FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

مستنصر حسین تارڑ کے کچھ مضامین

               مستنصر حسین تارڑ

احمو کمہار کے گدھے کی داستان

میں نے اپنے گزشتہ کالم میں اچھو شیخ کی داستان سنائی تھی جو کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر بیٹھا کسی تیز دھار کانچ کے ٹکڑے سے اپنی گردن کاٹتا رہتا تھا اور اس عمل سے لطف اندوز ہوتا تھا یہاں تک کہ جب گردن کے زخم میں سے بہنے والے خون سے اس کی مٹھی آلودہ ہو جاتی تو بھی اسے کچھ خبر نہ ہوتی تھی اور وہ مسکراتا ہوا اپنے آپ کو ہلاک کرنے کے عمل میں مشغول رہتا تھا، اب یہ آپ کی صوابدید پر منحصر ہے کہ آپ اس داستان کو پاکستان کی موجودہ صورتحال پر کیسے منطبق کرتے ہیں۔

آج ’’ ہزار داستان‘‘ میں سے میں آپ کو ایک اور داستان سناؤں گا اور اس کا ماخذ بھی گاؤں میں بسر کیا ہوا بچپن کا ایک برس ہے۔ میں اسے ایک آپ بیتی کے طور پر پیش نہیں کر رہا بلکہ ایک ایسی داستان کی صورت میں سنا رہا ہوں جس میں آپ آسانی سے آج کا پاکستان دیکھ سکتے ہیں یعنی اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب میرے والد صاحب چوہدری رحمت خان تارڑ نے میرے ننھیال گکھڑ منڈی میں کچھ رقبہ ٹھیکے پر حاصل کر کے وہاں ایک جدید طرز کا سیڈ فارم قائم کیا جہاں وہ بیج تیار کئے جاتے تھے جو عام طور پر درآمد کئے جاتے تھے، ان میں سبزیوں کے علاوہ ولائتی پھولوں کے بیج بھی شامل ہوتے تھے۔ پاکستان کے قیام سے پیشتر سرینگر کی جھیل ڈل کے کنارے بھی والد صاحب نے اس نوعیت کا ایک فارم بنایا تھا جہاں اگائے جانے والے ڈہلیا کے پھول بلا مبالغہ گوبھی کے پھولوں کے حجم کی برابری کرتے تھے چنانچہ ہم لوگ بھی لاہور سے ایک ڈیڑھ برس کیلئے گکھڑ منڈی شفٹ ہو گئے۔ مجھے نارمل سکول میں تیسری جماعت میں داخل کروا دیا گیا اور یہ میرے لئے نہایت مشکل دن تھے، میری امی حسب سابق مجھے نہایت صاف ستھرے لباس میں سکول بھیجتیں، پالش شدہ بوٹ، کلف لگی سفید شلوار اور ایک چھوٹی سے اچکن اور بال وغیرہ بھی نفاست سے بنے ہوئے اور یہ ’’ گیٹ اپ‘‘ سکول کے بچوں کو پسند نہ آیا، کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی جب وہ گاؤں کی گلیوں میں صرف ایک کرتے میں گھوما کرتے تھے چنانچہ وہ ایک غول کی صورت میرے پیچھے لگ جاتے اور ’’ سونے کی چڑیا، سونے کی چڑیا‘‘ کے نعرے لگانے لگتے اور میں ہمیشہ روتا ہوا گھر واپس آتا، اور وہاں جب میں ڈیڑھ برس بعد لاہور لوٹا تو میرے دیہاتی ہو چکے لہجے کی وجہ سے رنگ محل مشن سکول کے خالص لاہوری بچے مجھے ’’ ہائے پت پینڈو، ہائے پت پینڈو‘‘ کہہ کر چھیڑتے اور میں یہاں بھی روتا ہوا گھر لوٹتا۔ نہ مجھے گاؤں نے مکمل طور پر قبول کیا اور نہ ہی شہر نے اور یہ صورتحال اب تک جوں کی توں چلی آ رہی ہے۔

بہرطور یہ انہی دنوں کا قصہ ہے میں حسب معمول سونے کی چڑیا بنا، گلے میں بستہ ڈالے ہاتھ میں تختی پکڑے ایک سرد سویر میں سکول جا رہا تھا ریلوے لائن کے پار ہوا تو چادروں کے ایک کارخانے کے قریب میں نے گدھوں کا ایک ہجوم دیکھا اور ان میں سے اکثر گدھوں کی لمبی گردنیں خون سے تر تھیں میں ذرا قریب ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گدھوں کے اس غول کے اندر احمو کمہار کا گدھا پڑا ہے اور گدھ اس کی بوٹیاں نوچ رہے ہیں، میں نے ایک روز پہلے بھی اس گدھے کو یہاں دیکھا تھا یہ احمو کمہار کا تھا شاید وہ بیمار تھا یا زخمی تھا اور احمو اسے جان بوجھ کر یہاں چھوڑ گیا تھا لیکن تب وہ اپنے پاؤں پر کھڑا تھا، زندہ تھا اور دور دور تک کسی گدھ کا نام و نشان نہ تھا، ایک بچے میں جو قدرتی تجسس ہوتا ہے اس کے زیر اثر میں ذرا اور قریب ہوا، چند گدھ مجھے نزدیک ہوتے دیکھ کر پھڑپھڑا کر پرے ہو گئے، اور تب مجھ پر ایک ہولناک انکشاف ہوا کہ احمو کمہار کا گدھا ابھی زندہ تھا، اٹھنے کی کوشش کرتا تھا اور پھر ڈھیر ہو جاتا تھا اور گدھ اس زندہ گدھے کی بوٹیاں نوچ رہے تھے، اور وہ نہایت منظم تھے، باری باری آگے بڑھ کر اپنا حصہ نوچتے تھے، اس لئے کہ وہ احمو کمہار کے گدھے کی پشت میں اپنی لمبی گردن یوں داخل کرتے کہ باہر صرف ان کا پھڑپھڑاتا ہوا وجود رہ جاتا اور وہ گدھے کے اندر اپنی چونچ سے اس کے گوشت کو نوچتے اور پھر اپنی گردن باہر نکالتے تو وہ خون سے رنگی ہوتی اور ان کی چونچ میں گدھے کی ایک بوٹی ہوتی، تب ایک اور گدھ اپنی باری کا منتظر آگے ہوتا اور اپنی چونچ اس کے اندر گھسیڑ کر اپنا حصہ نوچ کر گردن نکال لیتا اور زندہ گدھے کے زندہ گوشت کو نگلنے میں مشغول ہو جاتا، تمام گدھ نہایت تحمل سے اپنی باری کا انتظار کرتے، آپس میں نہ لڑتے جھگڑتے اور نہ ہی ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے کہ انہوں نے مشترکہ طور پر طے کر رکھا تھا کہ اس گدھے کو صلح صفائی سے کھانا اور نگلنا ہے۔ جب کبھی احمو کمہار کے گدھے کے اندر داخل ہو چکی چونچ اس کا ماس ادھیڑتی تو وہ بے طرح تڑپتا، ایک مردنی اس کی آنکھوں میں اتر رہی تھی، یہ منظر ایک چھوٹے سے بچے کے ذہن کو کیسے جھنجھوڑ کر خوفزدہ ہمیشہ کیلئے خوفزدہ کر سکتا ہے اس کا بیان ممکن نہیں ہے، میری ٹانگیں لرز رہی تھیں اور آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا۔

اس منظر میں سب سے ہولناک حقیقت یہ تھی کہ ظاہری طور پر گدھے کے پورے بدن پر کوئی زخم نہ تھا ایک خراش تک نہ تھی لیکن اس کا اندرون ادھڑ چکا تھا اور نصف سے زیادہ کھایا جا چکا تھا، مجھے وہاں سے بھاگ جانا چاہئے تھا لیکن مجھے طیش آگیا، اگر وہ گدھا مر چکا ہوتا تو گدھ اس کے مردار کے حقدار تھے لیکن وہ تو زندہ تھا اور اس کے باوجود اس کی بوٹیاں نوچی جا رہی تھیں، میں نے آگے بڑھ کر اپنے تئیں گدھوں پر حملہ کر دیا، اپنی چھوٹی سی تختی سے ان کو مارنے لگا لیکن ان پر کچھ اثر نہ ہوا، وہ تختی لگنے سے ذرا پھڑپھڑاتے اور پھر بیٹھ جاتے، میں نے ایک گدھ کے دھڑ پر بھی تختی ماری جس کی گردن گدھے کے اندر گھسی ہوئی اپنے حصے کا گوشت نوچ رہی تھی پر اس پر بھی کچھ اثر نہ ہوا اور پھر شاید کسی گدھ نے میرے بازو پر چونچ ماردی اور یکدم میں لرز گیا کہ کہیں یہ گدھے کو چھوڑ کر مجھ پر حملہ آور نہ ہو جائیں میرے اندر کی بوٹیاں بھی نہ نوچ لیں اور میں لرزتا روتا ہوا گھر واپس چلا گیا جہاں مجھے تیز بخار نے آ لیا،یہ منظر آج بھی پوری تفصیل کیساتھ میرے ذہن پر نقش ہے۔

اب آپ خود فیصلہ کیجئے کہ کیا آج بھی کوئی ایسا گدھا ہے جو بظاہر ٹھیک لگتا ہے لیکن گدھ اس کے اندر کا نصف ماس نوچ چکے ہیں ؟

گدھوں نے طے کر رکھا ہے کہ ہم نے اس گدھے کو کھانا ہے لیکن اپنی باری آنے پر، منظم رہنا ہے، آپس میں کم از کم اس گدھے کو نوچنے کے معاملے میں جھگڑا نہیں کرنا، اپنی باری کا انتظار کرنا ہے، جب تک پچھلا گوشت حلق سے اتار کر ہضم کریں گے تب تک پھر سے باری آ جائے گی اور گدھا ابھی زندہ ہے اور اذیت سے تڑپتا ہے۔ اور کوئی نہیں جو اس گدھے کی مدد کو پہنچے، کم از کم ایک چوٹی سی تختی سے ان گدھوں پر حملہ کر دے۔

کوئی ہے؟

٭٭٭

میں ایک مخبوط الحواس بابا ہو چکا ہوں

سکول کے زمانے میں ایک حکایت پڑھی تھی کہ ایک کمر خمیدہ بڑھیا کو گلی کے بچے چھیڑتے تھے کہ اماں یہ کمان کہاں سے حاصل کی تو اس نے کہا کہ بیٹے جب تم میری عمر کو پہنچو گے تو ایسی کمان تمہیں بھی مل جائے گی تب ہم اس حکایت پرہنساکرتے تھے اور اب یہی حکایت یاد آتی ہے تو رونا آتا ہے کہ بڑھیا نے بھی کیا پتے کی بات کی تھی ویسے اپنی عمر ابھی اتنی نہیں ہوئی کہ ہمیں وہ کمان خود بخود حاصل ہو جائے لیکن بڑھاہے میں اور کمانیں بھی ہوتی ہیں جو آپ نہ بھی چاہیں تو قدرت کی جانب سے مل جاتی ہیں اور ان میں ایک کمان مخبوط الحواسی کی ہے جو الحمد للہ مجھے مل چکی ہے بچپن میں ہی جب ہم مخبوط الحواس بوڑھوں کے قصے سنتے تھے تو ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتے تھے اور نہیں جانتے تھے کہ یہ وقت ہم پربھی آئے گا مثلاً مجھے چراغ دین دکاندار یاد آتا ہے جو ہر صبح اپنی دکان کھول کراس میں خود ہی جھاڑو دیا کرتا تھا جھاڑو دیتے ہوئے گرد اٹھتی تو اسے احساس ہوتا کہ یہ گرد اس کے کپڑوں پرپڑ رہی ہے وہ اسی جھاڑو سے اپنے کوٹ کی گرد صاف کرتا اورپھرسے صفائی میں مشغول ہو جاتا اسی بازار کے ایک صاحب نے چراغ دین کو  کہا کہ بھئی تم اسی جھاڑو سے اپنا کوٹ بھی صاف کر لیتے ہو تو کیا یہ مناسب ہے تو چراغ دین نے جواب دیا تھا کہ چوہدری صاحب جھاڑو صفائی کیلئے ہوتا ہے نا۔ فرش نہ صاف کیا اپنا کوٹ صاف کر لیا تو اس میں حرج کی کیا بات ہے چراغ دین یوں تو نہایت ہوشیار کاروباری تھا لیکن آخری دموں تک اپنے کوٹ کو جھاڑو سے ہی صاف کرتا رہا۔ ان دنوں مجھے بھی محسوس ہو رہا ہے کہ میں کچھ کچھ چراغ دین ہوا جا رہا ہوں یعنی مجھے بھی مخبوط الحواسی کی کمان عطا ہو گئی ہے یعنی پین میں سیاہی بھری ہے لکھنے کیلئے کاغذ میز پر رکھے ہیں اوراسی دوران بھول گیا ہوں کہ پین میں سیاہی بھر چکا ہوں تو دوبارہ بھرنے لگتا ہوں اور حیرت زدہ ہوتا ہوں کہ کمال ہے رات کواسی پین سے چھ صفحے ناول کے لکھ چکا ہوں اور ابھی تک اس میں کافی مقدار میں سیاہی موجود ہے یوسفی صاحب اس نوعیت کے حوالے دیتے تھے تو ہم سمجھتے تھے کہ موصوف مزاح تخلیق کرنے کی خاطر بے سروپا باتیں بیان کرتے ہیں اور اب جا کر کھلا ہے کہ بے چارے اپنی عمر بیان کر رہے ہیں ہم اسے مزاح کے کھاتے میں ڈال رہے تھے اسی پین میں دوبارہ سیاہی بھرنے سے یاد آیا کہ یوسفی صاحب نے کہیں لکھا ہے کہ اب تو یہ حالت ہے کہ لوٹا ہاتھ میں تھامے حیران کھڑے ہیں کہ غسل خانے سے ہو آئے ہیں یا ابھی جانا ہے اگر ابھی جانا ہے تو لوٹا خالی کیوں ہے اور اگر جا کے آرہے ہیں تو پیٹ میں ابھی تک گڑگڑ کیوں ہو رہی ہے۔

غسل خانے کا تذکرہ چل نکلا ہے تو چلئے ابھی دوچار روز پیشتر جو ہم پر بیتی ہے وہ بیان کر دیں اور بے شک ہماری بیگم سے دریافت کر لیجئے کہ یہ وقوعہ جوں کاتوں گزرا تھا چونکہ ان دنوں پانی کی ٹینکی ادھر بھریں تو ادھر خالی ہو جاتی ہے کیونکہ گھر کے فرش کے نیچے پائپ ایک مدت سے دفن زنگ آلودہ ہو چکے ہیں اور ان میں کوئی شگاف پیدا ہو چکا ہے چنانچہ سارا پانی بہہ جاتا ہے اور جانے کہاں جاتا ہے متعدد پلمبر حضرات آئے ہیں ادھرادھرسے ٹھونک بجا کر فرش اکھاڑ کر دیکھ چکے ہیں تھوڑی بہت مرمت کے بعد اعلان کر چکے ہیں کہ لیجئے تارڑ صاحب آپ کی ٹینکی میں سے اگر پانی کا ایک قطرہ بھی ضائع ہو تو مجھے پھانسی لگا دیجئے گا جو معاوضہ ادا کرتا ہوں اس سے میری جیب خالی ہو جاتی ہے اور کچھ دیر بعد پانی سے بھری ہوئی ٹینکی بھی خالی ہو جاتی ہے یعنی خالی ٹینکی دیکھ کر پلمبر کوپھانسی لگانے کا ارادہ کر لیتا ہوں لیکن اس دوران اس کا نام بھول جاتا ہوں چنانچہ ارادہ ترک کرنا پڑتا ہے۔ اب میں گلی گلی گھوم کر یہ آواز تو نہیں لگا سکتا کہ وہ کون ساپلمبر ہے جس نے میری ٹینکی ٹھیک کی تھی،پلیز وہ آ جائے میں اسے پھانسی لگانا چاہتا ہوں بہرحال ٹینکی خالی ہونے سے ٹھنڈا پانی بھی کم دستیاب ہوتا ہے تو بھلا گرم پانی کہاں سے آئے گا چنانچہ اس کے حصول کیلئے روایتی اور ثقافتی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے یعنی چولہے پر دیگچہ چڑھا کرپانی گرم کر لیا جاتا ہے اورپھراسے کسی نہ کسی طرح اٹھاکرغسل خانے میں رکھی بالٹی میں الٹا دیا جاتا ہے دوچار روز پیشتر نہانے کی تیاری کی ہے ابلتے ہوئے پانی کا دیگچہ بمشکل اٹھایا ہے،غسل خانے میں گیا ہوں اور وہ پانی سنک میں انڈیل کر دیگچہ واپس باورچی خانے میں رکھا ہے غسل خانے کو مقفل کر کے نہانے لگا ہوں اور پانی کا درجہ حرارت چیک کرنے کیلئے بالٹی میں ہاتھ ڈالا ہے تو وہ ٹھنڈا ٹھار۔ اب سمجھ نہیں آ رہی کہ اتنا ابلتا ہوا پانی ٹھنڈے پانی میں انڈیلا ہے تو وہ بدستور ٹھنڈا کیوں ہے اسی ٹھنڈے پانی سے ٹھٹھرتے ہوئے اشنان کیا باہر آ کر ہیٹر جلایا، اپنے آپ کوسینکا اور بیگم سے رہنمائی چاہی اس نے حلفیہ بیان دیا کہ تم میرے سامنے گرم پانی کا دیگچہ اٹھا کرغسل خانے میں گئے ہو اور پھر خالی دیگچہ اٹھائے واپس آئے ہو ویسے تم نے گرم پانی بالٹی میں ہی انڈیلا تھا ناں اور تب جا کر یکدم یاد آیا کہ اوہو اسے تو سنک میں انڈیل آیا تھا میں نے کیوں ایسا کیا تھا اس کی کوئی نفسیاتی وجہ بھی ہوسکتی ہے لیکن آپس کی بات ہے میں کچھ کچھ نہیں بہت کچھ چراغ دین ہو چکا ہوں۔

میں اور میری بیگم نہایت باقاعدگی سے ہر صبح ماڈل ٹاؤن پارک میں سیر کیلئے جاتے ہیں پارک میں داخل ہوتے ہی ہم مخالف سمتوں میں چلنے لگتے ہیں کہ بھلاایسی پر فضا صبح میں اگر پھر ایک دوسرے کے چہرے ہی دیکھنے کو ملیں تو فائدہ۔ سیرسے فارغ ہو کر میں دوستوں کے ہمراہ بیٹھ جاتا ہوں اور وہ کچھ فاصلے پر خواتین کے ایک گروپ میں شامل ہو کر گپیں لگانے لگتی ہے نو بجے کے قریب میں اٹھتا ہوں تو وہ بھی اپنی سہیلیوں سے اجازت لے کر چلی آتی ہے اور ہم گھر لوٹ آتے ہیں پچھلے ہفتے میں اس کے اٹھنے کا منتظر رہا لیکن وہ نہ آئی سب دوست چلے گئے اور میں اس کا انتظار کرتا رہا۔ چونکہ میں کبھی بھی ادھر نہیں جاتا جدھر خواتین کا اجتماع ہوتا ہے اس لیے بیٹھا رہا اس دوران شیخ ایوب تشریف لائے اور کہنے لگے تارڑ صاحب خیریت ہے ابھی تک بیٹھے ہیں میں نے کہا کہ جی وہ بیگم وہاں سے اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتیں وہ کہنے لگے میں اپنی بیگم کو لینے ادھر جا رہا ہوں تو آپ کی بیگم کو بھی اطلاع کر دوں گا کہ آپ انتظار کر رہے ہیں تھوڑی دیر بعد شیخ صاحب مسکراتے ہوئے واپس آئے اور کہنے لگے تارڑ صاحب میری بیگم کہتی ہیں کہ آپ کی بیگم تو آج سیر کیلئے آئی ہی نہیں تو وہاں کیسے ہوسکتی ہیں اور تب یاد آیا کہ اوہو واقعی آج تو میں اکیلا ہی پارک میں آیا تھا قارئین میں اپنی ہڈ بیتی بیان کر رہا ہوں مزاح تخلیق کرنے کی کوشش نہیں کر رہا اس لیے ہنسنے کی کوئی ضرورت نہیں میری عمر کو پہنچیں گے تو اسی نوعیت کا مزاح تخلیق ہو گا۔

٭٭٭

http://www.opfblog.com/urdu/wp-admin/post-new.php

 

 

دریا سوکھ رہے ہیں۔ ۔۔۔

اس گرم اور بدن کوپیاس سے سکھادینے والی رات کو گزرے بیس برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے دن بھر قہر کی گرمی پڑی تھی اورسورج سے آگ برسی تھی اور جب رات آئی تو اس میں بھی سکھ کا ایک سانس بھی نہ تھا بدن کے اندر پیاس کا صحرا تھا اوراس کے باہر تن پسینے سے بھیگتا تھا اور زبان سوکھتی ہوئی تالو سے چپکتی تھی میری عادت ہے کہ سردیاں ہوں یا گرمیاں میں اپنے سرہانے پانی کا ایک گلاس رکھ کرسوتاہوں کیونکہ لامحالہ رات کے اندر مجھے پیاس محسوس ہوتی ہے اور میں پانی کے گھونٹ بھرتا رہتا ہوں ظاہر ہے اگرموسم بھی گرمی کی شدت کے ہوں تو میری پیاس کا کچھ حساب نہیں رہتا اس رات تو لگتا تھا کہ آگ برساتا سورج غروب ہی نہیں ہوا بدستور شعلہ بار ہے میں کچھ دیر اونگھ لیتا اور پھر تپائی پر دھرے پکے دھاتی گلاس میں سے دوچار گھونٹ بھر کر اپنے بدن کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا، غنودگی اور بیداری کے درمیان ایک لمحے میں میں نے پانی پینے کیلئے گلاس تھاما تو مجھے واہمہ سا ہوا کہ آخری بار جب میں نے پانی پیا تھا تب پانی کی سطح قدرے بلند تھی میری ہتھیلی جوگلاس کی دھاتی سطح کے گرد لپٹی ہوئی تھی اس سے محسوس ہوتا تھا کہ گلاس میں پانی کسی قدر کم ہو چکا ہے اب میرا نیم خوابیدہ ذہن سوال کرنے لگا کہ اگر یہ واہمہ درست ہے تو گلاس میں پانی کم کیسے ہو گیا وہ پانی کہاں گیا اس پیاسی رات کے چند روز بعد میں نے مشہور آرکیولوجسٹ مغل صاحب کا ایک مضمون اب مرحوم ہوچکے’’پاکستان ٹائمز‘‘ میں پڑھا جو قدیم چولستان کے بارے میں تھا اس مضمون میں ایک فقرے نے میری توجہ حاصل کر لی اور وہ کچھ یوں تھا کہ ایک زمانے میں دیومالائی دریا سرسوتی چولستان میں بہتا تھا اور پھر نامعلوم وجوہات کی بناء پر خشک ہو گیا اب ایک وسیع پاٹ والا دریا ہزاروں برس سے بہنے والا یکدم خشک کیسے ہو جاتا ہے انہی دنوں دریاؤں کے خشک ہو جانے کی وجوہات پر ایک تحقیقی مقالہ میرے ہاتھ آگیا معلوم ہوا کہ کبھی کبھار ان پہاڑوں میں موسموں کے تغیرسے بڑے بڑے تودے یا گلشیئر دریا کے منبعے کے قریب گرکراسے یا تو روک دیتے ہیں اور یا پھر اس کا رخ بدل دیتے ہیں اس کے سوا میدانوں میں اگر ہریاول کم ہو جائے اورریگستان ظہور میں آنے لگیں تو گرمی کے باعث دریا ہولے ہولے خشک ہو جاتے ہیں اس کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاں آج چولستان کا صحرا ہے وہ علاقہ ایک زمانے میں گھنے جنگلوں پر مشتمل تھا اور ان جنگلوں میں ہاتھی،گینڈے اور دیگر جانور عام پائے جاتے تھے جن کے نقش ہمیں موہنجوڈارو سے دریافت ہونے والی تختیوں پر ملتے ہیں یعنی جن زمانوں میں سرسوتی بہتا تھا اس کے کنارے ایک عظیم تہذیب سانس لیتی تھی جو موہنجوڈارو اور ہڑپہ کا ایک تسلسل تھی اس سارے منظر نامے کے بعد مجھے یہ خیال آیا کہ سرسوتی کے کناروں پر کوئی ایک بستی ہزاروں برس سے آباد ہو گی جس کی حیات کا انحصار اس دریا کے پانیوں پر ہو گا تو کوئی ایک شخص اس بستی کاایسا ہو گا جوسوچ بچار کرنے والا ہو گا،غور کرنے والا ہو گا تو شاید اسے معلوم ہو گیا ہو گا کہ سرسوتی کے پانی کم ہو رہے ہیں اور یہ دریا بالآخر سوکھ جائے گا اوراس کے کنارے آباد بستی کھنڈروں میں بدل جائے گی ہمیشہ کیلئے صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی تو اب ایک ایسا شخص جسے معلوم ہو گیا ہے کہ دریا سوکھ رہا ہے اور میری بستی اجڑنے والی ہے تو اس کی ذہنی کیفیت کیا ہو گی کتنا بڑا دکھ اور رنج اس کے اندر ہو گا اور وہ لوگوں کو بتانا چاہتا ہے کہ تم سب فنا ہونے کوہو تمہاری بستی کا نام و نشان نہ رہے گا تو کیا لوگ اس کی بات پر یقین کریں گے یااس کا مذاق اڑائیں گے یاپھراسے ایک قنوطی قرار دے کربستی سے نکال دیں گے میں نے اسی تھیم پر مبنی اپنے ناول ’’بہاؤ‘‘ کے اس کردار کا نام ورچن رکھا جسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ بستی اجڑنے کو ہے۔مجھے یہ ناول تحریر کرتے ہوئے گمان بھی نہ تھا کہ ایک دن میں بھی ورچن کے کردار میں ڈھل جاؤں گا میں بھی آگاہ ہو گیا ہوں کہ سندھ،راوی اور چناب میں پانی کم ہو رہے ہیں اور یہ مکمل طور پر خشک بھی ہوسکتے ہیں اور ان کے کناروں پر ہزاروں برسوں سے آباد جو تہذیب ہے وہ ملیامیٹ بھی ہوسکتی ہے ان دریاؤں کو اپنوں کا خون زہر آلود کر رہا ہے صرف سیاستدان اور حکمران ہی نہیں بلکہ عوام کی ایک بڑی تعداد بھی رزق حرام کو جائز سمجھتی ہے اوراس کے بل بوتے پر عیش کی زندگی گزارتی ہماری تہذیب کے دریا کو خشک کر رہی ہے ناجائز مربعے، فیکٹریاں، غیرملکی اکاؤنٹ،بھتے اور زمینوں پر قبضے ریت کے وہ صحرا ہیں جن میں دریاؤں کے پانی جذب ہو رہے ہیں اور بہاؤ ہر دن گزرنے پر پہلے سے بھی مدہم ہوا جاتا ہے اور کوئی ایسا دن بہر طور آ جائے گا جب دریا تھم جائے گا اورسب ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں سوات، وزیرستان اور ڈیرہ غازی خان میں اور کوئی پنجاب حکومت کی کشتی ڈبونا چاہتا ہے اور کوئی مرکز کو غرق کرنا چاہتا ہے اورکسی کو کچھ احساس نہیں کہ ڈبونے کیلئے بھی تو ایک دریا درکار ہوتا ہے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ قرآن پاک میں ایسی برباد ہو چکی بستیوں کا ذکر آیا ہے جنہوں نے نافرمانی کی اور ان پر عذاب نازل ہو گیا اور ہم صریحاً نافرمانی کے مرتکب پو رہے ہیں مختلف رنگوں میں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں تنہا نہیں ہوں جواس سوچ بچار میں ہوں، میری طرح کے لاکھوں ورچن اور ہیں جو دریاؤں کے کنارے بیٹھے جان چکے ہیں کہ یہ سوکھنے کو ہیں اور وہ بھی بستی والوں کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ ابھی کچھ وقت ہے ان دریاؤں کا پانی نہ سوکھنے دو ورنہ تمہاری بستیاں اجڑ جائیں گی تم بے گھر ہو جاؤ گے لیکن کوئی سننے والا نہیں ہے ہم ایسے ورچنوں کو پاگل قرار دیتے ہیں اگر ہم نے ان کی آواز پرکان نہ دھرا تو پھر ہزاروں برسوں بعد کوئی شخص اس سوچ بچار میں پڑے گا کہ یہ جو کبھی راوی،سندھ اور چناب دریا ہوا کرتے تھے یہ کیسے خشک ہو گئے اور ان کے کنارے جو بے مثال تہذیبیں تھیں وہ کیسے کھنڈر ہو گئیں کیا ان دریاؤں کے کناروں پر جوبستیاں آباد تھیں ان میں سے ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو خبر کرتا کہ لوگو دریا سوکھ رہے ہیں تمہاری بستیاں کھنڈر ہونے کو ہیں کوئی ایک شخص بھی نہ تھا۔

٭٭٭

 

 

سیاحت کے شرعی مسائل

پاکستان میں سیاحت کے محکمے کے ساتھ وہی سلوک ہوتا چلا آیا ہے جو غریب کی جورو کے ساتھ ہوتا ہے مجھے ٹھیک طر ح سے علم نہیں کہ غریب کی جورو کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے لیکن یہ علم ہے کہ اس کے سا تھ یعنی غریب کی جو رو سا تھ وہی سلو ک ہو تا ہو گا جو پاکستان میں سیاحت کے محکمے کے ساتھ ہوتا ہے اور اب تو جناب کمال ہی ہو گیا ہے یعنی مولانا فضل الرحمن کے برادر عزیز اور ظاہر ہے وہ بھی ایک مولانا ہیں سیاحت کے محکمے کے وزیر ہو گئے ہیں یہ تقریباً ایسے ہے جیسے ایک فیشن شو میں سب سے خوبصورت ماڈل کے چناؤ کے لیے یا مقابلہ حسن میں سب سے متناسب بد ن دوشیزہ کی پرکھ کے لیے کسی مولانا کو جج بنا دیا جائے لیکن نہیں یہ مثال بھی کچھ مناسب نہیں ہے کہ آخر یہ حضرات بھی سینے میں دل رکھتے ہیں اور حسن کی پرکھ رکھتے ہیں اگرچہ اس کے ا ظہار کے لئے پہلے سبحان اللہ کہتے ہیں اور پھر ایک ٹھنڈی آہ بھر کر انشاء اللہ کہتے ہیں چونکہ سیاحت وغیرہ سے اس ناچیز کو بھی تھوڑی بہت دلچسپی ہے اس لئے میں اخبار میں کسی اور وزیر کا بیان پڑھوں یا نہ پڑھوں وزیر سیاحت کا بیان نہایت ذوق و شوق سے پڑھتا ہوں سب سے پہلا بیان جو مولانا صاحب نے وزارت سے ہم آغوش ہوتے ہی دیا وہ یہ تھا کہ محکمہ سیاحت کے ہوٹلوں میں اب شراب پیش کرنے پر پابندی ہو گی جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے محکمہ سیاحت نے ملک کے مختلف حصوں میں موٹلز تعمیر کر رکھے ہیں جو پی ٹی ڈی سی ہوٹل کہلاتے ہیں اب تو مجھے کسی ایسے مو ٹل میں قیام کرتے ہوئے بہت عرصہ ہو گیا ہے لیکن بھلے دنوں میں خاص طور پر شمال کی سیاحت کے دوران ا ن مو ٹلوں میں ہم فروکش ہوا کرتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ ان کا معیار اور سروس نہایت اعلیٰ درجے کے ہوتے تھے سرکاری ہونے کے باوجود نہایت صاف ستھرے ہوتے تھے اور اکثر منیجر حضرات ان کا انتظام نہایت عمدہ طریقے سے چلاتے تھے ایک بار شمال کی جانب جاتے ہوئے جب ہم بشام کے ہوٹل کے اندر داخل پو رہے تھے تو میرے کوہ نوردساتھی میاں فرزند علی نے کہا تھا کہ تارڑ صاحب اس ہوٹل کے منیجر کیا وہی ہیں۔ ۔ ۔  میں نے پوچھا کہ میاں صاحب کونسے وہی اب انہیں نام بھول رہا تھا تو کہنے لگے وہی جن کے نام کا مطلب ہے بہت سارے ببر شیر۔۔ ۔  میاں صاحب درست کہہ رہے تھے کہ اس موٹل کے منیجر کا نام واقعی شیرستان تھا بہر طور مجھے وزیر صاحب کا یہ بیان پڑھ کر ذرا حیرانی ہوئی کہ آئندہ ان موٹلوں میں شراب پیش نہیں کی جائے گی کیونکہ برس ہا برس میں بشام،گلگت، ہنزہ، برسین، سکردو اور خپلو وغیرہ کے موٹلوں میں قیام کرتا رہا لیکن حرام ہے کہ وہاں کسی بھی دور حکومت میں کسی نے شراب پیش کی ہو کم از کم مجھے تو پیش نہیں کی گئی تو پھر مولانا صاحب کیسے جان گئے کہ وہاں شراب پیش ہو رہی ہے جسے اب ان کے دور وزارت میں پیش نہیں کیا جائے گا۔۔ ۔  کل کلاں وہ یہ بیان دینے پر بھی قادر ہیں کہ آئندہ محکمہ سیاحت کے موٹلوں میں مجرا پیش نہیں کیا جائے گا۔

ابھی اس تقریر دل پذیر کو زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ انہوں نے ایک اور بیان داغ دیا کہ۔ ۔ ۔  اب سیاحت اسلامی طرز کی ہو گی یا شائد سیاحت کو اسلامی ڈھانچے میں ڈھالا جائے گا کچھ اس نوعیت کا ارشاد تھا یعنی یہ جو پچھلے ساٹھ برس سے اس ملک میں سیاحت ہو رہی تھی وہ ساری کی ساری غیر اسلامی تھی یوں میں نے پاکستانی شمال میں جتنی بھی سیاحت کی ہے وہ بھی غیر اسلامی ہے اور اس کے نتیجے میں جو درجن بھر سفر نامے شمال کے تحریر کئے ہیں ان کا ایمان بھی مشکوک ہے ویسے مولانا سیاحت اگر پسند فرمائیں تو میں اعزازی طور پر ان کا مشیر بن کر انہیں اس سلسلے میں نہایت ہی مفید مشورے دے سکتا ہوں چلئے یہ ہماری قسمت میں کہاں کہ ہم وزیر با تدبیر کے مشیر مقرر کر دئے جائیں اس لئے چند مشورے مفت میں پیش کئے دیتا ہوں ویسے پہلا مشورہ تو یہی ہو سکتا ہے کہ مولانا آپ کہاں اور سیاحت کا غیر اسلامی محکمہ کہاں آپ فوری طور پر اس سے علیحدگی اختیار کر کے فل ٹائم اللہ اللہ کیجئے لیکن یہ مشورہ مانا نہیں جائے گا اس لئے اسے واپس لیتا ہوں دوسرا مشورہ یہ ہے کہ فوری طور پر نانگا پربت کا نام بدلنے کا اعلان کر دیجئے مجھے امید ہے کہ آپ جانتے ہوں گے کہ نانگا پربت پاکستان میں ہے اور ’’ کلر ماؤنٹین‘‘ کہلاتی ہے نانگا کا مطلب ہے ننگا اور پربت کے معنی ہیں پہاڑ یعنی ننگا پہاڑ اسے پلیز کپڑے پہنا دیجئے کیونکہ اس پہاڑ کا نام عریانی اور فحاشی پھیلاتا ہے اس کا نیا نام پردہ پوش پہاڑ بھی ہوسکتا ہے علاوہ ازیں میں نہایت سنجیدگی سے آپ سے ایک مسئلہ بھی پوچھنا چاہتا ہوں آپ یہ بھی تو جانتے ہوں گے کہ سکھ مذہب کے تمام تر مقدس مقام پاکستان میں پائے جاتے ہیں اور سال میں کئی بار سکھ حضرات ہزاروں کی تعداد میں پاکستان آتے ہیں اور ان مقامات میں عبادت کرتے ہیں گرنتھ صاحب کا پاٹھ کرتے ہیں اور یوں حکومت کو کروڑوں روپوں کی آمدنی ہوتی ہے جس میں سے آپ کو بھی تنخواہ دی جاتی ہے اور مراعات عطا ہوتی ہیں ہندو لوگ بھی پاکستان کے مختلف حصوں میں آ کر اپنے مندروں میں پوجا کرتے ہیں بت پرستی کرتے ہیں اور ان کی آمد سے بھی ہم بہت سارا زر مبادلہ کماتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کفار کو اپنی سرزمین پر عبادت اور بت پرستی کی اجازت دے کر جو کمائی حاصل ہوتی ہے کیا وہ شرعی طور پر جائز ہے؟ اگر شراب کی فروخت سے جو کمائی ہوتی ہے وہ حلال نہیں تو پھر گرد واروں اور مندروں میں کی جانے والی عبادات اور بت پرستی سے حاصل ہونے والی کمائی کیسے حلال ہو سکتی ہے اور اسی کمائی سے محکمہ سیاحت چل رہا ہے اور فی الحال آپ بھی چل رہے ہیں مجھے اس مسئلے کا شرعی جواز درکار ہے۔

مولانا سیاحت صاحب میرے پاس اس نوعیت کے اور بھی مشورے اور مسئلے ہیں جو میں بہ شرط زندگی آپ کی خدمت میں پیش کرتا رہوں گا آپ ان مشوروں پر دھیان دیں یا نہ دیں مسئلوں کے جواب دیں یا نہ دیں میں اسے پیش کرتا رہوں گا۔

٭٭٭

دہشت گردوں کی سیر

کہنے والوں کا کہنا ہے کہ ایک صاحب شرف الدین نام کے روزگار کے سلسلے میں کسی اور شہر میں منتقل ہوئے تو انہوں نے سوچا کہ اس شہر میں زور آور لوگوں کی، دھانسوں لوگوں کی بہت عزت ہوتی ہے لوگ باگ ان سے ڈرتے ہیں تو یہاں کون جانتا ہے کہ میں شرف الدین اپنے محلے میں نہایت شرافت کی زندگی بسر کرتا تھا تو کیوں نہ میں یہاں اپنے آپ کو بدمعاش مشہور کر کے معزز ہو جاؤں انہیں کوئی اور طریقہ تو نہ سوجھا چنانچہ انہوں نے اپنے گھر کے باہر جو نیم پلیٹ لگوائی اس پر لکھوایا’’ یہ شرف الدین بدمعاش کا گھر ہے ‘‘ کرنا خدا کا کیا ہوا کہ آس پاس کہیں کوئی واردات ہو گئی تو پولیس سیدھی ان کے گھر چلی آئی تو شرف الدین ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا کہ سرکار میں تو بہت شریف آدمی ہوں میرا اس واردات میں کوئی عمل دخل نہیں اس پر پولیس والوں نے کہا کہ تم نے تو خود اپنی نیم پلیٹ پر’’ یہ شرف الدین بدمعاش کا گھر ہے‘‘ لکھ رکھا ہے تو شرف الدین نے لجاجت سے کہا کہ سرکار یہ تو صرف شوشا کے لئے لکھوا رکھا ہے۔

سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ کرنے والے دہشتگرد لبرٹی گول چکر میں ٹہلتے پھرتے ہیں اطمینان سے فائرنگ کر رہے ہیں اور کھلی فضا میں ہیں اپنے آپ کو کسی عمارت یا جھاڑی میں روپوش نہیں کیا ہوا اور رپورٹ کے مطابق اگرچہ مجھے کچھ شک ہے بہرحال تقریباً پینتیس منٹ تک قانونی اداروں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوتا رہا ہے۔ تھانہ لبرٹی دو قدم کے فاصلے پر ہے پولیس چوکی فردوس مارکیٹ اور تھانہ نصیر آباد بھی قریب ہے اور کھلے عام دہشتگردی کی پکنک منانے والوں کو نہ کوئی پکڑتا ہے اور نہ ہی ان پر حملہ آور ہوتا ہے بقول کے پینتیس منٹ میں تو کیولری گراؤنڈ سے فوج کی پوری پلٹن آسکتی تھی ہیلی کاپٹر سے کمانڈو اترسکتے تھے اور پورے شہر کی پولیس اور ایلیٹ فورس وغیرہ ان کو گھیرے میں لے سکتی تھی تو ایسا کیوں نہیں ہوا وہ حضرات جن کی تعداد ایک درجن کے قریب ہے ان میں سے ایک بھی مارا نہیں جاتا سب کے سب سیر کرتے ٹہلتے آس پاس کی آبادیوں میں تحلیل ہو جاتے ہیں کیا شہر کی پولیس ایلیٹ فورس اور اس کے کمانڈو حضرات بھی شرف الدین ہیں انہوں نے صرف شوشا کی خاطر وردیاں پہن رکھی ہیں اور نمائش کے لئے ہتھیار اٹھائے پھرتے ہیں شہر جاتے ہوئے اکثر چوہدریوں کی کوٹھیوں کے قریب سے گزر ہوتا ہے اور وہاں خدا جھوٹ نہ بلوائے درجنوں گاڑیاں اور بے انت ایلیٹ فورس ہمہ وقت موجود رہتی ہے تو یہ صاحبان ہی چلے آتے کہ لبرٹی گول چکر وہاں سے دس منٹ کی واک پر ہے یا یہ سب شرف الدین ہیں جنہوں نے شوشا کے لئے اپنے آپ کو ایلیٹ فورس اور پولیس مشہور کر رکھا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ پولیس کے چھ جوان دہشتگردی کے پہلے ہلے میں ہی ہلاک ہو گئے اور میرا دل ان کی بے وجہ اور جوان موت پر روتا ہے مجھے لاہور کے جی پی او کے قریب ڈیوٹی پر متعین خوبصورت اور نو خیز پولیس مین بھی یاد ہیں جن کی موت مجھے اب بھی سوگوار کرتی ہے کہ وہ ایک ظالمانہ نظام کا شکار ہو گئے جس طور وہ درجن بھر قاتل اور جنونی لبرٹی گول چکر میں ٹہلنے کے بعد آرام سے فرار ہو گئے اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے حفاظتی ادارے صرف’’ پولیس مقابلہ‘‘ میں ہی مجرموں کو مارسکتے ہیں۔

ابھی جب کہ میں یہ کالم لکھ رہا ہوں میرے کانوں میں پولیس ہوٹروں کی مسلسل آوازیں آ رہی ہیں شاہراہ پر کوئی وی آئی پی سواری گزررہی ہے ہم میں سے کون ہو گا جس نے یہ وی آئی پی نہیں بھگتے ٹریفک بند ہے ہر جگہ پلوں کے نیچے جھاڑیوں میں مسلح افراد پہرے پر ہیں پولیس والے بھاگی پھرتی موٹر سائیکلوں پر سوار ’’ہٹو۔ ۔ ۔  ہٹو۔ ۔ ۔  دفع ہو جاؤ گاڑی پر ے کر لو۔۔ ۔  اوئے سنتا نہیں۔ ۔ ۔  کے نعرے لگا رہے ہیں اور آپ نے کسی ضروری کام پر پہنچنا ہے لیکن مجبور ہیں بے بس ہیں اور ایک ہی مقام پر کھڑے انتظار کر رہے ہیں کہ کب وہ کمبخت وی آئی پی گزر ے اور کب آپ کی جان اس عذاب سے چھوٹے، اور پھر وہ وی آئی پی گزرتا ہے جو کوئی نہایت فضول سا شخص ہے اور اپنی دولت کے بل بوتے پر آبائی زمینوں کے زور پر یاسیاسی سازشوں کے ذریعے پر چھوٹا موٹا سرکاری افسر یا وی آئی پی ہو جاتا ہے سوال یہ ہے کہ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کو ایک وی آئی پی کی سیکیورٹی کیوں نصیب نہیں ہوئی کیا ان کے لئے پانچ دس منٹ کے لئے ٹریفک نہیں روکی جا سکتی تھی ان کے ہمراہ درجن بھر پولیس کی گاڑیاں کیوں نہ تھیں اور وہ جو آٹھ دس کروڑوں کی مالیت کی بلٹ پروف گاڑیاں ہیں جو بے جان سیاست دانوں کی جان بچانے کے لئے موجود ہیں تو ان میں سے دو تین گاڑیاں سری لنکن کے لئے کیوں وقف نہ کی گئیں ایک بین الاقوامی کھلاڑی کسی بھی صدر یا وزیر اعظم سے زیادہ قیمتی اور اہم ہوتا ہے کہ وہ اپنی اہلیت اور قابلیت کے زور پر لاکھوں میں ممتاز ہوتا ہے اس میں کسی جوڑ توڑ یا ضمیر فروشی کا کچھ عمل دخل نہیں ہوتا ہم آسٹریلیا کے ڈان بریڈمین کو تو جانتے ہیں لیکن کیا آسٹریلیا کے پچھلے درجن بھر وزیر اعظموں کے نام جانتے ہیں جس روز یہ شرمناک وقوعہ ہوا اس شام میری ملاقات ایک ریٹائرڈ کرنل صاحب سے ہوئی جو آئی ایس آئی میں بھی کچھ عرصہ تعینات رہے انہوں نے ٹیلی ویژن پر اس اسلحہ کی تصاویر بھی دیکھی تھیں جو دہشتگرد فرار ہوتے ہوتے ادھر ادھر پھینک گئے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ بہت بچت ہو گئی ہے افغان مجاہدین کے لئے خصوصی طور پر بنائے ہوئے امریکی ساخت کے دو راکٹ لانچر جن میں سے اگر ایک بھی نشانے پر لگ جاتا تو کھلاڑیوں کی بس کے ٹکڑے بھی نہ ملتے علاوہ ازیں اسلحے کی بہتات سے کھجوروں اور باداموں کے پیکٹوں،منرل واٹر کی بوتلوں اور بارود سے بھری جیکٹوں سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ دراصل کھلاڑیوں کی بس کو لبرٹی گول چکر میں یرغمال بنانا چاہتے تھے یہ تیاریاں کئی دن کے لئے تھیں ایک تو دونوں فائر شدہ راکٹ نشانے پر نہ لگے اور پھر ڈرائیور کمال پھرتی سے بس کو بھگا کر لے گیا یوں بنیادی طور پر دہشت گرد اپنے مشن میں ناکام ہو گئے ورنہ بہت بربادی ہوتی میں نے کرنل صاحب سے پوچھا کہ اتنا پیچیدہ اور اعلیٰ اسلحہ آ کہاں سے جاتا ہے تو کہنے لگے یہ وہی اسلحہ ہے جو افغان جہاد کے لئے امریکہ نے پاکستان میں ڈھیر کیا تھا۔

اور یہ کون لوگ تھے جہادی حضرات تھے تامل ٹائیگر،بنگالی یا را کے ایجنٹ تھے اس سے کیا فرق پڑتا ہے فرق تو اس بات سے پڑا کہ ہم ان کے سامنے شرف الدین بدمعاش ثابت ہوئے سب کچھ صرف شوشا کے لیے اور وہ ہمیں دنیا بھر میں ذلیل کر کے چپکے سے فرار ہو گئے تم قتل کرے ہو کہ کرامات کرے ہو۔

٭٭٭

 

 

ہم سب ڈڈو ہیں

میرا خیال ہے کہ صحافی حضرات خواہ مخواہ مائنڈ کر گئے ہیں اگر گورنر پنجاب نے انہیں ڈڈو کہہ دیا ہے تو بھلا اس میں برا ماننے کی کون سی بات ہے میں بھی پچھلے پچیس تیس برس سے باقاعدگی سے اخباروں میں کالم لکھ رہا ہوں اورکسی حد تک صحافی کہلا سکتاہوں تو میں نے تو ہرگز مائنڈ نہیں کیا صرف ان لوگوں نے مائنڈ کیا ہے جو ڈڈوں کی تاریخی اور معاشرتی حیثیت سے آگاہ نہیں ہیں علاوہ ازیں نوٹ کیجئے کہ انہوں نے صحافیوں کو مینڈک نہیں کہا ڈڈو کہا ہے اور ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے مینڈک عام طور نہایت شریف النفس ہوتے ہیں کسی حد تک صوفی سے ہوتے ہیں ایک مقام پر بیٹھے آنکھیں جھپکاتے رہتے ہیں جبکہ ڈڈو ان سے حجم میں چھوٹے اور نہایت کیوٹ ہوتے ہیں اور ہمہ وقت اچھلتے رہتے ہیں۔

صحافی حضرات دراصل کم علم ہیں یہ نہیں جانتے کہ گورنر صاحب نے تو دراصل انہیں فرانسیسیوں کے برابر کا رتبہ دیا ہے آپ آگاہ ہوں گے کہ انگریز حضرات برسرعام فرانسیسیوں کو فراگ کہتے ہیں اور وہ زیادہ مائنڈ نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ عراق پر حملے کے موقع پر جب فرانس نے امریکہ کاساتھ نہیں دیا تھا تو نہ صرف امریکیوں نے فرنچ فرائز کا نام بدل کر انہیں فریڈم فرائز کہنا شروع کر دیا تھا بلکہ انہیں مینڈک کہنے سے بھی گریز نہیں کیا تھا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ صحافیوں کی عزت افزائی ہوئی ہے انہیں فرانسیسیوں جتنا رتبہ مل گیا ہے۔

یہ صحافی حضرات سیاستدانوں کو جانے کیا کیا کچھ کہتے ہیں موقع پرست لوٹے وغیرہ کہتے ہیں ٹیلی ویژن پر انہیں پاؤں میں گھنگھرو باندھ کر اقتدار کی تھاپ پر تاتھی تاتھی کرتے دکھاتے ہیں لیکن انہوں نے تو کبھی مائنڈ نہیں کیا بلکہ اکثر شکر گزار ہوتے ہیں کہ اس بہانے مشہوری ہو  رہی ہے۔

ہمارے ہاں تو بے چارے مینڈک کی کچھ قدر نہیں لیکن دنیا کے اکثر ممالک میں انہیں نہایت رغبت سے کھایا جاتا ہے فرانسیسیوں کاتو نام ہی اس لیے فراگ پڑ گیا کہ وہ مینڈکوں کے بے حد شوقین ہیں لیکن ذرا کوریا چین اور ویت نام وغیرہ جا کر دیکھئے جہاں مینڈک کڑاہی،مینڈک فرائی اور مینڈک پلاؤ وغیرہ نہایت پسندیدہ ڈشیں ہیں پاکستانی ادیبوں کے وفد کے ہمراہ چین جانے کا اتفاق ہوا تو ایک صبح ہوٹل کے ڈائننگ روم میں ناشتے کیلئے اترے تو وہاں ایک جانب مغربی ناشتے کا اہتمام تھا اور برابر میں چینی ناشتہ سجاہوا تھا میں نے سوچا کہ انڈہ ٹوسٹ وغیرہ تو کھاتے ہی رہتے ہیں کیوں نہ چینی ناشتہ نوش کیا جائے۔ اب وہاں پہنچے تو کوئی شے ایسی نہ تھی جس سے کچھ واقفیت ہو۔ ایک طشتری میں سفید رنگ کے نہایت خوش نظر قتلے سجے تھے جو نہایت ذائقہ دار لگ رہے تھے ذرا قریب ہو کر ملاحظہ کیا تو ہر قتلے کے سرے پر دو آنکھیں نظر آئیں جوشناسا سی لگتی تھیں پھر یاد آگیا کہ انہیں کہاں دیکھا ہے اپنے گاؤں کے جوہڑ کی سطح پر دیکھا تھا یعنی مینڈک تھے جی تو چاہا کہ ذرا ٹرائی کر لیے جائیں لیکن آس پاس اپنی ادیب برادری تھی جس نے پاکستان واپسی پر مشہور کر دینا تھا کہ جی یہ تارڑ تو وہاں دن رات مینڈک کھاتا رہتا تھا یہ بھی شنید ہے کہ آپ جس جانور کا گوشت کھائیں آپ میں اس کی خصلتیں پیدا ہو جاتی ہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وطن واپسی پر گھر میں اچھلتے پھریں اور بچہ لوگ کو بھی پتہ چل جائے کہ والد صاحب تو ڈڈو کھاتے ہیں ویسے اس کا امکان تو نہ تھا کیونکہ یہ مفروضہ درست نہیں کہ انسان جس جانور کا گوشت کھائے اس میں اسی جانور کی خصلتیں نمودار ہو جاتی ہیں ہم سب مرغی اور بکرے کا گوشت بکثرت استعمال کرتے ہیں تو کیا ہم ان کی طرح ککڑوں ککڑوں کرتے ہیں یاکسی حسین چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے با آ با آ کرنے لگتے ہیں جن دنوں مرحومہ کرکٹ زندہ تھی تو پاکستان کرکٹ ٹیم ویسٹ انڈیز کے دورے پر گئی ایک شام کھانے کیلئے کسی مقامی ریستوران میں گئی اور ممبران نے پوچھا کہ آپ کی سپیشلٹی کیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ ماؤنٹین چکن ہمارے ہاں بہت پسند کیا جاتا ہے اور واقعی ماؤنٹین چکن ایسا ذائقے دار تھا کہ بار بار منگوایا گیا اور کھایا گیا اس دوران ایک سینئر کھلاڑی بھی اسی ریستوران میں آ گئے اور پوچھا کہ آپ لوگ کیا کھا رہے ہیں انہوں نے چٹخارے لیتے ہوئے ماؤنٹین چکن کا نام لیا تو سینئر کھلاڑی جو پہلے بھی ویسٹ انڈیز آ چکے تھے کہنے لگے آپ جانتے ہیں کہ یہاں بڑے سائز کے مینڈک کو ماؤنٹین چکن کہا جاتا ہے چنانچہ پوری ٹیم ابکائیاں لیتی ہوئی غسل خانے کی جانب لپکی۔ ویسے میرے جن واقف کاروں نے مینڈک کھائے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ ذائقے میں بالکل چکن کی طرح ہوتے ہیں۔

وہ جو کہتے ہیں کہ مینڈکی کو زکام ہونا تو اس کے علاوہ ایک اور محاورہ ہے جس سے آپ واقف نہیں ہوں گے کہ مینڈک چلا مینڈک کی چال اپنی چال بھی بھول گیا یہ اس لیے معرض وجود میں آیا کہ دنیا بھر میں ہر مینڈک کی چال الگ الگ ہوتی ہے چال سے مراد ان کا اچھل اچھل کرسفر کرنا ہے ہر مینڈک کے اچھل کر آگے جانے کا فاصلہ کسی اور مینڈک سے مختلف ہوتا ہے کئی بار کوئی مینڈک کسی خوش رفتار مینڈک کی اچھل کود کی کاپی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بری طرح ناکام رہتا ہے اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو کہیں سے دو مینڈک حاصل کیجئے اور پھر جب وہ اچھلنے لگیں تو ان کی چھلانگوں کا فاصلہ ناپئے آپ دیکھیں گے کہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے البتہ وہ مینڈک جو حزب اختلاف چھوڑ کر حزب اقتدار کی ٹوکری میں چھلانگ لگاتے ہیں ایک ہی جست میں یہ فاصلہ طے کر لیتے ہیں اور پھر نہایت ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ جی میں نے یہ چھلانگ ضمیر کی آواز پرکان دھرتے ہوئے لگائی ہے اور وہ نوٹ جو میری جیب میں ڈالے گئے ہیں ان کی گرمی سے لگائی ہے اقتدار حاصل کرنے کیلئے تو نہیں لگائی۔

اب آخر میں میں آپ کو ایک مینڈک کہانی سناتاہوں ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنگل میں نہایت صاف ستھرا اور خوبصورت،نیلے پانیوں سے لبریز ایک تالاب ہوا کرتا تھا اوراس میں بہت سے مینڈک نہایت خوش و خرم خوشحال زندگی بسر کرتے تھے ان کے بچے بھی دن رات اچھلتے زندگی سے لطف اندوز ہوتے تھے پھر کرنا خدا کا کیا ہوا تالاب کے کناروں پر کچھ مگرمچھ آ گئے اور وہ اپنے جبڑے کھول کر تالاب کا سارا پانی پی گئے مینڈک بے چارے بھوکوں مرنے لگے آہستہ آہستہ تالاب بالکل خشک ہو گیا مگرمچھ خوب خوش حال ہو گئے بلکہ انہوں نے غیرملکی بینکوں میں بھی دولت جمع کروا دی اب یہ ہے کہ وہ مگرمچھ بھوک سے نڈھال مینڈکوں سے مذاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم تو ڈڈو ہو۔

ایک ہمیں ڈڈو کہنا کوئی بڑا الزام نہیں

دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں

٭٭٭

 

 

یہ زندگی کے میلے

بچپن میں فلمی گانے ہمارے کچے دماغوں اور کچے بدنوں پر بہت اثر کرتے تھے۔ کوئی فلمی گاناسناتو خواہ مخواہ پہروں اداس رہے یا بے وجہ خوش ہو گئے۔ ان دنوں محمد رفیع کا گایا ایک گیت’’ یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے افسوس ہم نہ ہوں گے‘‘ بے حد پاپولر تھا اور عام لوگوں کے علاوہ یہ فقیر حضرات کا بھی بے حد پسندیدہ تھا جواسے گلی گلی الاپتے دست سوال دراز کرتے تھے۔ تب مجھے بھی یہ گیت اچھا لگتا تھا لیکن ایک بات کی سمجھ نہ آتی تھی کہ یہ تودرست ہے کہ یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے لیکن آخر میں یہ کیا ہے کہ افسوس ہم نہ ہوں گے۔بھلا ہم کیوں نہ ہوں گے۔ اگر گھر نہیں ہوں گے تو بازار میں ہوں گے، سکول میں ہوں گے،کہیں نہ کہیں تو ہوں گے توافسوس کاہے کا۔  ابھی تک یہ احساس نہ ہوا تھا کہ یہ زندگی، خوبصورت اور مزے کی زندگی بالآخر اختتام کو پہنچتی ہے۔انسان ایک چارپائی پر رخصت ہو جاتا ہے اور میلے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک پنجابی گیت ’’جگ والا میلہ یارو تھوڑی دیر دا۔ ہسدیاں رات لنگھی پتہ نہیں سویر دا‘‘ بھی بہت پسندکیاجاتا تھا اور یہ گیت بھی ہماری مختصر عقل پرسے گزر جایا کرتا تھا کہ اس جہان کا میلہ اے یارو تھوڑی دیر کا ہے ہنستے ہوئے رات گزری لیکن سویر کا کچھ پتہ نہیں تو بھلا میلہ تھوڑی دیر کا کیوں ہے اور یہ کیا بات ہوئی کہ اگر رات ہنستے ہوئے گزر گئی ہے تو سویرکاکیوں پتہ نہیں،سویر تو ہو کر رہتی ہے اور اب اس عمر میں آ کر یہ آشکار ہوتا ہے کہ واقعی اس جہان کا میلہ تھوڑی دیر کا ہوتا ہے اورپھرسویر کا کچھ پتہ نہیں کہ ہو یا نہ ہو۔

آج یہ میلے خواہ مخواہ یاد آتے چلے جاتے ہیں۔

دراصل جب بھی بہار کے وداع ہونے کے ان دنوں میں جب گرمی بڑھنے لگتی ہے،پنکھے چلنے لگتے ہیں اورموسم گرما کی آمدسے خوف آنے لگتا ہے تو انہی دنوں یکدم آسمان پر بادل جانے کہاں سے امڈتے چلے آتے ہیں،رم جھم پھوار پڑنے لگتی ہے اورموسم ایک دو روز کیلئے خوشگوار ہو جاتا ہے۔ آج بھی ایساہی ہوا ہے، کمرے سے باہر آیا ہوں تو نیم خنک ہوا میرے رخساروں کو چھونے لگی ایسی ہوا جس کے بارے میں غالب نے کہا تھا کہ ہے ہوا میں شراب کی تاثیر۔  بادہ نوشی ہے بادہ پیمائی۔ اور باہر مینہ برس رہا تھا پچھلے ساٹھ برس میں کبھی ایسانہیں ہوا کہ ان دنوں بارش نہ اتری ہو بلکہ لاہور کی ایک قدیم روایت ہے کہ شاہ حسین کے میلہ چراغاں کے دنوں میں بہرطور بادل امڈ کر آتے ہیں اور ڈھول کی تھاپ پربرستے ہیں اور واقعی ایساہی ہوتا ہے میلہ چراغاں ابھی پچھلے ہفتے اس شہر میں برپا ہوا اورحسب روایت بارش ہوئی اور بارش کی یہ یاد مجھے بچپن کے ان دنوں تک لے جاتی ہے جب مارچ کے آخری دنوں میں ہماری جاٹ برادری کے لوگ، دور پار کے عزیز،کھدر کی پگڑیوں میں کرتے اور تہبند میں ملبوس، ہاتھوں میں ذاتی حقے تھامے گاؤں سے شہر لاہور کا رخ کرتے تھے اور ہمارے گھر میلہ لگ جاتا تھا۔ برادری کا معاملہ ہوتا ہے اس لیے امی جان ان کی خوب آؤ بھگت کرتیں۔ ان کیلئے جستی صندوقوں میں سے نئے کھیس اور سوتی چادریں نکالتیں۔  طرح طرح کے پکوان چولہوں پر چڑھاتیں جن میں سوجی کا حلوہ سرفہرست ہوتا۔ میرے ابا جی کو یوں میلوں ٹھیلوں میں جانا اچھا نہ لگتا تھا اس لیے ہم بھی گھر بیٹھے ان دیہاتی شوقینوں کو میلہ چراغاں دیکھنے جاتے حسرت سے دیکھتے۔ ایک روز ایک بزرگ نے اباجی سے کہا کہ چوہدری صاحب آپ مستنصر کو بھی ہمارے ساتھ بھیج دیں۔  یہ بچہ ہم سے بڑے سوال پوچھتا ہے تو اباجی نے اس شرط پر اجازت دے دی کہ آپ نے ہمہ وقت اس کی انگلی پکڑے رکھنی ہے اور اپنے سے جدا نہیں کرنا۔یوں میں پہلی بار میلہ چراغاں دیکھنے گیا ان دنوں یہ میلہ شالیمار باغ کے اندر لگتا تھا۔ مجھے اس کی تفصیل کچھ زیادہ یاد نہیں البتہ ایک منظر ایک تصویر کی مانند میرے سامنے زندہ ہوتا ہے۔ واپسی پر ٹانگے ناپید ہیں اور میں اپنے دیہاتی عزیزوں کے ہمراہ ایک ریڑھے پرسوارہوں اور سب حضرات ایک حقہ درمیان میں رکھے کش لگاتے مزے کر رہے ہیں۔  اور تب ابر آلود آسمان سے بارش آبشاروں کی صورت اترنے لگتی ہے اور بوندوں میں شدید پختگی ہے جو میرے کومل بدن میں چھید ڈالتی ہے اور میں بجلی کی کڑک سے سہما جاتا ہوں۔  میری قمیض اور خاکی نیکر کھلے آسمان تلے ایک ریڑھے پر مجھے بارش کی شدت سے نہیں بچا سکتے۔ گھر پہنچا ہوں تو بدن نیلا پڑ چکا ہے،کانپ رہا ہوں اور ماتھے پر ہاتھ رکھناجیسے توے پر ہاتھ رکھنا ہو اتنا گرم ہے۔ امی جی نے روتے روتے برا حال کر لیا۔ کپڑے بدلے، تولیے سے بدن پونچھا اورسب سے دبیز رضائی میں لپیٹ دیا اور میں اس حدت کو آج بھی یاد کرتا ہوں جو مجھے سردی سے کپکپاتے ہوئے اس رضائی میں محسوس ہوئی۔ابا جی نے اپنے دیہاتی عزیزوں کو خوب ڈانٹا اور خاص طور پر اس بزرگ کو اور پھر آئندہ کبھی میلہ چراغاں نہ جانے دیا۔

بہت مدت بعد میں ایک دوست کے ہمراہ شاہ حسین کے عرس پرگیا اور پوری ایک شب اس میں گھومتے،ڈھول کی شاندار تھاپ کی سحر انگیزموسیقی سنتے اور چراغ روشن کرتے گزری، میں دیر تک ملنگوں کے ایک ڈیرے پر بیٹھا رہا ان کے درمیان ایک بڑا الاؤ بھڑک رہا تھا اور وہ بھنگ پیتے ہوئے نعرے لگاتے تھے کہ دنیں گھوٹیاں تے راتیں پیتیاں،لوکی کہندے اسی مر گئے آں تے اساں اللہ نال گلاں کیتیاں۔ یعنی ہم دن کے وقت بھنگ گھوٹ کراسے رات کو پیتے ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ شاید ہم مر گئے ہیں حالانکہ ہم تو اللہ سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ میں نے اللہ سے باتیں کرنے کا یہ سنہری موقع کھو دیا۔ دوچار پیالے بھنگ کے اندر انڈیل لیتا تو کیا ہی گفتگو ہوتی۔ اس سنسنی خیز تجربے کو میں نے اپنے پہلے ناولٹ ’’فاختہ‘‘ میں استعمال کیا۔

پھر شالیمار باغ میں ہی ایک میلہ’’ پہلے پیر کا میلہ‘‘ ہوا کرتا تھا جس میں صرف لڑکیاں شریک ہوا کرتی تھیں۔  فواروں کے آس پاس کھانے پینے،چوڑیوں اور زیبائش کے سٹال لگتے اور وہاں بھی صرف سیلز گرلز ہوتیں، مرد اندر نہیں جا سکتے تھے۔ایک مرتبہ میری چھوٹی خالہ جان اپنے سکول کی سہلیوں کے ہمراہ مجھے بھی لے گئیں صدر دروازے پر ایک لحیم شمیم خاتون دربان نے روک لیا کہ مرد اندر نہیں جا سکتے اس پر خالہ جان نے خوب احتجاج کیا کہ ہاہائے یہ مرد ہے،بے چارہ چھوٹا سابچہ ہے چھ سال کا۔مجھے یاد ہے کہ آم کے پیڑوں پر جھولے پڑے جنہیں خالہ جان اور ان کی سہلیاں آسمان تک جھلاتی تھیں مجھے یہ بھی یاد ہے کہ کئی دکاندار خواتین نے نقلی مونچھیں لگا رکھی تھیں اور وہ لڑکیوں سے عجیب قسم کے مذاق کرتی تھیں۔

باہر وداع بہار کی آخری بارش تھم چکی ہے اور ماضی کے وہ میلے پھرسے روپوش پو رہے ہیں۔ یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے،افسوس ہم نہ ہوں گے۔

٭٭٭

 

 

ہم ابوہریرہؓ کی بلیاں بھول گئے ہیں

چند روز بیشتر میں نے اخبار میں کراچی کے چڑیا گھر کی ایک تصویر دیکھی جس میں ایک شاندار دھاریوں والا شیر اپنے پنجرے کے ایک کونے میں دبکا بیٹھا ہے اور پنجرے کے فرش پر پتھر، اینٹیں، روڑے اور کنکر بکھرے ہوئے ہیں یہ کنکر اور پتھر پنجرے میں اس لئے نہیں بچھائے گئے کہ شیر فارغ اوقات میں ان کے ساتھ شٹاپو کھیلتا ہے بلکہ یہ کنکر اور پتھر اسے مارے گئے ہیں تماشائیوں نے اسے اشتعال دلانے کیلئے یا چھیڑنے کی خاطر اس پر پھینکے ہیں ہر روز پتھروں اور اینٹوں کا ایک انبار جمع ہو جاتا ہے جسے خاکروب سمیٹ کر لے جاتا ہے اور پھر اگلے روز ایک مرتبہ پھر سنگساری کا عمل شروع ہو جاتا ہے پنجرے میں قید جانوروں کو تنگ کرنا ہم لوگوں کی ایک قبیح عادت ہے لیکن شائد یہ پہلی بار ہے کہ شیر کو سنگسار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کی بے چارگی سے لطف اٹھایا جاتا ہے اس اذیت پسندی کا جواز تلاش کرنے کے لئے آپ کو ذہن پر زیادہ زور نہیں دینا پڑتا جس معاشرے میں ایک سترہ برس کی بچی کو سڑک پر اوندھا لٹا کر کوڑے مارے جا سکتے ہیں اور سنگساری کو جائز ثابت کرنے کے لئے میڈیا پر نہایت ظالمانہ تبصرے ہوئے ہیں وہاں اس نوعیت کا رویہ جنم لیتا ہے یعنی لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک ایسا دور آنے والا ہے تو کیوں نہ ابھی سے سنگساری کی پریکٹس کر لی جائے اس کا ایک اور جواز بھی ممکن ہے کہ عوام الناس اپنے اپنے صوبوں کے سیاسی شیروں سے اتنے تنگ آ چکے ہیں کہ اپنا غصہ سچ مچ کے اس شیر پر نکالتے ہیں۔  آج کے اخبار میں ایک ایسے گھوڑے کی تصویر ہے جس کا بدن زخموں سے بھرا پڑا ہے اس سے مشقت لینے والے نے جانے اسے کن کوڑوں سے مارا ہے کہ وہ اس قدر شدید زخمی ہو گیا ہے۔

اس حقیقت میں کچھ شک نہیں کہ ہمارے آقاؐ نے جہاں انسانی حقوق کا درس دیا ہے۔ وہاں انہوں نے دنیا میں پہلی بار جانوروں کے حقوق کا بھی چارٹر دیا ہے اس جدید معاشرے میں تو جانوروں کے حقوق کی بات کہیں اس صدی میں شروع ہوئی ہے جب کہ تقریباً ڈیڑھ ہزار برس کم از کم ہم مسلمانوں کے لئے تو جانوروں سے حسن سلوک کا عملی مظاہرہ ہمارے پیغمبر کر چکے ہیں سنت رسول اللہؐ میں جانوروں کے ساتھ نرمی اور شفقت کا برتاؤ بھی شامل ہے یعنی حج ایسا موقع ہو اور کچھ لوگ اپنے اونٹوں کو چھڑیوں سے اس لئے پیٹ رہے ہوں تاکہ ان کی رفتار تیز ہو اور وہ جلد از جلد اس مقدس فریضے کو سرانجام دین کے لئے پہنچے تو انہیں بھی حکم ہوتا ہے کہ نہیں تم ان اونٹوں کو مت مارو، انہیں اذیت مت دو۔۔ ۔  اور پھر ایک بار جب رسول اللہؐ دربار رسالت میں قدرے تاخیر سے تشریف لاتے ہیں تو صحابہ کرام اس تاخیر کا سبب دریافت کرتے ہیں تو آنحضرتؐ فرماتے ہیں کہ مجھے اس لئے تاخیر ہو گئی کہ میں آج ایک مختلف راستے سے یہاں آیا ہوں۔ ۔ ۔  دراصل جس راستے پر چل کر میرا یہاں آنا ایک معمول ہے وہاں راستے کے کناروں پر ایک کتیا نے بچے جنے ہوئے ہیں میں جب قریب سے گزرتا تھا تو کتیا کو خدشہ ہوتا تھا کہ شائد میں اس کے بچوں کو کچھ گزند پہنچاؤں۔ ۔ ۔  اور وہ پر تشویش ہو کر ڈرتی تھی چنانچہ آج میں نے اس راستے کی بجائے نسبتاً طویل راستہ یہاں آنے کے لئے چنا تاکہ وہ کتیا بے آرام نہ ہو اپنے بچوں کے لئے فکر مند نہ ہو کیا آپ کو دنیا بھر کی تاریخ میں کوئی ایسی مثال مل سکتی ہے کہ جس شخص کے لئے یہ جہاں اور کل کائناتیں تخلیق کی گئیں وہ ایک طویل راستے کو صرف اس لئے اختیار کرے کہ ایک کتیا بے آرام نہ ہو یہاں تک کہ قربانی کے جانور کے بارے میں بھی حکم ہے کہ اسے دوسرے جانوروں کے سامنے ذبح نہ کیا جائے تاکہ انہیں دوسرے جانوروں کو ذبح ہوتے دیکھ کر اذیت نہ ہو اور پھر بلیوں کے لئے تو آنحضرتؐ کی محبت کمال شفقت کے درجوں پر فائز ہے یہ تذکرہ بھی آیا ہے کہ حضورؐ تیار ہو کر اپنی چادر اوڑھنے لگے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بلی اس پر خوابیدہ ہے مزے سے سو رہی ہے نہ اسے دھتکارا ہے اور نہ جگایا ہے کہ یہ نیند میں ہے اسے بے آرام نہیں کرنا اس کے قریب ہو کر فرش پر تشریف فرما ہو کر انتظار کرنے لگتے ہیں اور جب وہ بلی اپنی نیند پوری کر کے چادر سے اٹھ کر چلی گئی ہے تب آنحضرتؐ اپنی چادر اٹھا کر اوڑھتے ہیں مسجد نبوی میں بلیاں نہایت اطمینان سے چلتی پھرتی تھی اور کسی کو یہ جرأت نہ تھی کہ انہیں تنگ کرے یا مسجد سے نکال دے کہ وہ اس صحابی کی لاڈلی تھیں جسے رسول اللہؐ نے پیار سے ابوہریرہؓ یعنی بلیوں کا باپ کہہ کر پکارا کرتے تھے ابوہریرہؓ جن سے ہزارہا حدیثیں منسوب ہیں بلکہ ایک مرتبہ حضورؐ کے اس اگرچہ نادر لیکن چہیتے صحابی سے جب پوچھا گیا کہ اے ابوہریرہؓ اس حقیقت میں کیا بھید ہے کہ سب سے زیادہ احادیث آپ کے حوالے سے ہم تک پہنچی ہیں جب کہ رسول اللہؐ کی قربت مبارکہ تو کئی اور نامور صحابہ کرام کو بھی حاصل تھی تو انہوں نے نام لے کر فرمایا کہ فلاں تو اپنے کاروبار میں مصروف رہتے تھے اور فلاں کے کاندھوں پر انتظامی ذمہ داریاں تھیں تو یہ صرف میں تھا جو کے چبوترے پر ہمہ وقت بیٹھا رہتا تھا اور کہیں آتا جاتا نہ تھا میرے سامنے حجرہ مبارک کا دروازہ تھا رسول اللہؐ جب صبح سویرے وہاں سے باہر آتے تو میری نظروں کے سامنے،مسجد نبوی میں ہوتے تو بھی میں ان کے قریب اکثر میرے پاس اس چبوترے پر آن بیٹھتے اور میرا حال احوال دریافت کرتے اور رات کے وقت اپنے حجرے میں تشریف لے جاتے تو بھی میری نظروں کے سامنے، تو میں دوسرے صحابہ کی نسبت ان کے زیادہ قریب رہا اس لئے جو کچھ ارشاد ہوا اس کا بڑا ذخیرہ میرے حصے میں آیا اور صرف وہی جان جاتے تھے کہ میں بھوکا ہوں اور کئی روز سے کچھ نہیں کھایا تو مجھے اپنے حجرے کے اندر لے جاتے کہ ابوہریرہؓ یہ کھجوریں اور دودھ کا یہ پیالہ تمہارے لئے ہے۔جب مجھے غار حرا میں ایک رات بسر کرنے کا شرف حاصل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ جبل نور پر بندروں کی خاصی تعداد ہے جو اکثر غار حرا کی زیارت کے لئے آنے والوں کے کیمرے وغیرہ اٹھا کر لے جاتے ہیں وہاں بلیاں بھی گھومتی تھیں اور چوہے بھی بڑے نیولا نما جانور بھی تھے انہیں نہ تو کوئی ہلاک کرتا ہے اور نہ کوئی گزند پہنچاتا ہے کہ وہ حرم کے علاقے کے اندر زندگی بسر کرتے ہیں کسی جانور کو مارنا یا اسے گزند پہنچانا اسلام کے حوالے سے منع ہے۔

کیا ہم یہ سارے پیغام شفقت اور محبت کے بھول گئے ہیں۔

جانوروں کے لئے تو کیا انسانوں کے لئے بھی جو شفقت اور محبت کے پیغام تھے انہیں بھی فراموش کر کے ایک دوسرے کو ہلاک کرنے اور ذبح کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

٭٭٭

 

 

ناشتے پہ ناشتہ

کہا تو یہی جاتا ہے کہ ایک دوسرے کو کھلانے پلانے اور دعوتیں دینے سے آپس میں پیار محبت بڑھتا ہے لیکن میرا تجربہ ہے کہ پیار محبت کم اور وزن زیادہ بڑھتا ہے اور ان دنوں میرے ساتھ بھی یہی پو رہا ہے۔

لاہور کے پارکوں اور باغوں میں کھانے پینے کی رسم بے حد پرانی ہے مجھے یاد ہے کہ بچپن میں جب کبھی شدید گرمی کے بعد بادل امڈ امڈ کر آنے لگتے اور رم جھم پھوار پڑھنے لگتی تو میرے ماموں جان فوری طور پر اپنے دوست ابراہیم کو طلب کرتے کہ یار موسم بڑا ظالم پو رہا ہے کچھ کرو۔۔ ۔  ابراہیم صاحب فوری طور پر آموں کے دو ٹوکرے حاصل کرتے انہیں کپڑے دھونے والے ٹپ میں کم از کم ایک من برف میں دفن کرتے اور پھر اس ٹب کو کانوں سے پکڑ کر ایک ریڑھے پر رکھا جاتا اور ہم سب بھی ریڑھے پر سوار اور چل بھئی لارنس گارڈن۔۔ ۔

جن دنوں میں ان زمانوں کے لارنس گارڈن اور آج کے جناح باغ میں سیر کیا کرتا تھا تو وہاں ایک بہت گورا چٹے پہلوان آیا کرتے تھے وہ سیر تو کم ہی کرتے تھے البتہ اپنے پسندیدہ بنچ پر بیٹھ کر توند زیادہ کھجایا کرتے تھے ہر اتوار ان کی جانب سے دوستوں کے لئے ناشتے کا بندوبست ہوتا جس کا آغاز باداموں والے دودھ اور انجام بدہضمی پر ہوتا کہ یہ ایک خصوصی اور لاہوری ناشتہ ہوتا جس میں کلسٹرول کی مقدار خوراک سے زیادہ ہوتی ہے لیکن اس کا ہماری صحت پر مضر اثر ہرگز نہ ہوتا کہ ان دنوں کلسٹرول دریافت نہیں ہوا تھا اور اگر دریافت ہی نہیں ہوا تھا تو بھلا وہ صحت کے لئے نقصان دہ کیسے ثابت ہوسکتا تھا یہ ایک سادہ فلسفہ ہے۔

ان دنوں ماڈل ٹاؤن پارک میں بھی ناشتے پہ ناشتے چل رہے ہیں اور ایسے پر تکلف کہ کھانے والے بعد میں چل ہی نہیں رہے ڈاکٹر کے بل البتہ چل رہے ہیں پارک میں سیر کرنے والوں کے مختلف گروپ ہیں جو عام طور پر ذرا الگ الگ رہتے ہیں اور بیٹھتے ہیں لیکن جس روز کہیں ناشتہ ہو تو باہم شیر وشکر ہو رہے ہوتے ہیں چاہے دعوت دی گئی ہو یا نہ دی گئی ہو بلکہ ایک دو حضرات بن بلائے آئیں گے آپ سے منہ چھپا کر متعدد پتھورے کھائیں گے اور دبے پاؤں چلے جائیں گے۔

ہر گروپ کی اپنی اپنی ’’ آسامیاں ‘‘ ہیں جن کے ساتھ ہر کوئی نہایت الفت سے پیش آتا ہے بلکہ اپنے شیخ ریاض جو اپنے آپ کو پارک کا تا حیات صدر ڈیکلئر کر چکے ہیں ناشتوں کے معاملوں میں اتنے فضول خرچ ہیں کہ ان کا شیخ ہونا مشکوک قرار دیا جا رہا ہے شنید ہے کہ دوست احباب کہیں ناشتے کے لئے  گئے جب بل ادا کرنے کا مرحلہ آیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ شیخ صاحب ندارد چنانچہ انہیں گھر سے لایا گیا کہ شیخ صاحب آپ کے بغیر نہ ناشتے کو دل چاہتا ہے اور نہ بل ادا کرنے کو۔ ۔ ۔  ذرا عنایت کیجئے۔۔ ۔

اتوار کے روز ناشتہ نہ بھی ہو تو تقریباً ہر کوئی کچھ نہ کچھ اٹھائے چلا آ رہا ہے حاجی صاحب باقاعدگی سے پستے کی برفی کا ایک ڈبہ لا رہے ہیں قریشی صاحب مٹھائی اور نمکین کچھ نہ کچھ پیش کر رہے ہیں ایک روز مسعود بھٹی صاحب نے ملازم کے ہاتھوں بازار حسن کا کوئی خاص تابڑ توڑ حلوہ منگوایا جسے کھانے کے بعد اکثر بابا حضرات’’ ابھی تو میں جوان ہوں ‘‘ گنگنانے لگے کوئی خاص ہی تاثیر تھی اس حلوے کی یہ بھٹی صاحب بھی کھلانے پلانے کے بے حد شوقین ہیں اگر چہ شوگر کے مریض ہیں لیکن میٹھا کھانے سے قطعی گریز نہیں کرتے کہتے ہیں کوئی بات نہیں انسولین کا ایک اور ٹیکہ لگا لیں گے ایک روز ایک صاحب نے حلوے کی ایک پلیٹ ان کی خدمت میں پیش کی تو بھٹی صاحب نے معذرت کی کہ مجھے تو شوگر ہے جب وہ صاحب حلوے کی پلیٹ سمیت واپس ہونے لگے تو بھٹی صاحب پکارے میں نے صرف ایک بار انکار کیا تو آپ سچ مچ چلے گئے صرف کافر حلوے سے انکاری ہوتے ہیں مجھے کافر کرنا چاہتے ہو لاؤ حلوہ‘‘ ادھر سردار صاحب لسی اور پراٹھے اور حلیم سپلائی کر رہے ہیں لیکن خوراک کی خوش ذوقی منیر شیخ پر ختم ہے جو متفقہ طور پر پارک کے محبوب ہیں اس عمر میں بھی سری پائے اور نہاری وغیرہ باقاعدگی سے کھاتے ہیں کشمیری ہونے کے ناتے گھر میں خود پکوان تیار کرتے ہیں اور دوستوں کے گھروں تک پہنچاتے ہیں یعنی ایں ہمہ خانہ آفتاب است۔۔ ۔  اور ہاں ڈاکٹر نسیم کی فخریہ پیش کش روسٹ چکن ہوتا ہے۔۔ ۔

یہاں تک تو خیریت گزری لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ پارک کے جس حصے میں سیر کے بعد خواتین بیٹھ کر گپ لگاتی ہیں ادھر دیگچے،دیگیں دستر خوانوں میں پیک شدہ جانے کیا کیا جا رہا ہے معلوم ہوا کہ خواتین بھی ناشتہ مقابلہ میں شریک ہو گئی ہیں اب تو یہ عالم ہے کہ سیر سے واپسی ہوتی ہے تو میری بیگم کہتی ہے میں تو قیمے والے نان کھا کر آتی ہوں اور تم ڈبل روٹی کے وہ دو ٹوسٹ جو ملازمہ لے کر نہیں گئی تھی ان کا ناشتہ کر لو صرف ناشتہ میں نہیں خواتین کو لاہور سے باہر جا کر پکنک منانے کا بھی جنون ہو گیا ہے چنانچہ ایک بس میں پیک ہو کر ہرن مینار کبھی اپنی کسی سہیلی کی زمینوں پر دیپال پور جا کر تنور کے پراٹھے اور روسٹ بٹیرے نوش کر رہی ہیں اور ابھی اس ہفتے قصور کا رخ کر لیا جہاں فالودہ کھانے کے بعد بلھے شاہ کے مزار پر حاضری دی اور پھر گنڈاسنگھ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب میں شامل ہو کر بالآخر لاہور لوٹیں پارک کے خاوندوں کے لئے یہ صورت حال بے حد تشویش ناک ہے کہ بیگمات ہاتھ سے نکلی جا رہی ہیں میں نے اپنی بیگم سے شکایت کی تو کہنے لگی کہ شادی کے پہلے دس برس تم نے شام کا کھانا ہمیشہ باہر کھایا اپنے دوستوں کے ہمراہ کھایا کبھی مجھے ساتھ لے کر گئے تھے تو اب میں بال بچوں کو بیاہ کر خود سیریں کر رہی ہوں تمہیں کیا اعتراض ہے یعنی ماضی کے بدلے چکائے جا رہے تھے ایک روز وڑائچ صاحب نے بڑے تشویش ناک انداز میں کہا کہ تارڑ صاحب کچھ کریں آج میں نے ایک نہایت ہولناک خبر سنی ہے میری بیگم کہہ رہی تھیں کہ ہم لوگ ملائیشیا جانے کا پروگرام بنا رہی ہیں اور اس کے بعد شاید ترکی کا دورہ بھی کریں تو ظاہر ہے وہاں شاپنگ بھی کریں گی صورت حال یقیناً قابو سے باہر ہوتی جا رہی تھی چنانچہ خاوند حضرات نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ پارک میں ناشتہ کرنے پر پابندی عائد کر دی جائے ابھی اس فیصلے کی سیاہی خشک نہ ہوئی تھی کہ شیخ ایوب صاحب سر کھجاتے ہوئے بولے کل تو میری بیگم بیسن کی روٹیاں لگوا کر لا رہی ہے اور وہ ادھر مردانے بھی بھیجیں جائیں گی ایک اور صاحب کہنے لگے میں نے بھی حلوہ پوری کا آرڈر دے رکھا ہے اسے کینسل کروانا پڑے گا آصف صاحب پریشان ہو کر کہنے لگے میں نے شرق پور سے گلاب جامن منگوائے ہیں غرض کہ پورے مہینے کے ناشتے کا اہتمام ہو چکا تھا چنانچہ پھر سے متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ اس ماہ تو ناشتوں کو چلنے دیا جائے اگلے ماہ انشاء اللہ انہیں مکمل طور پر بین کر دیا جائے گا یعنی اگر کسی صاحب نے پہلے سے ہی قیمے والے نان اور پٹھوروں کا انتظام نہ کر لیا ہوا تو یوں بھی لوگوں کا دل توڑنا مناسب نہیں چاہیے وزن میں پانچ دس پاؤنڈ کا اضافہ ہو جائے جیسے شیخ منیر کم از کم چھ مختلف نوعیتوں کے آپریشن کرا چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ ناشتے نہیں چھوڑوں گا زیادہ سے زیادہ ایک اور آپریشن کروانا پڑ جائے گا تو اسے کہتے ہیں آئین جواں مردی۔

٭٭٭

 

 

یہ خواب کیوں آیا

مجھے خواب کم ہی آتے ہیں اور میں اکثر ان لوگوں کو نہایت رشک سے دیکھتا ہوں جن کے پاس ہر صبح درجن بھر خوابوں کی ایک فہرست ہوتی ہے اور وہ انہیں پوری تفصیل کے ساتھ آپ کو سنانا اپنا فرض سمجھتے ہیں چاہے آپ کو ان سے دلچسپی ہو یا نہ ہو۔ ہر شخص کو اس کے عقیدے، خاندان، رسم و رواج اور موسموں کے مطابق خواب آتے ہیں یہ کبھی نہیں ہوا کہ ایک مسلمان کو مہاتما بدھ خواب میں دکھائی دینے لگیں یا تبت کا کوئی بدھ لامہ حضرت یحییٰ کو خواب میں دیکھنے لگے۔ اس طور ایک افریقن اپنے خواب میں وہی جانور دیکھے گا جو اس کے آس پاس گھومتے ہیں اور انہی موسموں کے خواب دیکھے گا جو اس کے اپنے ملک کے ہوں گے یعنی ایک افریقی خواب میں یہ نہیں دیکھے گا کہ وہ اپنے برف سے بنے گھر ’’اگلو‘‘ میں قیام پذیر ہے اور وہ برفانی کتے جو اس کی گاڑی برفزاروں پر کھینچتے ہیں وہ کہیں گم ہو گئے ہیں اور وہ فکر مند ہے کہ اب مزید برفانی کتے کہاں سے حاصل کروں گا اس طور ایک اسکیمو کو یہ خواب نہیں آئے گا کہ وہ کسی صحرا میں پیاس کی شدت سے نڈھال ہے اس کا اونٹ فوت ہو چکا ہے اور دور دور تک کھجور کے کسی درخت کا نام و نشان نہیں۔ ویسے میرے پورے خاندان والوں کو خواب کم ہی آتے ہیں یاد رکھئے کہ خواب آنے اور خواب دیکھنے میں واضح فرق ہوتا ہے میں ذاتی طور پر خواب تو بہت دیکھتا ہوں لیکن عالم بیداری میں اپنے خاندان اور اپنے ملک کی بہتری کے خواب کچھ خواہشوں کے خواب لیکن نیند کے دوران مجھے خواب کم ہی آتے ہیں اور اگر بھول چوک سے کوئی خواب آ بھی جائے تو صبح تک یاد نہیں رہتا اس طور میری بیگم بھی ایک خواب فری خاتون ہیں مجھ سے شادی سے پیشتر کہا جاتا ہے کہ انہیں زندگی میں پہلی بار برے برے خواب آئے،لیکن شادی کے بعد کچھ بھی نہیں آیا۔ صرف میں آیا۔جیساکہ میں نے عرض کیا ہے کہ ہمارے خاندان میں ہی خوابوں کا سلسلہ بہت کم ہے لیکن ایک بار میری چھوٹی ہمشیرہ کو ایک عجیب سا خواب آیا کہ ہم سب بہن بھائی یعنی چھ کے چھ کسی نامعلوم تاریکی میں بھاگے چلے جا رہے ہیں اور ہمارے ساتھ ہمارا خالہ زاد بھائی ساجد بھی ہے پھر ہمارے سامنے ایک بلند دیوار آتی ہے جسے ہم تو عبور کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن ساجد وہ دیوار پار نہیں کرسکتا۔ بار بار کوشش کرتا ہے اور گر جاتا ہے اور پھر وہ کہتا ہے کہ آپ سب لوگ چلو میں پار نہیں آسکتا اور ہم اسے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اس خواب کے چند روز بعد کیپٹن ساجد کا جہاز کوئٹہ میں کرپش ہو جاتا ہے اور وہ شہید ہو جاتا ہے لیکن یہ ایک اتفاق بھی ہوسکتا ہے ایسے خواب آتے رہتے ہیں اور یہ خواب منطبق ہو گیا ابھی پچھلے دنوں ا یک عزیز دوست نے بتایا کہ چوہدری صاحب مجھے خواب کم آتے ہیں لیکن میں نے دیکھا کہ میں نے اپنی بیوی کو باہوں میں اٹھایا ہوا ہے اور اس کا چہرہ عجیب سا ہے جیسے اس میں جان نہ ہو اور وہ بولتی نہیں کچھ روز بعد ان کی بیگم ایک شدید جان لیوا نوعیت کے مرض میں مبتلا ہوئیں اور وہ اسے باہوں میں اٹھا کر بستر پر لگا رہے تھے تو ان کا کہنا ہے کہ اس کا چہرہ سراسر اس خواب جیسا تھا جیسے اس میں جان نہ ہو صد شکر کہ وہ اس موذی مرض سے بچ نکلیں اور اب ماشاء اللہ پھر سے مکمل طور پر صحت مند ہیں اور اپنے بال بچوں کی خوشیوں میں شریک ہیں شاہ صاحب کا یہ خواب بھی ایسا تھا کہ حقیقی زندگی میں اس کی تصویر ان کے سامنے آ گئی۔میں نے ان خوابوں کی تہہ اس لیے باندھی ہے کہ مجھے بھی ایک خواب آیا اور میں آپ کو اس میں شریک کرنا چاہتا ہوں میں عرض کر چکا ہوں کہ مجھے خواب کم آتے ہیں اس لیے یہ خواب میرے ذہن پر نقش ہو گیا ہے اور بہت ہی مبہم اور منتشر سا خواب ہے غیر واضح ہے اور اس کی کوئی تصویر نہیں بنتی۔میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اور میری بیگم کسی اجنبی سرزمین میں سفر کر رہے ہیں جس کی کچھ پہچان نہیں پو رہی کہ یہ کونسا ملک ہے یہاں باشندے کون ہیں کون سی زبان بولتے ہیں کچھ لوگوں کو روک کر پوچھتے ہیں کہ ہم دونوں یہاں اجنبی ہیں آپ بتائیے کہ یہ کونسی جگہ ہے اور وہ لوگ بولتے نہیں ہمیں دیکھتے جاتے ہیں لیکن چپ رہتے ہیں ہم دونوں حیران ہیں کہ ہم اگر سفر میں ہیں تو یہ تو معلوم ہو کہ کس ملک میں ہیں پھر ایک صاحب کہتے ہیں کہ ہمیں خود علم نہیں کہ یہ کونسا ملک ہے جس میں ہم رہتے ہیں ان کی صورت شکل پاکستانیوں جیسی ہے اور وہ اردو بولتے ہیں تو میں پوچھتا ہوں کہ آپ پاکستانی ہیں ؟ تو وہ کہتے ہیں ہاں میں پاکستانی ہوں تو میں دریافت کرتا ہوں کہ آپ پاکستان سے کب آئے تو وہ حیران ہو کر کہتے ہیں کون سے پاکستان سے یہ نام تو میں نے پہلے کبھی نہیں سنا اس پر میں ان سے بحث کرنے لگتا ہوں کہ اگر آپ پاکستانی ہیں تو پاکستان سے آئے ہوں گے اور وہ ایک عجیب سی اداسی کے ساتھ کہتے ہیں سب لوگ یہاں اس اجنبی دیار میں ہمیں اس نام سے پکارتے ہیں لیکن ہم لوگ یہ نہیں جانتے کہ پاکستان نام کا کوئی ملک بھی ہے یا کبھی تھا ہمارا سفر پھر شروع ہو جاتا ہے اور ہم کسی آبادی میں داخل ہوتے ہیں وہاں بازار بند پڑے ہیں ا ور دور دور تک کوئی ذی روح دکھائی نہیں دے رہا یہاں بھی میں چند ہم شکل پاکستانیوں کو دیکھتا ہوں جو مجھ سے بات نہیں کرتے ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ یہ جو بھی ملک ہے یہاں کے باشندے ہمیں کیوں نظر نہیں آرہے صرف کہیں کہیں پاکستانی شکل کے لو گ چل پھر رہے ہیں اور سہے ہوئے ہیں ادھر ادھر چوکنے ہو کر دیکھتے ہیں ہم سے بات نہیں کرتے پھر ہم ایک آہنی پنجرہ دیکھتے ہیں جس کا سامنے کا حصہ عیاں ہے اور بقیہ پنجرہ مٹی میں دبا ہوا ہے اس پنجرے میں سینکڑوں لوگ قید ہیں اور وہ بھی پاکستانی شکل کے ہیں یہ پاکستانی سلاخوں میں چمٹے ہم دونوں کو حیرت سے دیکھتے ہیں ان کے قریب پنجرے کے باہر ایک بوڑھا شخص کھڑا ہے اور ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ یہ قید کیوں ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ قید تو نہیں یہ تو خوش قسمت ہیں کہ انہیں یہاں پناہ مل گئی ورنہ بقیہ پاکستانی تو دربدر بھٹکتے ہیں مقامی آبادی سے بھیک مانگ کر پیٹ پالتے ہیں یہ پاکستانی مقامی چڑیا گھر میں جانوروں کی غلاظت صاف کرنے پر مامور ہیں انہیں صبح وہاں سے لے جاتے ہیں اور رات کو یہاں بند کر دیتے ہیں میں اس بوڑھے سے کہتا ہوں کہ کیا آپ بھی نہیں جانتے کہ پاکستان ایک ملک تھا تو وہ کہتا ہے کہ مجھے کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اس نام کا کوئی ملک شاید ہوتا ہو گا لیکن اگر ہوتا تو یہ پاکستانی یوں دربدر نہ ہوتے میں ہراساں ہو کر اپنی بیگم سے کہتا ہوں کہ جلدی کرو آؤ ہم اس اجنبی سرزمین سے واپس اپنے پاکستان لوٹ چلیں اور ہم پھر سے سفر کرنے لگتے ہیں اور ہمیں راستہ نہیں مل رہا۔میں نے یہ عجیب سا خواب جب دیکھا بیان کر دیا حلفیہ بیان کرتا ہوں کہ میں نے اپنی طرف سے اس میں کچھ شامل نہیں کیا میں جو خواب کم ہی دیکھتا ہوں مجھے اگر یہ خواب آیا تو کیوں آیا کیا یہ سچ ثابت ہوسکتا ہے؟۔

٭٭٭

 

 

اقبال بانو،دشت تنہائی میں

موت اور آپ کے درمیان ایک فاصلہ ہو تو وہ رومانوی لگتی ہے اس کا دکھ محسوس تو ہوتا ہے پر سینے میں ایک گھاؤ نہیں لگاتا اور یہ فاصلے عمرے کے ہوتے ہیں برسوں کے ہوتے ہیں جب آپ جوان ہوتے ہیں اور مرنے والا آپ سے بہت دور بڑھا ہے کی منزلوں پر ہوتا ہے تو آپ اس کی موت کو اپنے ساتھ متعلق نہیں کرتے کہ یہ اصولی طور پر آپ کے مرنے کے دن نہیں ہوتے لیکن پھر آپ برسوں کے فاصلے طے کرتے اس مقام پر جا پہنچتے ہیں جس کے آگے جینے کے بہت سے دن نہیں ہوتے جیسے بابا فرید نے کہا تھا کہ اے فرید اب نیند سے بیدار ہو جاؤ کہ تمہاری داڑھی سفید ہو چکی ہے اور تمہارا پیچھا یعنی گزشتہ حیات بہت دور ہو گئی ہے اور تمہارا آگا یعنی جو کچھ آگے ہے وہ نزدیک آگیا ہے تو ان زمانوں میں موت بہت اثر کرتی ہے کہ آپ بھی اس کے اتنے نزدیک آ چکے ہوتے ہیں کہ اگلی باری آپ کی بھی ہوسکتی ہے یوں جب کبھی کسی عزیز یا جان پہچان والے کی موت کی خبر آتی ہے تو وہ ایک یاد دہانی کے طور پر آتی ہے اور آپ نہ صرف اس شخص کے بچھڑنے پر ملال میں چلے جاتے ہیں بلکہ اپنے خاک ہو جانے کے ڈر سے بھی خوفزدہ ہو جاتے ہیں تب یہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ بابا لوگ کسی کے مرنے پرا تنا واویلا کیوں کرتے ہیں اور جو بھی مرتا ہے اس کے چلے جانے کا اتنا چرچا کیوں کرتے ہیں اس کے ساتھ اپنی رفاقت کی کہانیاں کیوں سنانے بیٹھ جاتے ہیں۔

اور اب میرے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے میری عمر کے اور مجھ سے چار پانچ سال بڑے لوگ اس دہلیز کی چوکھٹ کے قریب ہیں جس کے پار فضا کی تاریکی ہے اور چونکہ اکثر مرنے والے آپ کے ہم عصر ہوتے ہیں اس لیے آپ ان کو جانتے ہیں ان کے ساتھ پچھلی زندگی کی کچھ یادیں وابستہ ہوتی ہیں اس لیے ان زمانوں میں موت آپ پر اثر کرتی ہے اور آپ چلے جانے والوں کے لیے دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ پر ملال ہوتے ہیں اکثر کرشن چندر، بیدی، ساحر، جگر،فراق یا منٹو کی موت ہوتی تھی تو وہ بہت دور ہوتی تھی یہ ہمارے ہم عمر نہ تھے اور نہ ہی ان سے کوئی تفصیلی میل ملاقات یا ذاتی جان پہچان تھی لیکن جب کرنل محمد خان، شفیق الرحمان، اشفاق احمد، فیض صاحب، شوکت صدیقی، منیر نیازی، قتیل شفائی،خاطر غزنوی، فراز یا احمد ندیم قاسمی رخصت ہوتے ہیں تو ان سے آپ کی قربت اور پہچان رہی ہوتی ہے ان سے یادیں وابستہ ہوتی ہیں تو ان کے مرنے کا دکھ سہا نہیں جاتا دل میں ایسے گھاؤ ڈالتا ہے جو مندمل نہیں ہوتا کہ مندمل ہونے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے جو آپ کے پاس نہیں ہوتا اور آپ ہر موت سے اپنی موت کے قریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔

اقبال بانو کی موت بھی میرے دل کے بہت قریب ہوئی بلکہ میرے گھر سے کچھ دور گارڈن ٹاؤن میں ہوئی ہم مہدی حسن کو دیکھ رہے تھے اور اقبال بانو نے موقع غنیمت جانا کہ کوئی بھی میری طرف نہیں دیکھ رہا تو چپکے سے غائب ہو جاؤں چنانچہ وہ بغیر کسی اطلاع کے شور شرابے کے بغیر خاموشی سے مر گئیں اور اس لیے بہت دھچکا محسوس ہوا کہ بانو یہ تو آپ نے بہت زیادتی کی ٹھیک ہے چلی جاتیں لیکن ہمیں ذہنی طور پر تیار تو ہونے دیتیں۔  ہم اخباروں میں آپ کی صحت کے بلیٹن پڑھتے۔ وی آئی پی حضرات آپ کے ساتھ آخری تصویریں اتروانے کے لیے ہسپتال پہنچتے اور آپ کو اس ملک کا اثاثہ قرار دے کر کوئی چیک پیش کرتے جو بعد میں کیش نہ ہوتا کبھی آپ کی طبیعت سنبھل جاتی اور بگڑ جاتی اور پھر بے شک خبر آجاتی ہم ذہنی طور پر تیار تو ہولیتے۔ دشت تنہائی میں یوں اتنی خاموشی سے تو نہیں اتر جاتے کیسے وہ کمال کے دن تھے ’’قاتل ‘‘ اور ’’گمنام ایسی بلند درجہ فلموں کے دن اور ان میں نغمہ سرا اقبال بانو کے گیت چھم چھم کرتے تھے کوچہ و بازار میں پائل کے گیت چھم چھم کرتے تھے اور الفت کی نئی منزل کو چلا تو ڈال کے باہیں باہوں میں، دل توڑنے والے دیکھ کے چل ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں جیسے پرسوز الاپ ہر دل کو چھوتے تھے اور پھر بہت بعد میں کشور ناہید کے گھر ایک ادبی محفل میں جب اقبال بانو داخل ہوئیں تو میری آنکھیں بے اختیار ان کے پاؤں کی جانب گئیں کہ مجھے وہ پائل دکھائی دے جاتے لیکن وہ پائل تو ان کے گلے میں چھن چھن کرتی تھی کشور کو ان زمانوں میں شہر کے نابغہ روزگار ادیبوں، تصوروں اور گلوکاروں کو اپنے گھر میں جمع کرنے کا ملکہ حاصل تھا اقبال بانو ان محفلوں میں نہایت اہتمام سے شریک ہوتیں کہ ان کے ادبی ذوق میں کچھ کلام نہ تھا ان سے جب کبھی فرمائش کی انہوں نے دیگر گانے والوں کی مانند نہ تو نخرے کیے اور نہ کبھی گلا خراب ہونے کا بہانہ کیا صرف ایک مسکراہٹ اور گردن جھکا کر ایک آداب عرض اور وہ نہایت سادگی سے غزل سرا ہو جاتیں کھانے کے بعد جب اکثر مہمان رخصت ہو جاتے تو ہم ان سے ٹھہر جانے کی درخواست کرتے اور پھر جی بھر کے انہیں سنتے اگر آپ کو غزل کے کسی ایک مصرع کی ادائیگی نے مار ڈالا ہے تو وہ آپ کی فرمائش پر اسے بار بار انوکھے رنگوں میں ادا کرتی چلی جاتیں اور یاد رہے کہ بیشتر گلوکار یوں صرف دوستوں کی فرمائش پر نہیں گاتے موسیقی کا بندوبست نہ ہوتا تو بھی ان کی آواز کا جادو دشت تنہائی میں سرچڑھ کر بولتا ان دنوں کے بعد پھر ٹیلی ویژن پر اکثر ملاقات ہو جاتی جہاں میں موسیقی کے پروگراموں کی میزبانی کیا کرتا تھا۔

جن دنوں میں صبح کی نشریات کی میزبانی کے سلسلے میں عارضی طور پر اسلام آباد منتقل ہو چکا تھا تو ایک ویک اینڈپرواپس لاہور آ رہا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ اقبال بانو بھی اس فلائٹ پر ہیں وہ میرے برابر کی نشست پر آ بیٹھیں اور تب انہوں نے ادب کے بارے میں گفتگو کی اور نہ ہی گلوکاری کا تذکرہ چھیڑا بلکہ ایک گھریلو عورت کی مانند اپنے گھر کے معاملات اور بال بچوں کے بارے میں باتیں کرتی رہیں ایئرپورٹ پر مجھے لینے کے لیے میرے بیٹے نے آنا تھا اور اسے کالج میں کچھ تاخیر ہو گئی تو انہوں نے بصد اصرار مجھے اپنی کار میں بٹھا لیا اور کہنے لگیں آپ پہلے میرے ہاں چلیں گے پھر میرا ڈرائیور آپ کو چھوڑ آئے گا انہوں نے مجھے اپنے بچوں سے ملایا اور خاطر مدارت میں کچھ کسر نہ چھوڑی میں ان کی گھریلو شفقت اور محبت کو آج تک نہیں بھلا پایا۔

ان سے آج تک کبھی کچھ شکایت نہیں ہوئی یہ پہلی شکایت ہے کہ وہ ہم سے نظر بچا کے نہایت خاموشی سے دشت تنہائی میں گم ہو گئیں البتہ ان کے گیتوں کی چھم چھم اس دشت تنہائی میں جو کہ مرگ ہے اس کے سناٹے میں اب بھی گونجتی سناتی دیتی ہے اور یہ کہتی ہے کہ ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔

٭٭٭

 

 

یہ ایک کرن ایک مسکراہٹ ہی کافی ہے

میں کرکٹ سے جان چھڑاتا ہوں اور یہ میرا پیچھا نہیں چھوڑتی۔۔ ۔  میں اس کے آگے ہاتھ باندھتا ہوں،منت سماجت کرتا ہوں کہ بی بی اور بھی دکھ ہیں زمانے میں کرکٹ کے سوا لیکن اس نازنین پر کچھ اثر نہیں ہوتا جہاں میں جاتا ہوں پیچھے پیچھے چلی آتی ہے میں نے بھی بچپن اور اوائل عمری میں مقدور بھر کرکٹ کھیلنے کی کوشش کی لیکن جیسے میرے پلے الجبرا نہیں پڑتا، کمپیوٹر اور سیل فون نہیں پڑتا اسی طور کرکٹ کے حوالے سے بھی میں ہمیشہ پسڈی رہا ہوں۔ ۔ ۔  بیٹنگ کرنے جاتا تھا تو گیند دونوں ٹانگوں کے درمیان میں سے جانے کیسے گزر جاتی تھی اور سیدھی وکٹوں میں جاتی تھی یا لگتی تھی تو بیٹ کو نہیں گھٹنے کو جا لگتی تھی اور میں لنگڑاتا پھرتا البتہ میری باؤلنگ کی بڑی دہشت تھی کیونکہ میں دوسرے بچوں کی نسبت ذرا مضبوط ہاتھ پاؤں والا تھا بال کرتا تو وہ بیٹس مین کے دائیں یا بائیں سے خاصے فاصلے پر سے گزر جاتی میری پھینکی ہوئی گیند کا یہ عالمی ریکارڈ ہے کہ وہ آج تک کبھی وکٹوں میں نہیں لگی اور پھر میری شاندار کرکٹ کو زوال سعادت حسن منٹو اور ان کی بیگم صفیہ کے ہاتھوں آیا۔۔ ۔  لکشمی فیشن کے گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلتے ہوئے میری گیند اکثر نہایت تیز رفتاری سے منٹو صاحب کے گھر کا رخ کر لیتی پھر ایک تڑاخ کی آواز کے ساتھ شیشہ ٹوٹنے کی آواز آتی اور اسکے ساتھ ہی کرکٹ ٹیم میں شامل بچہ لوگ ادھر ادھر روپوش ہو جاتے اور سارا نزلہ مجھ پر گر جاتا اگر تو منٹو صاحب گھر میں موجود ہوتے تو وہ مجھے تھوڑی بہت ڈانٹ ڈپٹ کر کے گیند واپس کر دیتے اور اگر صفیہ آپا ہوتیں تو وہ ڈانٹ ڈپٹ کے علاوہ کان بھی مروڑتیں اور گیند بھی ضبط کر لیتیں منٹو صاحب کے برآمدے میں لگے بیشتر شیشے میرے کمال کرکٹ کی نذر ہوئے بیٹنگ کرتے ہوئے جب کبھی میں ذرا امتیاز احمد کے سٹائل میں گھٹنا ٹیک کر بلا گھماتا تو کمبخت گیند سیدھی منٹو صاحب کے باقی ماندہ شیشوں کی جانب لپک کر جاتی ویسے وہ اتنے اچھے تھے کہ اکثر چوری چھہے مجھے وہ گیند واپس کر دیتے جو صفیہ آپا نے ضبط کر رکھے ہوتے تھے۔

انہی دنوں لاہور میں ویسٹ انڈیز اور نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیمیں آئیں ہمارے اکثر ٹیسٹ کرکٹر پیدل آرہے ہوتے البتہ فضل محمود سیٹیاں بجاتے سائیکل پر آتے مجھے یاد نہیں کہ باغ جناح میں کھیلے جانے والے میچوں میں داخلے کا کوئی ٹکٹ بھی ہوتا تھا یا نہیں یقیناً ہوتا ہو گا لیکن ہم بچہ لوگ شامیانوں اور قناتوں کے درمیان سے سمگل ہو کر گراؤنڈ میں جا بیٹھتے تھے لاہوری پبلک کے پسندیدہ ترین کھلاڑی امتیاز احمد اور مقصود احمد ہوا کرتے تھے شجاع الدین بھی تھے جنہیں لکی کبوتری کے نام سے پکارا جاتا تھا ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے ساتھ اسی باغ جناح میں ایک ٹیسٹ کھیلا جا رہا تھا اور مقصود احمد جنہیں ’’میری میکس‘‘ کہا جاتا تھا کہ وہ اکثر بہت ’’میری‘‘۔۔ ۔  ہوتے تھے انڈین باؤلروں کی خوب پٹائی کر رہے تھے اور اہل لاہور نعرے لگاتے نڈھال ہو رہے تھے یہاں تک کہ مقصود احمد کا سکور ننانوے ہو گیا مجھے وہ منظر آج بھی یاد ہے کہ انڈین سپنر گپتا نے ایک سلو بال کیا مقصود اپنے مخصوص انداز میں چھکا لگانے کی خاطر کریزسے باہر آئے بیٹ گھمایا لیکن گیند کو ہٹ نہ کر سکے ہندوستان کے وکٹ کیپر کا نام تمہانے تھا اس نے انہیں آسانی سے سٹمپ کر دیا اور مقصود احمد ننانوے پر آؤٹ ہو گئے پورے لاہور کو تو کیا پورے پاکستان کو اتنا دکھ ہوا کہ باقاعدہ صف ماتم بچھ گئی حیدر آباد میں ریڈیو پر کومنٹری سننے والے ایک صاحب کا ہارٹ فیل ہو گیا انڈین ٹیم جب میچ سے فارغ ہو کر واپس ہوٹل جا رہی تھی تو لاہوریوں کا بس نہ چلا ورنہ وہ گپتا اور تمہانے کو کچا چبا جاتے بہت طعنے دئیے گئے کہ ان ہندو لوگوں میں ذرا بھر سپورٹس مین سپرٹ نہیں کیا ضرورت تھی بے چارے مقصود کو سٹمپ کرنے کی اگر وہ غلطی سے ذرا آگے چلے گئے تھے تو تمہانے میں کچھ حیا کرتا بلکہ ایک اخبار نے یہاں تک لکھا کہ کسی بھی کھلاڑی کو ننانوے پر آؤٹ کرنا جائز نہیں۔ ۔ ۔

بہر طور یہ کرکٹ کہانی بہت طویل ہے پھر کبھی سہی اس کرکٹ نے اب بھی میری جان نہیں چھوڑی میرے پیچھے پیچھے چلی آئی ہے۔۔ ۔

میری بیوی نے چونکہ اپنے پوتے اور نواسے کھلانے کے لئے چند دنوں میں امریکہ سدھارنا ہے تو پچھلے اتوار ہم کچھ تحفے تحائف خریدنے کے لئے گھر سے نکلے اکثر دوکانیں بند تھیں ایک صاحب سے سبب پوچھا تو انہوں نے ہمیں خشمگیں آنکھوں سے گھورتے ہوئے کہا جناب آٹھ بجے فائنل شروع ہو رہا ہے اور آپ یہاں گھوم رہے ہیں۔

گھر واپس آ کر میں اپنے لکھنے کی میز پر بیٹھ گیا اور کام میں مشغول ہو گیا تقریباً ایک گھنٹے کے بعد پارک کے ایک دوست ارشد کا فون آگیا اس سے بات نہیں ہو رہی تھی۔۔ ۔  تارڑ۔۔ ۔  یار تین تین۔۔ ۔  وہ ہکلا رہا تھا۔۔ ۔  کیا تین تین؟ میں نے پوچھا۔۔ ۔  وہ مسرت سے مغلوب ہو رہا تھا۔۔ ۔  یار سری لنکا کے تین کھلاڑی آؤٹ۔ ۔ ۔  یار آؤٹ۔۔ ۔  تم میچ نہیں دیکھ رہے۔۔ ۔  جب میں نے بتایا کہ میں تو اپنی سٹڈی میں بیٹھا لکھ رہا ہوں تو ادھر خاموشی طاری ہو گئی اور پھر اس کی ناراض آواز آئی۔۔ ۔  یار تم بندے ہو کہ نائی فائنل نہیں دیکھ رہے۔۔ ۔  لاحول والا۔۔ ۔  اور فون بند۔۔ ۔

ہمارے ایک دوست ہیں فرخ رضوی۔۔ ۔  کیا آپ یقین کریں گے کہ انہوں نے آج تک پاکستان نے جتنے اہم میچ کھیلے ہیں انہوں نے کبھی نہیں دیکھے حالانکہ غالب کی شاعری کے بعد وہ کرکٹ کے دیوانے ہیں کہتے ہیں مجھ سے یہ میچ دیکھے نہیں جاتے پاکستان کا کوئی کھلاڑی آؤٹ ہو جائے یہ میں برداشت نہیں کرسکتا۔۔ ۔  صبح اخبار میں پڑھ لیتا ہوں کہ رات کے میچ کا کیا نتیجہ نکلا میرا بھی کچھ یہی حال ہے پہلے ہی بلڈ پریشر ہائی ہے فائنل دیکھ کر اسے کے ٹو جتنا بلند کرنے سے فائدہ۔۔ ۔  بقول غالب دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب۔۔ ۔  تو پاکستان کا میچ دیکھنے سے یہی خطرہ مجھے لاحق ہوتا ہے۔

ایک عرصے کے بعد لاہور، کراچی اور پشاور کے گلی کوچوں میں جو ہجوم تھے وہ خوفزدہ حالت میں لاشوں اور زخمیوں کو نہ ڈھوتے تھے بلکہ ان کے چہرے مسرت سے دمک رہے تھے اور ایمبولینسوں کے سائرن نہ تھے موٹروں کے ہارن تھے جو فتح کی خوشی میں بجائے جا رہے تھے شاہد آفریدی اور یونس خان کے گھروں کے سامنے جشن مناتے لوگ تھے جن کے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم تھے ٹونٹی ٹونٹی کی یہ ورلڈ چیمپئن شپ کوئی جادوئی چراغ نہیں جو ہمارے مسائل حل کر دے لیکن ان تاریک زمانوں میں روشنی کی یہ ایک کرن ہی کافی ہے پریشان حال اور اداس چہروں پر یہ ایک مسکراہٹ ہی غنیمت ہے۔

٭٭٭

 

 

بیٹی حقہ پیتی ہے

چند روز بیشتر ایک نہایت عزیز دوست بے حد پریشانی کی حالت میں میرے ہاں تشریف لائے رنگت اڑی ہوئی اور اس رنگت میں بھی ہوائیاں اڑتی ہوئیں تشریف لائے اور صوفے پر ڈھیر ہو گئے اس روز لاہور کا درجہ حرارت چھیالیس سے تجاوز کر چکا تھا اور لاہور کی سب چیلیں اپنے اپنے انڈے چھوڑ چکی تھیں بلکہ ان میں سے جو طاقت پرواز رہتی تھیں مری یا نتھیا گلی کوچ کر گئی تھیں میں نے سوچا کہ ہو نہ ہو میرے دوست پر بھی گرمی کا اثر ہو گیا ہے چنانچہ میں نے فوری طور پر پہلے تو انہیں نمکین لسی کے دوچار گلاس پلائے اور پھر ان کا منہ میٹھا کرنے کی خاطر باداموں کے شربت کا ایک گلاس پیش کیا ان مشروبات کو غٹا غٹ چڑھا جانے کے باوجود ان کی ظاہری حالت میں کچھ فرق نہ پڑا تو میں نے پوچھا’’ اجی حضرت خیریت تو ہے ناں ‘‘

وہ ہکلاتے ہوئے بولے‘‘ تارڑ صاحب، خیریت کہاں ہونی ہے میں تو لٹ گیا، آپ جانتے ہیں کیا ہوا؟

میں نے کہا’’ آپ کو میں نے یہ جو نہایت مہنگے مشروبات پلائے ہیں خاص طور پر باداموں کا شربت جو میں نے خاص طور پر حیدر آباد سے منگوایا ہے تو صرف ا س لئے کہ آپ بتائیں کہ ہوا کیا ہے۔

مردہ سی آواز میں بولے’’ میری بیٹی حقہ پینے لگی ہے‘‘

’’ ہائیں، مجھے بھی دھچکا سا لگا اپنی طاہرہ بیٹی حقہ پینے لگی ہے یعنی گھر میں ایک عدد حقہ لے آئی ہے اسے تازہ کرتی ہے، ہتھیلیوں میں کڑوا تمباکو مسل کر اسے حقے کی ٹوپی کی گردن میں جما کر اس پر کوئلے رکھتی ہے اور پھر یہ لمبے لمبے کش لگاتی نتھنوں میں سے دھواں نکالتی ہے طاہرہ بیٹی چونکہ میرے ابا جی نہایت ذوق و شوق سے حقہ پیا کرتے تھے اس لئے میں اسے تیار کرنے کے مختلف مراحل سے آگاہ تھا۔

’’ نہیں نہیں ابھی تک یہ نوبت تو نہیں آئی، گھر سے باہر جا کر حقہ پیتی ہے۔’’ آپ کو یہ اندوہناک خبر کس نے دی؟

’’ اس کی ایک سہیلی نے کہنے لگی انکل آج ہم سب پرانی کلاس فیلوز جمع ہو کر ایک نئے ریستوران میں جا رہی ہیں آپ پلیز طاہرہ کو بھی ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دے دیجئے میں نے پوچھا بیٹے کھانا کھانے جا رہے ہو؟ تو اس نے نہایت سنجیدگی سے کہا کہ وہ بھی کھائیں گے لیکن بنیادی طور پر ہم سب شیشہ پینے جا رہی ہیں اب میرے فرسودہ خیال کے مطابق تو شیشہ دیکھا جاتا ہے پیا تو نہیں جاتا اور جب میرے پلے کچھ نہ پڑا تو ہنس کر کہنے لگی کہ انکل شیشہ،جسے آپ لوگ حقہ کہتے ہیں یہ دراصل حقے کا تازہ ترین ماڈل ہے شیشہ اور انکل آپ کے زمانے میں تو صرف کڑوا تمباکو پیا جاتا تھا لیکن اب بڑی ورائٹی ہے مختلف پھلوں اور پھولوں کی خوشبو اور ذائقے والے تمباکو ہوتے ہیں تارڑ یار یہ سن کر تو میری ٹانگوں میں جان نہ رہی اور میں نے پوچھا کہ بیٹے کیا اس حقے میں دھواں بھی ہوتا ہے تو وہ مسکرا کر کہنے لگی اور نہیں تو کیا انگل ہم خوب کش لگاتے ہیں اور ناکوں میں سے دھواں خارج کر کے بہت انجوائے کرتے ہیں اب تم ہی بتاؤ کہ میں کیا کروں ؟

تم طاہرہ بیٹی کو سمجھاؤ کہ خبر دار تمباکو نوشی کینسر اور دل کی بیماریوں کا باعث ہے ’’ میں کوشش کر چکا ہوں لیکن وہ جواب میں ثقافتی حوالے دیتی ہے کہتی ہے کہ ایک تو شیشے میں تمباکو کی مقدار نہایت قلیل ہوتی ہے اور پھر یہ تو ہمارے کلچر کا ایک حصہ ہے آپ ہمیں خود ہی تو بتایا کرتے تھے کہ آپ کی پھوپھی جان کھانے کے فوراً بعد ’’ حقہ حقہ ‘‘ کا شور مچا دیتی تھیں کہ بقول ان کے کھانے کے بعد ان کے پیٹ میں ایک گولا سا بن جاتا تھا اور جب تک وہ حقے کے دوچار کش نہیں لگاتی تھیں وہ گولا نیچے نہیں ہوتا تھا پیٹ میں اٹکا رہتا تھا شنید ہے کہ مرحومہ دادی جان بھی حقے کی بے حد شوقین تھیں تو اگر ہم لوگ ہفتے میں ایک آدھ بار کسی شیشہ ریستوران میں جا کر دو چار کش لگا آتے ہیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے یعنی صرف بیٹی طاہرہ ہی نہیں اس کی سہیلیاں بھی حقہ پیتی ہیں ‘‘’’ اچھا وہ والا شیشہ‘‘ میں بے اختیار مسکرانے لگا میرے ذہن میں جدہ کی وہ شام آ گئی جب میرا بیٹا سلجوق میری فرمائش پر مجھے پرانے جدہ کے ایک قدیم محلے میں لے گیا جہاں فٹ پاتھ پر ایک ’’ شیشہ ریستوران‘‘ قائم تھا لوگ قہوے کی چسکیاں لگا رہے تھے اور میزوں کے درمیان میں آراستہ خوبصورت شیشے سے بنے ہوئے حقوں کے کش لگا رہے تھے ایک ویٹر صرف اس ڈیوٹی پر مامور تھا کہ وہ گاہکوں کے لئے بار بار چلمیں تازہ کر کے لاتا تھا اور میں نے افسوس کے ساتھ نوٹ کیا کہ برخوردار جس نے آج تک سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگایا تھا نہایت اطمینان سے یہ شیشہ حقہ پینے میں مشغول ہو گیا بعد میں میں نے ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی خفیف سی کوشش کی تو مسکرا کر کہنے لگا ابا یہ تو بس شغل میلہ ہے تمباکو نوشی تو نہیں ہے چنانچہ میں نے جدہ کی اس شام کا قصہ اپنے دوست کو سنا کر اس کا غم غلط کرنے کی کوشش کی اسے یہ بھی بتایا کہ یہ شیشہ نوشی کا رواج ادھر عرب شریف کی جانب سے آیا ہے کیونکہ میری اطلاع کے مطابق سعودی عرب کی بیشتر خواتین شیشہ پینے کی شوقین ہیں چنانچہ یہ عین اسلامی ہے لیکن اس کی تسلی نہ ہوئی کہنے لگا کہ بچپن سے یہی پڑھتے آئے ہیں کہ ماں چولہے پر بیٹھی ہے اور باپ بیٹھا حقہ پی رہا ہے یہ تو کبھی نہیں پڑھا کہ باپ چولہے پر بیٹھا ہے اور ماں بیٹھی حقہ پی رہی ہے تب میں نے اسے ایک گرانقدر مشورے سے نوازا، تم سگریٹ تو پیتے ہو تو کیا حرج ہے کہ کسی روز کسی شیشہ ریستوران میں جا کر دو کش شیشے کے بھی لگا لو دیکھو تو سہی کہ اس کا ذائقہ کیا ہے باقاعدہ حقہ ہے یا کچھ اور ہے میرا دوست یہ مشورہ پلے باندھ کر چلا گیا اور دو تین روز بعد موصوف دوبارہ نازل ہوئے تو نہایت شاداب اور پرمسرت کیفیت میں مسکراتے چلے آرہے ہیں دھپ سے سامنے والے صوفے پر بیٹھے اور کہنے لگے لو بھئی میرا مسئلہ تو حل ہو گیا تمہارے مشورے کے مطابق اس شام میں ایک شیشہ ریستوران میں گیا کیا دیکھتا ہوں کہ کیا مرد و زن کیا چھوٹے بڑے سب کے سب نہایت اشتیاق سے شیشہ پی رہے ہیں دھوئیں اڑا رہے ہیں میں نے بھی دو چار کش لگائے تو یقین کرو لطف آگیا بے حد فرحت آمیز مشغلہ ہے میں نے سگریٹ چھوڑ دئیے ہیں اور اب صرف شیشہ پیتا ہوں اور جیتا ہوں بلکہ سوچ رہا ہوں کہ روز روز ریستوران میں جانے کی بجائے ایک ذاتی شیشہ خرید لوں گھر بیٹھ کر دونوں باپ بیٹی پیا کریں گے آخر کو یہ ایک اسلامی رواج ہے۔

٭٭٭

 

 

نوسوامریکی چوہے اور حکمرانی

میں ٹیلی ویژن بہت کم دیکھتا ہوں اور جب دیکھتا ہوں تو چلتے پھرتے،پڑھنے لکھنے سے اکتا گئے تو ذرا آنکھیں سینکنے کے کچھ ہوش ربا نوعیت کے گانے وغیرہ دیکھ لیے جن میں اکثر خواتین کو لگتا ہے کہ مرگی پڑ گئی ہے، آخری دموں پر تھرکتی نظر آتی ہیں،نہ لباس کا ہوش اور نہ تن کا۔ بلکہ لباس سے تو اکثر اجتناب کیا جاتا ہے اور بدن کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کون ساحصہ کہاں ہے کہ وہ بے چاری مرغ بسمل کی مانند تڑپ رہی ہوتی ہیں،ایک لمحے کیلئے ساکت ہوں تو کچھ اندازہ ہو کہ کیا کیا کہاں ہے اور کتنا ہے۔ آپ یقیناً مجھے ایک غریب الاخلاق بابا سمجھ رہے ہوں گے لیکن یقین جانئے آج کل کے اکثر بابے ان مرگی شدہ خواتین کو دیکھ کر جیتے ہیں ورنہ کب کے مر گئے ہوتے البتہ میری یہ مجبوری ہے کہ اکثر مسلسل لکھتے ہوئے میری آنکھیں تھک جاتی ہیں ا س لیے میں انہیں سینکتاہوں تو وہ تازہ دم ہو جاتی ہیں میں قطعی طور پر ٹیلی ویژن پر ہونے والے سیاسی مذاکرے نہیں دیکھتا جن میں کوئی ایک میزبان چند سیاستدانوں یا تجزیہ نگاروں کو اپنے سامنے بٹھا کران کی خوب خوب بے عزتی کر  رہا ہوتا ہے اور وہ ڈھیٹ بنے مسکرا رہے ہوتے ہیں اور جب آپس میں بحث کرتے ہیں تو سب سے زیادہ بدتمیز اور بلند آواز میں چیخنے والاسیاتدان اپنی پارٹی کی حماقتوں کا دفاع کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے مجھے اکثر محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ بنیادی اخلاقیات سے یکسرعاری ہیں اور بولنے سے زیادہ ایک دوسرے کو کاٹتے ہیں مجھے ایک ٹیلی ویژن پروڈیوسر نے بتایا تھا کہ تارڑ صاحب یہ لوگ ہمیں مسلسل فون کرتے ہیں کہ کیا بات ہے بہت عرصے سے آپ نے یاد ہی نہیں کیا میرے لائق کوئی خدمت ہو تو یاد فرمائیے گا بہرحال یوں ریموٹ کا بٹن دباتے مختلف چینلز پر نشر کیے جانے والے پروگراموں کی جھلکیاں بھی نظر آ جاتی ہیں اور میں اپنی آنکھیں سینکنے کے لوازمات کو تلاش کرتا رہتا ہوں تو اس تلاش کے دوران ابھی دو دن پہلے کی بات ہے کہ ایک ٹیلی ویژن چینل کی سکرین کے نیچے ’’ابھی ابھی‘‘ اور ’’تازہ ترین‘‘ کے عنوان تلے ایک خبر کی پٹی چل رہی تھی جسے میں نے پڑھا تو یقین نہ کرسکا کہ آنکھیں تھکی ہوئی ہیں انہیں دھوکا ہوا ہے لیکن وہ خبر مسلسل چلتی جا رہی تھی اور وہ یہ تھی کہ ’’نیویارک سے آنے والی پی آئی اے کی پرواز میں سے تقریباً نوسوچوہے برآمد ہو گئے‘‘ یہ چوہے اسلام آباد ایئرپورٹ پر بھاگتے پھرتے ہیں اور ان میں سے کچھ پی آئی اے کے دفاتر میں گھس گئے ہیں انہوں نے حساس نوعیت کی تاریں بھی کتر دی ہیں ایئرپورٹ کا عملہ انہیں پکڑنے کی تگ و دو میں مصروف ہے پی آئی اے انتظامیہ کا موقف ہے کہ جب ہمارا جہاز نیویارک گیا تھا تو بالکل خالی تھا یعنی مسافر تو تھے چوہے نہیں تھے تو یہ چوہے امریکہ سے آئے ہیں پاکستانی نہیں ہیں ان چوہوں کو تلف کرنے کیلئے کراچی سے چوہا مار ٹیمیں طلب کر لی گئی ہیں۔

پیارے قارئین کیا یہ آپ کی زندگی کی سب سے انوکھی اوردلچسپ خبر نہیں ہے کہ دوچار نہیں تقریباً نوسو چوہے نیویارک کی فلائٹ میں گھس کرسیدھے اسلام آباد آ جائیں ایک اور چینل پربھی اس چوہا خبر کو فلیش کیا جا  رہا تھا البتہ مجھے حیرت ہے کہ اگلے روز میرے پاس جو اخبار آتے ہیں ان میں اس خبر کا کچھ تذکرہ نہ تھا شاید اسے قومی سلامتی اور پی آئی اے کے مفاد میں ’’مروا‘‘ دیا گیا تھا یعنی کِل کروا دیا گیا تھا لیکن جناب پورے نوسوچوہے مار ڈالنا اتنا آسان کام تو نہیں جبکہ وہ پچھلی شب ٹیلی ویژن کی خبروں میں پھدکتے پھرتے تھے ویسے اس خبر سے پی آئی اے کی نیک نامی کو گزند نہیں پہنچے گی وہ تو تب پہنچتی اگر پرواز کے دوران مسافروں کو پیش کی جانے والی خوراک میں سے وہ چوہے برآمد ہوتے۔ اگر وہ نہایت معصومیت سے جہاز کے کسی حصے میں سفر کر رہے تھے تواس میں کیا قباحت ہے اور چونکہ وہ مسلح بھی نہیں تھے اس لیے وہ جہاز کو ہائی جیک بھی نہیں کرسکتے تھے یعنی دہشت گرد چوہے نہیں تھے اگرچہ معصوم لوگوں کو ہلاک کرنے والے دہشت گرد چوہے ہی ہوتے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے ڈھیرسارے چوہے نیویارک سے پی آئی اے میں سوار کیسے ہو گئے ابھی تک یہ کنفرم نہیں ہوسکا کہ چوہے سیاستدانوں کی مانند ٹکٹ ہولڈر تھے یا بے ٹکٹے سفر کر رہے تھے اور پھر یہ چوہے صرف پی آئی اے کے جہاز میں ہی کیوں سوار ہوئے جے ایف کے ایئرپورٹ پر کھڑے دوسری ایئرلائنوں کے کسی جہاز میں کیوں نہیں جا بیٹھے۔ وہ سنگاپور ایئرلائن یا تھائی ایئرلائن میں بیٹھ سکتے تھے شاید اس لیے نہیں بیٹھے کہ ان ایئرلائنوں کے زیادہ ترمسافر چینی یا کوریائی ہوتے ہیں تو ان سے انہیں اپنی جان کا خطرہ تھا کہ کہیں وہ ان کی چوہا کڑاہی بنا کر نوش نہ کر جائیں وہ ایئر اسرائیل لفٹ یاترا، ایئر انڈیا یا قطر ایئرلائن پربھی توسوار ہوسکتے تھے تو پھر ان کی نظر انتخاب پی آئی پر ہی کیوں پڑی۔ کیاایسا تو نہیں ہے کہ امریکہ میں ان کی زندگی خطرے میں ہوں انہیں تلف کیے جانے کا خدشہ ہو وہاں رواج ہے کہ اگر آپ کو اپنے اپارٹمنٹ میں کوئی لال بیگ، جھینگر،بڑا مچھر،کوئی چھپکلی یا کوئی چوہے کا بچہ نظر آ جائے تو آپ فوراً انتظامیہ کو اطلاع کرتے ہیں اور پھر اپارٹمنٹ بلڈنگ کے داخلے پر ایک نوٹس آویزاں کر دیا جاتا ہے کہ ہمیں فلاں فلاں نمبر کے اپارٹمنٹ سے شکایت موصول ہوئی ہے کہ وہاں کوئی جھینگر یا چوہے کا بچہ وغیرہ ہے تو ایک ڈیتھ سکواڈ ان کو تلف کرنے کیلئے فلاں تاریخ کو اتنے بجے آپ کے اپارٹمنٹ کے دروازے پردستک دے گا آپ موجود رہیے گا۔

اس نوٹس کا عنوان ’’ڈیتھ وارنٹ‘‘ ہوتا ہے تو شاید یہ وہ چوہے ہوں جن کے امریکہ میں ڈیتھ وارنٹ جاری ہو چکے ہوں اور وہ اپنی جان بچانے کیلئے فرار ہوکرپاکستان آ گئے ہوں۔

لیکن ایک اور توجیہہ بھی قابل فہم ہے اور میری ناقص عقل کے مطابق جو اتنی ناقص بھی نہیں ہے ان امریکی چوہوں کو خبر ہو گئی ہے کہ ہم ایک چوہا نواز قوم ہیں اور خاص طور پر امریکی چوہا نواز قوم اور ہم کبھی کبھار امریکہ وغیرہ سے کوئی چوہا درآمد کر کے اسے اپنا حکمران بنا لیتے ہیں اور جب وہ ہم پر راج کر کے فارغ ہوتا ہے تو اس ملک میں قیام کرنا بھی پسندنہیں کرتا واپس امریکہ چلا جاتا ہے اور اگر کوئی ملکی حکمران ہو تو بھی وہ ایک چوہے کے دل والا ہوتا ہے اور آدھی رات کے وقت امریکہ سے آنے والے ایک فون کی تعظیم میں کھڑے ہوکراسے سیلوٹ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ سرہم آپ کے ساتھ ہیں چنانچہ میں ان نوسو امریکی چوہوں کوپاکستان میں خوش آمدید کہتا ہوں ہمیں ان کی حکمرانی کی شدید ضرورت ہے۔

٭٭٭

 

 

گوجرہ اور قربانی کے بکرے

گوجرہ کے سانحے کے حوالے سے میں نے جو کالم تحریر کیا تھا اس کا عنوان تھا ’’جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا ‘‘ تب تک وہاں صرف گھر جلے تھے، کلیساء جلے تھے اور ان کے اندر بائبل کے نسخے تھے وہ جلے تھے پھر خبر آئی کہ اب وہاں جسم بھی جلے ہیں اور پورے سات جلے ہیں اور ان کے اندر جو سات دل تھے وہ بھی راکھ ہوئے ہیں ان میں چھ کا تعلق ایک ہی مسیحی خاندان سے تھا اور ساتواں ایک بچہ تھا جس کی لاش ایک ریڑھی میں رکھی گئی تاکہ اسے قبرستان لے جایا جا سکے یوں ہم آسانی سے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ دراصل ہم نے پورے سات لوگ زندہ نہیں جلائے بلکہ ساڑھے چھ جلائے ہیں کیونکہ ہم اتنے شقی القلب بھی نہیں ہیں اس امر کی اطلاع جناب پوپ کو بھی دینی چاہیے کیونکہ انہوں نے روم میں بیٹھ کر سات لوگوں کے زندہ جلانے کی مذمت کی ہے جب کہ یہ صرف ساڑھے چھ تھے یوں بھی پوپ بے شک کروڑوں کیتھولک عیسائیوں کے سربراہ ہیں انہیں حضرت عیسیٰ کا نمائندہ مانا جاتا ہے لیکن پھر بھی انہیں پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہم ایک آزاد قوم ہیں جسے مرضی زندہ جلا دیں بستیاں راکھ کر دیں پوپ کون ہوتے ہیں احتجاج کرنے والے۔

گوجرہ میں نذر آتش کئے گئے گھروں، کلیساؤں اور سات لوگوں، معاف کیجئے گا صرف ساڑھے چھ لوگوں کی راکھ کریدنے کے لیے صوبائی اور قومی انتظامیہ ذرا دیر سے حرکت میں آئی اس راکھ میں اب لاکھ کریدنے سے بھی کوئی جسم نہ ملے گا کوئی دل نہ ملے گا۔ جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا۔ صدر زرداری نے وزیر اقلیتی امور کو ہدایت کی ہے کہ وہ جب تک حالات سدھر نہ جائیں گوجرہ ہی میں قیام کریں۔  یقیناً گوجرہ میں ان کا قیام نہایت تکلیف دہ ہو گا کہاں اسلام آباد کی پر تکلف رہائش گاہ آگے پیچھے ہوٹر بجاتی پولیس کی گاڑیاں اور درجنوں خادم ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوئے اور کہاں گوجرہ کی اضافی بستی کے جلے ہوئے کھنڈر، دوسری جانب پنجاب کے متحرک وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف بھی متحرک ہوئے اور ذاتی طور پر گوجرہ پہنچے وہ ایک ایماندار اور وعدے نبھانے والے سیاست دان ہیں انہوں نے نہایت جذباتی ہو کر اعلان کیا کہ میرا نام بھی شہباز نہیں اگر میں مجرموں کو کیفر کردار تک نہ پہنچاؤں وہ اپنے نام کی لاج رکھ لیا کرتے ہیں امید ہے اس مرتبہ بھی رکھ لیں گے انہوں نے نہ صرف متاثرین کو مالی امداد فراہم کی بلکہ ان کے گھر تعمیر کرنے کی بھی پیشکش کی گھروں کی تعمیر کا منصوبہ انہوں نے ایک ایسے افسر کے سپرد کیا جنہیں اقلیتوں کے جلے ہوئے گھر تعمیر کرنے کا وسیع تجربہ ہے یعنی انہوں نے ماضی میں عیسائیوں کے ایک نگر جلا کر راکھ کر دیئے گئے شانتی نگر کو بھی دوبارہ تعمیر کیا تھا میری حقیر رائے ہے کہ افسر موصوف کو صرف اسی کام کے لیے دائمی بنیادوں پر تعینات کر دیا جائے کیونکہ آئندہ بھی تو ہم نے اقلیتوں کی بستیاں جلانی ہیں جیسا کہ دستور ہے اس سانحے کے فوری طور پر ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ڈی سی او عمران سکندر جو ابھی دس بارہ دن پیشتر یہاں تعینات ہوئے تھے اور ڈی پی او انکسار خان کو معطل کر کے انہیں او ایس ڈی بنا دیا گیا اور ان کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا گیا نہ کسی صوبائی یا مرکزی وزیر اقلیتی امور نے اپنی وزارت چھوڑی اور نہ ہی ان میں کسی ایک کو جو لاؤڈ سپیکروں سے ہجوم کو قتل پر آمادہ کرتے تھے عیسائیوں کی بوٹیاں کر دینے کے مقدس نعرے لگاتے تھے گرفتار کیا گیا صرف انکسار خان اور عمران سکندر کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا میری معلومات کے مطابق ان دونوں نوجوان افسروں نے تن تنہا ان ہنگاموں پر قابو پانے کی پوری کوشش کی یہ دونوں مشتعل ہجوم اور عیسائی بستی کے مکینوں کے درمیان کھڑے ان سے صلح صفائی کی درخواست کرتے رہے انہوں نے پتھر بھی برداشت کیے اور ہجوم کی گالیاں بھی کھائیں یہاں تک کہ ڈی پی او کا ذاتی محافظ بھی شدید زخمی ہو گیا اس دوران انہوں نے تمام ارباب اختیار سے گوجرہ پہنچنے کی درخواست کی نہ صوبائی وزیر کامران مائیکل پہنچے اور نہ ہی ان کا کوئی نمائندہ مقامی سیاست دانوں اور علماء کرام کو بھی فون کئے گئے کہ خدا کے لیے فوراً پہنچیں لیکن اسی روز فیصل آباد میں ایک وزیر قدم رنجہ فرما رہے تھے اور یہ سب کشاں کشاں ان کی بارگاہ میں حاضری دینے کے لیے پہنچ رہے تھے حیرت انگیز طور پر پنجاب کانسٹیبلری کے ڈیڑھ سو جوانوں نے بھی ہجوم کو روکنے سے انکار کر دیا آخر کیوں ؟ یہ عمران سکندر تھے جنہوں نے جلے ہوئے بچے کی لاش کو دیکھ کر اسے سنبھالا اور ہجوم کو روکا اور اس لمحے جب عیسائیوں کی جانب سے چند فائر کئے گئے اپنے بچاؤ کی خاطر تو نزدیکی مسجد سے اعلان کیا جا رہا تھا کہ وہ مسلمانوں کو مار رہے ہیں آپ مدد کو پہنچو عیسائی برادری بجا طور پر ڈی سی او اور ڈی پی او سے توقع رکھتی تھی کہ وہ ان کے جان اور مال کی حفاظت کے لیے ایکشن لیں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایکشن کیسے لیتے ان کے ہاتھ پلے کچھ ہوتا تو ایکشن لیتے ویسے اگر وہ ایکشن لیتے اور مشتعل ہجوم کے کچھ لوگ مارے جاتے تو آپ دیکھتے کہ ملک بھر میں کیا ہنگامہ برپا ہوتا لیکن گوجرہ کے اس سیاہ بادل کے کناروں پر روشنی کی ایک لکیر بھی ہے پہلی بار ایسے سانحے کو سنجیدگی سے لیا گیا ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعظم پاکستان وہاں پہنچے ہیں اور مثبت اقدام کئے ہیں ہمیں ان کوششوں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے اور عمران سکندر اور انکسار خان کو قربانی کا بکرا نہیں بنانا چاہیے کہ انہوں نے ان ہنگاموں کو روکنے کی مقدور بھر کوشش کی۔

٭٭٭

 

 

ایشیائی بھینس کانفرنس

مجھے اپنے میڈیاسے شدید شکایت ہے کہ یہ ان خبروں سے غفلت برتتا ہے جو قومی اور بین الاقوامی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ اگر مشرف کے ٹرائل کی بات ہوتی ہے تو اس پر خصوصی پروگرام نشر کیے جاتے ہیں، کالم نگار بے پر کی تو نہیں پروں والی اڑانے لگتے ہیں، چوہدری شجاعت کچھ بھی ارشاد فرمائیں چاہے ایک ٹرک اور دو جیپوں کی درون پردہ خواہش کا اظہار کریں،میرا جو کہتے ہیں کہ اداکاری بھی کرتی ہے جو بھی ہانک دے، وینا ملک کچھ بھی اوٹ پٹانگ کہہ دے تو ہمارا میڈیا فوراً اس کانوٹس لیتا ہے۔ شہ سرخیاں لگ جاتی ہیں لیکن اگر لاہور میں چھٹی ایشیائی بھینس کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہو تو اس خبرسے غفلت برتی جاتی ہے حالانکہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ مشرف، چوہدری شجاعت، میرا یا وینا ملک کی نسبت پاکستانی بھینسوں نے اس ملک کی ترقی میں زیادہ کردار ادا کیا ہے۔ بیشتر سیاستدان تو نہ صرف اپنے حصے کا بلکہ دوسروں کے حصے کا دودھ بھی پی جاتے ہیں اور ڈکار تک نہیں لیتے، اگر لیتے ہیں تو غیر ممالک میں جا کر لیتے ہیں تاکہ ان کے ڈکار کی آواز ہم تک نہ پہنچے اور پھر بھی پہنچ جاتی ہے اور ان کے خلاف کرپشن کے کیس دائر کر دیئے جاتے ہیں جو بعد میں ملکی مفاہمت اورسالمیت کے نام پرواپس لے لیے جاتے ہیں، جبکہ پاکستانی بھینس ہمیشہ دودھ دیتی ہے اور ملکی معیشت اور صحت عامہ میں معاون ثابت ہوتی ہے بھینس کبھی سیاست میں نہیں آتی صرف تب آتی ہے جب کسی سیاستدان پران اس کے مخالفین بھینس کی چوری کا مقدمہ درج کروا دیتے ہیں۔  اب ذرا بھینس کانفرنس کے بارے میں کچھ تفصیلات ملاحظہ کر لیجئے۔ ایشیائی بھینس ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر طلعت نصیر پاشا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ۔۔ ۔  اور ہاں ہم یہ سمجھتے تھے کہ صرف ہمارا ہی صدر ہوتا ہے جبکہ کیسی خوش آئند خبر ہے کہ بھینسوں کا بھی صدر ہوتا ہے تو ڈاکٹر پاشا نے کہا ہے کہ لاہور میں منعقد ہونے والی چھٹی ایشیائی بھینس کانفرنس میں شرکت کرنے کیلئے تقریباً ساڑھے سات سوبھینس ماہرین دنیا کے مختلف ملکوں سے تشریف لا رہے ہیں جن میں برازیل، چین، بلغاریہ، کینیڈا، انڈیا، انڈونیشیا ا یران، اٹلی، جاپان اور امریکہ وغیرہ شامل ہیں۔  ابھی تک ساڑھے تین سوکے قریب مقالات جو بھینسوں کی ترویج اور ترقی کے بارے میں ہیں لاہور میں موصول ہو چکے ہیں ظاہر ہے یہ ایکسپرٹ جن ممالک سے تشریف لا رہے ہیں وہاں بھینسیں بھی ہوں گی اور وافر تعداد میں ہوں گی ورنہ وہ ایکسپرٹ کیسے ہو جاتے۔ مجھے اس خبرسے ایک خوشگوار حیرت اس لیے بھی ہوئی ہے کہ اچھا یہ بھینسیں انڈیا اورپاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی ہوتی ہیں اور ہم خواہ مخواہ احساس کمتری  کا شکار رہے اب یاد آیا کہ غالباً چین میں اور ویت نام وغیرہ میں بھی بھینسیں پائی جاتی ہیں اور وہاں انہیں ہماری طرح لاڈ پیار سے بگاڑا نہیں جاتا کہ سارا دن جوہڑوں میں ڈبکیاں لگاتی رہیں،کیچڑ میں لوٹتی رہیں اور شام کو انہیں نہلا دھلا کران کا دودھ دوھ لیا گیا بلکہ وہاں تو ان بے چاریوں کو ہل کے آگے جوت کران سے مشقت لی جاتی ہے بلکہ ریڑھوں میں بھی جوتا جاتا ہے یعنی وہاں بیل گاڑیاں نہیں بھینس گاڑیاں ہوتی ہیں البتہ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کینیڈا میں بھینسیں کہاں سے آ گئیں۔  وہاں بے شمار سکھ حضرات تو آئے لیکن اپنی بھینسیں تو ساتھ نہیں لائے میں نے کینیڈا میں نہایت دور دراز کے خطوں تک سفرکیاہے یہاں تک کہ وادی یوکان بھی میری دیکھی بھالی ہے لیکن حرام ہے ان سفروں کے دوران مجھے وہاں کوئی ایک بھینس بھی نظر آئی ہو اگر نظر آتی تو میں یقیناً اسے دیکھ کر اپنے پاکستان کیلئے آبدیدہ ہو جاتا اگرچہ اس کے گلے لگنے سے پرہیز کرتا ہاں کینیڈا میں لبسان یعنی جنگلی بھینسے وافر تعداد میں پائے جاتے ہیں جن کے گوشت سے تیار کردہ برگر میں نے بھی کھائے ہیں۔  مجھے امید ہے کہ کینیڈا سے آنے والے ایکسپرٹ اپنے ہمراہ سیمپل کے طور پر کوئی جنگلی بھینسانہیں لائیں گے ورنہ مقامی بھینسیں پریشان ہو جائیں گی مجھے یہاں جپسی یاد آ رہی ہے وہ سوئٹزرلینڈ سے مجھے ملنے کیلئے پاکستان آئی تو میں اسے مقامی ثقافت کی تابندگی دکھانے کیلئے اندرون شہر لے گیا رنگ محل چوک کے قریب یکدم بھینسوں کا ایک ریوڑ سامنے آ گیا تو وہ خاتون ڈر کے مارے مجھ سے تقریباً لپٹ گئیں کہ مستنصرجنگلی بھینسیں۔  یہ تم مجھے کہاں لے آئے ہو۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ بی بی یہ جنگلی نہیں ہیں تمہاری سوئس گائیوں سے بھی زیادہ بھولی ہیں لیکن اس نے یقین کرنے سے انکار کر  دیا کہ اگر بھینس ہو گی تو جنگلی ہو گی ویسے بعد میں بہت پچھتایا کہ خواہ مخواہ ان کے بے ضرر ہونے کا بتا دیا ورنہ کبھی کبھار اسے بھینسیں دکھا کر خاطر خواہ نتائج حاصل کیے جا سکتے تھے ویسے پاکستان میں بھینس کو کبھی بھی وہ مقام نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے۔ پنجاب میں اب بھی نہایت حسرت سے کہا جاتا ہے کہ فلاں کے ڈیرے پر تو تین بھینسیں بندھی ہوئی ہیں اسے کیا غم ہوسکتا ہے جس کے گھر میں دودھ اور مکھن ہواسے دنیا میں اور کیا چاہیے ذرا غور کیجئے کہ اگر بھینس نہ ہوتی تو رومان نہ ہوتا، سوہنی مہینوال نہ ہوتے ہیر اور رانجھا نہ ہوتے سوہنی کیلئے تو ایک غیرملکی شہزادہ بھینسیں چرانے پر نوکر ہو گیا تھا اوراسی لیے مہینوال یعنی بھینسوں والا کہلایا۔ جنگل بیلے میں بھینسیں نہ ہوتیں تو رانجھا کسے اپنی بانسری کی دھنیں سنایا کرتا تو بھینس کی قدر کیجئے کہ میرے نزدیک یہ ہمارا قومی جانور ہے کالاسیاہ کالا ہے تو کیا ہوا دلدار بھی تو کالے سیاہ ہوتے ہیں میں سمجھتاہوں کہ وقت آ گیا ہے کہ بھینس کواس کا جائز مقام دیا جائے اور اس سلسلے میں لاہور میں ہونے والی بھینس کانفرنس ایک اہم پیشرفت ہے اگر ادیبوں، دانشوروں اور سیاستدانوں کی کانفرنسیں ہوسکتی ہیں تو بھینسوں کی کانفرنسیں باقاعدگی سے کیوں نہیں ہوسکتیں جبکہ بھینسیں ان سب سے زیادہ مفید اور بھولی بھالی ہوتی ہیں آپ کا دودھ پی نہیں جاتیں آپ کو دودھ دیتی ہیں۔

٭٭٭

 

 

آل پاکستان گدھا کانفرنس

ایک زمانے میں میں بہت بدنام تھا کہ یہ شخص انسانوں کے بارے میں کم کالم لکھتا ہے اور جانوروں کے بارے میں زیادہ لکھتا ہے۔ اسے انسانوں کی نسبت الو،گدھے، دریائی گھوڑے، مگر مچھ اور اودبلاؤ وغیرہ زیادہ پیارے ہیں۔  اس الزام سے بچنے کے لیے میں نے مسلسل انسانوں کے بارے میں کالم لکھے لیکن یہ بے نوازی نہ میرے کام آئی اور نہ ہی انسانوں کے کام آئی۔ انسان جیسے تھے ویسے ہی رہے بلکہ پہلے سے بھی بدتر ہو گئے لوگوں کی لاشیں کھمبوں پر لٹکانے لگے۔ انہیں ذبح کرنے لگے یا پھر اقلیتوں کی بستیوں پر حملے کر کے انہیں زندہ جلانے لگے تو اس صورت میں کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ میں پھر سے انسانوں کو ترک کر کے جانوروں کے قریب آ جاؤں کہ وہ اس نوعیت کی ’’تہذیب یافتہ ‘‘ حرکات نہیں کرتے۔

میرا پچھلا کالم لاہور میں منعقد ہونے والی بھینس کانفرنس کے بارے میں تھا اور میں نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ اس کے نتیجے میں بھینسوں کو ان کا وہ مقام مل جائے گا جس کی وہ حقدار ہیں اور انہیں پاکستان کا قومی جانور ڈکلیئر کر دیا جائے گا اب سوچتا ہوں تو یہ صرف بھینس ہی نہیں جس کو ہم نے اس کا جائز مقام نہیں دیا بلکہ بے شمار دوسرے جانور بھی ہیں جن میں گدھے سرفہرست ہیں۔  میں گدھوں کی خوبیاں نہیں گنواؤں گا،اگر آپ خود بال بچوں والے ہیں تو آپ کو یقینا یاد ہو گا کہ آپ اپنے بیٹے سے لاڈ کرتے ہوئے اسے مخاطب کرتے ہوئے ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ’’اوئے گدھے ‘‘ بلکہ جب بہت ہی پیار آتا تھا تو اسے گدھے کا بچہ بھی کہہ دیتے تھے یہ سوچنے کی بات ہے کہ آپ اپنے چھوٹے بچوں کو لاڈ پیار سے یہ کبھی نہیں کہتے کہ اوئے مگر مچھ یا اوئے گھوڑے کے بچے صرف گدھے کے بچے کہتے ہیں تو اس سے گدھے کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔ ہمارے ایک نزدیکی تارڑ عزیز ہیں جو ایک بلند عہدے پر فائز ہوئے اور نیک نام ہوئے۔ موصوف کے مزاج میں مزاح کی جو چاشنی ہے اس سے ایک دنیا آگاہ ہے۔ مثلاً ایک بار باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ میں پچھلے ہفتے اسلام آباد گیا تو جی ٹی روڈ کے راستے دس گھنٹے لگ گئے میں نے کہا کہ ایسا ہی ہوا ہو گا۔ سڑک بہت خراب ہے، ٹریفک بھی بدنظمی کا شکار ہے تو کہنے لگے نہیں نہیں وجہ یہ نہیں تھی لیکن میرے ہمراہ جو میرے دوست تھے وہ درگاہوں وغیرہ پر سجدے کرنے کے شوقین ہیں۔  پیروں فقیروں کی قبروں پر حاضری دیتے ہیں، فاتحہ پڑھ کر قبر کو بوسہ دینا نہیں بھولتے اس پر میں نے تعجب کا اظہار کیا کہ آخر لاہور سے اسلام آباد کے راستے میں اتنی اہم قبریں تو نہیں ہیں کہ دس گھنٹے لگ جائیں اس پر انہوں نے اپنی نورانی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک شرارتی مسکراہٹ سے کہا۔ دراصل راستے میں جہاں کہیں کوئی سپیڈ بریکر آتا تھا تو میرے دوست فوراً کار رکوا لیتے تھے۔ سپیڈ بریکر کے قریب ہو کر فاتحہ پڑھتے تھے اور اس کے ابھار پر عقیدت سے ہاتھ پھیرتے تھے یوں دس گھنٹے لگ گئے اب تم جانتے ہو کہ لاہور سے اسلام آباد تک جی ٹی روڈ پر کتنے سپیڈ بریکر ہیں یہی عزیز کہا کرتے تھے کہ گدھے کے بچے اور میرے بچے بچپن میں بہت خوبصورت ہوتے ہیں اور پھر بڑے ہو جاتے ہیں۔

ایک بار لاہور کے ڈیفنس میں میں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک گدھا گاڑی والا سنگ مرمر کی ٹائلیں گاڑی پر لاد رہا ہے اور ان کا وزن اتنا ہے کہ پورے کا پورا گدھا ہوا میں معلق ہو چکا ہے اور بے بسی سے ٹانگیں چلا رہا ہے۔ باقاعدہ گدھا بھی نہیں تھا گدھے کا بچہ تھا تو مجھے بہت ترس آیا اور میں نے اس کے مالک سے کہا کہ بھائی یہ بے زبان جانور ہے ریڑھی پر اتنا وزن تو نہ لوڈ کرو کہ یہ بے چارہ ہوا میں معلق ہو کر ٹانگیں چلانے لگے تو وہ ہنس کر بولا صاحب آپ نہیں جانتے کہ یہ اس لمحے زندگی سے بہت لطف اندوز پو رہا ہے بلکہ ہوا میں ریلیکس کر رہا ہے اور یوں ٹانگیں چلانے سے اس کی تھکن دور پو رہی ہے۔ ٹائلیں لوڈ کرنے کے بعد گاڑی والے نے ہوا میں معلق گدھے کو کان سے پکڑ کر نیچے کیا اس کے پاؤں زمین تک نہیں لایا اور اس سے پیشتر کہ وہ گاڑی کے بوجھ سے پھر بلند ہو جاتا وہ اچک کر گاڑی کے اگلے حصے پر بیٹھ گیا اور یوں اس کے وزن سے گاڑی بیلنس میں آ گئی اور گدھا نہایت مزے سے کان ہلاتا سڑک پر رواں ہو گیا۔

گدھوں کے بارے میں طرح طرح کی ناروا افواہیں پھیلائی جاتی ہیں کہ وہ احمق ہوتے ہیں، بیوقوف ہوتے ہیں اور گدھے ہوتے ہیں مثلاً وہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کا گدھا اگر مکہ گیا تو پھر بھی گدھا ہی رہا تو یہ کیسی بے ہودہ بات ہے ایک تو ابن مریم کا گدھا ہونا کیا کم اعزاز کی بات ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اگر مکہ جاتا ہے تو گدھا ہی رہتا ہے تو ذرا فرمائیے وہ اور کیا ہو جاتا ہاتھی یا لومڑ ہو جاتا اس نے گدھا ہی رہنا تھا ہمارے جیسے لاکھوں انسان جب حج و عمرہ کرنے جاتے ہیں، مکہ معظمہ جاتے ہیں تو وہ انسان ہی رہتے ہیں ناں کچھ اور تو نہیں ہو جاتے تو پھر گدھے کو اس سلسلے میں مطعون کرنا چہ معنی خیر عیسیٰ ؑ کے بعد تاریخ کا سب سے نامور گدھا ملا نصیرالدین کا تھا جو انسانوں سے زیادہ دانش رکھتا تھا چنانچہ میں تہہ دل سے یہ سمجھتا ہوں کہ گدھوں کو معاشرے میں ایک معزز مقام ملنا چاہیے اور میں ان گدھوں کی بات نہیں کی جو زندگی کے بیشتر شعبوں میں معزز مقام حاصل کر چکے ہیں اور فوری طور پر اگر بین الاقوامی طور پر نہ سہی مقامی طور پر ایک آل پاکستان گدھا کانفرنس کا اہتمام کرنا چاہیے اس احتیاط کے ساتھ کہ ان دنوں ادیبوں کی بین الاقوامی کانفرنس نہ پو رہی ہو ورنہ بعد میں کون تلاش کرتا رہے گا کہ کون کون ہے۔

کہتے ہیں کہ گدھے کو کھونٹے کے قریب لے جا کر اس کی رسی کھونٹے سے باندھتے نہیں کھلی چھوڑ دیتے ہیں اور گدھا احمق ہوتا ہے کہ ساری رات یہ سمجھتا رہتا ہے کہ میں بندھا ہوا ہوں اور وہ اسی مقام پر کھڑا رہتا ہے ہم اس سلسلے میں گدھے کو ہی کیوں مورد الزام ٹھہراتے ہیں جب کہ امریکہ نے پاکستان کو بھی اپنے کھونٹے سے باندھا نہیں چکمہ دیا ہوا ہے کہ تم بندھے ہوئے ہو اور ہم ہیں کہ اسی مقام پر ہمیشہ سے کھڑے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ بندھے ہوئے ہیں اپنی جگہ سے ہلتے نہیں فرمانبرداری سے کان البتہ ہلائے جاتے ہیں تو پھر ہم میں اور گدھوں میں کچھ فرق تو نہ ہوا، گدھوں کو مورد الزام مت ٹھہرائیے۔

Source: http://www.dailyjinnah.com/?p=23754

٭٭٭

ماخذ:

http://www.urduakhbar.net/category/news-articles/mustansir-hussain-tarar

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید