FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 ملّاؔ کی نظموں میں سماج کا درد اور رومانی تخیل

 

 

 

                اشفاق احمد عمر

 

 

 

 

 

 

 

 

تاریخ کی ابتدا سے ہی لکھنؤ اپنے دامن میں تمام لال و گوہر سمیٹے ہوئے ہے۔ جس کی بنا پر ادبی دنیا میں اس کی ایک نمایاں حیثیت ہے۔ لکھنؤ نے جہاں ایک طرح لوگوں کو تہذیب و ثقافت، سنجیدگی، متانت، انکساری، اٹھنے، بیٹھنے اور کھانے پینے کا طور طریقہ اور سلیقہ سکھایا، وہیں دوسری جانب ادبی زندگی جینے، اور آپسی بھائی چارگی کے گر بھی سکھائے۔ دبستان لکھنؤ کی دریا دلی کا عالم یہ ہے کہ اس نے ادیبوں، شاعروں کو دہلی اجڑنے کے بعد اپنے ہاں پناہ بھی دی اور اردو ادب کو نیا حسن فراہم کیا، جس کی زرخیزی کے باعث آج اردو کا باغ ہرا بھرا اور لہلہاتا نظر آ رہا ہے۔ لکھنؤ وہ شہر ہے جس نے اردو ادب کے لیے تقریباً ۲۰۰ سال سے اوپر کا عرصہ وقف کیا اور آج بھی کر رہا ہے۔ جس کے اثرات آج بھی یہاں کی آب و ہوا اور مقامی لوگوں میں تہذیب و ثقافت، لطافت و شائستگی کی شکل میں نظر آتی ہے۔

جب ہمارے ذہن میں لکھنؤ کا نام آتا ہے تو بے ساختہ زبان پر جسٹس پنڈت آنند نرائن ملاؔ کا نام آ ہی جاتا ہے۔ اگر ہم یوں کہیں تو غلط نہ ہو گا کہ۲۰ویں صدی کا آغاز ملا کی ولادت سے ہوتا ہے۔ جب ایک کشمیری پنڈت کے ہاں ایک ملا کی پیدائش ہوتی ہے۔ کسے معلوم تھا کہ یہ پنڈت آگے چل کرانسانوں کے حق کے لیے جسٹس بنے گا اور اردو کی وکالت کرے گا ساتھ ہی اردو زبان و ادب کے دامن کو وسیع بنانے کے لیے تا عمر اردو کی خدمت کرے گا اور یہاں تک کہہ دیگا کہ ’’میں اپنا مذہب بدل سکتا ہوں اپنی مادری زبان نہیں ‘‘۔

سرور صاحب نے سچ کہا کہ ’’تہذیب، شائستگی، انسانیت، شرافت، خلوص، مروت، مشرقیت کے ساتھ ایک آفاقیت اگر یکجا دیکھنا ہے تو جسٹس پنڈت آنند نرائن ملاؔ کو دیکھ لیجیے ‘‘۔

ملا کی پیدائش رانی کٹٹرہ میں ۲۹ اکتوبر ۱۹۰۱ء کو ماہر قانون جگت نارائن ملا کے وہاں ہوئی تھی۔ ملا کے والد کا لکھنؤ میں طوطی بولتا تھا۔ ایک طویل عرصے تک وہ لکھنؤ بار کونسل کے چیئر مین بھی رہے۔ ملا کی ابتدائی تعلیم کے لیے فرنگی محل تعلیمی ادارے کا انتخاب کیا گیا جو اس زمانے میں بہت مشہور و مقبول ہوا کرتا تھا۔ یہاں ان کے استاذ برکت اللہ رضا فرنگی محل رہے اور یہاں سے فارغ ہونے کے بعد موصوف جوبلی ہائی اسکول میں داخل ہوئے اور۱۹۱۷ء میں ہائی اسکول کا امتحان اعزازی نمبرات سے پاس کیا۔ اس کے بعد کنگ کالج کا انتخاب عمل میں آیا جہاں سے ملا صاحب نے انٹرمیڈیٹ، بی اے اور انگریزی سے ایم اے کیا، پھر وکالت کا امتحان پاس کر لکھنؤ میں وکالت شروع کر دی۔ جس میں ان کے والد نے ہر قدم پر ان کی رہنمائی کی۔ ملّا ایک بار ICSکے امتحان میں بھی شامل ہوئے لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔

ملا کی شاعری کا آغاز سراج لکھنوی کی شاعری کو پڑھ کر ہوا، موصوف ان کے کلام سے بے حد متاثر تھے اور اسی دھن میں ۱۹۱۷ء میں شاعری شروع کر دی۔ لیکن ملا کی شاعری کا باضابطہ آغاز ۱۹۲۸ ء میں انگریزی زبان کی شاعری سے ہوا۔ اردو میں گنتی کے شاید کچھ ایسے شاعر ہوں گے جنھوں نے اپنے شاعری کا آغاز نظم سے کیا ہو۔ لیکن ملا نے شاعری کا آغاز نظم سے کیا، پر غزلیں سب سے زیادہ لکھیں۔ ملا کا کئی زبان پر گرفت ہونا ان کے لیے ہمیشہ سود مند رہا انھوں نے جب اپنی شاعری کا آغاز کیا تو اقبالؔ اور انیسؔ کے کلام کا ترجمہ انگریزی میں بھی کیا۔ ملا غالبؔ ، انیس ؔ اور اقبالؔ ، چکبستؔ سے بھی متاثر ہوئے جس کے اثرات ملا کے کلام میں جا بجا نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔

ملا نے اپنی زندگی میں کبھی اردو زبان کے ساتھ کوئی سمجھوتا نہیں کیا ا ور نہ ہی کسی کے سامنے اعلیٰ عہدے کے لیے گریہ و زاری کی۔ جیسے آج اور اس سے پہلے کچھ لوگ کیا کرتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ملا کے کلام کی اس طرح پذیرائی نہیں ہوئی جس کے وہ مستحق تھے۔ اس کا قلق انھیں تا عمر رہا۔ جو ان کے شعروں میں بھی نظر آ ہی جاتا ہے۔ ملاحظہ کریں اردو سے ان کی محبت اور اپنے کلام کے لیے ان کی توقعات ؎

میرے سر میں ملا ؔ یہ خلل باقی ہے

آج گمنام ہوں لیکن ابھی کل باقی ہے

نقش پا سے مرے روشن نہ سہی راہِ ادب

میری تابانیِ کردار و عمل باقی ہے

 

اب آگے تیری قسمت ہے ائے قافلہ گمراہ بشر

میں نے تو اندھیری راہوں میں کچھ دیپ جلا کر چھوڑ دئے

 

لب مادر نے لوریاں جس میں سنائی تھیں

وہ دن آیا ہے اب اس کو بھی غیروں کی زباں سمجھو

ملا انسان دوستی کے ہمیشہ قائل رہے جس کے اثرات ان کے کلام کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق و کردار میں بھی نظر آتے ہیں۔ ملا کی شاعری ان کی ذہنی پرورش ہے اور ان کے جذبات و احساسات، تجربات و مشاہدات کی عکاس بھی۔ ملا کے کلام میں تجربات و مشاہدات کی جو بو آتی ہے وہ بیرون ممالک کا سفر کرنے اور لوگوں کی چاپلوسی کرنے کا نتیجہ نہیں، بلکہ کورٹ کچہری اور جج کے عہدے پر فائز رہ کر ہر قسم کے لوگوں سے ملنے جلنے سے آئے ہیں اور اسی سے انھوں نے اپنے شاعری کو نئی زندگی اور ایک نیا ذہن فراہم کیا ہے۔ جو کسی کی محتاج نہیں بلکہ اپنا راستہ آپ نکال لینے کی طاقت رکھتی ہے۔ ان کے کلام میں محبت بھی ہے اور بغاوت بھی، اردو کے قتل ہونے کا درد بھی ہے اور لوگوں کے سوئے ہوئے ذہن کا افسوس بھی، ملا کے کلام لوگوں کے سوئے ہوئے ذہن کو بیدار بھی کرتے ہیں اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کے لیے انقلابی بارود بھی بھرتے ہیں۔ ملا کے کلام میں جہاں ایک طرف امید کی لے نظر آتی ہے وہیں دوسری جانب سماج سے بہت ساری توقعات بھی۔ ملا کے ہاں ذات پات کی شاعری نہیں بلکہ وہ اپنے کلام کے ذریعہ ذات پات، اور دھرم نام کی چیزوں سے بہت دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کے اشعار اردو پر ہونے والی گندی سیاست کا نوحہ بھی کرتے ہیں اور اردو زبان و ادب کے بہتر کل کی امید دل میں پالے ہوئے بھی ہیں ؎

تجھے مذہب مٹانا ہی پڑے گا روئے ہستی سے

ترے ہاتھوں بہت توہین آدم ہوتی جاتی ہے

 

ستم اکثر بہ عنوان کرم ایجاد ہوتا ہے

چمن میں باغباں کے بھیس میں سیاد ہوتا ہے

 

دیا درد انساں کا احساس تجھ کو

کھڑا کر دیا نظم کے پاس تجھ کو

 

ابھی روئے حقیقت پر پڑا ہے پردہ ایماں

ابھی انساں فقط ہندو مسلمان ہے جہاں میں

 

یہ کہہ کے آخر شب شمع ہو گئی خاموش

کسی کی زندگی لینے سے زندگی نہ ملی

 

تیرگی بڑھ بڑھ کے تاروں کو بجھاتی ہی رہی

تیرگی کو چیر کرتا رے نکلتے ہی رہے

 

اظہار درد دل کا تھا اک نام شاعری

یاران بے خبر نے اسے فن بنا دیا

 

نظر جس کی طرف کر کے نگاہیں پھیر لیتے ہو

قیامت تک پھر اس دل کی پریشانی نہیں جاتی

 

اک موت کا جشن بھی منا لیں تو چلیں

پھر پونچھ کے اشک مسکرا لیں تو چلیں

آ تجھ کو گلے لگا کے مٹتی اردو

اک آخری گیت اور گا لیں تو چلیں

 

ہاں سمجھتا ہوں بلندی میں نہاں ہے جو نشیب

پھر بھی کھاتا ہوں میں آج اپنی تمنا کا فریب

 

ایک سجدے کو شناسائے جبیں اور کروں

دل کا اصرار ہے اک بار یقیں اور کروں

ملا اپنی ذات میں خود ایک انجمن تھے۔ ان کی شاعری جس طرح لوگوں کے دل کو موہ لیتی ہے ٹھیک اسی طرح ملا کے فیصلے ’’ جو انھوں نے جج رہ کر کئے ‘‘ بھی لوگوں کو اپنا مرید بنا لیتے ہیں۔ ان کے ہاں شوخی، متانت، سنجیدگی، فکر، گہرائی و گیرائی، انکساری، خاکساری اور قلندرانہ مزاج صرف شاعری میں ہی نظر نہیں آتا بلکہ ان کی شخصیت کا ایک خاص حصہ بھی ہے۔ ملا وسیع النظر اور وسیع القلب کے ساتھ انسان دوستی کے بھی دل دادہ تھے ان کی دریا دلی کا یہ عالم تھا بقول خلیق انجم:

ــــ ’’ایک دفعہ ہمارے اسٹاف میں ایک چپراسی کی بیٹی کی شادی تھی۔ اس نے مجھے قرض کے لیے درخواست دی لیکن انجمن کے حالات اس طرح نہیں تھے کہ میں قرض دے سکتا۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کہا تم ملا صاحب کے پاس چلے جاؤ وہ شاید کوئی راستہ نکال دیں۔ اس نے میرا کہنا مانا اور ملا صاحب کے پاس چلا گیا اور کچھ دیر بعد خوش خوش واپس آیا۔ کہنے لگا میں نے صرف چار ہزار روپے قرض مانگے تھے۔ ملا صاحب نے پانچ ہزار روپئے میری بیٹی کی شادی کے لیے دے دئیے ‘‘

یہ واقعہ بتا کے میں ملا صاحب کی طرف داری نہیں کر رہا بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ ان کی دریا دلی ایسی بھی تھی۔ وہ صرف فتوح کے قائل نہ تھے بلکہ ان میں، اور ان کے کلام میں بھی تقویٰ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ملا اپنی زندگی میں بہت نشیب و فراز سے دو چار ہوئے لیکن اپنے اصولوں کے ساتھ کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ ملا نے اپنی زندگی میں کئی کتابیں بھی تحریر کیں جن میں چھ شعری مجموعہ، ایک نثری تصانیف اور ایک ترجمہ بھی شامل ہے۔ ان کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں :

جوئے شیر ۱۹۴۹ء، کچھ ذرے کچھ تارے ۱۹۵۹ء، میری حدیث عمر گریزاں ۱۹۶۳ء، سیاہی کی ایک بوند ۱۹۷۲ء، کرب آگہی ۱۹۷۳ء، جادۂ ملا ۱۹۸۸ء، کچھ نثر میں بھی ۱۹۷۴ء، مضامین نہرو۱۹۳۹ء وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ ملا کو کئی انعام و اکرام اور اعزازات سے بھی نوازا گیا، ملا کئی ادبی اداروں کے ساتھ ساتھ سیاست کے بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ عمر کے آخری ایام میں ملا دہلی ہائی کورٹ میں وکالت کرنے لگے اور ۱۳

جون ۱۹۹۷ء کا وہ دن اردو ادب اور ملا کے چاہنے والوں کے لیے بری خبر لے کر آتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ۲۳۔ بلونت رائے مہتہ روڈ(فروز شاہ روڈ) پر ایک جم غفیر لگ جاتا ہے۔ اخباروں اور نیوز چینلوں میں ملا کے انتقال کی خبر سے اردو ادب پر ایک ماتم سا طاری ہو گیا۔

پنڈت آنند نرائن ملا کا ذکر کیے بغیر ۲۰ ویں  صدی ادھوری نہیں بلکہ نا مکمل ہو گی۔ یوں تو ملا پیشے سے ایک وکیل تھے اور ایک طویل مدت تک جج بھی رہے لیکن پوری عمر موصوف نے اردو زبان کی بقا و تحفظ کے لیے لڑائی لڑی۔ ملا نے غزلیں بھی کہیں، ترجمے بھی کئے، قطعات بھی لکھے اور نظمیں بھی لکھیں۔ ملا کی نظموں میں کچھ ایسی نظمیں بھی ہیں جو رومان کے ساتھ ساتھ سماج کی روڑی وادی کو بہ حسن خوبی ظاہر کرتی ہیں۔ پر ہم نے ملا کی کچھ منتخب نظموں کو اپنی نظروں سے اور ادیب و ناقد کی تحریروں کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ پرستار حسن، بیسوا، بہار کی رات، تم مجھے بھول جاؤ گے، سماج کا شکار، کافی ہاؤس، ٹھنڈی کافی، مریم ثانی وغیرہ قابل ذکر نظمیں ہیں۔

نظم ’’ پرستار حسن ‘‘ملا نے ۱۹۲۶ ء میں تخلیق کی یہ نظم ۱۱  بندوں پر مشتمل ہے۔ جو عشق و محبت کی داستان پر مبنی ہے۔ ہر بند معنویت سے لبریز ہے۔ کبھی عاشق اپنی محبوبہ سے شکایت کرتا ہے، تو کبھی محبوب کے حسن کو کئی ناموں سے مخاطب کر کے اسے خوش کرنا اور اس کی محبت پانا چاہتا ہے۔ بقول عبد الرشید ظہیری ’’انسان کی فطرت میں تلاش و ودیعت ہے اور اس کا منشا حسن مطلق پر رسائی ہے۔ انسان ناکام رہتا ہے کیوں کی عقل و دانش کی رہبری میں اس کی منزل دشوار تک پہنچنا چاہتا ہے لیکن جہاں عقل کی تگ و دو ختم ہوئی اور وجدان سے کام لینا شروع کیا تو‘‘ ملاحظہ کریں نظم کے بند ؎

 

اپنے سوز غم کی شرحِ داستاں کیوں کر کروں

دل کی جو باتیں ہیں وہ نذر زباں کیوں کر کروں

بات جو مجھ سے بھی پنہا ہے بیاں کیوں کر کروں

اپنی ہستی کو زمانے پر عیاں کیوں کر کروں

درد دل کو غم کہوں، الفت کہوں، سودا کہوں

میں یہی حیران ہوں کس سے کہوں اور کیا کہوں

 

ائے شعاعِ برق زائے خاورِ پنہائے حسن

ائے شرابے دلگدازِ ساغرِ مینائے حسن

ائے شرار عقل سوزِ شعلۂ سینائے حسن

ائے نگاہِ فتنہ خیز دیدۂ بینائے حسن

تو نے سینہ میں یہ کیسا درد پیدا کر دیا

میری ہستی کو میرے دل سے شناسا کر دیا

 

آرزوئیں دل کی ساری بے خبر تھیں مستِ خواب

جانتا تھا کون کہتے ہیں کسے جوشِ شباب

یک بہ یک تو نے رُخِ پر نور سے الٹی نقاب

اک نظر میں ہاتھ سے جاتی رہی تسکین و تاب

غنچہ دل اک اشارے سے تیرے کھلنے لگا

مجھ کو رازِ آفرینش کا پتہ ملنے لگا

 

سامنے تھا جلوہ گر حسن ازل مستانہ وار

دل فریب و دل گداز و دل رُبا و دل شکار

آفتِ صبر و تحمل، دشمنِ صبر و قرار

اور کیا کرتا اگر کرتا نہ دل اپنا نثار

دل تھا یوسف اور اُدھر تھی دولتِ بیدارِ حُسن

کھینچ ہی لائی اسے آخر سرِ بازارِ حُسن

 

’’پرستار حسن‘‘ محبوب کے حسن اور اس کے ناز و نکھروں کی ساری پرتوں کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ شاعر محبوب کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر دیتا ہے۔ کبھی اپنے محبوب سے شکایت کرتا ہے اور کبھی اس کے نالہ نہ ہو جانے کے لیے اس کی تعریف میں چاند، سورج، تارے اور زلیخا کے حسن کو بھی سامنے لا کر کھڑا کر دیتا ہے۔ ملا کے اس نظم میں اقبالؔ کی نظم ’’خضر راہ ‘‘کے پورے اثرات نظر آتے ہیں۔ وہی آب و تاب، وہی حسن، وہی انداز بیان، وہی فکر، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے پھر سے کوئی تازہ نظم لکھ دی۔ خلیق انجم کے ہاں ’’پرستارِ حسن‘‘ کا ایک الگ ہی منظر نظر آتا ہے :

’’ان کی پہلی نظم پرستار حسن ہے جس میں معنویت بھی ہے اور فکری عنصر بھی، اس نظم میں اظہار کی جو پختگی، لہجے کی متانت اور بیان کی جو تازہ کاری ہے وہ بے شمار شاعروں کو مدتوں مشقِ سخن کے بعد بھی نصیب نہیں ہوتی‘‘۔

’’پرستارِ حسن‘‘ ملا کی پہلی نظم ہے۔ گزشتہ اوراق پر اس بات کا ذکر آیا ہے کہ ملا پہلے شاعر ہیں جنہوں نے نظم کہہ کر اپنی شاعری کا آغاز کیا۔ عموماً اردو ادب میں شعر و شاعری کا آغاز غزلوں سے ہی کرتے ہیں، لیکن اس نظم کے مطالعہ سے یہ بات کہیں سے بھی ظاہر نہیں ہوتی کہ ملا کی یہ پہلی تخلیق ہے۔ خیالات کا تنوع، فکر کی وسعت، معنویت، سماج کا درد و غم، انسانیت سے بے پناہ محبت، محبوب کے سامنے بے باقی سے سب کچھ کہہ دینے کا جذبہ، بے باکی اور جرأت عموماً ایک ساتھ ایک جگہ بہت کم لوگوں کے ہاں نظر آتی ہے۔

ملا کے ہاں حسن و عاشقی کے علاوہ سماج میں پھیلی ہوئی گندی روایات پر بھی گہری نظر ہے۔ ملا کی نظر میں عورت کا کردار ایک پاک صاف، بہ عزت اور بہ حیا ہے جو ہر کچھ تو برداشت کر سکتی ہے پر اپنے تن اور من کا سودا نہیں کر سکتی۔ پر کیا کریں یہ پیٹ کی بھوک اور بچوں کے چہرے پر پڑی ہوئی جھریاں اور ہونٹوں پر پڑی ہوئی پپڑیاں کچھ بھی کرنے کو مجبور کر دیتی ہیں۔

ویسے تو اس موضوع پر لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے ہر کسی نے اپنے قلم کا زور ر دکھانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ تبھی تو ڈپٹی نذیر نے اپنے ناول ’’فسانۂ مبتلا‘‘ میں طوائف کے کردار کو بہ احسن ادا کیا، اور پھر سرفراز حسین نے ’’شاہد رعنا‘‘ اور مرزا رسوا نے ’’امراؤ جان‘‘ لکھ کر اردو ادب میں ایک آگ سی لگا دی پھر منشی پریم چند نے ’’بازار حسن ‘‘ اور قاضی عبد الغفار نے ’’لیلیٰ کے خطوط ‘‘لکھ کر کہرام مچا دیا۔

نظم ’’ بیسوا‘‘ تیرہ بندوں پر مشتمل ہے۔ یہ نظم ملا کے پہلے مجموعہ کلام ’’جوئے شیر‘‘ میں شامل ہے جسے ۱۹۲۷ء سے ۱۹۳۵ ء کے دوران لکھا گیا۔ یہ نظم ایک طوائف کی زبانی اس کی حقیقی کہانی ہے جو سماج کے White Collarلوگوں کی پول کھولنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ جو رات کے اندھیروں میں اور بند کمروں کے اندر کالی کرتوت کو کر لیتے ہیں اور دن کے اجالے میں سفید لباس زیب تن کر کے خود کو پاک صاف ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں اور انھیں ہی برا بھلا کہتے ہیں جن سے جسمانی خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے۔ نظم کے مطالعہ سے ایک عورت کس طرح طوائف کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے اور اس کے سامنے کیا کیا مصیبتیں اور کس کس طرح کی نگاہیں اٹھتی ہیں اس کا بخوبی اندازہ اس نظم سے ہو گا۔ ایک طوائف کو سماج کن نگاہوں سے دیکھتا ہے اور کتنا برا سمجھتا ہے کہ بات تو کرنا دور اس طرف سے نگاہ چرا کر نکل جاتا ہے جہاں وہ رہتی ہے۔ کبھی اس کے اندر کچوکے لگا رہے اس درد و غم میں ڈوب کر کچھ جاننے کا خواہاں نہیں ہوتا اور اس بات کا قلق اس بیسوا کو ہے جو اپنا جسم پیٹ کی بھوک کو مٹانے کے لیے بیچا کرتی ہے۔ جب کی یہ بیسوا ان تمام لوگوں کی سیاح کاریوں کی راز دار بھی ہے پر اپنے درد و غم کا اظہار وہ کسی سے نہیں کر پاتی۔ بقول فراق گورکھپوری:یہ نظم عشق و حسن کی ایک سماجی ٹریجڈی پر روشنی ڈالتی ہے۔ نظم کی فکری وسعت اور اس کی معنویت سے ملا کے بیدار ذہن کا اندازہ ہوتا ہے۔ ملاحظہ کریں نظم کے کچھ بند

خوار ہوں بدنام ہوں، رسوا ہوں سرِ بازار

خاطرِ  نازک پہ اہل بزم کی اک بار ہوں

کوئی مونس ہی نہیں جس کا میں وہ بیمار ہوں

میں وہ گل ہوں جو زمانہ کی نظر میں خار ہوں

اہل دنیا مجھ سے تم اتنے خفا رہتے ہو کیوں ؟

میں تو خود مظلوم ہوں مجھ کو برا کہتے ہو کیوں ؟

مجھ کو دیکھو میں تمھارے عیب کا پردہ رہی

آبرو والے رہو تم اس لیے رسوا رہی

زندگی بھر اک دلِ ہمدرد کی جو پا رہی

جائے عبرت ہے کہ میں محفل میں بھی تنہا رہی

جز ہو سنا کی جہاں میں اور کچھ دیکھا نہیں

سینکڑوں عشاق اور کوئی چاہنے والا نہیں

 

جب مرادوں پر ذرا میرا شباب آنے لگا

اک ذرا نظروں میں میری جب حجاب آنے لگا

کچھ سمجھ میں جب تمنا کا حساب آنے لگا

جاگتی آنکھوں میں اک الفت کا خواب آنے لگا

مجمعِ عشاق میں سرگوشیاں ہونے لگیں

کھل گیا نیلام میرا بولیاں ہونے لگیں

 

مثل تیرے میں اسیرِ حلقۂ زنجیر ہوں

عورتوں کی بے کسی کی میں بھی اک تصویر ہوں

رحم کے قابل ہوں میں شرمندۂ تقصیر ہوں

مجھ سے یوں نفرت نہ کر میں بھی تیری ہمشیر ہوں

گوہر نسوانیت کے کچھ نشاں مجھ میں بھی ہیں

عیب ہیں مجھ میں جہاں کچھ خوبیاں مجھ میں بھی ہیں

 

اپنے ہاتھوں اپنی ہستی کو مٹانا مجھ سے سیکھ

ہنستے ہنستے آگ دامن میں لگانا مجھ سے سیکھ

سوزِ خاطر کو زمانے سے چھپانا مجھ سے سیکھ

سینکڑوں غم لے کے دل میں مسکرانہ مجھ سے سیکھ

زندگی اپنی مجھے گو اک نظر بھاتی نہیں

میری پیشانی پہ بھولے سے شکن آتی نہیں

 

اس نظم کے مطالعہ کے بعد ہمیں سعادت حسن منٹو کی بے ساختہ یاد آتی ہے جس نے اپنے ذہن کی آبیاری اور اپنے قلم کے زور سے سماج کے منھ پر ایک زور طمانچا مارا تھا جس کی آواز اور درد سے آج بھی اردو ادب اور یہ سماج غافل نہیں۔ ملا کے کلام اور فکر میں ہمیں منٹو کی وہ فکر، بے چینی و پریشانی جیتی جاگتی اور سانس لیتی نظر آتی ہے۔ منٹو ہمیشہ اسی بات کو کہتا تھا کہ سماج میں پھیلی ہوئی اس گندگی کو منظر عام پر لایا جائے۔ جہاں بڑی ذات، نوابوں، راجاؤں اور جاگیر داروں اور ہر طبقے کا انسان جا کر اپنی پیاس بجھاتا ہے۔ پر اسے گھن کی اور حقارت کی نگاہ سے کیوں دیکھتا ہے۔ اور اگر سچ میں وہ گندگی ہے تو اسے ڈھاپنا اور لیپا پوتی نہیں کرنی ہے بلکہ اسے منظر عام پر لانا ہے۔ یہ ہر فرد بشر کہ ذمہ داری ہے کہ اس گندگی کو مل جل کر ختم کریں۔ نظم میں اس بیسوا کا حسن بھی ہے جو رومانیت کا غماز ہے جس کے اندر ایک ساتھ ہزاروں کے کالے کرتوتوں کے راز پنہاں ہیں مگر ان سب کے راز و نیاز کو اپنے سینے میں اس طرح دفن کیے ہوئے ہے جیسے اسے کچھ معلوم ہی نہ ہو۔ ملا اور منٹو کا عہد ایک ہی تھا اور دونوں انھیں چیزوں کو دیکھ رہے تھے جو مرض سماج کے لیے لاعلاج تھا اور اس سے دور کرنے کا کام جہاں ایک طرف ملا کی نظم کر رہی تھی وہیں دوسری جانب منٹو کے افسانے White collar لوگوں کی نیند کو حرام کیے ہوئے تھے۔

ملا کی اس نظم کو پڑھ کر مجھے ڈاکٹر آصفہ زمانی کے ایک مضمون کی یاد آتی ہے جنھوں نے ’’بیسوا‘‘کے تجزیہ کی شکل میں اپنے ایک مضمون میں ڈاکٹر ہیگو کی نظر میں عورت کی قدر و قیمت اور خدا تعلی نے اسے کس طرح بنایا پر بہت خوبصورت نثر میں شاعری کی ہے ملاحظہ کریں :عورت قدرت کا ایک حسین شاہکار۔ ۔ ۔ ۔

’’۔ ۔ ۔ ۔ پھر خدا نے عورت کو بنانا چاہا۔ اس نے سوچا کی گندھی ہوئی مٹی تو ختم ہو چکی ہے۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے عورت کو سب سے اہم کیوں نہ بنا دوں۔ یہ خیال آتے ہی خدا نے چاند سے اس کی چمک لی، سمندر سے اس کی گہرائی لی، موجوں سے گرمی، شبنم سے اس کی مسرور کن تراوت، سیماب سے بے قراری، چھوئی موئی سے نزاکت، گلاب سے رنگت اور دلکشی، شراب سے خمار، شہد سے حلاوت، سونے سے اس کی بھڑک، ہیرے سے اس کی سختی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیل گائے سے آنکھوں کا جادو، خرگوش سے شرم، قمری سے نغمہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس نے ایک مجسمہ تیار کر کے اس کا نام ’’عورت ‘‘رکھا۔ فرشتوں نے پوچھا ائے خالق ارض و سما !تو نے اپنے پاس سے اس وجود میں کیا چیز شامل کی۔ خدا نے جواب دیا ’’محبت‘‘۔ اس پر فرشتے سر بہ سجو ہو گئے۔ پھر وہ عورت کو مرد کی دل بستگی کے لیے اس کے حوالے کر دیا‘‘

ملا کی ایک نظم ’’ بہار کی رات‘‘ ہے جس میں ملا کا رومانی تخیل اپنے شباب پر ہے۔ یہ نظم۴  بندوں پر مشتمل ہے جو پہلے مجموعہ کلام ’’جوئے شیر‘‘ میں شامل ہے۔ یہ نظم ۱۹۲۷ء سے ۱۹۳۵ء کے دوران لکھی گئی۔ اس نظم کے کچھ اشعار رومان میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ پڑھنے والا دوسرے جہان کی سیر کرنے لگتا ہے اور اپنے محبوب مزاجی سے جا ملتا ہے۔ ملاحظہ کریں نظم کا پہلا بند

آ میری جان جلد آ، بس یہی رت ہے پیار کی

دل میں کھلی ہے چاندنی رات بھی ہے بہار کی

ملا کی شاعری میں ہمیں کئی طرح کے رنگ و آہنگ نظر آئیں گے کیوں کہ ملا کسی بھی موضوع کو نظر انداز کرنا نہیں جانتے تھے وہ اپنے کلام میں روح پھونکنے کے ہنر سے بخوبی واقف تھے۔ ملا کی ایک نظم ’’ تم مجھے بھول جاؤ گے ‘‘ کے عنوان سے ہے جس کا عنوان ہی محبوب اور عاشق کے درمیان میں چلی آ رہی برسوں پرانی روایت کی گواہی ہے۔ پہلے محبت، اور پھر بھول جانے کا ہنر کس قدر لوگوں میں گھر کر گیا ہے اس پر گہری ضرب کی گئی ہے۔ عبد الرشید ظہیری بقول:یہ نظم سوز و گداز سے بھری ہوئی ہے۔ اس کا شعری بہاؤ ایک خاص نسائی کرب لیے ہوئے اپنی بے تابیوں کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے ‘‘۔ اس نظم کے پڑھنے پر یہ بات بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ جس طرح شادی سے پہلے ہر عاشق اپنی محبوبہ کو بڑے بڑے خواب دکھاتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ تم چاند، سورج، زلیخا سب ہو اور تم سا کوئی نہیں، لیکن بعد میں یہی محبوب، جو اب تک نعمت تھی زحمت لگنے لگتی ہے۔ ملا صاحب کی اس نظم کو پڑھنے کے بعد دور حاضر کی بہترین شاعرہ جو نسوانی ادب اور عورتوں کی بہترین نمائندگی کر رہی ہیں ان کا ایک شعر اس موقع پر چار چاند لگا دیگا۔ ملاحظہ کریں :

وہ جنوں کیا ہوا؟وہ وفا کیا ہوئی؟

اب تو چوڑی بھی لانے کی فرست نہیں

کس محبت سے کل تک یہ کہتے تھے تم

چاند تارے بھی لا دوں اگر تم کہو

 

موصوف نعیم صدیقی کی مرتبہ کتاب میں اس نظم( تم مجھے بھول جاؤ گے ) سے متعلق کچھ باتیں یو رقم طراز ہیں جس سے نظم کے مفہوم کی بہترین عکاسی ہوتی ہے :

ایک مشرقی عورت جو مرکز نگاہ سے رشتہ وفا باندھنے کی ریت پر چل رہی ہے۔ ٹوٹتی محبتوں اور بدلتی نظروں اور رخ بدلتے دلوں کے روز مرہ کے تلخ تجربات کے ہجوم سے گزرے ہوئے اعتماد کو کھو بیٹھتی ہے۔ مستقبل کے گہر میں اسے نامعلوم اندیشی اور خرخشے حرکت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ٹھٹھک جاتی ہے، اور اپنے رفیق حیات کا ہاتھ پکڑ کر بڑی لجاجت سے یہ نغمہ الاپتی ہے ’’ تم مجھے بھول جاؤ گے ‘‘۔ ملاحظہ کریں نظم کے کچھ بند:

تم مجھے بھول جاؤ گے

رہ نہ سکے گا عمر بھر آج کا جوشِ اضطراب

آرزوؤں میں آئے گا کوئی ضرور انقلاب

پھر کوئی دوست ڈھونڈھ ہی لے گی نگاہِ انتخاب

زیست ہے زیست، دل ہے دل، اور شباب پھر شباب

عہد وفا ہے ایک خواب

تم مجھے بھول جاؤ گے

پھر سے نگار خانۂ شوق کو تم سجاؤ گے

پھر کسی بت کے واسطے فرشِ نظر بچھاؤ گے

آج کی بات کو کبھی خواب میں بھی نہ لاؤ گے

نام میرا اگر کوئی لے گا تو مسکراؤ گے

تم مجھے بھول جاؤ گے

تم مجھے بھول جاؤ گے

پورے نظم میں مردوں کی ذات اور کردار پر بھرپور کیچڑ اچھالا گیا ہے۔ کبھی انھیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ کسی ایک عورت کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہا ہے اور تھوڑے وقت گزر جانے کے بعد اسے بھی چھوڑ کر کسی اور کا ساتھ تھام لیتا ہے۔ مرد کی یہی حرکت کئی عورتوں کے ساتھ جاری و ساری ہے۔

ملا کی بہترین نظموں میں ایک نظم ’’سماج کا شکار ‘‘بھی ہے۔ اس نظم کا موضوع ہی سب کچھ بیان کرتا ہے۔ نظم ۶  بندوں پر مشتمل ہے جو پہلے مجموعہ کلام ’’جوئے شیر‘‘ میں شامل ہے۔ یہ نظم مارچ ۱۹۴۱ء میں منظر عام پر آئی اور سماج میں پھیلے ہوئے فسردہ نظام کے ڈھانچے کو ہلا ڈھالا۔ا تنا وقت گزر جانے کے بعد بھی اور Advance technology کے زمانے میں زندگی گزر بسر کرنے کے باوجود عشق و عاشقی کے معاملے میں لوگوں کی ذہنیت وہی ہے جو آج سے ۵۰۰ سال پہلے تھی۔ اسی گندے اور کم ظرف سماج کے باعث اس لڑکے کی جان جاتی ہے جو ایک سیدھی سادی لڑکی سے محبت کرتا ہے۔ نظم اپنے عنوان کی طرح بالکل صاف اور سادہ زبان میں ہے۔ کوئی بات ایسی نہیں جو سمجھائی، بجھائی جائے کہیں بھی الجھاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ نظم کی کہانی کچھ یوں ہے ’’ایک مزدور کا بیٹا گاؤں کی ایک لڑکی سے محبت کرنے لگتا ہے جو ایک زمیندار کی بیٹی ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے ہیں پر سماج کے ڈر سے کبھی کچھ نہ بول پاتے ہیں اور نہ ہی آزادی سے مل پاتے ہیں۔ لڑکا اپنی محبوبہ کے گھر کے سامنے پیپل کے پیڑ کے نیچے ہر دن بیٹھتا ہے۔ چاہے وہ کوئی بھی موسم ہو یا آنے جانے والے اور دیکھنے والے لوگ اسے کچھ بھی کہیں لیکن اسے کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ گم سم اداس پورا پورا دن وہیں گزار دیتا۔ اچانک اسے ایک روز یہ خبر ہوتی ہے کی اس لڑکی کی آج سال گرہ ہے، لڑکا خوشی میں ایک پھولوں کی مالا لے کر اس کا انتظار کرتا ہے اور ملاقات ہونے پر اسے اپنا محبت بھرا نظرانہ پیش کرتا ہے لیکن لڑکی سماج کے خوف سے اسے قبول نہیں کرتی اور آگے بڑھ جاتی ہے۔ یہ بات لڑکی کے والد کو معلوم ہو جاتی ہے اور وہ لڑکے کو بلا کر بہت برا بھلا کہتے ہیں۔ لڑکا ایک چپ ہزار چپ رہتا ہے اور سلام کر کے چلا جاتا ہے۔ جب کچھ دن ہو گئے تو لڑکی کو بے چینی ہوئی کہ آخر کیا بات ہے جو وہ نظر نہیں آ رہا۔ وہ اپنی سخی سے معلوم کرواتی ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے خود کشی کر لی ہے۔ اس کے بعد لڑکی کی بے چینی اور بے قراری کا اندازہ آپ کو نظم سے بخوبی ہو گا۔

یہ سارے واقعات ہمارے تنگ نظری اور چھوٹے ذہن کی پیداوار ہیں۔ بنانے والے نے ہم میں کوئی فرق نہیں کیا پر دنیا میں بیٹھے ہوئے بھگوانوں نے انسانوں کے درمیان میں ایک ایسی دیوار بنا دی ہے جس کے باعث ہر روز ہزاروں لڑکے لڑکیاں جان دیتے ہیں۔ کچھ تو محبت میں ناکامی کے باعث اور کچھ جھوٹھے ذات پات کے ڈھکوسلے کی وجہ سے۔ آج ہم چاہے کسی بھی چیز میں مغربی دیسوں کا مقابلہ کر لیں لیکن ہماری ذہنیت پر وہی تالے لٹکے ہوئے ہیں جو قدیم زمانے کے دین ہیں یا انگریزوں نے لگائے ہیں۔ نظم کے بند سے آپ کو بہت سی باتیں اور بھی معلوم ہوں گی۔ لیجیے نظم پڑھیں

جا پوچھ سکھی شور یہ کیسا ہے گلی میں

اک سال سے ہر روز وہ مزدور کا بیٹا

آتا تھا ادھر شام ہو دن ہو کہ سویرا

دو روز سے لیکن اسے میں نے نہیں دیکھا

معلوم نہیں اسے یکا یک یہ ہوا کیا

اب تک اسے آنے سے کبھی روک نہ پائے

تپتی ہوئی گرمی میں بھی وہ لو کے تھپیڑے

سردی کی ہواؤں کے وہ اُڑتے ہوئے نیزے

برسات کی جھڑیاں ہی نہ بجلی ہی نہ اولے

جا پوچھ سکھی شور یہ کیسا ہے گلی میں

کیا دے گئی دھوکا اُسے سچ مُچ یہ رُکھائی

نادان تھا کیسا کہ نہ سمجھا مرے جی کی

یہ شرم بھی جھوٹی ہے یہ تہذیب بھی جھوٹی

ائے کاش کی ہوئی نہ مہاجن کی میں بیٹی

چنگل میں دبائے ہے یہ خونخوار سماج آہ!

قیدی ہے بشر اور ہے دیوار سماج آہ!

قربانی کی ہم بھیڑیں ہیں تلوار سماج آہ!

جینے نہیں دیتی ہے مردار سماج آہ!

جا پوچھ سکھی شور یہ کیسا ہے گلی میں

شام ہوتے ہی ادیبوں، ناقدوں، شاعروں اور سیاست دانوں کی بھیڑ جس جگہ لگتی تھی۔ وہاں ملا کی بھی آمد و رفت رہا کرتی تھی۔ ملا اکثر شام کے اوقات یا یوں کہ لیں کہ فرصت کے اوقات میں انڈیا کافی ہاوئس میں جاتے تھے، جہاں پروفیسر آل احمدسرور، علی جواد زیدی، ڈاکٹر عبد العلیم، سید احتشام حسین، مجاز لکھنؤی، سلام مچھلی شہری، شوکت صدیقی، محمد حسن، کمال احمد صدیدی، وغیرہ کی بھی آمد ہوتی تھی۔ ملا نے ’’ ٹھنڈی کافی ‘‘ عنوان سے بھی ایک کامیاب نظم لکھی ہے۔ بقول عبد الرشید ظہیری:

’’ملا صاحب کی ’’ نظم ٹھنڈی کافی‘‘ ان کی تمام نظموں پر فوقیت رکھتی ہے۔ اور ادبی اہمیت کی حامل ہے۔ جب بھی اردو شاعری کا انتخاب ہو گا بغیر اس کی شمولیت کے وہ انتخاب نامکمل سمجھا جائے گا۔ یہ نظم فن کے اعتبار سے سب سے زیادہ مکمل اور نکھری ہوئی ہے۔ اردو شاعری میں اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے ‘‘۔

ملا کی نظم رومانیت سے لبریز ہے۔ کبھی رات کی تاریکیوں سے گزر کر سحر کی جانب جاتی ہے، تو کبھی شہر کی بناوٹ سے محبوب کے حسن کی خوبصورتی کا موازنہ کرتی ہے۔ کبھی محبوب سے رات کی تاریکیوں میں سرگوشیاں کرتی ہے تو کبھی کھلّم کھلا سب کچھ بیان کر دیتی ہے۔ کبھی محبوب سے بچھڑنے کا ڈر ہوتا ہے، تو کبھی سماج کے ڈر سے محبوب سے دور ہو جانے کا ڈر۔ پوری نظم خود میں ایک ڈرامائی کیفیت لیے ہوئے ہے اور ہر پل ایک نیا رنگ و آہنگ لے کر چلتی ہے۔ ملا کے تجربات و مشاہدات نے ایک ایسی نظم تخلیق کی ہے جس میں ڈرامائی عناصر بھی ہیں، اور افسانوی اندار بیان بھی، غزل کے جیسا حسن بھی ہے اور نظموں کی سی تراوٹ بھی ساتھ ہی قصیدہ کی مٹھاس اور مرثیہ جیسا درد و غم بھی شامل ہے۔ جو قاری کو شروع سے آخر تک ٹک ٹکی باندھ کر سننے کے لیے مجبور کر دیتی ہے۔ نظم ۳۷ بندوں پر مشتمل ہے جو ۱۹۴۳ء میں منظر عام پر آئی۔ یہ نظم ملا کے پہلے مجموعہ کلام ’’جوئے شیر ‘‘میں شامل ہے۔ اس نظم کو نیا حسن علی جواد زیدی کی تحریروں سے ملتا ہے۔ ملاحظہ کریں علی جواد زیدی بقول :

’’ادبی مباحث میں کبھی فلسفیانہ اور منطقانہ اصرار اور کبھی مہذب سپرانداختی، کبھی صدق دل سے غلط کو غلط کہنے کا مخصوص انداز اور کبھی آبگینوں کو ٹھیس لگ جانے کے ڈر سے کہنے والی بات کو بھی نہ کہنے کی ادا، ملا کو سارے ماحول میں دوسروں سے الگ کر دیتی تھی۔ وہ دوسرے نقطۂ نگاہ رکھنے والوں سے دبتے اور جھجھکتے نہیں تھے۔ مگر ان کے احساسات کا پورا خیال رکھتے ہیں۔ یہاں آ کر ملا کی خاموشی کا راز کھلا۔ معلوم ہوا کہ اگر چہ وہ ’’لے و نغمہ کو اندوہ ربا ‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن ’’اگلے وقتوں کے لوگ ‘‘ نہیں ہیں اس دعویٰ کا سب سے بڑا ثبوت مُلا کی نظم ’’ٹھنڈی کافی‘‘ ہے۔

نظم اپنے مضمون کا پورا احاطہ کرتی ہے۔ نظم کا مفہوم یہ ہے کہ عاشق اپنی محبوبہ سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ پر ایک طویل عرصے سے دونوں کی ملاقات سماج کے ڈر اور رسوا و بدنام ہونے کے خوف سے نہیں ہو پاتی۔ جس کے باعث عاشق کے دل و دماغ میں ایک بات گھر کر جاتی ہے کہ کہیں اس کا محبوب اسے گرا ہوا، اور حقیر تو نہیں سمجھتا۔ گاہے بہ گاہے اگر کبھی ملاقات ہو بھی جاتی تو صرف رسمی سلام و تبسم و دعا ہو جاتا۔ جس کی وجہ سے ان میں بہت دوری ہونے لگی تھی۔ اچانک ایک روز محبوب ریلوے اسٹیشن کے باہر مل جاتی ہے اور اس دن ان دونوں میں ڈھیر ساری باتیں ہوتی ہیں۔ پہلے تو معشوقہ حیران ہو گئی کہ یہ کہاں سے نازل ہو گیا۔ لیکن دل ہی دل میں خوشی کے لڈو پھوٹ رہے تھے۔ معشوقہ نے شہر کے ایک ہوٹل میں کمرہ لے رکھا تھا جہاں وہ قیام پذیر تھی۔ عاشق ان کے ساتھ وہاں سے چلا اور ہوٹل پہنچ کر دونوں نے کمرے میں بیٹھ کر بہت دیر تک راز و نیاز کی باتیں کیں اور دنیا و مافیا سے بے خبر ہو کر ایک دوسرے کی آغوش میں چلے گئے اورسماج میں کھڑی اونچی اونچی دیواروں کو ڈھا دیا۔ ساتھ ہی ان بندھے ٹکے اصولوں کو بھی توڑ دیا جن سے آئے دن ہزاروں عاشق و محبوب برباد ہوتے ہے اور موت کو اپنی حیات سمجھ کر اسے گلے سے لگا لیتے ہیں۔

ملا کی نظموں میں جو خاص عنصر یا یوں کہیں کہ نمایاں چیز نظر آتی ہے وہ محبت، اخوت، بھائی چارگی، مساوات اور عدم تشدد اور انسانیت ہے جو کسی ذات، پات فرقے سے گھر کر نہیں رہتی بلکہ آزاد ہے اور اپنا راستہ آپ تلاش کر لیتی ہے۔ اسے کسی کی محتاجگی نہیں اور نہ ہی کسی کا خوف ہے۔ اس نظم کے ذریعہ ملا نے سماج میں پھیلی ہوئی کم ظرفی اور چھوٹی سوچ رکھنے والوں پر ایک قاری ضرب کی ہے اور صدائے احتجاج بلند کر کے محبت کے دشمن اور انسانیت کے دشمن کو Challengeکیا ہے۔ ملا نے اپنی باتوں میں اس بات کا با بانگ دہل اعتراف کیا ہے کہ میں ترقی پسند نہیں ہوں پر ملا کے ذہن و دماغ کی جو اپج ہے اس میں کہیں نہ کہیں ترقی پسندیت کی بو آتی ہے جو ان کے نظموں کا نمایاں عنصر ہے۔ اور نظم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کی ان کی نظمیں ترقی پسندیت سے لبریز ہیں۔ ان کی ہر نظم انسانیت کے ساتھ سماج کو ایک درس بھی دیتی اور سبق آموز بھی ہیں۔ جو قاری کو کچھ نہ کچھ ضرور دے جاتی ہیں۔ ہر بند خود میں ایک دنیا سموئے ہوئے ہے اور جوش و خروش کا امنڈتا طوفان بھی لیے ہوئے ہے۔ نظموں کی معنویت کا یہ عالم ہے کہ ہر بند پر کئی کئی صفحات سیاہ کئے جا سکتے ہیں۔ پروفیسر آل احمد سرور کا نظریہ ملا کی نظم کے لیے کیا ہے یہ بھی دیکھیں :

’’ملا کی شاعری کا کوئی تذکرہ اس وقت تک مکمل نہ ہو گا جب تک ان کی طویل نظم ’’ٹھنڈی کافی ‘‘ کا نام نہ لیا جائے۔ اس نظم میں ہمیں محبت کی وہ فضا ملتی ہے جو اس دنیا کے ہوتے ہوئے بھی آسمانوں کی ہمراز ہے اس کا فطری بہاؤ اور ارتقاء، اس کی موزوں و متناسب تصویریں اس کے نفسیاتی لمحے اور شوخ اشارے اسے کامیاب محبت کا ایک دلکش ڈرامہ بنا دیتے ہیں۔ اس نظم کی فضا میں دو کردار ابھرتے ہیں اور دونوں جادو کے کرشمے نہیں اس دنیا کے انسان ہیں جو مل بیٹھتے ہیں تو دنیا کچھ اور حسین اور خوش گوار ہو جاتی ہے۔ جو ذہنی پرچھائیاں نہیں گوشت پوست کے انسان ہیں۔ یہ نظم جدید بھی ہے اور لذیذ بھی‘‘۔

ملا جھوٹی شہرت اور سستے نام و نمود کے لیے کبھی کسی کے آگے پیچھے نہیں دوڑتے تھے۔ ان کی نظموں سے ان کے ذہن کی وسعت اور وسیع النظری کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مزید نظم کی وضاحت کے لیے ڈاکٹر عبادت بریلوی بقول:

’’اس نظم میں وہ جدید انداز بیان اور جدید طرزِ ادا، نئی ایمائیت اور نئے فنکارانہ شعور سے بھی متاثر ہوتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ‘‘۔

باتیں تو بہت ہوئی اب نظم کے کچھ بند ملاحظہ کریں اور ملا کے قلم کا جادو دیکھیں

دیکھ کر مجھ کو وہ اک بار ہوئی حیراں سی

رُخ پہ پھر ایک تبسم کی کرن دوڑ گئی

اک کرن جو نہیں معلوم کہاں سے پھوٹی

آج تک جس کی حقیقت کبھی مجھ پر نہ کھلی

اس کی آنکھوں کی کہ ہونٹوں کے مفاضات کی تھی

بند بازار تھے سڑکوں پہ تھی بجلی کی قطار

تھک کے سوئی ہوئی دلہن شہر کے پہنے ہوئی بار

دھندلے دھندلے سے مکانات کہ سینے کا ابھار

ہلکی ہلکی سی ہوا سانس کی جیسے رفتار

عصمتِ شہر پہ چادر پڑی رات کی تھی

میں نے یہ کہہ کے کہ نہ وقت ہے رخصت مانگی

بولی ٹھہرو ابھی جاتے ہو کہاں بیٹھو بھی

میرے تھرماس میں تھوڑی سی ہے ٹھنڈی کافی

آؤ پی لو میری خاطر ہی سہی اک پیالی

ہر ادا صبر شکن اس کی مدارات کی تھی

 

ہو گئی دونوں پہ پھر اک خاموشی طاری

اب وہ باتوں میں روانی تھی نہ شوخی نہ ہنسی

جیسے لوہے کی سلاخوں میں گھرے دو قیدی

دور ہی دور سے آنکھوں میں کہہ لیں وہ گھڑی

پا بہ زنجیر اسیروں کی ملاقات کی تھی

ٹوٹے بوسیدہ تمدن کے کگارے آخر

رہ گئے طاق پہ دنیا کے اجارے آخر

قد آدم اٹھے سینوں کے شرارے آخر

ایک آواز میں دو جسم پکارے آخر

گفتگو حسن و محبت میں مساوات کی تھی

 

پاسبانِ چمنِ دہر سے شاید ہوئی بھول

غم کی کیاری میں اگا ایک مُسرت کا بھی پھول

عشق نے جھونک دی پھر چشم روایات میں دھول

کُرہِ خاک پہ کچھ دیر تھا جنت کا نزول

رات جیسے کسی دنیائے طلسمات کی تھی

اپنے معراج ترنم پہ تھا سازِ فطرت

ایک نغمہ تھا تکلم تو خموشی اک گت

چشم و لب کوثر و تسنیم تو بازو جنت

سادہ سی سادہ ہر اک بات میں بھی اُس ساعت

ایک رنگینیِ پُر کیف محاکات کی تھی

بقول جبار علی رضوان انصاری:

’’ملا صاحب کے کلام میں یہ نظم (ٹھنڈی کافی)منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ ’’ٹھنڈی کافی‘‘ میں پیش کردہ تصویریں زندگی سے مکمل طور سے بھرپور ہیں۔ رعنائی، رنگا رنگی، آہنگ و ترنم، بانکپن وغیرہ کے حسین امتزاج نے نظم کو حسن و موسیقی کا ایک لاثانی پیکر بنا دیا ہے ‘‘۔

ملا کی نظموں کی اہمیت، معنویت، معنی آفرینی، تخیل کی لے، منظر کشی، امیج کاری، اور ساتھ ہی نیچر ان کا خاص انداز بیان لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے۔ نظم شروع سے آخر تک قاری کو اپنے ساتھ لے کر چلتی ہے اور کچھ کچھ دیر میں نئے نئے تجربات و احساسات اور رنگ روپ سے آشنا بھی کراتی ہے۔ کبھی دنیا کی سیر کراتی ہے، تو کبھی جنت کی، کبھی بچھڑ نے کے ڈر سے ڈراتی ہے تو کبھی دلاسا دیتی ہے، کبھی انقلابی صورت اختیار کرتی ہے تو کبھی نرم نازک باہیں پھیلا کر اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ نظم کا رومان، ڈرامائی عنصر اور افسانوی طریقۂ کار ہی اصل میں اس کی جان ہے۔

ملا کی نظموں میں ایک نظم ’’مریم ثانی‘‘ بھی ہے جس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ یہ نظم ایک خط کے جواب میں لکھی گئی ہے۔ یہ طویل نظم ملا کے رومانی ذہن کی گواہی بھی دیتی ہے اور سماج میں پھیلی ہوئی برائی کی طرف خاص طور سے اشارہ بھی کرتی ہے۔ معاشرے میں پل بڑھ رہے درد و غم کو نظم کا پیکر بنا کر پیش کیا گیا ہے جس سے عام انسان کو یا قاری کو اپنے درد و کرب نظر آنے لگتے ہیں۔ ملا کی نظمیں آپ بیتی کی شکل میں ہیں جو ملا کے کمال سے جگ بیتی کی شکل اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ان کی نظموں میں ہم وہی دیکھتے ہیں جو معاشرے میں جیتا جاگتا ہے پر اچھوتے اور الگ ڈھنگ کے ساتھ جو سوئے ہوئے ذہن کو بیدار کرتا ہے۔ ملا نے اپنی نظموں کے باعث ان چیزوں کو منظر عام پر لایا ہے جنہیں عموماً عام لوگوں کی نگاہ نہ دیکھ پاتی ہے اور ان کا ذہن و دماغ محسوس کر پاتا ہے۔ ملا کی نظموں نے انسانوں کو بیدار بھی کیا ہے، ان میں جوش بھی بھرا ہے اور انھیں ان کی ذمہ داری کا احساس بھی دلایا ہے۔ علی جواد زیدی بقول:

’’مریم ثانی جیسی خوبصورت، متحرک، نرم اور گل گوں نظم میں بھی ان کا ذاتی اور انفرادی غم، معاشرے کی غم انگیز فضا کا ایک اٹوٹ حصہ بن جاتا ہے۔ ایسی نظموں میں وہ فقیہ، واعظ اور ناصح بھی نہیں، مشکک بھی نہیں ہیں، کورے فلسفی بھی نہیں ہیں بلکہ وہ ایک حساس مفکر اور ایک جری فنکار ہیں۔ انھوں نے جو طریقہ فکر اور طرز اظہار اپنایا ہے وہ تلوار کی دھار پر رقص کرنے کے مرادِف ہے۔ ذرا سی لغزش خطرناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے اور یہ بات فنی بلوغ کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ فکر کی بلاغت، نظر کی توانائی اور لہجے کی خوش آہنگی ان کے فن کو بقول آل احمد سرور ’’لطیف و منفرد‘‘ بنا دیتی ہے۔ اسی انفرادیت کا اعتراف احتشام حسین نے ان لفظوں میں کیا ہے ’’ان کے صاف و شفاف اور ذکی الحس ذہن اور انسانی دکھ درد کے تصور سے خون ہو جانے والے دل، دونوں سے مل کر مخصوص شاعرانہ انداز سے زندگی کو فن کی گرفت میں لیا ہے۔ ان کا ایسا انفرادی رنگ ہے جسے انھوں نے شاعرانہ، مترنم اور دل کش زبان میں پیش کیا ہے۔ اس رنگ میں ان کے حریف مشکل ہی سے نکلیں گے ‘‘

موصوف کی تحریروں سے بہت سے ایسے پہلو اجاگر ہوتے ہیں جو عام قاری کی نگاہوں سے عموماً اوجھل رہ جاتے ہیں۔ اصل میں یہ نظم عاشق و محبوب کی ناکامیاب محبت کی داستان پر مبنی ہے جو ماضی کے دھندلکوں میں اپنی دنیا تلاشنے نکلے ہیں اور ہاتھ میں وہی تاریکی آتی ہے جو دنیائے محبت کا اصول و ضوابط میں شامل کر دیا گیا ہے یعنی بے وفائی، رسوائی، عاشق کے حصہ میں یہی چیزیں آتی ہیں اور وہ ایک ہی سوال بار بار پوچھتا ہے۔ ’’مجھ سے ناراض ہو کیوں کچھ مجھے معلوم تو ہو؟‘‘ ’’دل تمھیں دے بھی چکا تم اُسے ٹھکرا بھی چکیں ‘‘عاشق صرف ناراضگی کی وجہ جاننا چاہتا ہے۔ لیکن محبوب کے ناز و نکھروں کے سامنے سر خم کر دیتا ہے۔ نظم عشق محبت کی کہانی پر مبنی ہے۔ تخیل کی بلند پروازی نے نظم میں جان ڈال دی ہے۔ تشبیہ، استعاروں اور تلمیحات و اشارات کے استعمال نے نظم کی معنویت میں چار چاند لگا دئے ہیں۔ ملاحظہ کریں کچھ بند ؎

 

مجھ سے ناراض ہو کیوں کچھ مجھے معلوم تو ہو؟

دل تمھیں دے بھی چکا تم اُسے ٹھکرا بھی چکیں

اب تمھیں میری خموشی سے شکایت کیا ہے ؟

جس کے ہر تار کو خود چھیڑ کے تم توڑ چکیں

بے صدائی پہ اب اُس ساز کی حیرت کیا ہے ؟

 

یہ خموشی نہیں جسے میرے لب تک آ کر

جم گئی ہے میرے ترسے ہوئے لب کی آواز

مجھ کو تسلیم مگر میری خموشی ہے عطا

مجھ میں یہ ظرف نہ تھا چوٹ سہوں اور ہنسوں

ہاتھ مگر پھر بھی تمھارے لیے زیبا تو نہ تھا

تم کرو میری خموشی کا گلا

تم نے سوچا بھی کبھی وجہ خموشی کیا ہے

جس کی نظروں سے جل اٹھتے تھے شبستاں میں چراغ

جس کے نغموں سے ہر ایک ساز میں جاں آتی تھی

وہی خود شمع فسردہ کی طرح چپ کیوں ہے !

اور میری ماضیِ رنگیں کی درخشاں تصویر

یک بیک جھاڑ کے گزرے ہوئے ایام کی گرد

آ گئی پیش نظر

جیسے کہرے کی سیاہی کی تہوں سے ابھرے

کانپتی اور ٹھٹھرتی ہوئی دھُندلی دھُندلی

پوس کی چاندنی رات

آ گئے سامنے ایامِ گزشتہ میرے

وہ میرا دورِ تبسم وہ میرا عہدِ سخن

 

وہ امیدوں کا زمانہ وہ تمناؤں کے دن

جب تمھیں اپنی ہر ایک سانس میں شامل پا کر

میں نے محسوس کیا تم سے محبت ہے مجھے

مجھ کو معلوم نہیں عشق کسے کہتے ہیں

یہ اگر قیس کے آزار کا ہے دوسرا نام

مجھ کو منظور مرے عشق کا دعویٰ باطل

مگر اک زیست کے ہر خواب تمنا کی اگر

کسی اک آنکھ سے تعبیر کا خواہاں ہونا

اپنے ہر شوق کے افسانۂ رنگیں کی اگر

کسی اک نام سے زیبائشِ عنواں ہونا

اور اک جسم کے بے چین تقاضوں کے لیے

کسی آغوش کی نرمی میں تسلی کی تلاش

موجِ بے تاب کی اک امن کی ساحل کی تلاش

دل ہم درد سے آسودگیِ دل کی تلاش

اور اس زیست کے پر خار بیابانوں میں

ہاتھ اک ہاتھ میں لے کر کسی منزل کی تلاش

یہ محبت ہے تو کی میں نے محبت تم سے

اور اگر تم اس جذبہ کو ہوس کہتی ہو

ہاں مجھے ناز ہے اس پر کہ ہوس مند ہوں میں

تم نہ مانو کہ ہے حوا کا لہو تم میں رواں

مجھ کو تسلیم کہ آدم کا جگر بند ہوں میں

محبوب کے ظلم و جبر کے بعد بھی عاشق صادق کو ایک امید کی لے نظر آتی ہے کہ شاید اب ہمیں محبت بھرے کچھ بول محبوب کی جانب سے مل جائیں گے اور اسی امید کے ساتھ وہ ہر دن کسی طرح گزارتا ہے۔ وہ محبوب کو ماضی کی دھندلکوں میں لے جاتا ہے اور اپنی باتوں سے اور ان یادوں سے اس کے من کو موہ لینے کی کوشش کرتا ہے لیکن سب ناکام ہے۔ ہر بار ٹوٹتا ہے اور پھر کھڑا ہو کر اپنی امیدوں کے چراغ میں تیل ڈالتا ہے۔ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ تم جسے ہوس کہتی ہو وہ میری پاک محبت ہے۔ جب عاشق ہر طرح کی گریہ و زاری کر کے تھک ہار جاتا ہے تو پھر الزام لگاتا ہے کہ تمھیں محبت و الفت کی تلاش نہیں تھی بلکہ پرستش کرنے والے کی تلاش تھی۔

اس نظم میں بھی ملا نے سماج کو اور دھرم کے نام پر بنے ہوئی استھلوں اور کتابوں کے غلط مفہوم کو واضح کر کے کمانے اور لوٹ کھسوٹ مچانے والوں کو گھیرے میں لیا ہے۔

ملا کے قلم کی آب و تاب میں سیاسی پہلو کم ہیں وہ جو کہتے ہیں وہ کرتے بھی ہیں۔ ان کے قلم کو نہ ہی کوئی خرید سکتا ہے اور نہ ہی وہ اپنی نظریات کو چند روپیوں کی خاطر کسی کو بیچ سکتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ملا کے کلام آج بھی ہمارے ذہن و دماغ کے سوئے ہوئے دریچوں کو وا کرتے ہیں ساتھ ہی ہمیں محظوظ بھی کرتے ہیں۔ اداس لمحوں میں ہمیں ہنساتے بھی ہیں اور غم میں مسکرانے کا حوصلہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ ملا کے کلام کا جادو ہی ہے جو آج سر چڑھ کے بول رہا ہے۔ ملا کی شخصیت کی صحیح ترجمانی جناب شمیم طارق کے ان جملوں سے ہو گی:

’’جو لوگ سمجھتے ہیں کہ معاوضہ دے کر اپنی تعریف میں مضمون لکھوا لیں گے یا کرایہ کے لوگوں سے زندہ باد کے نعرے لگوا لیں گے تو تاریخ میں زندہ رہ جائیں گے وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ بادشاہوں اور امیر زادوں نے اپنی شان میں پوری پوری تصانیف شائع کرا دی تھیں مگر وقت سے پہلے ہی مر گئے تھے۔ دولت، اقتدار اور نمود و نمائش پر جینے والوں کا آئندہ بھی یہی حشر ہوتا رہے گا مگر ملا ؔ (حارث)مرحوم کا اخلاص اور ان کا طرز عمل اختیار کرنے والے زندہ رہیں گے ‘‘۔ ۲ اکتوبر ۲۰۱۵  انقلاب صفحہ نمبر۶

مختصر یہ کہ ملا کی شاعری اس لیے بھی زیادہ خاص، اہم اور اثر انداز ہے کیوں کہ یہ اپنی الگ راہ بنانے کے ہمیشہ قائل رہے۔ ان کے سوچنے سمجھنے کا انداز لوگوں سے بالکل جدا ہے جو ان کے کلام کو معنوی فکر اور مستحکم جذبہ عطا کرتا ہے۔ ملا کے اشعار میں ایک عجیب و غریب سماجی، سیاسی، اقتصادی، ادبی، زبانی فکر نظر آتی ہے۔ ان کے اشعار میں کبھی کبھار کھنکھناہٹ اور جھنکار بھی سنائی دیتی ہے لیکن ایک خوش گوار معتدل اور فکر انگیز کھنک ہمیشہ سنی بھی جا سکتی اور محسوس بھی کی جا سکتی ہے۔ جو اردو سے ان کی بے پناہ عشق اور وکالت کی دلیل ہے۔ شاید اسی لیے مسعود حسین نے کہا تھا۔ ’’کوئی مائی کا لال ایسا ہے جس نے اتنی جرأت اور دلیری کے ساتھ یہ کہا ہو ’’کہ میں مذہب چوڑ سکتا ہوں لیکن زبان نہیں چوڑ سکتا ہوں ‘‘یہ بات ہر ادیب یا شاعر کہنے کی جرأت نہیں کر سکتایہ اردو سے ان کے قلبی لگاؤ کی دلیل ہے ‘‘۔

یہ تھے جسٹس پنڈت آنند نرائن ملا اور ان اردو دوستی جو مذہب سے پہلے زبان کو ترجیح دینے کے قائل تھے۔ ملا کا ایک وصف یہ رہا کہ جو دل میں تھا وہی زبان پے لاتے تھے۔ ملا کے اشعار میں دور حاضر میں ہونے والے تمام تر واقعات و حادثات جیتے جاگتے نظر آتے ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے جو ان کے کلام کو آج بھی زندہ و تابندہ رکھے ہوئے ہیں۔

٭٭٭

کتاب ’آنند نرائن ملاؔ : حیات اور فن‘ : مرتبہ: عزیز نبیؔل، آصف اعظمی کا ایک حصہ

تشکر: عزیز نبیلؔ جنہوں نے مکمل کتاب کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید