FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

مزیدار کہانیاں

               مختلف  مصنفین

حصہ اول 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

صبر

               حسن منظر

شمس الرحمن صاحب اچھے ٹیچر تھے ا ور جتنے اچھے ٹیچر تھے اس سے بڑھ کر اچھے انسان تھے۔ وہ بس دو مضمون پڑھاتے تھے ، انگریزی اور تاریخ، اور وہ بھی اسکول کی اونچی جماعتوں کو یعنی آٹھویں، نویں اور دسویں کو، لیکن اگر کسی نچلی جماعت کی کلاس لینے کی ضرورت پڑ جائے یعنی اس پیریڈ کے ٹیچر چھٹی پر ہوں تو وہاں بھی اسی توجہ اور مشقت سے پڑھاتے تھے جس کے لیے وہ اونچی جماعتوں میں پہچانے جاتے تھے۔

شمس الرحمن صاحب کا پڑھانے کا طریقہ بڑا دلچسپ تھا۔ وہ صرف کتاب کے اس باب تک خود کو محدود نہیں رکھتے تھے جو پڑھا رہے ہیں، اگر انگریزی پڑھا رہے ہیں تو شاعر کی زندگی کے دلچسپ واقعات سناتے۔ دوسرے شاعروں کی نظموں کے ایسے ٹکڑے پڑھتے ، جن سے اچھی شاعری پڑھنے کی رغبت بڑھے ، کبھی کہتے ، دیکھیے اسی بات کو ایک اردو شاعر نے کیسے بیان کیا ہے۔

تاریخ پڑھانے میں جس بادشاہ یا انگریز گورنر جنرل، وائسرائے کا باب ہوتا اس سے متعلق کوئی دلچسپ واقعہ سناتے ، جس میں کسی قوم کے آزادی کے لیے ہاتھ پیر مارنے کا ذکر ہوتا۔ کس نے کیسے پیہم ناکامیوں کے بعد فتح پائی۔ ان کی اس بیچ بیچ میں آ جانے والی گفتگو سے انسان کی فطرت کا پتا چلتا تھا۔ کون کینہ پرور تھا اور سالوں بعد بھی بدلہ لیے بغیر نہیں رہتا تھا اور آخر اپنی اس فطرت کی بنا پر برے انجام کو پہنچا۔ کون دشمن کی دغا بازی کو بار بار نظر انداز کر جاتا تھا اور اسے انسانی تاریخ میں کیا رتبہ ملا۔

شمس الرحمن صاحب کبھی طلبہ سے تم یا تو کہہ کر بات نہیں کرتے تھے ، ہمیشہ آپ کہتے ، ان کے بارے میں مشہور تھا کہ امتحان کے پرچے میں اگر سوال یوں ہو کہ "فلاں کے بارے میں کیا جانتے ہو، لکھو”۔ تو سمجھ لیں کہ وہ پرچہ انہوں نے نہیں بنایا ہے۔ اگر سوال یوں ہو "آپ اس کے بارے میں کیا جانتے ہیں، لکھیے "۔ تو وہ پرچہ انہوں نے بنایا ہے۔

شمس الرحمن صاحب کی چند باتیں جو طلبہ میں مشہور تھیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ اگر کوئی عقل مندی سیکھنا چاہتا ہے تو وہ بے وقوفوں سے سیکھے۔ ظاہر ہے اس پر طلبہ چونک پڑتے ہوں گی کہ کیسے۔ وہ مسکرا کر کہتے : "بس وہ مت کہیے اور کیجئے جو بے وقوف کہتے اور کرتے ہیں۔ آپ خود بخود عقل مند بن جائیں گے "۔

یہ بات اکثر طلبہ کی سمجھ میں اس وقت نہیں آتی تھی اور وہ اسے ایک لطیفہ سمجھتے تھے ، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ زندگی کے تجربات انہیں اس مقولے کی سچائی سمجھا دیتے ا ور کہتے واقعی ماسٹر صاحب کی بات میں وزن تھا۔

شمس الرحمن صاحب کی دوسری بات جسے طلبہ اسکول چھوڑنے پر بھی یاد رکھتے تھے ، یہ تھی کہ انسان خود کو عقل کل سمجھتا ہے اور اس پر نازاں رہتا ہے کہ اللہ کی مخلوق میں اس جیسا کوئی اور نہیں، نہ اسے کسی دوسرے جان دار سے کچھ اور سیکھنے کی ضرورت ہے ، چناں ہ چہ وہ زندگی میں بار بار دھوکا کھاتا اور گھاٹا اٹھاتا ہے۔ حالاں اکثر اسے درستی کی راہ جانور دکھاتے ہیں۔

کلاس کا کوئی نہ کوئی لڑکا اس پر بول اٹھتا: "مثلاً”۔

شمس الرحمن صاحب مسکرا کر کہتے حضرت انسانج میں اتنی تو عقل تھی کہ جذبات سے مغلوب ہو کر قتل کر بیٹھے ، لیکن مقتول کا کیا کرے اس کی سمجھ نہیں تھی۔

حضرت آدم کے بیٹوں ہابیل اور قابیل کا قصہ سناتے کہ قابیل کے دل میں حسد پیدا ہو گیا تھا کہ ہابیل  کو اس سے زیادہ خوب صورت بیوی مل رہی تھی اور ہابیل کی قربانی اللہ کے یہاں قبول ہوئی تھی، اس کی نہیں۔ ہر لحاظ سے ہابیل اس سے بہتر انسان تھا۔ حسد کی آگ اس کے دل و دماغ میں اتنی شدت سے بھڑکی کہ اس نے اپنے بھائی کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اپنے بھائی کی لاش کا کیا کرے جو اس کے سامنے پڑی اسے چڑا رہی تھی۔ اتنا سنا کر وہ لمحے بھر کو مسکراہٹ کے ساتھ خاموش ہو جاتے جیسے قابیل کی بے وقوفی پر ہنس رہے ہوں۔

لڑکے منتظر رہتے اب آگے وہ کیا سنائیں گے۔ وہ کہتے اس وقت تک حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے موت کسی کی ہوئی نہیں تھی اور انہوں نے مرنے والے کے لیے اللہ کا حکم اس کے بندوں کو نہیں سنایا تھا۔ قابیل ابھی اپنی حرکت پر شرمندہ ہو رہا تھا اور مرنے والے کے لیے کچھ نہ کرنے پر پریشان کہ یہ لاش کب تک یوں ہی پڑی رہے گی کہ اس نے ایک کوے کو دیکھا جو اپنی چونچ سے ذرہ ذرہ کر کے زمین کھود رہا تھا اور نکلنے والی مٹی کو گڑھے کے ادھر ادھر ڈھیر کرتا جاتا۔ جب گڑھا بن گیا تو اس نے اپنے ساتھی مردہ کوے کی لاش اس میں ڈال کر مٹی سے چھپا دی۔

اس وقت قابیل کو احساس ہوا کہ وہ تو شعور میں اس کوے سے بھی گیا گزارا ہے اور سمجھتا ہے خود کو عقل کل۔ پھر اس نے اپنے بھائی ہابیل کی لاش کے ساتھ وہی کیا جو کوے نے اپنے ساتھی کے لیے کیا تھا۔

ایک موقع پر انھوں نے تیمور کا واقعہ سنایا تھا، جب وہ امیر تیمور نہیں بنا تھا۔ ہمت اور عزم کا دھنی تھا۔ لیکن تجربہ اس کے پاس نہیں تھا۔ سپاہی جمع کرتا تھا جو شروع میں اس کے ساتھ کے کھیلے ہوئے نوجوان ہوتے تھے اور اپنی سلطنت قائم کرنے کے لیے دشمن فون سے جنگ کرتا تھا۔ شروع میں اسے ان جنگوں میں تھوڑی بہت کامیابی ہوئی، لیکن اس کے بعد کے دنوں میں ہر بار اسے شکست ہوئی اور اس کے ساتھی تتر بتر ہو جاتے تھے۔ وہ خود بھاگ کر کہیں پناہ لیتا، دوبارہ فوج جمع کرتا اور ہار جاتا۔

آخری شکست کے بعد اس کی ہمت جواب دے گئی۔ پہاڑی کے ایک غار میں بیٹھا وہ سوچ رہا تھا۔ میری قسمت میں ہی نہیں ہے کہ یہاں کا حکمراں بنوں اور کوئی ڈھنگ کا کام کروں کہ رعایا کی حالت سنبھلے۔ ناگہاں غار کے ایک کونے میں اسے ایک چینوٹی نظر آئی جو اپنے وزن سے بڑا رزق کا دانا لے کر اوپر چڑھ رہی تھی۔ کچھ اوپر پہنچنے پر وہ پھسل پڑی یا اس کی قوت جواب دے گئی کہ وہ نیچے گری۔ تیمور نے اسے فوراً ہی وہ دانا سنبھال کر دوبارہ اوپر چڑھتے دیکھا۔ اس دفعہ پہلے سے کچھ زیادہ فاصلہ اس نے طے کیا، لیکن پھر وہ نیچے آن گری۔ تیسری بار جب وہ اسی کام میں جٹی تو تیمور کو اس میں دلچسپی پیدا ہو گئی کہ دیکھوں کبھی کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ کئی اوپر چڑھنے اور نیچے گرنے کا عمل دیر تک جاری رہا اور جب تیمور یہ طے کر چکا تھا کہ وہ کامیاب نہیں ہو گی، دانا اس کی طاقت سے بھاری ہے کہ اچانک چیونٹی اوپر پہنچ کر اپنے سوراخ میں غائب ہو گئی۔ تیمور کو اب یہ خیال آیا کہ جب اللہ کی اتنی چھوٹی مخلوق نے اپنے کام کی دھن میں ہمت نہیں ہاری تو کیا مجھے یہ زیب دیتا ہے کہ کوشش تر کر دوں۔

چناں چہ وہ وقت آیا کہ تیمور کامیاب ہوا اور اس کی جواں مردی کو ایک جہان مانتا ہے۔

شمس الرحمن صاحب سبق کو دلچسپ بنانے کے لیے کتنے ہی واقعات، حکایتیں اور اشعار سناتے تھے۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ ان کی کلاس میں کوئی لڑکا اونگھ رہا ہو۔

ایک موقع پر وہ کئی دن اسکول نہیں آئے اور سننے میں آیا کہ ان کا لڑکا سخت بیمار ہے اور وہ اسپتال میں اس کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا اور وہ اس سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ شاید بیٹے کی ماں سے بڑھ کر۔ پھر ایک دن پتا چلا کہ بیٹا بیماری سے بچ نہیں سکا۔ اس کی نماز جنازہ اور تدفین میں اکثر اساتذہ اور بڑی عمر کے طلبہ شریک ہوئے۔ سب نے دیکھا کہ وہ جنازے کے ساتھ ساتھ چل تو رہے ہیں، لیکن جیسے دنیا سے بے خبر ہوں، چہرہ ایسا تھا جیسے اس میں سے خون کھینچ لیا گیا ہو۔ پورے وقت ان کے ہونٹ ایک دوسرے سے جڑے رہے۔ آنکھوں میں آنسو بھی نہ تھے۔

لڑکوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب شمس الرحمن صاحب پڑھانا چھوڑ دیں گے۔ گھر اپنات ھا اور شاید آٹھ دس ایکٹر زمین سے تھوڑی بہت یافت بھی تھی۔ اب گھر بیٹھ کر عبادت میں وقت گزاریں گے۔ یا علمی کتابوں کا مطالعہ کریں گے جس کے وہ شیدائی تھے۔

لڑکوں کو فکر تھی کہ شمس الرحمن کی جگہ کون لے گا۔ کوئی سزا دینے کا شیدائی نہ آ جائے یا خاموشی سے کلاس میں وقت گزارنے والا۔ جسے نہ پڑھانے میں دلچسپی ہو، پڑھنے والوں میں۔ شمس الرحمن صاحب کی بات ہی اور تھی کہ ایک لڑکے پر نظر پڑی جو بے حد اداس، سست بلکہ ادھر مرا نظر آ رہا تھا۔ انہوں نے اس سے اس حالت کی وجہ پوچھی۔ جواب دینے کے بجائے اس کی آنکھوں سے آنسو امڈ آئے تو وہ اسے اشارہ کر کے باہر لے گئے اور وجہ پوچھی۔ لڑکا کوشش کرنے کے باوجود کچھ کہہ نہیں سکا اور ہونٹ بس ہل کر رہ گئے۔

انہوں نے پوچھا: "صبح ناشتا کیا تھا”۔

اس نے نفی میں سر ہلایا۔

ان دنوں اسکول صبح نو بجے سے تیسرے پہر تین بجے تک کا تھا اور سب کھانا کھا کر گھر سے نکلتے تھے۔

لڑکے کے آنسو نکل پڑے۔

انہوں نے پوچھا: "آپ کی ماں سوتیلی ہیں "۔

لڑکے نے ہاں کا اشارہ سر سے کیا۔

شمس الرحمن صاحب نے کلاس کو چھٹی دی اور خود اس کے ساتھ اپنے گھر روانہ ہو گئے جہاں اتنی دیر میں کہ ان کی بیوی روٹی پکاتیں وہ لڑکے سے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔

ان کے گھر کھانا کھانے کا واقعہ اور وہ بھی اس طرح کہ خاس اس کے لیے ان کی بیوی نے بے وقت توے پر روٹی ڈالی تھی راز نہیں رہا اور طلبہ کے دلوں میں ان کی عزت بڑھ گئی۔

اپنے بیٹے کے چل بسنے کے تیسرے دن جب طالب علموں کے دلوں کو دھکڑ پکڑ تھی کہ دیکھیں شمس الرحمن صاحب آتے ہیں یا ان کی جگہ کوئی اور۔ شمس الرحمن صاحب صحیح وقت پر آٹھویں جماعت کے پہلے پیریڈ کے لیے کلاس میں داخل ہوئے۔ مسکراہٹ ان کے چہرے پر تھی کہ مارے باندھے نہیں آئے پڑھانے کا شوق یہاں لے کر آیا ہے۔

لڑکے چپ رہے۔ کسی نے کتاب نہیں کھولی۔ انہوں نے پوچھا: "یا بات ہے سب چپ کیوں ہیں۔ پڑھنے کا ارادہ نہیں ہے "۔

لڑکوں نے کہا: "ہے "۔

ایک لڑکے نے کہا: "ہمارا خیال تھا کہ آپ کو اتنا بڑا صدمہ پہنچا ہے۔۔۔۔۔۔۔ "۔

"اب پڑھا نہیں سکوں گا۔ ہوں۔ "

ایک لڑکے نے کہا: "آپ نے اتنی آسانی سے غم پر کیسے قابو پا لیا۔ میری والدہ کا انتقال ہوا تھا تو میں مہینے بھر تک پلنگ سے نہیں اٹھ سکتا تھا۔ سوچتا تھا کہ اب میں کیسے جیوں گا”۔

شمس الرحمن صاحب نے عینک اتار کر میز پر رکھ دی اور مسکرا کر بولے : "صبر”

کئی طلبہ نے ایک ساتھ کہا: "وہ تو کتابوں میں ہوتا ہے ، لیکن ضرورت پڑنے پر ہاتھ تو نہیں آتا ہے ، جو آتا ہے کہتا ہے صبر سے کام لو، لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ صبر ہوتا کیا ہے "۔

شمس الرحمن صاحب کرسی پر بیٹھ گئے اور گہری سوچ میں چلے گئے۔ لڑکے سوچ رہے تھے کہ ہم نے غلط کیا جو اپنے سوالوں سے ان کا دل دکھا دیا۔ بے چارے بڑی مشکل سے تو ہمت کر کے اسکول آئے ہیں اور ہم ان سے صبر کے معنی پوچھ بیٹھے۔

شمس الرحمن صاحب گویا ہوئے پہلے میں بھی صبر کے معنی نہیں جانتا تھا اور زندگی کے ہر بڑے صدمے پر برداشت کی ہمت ہار بیٹھتا تھا۔ پھر کسی بے زبان نے اپنے عمل سے مجھے اس کے معنی سمجھا دیے۔

لڑکوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے : "کس بے زبان نے "۔

"اللہ کی ایک حقیر مخلوق نے جس ہم ارذل سمجھتے ہیں "۔

"کون سی”۔ بہت سوں نے پوچھا۔

"ایک کتیا”۔

گویا آج پھر وہ کوے اور چیونٹی جیسی کوئی حکایت سنانے جا رہے تھے۔

انہوں نے کہا: "تقریباً تیس سال پہلے میں اپنے کالج گرمیوں کی چھٹی میں کسی سے کام گیا تھا۔ صبح کا وقت تھا۔ کالج کی سڑکیں جو پڑھائی کے دنوں میں طلبہ، اساتذہ اور دوسرے کام کرنے والوں کی آمد و رفت سے آباد دکھائی دیتی تھی اس وقت سونی تو تھیں، لیکن ہرے بھرے گھاس کے قطعوں، پھولوں اور جھاڑیوں کی باڑوں کے درمیان بڑی خوب صورت لگ رہی تھیں۔ اچانک میری نظر ایک چھوٹے سے لان پر پڑی۔ وہاں ایک کتیا اپنے سامنے کے پیروں کے درمیان کسی چیز کو جیسے چھپا رہی تھی۔ کتیا کے چاروں طرف کوے بیٹھے تھے ، ہوں گے آٹھ دس، میں کچھ دور اور آگے بڑھ کر رک گیا۔ زیادہ نزدیک اگر جاتا تو شاید کوے اڑ جاتے۔

ایک کوا پھدک کو اس کے پاس تک گیا اور اس پر جھپٹی۔ اب میں نے دیکھا جس چیز کی وہ حفاظت کر رہی تھی وہ اس کا بچہ تھا، ایک پلا۔ جو ہل نہیں رہا تھا۔ اس بات کا کوؤں نے پتا چلا لیا تھا کہ بچہ مر چکا ہے ، لیکن اس بات کو کتیا نے نہیں مانا تھا۔ وہ بڑی بے چین نظر آ رہی تھی۔ کبھی ایک طرف سے کوا بڑھ کر نزدیک آ جاتا تھا اور وہ اس پر جھپٹی تھی۔ اس لمحے موقع پاتے ہی دوسری جانب سے ایک کوا کو آگے بڑھ جاتا اور وہ اسے بھگاتی تھی۔ بیچ بیچ میں وہ بچے کو ایک پنجے سے ہلاتی کہ اٹھ جائے اور چاٹ بھی لیتی۔ اس کا بس چلتا تو وہ ایک ایک کوے کو مار ڈالتی۔

میں کھڑا دیکھتا رہا۔ نہ معلوم کب سے یہ حملہ آوری اور دفاع کا عمل جاری تھی۔ کتیا کے چاروں طرف بیٹھے ہوئے کوؤں کا دائرہ تنگ ہوتا جا رہا تھا۔ کتیا تھکی ہوئی لگ رہی تھی اور کوے زیادہ دلیری دکھا رہے تھے۔

آخر وہ وقت آیا کہ کتیا نے اپنی جگہ سے ہلنا بند کر دیا اور مرے ہوئے بچے اور کوؤں کے درمیان بس اتنا فاصلہ رہ گیا کہ وہ دو تین بار پھدکنے میں اسے طے کر سکتے تھے۔ پھر میں نے عجیب سین دیکھا: "کتیا بچے کی طرف بغیر دیکھے ایک طرف کو چل پڑی۔ پھر اس نے بیچ کی سڑک کو پار کیا اور دوسرے لان میں پہنچ کر ایک بار اس جانب دیکھا جدھر بچہ اب کووں کے نرغے میں تھا اور آگے کہیں نکل گئی۔

اس لمحے میری سمجھ میں آیا ہ بچے کے لیے جو کچھ وہ کر سکتی تھی اس نے کیا اور جب تک بچے کے جی اٹھنے کی جھوٹی آس اس کے دل میں رہی س نے اسے بچانے کے لیے پہرا دیا۔ اس کے بعد اس کی سمجھ نے مان لیا کہ زندگی میں اسی طرح ہوتا ہے یعنی اسے۔۔۔۔۔۔ "۔

"صبر آ گیا”۔ ایک لڑکے نے کہا۔

” جی جناب!” شمس الرحمن نے مسکرا کر کہا، لیکن ان کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے تھے جو غم کے نہیں ہمدردی میں دل بھر آنے کے تھے۔ ایسے آنسو کئی طلب علموں کی آنکھوں میں جھانک رہے تھے۔

٭٭٭

 

گھڑی کا تحفہ

               بانو ارشد

کہنے کو یوں تو منی بہت سمجھ دار تھی، لیکن ایک بات اس کی ضد تک پہنچ گئی تھی کہ آخر امی آپ مجھے گھڑی خرید کر کیوں نہیں دیتی ہیں، ہزار بار امی نے سمجھایا کہ ابھی آپ بہت چھوٹی ہو، کوئی بھی اکیلا دیکھ کر گھڑی چھین لے گا یا ہاتھ زخمی کر دے گا۔

منی نے منہ بسور کر کہا: "وہ فرحت بھی تو اپنے ہاتھ میں گھڑی باندھے رکھتی ہے۔ ماریہ کے پاس بھی گھڑی ہے۔ مجھے بھی چاہیے "۔

منی کے ماں ایک غریب عورت تھی۔ وہ لوگوں کے گھروں میں جا کر صفائی کرتی  اور بچوں کے کپڑے اور کھانے کا بندوبست کرتی۔ منی کو اندازہ نہیں تھا کہ اسکول کے باقی بچے اس  کی طرح غریب نہیں تھے۔ بس اس کو ایک ہی رٹ لگی رہتی کہ مجھے بھی گھڑی چاہیے۔

ماں نے لاکھ سمجھایا کہ جب تم ہائی اسکول میں جاؤ گی تو میں پیسے جمع کر کے تم کوایک خوب صورت سی گھڑی لا کر دوں گی۔ مگر منی کی سمجھ میں یہ بات ہرگز نہیں آتی۔ ماں نے اس سے وعدہ کیا کہ کچھ عرصے میں پیسے جمع کر لوں پھر میں تم کو گھڑی کا تحفہ دوں گی۔ تھوڑے دن صبر کر لو۔

منی کی امی نے سوچا منی اب سمجھ گئی ہے۔ اس نے پھر تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کیے کہ منی کو ایک گھڑی اس کی سالگرہ پر تحفہ دے گی۔ جب دو چار مہینے گزر گئے تو منی کی امی نے ایک گھڑی لا کر اپنی الماری میں چھپا کر رکھ دی کہ وہ اسکول سے آئے گی تو اس کو یہ گھڑی دے گی اور پھر کیک بھی بنایا۔

وہ منی کو اسکول سے خوشی خوشی گھر لے آئیں، لیکن منی بہت اداس تھی: "کیا بات ہے ، آج تمہاری سالگرہ ہے پھر تم اداس کیوں ہو? چلو کیک کاٹیں "۔

ایک بڑا سا سالگرہ کا کارڈ بھی میز پر تھا اور موم بتیاں جل رہی تھیں، لیکن منی کا چہرہ پھر بھی اداس تھا: "کیا بات ہے۔ آؤ چلوں کیک کاتیں اور لو تمہاری گھڑی”۔

منی رونے لگی۔ : نہیں، امی مجھے گھڑی نہیں چاہیے "۔

منی بولی: "نہیں، میں نہیں لوں گی:۔

امی نے پوچھا۔ : کیوں خفا ہو۔ لاؤ ہاتھ ادھر لاؤ۔

"نہیں، اب میں گھڑی نہیں باندھوں گی”۔

"کیا بات ہے "۔ امی نے پوچھا۔

"آج میری کلاس میں ایک لڑکی شیریں داخل ہوئی ہے۔ اس کا ایک ہاتھ نہیں ہے "۔

"وہ کیسے "۔ امی نے پوچھا۔

شیریں نے بتیا کہ وہ اپنے ملک میں تھی۔ وہاں پر بمباری ہو رہی تھی۔ رات کا وقت تھا۔ بلیک آؤٹ کا زمانہ تھا۔ ہر طرف گھپ اندھیرا تھا۔ اس کے ہاتھ میں گھڑی بندھی تھی۔ وہ اپنے گھر کے صحن میں تھی۔ اس کی گھڑی چمکی تو دشمنوں نے اندازہ لگا لیا کہ یہاں آبادی ہے۔ وہیں بم پھینکا اور اس کا ایک ہاتھ کٹ کر گر گیا۔ اس نے اپنا مصنوعی پلاسٹک والا ہاتھ مجھے دیکھا۔ شیریں کہنے لگی کہ مجھے گھڑی سے نفرت ہے۔ اگر میرے پاس اس رات ہاتھ پر گھڑی نہ بندھی ہوئی ہوتی تو دشمنوں کو پتا ہی نہیں چلتا۔ میری ماں بھی اس بم سے مر گئی۔ پھر ہم لوگوں کور فیوجی کیمپ میں رکھا گیا اس کے بعد ہم یہاں آ گئے۔ منی نے کہا کہ امی اب میں آپ سے کبھی ضد نہیں کروں گی کہ مجھے گھڑی چاہیے۔ آپ بھی زندہ ہیں اور میرے دونوں ہاتھ بھی سلامت ہیں۔ منی کی آنکھوں میں آنسو تھے اور خوب ہچکیاں لے کر رو رہی تھی کہ اگر شیریں کے ہاتھ میں گھڑی نہ ہوتی تو اس پر بم نہیں گرتا۔ میں ضد نہیں کروں گی۔ امی نے منی کو گلے لگایا اور کہا کہ چلو یہ کیک شیریں کے گھر لے چلیں، اس نے تم کو یہ قصہ سنایا ہے۔ تم اب شیریں کا خیال رکھا کرو۔ منی بولی :”امی وہ بہت خوب صورت اور ذہین لڑکی ہے۔ میں اس سے دوستی کر لوں گی”۔

امی اور منی شیریں کے گھر کیک لے کر گئیں۔ منی نے پھر ضد کرنا چھوڑ دی۔

٭٭٭

 

دھنک کی کہانی

               وقار محسن

سینکڑوں برس پہلے کی بات ہے کہ دنیا میں زبردست قحط پڑا۔ تالاب، نہریں اور کنویں خشک ہو گئے۔ فصلیں دھوپ سے جل گئیں۔ ہزاروں جانور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر گئے اور پیاسی زمین چٹخنے لگی۔ مرغزاروں اور پہاڑوں کے دامنوں میں کھلے پھول بے چین نظروں سے آسمان کی گود میں تیرتی بادلوں کی ٹکڑیوں کو دیکھتے رہتے۔

ایک صبح جب ننھی مونا اپنی سہیلیوں کے ساتھ باغ میں آئی تو اس نے دیکھا کہ باغ میں سناٹا ہے۔ نہ تو چڑیوں کی چہچاہٹ سنائی دیتی تھی اور نہ بھونروں اور شہد کی مکھیوں کی آواز۔ باغ میں پھولوں کی مہک بھی نہ تھی۔ گلاب کے پھول اور ننھی کلیاں سر جھکائے کچھ سوچ رہے تھے۔ ننھی مونا نے گلاب کی نازک گردن اٹھا کر پوچھا۔

” پھولوں کے راجا، تم کیوں اداس ہو؟”

گلاب کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ننھی مونا بھی رو پڑی اور گلاب کو پیار سے اپنے چہرے سے لگا لیا۔

گلاب نے سسکی لے کر کہا،

"مونا بہن! تمہیں تو معلوم ہے کہ پانی سب کی زندگی ہے۔ سورج کی تیز کرنیں ہمارے جسموں کو جلا رہی ہیں۔ "

"گلاب بھیا! میرے ڈیڈی کہتے ہیں کہ بادلوں سے پانی برستاہے۔ تم بادل سے پانی کے لیے کیوں درخواست نہیں کرتے ؟” ننھی مونا نے مشورہ دیا۔

"مونا بہن ٹھیک کہتی ہے۔ ہمیں بادل کے پاس جانا چاہیے۔ ” باغ کے سارے پھول اور پرندے ایک زبان ہو کر بولے۔ پھولوں نے طے کیا کہ پھولوں کے نمائندے ننھی مونا کے ساتھ بادل کے پاس جائیں گے۔ ا سی دوپہر کو ننھی مونا گلاب، گیندا، چمبیلی اور لالہ ایک برق رفتار عقاب پرسوار ہو کر بادل کے پاس جا پہنچے۔ ننھی مونا نے بادل کا دامن پکڑ کر کہا۔

"بادل بھیا! ہم پھولوں کی طرف سے یہ التجا لے کر آئے ہیں کہ آپ باغ میں منتظر پیاسے پھولوں پر پانی برسا دیں، ورنہ پھول مرجھا جائیں گے۔ "

” مجھے روم کے بادشاہ کے باغ میں پانی برسانا ہے۔ دو ٹکے کے جنگلی پھولوں کے لیے میرے پاس وقت نہیں۔ ” بادل تیزی سے اپنا دامن چھڑا کر آگے بڑھ گیا۔ بادل کی یہ بے رخی دیکھ کر گلاب نے ہوا کا دوپٹہ پکڑ کر کہا۔

"ہوا بہن! کیا تم بھی ہماری مدد نہ کرو گی؟کیا تم بادل کو گھیر کر باغوں کی طرف نہیں لا سکتیں ؟دیکھو اگر پھول نہ رہے تو حسن نہ رہے گا اور حسن کا نام ہی زندگی ہے۔ ننھے منے بچوں کے چہروں کی لالی دراصل گلاب کے پھولوں کا عکس ہے۔ "

” مجھے اطالوی ملکہ کے بال سکھانا ہیں جو اپنے محل کی چھت پر میری منتظر ہے اور پھر اگر پھول نہ بھی کھلیں تو دنیا کا کون ساکام رک جائے گا۔ ” ہوا نے لاپرواہی سے اپنے دوپٹے کا پلو چھڑاتے ہوئے کہا اورسرسراتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔

ہوا کی طرف سے بھی نا امید ہو کر ننھی مونا پھولوں کو لے کر سورج کی طرف روانہ ہو گئی۔ سورج کے قریب پہنچ کر ننھی مونا کا سارا جسم پسینے سے بھیگ گیا۔ پھولوں کے چہرے بھی مرجھا گئے۔ سورج بھی اپنے سنہرے تخت پر سوار ہو کر کہیں جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ لالہ نے سورج کے قریب جا کر کہا۔

"سورج بھیا ! زمین پر پھول، پودے ، جانور، پرندے پیاس سے بے جان ہوئے جا رہے ہیں۔ کیا تم سمندر کو اپنی تیز کرنوں سے یہ پیغام نہیں بھیج سکتے کہ وہ بادلوں کو پانی دے کر ہماری طرف بھیج دے۔ دیکھو سمندر بھیا! اگر لالہ مر گیا تو آسمان پر کبھی شفق نظر نہ آئے گی۔ "

” پیارے پھولو! مجھے افسوس ہے کہ میں اس وقت تمہاری مدد نہیں کر سکتا، کیوں کہ مجھے ابھی روس کے بادشاہ کی طرف سے پیغام آیا ہے کہ شاہی محل کہر سے گھرا ہوا ہے اور سخت ٹھنڈ ہے۔ اگر میں فوراً نہ پہنچا تو ایک دو جانیں ضائع ہو جائیں گی اور پھر پھول تو صرف بادشاہوں کے تاجوں کی زینت بڑھانے کے لیے ہوتے ہیں۔ "

سورج کی باتیں سن کر چمبیلی غصے سے کانپ اٹھی اور اس نے کہا

"پھول ہر گز تاجوں کے زینت کے لیے نہیں ہوتے ، بلکہ تاجوں میں قید کیا جاتا ہے ، کلائیوں اور گلوں میں قید کیا جاتا ہے۔ مغرور سورج! پھول چمن کی زینت ہوتے ہیں، پھول بچوں کے دوست ہوتے ہیں۔ ” لیکن سورج نے چمبیلی کے الفاظ کی پروا نہ کی اور سنہرے تخت پر بیٹھ کر روانہ ہو گیا۔

ننھی مونا اور پھولوں کے نمائندے نا امید ہو کر واپس آ گئے۔ باغ میں آ کر جب انہوں نے پھولوں، کلیوں اور پودوں اور پرندوں کو بادل، ہوا اور سورج کی بے رُخی کے بارے میں بتایا تو سب کو بہت غصہ آیا اور انہوں نے طے کر لیا کہ وہ اب کسی سے رحم کی بھیک نہ مانگیں گے۔

اگلی صبح جب سورج اپنے سنہرے تخت پر سوار ہو کر گشت کے لیے نکلا تو اس نے دیکھا کہ سارے مرغزار، کھیت، باغ ویران پڑے ہیں۔ ہر شے پر موت کی سی خاموشی ہے۔ پھولوں نے اپنی گردنیں پیلے پتوں میں چھپا لی تھیں جس سے باغوں میں اندھیرا سا پھیلا ہوا تھا۔ ننھے منے بچے باغوں کی روشوں پر اداس کھڑے تھے۔ کسی کا کھیل میں دل نہ لگتا تھا۔ بچوں کے گالوں کی لالی غائب ہو چکی تھی۔ ان کی چنچل آنکھوں میں آنسو تھے۔ تیز دھوپ کے بعد اندھیرا چھا گیا، لیکن آسمان کے ماتھے پر شفق نہ پھوٹی۔ ہوا نے محسوس کیا کہ آج اس کی گود خالی ہے۔ اس کی گود میں کھیلنے والے شگوفے اس سے ناراض تھے۔ فیکٹریوں میں، کھیتوں میں اور محفلوں میں ہر جگہ اداسی پھیلی ہوئی تھی۔ لوگ ایک دوسرے پر جھنجھلا رہے تھے۔ کسی کو علم نہ تھا کہ پھول روٹھ گئے ہیں ممی کے کافی اصرار کے باوجود ننھی مونا نے کھانا نہ کھایا اور بھوکی سو گئی۔

آدھی رات کے قریب سورج نے ہوا کو اپنے محل میں بلایا اور کہا کہ اگر پھول اسی طرح روٹھے رہے تو یہ دنیا قبرستان بن جائے گی، اس لیے تم فوراً جا_¶ اور سمندر کو میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ کل صبح صبح میدانوں، باغوں اور پہاڑوں کو چپہ چپہ سیراب ہونا چاہیے۔

اگلی صبح جب پھولوں نے پتوں میں چھپے چہرے نکالے تو وہ خوشی سے چیخ اٹھے۔ آسمان پر کالے کالے بادل گرج رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد تیز بارش ہونے لگی۔ ہوا نے نازک کلیوں کے چہروں کو چوم کر انہیں جگایا اور باغوں کے پھول خوشی سے گلے ملنے لگے۔ پھولوں کے مسکراتے ہی باغوں کی روشنی لوٹ آئی۔ دنیا میں زندگی لوٹ آئی۔

بارش رکنے پر جب ننھی مونا اپنی سہیلیوں کے ساتھ باغ میں آئی تو پھولوں نے بچوں کا جھک جھک کر خیر مقدم کیا۔ ننھی مونا نے پھولوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی فتح کا ایک جلوس نکالیں۔ پھولوں نے مونا کی رائے سے اتفاق کیا اور سرخ، پیلے ، نیلے ، ہرے ، نارنجی، اودے اور لال پھول اپنے رنگوں کے مطابق الگ الگ قطاروں میں کھڑے ہو گئے۔ پرندوں نے پھولوں کو اپنے پروں پر سوار کیا اور یہ جلوس نیم دائرے کی شکل میں زمین سے آسمان تک پھیل گیا۔ آج بھی بارش ہونے کے بعد پھولوں کی فتح کا یہ نشان آسمان میں دھنک کی شکل میں نظر آتا ہے۔

٭٭٭

 

شاہین کا مہمان

               یاسمین امتیاز

ایک بدمزاج بادشاہ اپنے خدمت گاروں اور سپاہیوں کے ساتھ ایک روز شکار پر گیا۔ جب وہ پہاڑ کے دامن میں دوپہر کا کھانا کھانے دسترخوان پر بیٹھا تو ایک شاہین نے اچانک آ کر اس کے سامنے بھنے ہوئے مرغ کو پلک جھپکتے میں اٹھا لیا اور تیزی سے اڑتا ہوا چلا گیا۔ بادشاہ دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا۔ اس نے فوراً ہی اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ گھوڑوں پر سوار ہو کر شاہین کا پیچھا کریں اور معلوم کریں کہ شاہین مرغ کہاں لے گیا ہے "۔

فوراً ہی لشکر روانہ ہو گیا، یہاں تک کہ شاہین کا تعاقب کرتا ہوا پہاڑ کی چوٹی پر جا پہنچا۔ وہاں سے سپاہیوں نے پہاڑ کی دوسری جانب بڑا عجیب و غریب منظر دیکھا۔ ان کے سامنے ایک شخص تھا۔ جس کے ہاتھ اور پاؤں بندھے ہوئے تھے اور وہ زمین پر پڑا ہوا تھا۔ بھنا ہوا مرغ دسترخوان سے اٹھا کر لانے والا شاہین بڑے مزے سے اس شخص کی خدمت کر رہا تھا۔

وہ پرندہ اپنی چونچ سے گوشت نوچ چوچ کر اس شخص کے منھ میں ڈال رہا تھا۔ پھر وہ اڑا اور کہیں سے اپنی چونچ میں پانی بھر لایا۔ اس نے یہ پانی بھی اس شخص کو پلا دیا۔ سپاہی اس شخص کے قریب پہنچے اور اس کے ہاتھ پاؤں کھول کر پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے تو اس نے سپاہیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا:

"میں ایک تاجر ہوں، تجارت کے سلسلے میں اپنا مال لے کر جا رہا تھا کہ اسی راستے میں ڈاکوؤں کا سامنا ہو گیا۔ وہ میرا مال و دولت لوٹ کر لے گئے۔ وہ چاہتے تھے کہ مجھے قتل کر دیں۔ میں نے ان سے التجا کی کہ وہ مجھے جان سے نہ ماریں۔ میری التجا پر انہوں نے مجھے جان سے تو نہ مارا، لیکن مجھے اور میرے خچر کو باندھ دیا اور چلے گئے۔ دوسرے دن یہ پرندہ میرے لیے کہیں سے روٹی لے کر آیا۔ پھر روزانہ ہی کہیں نہ کہیں سے میرے لیے کچھ کھانے کو لاتا ہے۔ آج بھی یہ بھنا ہوا مرغ لے ایا ہے ، روانہ دو مرتبہ یہ پرندہ میری اسی طرح خدمت کرتا ہے۔ جیسے میں اس کا مہمان ہوں "۔

بادشاہ کے سپاہیوں نے واپس جا کر اس کو یہ واقعہ سنایا۔ بادشاہ کو جب پوری صورتحال کا علم ہوا تو اس کی زندگی میں انقلاب آ گیا اور کہنے لگا:

"افسوس ہے ہم پر کہ ہم ایسے اللہ سے غافل ہیں جو اس انداز سے بھی اپنے بندوں کو رزق فراہم کرتا ہے اور اپنا نظام چلاتا ہے "۔

٭٭٭

 

انڈے مرغا اور اذان

               نعیم مشتاق نومی

میں گھر سے انڈے لینے کے لیے نکلا۔ گھر کے دروازے سے نکلتے ہی مجھے اسی گلی کا ایک لڑکا مل گیا۔ جس سے میری نہ صرف جان پہچان تھی، بلکہ گپ شپ بھی تھی، واحد نام تھا اس کا، شاید اس لیے کہ وہ اپنے گھر میں واحد لڑکا تھا۔

"کدھر کا ارادہ ہے۔ ” وہ اپنے مخصوص لہجے میں بولا۔ ایسے جیسے گا رہا ہو۔

میں نے بتایا تو بولا: "انڈے لینے تو میں بھی جا رہا ہوں "۔ اس نے ایک خاص انداز میں آنکھیں گھما کر کہا: "مگر میں دکاندار کو مرغی نہیں، مرغا بنانے جا رہا ہوں "۔

میں نے وضاحت طلب انداز میں اس کی جانب دیکھا: "سمجھا نہیں "۔

وہ بولا: "جس دکاندار سے میں انڈے لیتا ہوں، وہ ہمیشہ کہتا ہے ، یہ لو تھیلی اور خود ہی ڈال لو، اور پھر۔۔۔۔۔۔۔ پھر میں خود ہی ڈال لیتا ہوں "۔ اس کی آنکھوں میں اس وقت ایک خاص چمک اور چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ تھی۔

"یہ تو ٹھیک ہے ، مگر اس سے دکاندار مرغا کیس بنتا ہے "۔ میں نے آنکھیں سکیڑ کر پوچھا۔ "کہیں وہ بانگیں دینا تو شروع نہیں کر دیتا”۔

"مجھے پتا تھا، تو اسی طرح کا کچھ ضرور بولے گا”۔ وہ میری ناسمجھی پہ ہلکا سا ہنسا۔

میں اس کا منہ تکنے لگا: "کیا مطلب”۔

"میں جانتا تھا، تتو میری بات سمجھ نہیں پائے گا”۔ وہ مسکرا کر بولا۔ "اس لیے خود ہی بتا دیتا ہوں، سن!”۔ وہ ایک لمحے کو رکا، پھر بولا۔ "دیکھ! جب میں دکاندار سے کہتا ہوں، ایک درجن انڈے دے دو اور وہ مجھے کہتا ہے ، یہ لو تھیلی اور ڈال لو، تو جناب! چوں کہ وہ یہ نہیں کہتا کہ ایک درجن ڈال لو، اس لیے میری مرضی ہوتی ہے کہ پھر میں پندرہ ڈال لوں یا سولہ، کیا سمجھے "۔

"اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔ !”۔ میرے ہونٹ سیٹی بجانے کے سے انداز میں سکڑ گئے۔ میں نے سر ہلاتے ہوئے پوچھا۔ "تو تم دکان دار کو یوں مرغا بناتے ہو”۔

"اپنا اپنا اسٹائل ہے بھئی!” وہ اترا کر بولا۔

"وہ تو ٹھیک ہے "۔ میں نے طنزیہ انداز میں کہا: "مگر اس کے اس اسٹائل کا کیا ہو گا، جس دن اس نے اذان دے دی، وہ بھی ککڑوں کوں، تیری بودی وچ جوں "۔

وہ فورا میرا مطلب سمجھ گیا۔ مسکرا کر بولا۔ "ایسا دن کبھی نہیں آئے گا”۔

اسے اپنے ہاتھ کی صفائی پر پورا یقین تھا اور نہ صرف یہ، بلکہ اعتماد بھی۔

"ٹھیک ہے ، آج سے تجھے اپنے فن کی کار دکھاتا ہوں، کیسے چلتی ہے وہ”۔ وہ فخریہ آواز میں بولا۔ پھر ہلکا سا ہنستے ہوئے وضاحت کی: "مطلب، فن کاری”۔

"ٹھیک ہے ، دیکھتے ہیں "۔ میں نے کندھے اچکا کر کہا۔

یوں ہی باتیں کرتے ہوئے ہم مارکیٹ پہنچ گئے ، وہ مجھے لے کر سیدھا اس دکان پہ گیا، جہاں بقول اس کے وہ کسی کو مرغا بناتا تھا۔ پھر میں نے دیکھا، حرف بہ حرف وہی ہوا، جو اس نے مجھے بتایا تھا۔ اس نے دکان دار سے کہا: "ایک درجن انڈے دے دو”۔

جواب میں دکان دار نے کہا: ” یہ لو تھیلی اور خود ڈال لو۔ ” اس نے تھیلی اس کے ہاتھ میں تھما دی۔

واحد نے پہلے میری طرف فخریہ انداز میں دیکھا، پھر دکاندار سے بولا۔ "ایک تھیلی اور دینا پلیز۔ "

پھر وضاحت کرتے ہوئے بولا: "اپنے لیے نہیں مانگ رہا”۔ اس نے مسکراتے ہوئے تھیلی لی اور میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا: "یہ تو آپ کے نئے گاہک کے لیے ہے ، جسے میں اپنے ساتھ لایا ہوں "۔

"اچھا، بڑی مہربانی بھئی”، دکان دار خوش ہو کر ممنونیت سے بولا۔

"جو ہم سے بن پڑتا ہے ، وہ ہم کرتے ہیں نا جی”۔ وہ اپنی خاص لے میں دکان دار سے بولا۔

"ہم ڈیل بھی تو آپ سے اسپیشل کرتے ہیں نا بھئی”۔ دکان دار مسکرایا۔

اس کے بعد ہم دونوں اس کونے کی طرف بڑھ گئے ، جہاں انڈوں کے کریٹ رکھے ہوئے تھے ، جب کہ دکان دار چند اور آنے والے گاہکوں کے ساتھ مصروف ہو گیا، اس کی دیکھا دیکھی ہم بھی مصروف ہو گئے۔ واحد نے اپنی تھیلی میں درجن سے زیادہ انڈے ڈالے اور میری تھیلی میں بھی دو اضافی انڈے ڈال دیے۔ میں نے اضافی انڈے فورا باہر نکال لیے۔

"بڑا بزدل نکلا تو تو”۔ وہ مجھ پر افسوس کرتے ہوئے بولا۔

"بات بزدلی کی یا ڈرنے کی نہیں، بات اس اعتماد کی ہے ، جو وہ تم پر کرتا ہے ، مگر شاید تمہاری سمجھ میں میری بات نہیں آئے گی”۔ میں نے کہا اور ایک لمبا سانس لیا۔

عین اسی لمحے دکان دار نے اس کا نام لے کر اسے پکارا۔ وہ چونکا، مگر پھر جلدی سے اس کے پاس جا کھڑا ہو گیا، وہاں اس وقت ایک گاہک کھڑا تھا۔ جس نے ادائیگی کے لیے دکان دار کو پانچ سو روپے کا نوٹ دیا تھا۔

"وہ میرا ملازم لڑکا گھر سے ذرا روٹی لینے گیا ہے "۔ دکان دار نے کہا۔ :تو یہ بھاگ کر ذرا میڈیکل اسٹور والے سے کھلا لے آ، اس سے کہنا، میں نے بھیجا ہے۔ دے دے گا”۔

واحد نے دکان دار سے پانچ سو روپے کا نوٹ لیا اور انڈوں کی تھیلی سمیت باہر چل دیا۔

واحد آدھے منٹ میں واپس آ گیا، پھر دکان دار کی ہتھیلی پر سو سو روپے والے نوٹ رکھتے ہوئے بولا: "یہ لیں جناب”۔

"شکریہ”۔ دکاندار نے کہا اور اس رکے ہوئے گاہک کو حساب کر کے فارغ کر دیا۔

عین اسی لمحے ایک لڑکا آندھی اور طوفان کی طرح دکان میں داخل ہوا، بلکہ گھسا اور گھستے بولا: "ابو! امی نے کہا ہے کہ جلدی سے ایک درجن انڈے دے دو، بلکہ یہی دے دو”۔

اس نے اچانک وہ انڈوں والی تھیلی پکڑ لی، جو واحد تھامے کھڑا تھا، واحد کی گرفت اپنی تھیلی پر مزید مضبوط ہو گئی۔

"نن نہیں، میں نہیں دے سکتا”۔ واحد نے پہلے دکان دار کی طرف دیکھا، پھر میری طرف، مجھے  یوں لگا، جیسے کہہ رہا ہو، میری مدد کر۔

"بھئی ایک درجن ہی تو ہیں، دے دو”۔ دکان دار نے منت کی۔ "بلکہ یوں کرو، تم اپنے انڈے اسے دے د و، میں تمہیں ایک انڈا مفت دوں گا۔

واحد اب بھی آمادہ نہیں تھا۔ اس نے مدد کے لیے پھر میری طرف دیکھا، کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ میں واقف ہوں کہ اس کے نہ دینے کی وجہ کیا ہے۔ مجھے اس پر ہلکا سا ترس آیا، کیوں کہ میں جانتا تھا، وہ پکڑے جانے کے خوف سے گھبرایا ہوا ہے۔ میں نے فورا صورتحال کو سنبھالا اور اپنی تھیلی اس لڑکے کی طرف بڑھا دی۔

لڑکے نے شکریہ کہہ کر وہ تھیلی سنبھالی اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔

دکان دار نے میرا شکریہ ادا کیا، پھر واحد کو مخاطب کر کے بولا: "بھئی اتنا پیار تو مرغی بھی اپنے انڈوں سے نہیں کرتی، جب وہ بیٹھ کر ان کو سیتی ہے "۔ اس کے لہجے میں ہلکی سی حیرت تھی۔

پھر وہ میری طرف متوجہ ہو کر بولا: "آپ کا ایک بار پھر شکریہ”۔

"جی، کوئی بات نہیں "۔ میں نے شرمندہ سا ہو کر کہا۔

"انڈے آپ خود ڈالیں گے یا میں ڈال دوں "۔ اس نے مسکراتے ہوئے مجھ سے پوچھا اور ایک تھیلی اٹھا لی۔

"کوئی بات نہیں، آپ مجھے دیں، میں ڈال لیتا ہوں "۔ میں نے کہا اور تھیلی دکان دار سے لے لی۔

جب میں تھیلی میں انڈے ڈال چکا تو میں نے اپنی تسلی کے لیے انہیں گنا۔ پھر یہ جان کر اطمینان ہوا کہ وہ پورے بارہ تھے ، یعنی ایک درجن، نہ ایک کم، نہ ایک زیادہ۔

میرے گننے کے ساتھ ساتھ واحد بھی گن رہا تھا، لہٰذا جیسے ہی گنتی ختم ہوئی، واحد نے ایک انڈا اور میری طرف بڑھایا، تاکہ میں اسے تھیلی میں ڈال لوں، جسے لینے سے میں نے صاف انکار کر دیا، اسی لمحے دکان دار کی آواز سماعت سے ٹکرائی: "لے لو بھئی! اس پہ آپ کا حق بنتا ہے ، کیوں کہ میں نے اس کام کے لیے واحد کو آفر کی تھی ایک مفت انڈے کی، اس لیے لے لیں، حق ہے آپ کا”،

"جی شکریہ”۔ میں نے دوبارہ انکار کرتے ہوئے کہا۔

عین اسی لمحے ایک شہد کی مکھی نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ میں اس سے ایک بار بچنے کی کوش میں کامیاب رہا، دوسری بار بھی کامیاب رہا، مگر اس سے پہلے کہ وہ تیسرا راؤنڈ لے کر مجھے گراؤنڈ کرتی، صورتحال کی سنگینی کو بھانپ کر واحد نے فورا میری مدد کی اور مجھ سے انڈوں والی تھیلی لے کر پھرتی سے ایک طرف ہٹ گیا، تاکہ وہ بھی محفوظ رہے اور میں بھی شہد کی مکھی کے خلاف کوئی خاطر خواہ کارروائی کر سکوں، مگر اسے کیا پتا تھا، یہی بات اس کی بدبختی کا سبب بننے والی ہے ، کیوں کہ ہوا کچھ یوں کہ مکھے نے مزید دو تین حملے کیے ، مگر اس کے بعد وہ میری زد مین آ ہی گئی، اس ہاتھ کی زد میں، جس میں دکان دار کی فوری طور پر دی ہوئی ایک بالشت بھر کی مگر بڑی کار آمد جھاڑو تھی، مکھے سے فارغ ہو کر میں نے جیسے ہی جھاڑو دکاندار کو شکریے کے ساتھ واپس کی، میں چونکا، بلکہ مجھ سے زیادہ واحد چونکا، اور صرف چونکا ہی نہیں، بلکہ اس کے چہرے پہ ایک رنگ سا آ کے چلا گیا، اس لیے کہ دکان دار واحد کے ہاتھ میں موجود انڈوں کی تھیلی کو بڑی گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا، واحد والی تھیلی، میری تھیلی میں ہر لحاظ سے اور واضح طور پر بڑی نظر آ رہی تھی، میں سمجھ گیا کہ دکان دار کیا سوچ رہا ہے۔

اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا یا کچھ کرتا، دکان دار کاؤنٹر کے پیچھے سے نکل کر آ گیا۔ اسی لمحے اس کا ملازم بھی آ دھمکا۔ دکاندار نے واحد کو مخاطب کر کے شائستگی سے کہا: "پہلے آپ ان کو ایک درجن انڈے دیجئے ، پھر میں آپ کو ایک کام بتاتا ہوں، ایک ایسا کام جو آپ کے لیے کرنا بہت آسان ہو گا”۔ واحد عجیب سی، مگر گھبرائی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ دکان دار کی ہدایت کے مطابق اس نے میری والی تھیلی کو میرے حوالے کر دیا اور تھوک نگلتے ہوئے دکان دار کی طرف دیکھا۔

اس کے بعد دکان دار نے ملازم لڑکے سے کہا: "جلدی سے ایک تھیلی مجھے دینا”۔

ملازم لڑکے نے آنا فانا ایک تھیلی دکان دار کے ہاتھ میں تھما دی۔

"چلیں بھئی، واحد میاں "۔ دکان دار نے تھیلی کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر کھولتے ہوئے کہا، "شروع ہو جائیں "۔ اور جا کر بغل میں کھڑا ہو گا۔

واحد ہکا بکا، اسے تکے جا رہا تھا، ایسے لگ رہا تھا، جیسے اس کا دماغ اس وقت سوچنے سمجھنے کی طاقت کھوچکا ہے ، یہ حالت دیکھ کر دکان دار نے فورا ملازم لڑکے سے کہا: "میرا خیال ہے واحد میاں گنتی بھول گئے ہیں، ذرا آکے ان کی مدد کرنا، پھر اس نے اسے تفصیلاً بتایا کہ وہ واحد کی تھیلی سے ایک ایک کر کے انڈا نکالے اور گنتی کر کے اس تھیلی میں ڈالتا جائے ، جو اس نے تھام رکھی ہے ، ملازم حکم کی تعمیل میں جت گیا۔

واحد کے چہرے اور آنکھوں پر گہرا خوف نظر آ رہا تھا۔ وہ شرمندہ بھی تھا۔

جب گنتی بارہ تک پہنچی تو دکان دار نے اپنے ملازم لڑکے کو مزید آگے گننے سے روک دیا۔ پھر وہ تھیلی جس میں بارہ انڈے پہنچ چکے تھے ، اس نے ملازم لڑکے کو پکڑا دی اور اس کے بعد واحد سے تھیلی لی، پھر اس میں موجود اضافی انڈے گنتے ہوئے بولا: "اکھٹے چار گول، ایک ساتھ”۔ اس کے لہجے میں حیرت تھی۔ "لگتا ہے برازیل کی ٹیم میں کھیلتے رہے ہو”۔

واحد نے خوف سے تھوک نگلا، کیوں کہ وہ سمجھ چکا تھا کہ اب اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے

"لیکن ایک بار شاید میں نے تمہیں کبھی نہیں بتائی”۔ دکان دار نے وہ چار انڈوں والی تھیلی بھی ہاتھ بڑھا کر اپنے ملازم لڑکے کو تھما دی اور بولا: "یہ میں کرکٹ کا کھلاڑی ہوں، بیٹنگ کے لیے جاؤں تو شاہد آفریدی کی طرح کھیلتا ہوں، اور بولنگ کروں تو پھر شعیب اختر، مطلب یا تو چوکے چھکے یا کلین بولڈ”، اسی کے ساتھ لپک کر اس نے واحد کا گریبان پکڑ لیا اور ایک ساتھ تین چار زناٹے دار تھپڑ اس کے گال پر جڑ دیے۔

فضا، چٹاخ، چٹاخ کی آوازوں سے لرز اتھی، جس کے آخر میں سسکیاں بھی موجود تھیں۔

"ایک کو دیکھو، مفت میں انڈا ملا، مگر نہیں لے رہا”۔ وہ غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے بولا۔ "اور دوسرا۔۔۔۔۔۔ دوسرا مفت میں چوکے مار رہا ہے ، اور نجانے کب سے مار رہا ہے "۔ اسی کے ساتھ ایک اور چٹاخ کی آواز ابھری۔

اس کے بعد وہ بولا: "آج کے بعد اگر تو مجھے اس مارکیٹ میں نظر بھی آیا تو میں ایسا باؤنسر ماروں گا کہ ڈک بھی نہیں کر پاؤ گے "۔ اسی کے ساتھ اس نے واحد کو بری طرح جھنجھوڑا، پھر اس نے جیسے ہی واحد کا گریبان چھوڑا، وہ جان بچی لاکھوں پائے کے مصداق فورا نو دو گیارہ ہو گیا اور آج اس قصے کو تقریباً پانچ سال کا عرصہ بیت چکا ہے ، مگر میں نے پھر کبھی واحد کو اس مارکیٹ کی طرف جاتے نہیں دیکھا۔

٭٭٭

 

دنیا کو عقل کیسے ملی؟

               گوہر تاج

جب دنیا بالکل نئی نئی بنی تھی تو دنیا کی ساری عقل مکڑے کو کہیں پڑی ہوئی مل گئی۔ اب ظاہر ہے کہ مکڑا تو اس ساری عقل کو اپنے پاس ہی رکھنا چاہتا تھا، لہٰذا اس نے اس کو ایک بہت بڑے سے مٹی سے برتن میں رکھ کر مضبوطی سے بند کر دیا۔

"آہا، میں کتنا خوش نصیب ہوں، جس کے پاس اتنی ساری عقل ہے "۔ مکڑے نے سوچا ہ ایک دن مین دنیا کا بادشاہ بن جاؤں گا، کیوں کہ میں دنیا میں اکیلا عقل مند ہوں۔ میں اس کو بہت احتیاط سے چھپا دوں گا، جہاں کوئی اور اس کو نہ دیکھ سکے۔ مکڑا جنگل میں اپنی آٹھ ٹانگوں کے ساتھ جتنا تیز بھاگ سکتا تھا بھا ا، تاکہ اس عقل سے بھرے برتن کو کہیں چھپا سکے۔

کچھوے نے اس سے پوچھا: "کہاں جا رہے ہو تم”۔

خرگوش نے اس سے سوال کیا: "کہاں جا رہے ہو اور اتنی جلدی میں کیوں ہو”۔

مگر مکڑے نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ بھاگتا رہا۔ ایک ایسی جگہ کی تلاش میں جہاں وہ عقل کو چھپاسے۔ اس سے پہلے کہ کوئی اور اسے دیکھے اور اس میں سے کچھ عقل لے لے۔ مکڑے نے سوچا: "مجھے پتا ہے کہ میں کیا کروں گا، میں اپنی عقل کو دنیا کے سب سے اونچے درخت کے اوپر چھپاؤں گا۔

آ کر اس کو ایک درخت ملا۔ یہ ریشمی سوت کا درخت تھا کہ جس کے نچلے حصے میں اس کی شاخیں زمین سے اتنی اوپر آ گئی تھیں کہ وہ ایک ہاتھی کو بھی چھپا سکیں۔ اس کا چکنا تنا اتنا موٹا تھا کہ اس میں مکڑے کا پورا گھر سماجائے۔ درخت کے اوپر کے حصے کی شاخیں بالکل چھتری کی طرح پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ شاخیں نرم چمکیلی پتیوں اور بہت اچھی روئی جیسی ایک چادر کی طرح دھنکی ہوئی تھیں۔

مکڑا چلایا: "یہ تو کچھ چھپانے کی زبردست جگہ ہے۔ اس پر تو کوئی بھی نہ چڑھ سکے گا، کیوں کہ اس کی شاخیں زمین کے قریب نہیں ہیں "۔

یہ دیکھ کر مکڑا دوبارہ اس جگہ گیا کہ جہاں اس نے اپنا عقل کا برتن رکھا ہوا تھا۔ پھر اس کو وہ اس گھنے درخت کے نیچے لایا۔ اب ریشمی سوت کے درخت پر چڑھنا بہت مشکل ہوتا ہے ، کیوں کہ وہ اوپری سطح تو بہت چکنی ہوتی ہے ، مگر مکڑے کو یقین تھا کہ وہ اس پر چڑھ جائے گا، اس کی وجہ یہ تھی کہ دوسروں کے مقابلے میں اس کی ٹانگیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ انسانوں کے پاس دو اور جانوروں کے پاس چار، لیکن مکڑے کے پاس آٹھ ہوتی ہیں۔

مکڑے نے عقل سے بھرے ہوئے رتن کو ایک مضبوط رسی کی مدد سے باندھ کر اپنے گلے میں لٹکا لیا تاکہ وہ اس کی نظروں کے سامنے ہی رہے۔ وہ درخت پر چڑھنے کے لے تیار ہو گیا۔ اس نے اپنی آگے کی دو ٹانگوں کو درخت کے تنے کے گرد جتنا دور تک جا سکتی تھیں، رکھا پھر اس نے اس کے بعد کی دو اگلی ٹانگوں کو برتن کے منھ کی طرف لپیٹ لیا۔ دو ٹانگوں کو برتن کے درمیانی حصے پر جمایا، آخری دو ٹانگوں کو برتن کے بالکل نیچے رکھا، لیکن برتن تو بہت بھاری تھا۔ آخر اس نے دنیا بھر کی عقل جو بھری ہوئی تھی۔

آہستہ آہستہ وہ اوپر کی جانب جانے لگا۔ عین اس وقت کہ جب وہ انتہائی خوشی محسوس کر رہا تھا، اچانک پھسل گیا۔ وہ گرا تو واپس زمین پر پہنچ گیا۔

مکڑے نے سوچا کہ میری آٹھ ٹانگیں ہیں، میں یقیناً اس درخت پر دوبارہ چڑھ سکتا ہوں، لہٰذا اس نے دوبارہ چڑھنا شروع کر دیا۔ وہ درخت کو جتنی مضبوطی کے ساتھ خود سے چمٹا سکتا تھا چمٹایا اور اپنی طاقت سے چڑھنا شروع کر دیا۔

برتن بہت بھاری تھا اور اس کی نچلی ٹانگیں اس کے وزن کو نہ سہار سکیں۔ اس بار بھی اس کی قمست پہلے کی طرح اچھی نہیں نکلی۔ وہ ایک بار پھر زمین پر آ گرا۔ مکڑا اب بہت فکر مند ہو رہا تھا۔ شاید اس کو غصہ بھی بہت آ رہا تھا۔ اس نے ایک دفعہ اور کوشش کرنے کا سوچا اور پہلے سیزادہ محنت سے اوپر کی طرف چڑھنے کی کوشش کی، لیکن پھر وہی ہوا اس کی ٹانگیں پھسلیں اور تھوڑی دیر میں وہ زمین پر آ گرا۔ مکڑا برتن اور عقل کے ساتھ چاروں شانے چت زمین آ گرا تھا۔ اس دوران مکڑے کا سب سے بڑا لڑکا "کما” یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔

 اس نے کہا: "ابو! مجھے ایک خیال آیا ہے ، کیوں نہ آپ اپنے آگے کے بجائے عقل کے برتن کو پیچھے لٹکا لیں۔ اس طرح آپ آسانی سے درخت پر چڑھ سکیں گے۔ جب مکڑے نے یہ سنا تو اسے معلوم ہوا کہ کما کے پاس بھی کچھ عقل ہے اور دنیا کی ساری دانائی صرف اسی کے پاس نہیں ہے۔ یہ سوچ کر اس کو اتنا غصہ آیا کہ اس نے عقل سے بھرے برتن کو زمین پر پٹخ دیا، جس سے وہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بکھر گیا اور عقل بھی نکل کر چاروں طرف پھیل گئی۔

اس سے ا تنا شور ہوا کہ اس کو دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ آنے لگے۔ گھروں سے بوڑھی عورتیں آ گئیں، کھیتوں سے مرد نکل کر آ گئے۔ چھوٹے لڑکے کھیل چھوڑ کر ادھر آ گئے اور چھوٹی

بچیاں بھی گڑیاں چھوڑ کر آ گئیں۔ جب سب نے دیکھا عقل برتن سے نکل کر چاروں طرف بہ رہی ہے تو انہوں نے تھوڑی تھوری اپنے لیے لے لی، یہاں تک کہ جانوروں نے بھی کچھ عقل لے لی۔ یہ سارے لوگ دنیا میں پھیل گئے۔ انڈیا، اسپین اور پناما۔ وہاں بھی جہاں ہمیشہ ٹھنڈ پڑتی ہے اور وہاں بھی جہاں ہمیشہ گرمی رہتی ہے۔ ہر ایک کے پاس کچھ عقل آ گئی، کیوں کہ وہ اتنی ساری تھی کہ ہر ایک کو آسانی سے مل سکتی تھی۔

٭٭٭

 

مزہ چکھائیں گے

ایک ندی تھی۔ اس کے کنارے ایک گاؤں تھا۔ اس گاؤں میں ایک حجام اور اس کی لڑکی رہتے تھے۔ حجام بڑا بے وقوف تھا۔ کوئی اپنے سر کے بال کاٹنے کے لیے کہتا تو وہ اس کا سر کاٹ لیتا۔ کوئی داڑھی مونڈنے کے لیے کہتا تو اس کی گردن کاٹ لیتا۔ کوئی مونچھ کاٹنے کے لیے کہتا تو اس کے ہونٹ کاٹ لیتا۔ تنگ آ کر گاؤں والوں نے اس سے بال کٹوانا چھوڑ دیا۔ حجام گاؤں والوں کے بال کاٹتا تھا اور گاؤں والے اس کو آٹا، دال اور چاول دیتے تھے۔ گاؤں والوں نے بال کٹوانا چھوڑ دیا تو آٹا، دال اور چاول دینا بھی بند کر دیا۔ اب حجام اور اس کی لڑکی کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہ رہا۔

حجام تو بڑا بے وقوف تھا، لیکن اس کی لڑکی بڑی عقل مند تھی۔ اس نے حجام سے کہا: "ندی پار جو راجا ہے ، اس کے پاس بہت رپیا ہے ، وہ غریبوں میں رپے بانٹتا ہے۔ جاؤ، تم بھی کچھ مانگ کر لے آؤ۔

حجام راجا کے دربار میں گیا۔ اس سے کہا۔ "ہجور! میں غریب ہوں۔ کچھ مجھ کو بھی مل جائے۔ "

راجا نے پوچھا۔ ” کیا چاہیے ?”

حجام نے کہا: "ہجور! جو بھی دے دیں۔ "

حجام نے کیا۔ "آخر کچھ بتاؤ تو، تمہیں کیا چاہیے ?”

راجا نے کہا: "ہجور! تھوڑی سی زمین دے دیجئے۔ "

راجا نے کہا: "جاؤ تمہارے گاؤں کے پاس جو جنگل ہے ، اس سے ملا ہوا جو کھیت ہے ، وہ میرا ہے ، وہی لے لو۔ "

حجام میاں خوش خوش گھر لوٹے۔ لڑکی نے پوچھا۔ "کیا لائے ?”

بولے : "زمین لایا ہوں، زمین۔ "

لڑکی نے خفا ہو کر کہا: "زمین کا کیا کرو گے۔ نہ ہل نہ بیل، کاہے سے جوتے گے ?”

حجام میاں کھسیانے ہو کر چپ رہے۔ لڑکی نے پوچھا۔ "اچھا! جاؤ، شموں کے ابا سے بونے کے لیے تھوڑا سا گیہوں مانگ لاؤ۔ ” حجام میاں گیہوں مانگ کر لے آئے۔

حجام نے پوچھا: "بیٹی! بیل تو ہیں نیہں، کھیت جوتیں گے کیسے ?”

لڑکی نے کہا: "ابا! تم میرے ساتھ کھیت چلو۔ ” دونوں جنگل کے کنارے کھیت میں پہنچے۔

لڑکی نے چپکے سے حجام کے کان میں کہا۔ "کھیت میں اس طرح چلو پھرو، جیسے کوئی چیز کھو گئی ہے اور ہم لوگ اسے ڈھونڈ رہے ہیں۔ ” یہ صلاح کر کے دونوں کھیت میں پھرنے لگے۔

پاس ہی ایک جھاری تھی۔ اس میں دس چور چھپے ہوئے تھے۔ ان دونوں کو کھیت میں کوئی چیز ڈھونڈتے دیکھ کر چوروں کا سردار ان کے پاس آیا اور پوچھا: "کیا ڈھونڈ رہے ہو?”

لڑکی نے کہا: "کچھ نہیں۔ "

چور نے کہا: "کچھ تو ہو گا، جس کو ڈھونڈ رہے ہو، مجھ سے کیوں چھپاتی ہو بیٹی? میں کوئی چور ہوں ?”

لڑکی نے کہا: ” میرے دادا نے اسی کھیت میں روپوں سے بھری چار دیگیں گاڑی تھیں۔ ان کو ہی ڈھونڈ رہی ہوں :” یہ سن کر چوروں کا سردار چلا آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد حجام اور اس کی لڑکی بھی اپنے گھر چلے گئے۔

جیسے ہی رات ہوئی، دسوں چور پھاوڑے سے لے کر کھیت میں پہنچے۔ ایک جگہ کھودا، دیگیں نہیں ملیں، دوسری جگہ کھودا، دیگیں نہیں ملیں۔ تیسری جگہ کھودا، دیگیں نہیں ملیں۔ غرض اسی طرح رات بھر میں سارا کھیت کھود ڈالا، لیکن دیگیں ہوں تو ملیں۔ سردار اور اس کے ساتھی لڑکی کو برا بھلا کہنے لگے۔ سب نے کہا "اچھا اس کا مزہ چکھائیں گے۔ "

دن نکلنے والا تھا، اس لیے چور وہاں سے بھاگ گئے۔

صبح ہوئی تو لڑکی اپنے باپ کو کھیت میں پہنچی، دیکھا کہ سارا کھیت کھدا کھدا یا موجود ہے۔ دونوں بہت خوش ہوئے۔ گیہوں کھیت میں بو دیا۔ کھیت خوب اچھا کھدا ہوا تھا۔ اس لیے فصل بھی بڑی اچھی ہوئی۔ حجام اور اس کی لڑکی گیہوں کاٹ کر گھر لائے۔ بڑا غلہ نکلا۔ ان کا گھر غلے سے بھر گیا۔

یہ بات سارے گاؤں میں پھیل گئی کہ بے وقوف حجام کے گھر میں بڑا غلہ ہے۔ چوروں نے بھی یہ بات سنی۔ سردار نے کہا۔ "یہ وہی حجام ہے ، جس کی لڑکی نے ہم کو بے وقوف بنایا تھا۔ اب مزہ چکھانے کا وقت آیا ہے۔ آج رات نقب لگا کر اس کے گھر میں گھس چلو اور سارا غلہ اٹھا لاؤ۔

لڑکی کو روز چوروں کا ڈر لگا رہتا تھا۔ اس لیے اسی کوٹھری میں سوتی تھی، جس میں غلہ تھا۔ آدھی رات ہوئی تو چوروں نے نقب لگانی شروع کی۔ کھڑکھڑ کی آواز سن کر لڑکی جاگ اٹھی۔ سمجھ گئی کہ چور نقب لگا رہے ہیں۔ ایک تیز استرا لے کر دیوار کے پاس چپکے سے کھڑی ہو گئی۔ جیسے ہی پہلے چور نے نقب میں سر نکالا۔ لڑکی نے استرے سے اس کی ناک کاٹ ڈالی۔ وہ "بوں بوں ” کرتا ہوا بھاگا۔ دوسرے چور نے سمجھا کہ اس کو کوئی اچھی سے چیز مل گئی ہے۔ تبھی اتنی تیزی سے بھا ا۔ لاؤ، میں بھی تو دیکھوں۔ یہ سوچ کر اس نے بھی اندر سر ڈالا۔ لڑکی نے جھٹ استرے سئے اس کی بھی ناک  کاٹ لی۔ وہ بھی "بوں بوں ” کرتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا۔ تیسرے نے سمجھا اسے بھی کوئی اچھی سی چیز مل گئی ہے۔ لاؤ میں بھی اندر آؤں۔ بس اس نے جھٹ اندر گردن ڈال دی۔ لڑکی تیار کھڑی تھی۔ جھٹ سے اس کی ناک بھی کاٹ لی۔ وہ بھی "بوں بوں ” کرتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا۔ اسی طرح دسوں نے اپنی گردن اندر ڈالی اور لڑکے نے دسوں کی ناک کاٹ لی۔

جب دسوں چور جھاڑی میں اکھٹے ہوئے تو دیکھا کہ سب کی ناکیں کٹی ہوئی ہیں۔ دسوں نک کٹوں نے قسم کھا کر کہا: "اس کا مزہ چکھائیں گے۔ "

تین چار روز بعد دسوں چور پھر حجام کے گھر کے پاس پہنچے۔ آدھی رات کو دیوار پھاند کر اندر کود پڑے۔ حجام کی لڑکی جاگ رہی تھی۔ دھم دھم کودنے کی آواز سنی تو فورا سمجھ گئی کہ چور ہیں۔ اپنے ابا سے پوچھنے لگی۔ "ابا مٹھائی کی ہنڈیا کہاں رکھی ہے۔ "

حجام نے کہا: ” وہ سامنے والی دیوار کے طاق میں رکھی ہے۔ "

لڑکی نے کہا: ” ابا! وہاں سے ہٹا لو۔ اتنی اچھی مٹھائی کوئی لے نہ جائے۔ "

حجام نے جواب دیا۔ "کون لے جائے گا بیٹی! میرے گھر میں کیا کوئی چور آتے ہیں ?”

لڑکی نے کہا۔ "اچھا رہنے دو۔ صبح اٹھ کر کھا لیں گے۔ "

چوروں نے مٹھائی کا نام سنا تو ان کے منھ میں پانی بھر آیا۔ جلدی مٹھائی کی ہنڈیا اٹھا جنگل کی راہ لی۔ اندھیرے میں سبھوں نے ہنڈیا میں ہاتھ ڈالا۔ ایک ایک مٹھی بھر کر منہ میں رکھا:

"آخ تھو۔ یہ تو گوبر ہے۔ "

اب تو ان کو بڑا غصہ آیا۔ سبھوں نے قسم کھائی کہ اس مرتبہ شریر لڑکی کو ضرور مزہ چکھائیں گے۔ دوسرے روز آدھی رات گئے دسوں پھر حجام کے گھر پہنچے۔ چپکے چپکے دیوار پھاند کر گھر میں داخل ہو گئے۔ حجام کے گھر میں ایک نیم کا پیٹر تھا۔ اس کی سوکھی پتیاں آنگن میں پڑی ہوئی تھیں۔ چور جب آہستہ آہستہ آگے بڑھے تو ان کے پیر پتیوں پر پڑے۔ چر مر چر مر آواز ہونے لگی۔ لڑکی کی آنکھ کھل گئی۔ فورا سمجھ گئی کہ یہ وہی دسوں چور ہیں۔ اپنے ابا سے پوچھا۔ "ابا! میرے زیور آپ نے کہاں رکھے ہیں، کہیں ایسی جگہ تو نہیں رکھے ہیں کہ چور لے جائیں ?”

حجام نے جواب دیا: "بیٹی! ایسی جگہ رکھے ہیں کہ چوروں کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہو۔ "

لڑکی نے پوچھا: "آخر کہاں رکھے ہیں آپ نے ?”

حجام نے بتایا "بیٹی ایک تھیلی میں رکھ کر نیم کی شاخ سے باندھ کر لٹکا دیے ہیں۔ کیا کبھی چوروں کو خبر ہوسکتی ہے بیٹی?”

لڑکی بولی۔ "کبھی نہیں ابا! عمر بھر نہیں پا سکتے۔ "

چور دل ہی دل میں لڑکی کی بے وقوفی پر ہنسے۔ سردار نے آہستہ سے کہا۔ "ہونہہ! عمر بھر نہیں پا سکتے۔ دیکھو، ابھی لے جاتا ہوں۔ "

یہ کہہ کر جلدی سے نیم کے درخت پر چڑھ گیا۔ اندھیرے میں شاخ میں تھیلی کی طرح لٹکتی ہوئی ایک چیز دکھائی دی۔ سردار نے اسے جلدی سے نوچا اور لے کر نیچے اترا۔ سب چور ٹٹول ٹٹول کر اسے دیکھنے لگے۔ اصل میں وہ چیز تھیلی نہیں تھی۔ بلکہ شہد کا چھتہ تھا۔ جیسے ہی چوروں نے چھتے کو ہاتھ لگایا، مکھیاں بھنا کر نکلیں اور چوروں کے جسم سے لپٹ گئیں۔ کوئی ادھر بھاگ رہا ہے۔ کوئی ادھر بھاگ رہا ہے۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ سب کے سب ناچ رہے ہیں۔ لڑکی اور اس کے باپ نے ایک ایک ڈنڈا اٹھایا اور چوروں کو دھائیں دھائیں پیٹنا شروع کیا۔ چور دیوار پھاند کر جنگل کی طرف بھاگے اور پھر کبھی نہیں کہا: "مزہ چکھائیں گے "۔

٭٭٭

 

زین اور بونے

               ناہید فاطمہ حسنین

زین نے اپنے دوست عزیر کے گھر میں پنجرے میں بند کبوتر کو دیکھ کر پوچھا: "تم نے اس کبوتر کو قید کیوں کررکھا ہے ؟”

عزیر نے بے پرواہی سے جواب دیا۔ "بس یوں ہی، مجھے پرندے پالنے کا شوق ہے۔ "

زین نے عزیر کو سمجھایا: ” نہیں دوست! یہ کوئی شوق نہیں، بلکہ پرندوں سے زیادتی ہے "۔

عزیر اپنی بات پر قائم رہا: ” یہ زیادتی کیسے ہوئی؟ میں اس کے کھانے پینے کا پورا خیال رکھتا ہوں اور اسے میں نے اپنی محنت سے شکار کیا ہے "۔

زین نے کہا: "اپنی مخلوق کو کھانا کھلانا تو اللہ کا کام ہے ، تم اسے اڑا دو۔ آزادی اسی طرح اس کا حق ہے ، جس طرح ہمارا۔ تم نے خواہ مخواہ اسے بند کر رکھا ہے۔ آزادی بہت بڑی نعمت ہے "۔ اس نے سفید براق کبوتر کی طرف محبت سے دیکھا۔

عزیر چپ رہا، اس کی سمجھ میں زین کی بات آ گئی، اس نے جھٹ سے پنجرا کھولا اور کبوتر کو اڑا دیا۔ کبوتر ہواؤں میں اونچا ہوتا چلا گیا۔ دونوں دوست خوش ہو کر اسے دیکھنے لگے۔

زین کوئی آٹھ نو سال کا بچہ تھا، مگر نہایت حاضر جواب۔ چیزوں کو بہت غور اور تجسس سے دیکھنے والا، ہر بات کا خودبخود نتیجہ نکالنے والا۔ کیا، کیوں اور کیسے ؟ یہ وہ سوالات تھے ، جو ہر وقت اس کے ذہن میں ہر چیز کے متعلق گردش کرتے رہتے تھے۔ اسے جانوروں اور پرندوں سمیت ہر جان دار سے محبت تھی۔ اس کا تعلقہ ایک غریب گھرانے سے تھا۔ ان کے ہاں ہفتے میں ایک دن گوشت پکتا تھا اور وہ زین کے لیے عید سے کم نہ ہوتا تھا۔ جب دال اور سبزی کی باری آتی وہ منھ بناتا۔ امی اسے بہت پیار سے سمجھاتیں :”دیکھو بیٹا! دال اور سبزی میں کتنے پروٹین اور وٹامن ہوتے ہیں۔ یہ چیزیں گوشت کی نسبت زیادہ طاقتور ہوتی ہیں۔ "

وہ منھ بسور کر کہتا: "مگر میں کیا کروں ؟ مجھے تو بس گوشت ہی پسند ہے۔ "

امی اس کے بال سنوارتے ہوئے کہتیں : "بیٹا! جو اللہ دے ، اسے صبر شکر سے کھالو۔ "

"دال سبزی کو دیکھ کر میں صبر ہی کرتا ہوں اور جس روز گوشت پکتا ہے ، میں شکر ادا کرتا ہوں، لہٰذا آپ کی کہی ہوئی بات پر پورا اترتا ہوں۔ ” اس کی حاضر جوابی پر امی مسکرا کر رہ جاتیں۔

تین خوبیاں اس میں ایسی تھیں۔ جس سے وہ اپنے دوستوں میں افضل دکھائی دیتا تھا۔ ایک تو وہ اپنی امی کی ہر بات مانتا تھا۔ دوسری خوبی اس میں سچ بولنے کی عادت تھی۔ وہ کبھی اور کسی حالت میں بھی جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ جھوٹ آج نہیں تو کل ضرور پکڑا جائے گا۔ پھر تیسری خوبی اس میں یہ تھی کہ وہ اپنے سے بڑے اور چھوٹے ، سب کی خلوصِ دل سے مدد کیا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ جانوروں اور پرندوں کا خیال رکھتا۔

ان کے گھر سے جنگل پندرہ منٹ کی مسافت پر تھا۔ وہ اکثر اپنے دوست عزیر کے ساتھ جنگل میں چلا جاتا، جہاں دونوں مل کر سائیکل چلاتے۔ کبھی بے مقصد بھاگ دوڑ کرتے۔ آج بھی وہ اور عزیر سائیکل چلا رہے تھے کہ زین کو دور کہیں سے گٹار بجنے کی آواز سنائی دی۔ گٹار اس کی کمزوری تھی۔ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گٹار کی آواز بہت توجہ سے سننے لگا۔ عزیر سائیکل کا لمبا چکر لینے کے لیے دور نکل گیا تھا۔ زین کے قدم خودبخود آواز کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ مغرب ہو چکی تھی۔ سردیوں کے دن تھے ، لہٰذا رات زیادہ گہری اور تاریک لگ رہی تھی۔ وہ گٹار کی آواز کے جادوں میں کھویا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ اسے ایک چھوٹا سا خیمہ نظر آیا۔ وہ بہت حیران ہوا۔ آواز خیمے کے اندر سے آ رہی تھی۔ خیمہ اتنا چھوٹا تھا کہ زین کو اس کی چھت صاف نظر آ رہی تھی، بلکہ وہ اس کی چھت پر ہاتھ بھی پھیر سکتا تھا۔ خیمے کا دروازہ اس طرح کھلا ہوا تھا جیسے وہاں رہنے والوں کو زین کی آمد کو پہلے سے علم ہو۔ زین نے جھک کر سر اندر کیا اور اگلے ہی لمحے وہ خیمے کے اندر پہنچ کر بے خیالی میں سیدھا کھڑا ہو گیا، مگر پھر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی، جب اس نے دیکھا کہ اندر سے خیمے کی چھت اتنی اونچی ہے کہ وہ ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا، وہ اس معاملے کو سلجھانے کی غرض سے باہر جانے کے لیے مڑا، مگر یہ کیا؟ اب اسے حیرت کا دوسرا جھٹکا لگا، کیوں کہ وہ راستہ جس سے وہ اندر آیا تھا، اب موجود نہ تھا۔

"یا خدا! دروازہ کہاں گیا؟” ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ گٹار بجنے کی آواز تھم گئی اور تالیاں بجانے کی آوازیں آنے لگیں۔ یوں جیسے ننھے بچے تالیاں بجا رہے ہوں۔

وہ واپس جانے لگا تو خیمے کے اندر سے آواز آئی۔ "اندر آ جاؤ۔ ” اس نے آواز کی طرف دیکھا تو کونے میں ایک بوڑھا بونا بیٹھا نظر آیا۔

زین حیرت سے پلکیں جھپکانے لگا۔ پھر اسے برابر ہی میں تین بونے اور نظر آئے۔ ایک اور بونا کافی فاصلے پر گٹار لیے بیٹھا تھا۔ یقیناً گٹار وہی بجا رہا تھا۔

بوڑھے بونے نے ناگواری سے پوچھا۔ : "تم یہاں تک کیسے آئے ؟”

عادت کے مطابق زین نے شرارت سے کہا: "پیروں سے چل کر۔ "

بوڑھا بونا سخت غصے میں بولا: "مذاق مجھے پسند نہیں۔ سچ سچ بتاؤ؟”

زین بھی سنجیدہ ہو گیا۔ "دراصل گٹار کی آواز سن کر خود کو روک نہ سکا اور یہاں تک آ گیا۔ "

گٹار والے بونے نے نرمی سے پوچھا: "کیا تمہیں گٹار بہت پسند ہے ،

زین آہستگی سے بولا "جی! گٹار مجھے بہت پسند ہے۔ یہ بہت مہنگا ہوتا ہے اور ہم غریب ہیں، اس لیے خرید نہیں سکتے۔ ” زین کی نظریں اب بھی گٹار پر جمی تھیں۔

گٹار والے بونے نے کھلونے جیسا گٹار زین کے سامنے رکھتے ہوئے کہا: "یہ لو اور اسے بجاؤ۔ "

زین آہستہ آہستہ چلتا ہوا گٹار والے بونے تک پہنچ گیا اور بولا: "مگر مجھے بجانا نہیں آتا۔ "

اب کی بار بوڑھا، جو غالباً ان کا سردار تھا، نرمی سے بولا: یہ کوئی عام گٹار نہیں ہے۔ تم صرف انگلیاں چلاؤ، باقی کام یہ گٹار خود کرے گا۔ "

زین نے شکریہ کہہ کر گٹار بجانا شروع کیا تو واقعی اس میں سے سریلی آواز نکلنے لگی۔ زین خوشی اور حیرت کے مارے باری باری سب بونوں کو دیکھنے لگا۔ وہ سب مشفقانہ انداز میں سر ہلا کر اسے شاباشی دے رہے تھے۔ کافی دیر تک گٹار بجانے کے بعد اچانک زین چونک کر کھڑا ہو گیا: "مجھے اب چلنا چاہیے ، میری امی انتظار کر رہی ہوں گی۔ "

بوڑھے سردار نے زین سے کہا: "تم ہمارے مہمان ہو، لہٰذا ہماری مرضی سے ہی جا سکتے ہو، تھوڑی دیر میں ایک بونا اٹھ کر ایک طرف کو گیا اور پھر پلٹ کر واپس آیا۔ اب وہ سب کو کھانے کی دعوت دے رہا تھا۔

"مگر میری امی میرا انتظار کر رہی ہوں گی۔ ” بہت دیر ہو گئی تھی، زین واقعی پریشان ہو رہا تھا۔

"تم فکر مت کرو۔ ابھی وقت زیادہ نہیں گزرا ہے۔ تمہاری امی پریشان نہیں ہوں گی، ان شاء اللہ۔ ” سردار نے اسے تسلی دی اور سب کو لے کر کھانے کے کمرے میں چلا آیا۔

چھوٹی سی میز پر گرما گرم سوپ کے ساتھ بہت عمدہ اور لذیذ گوشت رکھا تھا۔ زین نے خوب پیٹ بھر کر کھایا۔ ایک بات جو بہت حیرت انگیز تھی، وہ یہ کہ چھوٹے سے برتن میں سوپ اور گوشت اسی وقت ختم ہوا، جب زین کا پیٹ بھر گیا، ورنہ کھانے سے پہلے وہ سوچ رہا تھا کہ یہ کھانا تو میرے ایک نوالے کے برابر ہو گا۔

بونے سردار نے زین کی سوچ پڑھ لی تھی، وہ بہت محبت سے بولا: "ہم عام لوگ نہیں ہیں۔ ہم زمین کے اندر رہنے والی مخلوق ہیں۔ ہماری ہر چیز تم لوگوں سے جدا اور مختلف ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے باہر سے خیمہ اتنا چھوٹا ہے کہ تم اس کی چھت دیکھ رہے تھے اور اندر سے اتنا بڑا اور اونچا ہے کہ تم اس کی چھت کو چھو بھی نہیں سکتے۔ "

زین چونکا تو ضرور، مگر یہ وقت چونکنے کا نہ تھا۔ وہ جانے کے لیے کھڑا ہوا تو گٹار والا بونا آگے بڑھ کر کہنے لگا۔ "یہ گٹار میری طرف سے تمہارے لیے تحفہ ہے۔ "

زین کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اس نے شکریہ ادا کیا، اسی وقت دوسرا بونا آگے بڑھا اور اسے ایک عام سی، مگر بے حد خوب صورت پنسل دیتے ہوئے بولا: "تم اس پنسل سے جو کچھ بھی لکھو گے ، وہ تمہیں یاد ہو جائے گا۔ "

پھر تیسرا بونا آگے بڑھا۔ اس نے لکڑی کی کھڑاویں دیتے ہوئے کہا: "یہ جادوئی کھڑاؤں ہیں، تمہیں اپنی منزل پر منٹوں میں پہنچا دیں گی۔ "

چوتھے بونے نے اسے ایک ہانڈی دیتے ہوئے کہا: "تمہیں اس میں روزانہ نئے ذائقے کا کھانا پکا ہوا تیار ملا کرے گا۔ ” آخر میں ان کا سردار آگے بڑھا اور ایک چھوٹا سا بکس دیتے ہوئے کہنے لگا: "اس میں ہمیشہ اتنے روپے موجود رہیں گے ، جو تمہاری ضرورت پوری کر سکیں گے۔ "

زین اتنی ساری چیزیں لے کر حیران و پریشان انہیں دیکھ رہا تھا کہ بونوں کا سردار بولا: "یہ سب انعام تمہیں اس صلے میں مل رہا ہے کہ تم جانوروں اور پرندوں سے محبت کرنے والے بچے ہو۔ تم نے اس دن جس کبوتر کو پنجرے سے آزاد کروایا تھا، وہ کبوتر دراصل گٹار بجانے والا بونا تھا، جو کبوتر بن کر انسانی آبادی میں چلا گیا تھا۔ تمہارے دوست نے اسے قید کر لیا تھا، پھر تم نے اسے آزاد کروایا۔ یاد رکھو، نیکی خواہ چھوٹی ہو یا بڑی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ "

زین حیران ہونے کے ساتھ ساتھ خوش بھی ہو رہا تھا۔ اس نے سب کا شکریہ ادا کیا اور سامان سمیٹ کر باہر نکل آیا، مگر باہر آ کر اسے ایسا محسوس ہوا، جیسے اسے آئے ہوئے تھوڑی ہی دیر گزری ہے ، دور عزیر سائیکل چلا رہا تھا، اس نے پلٹ کر خیمے کی طرف دیکھا: "ہیں یہ کیا؟” خیمہ غائب تھا۔ اسے حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا۔ کیا وہ کوئی خواب دیکھ رہا تھا۔ اس نے آنکھیں ملیں، مگر ہاتھ میں موجود تحائف بتا رہے تھے کہ اس نے کوئی خواب نہیں دیکھا جو کچھ تھا، سمجھ میں نہ آنے والا سچ تھا۔

٭٭٭

 

ہم نے پکڑا چور

               سارہ الیاس

والدہ محترمہ کا فرمانِ عالی شان تھا: "جب سے لڑکا امتحان سے فارغ ہوا ہے ، خوانچہ فروشوں کی آمدنی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ” اس جملے میں سیاق و سباق یہ ہے کہ ہم میٹرک کے امتحانات سے فراغت پا کر رزلٹ کا انتظار فرما رہے تھے اور انتظار کی اس کوفت سے بچنے کے لیے کباڑیے کی دکان سے پچیس تیس جاسوسی اور پانچ چھے اصلاحی ناول لے آئے تھے اور ان کو پڑھ کر وقت گزار رہے تھے اور والدہ کے خیال میں ہم وقت گنوا رہے تھے۔ اس بری عادت کا کیا کیجیے کہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ کچھ کھانا بھی ضرور ہے !

خیر! ہم معمول کی کارروائی کے لیے بابو چھولے والے کے پاس پہنچے۔ دکان پر ہجوم بہت تھا۔ ہم ساتھ والے باغ میں چلے گئے۔ سرسبز درخت کے نیچے بیٹھ کر ناول کے انجام کو سوچنے لگے۔ ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ ایک ننھی سی پری نما بچی پر نظر پڑی۔ اس کی پھولی سانسیں اور روتی آنکھیں دیکھ کر ابھی ہم نے غور کیا ہی تھا کہ ایک آدمی درخت کے پیچھے سے نکلا اور بچی کی طرف بڑھنے لگا۔ ہم ابھی معاملے کی نوعیت کا اندازہ لگانے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ بچی چیخی: "آپ پھر مجھے پکڑ لیں گے۔ "

بچی پارک سے نکل کر باہر کی طرف دوڑ پڑی۔ وہ آدمی بھی اس کے پیچھے نکلا۔ بچی کے فقرے سے ہم نے اندازہ لگایا کہ یہ شخص بچی کو اغوا کرنا چاہتا ہے۔ ہم اس کے پیچھے چلنے لگے۔ بچی آگے جا کر رک گئی تھی، لیکن اس آدمی کو دیکھ کر پھر دوڑنے لگی۔ ہم چوکنا ہو گئے اور ان دونوں کا پیچھا جاری رکھا۔ بچی اچانک ایک سنسان موڑ پر مڑی اور وہ آدمی بھی اس کے پیچھے وہیں پہنچ گیا۔ آدمی نے جیب سے چاکلیٹ نکالی اور بچی کو دینے لگا۔ لڑکی نے چاکلیٹ لے کر کھا لی۔ وہ آدمی لڑکی کو کندھے پر اٹھا کر چل پڑا۔ ہم نے پختہ ارادہ کر لیا کہ اس معصوم جان کو اس درندے سے بچانا ہے۔ ہم پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ وہ شخص پارک کے نزدیک ایک چھوٹے سے گھر میں داخل ہو گیا۔ اس گھر کا انداز صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا رہا تھا۔ گھر زیر تعمیر لگ رہا تھا۔ سامنے برگد کا گھنا درخت تھا جو گھر کو ڈھانپے ہوئے تھا۔

اب ہم سوچ رہے تھے کہ کیا کریں، کیوں کہ نہ تو کوئی سب انسپکٹر ہمارا انکل تھا اور نہ ہم کسی ایس پی کے بیٹے تھے کہ موبائل پر اطلاع کرتے اور فوراً پولیس پہنچ جاتی۔ آخر ہم امام مسجد کے پاس گئے۔ وہ عبادت میں مشغول تھے۔ ہم قریب بیٹھ گئے۔ بار بار ہمارے ذہن میں بچی اور وہ شخص آ جاتا۔ نامعلوم بچی پر کیا گزر رہی ہو گی۔ ہم پہلو پر پہلو بدل رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ہم نے امام صاحب کو سارا قصہ سنایا تو بولے : "مجھے اس گھر تک لے چلو۔ "

جب ہم انہیں لے کر وہاں پہنچے تو ان کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ ہمیں بہت حیرت ہوئی۔ انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو دروازہ ایک بچے نے کھولا۔ وہ ہمیں لیے ہوئے بیٹھک میں آئے۔ ہمارا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ وہ ہمیں بیٹھک میں بٹھا کر اندر چلے گئے۔ عجیب وسوسے اور خیالات پریشان کر رہے تھے اور قریب تھا کہ ہم وہاں سے بھاگ نکلتے امام صاحب بیٹھک میں داخل ہوئے۔ ان کے پیچھے وہی شخص تھا، جو بچی کو اغوا کر کے لایا تھا۔ مارے خوف کے ہماری گھگھی بند گئی۔ امام صاحب نے پوچھا: "یہی ہے وہ ڈاکو؟”

بڑی مشکل سے ہماری منھ سے نکلا: "جی ہاں۔ "

وہ دونوں قہقہے لگانے لگے۔ ہم پریشان ہو گئے کہ کہیں امام صاحب بھی…. لیکن نہیں۔ اچانک وہی بچی شربت لیے ہوئے اندر داخل ہوئی اور امام صاحب سے بولی۔ "دادو! امی کہہ رہی ہیں کہ ابو سے کہیں کہ سبزی لا دیں۔ "

ہم حیران رہ گئے۔ امام صاحب بولے۔ "برخوردار! یہ ڈاکو میرا بیٹا ہے اور یہ میری پوتی رانی ہے ، جو پارک میں اپنے ابو کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ "

اب کمرے میں پھر سے قہقہے گونجنے لگے اور ہم جھینپ کر مسکرا دیے۔

٭٭٭

 

قلعے کا قید خانہ

               مصباح منظور

بیٹا جانوروں کو تنگ نہیں کرتے۔ ہمیں ان کا خیال رکھنا چاہیے۔ "دادا جان نے مسکرا کر اپنے پوتے کو سمجھایا، جو ایک بلی کے بچے کی دم کھینچ رہا تھا، جو بے بسی سے ادھر ادھر پنجے مار رہا تھا۔

اپنے داد کی بات سن کر پوتے نے بلی کے بچے کی دم چھوڑی اور ان کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا: دادا جان! جانور تو بے زبان ہوتے ہیں۔ اگر ہم انہیں تنگ کریں یا ماریں تو یہ ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ یہ تو ہم سے بہت کمزور ہیں۔ "

دادا جان نے یہ سن کر ایک گہرا سانس لیا۔ ابھی وہ کچھ کہنے ہی والے تھے کہ ان کے پوتے سنی کا دوست رابی آ گیا اور دادا جان کو سلام کر کے سنی کے ساتھ بیٹھ گیا۔ سنی رابی کو اپنی کارروائی اور دادا جان کی نصیحت کے بارے میں بتانے لگا۔ رابی نے بھی حیرت کا اظہار کیا۔ دادا جان پہلے خاموشی رہے اور پھر بولے : "ٹھیک ہے ، تم میری بات پر یقین نہیں کرتے تو میں تمہیں ایک سچا واقعہ سناتا ہوں۔ "

رابی اور سنی پہلے ہی قصے کہانیاں سننے کے شوقین تھے ، اس لیے فوراً وہ قصہ سننے کے لیے تیار ہو گئے۔ دادا جان نے واقعہ سنانا شروع کیا: "یہ آج سے چالیس برس پہلے کی بات ہے ، جب دو دوست ایک شہر میں رہتے تھے۔ ان میں سے ایک جس کا نام ثاقب تھا، جانوروں سے بہت پیار کرتا تھا اور ان کا بہت خیال رکھتا تھا، مگر دوسرے دوست جمشید کا مزاج اور خیالات ثاقب سے مختلف تھے۔ ان دونوں نے اکٹھے یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کی اور پھر ثاقب کو محکمہ آثار قدیمہ میں نوکری مل گئی۔

جمشید کو پرانے قلعے اور عمارتیں دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ جب اسے پتا چلا کہ ثاقب کی ڈیوٹی ایسی جگہ لگی ہے ، جہاں کوئی پرانا شہر اور قلعہ دریافت ہوا ہے تو وہ چند روز کے اندر اندر ثاقب کے پاس پہنچ گیا۔ ثاقب اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اسے پرانے شہر کی عمارتیں دکھانے کے لیے لے گیا۔ جب وہ واپس آ رہے تھے تو ایک عجیب واقعہ ہوا۔ ایک جگہ انہوں نے گاڑی روکی۔ جمشید گاڑی سے اترا اور جب اس نے مڑ کر دروازہ بند کیا تو اسے ایک چیخ سنائی دی۔ اس نے چونک کر دیکھا تو بلی کا ایک بچہ جو نہ جانے کہاں سے آ کر گاڑی میں گھسنے کی کوشش کرہا تھا، اس کی ٹانگ دروازے میں آ کر کچل گئی۔ ثاقب نے گاری سے اتر کر فوراً بلی کے بچے کو اٹھایا اور قریبی ڈاکٹر کے پاس لے جا کر اس کی مرہم پٹی کروائی اور گھر لے آیا۔ جمشید کو اس بات پر کوئی افسوس نہیں ہوا، بلکہ اس نے ثاقب کا بہت مذاق اڑایا تھا۔

ثاقب اور جمشید اس بات سے بے خبر تھے کہ کوئی ان کا خاموشی سے پیچھا کر رہا ہے۔ یہ ایک بلی تھی۔ اس بلونگڑے کی ماں جس کی ٹانگ جمشید کی بے پروائی سے کچل گئی تھی۔ گھر آ کر ثاقب نے بلی کے بچے کو ایک ٹوکری میں بٹھا دیا اور اس کے لیے دودھ لینے چلا گیا۔ واپس آیا تو اس نے ایک بلی کو دیکھا۔ جو اس بلونگڑے کو چاٹ رہی تھی، ثاقب نے دودھ رکھا اور خاموشی سے چلا گیا۔

کئی دن گزر گئے۔ بلی کا بچہ اب آہستہ آہستہ چلنے لگا تھا اور بلی بھی وہیں رہنے لگی تھی۔ ثاقب کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔ ایک دن ثاقب نے جمشید کے ساتھ قلعے کی سیر کا پروگرام بنایا۔ جمشید تو بہت ہی خوش ہوا، کیوں کہ قدیم اور تاریخی جگہوں کی تصویریں لینا تو اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ قلعے میں پہنچ کر وہ دونوں دیر تک وہاں گھومتے رہے۔ سارا قلعہ دیکھنے کے بعد اب صرف ایک جگہ باقی رہ گئی تھی۔ جو قلعے کی جان تھی، یعنی قلعے کا قید خانہ۔ جلد ہی دونوں قید خانے آ گئے۔

قید خانے کا لوہے کا دروازہ بہت بڑا تھا۔ مگر اتنے عرصے کے بعد اتنا ہلکا تھا کہ ایک آدمی بھی آسانی سے اسے دھکیل کر کھول سکتا تھا۔ اس جگہ جہاں دشمن ملکوں کے جاسوسوں اور مجرموں کو سزائیں دی جاتی تھیں۔ طرح طرح کی خوفناک مشینیں اور عجیب و غریب اوزار تھے۔ جنہیں دیکھتے ہی اندازہ ہوتا تھا کہ یہاں مجرموں کے ساتھ کتنا ظالمانہ سلوک کیا جاتا ہو گا۔

پھر ایک جگہ پہنچے جہاں سزائے موت کے آلات تھے۔ وہاں کا منظر اتنا دہشت ناک تھا کہ ثاقب کے جسم میں سنسنی کی لہریں دوڑنے لگیں۔ وہاں ایک بڑی مشین تھی۔ جو دو حصوں پر مشتمل تھی۔ ایک حصہ بڑی میز پر مشتمل تھا، جس میں سوراخ تھے اور اس کا دوسرا حصہ میز کے عین اوپر زنجیر سے لٹکا ہوا تھا۔ اس میں لوہے کی بڑی بڑی نوک دار سلاخیں لگی ہوئی تھیں اور یہ سلاخیں تقریباً تین فیٹ لمبی تھیں۔ اس کی زنجیر ایک جانب کی دیوار میں ایک کنڈے سے بندھی ہوئی تھی۔ جمشید نے جیسے ہی اس زنجیر کو کنڈے سے الگ کیا تو ایک زور دار آواز کے ساتھ وہ سلاخوں والا ڈھکن میز پر آ گرا اور اس کی نوک دار سلاخیں میز کے سوراخ سے گزر گئیں۔

یہ خوفناک منظر دیکھ کر وہ دونوں ساکت رہ گئے۔ صاف ظاہر تھا کہ سوراخوں والی میز پر مجرم کو لٹا کر باندھ دیا جاتا ہو گا اور پھر اوپر سے سلاخوں والا ڈھکن اس پر آ گرتا ہو گا۔ سلاخیں مجرم کے جسم میں سے گزر جاتی ہوں گی۔ یقیناً اتنی بھیانک موت کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دینے والا تھا۔

جمشید نے زنجیر کھینچ کر دوبارہ کنڈے میں پھنسا دی۔ اچانک جمشید اس لوہے کی میز پر لیٹ گیا اور ثاقب سے بولا: "ثاقب تم زنجیر آہستہ آہستہ چھوڑو اور ڈھکن آہستہ آہستہ نیچے لاؤ۔

میں موت کی اس کیفیت کو محسوس کرنا چاہتا ہوں، جو یہاں سزا پانے والے مجرم کی ہوتی تھی۔ "

ثاقب یہ سن کر حیران ہوا اور جمشید کو اس کی بے وقوفی پر ڈانٹنے لگا، مگر جمشید کی ضد سے مجبور ہو کر اس کی بات ماننے پر راضی ہو گیا۔ ثاقب آہستہ آہستہ وہ ڈھکن نیچے لانے لگا اور پھر جمشید کے جسم سے ایک فٹ کے فاصلے پر لا کر اسے واپس اوپر کرنے لگا۔ اس نے جمشید کو آواز دی "اب اٹھ جاؤ جمشید۔ "

جمشید نے اٹھنے سے انکار کر دیا اور ڈھکن کو مزید نیچے لانے کا کیا، لیکن ثاقب نے ایسے کرنے سے سختی سے انکار کر دیا۔ ابھی جمشید میز پر اٹھنے ہی لگا تھا کہ نہ جانے کہاں سے وہی بلی جو کہ اس بلونگڑے کی ماں تھی جسے جمشید نے زخمی کیا تھا، ثاقب پر جھپٹی۔ اس سے پہلے کہ ثاقب سنبھلتا، زنجیر اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور وہ آہنی ڈھکن تیزی سے نیچے آ گرا۔ جمشید نے بچنے کی لاکھ کوشش کی، مگر اس کی ایک ٹانگ دو سلاخوں کی زد میں آ گئی، اس کی درد بھری چیخ سے قلعہ گونج اٹھا۔

کسی نہ کسی طرح ثاقب جمشید کو فوراً اسپتال لے آیا تھا۔ اس کی جان تو بچ گئی تھی، مگر ایک ٹانگ ناکارہ رہ گئی۔ یوں ایک بے زبان جانور نے اپنے بچے کے زخمی ہونے کا انتقام جمشید سے لے لیا تھا۔ ڈاکٹروں کو جمشید کی زخمی ٹانگ کاٹنی پڑی اور اسے مصنوعی ٹانگ لگا دی گئی۔ اب وہ لنگڑا کر چلتا ہے۔ ثاقب ملازمت سے استعفٰی دے کر واپس اپنے شہر آ گیا۔ اسے اپنے دوست کے حال پر بہت افسوس تھا اور ملال تھا کہ اس نے جمشید کی بات کیوں مانی۔ "

یہاں تک قصہ سنا کر داد جان خاموش ہو گئے۔ سنی اور رابی جو سانس روکے یہ قصہ سن رہے تھے ، ایک دم گویا ہوش میں آ گئے۔

سنی بولا: "دادا! ہم کیسے مان لیں کہ یہ بات سچ ہے ؟” رابی نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔

اس بات پر دادا جان نے اپنی ٹانگوں پر پڑا ہوا کپڑا ہٹا دیا۔ اب حیران ہونے کی باری سنی اور رابی کی تھی۔ دادا جان کی ایک ٹانگ ران تک غائب تھی۔

وہ دونوں یہ بات جانتے تھے ، لیکن ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ شخص، یعنی جمشید دادا جان ہی ہوں گے۔ سنی نے تھوک نگلتے ہوئے سوال کیا "مم…. مگر اس آدمی کا نام تو جمشید تھا؟”

اس بار دادا جان مسکرائے : "شاید تمہیں میرا پورا نام نہیں معلوم۔ میرا نام ناصر علی جمشید ہے اور وہ جو انکل حشمت مجھ سے ملنے آتے ہیں وہ حشمت ثاقب ہیں۔ "

یہ بتا کر دادا جان نے آنکھیں بند کر کے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی۔

رابی اور سنی شاید دل میں ارادہ کر رہے تھے کہ آئندہ وہ کسی جانور کو نہیں ستائیں گے ، کیوں کہ بعض اوقات اس کا بہت برا نتیجہ نکلتا ہے۔

٭٭٭

 

شکریہ

               مظہر یوسف زئی

وہ میرے دفتر میں بڑی بے نیازی سے داخل ہوا۔ وہ کوتاہ قد تھا۔ جسمانی ساخت منحنی تھی۔ بال الجھے ہوئے تھے۔ کپڑے بھی کوئی خاص نہ تھے مگر اس کی آنکھوں میں بلا کی چمک تھی۔ آتے ہی اس نے با آواز بلند السلام علیکم کہا اور کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھ گیا۔ میں نے نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا دیا۔ میں نے کہا "فرمائیے ؟” بغیر کوئی تمہید باندھے وہ کہنے لگا: "آپ مجھے سو روپے دے دیجئے۔ میں شام کا اخبار خرید کر نیچے چوراہے پر بیچا کروں گا۔ ایک ہفتے میں آپ کے پیسے واپس کر دوں گا۔ اس عرصے میں جو پیسے کماؤں گا۔ اس سے یہ کاروبار جاری رکھوں گا”۔

میں نے کہا۔ "میاں صاحبزادے ! نہ جان نہ پہچان۔ میں سو روپے تمہیں کیسے دے دوں۔ کسی جاننے والے سے مانگو” وہ کہنے لگا: "جاننے والوں میں رحم دلی ختم ہو گئی ہے۔ ان کے پاس نشتر زنی رہ گئی ہے۔ اب تو ہمدردی اور درد مندی نہ جاننے والوں میں پائی جاتی ہے۔ اسی لیے میں نے آپ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ ” یہ کہتے ہوئے وہ جانے کے لیے کھڑا ہونے لگا

میں نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا: تم نے دروازہ کب کھٹکھٹایا تھا؟ تم تو میرے دفتر میں گھسے چلے آئے۔ ” "دل نے کہا تھا۔ اس دفتر میں چلو۔ سو میں آ گیا۔ ” اس نے بڑی پروائی سے جواب دیا۔

"تمہارے والد صاحب کوئی کام کاج نہیں کرتے کیا؟” میں نے یوں ہی کھوج لگانے کے لیے پوچھ لیا۔

"کام کاج کرتے ہوتے تو میں آپ کے سامنے دست سوال دراز کرتا!” اس کے لہجے میں مایوسی تھی۔

میں نے اپنے سوال کی چبھن کو زائل کرنے کے لیے اس سے کہا: گفتگو سے تم تہذیب یافتہ معلوم ہوتے ہو۔ زبان بھی فصیح و بلیغ استعمال کرتے ہو”۔

"زبان تو کہیں گھر کی لونڈی ہوتی ہے اور کہیں اسے ماں کا رتبہ دے کر اس کی بڑائی کا احترام کیا جاتا ہے۔ ماں تو ماں ہوتی ہے۔ اس کے پیروں تلے تو جنت ہوتی ہے۔ یہ ماں ہی ہے جس کی وجہ سے میں آپ کے دفتر میں چلا آیا اور بغیر سوچے سمجھے آپ سے سوال کر بیٹھا”۔ یہ کہتے ہوئے اس نے آنکھیں نیچی کر لیں۔ میں نے گھنٹی بجائی اور ایک گلاس پانی اور چائے منگوائی_´

چائے پیتے ہی اس نے توانائی محسوس کی۔ بتلانے لگا: گھر سے کھائے پیئے بغیر نکل آیا تھا۔ دراصل میرے باپ نے میری ماں کا وہ سہارا بھی بیچ دیا جس سے گھر کی دال روٹی چلتی تھی۔ ماں کے پاس سلائی مشین ہی بچی تھی جس سے وہ کپڑے سی کر خرچہ چلاتی تھی”۔ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد اس نے بتایا۔ "میرے والد کو منشیات کی لت پڑ گئی ہے۔ گھر کی ہر چیز اونے پونے بیچ کر اپنا نشہ پورا کرتے ہیں۔ میری ماں کی خواہش تھی کہ میں اپنے ماموں کی طرح اردو میں ایم اے کروں مگر گھر کے حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ میں میٹرک کے بعد تعلیم جاری نہ رکھ سکا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ تعلیم قسمت کی دین ہوتی ہے "۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ اسی اثنا میں فون کی گھنٹی بجی اور میں فون سننے لگا۔ فون بند ہوا تو میں نے کہا۔ "صاحبزادے ! یہ کس نے بتایا کہ تعلیم قسمت کی دین ہے ؟ نہیں بھئی! تعلیم قسمت کی دین نہیں بلکہ یہ لگن اور جدوجہد کے نتیجے میں ملتی ہے۔ کراچی میں تو ایسے تعلیمی ادارے کھلے ہوئے ہیں کہ رات میں تعلیم حاصل کیجئے اور پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے امتحان دیجئے۔ اس شہر میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں نے ایف اے سے ایم اے تک پرائیویٹ طور پر تعلیم حاصل کی اور بعد میں "پی۔ ایچ۔ ڈی” کی ڈگری بھی لے ڈالی”۔ میں نے بٹوے سے سو روپے کا نوٹ نکالا اور اسے دیتے ہوئے کہا۔ "میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے نیک مقصد میں کامیاب و کامران کرے "۔

خوشی کے مارے اس کی باچھیں کھل گئیں اور سو روپے کے نوٹ کو تھامتے ہی وہ کٹی پتنگ کی طرح لہراتا ہوا نیچے اتر گیا۔ اس کے جانے کے بعد مجھے خیال ہوا کہ اس کا نام پوچھنا تو بھول ہی گیا۔ پھر ایک خیالِ فاسد نے مجھے آ گھیرا۔ "شاطر لڑکا تھا۔ اپنا ہاتھ صاف کر گیا”۔

ٹھیک ایک ہفتے کے بعد دفتر کے ایک رکن نے مجھے ایک لفافہ دیا اور بتایا کہ ایک لڑکا آیا تھا۔ یہ لفافہ دے کر کہنے لگا۔ "نام تو معلوم نہیں مگر وہ صاحب اس کمرے میں بیٹھے ہیں۔ ” لفافے میں سو روپے کا نوٹ تھا۔ میں یہ سوچ کر ہنسنے لگا کہ چلو اسے بھی میرا نام نہیں معلوم۔

بات آئی گئی ہو گئی اور بات کچھ ایسی اہم بھی نہ تھی کہ اسے یاد رکھا جاتا۔ ہمارا دفتر بھی دوسری جگہ منتقل ہو گیا۔ بہت سے راتیں بدلیں اور کئی سال آنکھ جھپکتے ہی گزر گئے۔ ہر برس ساون بھادوں کے مہینے بھی آئے اور یوں ہی خشک گزر گئے مگر اس سال جو ساون آیا تو اس نے تو صحرا تھر پار کر تک کی پیاس بجھا دی۔ کراچی شہر کی سڑکیں اور گلی کوچے جل تھک ہو گئے۔ بسیں اور منی بسیں چلنا بند ہو گئیں۔ ٹیکسی اور رکشے بھی غائب ہو گئے اور کوئی ٹیکسی نظر بھی آتی تو چھلاوے کی طرح اوجھل ہو جاتی یا پھر منہ مانگے دام پر تکرار ہوتی۔

میں سواری کے انتظار میں کھڑا ہوا تھا کہ غیبی امداد ہوئی۔ ایک ٹیکسی میرے قریب آ کر رک گئی۔ میں نے پوچھا۔ ” ٹی گراؤنڈ” چلو گے۔ ڈرائیور نے مجھے دیکھے بغیر خاموشی سے پچھلا دروازہ کھول دیا۔ اب جو ٹیکسی چلی ہے تو چلتی ہی چلی گئی۔ گھومتے گھماتے اور گہرے پانی سے بچتے بچاتے ایک فرسنگ کا فاصلہ دس کلو میٹر جا پہنچا۔ میں یہ سوچ کر خاموش رہا کہ کبھی یہ تو ٹیکسی والوں کا عام وتیرہ ہے۔ کبھی میٹر تیز رکھتے ہیں اور کبھی لمبا چکر کاٹتے ہیں۔ بہرحال میں خیریت سے گھر پہنچ گیا۔ بوندا باندی اب بھی ہو رہی تھی۔ میری بیوی اور بچے آہنی دروازہ کھولے بے چینی سے میرا انتظار کر رہے تھے۔ میں ٹیکسی سے اتر کر چھجے کے نیچے آیا۔ بٹوہ کھولتے ہوئے میں نے پوچھا۔ "کیا پیش کروں بھائی؟” ڈرائیور نے میری بات سنی ان سنی کی اور ٹیکسی "اسٹارٹ” کر کے یہ جا وہ جا۔ گلی کے نکڑ سے ٹیکسی نکلنا چاہتی تھی کہ سامنے سے ایک گاڑی آ گئی اور ٹیکسی رک گئی۔ میں نے چلا کر اپنے بیٹے سے کہا۔ "بھاگ کر جاؤ۔ ٹیکسی والے نے پیسے نہیں لیے۔ اس میں میرا بیگ تو نہیں رہ گیا وہ اسے لے کر تو نہیں بھاگ رہا”۔ میرے بیٹے نے اسے جا لیا۔ میری چھوٹی بیٹی نے ہنس کر کہا۔ "ابّا آپ کا بیگ تو آپ کے ہاتھ میں ہے اس بیچارے پر کیوں شبہ کر رہے ہیں "۔

ٹیکسی ڈرائیور نے میرے بیٹے کو بتایا۔ "میں بہت جلدی میں ہوں۔ میں اپنی ماں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس فرشتہ صفت شخص کا میں نے شکریہ ادا کر دیا ہے جس نے سو روپے مجھے قرض حسنہ دئیے تھے۔ جس کی بدولت یہ ٹیکسی میری ہے۔ دستکاری کا سکول وہ چلا رہی ہے اور میں پرائیویٹ بی اے کر چکا ہوں۔ میری ماں آئے دن مجھ سے پوچھتی تھی۔ "اے ! تو نے اپنے محسن کا شکریہ ادا کیا کہ نہیں "۔

٭٭٭

 

شاعر کا انعام

عرب کے لوگ اپنی زبان دانی کی وجہ سے ساری دنیا میں مشہور ہیں۔ قدیم زمانے میں وہاں کے رئیس، جاگیردار، نواب بلکہ بادشاہ تک اہل علم پر عموماً اور شاعروں پر خصوصاً مہربان رہا کرتے تھے۔ بڑے بڑے نامی شاعر جس دربار میں جمع ہوتے ، سب پر وہی شخص غالب رہتا، یہی سبب ہے کہ اکثر انعام و اکرام سے مالا مال رکھتے ، بلکہ قدر دانی کی یہ نوبت پہنچ گئی تھی کہ بعض وقت قصیدہ تو درکنار، چند اشعار کہنے پر دس دس بیس بیس ہزار اشرفیاں انعام دیتے ، بلکہ بعض دفعہ ایک ایک مصرع پر ہزاروں اشرفیاں نثار کر ڈالتے تھے۔

ایک بخیل شہزادے نے اپنے باپ دادا کے دستور کے خلاف شاعروں کو انعام دینا بند کر دیا۔ خدا نے اس کو ایسا تیز حافظہ عطا کیا تھا کہ جس شعر کو ایک دفعہ سن لیتا فوراً یاد ہو جاتا۔ اس کے ہاں ایک غلام تھا جو شعروں کو دو بار سن کر لفظ بہ لفظ یاد کر لیتا اور ایک لونڈی تھی جو تین بار سن کر اشعار کو ازبر کر لیتی تھی۔

جب کوئی شاعر اس کی تعریف میں قصیدہ کہہ کر لاتا تو شہزادہ اس سے کہتا اگر تمہارے اشعار ایسے ہوئے کہ آگے کسی سے نہ سنے ہوں تو ہم تو کر اس چیز کے ہم وزن سونا دیں گے جس پر تم قصیدہ لکھ کر پیش کرو گے۔ شاعر دل میں خوش ہو کر اس شرط کو قبول کر لیتا اور شعر پڑھنے شروع کرتا، جب وہ قصیدہ ختم کر چکتا تو شہزادہ کہتا کہ یہ اشعار تو میرے سنے ہوئے ہیں اور خود اول سے آخر تک پڑھ کر سنا دیتا۔ پھر کہتا کہ یہ اشعار صرف مجھ کو ہی یاد نہیں بلکہ میرے اس غلام کو بھی یاد ہیں۔ چوں کہ غلام دو بار سن چکا تھا، اس لیے اس کو یاد ہو جاتے تھے۔ وہ فوراً اشارہ پاتے ہی تمام قصیدہ دہرا دیتا، پھر لونڈی کو بلا کر کہتا کہ خوب یاد آیا، یہ تمام اشعار تو اس ہماری کنیز کو بھی یاد ہیں۔ چوں کہ وہ تین بار سن چکتی اور از بر کیے ہوتی تھی، فوراً فر فر سنا دیتی تھی۔ یہ دیکھ کر شاعر بے چارہ اپنا سا منہ لے کر خالی ہاتھ واپس چلا جاتا تھا۔

رفتہ رفتہ تمام ملک میں اس بات کا چرچا ہونے لگا، اس زمانے میں اصمعی ایک مشہور شاعر تھا، اس نے اس دلچسپ قصے کو سنا تو فوراً اصل حقیقت کو بھانپ گیا اور پکا ارادہ کر لیا کہ اس شہزادے کو اس کی نامعقول حرکت کا مزہ چکھانا ضروری ہے۔ یہ سوچ کر اس نے ایک نظم لکھی جس میں چھانٹ چھانٹ کر مشکل الفاظ بھر دیے ، پھر بدوؤں کا سا بھیس بھرا اور سارا چہرہ کپڑے سے ڈھانپ لیا۔ صرف آنکھیں کھلی رکھیں َ

اس طرح کا روپ بھر کر شاہی محل کی طرف چلا اور اجازت لے کر اندر گیا۔ اور جاتے ہی شہزادے کو سلام کیا۔ شہزادے نے پوچھا۔ تم کون ہو۔ کہاں سے آئے ہو اور یہاں کیوں تشریف لائے ہو؟

اصمعی نے ادب سے جواب دیا: حضور کے اقبال دونے۔ میں اپنی قوم کا نامور شاعر ہوں۔ آپ کی تعریف میں چند اشعار کہہ کر لایا ہوں۔

شہزادہ بولا: تم نے میری شرط بھی سنی ہے ؟

شاعر نے عرض کیا: نہیں حضور۔ فرمائیے وہ شرط کیا ہے ؟

شہزادے نے کہا: اگر ہمیں ثابت ہو گیا کہ یہ اشعار تمہاری ہی تصنیف ہیں اور اس سے پہلے کسی اور نے نہیں سنے تو تم کو اس چیز کے ہم وزن اشرفیاں انعام میں دوں گا، جس پر تم اشعار لکھ کر لائے ہو۔

بھلا حضور، یہ کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے سامنے جھوٹ بولوں۔ مجھے جناب کی شرف دل و جان سے منظور ہے۔

شہزادے نے حکم دیا: اچھا اشعار سناؤ۔

اصمعی نے قصیدہ پڑھنا شروع کیا اور اول سے آخر تک ختم کر دیا۔ اس میں تمام کے تمام مشکل الفاظ بھرے ہوئے تھے۔ شہزادہ عالم فاضل تو تھا نہیں۔ ان الفاظ کو نہ سمجھ سکا، اس لیے ایک شعر بھی یاد نہ کر سکا اور منہ تکتا رہ گیا۔ آخر حیران ہو کر غلام کی طرف اشارہ کیا۔ وہاں بھی کیا رکھا تھا۔ صاف جواب ملا اور لونڈی بھی خاموش رہ گئی۔ آخر مجبوراً اصمعی سے بولا: اے بھائی! بے شک یہ اشعار آپ ہی کی تصنیف ہیں۔ اس سے پہلے ہم نے کبھی نہیں سنے۔ کہیے آپ نے یہ شعر کس چیز پر لکھے ہیں تاکہ اپنی شرط کے مطابق اس کے ہم وزن اشرفیاں تول کر انعام دوں۔

اصمعی نے جواب دیا: حضور! اپنے کسی خادم کو حکم دیں کہ وہ اس چیز کو اٹھا لائے۔

شہزادے نے پوچھا: وہ کیا چیز ہے۔ کیا تم نے کسی کاغذ پر نہیں لکھے ؟

عالی جاہ۔ میں نے یہ اشعار کاغذ پر نہیں لکھے ، جب میں نے یہ نظم تصنیف کی تھی، مجھے کوئی کاغذ نہیں مل سکا تھا جو اس پر لکھا، میرا باپ اپنی جائیداد میں ایک سنگ مرمر کا تختہ چھوڑ گیا تھا، اس وقت وہی سامنے موجود تھا، اسی پر کندہ کر دیے تھے اور اس کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر اونٹ کی پیٹھ پر لاد کر لایا ہوں اور اس وقت محل کے صحن میں رکھا ہے۔ مہربانی فرما کر خادم کو حکم دیں کہ وہ جا کر اٹھا لائے ، میں اکیلا نہیں اٹھا سکتا۔

شہزادہ یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا، مگر اب کیا کر سکتا تھا، آخر شرط کے مطابق اس پتھر کے ہم وزن اشرفیاں دینی پڑیں۔ اس کا تقریباً تمام خزانہ خالی ہو گیا تھا، اس نے آئندہ اپنی بد عادت سے توبہ کی کہ ایسا نہ ہو، کوئی اور شاعر ایسا ہی جل دے ، پھر اس نے حسب دستور شب شعرا کو انعام و اکرام دینا شروع کر دیا۔ پورے ملک میں اس کی تعریف ہونے لگی اور آخر کار اس کو معلوم ہو گیا کہ جو کچھ اصمعی نے کہا وہ صرف اس کی بیدار مغزی کا نتیجہ تھا۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.vshineworld.com/urdu/library/stories/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید