FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

مدحت

                   قمر الزماں قمرؔ  اعظمی

 

 

وہاں پر خواب گاہِ ناز سرکارِ دو عالم ہے

جہاں پر طائر سدرہ نشیں اب تک پر افشاں ہے

وہاں پر زندگی ہے بندگی ہے کیف و مستی ہے

یہاں پر دل پشیماں، چشمِ گریاں آہِ سوزاں ہے

کرم اے رحمت اللعالمیں کہ آپ کے در پر

غریب و بیکس و نادار یہ قمرالزماں خاں ہے

٭٭٭٭

 

ملا رفعتوں کو عروجِ نو وہ جہاں جہاں سے گزر گئے

ابھی تھے حرم میں وہ جلوہ گر، ابھی کہکشاں سے گزر گئے

وہ بڑھے تورک گئیں ساعتیں وہ بڑھے تو جھک گیا آسماں

ابھی سر بسجدہ تھے قدس میں تو ابھی جناں سے گزر گئے

نہ نظر کو تابِ نظارہ تھی نہ بصیرتوں کا گزر وہاں

وہ شعورو عقل و خیال و وہم و ظن و گماں سے گزر گئے

٭٭٭٭

 

حضور شاہِ مدینہ جو اشک بار چلے

وہ اپنے دوش سے بارِ گنہ اُتار چلے

حضور آپ کے در سے جو اشک بار چلے

سند نجات کی لے کر گناہ گار چلے

خزاں رسیدہ گلستانِ عصر پر آقا

حیاتِ نو کے لیے بادِ کوئے یار چلے

سروں پہ خاکِ مدینہ دِلوں میں عشقِ رسول

متاعِ کون و مکاں لے کے خاکسار چلے

٭٭٭

 

محمد سیدِ کونین صدر بزم امکانی

نگارِ انجمن شہکار کل تخلیق ربانی

حرا کی خلوتوں سے اِک نظامِ زندگی لائے

رہے گی تا قیامت اس کلامِ حق کی تابانی

نصابِ زندگی ہر دور کے انسان کی خاطر

عیاں ہوتے رہیں گے حشر تک اسرارِ قرآنی

٭٭٭٭

 

آپ ہیں فخرِ دو جہاں آپ ہیں روحِ کائنات

آپ کی ذاتِ پاک ہے باعثِ خلقِ کائنات

ان کی ادا نماز ہے ان کا ہر اِک قدم ہے دیں

ذکرِ نبی خدا کا ذکر، قولِ نبی خدا کی بات

شہرِ رسولِ پاک میں بارشِ نور ہر طرف

روضۂ  پاک بالیقیں مرکزِ تجلیات

ان کا خیالِ پاک ہے فکر و نظر کی زندگی

ذکر ہے روح کی غذا یاد ہے قلب کی حیات

٭٭٭

 

یہ میری آبلہ پائی یہ رہ گزر تنہا

سہارا دے گی مجھے آپ کی نظر تنہا

تمہاری یاد نہ ہوتی تو مَیں کہاں جاتا

مَیں کیسے کرتا بھلا زندگی بسر تنہا

تمہارے در سے نہ ملتی یقین کی دولت

گماں کے دشت میں پھرتا میں بے خبر تنہا

تمہارے نقشِ کفِ پا کا عکس دل پہ لیے

ہجومِ کاہکشاں میں رہا قمرؔ تنہا

٭٭٭

 

محمد باعثِ تخلیقِ عالم

بشر پیکر مگر نورِ مجسم

وہ نقشِ اولینِ کلکِ قدرت

نبوت اور رسالت کے وہ خاتم

وہ جن کے دم سے قائم بزمِ ہستی

وہ جن کے نور سے روشن دو عالم

سنواری جس نے زلفِ آدمیت

نکھارا جس نے روئے ابنِ آدم

بدلتی رُت، بدلتے موسموں میں

بہارِ جاوداں قانونِ محکم

عطا ہو قومِ مسلم کو دوبارہ

محبت، شوکتِ دیں، جذبِ باہم

 

علوم حضرت آدم سے تا دمِ عیسیٰ

ہر ایک علم مکمل رسولِ اعظم میں

نقوشِ لوحِ مقدس بہ خامۂ  قدرت

سبھی نقوش ہیں علمِ نبیِ خاتم میں

نہیں ہے نام و نسب وجہِ شرف دیں کے بغیر

یہ راز پنہاں ہے اتقیٰ میں اور اکرم میں

چلے تھے سوئے نبی قتل کے ارادے سے

قتیلِ عشق ہوئے خود ہی دارِ ارقم میں

تلاشِ امن ہے باطل نظامِ باطل میں

ملے گا امن تو دینِ رسولِ اکرم میں

 

میرے افکار ہوں محرومِ ضیا ناممکن

وہ سکھائیں نہ مجھے طرزِ ادا، ناممکن

سوئے طیبہ درِ دل میں نے کھلا رکھا ہے

میرے گھر آئے نہ طیبہ کی ہوا، ناممکن

خانۂ  دل میں ہیں مہمان رسولِ عربی

غیر محرم کوئی آ جائے بھلا، ناممکن

صرف ہمت سوئے آں شاہدِ اعظم کر دم

بے خیال ان کے ہو سجدہ بھی ادا، ناممکن

ان کی توہین اور امیدِ شفاعت، توبہ

بے وفاؤں کو ملے دادِ وفا، ناممکن

میرا دل ٹوٹا تو آواز سنی دنیا نے

کیا نہ سُن پائیں گے وہ دل کی صدا، ناممکن

سر ہو، سودائے محبت ہو، تیری چوکھٹ ہو

ایسے میں دل نہ ہو سجدے میں جھکا ناممکن

حشر میں جب کہ اُٹھے داغِ محبت لے کر

پھر قمرؔ پائے نہ جنت کی فضا، ناممکن

٭٭٭

ماخذ: سہ ماہی ’جہانِ نعت‘ ، تشکر: غلام ربانی فداؔ

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید