FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا علیؓ کے درمیان رشتہ داریاں

 

 

 

برہان الحق جلالی

 

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

 

 

کل رشتہ داریاں 2 تھیں :

 

 پہلا رشتہ

 

عمر فاروقؓ اور علیؓ کا سلسلہ نسب گیارہویں پشت پر فہر بن مالک پر ایک ہو جاتا ہے۔

 

 دوسرا رشتہ

 

حضرت عمر فاروقؓ حضرت علیؓ کے داماد ہیں۔

حضرت علیؓ کی بیٹی سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح عمرؓ سے ہوا جن سے عمرؓ کا ایک لڑکا زید اور ایک لڑکی فاطمہ یا رقیہ پیدا ہوئے۔

اس طرح عمرؓ نواسی رسول کے شوہر ہوئے، علیؓ کے داماد اور حسنؓ حسینؓ کے بہنوئی ہوئے۔

حضرت ام کلثوم ( زینب صغرىٰ ) بنت علیؓ جو کہ سیدہ فاطمہ الزہراءؓ بنت رسول اللہﷺ کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں بلاشبہ حضرت عمر فاروق ؓ کی زوجہ محترمہ تھیں اور یہ ایسی حقیقت واقعہ ہے کہ سنی محدثین کرام کے علاوہ خود شیعہ محدثین اور مؤرخین کو بھی اس حقیقت کا اقرار اور اعتراف ہے۔

سنی کتب اور نکاح ام کلثوم بنت علیؓ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ’’ثعلبہؓ بن ابی مالک کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے مدینہ کی عورتوں میں چادریں تقسیم کیں۔ ایک عمدہ چادر بچ رہی۔ ان کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک نے کہا کہ حضرت ! آپ یہ چادر رسول اللہﷺ کی نواسی حضرت علیؓ کی صاحبزادی ام کلثومؓ کو عنایت فرما دیجیے جو آپ کی بیوی ہیں۔ الفاظ یہ ہیں: یا امیر المؤمنین اعط ہذا بیت رسول اللہﷺ التى عندک۔ امیر المؤمنین حضرت عمر نے فرمایا: میری بیوی ام کلثوم کے مقابلہ میں بی بی ام سلیط اس چادر کی زیادہ مستحق ہیں۔ وہ انصاری عورت تھیں انہوں نے رسول اللہﷺ کی بیعت کی تھی۔ امیر المؤمنین کہنے لگے: یہ بی بی ام سلیطؓ جنگ احد میں پانی کی مشکیں اپنی کمر پر لاد لاد کر ہمارے لیے لاتی تھیں۔ (بخاری: باب حمل النساء القرب الی الناس فی الغزو ج1 ص3)

شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانیؒ اس حدیث کی شرح میں اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں:

کان عمر قد تزوج ام کلثوم بنت علیؓ وامہا فاطمہ ولہذا قالوا لہا بنت رسول اللہ وکانت قد ولدت لہ فی حیاتہ وہی اصغر بنات فاطمہ. (فتح الباری شرح صحیح بخاری، باب حمل النساء القرب الی الناس فی الغزو ص59)

کہ حضرت ام کلثوم امیر المومنین جناب عمر فاروق ؓ کی بیوی تھیں، ان کی والدہ محترمہ کا نام فاطمہ بنت رسول اللہﷺ ہے، اسی لیے لوگوں نے ان کو بنت رسول اللہﷺ کہا، بی بی کلثومؓ رسول اللہﷺ کی حیات ہی میں پیدا ہوئی تھیں اور یہ حضرت فاطمہؓ الزہراء کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔

نواب وحید الزمانؒ اس حدیث کی شرح میں رقم طراز ہیں: حضرت عمر نے یہ چادر حضرت ام کلثوم کو اس خیال سے نہ دی کہ ان کی بیوی تھیں اور غیر عورت کو جس کا حق زیادہ تھا مقدم رکھا۔ سبحان اللہ۔ ( تیسیر الباری ج3ص 108)

علامہ کرمانی صحیح بخاری کی اس حدیث شرح میں لکھتے ہیں کہ ام کلثومؓ فاطمہؓ بنت رسول اللہﷺ کی بیٹی ہیں جو رسول اللہ کی حیات میں پیدا ہوئی تھیں۔ امیر المومنین حضرت عمر ؓ نے حضرت علیؓ ؓ سے اس محترمہ کار شتہ طلب کیا تو حضرت علیؓ نے فرمایا: اگر آپ کو میری بیٹی پسند ہے تو میں نے اس کا نکاح آپ سے کر دیا۔ (کرمانی شرح البخاری حاشیہ صحیح البخاری ص403)

امیر المومنین فی الحدیث حضرت امام بخاریؒ کی اس صحیح حدیث کے بعد ہم کسی اور سنی کتاب کی تصریح اور حوالہ کی مزید ضرورت محسوس نہیں کرتے اور پھر مزید برآں شیخ الاسلام امام ابن حجر العسقلانیؒ اور علامہ کرمانی کی صراحت کے بعد کسی قسم کی کوئی تشنگی باقی نہیں رہ جاتی۔ تاہم اتمام حجت کے لیے اکابر شیعہ علماء کی کتب معتبرہ سے ایسے گیارہ دلائل پیش کیے دیتے ہیں جن میں حضرت عمرؓ  فاروق کو حضرت علیؓ کا داماد تسلیم کیا گیا ہے۔ لیجیے پڑھیے !

 

 

 

 

شیعہ محدثین اور مؤرخین کی کتب معتبرہ اور صحاح اربعہ

 

دلیل اول ( از فروع کافی)

 

اس کتاب کے مؤلف اور شیعہ کے ثقہ الاسلام ابو جعفر بن یعقوب بن اسحاق کلینی الرازی المتوفی 328تا 329ھ اپنی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میں نے اس کتاب کو امام غائب مہدی المنتظر پر پیش کیا تو انہوں نے فرمایا: ھذا کاف لشیعتنا یعنی اس پر مہر تصدیق ثبت فرمائی اور کہا کہ یہ کتاب ہمارے شیعوں کے لیے کافی ہے دوسری کتاب کی حاجت نہیں۔

ملا خلیل شارح کافی اپنی کتاب الصافی شرح اصول کافی میں لکھتے ہیں: ’’ ہمارے علماء کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ آثار صحیح اس پر دلالت کرتے ہیں کہ جو حدیث بھی کافی (اصول و خروع ) میں مروی ہے بالکل صحیح ہے۔ ‘‘ (الصافی: ص36) ان دونوں وضاحتوں سے ثابت ہوا کہ شیعہ دنیا میں کافی (اصول و فروع ) کو صحیح اور مستند کتاب اور اس کی احادیث کا انکار گویا امام کو جھٹلاتے کے مترادف ہے، اور سنیوں کی صحیح البخاری کے پائے کی کتاب سمجھی جاتی ہے، اس لیے ہم نے اس کتاب کے حوالہ جات کو مقدم رکھا ہے۔ اب حوالہ جات ملاحظہ فرمائیے !

1۔ عن أبى عبد اللہ فى تزویج أم کلثوم فقال إن ذلک فرج غصبناہ۔ ( فروع کافى باب تزویج ام کلثوم کتاب النکاح ج5ص 346)

امام جعفر صادق سے جب بى بى ام کلثومؓ زینت صغریٰ بنت علیؓ کے نکاح کے متعلق پوچھا گیا ( کہ اس کا نکاح حضرت عمر ؓ سے کیسے ہو گیا ؟ تو فرمانے لگے کہ یہ ایک رشتہ ہم سے چھین لیا گیا تھا۔

 

دلیل ثانی

 

جناب جعفر صادق کا بیان ہے کہ جب حضرت عمرؓ فاروق نے امیر المومنین علیؓ ؓ سے ام کلثوم بنت علیؓ کا رشتہ طلب فرمایا تو آپ نے جواب میں فرمایا: وہ ابھی جوان نہیں ہوئی تو اس جواب کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت عباسؓ ؓ بن عبدالمطلب سے ملاقات کی اور دریافت کیا کہ کیا میں بیمار ہوں ؟ تو حضرت عباسؓ ؓ نے پوچھا: کیوں کیا بات ہے ؟ تو حضرت عمر ؓ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے آپ کو بھتیجے (علیؓ) سے ان کی بیٹی ام کلثوم کا رشتہ طلب کیا ہے، انہوں نے انکار کر دیا ہے۔ یاد رکھیے ! اگر اس نے میری فرمائش پوری نہ کی تو میں تم سے آب زمزم کی انتظامی سربراہی واپس لے لوں گا اور تمہاری ایک ایک بزرگی ختم کر دوں گا اور علیؓ پر چوری کے دو گواہ قائم کر کے چوری کی حد میں اس کا داہنا ہاتھ کاٹ دوں گا تو حضرت عباسؓ ؓ نے حضرت علیؓ سے حضرت عمر ؓ کے جذبات کی اطلاع کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی دختر ام کلثومؓ کے نکاح کا معاملہ میرے سپرد کر دو تو حضرت علیؓ ؓ نے یہ معاملہ حضرت عباسؓ کے سپرد کر دیا۔ ( فروع کافی: 5/ 346طبع دار الکتب الاسلامیہ طہران )

 

دلیل ثالث

 

عن عبداللہ بن سنان، ومعاویة ابن عمار، عن أبی عبداللہ علیہ السلام قال: سألتہ عن المرأة المتوفى عنہا زوجہا أتعتد فی بیتہا أو حیث شاء‌ت؟ قال: بل حیث شاء‌ت، إن علیا علیہ السلام لما توفی عمر أتى أم کلثوم فأخذ بیدہا فانطلق بہا إلى بیتہ.

’’عبد اللہ بن سنان اور معاویہ بن عمار سے روایت ہے کہ ہم نے امام جعفر صادق سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ جب کسی عورت کا شوہر فوت ہو جائے تو وہ عدت وفات کہاں گزارے ؟ اپنے شوہر کے گھر بیٹھے یا جہاں چاہے گزارے ؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ جہاں چاہے بیٹھے۔ کیونکہ جب داماد علیؓ حضرت عمرؓ شہید ہو گئے تو حضرت علیؓ اپنی بیٹی ام کلثومؓ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے تھے۔

 

دلیل رابع

 

سلیمان بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جعفرؒ بن صادق سے پوچھا کہ بیوہ عورت عدت وفات کہاں پوری کرے ؟ اپنے شوہر کے گھر عدت پوری کرے یا جہاں چاہے بیٹھ سکتی ہے ؟ آپ نے میرے جواب میں کہا: جہاں چاہے اپنی عدت پوری کرے اور اپنی اس رائے کو مدلل کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت عمرؓ فوت ہوئے تھے تو حضرت علیؓ اپنی دختر ام کلثوم ( زوجہ عمر ؓ) کے پاس تشریف لائے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے تھے۔ ( فروع کافی: کتاب الطلاق 6/ 116)

تبصرہ: قارئین کرام ! اس تعصب مذہبی کہیے گا یا سبائی ہاتھ کی صفائی کہ جب نکاح ام کلثوم کا دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ کی وجہ سے انکار نہ کر سکے تو حضرت علیؓ جیسے غیور اور جسور انسان کے بے بس اور مجبور محض ظاہر کر دیا، گویا حضرت علیؓ جن کے بارے شیعہ حضرات لافتى إلا على ولاسیف إلا ذوالفقار اور مولیٰ مشکل کشا کہتے نہیں تھکتے، بصورت اکراہ و مجبوری، اس نکاح کا معاملہ حضرت عباسؓ کو سونپ کر اپنی جان چھڑائی تھی۔ سبائی حضرات اس حقیقت واضحہ کی کوئی بھی تاویل کریں مگر یہ حقیقت اپنی جگہ بہر حال اور بہر نوع قائم اور دائم ہے کہ حضرت عمرؓ حضرت علیؓ کے داماد اور بی بی ام کلثوم بنت علیؓ کے شوہر نامدار تھے۔ مزید پڑھئے۔ اللہ کی توفیق سے ہم دلائل اور براہین قاہرہ کی برکھا برسائے دیتے ہیں۔ ؏

حجت تمام کرتے ہیں آسمان سے ہم

 

دلیل خامس

 

شیخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن جعفر طوسی متوفی 460ھ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’تہذیب الاحکام ‘‘ میں غیر مبہم الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ بی بی ام کلثومؓ بنت علیؓ جو سیدہ فاطمہ الزہراؓ کے بطن سے تھیں حضرت عمرؓ کی زوجہ محترمہ تھیں۔

’’ عن عبداللہ بن سنان، ومعاویة ابن عمار، عن أبی عبداللہ علیہ السلام قال: سألتہ عن المرأة المتوفى عنہا زوجہا أتعتد فی بیتہا أو حیث شاء‌ت؟ قال: بل حیث شاء‌ت، إن علیا علیہ السلام لما توفی عمر أتى أم کلثوم فانطلق بہا إلى بیتہ.‘‘( تہذیب الاحکام، کتاب النکاح)

عبد اللہ بن سنان اور معاویہ بن عمار سے روایت ہے کہ ہم نے امام جعفر صادق سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ جب کسی عورت کا شوہر فوت ہو جائے تو وہ عدت وفات کہاں گزارے ؟ اپنے شوہر کے گھر بیٹھے یا جہاں چاہے گزارے ؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ جہاں چاہے بیٹھے۔ کیونکہ جب داماد علیؓ حضرت عمرؓ شہید ہو گئے تو حضرت علیؓ اپنی بیٹی ام کلثوم کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے تھے۔

 

دلیل سادس

عن سلیمان بن خالد قال: سألت عنعبد اللہ عن امرأة توفى زوجہا أین تعتد فی بیت زوجہا تعتد أو حیث شأت؟ قال: بل حیث شأت ثم قال: إن علیاعلیہ السلام لما مات عمر أتى أم کلثوم فأخذ بیدہا فانطلق بہا إلى بیتہ۔

(تہذیب الاحکام: حوالہ مذکورہ )

’’سلیمان بن خالد کہتے کہ میں نے حضرت جعفر صادق سے پوچھا کہ بیوہ عورت عدت وفات کہاں پوری کرے ؟ اپنے شوہر کے گھر عدت پوری کرے یا جہاں چاہے بیٹھ سکتی ہے ؟ آپ نے میرے جواب میں کہا: جہاں چاہے اپنی عدت پوری کرے اور اپنی اس رائے کو مدلل کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت عمرؓ فوت ہوئے تھے تو حضرت علیؓ اپنی دختر ام کلثوم ( زوجہ عمرؓ ) کے پاس تشریف

لائے۔ اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے تھے۔ ‘‘

 

ان دونوں روایات کا درجہ استناد

 

فروع کافی کی روایات نمبر 3 و نمبر 4 کو ہم سے شیعہ کی صحاح اربعہ میں شامل کتاب ’’تہذیب الاحکام ‘‘ سے دوبارہ اس لیے نقل کیا ہے تاکہ قارئین کو ان روایتوں کے پائے کا علم ہو جائے کہ شیعی محدثین نے ان روایات کو صرف قبول ہی نہیں کیا بلکہ ان سے مسائل فقہیہ کا استخراج بھی کیا ہے تاکہ کسی شخص کو ان روایتوں کو کمزور یا ضعیف کہنے کی جرات ہی نہ ہو، کیونکہ محدث اس روایت سے ہی مسئلہ اخذ کرتا ہے جس کو وہ صحیح سمجھتا ہے، ضعیف اور کمزور روایت سے استدلال کی کوئی تک ہی نہیں ہوتی۔ جب اصل اور مستدل ہی کمزور ہو تو فرع اور استدلال لامحالہ تار عنکبوت ہی ہو گا۔

 

دلیل سابع

 

حضرت جعفر ؓ اپنے والد حضرت باقرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ام کلثومؓ بنت علیؓ بن ابی طالب اور اس کا بیٹا زید بن عمرؓ بن خطاب دونوں ماں بیٹا ایک ہی وقت فوت ہوے ئ اور یہ علم نہ ہو سکا کہ ان دونوں سے میں سے کون پہلے فوت ہوا ! اور ان دونوں میں سے کوئی دوسرے کا وارث نہ بن سکا اور ان دونوں کی نماز جنازہ بھی اکٹھی پڑھی گئی۔ (تہذیب الاحکام9/ 262۔ 263)

دیکھئے ! کتنے صاف اور کھلے الفاظ میں اقرار کیا گیا ہے کہ حضرت کلثوم بنت علیؓ نہ صرف عمرؓ فاروق کی زوجہ محترمہ تھیں بلکہ ان کے بطن سے ایک بیٹا بھی تولد ہوا جس کا نام زید بن عمرؓ تھا۔

دو روایتیں ( یعنی نمبر 3ونمبر 4 ) جناب ابو جعفر محمد بن حسن طوسی المتوفی 460ھ اپنی کتاب ’’ استبصار فیما اختلف من الاخبار ‘‘ میں بھی لائے ہیں، یہ کتاب شیعہ کی صحاح اربعہ میں شمار ہوتی ہے۔ مولف کے اس طرز عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں روایتیں ان کے نزدیک غایت درجہ کی صحیح ہیں، ورنہ وہ ان کو بار بار نقل نہ کرتے۔

 

دلیل ثامن

 

عن عبداللہ بن سنان، ومعاویة ابن عمار، عن أبی عبداللہ علیہ السلام قال: سألتہ عن المرأة المتوفى عنہا زوجہا تعتد فی بیتہا أو حیث شاء‌ت؟ قال: بل حیث شاء‌ت، إن علیا علیہ السلام لما توفی عمر أتى إلىأم کلثوم فانطلق بہا إلى بیتہ- (کتاب الاستبصار: باب المتوفى عنہا زوجہا ان تبیت عن منزلہا ام لا -( ج3ص 302)

عبد اللہ بن سنان اور معاویہ بن عمار کہتے ہیں کہ ہم نے امام جعفر صادق سے دریافت کیا کہ بیوہ عورت اپنی عدت کہاں پوری کرے ؟ کیا ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہر ہی کے گھر عدت پوری کرے ؟ کہا: جہاں چاہے عدت پوری کر سکتی ہے کیونکہ عمرؓ بن خطاب کی وفات پر حضرت علیؓ اپنی بیٹی ام کلثوم کو حضرت عمرؓ کے گھر سے اپنے گھر لے آئے تھے۔

 

دلیل تاسع

 

عن سلیمان بن خالد قال: سألت أبا عبد اللہع عن امرأة توفى زوجہا أین تعتد فی بیت زوجہا تعتد أو حیث شأت؟ قال: بلى حیث شأت ثم قال: إن علیاع لما مات عمر أتى أم کلثوم فأخذ بیدہا فانطلق بہا إلى بیتہ۔ (کتاب الاستبصار: باب المتوفى عنہا زوجہا ان تبیت عن منزلہا ام لا -( ج3ص 302)

سلمان بن خالد کہتے ہیں کہ ہم نے امام جعفر صادق سے دریافت کیا کہ بیوہ عورت اپنی عدت کہاں پوری کرے ؟ کیا ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہر ہی کے گھر عدت پوری کرے ؟ کہا: جہاں چاہے عدت پوری کر سکتی ہے کیونکہ عمرؓ بن خطاب کی وفات پر حضرت علیؓ اپنی بیٹی ام کلثوم کو حضرت عمرؓ کے گھر سے اپنے گھر لے آئے تھے۔

 

دلیل عاشر

 

قاضی نور اللہ شوستری شہید ثالث جو کہ گیارہویں صدی کے مشہور شیعہ مجتہد ہیں اپنی مایہ ناز کتاب مجالس المؤمنین میں فروع کافی کی دوسری روایت کو فارسی زبان میں یوں لکھتے ہیں:

درکتاب استغاثہ وغیرہ آں مسطور است کہ چوں عمرؓ بن خطاب جہت ترویج خلافت فاسدہ خود داعیہ تزویج ام کلثوم دختر حضرت امیر نمودو آں حضرت جہت اقامت حجج مکر را اظہار بادامتناع نمود آخر عمرؓ عباسؓ راخود طلبید وسوگند ہوردہ گفت کہ اگر علیؓ رابد امادی من راضی نمیسادی آنچہ در دفع او ممکن باشد خواہم کرد ومنصب سقایتا حج و زمزم را از تو خواہم گرفت عباسؓ ملاحظہ نمود کہ اگر ایں نسبت واقع نشود آں فظ وغلیظ مرتکب چناں امر ناصواب خواہد شد، امیر علیہ السلام التماس والحاح نمود کہ نکاح آں مطہرہ مظلومہ رابو تفویض نماید چوں مبالغہ عباسؓ در آں باب از حد گزشت آنحضرت از روئے اکراہ ساکت ستدند، تا آنکہ عباسؓ از خود ارتکاب ترویج اور نمود وجہت اطفاء نائرہ فتنہ اور راباں منافق ظاہر الاسلام عقد فرمود۔ (مجالس المومنین ج1ص 182، کشف الاسرار ص39)

’’کتاب استغاثہ وغیرہ میں منقول ہے کہ جب عمرؓ بن خطاب نے اپنی خلافت کو ترویج دینے کے لیے حضرت علیؓ کی بیٹی ام کلثوم کا رشتہ طلب کیا تو آپ نے دوبارہ حجت قائم کرنے کے لیے اس سے انکار کر دیا۔ آخر کار حضرت عمرؓ نے حضرت عباسؓ کو اپنے پاس بلایا اور قسم کھا کر کہا کہ اگر آپ نے حضرت علیؓ کو مجھے اپنا داماد بنانے پر تیار نہ کیا تو مجھ سے جو کچھ ہو سکا کروں گا اور سقایہ حج اور زمزم کا منصب تجھ سے واپس لے لوں گا۔ جب حضرت عباسؓ نے یہ معلوم کر لیا کہ یہ سخت آدمی اس ناروا معاملہ کو اسی طرح کرے گا جیسا کہ وہ کہہ کر رہا ہے تو حضرت عباسؓ نے حضرت علیؓ کو چمٹ کر التماس کی کہ اس مطہرہ مظلومہ کے نکاح کا معاملہ اس کے ہاتھ میں دے دیں۔ جب حضرت اس بارے میں حد سے گزر گئے تو حضرت علیؓ نے بصورت اکراہ خاموش اختیار کر لی یہاں تک کہ حضرت عباسؓ پھر اپنے آپ اس نکاح کے مرتکب ہوئے اور بھڑکنے والے فتنہ کی آگ کو  بجھانے کی خاطر اس منافق ظاہر  اسلام (عمرؓ ) کے ساتھ عقد کیا۔

قارئین کرام ! اندازہ فرمائیے قاضی نور اللہ شیعہ مجتہد نے کتنے زہریلے الفاظ میں اس نکاح کا اقرار کیا ہے اور حضرت علیؓ کی رضامندی کو کتنی چابکدستی سے غتر بود کرنے کی کوشش کی ہے اور فاروقؓ اعظم پر کتنا ناپاک حملہ کیا ہے ایک طرف تو انہیں حضرت علیؓ کی دامادی کا شرف حاصل ہو رہا ہے اور دوسری طرف ان پر منافقت کا فتویٰ لگا کر فتنہ سبائیت کو ہوا دی جا رہی ہے اور تیسری طرف ام کلثوم کو مظلومہ اور مجبورہ ثابت کر کے حضرت عمرؓ سے نفرت ولائی جار ہی ہے۔

خرد کا نام جنوں رکھ دی جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

اگر آپ تھوڑی سابھی غور فرمائیں گے تو آپ پر یہ راز کھل جائے گا کہ حب اہل بیت کا لبادہ اوڑھ کر اہل بیت سے کس قدر دشمنی کی جار ہی ہے اور ان کی غیرت کامذاق اڑایا جا رہا ہے۔ ( العیاذ باللہ) وہ اتنے کمزور تھے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی عزت کی حفاظت نہ کر سکتے تھے۔ جبکہ شیعی عقیدہ کے مطابق حضرت علیؓ مولیٰ مشکل کشا ہیں اور چودہ سو سال کے بعد ان کی مدد کر سکتے ہیں اور یاعلیؓ مدد ان کا ورد بن چکا ہے جس کا آغاز عبد اللہ بن سباء نے کیا تھا۔

خزاں کے ہاتھ سے گلشن میں خار تک نہ رہا

بہار کیسی نشان بہار تک نہ رہا

 

دلیل احد عشر

 

لیجیے ! ہم آپ کی خدمت میں پیش کیے دیتے ہیں ایسی روایت جو شیعہ کی معتبر تاریخ کتاب ناسخ التواریخ میں درج ہے جو نہ صرف قاضی نور اللہ کی اس دوہری پالیسی کی تردید کر رہی ہے بلکہ اس رشتہ کے معاملہ میں حضرت علیؓ کی مکمل رضامندی کابھی کھلا ثبوت ہے۔ وہ روایت حسب ذیل ہے:

’’حضرت علیؓ نے حضرت عمرؓ سے اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح بڑی خوشی سے خود کیا، مہر وصول کیا اور بیٹی کو اپنے شوہر عمرؓ فاروق کی اتباع کی وصیت فرمائی۔ ‘‘ (ناسخ التواریخ ج2ص 296)

مزید برآں یہ کہ خود قاضی صاحب موصوف اپنی اس کتاب ’’مجالس المومنین ‘‘ میں ایک دوسرے مقام پر حضرت علیؓ کی اس مجبوری کا خود بھی ذکر نہیں کرتے۔ فرماتے ہیں:

نبی اکرمﷺ نے اپنی بیٹی عثمان کو دی اور علیؓ ولی نے اپنی بیٹی عمرؓ کو دی۔ (مجالس المومنین ج1ص 204)

 

مناظر اسلام مولانا محمد صدیق بلوچ کا قول فیصل

 

فرماتے ہیں چوتھی صدی کا محدث اعظم محمدبن یعقوب بن اسحاق کلینی رازی اپنی مایہ ناز کتاب ’’کافی ‘‘ میں دو مقام پر چار ہندسوں کے ساتھ اس واقعہ کو بیان کرے اور پانچویں صدی کا شیعی محدث علامہ ابو جعفر محمد بن حسن بن علیؓ طوسی جس کو شیعی دنیا میں امام مسلم کا رتبہ حاصل ہے، اپنی دونوں تصنیفوں میں اس روایت کو متعدد طرق سے نقل کرے۔ اس بنا پر اس روایت کو درجہ تواتر کیوں حاصل نہ ہو گا ؟ حالانکہ شیعی اصول حدیث کی کتابوں میں اس سے کم درجہ کی اخبار کو درجہ تواتر میں شمار کیا گیا ہے۔ دیکھیے ’’معالم الاصول ‘‘ میں منقول ہے:

(ترجمہ) ’’تواتر معنوی کا بیان۔ بہت سی جنگیں کے واقعات کثرت سے آتے ہیں اور مختلف ہوتے ہیں لیکن ہر ایک خبر ان سے التزامی اور تضمنی کے اعتبار سے ایک ہی منتج ہوتی ہے اور ان سے ایک قدر مشترک کا علم حاصل ہو جاتا ہے اور ایسی خبر کا نام ’’متواتر من جہت المعنی‘‘ رکھا جاتا ہے جیسا کہ حضرت علیؓ امیر المومنین کے جنگی واقعات ہیں کہ آپ نے فلاں شخص کو غزوہ بدر میں اس طرح قتل کیا اور فلاں کے ساتھ احد میں یہ سلوک کیا وغیرہ وغیرہ۔ پس یہ خبریں التزامی طور پر آپ کی شجاعت پر دلالت کرتی ہیں اگرچہ ان جزئیات سے کوئی شے بھی قطعی علم کے درجہ کو نہیں پہنچتی۔ ‘‘ (معالم الاصول )

جب جنگی خبروں کو تواتر کا درجہ دیا جا رہا ہے تو اس حدیث کو کیوں نہ درجہ تواتر حاصل ہو گا ؟ اور خبر متواتر سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے اور اس کا انکار نا ممکن ہے، اسی لیے تو کتاب ’’مراۃ العقول شرح فروع واصول ‘‘ کے مصنف نے اس روایت کو منکرین پر تعجب کا اظہار کیا ہے، فرماتے ہیں:

تلک الأخبار وما سیأتی بأسانید أن علیا علیہ السلام لما توفی عمر أتى أم کلثوم فانطلق بہا إلى بیتہ وغیر ذلک مما أوردتہ فی کتاب بحار الأنوار إنکار ذلک عجیب

یہ تمام حدیثیں اور جوبعد میں باسناد ذکر کی جائیں گی کہ جب حضرت عمرؓ فاروق فوت ہو گئے تو حضرت علیؓ ام کلثوم کے پاس آئے اور ان کو اپنے گھر لے گئے اس کے سوا جن روایات کو میں نے اپنی کتاب ’’ بحار الانوار ‘‘ میں ذکر کیا ہے ان کا انکار کرنا عجیب بات ہے۔

 

حدیث متواتر سے انکار نا ممکن ہے

 

تکثیر اسناد کے ساتھ روایت کے بیان ہونے کے بعد اس سے انکار مشکل نہیں نا ممکن ہوتا ہے ہے، کیونکہ متواتر کے سچے ہونے اور واقع ہونے کی کوئی شک ہوتا ہی نہیں جیسا کہ ’’معالم الاصول ‘‘ میں متواتر کی تعریف میں لکھا ہے:

فالمتواتر ہو خبر جماعة یفید بنفسہ العلم بصدقہ ولاریب فى امکانة ووقوعہ۔ (ص169)

یعنی متواتر وہ روایت ہے جسے ایک جماعت بیان کرے اور وہ بذات خود فائدہ علم یقینی کا دیتی ہے بلحاظ اپنے سچے ہونے کے، اس کے وقوع اور امکان میں کسی قسم کے شک کی بھی گنجائش نہیں ہوتی۔

کتاب ’’معالم الاصول ‘‘ شیعہ کے نزدیک اصول حدیث و فقہ کی یکتا کتاب ہے۔ ان مذکورہ حدیثوں کی روشنی میں جو تعداد اسناد کے اعتبار سے حد تواتر کو پہنچ چکی ہیں انکار کرنا گویا شیعہ مذہب سے انکار کے مترادف ہے۔

آ ýپ متعجب ہوں گے کہ جب اتنی روایات صحیح موجود ہیں تو پھر شیعہ حضرات اس رشتہ کا انکار کیوں کرتے ہیں ؟ اصل بات وہی ہے جو ہم ابتدا میں ذکر کر آئے ہیں کہ جب عمرؓ فاروق کو داماد فاطمہ الزہراؓ کا شرف حاصل ہو جاتا ہے تو پھر تمام شیعی اعتراضات جو خلیفہ ثانی عمرؓ فاروق پر کئے جاتے ہیں ان کی حقیقت ھباء منشورا کی سی رہ جاتی ہے اور تمام شیعی مذہب کا تار  وپود بکھر کر رہ جاتا ہے اس لیے وہ اتنی بین روایات کے ہوتے ہوئے بھی اپنے بوسیدہ اعتراضات اور ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتے اور میں نہ مانوں کی رٹ لگائے جاتے ہیں، حالانکہ حضرت عمرؓ کو حضرت علیؓ و فاطمہؓ کا داماد تسلیم کر لینے سے شیعہ سنی اختلاف کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے، حالانکہ حضرت عمرؓ کو حضرت گہرے مراسم رکھتے اور یوں آپس میں شیرو شکر تھے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو پکا مسلمان سمجھتے تھے۔ ورنہ حضرت علیؓ ایک منافق، ظاہر الاسلام اور کافر سے اپنی صاحبزادی کانکاح کیوں کرتے ؟ اگر وہ حضرت علیؓ کے حقوق کے غاصب ہیں تو انہوں نے بایں قوت وحشمت اپنے بدترین دشمن کو شرف دامادی کیوں عطا کیا ؟ در اصل بات یہ ہے کہ حضرت عمرؓ  کو سبائی پروپیگنڈہ کا ہدف بنایا گیا ہے، ورنہ ان کے مخلص مسلمان ہونے اور اسلام کی خدمات میں صحابہ کرام یا اہل بیت کو کسی قسم کا انکار یا شک وشبہ نہ تھا۔

 

ایک تاویل اور اس کا جواب

 

شیعہ حضرات حضرت عمرؓ فاروق کی دشمنی میں اس رشتہ کا انکار کرتے ہوئے اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ سے ام کلثوم بنت علیؓ کا رشتہ طلب کیا تھا تو حضرت علیؓ نے ایک جن عورت کو اپنی بیٹی ام کلثوم کی صورت میں ڈھال کر عمرؓ سے بیاہ دیا تھا۔

جواب: اہل علم و تحقیق شیعہ علماء خود ایسی پوچ تاولوں کو مسترد کرتے ہوئے اس حقیقی واقعہ کو کھلے دل اور شرح صدر کے ساتھ تسلیم کر چکے ہیں۔ جیسا کہ ’’فروع کافی ‘‘ کے محشی علامہ علیؓ اکبر غفاری دلیل اول کے حاشیہ میں اس رشتہ کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ام کلثوم ہذہ ہى بنت أمیر المؤمنین علیہ السلام قد خطبہا إلیہ عمر فى زمن خلافتہ۔ (حاشیہ فروع کافى: ج5ص 436)

’’یہ بی بی ام کلثوم امیر المومنین علیؓ بن ابی طالب کی دختر ہیں اور حضرت عمرؓ بن خطاب نے اپنی خلافت میں اس بی بی کا رشتہ حضرت علیؓ سے طلب کیا تھا۔ ‘‘

لیجئے جناب! اس پوچ تاویل کا بھانڈا بیچ چورا ہے کے پھوٹ گیا۔

ہوا مدعی کا میرے حق میں فیصلہ اچھا

زلیخا نے کیا خود پاک دامن ماہ کنعاں کا

 

ایک اور تاویل اور اس کاجواب

 

ام کلثوم نامی عورت جس کانکاح حضرت عمرسے ہوا وہ ابو بکر صدیقؓ کی بیٹی تھی۔

جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کی دختر کا نام بھی ام کلثوم تھا، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز صحیح نہیں کہ حضرت علیؓ کی بیٹی کا نام ام کلثوم نہ تھا اور پھر ’’تہذیب الاحکام ‘‘ کی وہ روایت جو پیش نظر مقالہ کی دلیل نمبر 7 میں  ہے۔

عن جعفر، عن أبیہ علیہما السلام قال: ماتت أم کلثوم بنت علیؓ وابنہا زید بن عمر بن الخطاب فی ساعة واحدة لا یُدرى أیّہما ہلک قبل فلم یُورَّث أحدہما من الآخر وصُلِّی علیہما جمیعاً.

اس کی کیا تاویل کرو گے ؟ (ملاحظہ فرمائیے تہذیب الاحکام، کتاب المیراث )

خلاصہ کلام یہ کہ رسیدہ ام کلثوم بنت علیؓ جوکہ سیدہ فاطمہؓ کے بطن سے تھیں اور رسول اللہﷺ کی نواسی تھیں، بلاشبہ حضرت عمرؓ فاروق سے بلاجبرو اکراہ بیاہی گئی تھیں اور ان کے بطن سے ایک لڑکا زید بن عمرؓ بن خطاب پیدا ہوا تھا اور اس رشتہ کی روایت خود شیعہ علمائے اصول کے نزدیک متواتر ہے اور متواتر روایت کا انکار بڑی جسارت ہے اور مذہب شیعہ سے انکار کے مترادف ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی محمدیہ

<http: //kitabosunnat.com/kutub-library/fatawa-muhammadia.html>

ج1ص84

 

سوال: کیا اُم کلثوم بنت علیؓ کا نکاح حضرت عمرؓ سے ہوا تھا ؟ ائمہ اہل سنت اور اہل تشیح کی کتاب سے با دلائل ثابت کریں ؟

 

جواب: سیدہ اُم کلثوم بنت علیؓ جو کہ سیدہ فاطمہ الزہراء بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی تھیں، بلا شبہ اُن کا نکاح حضرت عمرؓ بن خطاب سے ہوا اور یہ ایسی حقیقت ہے کہ جس کا اعتراف فیریقین محدثین و مؤرخین کو بغیر کسی تردد کے ہے اور ہر دو مکتب فکر کی معرکہ آراء کتب میں اس کا ذکر موجود ہے۔ پہلے اہل سنت کے محدثین و مؤرخین کی تصریحات نقل کی جاتی ہیں، پھر شیعی محدثین و مؤ رخین کے حوالہ جات درج کیے جاتے ہیں۔

"ثعلبہ بن ابی مالک کہتے ہیں کہ سید نا عمر فاروقؓ نے مدینہ کی عورتوں میں چادریں تقسیم کیں تو ایک عمدہ چادر بچ گئی۔ اُن کے پاس بیٹھنے والوں میں سے کسی نے کہا’ امیر المومنین! یہ چادر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی نواسی کو دیجئے’ اُم کلثوم بنت علیؓ جو کہ سیدنا عمر فاروقؓ کی بیوی تھیں۔ سیدنا عمرؓ فاروق نے کہا اُم سلیط زیادہ حقدار ہے وہ انصاری عورت تھیں۔ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے بیعت کی تھی۔ سیدنا عمرؓ رضی للہ عنہ نے کہا اُم سلیط جنگ اُحد کے دن ہمارے لئے مشکیں لاد لاد کر لاتی تھیں۔ ”(صحیح بخاری باب حمل النساء القرب الی الناس فی الغزو / کتاب الجھاد (۲۸۸۱) وباب ذکرام سلیط کتاب المغازی ۲/۵۸۶)

شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ اس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں ؛

کہ سیدہ اُم کلثوم بنت علیؓ سیدنا عُمرؓ کی بیوی تھیں اور اُن کی ماں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تھیں۔ اس لئے لوگوں نے ان کو بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کہا۔ اُم کلثوم رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں ہی پیدا ہوئی تھیں اور یہ سیدہ فاطمۃ الزہراء کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔

امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ و شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کی اس تصریح سے واضح ہوا کہ سیدہ اُم بنت علیؓ سیدنا عمر بن خطابؓ کی بیوی تھیں۔

اُم کلثوم بنت علیؓ جو کہ سیدنا عمرؓ بن خطاب کی بیوی تھیں۔ ان کا اور ان کے بیٹے زید کا جنازہ اکٹھا رکھا گیا اور اس دن امام سعید بن عاصؓ تھے۔

امام ابنِ حزم حمھرۃ النساب العرب ۳۷’ ۱۵۲ پر رقمطراز ہیں۔

اُم کلثوم بنت علیؓ جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نواسی تھیں انہوں نے  سیدنا عمرؓ فاروق نے نکاح کیا اور سید نا عمرؓ کا ان سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی رُقیہ پیدا ہوئی۔

امام طبریٰ نے اپنی کتاب تاریخ الامم و الملوک ۲ /۵۶۴ پر لکھا ہے کہ:

اُم کلثوم بنت علیؓ جن کی ماں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تھیں سیدنا عمرؓ سے نکاح کیا ا س سے زید اور رقیہ پیدا ہوئے۔

امام ابن عبدالبر نے الاستعیاب علیؓ ھامش اصابہ ۴/۴۹۰ پر مذکورہ بالا عبارت کی طرح ہی لکھا ہے۔ ائمہ اہل سنت کی ان تصریحات سے واضح ہوا کہ ام کلثوم بنت علیؓ سیدنا عمرؓ سے نکاح ہوا اور اس سے زید اور رقیہ پیدا ہوئے۔ اب شیعہ ائمہ کی تصریحات ملاحظہ کریں۔

سب سے پہلے ہم شیعہ کی معتبر کتاب کافی کی عبارت پیش کرتے ہیں جو ان کے ہاں بخاری شریف کے پایہ کی کتاب سمجھی جاتی ہے اور بعض شیعی محدثین کی تصریح کے مطابق یہ وہ کتاب ہے جو محمد بن یعقوب کلینی ” صاحب کافی ” نے لکھنے کے بعد امام مہدی کے پاس غار میں پیش کی تو انہوں نے کہا:

یہ کتاب ہمارے شیعوں کیلئے کافی ہے۔

شیعہ کا ثقہ الاسلام محمد بن یعقون کلینی فروع کافی باب تزویج ام کلثوم کتاب النکاح ۵ /۳۴۶ پر لکھتا ہے:

امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ آپ سے اُم کلثوم کے نکاح کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے کہا یہ ایک رشتہ تھا جو ہم سے چھین لیا گیا۔

یہی مؤلف فروع کافی ۲ /۱۱۵ کتاب الطلاق میں راقم ہے۔

عبداللہ بن سنان امام صادق سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق سے مسئلہ دریافت کیا کہ جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے وہ عدت کہاں گزارے ؟ اپنے شوہر کے گھر بیٹھے یا جہاں مناسب خیال کرے وہاں بیٹھے ؟ تو آپ نے جواب دیا جہاں چاہے عدت گزار لے کیونکہ سیدنا عمرؓ جب فوت ہوئے تو سیدنا علیؓ اپنی بیٹی اُم کلثوم ( بیوی عمرؓ رضی اللہ عنھا)کا ہاتھ پکڑ کر ان کو اپنے گھر لے گئے۔

فروع کافی ۶ /۱۱۶ میں یہی روایت امام جعفر صادق سے روایت سلیمان بن خالد بھی رموعی ہے۔

شیعوں کے شٰک الطائفہ ابو جعفر محمد بن حسن طوسی نے اپنی کتاب تہذیب الاحکام میں فروع کافی سے اِن دونوں روایتوں کو اِ سی طرح نقل کیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ کتاب شیعوں کے ہاں صحیح مسلم کے پائے کی ہے۔

اسی طرح ابو جعفر محمد بن حسن طوسی نے اپنی دوسری کتاب الاستبصار ۳ /۳۵۲ (جو کہ شیعوں کی صحاب اربعہ میں شمار ہوتی ہے ) میں بھی اس روایت کو درج کیا ہے

امام جعفر صادق اپنے والد محمد باقر سے روایت کرتے ہیں کہ اُم کلثوم بنت علیؓ اور اس کا بیٹا زید بن عمر بن خطاب دونوں ماں بیٹا ایک ہی وقت میں فوت ہوئے اور یہ علم نہ ہو سکا کہ دونوں میں سے پہلے کون فوت ہوا اور ان دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے کا وارث نہ بن سکا اور ان دونوں کی نمازِ جنازہ بھی اکھٹی پڑھی گئی۔

شعیہ فقہ کی معتبر کتاب شرائع السلام کی شرح ایک شیعی عالم سلاک نے لکھی ہے وہ صاب شرائع کے اس قول یجوز نکاح العربیۃ بالعجمی والھاشمیۃ وبالعکس کے تحت لکھتا ہے:

عربی عورت کا عجمی مدر سے نکاح جائز ہے اور اسی طرح ہاشمیہ عورتا غیر ہاشمی سے مرد ہے اور اِس کے بالعکس بھی جائز ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا علیؓ رضی اللہ تعالیٰ نے اپنی بیٹی اُم کلثوم کا نکاح حضرت عمر ؓ سے کیا تھا ۔ نکاح حضرت عمر سے کیا تھا۔

٭٭

 

 

 

مزید حوالا جات

 

(سنن النسائی 71-72/4 حدیث 1980، و سندہ صحیح و صححہ ابن الجارود بروایۃ: 545 و حسنہ النووی فی المجموع 5/224 و قال ابن حجر فی التلخیص الحبیر 2/146 حدیث 807: "و اسنادہ صحیح

(صحیح بخاری: 2881، ترجمہ محمد داود راز، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ 212/4)

(مسند علیؓ بن الجعد: 593 و سندہ صحیح، دوسرا نسخہ: 574)

(مصنف ابن ابی شیبہ 3/315 حدیث 11574 و سندہ صحیح، دوسرا نسخہ: 11690)

(مسند علیؓ بن الجعد: 593 و سندہ صحیح، دوسرا نسخہ: 574)

(طبقات ابن سعد 468/8 و سندہ حسن)

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں