FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

مقالات کلیم

 

 

کلیم احسان بٹ

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

 

انتساب

 

عزیز دوست شیخ عبدالرشید

کے نام

 

 

 

پیش لفظ

 

اس کتاب کی اشاعت قدرے نہیں بلکہ کافی تاخیر سے ہو رہی ہے۔ یوں تو ’’ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا‘‘ کہہ کر اپنی تمام کوتاہیوں کی پردہ پوشی ممکن ہے لیکن حقیقت یہ ہے اس تاخیر میں میری کاہلی اور تساہل کا دخل زیادہ ہے۔ مجھ میں کام دوسروں پر ٹالنے کی بری عادت پائی جاتی ہے۔ گجرات میں تھا تو میری ہر کتاب برادرم افضل راز چھاپ دیتے تھے اور اشاعت کے تمام مراحل کی ذمہ داری ان کے سپرد کر کے میں آرام سے گھر بیٹھ کر کتاب آنے کا انتظار کرتا رہتا۔ لین دین کا معاملہ بھی ’’حساب دوستاں در دل‘‘ والا ہی تھا۔ مگر جب دسمبر۲۰۱۰ء راولپنڈی آ گیا تو میرے لیے مشکل ہو گیا کہ اب بھی یہ ذمہ داری انہی پر ڈالتا رہوں۔ اس وقت میری شاعری کی کتاب ’’حیرت باقی رہ جاتی ہے‘‘ اشاعت کے مراحل میں تھی۔ ان آخری مراحل میں جس قسم کی الجھنیں پیدا ہوئیں وہ مجھ جیسے آرام پسند کو پریشان کرنے کے لیے کافی تھیں۔ اس لیے میں نے آئندہ اپنی کتابوں کی اشاعت کے لیے راولپنڈی میں کسی دوست کی تلاش شروع کر دی۔ اس تلاش میں مجھ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی کیونکہ یہاں کتابیں چھاپنے والے تو بہت تھے لیکن دوست کوئی نہ تھا۔

۲۰۱۴ء میں جب میں نے اس کتاب کو چھاپنے کا ارادہ کیا تو برادرم بشیر رانجھا نے اپنی خدمات پیش کیں۔ میں نے حوصلہ پایا تو مضامین اکٹھے کیے ، محترم شیخ عقیل احمد نے کمال محبت سے کام لیتے ہوئے مختصر عرصہ میں مفصل مقدمہ تحریر فرمایا ، میں نے سب کچھ کمپوز کیا، پروف پڑھے ، منیر فیاض نے بار دگر پڑھے ، اغلاط کی درستی بھی بشیر رانجھا پر ڈالی۔ ان سے مارچ ۲۰۱۵ء تک کتاب کی اشاعت کا وعدہ لیا اور مطمئن ہو کر بیٹھ گیا۔ میرا یہ اطمینان ۲۰۱۶ء کے اوائل تک اضطراب میں بدل گیا اور میں نے ان سے مسودہ واپس لے کر دوبارہ افضل راز کی خدمات ہی میں پناہ لینے کی کوشش کی۔ اس گومگو میں سال بھر اور بیت گیا۔

اس تاخیر میں بہتر کی ایک صورت یہ پیدا ہوئی کہ کتاب کی پروف ریڈنگ کے لیے زیادہ وقت حاصل ہوتا رہا۔ منیر فیاض جو کالج میں شعبہ انگریزی کے استاد تھے، نے میری پروف ریڈنگ کے بعد پروف ریڈنگ کی تو کافی اغلاط موجود تھیں۔ اس کے بعد کالج میں ہمارے شعبہ میں ایک دوست نبیل مشتاق کا اضافہ ہوا تو میں نے پروف ریڈنگ کے لیے ان کی خدمات حاصل کیں۔ کچھ اور اغلاط دور ہو گئیں۔ اس کے بعد اب جبکہ اس چھاپنے کا ایک دفعہ پھر امکان پیدا ہوا تو میں نے ایک مرتبہ پھر پڑھ لینا مناسب سمجھا۔ اس طرح کچھ اور غلطیاں دور کرنے میں آسانی پیدا ہوئی۔ اب بھی اگر کوئی غلطی پائی جائے تو اسے کمپیوٹر کی ہٹ دھرمی سمجھا جائے مجھے یا میرے دوستوں کو اس سلسلے میں معاف رکھا جائے۔

اس کتاب میں موجود تمام مضامین مختلف مقتدر ادبی جریدوں میں چھپ چکے ہیں۔ اس کے باوجود مجھے ذاتی طور پر اس کتاب کی ضرورت ہمیشہ محسوس ہوئی۔ میں اپنی تساہل پسندی کا ذکر کر چکا ہوں۔ مختلف جریدوں کو سنبھالے رکھنا اور دوستوں کی نظروں سے بچائے رکھنا کافی مشکل کام ہے۔ میرے بہت سے مضامین اب میرے پاس موجود نہیں۔ اس لیے مجھے یہی کام آسان لگتا ہے کہ دستیاب مضامین کو ایک کتاب کی شکل میں جمع کر دیا جائے تاکہ محفوظ رہ سکیں۔

انہی سالوں میں میری شاعری پر ایم اے کی سطح کا ایک تحقیقی مقالہ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد میں لکھا گیا۔ پھر میری ادبی خدمات پر ایم فل کی سطح کا تحقیقی مقالہ فیصل آباد یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے منظور ہوا۔ یہ مقالہ ابھی زیر تکمیل ہے۔ اس عزت افزائی نے مجھے اپنے تمام کام کو جلد از جلد کتابی شکل میں محفوظ کرنے کی رغبت دلائی۔ میں اپنے دوستوں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ہمیشہ نہ صرف مجھے عزت دی بلکہ ہر طرح سے مدد گار بھی رہے۔ کتاب کا سرورق برادرم ڈاکٹر اطہر قسیم صدر شعبہ اردو نے اپنی تمام تر مصروفیات سے وقت نکال کر بنایا۔ برادرم منیر فیاض اردو کے باکمال شاعر اور انگریزی کے استاد ہیں۔ انہوں نے نہایت توجہ سے کتاب کے پروف پڑھے۔ عزیزم نبیل مشتاق شعبہ اردو میں آئے تو انہیں پروف پڑھنے کا کام سونپا جو انہوں نے انتہائی محنت سے کیا۔ شعبہ اردو ہی کے استاد برادرم شہباز علی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ وہ ایک نامور موسیقار اور موسیقی کے موضوع پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ کتاب کی اشاعت کے تمام مراحل انہوں نے اپنے ذمے لے لیے تھے مگر عزیزی کاشف منظور کے مشورے پر میں نے یہ کام مظہر سلیم مجوکہ کے سپرد کیا۔ میں ان تمام احباب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ ان کی مدد کے بغیر اس کتاب کا اشاعت شاید ابھی بھی ممکن نہ ہوتی۔ شیخ عقیل احمد بھی میرے خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں۔ انہوں نے نہ صرف کم وقت میں ایک مفصل مقدمہ تحریر کیا بلکہ کتاب کی اشاعت کے بارے میں بار بار پوچھتے بھی رہے۔ ان کا لکھا ہوا مقدمہ کہکشاں راولپنڈی میں شائع ہو گیا لیکن کتاب شائع نہ ہونا تھی نہ ہوئی۔ آخر انہوں نے بھی مایوس ہو کر پوچھنا چھوڑ دیا۔

ان مضامین کے معیار پر مجھے کوئی اصرار نہیں۔ بس یہ وہ کوشش ہے جو میں کر سکا۔ ان مضامین میں ایک دو مضامین ہی ایسے ہیں جو فرمائشی ہیں۔ باقی مضامین میں نے اپنی افتاد کے مطابق لکھے۔ فرمائشی مضامین میں بھی غیر جانبداری میرا اصول رہی۔ ان مضامین کی اشاعت سے اردو ادب میں یقیناً کوئی انقلاب پیدا نہیں ہو گا ہاں میری تسکین ہو جائے گی ، میرے قارئین اور آئندہ محققین کو یہ مضامین مختلف جگہ پر تلاش نہیں کرنے پڑیں گے اور اگر ضرورت ہوئی تو وہ ان کتاب کی رہنمائی میں ان رسائل اور جرائد تک بھی پہنچ سکیں گے جن میں یہ مضامین شائع ہوئے۔ مجھے اپنی تمام تر کم علمیوں کا اعتراف ہے اور میں نے اللہ تعالیٰ سے رب زدنی علما کے سوا کم ہی کوئی دعا مانگی ہے۔ اور اگر ان مضامین کے مطالعہ سے کسی کے علم کچھ اضافہ ہوتا ہے تو میں سمجھوں گا میری محنت رائے گاں نہیں گئی۔

کتاب کی سابقہ شکل بحال رکھی گئی ہے اور دو مضامین کا آخر میں اضافہ ہوا ہے۔ تنویر پھول کا قطعہ تاریخ بھی جوں کو توں شامل رکھا کہ دوستوں کے احسان بھلانا مجھے آتا نہیں۔

کلیم احسان بٹ(راولپنڈی)

03456882170

 

 

 

مقدمہ

 

کلیم احسان بٹ راولپنڈی کے ایک کالج میں اردو کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر و ادیب بھی ہیں۔ وہ تقریباً ایک درجن کتابوں کے مصنف ہیں جن میں ان کے مجموعہ کلام کے علاوہ تنقیدی اور تحقیقی تصانیف قابل ذکر ہیں۔ زیر بحث تصنیف ’’مقالات کلیم‘‘ ان کے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں گیارہ مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کلیم احسان بٹ ادب کی تمام شعری اور نثری اصناف کا مطالعہ کافی انہماک سے کرتے ہیں اور تمام پہلوؤں پر کافی غور فکر کے بعد اظہار خیال کرتے ہیں۔ ان کے مضامین کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر تنقیدی اور تحقیقی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔

زیر بحث کتاب میں شامل مضمون ’’کلام میر میں مقاطع کا مطالعہ‘‘ میں انہوں نے صرف میرؔ کے مقطعوں کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا الگ مضمون ہے۔ واضح ہو کہ غزل کے آخری شعر میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے جسے ’’مقطع‘‘ کہتے ہیں۔ مطلع اور مقطع، غزل کے دوسرے اشعار کے مقابلے میں زیادہ پُر زور اور پُر اثر ہوتے ہیں۔ شاعر اپنے دلی جذبات و احساسات کا بیان خاص طور سے مقطع میں کرتا ہے، جس سے شاعر کی شخصیت کا مکمل عکس نظر آتا ہے اور اس کے ذہنی رجحان کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ فراقؔ گورکھپوری نے مقطع کی خوبی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’مقطع غزل کے سانچہ کا وہ نشان ہے، جس میں پوری غزل کا اساسِ تغزل اپنے پورے اتار چڑھاؤ، تیزی و نرمی کے ساتھ بھی دیا جاتا ہے اور جہاں زمزمہ تغزل کی سرحدیں سکوتِ ابدی سے مل جاتی ہیں۔ مقطع سو فی صدی داخلی چیز ہے اور اس میں نفسیاتی اور وجدانی ارتعاشات آخری بار جلوہ نما ہوتے ہیں۔ ‘‘

مقطع کی انہیں خوبیوں کے مد نظر ناصرؔ کاظمی نے ’’انتخاب میرؔ ‘‘ میں میرؔ کی غزلوں کے مقطعوں کو شامل انتخاب کیا ہو گا جس کے مطالعہ نے کلیم احسان بٹ کو متوجہ کیا اور انہوں نے اس کا خورد بینی سے جائزہ پیش کیا۔ کلیم احسان بٹ نے مقطع کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے اشارہ کیا ہے کہ میرؔ کے بیشتر مقطعوں میں صیغہ جمع متکلم استعمال کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ میرؔ کو اپنی عظمت کا احساس تھا۔ کلیم نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ میرؔ نے اپنے مقطعوں میں مکالماتی انداز اختیار کیا ہے۔ مکالماتی انداز بیان اور صیغہ جمع متکلم کے استعمال سے قاری بھی ان کے ذاتی تجربے میں شامل ہو جاتا ہے۔ اور ان کے اشعار میں یہ خوبی پیدا ہو جاتی تھی کہ:

کہانی میری روداد جہاں معلوم ہوتی ہے

جو سنتا ہے اُسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے

غزل کے اشعار کی یہی وہ خوبی ہے کہ قاری شاعر کو خود کے قریب محسوس کرتا ہے جس سے غزل کے اشعار بے حد مقبول ہو جاتے ہیں اور میرؔ تو خدائے سخن تھے لہٰذا ان کے مقطعوں کا کیا کہنا۔ کلیم احسان بٹ نے میرؔ کے مقطعوں کی مقبولیت کے اسباب کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔

ہمارے ادب کی بہت سی اصناف آج کمیاب صرف اس لیے ہو گئیں کہ ہم حد سے زیادہ سہل پسند ہو گئے ہیں اور ہمارا یہ تساہل ہمیں عرق ریزی کے جوہر سے نا آشنا کر چکا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم ہر اس صنف سے گریز کرنے لگے جس صنف میں عرقِ دماغ کی آمیزش ناگزیر ہے۔ تحریکیں اور رجحانات جہاں ادب پر چھا جانے والے جمود کی پرت کو توڑنے کا خوش گوار فریضہ انجام دیتے ہیں وہیں وہ اپنے جلو میں بے شمار نئی اصناف بھی لاتی ہیں جن میں بیشتر اصناف ردّ و قبول کے مرحلے سے گذر کر خود بخود حاشیے میں چلی جاتی ہیں لیکن کچھ اصناف اپنی ہمہ گیری کے سبب عوام میں قبولیت کی سند پاتی ہیں۔ یہاں جس قدیم فن کا ذکر مقصود ہے وہ ’’فنِ تاریخ گوئی‘‘ ہے جسے ہم آج بھلاتے جا رہے ہیں لیکن آج بھی ایسے ادیب و شاعر موجود ہیں جنہوں نے ہَوا کے رُخ کے ساتھ ساتھ چلنے کے بجائے مخالف سمت میں چلنا مناسب سمجھا۔ ان ادیبوں اور شاعروں میں کلیم احسان بٹ خاص اہمیت کے حامل ہیں جنہوں نے ’’مرگ غالبؔ اور قطعہ ہائے تاریخ وفات‘‘ میں اس مشکل فن سے بحث کی اور پھر سے فن کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

تاریخ گوئی ایک فن ہے جسے شعری اصناف سخن میں شمار نہیں کیا جاتا لیکن تاریخی قطعے بے مثال ہوتے ہیں، ان کی دلکشی و نغمگی کو دیکھتے ہوئے اس فن کو شعری اصناف کا لافانی حصّہ قرار دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔ عہد غالبؔ میں فنِ تاریخ گوئی کی حیرت انگیز ترقی ہوئی۔ اس دور میں اس فن کو اس طرح صنائع بدائع سے آراستہ کیا گیا کہ یہ فن گنجینۂ صنعت کا طلسم بن گیا۔ اس دور میں ذوقؔ غالبؔ، مومنؔ، شیفتہؔ، صہبائیؔ، مجروحؔ، قدرؔ بلگرامی، حاتمؔ علی مہر، سالکؔ، امیر اللہ تسلیمؔ، عبد الغفور نساخؔ۔ محمد علی جو یاؔ مراد آبادی، تفتہؔ وغیرہ نے اس فن میں نہ صرف طبع آزمائی کی بلکہ جودتِ طبع اور حدّتِ فکر کے کیسے کیسے جوہر دکھائے۔ غالبؔ نے بھی بے شمار تاریخیں کہی ہیں حالانکہ انہوں نے اپنے خطوط میں کئی جگہ اس فن سے بے نیازی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ مادۂ تاریخ دوسرے نکالتے ہیں وہ صرف قطعہ کہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی تاریخیں بہت بلند پا یہ ہیں۔ نواب میر جعفر علی خاں کے انتقال پر ایک قطعہ تاریخ لکھا:

گردید نہاں میر جاں تاب دریغ

شد تیرہ جہاں بہ جسمِ احباب دریغ

ایں واقعہ زروئے زاری غالبؔ

تاریخ رقم کرد کہ نواب دریغ

اس میں تعمیہ تدخلہ کے طریقے سے تاریخ نکالی ہے۔ ازروئے زاری یعنی ’’ز‘‘ کے عدد ۷ ’’نواب دریغ‘‘ پر جس کے عدد ۱۲۷۳ ہوتے ہیں بڑھائیں جائیں تو ۱۲۸۰ھ حاصل ہوتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ غالبؔ آخر عمر میں موت کی بہت آرزو کیا کرتے تھے اور ہر سال اپنی تاریخ وفات نکالتے تھے کیوں کہ انہیں لگتا تھا کہ اس سال وہ ضرور مر جائیں گے۔ ناقدین غالبؔ اور مولانا حالیؔ کا خیال ہے کہ ’’مرزا یا تو اس وجہ سے کہ ان کی زندگی فی الواقع مصائب اور سختیوں میں گزری تھی یا اس لیے کہ ان پر نا ملائم حالتوں کا بہت زیادہ اثر ہوتا تھا۔ آخر عمر میں موت کی بہت آرزو کیا کرتے تھے۔ ‘ ‘لیکن غالبؔ ایک زندہ دل انسان تھے۔ وہ مصائب اور سختیوں سے گھبرا کر مرنے کی تمنا کبھی نہیں کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ:

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

بہرحال کلیم احسان بٹ نے اپنے مضمون میں غالبؔ کے مقطعوں اور خطوط کی روشنی میں لکھا ہے کہ غالبؔ جلد از جلد مرنے کے آرزومند تھے اس لیے اکثر مادۂ تاریخ نکالتے تھے اور چاہتے تھے کہ بعد از مرگ ان کی یاد میں تاریخی قطعات اور مرثیے لکھے جائیں۔ لہٰذا غالبؔ کے انتقال کے بعد بے شمار شعرا اور تاریخ گو حضرات نے مرثیے اور قطعات تاریخ لکھ کر خراج عقیدت پیش کیا۔ کلیم احسان بٹ نے ان قطعات کو جمع کیا ہے اور ان پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنی تحقیقی و تنقیدی بصیرت کا ثبوت پیش کیا ہے۔

فارسی کے ماہر عروض شمس قیس رازیؔ نے غزل کی جو تعریف پیش کی تھی اور اس کی روشنی میں فارسی غزل نے جو مقام اور بلندی حاصل کی تھی وہاں تک اردو غزل کبھی نہیں پہنچ پاتی اگر میر تقی میرؔ نے اردو غزل کا معیار متعین نہیں کیا ہوتا۔ میر تقی میرؔ کے بعد غالبؔ نے غزل کی اصل روح کو برقرار رکھتے ہوئے غزل میں وسعت پیدا کی اور غزل کو حسن و عشق کی بھول بھلیوں سے نکال کر اس میں فکر کا پہلو پیدا کر دیا۔ مختصر یہ کہ دونوں شعرا اپنے اپنے دور کے عظیم شاعر اور غزل کے رجحان ساز تھے یہی وجہ ہے کہ اردو کا کوئی بھی عظیم شاعر ایسا نہیں ہے جس نے ان دونوں شعرا کا اثر قبول نہیں کیا ہو اور ان دونوں شعرا کے رنگِ غزل کے ارتعاشات ان کی شاعری میں موجود نہ ہوں اور جن شعرا کی غزل میرؔ و غالبؔ کے رنگ غزل کے اثر سے خالی ہے وہ بڑے  شاعر نہیں ہیں۔ ظاہر ہے ان دونوں عظیم شعرا میرؔ و غالبؔ کی شاعری میں کچھ نہ کچھ مماثلت ضرور ہو گی۔ غالبؔ نے میرؔ سے بھی کچھ اثر قبول کیا ہو گا اور میرؔ کو بھی اندازہ ہو گا کہ غالبؔ کا مقام ایک شاعر کی حیثیت سے مستقبل میں کیا ہو گا۔ کلیم احسان بٹ نے اپنے مضمون ’’غالبؔ معتقدِ میر‘ؔ‘ میں انہی پہلوؤں پر اظہار خیال کیا ہے اور دونوں عظیم شاعروں میں مماثلت کے ایسے پہلوؤں کو تلاش کیا ہے اور انہیں زیر بحث لانے کی کوشش کی ہے جن پہلوؤں تک آسانی سے رسائی نا ممکن ہے۔ کلیم احسان بٹ نے جس طرح غالبؔ کے خطوط اور شاعری کی روشنی میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ غالبؔ کس قدر میرؔ سے متاثر نظر آتے ہیں یہ ان کی تحقیقی، تنقیدی اور شعر فہمی کی صلاحیت کی دلیل ہے۔

پرتوؔ روہیلہ کی تصنیف ’’غالبؔ کے غیر مدون فارسی خطوط‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کلیم احسان بٹ نے ادبی تحقیق کے اصولوں کی وضاحت کی ہے اور ادبی تحقیق کی روشنی میں متذکرہ تصنیف کا جس طرح جائزہ پیش کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کلیم تحقیق و تنقید کے تمام لوازمات اور پہلوؤں کی باریکیوں سے بخوبی واقف ہیں۔ انہوں نے اس مضمون میں ترجمہ اور تخلیق میں جو بنیادی امتیازات ہیں ان پربھی روشنی ڈالی ہے اور غالبؔ کے غیر مدون فارسی خطوط کی خوبیوں اور خامیوں کی بھی نشاندہی کی ہے۔ کتاب کے مختلف صفحات کے ورق پر جو حواشی موجود ہیں کلیم نے ان کا بھی باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے اور ان پربھی اظہار خیال کیا ہے اور بجا فرمایا ہے کہ متن میں اصلاح فرمانا مدون کا حق نہیں ہے۔ مثلاً ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے:

’’حواشی پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض حواشی کا تعلق قاری کی تسہیل سے ہے اور بعض کا متن میں اصلاح سے۔ میرے خیال میں متن میں اصلاح کا حق مدون کو حاصل نہیں۔ اور متن میں کسی قسم کی تبدیلی کا اختیار سوائے مصنف کے کسی دوسرے کو نہیں ہو سکتا۔ مدون کا اولین فرض اس عبارت تک پہنچنا ہے جو مصنف کے قلم سے نکلی تھی۔ اگر اس متن کی املا و معانی پر مدون کو کوئی اعتراض ہو تو وہ حواشی میں کیا جا سکتا ہے تاکہ قاری تک درست متن پہنچے لیکن متن میں تبدیلی مدون کے اختیارات کا ناجائز استعمال ہی سمجھا جائے گا۔ ‘‘

کلیم نے اس عبارت میں جو کچھ لکھا ہے وہ تدوین متن کے اصول کے مطابق ہے۔ اسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کلیم اپنی رائے کا اظہار بے باکی سے کرتے ہیں۔ پرتوؔ روہیلہ نے فارسی خطوط کا ترجمہ پیش کرتے وقت بعض الفاظ اور جملے قوسین کے اندر لکھے ہیں جس سے غالبؔ کا اسلوب کس طرح متاثر ہوا ہے اس پر تفصیلی بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ قوسین میں لکھنے سے اصل معنی و مفہوم کس طرح بدل گئے ہیں۔ الغرض یہ مضمون بھرپور ہے اور اس کا مطالعہ دلچسپ ہے۔

’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ میں مغربی شاعروں، ادیبوں اور ناقدوں کے خیالات پیش کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے یہ بحث چلی آ رہی ہے کہ کیا حالیؔ کو انگریزی ادب، فلسفہ اور مغربی تنقید سے واقفیت تھی؟ اس سلسلے میں بے شمار مضامین اور کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں ناقدین اور محققین کے متضاد خیالات ہیں لیکن سبھی اس بات سے متفق ہیں کہ ’’مقدمہ شعرو شاعری‘‘ اردو کی پہلی باقاعدہ تنقیدی تصنیف ہے۔ کلیم احسان بٹ نے اپنے مضمون ’’مقدمہ شعر و شاعری اور حالیؔ کی انگریزی دانی‘‘ میں انہیں پہلوؤں پر از سرِ نو اظہار خیال کرتے ہوئے اس بحث کو آگے بڑھایا ہے۔

کلیم احسان بٹ نے اپنے مضمون ’’اقبالؔ کا کلام اور نوآبادیات‘‘ میں کافی تفصیل سے علامہ اقبالؔ کے تصور قومیت اور تصور تعلیم کا جائزہ پیش کیا ہے۔ انگریزوں کے ہندوستان میں آنے کے اسباب، انگریزوں کے ذریعہ لائی گئی نئی تہذیب و تعلیم کے اثرات، ہندوستان کے نوجوانوں کی احساس محرومی اور اس کے اسباب، علامہ اقبالؔ کے یورپ جانے سے پہلے قومیت اور تعلیم کے تصورات اور یورپ جانے کے بعد ان کے تصورات میں جو تبدیلی آئی ان کا جائزہ ایک مورخ کی طرح پیش کیا ہے اور اقبالؔ کے کلام کی روشنی میں ان کے نظریہ تعلیم اور نظریہ قومیت کے تصورات پر عمدہ بحث کی ہے۔

در اصل یورپ جانے کے بعد اقبالؔ نے جب مغربی علوم و فنون کا بغور مطالعہ کیا تو انہیں احساس ہوا کہ مغربی علوم و فنون اور فلسفہ کی بنیاد بے حد کمزور ہے۔ لہٰذا مغربی علوم و فنون سے مرعوب ہو کر ہندوستان کے نوجوانوں کو احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ علامہ اقبالؔ کو یہ بھی احساس ہوا کہ مغربی نظام تعلیم میں مادیت پرستی ہے لیکن روحانیت کا فقدان ہے۔ جبکہ ہندوستانی نظام تعلیم اور فلسفے میں روحانیت اور مادیت کی آمیزش ہے۔ مشرقی فلسفہ اور طرز تعلیم کی روایت بہت قدیم اور شاندار ہے جس پر ہمیں فخر کرنا چاہئے اور مغربی فلسفے اور تعلیمی نظریے کے طلسم میں گرفتار نہیں ہونا چاہئے لہٰذا انہوں نے اپنے کلام میں انگریزوں کے علوم و فنون، فلسفہ زندگی اور نظریہ تعلیم و تصورِ قومیت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ایسے نظام تعلیم پر زور دیا جس سے خودی کے پیغام کو عوام تک پہنچایا جا سکے اور خودی کا احساس ہر نوجوان کے دل میں پیدا کیا جا سکے۔ انہوں نے عورتوں کی تعلیم پربھی زور دیا۔ قومیت کے تصور کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر کیا اور کہا کہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ تمام عالم اسلام ہمارا ہے اور ہمارے اندر عالم اسلام سے محبت کا جذبہ بیدار ہونا چاہئے۔ کلیم احسان بٹ نے متذکرہ مضمون میں ان تمام پہلوؤں کا جائزہ پیش کیا ہے جس سے ان کے وسیع ویژن (vision)کا اندازہ ہوتا ہے۔

میر تقی میرؔ اور غالبؔ کے بعد علامہ اقبالؔ رجحان ساز عظیم شاعر ہیں۔ اقبالؔ غزل کے بڑے شاعر ہیں یا نظم کے ؟اقبالؔ کی شاعری میں فکر و فلسفہ حاوی ہے یا ان کا فن وغیرہ سوالات ہمیشہ موضوع بحث رہے ہیں۔ کسی نے انہیں نظم کا سب سے بڑا شاعر قرار دیا ہے تو کسی نے غزل کا۔ کسی نے کہا ہے کہ وہ فکر و فلسفہ کے شاعر ہیں تو کسی نے کہا کہ ان کا فن سب پر حاوی ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ اقبالؔ جتنے بڑے نظم کے شاعر ہیں اتنے ہی بڑے غزل کے بھی شاعر ہیں۔ جہاں تک ان کے فکر و فن کا سوال ہے تو حقیقت یہ ہے کہ ان کا فکر و فلسفہ ان کے فن کے قالب میں ایسے رچ بس گئے ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے فکر و فلسفہ کو شاعری سے جدا کر دیا جائے تو فلسفہ کا اثر کم ہو جائے گا اور شاعری کی رعنائی میں بھی کمی آ جائے گی۔ یعنی دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ یہی ایک عظیم شاعر کی پہچان ہے۔ عظیم شاعر پہلے سے شاعری کے وضع کردہ اصولوں پر چلے یا نہ چلے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ عظیم شاعر جس راستے پر چلتا ہے وہی شاعری کا اصول بن جاتا ہے اور اسی کے وضع کردہ اصولوں پر پوری دنیا چلنے لگتی ہے۔ اقبال ایسے ہی شاعروں میں سے ایک تھے۔ اسی لئے تو انہوں نے جس موضوع کو جس طرح چاہا شاعری کے قالب میں ایسے ڈھال دیا کہ ان کے اشعار میں وہ موضوع گنگنا اٹھا۔ کلیم احسان بٹ نے اقبالؔ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ’’اقبالؔ ایک شاعر ہی نہیں بلکہ شعر کے بڑے ناقد بھی ہیں۔ انہوں نے فنون لطیفہ اور بالخصوص شعر و ادب کے بارے میں اپنی ناقدانہ رائے کا اظہار اشعار میں بھی کیا ہے۔ ‘‘ لہٰذا کلیم نے علامہ اقبالؔ کے ان اشعار کی روشنی میں جن میں علامہ نے فنونِ لطیفہ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ کلیم احسان بٹ کا خیال ہے کہ ’’علامہ اقبالؒؔ نے بنیادی طور پر اپنا نظریہ فن قرآن حکیم کے اصول سے اخذ کیا ہے اور اسی کی روشنی میں فنون لطیفہ کی دوسری تمام شاخوں پر بھی رائے زنی کی ہے۔ اور اس کا ثبوت کلامِ اقبالؔ کے سرسری مطالعہ سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘ کلیم کے اس مضمون کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف علامہ کی شاعرانہ صلاحیت کے معتقد ہیں بلکہ ان کی تنقید اور نظریہ فن کے بھی شیدائی ہیں۔

کلیم احسان بٹ نے مولانا ظفرؔ علی خاں کے مجموعہ کلام ’’ چمنستان‘‘ کے حوالے سے ان کی شاعری کا اجمالی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ مولانا ظفرؔ علی خاں نے اپنی نظموں سے پہلے جو لمبی تفصیل لکھی ہے کلیم نے ان تمہیدوں کی روشنی میں ان کی نظموں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ خان صاحب کے وہ اشعار جو خاص موقعوں پر فی البدیہہ کہے گئے ہیں ان کا بھی جائزہ پیش کیا ہے جو دلچسپ ہے۔

کلیم احسان بٹ نے اپنے مضمون ’’آگ کا دریا میں ہندی زبان کا استعمال‘‘ میں قرۃ العین حیدر کے مشہور و معروف ناول ’’آگ کا دریا‘‘ کا بھر پور جائزہ پیش کیا۔ واضح ہو کہ ناول کا کینوس کافی وسیع ہوتا ہے۔ ناول پوری زندگی کی کہانی پر محیط ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی ناول کئی صدیوں پر محیط ہوتا ہے جس میں کسی ایک ملک یا کئی ملکوں کی تہذیب و تمدن سمٹی ہوئی ہوتی ہے۔ آگ کا دریا بھی نہ صرف ہندوستان بلکہ تمام بر صغیر اور یورپ کے کچھ حصوں کی صدیوں پرانی تہذیب و تمدن کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اس ناول میں قدیم ہندوستان سے جدید ہندوستان تک کی  گنگا جمنی تہذیب کا عکس موجود ہے۔ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب، ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی مذاہب سے آراستہ ہے۔ اس میں کشمیر سے کنیا کماری تک کے مختلف مقامات کے رسم و رواج، اساطیری قصے کہانیاں، مذہبی عقیدے، فلسفے اور زبانوں کی آمیزش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’آگ کا دریا‘‘ اردو کا ناول ہونے کے باوجود خالص اردو ناول نہیں ہے۔ اس ناول میں ہندوستان کی تمام زبانوں کے علاوہ انگریزی زبان کے الفاظ کے استعمال کے نمونے موجود ہیں لیکن ہندی کا استعمال اکثر و بیشتر مقامات پر بر محل ہوا ہے۔ کلیم احسان بٹ نے اپنے مضمون میں ان تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اور یہ بتانے کی بھی کوشش کی ہے کہ چونکہ اردو کا بنیادی ڈھانچہ ہندی کا ہے اور ہندوستان کی تہذیب اردو تہذیب نہیں ہے بلکہ مشترکہ تہذیب ہے اس لیے ناول میں ہندی الفاظ کا استعمال ناگزیر ہے۔ کلیم نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ ’’ آگ کا دریا ‘میں جگہ جگہ ہندی فلسفہ، امن اور شانتی، تلاش حق اور مذہبی رواداری کا ذکر موجود ہے۔ ہندوؤں کی مذہبی کتب کے حوالے اور ان سے اخذ کردہ معلومات بھی ناول میں جگہ جگہ موجود ہیں‘‘ اس لیے ہندی الفاظ سے گریز کرنا مصنفہ کے لیے ممکن نہیں تھا۔ کلیم احسان بٹ نے ہندی الفاظ کے غیر ضروری استعمال پر تنقید بھی کی ہے۔ ایک جگہ بجا فرمایا ہے کہ ’’کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں ہندی کا استعمال غیر مناسب ہے لیکن کئی مقامات ایسے بھی ہیں جہاں ہندی زبان کا استعمال نا گزیر تھا مگر قرۃ العین نے وہاں مفرس و معرب اردو لکھ دی ہے‘‘ ۔ کلیم کے ان بیانات سے ان کے تنقیدی اور لسانی شعور کا پتہ چلتا ہے۔

ایمرسن کا خیال ہے کہ یہ کائنات بے حد خوبصورت ہے۔ ہمارے چاروں طرف سحر انگیز کیفیت کا جال سا بچھا ہوا ہے جو اپنی طرف ناظرین کو متوجہ کرتی رہتی ہے لیکن ہم دنیاوی اور کاروباری معاملات میں اس قدر الجھے رہتے ہیں کہ کائنات کا حسن ہمیں نظر نہیں آتا۔ اگر ہم پھر سے اپنے بچپن میں لوٹ جائیں اور ایک بچّے کی نظر سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ کائنات بے حد حسین ہے۔ فطری شاعر تخلیقی عمل سے گزرتے وقت اپنے لیے یا تو فنٹاسی (fantasy)کی دُنیا خلق کر لیتا ہے یا اپنے بچپن کی دنیا میں چلا جاتا ہے جس سے دنیا کے مناظر اسے بے حد حسین نظر آتے ہیں اور وہ ہر چیز کو حیرت سے دیکھتا ہے اور اس کا اظہار بھی حیرت سے کرتا ہے۔ منیر نیازی در اصل ایک فطری شاعر ہیں اس لیے تخلیقی عمل سے گزرتے وقت اپنے بچپن میں لوٹ جاتے ہیں۔ بچپن کی دنیا فنٹاسیfantasy کی ہی دنیا ہوتی ہے۔ جہاں مناظر قدرت انہیں حیرت زدہ کر دیتے ہیں جس کا عکس ان کی شاعری میں بھی موجود ہے۔ کلیم احسان بٹ نے منیرؔ نیازی کی شاعری کا بغور مطالعہ کیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ منیرؔ نیازی حیرتوں کے شاعر ہیں۔ انہوں نے ان کی شاعری پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے بجا فرمایا ہے کہ ’’منیرؔ نیازی کی شاعری در اصل حیرتوں کی شاعری ہے۔ یہ حیرت منیرؔ نیازی کے اپنے اندر بھی ہے اور کائنات کے رگ و پے میں بھی۔ اور یہی حیرت منیرؔ، قاری کے اندر بھی بیدار کرتا ہے۔ ان کی شاعری کا اصلی ہنر یہی ہے۔ ‘‘

کلیم احسان بٹ نے شریفؔ کنجاہی کی تصنیف ’’جپ جی (گرو گرنتھ صاحب)اک جھات‘‘ کا بھی جائزہ پیش کیا ہے۔ یہ کتاب سکھ مذہب کے بانی ’’گرو نانک دیو جی‘‘ کی پوڑھیوں کے پنجابی اور اردو کے منظوم تراجم ہیں جو آزاد نظم کی ہیئت میں ہیں۔ کلیم کا خیال ہے آزاد نظم کی ہیئت میں ہونے کی وجہ سے اس کتاب کو سمجھنا زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ کلیم نے اس کتاب کا جائزہ پیش کرتے ہوئے جن نکات کی طرف اشارہ کیا ہے ان میں ’’ گرو نانک دیو جی‘‘ کا مذہب اسلام کے تئیں عقیدت و محبت اور ساتھ ہی ’’گرو گرنتھ صاحب‘‘ میں شامل توحید کے نغمے اور بابا فریدؔ شکر گنج کے اقتباسات خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ کلیم کا خیال ہے کہ ہند و پاک کے درمیان جو اختلافات ہیں انہیں دُور کرنے میں یہ کتاب اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ کلیم کا یہ بھی خیال ہے کہ اس کتاب کی مدد سے شریفؔ کنجاہی کے سیاسی اور فکری مسلک کو سمجھنا آسان ہے۔ کیوں کہ ’’فکری حوالے سے ’’بابا گرو نانک‘‘ کو بھگتی تحریک کا نمائندہ کہا جاتا ہے اور صوفیا کا مسلک بھی صلح کل ہی رہا ہے‘‘ ۔ کلیم احسان بٹ نے اس مضمون میں ترجمے کے فن سے بھی بحث کی ہے اور بحیثیت مترجم شریفؔ کنجاہی کے اصل مقام کا بھی جائزہ پیش کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کلیم نہ صرف تخلیقی و تنقیدی تصانیف کے پارکھ ہیں بلکہ فن ترجمہ کی نزاکتوں اور باریکیوں سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔

مختصر یہ کہ کلیم احسان بٹ ایک باصلاحیت اُستاد ہونے کے ساتھ ایک باصلاحیت تخلیق کار، محقق اور ناقد بھی ہیں۔ ان کے مطالعہ کا کینوس کافی وسیع ہے۔ متذکرہ تصنیف ’’مقالاتِ کلیم‘‘ میں ان کی جملہ صلاحیتوں کا عکس موجود ہے۔ مجھے امید ہے کہ قاری اس کتاب میں شامل تمام مضامین کو پڑھ کر مستفید اور لطف اندوز ہوں گے اور اس کتاب کو بھی مقبولیت حاصل ہو گی۔

شیخ عقیل احمد

ایسوسی ایٹ پروفیسر

دہلی یونیورسٹی، دہلی

 

 

 

 

کلامِ میرؔ میں مقاطع کا مطالعہ

 

ناصر کاظمی نے میرؔ کے کلام کا ایک انتخاب کیا تھا جو ۲۰۰۱ ء میں ’’ انتخاب میر‘‘ ؔ کے نام سے جہانگیر پرنٹر نے چھاپا تھا۔ گذشتہ دنوں اس انتخاب کو دیکھ رہا تھا۔ مطالعہ کے دوران میں مجھے احساس ہوا کہ ناصرؔ نے میرؔ کی غزلوں کے مقطعوں کو اکثر شامل انتخاب کیا ہے اور بعض اوقات تو پوری غزل میں سے صرف مقطع ہی انتخاب کیا ہے۔ اس انتخاب نے مجھے مائل کیا کہ میں میرؔ کے کلام میں صرف مقطعوں کا از سر نو مطالعہ کروں اور دیکھوں کہ آخر میرؔ کے مقطعوں میں ایسی کون سی بات ہے جس کی بنا پر وہ انتخاب ٹھہرتے ہیں۔

مقطع کی تعریف جو بالعموم کی جاتی ہے اس کے مطابق ’’غزل یا قصیدہ کا ایسا آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے مقطع کہلاتا ہے‘‘ یعنی جس آخری شعر میں شاعر تخلص استعمال نہ کرے وہ مقطع نہیں اسی طرح آخری شعر کے علاوہ اگر شاعر اپنے تخلص کا کہیں استعمال کرے تو وہ بھی مقطع نہیں کہلائے گا۔

میرؔ نے بعض اوقات مقطع کی بجائے مطلع میں ہی اپنے تخلص کا استعمال کیا ہے۔ اس کی مثال میں میرؔ کے کئی مقبول مطلعے پیش کیے جا سکتے ہیں:

پھر موج ہوا پیچاں اے میرؔ  نظر آئی

شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی

ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے

اُس کی زُلفوں کے سب اسیر ہوئے

شاید میرؔ نے دیگر اشعار میں بھی کبھی اپنا تخلص استعمال کیا ہو مگر میری نظر سے میرؔ کا کوئی ایسا شعر نہیں گزرا۔ اس غرض کے لیے میرؔ کے سارے کلام کا بغور مطالعہ کرنا پڑے گا۔ میرے پیش نظر اس وقت صرف ’’ انتخاب میرؔ ‘‘ ہے جس میں ایسا کوئی شعر موجود نہیں ہے جو مطلع یا مقطع نہ ہو اور اس میں میرؔ نے اپنا تخلص استعمال کیا ہو۔

میرؔ کے مقطعوں کے سرسری مطالعہ سے بھی ایک فوری نتیجہ حاصل ہو سکتا ہے کہ ان کے اکثر مقطعے مکالمہ کی صورت ہیں۔ یوں تو میرؔ کے کلام میں مکالمہ کثرت کے ساتھ موجود ہے لیکن مقطعے اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ میرؔ کے مقطعوں میں مکالمے کا استعمال نہ صرف کثیر ہے بلکہ اس کی ابعاد بھی مختلف و متنوع ہیں۔

مکالمہ کی ایک شکل خود کلامی ہے۔ شاعر اپنے آپ سے ہم کلام ہوتا ہے۔ مکالمہ کی یہ شکل مقاطع میں عام ہے۔ میر کے ہاں بھی مکالمے کی یہ عمومی سطح موجود ہے۔ میر کے اس نوع کے مقطعے کی دو اقسام ہیں۔ ایک جہاں صیغہ واحد متکلم استعمال ہوا ہے دوسرا جہاں صیغہ جمع متکلم استعمال ہوا ہے۔ مثلاً:

اگرچہ گوشہ گزیں ہوں میں شاعروں میں

پہ میرے شور نے روئے سخن تمام لیا

(واحد متکلم)

 

وہ جو خنجر بکف نظر آیا

میرؔ سو جان سے نثار ہوا

(واحد متکلم)

 

جن بلاؤں کو میرؔ سنتے تھے

ان کو اس روز گار میں دیکھا

(جمع متکلم)

 

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ

پھر ملیں گے اگر خدا لایا

(جمع متکلم)

 

ہیں مشت خاک لیکن جو کچھ ہیں میرؔ ہم ہیں

مقدور سے زیادہ مقدور ہے ہمارا

(جمع متکلم )

 

تھا وہ تو حور رشکِ بہشتی ہمیں میں میرؔ

سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا

(جمع متکلم)

جمع متکلم کا استعمال زیادہ ہے۔ ایک تو میرؔ کی خود پسندی اور شاعرانہ عظمت کا احساس انہیں صیغہ جمع متکلم استعمال کرنے پر مجبور کرتا ہے دوسرا جمع متکلم کے استعمال سے قاری بھی شریکِ واحد متکلم ہو جاتا ہے اور یہی فن کارانہ ہنر ہے جس سے قاری کی دلچسپی شعر میں بڑھ جاتی ہے اور شاعری اس کے لیے حدیث دیگراں نہیں رہتی۔

مکالمہ کی دوسری صورت ہے کہ کسی دوسرے سے ہم کلام ہوا جائے۔ یوں تو شاعر کا سارا کلام ہی قاری سے ایک قسم کا مکالمہ ہی ہوتا ہے لیکن جب شاعر کسی کو مخاطب کر کے شعر کہتا ہے تو مکالمے کی متذکرہ شکل پیدا ہوتی ہے۔ میرؔ کے مقطعوں میں مکالمے کی اس شکل کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ اس قسم کے مکالمے کی شکلیں بھی ایک سے زیادہ ہیں۔

بعض مقطعوں میں میرؔ ؔ اپنے ہی جیسے کسی دوسرے ذی روح سے تخاطب اختیار کرتے ہیں:

میرؔ کے دین و مذہب کا کیا پوچھتے ہو؟ ان نے تو

قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا

بعض اوقات پرند چرند سے مکالمہ ہے:

مارا گیا خرامِ بتاں پر سفر میں میرؔ

اے کبک کہتا جائیو اس کے وطن تلک

بعض مقامات پر بادِ صبا یا دوسرے مظاہر فطرت سے مکالمہ ہے:

کبھو جائے گی جو ادھر صبا تو یہ کہیو اس سے کہ بے وفا

مگر ایک میرؔ شکستہ پا تیرے باغِ تازہ میں خار تھا

میرؔ آوارۂ عالم جو سنا ہے تو نے

خاک آلودہ وہ اے بادِ صبا میں ہی ہوں

بعض اوقات کسی دوسرے کو اپنے آپ سے مکالمہ پر ابھارتے ہیں:

پوچھو تو میرؔ سے کیا کوئی نظر پڑا ہے

چہرہ اتر رہا ہے کچھ اس جواں کا آج

مقطع میں بعض اوقات میرؔ اپنے آپ کو کوئی دوسرا فرض کر کے میرؔ سے مکالمہ کرتے ہیں۔ مکالمہ کی یہ صورت دوسرے شاعروں کے ہاں بہت کم یاب ہے لیکن میرؔ کے ہاں کثرت سے ملے گی:

قامت خمیدہ، رنگ شکستہ، بدن نزار

تیرا تو میرؔ غم میں عجب حال ہو گیا

لیتے ہی نام اس کا سوتے سے چونک اٹھے ہو

ہے خیر میرؔ صاحب کچھ تم نے خواب دیکھا

یاد اس کی اتنی خوب نہیں میرؔ باز آ

نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا

میرؔ صاحب زمانہ نازک ہے

دونوں ہاتھوں سے تھامئے دستار

سمجھے تھے ہم تو میرؔ کو عاشق اسی گھڑی

جب سن کے تیرا نام وہ بے تاب سا ہوا

مکالمہ کی ایک اور صورت میرؔ کے ہاں دستیاب ہے۔ میرؔ یہاں موضوع سخن تو ہیں لیکن مکالمہ اور اصحاب کے درمیان ہے۔

لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے

جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا

میرؔ صاحب رلا گئے سب کو

کل وہ تشریف یاں بھی لائے تھے

گلی میں اس کی گیا، سو گیا، نہ بولا پھر

میں میرؔ ، میرؔ کر اس کو بہت پکار رہا

سرہانے میرؔ  کے کوئی نہ بولو

ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

بعض اوقات میرؔ خود بھی اس منظر کا حصہ ہیں:

میرا شور سن کے جو لوگوں نے کیا پوچھنا تو کہے ہے کیا

جسے میرؔ کہتے ہو صاحبو! یہ وہی تو خانہ خراب ہے

میرؔ نے بہت سے مقطعوں میں خود اپنی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ کبھی وہ کسی دوسرے کی زبان سے اپنی عظمت کا اظہار کرواتے ہیں اور کبھی اہل فن کو قائل کرتے ہیں کہ وہ میرؔ کے فن کی عظمت کا اعتراف کریں۔

ریختہ خوب ہی کہتا ہے جو انصاف کریں

چاہیے اہل سخن میرؔ کو استاد کریں

ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا ا س کا ہے

معتقد کون نہیں میرؔ کی استادی کا

گر دیکھو گے تم طرز کلام اس کی نظر کر

اے اہل سخن میرؔ کو استاد کرو گے

سطور بالا میں میرؔ کے مقطعوں کی صرف ایک خوبی ’’ مکالمہ اور اس کی مختلف ابعاد‘‘ کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ میرؔ کے مقطعوں میں اس کے ساتھ کئی دوسری فنی و معنوی خوبیاں بھی موجود ہیں۔ اس مضمون میں طوالت سے بچنے کی خاطر مقطعوں میں موجود بیان و بدیع اور دوسری خوبیوں کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔

میرؔ بجا طور پر شہنشاہ سخن ہیں۔ صاحب ’’مراۃ الشعراء‘‘ نے شعر کی خوبیوں کے بیان میں بالعموم سوداؔ ، غالبؔ اور ذوقؔ کے اشعار نقل کیے ہیں اور میرؔ کے اشعار کو بہت سرسری لیا ہے لیکن اپنی بات کے اختتام کے لیے میرؔ کے ہی ایک مقطع کا انتخاب کیا ہے:

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ

پھر ملیں گے اگر خدا لایا

اس سے میرؔ کے مقاطع کی فنی قوت کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ میرؔ سے بچنے کی کوشش کرنے والا بھی اس کی قوت کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔

(مطبوعہ: سہ ماہی ’’ عطا‘‘ ڈیرہ اسمٰعیل خان)

٭٭

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں