FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

عقائد اور عبادات

 

 

                   ڈاکٹر حمید اللہ

خطباتِ بہاولپور، خطبہ ۔ ۶

 

 

 

 

 

محترم وائس چانسلر صاحب! محترم اساتذہ کرام اور محترم مہمانان گرامی!

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

رسول اللہﷺ کی ذات محض خوش اعتقادی کے لحاظ سے نہیں، واقعاتی حیثیت سے بھی بہت ہی جامع شخصیت ہے۔ اس شخصیت کی وضاحت کے لیے ایک مورخ اور سوانح نگار کو مختلف پہلوؤں کا ذکر کرنا پڑتا ہے۔ آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری، تمام سابقہ پیغمبروں کے خصائل رسول اللہﷺ میں ملیں گے۔

اگر ہم لفظ نبی کے معنی محدود کر لیں کہ نبی دین سکھاتا ہے آپ ﷺ نے ہمیں دین کی تعلیم بھی دی ہے اور اگر اس کے وسیع معنی لیں تو وہ تمام کارنامے جو آپ ﷺ نے انجام دیے، وہ سب ہی منصب نبوت کے اجزاء یا شعبے ہوں گے۔ نبوت کی تمام شاخوں یا شعبوں کا اگر ہم علیحدہ علیحدہ ذکر کرنا چاہیں تو ایک نشست میں ساری چیزوں پر روشنی ڈالنا ناممکن ہو گا۔ ظاہر ہے کہ انسب کارناموں میں دین کی تعلیم ہی کو اولیت حاصل ہے، کیونکہ اسی کے لیے آپ ﷺ بعثت سے لے کر وفات تک، ساری عمر سعی فرماتے رہے۔ خوش قسمتی سے ہمیں دین کے سلسلے میں ایک سہولت یہ حاصل ہے کہ خود آپ کی ہی ایک حدیث میں اس کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ یہ حدیث صحاح ستہ کی ساری کتابوں یعنی بخاری و مسلم وغیرہ میں موجود ہے۔ ایک روایت میں یہ صراحت بھی آتی ہے کہ اس واقعے کا تعلق حضور ﷺ کی زندگی کے آخری دور بلکہ شاید آخری سال سے ہے۔ وہ حدیث یہ ہے کہ ایک دن ایک اجنبی مسجد نبوی میں داخل ہوتا ہے، جسے کوئی نہیں پہچانتا۔ اس کے جسم پر سفید براق کپڑے ہیں اور اس کے سر کے بال بے حد سیاہ ہیں۔ لکھا ہے کہ وہ شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر، آپ کے سامنے گھٹنوں سے گھٹنے ملا کر بیٹھ گیا اور پوچھا کہ اے محمد(ﷺ) ایمان کیا چیز ہے؟ حضور ﷺ نے اس کی تشریح فرمائی اس جواب پر اجنبی سائل کہتا ہے: "آپ نے بہت ٹھیک کہا” راوی کا بیان ہے کہ ہم سب لوگ حیرت زدہ تھے کہ یہ کون ہے جو سوال بھی پوچھتا ہے اور جواب کی توثیق بھی کرتا ہے۔ پھر اس کے بعد اس نے دوسرا سوال کیا کہ اسلام کیا چیز ہے؟ اس کی بھی حضور ﷺ نے تشریح فرمائی۔ اس جواب پر بھی اس نے کہا "آپ ٹھیک کہتے ہیں”۔ پھر پوچھا کہ احسان کیا چیز ہے؟ احسان کی بھی حضور ﷺ نے تشریح فرمائی۔ اس پر بھی یہی کہا کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ اس کے بعد آخری سوال کیا کہ قیامت کب آئے گی؟ حضور ﷺ کے الفاظ یہ تھے کہ "اس بارے میں سائل سے زیادہ مجھ (ﷺ) کو کوئی علم نہیں” یعنی نہ میں جانتا ہوں نہ تم جانتے ہو، صرف خدا ہی جانتا ہے۔ اس کے بعد وہ شخص اٹھا اور باہر چلا گیا ۔ حضور ﷺ نے کسی صحابیؓ سے کہا کہ دیکھو، یہ کون ہے؟ وہ اس کے پیچھے گئے اور چند لمحوں میں وواپس آ کر کہا وہ غائب ہو گیا ہے، معلوم نہیں اسے زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ اس کے بعد جو واقعہ پیش آیا وہ مختلف روایتوں میں مختلف طریق سے بیان ہوا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے فوراً کہا۔ دوسری روایت میں ہے کہ چند دن بعد کہا کہ یہ شخص جبرئیلؑ تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔ جس روایت میں کئی دنوں کے بعد حضور ﷺ نے بیان فرمایا اس روایت میں اس جملے کا اضافہ بھی ہے کہ آج تک جبرئیلؑ کو پہچاننے میں مجھے دشواری پیش نہیں آئی، کہ میں نہ پہچان سکوں۔ گویا اگر جبرئیلؑ امتحان کے لیے آئیں تو یہ ضروری نہیں کہ رسول اللہ ﷺ بھی ان کو پہچان سکیں۔ بہر کیف اس حدیث میں تین چیزوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ ایمان کیا چیز ہے؟ اسلام کیا چیز ہے؟ احسان کیا چیز ہے؟ انہیں تین باتوں کو بہ الفاظِ دیگر عقائد، عبادات اور تصوف کہا جا سکتا ہے۔ بظاہر یہ موضوع غیر دلچسپ ہے کہ کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ ایمان سے کیا مراد ہے؟ اللہ کو ایک ماننا، رسول اللہ کو ایک ماننا۔ اسی طرح عبادات کے بارے میں ہم میں سے ہر ایک شخص واقف ہے کہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ چار چیزیں ہم پر فرض ہیں۔ کچھ باتیں تصوف کے متعلق بھی ہر شخص کو معلوم ہیں۔ لیکن اگر ہم ان میں سے ہر چیز کے مختلف پہلوؤں کو لے کر دیگر مذاہب سے مقابلہ کریں تو اس موضوع میں دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔

پہلے ایمان و عقائد کو لیجئے۔ اس کے بہت سے اجزاء اور عناصر ہیں۔ مثلاً توحید الہی پر ایمان، اللہ کی بھیجی کتابوں پر ایمان، اس کے رسولوں پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، آخرت اور روز جزاء پر ایمان، خیر و شر کے من جانب اللہ ہونے پر ایمان۔ اگر ہم ان عقائد کا دیگر مذاہب کے مماثل عقائد سے مقابلہ کریں تو اسلام کی امتیازی حیثیت ظاہر ہوتی ہے اور ایسے نکتے نظر آتے ہیں جن پر واقعی آدمی سر دھننے لگتا ہے۔ عقائد کے سلسلے میں پہلی چیز اللہ پر ایمان ہے۔ بعض ادیان اللہ کے ایک ہونے کے قائل ہیں اور اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان بھی کرتے ہیں۔ حتی کہ عیسائی بھی، جن کے متعلق عام طور پر یہ تصور ہے کہ وہ تثلیث پر ایمان رکھنے کے باعث ایک نہیں بلکہ تین خداؤں کو مانتے ہیں۔ اسی طرح پارسی بھی خدا کے ایک ہونے پر ایمان کا اظہار کرتے ہیں۔ ہندوؤں کے ہاں بھی بعض فرقے ایسے ہیں جو توحید ربانی پر ایمان رکھتے ہیں۔ اگر ہم غور سے دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ اسلام کا نظریہ توحید، بہ نسبت اور دینوں کی تعلیم کے زیادہ معقول زیادہ سادہ اور زیادہ اچھا ہے۔ مثال کے طور پر عیسائیوں کے ہاں، جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا، تثلیث کا تصور پایا جاتا ہے۔ لیکن کسی عیسائی سے پوچھو اور اس سے کہو کہ تم تین خداؤں پر ایمان رکھتے ہو تو وہ تم سے لڑ پڑے گا۔ کہے گا قطعاً نہیں، ہم ایک ہی خدا کو مانتے ہیں: باپ، بیٹا اور روح القدس، یہ تینوں ایک ہی خدا کے مظہر ہیں۔ میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ صرف چند اشارے کروں گا کہ ان کا یہ بیان، کہ تثلیث سے مراد توحید ہی ہے، داخلی تضاد کے باعث ناقابل قبول ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ابھی حال ہی میں کوئی سال ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرا پیرس میں ایک عیسائی ادارے کی طرف سے مجھے دعوت ملی کہ کسی اسلامی موضوع پر لیکچر دوں اور میں اس میں اسلامی عقائد کا ذکر کروں۔ وہاں میرا تعارف کراتے ہوئے وہاں کی پروٹسٹنٹ یونیورسٹی کے ریکٹر (Rector) نے بظاہر مجھ کو سمجھانے کے لیے اصرار اور تکرار سے کہا کہ عیسائی تین خداؤں کو نہیں مانتے، ایک ہی خدا کو مانتے ہیں۔ اس کے بعد میں نے اپنی تقریر شروع کی اور اس کا مجھے جواب دینا ایک لحاظ سے ضروری ہو گیا۔ میں نے کہا کہ اگر عیسائی واقعی صرف ایک خدا کو مانتے ہیں تو بسر و چشم، لیکن عیسائیوں کے ہاں ایک طرف اصرار کے ساتھ یہ ادعاء ہے کہ خدا ایک ہے اور دوسری طرف ان کے ہاں آمنت باللہ کی طرح کی جو Creed پائی جاتی ہے اسی میں ایسی چیزیں بیان کی ہوتی ہیں جو اس کی تائید نہیں کرتیں بلکہ تردید کرتی ہیں۔ غالباً آپ کو علم ہو گا کہ جس طرح مسلمانوں کے ہاں "آمَنْتُ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ ” کی طرح ایک Creed پائی جاتی ہے ۔ اسی طرح عیسائیوں کے ہاں بھی ہے، جس کے الفاظ کم و بیش اس طرح ہوتے ہیں کہ میں خدا پر ایمان لاتا ہوں اور خدا کے اکلوتے بیٹے حضرت عیسیؑ پر ایمان لاتا ہوں۔ جن کو فلاں بادشاہ کے زمانے میں تکلیف دے کر صلیب پر مارا گیا۔ پھر وہ جہنم میں گئے تین دن وہاں رہے اس کے بعد آسمان پر گئے وہاں خدا کے داہنے ہاتھ پر بیٹھے۔ آئندہ زمانے میں وہ دوبارہ آئیں گے تاکہ زمین پر زندوں اور مردوں کا حساب لیں۔ پھر اس کے بعد کچھ اس طرح کے الفاظ ہوتے ہیں کہ "گوشت پوست ہی کے ساتھ ہمارا حشر ہو گا اور ابدی زندگی حاصل ہو گی”  تو میں نے اشارہ کیا کہ "اگر یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ آسمان پر جانے کے بعد خدا کے داہنے ہاتھ پر بیٹھے تو کوئی شخص خود اپنے داہنے ہاتھ پر نہیں بیٹھتا۔ اس کے معنی یہی ہوں گے کہ حضرت عیسیٰؑ الگ ہیں اور خدا الگ ہے۔ وہ خدا کے معزز مہمان ہو سکتے ہیں کہ خدا کے داہنے ہاتھ پر بیٹھے ہیں لیکن وہ خود خدا نہیں ہو سکتے۔” اس طرح آپ دیکھتے ہیں کہ عیسائیوں کے ہاں توحید کا تصور ہونے کے باوجود اظہار (Formulation) اس طرح ہوتا ہے جو قابل قبول نہیں رہتا بلکہ خود اپنی تردید کرتا ہے۔

غرض توحید کے معلق مسلمانوں کا تصور اتنا سادہ ہے اور اس قدر پر زور ہے کہ اس طرح کی کوئی چیز دوسرے مذاہب میں نظر نہیں آتی۔ ابھی میں نے پارسیوں کے مذہب کا ذکر کیا ہے۔ زردشت بھی خدا کے ایک ہونے کا قائل ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہاں ثنویت یعنی دو خداؤں کا تصور بھی پیدا ہو گیا ہے۔ زردشت کہتا ہے برائی کو خدا کی طرف منسوب نہیں کیا جا رہا، نہ صرف یہ کہ خدا خود برا کام نہیں کرتا بلکہ یہ بھی کہ برائی کا پیدا کرنے والا بھی خدا نہیں ہو سکتا، یہ خدا کی ذات کے منافی ہے کہ خدا جیسی پاک ہستی برائی کو پیدا کرے۔ لہذا وہ کہتا ہے کہ برائی کا خالق الگ ہے اور بھلائی کا خالق الگ۔ اس طرح دو الگ خالق یا خدا ہیں۔ یہ نظریہ تو نیک نیتی پر مبنی ہے کیونکہ خدا کی عظمت کا احترام کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ خدا برائی پیدا نہیں کرتا لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا میں چونکہ اکثر اوقات برائی کو غلبہ حاصل ہوتا ہے اور بھلائی کو شکست ہوتی ہے، گویا بھلائی کا خدا مغلوب ہو جائے، کیا ہم اسے خدا تسلیم کریں گے؟ علمی نقطہ نظر سے یہ دشواریاں جو اس طرح کے تصورات سے پیدا ہوتی ہیں وہ اسلامی تعلیم توحید میں بالکل نہیں، اسلامی عقیدہ توحید میں زور دیا گیا ہے کہ اللہ جل شانہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ایک طرف کامل نفی ہے، دوسری طرف استثناء کے ذریعے سے محدود بھی کر دیا گیا ہے کہ صرف یہی اللہ ہے۔ یہ زور بیان کسی اور مذہب کی تعلیم میں نظر نہیں آتا۔ حتی کہ یہودیوں کے ہاں بھی صرف اتنا ہے کہ خدا ایک ہے لیکن یہ زور کہ لا الہ الا اللہ (کوئی معبود نہیں بجز اللہ کے) وہ امر ہے جو یہود کی تعلیم میں بھی نہیں ملتا۔

اس کے بعد دوسرا عقیدہ فرشتوں سے متعلق ہے۔ اس کو بھی اکثر مذہب قبول کرتے ہیں۔ پارسی، یہودی، عیسائی اور مسلمان سب اس پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن وقت کی کمی کے سبب میں اس پر بحث نہیں کروں گا۔

اس کے بعد عقائد کا تیسرا جزو کتابیں ہیں یعنی میں اللہ تعالی کی بھیجی ہوئی کتابوں پر ایمان لاتا ہوں۔ یہ اتنا اہم کلمہ ہے کہ اس کے مماثل ہمیں کوئی چیز دوسرے مذاہب میں نظر نہیں آتی، وہ اس لیے کہ اگر یہاں یہ کہا جاتا ہے "میں کتاب پر ایمان لاتا ہوں” یعنی قرآن مجید پر تو یہ صرف ایک کتاب ہوتی لیکن ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ایک کتاب پر نہیں بلکہ خدا کی بھیجی ہوئی ساری کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اس عقیدے میں ایک طرف فراخ دلی اور وسیع القلبی کا پہلو ہے اور دوسری طرف اسلام کے عالمگیر ہونے اور ابتداء سے لے کر قیامت تک مسلسل جاری رہنے کا تصور بھی ہے۔ کیونکہ اگر ہم کتابوں پر ایمان لائیں تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ آدمؑ سے لے کر محمد رسول اللہﷺ تک جتنی بھی کتابیں آئی ہیں وہ سب مختلف لوگوں کی نہیں ہماری اپنی کتابیں ہیں۔ مثلاً توریت یہودیوں کی ہی کتاب نہیں بلکہ ہماری کتاب بھی ہے۔ انجیل عیسائیوں ہی کی کتاب نہیں بلکہ ہماری کتاب بھی ہے۔ ایسی تعلیم ہمیں دوسرے مذاہب میں نہیں ملتی۔ عام طور پر دوسرے مذاہب والے یہ کہتے ہیں کہ سارے مذاہب غلط ہیں، انہیں چھوڑ دو، صرف ہمارا مذہب سچا ہے۔ میں بھی بطور مسلمان کے یہی کہوں گا کہ میرا دین سچا ہے لیکن دوسرے مذاہب بھی اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے سچے اور الہی مذہب ہیں، اگرچہ ان پرانے مذاہب پر عمل نہیں کرتا۔ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ خدا کی بھیجی ہوئی ساری کتابیں خدا ہی کا حکم ہیں اور اسی بنا پر ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔ مگر اس اصول کی بنا پر کہ آخری کتاب پر عمل کرتے ہیں۔ اس سے پہلے کی کتابوں پر عمل تو نہیں کرتے لیکن ان کو تسلیم ضرور کرتے اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ اس سے پہلے ایک نفسیاتی فائدہ اور بھی ہے کہ اگر میں کسی یہودی یا کسی عیسائی  کو یہ کہوں کہ تیرا مذہب جھوٹا ہے، تیری نجات کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ تو اسلام قبول کر لے، تیرے پاس جو کتابیں ہیں وہ لغو اور جلا دینے کے قابل ہیں تو اسے دکھ ہو گا اور غالباً وہ جوش غضب سے اس قدر مغلوب ہو جائے گا کہ اسلام کی حقانیت کے بارے میں میری کوئی بات سننے یا ماننے کے لیے تیار نہ ہو گا۔ اس کے بر خلاف اگر میں اس سے یہ کہوں کہ تمہارا دین سچا ہے، تمہارے ہاں کی کتاب بھی سچی ہے، وہ اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی کتاب ہے اور وہی اللہ، جس نے تمہیں یہ کتاب دی، اس نے ایک آخری کتاب بھی بھیجی ہے۔ تم اس کو پڑھو اور غور کر کے دیکھو کہ اس میں کیا بیان ہوا ہے۔ وہ نسبتا زیادہ خوش دلی کے ساتھ اس کو پڑھنے اور غور کرنے کے لیے تیار ہو گا۔ اسی طرح اللہ کے تمام رسولوں پر ایمان لانے کا جو حکم دیا گیا ہے، اس میں وہی فراخ دلی، وسیع القلبی، تحمل اور رواداری کا پہلو نظر آتا ہے۔ میں نے مسند احمد بن حنبل میں ایک حدیث پڑھی ہے جو دوسری کتابوں میں بھی ہے کہ ایک مرتبہ حضورﷺ نے فرمایا کہ آدمؑ سے لے کر اب تک اللہ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی بھیجے ہیں، جن میں 315 رسول تھے۔ گویا 315 صحیفے نازل ہوئے۔ باقی ایک لاکھ تیئس ہزار چھ سو پچاسی پیغمبروں نے اپنے اپنے پیش رو نبی کی کتاب پر عمل جاری رکھا۔ ظاہر ہے کہ سارے پیغمبر مختلف زمانوں اور دنیا کے مختلف ملکوں میں آئے ہوں گے اور ان کی زبانیں بھی مختلف رہی ہوں گی کہ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ (قرآن 4:14)

پیغمبر کے منصب اور مقصد کے بارے میں بھی مختصراً کچھ عرض کر دوں تو بہتر ہو گا کیونکہ اس بارے میں مختلف مذاہب میں کچھ تھوڑا سا فرق نظر آتا ہے۔ بعض مذاہب میں عقیدہ یہ ہے کہ اللہ انسان کے قالب میں جنم لیتا ہے جس شخص کے اندر اللہ حلول کر جاتا ہے اس کا ہر قول اللہ کا قول، ہر فعل اللہ کا فعل ہوتا ہے۔ دوسرا تصور یہ ہے کہ اللہ اپنے کسی برگزیدہ بندے کے پاس اپنا پیغام بھیجتا ہے۔ یہ پیغام اس تک مختلف طریقہ سے پہنچایا جاتا ہے۔ کبھی تو اللہ کی براہ راست اس نبی کے کان تک پہنچتی ہے، جیسا کہ حضرت آدم اور حضرت موسی کے متعلق ہے کہ خدا نے ان سے بات کی، کبھی یہ ہوتا ہے کہ وہ پیغام ایک فرشتہ لاتا ہے اور انسان تک پہنچاتا ہے۔ فرشتے کا لفظ فارسی مصدر "فرستادن” کا اسم مفعول ہے یعنی بھیجا ہوا۔ اس سے مراد وہ نوری مخلوق ہے جو اللہ کا پیغام انسان تک پہنچاتی ہے۔ ان فرشتوں میں یہ خامی نہیں ہوتی کہ پیغام کا کوئی جزو بھول جائیں یا اس کے پہنچانے میں کوئی غلطی کریں۔ فرشتے خدا کا جو پیغام لاتے ہیں، اس کو ہم اصطلاحاً "وحی” کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وحی کیا چیز ہے؟ جو لوگ مسلمان نہیں ہیں، اور اسلام پر اعتراض کرتے رہے ہیں، وہ وحی پر بھی اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایک بیماری ہے۔ گزشتہ صدی کا ایک مشہور مستشرق اشپرنگر برطانوی دور حکومت میں ہندوستان میں رہا تھا۔ اس نے علم طب کی تعلیم حاصل کی تھی اور عربی دان بھی تھا۔ چنانچہ اس نے سیرت النبیﷺ پر جرمن کی کتابوں میں عربی ماخذوں سے استفادہ کیا۔ لیکن وحی کے متعلق اپنی ذاتی رائے پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مرگی کی بیماری معلوم ہوتی ہے۔ نزول وحی کے متعلق عربی کی کتابوں میں جو روایات اور بیانات ہیں کہ وحی آتی تو رسول اللہﷺ کا چہرہ سرخ ہو جاتا، آپ پسینے پسینے ہو جاتے اور سکتے کا عالم طاری ہو جاتا۔ تو اشپرنگر کہتا ہے کہ یہ علامت مرگی کی ہیں۔ چونکہ میں ڈاکٹر نہیں ہوں، کہہ نہیں سکتا کہ اس کا یہ بیان کس حد تک صحیح ہے بہرحال اس نے یہ اعتراض کیا ہے، لیکن اس کے متعلق اگر میں اپنی رائے ظاہر کر سکوں تو وہ یہ ہے کہ اشپرنگر نے وحی کے بارے میں اور وحی کی کیفیت سے متعلق ساری معلومات جمع نہیں کیں، بلکہ صرف چند چیزیں لیں اور ان کی اساس پر کہا کہ یہ فلاں بیماری کی علامت ہیں۔ میرے خیال میں یہ صحیح علمی اور دیانتدارانہ طریقہ نہیں ہو سکتا چنانچہ میں نے وہ حدیثیں جمع کیں جن میں وحی کے نزول کے وقت کا مشاہدہ مختلف صحابیوں سے مروی ہے۔ مثلاً ایک صحابی فرماتے ہیں کہ ہم نے دیکھا فلاں دن یکایک رسول اللہﷺ کی حالت متغیر ہو گئی۔ وحی نازل ہونے لگی اور اس وقت کی یہ کیفیت چند لمحوں میں دور ہو گئی اور رسول اللہﷺ اپنی معتاد بشری حالت میں آ گئے، وغیرہ وغیرہ۔ ایسی جو حدیثیں میں نے جمع کیں ان میں ایک بات غیر معمولی ہے، جس کی طرف اشپرنگر کے بیان میں کوئی اشارہ تک نہیں چہ جائیکہ وہ اس کی توجیہ یا اس سے استدلال کی کوشش کرتا۔ وہ یہ ہے کہ جب وحی نازل ہوتی تو وہ تمام صحابہ جن کو اس کا مشاہدہ ہوا تھا، کہتے ہیں کہ اس وقت رسول اللہﷺ اتنے بوجھل ہو جاتے کہ اس بوجھ کا تحمل تقریباً ناممکن ہو جاتا۔ چنانچہ اگر آپ کسی اونٹنی پر سوار ہوتے اور اس وقت وحی نازل ہونے لگتی تو اونٹنی آپ کے بوجھ کو برداشت نہ کر سکتی اور مجبور ہو جاتی کہ بیٹھ جائے۔ اگر وہ بیٹھنا نہ چاہتی یا بیٹھ نہ سکتی تو اس کے پاؤں سیدھے ہو جاتے اور اکڑنے لگتے، گویا کہ وہ اب چٹخ کر ٹوٹ جائیں گے۔ ایک اور روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہﷺ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے، لوگوں کی کثرت تھی، حضرت زید بن ثابت کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا زانو میرے زانو پر تھا۔ آپ پر وحی نازل ہونے لگی۔ اتنا بوجھ محسوس ہوا کہ مجھے خوف ہوا کہ میری ران کی ہڈی چٹخ کر ٹوٹ جائے گی۔ رسول اللہﷺ کی ذات نہ ہوتی تو میں چیخ کر اپنا پاؤں کھینچ لیتا۔ میرے لیے تقریباً ناممکن تھا کہ میں آپ کا بوجھ سہار سکوں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ اس کی توجیہ اشپرنگر کے بیان میں میں اعتراض کی عبارت میں نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اور مؤلفوں نے بھی خیال آرائی کی ہے لیکن وہ بھی اس نکتے پر چپ سادھ لیتے ہیں اور اس سے کوئی نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ بات میرے نزدیک بہت اہم اور غیر معمولی ہے۔ مجھے یا آپ کو ایسی کیفیت کبھی پیش نہیں آ سکتی۔ عام بشری کیفیت پر قیاس کر کے میں اس کی توجیہ کبھی نہیں کر سکوں گا کہ وحی کیا چیز ہے؟ وحی صرف پیغمبر پر آتی ہے اور پیغمبر کی بھی چوبیس گھنٹے وہ حالت نہیں رہتی بلکہ کبھی کبھی اللہ کوئی پیغام بھیجتا ہے تو اس پر وہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ایک طرف یہ چیز ہے دوسری طرف میرے ایک ڈاکٹر دوست نے مرگی کی بیماری کے متعلق علمی نقطہ نظر سے کچھ تازہ ترین معلومات مہیا کی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مرگی کا بیمار تشنج کی حالت میں ہوتا ہے، ہاتھ پاؤں مارتا ہے، بے قرار ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کی زبان سے کچھ آوازیں نکلتی ہیں لیکن وہ بالکل ناقابل فہم ہوتی ہیں۔ وہ کچھ کہتا ضرور ہے لیکن کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جسے ہم سننے والے سمجھ سکیں اور یہ کہ مرگی والے شخص کی اولاد میں بھی یہ مرض منتقل ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں غور کرنا چاہیے کہ تشنج اور ہاتھ پاؤں مارنے اور بے قرار ہو جانے کا کوئی ذکر رسول اللہﷺ کی زندگی میں اور وحی کے مشاہدات سے متعلق روایتوں میں نہیں ملتا۔ اس لحاظ سے مرگی کا انتساب رسول اللہﷺ کی طرف درست معلوم نہیں ہوتا اس کے برعکس ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ رسول اللہ وحی کے وقت ہمیشہ ساکت و صامت ہو جاتے تھے۔ یہ نہیں کہ آپ ہاتھ پاؤں مارتے تھے یا تشنج کی کیفیت پیدا ہو جاتی تھی، کبھی نہیں کبھی نہیں، ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا۔ دوسری چیز ہمیں یہ بھی نظر آتی ہے کہ وحی کے دوران شروع سے آخر تک اور وحی کے ختم ہو جانے کے بعد رسول اللہﷺ کی زبان سے جو آوازیں نکلتیں وہ قابل فہم عبارتیں ہوتیں، یعنی قرآن کی آیتیں جن کو سن کر ہر شخص سمجھ سکتا تھا، یہ نہیں کہ جانوروں کی طرح چیخیں مارتے ہوں یا جیسے کہ بیمار بعض اوقات کراہتا ہے اور ایسی آوازیں نکالتا ہے جو سمجھ میں نہیں آ سکتیں، ایسا کبھی نہیں ہوا۔ یہ صحیح ہے کہ ایک زمانے میں وحی کے دوران ہی رسول اللہﷺ بلند آواز سے وحی سناتے۔ بعض اوقات وحی کے ختم ہونے کے بعد سناتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں ایک آیت ہے کہ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ (16:75) یعنی ابتداء ہی سے جیسے جیسے وحی نازل ہوتی اور جیسے جیسے فرشتہ آپ کو کچھ الفاظ پہنچاتا رسول اللہﷺ اسی وقت اس کو با آواز بلند دہراتے رہتے۔ اس طرح کی فوری تبلیغ آپ کی نیک نیتی پر مبنی تھی کہ کچھ بھول نہ جائیں تو اللہ نے کہا ایسا نہ کریں، پہلے سکون کے ساتھ پوری وحی کو سن لیں، وہ آپ کے ذہن سے غائب نہیں ہو گی، ہم اسے محفوظ رکھیں گے۔ وحی کا نزول ختم ہونے کے بعد آپ اسے دوسرے تک پہنچائیں۔ اس کے بعد سے رسول اللہﷺ نے اپنے اس معمول کو بدل دیا اور وحی کے اختتام تک سکوت فرماتے۔ ان تفصیلات کی روشنی میں ہمیں نظر آتا ہے کہ مرگی کی بیماری، تشنج وغیرہ بے معنی آوازوں کا آپ کی زبان سے نکلنا، ان باتوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اسی طرح رسول اکرمﷺ کی چھ سات لڑکے لڑکیاں ہوئیں اور لڑکیوں کی اولاد اب تک دنیا میں باقی ہے اور مرض کے توارث سے تاریخ ساکت ہے۔

اس کے علاوہ ایک طویل فہرست ایسی حدیثوں اور روایتوں کی ہے جن میں لکھا ہے کہ ایک دن رسول اللہﷺ منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ یکایک آپ کی حالت غیر ہو گئی اور وحی نازل ہونے لگی۔ آپﷺ کی زبان سے آواز نکلنا بند ہو گئی اور آپ چپ چاپ کھڑے رہے۔ چند لمحوں کے بعد وہ حالت دور ہو گئی۔ پھر آپ نے خطبہ دینا شروع کیا اور فرمایا مجھ پر ابھی فلاں وحی نازل ہوئی ہے اور اس کی تبلیغ فرما دی۔ ایک دوسری روایت میں کہا گیا ہے کہ ایک دن رسول اللہﷺ کھانا کھا رہے تھے۔ ایک گوشت کا ٹکڑا بدستور آپ کے ہاتھ میں رہا، گرا نہیں۔ یعنی اپنی ذات پر آپ کا کنٹرول برقرار رہا۔ اس طرح کی اور حدیثیں بھی ہیں جن میں ہمیں نظر آتا ہے کہ وحی کے نزول کے وقت رسول اللہﷺ کو اپنے آپ پر ویسا ہی کنٹرول رہتا تھا جیسا کہ عام حالت میں ہوتا ہے، سوائے اس فرق کے کہ اس وقت آپ بے حرکت ہو جاتے اور آپ کے جسم سے پسینہ نکلنے لگتا حتی کہ انتہائی شدید سردی کے زمانے میں بھی پسینے کے قطرے ایک قطار کی صورت میں آپ کی پیشانی سے گرنے لگتے۔ اس کے سوا کوئی اور فرق نظر نہیں آتا یا یہ کہ آپ کے چہرے کا رنگ، چند لمحوں کے لیے غالباً خون کی تیز گردش کی وجہ سے، سرخ ہو جاتا یا ذرا سانولا ہو جاتا۔ اس کے علاوہ ہمیں اور کوئی فرق نظر نہیں آتا۔

مغربی مورخوں کی تالیفات میں ایک اور چیز نظر آتی ہے وہ کہتے ہیں کہ جب وحی نازل ہوتی تو رسول اللہﷺ لیٹ جاتے اور آپ کے چہرے کو ڈھانپ دیا جاتا،جیسا کہ پرانے کاہنوں کی عادت تھی۔ میں نے اس بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ آپ کے چہرے کو ڈھانپ دینا اور آپ کا لیٹ جانا صرف ایک مرتبہ پیش آیا، ورنہ عام طور پر ایسی کوئی صورت کبھی واقع نہیں ہوئی۔ مثلاً اونٹنی پر ہیں، یا منبر  پر کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے ہیں تو وہاں چہرے یا جسم کو کسی کپڑے سے ڈھانپ دینے اور آپ کے لیٹ جانے کی کوئی صورت کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ وہ ایک واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت عائشہؓ کی عفت کے بارے میں جھوٹے بہتان لگائے گئے تھے تو ایک دن آپ حضرت عائشہؓ سے ملنے کے لیے ان کے والد حضرت ابوبکر ؓ کے مکان گئے کیونکہ اس زمانے میں وہ اپنے والدین کے گھر تھیں۔ وہاں رسول اللہﷺ نے حضرت عائشہؓ سے گفتگو کی، کچھ سوالات کیے۔ پھر یکایک آنحضرتﷺ پر وحی کا نزول شروع ہوا۔ راوی لکھتا ہے کہ رسول اللہﷺ لیٹ گئے اور آپ کے چہرے پر حضرت ابو بکرؓ اور ان کی بیوی نے احتراماً ایک چھوٹا سا کپڑا ڈال دیا، اس خیال سے کہ کہیں رسول اللہﷺ کی متغیر  حالت دیکھ کر ہم ہنس نہ پڑیں یا ان پر بے ادبی سے نظر نہ پڑ جائے۔ اس ایک روایت کے علاوہ اور اس خاص واقعہ کے علاوہ کہیں یہ نظر نہیں آتا کہ وحی کے نزول کے وقت رسول اللہﷺ کے چہرے کو لوگ ڈھانپ دیتے ہوں۔ ایک اور واقعے کا ذکر کیا جا سکتا ہے جس میں لیٹنے کا ذکر نہیں ہے لیکن چہرے کو ڈھانپنے کا ایک طریقہ نکل آتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ایک صحابی کہتے ہیں کہ مجھے اسلام لانے سے پہلے یہ معلوم ہوا تھا کہ پیغمبر اسلامﷺ پر وحی آتی ہے۔ پھر اللہ نے مجھے توفیق دی اور میں مسلمان ہوا تو میری تمنا تھی کہ وحی کے نزول کے وقت رسول اللہﷺ کو دیکھوں۔ میری اس تمنا سے کچھ اور لوگ بھی واقف تھے۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر، میری موجودگی میں، یکایک رسول اللہﷺ پر وحی نازل ہونے لگی۔ حضرت عمرؓ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تم رسول اللہﷺ کو نزول وحی کی حالت میں دیکھنا چاہتے تھے، اگر تمہاری یہ تمنا برقرار ہے تو آؤ میں تمہیں دکھاؤں۔ تو راوی یہ کہتے ہیں کہ اس وقت رسول اللہﷺ ایک پردے کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ پردے کی دوسری طرف ہم لوگ تھے۔ حضرت عمرؓ نے اس پردے کو ذرا کھینچ کر کہا اندر دیکھ لو۔ میں نے دیکھا رسول اللہﷺ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور سانس قدرے زور زور سے لے رہے ہیں۔ ان دو واقعات کے سوا، جن میں ایک مرتبہ چہرے پر پردہ ڈالنے کا ذکر ہے اور ایک مرتبہ رسول اللہﷺ کے پردے کے پیچھے بیٹھنے کا ذکر ہے، اور کسی روایت میں ایسی تفصیل نہیں ملتی جو کاہنوں کی حالت اور اس طرح کی چیزوں سے مشابہت رکھتی ہو۔

بہرحال وحی کیا چیز ہے؟ اس کی تشریح ہمارے لیے ناممکن ہے کیونکہ وحی ہم میں سے کسی پر نہیں آتی۔ وحی کے وقت رسول اللہﷺ کی حالت جیسی ہوئی تھی اسے ہم مختلف لوگوں کے مشاہدے کے حوالے سے بیان کر سکتے ہیں۔ کچھ مشاہدے تو وہ ہیں جو میں نے آپ سے بیان کیے۔ کچھ یہ ہیں کہ ایک صحابی نے جرات کر کے ایک مرتبہ براہ راست رسول اللہﷺ سے پوچھا یا رسول اللہﷺ! آپ پر جب وحی نازل ہوتی ہے تو اس وقت آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟ وہ جواب بھی دلچسپ ہے۔ اس جواب کا ذکر کر کے میں اس بحث کو ختم کروں گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بعض اوقات میرے کانوں میں گھنٹی بجتی ہے اور بہت سخت تکلیف کی حالت ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا میری جان نکل جائے گی۔ اس وقت میں کچھ آوازیں سنتا ہوں۔ وہ آوازیں میرے دماغ میں پتھر پر کندہ نقش کی طرح ثبت ہو جاتی ہیں۔ اس حالت کے ختم ہونے کے بعد وہ مجھے ایسے ہی یاد ہوتی ہیں گویا کہ مجھے زبانی یاد تھیں۔ تو لوگوں کے سامنے دہراتا ہوں۔ لیکن بعض اوقات کوئی شخص نظر آتا ہے، یا تو آدمی کی شکل میں اور اس وقت وہ آدمی کی طرح مجھ سے بولتا ہے۔ بعض اوقات وہ پرندے کی شکل میں ہوتا ہے یعنی ایک انسان جس کے پر بھی ہوں اور فضا میں اڑتا رہتا ہے یا کھڑا رہتا ہے اور وہ مجھے مخاطب کر کے کچھ چیزیں کہتا ہے اور میں انہیں سنتا ہوں، میں بھول نہیں سکتا، وہ میرے حافظہ میں نقش ہو جاتی ہیں اور پھر میں انہیں دہراتا ہوں۔ یہ رسول اللہﷺ کا بیان ہے۔ یہ الفاظ کافی اہم ہیں کہ اتنی شدید تکلیف ہوتی ہے گویا میری جان نکل جائے گی۔ یہ رسول اللہﷺ محسوس کرتے تھے۔ اس لیے کوئی حیرت کی بات نہیں کہ آپ کا وزن بھی اتنا زیادہ ہو جاتا تھا کہ کسی اونٹنی کو بھی اس کا تحمل ممکن نہیں ہوتا تھا۔ رسول اللہﷺ خود محسوس کرتے تھے کہ یہ غیر معمولی حالت ہے، یہ ہے وحی کی کیفیت اور اس سے زیادہ ہم کوئی اور چیز بیان نہیں کر سکتے۔ یہ خصوصی کیفیت جو اللہ کے نبیﷺ کو ہوتی ہے ہم اس کو عام انسانوں کی کیفیتوں اور ڈاکٹروں کے مرض کی تشخیص سے حل نہیں کر سکتے۔

اسلامی عقائد: آمَنْتُ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ  کے بعد وَالْیوْمِ الْآخِرِ ہے یعنی آخرت کا ذکر آتا ہے۔ عقائد کے نقطہ نظر سے آخرت پر ایمان تو ہمیں لانا ہی ہے لیکن نفسیاتی نقطہ نظر سے بھی ہی بات بڑی اہم ہے کہ ہر انسان سے اس کے اعمال کے متعلق حساب و کتاب لیا جائے گا اور اس کے نیک و بد اعمال کے مطابق جزا و سزا دی جائے گی۔ آخرت اور یوم حساب پر ایمان، جزا کی امید اور سزا کا خوف، یہ ایسے تصورات ہیں جو انسان کو اچھے کام کرنے کی ترغیب دیتے اور بری باتوں سے روکتے اور بچاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک چھوٹی سی چیز میرے ذہن میں آتی ہے۔ ہم سب اللہ کے بندے ہیں، وہ ہمارا آقا ہے اگر وہ ہمیں کچھ حکم دے تو مالک ہونے کی وجہ سے ہمیں ہر حکم دے سکتا ہے اور ہمارا فریضہ ہو گا کہ ہم اسے انجام دیں۔ اگر ایک ملازم، اس سے بھی بڑھ کر ایک غلام، اپنے آقا کے احکام کی تعمیل کرے تو اس کی جزاء پانے کا،کسی شاباشی کے حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتا، اس کے بر خلاف اگر کوئی غلام اپنے آقا کے حکم کی اطاعت نہیں کرتا تو سزا کا مستحق ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جنت کی اصولاً کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ صرف دوزخ کی ضرورت ہے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں، اللہ کی اطاعت نہ کریں تو اللہ ہمیں سزا دے سکتا ہے، اسے اس کا کامل حق ہے لیکن اگر ہم اس کے احکام کی تعمیل کریں تو ہمیں کوئی حق نہیں کہ اللہ ہمیں جنت انعام میں دے۔ اس کے باوجود یہ اللہ کی مہربانی اور رحمت ہے کہ ہمیں جنت بھی دینے کا وعدہ کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں تشویق بھی ہے اور تہدید و تنبیہ بھی ہے۔

اب میں جنت و دوزخ کے متعلق چند الفاظ آپ سے بیان کروں گا۔ ہندوؤں کا تصور اور بدھ مت والوں کا تصور اس کے بارے میں کچھ اور ہی ہے۔ یہ دلچسپ ضرور ہے لیکن ظاہر ہے کہ اسے مسلمان قبول نہیں کر سکتے۔ وہ کہتے ہیں کہ کائنات کا وجود ازل سے ابد تک صرف اتنا ہی ہے جتنا ایک بلبلے کا وجود، جو دریا میں موج کے تلاطم سے پانی کی سطح سے اچھلتا پڑتا ہے پھر آن کی آن میں دوبارہ گر کر دریا کے پانی میں غائب ہو جاتا ہے۔ انسان کی ہستی بھی اس کائنات میں محض اس بلبلے کی طرح ہے۔ اسی طرح ان کا تصور تناسخ یہ ہے کہ آدمی اچھا کام کرے تو اسے جزا ملے گی، میں ابھی بیان کروں گا کہ کیا ملے گی اور اگر برا کام کرے گا تو سزا ملے گی۔ ہندوؤں کے عقائد کے مطابق یہ ہے کہ وہ سزا اس برائی کی نوعیت کی ہو گی۔ اگر اس نے تھوڑی برائی کی ہے تو مرنے کے بعد غلام کے طور پر پیدا ہو گا۔ اگر اس نے اس سے بھی زیادہ برائی کی ہے تو وہ مرنے کے بعد کتا یا بلی بن جائے گا، اس کی برائی اگر اس سے بھی زیادہ ہے تو وہ درخت بن جائے گا، اس سے بھی بڑی برائی ہے تو وہ پتھر بن جائے گا۔ جمادات، نباتات، حیوانات یہ سب ارتقائی مدارج ہیں۔ اس لحاظ سے وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی کو پتھر بننے کی سزا دی گئی ہے تو اس پتھر کے ارتقاء کے ذریعے سے صدیوں کی مدت کے بعد درخت بننے کا موقع ملے گا۔ اگر درخت اپنی مدت حیات میں مفید کام کرتا رہے تو اس درخت کو صدیوں کے بعد جانور بننے کا موقع ملے گا۔ وہ جانور اگر اچھے کام کرتا ہے تو اسے ادنیٰ قسم کا انسان یعنی شودر بننے کا موقع ملے گا۔ اگر شودر کی حیثیت سے اچھے کام کرتا رہے اور اپنے فرائض انجام دیتا رہے تو مرنے کے بعد وہ ویش بنے گا۔ اس کے بعد کھتری بنے گا، اس کے بعد برہمن بنے گا۔ اگر برہمن کی حیثیت سے اپنی زندگی اچھی گزاری تو مرنے کے بعد دوبارہ خدا کی ذات میں ضم ہو جائے گا۔ جس طرح کہ وہ بلبلہ دوبارہ پانی میں گرا اور پانی بن گیا، تو برہمن دوبارہ خدا بن جائے گا۔ اگر برہمن نے زندگی برائی کے ساتھ گزاری تو اسے وہی سزا ملے گی اور دوبارہ اس کو جانور اور درخت اور پتھر وغیرہ بننا پڑے گا اس طرح ہزاروں لاکھوں سال گزر جائیں گے۔ یہ ان کا آواگون یا تناسخ کا تصور ہے۔ مسلمانوں کا تصور اس بارے میں جنت اور دوزخ کا ہے۔ خود قرآن میں اور حدیث میں صراحت سے بیان کیا گیا ہے کہ جنت میں جانوروں اور پرندوں کا گوشت کھانے کو ملے گا۔ وہاں شراب کی،شہد کی اور دودھ کی نہریں ہوں گی۔ تو اس کا مفہوم یہ لینا پڑے گا کہ ہمارے عرفان و شعور کے مطابق، ہمارے ذہن میں آسائش اور لذت کا جو تصور ہے اس تصور کے مطابق بتایا گیا ہے کہ جنت میں یہ نعمتیں ہوں گی، ورنہ قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ کہا گیا کہ وہاں وہ چیزیں ہیں جن کا تمہیں تصور بھی نہیں ہو سکتا۔ جب ہمیں ان کا تصور نہیں ہو سکتا، جیسے کہ حدیث کے صاف الفاظ میں جنت میں وہ چیزیں ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے کبھی دیکھا، نہ کسی کان نے کبھی سنا، نہ کسی کے دل و دماغ میں ان کا خیال تک کبھی گزرا، پھر اسے ہم کیسے سمجھائیں گے۔ انسانی زندگی میں انسان چاہتا ہے کہ اس کو خوبصورت بیوی ملے، اچھی غذائیں ملیں وغیرہ وغیرہ۔ تو قرآن مجید میں سمجھانے کے لیے ایسی ہی چیزوں کا ذکر آیا ہے جو انسان کو فطرتاً مرغوب ہیں۔ بہرحال حور و قصور کی حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن اگر یہ چیزیں نہ بھی ہوں تو کوئی تضاد نہیں کیونکہ قرآن خود کہتا ہے کہ تمہیں وہاں پر تمہاری خواہش کی ہر چیز ملے گی اور حدیث میں صراحت ہے کہ وہاں جو چیزیں ہیں ان کا تمہیں تصور بھی نہیں ہو سکتا، تو دونوں امکانات باقی رہتے ہیں۔

عقائد کے سلسلے میں آخری چیز، کہ برائی اور بھلائی دونوں اللہ کی طرف سے ہیں، بہت پیچیدہ ہے۔ اس میں ایک طرف تو پارسیوں کے مذہب کی تردید ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ نیکی کا خدا الگ ہے اور برائی کا خدا الگ ہے۔ اس نظریے میں منطقی اعتبار سے خامی ہے کہ اگر نیکی کسی وقت مغلوب ہو جائے تو دوسرے معنوں میں اس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ نیکی کا خدا مغلوب ہو گیا، اس کے باوجود ہم اسے خدا مانتے رہیں، اسے عقل قبول نہیں کرتی۔ اس کے برخلاف اسلام کہتا ہے کہ والقدر خیرہ و شرہ، من اللہ تعالیٰ یعنی خیر و شر دونوں اللہ کی طرف سے ہیں۔ تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سزا کیوں دی جاتی ہے؟ جبر و قدر کا یہ مسئلہ بڑا پیچیدہ ہے۔ اس پر دنیا کے ہر مذہب میں صدیوں سے بحث ہوتی آ رہی ہے اور اب تک اس کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔ اگر ہم ایک جواب دیں کہ انسان مجبور ہے اور وہی کرتا ہے جو خدا نے مقرر کر رکھا ہے تو اس پر کچھ اعتراض ہوتے ہیں۔ یہ ایک دوہری مشکل (Dilemma) ہے، یعنی دونوں صورتیں قابل اعتراض ہو جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے رسول کریمﷺ نے بڑی سختی سے تاکید کی ہے کہ اس بحث میں نہ پڑو، تم سے پہلے کی قومیں اس مسئلے پر بحث کرنے لگیں اور گمراہ ہو گئیں۔ ان حالات میں اصولاً مجھے مزید بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہونا چاہیے، لیکن میں تھوڑی سی توضیح کرتا ہوں جیسا کہ میں نے آپ سے کہا کہ اگر انسان کو مجبور قرار دیا جائے یعنی ایک مشین کی طرح وہی کام کرتا ہے جو خدا نے مقرر کر رکھا ہے، تو ہم یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم برائی کریں تو سزا کیوں دی جاتی ہے؟ یہ اعتراض اور یہ سوال ٹھیک ہے لیکن یہی بھلا مانس انسان یہ کیوں نہیں سوچتا کہ اگر میں بھلائی کرتا ہوں تو وہ بھی خود بخود بلا ارادہ ہو گی، پھر مجھے جنت کا کیا حق ہے؟ اس پر وہ چیزیں ہمارے ذہن میں نہیں آتیں بلکہ ہم خود طے کرتے ہیں کہ مجھے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے تو اس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ اللہ کو معلوم نہیں کہ انسان کیا کرنے والا ہے، حالانکہ وہ عالم الغیب ہے۔ ساری اگلی اور پچھلی چیزوں کو ان کے وجود میں آنے سے پہلے سے جانتا ہے۔ اگر ہم انسان کو قادر قرار دے دیں تو اس کے معنی یہ نکلتے ہیں کہ اللہ کو علم نہیں ہے کہ میں کیا کرنے والا ہوں اور اللہ ہمارے اس کام کو، جو ہم کرنے والے ہیں، خود پیدا نہیں کرتا بلکہ وہ ہم خود پیدا کرتے ہیں۔ یہ ہے وہ دوہری مشکل (Dilemma) جس کی بناء پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس بحث میں نہ پڑو۔ حقیقت میں یہ دونوں مختلف سطحوں کی، مختلف درجات کی اور دو مختلف مداروں میں گھومنے والی چیزیں ہیں۔ انسان کی ذمہ داری اور جواب دہی، زمینی تصور ہے۔ اللہ کی قدرت، اللہ کا مقرر کرنا، یہ آسمانی تصور ہے۔ ان دونوں میں کسی طرح کے تصادم کا کوئی امکان نہیں پایا جاتا۔ گویا میں اپنے ہر کام کا زمینی مفہوم میں ذمہ دار ہوں، اور ہر چیز آسمانی مفہوم میں خدا کی طرف سے پیدا ہوتی ہے، اس میں کوئی تضاد یا تصادم نہیں ہے، یہ اس تصور کا خلاصہ ہے۔

ایک آخری چیز میں اس بحث کو ختم کروں گا۔ ایک دن یکایک میرے ذہن میں انکشاف سا ہوا اور یہ عجیب و غریب انکشاف تھا۔ وہ یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو خلیفہ کیوں بنایا؟ ہم میں دوسری مخلوقات کے مقابلے میں کوئی خاص فوقیت نہیں، کیا یہ استبدادی فیصلہ ہے؟ یا انتخاب ہوا ہے؟ میری توجہ قرآن مجید کی اس آیت کی طرف مبذول ہوئی إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَینَ أَنْ یحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا  (72:33) (ہم نے ایک امانت پیش کی، آسمانوں اور آسمانوں پر رہنے والوں کے سامنے اور زمین اور زمین پر رہنے والوں کے سامنے۔ حتیٰ کہ پہاڑوں کے سامنے بھی، مگر کسی کو بھی یہ ہمت نہ ہوئی کہ اس امانت کو قبول کرے، سبھی ڈرے اور سبھوں نے انکار کر دیا،اگر قبول کیا تو انسان نے،جو ظالم بھی ہے اور جاہل بھی ہے)۔ میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ جب خلیفۃ اللہ کا عہدہ پیش کیا گیا تو ہر مخلوق نے چاہا ہو گا کہ وہ عہدہ مجھے مل جائے۔ سب نے پوچھا ہو گا کہ کس شرط پر یہ عہدہ مل سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ "تقدیر تو میں کروں گا اور ذمہ دار تم ہو گے” سب نے کہا ہو گا کہ "یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تقدیر تو کرے اور ذمہ دار ہم ہوں؟” سب ڈرے اور کسی نے قبول نہ کیا سوائے انسان کے، جو ایک ظالم اور جاہل مخلوق ہے۔ اس نے کہا "یا رب میں قبول کرتا ہوں”۔اس کا یہ بھولا پن اللہ تعالیٰ کو پسند آیا، کہا اچھا میں تجھے خلیفہ بنا دیتا ہوں۔ لیکن میں سوچتا ہوں کہ انسان اتنا جاہل نہیں تھا جتنا ہمیں نظر آیا ہے۔ انسان نے غالباً یہ سوچا کہ "خدا ظالم تو ہو نہیں سکتا، وہ مجھے اس چیز کی سزا نہیں دے گا جو میں نے نہیں کی۔ لاؤ عہدہ قبول کر ہی لیں، پھر دیکھا جائے گا۔ وہ غفور و رحیم ہے۔” تقدیر و تدبیر کے متعلق میرا تصور یہ ہے کہ جب انسان نے یہ قبول کیا کہ اللہ کرے اور ذمہ دار میں ہوں تو اب اس سے یہ پوچھنے کا حق نہیں کہ مجھے سزا کیوں دی جاتی ہے؟

یہ عقائد کے متعلق مختصر سی گفتگو تھی۔ اب میں مختصراً عبادات کے بارے میں کچھ بیان کروں گا۔ اسلام اپنی محدود معنی میں اطاعت کرنے اور اپنے آپ کو دوسرے کے سپرد کر دینے کا نام ہے۔ جب جبرئیل نے آنحضرتﷺ سے پوچھا کہ اسلام کیا چیز ہے؟ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ نماز پڑھنا، روزے رکھنا، زکوٰۃ دینا اور حج کرنا۔ نماز کا مقابلہ اگر ہم دوسری قوموں اور دوسری ملتوں کی عبادات سے کریں تو ہمیں اسلام کی بڑی فوقیت نظر آتی ہے۔ یہودیوں کی عبادت کا طریقہ ہے کہ وہ اپنے مذہبی معبد کو جاتے ہیں اور ان کا امام توریت کھول کر گھنٹے دو گھنٹے مسلسل تلاوت کرتا ہے اور سارے لوگ مرد اور عورتیں ادب کے ساتھ سنتے ہیں۔ پھر تلاوت ختم ہو جاتی ہے، سارے لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں اور کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں کی طرح رکوع و سجدہ، قیام و قعود وغیرہ نہیں ہوتا۔ پارسیوں کے ہاں آپ نے سنا ہو گا، آتش پرستی ہوتی ہے۔ اس کی بڑی دلچسپ کہانی ہے۔ میں اس تفصیل میں نہیں جاتا صرف اشارۃً آپ سے ذکر کرتا ہوں۔ اس کی تھوڑی سی توجیہ بعد میں کروں گا۔ ہندوؤں کے ہاں گائے کی پوجا ہوتی ہے۔ عیسائیوں کے ہاں ایک طرح سے صلیب کی پرستش ہوتی ہے۔ یہ کیا چیزیں ہیں؟ بظاہر یہودی اور پارسی اور عیسائی ہماری ہی طرح کے انسان ہیں، صاحب عقل و فہم بھی ہیں، اس کے باوجود کیا بات ہے کہ وہ ایسی جاہلانہ حرکات کرتے ہیں کہ آگ کی پوجا کرتے ہیں، لکڑی کی پوجا کرتے ہیں اور گائے (جانور) کی پرستش کرتے ہیں۔ ایک دن میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ کسی کی تعریف دو طرح سے ہو سکتی ہے، براہ راست بھی اور بالواسطہ بھی، مثلاً کسی مصور سے ہم کہیں کہ تم بڑے ماہر مصور ہو تو ظاہر ہے کہ وہ اس تعریف ے خوش ہو جائے گا۔ لیکن اگر مصور سے مخاطب ہوئے بغیر اس کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کر کے ہم کہیں کہ کیا نفیس تصویر ہے تو اس بالواسطہ حمد و ثنا سے بھی اس مصور کو اتنی ہی خوشی ہو گی جتنی براہِ راست تعریف سے ہو سکتی ہے۔ پرانے مذہبوں میں بالواسطہ حمد و ثناء کو اختیار کیا گیا۔ مثلاً جس زمانے میں پارسی مذہب وجود میں آیا، اس وقت انسان نے آگ کو اپنے قابو میں کر لیا تھا۔ آگ سے فائدہ اٹھانا اور اس کی ہلاکتوں سے بچنا، انسان نے سیکھ لیا تھا، تو اس وقت اس نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظاہر اور شواہد میں سب سے طاقتور چیز آگ ہے، کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا، جو بھی اس کے قریب جاتا ہے وہ جل کر ختم ہو جاتا ہے لہذا پارسی مذہب کے بانیوں نے کہا کہ ہم خدا کی تعریف کرنا چاہتے ہیں تو اس کے بہترین مظہر یعنی آگ کی پرستش کرنا چاہیے۔ ہندوستان میں جب آریہ آئے تو انہوں نے زرعی معیشت میں گائے کو سب سے زیادہ مفید اور منفعت بخش پایا، تو خدا کی اس سب سے بڑی نعمت کے گن گانے لگے، اور خدا کی نعمتوں کی سب سے بڑی علامت کے طور پر اس کا احترام کرنے لگے۔ اللہ ایک منعم ہے، لہذا اس کا شکر ادا کرنے کے لیے وہ اس کی سب سے اچھی نعمت کی تعریف کرتے ہیں اور اس کا ادب کرتے ہیں< یوں بالواسطہ اللہ کا ادب کرنا اور اللہ کی تعریف کرنا چاہتے ہیں۔ یہودیوں کے ہاں اپنی عبادت میں صرف توریت کی تلاوت کی جاتی ہے، جس کو وہ خدا کا کلام کہتے ہیں۔ خدا کے کلام کی تلاوت ان کے نزدیک عبادت ہے۔ کلام اللہ کی تلاوت کے معنی ہیں کہ ہم اللہ کے احکام سے واقفیت حاصل کریں، اس پر عمل کریں اور اس کے مطابق اس تک پہنچیں۔ اس میں ایک عمیق مفہوم ہے: اللہ موجود ہے لیکن وہ ہمیں نظر نہیں آتا، یہ نہیں کہ وہ نہ ہو، وہ ہے اور ہم ہی اندھے ہیں کہ اسے دیکھ نہیں سکتے، لیکن بن دیکھے بھی ہم اس سے محبت کرتے ہیں اور اس تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ اس کا راستہ بھی ہمیں نہیں معلوم۔ یہ راستہ بھی صرف خدا ہی جانتا ہے۔ ایک اندھے کی ظاہر ہے کہ صرف آواز ہی کے ذریعے سے رہنمائی کی جا سکتی ہے۔ اس لیے اندھے عاشق کو اس کا مہربان معشوق (اللہ سبحانہ و تعالیٰ) آواز کے ذریعے سے، کلام کے ذریعے سے اپنا راستہ بتاتا ہے (مثلاً آگے بڑھ، داہنے مڑ، بائیں مڑ، سیڑھیوں پر چڑھ، اتر وغیرہ وغیرہ) یہ ہے رمز جو توریت کی تلاوت میں مضمر ہے۔ عیسائیوں کے ہاں ایک طرح کی وحدانیت کا تصور بھی ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ان لوگوں کو اس پر اصرار بھی ہے۔ ان کے ہاں عبادت کے مراسم میں کئی چیزیں شامل ہیں۔ ایک طرف تو وہ یہودیوں کی توریت ہی کی طرح سے انجیل کے اقتباسات کو عبادت کے وقت تلاوت کرتے ہیں۔ دوسری طرف ایک چیز ہے جسے کمیونین کا نام دیا جاتا ہے۔ کمیونین، پروٹسٹنٹ لوگوں کے ہاں نہیں ہے، زیادہ تر کیتھولک اور آرتھوڈوکس فرقوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ نماز یعنی عبادت کی تکمیل ہونے کے بعد ان کا پادری انہیں روٹی کا ایک ٹکڑا دیتا ہے، جسے وہ کھاتے ہیں اور شراب کے چند گھونٹ دیتا ہے جسے وہ پیتے ہیں اور تصور یہ ہوتا ہے کہ ہم خدا کی ذات میں مدغم ہو گئے ہیں، کیوں؟ انجیل میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب رومیوں نے گرفتار کیا اور انہیں سولی پر چڑھایا جانے والا تھا تو آخری رات کو جب وہ اپنے حواریوں کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے تو انہوں نے یکایک ایک روٹی اٹھائی اور اپنے ساتھیوں کی طرف بڑھا کر کہا کہ اسے کھاؤ یہ میرا جسم ہے۔ پھر ایک گلاس اٹھایا اور کہا کہ اسے پیو یہ میرا خون ہے۔ انجیل کے اس بیان کردہ واقعہ کو عیسائیوں کے ہاں بہت اہمیت دی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم روٹی کھائیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم بن جاتے ہیں اور شراب پئیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خون بن جاتے ہیں۔ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا ہیں اس لیے روٹی کھانے اور شراب پینے سے ہم خدا کو اپنے اندر مدغم کر لیتے ہیں۔ یہ تصور بھی رمز کی حد تک قابل قبول ہے۔

اب ہم دیکھیں گے کہ اسلام میں عبادت کا کیا طریقہ ہے۔ نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھی جاتی ہے جس میں اللہ کی حمد و ثناء ہے یعنی گویا ہم براہ راست حمد و ثنا کرتے ہیں۔ لہذا ہمیں ضرورت نہیں کہ کسی رمز کے ذریعے اللہ کی حمد کریں۔ براہ راست اور بالواسطہ دونوں چیزیں حمد کا ذریعہ بن سکتی ہیں اور اسلام نے چاہا کہ اللہ جو ذات واجب الوجود ہے اس کی تعریف بھی براہ راست ہونی چاہیے۔ بہرحال اسلام نے بتایا کہ اللہ کی تعریف خود اللہ کے بتائے ہوئے الفاظ کے ذریعے سے کریں۔ یہودیوں کے ہاں توریت کے متعلق جو تصور ہے کہ اللہ کا کلام ہمارا رہنما ہے اس لیے چاہیے کہ ہم اس کی تعمیل کریں۔ اپنی نماز میں بھی ہم قرآن مجید یا کلام اللہ ہی پڑھتے ہیں۔ عیسائیوں کے ہاں کمیونین کا جو تصور ہے کہ ہم خدا کی ذات میں مدغم ہو گئے، وہ ایک مادی واسطے سے ہے۔ اسلام نے دیکھا کہ اللہ کی ذات مجرد ہے اس لیے اس سے تقرب بھی مجرد طور سے ہونا چاہیے۔ وہ طریقہ مسلمانوں کے ہاں تشہد ہے۔ نماز کے اختتام کے وقت قیام، رکوع، سجود، حمد و ثناء غرض کائنات میں سے ایک نوع کے طریقہ عبادت کے ذریعے سے اللہ کو اپنی اطاعت شعاری کا یقین دلا کر ہم اپنے آپ کو اس بات کے قابل تصور کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ کے حضور میں باریابی کا شرف حاصل ہو۔ جب کسی چھوٹے کو بڑے کے حضور میں باریابی کا موقع ملتا ہے تو چھوٹا سلام کرتا ہے اور بڑا مہربانی سے جواب دیتا ہے۔ التحیات کے معنی ہیں آداب عرض کرنا۔ یہ چیز معراج کے واقعے سے لی گئی ہے حضورﷺ نے التحیات للہ کہا۔ اس پر اللہ نے مہربانی سے جواب دیا "السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ”۔ رسول اللہﷺ نے اپنی امت کا بھی خیال فرمایا اور فوراً ہی کہا "السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین” اور ہم سب حقیر امتیوں کو بھی، ان برکات میں جو اللہ کی طرف سے نازل ہو رہی تھیں، شامل کر لیا۔ حاضری اور ملاقات کو سلام اور جواب سلام کے ذریعے سے ہم نے رمز کے طور پر اختیار کیا ہے۔ اللہ کی ذات میں مدغم ہو جانے کا تصور ہمارے نزدیک ناقابل قبول ہے۔ اس کی جگہ ہم اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ اس کے حضور میں حاضر ہو کر آداب بجا لاتے ہیں۔ وہ ہمارے سلام کو قبول کرتا ہے اور ہم پر رحمت و برکت نازل کرتا ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی عبادت ایک طرح سے سارے مذاہب عالم کے بلکہ ساری کائنات کے طریقہ ہائے عبادت کا خلاصہ ہے۔ کائنات میں تین طرح کی چیزیں پائی جاتی ہیں، جمادات، حیوانات اور نباتات۔ جمادات کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کبھی حرکت نہیں کرتے، بلکہ ساکت رہتے ہیں۔ نماز میں ہم پہلے بے حرکت کھڑے ہو جاتے ہیں، گویا جمادات کی عبادات کا طریقہ ہماری عبادت میں قیام کے ذریعے شامل ہو گیا۔ حیوانات ہمیشہ رکوع کی حالت میں رہتے ہیں اور یہ ان کی عبادت ہے۔ ہماری نماز میں رکوع کی حالت اسی کی مماثل ہے۔ درخت اپنی جڑوں کی طرف جھکے ہوئے سجدے کی حالت میں رہتے ہیں یعنی نباتات اپنی عبادت میں سجدے کی حالت میں رہتے ہیں۔ لہذا اسلامی عبادت میں نباتات کا طریق عبادت شامل ہے۔ صرف جمادات، حیوانات اور نباتات ہی کی نہیں، نماز میں کچھ خالص انسانی خصوصیات بھی ہیں جیسے التحیات۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی عبارت سارے دینوں بلکہ ساری کائنات کی عبادتوں کا مجموعہ ہے، اس لیے ان سب سے فائق ہے۔

اب میں روزے کے متعلق کچھ عرض کروں گا۔ حال ہی میں پیرس میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے جسے ایک یورپین غیر مسلم (غالباً کیتھولک) ڈاکٹر ژوفرائے (جوفرائے) نے لکھا ہے۔ اس کا عنوان "روزہ” ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے مجھے بعض عجیب و غریب باتیں معلوم ہوئیں۔ اس کا کہنا ہے کہ روزہ طبی نقطہ نگاہ سے بھی انسانوں کے لیے مفید ہے۔ وہ ایک دلچسپ انکشاف کرتا ہے کہ روزہ انسانوں میں ہی نہیں بلکہ کائنات کی اور چیزوں مثلاً درختوں اور حیوانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کا ہمارے موضوع سے کوئی براہ راست تعلق نہیں تاہم آپ کی دلچسپی کے لیے عرض کرتا ہوں۔ جہاں تک حیوانوں کا تعلق ہے ان کے متعلق اس نے ذکر کیا ہے کہ ایسے وحشی جانور جو بالکل فطری حالت میں رہتے ہیں۔ جس زمانے میں برف باری ہوتی ہے، انہیں کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ملتی اور بعض اوقات اس کا سلسلہ کئی کئی مہینوں تک جاری رہتا ہے۔ جن علاقوں میں برفباری شدید ہوتی ہے وہاں برف کی وجہ سے مہینوں تک زمین نظر نہیں آتی۔ اس صورت میں ایسے جانور جو اپنی غذا خود حاصل کرتے ہیں، انہیں کوئی چیز نہ کھانے کو ملتی ہے نہ پینے کو، اس کے باوجود وہ نہیں مرتے۔ اس نے لکھا ہے کہ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ جانور، پرندے، سانپ وغیرہ سب پہاڑوں کی غاروں میں چلے جاتے ہیں اور وہیں سو جاتے ہیں اس کو Hibernation کہتے ہیں۔ یعنی سردی کے زمانے کی نیند، اس کا سلسلہ ہفتوں بلکہ مہینوں تک جاری رہتا ہے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ نہ کھانے اور نہ پینے کی حالت، یعنی روزے کے باعث ان جانوروں میں نئے سرے سے جوانی آ جاتی ہے۔ جب سردیوں کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے اور بہار کا موسم آنے لگتا ہے تو ایسے پرندے، جو ان غاروں میں ہیں، ان کے پرانے پر جھڑ جاتے ہیں اور نئے پر نکل آتے ہیں۔ جن کی طراوت اور رنگوں کی خوشنمائی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نئے سرے سے جوان ہو گئے ہیں۔ اسی طرح وہ سانپ  کے متعلق لکھتا ہے کہ اس کی جھلی جھڑ جاتی ہے اور اس کو ایک نئی کھال یا نیا چمڑا ملتا ہے جو چمک دمک میں پہلے سے بہتر ہوتا ہے۔ اس زمانے میں ان جانوروں میں واقعی ایک جوانی سی آ جاتی ہے۔ اپنی تعداد بڑھانے کے لیے نر کو مادہ سے ملنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اس زمانے میں ان روزہ رکھے ہوئے جانوروں میں پہلے سے زیادہ قوت اور پہلے سے زیادہ جوانی آ جاتی ہے۔ اسی طرح درختوں کے متعلق وہ بیان کرتا ہے کہ سردیوں خصوصاً برفباری کے زمانے میں درختوں کے سارے پتے جھڑ جاتے ہیں انہیں کوئی پانی نہیں دیا جاتا۔ان کی کسی قسم کی آبپاشی نہیں کی ہوتی، گویا وہ روزہ رکھتے ہیں۔ روزے کی مدت ہفتوں اور مہینوں تک چلی جاتی ہے۔ یہ روزہ ختم ہونے پر درختوں کو ایک نئی جوانی حاصل ہوتی ہے۔ یعنی جو نئی کونپلیں ان میں پھوٹتی ہیں اور نئے پھول اور پھل لگتے ہیں، وہ ان درختوں کی نئی جوانی، نئے حسن اور نئی قوت پر دلالت کرتے ہیں۔ ان مشاہدات کی روشنی میں ڈاکٹر جوفرائے کا کہنا ہے کہ انسانوں کو بھی ہر سال روزے رکھنے چاہئیں، یہ ان کی صحت کے لیے بہتر ہو گا۔ یہ ان کو نئی توانائی اور نئی جوانی عطا کرے گے۔ اس نے بہت سی لمبی بحثیں کی ہیں کہ آج کل بہت سی بیماریاں ایسی ہیں جن کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا۔ ان کا علاج طویل یا مختصر فاقہ کشی، یعنی روزے کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ آخر میں اس کا نتیجہ نکالا ہے کہ انسانوں کو ہر سال سات ہفتے لازماً روزہ رکھنا چاہیے اور ہر ہفتے میں ایک دن روزہ چھوڑ دینا چاہیے۔ اس طرح اسے (6×7=42) بیالیس روزے رکھنے چاہئیں۔ اسے ہم ان کا چلہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کی رائے میں انسان کی صحت کو محفوظ رکھنے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔ یہ "طبی” مشورہ عیسائی دینی عقائد و احکام سے متاثر ہے۔

انجیل میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبوت ملنے سے قبل ایک صحرا میں معتکف ہوئے اور مسلسل چالیس دن روزہ رکھا تھا۔ ابتدائی عیسائی اس کی یاد میں خود بھی روزہ رکھنے لگے مگر عمل درآمد ہر جگہ یکساں نہ تھا۔ سن 439ء سے پہلے شہر روما کے عیسائی صرف تین ہفتے روزہ رکھتے تھے، تو اسکندریہ والے سات ہفتے جن میں سارے سنیچر اور اتوار مستثنیٰ ہوتے بجز ایک "مقدس سنیچر” کے۔ اس طرح چھتیس روزے ہر سال رکھے جاتے تھے، اور وہ خیال کرتے تھے کہ 36 کی تعداد سال کا دسواں حصہ ہے اور مال کی طرح، غذا کا بھی دسواں حصہ "زکوٰۃ” میں دینا چاہیے (لیکن عیسائیوں کے ہاں شمسی سال رائج ہے جس کے 365 یا 366 دن ہوتے ہیں، اس لیے "سال کا دسواں حصہ” ایک فرضی امر تھا) اور یوں بھی صبح سے تین بجے تک ہی روزہ رکھا جاتا تھا اور روزہ اکیس سال کی عمر پر واجب ہوتا  ہے۔ سنن ابن ماجہ میں ایک حدیث نبوی بیان ہوئی ہے کہ "ہر چیز پر زکوٰۃ ہے، اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے”۔ ایک اور حدیث یہ بیان کی ہے کہ جو کوئی رمضان کا پورا مہینہ روزے رکھے، پھر اس کے بعد کے مہینے شوال میں چھ دن روزے رکھے تو یہ پورا سال روزہ رکھنا متصور ہوتا ہے۔ یہ اصل میں ایک آیت کریمہ (16:6) پر مبنی ہے۔ "کوئی ایک نیکی کرتا ہے تو اسے دس گنا ثواب دیا جائے گا”۔ یہ بہت ٹھیک بیٹھتا ہے کہ ایک مہینے کے دس مہینے اور چھ دن کے ساٹھ دن یعنی دو مہینے (10+2=12 یا پورا سال)شمار ہوتا ہے ایک اور طریقہ حساب یہ ہے کہ رمضان کبھی انتیس کا ہوتا ہے اور کبھی تیس کا، اور ستہ شوال کے باعث کبھی 35 اور کبھی 36 دن روزے رکھے جاتے ہیں جن کا دس گنا کبھی 350 اور کبھی 360 دن ہوں گے جن کا اوسط 355 ہو گا اور قمری سال میں اتنے ہی دن ہوتے ہیں۔

ہندوؤں کے ہاں روزہ ہے لیکن زمانہ اور تعداد زیادہ معین نہیں اور لزوم بھی کم ہے۔ بانیان مذہب کی تاریخ پیدائش اور سورج گرہن اور چاند گرہن جیسے اثر انداز کرشمہ ہائے قدرت کے موقعوں پر دیندار لوگ روزہ رکھتے ہیں اور سہ پہر کے تقریباً تین بجے افطار کر لیتے ہیں۔ میکسیکو کے سرخ فام لوگوں کے دینی سرگروہ سالانہ (160) دن روزہ رکھتے ہیں، گویا ایک دن ایک آڑ۔ حدیث میں ہے کہ یہ حضرت داؤد علیہ السلام کی بھی عادت تھی۔ بعض ممالک میں قدیم زمانے میں موسم بہار میں روزہ رکھنا واجب کیا گیا تھا تاکہ غیر شادی شدہ لوگوں میں زناکاری کم ہو۔ ایک حدیث میں بھی ہے کہ کسی کے پاس بیوی نہ ہو تو با عفت رہنے کے لیے روزہ رکھا کرے۔

دوسری قوموں کا حج یا تو اپنے کسی بزرگ، کسی ولی، کسی بانی مذہب کی قبر کی زیارت کرنا ہے یا مظاہر قدرت اور عجائبات میں سے کسی بہت ہی عجیب چیز کی زیارت کرنا ہے، چنانچہ ہندو دریائے گنگا کے منبع کی زیارت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس میں بڑا ثواب ہے۔ دریائے گنگا اور جمنا کا سنگم، جو الہ آباد کے مقام پر ہے، اس کی زیارت میں بڑا ثواب سمجھتے ہیں۔ اسی طرح عیسائیوں کے ہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جو مبینہ قبر ہے، ہر چند کہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر جا چکے ہیں اور قبر خالی ہے، لیکن ان کے نزدیک اس قبر کی زیارت کرنا بہت ثواب کا کام ہے۔ عام عیسائی جو بیت المقدس نہیں جا سکتے ہیں، وہ سینٹ پیٹر کی قبر کی، جو ویٹیکن اٹلی میں ہے، زیارت کرنا ثواب سمجھتے ہیں اور مذہب کے نام تک سے نفرت کرنے والے کمیونسٹ جب انگلستان جاتے ہیں تو ان کے نہایت ہی محترم افراد مثلاً وزیر اعظم اور وزیر خارجہ بھی کارل مارکس کی قبر کی زیارت کو ضرور جاتے ہیں، جو انگلستان میں دفن ہے۔ گویا ان کے ہاں بھی حج پایا جاتا ہے لیکن یہ سارے حج یا تو مظاہر قدرت کے کسی مقام کی زیارت یا اپنے کسی مقدس آدمی کی قبر کی زیارت پر مشتمل ہیں۔ مسلمانوں کا حج ان سب سے مختلف ہے اور وہ ہے اللہ کے گھر کی زیارت۔ اس کے حضور میں، اس کے مکان میں حاضر ہو کر باریابی حاصل کرنا۔ کعبے کو علامتی طور پر بیت اللہ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک رمز ہے جس کی توجیہ ان نوجوانوں کے لیے شاید دلچسپی کا باعث ہو جنہوں نے کبھی اس پہلو پر غور نہیں کیا۔ اللہ کے اسماء حسنیٰ ننانوے ہیں۔ قرآن مجید میں ایسے نام بھی ہیں جو اللہ کی صفات کے مظہر ہیں مثلاً رازق، خالق وغیرہ وغیرہ، ان ناموں میں سے جو نام میری رائے میں انسان اور خدا کے تعلق کی سب سے بہت نمائندگی کرتا ہے وہ نام ہے "ملک” بادشاہ جب ایک نام کسی ایک غرض کے لیے منتخب کر لیا گیا تو انسانی سوسائٹی میں ان نام کے ساتھ جو لوازم ہیں ان کو بھی قبول کرنا ہو گا۔ بادشاہ سے کچھ چیزیں خاص طور پر منسوب ہیں مثلاً بادشاہ کا ایک تخت ہوتا ہے۔ قرآن میں اس کا ذکر آیا ہے خدا کا عرش ہے۔ عرش کے معنی تخت کے ہیں۔ بادشاہ کے پاس فوجیں ہوتی ہیں (وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) (4:48) (آسمانوں اور زمینوں کی فوجیں اللہ ہی کی ہیں) بادشاہ کے پاس خزانے ہوتے ہیں (وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) (7:63) (زمین و آسمان کے خزانے اللہ ہی کے ہیں۔ بادشاہ کے پاس ملک ہوتا ہے (وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) (189:3)۔ جب سلطنت کا رقبہ وسیع ہو تو بادشاہ پایہ تخت یا صدر مقام تجویز کرتا ہے۔ پایہ تخت کے لیے انگریزی زبان کے ایک لفظ سے آپ واقف ہوں گے (Metropolis)۔ یہ ایک یونانی لفظ ہے جس کے معنی ہیں "شہروں کی ماں” اس معنی میں قرآن (92:6) کا لفظ ہے "ام القریٰ” اور شہر مکہ "ام القریٰ”ہی کے نام سے مشہور ہے، گویا اللہ کی سلطنت کا وہ صدر مقام ہے۔ جب ایک میٹروپولس یا ام القریٰ ہو تو وہاں بادشاہ کا محل بھی ہو گا، چنانچہ بیت اللہ الحرام، اللہ کا مکان یا اللہ کا گھر وہاں پر موجود ہے گویا کعبہ جو بیت الحرام ہے (قرآن 97:5) یہ اس بادشاہ کا محل ہے، کسی ملک میں بادشاہ ہو تو یہ ہمیشہ رواج رہا ہے کہ رعایا کے نمائندہ پایہ تخت کو جا کر بادشاہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے اور اپنی اطاعت کا یقین دلاتے ہیں۔ حج کے سلسلے میں جب لوگ مکہ معظمہ جاتے اور کعبے کے سامنے حاضر ہوتے ہیں تو وہ حجر اسود پر اپنا ہاتھ رکھتے ہیں اور حجر اسود کو (اور اگر دور ہوں تو ہاتھ سے اشارہ کر کے اپنے ہاتھ کو) بوسہ دے کر طواف کا آغاز کرتے اور اسے جاری کرتے ہیں۔ اس کو ہمارے فقہاء دو ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ اسے استلام بھی کہتے ہیں اور بیعت بھی کہتے ہیں۔ بیعت کے معنی ہیں اپنے آپ کو بیچ دینا۔ اپنے آپ کو (اللہ کے ہاتھ) فروخت کر دینا اور کہہ دینا کہ اے اللہ! میں اپنی ذات کو تیرے سپرد کرتا ہوں۔ ہم اللہ سے ایک معاہدہ کرتے ہیں اور اس معاہدے کی تکمیل کرتے ہیں۔ معاہدے کرنے کا عام طور پر ایک طریق یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتا تھا، چنانچہ ہم اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ پر رکھتے ہیں۔ اس لفظ سے آپ گھبرائیے نہیں کہ اللہ کے ہاتھ پر ہم اپنا ہاتھ رکھتے ہیں۔ ایک متواتر حدیث ہے جسے پانچ صحابہ نے روایت کیا ہے۔ اس کے الفاظ ہیں الحجر الاسود یمین اللہ فی الارض (حجر اسود زمین پر اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ ہے) چنانچہ اللہ کے دائیں ہاتھ پر ہم معاہدہ کرتے اور بیعت کرتے ہیں۔ جب اپنی بیعت کے ذریعے سے اپنے بادشاہ کو ہم اطمینان دلا دیتے ہیں کہ ہم اس کے سچے اور مخلص مطیع ہیں تو سب سے بڑا اعزاز، وہ مالک جو ہم کو عطا کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے گھر کی پاسبانی کے لیے ہمیں اپنا سنتری بنائے۔ کعبے کے اطراف ہم طواف کرتے ہیں یعنی بادشاہ کے گھر کی حفاظت کرتے ہیں۔ ساری عمر یا روزانہ چوبیس گھنٹے پہرہ دینے کے بجائے سات مرتبہ طواف کرنا کافی قرار دیا گیا ہے۔ سات کا عدد رمزیہ یا علامتی (Symbolic) ہے۔ چنانچہ وقت جس کی ابتداء معلوم ہے نہ انتہا، اس لامحدود شے کو جب ہم نے شمار کی غرض سے محدود کرنا چاہا تو ہم نے سات ہی کا عدد استعمال کیا۔ ہفتے میں سات دن ہوں گے، وہی سات دن بار بار اپنے آپ کو دہراتے رہیں گے اور بہت سی چیزیں مثلاً سبع السمٰوات وغیرہ۔ سات کا ہندسہ بطور رمز غیر محدود کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لہذا اللہ کے گھر کی پاسبانی کے لیے اگر ہم سات مرتبہ اس کے اطراف چکر لگائیں تو یہ ابدی طور پر اپنے فریضے کی انجام دہی کے ہم معنی ہو جاتا ہے۔ قصر شاہی کی پاسبانی بڑا اعزاز ہے، اور انتہائی قابل اعتماد سپاہیوں کو عطا کیا جاتا ہے کیونکہ بادشاہ کی جان و مال گویا ان سنتریوں کے رحم و کرم پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ گفتگو حج کے ایک جز یعنی کعبے کی زیارت اور کعبے کے طواف کے متعلق تھی۔ لیکن حج میں کچھ اور چیزیں بھی ہیں۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا اور چکر لگانا، اسی طرح عرفات کو جانا اور پھر منیٰ کو جانا۔ چند الفاظ میں ان کے متعلق بھی عرض کروں کا کہ ان میں کیا رمز پایا جاتا ہے۔ صفا اور مروہ کے متعلق آپ کو معلوم ہو گا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ ہے۔ اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام اور اپنی بیوی حضرت ہاجرہ کو ایک بے آب و گیاہ صحرا میں تنہا چھوڑ کر چلے گئے اور جاتے وقت صرف ایک مشکیزہ پانی اور تھوڑی سی کھانے کی کوئی چیز دے گئے۔ دو ایک دن بعد جب پانی اور غذا کا ذخیرہ ختم ہو گیا تو دودھ پیتا بچہ، حضرت اسمعیل علیہ السلام، پیاس سے بے قرار ہو کر رونے چلانے لگا۔ حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں نکلتی ہیں۔ کسی طرف بھی پانی کے آثار نظر نہیں آتے۔ قریب ہی ایک چٹان تھی، سوچا کہ اگر چٹان پر چڑھوں تو شاید ذرا دور سے جائزہ لے سکوں۔ صفا کا پہاڑ ایک چھوٹی سی چٹان کی صورت میں اب بھی موجود ہے، اس پر چڑھتی ہیں، آس پاس نظر ڈالتی ہیں، کہیں پانی نظر نہیں آتا۔ پھر دیکھتی ہیں کہ آگے ایک اور چٹان ہے جسے مروہ کا پہاڑ کہا جاتا ہے، دوڑتی ہوئی وہاں جا کر اس کے اوپر چڑھتی ہیں۔ آس پاس دیکھتی ہیں تو وہاں بھی کچھ میسر نہیں۔ماں کی مامتا مایوس نہیں ہوتی۔ واپس آتی ہیں بچے کو دیکھتی ہیں پھر صفا پہاڑ پر چڑھتی ہیں پھر مروہ پر چڑھتی ہیں۔ کچھ نظر نہیں آتا۔ اس طرح سات مرتبہ چکر لگاتی ہیں وہی سات کا ہندسہ جو ابدیت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ساتویں مرتبہ جب بچے کے پاس آئیں تو دیکھا کہ بچے نے جہاں پیاس سے مجبور ہو کر اپنے ننھے سے پاؤں کی ایڑیاں زمین پر ماری تھیں، وہاں سے ایک چشمہ (زمزمہ) پھوٹ پڑا اور پانی نکل آیا۔ اس سے زیادہ تفصیل غیر ضروری ہے۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کو ارکان حج میں اس لیے شامل کیا گیا کہ یہ واقعہ ماں کی مامتا کی یادگار ہے اور ماں کی مامتا اس بے پناہ شفقت و محبت کی علامت ہے جو خالق کو اپنی مخلوق کے ساتھ ہے۔ اس کے بعد حاجی مکے سے عرفات کو جاتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں روایت کے مطابق جنت سے زمین پر آنے کے بعد مدت کے بچھڑے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی حضرت حوا کی دوبارہ ملاقات ہوئی تھی اور حضرت آدم علیہ السلام کا گناہ بھی اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے۔ نسل آدم کے لیے ان کے جد اعلیٰ کی یہ سب سے اہم یادگار ہے۔ ہم بھی انہیں کی طرح خدا سے مغفرت کی التجا کرتے ہیں۔ اس کے بعد منیٰ آتے ہیں۔ منیٰ کے متعلق روایت ہے کہ جب اللہ نے آزمائش کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے اس حکم کی تعمیل منیٰ میں کی تھی۔ لکھا ہے کہ وہ مکے سے اپنے بیٹے کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چلے اور اللہ کے حکم سے بڑھتے بڑھتے مکے سے آگے تقریباً تین میل کے فاصلے پر منیٰ پہنچے۔ شیطان نے جب اللہ کے ان بندوں کو رضائے الٰہی کی طلب میں سخت ترین آزمائشوں سے بھی بڑی خوشی سے گزرتے دیکھا تو انہیں بہکانے کے لیے انسان کی شکل میں نمودار ہوا۔ اولاً حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ کہا کہ تم نے خواب کی بات پر کیسے یقین کر لیا کہ اللہ تمہیں ایسا حکم دے رہا ہے۔ ممکن ہے خواب میں شیطان آیا ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی فراست نبوی سے فوراً پہچان جاتے ہیں کہ یہ شیطان ہے۔ چنانچہ مٹھی بھر سنگریزے زمین سے اٹھا کر اس کو پھینک مارتے ہیں۔ شیطان بھاگ کر غائب ہو جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک نئی شکل میں پھر آتا ہے اور اس بار حضرت ہاجرہ کے پاس پہنچتا ہے اور کہتا ہے مائی تیرا شوہر تیرے اکلوتے بیٹے کو قتل کرنا چاہتا ہے لیکن حضرت ہاجرہ بھی شیطان کو پہچان جاتی ہیں، وہ بھی پتھریاں اٹھا کر مارتی ہیں اور اسے وہاں سے بھاگنے پر مجبور کرتی ہیں۔ شیطان غائب ہو جاتا ہے۔ پھر اس ننھے بچے حضرت اسمعیل علیہ السلام کے پاس آ کر کہتا ہے کہ منے تیرا باپ تیری گردن پر چھری پھیرنا چاہتا ہے، اس سے بہت تکلیف ہوتی ہے، باپ سے کہہ دو میں یہ نہیں چاہتا۔ کم عمری کے باوجود حضرت اسمعیل علیہ السلام میں نبوت کی فراست تھی۔ انہوں نے بھی شیطان کو پتھریاں پھینک کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد کے واقف سے آپ واقف ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسمعیل علیہ السلام کو زمین پر منہ کے بل لٹاتے ہیں۔ اپنی آنکھوں پر ایک پٹی باندھتے ہیں اور پورے عز م و استقلال سے بیٹے کی گردن پر چھری چلا دیتے ہیں۔ پھر پٹی کھولتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیٹا تو کھڑا مسکرا رہا ہے اور اس کی جگہ ایک بھیڑ یا بکری تھی،جو ذبح ہو گئی تھی۔ اللہ کو تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا امتحان لینا مقصود تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ میں رضائے الٰہی پر ہر چیز قربان کر دوں گا۔ اللہ نے انہیں سخت ترین آزمائش میں ڈالا کہ بڑی منتوں اور مرادوں کے بعد تقریباً سو سال کی عمر میں جو پہلا بیٹا پیدا ہوا، اسی کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔ بندگی اور حق پرستی کا یہ کمال دیکھئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس آزمائش میں بھی پورے اترے۔ سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لیے ہم منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں اور قربانی کرتے ہیں۔ یہ بھی ارکان حج میں شامل ہے۔ جن تین مقامات پر شیطان پر کنکریاں پھینکی جاتی ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل میں جو شیطانی وسوسے آڑے آتے ہیں ان کا مقابلہ کریں۔

زکوٰۃ کے بارے میں آج کچھ زیادہ عرض کرنے کا موقع نہیں ہے۔ صرف اتنا کہوں گا کہ زکوٰۃ ارکان عبادات میں سے ایک ایسا رکن ہے جو مال کے ذریعے ادا کیا جاتا ہے۔ اسلام دین اور دنیا کا جامع ہے (فی الدنیا حسنۃ و فی الاخرۃ حسنۃ) کی تعلیم دیتا ہے۔ لہذا زکوٰۃ میں بھی مالی ایثار کے ذریعے سے اصلاح باطن کا پہلو اور معاشرے کی مادی فلاح و بہبود کا پہلو بھی موجود ہے۔ اس کا کسی اور دن مفصل ذکر کروں گا، ان شاء اللہ۔

اب آخر میں میں تصوف کے متعلق بھی مختصراً کچھ عرض کروں گا۔ جس حدیث شریف کا میں نے ابتداء میں ذکر کیا تھا۔ اس میں حضرت  جبرئیل نے رسول اللہﷺ سے اولاً ایمان کے متعلق سوال کیا، پھر اسلام کے متعلق اور پھر احسان کے متعلق۔ احسان کے لفظی معنی کسی چیز کو حسن عطا کرنا، خوبصورت بنا دینا ہے۔ زندگی کا کوئی کام ہو، اسے سنوارنا اور خوبصورت طریقے سے انجام دینا، یہی احسان ہے۔ جب ہم اس لفظ کو مذہبی اصطلاح کے طور پر استعمال کرتے ہیں تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ احکام الٰہی کو سچے دل سے قبول کرنا اور عبادت میں خلوص پیدا کرنا۔ ہمارے اسلاف نے اس اخلاص فی العمل کو "سلوک” اور "طریقت” کا نام دیا ہے۔ سلوک اور طریقت دونوں کے معنی ہیں راستہ چلنا اور اس سے مراد ہے اللہ کی طرف جانے کا راستہ۔ بعد میں اسی مفہوم کے لیے تصوف کا لفظ استعمال ہونے لگا۔ تصوف کی وجہ تسمیہ بیان کرنے میں بہت سی باتیں کہی گئی ہیں۔ یہاں اس بحث کا موقع نہیں ہے۔ البتہ رسول اکرمﷺ نے احسان کی جو تعریف بیان کی ہے اس کا ذکر ضروری ہے۔ جب رسول اکرمﷺ سے جبرئیل نے پوچھا کہ "احسان” کیا ہے؟ تو رسول اکرمﷺ نے ایک ایسا جواب دیا جو اپنے اختصار اور معنی کی گہرائی کے باعث ایک معجزہ بیانی ہے۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا "تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا کہ اللہ تمہارے سامنے موجود تمہاری حرکتوں کو دیکھ رہا ہے، اگرچہ تم اسے نہیں دیکھتے لیکن اللہ تمہیں دیکھتا ہے” بالفاظ دیگر حضور خداوندی کا تصور انسان اپنے اندر اس طرح لائے کہ اسے اللہ اپنے سامنے محسوس ہو گویا کہ اللہ اس کے ظاہر و باطن کو دیکھ رہا ہے۔ اگر ہم اپنے اندر حضور خداوندی کے تصور کو اتنا ترقی دے لیں کہ یہ تصور ہماری پوری شعوری زندگی پر حاوی ہو جائے تو ظاہر ہے کہ ہمارے لیے یہ قطعاً ناممکن ہو گا کہ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی اور اس سے انحراف کریں۔ آقا سامنے موجود اور نگرانی کر رہا ہے تو کون سا غلام یا نوکر آقا کے احکام کی خلاف ورزی کی جرات کرے گا۔ یہ ہے تصوف کا خلاصہ۔ باقی ساری چیزیں ذیلی ہیں ہم اپنی اصلاح نفس اور اپنی روحانی قوتوں کو ترقی دینے کے لیے مختلف تدبیریں اختیار کر سکتے ہیں۔ مثلاً نفلی روزے رکھنا، تسبیح پڑھنا، نفل نمازیں پڑھنا وغیرہ وغیرہ۔ ان کا ذکر حدیثوں میں بھی آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے سب لوگوں کو ایک ہی طریقہ نہیں سکھایا یعنی نوافل کے سلسلے میں کسی کو کچھ اور کسی کو کچھ بتایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہر شخص کی صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں یہ عرض کر دوں کہ سعودی عرب کے علماء تسبیح پڑھنے کو بدعت قرار دیتے ہیں کیونکہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں یہ چیز نہیں تھی۔ ایک حبشی طالب علم، جس نے فرانس میں تعلیم پائی تھی اور آج کل جدہ یونیورسٹی میں ملازم ہے، اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تسبیح پڑھنا جائز ہے؟ میں سے اس بارے میں کبھی تحقیق نہیں کی تھی لیکن رسول اللہﷺ کے زمانے کا ایک واقعہ یاد آیا۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے ایک دعا مجھے دو ہزار مرتبہ روزانہ سونے سے پہلے پڑھنے کی تاکید فرمائی تھی۔ دو ہزار ایک ایسا ہندسہ ہے جس کا انگلیوں پر شمار کرنا مشکل ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ ذہین آدمی تھے، انہوں نے ایک ڈوری لی اور اس میں دو ہزار گرہیں ڈال لیں۔ اس کے ذریعے وہ تسبیح پڑھا کرتے تھے۔ اب چاہے تو اس تسبیح میں گرہیں ہوں یا اس کے اندر منکے ہوں یا کوئی اور چیز ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ واقعہ میں نے اس حبشی طالب علم کو لکھ کر بھیجا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ مطمئن ہو گیا۔ اس کے بعد مجھے ایک اور حدیث ملی جو صحیح بخاری میں ہے۔ وہ یہ کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ ایک عورت کے پاس سے گزرے جس نے اپنے سامنے کنکریوں کا ایک ڈھیر رکھ لیا تھا۔ وہ درود پڑھا کرتی تھی، ایک کنکری اٹھاتی اور درود پڑھ کر ادھر ڈال دیتی۔ اس کے بعد دوسری کنکری اٹھاتی۔ کنکریوں کا ڈھیر گویا اس کی تسبیح تھی۔ یہ ایک غیر ترقی یافتہ (Primitive) طریقہ ہے۔ لیکن مقصود یہی ہے کہ ہم اپنے انجام شدہ کام کی صحیح مقدار بھول نہ جائیں اور اس ذریعہ سے معلوم ہوتا رہے کہ کتنا کام ہو چکا ہے اور کتنا کام باقی ہے۔ رسول اللہﷺ صحابہ کو جن چیزوں کی تاکید کرتے تھے ان میں نفل روزے بھی تھے اور نمازیں بھی، درود اور وظائف بھی اور مختلف موقعوں پر پڑھنے کی مختلف دعائیں بھی۔ ہر صحابی اپنی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق مختلف طریقے اختیار کرتا تھا۔ رسول اللہﷺ کے زمانے میں سلوک اور تصوف کی حقیقت بس یہی تھی۔ بعد کے زمانے میں تصوف میں دوسرے تصورات بھی شامل ہونے لگے۔ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے مسائل پر بحثیں ہونے لگیں۔ ان چیزوں کو نبوی تصوف سے کوئی تعلق اس بناء پر نہیں ہے کہ یہ بحثیں رسول اللہﷺ کی زندگی میں نہیں پائی جاتیں۔ بلکہ بعد کے لوگوں کی پیدا کردہ ہیں۔ اسلامی تصوف وہی ہے جس کی تفسیر رسول اللہﷺ نے اس معجزانہ جملے کے ذریعے فرمائی کا اللہ کی عبادت یعنی اللہ کے احکام کی تعمیل اس طرح کرو گویا اللہ حاضر و ناظر ہے، ہمارے اعمال اور ہمارے خیالات ہر چیز کو دیکھ رہا ہے، اگرچہ ہم اسے نہیں دیکھ سکتے۔ خدا حافظ!

 

سوالات و جوابات

 

برادران کرام! خواہران محترم! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

متعدد سوالات جو آپ کی طرف سے آئے ہیں ان کے جوابات دینے کی کوشش کرتا ہوں۔

 

سوال1:

اسلامی عقائد کے مطابق قسمت، تقدیر، مقدر کے معنی واضح کریں مثلاً ایک آدمی پانی میں ڈوب کر مرتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس کی موت ایسے ہی لکھی گئی تھی۔ دوسری مثال یہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کر دیتا ہے، مقتول کی قسمت ایسی لکھی گئی تھی۔ کیا قاتل کے مقدر میں نہیں ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو قتل کرے گا؟ اگر قسمت ایسی تھی تو روز آخرت اس کی سزا کیوں ہے؟ فرمان خداوندی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر درخت کا پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ وضاحت کریں۔ آپ نے فرمایا کہ برائی اور بھلائی Automatic ہیں لیکن ایک بات مد نظر رکھیں گے بھلائی کے لیے انسان کو قربانی دینا پڑتی ہے، تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے۔ برائی میں انسان کو لذت نصیب ہوتی ہے۔ دنیاوی تکلیف کا صلہ ضرور ملنا چاہیے اور دنیاوی ناجائز عیش و عشرت کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

 

جواب:

معلوم نہیں میرے دوست نے میری پوری تقریر سنی ہے یا نہیں؟ کیونکہ تقدیر کے متعلق میں کافی تفصیل سے اپنے خیالات واضح کر چکا ہوں اور یہ بھی عرض کر چکا ہوں کہ یہ ایک طرح کا مخمصہ (Dilemma) ہے۔ ہم اس مسئلے کا نہ ایک پہلو لے سکتے ہیں، نہ دوسرا پہلو جو پہلو بھی اختیار کریں گے، اس پر اعتراضات ہوں گے اس کا کوئی حل نہیں ملتا۔ اس لیے حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ خدا کے سامنے ہم ذمہ دار ہیں، یہ بھی صحیح ہے۔ خدا ہر چیز پر قادر ہے، بشمول ہمارے لیے ہمارے اعمال کو مقرر کرنے کے، وہ بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔ یہ دونوں کس طرح ہیں، مجھے دوبارہ دہرانے کی ضرورت نہیں لیکن ایک بات کو میں دہرائے دیتا ہوں۔ ہم لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ میں برائی کروں تو مجھے سزا کیوں دی جاتی ہے جبکہ خدا اس کو مقرر کرتا ہے۔ میں نے کہا تھا کہ بھلائی کا بھی یہی حال ہے، بھلائی بھی ہمارے مقدر میں ہے۔ اگر میں اس کو کرتا ہوں تو مجھے اس کی جزا پانے اور جنت میں جانے کا حق کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے اسی سیاق و سباق Context میں ذکر کیا تھا۔

 

سوال2:

ڈارون کا نظریہ ارتقاء اگر سائنسی نقطہ نظر سے صحیح ہے تو اسلام اور سائنس میں تضاد ہے۔ آپ اس تضاد کو حل کرنے کے بارے میں ارشاد فرمائیں۔

 

جواب:

آپ نے یہ پہلے ہی فرض کر لیا ہے کہ ڈارون کو نظریے کو اسلام نے رد کر دیا ہے اس کو ثابت کرنا آپ پر واجب ہے۔ بعد میں دیکھیں گے کہ یہ چیز اسلام کے موافق ہے یا مخالف۔ میں عرض کروں گا کہ ڈارون کا نظریہ ہمارے ہاں بعض اوقات اس لیے پیچیدگی پیدا کرتا ہے کہ ہم فرض کرتے ہیں کہ ڈارون ایک ملحد تھا، خدا کو نہیں مانتا تھا، حالانکہ ڈارون کی سوانح عمری پڑھیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ خدا کا قائل تھا۔ جب اس نے اپنے آبائی فن علم طب کی تعلیم مکمل کر لی، ڈاکٹر بن گیا تو یکایک کایا پلٹ گئی۔ دنیا سے وہ نفور ہو گیا اور خدا کی طرف مائل ہوا۔ چنانچہ کیمبرج یونیورسٹی میں اس نے عیسائی مذہب کی تعلیم حاصل کی جہاں طلباء کو تقابل ادیان (comparative religion) کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ یہاں ڈارون نے اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے عربی زبان بھی پڑھی تھی۔ اس کے خطوط کا جو مجموعہ شائع ہوا اس میں کئی خط اس نے اپنے عربی کے استاد کے نام لکھے ہیں اور بےحد ادب و احترام سے اس کا نام لیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس زمانے میں کیمبرج یونیورسٹی میں عربی نصاب کی جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ان میں یا تو "اخوان الصفا” کے اقتباسات ہوں گے یا ابن مسکویہ کی "الفوز الاصغر” کے انتخابات۔ ان دونوں کتابوں میں ارتقاء کا نظریہ بیان کیا گیا ہے اور آپ کو معلوم کر کے حیرت ہو گی کہ ان مسلمان مؤلفوں کی زندگی میں کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور کبھی انہیں کافر قرار نہیں دیا گیا۔ اخوان الصفا اور ابن مسکویہ کی الفوز  الاصغر، تیسری چوتھی صدی ہجری کی کتابیں ہیں۔ ان میں لکھا ہے کہ خدا پہلے مادہ کو پیدا کرتا ہے اور اس مادہ کو ترقی کی قوت عطا کرتا ہے۔ لہذا مادہ اولاً غبار یا دھوئیں کی صورت اختیار کرتا ہے پھر ترقی کرتے ہوئے پانی کی صورت اختیار کرتا ہے، پھر ترقی کرتے ہوئے جمادات کی صورت اختیار کرتا ہے۔جمادات ترقی کرتے ہوئے مختلف قسم کے پتھر بنتے ہیں اور بالآخر وہ مرجان کی صورت اختیار کرتے ہیں جو ہوتے تو پتھر ہیں لیکن ان میں درخت کی سی شاخیں ہوتی ہیں۔ پھر جمادات کے بعد نباتات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ درخت ترقی کرتے جاتے ہیں اور سب سے آخری مرحلے میں ایسا درخت ملتا ہے جو جانور کی خصوصیات سے بہت قریب ہوتا ہے۔ یہ ہے کھجور کا درخت۔ اور درختوں کے مقابلے میں کھجور کے درخت میں نر اور مادہ الگ الگ ہوتے ہیں اور درختوں کے بالمقابل جن کی ساری شاخیں بھی اگر ہم کاٹ دیں تو درخت مرتا نہیں، کھجور کا سر کاٹ دیں تو درخت مر جاتا ہے۔ اس لیے کھجور کے درخت کو اعلیٰ ترین پودے اور ادنیٰ ترین حیوان سے مشابہت ہے۔ پھر اس کے بعد ادنیٰ ترین قسم کا حیوان پیدا ہوتا ہے وہ ترقی کرتے کرتے کیا بنتا ہے۔ ابن مسکویہ بیان کرتا ہے اور "اخوان الصفا” میں بھی وہی بیان کیا گیا ہے کہ وہ بندر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ ڈارون کا بیان نہیں یہ مسلمان حکماء کا بیان ہے۔ پھر اس کے بعد ترقی کرتا ہے تو ادنیٰ قسم کا انسان بنتا ہے۔ وحشی انسان، وہ ترقی کرتے کرتے اعلیٰ ترین انسان بنتا ہے۔ یہ بشر ولی اور پیغمبر ہوتا ہے، پھر اس سے بھی ترقی کر کے فرشتہ بنتا ہے۔ پھر فرشتوں کے بعد ذات باری تعالیٰ خدا کی ذات ہوتی ہے۔ ہر چیز خدا سے شروع ہو کر پھر خدا ہی کی طرف جاتی ہے۔ و الیہ المرجع و الماب یہ ہے ہمارے حکماء کا بیان۔ جب یہ چیزیں مسلمان حکماء نے بیان کیں اور ان پر مسلمان فقہاء نے ان کی زندگی میں کبھی کفر کا فتویٰ نہیں دیا تو اس کو اسلام کے خلاف قرار دینا ایک غور طلب بات ہے۔ میں آگے چلتا ہوں قرآن مجید میں آدم علیہ السلام کی پیدائش کے متعلق یہ ضرور بیان کیا گیا ہے کہ اللہ نے انہیں مٹی سے۔۔۔سا نس لی اور ۔۔۔ہیں                                                                                                 پیدا کیا۔ ہمارا تصور یہ ہے کہ اللہ ایک کمہار کی طرح مٹی کو لیتا ہے اور اس کی مورت بناتا ہے اس کے اندر روح پھونکتا ہے اور حضرت آدم علیہ السلام بن جاتے ہیں۔ ممکن ہے ایسا ہوا ہو میں انکار نہیں کر سکتا لیکن آپ ان آیتوں (37:18، 5:22، 11:35، 67:40) کو کیا کریں گے جن میں بار بار یہ کہا گیا ہے کہ اللہ نے انسان کو”مٹی سے اور پھر نطفے سے پیدا کیا”۔ ظاہر ہے کہ مٹی سے کبھی نطفہ پیدا نہیں ہوتا۔ حیوان اور انسان سے نطفہ نکلتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اللہ نے سارے درمیانی مدارج کی تفصیل کو وہاں حذف کر دیا اور کہا کہ مٹی تمہاری اصل ہے اور تمہاری پیدائش کا آخر وسیلہ تمہارے باپ کا نطفہ ہے جو تمہاری ماں کے رحم میں رہتا ہے اور اس طرح تم پیدا ہو جاتے ہو۔ ایک آیت (14:71) کو لیجیے۔ قَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا (خدا نے انسان کو طور بہ بطور پیدا کیا) "طور” وہی لفظ ہے جس سے تطور (Evolution) کا لفظ بنایا گیا ہے۔ خدا نے انسان کو طور بہ طور پیدا کیا، اس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ خدا نے انسان کو اولاً جمادات کی شکل میں بنایا، پھر وہ جمادات ترقی کرتے ہوئے نباتات بنتے ہیں، پھر حیوان بنتے ہیں۔ غرض اس میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا، شاید آپ کی واقفیت کے لیے ایک چیز عرض کروں کہ آپ کی یونیورسٹی لائبریری میں ایک چھوٹا سا مضمون عربی زبان میں آپ کو ملے گا جس کا عنوان ہے "خلق الکائنات و تطور الانواع حسب آراء المفکرین المسلمین” اسے آپ دیکھ سکتے ہیں جس میں آپ کو یہ ساری تفصیلیں ملیں گی۔ اس میں بہ کثرت مسلمان عالموں اور صوفیوں کے بیانات کو یکجا کر دیا گیا ہے۔

 

سوال 3:

کیا اسلام میں روحانیت و مادیت برابر ہیں یا روحانیت زیادہ اور مادیت کم؟ پھر کیا روح کو دلائل سے ثابت کیا جا سکتا ہے؟

 

جواب:

مجھے اس بارے میں ماہر اور متخصص ہونے کا کوئی دعویٰ نہیں۔ لیکن میں کہوں گا کہ انسان جب روح اور جسم دونوں سے بنایا گیا ہے تو ان دونوں پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جسم کے لیے ہم کھاتے ہیں، پیتے ہیں، سوتے ہیں، آرام کرتے ہیں، غرض مختلف کام سر انجام دیتے ہیں۔ ایک ہماری روح بھی ہے اس کے لیے بھی ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے تاکہ اس کی زندگی برقرار رہے۔ وہ اسی طرح زندہ رہے جس طرح ہمارا جسم زندہ رہتا ہے۔ لہذا قرآن کریم نے اور رسول اللہﷺ نے جب ہمیں حکم دیا کہ نماز پڑھو، روزہ رکھو، زکوٰۃ دو، حج کرو تو اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں ہی چیزوں کا ذکر کیا گیا، مادے کا بھی اور روح کا بھی۔ ان میں کیا تناسب ہو گا، میں نہیں جانتا، لیکن میں عرض کروں گا کہ جس طرح چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازیں یعنی چوبیس منٹ اپنی روح کے لئے خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور باقی سارا وقت ہمیں دیا گیا ہے جس طرح چاہو، صرف کرو۔ چاہے محض مادیت کے لیے صرف کرو یا مادیت اور روحانیت دونوں کے لیے، یہ انفرادی چیز ہو گی اور اس کے لیے کوئی حکم یا تعین شریعت کی طرف سے نہیں۔ شریعت کا حکم صرف یہ ہے کہ اپنی روحانی زندگی کے لیے روزانہ مثلاً پانچ وقت نمازیں پڑھو اور بعد میں سارا باقی وقت میری مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ میں ہی انتخاب کروں گا کہ مجھے روحانیت پر توجہ کرنی چاہیے یا نہیں کرنی چاہیے۔

 

سوال 4:

عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ نفسیات مذہب کی بیخ کنی کرتی ہے، کیا یہ صحیح ہے؟

 

جواب:

میں نہیں جانتا کہ آپ ان دونوں میں تضاد کیوں پاتے ہیں۔ نفسیات کے معنی صرف یہ ہیں کہ انسان خاص کر دوسرا انسان جو کام کرے گا اس کا اندازہ ہم پیش بینی سے کر لیتے ہیں اور اس کے مطابق اس سے نپٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ چیز مجھے اسلام کے خلاف نظر آتی اگر آپ اس کی توضیح کر سکتے کہ کس نقطہ نظر سے آپ اسے اسلام کی بیخ کنی کرنے والا علم کہتے ہیں تو شاید میں کوئی جواب دے سکتا۔

 

سوال5:

آپ نے فرمایا کہ جب رسول اللہﷺ پر وحی آتی تھی تو آپ کا وزن بڑھ جاتا تھا۔ ایسا تو اکثر ہوتا ہے کہ جب انسان کسی مسئلے پر سوچ رہا ہو تو آس پاس کا علم نہیں ہوتا۔ مگر وزن بڑھنے کی کیا وجہ ہے؟ براہ کرم اس کا جواب ضرور دیں۔

 

جواب:

میں آپ سے عرض کر چکا ہوں کہ وحی کی ماہیت معلوم کرنے کے لیے جن قابل ترین مغربی لوگوں نے کوشش کی انہیں سوائے اس کے کوئی جواب نظر نہیں آیا کہ وحی ایک بیماری ہے لیکن جب بیماری سے اس کو مشابہ قرار دیتے ہیں تو اس کی علامتیں وحی کی صورت میں نظر نہیں آتیں۔ میں نے بتایا تھا کہ حضورﷺ کا وزن بڑھ جاتا تھا، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا تجربہ صحابہ کو ہوا تھا۔ ایسا کیوں ہوتا تھا؟ یہ ہمارے لیے بیان کرنا ناممکن ہے، اس لیے یہ چیز صرف نبی کو پیش آتی ہے۔ ہم آپ کو پیش نہیں آئی۔ اس کی کوئی توجیہ نہیں کر سکتا سوائے اس کے کہ ایک واقعے کا اظہار کروں کہ جب وحی آتی تو رسول اللہﷺ کے جسم مبارک میں اتنا وزن ہو جاتا تھا کہ اونٹنی بھی آپ کا وزن برداشت نہیں کر سکتی تھی۔

 

سوال6:

آپ نے فرمایا کہ ہندوؤں کے ہاں جنت و دوزخ کا تصور نہیں ملتا تو ان کے ہاں سرگ اور نرک سے کیا مراد ہے؟ کہا جاتا ہے کہ ہندوؤں کے ہاں تصور یہ ہے کہ عالم ارواح قدیم ہے اور نئی روح پیدا نہیں ہوتی بلکہ وہی ارواح تناسخ یا جونی چکر یا آواگون کے نام سے دوسرے اجسام میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اس لیے اس عمل کو Transmigration of Soul بھی کہتے ہیں۔ براہ کرم اس کی صحیح حقیقت اور روح کے اسلامی تصور پر روشنی ڈالیے۔

 

جواب:

میں اس کے متعلق صرف اس کے سوا کیا عرض کروں کہ روح کے متعلق جب رسول اللہﷺ سے سوال کیا گیا تو رسول اللہﷺ جواب نہ دے سکے۔ انتظار کرنے پر وحی آئی (وَیسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلرُّوحِ ۖ قُلِ ٱلرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّى) (آپ سے پوچھا جاتا ہے کہ روح کیا ہے؟ کہہ دیجیے کہ وہ اللہ کے حکم سے ہے) اس سے زیادہ تفصیل وہاں نہیں ملتی اور اس کے سوا میں کوئی چیز بیان کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ باقی ہندوؤں کے ہاں سرگ اور نرک وغیرہ کے تصورات کی طرف آپ نے جو اشارہ کیا ہے ان کی نوعیت اور تفصیل سے میں ناواقف ہوں۔ میں نے کہا  کہ ہندوؤں کے مذہب میں بہت سی چیزیں ملتی ہیں۔ توحید کے تصورات بھی ملتے ہیں، توحید کے خلاف چیزیں بھی ملتی ہیں، چنانچہ سرگ اور نرک کا تصور ایک مخصوص مفہوم رکھتا ہے۔ اس سے مراد مسلمانوں کے ہاں کی ایسی جنت جس میں حوریں بھی ہوں، جس میں کھانے کو پرندوں کا گوشت بھی ملتا ہو، جہاں شراب اور شہد اور دودھ کی نہریں بہتی ہوں، اس طرح کی چیزیں ان کے ہاں نہیں ملتیں۔ یہی حال سزا کے متعلق ان کے تصورات میں ہے جن کو وہ "نرک اًار آتی ہے اور پیغمبر کی بھی ج ۔۔۔۔ ” کے نام سے ادا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی کیفیت نہ مسلمانوں کو معلوم ہے، نہ عیسائیوں، نہ کبھی تم نے سنا نہ کبھی میں نے ایسی کوئی چیز دیکھی ہے، نہ ان کا تصور تمہارے ذہن میں آ سکتا ہے۔ اس کے سوا کوئی چیز عرض کرنے کا اپنے آپ کو اہل نہیں پاتا۔

 

سوال7:

درج ذیل آیت قرآنی میں مسجدوں کے ساتھ یہود و نصاریٰ کی عبادت گاہوں یعنی گرجا گھروں، کلیساؤں اور خانقاہوں کا ذکر بھی ہے، جن میں کثرت سے اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ کو غیر مسلموں کی عبادت بھی اسی طرح پسند ہے جس طرح مسلمانوں کی؟

ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یذْكَرُ فِیهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِیرًا (40:22)

 

جواب:

یہاں گرائمر کے لحاظ سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ” یذْكَرُ فِیهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِیرًا ” (وہاں اللہ کا بہت نام لیا جاتا ہے) اس کا تعلق آخری لفظ سے ہے یا سارے بیان کردہ مقامات سے ہے۔ یہ ایک سوال ہے جس کو میں حل نہیں کر سکوں گا۔ باقی اصل سوال کا جواب میں یہ دوں گا کہ جس زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں آئے تھے۔ اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قانون انسانیت کے لیے رائج تھا اور انسانوں کے لیے لازمی تھا کہ یہودیوں کی یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے مطابق عمل کریں، اور یہی صحیح عبادت تھی۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آ گئے تو ضروری تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے مطابق لوگ عمل کریں، مثلاً گر جاؤں میں عبادت کریں۔ جب محمدﷺ بھی آ گئے تو اب نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت واجب العمل رہی، نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت بلکہ حضرت محمدﷺ کی شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت ہوئی۔ جنہوں نے مسجدوں میں نمازیں پڑھنے کا حکم دیا۔ ان میں آپس میں کوئی تضاد نہیں اور اللہ حکم دیتا ہے کہ نئے نبیﷺ کے آنے کے بعد سارے لوگ اسے قبول کر لیں لیکن یہ ضرور ہے کہ کچھ قبول کریں گے، کچھ قبول نہیں کریں گے۔ ان میں جنگیں بھی ہوں گی اور خدا کہتا ہے کہ ان جنگوں کے ذریعے سے اگر خدا ایسا نہ کرتا یعنی ایک آدمی دوسرے سے لڑ کر اپنی اپنی مدافعت کرتا، یا دوسرے کو شکست دے دیتا، ایسا نہ کرتا تو یہ عبادت گاہیں تباہ ہو جاتیں۔ بہت سیدھی سادی بات ہے کہ فرض کیجیے مسلمانوں پر یہودی حملہ کریں اور مسلمان مدافعت نہ کریں تو ظاہر ہے وہ مسلمانوں کی مسجدوں کو تباہ کر دیں گے۔ اسی طرح فرض کیجیے کہ کسی وجہ سے انتقامی یا دفاعی جنگ کے باعث مسلمان یہودیوں سے جنگ کرتے ہیں۔ اگر یہودی اپنا مقابلہ نہ کر سکیں تو ظاہر ہے کہ مسلمان اور چیزوں کے ساتھ شاید ان کی عبادت گاہوں کو بھی ختم کر دیں گے۔ خدا ہی ایک ملت کو دوسری ملت سے جنگی مقابلہ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس ذریعے سے دنیا میں انسانوں کی حفاظت کا انتظام ہوا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اور چیزوں کی طرح تقدیر یہاں بھی کام کرتی ہے اور یہی تقدیر ہر انسان کو اجازت بھی دیتی ہے کہ اپنے وطن کی حفاظت کی خاطر مقابلہ کرے، چنانچہ مسلمانوں کو اجازت ہے کہ اگر کوئی اس پر حملہ کرتا ہے تو اس سے جنگ کرے، اس کو قتل بھی کرے، اس کو اسیر بھی کرے، اس کو لوٹ بھی لے اور اس طرح خدا کے نام کا بول بالا کرنے کی کوشش کرے۔ یہ جنگ اپنی ذات کے لیے نہیں ہو گی بلکہ اس آیت کے مطابق (وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ الَّذِینَ یقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا یحِبُّ الْمُعْتَدِینَ) (190:2) جنگ اللہ کی راہ میں کرو۔ یہ نہیں کہ اپنے لیے۔ ” قَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ ”  کن لوگوں سے جنگ کرو؟ ” الَّذِینَ یقَاتِلُونَكُمْ ” جو تم سے جنگ کرتے ہیں لیکن اس جنگ کے باوجود تعدی نہ کرو اور یہ بھی کہ تعدی کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔ مسلمانوں کو بھی تنبیہ کر دی گئی ہے کہ کبھی یہ نہ سمجھ لینا کہ آخری دین کامل ہونے کے باعث تمہیں کوئی خصوصیت حاصل ہو گئی ہے۔ تمہیں دراز دستی کی ہر گز اجازت نہیں۔ فی امان اللہ!!

٭٭٭

ٹائپنگ: جاوید اقبال

ماخذ: اردو محفل

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید