہ رہیں، یا اس کی سواری کا اونٹ مر جائے تو ایسے مجبور لوگوں کی مدد کے لیے اور حج کے زمانے میں باہر سے آنے والوں کی ضیافت  اور مہمانداری پر خرچ کرنے کی غرض سے ایک ٹیکس لیا جاتا تھا جس کا انتظام، ظاہر ہے کہ ایک خصوصی وزیر کے سپرد ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ اور وزارتیں بھی تھیں۔

چنانچہ ایک اور ادارہ دار الندوہ تھا یعنی پارلیمنٹ۔ جب کبھی کوئی مشکل مسئلہ پیدا ہوتا تھا، مثلاً کسی دشمن کے حملے کا خطرہ یا کوئی اور معاملہ درپیش ہوتا تو سارے معمر باشندوں سے گفتگو ہوتی تھی۔ لکھا ہے کہ ہر شخص، جس کی عمر چالیس سال ہوتی، وہ خود بخود اس مجلس مشاورت یا اس پارلیمنٹ کا رکن بن جاتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دو آدمیوں کو اس سے مستثنٰی کر دیا گیا تھا یعنی ان کو چالیس کی عمر کی حد تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کا رکن بنا لیا گیا تھا۔ ان میں ایک ہمارے "دوست” ابوجہل صاحب بھی تھے۔ ان کی فراست اور عقلمندی کا بڑا چرچا تھا۔ چنانچہ ان کو نوجوانی میں ہی اس کا رکن بنا دیا گیا تھا۔ اسی طرح ایک اور شخص کا بھی ذکر آتا ہے۔ سب سے عجیب و غریب جو بات ہمیں نظر آتی ہے، وہ وزارت خارجہ کا عہدہ ہے۔ وزارت خارجہ کا دائرہ کار یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب کبھی کسی بیرونی قبیلے سے گفتگو کی ضرورت پیش آتی، کسی جھگڑے کا تصفیہ اور مصالحت کرانی ہوتی یا دشمن کے مطالبات کو نہ ماننے کی صورت میں اعلان جنگ کرنا پڑتا یا کوئی قبیلہ قریش کی برتری اور فضیلت پر اعتراض کرتا تو اس کو جاب دینے اور قریش کی خوبیاں، اور اعتراض کرنے والے قبیلے کی برائیاں بیان کرنا ہوتا، تو ایسے تمام خارجہ معاملات کے انتظام و انصرام کے لیے بھی ایک عہدہ دار پایا جاتا تھا۔ یہ تمام وزراء عہد نبوی تک پائے جاتے تھے، ان میں سے اکثر نام بہت مشہور و معروف ہیں مثلاً دیوانی مقدمات حضرت ابو بکرؓ کے سپرد تھے، وزارت خارجہ کا منصب حضرت عمرؓ کے سپرد تھا۔ اسی طرح فوج میں دو جھنڈے ہوتے تھے، ایک کو لواء اور دوسرے کو رایہ کہتے تھے۔ ان کے فرق سے میں یہاں بحث نہ کروں گا۔ ایسا ایک جھنڈا حضرت مصعب بن عمیر العبدری کے پاس رہتا تھا اور دوسرا جھنڈا حضرت ابو سفیان کے سپرد تھا۔ یہ تمام نام سیرت النبی اور تاریخ اسلام میں آتے ہیں۔ یہ اسلام سے پہلے کی مشہور شخصیتیں تھیں اور مکے کی حکومت میں ان کو خاصا مقام حاصل تھا۔ دوسرے لفظوں میں شہر مکہ میں ایک مملکت پائی جاتی تھی اور یہ مملکت ایک شہری مملکت تھی۔ اس کا انتظام بجائے ایک فرد کے ہاتھ میں ہونے کے ایک نمائندہ جماعت کے سپرد کیا گیا تھا۔ جس کا ہر فرد وراثتی اصول پر ہمیشہ ایک ہی قبیلے سے ہوا کرتا تھا۔ یہ ہے مختصر خلاصہ اس سیاسی نظام کا جو پیغمبر اسلامﷺ کی ولادت کے وقت شہر مکہ میں پایا جاتا تھا۔

حضورﷺ کی ولادت سن 569 عیسوی میں ہوتی ہے۔ ابتدائی چالیس سال تک وہ اس شہر کے معمولی باشندے رہے۔ کوئی ایسی بات ہمیں نظر نہیں آتی جو قابل ذکر ہو، بجز اس کے کہ اور قبیلوں کی طرح رسول اکرمﷺ کے خاندان بنو ہاشم کا بھی ایک فرد اس نظام حکومت میں شامل تھا یعنی ایک وزارت اس خاندان کے سپرد تھی۔ وہ وزارت زمزم کے کنویں کے انتظام کے متعلق تھی۔ اس میں منفعت بھی تھی۔ اگرچہ ہمیں صراحت سے معلوم نہیں لیکن اور مقاموں، مثلاً شام وغیرہ میں، اس کا پتہ چلتا ہے کہ عبادت گاہ کے کنویں کا پانی حاجیوں کو دیا جائے تو انعام یا ٹیکس کے طور پر اس پانی دینے والے کو لوگ اپنی طرف سے رقم دیا کرتے تھے۔ اگر مکے میں بھی ایسا ہوتا تو ظاہر ہے کہ اس سے کافی منفعت ہوتی ہو گی۔ یہ قدیم کنواں چونکہ بڑی مدت غائب رہنے کے بعد عبد المطلب نے دریافت کیا تھا، اس لیے انہیں کی نگرانی میں رہا اور غالباً ان کی خاطر شہری مملکت کے نظام میں ایک نئی وزارت کا اضافہ کر دیا گیا۔ عبد المطلب کی وفات کے بعد یہ انتظام ان کے بیٹے ابو طالب نے سنبھالا۔ ابو طالب بہت فراخ دل تھے لیکن ان کی مالی حالت خراب تھی اور اکثر قرض لینے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ اپنے بھائی حضرت عباسؓ سے کچھ رقم قرض لی اور کہا کہ ایک سال بعد ادا کر دوں گا۔ ایک سال بعد آپ رقم ادا نہ کر سکے تو حضرت عباسؓ نے کہا اگر تم مزید مہلت چاہتے ہو تو میں اس شرط پر آمادہ ہوں کہ زمزم کی نگرانی مجھے دے دی جائے۔ اس طرح چاہ زمزم ابوطالب کی جگہ حضرت عباسؓ کے قبضے میں آیا اور رسول اللہﷺ کے عہد میں فتح مکہ کے وقت بھی وہی اس کے مالک تھے اور اس کی رسول اللہﷺ نے توثیق بھی کی۔ غرض یہ کہ بنی ہاشم کو بھی مکہ شہر کے انتظام میں دستوری طور پر ایک مقام حاصل تھا۔ بعد کے زمانے میں جب اسلام کا آغاز ہوا تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے نظم و نسق میں کیا حصہ لیا اور مکہ شہر میں ان کی حیثیت کیا تھی؟ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ شہر مکہ میں جو لوگ مسلمان ہوتے رہے ان کی تعداد بھی آہستہ آہستہ بڑھی، لیکن وہ تھے سارے ہی قبیلوں کے، اور انہوں نے مملکت کے اندر مملکت بنا لی۔ وہ مکہ شہر میں رہتے تھے لیکن اگر انہیں عدالتی مسئلے کی ضرورت پیش آتی تھی تو وہ شہر کے ان مشرک افسروں کے پاس نہیں جاتے تھے جس کے پاس عدل گستری کا کام تھا۔ اگر انہیں فوجی دفاع کے سلسلے میں ضرورت پیش آتی تو ان کو مکہ والوں سے امداد کی توقع نہ تھی۔ غرض وہ ہر کام میں رسول اللہﷺ سے رجوع کرتے جو ان کے قانون ساز بھی تھے، حاکم عدالت بھی، کمانڈر انچیف بھی تھے اور بادشاہ بھی۔ جلدی ہی مسلمانوں کو مکہ کو خیر باد کہنا پڑا۔ رسول اللہﷺ کی ہجرت کے وقت مکہ کے اکثر مسلمان بھی ہجرت کر کے مدینے جا بسے۔

جیسا کہ اپنے گزشتہ لیکچر میں اشارۃً عرض کر چکا ہوں کہ مدینے میں رسول اکرمﷺ نے سب سے پہلے مہاجرین کے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے مواخات کا انتظام کیا۔ اس کے بعد جو کام ہوا، اس کا تعلق ہمارے موضوع سے ہے یعنی مملکت کا قیام۔ مدینے میں کسی مملکت کا وجود نہیں تھا۔ شہری مملکت کا نہ کسی اور قسم کی مملکت کا۔ یہاں اسلام سے پہلے کئی رشتہ دار قبیلے آباد تھے مگر ان قبیلوں میں ہمیشہ آپس میں خانہ جنگی ہوتی رہتی تھی چنانچہ آخری جنگ ہجرت نبوی سے پانچ سال پہلے ہوئی تھی جس میں بہت ہی خوں ریزی ہوئی اور اس کے اثرات خود اسلامی معاشرے پر بھی پڑے۔ اشارۃً میں دو چیزوں کا ذکر کرتا ہوں۔ لکھا ہے کہ ہجرت سے پہلے جب مدینے کے کچھ لوگ "اوس” قبیلے میں سے اور کچھ لوگ "خزرج” قبیلے میں سے مسلمان ہوئے تو چونکہ ان دونوں قبیلوں میں جھگڑا تھا، اگر امام "خزرجی” ہوا تو "اوسی” مسلمان اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کرتے اور اگر "اوسی” امام ہوتا تو "خزرجی” لوگ اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کرتے۔ اس لیے ضرورت پیش آئی کہ مکے سے ایک امام بھیجا جائے تاکہ اس کے پیچھے "اوسی اور خزرجی” دونوں نماز پڑھ سکیں۔ ایک اور واقعہ جس کو ہم اس سے بھی زیادہ افسوسناک کہہ سکتے ہیں، یہ نظر آتا ہے کہ مدینہ کے مسلمانوں میں نقیب النقباءاسعد بن زرارہؓ ایک بہت اچھے، راسخ العقیدہ اور اسلام کے لیے سرگرم کار مسلمان تھے۔ وہ  "خزرج” قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ جب رسول اللہﷺ ہجرت کر کے قبا پہنچے، تو ایسے بہت سے لوگ جو آپﷺ کو پہلے دیکھ چکے تھے یا آپﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے، آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں، سلام عرض کرتے ہیں اور مہمان نوازی کے فرائض انجام دیتے ہیں لیکن ان میں اسعد بن زرارہؓ نظر نہیں آتے۔ آخر رسول اللہﷺ نے خود پوچھا کہ اسعد بن زرارہ کہاں ہیں؟ تو قبا کے باشندوں "اوسیوں” نے شرمندگی کے انداز میں کہا کہ گزشتہ جنگ بعاث میں انہوں نے ہمارے بعض سرداروں کو قتل کیا تھا، اس لیے انہیں جرات نہیں ہو سکتی کہ وہ ہمارے علاقے میں آئیں۔ اس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ رسول اللہﷺ کو مدینہ منورہ میں حکومت کرنے کے لیے کن دشواریوں کا سامنا تھا۔ بہرحال اسی رات کا کافی حصہ گزرنے پر ایک شخص رسولﷺ سے ملنے کے لیے بھیس بدلے ہوئے، چہرے پر نقاب ڈالے ہوئے آتا ہے۔ جب حضورﷺ کے پاس پہنچتا ہے تو نقاب اٹھاتا ہے۔ یہ تھے اسعد بن زرارہ۔ رسول اللہﷺ حیرت سے پوچھتے ہیں کہ تم کیسے آئے؟ انہوں نے کہا کہ آپﷺ تشریف لائیں اور میں نہ آؤں، یہ ناممکن تھا، جان پر کھیل کر حاضر ہوا ہوں۔ اس وقت رسول اللہﷺ کوشش کرتے ہیں کہ قبیلہ "اوس” ان کو باقاعدہ طور پر پناہ دینے کا اعلان کرے تاکہ اگر وہ آئیں تو کھلم کھلا آ سکیں اور انہیں کوئی "اوسی” شخص نہ ستائے، مگر وہ ہچکچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یا رسول اللہ (ﷺ) آپ حکم دیں گے تو ہم تعمیل کریں گے لیکن ہم خود پناہ دینا نہیں چاہتے۔ بالآخر ایک "اوسی” سردار نے اسے قبول کیا چنانچہ وہ اسعد بن زرارہ کے مکان پر گئے۔ ان کو ساتھ لے کر ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر رسول اللہﷺ کے سامنے آتے ہیں اور "اوسی” قبیلے کے لوگ دیکھتے ہیں کہ ان کے سردار نے اسعد بن زرارہ کو پناہ دی ہے۔ پھر اس کے بعد امن قائم ہوتا ہے۔ تو اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مدینہ میں حکومت کرنا کتنا مشکل تھا اور کن تدبیروں سے رسول اللہﷺ نے آہستہ آہستہ ان مشکلوں کو دور کیا۔

اس ابتدائی کام سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہﷺ نے ایک تجویز پیش کی کہ مدینہ میں ایک چھوٹی سی مملکت قائم کی جائے۔ لیکن ابتداء ہی میں کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ بعاث کے بعد مدینے والوں نے یہ سوچا تھا کہ آئے دن کی جنگ ہم سب کے لیے نقصان کا باعث ہے، اس کو ختم کرنا چاہیے لیکن کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح ختم کریں؟ اگر کوئی بادشاہ بنایا جائے تو وہ کس قبیلے کا ہو جس کی اطاعت "خزرجیوں” اور "اوسیوں” میں سبھی کو قبول ہو۔ خزرجی قبیلے کا ایک سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول بہت مالدار اور صاحب اقتدار تھا۔ خزرجیوں کو توقع تھی کہ "اوسی” بھی اس کی مخالفت نہ کریں گے، چنانچہ اس کے لیے تاج شہریاری تیار ہونے لگا۔ اس اثناء میں رسول اللہﷺ تشریف لاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اوسی اور خزرجی مسلمانوں کو اب عبد اللہ بن ابی بن سلول سے کوئی دلچسپی نہ رہی۔ اس کا نتیجہ بھی آپ سمجھ سکتے ہیں کہ عبد اللہ بن ابی بن سلول کو آنحضرتﷺ سے نفرت پیدا ہو گئی کہ نعوذ باللہ رسول اللہﷺ غاصب ہیں، میرے اقتدار اور میری بادشاہت میں حارج ہو رہے ہیں۔ چنانچہ یہ شخص ساری عمر منافق رہا اور آئے دن اسلام کے لیے دشواریاں پیدا کرتا رہا۔ "واقعہ افک” میں حضرت عائشہؓ پر جو الزام لگایا گیا، وہ بھی انہی صاحب کی کار گزاری تھی۔ جنگ تبوک کے زمانے میں رسول اللہﷺ کو قتل کرنے کی ایک سازش ہوئی تھی، اس میں بھی اس کا دخل تھا۔ بہرحال ایک طرف عبد اللہ بن ابی بن سلول کی وجہ سے مسلمانوں کو سیاسی نظم و نسق میں دشواریاں پیش آ رہی تھیں۔ علاوہ ازیں اوس قبیلے کے ایک عیسائی ابو عامر راہب نے دوسرا فتنہ کھڑا کیا۔ اس کو بائبل کے مطالعے سے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ نبی آخر الزماںﷺ کے آنے کا امکان ہے، چنانچہ اس نے سوچا کہ خود نبوت کا دعویٰ کرے۔ جب رسول اللہﷺ آئے، وہ جا کر رسول اللہﷺ سے جھگڑتا ہے، کہتا ہے کہ تم جھوٹے نبی ہو (نعوذ باللہ) نبی موعود تو میں ہوں۔ غرض یہ کہ مسلمانوں کو شروع ہی سے بہت سی دشواریاں پیش آتی رہیں۔

اب رسول اکرمﷺ نے قبا کے بجائے اس مقام پر رہنا پسند کیا جو "اوسیوں” کے نہیں "خزرجیوں” کے علاقے میں تھا۔ اس کی وجہ امام بخاری نے یہ بیان کی ہے کہ وہ آپﷺ کے قریبی رشتہ دار تھے۔ عبد المطلب کی ماں قبیلہ خزرج سے تھیں۔ چنانچہ قبا سے نکل کر، اس مقام پر قیام کیا جہاں بنو نجار کا قبیلہ رہتا تھا اور جلد ہی وہاں ایک جلسہ طلب کیا گیا۔ شہر مدینہ کی آبادی کے جو مختلف عناصر تھے، ان سب کے نمائندوں کو بلایا اور ان کے سامنے حکومت قائم کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس تجویز کو اکثریت نے قبول کیا۔ لکھا ہے کہ صرف "اوسی” کنبوں نے انکار کیا۔ اس طرح ایک مملکت قائم ہوئی جو ایک شہر پر بھی نہیں بلکہ ایک شہر کے کچھ حصے پر مشتمل ہونے کے باوجود علمی اور تاریخی نقطہ نظر سے ایک امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ یوں کہ ایک مملکت میں حکمران اور رعایا کے جو حقوق و فرائض ہوں گے، ان کو تحریری طور پر مرتب کیا گیا۔ دوسرے الفاظ میں اس مملکت کا دستور مرتب کر کے سب کے سامنے پیش کیا گیا اور سب کے مشورے سے اسے لکھا گیا۔ اس تاریخی دستاویز کی خاص قابل ذکر اہمیت یہ ہے کہ دنیا کا پہلا تحریری دستور "اُمّی” شخص کے ہاتھوں وجود میں آیا۔

اس دستور کی ساری دفعات کی تشریح شروع کر دوں تو اس کے لیے کم از کم مجھے ایک پورا دن درکار ہو گا۔ مختصراً یہ عرض کرنا ہے کہ ایک طرف تو یہ اعلان کیا گیا ہے کہ یہ مملکت ایک مستقل اور خود مختار مملکت ہو گی اور یہ بھی صراحت ہے کہ غیر مسلموں کو ان کے دین کی پوری آزادی ہو گی۔ چنانچہ ایک دفعہ کے الفاظ یہ ہیں "للمسلمین دینھم و للیھود دینھم” یعنی مسلمانوں کے لیے مسلمانوں کا دین ہے اور یہودیوں کے لیے ان کا دین ہے۔ یعنی وہاں جتنے بھی لوگ بستے تھے ان کو دینی، عدالتی اور قانونی آزادی کا اطمینان دلایا گیا تھا۔ اسی طرح دفاع کے سلسلے میں جو انتظام کیا گیا وہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن اس پہلو پر کچھ عرض کرنے سے پہلے میں یہ کہوں گا کہ آنحضورﷺ کو اس حکومت کا صدر تسلیم کیا گیا، اگر خالص دنیوی نقطہ نظر سے ہم اس پر غور کریں تو وجہ یہ نظر آتی ہے کہ "اوسیوں” کا کوئی بادشاہ مقرر کیا جاتا تو "خزرجی” اسے قبول نہ کرتے اور اگر "خزرجیوں” میں سے منتخب کرتے تو "اوسی” اس کو قبول نہ کرتے۔ چنانچہ سوائے اس کے کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ آپس میں لڑنے والے قبائل آپﷺ پر اعتماد رکھتے اور آپ کو نبی مانتے تھے۔ آپ کی غیر جانبداری، آپ کی عدل گستری، آپ کا تحمل و تدبر اور آپ کی فیاضی کا چند مہینوں کے عرصے میں سب لوگوں کو تجربہ ہو چکا تھا۔

دفاع کے سلسلے میں، اس دستور میں، صراحتیں ہیں، ان میں سب سے پہلے یہ بات قابل ذکر ہے کہ امن اور جنگ ناقابل تقسیم چیز ہو گی، یعنی اگر امن ہو تو سلطنت کے سارے باشندوں کے لیے ہو گا اور جنگ ہو تو سارے باشندوں کے لیے۔ صلح و جنگ کی مرکزیت اور ان کا ناقابل تقسیم ہونا ایک اہم بات تھی۔ پھر اس میں یہ بھی صراحت ہے کہ اگر جنگ کے لیے جانے کی ضرورت پیش آئے تو اس کا فیصلہ رسول اللہﷺ کے اختیار میں ہو گا کہ کون شخص فوج میں شریک رہے اور کون فوج میں نہ رہے۔ گویا آپ کو کمانڈر انچیف سے بھی زیادہ اختیارات حاصل تھے۔ آپ کو اختیار تھا کہ اپنی فوج سے ان تمام لوگوں کو خارج کر دیں جو مشتبہ ہوں اور جو فوج کے اندر رہ کر مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہیں۔ گویا آپ نہ صرف جنگی انتظامات کے مالک تھے بلکہ جنگ کے سیاسی پہلوؤں پر بھی آپ ہی کا دخل تسلیم کیا گیا۔ البتہ یہ صراحت ہے کہ اگر باہر سے کوئی دشمن حملہ آور ہو تو ہر محلہ اپنے رقبے کی براہ راست مدافعت کرے گا اور لوک ایک دوسرے کی مدد کریں گے، اور یہ بھی کہ فوج میں جو اخراجات ہوں وہ ہر محلہ یعنی ہر قبیلہ خود برداشت کرے گا۔ اس زمانے میں مرکزی حکومت کے پاس کوئی خزانہ نہیں تھا۔ لہذا مجبوراً یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ لوگ رضاکارانہ اور بلا تنخواہ فوج میں داخل ہوں لیکن فوج کی باگ ڈور رسول اللہﷺ کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور فوجی انتظامات خود رسول کریمﷺ ہی فرماتے ہیں۔ اسی طرح دستور میں عدل گستری کا بھی ذکر ہے کہ ابتدائی عدالت تو قبیلہ وار ہو گی یعنی قبیلے کے دو افراد میں جھگڑا ہو تو لوگ اپنے قبیلے کے سردار سے رجوع کریں گے لیکن اگر فریقین دو مختلف قبیلوں کے ہوں تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ انہیں رسول اکرمﷺ کے پاس آنا پڑے گا۔ اگرچہ انہیں اختیار تھا کہ کسی اور شخص کو بھی اپنا حکم بنا لیں لیکن آخری حاکم عدالت بالفاظ دیگر عدالت اپیل رسول اللہﷺ کی ذات ہو گی۔ مسلمانوں کے لیے صراحت ہے کہ قانون سازی رسول اکرمﷺ فرمائیں گے۔ دیگر تفصیلیں جو اس دستور میں آئی ہیں ان کے سلسلے میں یہ بھی نظر آتا ہے کہ حکمران کو کیا اختیارات حاصل ہیں۔ اس دستور میں ایک چیز جو غیر معمولی اور غیر متوقع کہی جا سکتی ہے وہ بیمے کا انتظام ہے۔ اس کی تفصیل پہلے کسی جگہ آ چکی ہے۔ یہاں اشارۃً ذکر کیا جاتا ہے کہ اگر فدیہ یا خون بہا کی گراں قدر رقم کوئی شخص ادا کرنے سے معذور ہو تو اس کے قبیلے کی انجمن یا ہمسایہ قبیلے کی انجمن ورنہ بالآخر مرکزی انجمن اس رقم کی ادائیگی کا انتظام کرے گی۔ اسی طرح یہودیوں کے متعلق بھی تفصیل ہے کہ ان پر کیا واجبات و فرائض ہوں گے۔ اس کا بھی ذکر ہے کہ جو مشترکہ دشمن ہیں یعنی قریش مکہ وغیرہ ان کے ساتھ اس مملکت کے باشندوں کا کیا طرز عمل ہو گا۔

یہ تھا وہ نظام جو عہد نبویؐ میں شروع ہوا، اور جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا کہ یہ مملکت ابتداء میں ایک شہری مملکت تو تھی لیکن کامل شہر میں نہیں تھی بلکہ شہر کے ایک حصے میں قائم کی گئی تھی، لیکن اس کی توسیع بڑی تیزی سے ہوتی ہے۔ اس توسیع کا آپ اس سے اندازہ لگائیے کہ صرف دس سال بعد جب رسول اللہﷺ کی وفات ہوئی، اس وقت مدینہ ایک شہری مملکت نہیں بلکہ ایک وسیع مملکت کا دارالسلطنت تھا۔ اس وسیع سلطنت کا رقبہ تاریخی شواہد کی رو سے تین ملین یعنی تیس لاکھ مربع کلومیٹر پر مشتمل تھا۔ دوسرے الفاظ میں دس سال تک اوسطاً روزانہ کوئی آٹھ سو پینتالیس مربع کلومیٹر علاقے کا ملک کے رقبے میں اضافہ ہوتا رہا۔ سلطنت کی یہ توسیع کچھ تو پرامن ذرائع سے ہوئی اور کچھ جنگوں کے نتیجے میں۔ آنحضرتﷺ کے غزوات و سرایا کے متعلق دیگر تفصیلات کے علاوہ مقتولین اور شہداء کے اعداد و شمار بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔ تین ملین کلومیٹر رقبہ فتح کرنے کے لیے دشمن کے جتنے لوگ مرے ہیں، ان کی تعداد مہینے میں دو بھی نہیں ہے، دس سال میں ایک سو بیس مہینے ہوتے ہیں تو ایک سو بیس کے دو گنے دو سو چالیس آدمی بھی ان لڑائیوں میں نہیں مرے، دشمن کے مقتولین کی تعداد اس سے کم تھی، مسلمانوں کے شہداء کی تعداد دشمن کے مقتولین سے بھی کم ہے۔ مسلمانوں کا سب سے زیادہ نقصان جنگ احد میں ہوا کہ ستر آدمی شہید ہوئے اور یہ نقصان بھی مسلمانوں کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہوا۔ بہرحال بحیثیت مجموعی میدان جنگ میں قتل ہونے والے دشمنوں کی تعداد مہینے میں دو سے بھی کم ہے، جس سے ہمیں نظر آتا ہے کہ رسول اللہﷺ کس طرح اسوۂ حسنہ بن کر دنیا بھر کے حکمرانوں اور فاتحوں کو بتاتے ہیں کہ دشمن کا مقابلہ اور ان کو شکست دینے کی کوشش ضرور کرو لیکن بے جا خون نہ بہاؤ۔ مقصد یہ کہ دشمن جو آج غیر مسلم ہے ممکن ہے کل وہ مسلمان ہو جائے یا اس کے بیوی بچے اور اس کی آئندہ نسلیں مسلمان ہو جائیں لہذا اس امکان کو زائل کرنے میں اپنی طرح سے کوئی ایسا کام نہ کرو جس سے پچھتانے کی ضرورت پیش آئے۔

ہمارے موضوع کا ایک پہلو تو حکومت کے قیام اور سلطنت کی توسیع سے متعلق تھا، دوسرے پہلو کا تعلق حکومت کے نظم و نسق سے ہے۔ ہم یہاں دیکھیں گے کہ نظم و نسق کے سلسلے میں رسول اللہﷺ نے کیا اقدامات کیے اور ان کے کیا نتائج نکلے۔ جیسا کہ ہم ابھی دیکھ چکے ہیں کہ مدینہ میں کوئی مملکت پائی ہی نہیں جاتی تھی۔ رسول اکرمﷺ نے پہلی مرتبہ قائم فرمائی لہذا آپ کو پرانے انتظامات وراثت میں بالکل نہیں ملے۔ فوج، خزانہ و تعلیم، عدلیہ اور انتظامیہ کے اداروں میں سے کوئی چیز وہاں نہیں تھی۔ ہر چیز رسول اللہﷺ کو خود ہی نقطہ صفر سے پیدا کرنی اور ترقی دینی تھی۔ اس زمانے میں اتنے دفتر اور اتنے محکمے نہیں ملیں گے جو آج بیسویں صدی میں ہمیں اپنے آس پاس نظر آتے ہیں مثلاً آج کل آپ کو سڑکیں بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ عرب میں کہیں سڑکیں نہ تھیں۔ سڑکوں اور شاہراہوں کی جگہ عام خود رو گزرگاہیں تھیں، سڑ کی تعمیر کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔لہذا اس کے لیے نہ ناظم تھا، نہ محکمہ تعمیرات، البتہ اس کے باوجود کچھ ایسی چیزیں ملتی ہیں جو شہری منصوبہ بندی کے سلسلے میں کارآمد ہیں۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ شہر کے اندر گلیوں کو اتنا چوڑا رکھو کہ دو لدے ہوئے اونٹ با آسانی آمنے سامنے گزر سکیں، گویا آج کل کے الفاظ میں آسانی کے ساتھ دو موٹریں آ جا سکیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اکرمﷺ کی قانون سازی صرف دینی معاملات تک کی محدود نہیں تھی، اس میں دنیوی مسائل پر بھی توجہ دی گئی ہے حتیٰ کہ اس میں مکانوں کے درمیان کا راستہ بھی شامل ہے۔ وقت کی کمی کے باعث تفصیلات میں نہیں جاؤں گا۔ اہم ترین انتظامات میں سے چند کاتبوں پر مشتمل ایک دفتری نظام (سیکرٹریٹ) بھی تھا۔ چنانچہ مسعودی اور دیگر مؤلفوں نے بتایا ہے کہ ان کاتبوں کے فرائض مختلف تھے۔ کچھ لوگ نازل ہونے والی وحی کو لکھا کرتے تھے۔ کچھ لوگ زکوٰۃ کے اندراجات کرتے، یعنی رقم کس سے وصول ہوئی اور کس پر خرچ کی گئی۔ جنگوں میں جو مال غنیمت حاصل ہوتا، اس کے بارے میں رسول اللہﷺ کا حکم تھا کہ سب کو جمع کر کے، اس میں سے سارے فوجیوں کو برابر حصہ دیا جائے۔ نیز پانچواں حصہ حکومت کو ملے۔ لہذا ضروری تھا کہ مال غنیمت کی جمع و تقسیم کا حساب رکھا جائے۔ اس کے لیے خصوصی کاتب مقرر تھے۔ اسی طرح کوئی دس بارہ مدوں کی تفصیل دی گئی ہے کہ ان کے لیے الگ الگ کاتب مقرر کیے گئے تھے۔ ان میں محکمہ خارجہ بھی تھا کہ بیرونی حکمرانوں اور سرداروں سے تبلیغ وغیرہ کے لیے خط و کتابت ہوتی تھی۔

ایک چیز اور، جس کا تعلق فوجی نظام سے اور سات ہی مالی نظام سے ہے، اس کا بھی میں ذکر کرتا چلو، اس پر آپ کو حیرت بھی ہو گی۔ عام طور پر مشہور ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں دیوان قائم ہوا اور دیوان کا منشا یہ بیان کیا جاتا ہے کہ سرکاری خزانے سے سپاہیوں کو پنشن دی جاتی تھی، اس شرط پر کہ وہ چوبیس گھنٹے تیار رہیں کہ جب حکومت انہیں بلائے تو وہ اسی وقت گھر بار اور کاروبار چھوڑ کر فوجی مہم پر روانہ ہو جائیں۔ یہ نظام حضرت عمرؓ کی طرف منسوب ہے اور اس کے لیے حضرت عمرؓ نے جو دیوان قائم کیا تھا اس کی بہت سی تفصیلیں ہمیں ملتی ہیں۔ لیکن ہمیں حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اس کا آغاز بھی عہد نبویؐ میں ہوتا ہے۔ چنانچہ امام محمد کی "السیر الکبیر” میں آیا ہے کہ عہد نبویؐ میں ایک کاتب کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ ان بالغ لوگوں کی فہرست مرتب کرے جو نہ صرف جنگ کے قابل ہیں بلکہ اس پر آمادہ ہیں کہ جب انہیں بلایا جائے، فوراً فوجی مہم پر روانہ ہو جائیں، ایسےلوگوں کو بیت المال سے مستقل وظیفہ ملتا رہتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے رسول اللہﷺ کے قائم کردہ نظام کو مزید ترقی دی۔ ان کے زمانے میں حکومت کی آمدنی میں بہت اضافہ ہو گیا تھا لہذا وظائف بھی دیے جانے لگے۔ حتی کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں غیر مسلموں کو بھی وظائف دیے جاتے تھے۔ غرض دیوان یا سیکرٹریٹ خود رسول اللہﷺ نے قائم فرمایا۔ بعض چیزوں کا انتظام حسب ضرورت رضاکارانہ ہوتا تھا مثلاً شروع میں اذان نہیں ہوتی تھی۔ جب نماز کے لیے لوگوں کو ایک مؤذن کی ضرورت محسوس ہوئی اور یہ طے پایا کہ اذان دی جائے تو رسول اللہﷺ نے حضرت بلالؓ کو اس کام کے لیے منتخب فرمایا، کیونکہ ان کی آواز سریلی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ خود رسول اللہﷺ نے انہیں اذان کا طریقہ سکھایا اور یہ بھی بتایا کہ کس لفظ کو کھینچو، کس کو مختصر کرو، گویا موسیقی کی سریں، رسول اللہﷺ نے انہیں سکھائیں۔ اسی طرح ایک اور نائب یا مددگار مؤذن بھی مقرر کیا گیا تاکہ ہمیشہ ایک ہی آدمی پر اس کی ذمہ داری یا بار نہ ہو۔ یہ اور اس طرح کی بہت سی چیزیں ہمیں مذہبی نظام کے سلسلے میں ملتی ہیں۔ مسجد نبوی کے اندر صفائی کی ضرورت تھی۔ ایک حبشی مسلمان عورت نے رضاکارانہ اپنی خدمات پیش کیں۔ وہ روزانہ مسجد میں جھاڑو دیتی تھی اور قندیل میں لگائے ہوئے چراغ کو جلاتی۔ اس طرح کے انتظامات کا بھی ہمیں پتہ چلتا ہے جو بالکل ابتدائی حالت میں تھے، اور رفتہ رفتہ اس میں ترقی ہوتی گئی۔ ان انتظامات میں سے ایک نظام فوج کا بھی تھا۔ دفاع کے لیے فوج کی ضرورت تھی۔ شروع میں اسلامی حکومت کے پاس کافی مال نہ تھا۔ اس کا حل خدائے حکیم نے یوں کر دیا کہ جہاد کو مسلمانوں کا فریضہ قرار دیا گیا۔ ہر شخص پر واجب تھا کہ اسلام کے دفاع کے لیے اپنی جان اور مال کو قربان کرے۔ یہ نہیں کہ سو فی صد مسلمان ساری جنگوں میں حصہ لیں، بلکہ بوقت ضرورت ہر شخص کا فرض ہے کہ اپنے آپ کو پیش کرے۔ رسول اللہﷺ مطلوبہ تعداد میں لوگوں کو چن لیتے تھے اور انہیں مہم پر روانہ کرتے تھے۔

اس سلسلے میں "صفہ” کا بھی ذکر کرنا چاہیے جس کا تعلق تعلیم و تربیت کے علاوہ فوج سے بھی ہے۔ بعض اوقات رسول اکرمﷺ کو کوئی اطلاع آئی کہ فلاں قبیلے کے خلاف تدبیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے، یعنی دشمن کو سزا دی جائے یا اس کا تعاقب کیا جائے۔ مثلاً کسی نے مدینے کے ایک گھر پر چھاپہ مارا تو ضرورت تھی کہ فوراً اس کے تعاقب کے لیے فوج کا ایک دستہ روانہ کیا جائے۔ ایسی ہنگامی ضرورت کے لیے "صفہ” کارآمد ہوتا۔ رسول اللہﷺ کی طرف سے یہ اعلان ہوتے ہی کہ ایک مہم کے لیے اتنے آدمیوں کی ضرورت ہے ، فوراً اصحاب صفہ کی ایک جماعت اس مہم پر روانہ ہو جاتی۔ ان کو دن یا رات میں کسی وقت بھی بلایا جا سکتا تھا لیکن اگر کوئی بڑی مہم بھیجنی ہوتی تو ظاہر ہے کہ اس کے لیے تیاریاں کرنی ہوتیں۔ رسول اللہﷺ جمعہ کے خطبے میں یا کسی نماز کے بعد غیر معمولی اجتماع کر کے فرماتے کہ اتنے آدمیوں کی ضرورت ہے تو لوگ رضاکارانہ اپنے آپ کو پیش کر دیتے۔ اس سلسلے میں دلچسپ چیز یہ ہے کہ ان کے نام اور پتے نوٹ کیے جاتے تھے اور بعد میں اس کے مطابق انہیں اطلاع دی جاتی تھی کہ تم سب لوگ فلاں مقام پر فلاں وقت اپنے ہتھیار اور ضروری سامان کے ساتھ جمع ہو جاؤ۔ صرف یہی نہیں، فوجی نظام کے سلسلے میں اور بھی بے شمار باتیں ملتی ہیں۔ مثلاً رسول اللہﷺ ہمیشہ لوگوں کو ورزش کی ترغیب دیتے تھے، نشانہ بازی کی مشق کی بھی ہمیشہ تشویق دلاتے۔ خود بھی وہاں جاتے اور اپنے سامنے گھڑ دوڑ کراتے، اونٹوں کی دوڑ کراتے، آدمیوں کی دوڑ کراتے، کشتی کے مقابلے کرواتے اور لوگوں کو انعامات دیتے تھے۔ چنانچہ مدینہ منورہ میں آج بھی شمالی دروازے کے پاس ایک مسجد ہے جس کا نام مسجد سبق ہے۔ سبق کے معنی مسابقت میں جیتنا ہے۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اس مقام پر جو ایک پہاڑی کے دامن میں ہے، بلندی پر کھڑے ہو جاتے تھے اور جب گھوڑے دوڑتے ہوئے آتے تو رسول اللہﷺ خود فیصلہ فرماتے کہ کون سا نمبر 1 ہے اور کون سا نمبر 2 اور 3 وغیرہ۔ مقریزی نے بیان کیا ہے کہ پانچ اول آنے والے گھوڑوں کو رسول اللہﷺ انعام دیا کرتے تھے اور یہ انعام کبھی کھجور کی صورت میں ہوتے تھے، کبھی کسی اور چیز کی صورت میں۔

غرض ایک تو فوجی خدمت کا لازمی قرار دیا جانا، دوسری فوج کی تربیت، یہ دو انتظامات تھے جو رسول اللہﷺ نے فرمائے۔ ساتھ ہی ساتھ حکومت کے زیر اہتمام فوجی سامان کا ذخیرہ بھی جمع کرنا شروع کیا، مثلاً ہتھیار خریدنا، گھوڑے اور اونٹ خریدنا، ان کو سرکاری چراگاہ میں رکھنا، تاکہ بوقت ضرورت اگر سپاہیوں کے پاس ان کی ضرورتوں کی چیزیں ناکافی ہوں تو سرکاری طور پر بھی ان کو مدد دی جائے تاکہ فوج کے انتظامات ناکافی ہونے کی وجہ سے فوج کو نقصان اور تکلیف نہ ہو۔ ایک اور چیز جس کا نظام قائم کیا اور جس کا تعلق سیکرٹریٹ سے ہے، وہ ہے بیرونی قبائل اور حکمرانوں کو خطوط لکھنا اور معاہدات کو لکھنا۔ چنانچہ بیرونی حکمرانوں کو جو خطوط لکھے جاتے تھے ان مکتوبات نبوی کا سب سے قدیم ذخیرہ یا مجموعہ، جو ایک صحابی حضرت عمرو بن حزامؓ کی طرف منسوب ہے اس کی روایت کر کے ابو جعفر دیبلی (ایک پاکستانی) نے ہم تک پہنچایا ہے۔ اس کے بعد اور لوگ بھی اس میں حصہ لیتے رہے اور انہوں نے مکتوبات نبوی کو جمع کرنے کی سعادت حاصل کی۔ بیرونی حکمرانوں سے مراسلت ہی نہیں، بلکہ ان کے پاس سفیروں کو بھیجنا ضروری تھا اور ہمیں ایسے متعدد لوگوں کے نام ملتے ہیں جو سفیر بنے۔ اس سلسلے میں ایک چیز جو دلچسپ اور قابل ذکر ہے وہ یہ کہ بعض مرتبہ غیر مسلموں کو بھی رسول اللہﷺ سفیر بنا کر بھیجتے تھے۔ غالباً غیر مسلموں سے قابل اعتماد شخصیتوں کو ان کی فطری صلاحیتوں کے پیش نظر سفیر بنایا گیا تھا چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت عمرو بن امیہ الضمریؓ کو ان کے مسلمان ہونے سے قبل حبشہ کے نجاشی کے پاس پیام دے کر بھیجا تھا۔ شاید وہ سابق میں بھی نجی طور پر حبشہ جا چکے تھے اور وہاں کے حالات سے واقف تھے بلکہ خود نجاشی سے شخصی تعارف تھا کیونکہ لکھا ہے کہ باپ کے مرنے پر یہ نجاشی کمسنی میں بادشاہ بنا اور چچا نائب السلطنت تھا جس نے چپکے سے بھتیجے کو غلام کے طور پر بعض عربوں کو فروخت کر دیا جو علاقہ بدر میں رہتے تھے (قبیلہ ضمرہ بھی وہیں رہتا تھا)۔

سلطنت کے جو مختلف انتظامات رسول اکرمﷺ نے فرمائے ان میں مالیے کے ذکر کی ضرورت ہے، تعلیم کے ذکر کی بھی ضرورت ہے اور عدل گستری کے انتظام کا ذکر بھی لازمی ہے اور بھی انتظامات تھے لیکن یہ تین چیزیں ایسی ہیں جن پر کچھ کہے بغیر یہ تبصرہ بہت ہی نامکمل اور تشنہ رہے گا۔ جہاں تک مالیے یعنی حکومت کی آمدنی اور اس آمدنی کے خرچ کا تعلق ہے، یہ بہت ہی آہستہ آہستہ ترقی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ زکوٰۃ جو اسلامی آمدنی کا سب سے بڑا وسیلہ ہے، یہ 9ھ میں یعنی رسول اللہﷺ کی وفات سے کوئی دو تین سال پہلے فرض کی گئی۔ اس سے پہلے کیا ہوتا رہا، اس کا جواب مشکل ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ قرآن مجید کی مکی آیتوں میں بھی زکوٰۃ کا ذکر ہے، اس لیے تصور کیا جاتا ہے کہ شروع میں بھی مسلمان زکوٰۃ کا ٹیکس ادا ضرور کرتے تھے لیکن نہ تو اس کی مقدار معین تھی، نہ وقت مقرر تھا۔ ہر شخص خوشدلی کے ساتھ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حتی الامکان کچھ نہ کچھ رقم یا کچھ اور چیزیں پیش کر دیا کرتا تھا۔ میں "بظاہر” کہتا ہوں> اس لیے کہ کوئی صراحت اس بارے میں ہمیں ابھی تک نہیں ملی۔ اسی طرح آمدنی کا ایک وسیلہ اور بھی تھا، جو مستقل نہیں وقتی تھا، یعنی مال غنیمت کا جو حصہ حکومت کو ملتا وہ حکومت کے خزانے میں محفوظ کیا جاتا اور رسول اللہﷺ مملکت اور ملت کی ضرورتوں پر اس کو خرچ کرتے۔ اس سلسلے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عرب میں یہ رواج تھا کہ مال غنیمت کو ہر جنگ میں حصہ لینے والا سپاہی، جتنا وہ لوٹتا اور حاصل کر سکتا تھا، خود لے لیتا تھا۔ یہ نہیں ہوتا تھا کہ اس کو جمع کر کے سارے سپاہیوں میں تقسیم کیا جائے۔ البتہ ایک پابندی تھی وہ یہ کہ سپہ سالار کو ہر سپاہی اپنے مال غنیمت کا چوتھائی حصہ دینے پر مجبور تھا، جسے ربع کا نام دیا گیا ہے۔ رسول اکرمﷺ نے جو اصلاح فرمائی وہ سیاسی نقطہ نظر سے ایک غیر جانبدار ناظر کے لیے بھی دلچسپ ہے۔ آپؐ نے اولاً یہ فرمایا کہ حکومت کو چوتھائی نہیں پانچواں حصہ ملے۔ اس میں ایک ذیلی فائدہ یہ تھا کہ اگر غیر مسلم رضا کارانہ طور پر جنگ میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو اگر ہمارے دشمن کی فوج میں شریک ہوں تو انہیں چوتھائی حصہ دشمن کے سردار کو دینا پڑے گا۔ اس طرح انہیں اسلامی فوج میں شریک ہونے کے لیے زیادہ سے زیادہ تشویق ہو گی۔ اس اصلاح کا دوسرا اہم مقصد یہ تھا کہ مال غنیمت انفرادی نہ سمجھا جائے بلکہ سارے لوگوں کا جمع کیا ہوا مال غنیمت سارے لوگوں کے لیے ہو، حتی کہ ان لوگوں کے لیے بھی ہو جو کسی نہ کسی وجہ سے جنگ میں عملی حصہ نہیں لے سکے، مثلاً جنگ کے وقت ہمارے کیمپ کی حفاظت کی ضرورت ہے تاکہ دشمن وہاں کے مال و اسباب، جانوروں، بچوں اور عورتوں کو نقصان نہ پہنچائیں اور اس پڑاؤ کی حفاظت کے لیے چند سپاہیوں کو متعین کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو جنگ میں عملی حصہ نہیں لیتے۔ رسول اکرمﷺ نے حکم دیا کہ مال غنیمت کو یکجا کیا جائے اور پھر سارے لوگوں کو اس میں برابر کا حصہ دیا جائے۔ سپہ سالار اور معمولی سپاہی میں کوئی فرق نہ ہونے پائے۔ چنانچہ سپہ سالار کو بھی اتنا ہی حصہ ملتا جتنا معمولی سپاہی کو۔ اگر فوج بڑی ہوتی تو اس کو ٹولیوں میں تقسیم کیا جاتا اور ہر ٹولی کے سردار نامزد ہوتے تھے لیکن ان کی حیثیت بھی مال غنیمت کی حد تک معمولی سپاہیوں سے زیادہ نہ تھی اور اگر فرق کیا جاتا تھا تو اس امر کا جس کے پاس گھوڑا ہوتا اس کو مال غنیمت میں سے پیادہ سے دگنا حصہ ملتا تھا۔ آمدنی کے ایک تیسرے وسیلے کا بھی امکان ہے اور وہ یہ کہ ملک میں جو زراعت ہوتی تھی، اس کی پیداوار کا ایک حصہ زمانہ قدیم سے اہل عرب کسی نہ کسی کو دینے پر مجبور تھے، مثلاً مکہ میں بتوں کے اوپر چڑھاوے کے طور پر کچھ پیداوار دی جاتی تھی۔ غالباً مدینے میں بھی کبھی ایسا ہوا ہو گا کہ لوگ اپنی پیداوار کا کچھ حصہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کرتے ہوں گے تاکہ دینی خدمات کے لیے اس کو صرف کیا جائے۔ بعد میں زکوٰۃ بن گئی۔ یہ ابتدائی انتظامات تھے۔ ان انتظامات کے سلسلے میں ایک اور چیز کا ذکر بھی کروں گا۔ حکومت کی آمدنی کی نگہداشت کی بھی ضرورت تھی اور یہ کام حضرت بلالؓ کے سپرد تھا، جو مؤذن بھی تھے اور وزیر خزانہ بھی۔ لکھا ہے کہ مسجد نبوی کا ایک حجرہ اس کے لیے مخصوص تھا، جس میں تالا پڑا رہتا۔ یہ کمرہ حضرت بلالؓ کی نگرانی میں رہتا اور اس میں سرکاری رقم اور سرکاری ملکیت کی چیزیں رکھی جاتی تھیں۔ ہمارے مفسروں کے بیان کے مطابق ہجرت کے بہت عرصہ بعد 9ھ میں زکوٰۃ کی آیتیں نازل ہوئیں کہ زکوٰۃ ایک واجبی چیز ہے اور زکوٰۃ ہر اس شخص کو دینا پڑے گی جو نصاب کا مالک ہو۔ یہ رقم مختلف قسم کی ہو سکتی ہے مثلاً زراعتی ہو تو اس کے لیے پیداوار کا دسواں حصہ ادا کرنا ہو گا۔ اگر تاجر ہے تو اس کو اپنے سرمایہ تجارت پر ڈھائی فی صد رقم دینا ہو گی۔ کسی کے پاس لوہے، سونے، چاندی یا اس زمانے کے لحاظ سے کسی اور چیز کی کانیں ہیں تو اس کی ایک مقدار حکومت کو دینی ہوتی تھی۔ اس سلسلے میں شہر مدینہ سے باہر ساری مملکت کے لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرنے کی غرض سے تحصیل دار بھیجے جاتے تھے۔ بعد میں مقامی محصل متعین ہوئے۔ غرض یہ کہ حکومت کے مالیے کے سلسلے میں ایک طرف تو آمدنیاں تھیں اور دوسری طرف خرچ۔ قرآن مجید میں آمدنی کے متعلق بہت کم اشارے ملتے ہیں لیکن خرچ کے متعلق ایک صریح حکم موجود ہے إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِینِ وَالْعَامِلِینَ عَلَیهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِینَ وَفِی سَبِیلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِیلِ ۖ فَرِیضَةً مِنَ اللَّهِ (60:9) اس آیت کو ہم اسلامی بجٹ کے اخراجات کے قواعد کی اساس قرار دے سکتے ہیں۔ ان شاء اللہ کسی آئندہ لیکچر میں اس آیت کے ہر ہر لفظ پر تفصیل سے گفتگو کروں گا۔ غرض یہ کہ رسول اکرمﷺ نے جو حکومت قائم کی تھی اس کے شعبہ مالیہ پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ علاوہ ان مستقل ذرائع آمدنی کے ایک اور چیز بھی نظر آتی ہے۔ کسی خاص موقع پر ایک بڑی رقم کی ضرورت ہوتی تو رسول اللہﷺ خطبہ دیتے اور مسلمانوں کو شوق دلاتے کہ ملک کی فلاں ضرورت کے لیے دل کھول کر چندہ دیں۔ اس سے ایک بات یاد آئی جس کا ذکر کرتا چلوں تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ اس زمانے میں مسلمان کیسے تھے۔ جنگ تبوک کا ذکر ہے دنیا کی سب سے بڑی سلطنتوں میں سے ایک یعنی بیزنطینی سلطنت سے جنگ چھڑ گئی۔ عرب کے بے خانماں بدوی مسلمانوں کو دشمن سے مقابلے کے لیے ایک مہینے کی مسافت طے کر کے بیزنطینیوں کی سرحد تک پہنچنا ہے۔ شدید گرمی کا زمانہ ہے۔ وسائل نقل و حمل کی ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ، تو اس وقت رسول اللہﷺ نے لوگوں کو ترغیب دلائی کہ اللہ کی راہ میں دل کھول کر حصہ لو، انہوں نے حصہ لیا اور جنگ کامیاب رہی۔ جن لوگوں نے چندہ دیا ان میں سے صرف تین مثالیں میں آپ کو دیتا ہوں۔ سب سے پہلے حضرت عثمانؓ آئے۔ یہ بہت مال دار تاجر اور بہت ہی مخیر دین دار آدمی تھے۔ اسلام کی ہمیشہ دل کھول کر مالی خدمت کرتے تھے۔ انہوں نے، مجھے جہاں تک یاد ہے، اس وقت چالیس ہزار اشرفیاں پیش کیں۔ ظاہر ہے کہ اتنی بڑی رقم تھی کہ آج بھی ہم اسے بڑی رقم کہہ سکتے ہیں۔ رسول اللہﷺ خوش ہوئے اور علاوہ اور باتوں کے دعا دینے کے بعد فرمایا کہ آج سے تم جو چاہو کرو، خدا نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔ اس سے بڑھ کر انہیں کیا مسرت ہو سکتی تھی کہ اس تھوڑے سے مال کے عوض، جو ان کا سارا مال نہیں تھا بلکہ صرف ایک جز تھا، یہ عظیم بشارت  آپؐ سے حاصل کی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت عمرؓ آئے۔ انہوں نے دس ہزار درہم پیش کیے۔ رسول اللہﷺ کے اس سوال پر کہ اہل و عیال کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ یہ میری آدھی جائیداد ہے، آدھا حصہ عیال کے لیے چھوڑا ہے۔ رسول اللہﷺ خوش ہوئے، ان کو بھی دعا دی۔ اس کے بعد حضرت ابو بکرؓ آتے ہیں اور صرف پانچ سو درہم کی رقم پیش کرتے ہیں۔ زیادہ نہیں، نہ چالیس ہزار اشرفیاں جس کے معنی ہیں چار لاکھ درہم، نہ دس ہزار درہم بلکہ صرف پانچ سو درہم۔ لیکن رسول اللہﷺ کے اس سوال پر کہ گھر میں کیا چھوڑ آئے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور رسول اللہﷺ کی محبت کے سوا کوئی چیز نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس شخصیت کا دنیا کے کسی انسان کے ساتھ ہم مقابلہ نہیں کر سکتے۔ نبی کے بعد مرتبے کا کوئی شخص ہوتا ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے جو اللہ کی راہ پر اپنی ہر چیز قربان کر دیتا ہے۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے اسلام کو پھیلایا۔

اس کے بعد میں آپ سے تعلیم کے متعلق ذکر کروں گا۔ ہمارے نبی رسول اکرمﷺ پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی اس کا پہلا لفظ "اقراء” تھا یعنی پڑھو۔ اس کے بعد رسول اکرمﷺ کی ساری عمر امت میں لکھنے پڑھنے اور دینی و اخلاقی تعلیم کو رائج کرنے کی سعی میں گزری۔ دو ایک مثالیں میں آپ کو دوں گا۔ مدینہ منورہ میں پہنچے تو سب سے پہلا کام مسجد کی تعمیر کا تھا اور اس مسجد کے اندر "صفہ” ایک حصہ تھا جو تعلیم کے لیے مخصوص تھا۔ "صفہ” چبوترے یا پلیٹ فارم کو کہتے ہیں۔ مسجد کے ایک حصے میں ڈائس کے طور پر ایک چبوترہ بنا دیا گیا تھا جو دن کے وقت تعلیم گاہ کا کام دیتا تھا اور رات کے وقت بے خانماں لوگوں کے لیے سونے کی جگہ بنتا۔ گستاخی معاف! گویا یہ پہلی اقامتی (Residential) یونیورسٹی تھی جو رسول اللہﷺ نے قائم فرمائی۔ پہلے ہی دن سے شہر کے باشندے بھی وہاں آنے لگے۔ بے خانماں لوگ حصول تعلیم کے لیے وہیں رہتے تھے۔ مختلف لوگوں کی ضرورتوں کے پیش نظر مختلف قسم کی تعلیم دی جاتی۔ جو لوگ بالکل ہی ان پڑھ تھے ان کو لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا۔ اس کا بھی وہاں انتظام تھا کہ جو لوگ لکھنا پڑھنا چاہتے تھے ان میں سے کسی کو قرآن مجید پڑھ کر اس کے معنی سمجھائے جاتے یعنی تفسیر کی تعلیم دی جاتی، کسی کو کچھ، کسی کو کچھ۔ بعض بڑی اثر انگیز مثالیں بھی ملتی ہیں۔ ایک صاحب کو اس بات پر مامور کیا گیا کہ وہ لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں، کیونکہ وہ بہت خوش نویس تھے۔ ایک اور صاحب کو قرآن کی تعلیم پر مامور کیا گیا۔ ایک دن وہ آ کر کہنے لگے یا رسول اللہﷺ میں نے ایک شخص کو قرآن کی تعلیم دی اور اس نے اظہار تشکر کے طور پر مجھے ایک کمان دی ہے کہ اللہ کی راہ میں اس سے جہاد کروں، کیا میں اسے لے سکتا ہوں؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ دوزخ کی آگ کی کمان ہے۔ چنانچہ وہ دوڑے ہوئے گئے، اس شاگرد کو واپس کر دیا۔ حالانکہ رسول اللہﷺ سے انہوں نے وضاحت کر دی تھی کہ میرا شاگرد چاہتا ہے کہ میں اس سے جہاد فی سبیل اللہ کروں مگر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس میں ایک شائبہ یہ ہے کہ تم تعلیم کا معاوضہ لینا چاہتے ہو۔ ابتداء میں ہر چیز رضاکارانہ طور پر تھی۔ ممکن ہے بعد کے زمانے میں جب حکومت کی طرف سے، مدینے میں بھی اور مدینے سے باہر بھی، تعلیم دینے کے لیے اساتذہ مامور کیے گئے تو انہیں حکومت کی طرف سے تنخواہیں دی جاتی ہوں لیکن تعلیم کے سلسلے میں شاگردوں سے کچھ لینے کی صریحاً ممانعت کی گئی۔ تعلیم کے انتظام کے بارے میں ایک مثال دیتا ہوں۔ حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن میں انسپکٹر جنرل آف ایجوکیشن کے طور پر بھیجا جاتا ہے۔ ان کا فریضہ حسب بیان طبری یہ تھا کان ینتقل من عمالۃ عامل الی عمالۃ اخریٰ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں، ایک کمشنری کے یا ایک عہدیدار کے علاقے کے بعد دوسرے عہدیدار کے علاقے میں جاتے تھے اور وہاں تعلیم کا بندوبست اور انتظام کرتے تھے۔ جب یمن کے متعلق یہ صراحت ملتی ہے تو کوئی تعجب نہیں کہ دوسرے صوبوں میں بھی ایسا ہی انتظام کیا گیا ہو اور وہ اس نہج پر ہوا ہو گا کہ مقامی مدرس بھی مامور کیے جائیں۔ صدر مدرس بھی اور مدرسوں کے ناظرہ وغیرہ بھی مامور کر دیے ہوں گے تاکہ حکومت کی نگرانی بھی تعلیم پر رہے اور اگر کوئی شکایت یا خرابی نظر آئے تو اس کی اصلاح اور سد باب بھی کیا جا سکے۔

اب عدلیہ کے متعلق بھی کچھ عرض کروں گا۔ اس کی ضرورت تھی اور اس کا رسول اللہﷺ نے بندوبست بھی کیا۔ ابتداء میں مسلمانوں کی تقریباً ساری آبادی شہر مدینہ میں تھی ان کی تعداد چند سو سے زیادہ نہ تھی۔ مسلمانوں میں تو لڑائی جھگڑے کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہیے لیکن انسانی فطرت کے تقاضے سے اگر کبھی جھگڑا یا اختلاف ہو جاتا تو لوگ یا تو اپنے قبیلے کے سردار سے رجوع کرتے یا رسول اللہﷺ کے پاس آتے اور فی الفور وہ مقدمہ طے پا جاتا اور فیصلہ نافذ کیا جاتا۔ ہر شخص کو اجازت تھی کہ اعلیٰ ترین افسر عدالت، حکمران ملک یعنی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی شکایتیں پیش کرے اور فیصلہ پائے۔ رفتہ رفتہ جب سلطنت کی توسیع ہوئی تو مختلف مقامات پر عدالتی انتظامات کی ضرورت پیش آئی۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ چیز یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ جب یمن کے علاقے نجران کے عیسائی مدینہ منورہ آئے تو انہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا، لیکن اسلامی مملکت کے ماتحت رہنے کو قبول کر لیا۔ کچھ شرطیں بھی طے کیں کہ ہمارا گرجا برقرار رہے، اپنے گرجاؤں کے سردار کو ہم ہی متعین کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ آخر میں انہوں نے مسلمان حاکم عدالت کی غیر جانبداری پر اعتماد کرتے ہوئے رسول اللہﷺ سے درخواست کی کہ انہیں ایک مسلمان جج مہیا کیا جائے۔ چنانچہ رسول اکرمﷺ حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ کو روانہ کرتے ہیں کہ وہ "امین ھذا الامۃ” یعنی مسلمانوں میں قابل اعتماد شخص ہیں۔ انہوں نے وہاں اپنے فرائض اس خوبی سے انجام دیے کہ ملک میں جلد ہی اسلام پھیلنے لگا۔ بہت سے عیسائی مسلمان ہو گئے۔ مختلف مقامات کے قاضیوں کو مختلف ہدایات دی جاتی رہیں مثلاً ایک مرتبہ حضرت علیؓ کو ایک جگہ کا قاضی بنا کر بھیجا گیا۔ یہ بالکل نوجوان تھے۔ انہیں قاضی نامزد کیا گیا تو کہنے لگے کہ یا رسول اللہﷺ! میں نے کبھی یہ کام کیا ہی نہیں، یہ خدمت کیسے انجام دوں گا؟ رسول اللہﷺ نے ان سے کہا کہ ایک بنیادی اصول میں تمہیں بتاتا ہوں۔ جب کوئی شخص تمہارے پاس آئے اور کوئی شکایت پیش کرے تو صرف اسی کی بات سن کر فیصلہ نہ کرو، جب تک مدعی علیہ یا فریق ثانی کو بھی بلا کر اس کا بیان نہ سن لو، پھر دونوں کے بیانات کی روشنی میں تم اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کر سکتے ہو۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں ساری عمر عدالتی فیصلے کرتا رہا ہوں، مجھے کبھی جھجک محسوس نہیں ہوئی، کیونکہ بنیادی اصول یہ تھا کہ دونوں آدمیوں کی باتیں سنوں اور اس کی روشنی میں صحیح نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کروں۔

یہ تمام امور تھے جن کی اساس پر اسلامی مملکت کے مختلف محکموں اور مختلف اداروں کا آغاز ہوا تھا۔ تعلیم کا بھی آغاز ہوا اور فوج کا بھی انتظام ہوا۔ مالیے کا بھی انتظام ہوا اور سرکاری سیکرٹریٹ کا بھی انتظام ہوا۔ غرض جن جن چیزوں کی اس وقت ضرورت تھی، ان میں ہر ایک کا حسب ضرورت انتظام کیا گیا۔ بعد کے زمانے میں جو ترقی یافتہ انتظامی ادارے نظر آتے ہیں، ان سب کی بنیاد عہد نبوی کی اس اسلامی مملکت کی ایک خصوصیت کی طرف اشارہ کیے بغیر اسے ختم نہ کروں گا۔ یہ وہ مشرکین قریش کے زیر تسلط شہری مملکت مکہ کے متعلق رسول اکرمﷺ کا تصور یہ تھا کہ وہ لوگ واقعے کی حد تک (Defacto) تو بیشک اس کے مالک ہیں لیکن استحقاق کی حد تک (Dejure) وہ مسلمان اور رسول اکرمﷺ کی چیز ہے۔ اس لیے جنگ بدر کے سلسلے میں ذکر آتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے جب سنا کہ قریش کا جھنڈا خاندان عبد الدار کے ایک مشرک کے ہاتھ میں ہے تو فرمایا کہ حق رسانی اسلام کا فریضہ ہے اور یہ کہہ کر اپنا جھنڈا حضرت مصعب بن عمیر العبدری کے (جو اسی خاندان کے ایک مسلمان تھے) سپرد فرمایا۔ صلح حدیبیہ کے وقت مشرکین سے گفت و شنید کے لیے ایک شخص کو مکہ بھیجنے کی ضرورت تھی۔ اس پر حضرت عمرؓ کا انتخاب کیا گیا، وہ سابق میں مکہ میں موروثی وزیر خارجہ تھے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو اسلام لانے کے بعد اسلامی سوارہ فوج کا افسر بنا دیا گیا کہ مکہ میں وہی ان کا منصب تھا۔ حضرت ابو بکرؓ کو رسول اللہﷺ نے مدینے میں مفتی مقرر فرمایا۔ یہ مکہ میں بھی ان کا فریضہ رہا تھا۔ فتح مکہ پر حضور اکرمﷺ کے چچا حضرت عباس نے چاہا کہ خانہ کعبہ کی چابی انہیں دے دی جائے۔ رسول اللہﷺ نے انکار کیا اور قدیم موروثی کلید بردار کو، جو مسلمان ہو گیا تھا، وہ چابی مکرر عطا فرمائی اور دیگر فرائض کے متعلق بھی موروثی لوگوں کی تلاش کا ذکر ملتا ہے۔ اس سے میری ناقص رائے میں یہ استنباط کیا جا سکتا ہے کہ ہجرت کے بعد اولاً رسول اکرمﷺ اپنے کو شہری مملکت مکہ کا بالاستحقاق (Dejure) حکمران سمجھتے رہے، چاہے مشرکین ہی واقعے کی حد تک (Defacto) اس پر مسلط رہیں۔ فتح مکہ کے بعد یہ دونوں امور رسول اللہﷺ کے ہاتھ میں آ گئے اور اسی کی طرف قرآن مجید (30:8 تا 34) میں واضح ذکر ہے کہ وَإِذْ یمْكُرُ بِكَ الَّذِینَ كَفَرُوا لِیثْبِتُوكَ أَوْ یقْتُلُوكَ أَوْ یخْرِجُوكَ ۚ وَیمْكُرُونَ وَیمْكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَیرُ الْمَاكِرِینَ ()وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَیهِمْ آیاتُنَا قَالُوا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هَٰذَا ۙ إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِیرُ الْأَوَّلِینَ () وَإِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَینَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِیمٍ ()وَمَا كَانَ اللَّهُ لِیعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِیهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ یسْتَغْفِرُونَ  ()وَمَا لَهُمْ أَلَّا یعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُمْ یصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوا أَوْلِیاءَهُ ۚ إِنْ أَوْلِیاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا یعْلَمُونَ  () ضمناً یہ بھی یاد دلا دوں کہ حکومت تو خدا کی ہے اور اسی نے زمین میں ہمیں نائب بنایا ہے، اسی لیے اسی کے احکام نافذ کرنا ہمارا فریضہ ہے۔ والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

 

سوالات و جوابات

 

برادران کرام! خواہران محترم! السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ!

کچھ سوالات آپ کی طرف سے آئے ہیں، اپنی بساط کے مطابق جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔

 

سوال1:

آپ نے کہا کہ بیت المعمور سے اگر ایک پتھر پھینکیں تو کعبہ کی چھت پر گرے گا۔ جدید علم کی روشنی میں زمین متحرک ہے اس لحاظ سے کعبہ کا مقام بیت المعمور کے لحاظ سے (Relatively) تبدیل ہوتا رہے گا۔ وضاحت فرمائیں۔

 

جواب:

غالباً آپ نے میرے اشارے کے چند الفاظ پر توجہ نہیں دی۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ ایک دوسرے عالم کی چیز ہونے کی وجہ سے ہماری دنیا کی چیزوں سے مختلف ہے۔ اسے ہم بطور رمز یا علامتی (Symbolic) انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔ سمجھانے کا یہ انداز اس لیے اختیار کیا گیا کہ اہل زمین کو زمینی چیزوں کے مطابق سمجھایا جا سکے۔ دوسرے عالم کی چیزوں کو زمینی اساس پر ہم معلوم نہیں کر سکتے۔

دوسری چیز میں آپ سے مزاحاً پوچھوں گا کہ اگر زمین متحرک ہے تو آپ کیوں فرض کر لیتے ہیں کہ آسمان متحرک نہیں۔ اگر آسمان بھی اسی طرح گردش کرتا ہے تو اس کی جگہ میں کبھی فرق نہیں آتا۔ بہرحال اس کے متعلق سوائے اس کے میں کچھ کہنا نہیں چاہتا کہ حدیث شریف میں اس کا ذکر آیا ہے۔ اس کو اگر رمز کے طور پر (Symbolic) لیں تو ہم اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ آج کے علم میں ہو سوال کریں تو ہمیں کل کا کوئی علم اور چیز بیان کرے گا۔ اس لیے ہمیں اپنے اضافی (Relative) علوم کی اساس پر ان روحانی حقائق اور عالمی بالا کی چیزوں کو نہیں جانچنا چاہیے۔

 

سوال2:

آپ نے ابھی اپنے لیکچر میں بتایا ہے کہ حضورﷺ حضرت بلالؓ کو اذان سکھائی اور یہ بتایا کہ کن لفظوں کو کھینچ کر ادا کرنا چاہیے اور کن لفظوں کو اختصار سے، اس طرح موسیقی کے سر بتائے۔ اس بیان کی روشنی میں وضاحت کریں کہ موسیقی کی اسلام میں کس حد تک گنجائش ہے؟

 

جواب:

یہی نہیں اور بہت سی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیقی کی اسلام میں ممانعت بالکل نہیں ہے اگر ممانعت ہے تو اس بات کی کہ مثلاً نماز کے وقت موسیقی کا شغل جاری رکھا جائے یا اس کا منشا ایسی تفریح ہو جو اخلاقی نقطہ نظر سے بری سمجھی جاتی ہے۔ میں آپ کو کچھ مثالیں دیتا ہوں جن سے یہ ظاہر ہو گا کہ فی نفسٖہ موسیقی کی ممانعت نہیں ہے۔ ایک دن رسول اللہﷺ نے ایک نکاح کی دعوت سے واپس آ کر حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ اے عائشہ! آج میں تمہارے خاندان کے ایک فرد کی شادی میں گیا تھا، مگر وہاں کوئی موسیقی نہیں تھی، یہ کیسی بات ہے؟ یعنی رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ نکاح کے سلسلے میں موسیقی کی ضرورت ہے۔ ایک اور مثال دیتا ہوں، یہ حجۃ الوداع کے زمانے کا واقعہ ہے۔ رسول اللہﷺ "منیٰ” میں مقیم تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ وہاں میرے خیمے کے اندر جہاں رسول اللہﷺ لیٹے ہوئے تھے اور چہرے پر چادر ڈال کر آرام فرما رہے تھے، میرے پاس چند لڑکیاں دف بجا رہی تھیں۔ اتنے میں حضرت ابو بکرؓ رسول اللہﷺ سے ملنے کے لیے آئے اور ان لڑکیوں کو ڈانٹا، یہ کیا شیطانی کام ہے، جاؤ نکلو یہاں سے، رسول اللہﷺ جو سوئے ہوئے نہیں تھے، سر اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں اے ابوبکر! یہ عید کا دن ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے بلکہ اس کے بر خلاف ہونا چاہیے۔ اسی طرح ایک اور عید کے سلسلے میں مدینہ منورہ کا واقعہ ہے۔ غالباً 2 یا 3ھ یعنی بہت ہی ابتدائی زمانے کا واقعہ ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں عید کے دن رسول اللہﷺ کے مکان کے سامنے کچھ شور سننے میں آیا ۔رسول اللہﷺ اٹھے، دیکھا کہ کیا ہے؟ میں بھی اٹھی تاکہ اس تماشے کو دیکھوں۔ مدینہ منورہ میں حبشیوں کی ایک آبادی تھی۔ عید کے دن یہ لوگ خصوصاً نوجوان حبشی مدینے کی گلیوں میں سے گزرتے اور اپنے نیزہ بازی کے کرتب ہر مکان کے سامنے دکھاتے اور مکان والا یقیناً انہیں ان کو کچھ نہ کچھ دیتا۔ آپﷺ نے ان حبشیوں کو روکا نہیں بلکہ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ مجھ کو دکھانے کے لیے بلا لیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پوچھا عائشہ! بس دیکھ چکیں؟ میں نے کہا نہیں، ابھی اور دیکھوں گی، ٹھہر جائیے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ بالآخر جب میں خود ہی تھک گئی تو میں اندر چلی گئی۔ ان حبشی بچوں کے بارے میں ایک اور بات یاد آ گئی، عرض کیے دیتا ہوں۔ جب رسول اللہﷺ ہجرت کر کے مدینہ پہنچے۔ لوگ "قبا” میں آپﷺ کا انتظار کرتے رہے۔ روایت ہے کہ مدینے کی ساری آبادی، کیا مسلمان، کیا غیر مسلم، اپنی مہمان نوازی کے اظہار کے لیے استقبال میں شریک تھی۔ یہ حبشی لڑکے بھی دوڑے ہوئے آئے اور اپنے نیزہ بازی کے کرتب رسول اللہﷺ کے سامنے دکھانے لگے۔ اس سے ان کی فراخ دلی اور وسیع القلبی کا مظاہرہ ہوتا ہے چنانچہ رسول اللہﷺ بھی ان لوگوں کا تالیف قلبی کیا کرتے تھے اور ان سے محبت سے پیش آتے تھے اور غالباً ان کی مالی مدد بھی کیا کرتے تھے۔ اسی طرح موسیقی کے سلسلے میں آپ ایک اور چیز بھی دیکھئے۔ قرآن مجید کی تلاوت بھی موسیقی ہی کی ایک شاخ ہے۔ رسول اللہﷺ کے احکام ہیں کہ قرآن حکیم کو معمولی نثری عبارت کی طرح نہ پڑھو کہ دھول اڑانا سمجھا جائے بلکہ خوش الحانی سے پڑھو اور یہ بھی فرمایا کہ اللہ نے کسی غنا، کسی گانے کی اجازت اتنی نہیں دی ہے جتنی قرآن مجید کی اچھی آواز سے تلاوت کرنے کی اجازت دی ہے۔ ایک دوسری حدیث یہ ہے کہ خدا کسی گانے کی آواز پر اتنا کان نہیں دھرتا جتنا قرآن مجید کی اچھی تلاوت کرنے پر اپنے کان لگاتا ہے۔ غرض یہ کہ موسیقی کی کوئی اصولی ممانعت نہیں ہے، بشرطیکہ موسیقی کا مقصد اچھا ہو اور اس سے ہماری مذہبی عبادت میں کوئی حرج واقع نہ ہو۔ اگر مزید تفصیل درکار ہو تو امام غزالی کی کتاب "احیاء العلوم” کو دیکھئے۔ اس میں ایک پورا ضخیم باب اس موضوع پر ہے۔ وہ تفصیل سے بتاتے ہیں کہ اسلام میں موسیقی اور گانے کی کیا حیثیت ہے۔

سوال3: مرحوم کی قل خوانی اور چہلم کے متعلق آپ کا نظریہ کیا ہے؟ یہ شرعی حکم ہے؟ آنحضورﷺ اور خلفائے راشدین کے حوالے سے اس رسم کا کوئی ذکر آیا ہے؟

جواب: میں عرض کروں گا کہ اگر کسی کی وفات کے تیسرے دن، دسویں دن، چالیسیوں دن ہم کچھ کرنا چاہیں تو وہ کام یہ ہونا چاہیے کہ قرآن مجید کی تلاوت کریں اور اس کا ثواب متوفی شخص کو پہنچانے کی اللہ سے دعا کریں۔ اس میں کوئی امر مانع نہیں ہے، چاہے ہر روز کریں، چاہے ہر سال، چاہے ابتداءً متعدد بار کریں، کوئی امر مانع نہیں ہوتا اور میرے مرنے کے بعد اگر آپ میرے لیے بھی دعا کریں تو میں آپ کا ممنون ہوں گا۔

٭٭٭

ماخذ: اردو محفل

ٹائپنگ: جاوید اقبال

تدوین اور ای بک: اعجاز عبید