فہرست مضامین
معاصر اردو افسانہ: زبان اور اسلوب
پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ
(کتاب ’ ادبی تنقید کے لسانی مضمرات ‘ کا ایک حصہ جسے اصل برقی کتاب سے علاحدہ شائع کیا جا رہا ہے)
معاصر اردو افسانہ نگار اپنے تخلیقی عمل کے دوران زبان اور اسلوب کے ادبی و تخلیقی تقاضوں کو نہایت ذمہ داری کے ساتھ پورا کرتے ا ٓ رہے ہیں، لیکن ہمارے بعض نقاد اس صورتِ حال سے مطمئن نظر نہیں آتے اور ان کے بارے میں کچھ نہ کچھ ارشاد فرماتے رہتے ہیں۔ ہمارے افسانہ نگار ان کی باتوں کو سن بھی لیتے ہیں۔ یہ ان کی سادہ لوحی نہیں تو اور کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی تنقید، تنقید نگاروں کے داخلی تاثرات کا نتیجہ ہوتی ہے اور ذاتی پسند یا ناپسند پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ادب و شعر کی زبان خالصتہً ترسیلی یا ابلاغی نہیں ہوتی، جیسے کہ عام بول چال کی زبان ہوتی ہے۔ بلکہ یہ زبان ادبی فن پارے کے جمالیاتی اور تخلیقی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتی ہے جس میں تخلیق کار اپنے تخلیقی عمل کے دوران طرح طرح کے تصرفات سے کام لیتا ہے جس کے نتیجے میں یہ عام ڈگر سے کسی قدر ہٹ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بعض نقاد ایسی زبان کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور معاصر افسانہ نگاروں کو ہدفِ ملامت بناتے ہیں۔
اس بات سے کسے انکار ہو گا کہ ادب کا ذریعۂ اظہار یا میڈیم زبان ہے۔ اسی لیے ادبی فن پارے کو لسانی/ لفظی فن پارہ(Verbal artifact) بھی کہا گیا ہے۔ واضح رہے کہ جب تک کہ زبان ادیب کے تصرف میں نہیں آ جاتی اس وقت تک یہ ’لانگ‘ (langue) رہتی ہے، اور ادیب کے تصرف میں آتے ہیں یہ ’پرول‘(parole) کا مرتبہ حاصل کر لیتی ہے۔ لانگ اور پرول کی اصطلاحیں لسانیاتِ جدید کے بانی فرڈی نینڈڈی سسیور(۱۸۵۷ تا۱۹۱۳ء) کی وضع کردہ ہیں۔ ’لانگ‘ سے اس کی مراد معاشرتی نوعیت کی (عمومی) زبان سے ہے جو ایک سسٹم کی نمائندہ ہے، اور ’پرول‘ اس سسٹم کو کسی فردِ واحد کے ذریعہ عملی طور پر برتنے کا نام ہے جسے ’گفتگو‘ کہہ سکتے ہیں۔ گویا پرول، لانگ( جو ایک تجریدی نظام ہے) کی واقعی صورت کا نام ہے جس کی نوعیت انفرادی ہے۔ اگر ہم ادب کے تناظر میں دیکھیں تو لانگ کو پرول بننے کے لیے ایک ایسے عمل سے گذرنا پڑتا ہے جو ادب کے تخلیقی عمل کا حصہ ہے۔ اس عمل سے گذر نے کے بعد لانگ، پرول بن جاتی ہے یعنی اسے انفرادی(تخلیقی) زبان کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔
لانگ کو ادیب اپنے مزاج اور اپنی ادبی و تخلیقی ضرورتوں کے مطابق ادب کے تخلیقی عمل کے دوران پرول میں ڈھالتا اور مولڈ(Mould) کرتا ہے، جس طرح کہ ایک مجسمہ ساز اپنے میڈیم(پتھر) کو اپنی تخلیقی ضرورتوں کے مطابق کاٹتا، چھانٹتا اور تراشتا ہے۔ پرول کو جو چیز منفرد بناتی ہے، وہ اس کا انوکھا پن، ندرت، جدت، تنوع، تازہ کاری اور معمول سے انحراف(Deviation from a norm) ہے۔ یہ تمام باتیں کسی ادیب کے اسلوب کی تشکیل میں نہ صرف نمایاں کردار ادا کرتی ہیں، بلکہ اس کے اسلوب کو انفرادیت بھی بخشتی ہیں جس سے وہ ادیب دوسرے ادیب سے منفرد و ممتاز بن جاتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے نقاد داخلی و وجدانی سطح سے اوپر اٹھ کر اور متعصبانہ رویّے کو ترک کر کے معاصر اردو افسانہ نگاروں کی تخلیقات کا توضیحی (Descriptive) اور معروضی(Objective) مطالعہ و تجزیہ کریں، تب کہیں وہ ان افسانہ نگاروں کی زبان اور اسلوب کے بارے میں کوئی متوازن رائے قائم کر سکتے ہیں۔
یہاں اس امر کا ذکر بے جا نہ ہو گا کہ ادب کے تخلیقی عمل کے دوران زبان بھی ایک طرح کے عمل(Process) سے گذرتی ہے، اور یہ عمل ہے باہر کی (عام) زبان کے ادبی و تخلیقی زبان میں تبدیل ہونے کا جس کی طرف ابھی اشارہ کیا گیا ہے۔ زبان کی تبدیلی کا یہ عمل ادب کی تخلیق کے عمل سے ماورا نہیں ہے۔ یہ دونوں عمل بہ یک وقت (Simultaneously) انجام پاتے ہیں۔ تخلیقی عمل سے گذرنے کے بعد جب ادب متن کی شکل میں، جو زبان ہی کی ایک شکل ہے ( بلکہ زبان ہی ہے)، برآمد ہوتا ہے تو اسلوب اس میں جاری وساری اور پیوست(Embedded) ہوتا ہے۔ یہ کوئی اضافی یا باہر سے لائی ہوئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ یہ ادبی زبان کا جزوِ لاینفک ہے۔ جب بھی زبان کا ادبی یا تخلیقی سطح پر استعمال ہوتا ہے تو اس میں اسلوب کی کارفرمائی ضرور ہوتی ہے۔ اسلوب درحقیقت ادب میں زبان کے مخصوص و منفرد استعمال سے معرضِ وجود میں آتا ہے۔ اسی لیے ایک ادیب کو دوسرے ادیب سے بہ آسانی ممیز کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ اسلوب ہی اسے انفرادیت کا رنگ بخشتا ہے۔ بعض ناقدین کے اس خیال سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کسی مصنف یا ادیب کے یہاں اسلوب کی نمود کافی بعد میں ہوتی ہے، یعنی جب وہ کہنہ مشق اور سینئر ادیب بن جاتا ہے تب ’’صاحبِ اسلوب‘‘ کہلاتا ہے۔ ایسے نقاد نئے لکھنے والوں کو، خواہ وہ شاعر ہوں یا ناول وافسانہ نگار، اسلوب سے عاری سمجھتے ہیں، کیوں کہ وہ اسلوب کو زبان اور ادب سے الگ کر کے دیکھتے ہیں اور اسے ایک اضافی(Additional) چیز سمجھتے ہیں جوان کے نظریے کے مطابق کا فی محنت و مشقت اور تجربے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔
جب کسی زبان میں تصرف اور ایجاد و اختراع سے کام لیا جاتا ہے تو وہ زبان اپنے بنیادی اسلوب سے متغائر ہو کر ایک نئی شکل اختیار کر لیتی ہے جو اس زبان کا ایک نیا انداز یا اسلوب ہوتا ہے۔ یہ اسلوب اپنے نئے پن (یا انوکھے پن) کی وجہ سے لوگوں کو چونکاتا ہے اور ان کے دامنِ دل کو اپنی جانب کھینچتا ہے، لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس نئے یا انوکھے پن کو جسے ہم جدت پسندی بھی کہتے ہیں، مشکل پسندی سے تعبیر کرتے ہیں۔ غالبؔ نے اپنی شاعری کے پہلے اور دوسرے دور میں جو اسلوب اختیار کیا تھا وہ یقیناً ایک انوکھا اور چونکا دینے والا اسلوب تھا جس میں نازک خیالی اور مضمون آفرینی کے ساتھ ساتھ جدت طرازی اور ایجاد پسندی بھی اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ غالبؔ چوں کہ غیر معمولی تخلیقی صلاحیتوں کے مالک تھے اس لیے وہ نادر تشبیہیں، دور از کار استعارے اور اچھوتے مضامین ایجاد کرنے کی زبردست قوت رکھتے تھے۔ ان کی اسی قوتِ ایجاد و اختراع اور ندرت و جدت پسندی کی وجہ سے ان کی شاعری اس دور کے سخن فہمی کے معیار سے مَیچ نہ کر سکی اور نکتہ چینی کا شکار ہوئی۔ ان کے معاصرین نے ان کی شاعری کو مشکل و مہمل اور بے معنی کہنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
(۲)
معاصر افسانہ نگار جب تک زبان کی بنی بنائی ڈگر پر چلتے ہیں، اس وقت تک وہ ہمارے نقادوں کو بہت بھلے لگتے ہیں، لیکن جیسے ہی وہ اس ڈگر سے ہٹ کر اپنے اسلوب میں وسعت، تنوع، تازگی، ندرت، جدت اور انوکھا پن پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نیاراستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں تو یہ نقاد ان پر طرح طرح سے اپنا غصہ اتارنے لگتے ہیں اور ان کے لیے ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جو تنقید کی زبان نہیں کہی جا سکتی۔ ممتاز اردو نقاد اور دانشور وارث علوی کا رضوان احمد، عبدالصمد، شفق، اور شوکت حیات جیسے کامیاب افسانہ نگاروں کے ساتھ یہی تنقیدی رویہ رہا ہے۔ (۱) اسی قسم کا رویہّ پاکستان میں جمیل جالبی کا بھی رہا ہے۔ انھوں نے بھی نئے تخلیق کاروں کے فن، تکنیک، زبان، اسلوب اور طریقِ کار پرسخت نکتہ چینی کی ہے۔ (۲)وارث علوی اور جمیل جالبی دونوں ’’پٹی ہوئی لیک سے گریز‘‘ کو غیر مستحسن قرار دیتے ہیں۔ یہاں گوپی چند نارنگ کا یہ قول نقل کرنا بے جانہ ہو گا جس میں انھوں نے روایت سے بغاوت کو ’’تخلیق کاسب سے بڑا رمز‘‘ قرار دیا ہے:
’’روایت سے رشتہ بنائے رکھنا جتنا ضروری ہے، اتنا ہی ضروری اس سے گریز یا اس سے بغاوت بھی ہے۔ نئی آواز، نئے اسلوب یا نئے انداز کو پانے کی تڑپ، ادب اور آرٹ کی اکتا دینے والی یکسانیت کے دشتِ بے اماں میں تمنا کادوسرا قدم اٹھانے کی آرزو یا تازہ کاری کی تلاش تخلیق کاسب سے بڑا رمز ہے‘‘۔ (۳)
’اسلوب‘ کا ذکر اگرچہ قدما کے یہاں بھی ملتا ہے، لیکن یہ ایک جدید لسانیاتی اصطلاح بھی ہے اور انگریزی لفظ(Style) کا ترجمہ ہے۔ لسانیاتی نقطۂ نظر سے ’اسلوب‘ (Style)سے مراد ’زبان میں تباین‘(Variation in language) ہے، لیکن یہ اسلوب کا وسیع تر مفہوم ہے، کیوں کہ زبان میں تباین(Variation) علاقائی سطح پر بھی پایا جاتا ہے اور سماجی و انفرادی سطح پر بھی۔ علاوہ ازیں موقع و محل(Situations) کے لحاظ سے بھی زبان میں تباین پیدا ہو جاتا ہے۔ ’اسلوب‘ اپنے خاص مفہوم میں ادبی زبان میں تباین سے سروکار رکھتا ہے۔ تباین شعری زبان میں بھی پایا جاتا ہے اور نثر کی زبان میں بھی، اور اسی کے مطالعے اور تجزیے کو’اسلوبیات‘(Stylistics) کہتے ہیں۔ ادب کے اسلوبیاتی مطالعے میں لسانیات سے کافی مدد لی جاتی ہے اور اس کی مختلف سطحوں -صوتی، لغوی، نحوی، معنیاتی پر ادبی متن کے مطالعے اور تجزیے کا کام انجام دیا جاتا ہے۔ اسلوبیات ایک ایسا میدان ہے جہاں ادب اورلسانیات ایک دوسرے کے ساتھ مل جاتے ہیں اور اس ملاپ کی وجہ زبان ہے جو ادب کا ذریعۂ اظہار(Medium) ہے اور لسانیات کا مواد و موضوع (Content and subject matter)۔ ادبی زبان یا اسلوب کا مطالعہ جب لسانیات کی روشنی میں کیا جاتا ہے تو یہی مطالعہ ’اسلوبیات‘ کہلاتا ہے جس کادوسرا نام’اسلوبیاتی تنقید‘ ہے۔
اسلوبیاتی تنقید یااسلوبیات معروضی مطالعۂ اسلوب ہے جس میں مصنف کی شخصیت وسوانح اور تاریخی حوالوں سے صرفِ نظر کر کے صرف ادبی متن پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے اور اسے خود کفیل و با اختیار مان کر اس کا مطالعہ و تجزیہ کیا جاتا ہے اور اس کے اسلوبی خصائص (Style-features) کو نشان زد کیا جاتا ہے۔ یہ مطالعہ توضیحی، معروضی اور مشاہداتی ہوتا ہے، نہ کہ ادبی تنقید کی طرح تشریحی، تاثراتی اور وجدانی۔
اسلوبیاتی تنقید میں اقداری فیصلے نہیں کیے جاتے، یعنی کسی ادبی فن پارے کو اچھا یا برا ثابت نہیں کیا جاتا، کیوں کہ تعینِ قدر اس کا مقصود نہیں۔ اس کا مقصد تو صرف ادبی فن پارے کے لسانی اسٹرکچر کا توضیحی تجزیہ کر دینا ہے اور اس کے خصائص(Features) کو نشان زد کر دینا ہے، اور اگر ممکن ہو تو اس تجزیے سے کوئی نتیجہ بھی مرتب کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ کوئی لازمی امر نہیں۔ کوئی فن پارہ یا کوئی ادیب محض اپنے اسلوبی خصائص کی بنیاد پر ہی منفرد و ممتاز قرار دیا جا سکتا ہے۔ بعض ناقدین کے نزدیک اس بات کی اتنی اہمیت نہیں کہ کیا کہا گیا ہے، جتنی کہ اس بات کی اہمیت ہے کہ کیسے یا کس طرح کہا گیا ہے۔ اسلوبیاتی تنقید کا تعلق آخر الذکر سے ہے۔ ادبی تنقید علاوہ اور باتوں کے، اس بات پر بھی اصرار کرتی ہے کہ کس طرح کہا جانا( یا لکھا جانا) چاہیے۔ اسلوبیاتی تنقید اور ادبی تنقید میں سب سے بڑا فرق یہی ہے۔
بعض تذکروں اور بیان وبلاغت کی کتابوں میں اسلوب اور اس کی چند قسموں کا ذکر ملتا ہے، مثلاً رنگین اسلوب، عاری اسلوب، دقیق اسلوب، سلیس اسلوب، مقفیٰ اسلوب، مرصع و مسجع اسلوب، وغیرہ۔ اسلوبیاتی تنقید میں اسلوب کی قسمیں لسانیاتی سطحات (Levels) کے حوالے سے بیان کی جاتی ہیں، مثلاً صوتی اسلوب، صرفی و لغوی اسلوب، لفظیاتی اسلوب، نحوی و قواعدی اسلوب، معنیاتی اسلوب، وغیرہ۔ ادبی تنقید میں اسلوب کی موضوعی تقسیم پائی جاتی ہے، مثلاً حکایتی اسلوب، سوانحی اسلوب، تمثیلی اسلوب، اساطیری اسلوب، داستانی اسلوب، بیانیہ اسلوب، وغیرہ۔ ان اسالیب میں ہر چند کہ موضوع کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور اسی کے لحاظ سے پیرایۂ اظہار اختیار کیا جاتا ہے، تاہم ان اسالیب کو برتنے میں زبان کی عمل آوری اور کار کردگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ ادبی فن پارہ موضوع کے لحاظ سے خواہ کیسا ہی ہو، وہ لسانی اسٹرکچر سے عاری یا مبرا نہیں ہوتا۔ لسانی اسٹرکچر موضوع در موضوع بدلتا رہتا ہے۔ بعض دوسرے اسالیب بھی ادب میں برتے جاتے ہیں، مثلاً استفہامیہ اسلوب، مکالماتی اسلوب، ڈرامائی اسلوب، ہدایتی اسلوب، ملفوظاتی اسلوب، خطیبانہ اسلوب، وغیرہ۔ ان اسالیب میں بھی زبان کی کار کردگی صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ جن اسالیب کا ذکر اوپر ہوا ہے، ان کا مطالعہ و تجزیہ لسانیات کی مختلف سطحوں پر بہ خوبی کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں علامتی واستعاراتی اسلوب اور تجریدی اسلوب کو اگرچہ ادب میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے، لیکن اسلوبیاتی تنقید انھیں بھی اپنے دائرۂ بحث میں لاتی ہے اور ایک دوسرے اندازسے ان کا مطالعہ و تجزیہ کرتی ہے جسے ’نشانیات‘ (Semiotics) کہتے ہیں۔
اسلوب کی ایک موضوعی شکل ’یادیاتی اسلوب‘( یہ اصطلاح راقم السطور کی وضع کردہ ہے، اور اردو میں نئی ہے ) بھی ہے جس کی جانب اب تک کسی کی توجہ مبذول نہیں ہوسکی ہے۔ اس کا تعلق ماضی کی یادوں سے ہے۔ یادِ ماضی (Nostalgia) ایک طرزِ احساس ہے۔ یہ ذہن کی اس کیفیت کا نام ہے جب انسان بیتے دنوں کی یادوں میں کھو جاتا ہے۔ ان یادوں کو ضبطِ تحریر میں بھی لایا جاتا ہے۔ یہی عمل ’یاد نگاری‘ کہلاتا ہے۔ ماضی کی یادیں کسے نہیں ستاتیں۔ بعض اوقات تو یہ ’’ عذاب‘‘ بن کر نازل ہوتی ہیں۔ ماضی کی یادوں کا انسان کے حافظے سے گہرا تعلق ہے۔ اخترؔ انصاری کہتے ہیں ؎
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
دل کے اس نازک احساس اور پردۂ ذہن پر ابھرنے والی اس کیفیت کو بعض معاصر افسانہ نگاروں نے اپنی تخلیقات میں نہایت خوب صورت انداز سے بیانیہ کی شکل دی ہے۔ یاد نگاری سے متعلق تمام تحریروں کو ’یادیات‘ کے ذیل میں رکھا جا سکتا ہے، خواہ ان کی علاحدہ حیثیت ہو یا وہ فکشن کا جزو ہوں۔
(۳)
’یادیاتی اسلوب‘( راقم السطور کو اردو میں اس سے بہتر کوئی دوسری اصطلاح نظر نہیں آئی) کی ایک عمدہ مثال ہمیں شوکت حیات کے افسانے ’’رحمت صاحب‘‘ میں ملتی ہے۔ رحمت صاحب ملازمت سے ریٹائر ہو چکے ہیں اور بڑھاپے کے دن گزار رہے ہیں جہاں صرف تنہائی ان کے ساتھ ہے۔ ان کی زندگی عذاب بن چکی ہے۔ وہ اپنے بیتے ہوئے دنوں کو یاد کرتے ہیں، بیوی کی رفاقت کو یاد کرتے ہیں جو اب مر چکی ہے۔ وہ ان خوش گوار لمحوں کو یاد کرتے ہیں جب ان کے تمام لڑکے ان کے آگے پیچھے پھرتے تھے، لیکن اب سب نے نظریں پھیر لی ہیں۔ ناسٹیلجیا کی یہ کیفیت بیماری کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ وہ پرانی یادوں میں اتنا کھو جاتے ہیں اور بیتے دنوں کی یادیں انھیں اتنا مغموم اور افسردہ کر دیتی ہیں کہ ’’دن کی صاف و شفاف روشنی میں بھی انھیں ڈھلتی ہوئی شام کااحساس ہوتا ہے‘‘۔ یہاں شوکت حیات نے استعاراتی اسلوب سے بھی کام لیا ہے۔ ’’ڈھلتی ہوئی شام‘‘ بڑھاپے کا نہایت خوب صورت استعارہ ہے۔ طویل العمری میں انسان کی زندگی میں جو خلا پیدا ہو جاتا ہے اسے وہ اپنی پرانی یادوں ہی سے پُر کرتا ہے اور بقیہ زندگی انھی یادوں کے سہارے جیتا ہے۔ اس پیرایۂ اظہار میں ماضیِ مطلق اور ماضیِ استمراری کے فعلی صیغوں کا کثرت سے استعمال ہوتا ہے اور امدادی افعال تھا، تھی، تھے، تھیں بھی جملے کی نحوی ساخت کا جزو بنتے ہیں، مثلاً ؎
ماضی میں جو مزہ مری شام وسحر میں تھا
اب وہ فقط تصورِ شام وسحر میں ہے
(فیض احمد فیضؔ)
غضنفر کاافسانہ’’ڈگڈگی‘‘ علامتی اسلوب میں لکھا ہواسیاسی رنگ کا ایک بہترین افسانہ ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار ایک ڈگڈگی بجانے والا ہے۔ اس کردار میں اور ایک سیاسی لیڈر میں علامتی رشتہ پایا جاتا ہے۔ گویا ڈگڈگی بجانے والاSignifier ہے اور سیاسی لیڈر اس کاSignified۔ علامتوں کے سہارے یا فرڈی نینڈڈی سسیور کی اصطلاح میں ’نشانات‘(Signs) کے سہارے ( جس کے دورخ ہیں : ’سگنی فائر اور سگنی فائڈ‘) دونوں کردار متوازی خطوط پر چلتے ہیں۔ دونوں اپنا اپنا پروپیگنڈا کرتے ہیں، دونوں بھیڑ اکٹھا کرتے ہیں، دونوں چرب زبانی اور لفاظی سے کام لیتے ہیں، دونوں مخصوص قسم کا لباس پہنتے ہیں، دونوں کا تخاطب بھولی بھالی ’جنتا‘ سے ہوتا ہے اور دونوں لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں (ایک اُن سے پیسے مانگتا ہے اور دوسرا ووٹ)۔ اس افسانے میں ڈگڈگی بجانے والے کی پٹاری، جس میں اس نے نہ جانے کیا کیا چھپا رکھا ہے، افسانے کے سیاسی تناظر میں ہیڈن ایجنڈا کی علامت بن جاتی ہے۔ سانپ اور نیولا کی شمولیت سے اس افسانے میں تمثیلی رنگ بھی پیدا ہو گیا ہے۔ یہ دونوں مخالف سیاسی پارٹیوں میں ہاتھا پائی اور لڑائی جھگڑے کی علامت بن کر نمودار ہوتے ہیں۔ یہ افسانہ اپنے اندر بلا کی علامتی واستعاراتی تہہ داری رکھتا ہے۔
ہدایتی اسلوب میں ایک تحکمانہ انداز پایا جاتا ہے۔ سید محمد اشرف نے اپنے افسانے ’’دعا‘‘ میں یہی اسلوب اختیار کیا ہے۔ اس افسانے میں صحیح معنی میں دوہی کردار ہیں، ایک میم صاحب اور دوسرا ان کا ملازم۔ میم صاحب ایک آرام طلب، عیش پسند اور کاہل خاتون ہیں۔ وہ ہر وقت اپنے نوکر پر حکم چلاتی رہتی ہیں۔ اشرف نے اس افسانے میں صیغۂ فعلِ امر سے بہت کام لیا ہے۔ جس سے ہدایتی اسلوب کا صاف پتا چلتا ہے۔
نجمہ محمود کے ناول ’جنگل کی آواز‘ کی طرح ان کے بعض افسانوں میں بھی سوانحی رنگ جھلکتا ہے۔ اسی طرز کا ان کا ایک افسانہ ’’خالی جھولی‘‘ ہے جس کے کچھ حصے ان کی اپنی زندگی کے بعض تجربات کا عکس پیش کرتے ہیں۔ (۴) اس افسانے میں انھوں نے جس مسئلے پر افسانوی انداز میں اپنی توجہ مرتکز کی ہے وہ محض ان کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ ان جیسی بے شمار ماؤں کامسئلہ ہے جنھیں درس وتدریس کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو نے کے لیے اپنے ننھے منے معصوم بچوں کو آیاؤں کے سہارے چھوڑنا پڑتا ہے۔ اس افسانے میں نجمہ نے جزئیات نگاری کی طرف خاص توجہ دی ہے جس سے ان کے گہرے مشاہدے کا پتا چلتا ہے۔ اس کے مکالموں میں بول چال کی زبان کااسلوب اختیار کیا گیا ہے جو اردو کے بنیادی اسلوب سے قریب تر ہے۔
معین الدین جنا بڑے کے افسانے’’بھول بھلیاں ‘‘ میں ڈرامائی اسلوب کی نشان دہی کی جا سکتی ہے۔ ممبئی جہاں انسانوں کا انبوہ پایا جاتا ہے، اس بھیڑ میں کون، کب، کہاں اور کیسے کھو جائے، اس بات کا ہمیشہ ڈر لگا رہتا ہے۔ ڈر، خوف اورSuspense کو جنا بڑے نے بڑے پُر اثر ڈرامائی انداز میں پیش کیا ہے۔ کھوجی رام جو اس افسانے کا مرکزی کردار ہے اور جودوسروں کو کھو جتا اور تلاش کرتا رہتا ہے، اسے بھی انسانوں کی بھیڑ میں کھو جانے کا ڈر رہتا ہے۔
بعض معاصر افسانہ نگاروں نے تمثیلی اسلوب میں بھی افسانے لکھے ہیں۔ تمثیل نگاری کی ایک بہترین مثال بیگ احساس کا افسانہ ’’ملبہ‘‘ ہے جس میں پرندوں کو کرداروں کی شکل دی گئی ہے۔ (۵)اس افسانے میں چڈا، چڑیا اور اس کے نوزائیدہ بچوں، نیز چمگاڈروں اور چونٹیوں کی موجودگی سے ایک ایسی علامتی فضا خلق کی گئی ہے جو انسان کے کرب کو مترشح کرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کی بعض حقیقتوں اور سچائیوں کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔
طارق چھتاری کاافسانہ’’باغ کا دروازہ‘‘ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ آج کے دور میں بھی داستانی اسلوب میں کامیاب افسانہ لکھا جا سکتا ہے اور تحیروطلسم کا رنگ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ داستانی اسلوب کی ایک صفت قصہ در قصہ بھی ہے۔ طارق کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے کہانی کے ایک کردار سے یہ کہلوا کر کہ’’ یہ ہمارے شہر کی بھی داستان ہے‘‘ ایک کہانی کو دوسری کہانی سے مربوط کر کے اپنے عہد کی حسّیت کا بیانیہ رقم کیا ہے۔ فن کی سطح پر یہ افسانہ طارق چھتاری کا ایک انوکھا تخلیقی تجربہ ہے۔
’’آخری کنگورا‘‘ سلام بن رزاق کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔ (۶) یہ افسانہ اربابِ اقتدار کے اس سسٹم پرایک گہرا طنز ہے جس میں محمد علی جیسے شریف، بے ضرر، بے گناہ اور ’’عزت دار شہری‘‘ کو محض شک( اور ایک خاص مذہب کا ہونے) کی بنیاد پر حراست میں لے لیا جاتا ہے اور شدید نفسیاتی دباؤ ڈال کر اس سے پوچھ تاچھ کی جاتی ہے اور اول تو اسے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا ہے، اور اگر وہ اپنی صفائی میں کچھ کہتا بھی ہے تو اس کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے۔ انجامِ کار رات کے گھپ اندھیرے اور مہیب سناٹے میں اسے کوالیس میں ڈال کر نیشنل ہائی وے پولیس چوکی سے دور ایک ویران اور سنسان مقام پر لے جایا جاتا ہے جہاں سے اس کی واپسی قطعاً ناممکن تھی۔ انجانے ڈر اور خون کو منجمد کر دینے والے خوف سے اس کا دل شدید تناؤ میں آگیا تھا۔ پولیس کی کار جتنی تیزی کے ساتھ ہائی وے کی تاریک فضا میں ڈوبتی جاتی تھی، اتنی ہی تیزی کے ساتھ اس کا دل بھی ڈوبتا جاتا تھا۔ کار میں مکمل تاریکی تھی۔ اس نے کچھ کہنا چاہا، ’’مگر ایک اندیش ناک خیال نے اس کے گلے میں پھندا ڈال دیا۔ اور الفاظ ہونٹوں تک آنے سے پہلے ہی حلق میں پھنس کر رہ گئے۔ ‘‘ اسی جملے پر سلام بن رزاق کا یہ افسانہ ختم ہو جاتا ہے۔
سلام نے اس افسانے میں علامتی واستعاراتی اسلوب اختیار کرنے کے علاوہ اشاریت سے بھی کام لیا ہے، لیکن کہیں بھی ابہام پیدا ہونے نہیں پایا ہے۔ اشاریت سے تخلیق کار کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اسے پوری بات(سمجھا کر) نہیں کہنی پڑتی۔ صرف اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اور (سمجھنے کے لیے) بہت کچھ قاری پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ سلام بن رزاق اردو کے ایک منجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں اور اشاریتی اسلوب پر ان کی گرفت اتنی ہی مضبوط ہے جتنی کہ دوسرے اسالیب پر۔ اس افسانے کے آخر میں چند الفاظ کے اشارے سے جو بات کہی گئی ہے وہ قاری کی سمجھ میں بہ خوبی آ جاتی ہے۔ اشاریت کو، جو فنی سطح پر اظہار کی ایک انوکھی تکنیک ہے اس افسانے میں نہایت خوبی کے ساتھ برتا گیا ہے۔ اس کی دو اور مثالیں ملاحظہ ہوں :
جب پولیس کی کار فراٹے کے ساتھ ہائی وے سے گذر رہی تھی جہاں ہر طرف تاریکی تھی( اور کار میں بھی گھپ اندھیرا تھا) تو کار میں بیٹھے ہوئے ایک ’’ کرائم برانچ والے‘‘ سے محمد علی نے پوچھا:’’ اس وقت، وقت کیا ہوا ہے سر!‘‘ اس پر اس شخص نے استہزائیہ انداز میں جواب دیا:’’ اس وقت تمھارا ٹائم بہت خراب چل رہا ہے محمد علی!‘‘ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد پھر اس شخص نے محمد علی سے پوچھا:’’یہ بتاؤ اگر تمھیں کچھ ہو جائے تو تمھاری فیملی کی ذمہ داری کس کے سر ہو گی؟‘‘
علامتی سطح پر بھی یہ ایک کامیاب افسانہ ہے۔ ’’آخری کنگورا‘‘( جو اس افسانے کا عنوان بھی ہے)، انسانی بستی یا آبادی کی آخری حد کی علامت ہے جہاں انسانوں کے ساتھ انسانیت بھی ختم ہو جاتی ہے اور شروع ہو جاتی ہے بربریت اور سفاکی۔ ’’سانپ‘‘ کی امیج اذیت ناکی کی علامت کے طور پر استعمال کی گئی ہے۔ ’’ اندھیرا‘‘ اور ’’تاریکی‘‘ بدی اور ظلم کی علامتی شکل ہے۔ ’’کالا بھجنگ‘‘ اور سیاہ فام شخص‘‘ جبرو تشدد اور بربریت کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اسی شخص نے محمد علی کو اس کے دونوں ہاتھوں کو پیچھے کر کے پولیس کی گاڑی میں دھکیل سا دیا تھا اور خود بھی اس میں بیٹھ کر ایک خاص مقصد سے اس کے ساتھ جا رہا تھا۔ ’’منحوس سناٹا‘‘ اور ’’ویرانی‘‘ سے ماحول میں انجانے خوف اور مہیب پُراسراریت کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ افسانے میں ’’قبرستان‘‘ کی موجودگی انسان کی بے ثباتی کو تو مترشح کرتی ہی ہے، یہ موت کا بھی اشاریہ(Index) ہے اور ان دونوں میں اشاریتی رشتہ (Indexical relationship) پایا جاتا ہے۔
سلام بن رزاق نے ایک نہایت سنجیدہ اورSensitive اشو پر قلم اٹھایا ہے اور صورتِ حال کو افسانے کا رنگ دے دیا ہے۔ زبان و بیان، پیرایۂ اظہار اور اسلوب پر پوری قدرت رکھنے کی وجہ سے ہی وہ اس افسانے کی کریفٹنگ میں نہایت کامیاب رہے ہیں۔
(۴)
واضح رہے کہ ہر ادبی تخلیق اپنے اسلوب کے ساتھ معرضِ وجود میں آتی ہے، لیکن یہ اس کے خالق کا مستقل اسلوب نہیں ہوتا، بلکہ تخلیق در تخلیق اس میں تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی تخلیق میں کئی کئی اسالیب گھل مل جاتے ہیں جیسا کہ حسین الحق کے افسانے ’’کہرا‘‘ میں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس میں بہ یک وقت کئی اسالیب کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ اسلوب میں تنوع افسانے کی معنویت اور تہہ داری کو مجروح نہیں کرتا۔
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، اسلوب کی تشکیل ادب میں زبان کے مخصوص استعمال سے عمل میں آتی ہے۔ کوئی بھی ادیب اپنے تخلیقی عمل کے دوران زبان کا خالی خولی استعمال نہیں کرتا، بلکہ اسے اپنے مزاج اور اپنی تخلیقی ضرورتوں کے مطابق نئی شکل دیتا ہے جس سے وہ زبان Language plus بن جاتی ہے۔ جو فرقLanguage اورLanguage plus میں ہے، وہی فرق عام (بول چال کی) زبان اور ادبی و تخلیقی زبان میں پایا جاتا ہے۔
ادبی و تخلیقی زبان میں مختلف النوع اسلوبی خصائص(Style-features) پائے جاتے ہیں جن کا مطالعہ و تجزیہ اسلوبیات کے دائرے میں رہ کر کیا جاتا ہے۔ زبان کے عام استعمال سے ہٹا ہوا کوئی بھی استعمال یا کوئی بھی طرزِ اظہار اسلوبیاتی نقاد کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔ عام زبانRigid اور بندھے ٹکے اصولوں کی پابندی ہوتی ہے، لیکن ادبی زبان میں زبردستFlexibility پائی جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ادیب زبان کے مروج قاعدوں اور اصولوں سے انحراف کرتا ہے۔ معمول سے انحراف کی مثالیں شعری زبان میں بھی پائی جاتی ہیں اور نثر کی زبان میں بھی، اور یہ بات ادب کی زبان کی پہچان بن چکی ہے۔
عام زبان میں غیر ذی روح(Inanimate) اشیا کو ذی روح(Animate) میں پائی جانے والی (جبلّی) صفات سے متصف نہیں بتایا جاتا، لیکن ادبی زبان میں ایسا ممکن ہے۔ اس تناظر میں عبدالصمد کے افسانے ’’معیار‘‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو جس میں محلہ منہ بسورتا ہے، گلیاں روتی ہیں، سڑکیں آہیں بھرتی ہیں اور پگڈنڈیاں سسکتی ہیں :
’’وہ دبے پاؤں چپ چاپ اپنے شہر جا پہنچا۔ اس کے شہر اور محلے میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں آئی تھی۔ وہی اداس اور بے رونق شہر، وہی منہ بسورتا ہوا محلہ، وہی روتی ہوئی گلیاں، وہی آہ بھرتی ہوئی سڑکیں، وہی سسکیاں لیتی ہوئی پگڈنڈیاں ‘‘۔ (۷)
یہاں وزیر آغا کا ایک اقتباس نقل کرنا بے جا نہ ہو گا جس میں انھوں نے ادب کی پہچان کے سلسلے میں بالکل یہی بات کہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ادیب بے جان چیزوں کو ذی روح قرار دینے کی جہت کے تحت باہر کے مظاہر سے ایک تعلقِ خاطر قائم کرتا ہے۔ وہ بے جان اشیا تک میں روح پھونک کر انھیں زندہ کر دیتا ہے۔ چناں چہ پتھر بولنے لگتے ہیں، چاند مسکراتا ہے، صحرا اسے اپنی جانب بلاتے ہیں حتیٰ کہ کھڑکیاں، منڈیریں اور سٹرکیں بھی ذی روح بن کر اس سے مکالمہ کرنے لگتی ہیں۔ اشیا کو روح تفویض کرنے کا یہ عمل جانداروں کو بھی انسانی سطح پر کھینچ لیتا ہے۔ چناں چہ درخت آہیں بھرتے ہیں، کلیاں مسکراتی ہیں، اور پرندے انسانی محسوسات کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ حد یہ کہ سناٹابولتا ہے، ہوا کا دامن اسے مس کرتا اورسمندر لوری دیتا ہے۔ گویا ادب اپنے لمس سے لخت لخت اشیا کو باہم مربوط کر کے کائنات کو اس کی یکتائی لوٹا دیتا ہے، اور یہ بات عقل کے تجزیاتی عمل کا الٹ ہے۔ ‘‘(۸)
اگر کوئی شخص دو زبانوں پراظہار کی قوت رکھتا ہے تو اسے ذولسانی (Bilingual) کہتے ہیں۔ موقع ومحل (Situations) اور سیاق وسباق(Context) کے لحاظ سے وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں دونوں زبانوں کااستعمال کرتا ہے۔ پہلی زبان اس کی مادری زبان ہوتی ہے اور دوسری زبان اکتسابی زبان کہلاتی ہے جسے وہ اپنی مادری زبان سیکھنے کے بعد رسمی طور پر(Formally) سیکھتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تعلیم یافتہ طبقہ اپنی مادری زبان پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان پر بھی حتی المقدور دسترس رکھتا ہے۔ معاصر اردو افسانہ نگار چوں کہ اردو کے علاوہ انگریزی بھی جانتے ہیں، اس لیے وہ اپنی تخلیقات میں انگریزی الفاظ، فقرے( اور جملے) اکثر استعمال کرتے ہیں۔ اس لسانی عمل کو ’کوڈ سوِچنگ‘ (Code-switching) اور کوڈ مِکسنگ(Code-mixing) کا نام دیا گیا ہے۔ اردو فکشن کی تاریخ میں جس کثرت سے قرۃ العین حیدر نے اپنی تخلیقات میں اردو- انگریزی کوڈسوِچنگ اور کوڈ مِکسنگ کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ معاصر افسانہ نگاروں کے یہاں بھی یہ رجحان عام ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔
واضح رہے کہ ہم مابعد جدید دور میں سانسیں لے رہے ہیں۔ اس دور کی ایک نمایاں خصوصیت تکثیریت ہے جو وحدیت کی برعکس صورتِ حال ہے۔ اس صورتِ حال نے لسانی سطح پر کافی اتھل پتھل پیدا کی ہے۔ اب تہذیبی و ثقافتی سطح پر کسی ایک زبان کی اجارہ داری ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اب جتنی تیزی کے ساتھ معاشرہ یک لسانیت کی بندش کو توڑ کرذولسانیت اور کثیر لسانیت کی جانب سفر کر رہا ہے، اتنی ہی تیزی کے ساتھ علاقائی زبانیں اور مقامی بولیاں سراٹھا رہی ہیں، بولیوں کے زبانیں بننے کے عمل، اور اپنے علاقائی حدود کو توڑ کروسیع تر علاقوں میں نفوذ کر جانے کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔ علاقائی زبانوں اور بولیوں کی اس توانائی، تحرک اور قوتِ عمل کی وجہ سے اردو جو آئینی اعتبار سے کسی بھی صوبے کی(پہلی) علاقائی زبان نہیں ہے، شدید خطرے سے دوچار ہے۔ اگر کوئی حکمتِ عملی (بہت جلد) اختیار نہ کی گئی تو اس زبان کے دوسری زبانوں بالخصوص ہندی کے ساتھ مدغم (Assimilate) ہو جانے کے امکانات کافی روشن ہیں (ہندی علاقوں میں اردو بولنے والوں کی نئی نسل تو اردو رسمِ خط سے نابلد ہوہی چکی ہے!)۔
انگریزی زبان کا معاملہ دوسرا ہے۔ ہر چند کہ انگریزی تیسری دنیا کے ممالک کو نوآبادیاتی صورتِ حال کی دین ہے، لیکن عصری ضرورتوں اور تقاضوں کے ماتحت برطانوی نوآباد کاروں کی اس زبان نے تصادمی صورت پیدا کرنے کے بجائے انجذابی صورت پیدا کر دی ہے جس کے نتیجے میں ہندو پاک کی تمام زبانوں نے اس کے بے شمار الفاظ و تراکیب اور لاتعداد فقرے، جملے اور ضرب الامثال اپنے اندر جذب کر لیے ہیں۔ معاصر اردو افسانوں میں اس لسانی انجذاب کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ یٰسین احمد کے افسانے’’درماں ‘‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’اس رات کو بیگم مرزا کے ہاں پارٹی چل رہی تھی۔ ۔ ۔ جب بھی مرزا صاحب کو اپنے وطن کا کوئی فرد نظر آتا وہ فوراً اسے دوست بنا لیتے۔ ویک اینڈ پر اسے لنچ یا ڈنر پر مدعو کرتے۔ اور اپنے دوسرے دوستوں سے اس کو متعارف کراتے۔ ۔ ۔ ہم سب اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ انٹلکچول تھے۔ حالاتِ حاضرہ پر بھر پور نظر رکھنے والے اور جدید علوم سے آراستہ۔ ۔ ۔ بیگم مرزا پکوان میں مہارت رکھتی تھیں۔ نئے نئے اور عمدہ ڈش تیار کرتی تھیں کہ کھانے والے انگلیاں چاٹتے رہ جائیں۔ اس وقت بھی انھوں نے کئی قسم کی لذیذ اور ذائقہ دار ڈشز بنائی تھیں ‘‘۔ (۹)
اسی طرح ترنم ریاض نے ایک طبی موضوع پرافسانہ لکھ کر انگریزی کی کئی طبی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔ ان کے اس افسانے کا عنوان ہے ’’خواب جوانی‘‘ اور اس میں استعمال شدہ بعض انگریزی الفاظ و اصطلاحات یہ ہیں : (۱۰) ۱-’’آپریشن‘‘ (Operation)، ۲-’’آکسیجن‘‘Oxygen)، ۳-’’Infection ‘‘، ۴-’’کلون‘‘(Clone)، ۵-Genes‘‘کا ’’Code، ۶-Genes‘‘ کاڈی کوڈ‘‘، ۷-’’DNA‘‘اور ’’RNA‘‘، ۹-’’ Genetic Engineer‘‘ وغیرہ۔
معاصر اردو افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں میں انگریزی الفاظ و تراکیب استعمال کرنے کے علاوہ اپنے بعض افسانوں کے عنوانات بھی انگریزی میں رکھے ہیں، مثلاً ’’کنفیشن‘‘Confession ( اسلم خان (۱۱)، ’’کینسر‘‘ Cancer( انور سجاد) (۱۲)، ’’ٹیبلو‘‘ Tablou (ساگر سرحدی (۱۳)، ’’بیسمنٹ‘‘ Basement (جابر حسین)(۱۴)، ’’سوسائٹی‘‘Society ( سید محمد حسن) (۱۵)، ’’پورٹریٹ‘‘ Portrait (جتندر بلو) (۱۶)، ’’البم‘‘ Album (شرون کمار ورما)(۱۷)، ’’بلڈبینک‘‘ Blood Bank(آصف فرخی) (۱۸)، ’’سلیپنگ بیوٹی‘‘Sleeping Beauty (طاہرہ اقبال) (۱۹)، ’’وزیٹنگ کارڈ‘‘ Visiting Card (طارق شاہین (۲۰)، ’’ڈسٹ بن‘‘ Dust Bin (نعیمہ ضیاء الدین) (۲۱)، ’’ڈیوٹی‘‘ Duty ( فاطمہ تاج)(۲۲)، وغیرہ۔
ہندی الفاظ کے استعمال کے سلسلے میں بھی معاصر اردو افسانہ نگاروں کا رویہ نہایت فراخ دلانہ رہا ہے۔ ان افسانہ نگاروں نے اپنی تخلیقات میں بہ قدرِ ضرورت کثیر تعداد میں ہندی الفاظ استعمال کیے ہیں جن میں تدبھو اور تتسم دونوں طرح کے الفاظ شامل ہیں۔ ہندی الفاظ کا تناسب ان افسانوں میں زیادہ ہو جاتا ہے جن کے کردار غیر مسلم ہوتے ہیں۔ ابنِ کنول کاایسا ہی ایک افسانہ بہ عنوان’’ہستک چھیپ‘‘ ہے جس میں ہندی الاصل الفاظ بہ کثرت استعمال کیے گئے ہیں اور بعض اردو الفاظ کے تلفظ کو بھی نرم بنا دیا گیا ہے۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری تھا کہ یہ الفاظ دلت طبقے کے ان پڑھ کرداروں سے ادا کرائے گئے ہیں۔ اس افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو(واضح رہے کہ اس افسانے کا عنوان بھی ہندی الاصل ہے):
’’اعلیٰ ذات کے افراد نے بڑے بڑے جلسوں کا انعقاد کیا جن میں کہا گیا کہ ’’یہ حکومت ناستک ہے۔ دھرم کو بھرشٹ کر رہی ہے۔ ہماری صدیوں سے چلی آ رہی پرمپراؤں کو ختم کر رہی ہے۔ کوئی بھی آدمی چھوٹا بڑا ہمارے بنانے سے نہیں بنتا، بلکہ بھگوان اسے چھوٹا بڑا بناتے ہیں۔ یہ سب آدمی کے کرموں کا پھل ہوتا ہے۔ سنسار میں جو اچھے کام کرتا ہے اس کا جنم اچیہ کوٹی میں ہوتا ہے، اور جو برے کرم کر کے یہاں سے جاتا ہے اسے نچلی جاتوں میں پیدا کیا جاتا ہے۔ ۔ ۔ ‘‘
پورے ملک میں اس طرح کی سبھاؤں کا اہتمام کیا گیا اور دھرم کے نام پر انسانی برادری کی طبقاتی تقسیم کو جائز قرار دیا گیا۔ ۔ ۔ ایسا نہیں تھا کہ رام پیارے کو ملک میں ہونے والے ان ہنگاموں کا پتا نہ ہو۔ ۔ ۔ لیکن رام پیارے اس وقت ان باتوں میں حصہ نہیں لے رہا تھا۔ وہ تو مستقل اسی جوڑ توڑ میں لگا ہوا تھا کہ آرکشنٹر سے اس کے پریوار کو کتنا فائدہ پہنچے گا۔ وہ کہنے لگا۔ ۔ ۔ ’’ ابھی تو لگتا نہیں کہ یہ کانون لاگو ہو جائے گا۔ ان اونچی ذات والوں نے تو بڑا ہنگامہ کر رکھا ہے۔ پورے دیس میں آرکشنٹر وردھی آندولن ہو رہے ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘(۲۳)
—————-
معاصر اردو افسانے کی زبان اور اسلوب کے بارے میں خلاصۂ کلام کے طور پر چند باتیں کہی جا سکتی ہیں جو درجِ ذیل ہیں :
۱- معاصر افسانے کی زبان نہ تو بالکل شاعرانہ ہے اور نہ ہی بالکل سپاٹ۔ یہ ضرور ہے کہ بعض افسانہ نگاروں کے یہاں یہ عام بول چال کی زبان سے بہت قریب ہو جاتی ہے۔
۲- معاصر افسانے کی زبان میں تنوع اور Flexibility کا عنصر کافی نمایاں ہے جس سے تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ کہیں کہیں زبان کے معمول (Norm) سے انحراف بھی پایا جاتا ہے، لیکن ایسا تخلیقی ضرورتوں کے شدید تقاضوں کے تحت ہی کیا گیا ہے۔
۳- معاصر افسانے کی زبان میں متعلقہ علاقائی اور مقامی لسانی اثرات کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ دوسری زبانوں اور بولیوں کی لفظیات کی شمولیت سے اردو کے ذخیرۂ الفاظ اور اردو سلینگ(Slang) میں کسی قدر اضافہ ہوا ہے۔ بلکہ اس سے اس امر کا بھی جواز پیدا ہوتا ہے کہ اردو ایک’’ہندوستان گیر‘‘ زبان ہے۔
۴- معاصر افسانہ نگاروں نے حسبِ ضرورت علامتوں، استعاروں اور تشبیہوں کا بھی استعمال کیا ہے، لیکن ان میں ندرت اور تازہ کاری ہے۔ اس سے زبان نہ تو بوجھل ہوئی ہے اور نہ ابہام کا شکار ہوئی ہے۔
۵- معاصر افسانہ نگاروں کے یہاں اسلوب کی رنگارنگی اور طرزِ اظہار میں جدت اور ندرت کا بھی احساس ہوتا ہے۔
۶- معاصر افسانہ نگاروں نے پرانی روش کو ترک کر کے مابعد جدید دور میں اپنے تخلیقی عمل کے ذریعے اردو زبان کو عوام تک پہنچانے اور اسے عوامی ترسیل کا ذریعہ بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
٭٭
حواشی
۱- دیکھیے وارث علوی، ’جدید افسانہ اور اس کے مسائل‘(نئی دہلی: نئی آواز، جامعہ نگر، ۱۹۹۰ء)، ص ص ۴۲ تا ۴۵۔
۲- دیکھیے جمیل جالبی کی کتاب ’نئی تنقید‘، مرتبہ خاور جمیل(دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۱۹۹۴ء)۔
۳- بہ حوالہ راشد انور راشد، ’’فکشن تنقید اور گوپی چند نارنگ‘‘، مطبوعہ ’مباحثہ‘(پٹنہ)، جلد۱۰، شمارہ ۳۶(دسمبر۲۰۱۰ تا مارچ ۲۰۱۱ء)، ص ۴۳۔
۴- نجمہ محمود، ’’خالی جھولی‘‘، مشمولہ ’جنگل کی آواز‘ از نجمہ محمود( علی گڑھ: وِژن پبلی کیشنز، ۲۰۱۱ء)۔
۵- بیگ احساس، ’’ملبہ‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’شاعر‘(ممبئی)، افسانہ نمبر، جلد ۵۲، شمارہ ۱۱-۱۰ (۱۹۸۱ء)۔
۶- سلام بن رزاق، ’’آخری کنگورا‘‘، مطبوعہ سہ ماہی ’بادبان‘(کراچی)، خاص نمبر، شمارہ نمبر۱۲(اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۸ء)۔
۷- عبدالصمد، ’’معیار‘‘، مطبوعہ ’مباحثہ‘(پٹنہ)، جلد ۴، شمارہ ۲۷(جنوری تا مارچ ۲۰۰۷ء)، ص ۹۰۔
۸- وزیر آغا، ’تنقید اور جدید اردو تنقید‘(نئی دہلی: مکتبہ جامعہ لمٹیڈ، ۱۹۸۹ء)، ص ص ۱۵- ۱۴۔
۹- یٰسین احمد، ’’درماں ‘‘، مطبوعہ ’مباحثہ‘(پٹنہ)، جلد ۹، شمارہ ۳۵( جون تا نومبر ۲۰۱۰ء)، ص ص ۱۴۰-۱۳۷۔
۱۰- ترنم ریاض، ’’خواب جوانی‘‘، مطبوعہ ’آجکل‘(نئی دہلی)، جلد ۵۹، شمارہ۸ (مارچ ۲۰۰۱ء)۔
۱۱- اسلم خان، ’’کنفیشن‘‘، مطبوعہ ’نیا ورق‘(ممبئی)، جلد۱، شمارہ نمبر۲(اپریل تا جون ۱۹۹۷ء)۔
۱۲- انور سجاد، ’’کینسر‘‘، مشمولہ ’بہترین نئی کہانیاں ‘، مرتبہ اعجاز راہی اور احمد داؤد(راول پنڈی: دستاویز پبلی کیشنز، ۱۹۸۰ء)۔
۱۳- ساگر سرحدی، ’’ٹیبلو‘‘، مشمولہ ’بہترین نئی کہانیاں ‘، مرتبہ اعجاز راہی اور احمد داؤد(راول پنڈی: دستاویز پبلی کیشنز، ۱۹۸۰ء)۔
۱۴- جابر حسین، ’’بیسمنٹ‘‘، مطبوعہ ’آجکل‘(نئی دہلی)، جلد ۵۹، شمارہ ۸ (مارچ ۲۰۰۱ء)۔
۱۵- سید محمد حسن، ’’سوسائٹی‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’شاعر‘(ممبئی)، جلد ۷۹، شمارہ۶(جون۲۰۰۸ء)۔
۱۶- جتیندر بلو، ’’پورٹریٹ‘‘، مطبوعہ ’مباحثہ‘(پٹنہ)، جلد۹، شمارہ ۳۵(جون تا نومبر، ۲۰۱۰ء)۔
۱۷- شرون کمار ورما، ’’البم‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’شاعر‘(ممبئی)، جلد۶۳، شمارہ نمبر۳، ۴ و ۵ (۱۹۹۲ء)۔
۱۸- آصف فرخی، ’’بلڈ بینک‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’شاعر‘(ممبئی)، ہم عصر اردو ادب نمبر، جلد۶۸، شمارہ نمبر۵ تا۱۲( مئی تا دسمبر ۱۹۹۷ء)۔
۱۹- طاہرہ اقبال، ’’سلیپنگ بیوٹی‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’شاعر‘ (ممبئی)، جلد۷۹، شمارہ نمبر۳(مارچ ۲۰۰۸ء)۔
۲۰- طارق شاہین، ’’وزیٹنگ کارڈ‘‘، مطبوعہ سہ ماہی ’بادبان‘ (کراچی)، خاص نمبر، شمارہ نمبر۱۲ (اکتوبر تادسمبر ۲۰۰۸ء)۔
۲۱- نعیمہ ضیاء الدین، ’’ڈسٹ بن‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’اوراق‘(لاہور)، خاص نمبر( اردو ادب کے پچاس سال)، جلد ۳۲، شمارہ ۷و ۸(جولائی، اگست ۱۹۹۷ء)۔
۲۲- فاطمہ تاج، ’’ڈیوٹی‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’شاعر‘(ممبئی)، جلد ۸۲، شمارہ نمبر۱(جنوری۲۰۱۱ء)۔
۲۳- ابن کنول، ’’ہستک چھیپ‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’شاعر‘(ممبئی)، ہم عصر اردو ادب نمبر، جلد۶۸، شمارہ نمبر ۵ تا ۱۲(مئی تادسمبر ۱۹۹۷ء)، ص ص۳۶۱-۳۶۰۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید