FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

محمدؐپیغمبرِ صلح

(مختلف اقوام و ادیان کے پیروکاروں کے ساتھ رحمت للعالمین ﷺکےصلح کے معاہدوں کا تحقیقی جائزہ)

               مؤلف:پروفیسر ڈاکٹرمنتظری مقدم

               شبیر بن رحیم

کتاب               :           محمدؐ پیغمبرِ صلح

مؤلف   :           ڈاکٹر حامدمنتظری مقدم

مترجم                :           شبیر نعیم

مصحح                  :           ذاکر حسین طاہری

مقدمہ

تاریخ گواہ ہے جینےاور جینے دینے یا مرنے اور مارنے کے لئے صلح اور جنگ نے انسانوں کو ہمیشہ باہمی آویزشوں سے دوچار کیا ہے؛ لیکن صلح زندگی کو دوام بخشنے کے ساتھ ساتھ انسان کا مقصد بھی تھی، جس نے انسان کو کم از کم یہ فرصت عطا کی کہ وہ باہمی تلخیوں اور قتل وغارت سے اپنا دامن بچا کر کچھ وقت امن و سکون سے گزار سکےاسی لئے صلح روز اول سے  اہمیت کی حامل رہی ہے۔

آج عصرِ حاضر میں پوری دنیا جنگ کے شعلے بھڑکنے کے امکان سے مسلسل پریشان ہے۔[i] تاریخِ اسلام میں صلح کے تاریخی پسِ منظر کے حوالے سے (یہاں پر رسول خدا ﷺکا دور مراد ہے) تحقیق کی ضرورت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ تاریخ اسلام میں، کثرت سے صلح کے معاہدے اور جنگیں ہوئی ہیں،لیکن زیادہ تر تحقیقات مسلمانوں کی جنگوں کے بارے میں انجام پائی ہیں جبکہ صلح کے معاہدوں کو نظر انداز کرتے ہوئے پسِ پشت ڈالا گیا ہے۔

اسی وجہ سے خاص اہداف رکھنے والے بعض مستشرقین کو یہ موقع ملا کہ وہ اسلام کو ”تلوار اور جنگ کا دین” کا نام دیں؛ اسی لئے رسول خدا ﷺ کے صلح کے معاہدوں کے بارے میں تحقیق کرکے تاریخ اسلام کے اس گوشے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ مذکورہ بہتان کا جواب دیا جاسکے۔حیرت کی بات ہے اس کتاب کے عنوان کے پیش نظر ذہنوں میں صرف صلح حدیبیہ کا تصور آتا ہےاسی تصور کی بنا پر قارئین یہی سمجھتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے علاوہ رسول اکرمﷺنے کوئی صلح کا معاہدہ نہیں کیا حالانکہ آپ ﷺ نےمختلف مذاہب کےلوگوں کے ساتھ متعدد صلح کے معاہدے کئے جو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔

توجہ رہے اس کتاب میں یہ کوشش نہیں کی گئی کہ تعبیرات اور اصطلاحات کو تاریخ میں گھسیڑ کر صلح کے معاہدوں کو ثابت کیا جائے یا پھر جعل سازی سے کام لیا جائے ایسے مسائل سے بچنے کے لئے ابتدا میں مفاہیم کی وضاحت کر دی گئی ہے اور صلح کا ایک معیارمقرر کر دیا گیا ہے اس کے بعد رسول خدا ﷺکے صلح کے ہر معاہدے (صلح کی وجوہات ؛تدوین؛پیغام ونتائج)کے بارے میں تجزیہ کیا گیا ہے تحقیقِ حاضر تاریخی طریقے کے مطابق ہے جبکہ اس کا استناد بھی تاریخی منابع پر ہی ہے۔ یہ تحقیق چار حصوں ؛ "صلح کا تاریخی پسِ منظر”؛”قبل از حدیبیہ صلح کے معاہدے” ،” بعد ازحدیبیہ صلح کے معاہدے” اور "صلح حدیبیہ” پر مشتمل ہے امید ہے اس مجموعہ کے زریعے دوسرے علمی میدانوں (منجملہ بین الاقوامی حقوق اور فقہ سیاسی) میں تحقیق کے لئے مدد فراہم ہو سکے گی۔

اس کتاب کی تالیف پر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں۔اور ضروری سمجھتا ہوں کہ تمام دوستوں اور اساتذہ، جنہوں نے رہنمائی فرمائی کا شکریہ ادا کروں؛ خصوصا استاد محمد یوسفی غروی؛استاد مہدی پیشوائی جنہوں نے شفقت فرماتے ہوئے اس کتاب کی اشاعت سے پہلے مطالعہ کیا اور اپنی عالمانہ آراء سے مستفید فرمایا؛ استاد ڈاکٹر صادق آیئنہ وند نے ہمیشہ امید دلائی؛ استاد رسول جعفریان نے ہمیشہ عاجزی سے حقیرکے سوالوں کے جواب د یئےمؤسسہ امام خمینی کے جملہ مسؤلین، خصوصاً مرکزبرا ئےتحقیقی پبلیکیشنز کے ذمہ داران جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت کے لئے حوصلہ افزائی فرمائی، اور اپنے اہل خانہ کا جو ہمیشہ میرے ساتھ تھے ،شکریہ ادا کروں یہ تحریر ا س حوالے سے پہلا قدم ہے، امید ہے اہل علم کا نقد اور قیمتی آراء دوسرے قدم کا باعث بنیں گی۔

حامد منتظری مقدم

مقدمہ مترجم

بیٹا! تاریخِ اسلام کے دامن میں قتل و غارت کے علاوہ کیا ہے؟ اسلام کی تاریخ خونی جنگوں سے اٹی پڑی ہے میں تاریخِ اسلام کی ورق گردانی کرتا ہوں تو مجھے جنگیں ہی جنگیں نظر آتی ہیں صدر اسلام کا دور ہو یا پھر بعد کے مسلمان حکمران ،سب جنگ اور لڑائی میں مصروف رہے ۔ یہ الفاظ سابق چیف جسٹس آف لاہور ہائی کورٹ محترم جسٹس اللہ نواز میرے ساتھ گلستانِ زہراؑپارک جوہر ٹاؤن میں واک کرتے ہوئے اکثر دہراتے اور میرے تمام تر دلائل مسلمانوں کے اعمال کو اسلام کا نام دے کر رد کر دیتے  کیا اسلام کی تاریخ صرف خونی جنگیں ہیں ؟اور کیا تاریخِ اسلام کے دامن میں فقط قتل و غارت ہے ؟یہ وہ سوال تھے جنہوں نے مجھے اس حوالے سے وسیع مطالعہ پر ابھارا۔

چند سال قبل اسی موضوع پر معروف محقق و نقاد برادرِ محترم سید اظہر حسین زیدی سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے ڈاکٹر منتظری مقدم کی کتاب صلح ھای پیامبر ﷺکا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں اس موضوع پر لکھی جانے والی یہ کتاب علمی حلقوں میں پزیرائی حاصل کر چکی ہےپہلی فرصت میں اس کتاب کا مطالعہ کیا تو شدت سے ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کتاب کا اردو میں ترجمہ ہونا چاہیے اس لئے کہ رسول خدا (ص) کی جنگوں کے حوالے سے ، وہ مغالطے جو مستشرقین نے پڑھے لکھے لوگوں کے ذہن میں ڈال دیئے ہیں ان کا جواب اس کتاب میں بخوبی موجود ہے۔

محقق نے اس کتاب میں معتبرتاریخی منابع سے رسول خدا ﷺکے مختلف اقوام و ادیان کے ساتھ انیس   صلح کے معاہدوں کو   تفصیل سےذکر کیا ہے،  محققین کی لا پرواہی کہیں یا کچھ اور ، ان انیس صلح کے معاہدوں میں سے سلیبس یا دوسری کتابوں میں صرف صلح حدیبیہ کا تذکرہ ملتا ہے۔ بدقسمتی سے تاریخی کتب میں موجود ان صلح کے معاہدوں پر محققین نے توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے بعض جانبدار مستشرقین رسول خدا ﷺ پر مسلط کی گئی جنگوں کو حوالہ بنا کر اسلام کو جنگ کے دین کا نام دیتے ہیں۔

دین ِاسلام پر مذکورہ بہتان کی وجہ مسلمان مؤرخین کی وہ روش بھی بنی ہے جس میں اکثر مؤرخین نے سیرتِ رسول خدا ﷺ کے عنوان کے تحت صرف جنگوں کا ذکر کیا ہے اس وقت تک مسلمانوں کی سیرت کے موضوع پر لکھی جانے والی کتب اٹھا کر دیکھی جائیں تو سیرت کے عنوان کے تحت آپ کو اکثر جنگوں کا تذکرہ ہی ملے گا ان جنگوں کا عمیق نگاہ سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ان میں سے بعض جنگوں پر ، جنگ کا عنوان ہی صادق نہیں آتا  مثال کے طور پر صلح حدیبیہ کو کتب میں غزوہ حدیبیہ ذکر کیا گیا ہے جس میں کسی بھی طرح کی جنگ نہیں ہوئی، اسی طرح آپ ﷺ نے اپنے پہلے غزوہ میں بنی ضمرہ سے صلح کی لیکن اس صلح کو بھی آپ ﷺ کی جنگوں میں شمار کیا گیا ہے ۔

تاریخ گواہ ہے جوجنگیں ہوئیں وہ بھی آپ ﷺ پر مسلط کی گئیں تھیں ایسے حالات میں جب دشمن حملہ کر دے اور نابود کرنے کے در پے ہو تو اسلام اپنے دفاع کے لئے جنگ کی اجازت دیتا ہے ایسی ہی جنگیں رسول اللہ (ص)کی حیات مبارکہ میں وقوع پزیر ہوئیں جنہیں دفاعی جنگوں کا نام دیا جا سکتا ہے اسلام توجنگ میں بھی محدودیت کا قائل ہے اگر جنگ میں دشمن مسلمانوں کا مثلہ کرے تو بھی مسلمانوں کو یہ اجازت نہیں کہ وہ دشمن کا مثلہ کریں اور اگر دشمن جنگ میں   اسیروں کو بھوکا پیاسا رکھے تو اس کے مقابل لشکر ِاسلام کو اجازت نہیں کہ وہ ایسا کرے۔

بنی نوع انسان کی ہدایت کےعلمبردار ،رحمت العالمین(ص) نے ہمیشہ جنگ کی بجائے صلح کو ترجیح دی اور جنگ سے کنارہ کشی کا درس دیا جب بھی آپ (ص)کی سربراہی میں لشکرِ اسلام کا سامنا دشمن سے ہوا تو آپ (ص) نے کوشش کی کہ جنگ نہ ہو اور صلح پر زور دیا آنحضرتﷺکے مختلف ادیان و اقوام کے ساتھ کئے گئے صلح کے یہ معاہدے ان لوگوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کا مؤثرجواب ہیں جو اسلام کو دین ِجنگ سمجھتے ہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ محققین اور مصنفین   صلح کے ان معاہدوں پر توجہ کرتے ہوئے انہیں اپنی تحقیقات اور کتب میں ذکر کریں تا کہ سیرت رسول اللہ (ص)کا یہ گوشہ اجاگر ہو سکے اور اسلام کے خلاف جاری پروپیگنڈا ختم ہو سکے۔

ڈاکٹر منتظری مقدم نے اپنی تحقیق میں انتہائی عرق ریزی سے کام لیا ہے اور ہر مطلب کو بالاسناد ذکر کیا ہے اس موضوع پر لکھی جانے والی یہ پہلی کتاب ہے موضوع کی افادیت کے پیش نظراسے تاریخی دستاویز کی   حیثیت حاصل ہے ایران میں اس کتاب کے متعدد ایڈیشن چھپ چکے ہیں جبکہ ملکی سطح پر ریسرچ کے کئی ایک مقابلوں میں انعام بھی حاصل کر چکی ہے۔

میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے مجھے یہ توفیق عنایت فرمائی کہ ایک علمی اور تحقیقی کتاب کا ترجمہ کر کے اردو دان طبقہ کے لئے پیش کروں اسی طرح ان لوگوں کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں جن کا علمی اور اخلاقی تعاون میرے شامل حال رہا بالخصوص یسطرون ریسرچ سنٹر کے تمام عہدے داران ،جو یسطرون کے قیام سے لے کر آج تک میرے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں اور اردو زبان کا دامن علمی و تحقیقی آثار سے بھرنے کے لئے دن رات قلمی جہاد میں مصروف ہیں ، المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی ایران کے نہایت قابل استاد جناب ذاکر حسین طاہری کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں جن کی تشویق اور رہنمائی نہ ہوتی تو یہ کتاب منظر عام پر نہ آ پاتی،اسی طرح   سید غلام اکبر گردیزی ،غلام اکبرخان سیال،غلام حسین شاہد،سید محمد واثق عابدی،سید محمد حسن عابدی ،سیدہ نیرہ عابدی اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی حوصلہ افزائی اور دعائیں یسطرون ریسرچ سنٹر،پبلیکیشنز کے منصوبو ں کی پیش رفت کا باعث بنیں۔

شبیر بن رحیم

مفاہیم کی وضاحت

آج کل "صلح” کا اطلاق ایک ایسی حالت پر کیا جاتاہے جو جنگ کے شعلے بھڑکنے کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہے اور اس کے بعد کوشش کی جاتی ہے کہ اس حالت کو واپس پلٹایا[ii] جائے؛ لیکن بغیر کسی شک و شبہ ، گزشتہ ادوار میں صلح کا اطلاق فقط مذکورہ حالت (بغیر کسی جنگی پس منظر یا وقوع جنگ ) پر نہیں ہوتا تھا بلکہ صلح جنگ کا اختتام ہواکرتی تھی،بہرحال صلح اور جنگ کے مفہوم کی تحقیق کی جانی چاہیے۔

رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں، صلح اور جنگ اس وقت تحقق پزیر ہوئی جب آپ ﷺنے یثرب کی طرف اپنی تاریخی ہجرت کے ساتھ اس شہر میں پہلی اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی، یہی وہ وقت تھا جب اسلام کی سیاسی تاریخ کا آغاز ہوااسی دور میں مسلمانوں اور ان کے دشمنوں کے درمیان بہت سی جنگیں لڑی گئیں اور صلح کے معاہدے بھی عمل میں آئے۔ ان جنگوں اور صلح کے معاہدوں میں سے، تحقیق ِحاضر میں رسول اللہ ﷺ کی ہجرت سے رحلت تک ہونے والے صلح کے معاہدوں کی تحقیق کی جائے گی۔صلح دراصل عربی زبان کا لفظ ہے؛ فارسی اہلِ زبان بھی اس لفظ سے آشنا ہیں، فارسی میں اس کا معنی آشتی اور سازش) ہے۔ عربی میں صلح اس وقت تحقق پذیر ہوتی ہے جب دشمنی درمیان سے اٹھ جائے اور اس کی جگہ آشتی لے لے۔[iii] البتہ فارسی میں بھی لفظ ”آشتی” سے یہی مطلب حاصل ہوتا ہے۔[iv] اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ صلح یا آشتی کا معنی ”جنگ سے کنارہ کشی اورقتل و غارت سےپرہیزہےعربی میں لفظِ ”صلح” کے علاوہ دوسرے الفاظ مثلاً ”مسالمہ”، ”معادعہ” اور ”مہادنہ” بھی ‘جنگ سے کنارہ کشی’ کے مطلب کے لیے استعمال ہوتے ہیں اس حوالے سے مذکورہ تمام الفاظ مترادف ہیں؛ البتہ لغوی منابع میں بعض اوقات ان الفاظ کی ایسی خصوصیات بیان ہوتی ہیں جو ظاہراً مذکورہ ہر ایک لفظ کو کسی حد تک صلح اور مصالحت سے جدا کرتی ہیں؛ جیسا کہ موادعہ ”شبہ المصالحہ” کی تعبیر کا اطلاق ترک جنگ پر مصالحت (بغیر خاص شرائط ) پر ہوتا ہے[v] اسی طرح مہادنہ ایسی صلح کے لیے بولا جاتا ہے جو قتل وغارت کے بعد کی جاتی ہے (نہ اس سے پہلے) بعض اوقات صلح مؤقت کو مھادنہ کہتے ہیں جو اپنے مقررہ وقت پر ختم ہو جاتی ہے اور دوبارہ جنگ اس کی جگہ لے لیتی ہے۔[vi] _مذکورہ معنوں کے پیشِ نظر” جنگ سے کنارہ کشی” اورقتل وغارت سے پرہیز کا مفہوم صلح وآشتی کے جوہر کی صورت میں مذکورہ تمام الفاظ میں موجود ہے۔

اس لحاظ سے تمام الفاظ مثلاً ”مصالحہ”، ”مسالمہ”، ”موادعہ” اورمہادنہ اس کتاب کے موضوع کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔ اس لئے کہ تاریخی منابع میں بعض اوقات رسول خدا ﷺ کے صلح کے معاہدوں کے موقع پر مذکورہ تمام الفاظ بغیر کسی فرق کے مترادف کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ اسی بنیاد پر "جنگ سے کنارہ کشی” کا مفہوم آنحضرتﷺ کے صلح کے معاہدوں کی شناخت کے لیے معیار قرار پاتا ہے۔

حصہ اول

تاریخی پسِ منظر

١۔ صلح قصی و خزاعہ( مکہ کی امارت کے متعلق)

2۔صلح بنی عبد مناف و بنی عبد الدار

یثرب( مدینہ النبیﷺ )میں اسلامی حکومت کے قیام سے پہلے جزیرة العرب میں مختلف اقوام اور قبیلے آباد تھے۔ جو خواہ نا خواہ جنگوں اور باہمی چپقلشوں کا شکار رہتے تھے یہ جنگیں دسیوں سال جاری رہتیں؛لیکن کیا درحقیقت یہ جنگیں ”کوشش برائے بقا” کے لئے تھیں یا یہ کہ جیسے بہت زیادہ موارد میں چھوٹے چھوٹے بیہودہ مسائل ان گھمبیر جنگوں کا باعث بنتے تھے؟

محققین نے ان جنگوں کی و جہ بے شما ر گونا گوں عوامل کو قرار دیا ہے۔ مثلا ً خشک سالی، پانی و چراگاہ کی دستیابی اور زندگی کی دوسری ضررویات پوری کرنے کے لیے جدوجہد ، قدرت مند قبیلوں کی دوسرے قبیلوں سے مال کے حصول کے لیے طمع ورزی، بعض خانہ بدوشوں کی آبادیوں میں رہنے والے لوگوں کے اموال پر للچائی نظریں (غارت گری و تاراجی کی صورت میں)، قبیلوں کی آپس کی جنگوں میں ہم پیمان قبیلے کی حمایت اور قبیلوں کے رؤساء کے شادی اور طلاق جیسے شخصی مسائل ان پر مستزاد مدنظر رہے کہ بعض اوقات ایک عام سی بات جس میں دوسرے قبیلے کی بے حرمتی کا تھوڑاسا بھی شائبہ پایا جاتا یا حتی تندو تیز جملوں کا تبادلہ بھی جلتی پر تیل کا کام کرتا تھا۔

واضح ہے کہ آخری موارد اس دور کی جہالت پر مبنی جنگوں کا باعث بنتے تھے۔[7]

بہرحال عرب کے لوگ خواہ نہ خواہ اس طرح کی جنگوں سے مانوس اورا ن کے عادی ہو چکے تھے ایسا نہیں تھا کہ قتل و غارت سے رنج زدہ نہیں تھے اور صلح وامن کے لیے چارہ جوئی نہیں کرتے تھے عربوں کی صلح و امن کے لیے چارہ جویئوں کی بدولت ہی تو ان میں اسلام سے پہلے کچھ صلح کے معاہدے عمل میں آئے،لیکن افسوس تاریخی منابع اور حالیہ تحقیقات میں ان معاہدوں کے بارے کوئی جامع تحقیق عمل میں نہیں آ سکی ان معاہدوں کی تعداد اور اہمیت کے بارے میں یہ دعوی نہیں ہے کہ یہ جنگیں اپنے اپنے مؤقف سے دستبرداری کی صورت میں تھیں؛ لیکن یہ دعویٰ ضرور ہے کہ یہ مورد مذکورہ معاہدوں میں موجود تھا اگرچہ تھوڑی مقدار میں ہی ہو اپنے اپنے مؤقف سے کسی حد تک پیچھے ہٹنے کا یہ مورد جنگوں کی روایات میں گم ہوگیا ہے۔

شک و شبہ یا سطحی سوچ کی بنا پر کہا گیا ہے کہ صلح کے یہ معاہدے مجبوری،[8] ناتوانی اور جنگ کو سخت حالات میں جاری رکھنے سے عاجزی کی وجہ سے وجود میں آئے۔ یہ ایک ایسی تحلیل ہے جو تمام موارد میں قطعاً قابل قبول نہیں ہے۔مثال کے طور پر جنگ ”بُعاث” کے اختتام کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے مثلاً جب اوس خزرجیوں پر مکمل فتح کی پوزیشن میں تھے تو انہوں نے اچانک سنا ”اے گروہ اوس در گزر کرو اور اپنے بھائیوں کو ہلاک نہ کرو!”[9] اس صدا پر انہوں نے اس طرح لبیک کہا کہ فوری جنگ سے ہاتھ روک لیا۔

بطور اختصار یہاں پر انسانی ضمیر کی بیداری اور عاطفی رشتہ ہی صلح کے ان معاہدوں کی صحیح تفسیر ہوسکتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ وہ لوگ صلح کرنے میں مجبور تھے یا ناتوانی کی صورت میں صلح کو قبول کررہے تھے۔ قبیلگی زندگی میں میدان جنگ میں قبیلہ کے افراد کی بہادری مرنے اور مارنے کا شوق نہ تھی گو کہ وہ میدان جنگ میں بہادری کے ساتھ خون کے آخری قطرے تک لڑتے تھے لیکن اس کے باوجود زندہ رہنے کے لئے مواقع بھی فراہم کرتے تھے یاد رہے کہ بہت سے بدوگروہ اپنے اختلافات کو انفرادی نبرد کے ذریعے حل کرتے تھے اس کے علاوہ بدو قبائل کی اجتماعی پیش رفت جس نے افراد کو موت سے نجات دلائی ”معافیت” (Exemption ) ہے۔ جس میں عورتوں، بچوں، غیر جانبدار افرد یا دشمنوں کے قاصدوں کو بخشنا شامل ہے۔ تیسرے عقیدے میں ناصرف خاص افراد بلکہ احتراماً خاص مقامات کو بھی بخشش کے زمرے میں شامل کرتے تھے۔ چوتھا عقیدہ یہ کہ مخصوص اوقات میں جنگ کو متوقف کردیتے تھے۔ مثلاً اپنے مذہبی مراسم[10] کے چند مخصوص اوقات میں جنگ کے قریب نہیں جاتے تھے۔

آخری مثالیں جزیرة العرب کے قبائل میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں، مثلاً مکانی اعتبار سے وہ مکہ کو محترم اور امن کی جگہ سمجھتے تھے[11]۔ اسی طرح زمانی اعتبار سے محترم[12] چند مہینوں میں سب محفوظ ہوتے تھے۔ اگر مذکورہ زمانی یا مکانی حرمت جنگ یا خونریزی کی وجہ سے پائمال ہوجاتی تو اس جنگ کو بطور پلیدی فجار[13] کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے کے دور میں عرب کے لوگوں نے آپس میں صلح کے معاہدے کئے تھے اس بارے میں ایک محقق اوس و خزرج کی متعدد جنگوں کی طرف اشارہ کرنے کے بعد یاد دلاتا ہے کہ وہ ہروقت میدانِ نبرد سے کنارہ کش رہتے تھے اور دیت کی ادائیگی کےعوض ایک دوسرے سے صلح کرتے تھے۔[14]

اس طرح کے جلد ختم ہو جانے والے اور کم اثر صلح کے معاہدوں کو اہمیت نہیں دی جاسکتی؛ جیسا کہ اوس و خزرج کے علاوہ دوسرے کئی ایک قبیلوں میں بھی مذکورہ طرز پر صلح کے معاہدےعمل میں آئے، نمونہ کے طور پر ”ایام العرب”[15] میں سے ”یوم داحس و غبرا” ”یوم طخنہ” اور ”ابن ضبا”[16] سے مرسوم ایام کو یاد کیا جاسکتا ہے۔ اس پر مستزاد جس طرح بعض اوقات تند و تیز جملہ عرب کے قبیلوں کو مہیب جنگوں کے سائے میں دھکیل دیتا تھا اسی طرح بعض اوقات ایک بات یا شعر بھی سبب بن جاتا کہ ایک گروہ موت یا قید سے رہائی حاصل کر لےیوم حلیمہ اور یوم الشباک کا تعلق اسی طرح کے واقعات سے ہے۔[17]

ان سب پر مستزاد یہ کہ اسلام سے پہلے کے واقعات میں سے صلح کے دو معاہدے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ان صلح کے معاہدوں کا یہاں مفصلاً تجزیہ کیا جائے گا صلح کے ان معاہدوں کی تاریخ دسترس میں نہیں ہے یہ معاہدے درج ذیل ہیں:

١۔ ”قصی” اور ”خزاعہ” کی صلح (مکہ کی سرپرستی کے متعلق)

٢۔ بنی عبد مناف اور بنی عبد الدار کی صلح ( مکہ و کعبہ کے امور کے متعلق)

صلح کے یہ دو معاہدے تاریخی پس ِ منظر کے حوالے سے تحقیق حاضر کے لئے اس لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں کہ ان سے اسلام کی پیدائش سے پہلے کی سیاسی فضا کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس فضا میں باہمی چپقلش،جنگ نیز صلح کے لیے چارہ جوئیاں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں؛ اور سب سے بڑھ کر ، یہ فضا رسول خدا ﷺکی قوم قریش اور آپ ﷺ کی جائے ولادت(مکہ)[18] پر حاکم تھی مذکورہ صلح کے دو معاہدے ان لوگوں کے درمیان ہوئے کہ بعد میں جن کی اولاد میں سے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺکے حامی قرار پائے یا کچھ لوگوں کا شمار آپ ﷺ کے بدترین دشمنوں میں ہوا۔

               ١۔ صلح قصی و خزاعہ ( امارت مکہ کے متعلق)

شہر مکہ شروع سے ہی خانہ کعبہ کی موجودگی کی وجہ سے انتہائی محترم اور تجارتی مرکز ہونے کے حوالے سے زائرین اور تاجروں کی توجہ کا مرکز تھا۔ اسی لئے اس شہر کی سرپرستی کے متعلق مختلف عناصر میں رقابت چلی آتی تھی؛ جیسا کہ تاریخ اسلام[19] سے پہلے قبیلۂ ”جرہم” کی مکہ کی حاکمیت ”بنوبکر” کے خاندان ” غبشان”[20] کی مخالفت کی وجہ سے قائم نہ رہ سکی۔

البتہ توجہ رہے کہ تاریخی منابع میں یہ لڑائی ظلم و ستم سے نجات اور عدالت طلبی کے طور پر بیان ہوئی ہے اس لڑائی کے متعلق لکھا گیا ہے:

…جرہمیوں نے مکہ میں اس حد تک تجاوز کیا کہ بعض محرمات کو حلال جانا، باہر سے آنے والے لوگوں پر ظلم و ستم کو روا رکھا، اور کعبہ کے ہدیہ کے اموال میں تصر ف کیا؛ اس لئے ان کی مکہ پر حاکمیت کمزور پڑ گئی۔[21]

اب اگرحسن ظن سے کام لیتے ہوئے یہ گمان کیا جائے کہ اس کے بعد (بنوبکر) اور (خزاعہ) کی حاکمیت میں ظلم و ستم ختم ہوگئے، تو بہرحال تاریخی تصریح کی بناء پر یہ واضح ہے کہ خاندان (غبشان) کے کچھ لوگوں نے (بنو بکر) کو پیچھے دھکیل کر اپنے دیرینہ سابقہ ہم نواؤں سے بے وفائی کی اور خود زمام اقتدار پر قابض ہوگئے [22] ۔

یہاں تک کہ خزاعہ نے اپنے آخری حاکم حلیل کے دور تک ایک طویل مدت تک مکہ[23] پر حکومت کی ”حلیل” کے دور اقتدار میں اس کے ایک قدرت مند رقیب ”قصی” نے مکہ کی تاریخ میں قدم رکھا۔ قبیلہ قریش [24] سے منسوب ”قصی” کا اصل نام ”زید”[25] اور باپ کا نام ”کلاب” تھا۔

قصی کو یزگرد [26] ساسانی (٤٥٩۔ ٤٨٤م) کے بیٹے فیروز کا ہم عصر کہا گیا ہے۔ قصی مکہ میں پیدا ہوئے؛ لیکن بچپن ہی میں ان کے باپ فوت ہوگئے اور انکی ماں”فاطمہ” نے ”بنی عذرہ” کے ”ربیعہ” نامی شخص سے نکاح کیاقصی اپنی ماں کی سرپرستی میں اس کے نئے شوہر کے ہمراہ شام کی سرزمین ”عذرہ” کی طرف روانہ ہوئے۔ اسی لئے اپنے وطن سے دوری کی مناسبت سے بعد میں ”قصی” یعنی (دور ہونے والا) معروف ہوئے البتہ جب سن بلوغ کو پہنچے تو مذکورہ واقعہ، اپنی اصل اور نسب سے آگاہ ہوئے تو اپنے وطن واپس لوٹ آئے [27]۔

مکہ میں قصی نے حلیل ( حاکمِ مکہ) کی بیٹی حبی سے نکاح کیا۔ حیرت کی بات ہے کہ جب حلیل فوت ہوا تو قصی کی مکہ میں عزت و شرافت کا شہرہ تھا، اسی شرافت و عزت کے بل بوتے حلیل کے بعد حاکم بنے۔معلوم نہیں ہے کہ حلیل نے قصی کے اپنے جانشین ہونے کے بارے وصیت کی تھی یا نہیں، اس طرح کی وصیت کے بارے میں تردید ہے[28]۔ واضح سی بات ہے کہ قبیلۂ خزرج کے لوگ اس کی تاب نہ لائے کہ آسانی سے مکہ کی امارت اپنے قبیلہ کی بجائے کسی دوسرے قبیلے کے شخص کے حوالے کردیں ۔

اسی لیے وہ قصی کے ساتھ الجھے دوسری طرف مکہ میں ”صوفہ” نامی کچھ لوگ[29] رہتے تھے جو مذہبی حوالے سے محترم سمجھے جاتے تھے لیکن قصی نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے کہا کہ حج[30]کے انتظامات کی ذمہ داری ان کے حوالے کردیں۔ کیوں کہ قصی کا خیال تھا کہ ان مناصب کے لئے مختلف پراکندہ [31] جگہوں پر رہنے والا ان کا قبیلہ زیادہ موزوں ہے ان اہداف تک پہنچنے کے لئے قصی نے قریش کے لوگوں میں خود اعتمادی اور خودانحصاری پیدا کی اور دوسری طرف قبیلہ کنانہ [32] اورقضاعہ [33] کے اتفاق کی بدولت اس قابل ہوئے کہ اپنے مقصد تک رسائی حاصل کر[34] سکیں۔

قصی کو شہر مکہ کی مذہبی و سیاسی رہبری کے حصول کے لئے سیاسی و مذہبی مقام و مرتبہ کے مالک اپنے پیش رو قبیلوں مثلاً خزاعہ اور صوفہ پر غلبہ حاصل کرناتھا۔ طبعاً اس ماجرا کا اقتضاء یہی تھا کہ قصی کے مقابلہ میں خزاعہ اور صوفہ باہم متحد ہوں اسی شکل میں یہ ماجرا محمد بن حبیب بغدادی (متوفی ٢٤٥ہجری) کی کتاب ، کتاب المنمق[35] فی اخبار قریش میں ذکر ہوا ہے۔[36] لیکن محمد ”بن اسحاق” متوفی (١٥١ ہجری) کی روایت ابن ہشام کی روایت کی نسبت زیادہ شہرت کی حامل ہے۔

ماجرا اس طرح ہے کہ قصی نے (قریش) یعنی کنانہ اور قضاعہ سے مل کر صوفہ سے جنگ کی اور ان کو شکست سے دوچار کیا۔ اس وقت قبیلۂ خزاعہ اور ان کے دیرینہ ساتھی(بنوبکر) پریشان ہوئے؛ انہوں نے اسی پریشانی کو دیکھتے ہوئے بلاخوف قصی اور ان کے حامیوں کے خلاف صف آرائی شروع کردی پھر ایک خونی جنگ چھڑ گئی جس میں دونوں طرف کے کافی لوگ لقمہ اجل بنے، کیونکہ جنگ کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نظر نہیں آرہا تھا اس لئے صلح پر راضی ہوئے [37]۔ قابل ذکر ہے کہ تاریخی منابع میں صلح کے ان معاہدوں کی تعداد اور کیفیت کے بارے میں دو طرح کے مختلف بیانات ملتے ہیں۔ ان میں سے ایک ابن اسحاق (متوفی ١٥١ ہجری) کا معروف بیان ہے (ابن ہشام کی روایت کی بنا پر) اس بیان کی بنیاد پر دونوں قبیلے اس بات پر متفق ہوئے کہ قبیلۂ عرب کے بزرگوں میں سے کوئی ایک ان کا فیصلہ کرے؛ اسی طرح انہوں نے فیصلہ کے لئے ”یعمر بن عوف” کو منتخب کیا۔ اس نے اس طرح فیصلہ دیا:

١۔ قصی خزاعہ کی نسبت مکہ کی تولیت اور ادارہ کعبہ کے لیے زیادہ حق دار ہے۔

٢۔ قصی اور اس کے ہمراہیوں کی طرف سے خزاعہ اور بنوبکر کے لوگوں کے بہائے جانے والے خون پر کوئی دیت نہیں ہے جبکہ خزاعہ اور بنوبکر کی طرف سے قریش یعنی کنانہ اور قضاعہ کے بہائے جانے والے خون کی دیت ادا کی جائے۔

٣۔ مکہ اور کعبہ بغیر کسی مزاحمت اور حیل و حجت کے قصی کے سپرد کردیا جائے۔[38]

مذکورہ بیان کے بارے میں کسی طرح کی گفتگو کرنے سے پہلے لازم ہے کہ اس ماجرے کو ”ابن سعید اندلسی” (ساتویں صدی ہجری) کے بیان میں دیکھا جائے۔

کتاب نشوة العرب فی الجاہلیة العرب (کتاب الکمائم سے روایت، تحریر ظہیر الدین احمد بن زید بیہقی) میں مذکورہ بیان ذرا مختلف ہے[39] اس بیان کے مطابق قصی اور خزاعہ کے درمیان ہونے والی صلح منصفی کی صورت نہیں تھی بلکہ یہ صلح قصی کی ذاتی پیشکش کا نتیجہ تھی، کیونکہ قصی نے مستقیم مذاکرات کو ترجیح دی ۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ قریش اور خزاعہ جنگ میں سفیروں کا رد و بدل کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود جنگ طول پکڑ گئی اور قاصدوں و سفیروں کے زریعےکئے جانے والے مذاکرات   نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکے اس لئے قصی نے اپنی قوم سے کہا کہ وہ خود گفتگو کے دروازے کو کھولے گا۔

حیرت یہ ہے کہ قصی کے گمان کے مطابق یہ جنگ سفیروں کے پیغام پہنچانے میں کوتاہی کی وجہ سےطول پکڑ گئی تھی۔ پس قصی میدان جنگ میں آئے اور قبیلہ خزاعہ کے ساتھ بات چیت شروع کی اور انہیں صلح و آشتی کی طرف بلایا، انہوں نے اپنے لئے کعبہ کی ادارت کا مطالبہ کرتے ہوئے دشمن کو اس طرح تجویز کیا:

”بطن مرّ” (نزدیکی مکہ) میں جب تک چاہو رہو اور اس علاقے کا انتظام بھی تمہارے سپرد ہم تم سے کبھی بھی معترض نہیں ہوں گے اس لئے کہ ہم ملک کے پیچھے نہیں ہیں۔ ہم فقط خانہ کعبہ اور اس کے اردگرد کو چاہتے ہیں اگر یہ تجویز قبول ہے تو ہم تم سے نیک سلوک کریں گے اور وہ خون جو ہمارے درمیان بہہ چکا ہے ضائع جائے گا لیکن اگر اس تجویز کو نہیں مانتے ہو تو پھر تمہارے اور ہمارے درمیان تلواریں فیصلہ کریں گی ….

اس بیان کے مطابق خزاعہ کے لوگ قصی کی گفتگوسننے کے بعد صلح و آشتی کی طرف مائل ہوئے، ان کی طرف سے صرف اس چیز کا مطالبہ کیا گیا کہ کوئی شخص اس بات کا ضامن ہو کہ دونوں طرف سے بہنے والا خون ضائع ہے اور کسی ایک پر بھی دیت نہیں ہے تاکہ بعد میں کوئی اس چیز کا مطالبہ نہ کرسکے اس مطالبے کو پورا کرنے کے لیے بنی کنانہ کا سردار ”یعمر بن عوف” ضامن ہوا اور آخرکار صلح انجام پائی۔[40]

اسحاق اور بیہقی کے مذکورہ دونوں بیانات میں سے بہت دشوار ہے کہ کسی ایک بیان کو ترجیح دی جائے؛ البتہ سند کے اعتبار سے ابن اسحاق کا بیان زیادہ شہرت کا حامل ہے۔ جبکہ بیہقی کا بیان ابن اسحاق کی سند کی نسبت کمزور ہے۔ کیونکہ اس بیان کا ”سلسلۂ اسناد” ہمیں معلوم نہیں ہے۔ نشوة الطرب کے علاوہ دوسرے تاریخی منابع میں اس بیان کی طرف اشارہ تک موجود نہیں ہے اگرچہ اس بیان کا مفہوم دو حوالوں سے حسن ظن پر مشتمل ہے ایک یہ کہ صلح مستقیم گفتگو کے ذریعے ہو رہی ہے دوسرا یہ کہ دونوں طرف کے بہنے والے خون کی بخشش عمل میں آرہی ہے۔ جبکہ ابن اسحاق کے بیان کے مطابق فیصلہ یہ ہوا کہ قریش کو دیت ادا کی جائے جبکہ خزاعہ کے بہنے والے خون ضائع جائیں گے۔

مذکورہ بالا بیانات میں سے کون سا بیان تاریخی واقعیت کے ساتھ منطبق ہے؟ بلا شبہ اس امر میں تشخیص دینا ایک مشکل امر ہے۔ ان دونوں بیانات میں سے ایک حوالے سے ابن اسحاق کی روایت کی شہرت اور بیہقی کی روایت کے منفرد ہونے سے ابن اسحاق کے بیان کو قبول کرنے کے لئے تقویت ملتی ہے۔ اس بیان کے مطابق صلح تحکیم کے ذریعے عمل میں آئی جبکہ صلح کی شرائط بھی واضح سی ہیں البتہ یہ بھی ممکن ہے کہ منصف نے دونوں طرف کے خون کو اپنی طرف سے بخش دیا ہو۔ جیسا کہ ”ابو الولید ارزقی” نے کتاب اخبار مکہ میں ابن اسحاق اور عبد الملک بن عبد العزیز بن جریج کی روایتوں (٨٠۔ ١٥٠ہجری) سے استفادہ کرتے ہوئے یہ نظریہ اختیار کیا ہے کہ مذکورہ صلح ”تحکیم” کی صورت میں وقوع پذیر ہوئی ہے؛ لیکن منصف نے دونوں اطراف کے بہنے والے خون کورائیگاں قرار دیا ہے[41]۔

یہ نظریہ بھی ابن اسحاق کی اصل روایت کی طرح اس وقت معنی رکھتا ہے جب میدان جنگ میں قصی کی برتری کا پلڑا بھاری ہو اور اس کے مقابل خزاعہ کے لوگ ”صوفہ” کی طرح اس حد تک پیچھے ہٹ گئے ہوں کہ کعبہ و مکہ سے بالکل لا تعلق ہوگئے ہوں یا میدان جنگ میں آخری دم تک ڈٹ گئے ہوں اور پھرکسی حد تک اپنے بہتر انجام کے پیشِ نظر (حکمیت) منصف کے فیصلے کو قبول کرلیا ہو تاکہ بچ جانے والے لوگوں کی جانوں کو تو کم از کم بچا سکیں اور مکہ کے قریب رہ سکیں ۔

بے شک یہی اہداف خزاعہ کے لئے اہم تھے اس لئے انہوں نے ان اہداف تک پہنچنے کے لیے منصف کے فیصلے کو قبول کیا۔ حالانکہ منصف کا فیصلہ کاملاً یکطرفہ (قصی اور قریش کے بڑے قبیلوں کنانہ اور قضاعہ کے نفع میں) تھا لیکن خزاعہ نے پھر بھی مذکورہ اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے احتمالاً قبول کیا کہ اپنے دشمن کے قتل ہونے والوں کاخون بہاادا کریں جبکہ اپنے بہنے والے خون سے چشم پوشی اختیار کریں۔

قابل ذکر ہے کہ تاریخی متون میں خون بہا کی ادائیگی کی تصریح نظر نہیں آتی۔ اسی طرح روایت کے متن میں ایسا کوئی قرینہ نہیں کہ صادر کئے گئے احکام قلم بند کئے گئے ہوں۔ بلکہ منصفی[42] کی اصطلاح زیادہ تر زبانی معاملے پر ہی صادق آتی ہے یہ اصطلاح مکتوب معاملےکے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ نکتہ بھی واضح ہے کہ بنی کنانہ سے چنا گیا منصف قصی کا ہم پلہ تھا [43]۔ اس صورت میں ممکن نہیں ہے کہ وہ بغیر کسی وجہ کے قصی کے فائدہ میں فیصلہ کرے۔ بہرحال مذکورہ صلح اپنے اندر بہت سے پیغام سموئے ہوئے ہے اس بارے ابن اسحاق کہتا ہے:

اس کے بعد قصی نے خانہ کعبہ اور مکہ کے امور کی باگ ڈور سنبھالی اور اپنی بکھری ہوئی قوم کو مختلف جگہوں سے اُٹھا کر کے مکہ آبسایا؛ اس کی قوم اور اہل مکہ نے بھی اُن کی حاکمیت کو تسلیم کیا۔ قصی نے اعراب کی سنن اور مراسم کو سابقہ حالت میں باقی رکھا؛ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ سنن اور مراسم دین اور آئین کی مانند ہیں اور ناقابلِ تغیر ہیں ۔۔۔؛ پس قصی بن کلاب ”بنی کعب بن لوی” میں سے پہلے شخص تھے جنہوں نے ملک کی باگ دوڑ سنبھالی اور ان کی قوم نے ان کی حاکمیت[44] کو تسلیم کیا۔

اسی بنیاد پر انہوں نے ”حجابت”، ”سقایہ”، ”رفادہ”، ”ندوہ” اور ”لواء” کے امور کو بھی سنبھالا اور اس لحاظ سے ان کا شمار مکہ کے محترم لوگوں میں ہوا۔ یہ بالکل واضح نہیں ہے کہ کیا مذکورہ امور پنجگانہ [45] (حجابت، سقایہ و ۔۔۔) قصی کی سرداری سے پہلے بھی رواج پذیر تھے یا پھر انہوں نے ہی ان امور کی بنیاد رکھی۔ بس اس حد تک واضح ہے کہ حج سے مربوط امور اور شہر مکہ کی ادارت قصی سے شروع ہوئی؛ جیسا کہ انہوں نے ہی ایک جگہ کو بعنوان ”مشورت” اور رائے دہی کے لئے مخصوص کیا۔

جو اسی مناسبت سے ”دار الندوہ” کے نام سے معروف ہوا[46]۔ اسی طرح قصی نے قبیلۂ قریش کو کہا کہ فقیر حاجیوں کو کھانا دیں اور انکی خدمت کریں۔ انہوں نے اپنے عزیزوں سے اس طرح کہا:

اے خاندان قریش! تم خدا کے ہمسائے اہل خانۂ خدا اور اہل حرم ہو یقینا حجاج خدا کے گھر کے زائر اور خدا کے مہما ن ہیں پس وہ ایسے مہمان ہیں جن کی تکریم کی جانی چاہیے۔۔۔[47] اسی بناء پر شاید کہا جاسکتا ہے کہ ”رفادہ” (ایام حج میں غریب حاجیوں کو کھانا دینا) قصی کی پیش رفت[48] میں سے ہو اسی طرح کا احتمال ”سقایہ” کے بارے بھی ہے۔ کیونکہ بعض تاریخی منابع میں ”سقایہ” کی تفسیر میں بیان ہوتا ہے کہ قریش کے دور میں مکہ کے پیچھے چمڑے کے دو حوض تھے جن سے حاجی پانی پیتے تھے،[49] بعض اوقات قریش کے دور کے بجائے تصریحا قصی کا دور ذکر کیا جاتا ہے۔ [50]

لیکن یاد رہے کہ قصی اور خزاعہ کے درمیان صلح سے پہلے بھی مکہ کا انتظام و انصرام تھا۔ اور یہ انتظام و انصرام ”بعض مخصوص حصوں” [51] کو شامل تھا جیسا کہ ”حجابت” یا ”سدانت” وہی خانہ کعبہ کی پردہ داری اور کلید برداری تھی اور ”لواء” جنگ کی پرچمداری اور فوجی فرمانروائی تھی[52] بہرحال قصی نے تاریخ میں عظمت و شکوہ کے ساتھ مکہ کے امور کو چلایا۔

قابل ذکر ہے کہ تاریخی منابع میں اس طرح کی کوئی ایک روایت نہیں ملتی کہ قبیلۂ خزاعہ کے افراد نے صلح کے بعد قصی کی مخالفت یا سرکشی کی ہو۔ یہ امر قصی کے اقتدار پر دلالت کرتا ہے نیز یہ امر اس چیز کا بھی شاہد ہے کہ قصی کی خزاعہ کے ساتھ صلح کو دوام اور ثبات حاصل تھا جیسا کہ وہ اسی صلح کی بدولت ہی اس قابل ہوئے کہ حج، خانہ کعبہ اور مکہ کے امور کو خوش اسلوبی سے انجام دیں ،اس پر مستزاد صلح کرنے کے بعد انہوں نے مکہ کی رہائش گاہیں قریش کے افراد میں تقسیم کیں اور اپنی قوم کو شہر میں آبسایا جبکہ دوسرے لوگوں (منجملہ کنانہ اور خزاعہ کے افراد) کو مکہ کی اطراف [53] میں بھیج دیا۔ قابل ذکر ہے کہ یہی دور قریش کی عظمت اور عروج کا آغاز [54] تھا؛ قریش نے قصی کو از روئے احترام ”مجمع” ”اکٹھا کرنے والا” کا لقب دیا؛ کیونکہ قصی نے بہترین انداز سے ان کو منظم کیا۔[55]

               ۲۔ صلح بنی عبد مناف و بنی عبد الدار

اس سے پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ قصی کی خزاعہ کے ساتھ صلح میں ہرگز کسی قسم کا تزلزل نہ آیا حتی اس صلح کی اس حد تک پابندی ہوئی کہ اس صلح کی تھوڑی مقدار میں مخالفت یا اس سے روگردانی بھی نہ ہوئی جو تاریخ میں ثبت ہوسکے۔ کیا اس کے بعد مکہ بالکل امن و سکون کے ساتھ کسی بھی طرح کی لڑائی یا جنگ کے بغیر چلتا رہا؟

اس سوال کے جواب کے لئے قصی کے جانشینوں (بیٹوں) کے ماجرا کو دیکھنا ہوگاقصی کے چار بیٹے عبد الدار، عبد المناف، عبد العزی اور عبد القصی تھے۔ قصی اور ان کی زوجہ (حبّی) اپنے دوسرے بیٹوں کی نسبت عبد الدار سے زیادہ پیار و محبت کرتے تھے؛ البتہ یہ کہ عمرکے لحاظ سے عبد الدار سب سے بڑا تھا، لیکن شرافت اور وجاہت میں دوسرے بیٹوں (خصوصا عبد مناف) سے بہت پیچھے تھا۔

نفسیاتی تحلیل کی بنا پر یہی موضوع باعث تھا کہ اس کے والدین اسے زیادہ پیار کریں۔[56] اسی لئے جب قصی نے ارادہ کیا کہ مکہ کے امور (یا ان میں سے کچھ) عبد الدار کے حوالے کریں اور اسے شرافت اور عظمت بخشیں؛ البتہ تاریخی منابع میں یہ اختلاف موجود ہے کہ آیا قصی نے تمام امور پنجگانہ یا شش گانہ عبد الدار کے سپرد کئے یا ان میں سے چند اس کے سپرد کئے اور ان کو دو برابر حصوں میں عبدالدار اور عبد مناف میں تقسیم کیا۔[57]

”ازرقی” کا نظریہ ہے کہ قصی نے امورِ مکہ کو اس طرح تقسیم کیا کہ ایک طرف انہوں نے دارالندوہ اور لواء عبد الدار کے سپرد کئے جبکہ دوسری جانب سقایہ، رفادہ اور قیادہ کے امور عبد مناف کو تفویض کئے۔[58] اسی طرح ابن سعید اندلسی نے بھی مذکورہ نظریئے سے ملتے جلتے نظریہ مثلاً رفادہ و سقایہ کی تفویض عبد مناف جبکہ حجابت ندوہ اور لواء کے امور عبد الدار کو سونپنے کو اختیار کیا ہے[59] اس کے باوجود ”ابن اسحاق”[60] اور ”ابن سائب کلبی”[61] (متوفی ٢٠٤ ہجری) اور ”محمد بن عمر واقدی”[62] (١٣٠۔ ٢٠٧) کے بیانات کے مطابق ماجرا اس طرح ہے کہ قصی نے اپنے بڑھاپے میں مکہ کے تمام امور (حجابت، سقایہ، رفادہ، ندوہ اور لواء) عبد الدار کے سپرد کئے۔

یہاں پر یاد رہے کہ اس دور میں قریش کے قبیلگیSystem میں سرداری کے لئے جانشینی صرف [63] وراثت کی بنیاد پر نہ تھی کہ سب سے بڑا بیٹا اس منصب کا حق دار بنے بلکہ وراثت دوسری خصوصیات کے ساتھ فرعی حیثیت کی حامل تھی۔

جبکہ یہاں زیر بحث مورد میں سب قصی کے بیٹے تھے اور اصل وراثت میں بھی شریک تھے۔ بہرحال بات یہ تھی کہ آیا سب سے بڑا یا پھر دوسرے بیٹوں میں سے شریف و نجیب اور جانشینی کی اہلیت رکھنے والا جانشین بنے۔

مؤرخین کے بیانات میں اس ماجرے کے بارے میں اس طرح ملتا ہے کہ جانشینی کے لیے دوسرے بیٹوں کی نسبت شریف و نجیب بیٹے کو ہی اولویت حاصل تھی۔ اس لحاظ سے قصی کا عبد الدار کو دوسرے بیٹوں پر ترجیح دینا جبکہ وہ جانشینی کی اہلیت بھی نہ رکھتا تھا، اس کے خاندان میں خطرناک رقابت کا موجب بنا؛ باپ کے مشفقانہ اقدام کی بدولت ہی عبدالداران امور تک دسترس حاصل کر سکا یہ معلوم نہیں ہے کہ ان امور کی باگ دوڑ سنبھالنے کے بعد عبد الدار نے مطلوبہ اہلیت حاصل بھی کی یا اسی طرح نا اہل ہی رہا۔

لیکن اس حد تک تو واضح ہے کہ ا س کے دوسرے بھائی (خصوصاً عبد مناف) اپنے آپ کو اس کی نسبت شریف اور برتر سمجھتے تھے اور اگر انہوں نے بذاتِ خود عبد الدار کو تمام اختیارات سپرد کئے جانے کی مخالفت نہ کی، لیکن زیادہ وقت [64] نہ گزراتھا کہ عبد مناف کے بیٹوں عبد شمس، ہاشم اور نوفل نے تمام امور کا اپنے چچا زابھائیوں (بنی عبد الدار) سے مطالبہ کردیا۔ [65]

               دومعاہدوں کا انعقاد

قصی کے بیٹوں اور بھتیجوں کے درمیان جھگڑا کے آشکار ہونے سے قریش کے خاندانوں کا شیرازہ بکھر گیا، ہر خاندان اور طائفہ ایک طرف مائل تھا ایک گروہ بنی عبد مناف کی طرف جبکہ دوسرا گروہ بنی عبد الدار کی طرف۔[66]

ایک طرف عبد مناف کا سب سے بڑا بیٹا عبد شمس مطالبہ کرنے والوں کا رہبر تھاجبکہ دوسری طرف عامر بن ہاشم بن عبد مناف بن عبدالداربنی عبدالدار کی کمان سنبھالے ہوئے تھا اسی اثنا ہر گروہ کے حمایتی خاندانوں نے آپس میں ایک معاہدہ منعقد کیا کہ ”ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں اور کوئی بھی دوسرے کو نہ چھوڑے اور تا ابد اس معاہدے پر باقی رہیں”؛ پھر بنی عبد مناف ایک بڑے ظرف کو جو ”طیب” (ایک خوشبو دار مادہ) سے پر تھا اپنے ہم پیمانوں کے درمیان لائے۔ [67] سب نے اپنے ہاتھوں کو اس ظر ف میں ڈالا اور اپنے عہد کو دہرایا اور بطور تبرک ”طیب” سے بھیگے ہاتھوں کو کعبہ کی دیوار کے ساتھ مس کیا؛یہی وہ لوگ تھے جو ”مطیبین” کے نام سے معروف ہوئے۔

دوسری طرف بنی عبد الدار اور ان کے حامیوں نے ایک جانور کو ذبح [68] کیا، اس کے خون کو اپنے ہاتھوں سے لگایا ، کعبہ کے نزدیک آکر اپنے پیمان کو دہرایا یہ لوگ”احلاف” یعنی (ہم پیمان) معروف ہوئے۔

               جھگڑےکا انجام

شاید قصی نے کبھی ایسا سوچا بھی نہیں ہوگا کہ قریش کے لوگ ایک دن اس طرح ایک دوسرے کے مقابل اٹھ کھڑے ہوں گے ان کا غضب یہاں تک پہنچ گیا کہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرائی شروع کردی؛یہاں تک کہ ہر قبیلہ دوسرے قبیلے کے لشکر کے مقابل کھڑا تھا۔ خود بنی عبد مناف بنی سہم کے مقابل میدان میں آئے بنی عبد الدار نے بنی اسد کا سامنا کیا، بنی زہرہ بنی جمح کے روبرو تھے؛ بنی تیم نے بنی مخزوم کے مقابل محاذ بنایا، اور بنی الحارث بنی عدی سے لڑنے کے لیے تیار کھڑے تھے سب نے اس طرح نعرہ لگایا ”ہر قبیلہ اپنے حریف قبیلے کو نابود کردے”!

بالکل بھی واضح نہیں ہے کہ اس دباؤاور بحران میں کس کی طرف سے دوستی کا ہاتھ بڑھا اورکس نے لچک دکھائی، تاریخ میں صرف یہ ذکر ہوا ہے کہ دونوں طرف سے سفیر وں کا تبادلہ ہوا [69] اس صورت حال میں کہ لوگ ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کے لیے بالکل آمادہ تھے”۔ جب ان کو صلح کی طرف بلایا گیا تو انہوں نے قبول کیا اور طے ہوا کہ ”سقایہ” اور ”رفادہ” بنی عبد مناف کے سپرد کئے جائیں، دوسری جانب حجابت، لواء اور ندوہ اسی طرح بنی عبد الدار کے پا س رہیں۔ اسی طرح صلح کی بدولت جنگ کا خطرہ ٹل گیا ؛لیکن اس کے باوجود ہر قوم اپنے حامیوں کے ساتھ آخر تک اپنے پیمان پر قائم رہی”[70] ۔ پھر اس صلح کے بعد سقایہ اور رفادہ کے عہدوں کو عبد مناف کے بیٹوں میں تقسیم کرنے کے لیے قرعہ ڈالا گیا جو ہاشم [71] کے نام نکلا۔

اب بہتر ہے کہ اس کشمکش کے اختتام کا قصی کے اقدام کے متعلق دو نظریات کے تناظر میں ”بیٹوں کے درمیان امور کی تقسیم” ”تمام امور کی صرف عبد الدار کو سپردگی” کا جائزہ لیں، تو معلوم ہوگا کہ پہلے نظریہ کی بنیاد پر بنی عبد الدار کا مقام و مرتبہ دوسروں کی نسبت زیادہ تھا۔ اس طرح کہ بنی عبد مناف نے کلی طور پر اپنے مؤقف سے ہاتھ اٹھا لیا؛ دوسرے نظریہ کی بنیاد پر ماجرا اس طرح ہوگا کہ دونوں قبیلوں کے درمیان توازن قائم ہونے سے بنی عبد الدار اس چیز پر راضی ہوگئے کہ اختیارات کا کچھ حصہ اپنے مخالف کے سپرد کریں البتہ یہی نظریہ درست لگتا ہے۔ یہاں پر یاد رہے کہ مذکورہ واقعہ میں صلح کی طرف رغبت قریش کی سیاسی رشد کا پیش خیمہ تھی۔ بنی عبد الدار اور بنی عبد مناف کا خونی جنگ کی بجائے صلح پر انجام ہوا شاید قریش کے لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ اس داخلی جنگ میں اگر کوئی کامیاب بھی ہوگیا تو اتنا کمزور ہوجائے گا کہ دوسری اقوام اور رقباء کے لئے اس کو مغلوب کرنے کا امکان آسانی سے فراہم ہو جائے گا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس لڑائی میں ہر ایک اپنے رشتہ دار کے مد مقابل تھا، اس لئے ہی تو دونوں لشکروں نے صلح کا استقبال کیا کہ مبادا ”برادر کشی” کے مرتکب ہوں۔

قابل توجہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد پیامبر خدا حضرت محمد ﷺبن عبد اللہ نے کعبہ کی ”کلید”[72] ”عثمان بن طلحہ” اور ”شیبہ بن عثمان” (دونوں بنی عبد الدارسے) کو عطا فرمائی، یہ امر بنی عبد الدار اور بنی عبد مناف کی صلح کےمطابق تھا۔

بطور کلی، مکہ کے امور پنجگانہ میں سے ہر ایک کے انجام کے بارے مفصل اطلاع موجود ہے اسلام کے دور کے بعد بھی ”حجابت” بنی عبد الدار کے پاس جبکہ ”رفادہ” اور ”سقایہ” کے عہدے عبد مناف کے بیٹوں کے پاس رہے۔ دار الندوہ بھی عبد الدار کی قوم کے پاس تھا یہاں تک کہ معاویہ نے (اپنے دور حکومت میں) اس جگہ کو ان سے خریدا اور دار الامارہ قائم کیا۔ مذکورہ پانچ امور میں سے پیامبر اکرم ﷺ نے صرف لواء کو باطل اور اس کے اعتبار کو[73] ختم کیا۔ دو پیمان ”حلف المطیبین و احلاف” کے بارے پہلے اشارہ ہوا کہ یہ پیمان ہمیشہ پائیدار رہے۔ ”ابن ا سحاق” (متوفی ١٥١ ہجری) ان پیمانوں کی پائیداری پر تاکید کرتے ہوئے یاد دلاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر پیمان جو جاہلیت میں تھا اسلام نے اس پر کچھ اضافہ نہیں کیا مگر یہ کہ شدت کے ساتھ اس کو بخشنے پر[74] ؛ البتہ اس فرمان کے بارے میں اختلاف ہے۔ حضرت ﷺ سے اس طرح نقل ہوا ہے کہ عصر جاہلیت میں منعقد ہونے والا ہر پیمان اسلام میں معتبر نہیں ہے ان دو باتوں کے درمیان تناقض اس طرح برطرف ہوتا ہے کہ پہلی بات ان معاہدوں کے بارے میں ہے جو نیک امور کی انجام دہی کے لئے تھے (مثلاً مظلوم کی مدد) اور دوسری بات ان پیمانوں کے متعلق ہے جو دورِ جہالت میں شر کے کاموں (مثلاً غارت اور [75] تاراجی) کی بنیاد پر ہوئے۔ اسلام کے بعد کے دور میں ”احلافی” اور ”مطیبی” کی تعبیروں[76] کا وجود اس چیز کی دلیل ہے کہ اس دور میں بھی مذکورہ معاہدوں کا نام اور یاد باقی تھی۔

دوسرا حصہ: قبل از ”حدیبیہ” صلح کے معاہدے

١۔ بنی ضمرہ کے ساتھ صلح کامعاہدہ

٢۔ بنی مدلج کےساتھ صلح کا معاہدہ

٣۔یہود مدینہ کے ساتھ صلح کا معاہدہ

٤۔غزوہ بدر و خندق میں صلح کی پیشکش

٥۔خزاعہ کے ساتھ معاہدہ

               ١۔ ”بنی ضمرہ” سے صلح

سن ٢ ہجری صفر کے مہینے میں اولین ”غزوہ”[77] کے لئے پیامبر اکرم ﷺ ٧٠ مہاجرین کے ساتھ (اس غزوہ میں ایک بھی انصاری نہیں تھا) یثرب سے نکلے، تاکہ قریش کے تجارتی قافلے کو روک سکیں۔ مکہ کی جغرافیائی کیفیت ایسی تھی کہ مسلمان مشرکین مکہ کے تجارتی قافلوں کو روک کر ان کے اقتصاد کو خطرے میں ڈال سکتے تھے۔ اس غزوہ سے پہلے بھی ”حمزہ بن عبد المطلب” اور ”عبیدہ بن الحارث” کی سربراہی میں ہونے والے ”سریے” اسی مقصد کے حصول کے لیے تھے۔ قریش کے قافلے کو روکنے کے لئے ہی پیامبر اکرمﷺ سن ٢ ہجری گیارہ [78] یا بارہ [79] صفر ”ابوا” اور ”ودان”[80] کی طرف آئے چونکہ کاروان وہاں سے گزر چکا تھا، مسلمانوں کا مقصد تو پورا نہ ہوا لیکن اس علاقے میں ”بنی ضمرہ” سے سامنا ہوگیا۔ مسلمانوں نے فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے اس خاندان کے ساتھ ”موادعہ” (صلح) کی۔ اسی طرح رسول اللہﷺ کا پہلا غزوہ صلح پراختتام پزیر ہوا۔

مسلمانوں کے پیشوا کی حیثیت سے رسول خداﷺ اور بنی ضمرہ کے رئیس مخشی بن عمر و الضمری”[81] کے درمیان ا س طرح معاہدہ ہوا:

”لایغزو بنی ضمرہ ولا یغزونہ ولا یکثروا [82]علیہ جمیعاً، ولا یعینوا علیہ عدوّاً” ]پیامبر (ص)[ بنی ضمرہ سے جنگ نہ کریں ا س طرح بنی ضمرہ بھی رسول اللہ (ص) سے نہ لڑیں اور ان پر حملہ کریں اور نہ ان کے کسی دشمن کی کسی بھی طرح کی مدد کریں[83] ؛ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس صلح کو مکتوب[84] فرمایا صلح کا متن اس طرح ہے:

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

ھذا کتاب من محمّد رسول اللّٰہ، لبنی ضم بأنھم آمنون علی اموالھم و انفسھم و ان لھم النصر علی من رامھم، اِلّا اَن یحاربوا فی دین اللّٰہ؛ ما بلّ بحرّ صوفةً [85] و ان النبی اذا دعاھم لنصرہ اجابوہ؛ علیھم بذلک ذمة اللّٰہ و ذمة رسولہ و لھم النصر علی من برّ منھم و اتّقی:

شروع اللہ رحمن ورحیم کے نام سے۔

یہ معاہدہ پیامبر خدا محمد (ص) کی طرف سے بنی ضمرہ کے لئے ہے:

یہ کہ ان کے جان و مال کو امان ہے، دشمنوں کے مقابلے میں ]مسلمانوں کی طرف سے[ ان کی مدد ہوگی، لیکن اس صورت میں کہ دین خدا ]اسلام[ سےجنگ نہ کریں ”یہ پیمان ہمیشہ کے لیے ہے”، اور یہ کہ جب بھی پیامبر، ان کو مدد کے لیے پکاریں تو لبیک کہیں۔ ان امور میں عہد و ذمہ خدا و رسول کی گردن پر ہے اور ان کےذمہ ہے کہ ان کی مدد ہوگی، ]البتہ[ ان کے نیک اور پرہیزگاروں کی۔ [86]

غزوہ ”ابواء” اور ”ودان” پندرہ [87] دن کے بعد ختم ہوا ، اس عرصے میں رسول اللہ (ص) نے ”سعد بن عبادہ” خزرجی کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر فرمایا۔[88] اس غزوہ کے مقام کے بارے تاریخی منابع میں زیادہ تر ابواء اور ودان کا ذکر ہوا ہے۔ ابواء اور ودان دو بڑے دیہات تھے جن کا درمیانی فاصلہ (چھ میل[89] یا آٹھ میل) تھا۔[90] دونوں میں سے ہر ایک مدینہ کی راہ میں مسافرین کی منزل گاہ تھا۔ مسافرین ابواء یا ودان ٹھہرتے تھے۔ ”ابواء” دریا ئے سرخ کے ساحل کے نزدیک دو پہاڑوں کے درمیان ٢١ میل یثرب کے جنوب مغرب میں واقع تھا۔ ”ودان” بھی جنوبی علاقہ[91] تھا اور مدینہ سے تقریباً ٤[92] روز کے فاصلے پر واقع تھا۔ اس جگہ سے گزرنے والے کاروان کی تعقیب کے لئے دونوں علاقوں کو مدنظر رکھنا پڑتا تھا اس غزوہ میں رسول اللہ (ص) نے ایسا ہی کیا ”ابواء” کا گاؤں ”ضمرہ” اور ”خزاعہ” کے قبیلوں کا مقام [93] تھا۔ جبکہ ”ودان” کے گاؤں میں بنی ضمرہ اور ان کے چند رشتہ دار خاندان رہتے تھے[94]۔ البتہ بنی ضمرہ ”کنانہ” کے خاندانوں میں سےہی ایک خاندان سے تھے۔ [95]

رسول اللہ ﷺ اور بنی ضمرہ کے درمیان ہونے والی صلح میں غور و فکر کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ پیامبر اکرم (ص) اور بنی ضمرہ دونوں کا اہم ترین ہدف یہی تھا کہ آپس میں جنگ یا اس طرح کا سخت معاملہ پیش نہ آئے البتہ امن و امان اور کسی بھی طرح کی لڑائی سے گریز نئی اسلامی حکومت کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ خصوصاً یہ احتمال تھا کہ بنی ضمرہ قریش سے نہ مل جائیں ، جیسا کہ پہلے ذکر ہوا بنی ضمرہ ”کنانہ” میں سے تھے اور آپس میں دیرینہ گہرے تعلقات و روابط رکھتے تھے۔ بنی ضمرہ مسلسل قریش سے منسلک تھے۔ اسی طرح بنی ضمرہ کے مشرک اور بت پرست ہونے میں بھی کسی طرح کا شک نہیں تھا۔ اس وجہ سے رسول اللہ (ص) کا بنی ضمرہ کو دشمنوں کی صف سے خارج کرنے کا اقدام انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔

یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا پیامبر اکرمﷺ صرف قریش کے قافلے کو روکنے کے لئے نکلے تھے اور بنی ضمرہ سے آپ (ص)کا سامنا ”اتفاقی” تھا۔ جو اوپر ذکر ہوا ان چند تاریخی منابع کے اسناد[96] سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ بنی ضمرہ سے سامنا اتفاقی تھا۔ لیکن اس کے باوجود کچھ منابع[97] میں یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ رسول خدا ﷺ قریش کے قافلے اور بنی ضمرہ[98] دونوں کے قصد سے نکلے تھے۔ اس بارے یاد رہے کہ اس دور میں مسلمان اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ ایک ہی وقت میں دو دشمنوں (قریش کے قافلہ اور بنی ضمرہ) کی تعقیب میں میدان میں اتریں۔ ماجرا اس طرح تھا کہ رسول خدا ﷺ قریش کے قافلے کے قصد سے ہی نکلے تھے اور ابواء و ودان میں بنی ضمرہ سے اتفاقی طور پر آمنے سامنے کے بعد ان سے صلح کی اسی لئے ان دونوں (پیامبر اکرم (ص) اور بنی ضمرہ) کے درمیان (منازعہ)جنگ[99] کا احتمال ختم ہوگیا[100] ”۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اس صلح کو اتفاقی اور کم اہمیت کا حامل سمجھا جائے یہ صلح فریقین کے لئے اس حد تک اہمیت رکھتی تھی کہ اس صلح کی باقاعدہ دستاویز تیارکی گئی اس دستاویزکے درج ذیل اہم نکات قابل توجہ ہیں۔

۱۔”حفظ امن و امان” ہر دو طرف سے مورد نظر ٹھہرا؛ ایک طرف مسلمانوں کے امن و امان پر تو جہ دی گئی  تو دوسری طرف اعلان ہوا کہ ”بنی ضمرہ کے جان و مال امان میں ہیں”

٢۔ تاریخ اسلام کے اس حساس مرحلہ ”مرحلہ تاسیس، حکومت اسلامی”پر رسول اللہ (ص) نے کافروں کے ایک گروہ سے صلح کی اور کوشش کی کہ یہ صلح عمومی ہو اور پائیدار رہے؛ یہ صلح اس انداز سے ہوئی:

الف۔ رسول اللہ ﷺنے صلح کے متن میں بنی ضمرہ کے قبیلے کے رئیس کا نام ذکر نہ کیا بلکہ عمومی طورپر تمام بنی ضمرہ کو حلیف قرار دیا البتہ صلح کوقلمبند کرنے سے پہلے بنی ضمرہ کے اس وقت کے رئیس سے لازمی امور پر موافقت ہوئی۔

ب۔ صلح کے متن میں پیامبر (ص) نے اس صلح کی ہمیشگی پر زور دیا۔

٣۔ بنی ضمرہ کی اسلام سے جنگ و لڑائی کو واضح طور پر صلح کا اختتام سمجھا گیا۔

٤۔ بنی ضمرہ کے مقابلے میں رسول اللہ (ص) کا مقام ”اقتدار آمیز تھا” جس طرح کہ صلح کا مواد حضرت(ص) کی طرف سے تدوین ہوا اور اس طرح پیمان اور ”ذمہ” خدا اوراس کے رسول کے طور پر ذکر ہوا۔ اور اس معاہدہ میں پیامبر اسلام (ص) کو رسول اللہ کے وصف سے یاد کیا گیا۔

٥۔ اس صلح نامہ میں ایک دوسرے سے جنگ نہ کرنےکے معاہدہ کے ساتھ ساتھ اس امر پر بھی مصالحت ہوئی کہ اگر ایک فریق پر حملہ ہو تو دوسرا اس کی مدد کرے گا؛ البتہ تاریخی منابع میں ایک بھی ایسی اطلاع نہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ کسی جنگ میں بنی ضمرہ نے مسلمانوں کی مدد کی ہو؛ لیکن دوسری طرف ”علی بن ابراہیم قمی” (متوفی ٣٠٧ہجری) نے ایک روایت نقل کی ہے کہ غزوۂ ”حدیبیہ” کے ہم زمان بنی ضمرہ کے افراد کو قبیلہ ”اشجع” نے دھمکی دی؛ یہ دونوں قبیلے ایک دوسرے کے نزدیک رہتے تھے ابھی تک آپس میں نہیں الجھے تھے کہ قبیلۂ ”اشجع” کو خشک سالی نے آلیا۔ اس صورت حال میں بنی ضمرہ کی سرزمین کا رخ کیا تاکہ ان پر دہشت جمائیں اس دور میں جب بنی ضمرہ کو بنی اشجع سے خطرے کا سامنا تھا پیامبر اکرم ﷺ عازم مکہ (غزوہ حدیبیہ) تھے آپ ﷺ نے بنی ضمرہ کی حمایت میں بنی اشجع کو سرکوب کرنے کا ارادہ کیا تاکہ بنی ضمرہ سے کئے گئے معاہدے پر عمل کرسکیں اور قبیلۂ اشجع کے ناگہانی حملے کو روک سکیں اس لئے بھی کہ اس سے پہلے جنگ ”احزاب” میں قبیلۂ اشجع نے مسلمانوں کے دشمنوں کا ساتھ دیا تھا۔[101] لیکن دلچسپ ہے کہ کسی بھی طرح کے حادثے کے رونما ہونے سے پہلے اشجعی قبیلہ کے لوگ حضور ﷺ کی خدمت میں آئے اور آپ(ص) کو ”موادعہ” (مصالحہ) (صلح) کی پیش کش کی جسے آپ (ص)نے قبول فرمایا اور ان سےصلح کرلی [102] ۔

اس صورت میں تاریخی نقطہ نظر سے واضح ہے کہ رسول خداﷺ کی بنی ضمرہ سے صلح اپنی جگہ انتہائی ضروری تھی جو دونوں طرف کے امن کی ضمانت تھی۔قابل ذکر ہے کہ ٤ ہجری ماہ شعبان میں رسول خدا (ص) نے غزوہ ”بدر الموعد” میں شرکت کی؛ اس جنگ کا سبب وہ وعدہ تھا جو ابو سفیان نے جنگ کے اختتام پر دیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ ایک سال بعد دوبارہ مسلمانوں سے لڑے گا لیکن اس نے اپنے وعدہ سے تخلف[103] کیا ا س صورت حال کو دیکھتے ہوئے مسلمان اپنے اقتدار کی نشان دہی کے لئے موعد کے مقام پر جمع ہوئے اس وقت جب مسلمان ابو سفیان اور اس کے لشکر کے آنے کا انتظار کر رہے تھے اچانک ”مخشی بن عمرو” ضمری ان کی طرف آیا اور رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا اے محمد(ص)! کیا قریش سے ملاقات کے لئے اس جگہ آئے ہو؟! آپﷺ نے جواب میں فرمایا ہاں اے برادرِ بنی ضمرہ! اگر چاہتے ہو تو ہم تمہارے ساتھ کئے گئے پیمان کو توڑ کر جنگ کرتے ہیں تاکہ خدا تمہارے اور ہمارے درمیان فیصلہ کردے” لیکن اس بے لاگ اور دو ٹوک جواب پر مخشی بن عمرو نے کہا نہیں خدا کی قسم اے محمد(ص)! ہم ایسی کوئی خواہش نہیں رکھتے [104] ۔

مذکورہ واقعہ کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں پر رسول خد اﷺ نے بنی ضمرہ کو صلح کے انحلال کی کیوں پیش کش کی۔ اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کیونکہ سن۴ ہجری میں مسلمان تین تلخ حادثات (”جنگ احد” مسلمان مبلغین کا قتل ”رجیع ” و”بئر معونہ” کے بعد انتہائی مشکل حالات میں تھے؛ اس طرح کی صورت حال میں ضروری تھا کہ آپ ﷺیثرب کے متعلق قبیلوں کے ذہنوں سے ہر طرح کی خیانت کے تصور کو نکالیں، اس تصور کو بنی ضمرہ کے ذہن سے نکالنے کے لئے آپ(ص) نے ان کو مذکورہ تجویز دی لیکن اس کے باوجود آپ (ص) نے جہاں بنی ضمرہ کے رئیس سے سختی سے بات کی وہاں اس کے لئے برادر کی تعبیر سے بھی کام لیا تاکہ اس کے دل میں دوستی اور محبت کے جزبے کو بیدار کرسکیں۔

وہ چیز جو ”بنی ضمرہ” کے بارے میں رسول خدا ﷺ کے نظریہ کو آشکار کرسکتی ہے؛ حضرت(ص) کی وہی بات ہے جو حدیبیہ کی طرف سفر کے (چھ ہجری) وقت بیان ہوئی۔ اس وقت رسول خدا (ص) کے ساتھیوں نے آپ(ص) کی خدمت میں عرض کیا کہ ”مبادا یثرب میں ہماری عدم موجودگی سے بنی ضمرہ فائدہ اٹھائیں اور یورش کردیں یا پھر قریش کی مدد کریں پس بہتر یہی ہے کہ پہلے ان کی خبر لے لی جائے!” لیکن آپﷺ نے اس تجویز کی شدت سے مخالفت فرمائی اور فرمایا: بالکل نہیں! بنی ضمرہ تمام عرب میں ، والدین کے ساتھ نیکی کرنے اور صلہ رحم میں سب سے بہتر ہیں اور اپنے وعدہ پر قائم رہنے والے ہیں۔[105]

اس سے پہلے نیز گزرا کہ اس ماجرا کے دوران ”غزوۂ حدیبیہ” ہی میں رسول اللہ ﷺ نے ارادہ فرمایا تھا کہ بنی اشجع کے مقابلے میں بنی ضمرہ کی حمایت کی جائے۔

”سعد بن ابی وقاص” ”خزار” نامی (”حجفہ” میں پانی کا نام) سریہ میں سپہ سالار تھے، اس سریے میں انہوں نے بنی ضمرہ کے کچھ جانوروں کو پکڑا اور اسے رسول خدا ﷺ کی خدمت میں بھجوایا؛ لیکن آپ ﷺنے بنی ضمرہ سے معاہدہ کا خیال کرتے ہوئے ان جانوروں کو بنی ضمرہ کو واپس کردیا۔[106] اس کے باوجود ”ابن واضح یعقوبی (متوفی (اواخر تیسری صدی ہجری) کا اصرار ہے کہ پیامبر اکرم ﷺ کا ایک سریہ، ”نمیلة بن عبد اللہ لیثی” کے ذریعے بنی ضمرہ کی طرف تھا تاکہ ان کو اسلام کی دعوت دی جائے؛ لیکن نمیلة اس سریہ سے واپس آیا اور پیامبر (ص)سے عرض کیا ”اے رسول خدا(ص)! بنی ضمرہ کہتے ہیں کہ: ہم نہ تو پیامبر   سے لڑیں گے، اور نہ ہی صلح کریں گے۔ نہ ان کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی تکذیب”۔

اس وقت مدینہ کے لوگوں نے پیامبر اکرمﷺ کو بنی ضمرہ سے لڑنے کی دعوت دیتے ہوئے یوں اظہار کیا: اے پیامبر(ص)! ان کے ساتھ جنگ کریں”! لیکن حضرت نے قبول نہ کیا اور فرمایا۔ ان کو چھوڑ دو کہ ان کی نسل میں برکت اور بزرگی ہے ان میں ایسا مرد پیدا ہو سکتا ہے جو خدا کی راہ میں لڑنے والا ہو؛[107]

مذکورہ بیان کسی دوسری تاریخ کی کتاب میں نہیں مل سکا اس بیان کو فقط یعقوبی نے ہی نقل کیا ہے جبکہ اس مؤرخ نے اس ماجرے کی کوئی تاریخ بھی ذکر نہیں کی؛ البتہ اس روایت کو اس نے جنگ ”موتہ” (آٹھ ہجری” کے بعد ذکر کیا ہے۔ اس روایت کے درست ہونے کی صورت میں بھی یہ چیز تو بڑی واضح ہے کہ پیامبر اکرم (ص) نے بنی ضمرہ سے لڑنے سے آخری دم تک اجتناب کیا۔

               ۲”بنی مدلج” سے صلح

جمادی الاول و جمادی الآخر کے مہینوں میں سن ٢ ہجری میں رسول اکرم (ص) ایک سو پچاس (ایک بیان کے مطابق دو سو افراد) افراد کے ساتھ”ذو العشیرہ” کی طرف نکلے۔ اس غزوہ کا مقصد قریش کے اس تجارتی قافلے کو روکنا تھا جو شام کی طرف جا رہا تھا جب آپﷺ ذو العشیرہ پہنچے تو قافلہ نکل چکا تھا اب یہ انتظار تھا کہ وہ قافلہ مکہ واپسی کے لئے اسی راستے سے گزرے گا۔ مسلمانوں کا قیام اس جگہ ایک ماہ (جمادی الاول اور اس کے بعد) اور کچھ مدت رہا۔ اس مدت میں قریش کے قافلے کی کوئی خبر نہ مل سکی۔ مسلمانوں نے اسی علاقے میں ساکن خاندان ”مدلج” سے ”موادعہ” (مصالحہ) مصالحت[108] کی اور اسے قلم بند کیا[109] افسوس وہ مکتوب متن دسترس میں نہیں ہے؛ صرف ”احمد بن محمد قسطلانی” (متوفی ٩٢٣ ہجری) کی کتاب المواہب اللدنیہ، میں مورد نظر صلح کا متن بنی ضمرہ کے ساتھ کی گئی صلح کا متن ہی ذکر ہوا ہے[110]

اس خلط اور اشتباہ پر ”برہان الدین حلبی” (٩٧٥۔ ١٠٤٤) نے تنقید کی ہے[111]۔ اس غزوہ میں، مسلمانوں کا مقصد ”ینبع”[112] کے علاقے میں واقع ایک جگہ ”ذوالعشیرہ” تھی جسے بعض اوقات غلطی سے ”ذات العشیرہ”[113] اور کبھی بطور اختصار ”عشیرہ” کہا جاتا تھا ۔[114]

”ینبع” مدینہ کے مغرب میں، دریائے سرخ کے ساحل پر واقع تھا اور اس جگہ سے ٩ دن کے فاصلے [115] پر تھا۔ یبنع میں خاندان ”مدلج” کے لوگ سکونت پزیر تھے۔[116] قابل توجہ ہے کہ بنی مدلج کی طرف سے، ذوا لعشیرہ میں پیامبر (ص) کا بطور مہمان بہت احترام کیا گیا۔[117] ایک بیان کے مطابق، پیامبر اکرم(ص) اور بنی مدلج کے درمیان ہونے والے معاہدے میں بنی ضمرہ کا رئیس (مخشی بن عمرو) ضامن[118] بنا کیونکہ ”بنی مدلج نیز ”بنی ضمرہ” کی طرح، ”کنانہ” کے خاندانوں میں سے تھا[119] اس لحاظ سے آپس میں رشتہ دار بھی تھے اسی طرح قبیلۂ ضمرہ کے بعض افراد بنی مدلج کے”حلیف”[120] (ہم پیمان) تھے۔ ممکن تھا ان کا شمار بنی ضمرہ کے اصلی افراد میں نہ ہو اس لحاظ سے پیامبر اکرم (ص) کے بنی ضمرہ کے ساتھ کی گئی (صلح) (مصالحہ) سے خارج سمجھے جائیں اس لیے بنی مدلج کے ساتھ[121] مصالحت سے ان کے ہم پیمان بنی ضمرہ بھی پیامبر اکرم (ص) کی توجہ کا مرکز[122] تھے اسی طرح کنانہ کا دوسرا خاندان اسلام دشمنوں کی صف سے خارج ہوگیا۔

اس کے کچھ عرصہ بعد ”صلح حدیبیہ” (چھ ہجری) اس کے باوجود کہ قبیلہ کنانہ نے رسمی طور پر قریش کے لشکر سے الحاق کا اعلان کیا لیکن اس کے باوجود بنی مدلج مسلمانوں کے خلاف پیمان شکنی پر تیار نہ ہوئے اور کنانہ کے لشکر سے[123] جدا ہوگئے۔”ابن واضح یعقوبی” (متوفی اواخر تیسری صدی ہجری) کا ”بنی مدلج کے بارے میں یہ نظریہ ہے کہ (غالب بن عبد اللہ کلبی) کی سربراہی میں ایک سریہ اس خاندان کے خلاف لڑا گیا (احتمال قوی کی بنا پر، اسلام کی دعوت کے لیے تھا) لیکن بنی مدلج نے اظہار کیا کہ ”ہم نہ تو تمہارے مخالف ہیں اورنہ تمہارے ساتھ” اور اس اظہار کے زریعے اپنی غیر جانبداری کا اعلان کیا؛ اس وقت مسلمانوں نے پیامبر (ص) سے کہا کہ بنی مدلج سے جنگ کریں، لیکن حضرت نے قبول نہ فرمایا [124]

یہ واقعہ مفہوم کے اعتبار سے اس واقعہ سے ملتا جلتا ہے جو اسی مؤرخ (یعقوبی) سے ”بنی ضمرہ” کے بارے بیان ہوا۔ یعقوبی کے بیان کی بنا پر بنی مدلج کے خاندان کے ماجرے کے بارے یاد رہے کہ بنی ضمرہ کے بارے میں اس کے بیان کی طرح یہ بیان بھی منفرد ہے جیسا کہ اس سے پہلے اس کی تحقیق ہوئی تاریخ کی کسی دوسری کتاب میں اس ماجرے کی طرف اشارہ تک نہیں ہوا۔

               ٣۔ مدینہ کے [125] ”یہودیوں” سے صلح

١۔ یثرب میں ساکن گروہ

پیامبر اکرم ﷺ نے یثرب ”مدینہ النبی” کی طرف اپنی تاریخی ”ہجرت” کے ساتھ وہاں پر اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی اور اس نئی حکومت کے استحکام کے لئے یثرب میں ساکن گروہوں کی دشمنی کو ختم کرنے کی طرف متوجہ ہوئے، یثرب میں تین مختلف طرح کے گروہ رہتے تھے جن کے ساتھ ہمبستگی کا اقدام نہایت ضروری تھا۔ یہ گروہ درج ذیل تھے۔

١۔ ا نصار

یہ یثرب کے مقامی لوگ تھے جو دو قبیلوں ”اوس” اور ”خزرج” میں بٹے ہوئے تھے (ہر ایک متعدد خاندانوں پر مشتمل تھا) ہر دو قبیلے ایک دوسرے سے دور تھے اور دیرینہ اختلافات رکھتے تھے، ”اسلام قبول” کرنے کے بعد (انصار) پیامبر اکرم ﷺ   کے ساتھی اور تمام مسلمانوں کے میزبان بن گئے تھے۔[126]

٢۔ مہاجرین

یہ مکہ کی بعض اطراف کے لوگ تھے، جو اسلام کی طرف مائل ہوئے اور مکہ میں سالہا سال کی سختیوں کو برداشت کرنے کے بعد، رسول اکرم (ص) کے فرمان کے مطابق، مکہ سے یثرب ہجرت کر آئے تھے۔

٣۔ یہودی

شہرِ یثرب میں، ایسے یہودی رہتے تھے جو گزشتہ دور میں آپس میں دشمنی رکھتے تھے اور اوس و خزرج کے ساتھ بھی ان کے تعلقات خوشگوار نہیں تھے۔ اوس وخزرج کے بھی دشمن تھے؛ لیکن جب اسلام کے ظہور کے ساتھ اوسیوں و خزرجیوں کو غلبہ حاصل ہوا اور شہر کا انتظام ان کے ہاتھ آیا تو یہودیوں نے قبول کرتے ہوئے ان سے معاہدہ کیا؛ یہ معاہدہ یہودیوں کے لیے اس فائدے کا باعث بنا کہ زمام تجارت و زراعت کو (ایک بیان کے مطابق زمام اقتصاد) اپنے ہاتھ میں لیں[127] ۔ یہ یہودی تین قبیلوں ”بنی قینقاع” ، ”بنی النضیر” اور ”بنی قریظہ” میں تقسیم تھے جبکہ ایک دوسرے سے جدا مقامات پر رہتے تھے۔ اور ان تینوں قبیلوں کے درمیان کسی قسم کی سیاسی وابستگی[128] نہ تھی؛ بلکہ یہ تینوں قبیلے ایک دوسرے کے رقیب تھے۔ اسی طرح یاد رہے کہ مذکورہ تینوں قبیلوں کے علاوہ او س و خزرج کے خاندانوں میں سے کچھ لوگ یہودی ہوگئے تھے جن کے بارے میں اسی فصل میں ذکر ہوگا، یثرب میں تین مختلف گروہ (انصار، مہاجرین ، یہودی) ایک دوسرے سے کافی حدتک جدا اور مختلف تھے اس چیز کو دیکھتے ہوئے پیامبر اکرمﷺ نے ان کے درمیان سیاسی ”ہمبستگی” کی کوشش کی؛ انصار اور مہاجرین کے مشترک اعتقاد کی بدولت ان کے دلوں او رروحوں کو جوڑنا مشکل نہیں تھا، اس سلسلے میں پیامبر (ص) کو غیر معمولی کامیابی حاصل بھی ہوئی۔ دوسری طرف یہودیوں کے بارے میں یاد رہے کہ اگرچہ ان میں سے (کچھ) نے اسلام قبو ل کیا[129] لیکن ان کی اکثریت تیار نہ ہوئی کہ اس نئے آئین کو قبول کریں[130]۔ اس لیے اپنے دین پرباقی رہتے ہوئے یثرب میں زندگی گزار رہے تھے؛ البتہ اگر یثرب پر بیرونی دشمنوں کی طرف سے حملہ ہوتا تو یہ احتمال تھا کہ یہ دینی فرق ”رقابت” (اس دور میں ”عداوت” کی شکل میں) نمایاں ہوجاتا اور اندر سے یہودیوں کے زریعے نو بنیاد اسلامی معاشرے کو نقصان پہنچتا۔

               ب: یہودیوں کے ساتھ معاہدہ

رسول اکرم ﷺ نے یثرب کے داخلی گروہوں کی شناخت کے بعد ارادہ کیا کہ تاحد ممکن ان گروہوں کو سیاسی اور فوجی (دفاعی) حوالے سے آپس میں متحد کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے یثرب کے لوگوں کے درمیان ”عمومی قرارداد” کا اقدام تھا اس قرار داد کا زیادہ تر حصہ، اصل میں مسلمانوں، انصار و مہاجرین کے درمیان معاہدہ تھا جو ان کو (امہ واحدة من دون الناس) کے طور پر متعارف کروا رہا تھا۔[131] مذکورہ قرارداد کے حصے کو مسلمانوں کے اجتماعی و سیاسی اور آئینی نظام کی بنیاد تصور کیا جائے یہ حصہ بحث حاضر سے تعلق نہیں رکھتا؛ اس بحث سے متعلق اس قرار داد کا دوسرا حصہ ہے جو ”موادعہ”(مصالحہ) اور معاہدہ[132] کی صورت میں یہودیوں سے ہوا ۔صلح میں طے پانے والے امور درج ذیل ہیں۔[133]

۱۔ جو کوئی بھی یہودیوں میں سے ہمارا پیروکار بن جائے اگر اس کے بعد اس پر کوئی ستم ہو یا اس کے دشمن کی مدد کی جائے تو یہ شخص ہمارے برابر ہوگا اور ہماری مدد سے بھی بہرہ مند ہوگا۔[134]

٢۔ جب تک مومنین ]مسلمان[ دشمن کے خلاف حالتِ جنگ میں ہیں، یہودی نیز جنگ پر اٹھنے والے اخراجات کی ادائیگی کے لئے مسلمانوں کی ہمراہی کریں گے۔[135]

٣۔ بنی عوف کے یہودی، مسلمانوں کے ساتھ امت واحد ہیں: ]لیکن[ یہودی اپنے دین پر جبکہ مسلمان ]نیز[ اپنے دین پر باقی رہیں گے یہ عہد ان کے علاوہ ”موالی” (رشتہ داروں) کے لئے بھی ہے اگر کوئی ظلم یا ناروا کام کا مرتکب ہوا تو ایسا شخص خود کو نقصان پہنچانے والا ہے۔[136]

٤۔ بنی النجار، بنی ساعدہ، بنی حبثم، بنی الاوس اور بنی ثعلبہ بھی بنی عوف کی مانند ہیں[137] ۔

(مذکورہ حقوق میں یہ بھی شامل ہوں گے[138])

اگر کوئی ظلم کرے یا ناروا کام کا مرتکب ہو تو ایسا شخص اپنے ساتھیوں کی بجائے خود اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والا ہے[139]۔

٥۔ بنی ثعلبہ کی شاخ جفنہ پر بنی ثعلبہ کی طرح (حقوق و احکام) لاگو ہوں گے اسی طرح بنی الشطیبہ (نیز حقوق اور احکام میں) بنی عوف کے یہودیوں کی مانند ہیں۔ [140] اس عہد پر قائم اور وفادار رہیں، اور دھوکہ و چالاکی کے ذریعے اپنےمعاہدے کو نہ توڑیں۔[141] ثعلبہ کے ”موالی” رشتہ دار بھی (حقوق و احکام میں) [142] انہی کی طرح ہیں۔[143]

٦۔ یہودیوں کے خواص اور رازداروں پر بھی ان پر لاگو ہونے والے حقوق و احکام لاگو ہوں گے۔[144] یہودیوں میں سے کوئی بھی اس پیمان سے محمد(ص) کی اجازت کے بغیر خارج نہیں ہوگا۔[145]

٨۔ ایک ”جراحت” (گرچہ خراش ہی کیوں نہ ہو) کی سزا کے مطالبہ میں کوئی حرج نہیں ہے۔[146]

۹۔ جو بھی کسی کو غفلت میں قتل کرنے کا ارتکاب کرے اس نے اپنے آپ کو اور اپنے قبیلے کو داؤ پر لگایا ہے۔ سوائے اس کے کہ خود اس پر ظلم ہوا ہو۔[147]

١۰۔ خدا اس کے ساتھ ہے جو اپنے عہد پر قائم رہے۔[148]

١١۔ یہودیوں کا نفقہ خود ان کے ذمہ جبکہ مسلمانوں کا نفقہ خود مسلمانوں کے ذمہ ہے۔[149]

١٢۔ اس پیمان پر عہد کرنے والے، اس کے خلاف مل کر لڑیں گے جو عہد کرنے والوں میں سے کسی ایک سے لڑے۔ اس کی مدد کی جائے گی اور اس سے خیر خواہی کریں اپنے عہد پر پابند رہیں اور پیمان شکنی نہ کریں۔[150]

١٣۔ جب تک مومنین ]مسلمان[ دشمن کے خلاف حالتِ جنگ میں ہیں یہودی نیز جنگ پر اٹھنے والے اخراجات کی ادائیگی کے لیے مسلمانوں کی ہمراہی کریں گے۔[151]

١٤۔ جب بھی مسلمان یہودیوں کو کسی(تیسرے گروہ کے ساتھ) صلح کے لیے کہیں تو یہودی اس کو قبول کریں، اس طرح جب بھی یہودی مسلمانوں کو (تیسرے گروہ کے ساتھ) صلح کے لیے پکاریں تو مسلمانوں پر بھی لازم ہے کہ اس کو قبول کریں البتہ اس کے سوا کہ یہودی دین اسلام سے ”محارب”[152] لڑنے والے سے صلح کے لیے کہیں۔مذکورہ دفعات میں سے (دفع ٨ و ١١) کی پابندی بطور مشترک مسلمانوں اور یہودیوں کی ذمہ داری تھی۔ اس طرح کچھ دفعات ذیل میں بیان ہوئی ہیں جن کی مشترکہ پابندی فریقین پرلازم تھی۔

١٥۔ کسی کا بھی اس کے ہم پیمان کے جرم کی وجہ سے محاسبہ نہیں کیا جائے گا۔[153]

١٦۔ اس معاہدہ پر عہد کرنے والوں میں سے اگر کوئی مظلوم واقع ہو تو سب اس کی مدد کریں گے۔[154]

١٧۔ اندرونِ یثرب عہد کرنے والوں کے لیے حرم شمار ہوگا۔ [155]

١٨۔ بے شک ”جار” (جس کو پناہ دی گئی ہو) جس نے نہ تو کوئی نقصان پہنچایا ہو او رنہ کوئی گناہ کیا ہو پناہ دینے والے کی طرح ہے۔[156]

١٩۔ مسلمان مجاہدین کی اجازت کے بغیر جنگی حالت میں کافر کو پناہ نہیں دی جائے گی۔[157]

٢٠۔ جو بھی جھگڑاعہد کرنے والوں کے درمیان واقع ہو جس سے فساد کا خطرہ ہواس کا فیصلہ خدا اوراس کے رسول (ص) کے سپرد کیا جائے۔[158]

٢١۔ قریش اور قریش کو پناہ دینے والوں کو پناہ نہیں دی جائے گی۔[159]

٢٢۔ عہد کرنے والے حملہ آور دشمن سے یثرب کے دفاع کے لیے ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔[160]

٢٣۔ یہ پیمان نامہ ستمکار اور گنہگار کا پشت پناہ نہیں ہے۔[161]

اب مذکورہ صلح کے تجزیہ سے پہلے دو اہم امور سردست ہیں: ایک (یک جہتی اور چند طرح کے پیمان) دوسرا، (یہود حلیفِ قرارداد) کہ آیندہ صفحات میں ان امور کے بارے میں تحقیق ہوگی۔

               ج۔ چند نوعیت کے پیمان

اس سے پہلے گزرا کہ یثرب میں رسول اکرم (ص) نے انصار، مہاجرین اوریہودیوں کے تین گروہوں میں ہماہنگی کے لئے ان تینوں گروہوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو دو حصوں پر مشتمل تھا: ایک انصار اور مہاجرین کا داخلی معاہدہ اور دوسرا یہودیوں کے ساتھ معاہدہ؛ پھر اس کے بعد یہودیوں کے ساتھ کئے گئے معاہدے کا مفصلاً ذکر ہوا؛ لیکن اس کے باجود معاصر ”عون شریف قاسم” کا یہ نظریہ ہے کہ یہ پیمان صرف ایک معاہدہ (چند حصوں پر مشتمل) نہیں تھا بلکہ چند معاہد ے تھے جو آپس میں مل کر ایک صورت میں سامنے آئے ہیں وہ اپنے اس نظریے کا دو نکات سے استناد کرتا ہے ایک پیمان کے مواد میں کچھ حصوں کے تکرار سے؛ دوسرا (البر دون الاثم) کی عبارتوں کے ذکر سے کہ ایسی عبارتیں عموماً معاہدوں کے آخر میں ذکر ہوتی ہیں۔[162] عون شریف کے نظریئے کو قبول نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پیمان کی دفعات کا تکرار ان دفعات پر تاکید کی دلیل ہے۔ [163] مذکورہ نظریہ اس سوال کا جواب دینے سے بھی قاصر ہے کہ آخر کیوں متعدد معاہدوں میں سے ایک ہی شق کئی کئی بار تکرار ہوئی ہے؟!

اس نظریئے کے مطابق پیمان میں کسی شق کا تکرار ممنوع قرار پاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ اگر فرض کرلیا جائے یہ ایک پیمان نہیں بلکہ چند پیمان تھے تو بھی قابل نقد ہےیہ کہ مذکورہ پیمان میں حصے اور ردیف بندی نہیں ہے؛ بلکہ اس کے حصے ”متداخل” (اندر در اندر) ہیں۔ اگر اس پیمان کے دور کی کتابت اور تدوین کے طریقے پر نظر ڈالی جائے تو ایک جملے کی تکرار یا اس کے آگے پیچھے ہونے کا سوال بہت کم پیش آئے گا؛ اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ پیمان ایک ہی ہے لیکن ایک ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے دو عمدہ حصے ہیں۔ پس مذکورہ بحث سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پیمان تعداد کے لحاظ سے ایک ہی ہے جبکہ معنوی اعتبار سے مختلف ہے۔

د۔ یہودی حلیفِ قرارداد (انصاری یہودی اور تینوں یہودی قبائل )

چند صفحات پہلے یثرب میں رہنے والے گروہوں کے بارے میں ذکر ہوا یہودی تین قبیلوں ”بنی قینقاع” ”بنی النضیر” اور ”بنی القریظہ” میں تقسیم تھے اس کے علاوہ اوس و خزرج سے یہودیت قبول کرنے والے لوگوں کا بھی ذکر ہوا پھر اس کے بعد پیمان کے ضمن میں طے شدہ حقوق و فرائض سے فائدہ اٹھانے والے چند خاندانوں (مثلاً یہود بن عوف، یہود بنی النجار، یہود بن الحارث[164] ۔۔۔) کا بھی ذکر کیا گیا بعض تاریخی منابع میں کہا گیا ہے کہ یثرب کے عمومی پیمان[165] میں یہودیوں کے سہ گانہ قبایل (بنی قینقاع، بنی قریظہ، بنی نظیر) حلیف تھے۔

ابو عبید بن سلام (متوفی ٢٢٤ ہجری) نے مذکورہ پیمان نامے کے ذکر کے بعد لکھا ہے: ”یہودی تین گروہ تھے: بنی قینقاع، نضیر اور قریظہ[166]”۔ اسی طرح ابن کثیر (متوفی ٧٧٤ ہجری) نے اپنی کتاب البدایہ و النھایہ میں ایک فصل کو مذکورہ پیمان نامہ کے لیے مخصوص کیا ہے اور یہودیوں کے مذکورہ تین گروہوں کو ہی حلیف ِقرار دیا ہے[167]اس کے برعکس مختلف طرح کی روایات کا بھی وجود ہے جن کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے۔

١۔ بعض تاریخی بیانات کی روشنی میں پیامبر اکرمﷺ نے مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ بطور مستقل جداگانہ مصالحت کی جس کا ان روایات میں ذکر نہیں ہوگا اس لیے کہ یہودیوں کے ساتھ صلح نامہ یثرب کے عمومی پیمان کے ضمن میں تھا یہ روایات اس طرح ہیں۔ جس وقت پیامبر اکرمﷺ مدینہ میں داخل ہوئے ، سب یہودیوں نے مل کر آپ (ص)سے ”موادعہ” مصالحت کی پھر آپ(ص) نے ایک پیمان نامہ مکتوب فرمایا۔[168]

٢۔ اسی طرح بعض منابع میں اس مصالحت کا مفہوم اس طرح نقل ہوا ہے: پیامبر اکرم (ص)سے بنی قینقاع، بنی النضیر اور بنی قریظہ نے اس طرح عہد کیا کہ آپ(ص) سے نہیں لڑیں گے اور نہ ہی آپ(ص) کے دشمن کی مدد کریں گے اسی طرح کہا گیا ہے کہ ان سے شرط کی کہ آپ (ص) کا ساتھ دیں اور نہ آپﷺ کی مخالفت کریں اس پر مستزاد یہ کہ ان سے یہ بھی شرط کی کہ حملہ آور دشمن کے خلاف پیامبرﷺ کی مدد کریں گے۔ [169]

یہودیوں کی رسول خدا ﷺ سے جنگ نہ کرنے کی شرط اور ان کی غیر جانبداری مذکورہ مفصل پیمان نامے سے متصادم ہے جو اس سے پہلے زیر بحث تھا:اس لئے کہ مذکورہ مفصل پیمان نامے میں یہودیوں کے غیر جانبدار رہنے کی طرف ہلکا سا بھی اشارہ نہیں تھا۔

٣۔ علی بن ابراہیم قمی (متوفی ٣٠٧ ہجری) کی روایت کی بناء پر ، جب رسول اللہ ﷺ مدینہ میں داخل ہوئے تو مدینہ کے یہودیوں کے قبائل سہ گانہ (بنی قینقاع، بنی نضیر، قریظہ) آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ کے دین کے بارے میں استفسار کیا آپ ﷺ نے اپنا دین بیان فرمایا اس کے باوجود انہوں نے کہا:

وہ جو تم نے کہا ہم نے سنا۔ ہم تمہارے پاس اس لئے آئے ہیں کہ ہدنہ (صلح) طلب کریں اس بنیاد پر کہ نہ تمہارے مخالف اور نہ تمہارے حامی ہوں گے، اور ہرگز تمہارے دشمن کی مدد نہیں کریں گے اور تمہارے ایک بھی صحابی سے معترض نہیں ہوں گے اس کے برعکس تم بھی ہم سے اور ہمارے ساتھیوں سے معترض نہ ہوگے یہاں تک کہ ہم تمہارے اور تمہاری قوم کے انجام کو دیکھ لیں کہ کیا ہوتا ہے؛ پس آپ ﷺ نے ان کی شرائط کو قبول فرماتے ہوئے ان سے مذکورہ شرائط کی بنیاد پر (مصالحت) کی صلح نامہ لکھا اور اس میں اس طرح شرط کا ذکر کیا:

یہودی رسول خداﷺ کے کسی ایک بھی دشمن کی یا ان کے ساتھیوں کے دشمن کی مدد نہ کریں یہاں تک کہ ہاتھ سے او رنہ زبان سے؛ اسلحہ سے او رنہ سواری اور چار پایوں سے مخفی اور نہ آشکار دن میں اور نہ رات میں۔ خدا اس عہد پر گواہ اور آگاہ ہے۔ جب بھی ایسا کریں۔ ]

[ رسول خداﷺ کے لئے روا ہوگا کہ ان کے خون کو ضائع کریں ۔ اس صلح نامہ کو یہودیوں کے تینوں قبیلوں کے لئے علیحدہ علیحدہ مکتوب کیا گیا۔[170]

اب اس تیسرے بیان (جو دوسرے بیان کے مطابق ہے) میں یہودیوں کے غیر جانبدار رہنے اور پھر ان کے لیے رسول خدا ﷺ کی طرف سے مسلمانوں سے عدم تعرض کی عائد کردہ شرط کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ تیسرا بیان خود دوسرے بیان کی شرح ہے۔ اسی طرح یہ ادعا بھی کیا جاسکتا ہے کہ یہودیوں کےتینوں قبیلوں کے ساتھ پیامبر اکرم ﷺ کی صلح مستقل بنیادوں پر (انصار و مہاجرین کے پیمان سے جدا یعنی پیمان عمومی یثرب) تھی۔

پہلے پیمان نامہ میں کسی کے بھی نام کا ذکر نہ ہونا اس تفاوت کو مزید واضح کرتا ہے، جبکہ اس جگہ بنی عوف کے یہود اور یہودیوں کے دوسرے خاندانوں مثلاً بنی النجار، بنی الحارث، بنی ساعدہ، بنی خشم اور ۔۔۔ کا نام لیا گیا ہے اور ان کو ”مسلمانوں کے ساتھ امت واحد” کہا گیا ہے لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مذکورہ خاندان یہودیوں کے سہ گانہ قبائل کی نسبت زیادہ اہمیت کے حامل تھے تو پھر یثرب کے عمومی پیمان میں کون سے یہودی شامل تھے؟

جواب میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ افراد اوس اور خزرج میں سے تھے لیکن ان کا شمار نسبی حوالے سے یہودیوں میں ہوتا تھا انہوں نے اوس و خزرج کے آبائی دین کو چھوڑ کر یہودیت کو قبول کرلیا تھا۔ مذکورہ خاندان (بنی عوف، بنی النجار، بنی الحارث و ۔۔۔) (کاملاً یہودی) نہیں تھے بلکہ یہ لوگ اوس و خزرج کے گروہ ہی تھے جن میں سے کچھ یہودی ہو گے تھے؛ اس بنیاد پر ان یہودیوں کو ”یہودِ انصار”[171] کا نام دیا جاسکتا ہے اسی طرح ان کو یہودیوں کے سہ گانہ قبائل سے جدا سمجھنا چاہیے۔

انصار و مہاجرین کے درمیان پیمان کے وقت یہی "یہودِ انصار” تھے جن کی رسول اکرم ﷺ کے ساتھ (مسلمانوں کے ساتھ امت متحدصلح ہوئی تھی۔

اس کے بعد ایک اور مصالحت میں بنی قینقاع، بنی النضیر اور بنی قریظہ حلیف ٹھہرے تھے۔[172] اس حوالے سے خیبر (٧ ہجری) کے حوادث میں اس معتبر سند کو دیکھا جا سکتا ہے اس وقت جب یہودیوں کو یہ پتہ چلا کہ مسلمان خیبر (یہودیوں کے انتہائی اہم مرکز) کی طرف جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو یہودیوں میں سے جس کا بھی کسی مسلمان کے ذمے حق (دینی) تھا انہوں نے مسلمانوں کو (قابل اعتراض اقدام کے زریعے) خیبر جانے سے منع کیا یہودیوں نے مسلمانوں کو باور کروایا کہ خیبر کے یہودی نا قابل تسخیر ہیں۔

اس طرح کی باتوں سے انہوں نے مسلمانوں کو ڈرایا[173] یہ اس وقت کی بات ہے جب یہودیوں کے سہ گانہ قبائل چند حوادث (جن کا ذکر اسی فصل میں ہوگا) کی وجہ سے مدینہ سے چلے گئے تھے مثال کے طور پر اگر ان میں سے کچھ کنیز اور غلام کی صورت میں باقی بھی تھے تو اس بات کے حامی نہ تھے کہ اپنے لئے سخت حالات پیدا کریں۔ پس مذکورہ باتیں جو اوپر ذکر ہوئیں وہ یہودی ہی کرسکتے تھے جو مسلمانوں کی پناہ میں مدینہ میں رہ رہے تھے اور یہ وہی (یہودِ انصار تھے)؛ اس بنا پر مدینہ کے یہودیوں کے بارے دو گروہوں اور دو صلح ناموں کی تحقیق کی جانی چاہیے۔

ہ:صلح کے دو معاہدوں کا تجزیہ و تحقیق

یثرب میں ساکن یہودیوں کے دو گروہوں کی تقسیم کے بعد اب اس تحریر میں ”یہودِ انصار” کے ساتھ صلح کو ”پہلا معاہدہ” کی صورت جبکہ یہودیوں کے سہ گانہ قبائل کے ساتھ صلح کو "دوسرامعاہدہ”کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے؛کیونکہ "یہود ِانصار” سے(پہلے معاہدہ) صلح کے کچھ عرصہ بعد یہودیوں کے سہ گانہ قبائل نے پیامبر ﷺ سے(دوسرا معاہدہ) سے صلح کی[174] ؛

پہلا معاہدہ [175] اور دوسرا معاہدہ[176]ہر دو رسول اکرم ﷺ (حد اکثر ، پانچویں[177] ماہ میں) کے مدینہ میں تشریف لانے کے بعد ہوئے مذکورہ دو معاہدوں کے علاوہ تیسرا معاہدہ( رسول اللہ ﷺ اور یہودیوں کے درمیان) کعب بن الاشراف کے قتل کے بعد عمل میں آیا؛ لیکن کیونکہ کعب بن الاشرف کا قتل اور مذکورہ معاہدہ ہر دو دوسرے معاہدہ کے نقض کا نتیجہ تھے تاریخی بحث کے طریقے کے پیش نظر اس کا بعد کے مباحث میں ذکر ہوگا۔ اب اس تحریر میں پہلے معاہدہ اور دوسرے معاہدہ کا (دو مختلف قسموں میں) تجزیہ کیا جاتا ہے۔

1۔پہلے معاہدہ کا تجزیہ[178]

جیسا کہ ذکر ہوا پہلا معاہدہ انصارِ یہود سے ہوا، اگرچہ یہ لوگ نسلی اور قومی اعتبار سے اوس و خزرج میں سے تھے لیکن دینی حوالے سے دینِ یہودیت کے پیروکار تھے؛ لیکن ان یہودیوں کی تعدا دکے بارے میں بالکل بھی اطلاع نہیں ہے ان کے بارے میں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ کس حد تک اقتدار رکھتے تھے؛ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ روابط بڑھانے پر توجہ دی اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی تعداد غیر معمولی تھی[179]۔

"یہودِ انصار” کے کسی رئیس یا دینی پیشواکے وجو دکا ذکر نہیں ملتا جو اس معاہدے میں حلیف ٹھہرا ہو؛ اس حوالے سے یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ سیاسی لحاظ سے دیرینہ قبیلگی نظام کے تحت اوس و خزرج کےہی ماتحت تھے؛ ان لوگوں سے علیحدہ معاہدوں یا معاملات کا سبب ان کا جداگانہ دین تھا اس طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی طرف سے عدم اعتراض یا سکوت صرف ان کے تعہدات کی وجہ سے تھا؛ البتہ ان تعہدات کی بدولت وہ اہم مقاصد حاصل کرتے تھے یہ چیز بھی صلح کا موجب تھی یکطرفہ طور پر اس صلح سے یہودیوں کو پہنچنے والے فوائد درج ذیل ہیں:

یہودی مذہب پر باقی رہنے کی آزادی، مسلمانوں سے اتحاد[180]کے زریعے ان کے جان و مال کی حفاظت، اسی طرح دوسری جانب رسول خدا ﷺ کے اس پیمان کے زریعے بنیادی اہداف اس طرح تھے: مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کی یہودیوں کی سازش سے بچاؤ[181] اور اسی طرح ان کے شر سے مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت۔ اس معاہدہ سے دو اہم ترین نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں، جو اس طرح ہیں:

أ۔ اسلام کی نشرو اشاعت اور مشرکین سے نبٹنے کے مواقع کی فراہمی۔

ب۔ مسلمانوں کے پرشکوہ اقتدار میں اضافہ، نتیجتاً اسلام کی قبولیت کے لیے عربوں کی روحانی آمادگی۔[182]

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس معاہدہ سے مذکورہ نتائج و اہداف کس طرح حاصل ہوئے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ضروری ہے کہ صلح کے معاہدے کی دفعات پر نگاہ ڈالی جائے صلح کی دفعات سے درج ذیل امور سامنے آتے ہیں۔

1۔ مذکورہ صلح کی پہلی شق میں یہودیوں کو مسلمانوں کی پیروی اور دین اسلام کی دعوت دی گئی کہ اسلام قبول کرنے کی صورت میں ان کے ماضی سے قطع نظر ان کو مسلمانوں کے برابر ان کی مدد[183] میسر آتی، واضح سی بات ہے کہ مسلمانوں کی برابری اور ان کی نصرت ایسی نویدیں تھیں جو اسلام کی طرف دعوت کے لیے مؤثر ثابت ہوسکتی تھیں۔

2۔ تیسری، چوتھی، پانچویں اور چھٹی شق میں یہودی (بطور مشروح) معاہدہ کے حلیف قرار پائے یہودی مختلف امتیازات سے بہرہ مند ہوئے جن میں سے اہم ترین یہ تھا کہ (مسلمانوں کے ساتھ امت واحد) ہوجاتے، البتہ ان معنوں میں نہیں کہ ”مسلمان امت” کے زمرہ میں شامل ہوجاتے[184]۔

اس پر مستزاد یہ کہ یہودیوں کو اپنے آبائی دین پر باقی رہنے کی اجازت مل جاتی یہ سب کچھ اس سے مشروط تھا کہ دھوکہ و فریب سے کام نہ لیں، پیمان شکنی، ظلم اور ناروا کاموں کے مرتکب نہ ہوں اگر ان کاموں کے مرتکب ہوتے تو خود کو اور اپنے خاندان کو تباہ کرتے[185]۔

اسی طرح ساتویں شق کی بنیاد پر یہودیوں کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ خودہی (پیامبر ﷺ کی اجازت کے بغیر) تعہدات اور پیمان کے بوجھ کو اپنے کندھوں سے اتار پھینکیں۔

3۔ دوسری شق کی بنیاد پر (تکراری ہے تیرہویں بھی اسی طرح ہے) جب بھی مسلمان جنگی حالت کا شکار ہوتے، یہودی ہر صورت جنگی اخراجا ت کے لیے مسلمانوں کی مدد کرتے اس پر مستزاد یہ کہ بائیسویں شق کی بنا پر (اسی طرح بارہویں) جب بھی یثرب پر حملہ ہوتا یہودی ہر حال میں دفاع کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے اور یثرب کا دفاع کرتے گیارہویں شق میں جنگی حالت پر توجہ کرتے ہوئے مقرر ہوا کہ ایسے وقت میں مسلمان اور یہودی گروہوں میں سے ہر ایک کا خرچہ خود اس کے اپنے ذمہ ہوگا۔

4۔ چودھویں شق کی بنا پر اگر کسی تیسرے گروہ کے ساتھ دونوں گروہوں کی رضامندی سے صلح ہوتی تو گروہ ثالث بھی مراعات کا حق دار بن جاتا۔

5۔ تیئسویں شق کی بنیاد پر، مذکورہ پیمان کسی بھی ستمگر اور گنہگار کی حمایت میں نہیں تھا؛ بلکہ سولہویں شق میں تاکید ہوئی کہ اس پیمان کے متعہدان مظلوم شخص کی مدد کریں گے اسی طرح آٹھویں اور نویں شق میں مقرر ہوا کہ اگر کوئی کسی کو کوئی تکلیف پہنچائے یا قتل کردے تو اسے سزا دی جائے، بیسویں شق کی بنا پر فساد اور اختلافات کی صورت میں فیصلے کا اختیار رسول اللہ ﷺ کا ہو گا۔

6۔ پندرہویں، اٹھارویں، انیسویں او ر اکیسویں شق میں مقرر ہوا کہ کسی کو بھی اس کے حلیف کے گناہ کی سزا نہیں دی جائے گی۔

اسی طرح گزشتہ دور کی طرح ”جوار” پناہ دینا قریش کے علاوہ معتبر قرار پایااور محارب کافر کو پناہ دینے کے معاملہ میں طے ہوا کہ اسلام کے سب مجاہدین کی تائید کے بعد ہی اسے پناہ مل سکتی ہے۔

7۔ سترہویں شق کے مطابق،مسلمانوں اور یہودیوں کے نزدیک یثرب کو شہرِ مقدس ، او ر اس میں خونریزی کو ممنوع قرار دیا گیا۔ یہاں پر یاد دلانا ضروری ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور یثرب کے دو گروہوں کے درمیان دو جداگانہ معاہدے اس دور میں وجود میں آئے جب اہل کتاب کے لیے ”جزیہ” مقرر نہیں ہوا تھا۔[186] اسی طرح یہ حقیقت ہےکہ ابھی تک یہ نکتہ واضح نہیں کہ ”یہودِ انصار” اس صلح کے بعد کس حد تک اس پر کاربند رہے اور یہ کہ اس گروہ کا کیا انجام ہوا؟

2۔ دوسرے معاہدہ کا تجزیہ

یہ معاہدہ یہودیوں کے تین قبیلوں (بنی قینقاع، بنی نضیر، بنی قریظہ) کے درمیان ہوا وہ خود رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور ان حضرت ﷺ کے ساتھ موارد ذیل پر معاہدہ مکتوب کیا۔

1۔ مسلمانوں کے معاملہ میں غیر جانبدار رہیں گے ، مسلمانوں کے نفع یا نقصان میں کوئی کام انجام نہیں دیں گے۔

2۔ کبھی بھی دشمنانِ اسلام کی مدد نہیں کریں گے۔

3۔ رسول خدا ﷺ اور ان کے ساتھیوں سے معترض نہ ہوں گے ا س طرح مسلمان بھی یہودیوں سے معترض نہ ہوں گے۔

4۔ یہودی اسلحہ، مرکب، جانور وغیرہ دے کر مخفی، آشکار، دن یا رات کسی بھی صورت میں مسلمانوں کے دشمنوں کی مدد نہیں کریں گے۔

5۔ جب بھی یہودی اس معاہدے سے سر پیچی کریں رسول اکرم ﷺ کے لیے روا ہے کہ ان کو قتل کریں؛ ان کے بچوں اور عورتوں کو اسیر کریں اور ان کے مال و اسباب کو ضبط کریں[187]

مذکورہ معاہدہ یہودیوں کے سہ گانہ قبائل میں سے ہر ایک کے ساتھ علیحدہ علیحدہ کیا گیا۔ پیامبر اکرم ﷺ نے بطور رہبرامت اسلامی ہر ایک قبیلے کے سردار سے صلح کی اس طرح کہ بنی نظیر کا رئیس حیی بن اخطب، بنی قریظہ کی طرف سے (کعب بن اسد) اور بنی قینقاع کی طرف سے مخیریق نے یہ معاہدہ رسول اللہ ﷺ سے کیا[188] ۔ اس صلح کی بنیاد پر یہودیوں کو اختیار حاصل تھا کہ اپنے آبائی دین پر باقی رہیں نیز ان کے جان و مال بھی امان میں تھے؛[189] لیکن اس کے باوجود اس پیمان میں کوئی ایسی تعبیر نہیں تھی جو اس معاہدےکی ہمیشگی پر دلالت کرے بلکہ اس صلح کے حاشیہ میں یہودیوں نے پیامبر ﷺ سے کہا کہ ”ہم دیکھیں گے کہ تمہارا اور تمہاری قوم کا کیا انجام ہوتا ہے [190] ”

یہودیوں کی یہ بات ان کی تردید پر دلالت کرتی تھی، یہی تردید مختلف مقامات پر بڑھتی چلی گئی اور آخر کار معاہدہ شکنی پر ختم ہوئی۔

               و:تینوں قبیلوں کے ساتھ صلح کا انجام

١۔ ”بنی قینقاع” کی صلح کا نتیجہ

یہودیوں کے سہ گانہ قبائل کس حد تک اپنےمعاہدےپر کاربندرہے؟! ہر قبیلے کی وفا کا تناسب دوسرے قبیلوں سے ذرا مختلف تھا۔ ان میں سے بنی قینقاع کا بزرگ ”مخیریق” اسلام کی طرف مائل تھا حتی اس نے اپنے قبیلہ کو اسلام قبول کرنے کے لئے بھی کہا لیکن اسے کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا۔[191] اسی طرح جنگ بدر کے بعد شوال کے وسط میں سن ٢ ہجری میں بنی قینقاع کے یہودیوں نے کئے گئے معاہدہ کو توڑنے کا اعلان کیا تو رسول خدا ﷺ نے ان کے خلاف غزوہ ”بنی قینقاع”[192] لڑا۔ ماجرا اس طرح تھا کہ جنگ بدر کے بعد اس جنگ میں مسلمانوں کی عظیم الشان فتح پر بنی قینقاع نے حسد کرتے ہوئے[193] معاہدے کو توڑ دیا ۔

بنی قینقاع کے لوگ طاقتور تھے اور ان کی شجاعت زبان زدِ خاص و عام تھی رسول اللہﷺ ان کے یکطرفہ طور پر معاہدہ توڑنےسے آگاہی کے بعد ان کے بازار میں تشریف لے گئے اور اس طرح اسلام کی دعوت دی:

قریش کے برے انجام سے ڈرو! اور اسلام قبول کرلو! حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں پیامبر اور خدا کا بھیجا ہوا ہوں؟ لیکن انہوں نے اس طرح جواب دیا قریش کو لڑنا نہیں آتا تھا[194] ہم جنگجو لوگ ہیں ہم سے پالا پڑا تو جان جاؤ گے ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ بنی قینقاع کا اس طرح عہد کو توڑنا جنگ کے لئے کافی تھا ، انہوں نے اپنے معاہدہ کو توڑ دالا تھا لیکن اسی دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے صورت حال کو یکسر بدل دیا؛ یہ واقعہ اس طرح تھا، بنی قینقاع کے بازار میں، ایک ہوس باز یہودی نے ایک مسلمان خاتون کی اہانت کی اورپیچھے سے اس کے دامن کو اس طرح گرہ لگائی کہ وہ متوجہ نہ ہوئی جب وہ چلی تو یہودیوں نے اس کا مذاق اڑایا اور اس پر ہنسے؛ ایک مسلمان شخص نے جب یہ دیکھا تو اس نے یہودی کو قتل کردیا۔

اسی طرح یہودیوں نے بھی اس مسلمان کو قتل کر ڈالا اس کے بعد اپنے قلعوں میں پناہ لے لی۔[195] یہ صورت حال دیکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ اورمسلمانوں نے بنی قینقاع کے قلعوں کا محاصرہ کرلیا جو پندرہ دن تک جاری رہا آخرکار یہودیوں نے ہتھیار ڈال دیئے یثرب کے سرکردہ منافق اور بنی قینقاع کے اتحادی عبد اللہ بن ابی، نے درمیان میں آکر ان کا معاملہ رکوا دیا جیسا کہ پہلے ذکر ہوا دوسری شق کی بنا پر رسول خدا ﷺ مجاز تھے کہ معاہدہ شکنی کے جرم میں ان کو قتل کردیں۔

اس حوالے سے بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتےتھے؛ لیکن عبد اللہ بن ابی کی ان کی حمایت اور جانبداری کے اصرار کو دیکھتے ہوئےآپ ﷺ نے اس ارادہ کو بدل دیا اور ان کو اجازت دی کہ مدینے سے چلے جائیں۔[196]

اس کے باوجود ابن اسحاق (متوفی ١٥١ ہجری) کی روایت میں قینقاع کے بارے میں عبد اللہ بن ابی کی رسول اللہ ﷺ سے بات چیت تو نقل ہوئی ہے لیکن اس روایت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔[197] اس پر مستزاد کچھ مؤرخین کے نزدیک بنی قینقاع کا محاصرہ ایک نئی صلح پر ختم ہوا۔

یہودیوں نے پیامبرﷺ سے درخواست کی کہ آپ ﷺ اجازت دیں کہ وہ (یہودی) مدینہ سے چلے جائیں اور اپنے بچوں و عورتوں کو بھی ساتھ لے جائیں، جبکہ اپنے اموال مسلمانوں کے لیے چھوڑجائیں اسی بنیاد پر رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ صلح کی اور ان کو شام کی طرف جلا وطن کردیا۔[198]

ایک بیان کے مطابق پیامبر ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ یثرب سے چلے جائیں خود وہ لوگ شام کی طرف چلے گئے اور وہاں ”زارعات” نامی علاقے میں رہنے لگے اور بہت جلد نابود ہوگئے[199] ۔

بہرحال اگر بنی قینقاع نئی صلح کے زریعے اپنے قلعوں سے باہر آئے بھی ہوں تو اس بات کا امکان نہیں رہ جاتا کہ پیامبرﷺ کا ارادہ ان کو قتل کرنے کا تھا؛ اس لئے کہ یہ بات اس صورت میں درست ہوسکتی ہے جب انہوں نے مکمل طور پر ہتھیار پھینک دیئے ہوں۔

٢۔ صلح”بنی النضیر” کا انجام

بنی قینقاع کی عہد شکنی اور ان کے مدینہ سے اخراج کے بعد (ربیع الاول ٣ ہجری[200] ) کعب بن الاشرف یہودی کے قتل کا واقعہ ہوا ۔ کعب بن الاشرف بنی النضیر کے بزرگوں میں سے تھا وہ جنگ بدر کے بعد مکہ گیا اوروہاں کوشش کرنے لگا کہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کو جنگ کے لئے تیار کرے اس فتنہ انگیزی پر مستزاد مدینہ میں اس نے اپنے عشقیہ اشعار میں مسلمان عورتوں کا ذکر کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا؛ اس فرمان پر عمل کیا گیا۔[201] کعب بن الاشرف کے قتل سے بنی النضیر خوف زدہ ہوئے اورآپﷺ کی خدمت میں آئے اور دوبارہ سے صلح کرتے ہوئے اس کی دستاویز تیار کی[202]۔

یہ صلح کا وہی معاہدہ ہے جو کچھ پہلے ‘تیسرا معاہدہ” کے عنوان سے ذکر ہوا۔ اگرچہ اس معاہدہ کا متن دسترس میں نہیں ہے، لیکن یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ معاہدہ نیز پہلے معاہدوں کی طرح کسی حد تک یہودیوں کو اپنے عہد پر قائم رہنے کا پابند بناتا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے؛ اس کے باوجود بنی قینقاع کے بعد بنی النضیر دوسرا قبیلہ تھا جس نے معاہدہ شکنی کی دوسری جانب اس معاہدہ شکنی پر مسلمانوں نے ان کے قلعوں کا محاصرہ کیا؛ لیکن ان کی عہد شکنی کی تاریخ اور کیفیت کے بارے ابن اسحاق (متوفی ١٥١ ہجری) اور ابن شہاب زہری (٥١۔ ١٢٤) کی روایات میں اختلاف ہے۔

زہری کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ جنگ بدر کے بعد ہوا؛ لیکن ابن اسحاق کے مطابق یہ واقعہ بئر معونہ (احد کی جنگ کے بعد) ہوا۔ بہت سے مؤرخین نے مذکورہ اختلاف میں دونوں کی دلیلوں کے بیان کے بعد ابنِ اسحاق کی روایت کا انتخاب کیا ہے۔[203] اب وہ دونوں روایات:

١۔ ”روایت ابن شہاب زہری”

روایت مذکور کی بنا پر جنگِ بدر (٢ ہجری) کے بعد ، قریش نے مدینہ کے یہودیوں کو ایک خط کے زریعے رسول خدا ﷺ سے جنگ کرنے کے لئے کہا؛ پس بنی النضیر نے دھوکہ کی نیت سے پیامبر اکرم ﷺکو تجویز کیا کہ (ایک روایت کی بنا پر تین افراد) اپنے تیس صحابہ کے ساتھ ان یہودیوں کے پاس آئیں اور ان کے لئے دین بیان کریں، یہودیوں کا ارادہ تھا کہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ ﷺ کو قتل کردیں، لیکن ایک یہودی عورت نے یہودیوں کے اس منصوبے کے بارے آپ ﷺ کو اطلاع کردی اسی وقت آپ نے بنی النضیر کے محاصرہ کا حکم صادر فرمایا۔ اس صورت حال میں، محاصرہ کے دوران آپ ﷺ نے یہودیوں سے کہا کہ دوبارہ صلح کرلو؛ لیکن انہوں نے قبول نہ کیا؛ پس مسلمان تین روز تک یہودیوں کے ساتھ لڑتے رہے اس جنگ کے دوسرے روز رسول خدا ﷺ اور آپ کے ساتھیوں نے بنی قریظہ کاتعاقب کیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ صلح کرلو تو انہوں نے قبول کرتے ہوئے صلح کرلی اس کے بعد دوبارہ مسلمان بنی النضیر کی طرف آئے ان کے ساتھ جنگ کی[204] آخرکار یہودی ناچار ہوکر مدینہ کو چھوڑنے پر تیار ہوگئے۔

ب۔ روایت ابن اسحاق

جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا اس روایت کو اکثر مؤرخین نے ترجیح دی ہے اس لحاظ سے یہ روایت شہرت کی حامل ہے۔ اس روایت کے مطابق، ماجرا اس طرح ہے کہ بئرمعونہ کے حادثہ میں جس میں مبلغین اسلام انتہائی کربناک حالت میں قتل کئے گئے ان میں سے ایک زندہ بچ جانے والے شخص کا مدینہ کی طرف واپسی کے وقت راستے میں اسی خاندان کے دو لوگوں سے سامنا ہوا۔ قصاص کے لئے اس نے ان دونوں کو قتل کردیا اسے یہ علم نہیں تھا کہ یہ دو افراد مسلمانوں کے اتحادی تھے، حادثہ بئرمعونہ میں بھی نیز یہ لوگ شامل نہ تھے اس لئے ان دونوں کا خون بہا ادا کیا جانا چاہیے تھا[205] اس وقت رسول خداﷺ ان دونوں کی دیت کے سلسلہ میں بنی النضیر کے پاس گئے تاکہ ان سے دیت کی ادائیگی کے بارے بات کریں اگرچہ پہلے تو یہودیوں نے اس امر کو کشادہ روئی سے قبول کیا لیکن ان میں سے کچھ نے جب یہ دیکھا کہ آپ ﷺ کے ہمراہ ساتھی کم ہیں اور انہی چند ساتھیوں کے ساتھ دیوار کے پاس گفتگو میں مصروف ہیں تو سازش پر اتر آئے اور آپ ﷺ کے قتل کا منصوبہ بنایا اس طرح کہ دیوار کے اوپر سے ایک پتھر آپ پر گرائیں؛ لیکن رسول اللہ ﷺ جبرائیل کے زریعے ان کے اس حیلے سے باخبر ہوگئے۔ ایسا حیلہ و مکر خود یہودیوں کے اعتراف کے مطابق معاہدہ شکنی کے زمرے میں آتا تھا [206] پس رسو ل اللہ ﷺ فوری مدینہ واپس پلٹے اور ارادہ کیا کہ بنی النضیر کے ساتھ جنگ کریں[207]؛ اس کے بعد مسلمانوں نے بنی النضیر کے یہودیوں کا چھ روز تک محاصرہ کیا ۔

آخرکار محاصرے کی سختی کو دیکھتے ہوئے یہودیوں نے مدینہ چھوڑنے پر رضامندی کا اظہار کیا انہوں نے آپ ﷺسے عرض کیا کہ ہم مدینہ چھوڑنا چاہتے ہیں؛ یہ خود ایک نئی مصالحت تھی جس کی بنیاد پر بنی النضیر امان میں تھے؛ لیکن انہیں ہر حال میں مدینہ چھوڑنا تھا ان کو صرف یہ اجازت تھی کہ ایک اونٹ پر جتنا سامان آسکتا ہے وہ لے جائیں؛ لیکن جنگی ہتھیاروں اور دوسرے اموال کو چھوڑ جائیں دونوں طرف سے مذکورہ امور پر رضا مندی کے بعد صلح عمل میں آئی جس کی بنا پر بنی النضیر مدینہ سے جلا وطن ہوگئے؛

ان میں سے کچھ خیبر چلے گئے اور بعض نیز شام کی طرف ”اذرعات” اور ”اریحا” کے علاقوں میں چلے گئے [208] ۔

اگرچہ بنی النضیر کے متعلق دو روایات میں کافی تضاد ہے، لیکن ایک چیز دونوں روایات میں مشترک ہےوہ یہ کہ یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کی سازش کا جال بن کر اپن معاہدہ کو توڑا اور اس کے نتیجے میں مدینہ کو چھوڑنے پر آمادہ ہوئے، یاد رہے کہ بنی النضیر ک معاہدہ شکنی کے مرحلہ میں منافقین کا کردار انتہائی تحریک آمیز تھا۔ جیسا کہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی مسلسل یہودیوں کو مسلمانوں کے مقابلے میں ڈٹے رہنے کی ترغیب دلاتا رہا نیز جھوٹے وعدوں کے زریعے ان کو اپنی حمایت کی یقین دہانی بھی کرواتا رہا۔[209]

٣۔ صلح بنی قریضہ کا انجام

یہودیوں کی معاہدہ شکنی کا تیسرا اور آخری مرحلہ بنی قریظہ کے زریعے اپنے انجام کو پہنچا یہ واقعہ جنگ خندق سے (٥ ہجری) گہرا تعلق رکھتا ہے اس جنگ میں مختلف مشرک قبیلوں نے مسلمانوں کا محاصرہ کیا یہ مسلمانوں کے لیے انتہائی کڑا وقت تھا۔ قابل توجہ بات ہے کہ جنگ کے ابتدائی مراحل میں بنی قریظہ نے صلح کے پیشِ نظر رسول اللہ ﷺکو زمین کھودنے کے آلات و اوزار[210] عاریتاً دیئے؛ لیکن یہ مدد جاری نہ رہ سکی؛کیونکہ اسی دوران بنی نضیر کا رئیس حیی بن اخطب بنی قریظہ کے پاس آیا اور انہیں مسلمانوں کی مخالفت پرابھارنے لگا اس سے پہلے بھی حیی بن اخطب مدینہ سے مکہ گیا تھا اور وسیع اقدامات کے زریعے مشرکینِ قریش کو مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے لیے آمادہ کیا تھا۔ اب بنی قریظہ کے یہودیوں کو مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے پر اکسا رہا تھا۔

شروع میں تو بنی قریظہ نے اسے اپنے قلعوں میں گھسنے نہ دیا لیکن وہ مسلسل کوشش کرتا رہا اور آخر کار قلعوں کے اندر پہنچ گیا پھر اس نے بنی قریظہ سے کہا کہ مشرکین چاروں طرف سے حملہ کرنے والے ہیں اور اس حملے میں مشرکین کی جیت حتمی ہے پھر اس نے بنی قریظہ کے رئیس کعب بن اسد کورسول اللہ ﷺ سے کیا گیا معاہدہ توڑنے پر مجبور کیا[211] ۔ ایک بیان کے مطابق حیی بن اخطب نے سازش کا یہ جال مشرکین کے رئیس ابوسفیان کے حکم پر بُنا تھا[212] اس بارے نقل کیا گیا ہے کہ حیی بن اخطب نے رسول اللہ ﷺ اوربنی قریظہ کی صلح کے مسودے کو کعب بن اسد سے لیا اور پھاڑ دیا کعب بن اسد جان گیا کہ اسے دھوکہ دیا گیا ہے اس طرح وہ اپنے کئے پر پشیمان ہوا اور یہودیوں کے بزرگوں میں سے پانچ افراد نے کعب بن اسد کو سرزنش کی کہ کیوں حیی کے فریب میں آگئے تھے[213] ۔

اس کے بعد بلا شک و شبہ حیی نے کعب کے شکوک و شبہات کو دور کیا اور اسے اور بنی قریظہ کے دوسرے یہودیوں کو مسلمانوں کے ساتھ کئے گئے معاہدہ کوتوڑنے پر آمادہ کیا۔ بہرحال اس معاہدہ شکنی کی خبر یثرب کے مسلمانوں کو پہنچ گئی اگر اس خبر کی تائید ہوجاتی تو قطعی طور پر جنگِ احزاب میں مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا۔ رسول خدا ﷺنے اس واقعہ کی جانچ پڑتال کرنے کے لئے ، او س و خزرج کے بزرگوں، سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ کو چند دوسرے لوگوں کے ہمراہ مامور کیا کہ بنی قریظہ کے یہودیوں کے پاس جائیں اور ماجرا کی تحقیق کریں۔

ان لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ بنی قریظہ نے معاہدہ توڑ دیا ہے اور اس سے برائت کا اظہار کیاہےرسول اللہ ﷺ کی طرف سے واقعہ کی چھان بین کے لیے بھیجے گئے ان لوگوں نے بنی قریظہ کو قسم دیتے ہوئے کہا کہ اپنے معاہدہ کی پاسداری کرو اور حیی بن اخطب کا حکم نہ مانو؛ لیکن کعب بن اسد نے جواب میں اس طرح کہا:

ہم معاہدے پرہرگز نہیں پلٹیں گے میں اس معاہدے کو ٹھوکر پر رکھتا ہوں اس کو پھاڑتا ہوں، اس کو میں نے ختم کردیا[214]۔

پس ہمارے اور محمد (ص) کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے۔[215] یاد رہے کہ بنی قریظہ ، یثرب میں شہرکے جھاڑیوں والےعلاقے میں رہتے تھے[216] مسلمانوں کے محاصرہ کی صورت حال میں انکے لئے بہترین موقع تھا کہ مسلمانوں کے بچوں اور عورتوں پر شب خون ماریں یہی وجہ تھی کہ اس معاہدہ شکنی کا علم ہونے کے بعد مسلمان بہت خوف زدہ ہوئے؛[217] لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس وقت فرمایا:

اللہ اکبر! اے گروہ مسلمان! تمہیں   خدا کی نصرت اور مدد[218] مبارک ہو”۔

جب احزاب کے سپاہیوں نے مسلمانوں کے محاصرہ کی ناکامی کے بعد مدینہ کو ترک کیا تو امر الٰہی کی بنا پر رسول خدا ﷺ نے بنی قریظہ کے قلعوں کے محاصرے کا حکم صادر فرمایا تاکہ خیانت کے اس سرچشمے کو ختم کرسکیں یہ محاصرہ پانچ ہجری کو ہوا اورپچیس دن تک (یا پندرہ ، یا دس دن رات یا کچھ) جاری رہا۔[219]

قابل ذکر ہے کہ اسی دوران یہودیوں میں سے عمرو بن سعدی نامی شخص نے قلعوں میں سے نکلنے کے بعد رسول اللہ ﷺ سے کئے گئے معاہدہ پر وفاداری کا اظہار کیا تو آپﷺ نے فرمایا، ”خدا نے اسے اس کی وفاداری کی وجہ سے بخش دیا”[220] اس دوران یہودی باہمی طور پر چارہ اندیشی میں مصروف رہے لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے[221] آخرکار محاصرہ کے طویل ہونے کی وجہ سے بنی قریظہ کے یہودیوں نے رسول اللہ ﷺکے امر پر سر ِتسلیم خم کردیا اس وقت قبیلہ اوس کے لوگوں نے آپﷺ سے تقاضا کیا کہ بنی قریظہ کا معاملہ ان کے سپرد کیا جائے؛ کیونکہ بنی قریظہ ان کے اتحادی تھے۔ قبیلہ اوس نے آپ سے یہ بھی کہا کہ کیونکہ اس سے پہلے آپ نے بنی قینقاع کے معاملے میں ان کے اتحادی عبد اللہ بن ابی کے فیصلے کو قبول کیا تھا پس بنی قریظہ کا معاملہ ہمارے سپرد کیا جائے بنی قریظہ کے معاملہ میں اوسی فیصلہ کریں۔ رسول خداﷺ نے قبول فرمایا اوربنی قریظہ کے فیصلہ کے لیے سعد بن معاذ کا انتخاب فرمایا۔ [222] مؤرخین نے سعد بن معاذ کی رائے کو اس طرح بیان کیا ہے:

۱۔ بنی قریظہ کے لوگ قتل کردیئے جائیں؛

٢۔ ان کے اموال مسلمانوں کے درمیان تقسیم کئے جائیں؛

٣۔ ان کے بچوں اور عورتوں کو قیدی بنالیا جائے

اس کے بعد سعد بن معاذ کی طرف سے دیئے جانے والے احکام رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اس طرح مورد تائید قرار پائے: تم نے ان کے بارے سات آسمان سے جاری کئے گئے خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے”؛ پس اس حکم پر عمل کیا گیا اور بنی قریظہ سے چھ یا سات سو لوگ قتل کئے گئے [223] ۔

قتل کی صورت میں یہ سخت سزا تھی جو رسول اللہ ﷺ اور یہودیوں کے درمیان کئے گئے معاہدے میں دونوں طرف سے مورد تائید قرار پائی تھی۔ یہودیوں کے نزدیک بھی اس جرم کی سزایہی ہونی چاہیےتھی؛ لیکن آج اس طرح کی سزا کے وقوع کا انکار کیا جاتا ہے[224]۔

جبکہ اس کے برعکس بعض نے سزا کے اس واقعہ کی توجیہ کی ہے اور دلائل کے زریعے اس کا دفاع کیا ہے[225] بہرحال اس بارے علیحدہ سے ایک تحقیق کی ضرورت ہے ۔

٤۔ غزوۂ بدر و خندق میں صلح کی تجویز

ایک روایت کے مطابق غزوۂ بدر میں جب مشرکین اور مسلمان ایک دوسرے کے مقابل تھے اس وقت رسول اللہ ﷺ نے سعی کی کہ جنگ نہ ہو۔ قریش کی طرف آپ ﷺ نے اس طرح پیغام بھجوایا:

اے گروہ قریش! میرے لیے اس سے بڑھ کر کوئی بات ناگوار نہیں ہے کہ عرب میں کافروں کی موجودگی کے باوجود تم سے جنگ کا آغاز کروں۔ مجھے عرب کے ساتھ تنہا رہنے د و اگر اپنی رسالت میں سچا ہوا (تو اپنے آئین و مذہب کی ترویج کے لئے توفیق حاصل کرلوں گا) اس سے تمہاری آنکھیں بھی ٹھنڈی ہوں گی؛ اگر اپنے دعوی میں جھوٹا ہوا تو تمہاری بجائے عرب کے رہزن میرے لئے کافی ہوں گے [226] ؛ پس واپس آجاؤ!

علی بن ابراہیم قمی (متوفی ٣٠٧ ہجری) نے اس بیان کے ذکر کے بعد سورئہ انفال کی ٦١ ویں[227] آیت کی تفسیر کے ضمن میں اس طرح روایت کی ہے کہ قریش کا بزرگ رسول خداﷺ کے پیام کو سننے کے بعد سرخ بالوں والے اونٹ پر سوار ہوا اور قریش کے پاس گیا اور انہیں لڑائی سے ڈرایا رسول اللہ ﷺ نے عتبہ کے اس اقدام پر فرمایا: اگر ان کے درمیان کسی کے نزدیک کوئی نیکی ہے تو سرخ بالوں والے اونٹ کے مالک کے پاس ہے۔

لیکن یہ صلح جوئی بے نتیجہ رہی؛ کیونکہ قریش کے بزرگ ابوجہل نے عتبہ کی مخالفت کی اور اسے کہا تم بزدل ہو یہ کہہ کر جنگ کرنے پر ضد کی۔[228] دوسرے مؤرخین نےرسول خدا (ص) کے کسی پیغام کو نقل نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے اس طرح نقل کیا ہے کہ حکیم بن حزام نے عتبہ سے درخواست کی کہ کیونکہ وہ قریش کے قبیلہ کا رئیس ہے اس لیے[229] قریش کو جنگ سے روکے، عتبہ نے نیز جنگ نہ کرنے پر زور دیا؛ لیکن ابوجہل نے عتبہ کے کام کو بیہودہ قرار دیتے ہوئے جنگ کی چنگاری [230] پھینک دی۔ آخری بیان کے مطابق ترکِ جنگ کی بات کا خود قریش کے اندر سے آغاز ہوا۔ یہ تو واضح ہے کہ رسول خدا ﷺ قریش کے ساتھ جنگ کرنے سے پرہیز کر رہے تھے آپ ﷺ کو یہ بھی امید تھی کہ قریش حضرت کو دوسری عرب اقوام کی طرح رہنے دیں گے۔ سن ٦ ہجری غزوہ حدیبیہ میں بھی آپ ﷺ نے پہلے اس مطالبے کا اظہار فرمایا، حدیبیہ پہنچنے سے پہلے عسفان کےعلاقہ میں قریش کی جنگ جوئی سے آگاہ ہوئے تو فرمایا: وائے ہو تم پر اے قریش! جنگ نے ان کو مغرور کردیا ہے[231] ؛ کیا ہوجاتا اگر وہ ہمیں دوسرے عرب لوگوں کے ساتھ رہنے دیتے۔[232]

ب: غزوہ خندق میں صلح کی تجویز

جیسا کہ بنی قریظہ کے ماجرے میں گزرا، پانچ ہجری میں جنگِ خندق یثرب کے محاصرے کی صورت میں وقوع پذیر ہوئی۔ معروف روایت کی بنا پر یہ محاصرہ پندرہ دن تک جاری رہا[233] ؛ یہ جنگ اس حد تک خطرناک اور خوفناک تھی کہ اصحاب رسولﷺ میں سے ایک صحابی کے بقول جنگِ خندق میں مسلمانوں کی رات[234] دن کی طرح کٹ رہی تھی مسلمان مسلسل پہرہ دے رہے تھے اور بالکل بھی سکون میں نہ تھے۔ جنگ خندق انتہائی اہمیت کی حامل تھی کہ آپ ﷺ نے فرمایا کلِ اسلام کلِ کفر سے لڑنے جا رہا ہے۔[235]

جیسا کہ پہلے اشارہ ہوا، بنی النضیر کے بعض یہودیوں نے مدینہ سے نکلنے کے بعد جنگ خندق کے دائرہ کو بڑھانے کے لیے کافی کوششیں کیں۔ وہ ایک طرف مکہ گئے اور مسلمانوں سے لڑنے کے لیے مشرکین سے معاہدے کیے[236] جبکہ دوسری طرف مشرک قبیلوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے ابھارا [237] اسی دوران یہودیوں کا قبیلہ غطفان کے ساتھ ایک اہم معاہدہ ہوا اس معاہدے کی رو سے اگربنی غطفان جنگ میں یہودیوں کا ساتھ دیتے تویہودی ان کو خیبر کا ایک سال کا خرما دیتے ۔[238]

اس معاہدہ کی وجہ سے بنی غطفان کے لوگ خصوصاً ان کا رئیس عینیہ بن حصن پھولے نہ سمایا اور ایک ہزار جنگجوساتھ لیے مشرکین کے ساتھ جاملا [239] ۔ قابل ذکر ہے کہ ایک بیان کی بناء پر مشرکین کے رئیس ابوسفیان نے اپنے لشکر کی مدینہ کی طرف روانگی سے پہلے رسول اکرم ﷺ کو ایک خط ارسال کیا جس میں کہا گیا کہ اگر مدینہ کے خرما کا آدھا محصول اہل مکہ کو دو تو اس صورت میں ہم جنگ سے ہاتھ اٹھا سکتے ہیں آپﷺ نے دو ٹوک الفاظ میں اس مطالبے کو رد کردیا۔ معاصر محمد حمید اللہ کتاب مجموعہ الوثائق السیاسیہ للعہد النبوی و الخلافہ الراشدہ [240] میں مذکورہ مطالبے کے ذکر کے بعد اس مطالبے کو بے بنیاد قرار دیتےہیں اور کہتے ہیں کہ اس مطالبے کا ذکر تاریخی کتب میں نہیں ملتا۔[241]

استاد مرحوم علی احمدی میانجی بھی اس بارے میں تصریح کرتے ہیں کہ یہ بیان خود ساختہ ہے[242] ؛ اس لیے کہ اس بیان میں، ابو سفیان اپنے خط میں یثرب کو مدینہ کے عنوان سے یاد کر رہا ہے جس سے مراد و مدینہ البنی   ہے؛ حالانکہ کسی بھی صورت یقین نہیں کیا جاسکتا کہ دشمن ایسی تعبیر سے کام لے۔

اب تحریر کے اس حصے میں وہ صلح مورد نظر ہے جو یثرب کے محاصرہ سے پہلے اور جنگ کے درمیان رسول اللہ ﷺ کی طرف سے تجویز ہوئی جو صرف گفتگوکے مرحلے سےآگے نہ بڑھ سکی جیسا کہ اوپر گزرا جنگِ خندق میں مشرکین کا حملہ اور پھر محاصرہ انتہائی خوفناک تھا خصوصاً یہ کہ بنی قریظہ کے یہودیوں کے حملہ کے خطرات کے بادل مسلمانوں کے سروں پر منڈلا رہے تھے۔ اس صورت حال میں رسول اللہ ﷺ نے ارادہ کیا کہ مشرکین کی صفوں میں رخنہ ڈالا جائے یثرب کے محاصرہ میں متعدد خاندان اور قبائل شریک تھے جن کے نام تاریخ [243] میں محفوظ ہیں لیکن پھر بھی دشمن کی دس ہزار نفری کا تعلق چار بڑے قبیلوں قبیلۂ قریش، سلیم، غطفان[244] اور اسد سے تھا ان میں سے قبیلۂ غطفان درج ذیل خصوصیات کا حامل تھا۔

١۔ یہ قبیلہ قریش کے نفوذ سے دور نجد[245] کے علاقے میں رہتا تھا اسی لئے مستقل رائے میں استقلال رکھتا تھا۔

٢۔ پہلے بھی ذکر ہوا کہ قبیلہ غطفان ہزار جنگجوؤں کی غیر معمولی تعداد کے ساتھ محاصرہ میں شامل تھا۔

٣۔ یہ لوگ کفار کی حمایت یا مسلمانوں سے لڑنے کے لئے نہیں آئے تھے بلکہ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا انہیں خیبر کے خرما کے محصول سے غرض تھی۔ خرما کے لالچ میں ہی یہ میدانِ جنگ میں اترےتھے۔

یثرب کے محاصرہ کے تقریباً دس[246] روز گزرنے کے بعد رسول اکرم ﷺ نے ارادہ کیا کہ بنی غطفان سے صلح کی جائے اور اس قبیلہ کو اسلام دشمنوں کی صف سے خارج کیا جائے؛ اس مقصد کے حصول کے لئے آپﷺ نے عینیہ بن حصن الغزاری اورحارث بن عوف المری کو کہا کہ مدینہ کے خرما کا تیسرا حصہ لینے کے عوض محاصرے سے ہاتھ کھینچ لیں اور اپنے قبیلہ کے افراد کے ساتھ واپس چلے جائیں[247]

یہ دونوں ابو سفیان کو پتہ چلے[248] بغیر مخفی طور پر آپﷺ کے پاس آئے اور پہلے کہا کہ ہم مدینہ کا نصف خرما لیں گے لیکن رسول خدا ﷺ نے قبول نہ فرمایا؛ آخر کار قبیلہ غطفان کے یہ دونوں رئیس تیسرے حصہ پر راضی ہوگئے اس گفتگو میں قبیلہ غطفان کے دس دیگر افراد بھی موجود تھے؛ فریقین کی رضایت کے بعد صحیفہ اور دوات لا ئےگئے تاکہ صلح کو مکتوب کیا جاسکے ۔

لیکن اس موقعہ پر اسید بن حضیر انصاری کوجب معاملہ کے بارے علم ہوا تورسول خداﷺ کی خدمت میں آیااورعرض کیا: اگر اس صلح کا آسمان سے یعنی خدا کی طرف سے حکم ہے تو اس کو انجام دیں! اگرایسا نہیں ہے تو، خدا کی قسم! ہم بنی غطفان کو تلوار کے وار کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیں گے! اس سے پہلے ان میں اتنی جرأت کہاں تھی کہ ہم سے خرما کا طمع کریں؟!

رسول اللہ ﷺ نے اس عصیبت کو دیکھتے ہوئے اس کام سے ہاتھ روک لیا پھر اوس و خزرج کے بزرگوں سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ کو رائے کے لیے بلایا؛ لیکن انہوں نے بھی اس طرح عرض کیا: اگر یہ آسمانی (امر الٰہی) حکم ہے تو اس کو انجام دیں اور اگر خدا کا بھی حکم نہیں لیکن آپ کی مرضی اس میں شامل ہے تو بھی اس کو انجام دیں ہم آپ ﷺ کے فرمانبردار ہیں؛ لیکن اگر اس میں رائے اور چارہ اندیشی کی گنجائش ہے تو پھرقبیلہ غطفان کے لیے ہمارے پاس شمشیر کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے جواب میں فرمایا: میں نے دیکھا کہ عرب نے تم کو ایک تیر سے شکار کیا ہے، پس میں نے سوچا کہ قبیلۂ غطفان کے لوگوں کو راضی کروں اور ان کے خلاف نہ لڑوں؛ سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ نے جب یہ دیکھا کہ آپ ﷺ صرف دشمن کے محاصرہ کے غلبہ کو کم کرنے کے لیے ایسا کر رہے ہیں، اس صلح کے بارے نہ خدا کا حکم ہے اور نہ آپ ﷺ کا قطعی ارادہ ہے تو اپنے مؤقف پر ڈٹ گئے اور کہا: اے رسول خدا ! زمانۂ جاہلیت میں بھی قبیلہ غطفان کے لوگوں نے کبھی بھی اس طرح ہم سے لالچ نہیں کیا تھا کہ ہم سے ایک دانہ خرما کا لے لیں مگر یہ کہ ہم سے خریدتے تھے یابطور مہمان ہم سے خرما لیتے تھےاب جب کہ اللہ تعالی نے آپﷺ کو ہم تک پہنچایا ہے اور آپ کے زریعے ہمیں برکت عطا کی ہے اور ہماری ہدایت کی ہے، تواب کیوں جزیہ دیں؟! ہم انہیں شمشیر کے علاوہ ہرگز کوئی چیز نہیں دیں گے!

سعد بن معاذ اپنے ہاتھ میں صحیفہ پکڑے ہوئے تھے رسول خداﷺ نے فرمایا اسے پھاڑ دے سعد نے نیز ایسا ہی کیا پھر آپ(ص)نے فرمایا بیننا السیف؛ ہمارے درمیان تلوار حاکم ہے۔ قبیلۂ غطفان کے لوگ مسلمانوں کے دشمن[249] ہی رہے اسی دوران قبیلۂ غطفان کے رئیس عینیہ اورعباد بن بشرانصاری کے درمیان دھمکیوں کا تبادلہ ہوا اس کے بعد قبیلۂ غطفان کا رئیس اپنے ساتھیوں کے ساتھ ناامید ہوکر محاصرہ کرنے والوں کی صف میں شامل ہوگیا[250] تاریخی اطلاعات میں اس ماجرا کی جزئیات میں اختلاف ہے ایک اطلاع کے مطابق دو طرفہ گفتگو میں خرما کے تیسرے حصے کی بجائے مدینہ کے (تمار) پھل کا تیسرا حصہ تھا واضح ہے مدینہ کا پھل خرما ہی تھا۔

آخری تاریخی اطلاع کی بنا پر مذکورہ صلح لکھی جاچکی تھی [251] صرف گواہی لینا باقی تھی بہرحال اس طرح کا اختلاف اصل واقعہ پر اثر انداز نہیں ہوسکتا، اصل ماجرا اس طرح تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے چاہا کہ صلح کی جائے لیکن انصار کی مخالفت کی وجہ سے ایسا نہ کیا۔ بے شک مذکورہ ماجرا اس صورت حال میں ہوا کہ رسول خدا (ص) مسلمانوں کی مشکل کے پیش نظر چارہ اندیشی کر رہے تھے لیکن مسلمانوں کے تعصب کی وجہ سے اس چارہ اندیشی کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ ایک انصاری نے اس طرح شعر کہا:

لقد علم الاحزاب حین تالبوا              علینا و راموا دیننا مانوا دِعُ [252] جب احزاب ہمارےخلاف اکھٹے ہوئے اور ہمارے دین کو نشانہ بنایا انہوں نے جان لیا کہ ”ہم صلح نہیں کریں گے” اس ماجرے کا دوسرے زاویوں سے بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے اگر یہ صلح وقوع پزیر ہوجاتی تو دشمنوں کی صفوں میں انتشار بڑھ سکتا تھا اور ان کا باہمی اعتماد ختم ہوسکتا تھا اس کے باوجود، معاصر استاد سید جعفر مرتضیٰ عاملی اس ماجرے کی اصل میں تردید کرتے ہیں[253] آخر میں اس ماجرے کی اس شکل میں تائید کرتے ہیں کہ قبیلہ غطفان نے حضرت محمدِ مصطفی ﷺ سے عرض کیا کہ ان کو مدینہ کے پھلوں میں سے کچھ دیں تو وہ جنگ سے ہاتھ اٹھا لیں گے۔

لیکن حضرت (ص)نے قبول نہ فرمایا اور فیصلہ تلوار و جنگ پر چھوڑ دیا، البتہ ماجرے کی یہ شکل بنی قریظہ کے ایک یہودی زبیر بن باطا کی گفتگو کی بنا پر مستند ہے مذکورہ شخص نے اپنی باتوں کے زریعے اپنے قبیلہ (قریظہ) کے لوگوں کو ڈرایا کہ رسول اللہ ﷺسے دشمنی نہ کریں اسی طرح اس نے بنی قریظہ کو رسول اللہ ﷺ کے مقابل قریش کا ساتھ دینے سے ڈرایا[254] لیکن اگر اس یہودی کی باتوں ،جو مخصوص حالات اور خصوصی محرک کی وجہ سے بیان ہوئی ہیں کو قبول کرلیں تو اس صورت میں تاریخ اسلام کے منابع میں قطعی شہریت رکھنے والے مذکورہ اصل ماجرا میں شک اور اس کا انکار کرنا پڑے گا؟!

۵۔ خزاعہ کے ساتھ معاہدہ

قبیلۂ خزاعہ جنوب غرب سے کچھ شمالی حصے تک، مکہ اور مدینہ کی راہ کے اطراف میں رہتا تھا اس لحاظ سے خزاعہ قریش اور کنانہ کے قبیلوں کا ہمسایہ تھا۔ بنی خزاعہ کی بعض سکونت گاہیں مرّا الظہران، عسفان، خلیص اور جحفہ کے نام پر تھیں اس قبیلہ کے خاندان بالترتیب بنی المصطلق، بنی سعد بن عمرو، بن کعب بن عمرو ، بنی ملیح بن عمرو اور بنی عوف تھے[255] ۔

ممکن تھا کہ یہ لوگ رسول اللہﷺ کی مخالفت میں آئیں۔ لیکن اس کے برعکس نہ صرف انہوں نے پیامبر اکرم ﷺ کے خلاف صف آرائی نہ کی بلکہ آپ سے بہت تعاون کیا حتی صلح حدیبیہ اور فتح مکہ میں خزاعہ کے لوگوں کا انتہائی اہم کردار تھا اگلی فصل میں ان کے بارے بات ہو گی۔ اس سے پہلے بھی چند واقعات میں اس قبیلہ کے افراد نے پیامبراکرم ﷺتک دشمن کی کافی خبریں پہنچائیں ۔ اسی لئے یہ لوگ مسلمانوں کے مورد اعتماد تھے۔ جنگ احد میں مکہ کے مشرکین مسلمانوں میں سے کچھ کو قتل کرنے کے بعد جیت کے ساتھ مکہ کی طرف پلٹے مسلمانوں نے بھی ان کا پیچھا کیا اورغزوہ حمرالاسد وقوع پزیر ہوا۔ اس غزوے کا انجام اس طرح ہوا کہ مشرکین دوبارہ مسلمانوں پر حملے سے باز رہے۔ اسی دوران معبد بن ابی معبد خزاعی مشرک نے جنگ احد کی مصیبتوں پر پیامبر اکرم (ص) کو تسلی دی اور آپ (ص) سے عرض کیا:

اے محمد (ص)! آپ کے ساتھیوں پر مصیبت ہمارے لئے سخت تھی ہماری یہ خواہش ہے کہ خدا آپ(ص) کے عزت و شرف میں اضافہ فرمائے اور مصیبت کا بادل چھٹ جائے۔

قابل ذکر ہے کہ یہ خزاعی شخص پیامبر اکرم (ص) کے پاس سے گزر کر مشرکین کے پاس پہنچا انہیں سرزنش کی اور اس طرح ڈرایا: محمد(ص) اور ان کے ساتھیوں کو اس حالت میں پیچھے چھوڑ آیا ہوں، کہ تم پر انتہائی غضبناک تھے۔

معروف مؤرخ واقدی (متوفی 207ہجری)جو غزوات کے بارے گہری معلومات رکھتا تھا، مذکورہ بیان کے آغاز میں یاد دلاتا ہے کہ قبیلہ خزاعہ کے لوگ پیامبر اکرم (ص)کے دوست تھے[256] ۔ ابن اسحاق نیز (متوفی 151ہجری) مذکورہ ماجرے کے بارے اس طرح لکھتا ہے: خزاعہ کے مسلمان اور مشرک دونوں پیامبر اکرم(ص) کے رازدار تھے اور ان سے اتفاق رکھتے تھے[257]، پیامبر اکرم (ص) اور خزاعہ کے درمیان اس دوستی کی بنیاد پیامبر اکرم(ص) کے جد عبدالمطلب اور خزاعہ کے درمیان معاہدہ تھا۔

قابل ذکر ہے کہ عبدالمطلب ((سقایہ)) حاجیوں کو پانی پلانے کا عہدہ اپنے چچا نوفل کے حوالے کرنے پر راضی نہ ہوئے، اسی لیے اس معاملے پر بات بگڑ گئی اور عبدلمطلب نے بنی خزاعہ کے ساتھ جبکہ نوفل نے بنی عبدشمس کے ساتھ اتحاد کیا۔ عبدالمطلب اور خزاعہ کا معاہدہ فقط دوستی اور دفاع کے حوالے سے تھا دونوں طرف کے لوگوں نے دوستی پر اس طرح عہد کیا: دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے کے بازو اور ایک دوسرے کے لئے پشت پناہ ہیں عبدالمطلب کا فرض ہے کہ خزاعہ کی مدد کریں ۔۔۔ جبکہ خزاعہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ عبدالمطلب اور ان کی اولاد کی مدد کریں[258]۔

ا معاہدہ میں مختلف تعبیروں کے زریعے اس اتحاد کی ہمیشگی پر تاکید کی گئی تھی نیز صراحتاً یہ معاہدہ عبدالمطلب کی اولاد کو بھی شامل تھا۔ اس طرح مذکورہ معاہدہ عبدالمطلب کی وفات کے بعد پیامبر اکرم (ص) کے مورد میں بھی قابل اجراء تھا۔

حدیبیہ میں خزاعہ کے لوگ جب حضور(ص) کی خدمت میں پہنچے تو انہوں نےآپ(ص) کووہ معاہدہ یاد دلایا، آپ(ص) نے اس طرح فرمایا: جس حد تک میں تمہارے معاہدے کو جانتا ہوں! جو بھی معاہدہ دورِ جاہلیت میں ہوا اسلام اس کی مخالفت نہیں کرتا، سوائے اس کےکہ وہ معاہدہ ظلم و ستم پرمبنی ہو۔ پیامبراکرم(ص)کا یہ فرمانا اصل میں اس عہد کی مشروط طورپرتجدید تھی آپ نے شرط فرمائی کہ ”ظالم کی مدد نہ کریں اور مظلوم کی نصرت کریں”[259] ۔

اسی دور میں حدیبیہ سے پہلے جنگ بدر میں جن مشرکین کو مسلمانوں نےاسیر کیا تھا ان میں خالد بن الاعلم نامی خزاعی بھی تھا[260]۔ قابل ذکر ہے کہ مذکورہ خزاعی شخص نے اسیری سے آزادی کے بعد ا یک دوسرے خزاعی عمروبن نضلہ کے ساتھ مل کر جنگ احد میں مسلمانوں کے خلاف جنگ کی اور نتیجتاً دونوں اس جنگ میں مارے گئے[261] ۔اسی طرح پانچ ہجری میں بنی خزاعہ کی ایک شاخ بنی المصطلق سے تعلق رکھنے والےلوگوں سے مسلمانوں کا ایک غزوہ ہوا[262]۔ البتہ بنی المصطلق اپنے امور میں بنی خزاعہ کے دوسرےخاندانوں سے لاتعلق تھے۔ یہ لوگ صرف اور صرف نسبی حوالے سے بنی خزاعہ سے تعلق رکھتے تھے۔

حدیبیہ سے پہلے کے دور پر توجہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ خزاعہ کی مشرکین اور پیامبر اکرم (ص)سے دشمنی تھی۔ لیکن پھر بھی یہ دعو ی کیا جا سکتا ہے کہ پیامبر اکرم ﷺ اور بنی خزاعہ کا اتحاد انتہائی اہمیت کا حامل تھا جو ایک دوسرے سے نہ الجھنے کا باعث تھا۔ جیسا کہ ابوعبید بن سلام (متوفی ٢٢٤ہجری) نے اپنی کتاب الاموال میں رسول خدا(ص)کا بنی خزاعہ کی طرف خط ؛ اہل صلح کے ساتھ پیامبر اکرم   کے مکاتبات؛ کے عنوان کے تحت ذکر کیا ہے[263] قابلِ ذکر ہے کہ گو کہ مذکورہ دور میں خزاعہ پیغمبر اکرم(ص)   کے راز دار اور دوست تھے لیکن ان کا پیامبر اکرمﷺ سے رابطہ رسمی اور آشکار نہ تھا اسی لئے خزاعہ کے لوگوں کا مشرکین مکہ کی نظروں میں احترام تھا۔ اسی احترام و وجاہت کو پیش نظر رکھتے ہوئے پیامبر اکرم(ص) نے جب مسلمانوں کے انتہائی سخت دشمن سفیان بن خالد کو مکہ میں قتل کرنے کے لئے اپنے ایک ساتھی کو بھیجا تو اسے کہا کہ مکہ میں خود کو خزاعی ظاہر کرے[264] ۔

اسی طرح خزاعہ کے لوگوں کا شرف ومقام باعث بنا کہ خزاعہ میں سے کچھ افراد خصوصا بریل بن ورقا صلح حدیبیہ میں مشرکین اور حضرت پیامبر اکرم(ص) کے درمیان صلح کے لئے منصف بنے[265] ، صلح حدیبیہ کے بعد قبیلہ خزاعہ رسمی اور ظاہری طور پر مسلمانوں کے لشکر سے مل گیا جبکہ اس کے بعد قبیلہ خزاعہ کے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا[266]۔

مسلمانوں سے اس تعلق کی استواری کے بعد مشرکین مکہ کا خزاعہ کے قبیلے سے ہر طرح کا اعتماد اٹھ گیا مشرکین اس قبیلے کو اپنا دشمن سمجھنے لگے۔ مشرکین کے نزدیک قبیلہ خزاعہ کی زمین بھی پیامبر اکرم(ص) کی رازدار تھی[267]۔ اس مرحلہ میں   پیامبر اکرم(ص)اور خزاعہ کے درمیان تعلقات اور دوستی کو مزید فروغ حاصل ہوا۔

اس طرح کہ پیامبر اکرم(ص) نے ان کی طرف ایک خط میں فرمایا: ”…میں تمہارے متعلق خدا کا شکر ادا کرتا ہوں… بیشک تم تہامہ[268] کے بہترین[269] لوگ ہو!۔

تیسرا حصہ: "صلح حدیبیہ”

۱۔ مدینہ سے حدیبیہ تک

۲۔صلح کے لئے حالات کی فراہمی

3۔منصفی اور بات چیت

۴۔صلح کے نتائج و ثمرات

               ۱۔ مدینہ سےحدیبیہ تک

سن ٦ ہجری میں غزوۂ حدیبیہ[270] مکہ کے نزدیک حدیبیہ کے مقام پر ہوا۔ اس سے پہلے مسلمانوں اور مشرکین کا تصادم مختلف واقعات میں یثرب کے قریب ہی ہوا تھا۔ آخری تصادم جنگ خندق کی صورت میں ہو اجس میں مشرکین کو شکست ہوئی۔ اسی جنگ کے بعد پیامبر اکرم(ص)نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کے بعد ہم مشرکین سے جنگ کے لئے جائیں گے جبکہ مشرکین ہماری طرف نہیں[271] آئیں گے۔ اس کے بعد ذی القعدہ ٦ ہجری میں[272] مسلمان پیامبراکرم (ص) کے حکم سے مکہ کی طرف عازم سفر ہوئے، لیکن عمرہ انجام دینے اور کعبہ اللہ کی زیارت کے مقصدکے لئے نہ جنگ کے لئے۔

رسول اللہ ﷺ نے خواب میں دیکھا تھا کہ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے، سروں کو منڈوایا، کعبہ کی چابی لی اور عرفہ میں وقوف کیا ہے،آپ (ص) اور عام مسلمانوں نے خواب کے پورا ہونے اور اس کی تعبیر میں کوئی شک نہ کیا اس لئے ہی تو آپ (ص) کا فرمان سنتے ہی مسلمانوں نے سفر کی تیاری[273] شروع کر دی اس سفرمیں آپ (ص) کی طرف سے یہ حکم تھا کہ صرف غلاف میں چھپی ہوئی تلوار کے ساتھ جانا ہے اور دوسرے جنگی ہتھیار ساتھ نہیں لانے کیونکہ ہم صرف عمرہ کا قصد رکھتے ہیں۔ جیسا کہ اسی مقصد کے لئے مکہ میں قربانی کی لیے ٧٠ اونٹ بھی[274] ساتھ لے لئے تھے۔

مسلمان یکم ذی القعدہ ٦ ہجری کو چودہ سو سے سولہ سو افراد کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے[275] ، البتہ فوجی احتیاطی اقدام میں آپ (ص) نے ایک شخص کو صورت حال کا جائزہ لینے مکہ جبکہ ایک بیس نفری گروہ کو پہلے سے روانہ کر دیا۔ پیامبر اکرم (ص) نے ذی الحلیفہ[276] میں احرام باندھا[277] اور صحرا نشین لوگوں کو ہمراہی کے لئے کہا۔

یہ لوگ اپنے طور پر جداگانہ صورت میں مکہ جا سکتے تھے اور حج و عمرہ ادا کر سکتے تھے اس لئے انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ جانے میں لیت و لعل سے کام لیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اسلحہ کے بغیر جانے والا لشکر سلامت واپس نہیں آ سکے گا۔ ان میں سے فقط قبیلہ اسلم نے رسول اللہ(ص) کی دعوت پر لبیک کہا اور اس قبیلہ کے ایک سو افرد آپ (ص) کے قافلے میں شامل ہو گئے[278]۔

قابل ذکر یہ ہے کہ جب مسلمان حج و عمرہ کی نیت سے مکہ آرہے تھے، اس وقت تک مسلمانوں اور قریش کے درمیان چند چھوٹی بڑی جنگیں ہو چکی تھیں۔ ٢ہجری میں ہونے والے سریہ نخلہ[279] کے علاوہ کسی ایک بھی جنگ میں ماہ ہای حرام کی حرمت پامال نہیں ہوئی تھی اسی لئے تو قریش مطمئن تھے کہ مسلمان ماہ ہای حرام کی حرمت کے پیش نظر جنگ نہیں کریں گے۔

لیکن اس کے باوجود جب قریش کومعلوم ہوا کہ مسلمان یثرب سےمکہ کی طرف آ رہے ہیں توانہوں نے رسول اللہﷺ کو مکہ میں داخل ہونے سے روکنے کی ٹھان لی ۔

قریش آپ(ص) سے اس وقت جنگ کرنے کی طرف مائل نہ تھے کیونکہ اس سے پہلے مسلمانوں اور ان کے درمیان ہونے والے تصادم ان کے لئے بہت تلخ اور اندوہناک تھے۔ دوسری طرف جنگ ان کے اقتصاد اور تجارت کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی۔

اس بارے یاد رہے کہ مکہ کے اردگرد کے لوگ تجارت پیشہ تھے اور جنگ و لڑائی سے کنارہ کش رہتے تھے۔ اسی لئے ہی تو انہوں نے مختلف علاقوں کے رؤسا اور قبائل سے اپنے تجارتی قافلوں کی حفاظت کے لئے دوستی کے معاہدے کئے ہوئے تھے[280] لیکن کے باوجود ان کو خدشہ تھا کہ اگر مسلمان اپنے اختیار سے یا اپنی طاقت کے بل بوتے مکہ میں داخل ہو گئے اور حج کر کے واپس پلٹ گئے تو مسلمانوں کا پرشکوہ اقتدار تمام عرب پر ظاہر ہو جائے گا جس سے قریش کی آبرو ختم ہو کر رہ جائے گی[281] اور رعب و دبدبہ بھی ختم ہو جائے گا۔

اسی طرح قریش کو یہ بھی خطرہ تھا کہ عرب کے لوگ مسلمانوں کے عمرہ کے طریقے کو دیکھ کر اسلام کی طرف مائل ہو کراسلام قبول نہ کر لیں۔ یہ بھی کہ قریش میں قطعا یہ حوصلہ نہیں تھا کہ اپنے آبائی قوانین کے مقابل دوسرے قوانین کو دیکھتے جیسا کہ اسلام سے پہلے جب زید بن عمر بن نفیل نے بت پرستی کو خیرباد کہتے ہوئے توحید پرستی کا انتخاب کیا تو قریش نے اس کے حرم میں داخلے پر پابندی لگا دی[282] پہلے قریش نے ثقیف[283]

اور احابیش[284] کے قبیلوں کی مدد لی نیز خالد بن ولید کی سرگردگی میں دو سو سواروں کو غمیم[285] کے علاقے کی طرف بھیجا پھر اپنی عورتوں اور بچوں کے ساتھ مکہ کے داخلی راستے وادی بلدح[286] میں آ گئے اور وہیں پر پڑاؤ ڈال دیا انہوں نےجاسوس بھیجے نیز اطراف کی بلندیوں پرچڑھ گئے تاکہ مسلمانوں کی نقل و حرکت کو زیرِ نظر رکھ سکیں[287] ۔

جب رسول اللہ(ص) قریش کے ان اقدامات سے آگاہ ہوئے تو آپ نے فرمایا: وائے ہو قریش پر!جنگ نے ان کو اندھا کر دیا ہے، کیا ہو جاتا اگر ہمیں بھی دوسری عرب قوموں کی طرح رہنے دیتے[288] ۔

اس کے بعد آپ(ص) نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ قریش کی طرف سے آنے والے سواروں کا مقابلہ کیا جائے یا مکہ کی طرف اپنے سفر کو جاری رکھا جائے اور جو بھی راستے میں آئے اس کے خلاف جنگ کی جائے۔ سب کا یہی خیال تھا کہ مکہ تک سفر جاری رکھا جائے[289] اسی دوران مسلمانوں نے ذات الاشطاط سے موسوم کنویں کے قریب عسقان[290] کے علاقہ میں پڑاؤڈالا[291] ۔

قریش کے غمیم میں پہچنے والے سواروں نے اس مقام پر پہنچ کر مسلمانوں کو مکہ کی طرف جانے سے روک دیا[292] ۔

مسلمانوں نے رسول اللہﷺ کے حکم کے مطابق ان سواروں سے الجھنے سے پرہیز کرتے ہوئے متبادل راستہ اختیار کیا ،یہ راستہ انتہائی سخت اور ناہموار تھا، اس دشوار گزار راستے کو طے کرنے کے بعد مسلمان شہر مکہ کے مغرب [293] میں ٢٢کیلومیٹر دور حدیبیہ کے مقام[294] پر پہنچے۔ حدیبیہ میں ایک کنواں ا ور گاؤں تھا جو مکہ سے ایک منزل جبکہ مدینہ سے نومنزل کے فاصلے پر واقع[295] تھا۔

واقدی(متوفی٢٠٧ ہجری) کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ عسفان کے علاقہ میں قریش کے سوار خالد بن ولید کی سرکردگی میں مسلمانوں تک پہنچے رسول اللہ(ص) نے نیز مسلمانوں کے سوار گروہ کو ان کے سامنے کیا اور ناگزیر طور پر نماز عصر نماز خوف[296] کی شکل میں پڑھی۔ اسی طرح رات کے وقت مسلمان حدیبیہ تک پہنچ گئے، قریش کے سوار مسلمانوں کی اس پیش رفت سے غافل رہے۔

مسلمانوں کے حدیبیہ پہنچتے ہی قریش کے دوسرے سوار بھی بلدح[297] کے مقام پر ان سے آملے۔ یہ کہ مسلمان جنگ کے لئے نہیں آئے تھے لیکن تھوڑا سا بھی آگے بڑھتے تو مجبورا قریش سے جنگ کرنا پڑتی رسول اللہ (ص)کا رہوار بھی حدیبیہ سے آگے نہ بڑھا حضرت(ص) نے رہوار کے رکنےکوغیرعادی اورامرِالہی[298] قرار دیا۔

یہاں توجہ رہے کہ اس مقام پر مسلمانوں پر انتہائی سخت وقت آ پڑا تھا کیونکہ مسلمانوں کے پاس صرف ایک ایک تلوارتھی لہذا قریش سے ممکنہ جنگ کی صورت میں ان کے پاس کافی اسلحہ نہ تھا۔

حدیبیہ میں اور اس سے پہلے راستے میں پانی کی کمی تھی اس حوالے سے بھی مسلمان مشکل کا شکار تھے۔ البتہ رسول اللہ(ص) کے اعجاز کی بدولت مسلمانوں کے لئے کنویں کا پانی فراوان ہو گیا۔ اسی طرح بارانِ رحمت بھی برسنا شروع ہو گئی[299]، اس پر مستزاد، مسلمانوں کے کاروان میں منافقین تھے جو مسلسل اشارے کنائے یا صراحت کے ساتھ آپ (ص) کے اقدامات پر سرزنش کر رہے تھے[300]۔ ان دشواریوں کے باوجود مسلمان اپنے پہلے عمرہ کی ادائیگی یا دشمن سے جنگ کے لئے مصمم تھے مسلمانوں نے اپنے اس عزم کی پختگی کو بعد والے واقعات میں ظاہر کیا، اگر آپ(ص) جنگ سے پرہیز پر اصرار نہ فرماتے اور فریقین کے درمیان کوئی واسطہ نہ بنتا تو دور نہیں تھا کہ ہولناک جنگ چھڑ جاتی۔

               ٢۔صلح کے لئے حالات کی سازگاری

حدیبیہ میں ٹھہرنے کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے کافی حد تک صلح کے امکانات پیدا ہو گئے۔ دو امور نے صلح کے وقوع پذیر ہونے میں اہم کردار ادا کیا ایک منصفوں کی تھوڑی بہت جنگ کے نقصانات کے بارے گفتگو جبکہ دوسرا مسلمانوں کا اپنے مؤقف پر ثابت قدم رہنا، جان کی بازی تک لگانے کا پیمان(بیعت رضوان)۔ یہاں پر انہی دو امور کا تاریخی تر تیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے جائزہ لیا جائے گا۔

منصفی اور بات چیت[301]

١۔ بدیل بن ورقا [302]

وہ قبیلہ خزاعہ کے بزرگوں میں سے تھا اس قبیلہ کے دوسرے لوگوں کی طرح یہ بھی حضرت محمد مصطفی(ص) سے قلبی اور عاطفی لگاؤ رکھتا تھا۔ بدیل بن ورقا عسفان میں پیامبر اکرم (ص) کے پاس آیا اور اظہار کیا کہ وہ مسلمانوں کے اس سفر کے انجام کےبارے خوفزدہ ہے۔ البتہ یہاں منصفی کے متعلق کسی طرح کی بات نہ ہوئی بلکہ وہ حدیبیہ میں خزاعہ کے لوگوں کی ایک جماعت کے ساتھ پیامبر اکرم (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور یوں اظہار کیا: ”ہم آپکی قوم (قریش) کے یہاں سے آرہے ہیں انہوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ خدا کے گھر میں آپ(ص)کو داخل نہ ہونے دیں گے ۔ا س کے سوا کہ ان سب کو ہلاک کر دیں۔”

پیامبر اکرم(ص) نے جواب میں فرمایا : ”ہم کسی سے لڑنے کے لئے نہیں آئے ہیں بیشک ہم اس لئے آئے ہیں تاکہ اس گھر کا طواف کر سکیں۔ پس جو بھی ہمیں مزاحم ہو گا اس سے جنگ کریں گے۔ قریش ایسی قوم ہے جس کو جنگ نےنقصان پہنچایا ہے اور ان کو جنگ نے فرسودہ کر دیا ہے۔ اگر یہ لوگ چاہیں تو ایک مدت کا تعین کر لیں تاکہ اس مدت میں امن و امان سے رہ سکیں۔ قریش ایک بار پھر ہمیں سکون سے دوسرے لوگوں کے ساتھ رہنے دیں جو تعداد میں ان سے زیادہ ہیں، اگر میں ان پرغالب آیا تو قریش کو اختیار ہے کہ تمام لوگوں کے دین کو قبول کریں یا پھر ان کے خلاف جنگ ہو گی کہ اس صورت میں سب کی رائے ایک ہےخدا کی قسم! اپنے اس عمل کے لئے سردھڑ کی بازی لگا دوں گا یا خدا اپنے امر کے ساتھ اس معاملے کو انجام تک پہنچائے گا۔”

پھر بدیل ایک خزاعی جماعت کے ساتھ مکہ واپس چلا گیا۔ پہلے تو قریش نے چاہا کہ بدیل کی باتیں نہ سنی جائیں لیکن قبیلہ ثقیف کے رئیس عروہ بن مسعود نے ان کے اس کام پر تنقید کی اور ان کو خزاعی جماعت کی باتیں سننے پر مجبور کیا۔

سب کو معلوم ہو گیا کہ پیامبر اکرم(ص) طویل مدت کے لئے صلح چاہتے ہیں۔ عروہ بن مسعود ثقفی نے اس تجویز کا استقبال کرتے ہوئے قریش کے بزرگوں سے اظہار کیا کہ تمہارا بیٹا اور تمہارا خیرخواہ ہوں، مجھے محمد(ص) کے پاس بھیجو تاکہ تمہارے لئے خبر لا سکوں[303] ۔

٢۔ عروہ بن مسعود

وہ قبیلۂ ثقیف کا رئیس اور قریش کا ہم دست تھا، پیامبر اکرم(ص) کے پاس آیا اور بدیل بن ورقا کی باتوں کو دہرایا آپ(ص) نے نیز اس کو وہی جواب دیا جو بدیل کو دیا تھا البتہ اس نے مسلمانوں کے لئے اوباش کی تعبیر کے استعمال سے ان کی اہانت کی جس پر رسول اللہ ﷺکے بعض ساتھی بپھرگئے اور اسے مسلمانوں کے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا[304]۔اس نے قریش کے پاس پلٹ کر انہیں کہا: ”اس نے آج تک ایسے لوگ نہیں دیکھے جو اپنے رہبر کے اس طرح پیرو ہوں، محمد (ص) کے ساتھی ان کی طرف نظر بھر کر بھی نہیں دیکھتے، ان کی موجودگی میں اپنی آواز بلند نہیں کرتے۔کسی کام کے لئے کافی ہے کہ وہ صرف اشارہ کریں تو اسی لمحہ وہ کام کر دیا جاتا ہے۔

اس (ص)کے ساتھی انتظار میں رہتے ہیں کہ اس کے آب دہن کو تبرکا حاصل کریں۔ وہ (ص) جب بھی وضو کرتے ہیں، مسلمان وضو کے پانی کے گرنے والے قطرات کو حاصل کرنے کے لئے ٹوٹ پڑتے ہیں[305] ”

اس بیان کے بعد عروہ بن مسعود نے پیامبر اکرم(ص) کی صلح کی تجویز کے بارے قریش کو سفارش کی کہ اس تجویز کو قبول کر لیا جائے اور مسلمانوں کے خلاف جنگ سے پرہیز کیا جائے۔ اس دفعہ قریش نے تھوڑا نرمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سال مسلمانوں کو خانہ کعبہ میں نہیں آنے دیں گے البتہ اگلے سال آسکتے ہیں۔[306]

٣۔مکرز بن حفص بن الاخیف

یہ بھی قریش کی نمائندگی کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا۔ حضرت نے اسے دور سے پہچان کر فرمایا یہ شخص حیلے باز ہے[307] (١)۔ ایک بیان کے مطابق، حتی آپ (ص) نے اس سے بات کرنے سے بھی اجتناب فرمایا[308] (٢)۔ بہرحال کسی نتیجہ تک پہنچنے کے لئے یہ شخص بھی موثر ثابت نہ ہو سکا[309] ۔

٤۔جلیس بن علقمہ

وہ قبیلہ احابیش کا سربرہ اور قریش کا اتحادی تھا۔ اسے مسلمانوں کی طرف بھجوایا گیا تو رسول اللہ (ص) نے اسے دیکھتے ہی فرمایا: ”وہ ایسی قوم سے ہے جنہوں نے ”اھدی” قربانی کا احترام کیا، اس قوم کے لوگ خداپرست ہیں۔ قربانی کے اونٹوں کو آگے ہانکو تاکہ ان کو دیکھ سکے۔”

مسلمانوں نے اونٹوں کو آگے کی طرف ہانکا اور تلبیہ کہنے کے ساتھ جلیس کاا ستقبال کیا۔ وہ وہیں سے پلٹا اور قریش سے کہا: ”میں نے ایسے گروہ کو دیکھا ہے جس کو روکا نہیں جا سکتا۔ ایسے لوگ جو خدا کےگھرکے طواف کے لئے آمادہ ہیں۔” وہ قریش پر غضبناک ہوتے ہوئے اس طرح ان سے مخاطب ہوا:

”خدا کی قسم! ہم نے تمہارے ساتھ اس لئے معاہدہ نہیں کیا تھا کہ خدا کے گھر کے دروازے ایک ایسے گروہ پر بند کر دو جو اس گھر کی حرمت کا خیال رکھتاہے اور اس کا حق بھی ادا کرتا ہے۔”

اس کے بعد اس نے یہ دھمکی دی کہ وہ احابیش کے تمام افراد کے ساتھ الگ ہو جائے گا لیکن قریش نے اس سے کہا کہ یہ سب دھوکہ ہے جلدی نہ کرو اور کوئی چارہ جوئی کرنے دو[310] ۔

٥۔خراش بن امیہ

یہ پہلا شخص تھا جسے رسول اللہﷺ کی طرف سے پیام رسانی کے لئے قریش کی طرف بھیجا گیا۔ پیام اس طرح تھا: ”ہم چاہتے ہیں کہ عمرہ ادا کریں، اس کے بعد چلے جائیں ۔” لیکن قریش نے حضرت(ص) کے اونٹ کو مار دیا اور خراش کے ساتھ بھی ایسا ہی کرنے والے تھے کہ قبیلہ حابیہ نے اسے بچا لیا۔ خریش جان بچا کر واپس مسلمانوں کے پاس چلا آیا[311] ۔

٦۔عثمان بن عفان

رسول اللہ ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ حضرت عمربن خطاب کو مکہ بھیجیں لیکن انہوں نے کہا کہ انہیں قریش کے ہاتھوں قتل ہونے کا خوف ہےحضرت عمر نے کہا کہ مکہ میں بنی عدی میں سے ایسا کوئی نہیں ہے جو میری حمایت کرے۔ پھر حضرت عمر بن خطاب نے کہا اس کام کے لئے عثمان بہتر ہیں رسول اللہ ﷺ نے نیز حضرت عثمان کو مامور کیا کہ مکہ جائیں اور قریش تک یہ پیغام پہنچائیں کہ مسلمان جنگ کے لئے نہیں آئے فقط عمرہ کے قصد سے آئے ہیں۔ حضرت عثمان مکہ کی طرف روانہ ہوئے پہلے انہوں نے بلدح میں قریش سے بات چیت کی،اور پھر اپنے خاندان سے تعلق رکھنے والے آبان بن سعید بن عاص اموی کی امان حاصل کی۔ حضرت عثمان مکہ میں پہنچے اور بزرگانِ قریش میں سے ایک ایک سے بات چیت کی اور رسول اللہﷺ کے پیغام کو ان تک پہنچایا، لیکن مکہ میں حضرت عثمان کا توقف تین دن طول پکڑ گیا۔ اس دوران یہ افواہ پھیلا دی گئی کہ قریش نے حضرت عثمان کو قتل کر دیا ہے[312] ۔

یہ تاخیر کیوں ہوئی اس کی اصل وجہ کیا تھی؟۔ یہاں دو طرح کے قول ہیں: بعض بیانات کے مطابق یہ کہ حضرت عثمان ان تین دنوں میں زندان میں تھے[313] (۱)، دوسرا یہ کہ اپنے رشتہ داروں سے مل رہے تھے[314] (۲) جیسا کہ کچھ دوسرے مسلمان بھی رسول اللہ (ص) کی اجازت سے مکہ اپنے رشہ داروں کو ملنے آئے ہوئے تھے[315] ۔

اس بارے یہ اندازہ مسلم ہے کہ حضرت عثمان مکہ میں آبان بن سعید بن عاص کی پناہ میں تھے۔ اسی طرح خود حضرت عثمان کے قول کے مطابق حتی قریش نے انہیں اجازت دے دی تھی کہ وہ خانہ کعبہ کا طوف کریں لیکن انہوں نے اپنی مرضی سے ایسا نہیں کیا[316] تھا۔

پس یہ کہنا کہ اس مدت میں حضرت عثمان قید میں تھے، بعید از قیاس ہے۔ خصوصا یہ کہ اس مدت میں وہ قریش کے ایک ایک بزرگ سے ملے اور ان سے بات چیت کی یہاں تک کہ مدینہ کی طرف ہجرت نہ کر سکنے والے مسلمانوں سے بھی ملے[317] ۔

بیعت رضوان

حضرت عثمان کے قتل کی خبر، اسی طرح مکہ جانے والے بعض مسلمانوں کی اسیری اور پھر ان کے قتل کی خبریں اور قریش کا مسلمانوں پر شب خون مارنے کا دشمنی پر مبنی اقدام[318] ، یہ تمام امور حالات کی نزاکت اور سختی کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ یہی امور باعث بنے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے پیر و کاروں سے بیعت لیں۔ اس بیعت کو بیعت رضوان یا بیعت شجرہ کہتے ہیں۔ رضوان کا عنوان قرآن[319] سے لیا گیا ہے جبکہ شجرہ[320] اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ بیعت درخت کے نیچے لی گئی۔ مذکورہ درخت ”سمرہ” (مغیلان،اقاقیا) تھا۔

اس بیعت کی شقوں کے بارے تین طرح کے اقوال ہیں:

١۔اس چیز پر بیعت کہ ہرگز فرار نہیں کریں گے۔

٢۔یہ کہ خون کے آخری قطرے تک ڈٹے رہیں گے۔

٣۔ رسول اللہ ﷺ کے ہر فرمان کی پیروی کریں گے۔

پہلے دو بیانات کو ابن ہشام (متوفی٢١٣) نے روایت کیا ہے[321] جبکہ تیسرا بیان واقدی نے نقل کیا ہے۔ البتہ تیسرے بیان میں یہ اضافہ کیا ہے کہ سب سے پہلے بیعت کرنے والا سنان بن ابی سنان تھا۔ اس نے بیعت کرتے وقت کہا: ”میں اس پر بیعت کرتا ہوں کہ جو آپ(ص) کے ذہن میں ہے۔۔” پھر رسول اللہ (ص) نے دوسرے لوگوں سے بھی اسی طرح بیعت لی[322] ۔

شاید کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ تین بیان ایک ہی مفہوم کی نشاندہی کرتے ہیں۔ خصوصا یہ کہ کسی کے پاس بھی کوئی دلیل نہیں کہ رسول اللہ (ص) اپنی طرف سے کوئی مورد معین کریں، بہرحال اہم یہ ہے کہ مذکورہ بیعت قریش کے بعض بزرگوں منجملہ سہیل بن عمرو کی موجودگی میں ہوئی کہ یہ سب مسلمانوں کی پیامبر اکرم(ص) کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے شورواشتیاق سے خوفزدہ ہو گئے اور صلح کی طرف مائل ہو گئے[323]۔

٣۔صلح کی شق

جیسا کہ پہلے ذکر ہوا قریش کے لوگ صلح پر آمادہ ہو گئے تھے اس لئے انہوں نے اپنے تین بزرگوں سہیل بن عمرو، خویطب بن عبدلعزی اور مکرزبن حفض کو صلح کے لئے آپ (ص) کے پاس بھیجا۔

قریش کی اس جماعت کے سربراہ سہیل بن عمرو[324] نے پیامبر اکرم (ص) سے صراحتا کہا:”ہم میں سے   جو کوئی بھی آپ سے لڑے وہ عقلمند نہیں بلکہ نادان ہے ”۔ اسی طرح اس نے مزید کہا: ”ہم جنگ سے بیزار ہیں۔” پھر اس نے پیامبر اکرم   (ص)سے کہا کہ ان کے اسیروں کو رہا کیا جائے لیکن آپ (ص) نے اس کے اس مطالبے پر فرمایا:

”ان کو اس وقت تک آزاد نہیں کروں گا جب تک میرے ساتھیوں کو رہا نہیں کرو گے۔”[325]

اس بارے میں یاد رہے کہ بیعت رضوان سے پہلے قریش میں سے ایک گروہ مسلمانوں پر شب خون مارنے کے قصد سے آیا لیکن یہ گروہ پکڑا گیا۔ ان کے کچھ دوسرے ساتھی ان کو چھڑانے کے لئے آئے تو وہ بھی دھر لئے گئے۔ دوسری طرف وہ مسلمان جو پیامبر اکرم (ص) کی اجازت سے مکہ میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے گئے ہوئے تھے، ان کو مشرکین نے قید کر لیا[326]۔ بہرحال سہیل بن عمرو نے اپنے تقاضے کے مقابل پیامبر اکرم (ص) کے جواب اور مطالبے کو منصفانہ قرار دیتے ہوئے قاصد کو مکہ بھیجا تاکہ قریش کو گفتگو کے پہلے مرحلے کا نتیجہ بتائے اور انہیں کہے کہ پکڑے گئے مسلمانوں کو آزاد کر دیا جائے۔ اسی طرح انہوں نے قبول کیا اور اسیروں کا تبادلہ خوش اسلوبی سے اپنے انجام کو پہنچا[327]۔

پھر پیامبر اکرم (ص)کے یہاں سے قریش کے مذکورہ تینوں نمائندے بزرگان قریش کے پاس گئے تاکہ ان سے مشورت کر سکیں۔ یہ سب صلح کے لئے مکمل طور پر آمادہ تھے لیکن سہیل بن عمرو کو انہوں نے چند امور کا خیال رکھنے کی ہدایت کی۔

وہ امور درج ذیل تھے:

١۔اس سال محمد(ص) مکہ میں داخل نہ ہوں، مبادا عرب یہ کہیں کہ محمد(ص) اپنے زورِ بازو کے بل بوتے اور قریش کی مرضی کے بغیر مکہ میں داخل ہو گئے[328] (۵)۔

٢۔محمد(ص) اگلے سال مکہ آسکتے ہیں۔ تین روز رہ سکتے ہیں، اپنے اونٹوں کی قربانی کریں اور پھر اس کے بعد واپس لوٹ جائیں گے۔

٣۔ان تین دنوں میں مسلمان صرف سرزمین مکہ میں رہیں اور قریش کی منزل گاہوں میں داخل نہ ہوں[329]۔

صلح کو قبول کرنے کے لئے قریش کی یہ شرائط تھیں۔ سہیل بن عمرو دوبارہ پیامبر اکرم (ص) کے پاس آیا اور مذکورہ شرائط بیان کیں۔ اس بار گفتگو طول پکڑ گئی۔ بالآخر دونوں طرف سے مذکورہ شرائط پر (جن میں سے کچھ بعد میں بیان ہوں گی) اتفاق ہو گیا۔ اس صلح کا لکھنا باقی تھا کہ اس دوران حضرت عمربن خطاب نے تند لہجے میں رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:”کیا ہم مسلمان نہیں؟؟”

آپ(ص) نے فرمایا:”ہاں!”

حضرت عمر نے کہا:”تو پھر اپنے دین میں ذلت کیوں گواراکریں؟”

آپ(ص) نے فرمایا:”میں خدا کا رسول ہوں! اس کے حکم کی ہرگز مخالفت نہیں کرتا، خدا میری مدد کرے گا۔”

پھرحضرت عمر حضرت ابوبکر کے پاس گئے اور دونوں کے درمیان گفتگو ہوئی[330] ۔ حضرت عمر کے علاوہ دوسرے اصحاب کے لئے بھی اس طرح کی صلح کا قبول کرنا خوش آئند امر نہ تھا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے خواب کے بارے میں وہ یہ سمجھ رہے تھےکہ ا سی سال مکہ میں داخل ہوں گے(۱) لیکن اب اس صلح کے نتیجے میں انہیں حج کئے بغیر واپس جانا تھا۔ آٹھ ہجری میں رسول اللہ ﷺ کا خواب کاملا حق ثابت ہوا اور جس طرح آپ(ص) نے فرمایا تھا اسی طرح ہوا

جب پیامبراکرم (ص)نے کعبہ کی چابی کو اپنے دست مبارک میں لیا تو حضرت عمرکو بلایا اور ان سے فرمایا:”یہ وہ وعدہ تھا جومیں نے کیا تھا [331] ۔”

بہرحال فریقین کی طرف سے صلح کے موارد پر رضایت کے بعد اس کو لکھنا شروع کیا گیا۔ حضرت رسول خدا ﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کو صلح نامہ لکھنے پر مامور فرمایا[332] ۔ حضرت (ص) نے آپ سے فرمایا : ”لکھو! بسم اللہ الرحمن الرحیم!” لیکن سہیل بن عمرو نے سخت لہجے میں کہا: ”ہم رحمن کو نہیں جانتے۔[333]

ہمارے طریقے کے مطابق یہ لکھو!” بسمک اللھم”

سب مسلمان اس ماجرے کو دیکھ رہے تھے۔، سہیل کی اس بات پر آگ بگولا ہو گئے اور ضد کی کہ رحمن خدا کا نام ہے اور رسول اللہ(ص) کے فرمان کےمطابق ضرور لکھا جائے لیکن سہیل نےدھمکی دی کہ اس صورت میں صلح نہیں کرے گا۔ رسول اللہﷺ نے درگزر کیااور فرمایا ”لکھو بسمک اللھم” پھر فرمایا: ”لکھو! اس صلح میں محمدالرسول اللہ کی مرضی شامل ہے..” لیکن پھر سہیل نے حضرت رسول اللہﷺ کی بات کاٹتے ہوئے کہا:”اگر جانتا ہوتا کہ خدا کے رسول ہو تو مخالفت نہ کرتا۔” اس نے ضد کی کہ محمدالرسول اللہ کی بجائے محمدبن عبداللہ لکھا جائے۔

اس بار مسلمانوں کے شدیدنالوں کی صدائیں بلند ہوئیں۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ نہیں لکھیں گے۔ مگر آپ(ص) نے ایک بار پھر مسلمانوں کو امن کی تلقین کی اور ان سے فرمایا:”میں محمد بن عبداللہ ہوں۔” اسی طرح قریش کے نمائندوں سے کہا:”میں خدا کا رسول ہوں، اگرچہ تم قبول نہیں کرتے۔” پھر حضرت علی ؑ سےفرمایا:”لکھو! بسمک اللھم، اس صلح پر محمدبن عبداللہ اور سہیل بن عمرو راضی ہیں .. [334] ”

یہاں پر حضرت علی ؑ نے پاسِ ادب سے عرض کیاکہ میں یہ نہیں کر سکتا کہ ”رسول اللہ” کے وصف کو مٹا دوں، خود آپ(ص) نے ایسا کیا[335]۔ پھر پیمان کو مکمل کیا گیا جو درج ذیل ہے:

               صلح نامۂ حدیبیہ

بسمک اللھم، اس صلح میں محمد بن عبداللہ (اور قریش کے بزرگان[336]) اور سہیل بن عمرو درج ذیل امور پر متفق ہیں۔

١۔دس سال کی مدت کے لئے دونوں کے درمیان جنگ نہیں ہو گی[337] ۔ لوگ امن و امان سے رہیں گے اور دشمنی سے ہاتھ اٹھا لیں گے۔

٢۔طرفین میں سے کوئی ایک بھی دوسرے کو قتل کرے گا اور نہ خیانت [338] اور نہ گزشتہ دشمنیوں کا مواخذہ کرے گا اور سب دھوکے سے باز رہیں گے۔[339]

٣۔ تمام قبائل قریش یا محمد(ص) کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لئے آزاد ہیں۔

٤۔اگر قریش میں سے کوئی شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیرمحمد(ص) کی طرف چلا جائے تو اس شخص کو واپس کر دیا جائے گا، لیکن اگر کوئی شخص محمد(ص) کی طرف سے قریش کی طرف آ جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔

٥۔محمد(ص) اور ان کے اصحاب اس سال مدینہ واپس چلے جائیں اورآئندہ سال مکہ آئیں۔ تین دن تک مکہ میں رہیں۔ مسافر کے اسلحے کے علاوہ کوئی دوسرا اسلحہ ساتھ لانے سے اجتناب کریں۔ مسافر کا اسلحہ غلاف میں لپٹی ہوئی تلوار ہے[340] ۔

مسلمان گواہوں میں ابوبکر، عمر، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، عثمان، ابوعبیدہ ابن جراح، محمد بن سلمی[341] اور علی ابن ابیطالب علیہ السلام، جو اس صلح کے کاتب بھی تھے، شامل تھے[342] ۔ مشرکین کے گواہ حویطب بن عبدالعزی اور مکرز بن حفص[343] تھے۔ جب صلح نامہ کا متن لکھا جا چکا تو سہیل بن عمرو نے کہا کہ صلح نامہ میرے پاس رہے گا، لیکن رسول اللہ ﷺ نےمخالفت کی اور فرمایا کہ صحیفہ میرے پاس رہے گا۔ آخرکار ایک نسخہ اور لکھا گیا جسے سہیل بن عمرو کے سپرد کیا گیا[344] ۔ اسی طرح بعض تاریخی منابع میں مذکورہ پانچ چیزوں کے علاوہ دوسری چیزیں بھی ذکر ہوئی ہیں:

ا۔مکہ میں اسلام آشکار و آزاد ہوگا، کسی پر بھی اس کے دین کے معاملے میں سختی نہ کی جائے اور نہ ہی اسے اس سے متعلق سرزنش کی جائے[345] اور نہ اسے آزار پہنچایا جائے۔

ب۔جب بھی محمد(ص) کے اصحاب میں سے کوئی حج یا عمرہ یا کسب معاش کے لئے مکہ آئے تو اس کی جان ومال امان میں ہوں[346]۔

ج۔آئندہ سال مکہ پیامبر اکرم ﷺ اور ان کے اصحاب کے لئے تین دن کے لئے خالی کر دیا جائے جبکہ ان تین دنوں میں تمام قریش مکہ سے باہر چلے جائیں جبکہ محمد(ص) اور ان کے ساتھیوں کی ہمراہی کے لئے صرف ایک شخص کو چھوڑ جائیں[347] ۔

د۔ان تین دنوں میں اہل مکہ میں سے جو بھی چاہے محمد(ص) کی ہمراہی کرے لیکن مکہ سے باہر نہ نکلے[348] اسی طرح محمد(ص) کے اصحاب میں سے جو بھی چاہے مکہ میں رہ سکتا ہے، اسے روکا نہیں جائے گا[349] ۔ اس بناء پر مذکوہ صلح ٩ نکات پر مشتمل تھی۔

اس کے بعد اس کی تحقیق کی جائے گی۔ لیکن اس سے پہلے توجہ کی ضرورت ہے جیسا کہ صلح نامہ کے تیسرے نکتے کی بنیاد پر عرب کے خاندان مجاز تھے کہ دونوں میں سے کسی کے بھی ساتھ مل جائیں۔

یہی اختیار استعمال کرتے ہوئے قبیلہ خزاعہ نے جلدی سے حضرت محمد مصطفی (ص)سے اپنے الحاق کا اعلان کر دیا۔ دوسری طرف کنانہ کے خاندانوں میں سے بنی بکر قریش کے ساتھ ملحق ہو گئے[350] ۔ صلح کے تمام امور کی انجام دہی کے بعد جب قریش کے لوگ حدیبیہ سے چلے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا:

”اٹھو اور اسی جگہ اونٹ قربان کرو اور اپنے سروں کو منڈواؤ!”تاکہ اس کے بعد حدیبیہ سے واپس مدینہ چلیں لیکن حج و عمرہ کی ادائیگی کے بغیر۔ عام مسلمانوں کے لئے یہ واپسی بہت سخت اور ناگوار تھی۔ اسی ناگواری کی وجہ سے انہوں نے حضرت(ص) کے حکم پر لبیک نہ کہا اور اپنی جگہوں پر بیٹھے رہے۔ آپ(ص) نے دوبارہ اپنے حکم کو دہرایا لیکن پھر بھی کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

تیسری بار بھی لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم کی پرواہ نہ کی، آپ(ص) ناراضگی اور پریشانی کے عالم میں اپنی زوجہ حضرت ام سلمیؑ، جو اس سفر میں آپ (ص)کے ساتھ تھیں، کے پاس تشریف لائے۔ حضرت ام سلمی(س) نے عرض کیا:”آپ خود اپنے اونٹوں کی قربانی کریں! لوگ آپ(ص) کو دیکھ کر آپ کی پیروی کریں گے۔”

آپ (ص) نے ایسا ہی کیا۔ لوگوں نے آپ کی قربانی کرنے میں پیروی کی[351] ۔ اسی طرح کچھ اصحاب نے آپ کی طرح سر بھی منڈوائے اور آپ نے ان کے لیے دعائےمغفرت بھی   کی[352] (۳)۔ پھر مسلمانوں نے مدینہ کی راہ لی۔ راستے میں قرآن کریم کی سورہ ”فتح”، فتح کی بشارت کے ساتھ پیغمبر اکرم ﷺ پر نازل ہوئی، جس سے آپ بہت خوش ہوئے[353]۔

               صلح کی شرائط کا جائزہ

اس سے پہلے ذکر ہوا کہ صلح نامہ کے بعض نکات نے مسلمانوں کو کافی حد تک آزردہ خاطرکیا۔ ان کے گمان کے مطابق اس طرح کی صلح دشمن کو باج دینے کے مترادف تھی۔ اس لئے مسلمانوں نے آپ(ص)سے تقاضا کیا کہ مذکورہ نکات پر راضی نہ ہوں۔حتی کہ جب صلح ہو چکی تو اس وقت بھی مسلمان کہہ رہے تھے کہ اس صلح کا انکار کر دیا جائے[354] ۔

چوتھے نکتے کی بناء پر مسلمان مکہ سے آنے والے شخص کو پناہ نہیں دے سکتے تھے بلکہ ان پر لازم تھا کہ اسے واپس مکہ بھیج دیں۔لیکن اس کے برعکس قریش کو یہ اجازت تھی کہ اگر کوئی مسلمان مدینہ سے مکہ چلا جائے تو اسے پناہ دیں اور اس کو واپس نہ کریں۔ یاد رہے کہ صلح کے لکھے جانے سے پہلے اور زبانی اتفاق کے بعد سہیل بن عمرو کا مسلمان بیٹا ابوجندل مخفی طور پر کسی زریعے سے مسلمانوں تک پہنچا۔ جب قریش کے نمائندے، یعنی سہیل بن عمرو نے اپنے بیٹے کو دیکھا تو اس بات پر اڑ گیا کہ ابوجندل کو واپس مکہ بھجوایا جائے اور کہا: ”اگر ایسا نہیں کرو گے تو ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی صلح نہیں ہو سکتی۔” رسول اللہ ﷺ نے قبول فرمایا کہ ابوجندل کو واپس بھجوایا جائے۔ آپ(ص) نے ابوجندل سے فرمایا:”بردباری اختیار کرو ! خدا تمہارے اور دوسرے لوگوں کے لئےکوئی راہ نکالے گا۔”

اس وقت حضرت عمربن خطاب اور کچھ دوسرے اصحاب نے بغیر کسی پرواہ کے، تند لہجے میں رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:”اے رسول خدا! کیا تم نے نہیں کہا تھا کہ جلد مسجد حرام میں داخل ہو گے؟ نہ ہماری قربانیاں کعبہ پہنچیں اور نہ ہم خود مکہ پہنچ سکے۔”

پیغمبراکرمﷺ نے از روئے انکا ر ان سے پوچھا:”کیا میں نے تم سے کہا تھا کہ اسی سفر میں کعبہ میں داخل ہوں گے؟” پیغمبراکرم (ص) نے مسلمانوں کی شدید مخالفت کے باوجود فرمایا:”تم نے میری اطاعت کا وعدہ کیا ہے اپنے اس وعدے کے پابند رہو”[355] ۔

پھر قریش کے دو افراد حویطب بن عبدالعزی اور مکرز بن حفص کی طرف سے ابوجندل کو پناہ دینے [356] کے بعد ابوجندل کو سہیل کے حوالے کیا گیا۔ اسی طرح اس کے بعد جب صلح نامہ لکھا جا رہا تھا اور مذکورہ نکات کے لکھے جانے کی نوبت آئی تو مسلمانوں نے ازروئے تردید و انکاررسول اللہ ﷺسے پوچھا کہ کیا اس کو لکھیں؟ آپ(ص) نے جواب میں فرمایا:”ہاں! جو بھی ہماری طرف سے قریش کی طرف جائیگا، خدا اسے دور کرے[357] اور جو بھی ان کی طرف سے ہماری طرف آئے، ہم اس کو واپس کریں گے، خدا اس کے لئے جلد ہی گشائش قرار دے گا[358]۔”اس کے علاوہ جس نکتے پر اعتراض ہوا، وہ پانچواں نکتہ تھا۔ اس کے مطابق مسلمانوں کو اس سال مکہ میں داخل ہوئے بغیر لوٹنا تھا اور اس سفر کی دشواریوں کے باوجود حج اور عمرہ سے بھی محروم رہنا تھا۔

مسلمانوں کے لئے یہ شک زور پکڑ گیا تھا کہ کیا رسول اللہ (ص) نے خواب نہیں دیکھا تھا؟ رسول اللہ ﷺ نے اس تردید کے جواب میں فرمایا کہ کیا میں نے تمہیں کہا تھا کہ اسی سال اور اسی سفر میں حج کریں گے؟ پیغمبر اکرم (ص) نے مسلمانوں کو نوید دی تھی کہ عنقریب مکہ میں داخل ہوں گے۔

اسی طرح ٧ ہجری میں عمرة القضاء بھی مسلمانوں کو یاد دلایا۔ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو یاد دلایا کہ یہ میرے وعدے تھے جو عیناً پورے ہوئے[359] ۔ البتہ قریش کا بنیادی ترین مطالبہ یہی پانچواں نکتہ ہی تھا، کیونکہ قریش سوچ رہے تھے کہ مسلمان اگر اسی سال(٦ہجری) مکہ میں داخل ہو گئے تو قریش کا رعب و دبدبہ ختم ہو جائے گا۔ کیونکہ اس صورت میں عرب میں زبان زد عام و خاص ہو جاتا کہ مسلمان طاقت کے بل بوتے مکہ میں داخل ہو گئے[360] ۔ اسی لئے جب قریش صلح نامے کے نکات سے آگاہ ہوئے تو بہت خوش ہوئے۔ اگرچہ صلح نامہ کو تحریر کرتے ہوئے قریش کے نمائندے سہیل بن عمرو نے ”بسم اللہ الرحمن الرحیم” کو نہ لکھنے اور ابوجندل کو واپس بھجوانے پر کافی اصرار کیا لیکن اسی دوران مذکورہ نمائندے نے اپنے ہمراہیوں کے کان میں کہا کہ ایسی بات جو معاہدہ کے ٹوٹنے کا سبب بنے، زبان پر نہ لاؤ[361]۔

اسی طرح قریش کے نمائندے یہ دیکھتے ہوئے کہ کہیں سہیل کی سختی اور ضد صلح کی راہ میں رکاوٹ نہ بن جائے، ابوجندل کو پناہ دینے پر آمادہ ہو گئے[362]۔ اس سارے معاملے کے باوجود اس امر میں کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ صلح رسول اللہ (ص)کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل تھی۔

واضح سی بات ہے کہ صلح نامے کے پہلے تین نکات پیغمبراکرم (ص) کے درج ذیل اہداف تک رسائی کے لئے نہایت اہم تھے:

١۔دس سال تک کے لئے دشمنی اور جنگ سے نجات،

٢۔حفظ ِجان و مال،

٣۔دونوں طرف سے پیمان کو معتبر مانا جانا۔[363]

پانچویں نکتے کی بناء پر پیغمبراکرم(ص) اور عام مسلمانوں کی زیارت کعبہ سےسالہا سال کی محرومیت کے بعد یہ موقع ملا کہ آئندہ سال وہ مکہ میں خدا کے گھر کی زیارت کر سکیں[364] ۔ البتہ جیسا کہ پہلے بھی گزرچکا ہے کہ پیغمبراکرم (ص) نے اس نکتے کو ایسے حالات میں قبول فرمایا کہ جب انہیں مسلمانوں کی سخت مخالفت کا سامنا تھا۔ مسلمان بضد تھے کہ اسی سال مکہ جائیں۔ درحقیقت اس صلح کا اصل فائدہ کیا تھا؟ اس سوال کے جواب کے لئے یاد رہے کہ رسول اللہﷺ نے اس ماجرے کے آغاز میں ہی صلح کی تجویز کو اپنے کلام میں ظاہر کر دیا کہ آپ (ص) کو عرب کی دوسری قوموں کی طرح آسودگی سے رہنے دیں[365]۔ حضرت (ص) کا اس طرح فرمانا اس بات کی دلیل تھا کہ آپ(ص) چاہتے تھے کہ قریش آئندہ حریف کے طور پر سامنے نہ رہیں۔

بلاشبہ اگر یہ مقصد پورا ہو جاتا تو اسلام کی وسعت میں تیزی آ جاتی، اگرچہ صراحتاً صلح کے کسی ایک بھی نکتے میں مذکورہ ہدف ذکر نہیں ہوا تھا لیکن پہلے دو نکات میں دشمنی اور خیانت کی نفی اور اسی طرح تیسرے نکتہ کے مطابق ایک دوسرے کی بخشش مذکورہ مقصد کے حصول کے لئے اہم عامل تھے جیسا کہ اس صلح نامہ کی بدولت خزاعہ نے مسلمانوں کے ساتھ اپنے الحاق کا اعلان کیا[366] ۔ اسی طرح پہلے دو نکات (منجملہ اس متن کے جو بعض منابع میں ذکر ہوا ہے) کی بنیاد پر مسلمانوں نے انتہائی اہم درج ذیل مقاصد حاصل کئے:

ا۔مکہ میں آزادیٔ اسلام

ب۔ایک دوسرے کے شہروں میں آمدورفت کی اجازت[367]۔

اس صلح کی بدولت مدینہ اور مکہ کے اردگرد کے لوگوں کو یہ موقع میسر آیا کہ وہ بغیر کسی خطرے کے ایک دوسرے کے شہر وںمیں آجاسکیں۔ بیشک مسلمانوں کے لئے یہ سنہری موقع تھا کہ مشرکین کی سازشوں سے آگاہ ہو سکیں اور اسلام کی قبولیت کے لئے راہ ہموار ہو سکے۔[368]

اسی طرح یاد رہے کہ اس صلح کی شق کے مطابق وہ ستم دیدہ مسلمان جو مکہ میں تھے ان کو مدینہ جانے کی اجازت نہیں تھی لیکن انہیں مکہ میں اپنے دین، اسلام پر عمل کرنے کی مکمل آزادی تھی۔ یہاں پر ممکن ہے کہ محدود منابع میں ذکر ہونے والا صلح نامے کا مذکورہ نکتہ مورد تنقید قرار پائے لیکن اس کے باوجود یہ بات بالکل واضح ہے کہ مذکورہ صلح نامہ اس طرح کے نکات پر مشتمل تھا کہ جو رسول اللہ (ص)کے اہداف کی تکمیل کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھے۔ اس لئے ہی تو آپ نے انتہائی بردباری سے کام لیتے ہوئے صلح کو اپنے انجام تک پہنچایا۔

               ٤۔صلح کے نتائج و ثمرات

اس سے پہلے صلح نامہ کے مواد کی تحقیق میں طرفین کے اہداف کا ذکر ہوا۔ یہ بھی ذکر ہوا کہ صلح کاکچھ متن قریش کے مطالبات پر مشتمل تھا اسی وجہ سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ناراض تھی۔ مسلمان اپنی ناراضگی کا اظہار ایسے حالات میں کر رہے تھے کہ جب رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم ان کو اچھے دنوں کی نوید دے رہے تھے۔ بیشک اس صلح کے زریعے مکہ اور مدینہ کے مکینوں کو موقع ملا کہ وہ اپنی تجارت اور اقتصاد کو رونق بخشیں۔ یہ امر قریش کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔

اس لئے کہ قریش کے زیادہ تر لوگ تجارت سے منسلک تھے اب صلح کے بعد مکہ اور مدینہ کا راستہ کھل گیا اور مدینہ میں مسلمانوں سے ممکنہ خطرات ٹل گئے ۔ قریش نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے تجارتی قافلے کو ”غزہ” اور ”شام” کی طرف روانہ کیا۔[369]

جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا رسول اللہ ﷺ کا اس صلح میں اصلی ہدف اسلام کو دوسری اقوام تک پہنچانا تھا۔ مذکورہ صلح اس مقصد کے حصول کے لئے معاون ثابت ہو رہی تھی۔ اسی لئے ہی تو حضرت (ص) صلح پر تاکید فرما رہے تھے۔ مذکورہ ہدف کس طرح پورا ہوا؟ یہ سوال ہمیں صلح کے نتائج، ثمرات کے تجزیہ کی طرف دعوت دیتا ہے۔کتاب کے اس حصے میں اس صلح کے نتائج، ثمرات ، پیغامات اور اس صلح کے بعد کے حوادث کا جائزہ لیا جائے گا۔

یاد رہے کہ حدیبیہ سے واپسی پر رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم پر سورۂ فتح نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کو آشکار فتح کی بشارت دی گئی۔ تمام تفسیری تحقیقات کے ساتھ ساتھ تمام تاریخی منابع میں فتح آشکار کا مصداق صلح حدیبیہ ہی ہے[370] ۔ اس فتح کے بارے صحابہ میں سے بعض نے انتہائی اعتراض آمیز لہجے میں کہا:”یہ فتح نہیں ہے!!

کیونکہ ہمیں قریش نے خدا کے گھر میں داخل نہیں ہونے دیا۔” لیکن رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم نے اس بات کو غلط قرار دیا اور ان کی نفی میں فرمایا:”یہ صلح بہت بڑی فتح ہے۔”[371]

               الف۔صلح کے نتائج و ثمرات

١۔مشرکین کی طرف سے رسمی طور پر اسلامی حکومت کو تسلیم کر لینا

اس صلح سے پہلے قریش رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم اور اسلام کا نام بھی سننا گوارا نہ کرتے تھے، قریش نے تو اسلامی حکومت کی بنیاد کو ختم کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی، جیسا کہ کئی بار مدینہ کی طرف لشکرکشی کی۔ مشرکین کا مسلمانوں سے دشمنی کا یہ سخت رویہ دوسرے مشرک قبیلوں کی اسلام دشمنی کے لئے ہمت بڑھانے کا سبب بنا۔ لیکن اس صلح کے بعد مشرکین مکہ کی طرف سے مدینہ کی اسلامی حکومت تسلیم کر لی گئی۔ قریش نے تسلیم کیا کہ وہ اب مدینہ سے خیانت نہیں کریں گےحتی اس کے بعدمسلمانوں کے مدینہ کے کسی تیسرے ثالث سے کئے گئے معاہدے بھی مشرکین کے لئے معتبر ہوں گے۔

٢۔مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ اور فتح مکہ کے لئے حالات کی سازگاری

اس صلح کے بعد اب جنگ لوگوں کی ایک دوسرے سے گفتگو میں مانع نہیں تھی۔[372] مسلمان اور مشرک آپس میں گھل مل گئے اور اسلام کے بارے گفتگو کو رواج حاصل ہوا۔ اسی لئے تو بہت سوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ابن شھاب زہری(متوفی ٥١، ١٢٤) کی تعبیر کے مطابق کوئی ایسا نہیں تھا جو عقل و شعور کا مالک ہو اور اس سے اسلام کے بارے بات کی گئی ہو تو اس نے اسلام قبول نہ کیا ہو۔[373]   اس لیے ، صلح کے بعد صرف دوسال کی مدت میں مسلمانوں کی تعداد میں اتنا اضافہ ہوا کہ چھ ہجری میں رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم صرف ١٤٠٠ مسلمانوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے لیکن سن آٹھ ہجری میں آپ(ص) کے ہمراہیوں کی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی۔[374]

اس مدت میں اسلام مکہ میں اسی تیزی سے پھیلنے لگا ۔ حضرت امام جعفرالصادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق نزدیک تھا کہ اسلام مکہ پر کاملا تسلط پیدا کر لے[375] کیونکہ اس صلح کی بناء پر لوگ ایک سے دوسرے شہر میں آنے جانے کے لئے آزاد تھے۔ یہی چیز لوگوں کی اسلام سے آشنائی کا سبب بنی جیسا کہ قریش کے بزرگان خالد بن ولید اور عمربن عاص نے بھی اسلام قبول کر لیا[376] ۔

اسی لئے ایک طرف مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ، دوسری جانب اہل مکہ کا اسلام کی طرف راغب ہونا اس بات کا باعث بنا کہ قریش صلح کے صرف دو سال بعد اس معاہدے کو توڑ دیں [377] یہی چیز باعث بنی کہ رسول اللہ ﷺ مکہ کو فتح کریں ، یہ صلح حدیبیہ کا بہت بڑا نتیجہ تھا، بیشک یہی صلح فتح مکہ کا سبب بنی۔[378]

۳۔تبلیغی، سیاسی اور فوجی حوالے سے رسول اللہ ﷺ کی فعالیت میں اضافہ

صلح حدیبیہ سے پہلے رسول خداﷺکے مختلف ا قدامات کی راہ میں قریش کی دشمنی رکاوٹ تھی۔ اسی لئے رسول اللہ (ص) ہر قدم انتہائی احتیاط سے اٹھاتے تھے، صلح حدیبیہ کے بعد قریش کی دشمنی کی رکاوٹ بھی ختم ہو گئی اور آپ ﷺ کی فعالیت میں اضافہ ہوا آپ(ص) نے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ دوسرے علاقوں کے بادشاہوں اور امیروں کی طرف سفیروں کو بھیج کر ان کو اسلام کی دعوت دی اسی طرح آپ (ص) نے اپنی دعوت کا عالمی پیمانے پر آغاز کیا[379] ۔

اس صلح کے بعد کے اہم اقدامات میں رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم نے یہودیوں کی حجاز میں آخری پناہ گاہ خیبر کو بھی ختم کر دیا[380] ۔ اس کے بعد آپ(ص) نے چند سریوں میں یثرب کے بدؤوں کو اسلام کی دعوت دی اس پر مستزاد یہ کہ بالقوہ (اور کبھی بالفعل) خطرے کو بھی یثرب سے ختم کر دیا۔ قابل ذکر ہے کہ یہ سریے اس قاطعانہ انداز میں لڑے گئے کہ "آمن” کا علاقہ نئی اسلامی حکومت کا حصہ بنا[381]۔

٤۔حج کی ادائیگی کے زریعےعربوں کی ہمدردی کا حصول

مسلمانوں کے لشکر کی حدیبیہ کی طرف حرکت اور وہاں پر خطرات کا سامنا اور پھر صلح کا ہو جانا اور مسلمانوں کواگلے سال حج کی اجازت ملنا یہ سب اس بات کی دلیل تھا کہ مسلمان حج کے لئے تیار ہوں اور کعبہ کا احترام بجا لائیں بیشک عربوں کی ان امور سے آگاہی ان کو مسلمانوں کی طرف مائل کر سکتی تھی کیونکہ حج کے فریضہ کی ادائیگی اور کعبہ کا احترام بہت پہلے سے عربوں میں رائج تھا۔[382] اسی لئے مسلمانوں کی حج کی ادائیگی عربوں کے دلوں کو مسلمانوں کے دلوں کے ساتھ جوڑ رہی تھی۔

               ب۔صلح کے بعد کے واقعات

یہاں پر صلح نامہ کے متن سے مربوط صلح کے بعد جو واقعات رونما ہوئے ان کا جائزہ لیا جاتا ہے:

١۔پناہ کے خواہشمندوں کی واپسی

جیسا کہ پہلے بھی گزرا کہ صلح کے معاہدے کی چوتھی شق کی بناء پر جب بھی کوئی مسلمان اپنے ولی کی اجازت کے بغیر مکہ سے مدینہ جائے، ہرصورت وہ شخص مشرکین کو واپس کیا جانا چاہئیے تھا یہی شرط بہت سے مسلمانوں کی ناراضگی کا سبب بھی بنی تھی، خصوصا یہ کہ صلح کی دستاویز تیار کرنے کے وقت ، اسی شرط سے استناد کے زریعے سہیل بن عمرو کے بیٹے ابوجندل کو مشرکین کو واپس کر دیا گیا؛ لیکن زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ معاہدہ کے اس حصہ نے مشرکین مکہ کو اس طرح سرنگوں کیا کہ وہ رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کو یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ صلح کےمعاہدے کی اس شق کو ختم کر دیا جائے۔ اس بات کا ابو بصیر نامی مسلمان کی واپسی سے گہرا تعلق ہے۔ ابوبصیر قریش کے خاندانوں میں سے ایک خاندان ذہرہ کا حلیف تھا[383] اور مکہ میں زندان میں تھا[384] وہ کوشش کر کے فرار ہوا اور مدینہ پہنچ گیا، مشرکین کے دو سرداروں نے رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم سے ابوبصیر کی واپسی کا مطالبہ کیا،خط لے کر آنے والے دو جہرمی ابوبصیر کو واپس مکہ لے جانے پر مامور تھے[385]۔ رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم نے بلاچون و چرا مشرکین کا مطالبہ، جو صلح کے معاہدہ کے عین مطابق تھا، قبول فرمایا اور ابوبصیر کو حکم دیا کہ ان دو افراد کے ساتھ واپس چلا جائے۔

رسول اللہ ﷺ نے ابوبصیر کی پناہ طلبی کے بارے میں اس طرح فرمایا:”ہم نے اس قوم سے شرط کی ہوئی ہے جس سے تم بھی آگاہ ہو۔ ہمارے لئے بہتر نہیں ہے کہ معاہدے کو توڑ دیں۔ خداوند تمہارے اور دیگر مسلمانوں کے لئے گشائش قرار دے گا[386]۔” مختصر یہ کہ ابوبصیر ان دو افراد کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوا لیکن راستے میں ذوالحلیفہ (مدینہ سے چھ یا سات میل دور) کے ایک مقام پر ابوبصیر نے فریب سے ایک شخص کی تلوار چھین کر اسے قتل کر دیا جبکہ دوسرا مدینہ کی طرف بھاگا، ابوبصیر بھی اس کا پیچھا کرتا مدینہ آیا۔ یہاں پر ابوبصیر نے رسول اللہ ﷺ سے کہا:”اے رسول اللہ! آپ(ص) نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور مجھے ان کے حوالے کر دیا۔۔۔”

لیکن آپﷺنے اسے کہا کہ کسی اور مقام پر چلے جاؤ۔ وہ عیص نامی ایک علاقے میں چلا گیا، یہ جگہ شام کی طرف دریائے سرخ کے ساحل پر قریش کے تجارتی قافلے کی گزرگاہ پرواقع تھی[387] ۔ اس واقعہ کے کچھ عرصے بعد ایسے ستمدیدہ مسلمان جو مکہ میں اسیر تھے ابوبصیر کے ٹھکانے سے آگاہ ہوئے۔ اس ٹھکانے نے اس گروہ کے افراد کے لئے امید کی کرن پیدا کر دی کیونکہ انہوں نے سن رکھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبصیر سے فرمایا تھا کہ اگر لوگ ان کے گرد اکٹھے ہو جائیں تو جنگ کریں گے[388]۔ اس طرح ان لوگوں کی تعداد ستر یا ایک بیان کے مطابق تین سو تک پہنچ گئی[389] ۔ یہ لوگ اس کے بعد قریش کے شام کی طرف جانے والے قافلوں پر حملے کرنے لگے۔ اس گروہ نے قریش کے لئے یہ راستہ انتہائی مشکل بنا دیا تھا[390] ۔ قریش کے سرداروں کو جب کوئی چارہ نظر نہ آیا تو آپ کی طرف خط بھیج کر عاجزانہ طور پر درخواست کی کہ آپ(ص) مذکورہ گروہ کو مدینہ میں پناہ دے دیں۔ اس خط میں قریش نے واضح کیا کہ اب انہیں ان لوگوں کی ضرورت نہیں ہے آپ(ص) نے ان کے مطالبے کو پورا کیا[391] ۔ اس طرح صلح کی یہ شق جو بظاہر مشرکین کے فائدے میں تھی ان کے نقصان پر منتج ہوئی، اور ان کے اپنے اصرار کی وجہ سے ختم ہوئی اگرچہ صلح نامہ کی مذکورہ شق کے کب تک معتبر رہنے کے بارے تاریخی منابع میں کوئی وضاحت موجود نہیں ہے لیکن پھر بھی یہاں تک تو واضح ہے کہ ابوبصیر کا فرارصلح کے تھوڑی دیر بعد اور رسول اللہ کی حدیبیہ سے واپسی کے بعد وقوع پذیرہوا[392]۔

ا صلح کے وقوع پذیر ہونے کے وقت سے آپ(ص) صلح کی اس شق کو فقط مردوں کے متعلق قابل عمل سمجھتے تھے(حکم الہی سے استناد کرتے ہوئے[393]) اور وہ مسلمان عورتیں جو مکہ سے مدینہ آتیں تو ان کو واپس نہ کرتے تھے۔[394]

٢۔عمرة القضا

ذی قعدہ سات ہجری میں رسول اللہﷺ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ پچھلے سال کے عمرہ کی قضا کے لئے مکہ جائیں، آپ (ص) نے تاکید فرمائی کہ حدیبیہ میں جانے والے افراد میں سے کوئی ایک بھی اس سفر سے پہلوتہی نہ کرے۔ خیبر کے شہداء کے[395] علاوہ تمام افراد مکہ کے سفر کے لئے روانہ ہوئے۔ صلح حدیبیہ کی پانچویں شق کی بناء پر رسول اللہ (ص) دوہزار مسلمانوں کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے لئے مکہ کی طرف روانہ ہوئے،صلح نامہ کے مطابق مسلمانوں کو یہ حق حاصل نہ تھا کہ مسافر کے اسلحے کے علاوہ دوسرا اسلحہ ساتھ لیں۔ لیکن اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ مسلمان آلات جنگی (مثلا زرہ، کلاہخورد(خود)، نیزہ وغیرہ)اپنے ساتھ لے کر آئیں۔

آپﷺ نے اس بارے فرمایا:

”ہم اسلحہ کو حرم میں لے کر نہیں جائیں گے بلکہ اس کو حرم سے باہر اپنے قریب رکھیں گے تاکہ اگر دشمن ہم پر حملہ کرے تو ہم اپنی حفاظت کے لئے اس اسلحہ کو استعمال کرسکیں۔[396] ”

رسول اللہﷺ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ حرم سے باہر بطن یاحج نامی علاقے میں جنگی ہتھیاروں کو رکھیں، پھر صلحنامہ کے مطابق غلاف میں لپٹی تلوار یں اپنے ہمراہ لیں اور حرم میں داخل ہوں[397] ،لیکن مذکورہ جگہ پر اسلحہ کی حفاظت کے لئے ٢٠٠ مسلمانوں کو مامور کیا گیا جو باری باری تبدیل ہو رہے تھے[398]۔ مسلمانوں کے مکہ میں داخل ہونے سے پہلے اہل مکہ نے شہر کو خالی کر دیا اور کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ محمد(ص) اور ان کے ساتھیوں پر ہماری نگاہ پڑے[399] ۔

انہوں نے اجازت نہ دی کہ رسول اللہﷺ کعبہ میں داخل ہوں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات صلح میں شامل نہیں تھی۔ اس صورتحال میں اسی سفر میں مؤذنِ رسول حضرت بلال(رض) نے آپ(ص) کے حکم سے کعبہ کی چھت چڑھ کر اذان دی[400] ۔ تین دن گزرنے کے بعد سہیل بن عمرو اور حویطب بن عبدالعزی آپ(ص)کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کی مہلت ختم ہو چکی ہے لہذا مکہ سے چلے جائیں۔ آپ حارث کی بیٹی میمونہ سے عقد[401] کا ارادہ رکھتے تھے۔ آپ(ص) نے قریش سے کہا کہ مکہ میں رہنے کی کچھ اور اجازت دیں تاکہ آپﷺعقدکی مراسم میں قریش کو کھانا دے سکیں، لیکن انہوں نے تندی سے کہا:”ہمیں تمہارے کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔”

اس کے بعد آپ اور آپ(ص) کے ساتھی مکہ سے واپس چلے گئے۔[402]

٣۔فتح مکہ

صلح کے دو سال گزرنے کے بعد قریش نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ اس لئے رسول اللہ (ص)نے ارادہ فرمایا کہ مکہ کو فتح کریں اور مشرکین کی حاکمیت کا خاتمہ کر دیں۔ صلح کے تیسرے نکتے کے مطابق ایک فریق کے کسی تیسرے گروہ کے ساتھ کئے گئے معاہدے دوسرے فریق کے لئے بھی معتبر تھے یعنی فریقین میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہ تھا کہ دوسرے فریق کے اتحادی سے ”دشمنی کرے”۔حدیبیہ میں صلح نامہ کے لکھے جانے کے بعد قبیلۂ خزاعہ نے رسول اللہ (ص)کے ساتھ[403] اتحاد کا اعلان کیا تھا۔ اسی طرح دوسری طرف خزاعہ کے دیرینہ دشمن قبیلۂ کنانہ کی شاخ قبیلہ بنی بکر نے بھی قریش کے ساتھ اپنی ہمبستگی کا اعلان کیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ اس وقت حدیبیہ میں موجود قریش کی طرف سے بھیجے گئے حویطب نے خزاعہ سے نفرت کے اظہار کے ساتھ کہا تھا کہ ہمیں بنی بکر کی حمایت کرنا چاہیئے لیکن سیہل نے اسے روکا اور کہا کہ مبادا یہ بات بنی بکر سنیں اور حوصلہ پا کر خزاعہ پر حملہ کر دیں۔ محمد(ص) اس چیز سے غضبناک ہوں اور معاہدہ لغو کر دیں[404] ۔ بہرحال تقریبا دو سال کے بعد قبیلہ خزاعہ اور کنانہ کی لڑائی نے قریش کو گھیر لیا یہ ماجرہ اس طرح شروع ہوا کہ بنی بکر میں سے ایک شخص نے اپنے ایک شعر میں رسول اللہ (ص) کی توہین کی؛ اس وقت خزاعہ کے ایک نوجوان نے اعتراض کیا اور اس کے ساتھ الجھ پڑا اور اس کا سر پھوڑ دیا۔ بنی بکر نے اس جراحت کی دیت طلب کی، آخرکار یہ قضیہ باعث بنا کہ بنی بکر قریش سے خزاعہ کے خلاف مدد لیں ، ابوسفیان کے بغیر سب قریش نے قبول کر لیا اور اسلحہ اور لوگوں کو بھیج کر بنی بکر کی مدد کی[405] ،قبیلہ خزاعہ پر رات کے اندھیرے میں چہروں پر نقاب ڈال کر حملہ کیا گیا تاکہ حملہ کرنے والے (منجملہ قریشی) پہچانے نہ جائیں۔

خزاعہ کے وہ لوگ جو مکہ کے پڑوس میں (البتہ حرم اور اس کی حدود سے باہر) رہتے تھے اس شب خون سے بچے ہوئے تھے۔ یہ لوگ امان کے لئے حرم کی حدود میں آگئے۔ جب کہ حملہ آور ان کا پیچھا کر رہے تھے۔ باالآخر یہ لوگ مکہ میں بدیل بن ورقا کے گھر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے[406] لیکن حملہ آوروں کے ہاتھوں ان میں سے بیس یا بائیس افراد مارے گئے[407] اسی دوران قریش کو اپنی اس سنگین غلطی کا احساس ہوا۔ انہیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ ایسا کر کے انہوں نے صلح نامہ کی خلاف ورزی کی ہے۔ بہرحال اس بارے باہمی گفتگو اور مشاورت کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ ابوسفیان کو تجدیدِ معاہدہ کے لئے مدینہ بھیجیں[408] ۔

دوسری طرف خزاعہ کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور حملہ آوروں کے خلاف مدد کی درخواست کی۔ خزاعہ کے لوگوں نے کہا کہ گو کہ شب خون مارا گیا لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس رات کے حملے میں قریش بھی شامل تھے[409] ۔ رسول اللہ (ص) ان ناگوار حوادث کو سننے سے اندوہناک ہو گئے اور آپ (ص) نے خزاعی جماعت کو یقین دیا کہ ان کی پمدد کریں گے۔

مدینہ کے راستے میں ابوسفیان کا سامنا خزاعہ کے ان لوگوں سے ہوا جو رسول اللہ ﷺ کے یہاں سے واپس جا رہے تھے۔ ابوسفیان جان گیا کہ یہ رسول اللہ (ص) کے پاس مدد کے لئے گئے تھے اور یہ بھی سمجھ گیا کہ اس کا مدینہ جانا فضول ہے[410] ۔ بہرحال ابوسفیان مدینے آیا اور رسول اللہ (ص) سے تجدید معاہدہ کا مطالبہ کیا۔ حضرت (ص) نے اس سے پوچھا:”کیا کوئی حادثہ رونما ہوا ہے؟”

ابوسفیان نے نفی میں جواب دیا۔ آپ (ص) نے فرمایا:”ہم اپنے عہد پر قائم ہیں۔”

دراصل یہ بات اس چیز پر تاکید تھی کہ ہم نے (مسلمانوں نے) معاہدہ شکنی نہیں کی لیکن اگر تم نے ایسا کیا ہے تو ہم تجدید معاہدہ کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس کے بعد ابوسفیان نے کافی کوشش کی کہ اصحابِِ پیغمبر (ص) میں سے اسے کوئی پناہ دے لیکن کسی ایک نے بھی قبول نہ کیا۔ اس نے حتی حضرت فاطمة الزہراء سلام اللہ علیہا اور پھر ان کے چھوٹے بچوں حضرت امام حسن علیہ السلام ، حضرت امام حسین علیہ السلام سے بھی پناہ طلب کی لیکن انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ یہ امر رسول اللہ (ص) سے مربوط ہے۔ آخرکار ابوسفیان بغیر کسی نتیجہ کے مکہ لوٹ گیا۔[411] رسول اللہ (ص) نے مکہ کو فتح کرنے کا ارادہ فرمایا۔ یہ بھی ایک الگ ماجرا ہے۔ یہاں پر صرف یہ بات قابل توجہ ہے کہ مکہ قریش کی معاہدہ شکنی کے بعد فتح ہوا۔ سن چھ ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد آٹھ ہجری تک مسلمان اس طرح کی لڑائی کے لئے تیار ہو چکے تھے، فتح مکہ کی نیت سے مسلمان دس ہزار کے عظیم لشکر کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے[412]۔

چوتھا حصہَ بعد از "حدیبیہ” صلح کے معاہدے

۱۔صلح غزوہ خیبر

۲۔فدک کے یہودیوں سےصلح

۳۔وادی القری کے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ

۴۔جزیہ کی بنیاد پر صلح

               صلح غزوۂ خیبر [413]

یہ غزوہ سات ہجری کو خیبر کے مقام پر ہوا[414] ۔ خیبر شام کی راہ میں مدینہ کے شمال میں آٹھ منزل[415] (١٦٥ کیلومیٹر) [416] کے فاصلے پر واقع تھا۔ کہا جاتا ہے کہ خیبر ایک یہودی لفظ ہے جس کے معنی (حصن) کے ہیں[417] ، اسی مقام پر چند قلعوں کی موجودگی کی وجہ سے اس کو خیابر بھی کہا جاتا تھا[418] اگرچہ خیبر جزیرة العرب میں یہودیوں کا آخری علاقہ نہ تھا لیکن یہودیوں کا اہم ترین مقام تھا، جو مسلمانوں کے لئے ایک خطرہ شمار ہوتا تھا خصوصا یہ کہ مدینہ سے نکالے گئے یہودی یہاں آبسے تھے۔ ایک بیان کے مطابق چھ ہجری میں صلح حدیبیہ سے پہلے یہودیوں کے نئے سردار اسیر بن زارم نے مدینہ پر حملے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔

اسی مقصد کے لئے اس نے قبیلہ غطفان سے مدد بھی طلب کی۔ قابل ذکر ہے کہ مذکورہ منصوبہ رسول اللہ ﷺ کے بر وقت ردعمل کی بدولت اپنے انجام تک نہ پہنچا[419] ۔ رسول اللہ (ص) نے اپنے ایک سفیر کو بھیجا اور اسیر کو پیغام دیا کہ مدینہ آئے تاکہ اس پر احسان کیا جائے اور اسے آپ (ص)کی طرف سے خیبر کا حاکم منصوب کیا جائے۔ خیبر کے لوگوں نے رسول اللہ (ص) کی اس تجویز کی مخالفت کی لیکن اسیر نے قبول کیا اور اپنے حمایتی یہودیوں کے ایک گروہ کے ساتھ آپ (ص) کے سفیروں کے ہمراہ مدینے کی طرف چلا لیکن راستے میں ہی (خیبر سے چھ میل) [420] اس فیصلے پر پشیمان ہوا اور دوبارہ مسلمانوں سے جنگ کے بارے میں سوچنے لگا۔

اسی وقت حتی اسیر چاہتا تھا کہ رسول اللہ (ص)کے نمائندوں کو غفلت میں قتل کر دے لیکن عبداللہ بن انیس نامی ایک مسلمان کو اس بات کا علم ہو گیا اور اس نے اسیر پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا۔ پھر اسیر کے ہمراہی یہودیوں کا بھی یہی حال ہوا[421] ۔ یہاں پر یہ نکتہ اہمیت کا حامل ہے کہ اسیر نے مدینہ پر حملہ کا منصوبہ بناتے وقت اپنی گفتگو کے آغاز میں یہودیوں سے یہ کہا تھا کہ میں ایسا کام کروں گا جو ہمارےساتھیوں نے آج تک نہیں کیا[422]۔

یہ کہ قلعہ نشینی کی وجہ سے یہودی دفاعی حوالے سے کافی حد تک محفوظ تھے، اسی چیز نے اسیر کو مغرور کیا اور اسے مدینہ پر حملہ کرنے پر اکسایا۔ اگرچہ اسیر بن زارم صلح حدیبیہ سے پہلے قتل ہو گیا لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ اس کا منصوبہ بھی ختم ہو گیا۔ اس لئے صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ (ص) نے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہودیوں کے بالقوہ خطرے کو ختم کرنے کا پروگرام بنایا۔ اس بارے غزوہ خیبر میں رسول اللہ (ص) کے پاس ایک مسلمان کا پڑھا جانے والا رجزی و حماسی شعر ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمان خیبر کو فتنہ اور مرکز ظلم سمجھتے تھے:

انا اذا قوم بغوہ اعلینا                       ان ارادوا فتنة ابینا[423]

جب بھی کوئی قوم ہم پر زیادتی کرے یا فتنہ کی آگ کو بھڑکائے تو ہم اس کا سدباب کریں گے۔

اسی بنیاد پر غزوہ خیبر، خیبر کے نام سے موسوم قلعوں کے محاصرے سے شروع ہوا۔ اس ماجرے میں کافی نشیب و فراز ہیں جو ہمارے موضوع سے خارج ہیں۔یہاں یاد رہے کہ خیبر یا خیابر متعدد قلعوں پر مشتمل تھا جن کو تین حصوں میں جدا کرکے بالترتیب نطاق، شق اور کتیبہ کے ناموں سے جانا جاسکتا ہے۔

اسی طرح ان میں سے ہر ایک حصے میں داخلی اور فرعی قلعے تھے[424] ۔ اس غزوہ میں مسلمانوں نے نطاة اور شق پر فوجی کنٹرول حاصل کر لیا لیکن جب جنگ تیسرے حصے کتیبہ تک پھیلی تو خیبریوں نے صلح کی تجویز دی جس کو منظور کر لیا گیا اور صلح ہو گئی۔ قابل ذکر ہے کہ لڑائی کےٓاغاز میں یہودی سختی سے ڈٹے رہے، ان کی بڑی تعداد اور قلعوں کی مضبوطی ان کے حوصلے کا سبب تھی۔ اس کے علاوہ ان کے پاس غلہ اور جنگی سازوسامان کی بھی بہتات تھی[425]۔ انہوں نے قبیلہ غطفان[426] کو ایک سال کا نصف محصول دینے کے وعدے پر[427] اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ اس کے برعکس رسول اللہ (ص) نے قبیلہ غطفان کے لوگوں کو تجویز کیا کہ اگر جنگ سے کنارہ کشی اختیارکر لیں تو جنگ میں کامیابی کے بعد خیبر کے خرما کے برابر ان کو خرما دیا جائے گا حتی دوسرے مرحلے میں یہ وعدہ بھی دیا گیا کہ کہ پورے ایک سال کا خیبرکے خرما کا محصول غطفائیوں کو دیں گے لیکن انہوں نے قبول نہ کیا اور یہودیوں کی مدد جاری رکھی[428]،

اس کے باوجود غطفان میں ایک اہم کمزوری بھی پائی جاتی تھی، اور وہ یہ کہ ان کی عورتیں اور بچے دوسری جگہ[429] پر ان سے دور تھے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک فوجی چال کے طور پر مسلمانوں نے صدا بلند کی کہ اے گروہِ غطفان!! اپنی عورتوں اور بچوں کی خبر لو۔۔![430] اس صدا پر غطفان کے لوگ بہت پریشان ہوئے یہاں تک کہ انہوں نے خیبر کو چھوڑ دیا اور بغیر کچھ حاصل کئے پریشانی کےعالم میں لوٹ گئے[431] ۔

غطفان کے لوگوں کی کنارہ کشی سے یہودیوں کی حالت متزلزل ہو گئی، یہاں تک کہ بعض خیبر کے سرداروں نے اس طرح اظہار کیا:”اگر غطفانیوں نے ہمیں جنگ میں ساتھ دینے کا وعدہ نہ دیا ہوتا تو ہم محمد(ص)سے جنگ نہ کرتے۔”[432] اس کے بعد اہل خیبر کے ساتھ جنگ شروع ہوئی اور یکے بعد دیگرے تمام قلعوں کی فتح پر ختم ہوئی۔

دشمن کے بڑے بڑے سورما، حضرت امام علی علیہ السلام کی بہادری کی بدولت زیر ہو گئے[433] ۔ یہاں تک کہ لڑائی کا دامن کتیبہ کے قلعوں تک پھیل گیا۔ یہودیوں نے اس سے پہلے اپنی عورتوں اور بچوں کو اس حصے میں منتقل کر دیا ہوا تھا۔[434]

اسی طرح جب نطاة اور شق کے حصے مسلمانوں کے تصرف میں آئے تو یہودی جنگجؤوں نے بھی مذکورہ حصے میں پناہ لی، یہیں پر یہودی ١٤ دن محصور رہے اس مدت میں مبارزہ کے لئے بالکل نہ نکلے۔ رسول اللہ (ص) نے حکم دیا کہ مسلمان منجنیق کے زریعے ان کے قلعوں کو کھولیں۔ جب یہودیوں نے اپنی شکست دیکھی تو صلح کی درخواست کر دی۔ رسول اللہ (ص) نے اس درخواست کو قبول فرمایا۔[435]

درج ذیل موارد پر مصالحت عمل میں آئی:

١۔یہودی جنگجوؤں کو جان کی امان ہو گی۔

٢۔یہودیوں کی عورتیں اور بچے خود ان کے پاس رہیں گے۔

٣۔ یہودی اپنے بچوں اور عورتوں کے ساتھ خیبر کو ترک کر دیں اور اس سرزمین کو

رسول خدا (ص) کے لئے خالی کر دیں۔

٤۔یہودی صرف ایک تن پوش اپنے ساتھ لے کر جائیں اور اپنا سرمایہ (اموال، زروسیم، جنگی ہتھیار، ستوران، اثاثۂ خانہ) سب چھوڑ جائیں۔[436]

مذکورہ صلح ہتھیار ڈالنے سے کافی شباہت رکھتی تھی کیونکہ یہودیوں نے سرِ تسلیم خم کر دیا تھا صرف یہ کہ یہودیوں کے مرد امان میں تھے تاکہ اپنی عورتوں اور بچوں کے ساتھ خیبر کو ترک کردیں اور قتل و اسارت سے نجات حاصل کریں۔ انہی وجوہات کی بناء پر مؤرخین نے اس واقعہ کو صلح اور مصالحہ[437] کا نام دیا ہے۔

اس مصالحت کی بادی الذکرکی شرائط پر اتفاق کے بعد یہودی اپنےقلعوں سے باہر نکلے انہوں نے نکلتے ہی درخواست کی اور اصرار کیا کہ انہیں خرما کے درختوں کے کام میں مہارت ہے[438] اورسول خدا (ص) سے التجا کی کہ خیبر کے وسیع نخلستان کے ادارہ کے لئے ان سے کام لیا جائے۔ حضرت (ص) نے نیز قبول فرمایا کہ ان سے کام لیا جائے اور انہیں محصول کا آدھا حصہ دیا جائے ایک تعبیر کے مطابق ان سے ”مساقاة” کا پیمان[439] لیا۔ البتہ ایک روایت کے مطابق ان سے یہ شرط کی کہ رسول خدا ﷺجب چاہیں گے ان کو ہٹا دیں گے [440]۔

اس طرح جدید معاہدے اور پیمان کی رو سے یہودیوں کو اجازت مل گئی تھی کہ خیبر میں اپنی جگہ پر رہیں اور زراعت و خرمے کا کام جاری رکھیں۔ قابل توجہ ہے کہ رسول خدا(ص)کی مدتِ حیات میں ایک مرتبہ اہل خیبر آپ (ص) کے پاس آئے اور اس طرح شکوہ کیاکہ بعض مسلمان ان کی کاشت اور کام کا خیال نہیں کرتے اور بغیر کسی وجہ کے محصولات میں تصرف کرتے ہیں، رسول خدا (ص) نے تمام مسلمانوں کو بلایا اور اعلان فرمایا کہ یہودیوں کا خون، ان کو واگزار کی گئی اراضی، اور ان کے اموال محترم ہیں اور کسی کو بھی حق حاصل نہیں کہ وہ ایسے ہی بغیر کسی حساب کتاب کے ان میں تصرف کرے۔[441]

اسی طرح سن ٧ ہجری میں عمرة القضا سے پہلے خیبر کے علاقہ (نطاة کے حصہ) سے عبداللہ بن سہل کا جسد ملا۔ مقتول کے خاندان والوں نے داد خواہی کرتے ہوئے کہا کہ بلا شک و شبہ یہ قتل یہودیوں نے کیا ہے۔حضرت(ص)نے ایک خط کے ذریعے یہودیوں کو پیغام دیا کہ یا اس مقتول کی دیت ادا کریں یا خدا اور رسول خدا (ص)کے ساتھ جنگ کے لئے تیار ہو جائیں۔

جوابی خط میں یہودیوں نے اظہار کیا کہ ہم نے اس مسلمان کو قتل نہیں کیا، رسول خدا (ص) نے مقتول کے ورثا کو یہودیوں کے جواب سے آگاہ کیا اور ان سے فرمایا:”پچاس مرتبہ قسم کھاؤ!!(کہ یہودیوں نے اس کو قتل کیا ہے) اس کے بعد خون بہا کا مطالبہ کرو۔” لیکن انہوں نے عرض کیا:”چونکہ ہم وہاں موجود نہیں تھے اس لئے نہ ہی ہم گواہی دے سکتے ہیں اور نہ ہی قسم!” رسول خدا ﷺ نے فرمایا:”پس یہودی قسم کھائیں کہ انہوں نے اس مسلمان کو قتل نہیں کیا۔” اس کے جواب میں مسلمانوں نے کہا:”یا رسول اللہ(ص)! وہ مسلمان نہیں ہیں (ان کی قسم قابل اعتبار نہیں ہے)” اس مرحلے پر تین طرح کے بیان ہیں۔ ایک یہ کہ رسول خدا(ص) نے خود مقتول کی دیت ادا کی، دوسرے یہ کہ چونکہ مقتول کا جسد یہودیوں کے علاقہ سے ملا تھا اس لئے انہیں دیت ادا کرنا چاہئے تھی اور تیسرے کہ رسول خدا (ص) نے دیت کی ادائیگی کے لئے یہودیوں کی مدد کی[442] ۔

اس ماجرہ کے تجزیہ کے لئے فقہی[443] حوالے سے تحقیق کی ضرورت ہے کہ جس کی یہاں گنجائش نہیں ، یہاں صرف یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ یہ حادثہ دو نکات کو واضح کرتا ہے۔ ایک یہ کہ رسول خدا (ص) پیمان پر انتہائی حد تک کاربند تھے،دوسرا یہ کہ مدِ مقابل کی طرف سے ہر طرح کی پیمان شکنی کو انصاف اور قاطعیت کے ساتھ نبٹاتے تھے۔ اس ماجرے میں آپ (ص) نے مقتول کے اولیاء کا دعوی فوری طور پر قبول نہیں فرمایا۔ دوسری طرف اپنے خط کے ذریعے قاطعانہ طور پر یہودیوں سے دیت کا مطالبہ فرمایا۔ بہرحال خیبر کے یہودی رسول خدا ﷺ کے دور اور آپ (ص) کے بعد حضرت عمر کی خلافت تک اپنے پیمان پر قائم رہے حتی کہ حضرت عمر کے دور میں فتنہ کو ہوا دیتے ہوئے یہودیوں نے مظہر بن رافع نامی مسلمان کے قتل کا منصوبہ بنایا اور تمام کے تمام یہودی حجاز سے نکال دیئے گئے۔[444]

اس صورت حال میں ابن یعقوب ہمدانی نے چوتھی صدی ہجری کے نصف میں کہا ہے کہ خیبر میں یہودیوں کی ایک قوم اور اعراب رہتے تھے[445] ۔ اسی طرح ابن کثیر(متوفی ٧٧٤) کا یہ نظریہ ہے کہ چوتھی صدی ہجری میں اور دوسری مرتبہ آٹھویں صدی ہجری میں خیبر کے یہودیوں نے ایک جعلی صحیفے کو رسول خدا (ص) کی طرف نسبت دینے کے زریعے جزیہ سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔[446]

اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہودیوں کے خیبر سے نکلنے کے بعد یہودیوں کے کچھ گروہ خیبر میں رہتے تھے جو اسلامی حکومت کو جزیہ ادا کرتے تھے نیز انہوں نے کوشش کی کہ جزیہ سے جان چھڑانے کے لئے کچھ سازباز کریں۔

               ۲۔فدک کے یہودیوں کے ساتھ صلح

فدک مدینہ سے دو روز کے فاصلے پر خیبر کے جنوب میں واقع تھا۔ اس گاؤں میں آب و نخلستان فراوان تھے۔[447] جب رسول خدا(ص)غزوہ خیبر کے لئے عازم سفر تھے، آپ (ص) نے محیصہ بن مسعود نامی قاصد کو یہودیوں کے پاس بھیجا۔ انہیں اسلام کی دعوت دی اور جنگ سے ڈرایا لیکن انہوں نے رسول خدا (ص) کے قاصد کے جواب میں اظہار کیا کہ مسلمانوں میں اتنی طاقت اور جرأت نہیں ہے کہ وہ خیبر کے یہودیوں پر غلبہ پا سکیں۔ محیصہ فدک میں دو روز تک رہا لیکن کوئی تازہ جواب نہ پایا۔ اس لئے اس نے ارادہ کیا کہ رسول خدا (ص) کی طرف واپس لوٹ جائے۔ لیکن اس وقت فدک کے یہودیوں نے اس سے کہا:”ہم تمہارے ساتھ کچھ لوگ بھیجتے ہیں تاکہ رسول خدا(ص) کے ساتھ مصالحت کریں۔” یہ تجویز باعث بنی کہ محیصہ فدک میں کچھ اور رہے، گویا یہودیوں کو امید تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ، خیبر کے یہودیوں کی فتح کی خبر سن سکیں گے، لیکن جیسے ہی فدک کے یہودیوں کو پتا چلا کہ خیبر کے قلعہ نشینوں کی شکست ہو چکی ہے، محیصہ کہ جو ابھی تک وہیں تھا، کے پاس آئے اور اپنی طرف سے کہی جانے والی باتوں پر پشیمانی کا اظہا کیا۔

انہوں نے نون بن یوشع کی سرپرستی میں مصالحت کے لئے ایک جماعت بھیجی[448] ان کی صلح کے بارے تین طرح کے بیان ہیں۔ ایک بیان کے مطابق فریقین نے اس طرح پیمان باندھا کہ فدک کے لوگوں کو جان کی امان ہو گی، وہ اپنے اموال کو چھوڑ کر اس زمین سے چلے جائیں گے۔ دوسری روایت کی بناء پر شروع میں فدک کے یہودیوں نے رسول خدا (ص) سے درخواست کی کہ وہ اپنا مال بھی ساتھ لے جائیں اور جب فدک میں پھل کا موسم آئے تو آئیں اور پھل چن کر لے جائیں لیکن آپ (ص) نے ان شرائط کو قبول نہ فرمایا۔

محیصہ نے ان لوگوں کو دھمکی دی اور کہا:”تم نہ تو کوئی قلعہ رکھتے ہو نہ لشکر اور اسلحہ، تم تو صرف ایک سو مسلمانوں کے مقابل تسلیم ہو جاؤ گے۔” اس بیان کی بناء پر آخرکار اس طرح صلح ہوئی کہ فدک کی نصف زمین یہودیوں کی جبکہ نصف رسول خدا(ص) کی ملکیت ہو گی[449] ۔ ان دونوں بیانات میں سے واقدی نے دوسرے بیان کو ترجیح دی ہے[450] اس کے متعلق ابن اسحاق نے (ابن ہشام کی روایت کی بناء پر) ماجرے کو اس طرح بیان کیا ہے جو تیسرا بیان شمار ہو سکتا ہے۔ اس کا نظریہ ہے کہ فتح خیبر کے بعد مسلمانوں کے زریعے فدک کے یہودیوں نے رسول خدا(ص) سے درخواست کی کہ وہ فدک کو ترک کر دیں اور اپنے اموال چھوڑ جائیں، پھر اس وقت جب رسول خدا(ص) نے خیبریوں سے معاہدہ کیا کہ خیبر میں رہیں اور کھیتی باڑی سے آدھا حصہ حاصل کریں تو فدک کے اردگرد کے لوگوں نے بھی تقاضہ کیا کہ ان کے ساتھ بھی اسی طرح کا معاہدہ کیا جائے۔

رسول خدا (ص) نے قبول فرمایا البتہ اس بیان میں یہ بات موجود نہیں ہے کہ زمین فریقین میں نصف نصف تقسیم کی گئی ہو بلکہ یہودیوں کے ساتھ یہ شرط رکھی گئی کہ مسلمان جب چاہیں گے یہودیوں کو فدک سے نکال دیں گے[451] ۔ ایک بیان کی بناء پر حضرت عمر نے اپنے دورِخلافت میں یہودیوں کو فدک کی سرز مین سے نکال دیا[452] البتہ زمین اور نخلستان میں سے ان کا حصہ ادا کر دیا[453] ۔

تحریر کے اس حصے کے اختتام پر یہ کہنا ضروری ہے کہ شیعہ جیسے ہی فدک کا نام سنتے ہیں ان کے لئے حضرت فاطمة الزہراء سلام اللہ علیہا کے مصائب کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ یہ سرزمین بغیر جنگ کے رسول خدا (ص)کے اختیار میں آئی۔ اس لحاظ سے یہ زمین خود آپ (ص) کی ذات کے ساتھ تعلق رکھتی تھی[454] ۔ آپ (ص) نے یہ سرزمین اپنی بیٹی حضرت فاطمة الزہراء سلام اللہ علیہا کو عطا کر دی۔ آپ (ص) کی رحلت کے بعد حضرت زہرا ؑ نے امِ ایمنؑ، حضرت علی بن ابیطالب ؑ اور اپنے بیٹوں حضرات حسن و حسین علیہماالسلام کی گواہی اور شہادت سے استناد کیا کہ حضور اکرم ﷺ نے فدک انہی کو عطا کیا ہے اور حضرت ابوبکر سے مطالبہ کیا کہ فدک ان کو واپس کر دیا جائے لیکن انہوں نے قبول نہ کیا اور صدیوں تک یہ مسئلہ خلفاء اور علویوں کے درمیان چلتا رہا[455] ۔

               ٣۔”وادی القریٰ” کے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ

سن ٧ ہجری، جمادی الآخر میں خیبر اور فدک کے لوگوں سے صلح کے بعد رسول خدا (ص) لشکرِاسلام کے ساتھ وادی القری کی طرف روانہ ہوئے[456] ۔ مدینہ سے ٣٥٠کلومیٹر [457] حجاز کے شمال میں کثیر دیہات پر مشتمل ایک وسیع آبادی تھی جو مدینہ اور شام کے درمیان سرحد شمار ہوتی تھی[458]۔ البتہ اس سرزمین کے تمام لوگ یہودی نہ تھے[459]، پھر بھی مسلمان وہاں پر یہودیوں کے سراغ میں گئے۔ اس کے باوجود کہ اس غزوے میں فوجی حرکت کی کوئی خاص دلیل ذکر نہیں ہوئی لیکن یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ حجاز میں خواہ نخواہ یہودیوں سے مڈھ بھیڑ نے دوسرے علاقے کے یہودیوں کو بالقوہ خطرے میں تبدیل کر دیا تھا، یہ خطرہ مدینے میں اسلامی حکومت کے مرکز پر حملے کی صورت میں یا وادی القری کے علاقوں میں آمد ورفت رکھنے والے مسلمانوں کے راستے میں مزاحمت کی صورت میں سامنے ٓاسکتا تھا۔ اس پر مستزاد، اسلام کی طرف دعوت، اس طرح کے غزوات کا اہم ترین مقصد تھا۔ قابل ذکر ہے کہ مذکورہ غزوہ میں جنگ کے آغاز میں ١١ یہودی (لڑائی کے لئے ایک ایک کر کے) میدان میں آئے اور یہ سب ایک دوسرے کے بعد مغلوب ہوئے اور قتل ہو گئے ہر ایک کے قتل ہو جانے کے بعد رسول اللہﷺ یہودیوں کے دوسرے لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے[460] ۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ان یہودیوں کے پاس اسلام کی قبولیت یا جنگ کے لئے کوئی تیسرا انتخاب بھی تھا۔ اہل کتاب کےلیے جزیہ نامی خصوصی مال کی ادائیگی بشمول یہودیوں کےلیے تیسرا انتخاب شمار ہوتا تھا۔ اس بارے میں یاقوت حموی (متوفی ٦٢٦) کا عقیدہ ہے کہ وادی القری کے یہودیوں نے پہلے تو جنگ کی اور اس جنگ میں مغلوب ہوئے لیکن اس پسپائی کے بعد جزیہ کی ادائیگی کی بناء پر رسول اللہﷺ سے صلح کی[461] ۔

اس بیان کو قبول نہیں کیا جا سکتا؛ کیونکہ جزیہ کا حکم سورۂ توبہ[462] کی انتیسویں آیت میں آیا ہے اور یہ سورہ مشہور نظریئے کی بناء پر مذکورہ ماجرے کے دو سال بعد نازل ہوئی ہے[463] ۔ بہرحال اس بارے میں محمد بن عمرواقدی(متوفی ٢٠٥ہجری) کا بیان دسترس میں ہے جو تقدمِ زمان کی بناء پر زیادہ اعتبار کا حامل ہے۔ واقدی کے بیان کی روشنی میں وادی القری مسلمانوں کے فوجی غلبہ کے ساتھ فتح ہوئی نیز مسلمانوں نے بہت سا مال غنیمت حاصل کیا پھر رسول اللہﷺ نے زمین اور نخلستانوں کو انہی یہودیوں کے سپرد کر دیا اور انہیں کام کرنے پر لگا دیا[464] ۔ کچھ منابع میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ(ص) نے عمرو بن سعید بن عاص کو وادی القری کا حاکم بنا دیا۔[465]

البتہ یہاں پر یہودیوں کو کام پر لگانا، خیبر کے یہودیوں کی طرح ”مساقاة” کی شکل میں تحقق پذیر ہوا[466] کہ یہ صرف کام اور شغل کا معاہدہ تھا نہ سیاسی و فوجی صلح۔ بعض کا نظریہ ہے کیونکہ وادی القری حجاز سے باہر تھی اس لئے رسول اللہ(ص) نے اس وادی سے یہودیوں کو نہ نکالا[467]۔

اس نظریئے کی بنیاد خلیفہ دوم کی وہ بات ہے جسے رسول اللہ(ص) سے نسبت دی گئی ہےکہ آپ(ص) نے فرمایا تھا :

مسلمان حجاز کو اسلام کےعلاوہ دوسرے ادیان سے خالی کرا دیں[468] ۔ آخر میں اس بات کے اختتام پر یاد رہے کہ ابن اسحاق(متوفی١٥ہجری) کا نظریہ یہ ہے کہ مذکورہ غزوہ محاصرہ کی شکل میں چند روز تک جاری رہنے کے بعد اختتام کو پہنچا[469] لیکن ابن اسحاق کے اس بیان کو دوسرے مؤرخین قبول نہیں کرتے[470] ۔

               ٤۔جزیہ کی بنیاد پر صلح

جزیہ سالانہ مالی ادائیگی ہے جس کو اسلامی حاکم اہل کتاب (عیسائیوں، یہودیوں، زرتشتیوں) پر مقرر کرتا ہے۔ اس مال کی ادائیگی اس چیز کی قیمت ہے کہ یہودی، عیسائی اور زرتشتی، حکومتِ اسلامی کی پناہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ امن و امان میں ہیں کہ اس لحاظ سے ان کو ”اہل ذمہ” بھی کہا جاتا ہے[471] تاریخی منابع کی طرف رجوع اور مطالعات سے دریافت کیا جا سکتا ہے کہ جزیہ کی ادائیگی پر اتفاق ایک ایسی صلح تھی جو جنگ کے وقوع یا اس کے جاری رہنے کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہو رہی تھی[472] ۔

جزیہ کا حکم سورۂ توبہ[473] کی انتیسویں آیت کی بنا پر وضع ہوا اور جیسا کہ گزرا،مشہور نظریئے کی بناء پر یہ آیت سن ٩ ہجری میں غزوہ تبوک سے پہلے نازل ہوئی تھی[474] ۔

اس بناء پر جزیہ کی بنیاد پرہونے والی صلح کا تعلق مذکورہ تاریخ کے بعد ہے۔ مرحوم علامہ محمد حسین طباطبائی نے اپنی کتاب المیزان فی تفسیر القرآن میں جزیہ کے بارے معروف نظریہ کے برعکس اپنا منفرد نظریہ قائم کیا ہے اور سن چھ ہجری کو جزیہ کے آغاز کا سال مانا ہے اور اسی سال ہی رسول اللہﷺ اور نجران کے درمیان مباہلہ (جزیہ کے تعین کا مورد) ذکر کیا ہے[475] ۔ جبکہ مباہلہ کے لئے منابع اولیہ میں متاخر تر تاریخ یعنی نہم[476] یا دہم[477] ہجری بیان ہوئی ہے۔ اس پر مستزاد، اگر قبول کر لیا جائے کہ جزیہ چھ ہجری سے مربوط ہے تو پھر یہ سوال پیش آئے گا کہ رسول اللہﷺ نے خیبر کے یہود سے جزیہ کے بارے کیوں کوئی بات نہ کی؟ اب معروف بیان پر بھروسہ کرتے ہوئے رسول اللہ(ص) اور اہل کتاب کے درمیان جزیہ کی بنیاد پر عمل میں آنے والے صلح کے معاہدوں کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔

صلح کے ان معاہدوں کی زمانی ترتیب معلوم نہیں ہے اس لیے ہر مورد میں کوشش ہو گی کہ سندی اختلافات کا بھی تجزیہ کیا جائے:

الف:تبوک میں صلح کے معاہدے

سن٩ہجری رجب میں مسلمان رسول اللہﷺ کے فرمان پر مشرقی روم کے آمر ”ہرتل” کے(ہراکلیوس) مقابلے کے لئے مشرقی روم کے علاقے تبوک کی طرف نکلے[478] ۔ تبوک شام اور وادی القری کے درمیان ایک علاقہ تھا[479] جو مدینہ سے ٧٧٨ کلومیٹر کے فاصلے پر شمال میں ہے[480] ۔ مسلمان تبوک میں پہنچنے کے ٢٠ روز (یا اس سے کچھ کم) تک خیمہ زن رہے۔ اس مدت میں رومیوں کے لشکر کی کوئی خبر نہ ملی[481] لیکن رسول خدا ﷺاور چند دوسری اقوام کے درمیان جزیہ کی بنیاد پر صلح کے معاہدے عمل میں آئے جن کا یہاں ذکر ہو گا۔

١۔ اہل تبوک کے ساتھ صلح

یہ صلح جزیہ کی بنیاد پر ہوئی[482] لیکن اس صلح کے متعلق جزئیات دسترس میں نہیں ہیں۔

2۔ایلہ کے سے یہودیوں سے صلح

ایلہ حجاز اور شام کی سرحد کے درمیان دریائے سرخ کے کنارے ایک چھوٹا سا شہر تھا[483] ۔ یاقوت حموی (متوفی ٦٢٦ہجری) کے بیان کے مطابق اس شہر کے ساکن یہودی تھے[484] ۔ اس کے باوجود بلاشبہ ایلہ عیسائی نشین علاقہ تھا[485] ۔ کیونکہ اس شہر کا حاکم ”یحنہ(یوحنا) بنی روبہ” خود عیسائی تھا اور رسول اللہﷺ سے ملاقات کے وقت بھی اس نے اپنے گلے میں صلیب لٹکا رکھی تھی۔[486] اسی طرح اسے اسقف کے لقب سے بھی یاد کیا گیا ہے جو اس کے عیسائی ہونے پر دلالت کرتا ہے[487] ۔ حتی ایک روایت کے مطابق صلح کے متن میں اسقف ہای اہلِ ایلہ کی تعبیر استعمال ہوئی ہے[488]۔

پہلے مرحلہ میں رسول اللہ (ص)نے خط بھیج کر یحنہ بن روبہ سے تین چیزوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا:

”قبولیت اسلام، جزیہ کی ادائیگی یا جنگ۔”[489] یحنہ خود آپ (ص) کی خدمت میں آیا[490] ، وہ بہت غصہ میں تھا البتہ اس نے آپ (ص) کے سامنے تسلیم ہونے کے لئے اپنا سر خم کیا آپ نے اسے فرمایا:”اپنا سر اوپر کرو!”[491] آپ (ص)نے اس کے لئے اسلام کو بیان فرمایا لیکن اس نے قبول نہ کیا[492] اور آخرکار جزیہ کی بنیاد پر صلح عمل میں آئی[493] ۔

اس صلح میں سالانہ جزیہ کے لئے (ہر ایک مرد کے لئے) ایک دینار متعین فرمایا[494] جو آہستہ آہستہ تین سو دینار تک پہنچ گیا[495] ۔ صلح کے اس معاہدےکا متن اس طرح تھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ امان نامہ خدا اور اس کے پیغمبر و رسول محمد(ص) کی طرف سے یحنہ بن روبہ کے لئے اور ایلہ کے ساکنین کے لئے ہے، ان کی کشتیوں اور کاروان چاہے خشکی پر ہوں یا دریا میں، کے لئے امان ہے۔ نیز ان کے لئے بھی امان ہے جو ان کے ساتھ ہیں۔ شام و یمن اور دریا کے اردگرد کے لوگ[496] جو کوئی بھی ان میں سےمعاہدہ شکنی کرے (قتل کئے جانے کا مستحق ہو گا) پس اس کا مال بھی (فدیہ کے عنوان سے) اسے قتل سے نہیں بچا سکے گا اور البتہ اس کا مال جس کے بھی ہاتھ لگے گا، مباح ہو گا[497]۔ ایلہ کے لوگ آبی یاخشکی کے ان راستوں میں کہ جن سے رسول خدا(ص) اور ان کے پیروکار گزرتے ہیں کسی بھی طرح کی رکاوٹ نہ ڈالیں[498] ۔

رسول خدا (ص) نے اپنے پہلے خط میں یحنہ بن روبہ سے شرط کی تھی کہ ایلہ کے لوگ حضرت(ص) کے سفیروں کا احترام کریں گے نیز طے شدہ جزیہ[499] ادا کریں گے[500]۔

ایلہ کے لوگوں کے انجامِ کا ر کے بارےصرف اس حد تک واضح ہے کہ وہ عمربن عبدالعزیز کے دور ِخلافت(٩٩۔١٠١ہجری) تک صلح کے معاہدے پر قائم تھے اور اسی طرح (خلیفہ وقت) جزیہ ادا کرتے تھے۔[501]

٣۔ اذرح اور جربا کے یہودیوں سے صلح کا معاہدہ

اذرح اور جربا شام کے ماتحت تھے جربا کا گاؤں خود اذرح کے تابع تھا[502] اس علاقے کے ساکنین یہودی تھے[503]۔

سن ٩ ہجری میں اس تھوڑی مدت میں جب رسول خدا(ص) تبوک میں مستقر تھے، ساکنین اذرج اور جربا کا ایک وفد آپ (ص) کے پاس آیا اور جزیہ کی ادائیگی کی بنیاد پر صلح کی۔ اس وقت آپ(ص) نے ان کے لئے مندرجہ ذیل صلح نامہ لکھا: [504]

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ صلح نامہ محمد(ص) پیامبر اور رسولِ خدا کی طرف سے اہل جربا اور اذرح کے لئے ہے۔

تحقیق یہ لوگ خدا اور محمد (ص) کی پناہ میں ہوں گے، بلاشبہ ان پر لازم ہے کہ رجب کے ہر مہینے میں ایک سو دینار[505] ادا کریں۔

بیشک خداوند ان پر سرپرست اور گواہ ہے کہ مسلمانوں کی نسبت نیکی اور خیرخواہی کریں (اور اسی طرح رہیں) ان مسلمانوں کی نسبت جو ان کی پناہ میں آئیں[506] ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ابن اسحاق(متوفی ١٥١ہجری) مذکورہ صلح نامے کی طرف اشارہ کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ وہ صلح نامہ اس کے (جربا و اذرج) [507] پاس موجود ہے روایت کرنے والا (ابن اسحاق خود یا وہ جس نے اس روایت کو نقل کیا ہے) بھی معاہدے کی شرائط پر پابند تھا اور جزیہ بھی ادا کر رہا تھا۔

مذکورہ معاہدہ اہلیانِ اذرح اور جرباء دونوں کے لئے اکٹھا لکھا گیا[508] جیسا کہ صلح نامے کے متن میں اہلیان اذرح اور جربا کا حلیف کے طور پر ذکر ہوا[509]۔ اس بناء پر بدون تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں پر دونوں علاقوں کے لوگوں کے لئے صرف ایک صلح نامہ لکھا گیا۔اس حوالے سے یہ کہ ایک روایت میں صلح نامہ کے متن میں صرف اہل اذرح کا نام ہے[510] تو اس کا سبب یہ ہے کہ جربا اذرح کے تابع تھے[511] ۔

پس اس بناء پر اہل اذرح کا ذکر جربائیوں کو بھی شامل ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جربا کے لوگوں کے لئے علیحدہ صلح نامہ لکھا گیا ہو۔[512]

۴۔مقنا کے یہودیوں سے صلح کا معاہدہ

مقنا ایلہ کے نزدیک ہی تھا[513] اور اس علاقے کے ساکنین آئینِ یہود کے پیروکار تھے[514] ۔ تبوک میں مقنا کے یہودیوں کے قاصد رسول اللہ(ص)کے پاس آئے۔ آپ(ص) نے جزیہ کی بنیاد پر چند دوسری شرائط کے ساتھ ان سے صلح کا معاہدہ کیا۔اس صلح نامہ کے متن کے متعلق روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ(ص) نے مقنا کے سفیروں کے واپس چلے جانے کے بعد اسے تحریر فرمایا اور پھر اسے مقنا کے لوگوں کیلئے بھجوایاصلح نامہ کا متن اس طرح ہے:

اما بعد تمہارے سفیر میرے پاس آئے تھے اور ابھی تمہارے دیہات کی طرف جا رہے ہیں جس وقت میرا یہ خط تمہیں پہنچے، پس امان میں ہو گے۔

تمہارے لئے خدا اور اس کے رسول کی امان ہے۔ بے شک رسول خدا نے تمہاری بدیوں اور گناہوں کو بخش دیا اور تمہارے لئے خدا اور اس کے رسول کی طرف سے امان ہے۔

کسی بھی طرح کا ظلم تم پر روا نہیں رکھا جائے گا۔

تحقیق رسول خدا (ص)تمہیں پناہ دیتے ہیں، تاکہ تمہارا ہر اس چیز سے دفاع کریں جس سے وہ اپنا کرتے ہیں، اثاثہ، گھوڑے اور جنگی اسلحہ سب رسول خدا (ص)کے لئے ہوں گے، سوائے اس مورد کے کہ وہ یا ان کے سفیر بخش دیں۔ اس پر مستزاد بے شک تمہاری ذمہ داری ہے کہ ہر سال خرمے کے محصول کا چوتھا اور دریائی شکار ، تمہاری عورتوں نے جو سوت کاتا ہو، کا چوتھا حصہ ادا کرو ۔

تحقیق کہ اس کے علاوہ ہر طرح کے جزیہ اور تکلیف سے بری ہو۔ اگر یاد رکھو گے تو فرمانبردار رہو گے۔ پس یہ اللہ کے رسول کی ذمہ داری ہے کہ تمہارے بزرگوں کا احترام کریں اور خطاکاروں کو بخش دیں۔ امابعد مومنین اور مسلمانوں پر اس طرح ہے کہ جو کوئی بھی (مسلمانوں میں سے) اہل مقنا کے ساتھ نیکی سے پیش آئے، خود اس کے لئے بہتر ہو گا اور جو بھی ان سے برا سلوک کرے، پس اس کے لیے برا ہو گا۔ بے شک تم پر کوئی امیر نہیں ہو گا، مگر تمہاری اپنی طرف سے (یا اہل رسول اللہ کی طرف سے)، والسلام۔”[515]

اس صلح نامے کے متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہل مقنا غلطی کے مرتکب ہوئے تھے لیکن رسول خدا (ص)نے انہیں معاف فرما دیا۔[516] گو کہ اس معاہدے کی شرائط اہل مقنا کے لیے کافی سخت تھیں لیکن اس کے باوجود[517] ان شرائط پر عمل کے حوالے سے ان کی طرف سے کسی بھی طرح کی چون و چراں کا منابع میں ذکر نہیں ہے ۔ اس بارے یاد رہے کہ بلاذری(متوفی٢٧٩ہجری) نے بھی اس صلح کو اسی طرح ذکر کرتے ہوئے حضرت علی ابن ابیطالب ؑ کو اس صلح نامے[518] کا کاتب ذکر کیا ہے البتہ یہ قبول کرنا سخت ہے کیونکہ امیرالمومنینؑ تبوک میں موجود نہیں تھے۔ ہاں! اگر یہ احتمال دیا جائے کہ یہ معاہدہ تبوک سے واپسی پر مدینے میں لکھا گیا ہوتو تب یہ احتمال خط کے پہلے جملے سے بھی مطابقت رکھتا ہے کہ جہاں پر فرمایا:”تمہارے سفیر میرے پاس آئے تھے اور ابھی تمہارے دیہات کی طرف جا رہے ہیں۔”[519]

کچھ منابع میں مذکورہ معاہدہ اختصار کے ساتھ کچھ اس طرح ذکر ہوا ہے کہ بے شک وہ (اہل مقنا) خدا اور محمد(ص)کی پناہ میں ہوں گے اور ان کی بھی ذمہ داری ہے کہ ”اپنے کاتے ہوئے سوت” اور پھلوں کا چوتھا حصہ ادا کریں۔[520]

اس پر مستزاد رسول اللہ (ص) کا مقنا کے لوگوں کے ساتھ صلح کے معاہدہ کا ماجرا، اس کے علاوہ جو پہلے ذکر ہو چکا ہے، ذرا تفصیل کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔[521] لیکن شواہد اس کے جعلی ہونے کو فاش کرتے ہیں۔[522]

٥۔دومة الجندل کے عیسائیوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ

دومة االجندل مدینہ اور شام کی راہ میں ٧ منزل کے فاصلے پر شام کے نزدیک واقع تھا۔ یہ مقام ایک گاؤں اور قلعے پر مشتمل تھا یہاں اکیدر نامی ایک عیسائی حکمران تھا[523] ۔

سن ٩ہجری[524] میں تبوک میں مسلمانوں کے استقرار کے بعد ایک لشکر خالد بن ولید کی سرکردگی میں دومة الجندل کے قصد سے بھیجا گیا۔ اس سریے میں اکیدر اسیر ہوا اور جب اسے رسول اللہ (ص) کے پاس لایا گیا تو اس نے جزیہ کی بنیاد پر صلح کی[525]۔

اسی بنیاد پر صلح نامہ بھی لکھا گیا۔[526] مذکورہ ماجرے کے بارے میں معاہدے کا متن بھی موجود ہے، البتہ مذکورہ متن میں جزیہ کی طرف (یا اس کی مقدار کے بارے میں) کہیں بھی کوئی تھوڑا سا اشارہ بھی موجود نہیں ہے۔ بلکہ اس متن کے بعض حصوں میں اکیدر کے اسلام لانے کی تصریح ہوئی ہے۔ مثلا”اجب الی الاسلام و خلع الانداد و الاصنام”[527]

یہاں رسول خدا (ص)کے دومة الجندل کے لوگوں کی طرف خطاب کے اس حصے جس میں فرمایا:”نماز کو اپنے وقت پر قائم کرو اور زکوة ادا کرو۔[528] ”

اس کے باوجود معروف نظریہ یہ کہ اکیدر نے ہرگز اسلام قبول نہ کیا اور عیسائیت پر باقی رہا۔ اس نے آپ(ص) سے جزیہ کی بنیاد پر صلح کی[529] ۔اس بارے میں ابن اثیر (متوفی ٦٣٠ہجری) بڑی تاکید کے ساتھ کہتا ہے کہ جو کوئی کہےکہ اکیدرنےاسلام قبول کیا وہ فاش غلطی کا مرتکب ہوا ۔[530] واقدی کی روایت کے مطابق مذکورہ ماجرا اس طرح تھا کہ اکیدر کو اسی اسیری کی حالت میں مدینہ لایا گیا اور وہیں پر صلح عمل میں آئی۔[531]

ایک روایت کے مطابق رسول اللہ(ص) نے مسلمانوں کو دومة الجندل کی طرف اس وقت بھجوایا کہ جب آپ تبوک میں موجود تھے لیکن اس لشکرکی واپسی (اکیدر کے ساتھ) اس وقت ہوئی جب آپ مدینہ میں واپس تشریف لا چکے تھے[532] ۔ رسول اللہﷺ کی رحلت کے بعد اکیدر نے معاہدہ شکنی کی اور آخرکار حضرت عمربن نے اسے دومة الجندل سے نکال دیا۔[533]

٦۔تیماء کے یہودیوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ (بنی عادیا)

تیماء شام اور وادی القری کے درمیان ایک علاقہ تھا۔ بنی عادیہ کا گروہ اس سرزمین میں سکونت پذیر تھا[534] یہ لوگ یہودی تھے جبکہ سموآلی نامی ایک شخص ان کا حاکم تھا[535] تھوڑا پہلے بیان ہو چکا ہے کہ سن ٧ ہجری میں خیبر کی فتح کے بعد مسلمان وادی القری کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں سکونت پذیر یہودیوں پر غلبے کے بعد مساقاة کی بنیاد پر ان سےمعاہدہ کیا۔ اس دور میں ابھی تک جزیہ مقرر نہیں ہوا تھا لیکن اس کے باوجود بیشتر مؤرخین نے مذکورہ حوادث کے ذکر کے بعد خیبر، فدک اور وادی القری کے یہودیوں سے رسول خدا (ص) کی صلح کے بعد یہ لکھا ہے کہ کیونکہ تیماء کے یہودی مذکورہ واقعات سے آگاہ ہو گئے تھے اسی لئے انہوں نے آپ (س) سے جزیہ کی بناء پر صلح کی[536] ۔

اسی لئے ان کے اموال سرزمین[537] و اراضی خود انہی کے اختیار میں رہی۔[538] لیکن رسول خدا (ص)نے خیبر، فدک اور وادی القری کے یہودیوں سے سلوک کے برعکس، اچانک تیماء کے یہودیوں سے جزیہ کی بناء پر کیوں صلح کی؟َ یہ سوال تیما ء کے ساتھ صلح کی تاریخ کو مشکوک بنا دیتا ہے اس سوال کی وجہ سے ہمیں متاخر تاریخ کو معتبر سجھنا پڑے گا۔ اس بارے میں فقط یاقوت حموی (متوفی ٦٢٦ہجری) کا یہ نظریہ ہے کہ مذکورہ صلح ٩ہجری میں ہوئی[539] ۔

اس تاریخ کا اعبتار اس لحاظ سے قابل تائید ہے کہ مذکورہ صلح کے بعد رسول خدا(ص) نے یزید ابن ابوسفیان کو تیماء کا والی منصوب فرمایا[540]

اسی بناء پر یہ کہ یزید ابن ابی سفیان فتح مکہ کے موقع پر ٨ ہجری میں اسلام لایا ہے[541] معروف روایت ( غزوہ خیبر کے دوران بنی تیماء کے ساتھ ٧ ہجری میں صلح عمل میں آئی) کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر مستزاد مؤرخین نے بطور مختصر البتہ مشہور بیان میں تبوک کے واقعات کی روایت کی تصریح کی ہے کہ اہل عرب کے اسلام لانے کے بعد دومة الجندل، ایلہ اور تیماء کے لوگ خوفزدہ ہوئے اور رسول خدا(ص)سے جزیہ کی بنیاد پر صلح کی۔[542]

واضح ہے کہ اس روایت کی بناء پر تیماء کی صلح دومة الجندل اور ایلہ کے ساتھ واقع ہوئی ہے اور اس کا شمار تبوک کے واقعات میں ہوتا ہے۔

بہرحال مذکورہ صلح کے معاہدے کو اس طرح قلم بند کیا گیا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ صلح نامہ محمد(ص) کی طرف سے بنی عادیا[543] کے لئے ہے، ان کے لئے (ذمہ) امان ہے اور جزیہ کی ادائیگی ان کے ذمہ ہے۔ نہ کوئی ستم ہو گا اور نہ (جلاء ) جلاوطنی۔ یہ معاہدہ دائمی ہے، شب و روز کے دوام کےساتھ[544]”

تیماء کے یہودی جو اس سے پہلے رسول خدا (ص) کے دشمن شمار ہوتے تھے[545] جزیہ کی بنیاد پر صلح پر قائم رہے۔

اسی طرح یہ کہ جب خلیفہ دوم نے چاہا کہ یہودیوں کو حجاز کی سرزمین سے نکالا جائے تو صرف خیبر اور فدک کے یہودیوں کو نکالا جبکہ تیماء اور وادی القری کے ساکنین کو ان کی جگہ پر رہنے دیا کیونکہ مذکورہ علاقوں کو حجاز کی سرزمین سے خارج (اندرون شام) سمجھا جاتا تھا[546] ۔

ب:نجران کے عیسائیوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ

مکہ سے ٩١۰ کلومیٹر مشرق کی جانب یمن میں[547] نجران کی آباد سرزمین تھی[548] ، قحطانی نسل سے بنی الحارث کے لوگ (جنوبی عرب) اس جگہ رہتے تھے۔ ان سب کا ایک دین نہ تھا بلکہ بعض بت پرست، یہودی ، اور کچھ دینِ مسیحیت کے پیروکار تھے[549] وہ صورتحال کہ جو بعد میں بیان ہو گی، اس چیز کی دلیل ہے کہ عیسائی جداگانہ طور پر ایک مستقل فوج رکھتے تھے۔

رسول اللہ(ص) کی عیسائیوں کے ساتھ جزیہ کی بنیاد پر صلح ٢٤ ذی الحجہ ١٠ہجری [550] (ایک روایت کے مطابق ٢ہجری [551] کو ہوئی) پہلے رسول خدا (ص) نے نجران کے اسقف کی طرف خط بھیجا اور اس میں عیسائیوں کو شرک سے دوری اور توحیدپرستی کی دعوت دی آپ (ص) نے انہیں لکھا کہ انکار کی صورت میں جزیہ ادا کریں اور آخری راہ یہ ہے کہ جنگ کے لئے تیار ہو جائیں خط کا متن اس طرح تھا:

”ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کے پروردگار کے نام سے

محمد(ص) پیامبر خدا اور رسول خدا کی طرف سے اسقف نجران اور اہل نجران کے لئے ہے، تم امان اور سلامتی میں ہو، پس بے شک میں تمہیں بندوں کی پرستش کی بجائے خدا کی پرستش کی دعوت دیتا ہوں اور تمہیں بندوں کی ولایت کی بجائے خدا کی ولایت کی جانب دعوت دیتا ہوں۔ اگر تم اجتناب کرو گے تو جزیہ مقرر کیا جائے گا اور اگر جزیہ دینے سے بھی انکار کرو گے تو اس صورت میں تمہارے ساتھ اعلان جنگ کرتا ہوں، والسلام[552] ۔”

نجران کا اسقف جس کا نام ابوحارثہ تھا آپ (ص) کا خط پڑھنے کے بعد کافی پریشان ہوا اور دوسرے عیسائیوں سے مشورہ کیا۔ آخرکار یہ لوگ اس نتیجے پر پہنچے کہ مدینہ میں رسول اللہ (ص) کے پاس ایک وفد بھیجیں۔بنابراین ٦٠ افراد پر مشتمل عیسائیوں کا وفد ٣ افراد کی سرکردگی (مذکورہ اسقف، عاقب، سید لقب کے دو دوسرے افراد) میں مدینہ پہنچا۔ مختصر یہ کہ سورۂ آل عمران[553] کی ٦۱ویں آیت کی بنیاد پر آپ(ص) نے عیسائیوں کے اس وفد کو تجویز کیا کہ مباہلہ اور ملاعنہ کریں! [554] مباہلہ اس صورت میں ہو گا کہ فریقین میں سے ہر ایک خود کو حق پر جبکہ دوسرے کو باطل پر سمجھے اور یہ کہ دونوں فریق اپنے نمائندے منتخب کریں اور ایک جگہ پر اکٹھے ہو جائیں اور وہاں ایک دوسرے پر نفرین کریں اور کہیں: ”خدا کی اس پر لعنت ہو جو ستمکار ہے[555]۔”

پہلے تو عیسائی جماعت نے قبول کیا کہ آپ (ص) سے مباہلہ کیا جائے لیکن ابوحارثہ نے اپنی جماعت سے کہا: ”دیکھتے ہیں محمد(ص) کس کو اپنے ساتھ لاتے ہیں۔” جیسے ہی انہوں نے اپنے مقام سے حضرت امام علیؑ، حضرت فاطمہؑ، حضرت امام حسنؑ اورحضرت امام حسینؑ کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تشریف لاتے دیکھا تو ایک دوسرے سے کہا:”یہ وہ چہرے ہیں اگر خدا کو قسم دیں کہ پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں تو پہاڑ بھی اپنی جگہ چھوڑ دیں گے۔

پھر یہ لوگ مباہلہ کرنے سے دستبردار ہو گئے اور جزیہ کی بنیاد پر صلح کی۔[556] رسول اللہ(ص) نے مذکورہ صلح کو صحیفہ میں اس تحریر فرمایا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ تحریر محمد (ص) رسول خدا کی طرف سے نجرانیوں کے لئے ہے۔ ان کا حکم جانوروں، زراعت، غلاموں، ہر محصول، سونا اور چاندی کی نسبت ان (نجرانیوں) پر نافذ ہے لیکن محمد (ص) نے احسان کیا اور ان چیزوں کو انہیں بخش دیا، دوہزار جامے، ہر ایک کی قیمت چالیس درہم، ان کو ادا کرنا ہوں گے۔ رجب کے ہر مہینے میں ہزار جامے، اسی طرح صفرکے مہینے میں ہزار جامے ادا کریں۔ ہر جامے کی قیمت ٤٠ درہم ہو۔ اگر جامے کم پڑ جائیں تو ان کےعلاوہ ان سے ذرہ، گھوڑا، اونٹ یا جنس اس کے تبادلے میں حساب کر کے لے لئے جائیں اور نجرانیوں پر لازم ہے کہ میرے سفیروں کو ایک ماہ (یا اس سے کم) نجران میں قیام کرنے دیں اور ان کو ایک ماہ سے زیادہ نہ ٹھہرائیں۔ جب کبھی میرے سفیر یمن میں لوٹ لیے جائیں تو نجرانیوں کا فرض ہے کہ ٣٠ ذرہ، ٣٠ گھوڑے اور ٣٠ اونٹ ان کو بطور قرض مہیا کریں۔ نجران کو زرہیں، گھوڑے اور اونٹ ہر صورت میں واپس کئے جائیں گے۔نجران کے لوگوں کے لئے ان کی جان، دین، سرزمین، اموال، عبادت گاہیں، اسقفوں کے موارد میں پناہ و امان خدا و رسول (ص) کے ذمے ہے۔(ان کے غائب و حاضر اور ان کے کاروانوں کے لئے بھی) جو کچھ ان کے ذمے ہے، اس پر کوئی تبدیلی نہ ہو گی۔ ان کے حقوق اور ”شمائل”[557] میں بھی تبدیلی نہیں ہو گی اور عہد کرنے والوں میں سے جو بھی سود کھائے گا میں اس کی ضمانت سے بری ہوں گا۔[558]

اس صلح نامہ کے متعلق کچھ اور طرح کی روایت کا بھی وجود ہے[559] ۔ جو مفہوم کے لحاظ سے یکسانیت کی حامل جبکہ عبارت کے لحاظ سے بھی دوسری روایت سے تقریبا قریب ہے۔ یہاں دونکات اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلا یہ کہ یعقوبی (متوفی اواخر تیسری ہجری) کے بیان کے مطابق نجران کے ایک بزرگ نے آپ (ص) سے عرض کیا: ”ہم اس وجہ سے پریشان ہیں کہ مبادا دوسروں کے جرم وگناہ کی وجہ سے ہم سے بازپرس ہو۔’

رسول اللہ(ص) نے فرمایا:”صلح کے متن میں اس طرح اضافہ کیا جائے اور لکھا جائے کہ کسی بھی شخص کا کسی دوسرے شخص کے جرم و گناہ کی وجہ سے مواخذہ نہیں ہوگا[560] ۔” دوسرا یہ کہ تمام تاریخی منابع میں یہ نکتہ اسی طرح ہے کہ رسول اللہ (ص) نے نجرانیوں کو سودخوری سے منع فرمایا اور اپنے معاہدہ کو سودخوروں سے مبرا قرار دیا۔

اس بناء پر کہا گیا ہے کہ نجران کے عیسائی حضرت عمربن خطاب کے دور خلافت تک اسی جگہ ساکن رہے، لیکن اس کے بعد کیونکہ ان میں سودخوری عام ہو گئی، حضرت عمربن خطاب نے ان کو نجران سے نکال دیا[561] ۔ اسی طرح یہ بھی بیان ہوا ہے کہ حضرت علی ابن ابیطالب ؑ اپنے دورحکومت میں اس بات پر راضی نہ ہوئےکہ عیسائیوں کو واپسی کی اجازت دیں[562] قابل ذکر ہے کہ ابن اثیر(٥٥٥۔٦٣٠) نے اپنی کتاب الکامل فی التاریخ میں آخری دور میں نجران کے عیسائیوں کے حالات کافی تفصیل سے بیان کئے ہیں [563]لیکن اس تفصیل کابیان ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ یہاں پر یاد رہے کہ نجران کے عیسائی جب تک صلح نامہ پر وفادار رہے اور جزیہ ادا کرتے رہے، اس مالی قیمت کے عوض ان کی جان، مال، دین اور سرزمین محفوظ تھی۔

یہی وجہ ہے کہ تاریخی منابع میں یہ واقعہ صلح[564] کی تعبیر کے ساتھ ذکر ہوا ہے جبکہ نجران کے عیسائی بھی ”اہل صلح” کے عنوان سے ذکر ہوئے ہیں[565]۔

ج۔بحرین، ہجر اور عمان کے زرتشتیوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ

تاریخی منابع میں مورد گفتگو ”بحرین” سے مراد خلیج فارس کی (جنوبی) ساحلی سرزمین تھی جو بصرہ سے عمان تک پھیلی ہوئی تھی[566] ۔

ہجر دراصل بحرین کا مرکزی شہر تھا بعض اوقات ہجر کا اطلاق بحرین کے تمام زیرتسلط علاقے پر ہوتا تھا[567] اس زیرتسلط علاقے میں عمان بھی شامل تھا جو ساحلی مشرقی سرزمینوں (اوقیانوس ہند کے کنارے اور دریائے عمان) پر مشتمل تھا اور اس میں بڑے بڑے شہر شامل تھے[568] ۔ مذکورہ تمام علاقے ساسانی بادشاہ (حکومت ایران) کے زیر اثر تھے جیسا کہ معروف مؤرخ بلاذری (متوفی ٢٧٩ہجری) واضح طور پر کہتا ہے: ”بحرین کی سرزمین پارسی مملکت کے زیر اثر تھی[569] ۔

عمان پر بھی بحرین کے حالات و واقعات اثرانداز ہوتے تھے [570] ان سرزمینوں کے لوگ زرتشتی، یہودی اور عیسائی تھے لیکن کچھ لوگ مشرک اور بت پرست بھی تھے[571]۔” عمان کے بارے تصریح موجود ہے کہ اس سرزمین میں زرتشتی رہتے تھے اور وہ عرب جو ایک گمان کی بنیاد پر بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ ان کے اردگرد (صحرانشینی کی صورت میں) رہتے تھے۔[572]

بہرحال رسول اللہ (ص) نے بحرین، ہجر[573] اور عمان[574] میں رہنے والے زرتشتیوں سے جزیہ لیا اور یہ عمل سنت رسول(ص) کی صورت میں جاری رہا۔[575] لیکن تاریخی نقطہ نظر کے مطابق رسول اللہ(ص) نے پہلے ان علاقوں کے امیروں کو خط بھجوائےاور انہیں اسلام کی دعوت دی۔

اس دور میں بحرین اور ہجر میں ساسانی بادشاہ کی طرف سے دو افراد صاحب اختیارتھے ایک منذربن ساوی ،جس کے پاس عرب کے امور کی باگ ڈور تھی جبکہ دوسرا سرحد پر مامور یسبخت تھا، رسول اللہ(ص) نے ان دونوں(ہر ایک کی طرف علیحدہ) کی طرف خط لکھا۔[576]

اس بنیا د پر آپ(ص) نے بحرین کے لوگوں کو اسلام کی قبولیت یا جزیہ کی ادائیگی میں سے کسی ایک کا اختیار دیا اور آخرکار زرتشتیوں اور یہودیوں کی طرف (نہ کہ مشرکین) سے جزیہ قبول فرمایا[577]۔

اس ماجرے کے بارے ابن سعد (متوفی ٢٣٠ہجری) کہتا ہے کہ رسول اللہ(ص) کا خط وصول کرنے کے بعد منذر بن ساوی نے اسلام قبول کر لیا پھر اس نے رسول اللہ (ص) کی طرف خط لکھا اور دین اسلام کی پیروی کا اعلان کیا اور آپ(ص) کواطلاع دی کہ بحرین میں زرتشتی اور یہودی بھی رہتے ہیں ساتھ ہی یہ بھی دیافت کیا کہ ان کے بارے میری کیا ذمہ داری ہے آپ (ص) نے اس کی طرف خط لکھا اور تصریح فرمائی کہ جو کوئی بھی یہود یا مجوس کے دین پر باقی رہے ہر صورت جزیہ ادا کرے، اس سے آگے یہ مؤرخ لکھتا ہے کہ آپ(ص) نے علیحدہ سے ایک خط ہجر کے زرتشتیوں کو لکھا اور ان کے لئے اسلام کو بیان فرمایا اور انہیں کہا کہ اگر اسلام قبول نہیں کرتے تو جزیہ ادا کرو[578] ۔

رسول اللہ (ص) نے ہجر کے لوگوں کے لئے کچھ احکام اور شرائط مقرر فرمائیں جو درج ذیل ہیں:

١۔مسلمانوں کے لئے زرتشتیوں کا ذبیحہ کھانا درست نہیں ہے اور زرتشتی عورت سے نکاح بھی جائز نہیں ہے۔[579]

٢۔زرتشتی اپنی اولاد (بچیوں اور بچوں) کو آئین زرتشت کا پیروکار نہ بنائیں۔

٣۔ان کامال خود ان کےلئے ہوگا، سوائےآتش کدوں کے، کہ یہ خدا اور اس کے رسول (ص)کے لئے ہیں[580]۔

آخری نکتے کا مطلب یہ تھا کہ آتش کدے مسلمانوں کے حوالے کر دیئے جائیں[581] ۔

قابل ذکر ہے کہ عمان کی سرزمین کے بارے بھی ماجرا اسی طرح تھا۔ پہلے رسول اللہ (ص) نے عمان کے جیفر اور عباد نامی دو فرمانرواؤں (جکندی کے بیٹوں) کے نام خط لکھا اور ان کے لئے اسلام بیان کیا۔ ان دونوں نے اسلام قبول کر لیا،[582] آہستہ آہستہ عمان کے تمام مشرکین نے اسلام قبول کر لیا[583] ۔

لیکن عمان کے یہودی اپنے دین پر باقی رہے اور آپ (ص)کو جزیہ ادا کیا[584] ۔یہاں پر اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ واقعات کس دور میں ہوئے۔اس بارے یاد رہے کہ طبری نے ابن اسحاق سے نقل کے زریعے بحرین اور عمان کے امیروں کی طرف رسول اللہ (ص) کے مکاتبات کو ٦ہجری میں ذکر کیا ہے[585] ۔ لیکن واقدی کا نظریہ ہے کہ یہ مکاتبات سن ٨ ہجری میں ہوئے ہیں[586] ۔ اس بارے جاننا چاہیے کہ دونوں روایات میں عمان کے امیروں کی طرف جانے والے سفیر کے طور پر (عمروبن عاص) کا نام ذکر ہوا ہے جس نے خود ٨ ہجری میں اسلام قبول کیا ہے[587] ۔

اس بنا پر واقدی کی روایت ابن اسحاق کی روایت کی نسبت ترجیح کی حامل ہے۔ (طبری کی نقل کے مطابق) اس بناء پر حضور اکرم (ص) کا عمان کے امیروں سے مکاتبہ ٨ہجری میں ہوا ہو گا۔ اسی طرح بحرین کے امیروں سے رسول اللہ(ص) کا مکاتبہ آپ کی جعرانہ سے واپسی پر ہوا[588] جو فتح مکہ کے بعد ٨ ہجری میں پیش آیا ہے[589] ۔

بحرین و عمان کے زرتشتیوں صلح کی تاریخ معلوم نہیں ہے۔ صرف یہ واضح ہے کہ مذکورہ صلح مشرکین کے اسلام لانے کے بعد واقع ہوئی تھی[590] اس بناء پر اس مصالحت کا تاریخی عرصہ٨ ہجری کے بعد اور آنحضرتﷺ کی رحلت سے پہلے تک تصور کیاجاسکتا ہے۔[591] البتہ آپ(ص) کی رحلت کے بعد حضرت ابوبکر کے دورخلافت میں مذکورہ علاقوں کے لوگ مرتد ہو گئے تھے کہ جس کی علیحدہ سے شرح کی ضرورت ہے[592]۔

               نتیجہ

صلح اس وقت تحقیق پذیر ہوتی ہے جب قتل و غارت درمیان سے اٹھ جائے اور صلح و آتشی اس کی جگہ لے لے۔ اس بنیاد پر صلح ہمیشہ جنگ کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ہی تحقق پذیر ہوتی ہے۔ رسول اللہ(ص) کی یثرب کی طرف ہجرت اور وہاں پر اسلامی حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی صلح اور جنگ کا آغاز ہوا اور زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ کافی جنگیں اور صلح کے معاہدے وقوع پزیر ہوئے۔ اگرچہ اس وقت تک رسول اللہ(ص) کی جنگوں کے بارے میں بہت زیادہ تحقیقات انجام پا چکی ہیں لیکن آپ(ص)کے صلح کے معاہدوں کے بارے تحقیقات انجام نہیں دی گئیں،یہی چیز باعث بنی کہ بعض مستشرقین اسلام کو جنگ اور تلوار کے دین کا نام دیں۔ اس تحقیق کے زریعے تاریخِ اسلام کے اس گوشے کو اجاگر کرنے کی کوشش کوشش کی گئی ہے ۔

عربی زبان میں صلح کے علاوہ، دوسرے الفاظ مثلا ”مسالمہ” ”معادعہ” اور ”مہادنہ” بھی جنگ سے کنارہ کشی اور قتل وغارت سے پرہیز کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں اور یہ الفاظ صلح کے مترادف ہیں۔ اسی لئے جنگ سے کنارہ کشی کا مذکورہ مفہوم رسول اللہ (ص) کے صلح کے معاہدوں سے آشنائی کے لئے تحقیق حاضر کا معیار شمار ہوتا ہے۔ وہ معیار جو تاریخی آگاہی سے حاصل کیا گیا ہے اور نیز آجکل کی اصطلاحات کے ساتھ بھی میل رکھتا ہے اسی معیار کی بنیاد پر ہی مختلف قسم کے صلح کے معاہدوں کا ذکر ہوگا۔

اسلام کے پہلے دور میں، عرب کے لوگوں نے مختلف موارد میں صلح اور آشتی کا تجربہ کیا تھا۔ اس حوالے سے تاریخ مکہ میں دو اہم صلح کے معاہدے ہوئے ،اس وقت جب قصی بن کلاب اور ان کے اتحادی مکہ کے حاکمان وقت (قبیلہ خزاعہ) کے آمنے سامنے ہوئے، خونی جنگ کے بعد دونوں نے ایک دوسرے سے صلح کی، اس صلح میں طےہوا کہ مکہ کی زمامِ اقتدار قصی کے سپرد کر دی جائے جبکہ قبیلہ خزاعہ کے لوگوں کو اجازت ہے کہ وہ مکہ شہر کی اطراف میں رہیں۔ اس صلح کے بعد قصی نے مکہ کے امور کو وسعت دی اور اپنے قبیلہ (قریش) کو سیادت تک پہنچایا۔ پھر ایک اور صلح بنی عبدمناف اور بنی عبدالدار (ہر دو قریش سے) کے درمیان امور مکہ کی تقسیم کے مسئلہ پر عمل میں آئی، یہ صلح دونوں خاندانوں میں جنگ اور لڑائی کے درمیان رکاوٹ بن گئی فریقین نے اس وقت ،جب ایک دوسرے سے لڑنے کے لیے تیار کھڑے تھے، دو تاریخی معاہدے منعقد کیے اسی لیے مطیبین اور احلاف کے ناموں سے معروف ہوئے۔ رسول اللہ (ص) کے صلح کے معاہدوں میں سے برجستہ ترین صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہے کہ جس کو معیار قرار دیا جا سکتا ہے اور دوسرے صلح کے موارد کو قبل از صلح حدیبیہ اور بعد از صلح حدیبیہ قرار دیتے ہوئے تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔

الف:حدیبیہ سے پہلے کے صلح کے معاہدے

الف و ب:بنی ضمرہ اور بنی مدلج کے ساتھ صلح کا معاہدہ

رسول اللہ (ص)کوسن ٢ ہجری میں دو مختلف موارد میں قریش کے تجارتی کاروان کی تعقیب سے، یہ موقع ملا کہ مشرکین کے مذکورہ دو خاندانوں سے دوستی اور جنگ سے پرہیز کا عہد لے سکیں اور اس کو مکتوب فرمائیں۔ اس کے بعد مسلمانوں اور مذکورہ دونوں قبیلوں کے درمیان دشمنی ختم ہو گئی۔

ج:یثرب کے یہودیوں سے صلح

اگرچہ یہ لوگ دینی حوالے سے مسلمانوں سے مختلف تھے، لیکن اگر بیرونی دشمنوں کی طرف سے یثرب (مدینہ النبی) (ص) پر حملہ ہوتا تو احتمال تھا کہ یہ فرق رقابت اور دشمنی کی شکل میں ظاہر ہو جاتا۔ اسی لئے ان کی ممکنہ دشمنی کو ختم کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے ان سے صلح کا معاہدہ کیا۔ یہودی دو مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ آپ(ص) نے علیحدہ علیحدہ صلح کا معاہدہ کیا۔ پہلا گروہ (انصاری یہودی) تھے جو نسبی اعتبار سے اوس و خزرج کے قبیلوں میں شمار ہوتے تھے۔ رسول اللہ(ص) نے یثرب کے عمومی معاہدہ کے ضمن میں مذکورہ یہودیوں کومسلمانوں کے ساتھ امت متحدہ کے طور پر متعارف کروایا،کہ یہ اپنے دین پر باقی رہ سکتے تھے، لیکن اس شرط پر کہ دھوکہ و فریب سے کام نہ لیں اور یثرب کے دفاع کے لئے مسلمانوں کی مدد کریں۔ دوسرے گروہ میں بنی قینقاع، بنی النصیر اور بنی قریظہ کے یہودی تھے جنہوں نے رسول اللہ(ص) سے عہد کیا کہ اپنے جان و مال اور دین کی حفاظت کے عوض مسلمانوں کے معاملے میں غیرجانبدار رہیں گے اور مسلمانوں کے دشمن کی مدد نہیں کریں گے اور اگر یہ ایسا کریں تو رسول خدا(ص) کے لئے روا ہو گا کہ وہ ان کے مردوں کو قتل جبکہ بچوں اور عورتوں کو اسیر بنا کر ان کے اموال کو ضبط کر لیں۔ اس بارے اگرچہ پہلے گروہ کے انجام کے بارے کوئی اطلاع دسترس میں نہیں ہے لیکن دوسرے گروہ کے بارے واضح ہے کہ اس گروہ کے ہرتینوں نے معاہدہ شکنی کی جس کے نتیجے میں یہ سب مجازات کا شکار ہوئے۔

د۔بدر اور خندق میں صلح کی تجویز

غزوہ بدر میں جنگ کے آغاز سے پہلے رسول اللہ(ص)نے قریش کو تجویز کیا کہ دشمنی سے ہاتھ اٹھا لیں لیکن یہ تجویز بے نتیجہ رہی اور جنگ وقوع پذیرہو کر رہی ۔ اسی طرح غزوہ خندق میں یثرب کے محاصرہ میں آپ(ص) نے کوشش کی کہ قبیلہ غطفان (حملہ آورقبیلوں میں سے ایک قبیلہ) کے ساتھ صلح کے معاہدہ کے ذریعے دشمن کی فوج میں پھوٹ ڈالیں ،آپ(ص) نے غطفانیوں کو تجویز کیا کہ یثرب کے خرما کا تیسرا حصہ لے کر محاصرے سے دستبردار ہو جایئں لیکن انصار نے اس صلح کی مخالفت کی اور صلح وقوع پذیر نہ ہو سکی۔

ہ۔ خزاعہ کے ساتھ پیمان

جہاں قبیلۂ خزاعہ کے لوگ مشرک تھے وہاں یہ احتمال بھی تھا کہ یہ لوگ رسول اللہ(ص) سے دشمنی بھی کریں گے لیکن اس کے برخلاف خزاعہ کے لوگ آپ (ص) کے وفادار ثابت ہوئے یہ امر قبیلہ خزاعہ اور عبدالمطلب کے درمیان عہدنامہ سے مربوط وہ معاہدہ ہے جوگو کہ مشترک دفاع کی بنیاد پر تھا لیکن رسول خدا(ص) کے دور میں صلح اور دوستی کا معاہدہ ثابت ہوا۔ اسی طرح صلح حدیبیہ کے بعد راہ ہموار ہوئی کہ قبیلہ خزاعہ کے لوگ کھلم کھلا آپ(ص) کے ساتھ اتحاد کر سکیں۔

٢۔صلح حدیبیہ

سن ٦ ہجری میں مسلمان حج کے قصد سے مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے لیکن دوسری طرف سے قریش نے ان کو روکنے کا منصوبہ بنایا اس لئے مسلمانوں کے کاروان کو حدیبیہ کے علاقے میں رکنا کرنا پڑا، قریش مصمم تھے کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے جبکہ دوسری طرف پیغمبر اکرم(ص) کا دوٹوک مؤقف اس طرح تھا:

”ہم کسی سے لڑنے کے لئے نہیں آئے، ہم اس گھر کا طواف کرنے آئے ہیں۔ پس جو کوئی بھی ہمیں اس کام سے روکے گا ہم اس سے لڑیں گے۔”

قریش کے پیش نظر جنگ جوئی تھی جبکہ اس کے برعکس رسول اللہ(ص) نے ایک طرف انہیں صلح کی طرف بلایا تو دوسری طرف ان سے نرمی اور قاطعیت کے ساتھ بات کی۔ اس بنیاد پر رسول خدا(ص) کا جنگ سے پرہیز اور پھر فریقین کے درمیان منصف کا قرار پانا ،ممکنہ شدید جنگ کے شعلوں کو خاموش کرنے کا سبب بنا۔ اسی دوران، قریش کے جنگ پر اصرار اوران کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے آپ(ص) نے مسلمانوں کی وفاداری پر تجدید عہد (بیعت رضوان) لیا جس نے قریش کے حوصلے پست کر دیئے اور انہیں خوفزدہ کر دیا۔

اسی لئے تو قریش صلح پر آمادہ ہوئے اس کےعلاوہ ان کے لئے صلح اس لحاظ سے سنہری موقع تھی کہ اس سے ان کی تجارت کو دوبارہ نئی زندگی ملی، ان کے لئے یہ پریشانی بھی درد سر بنی ہوئی تھی کہ عرب کے قبائل یہ گمان نہ کریں کہ قریش کمزور ہو گئے ہیں!! اسی لئے انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر صلح میں یہ شرط رکھی کہ ”مسلمان اس سال مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے بلکہ اس سال حدیبیہ سے ہی واپس چلے جائیں۔” اس طرح قریش نے مطالبہ کیا کہ جو لوگ مکہ سے مدینہ جائیں اور وہاں پر پناہ طلب کریں ان کو یکطرفہ طور پر مکہ واپس بھجوا دیا جائے۔ اس پر مستزاد یہ کہ قریش کے نمائندے نے بہت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوے کہا کہ صلح نامہ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی جگہ بسمک اللھم لکھا جائے نیز رسول اللہ (ص)حذف کیا جائے۔قریش کی اس ہٹ دھرمی اور شرائط کے باوجود رسول خدا(ص) نے نرمی اور بردباری سے کام لیتے ہوئے قریش کے مطالبات کو قبول کیا لیکن یہ شرائط آپ حضرت (ص)کے اصحاب پر اس طرح گراں گزریں کہ ان کی ناراضگی عمومی طور پر ظاہر ہونے لگی۔ مذکورہ شرائط سے قطع نظر صلح نامے میں ایسی شرائط بھی تھیں جو آنحضرت(ص) کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل تھیں۔ مثلاً:

١۔دس سال کے لئے جنگ بندی

٢۔حفظ جان و مال

٣۔فریقین کی جانب سے عہد نامہ کا احترم

٤۔آئندہ سال مسلمانوں کو خدا کے گھر کی زیارت کی اجازت

یہ صلح مسلمانوں کے لئے انتہائی اہم نتائج و ثمرات کی حامل تھی جو اس طرح تھے:

ا۔اسلامی حکومت مشرکین قریش کی طرف سے رسمی طور پر تسلیم کر لی گئی، یہاں تک کہ قریش نے قبول کیا کہ وہ اب مسلمانوں سے خیانت نہیں کریں گے۔

ب۔مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اسلام میں وسعت پیدا ہوئی کیونکہ اس صلح کے بعد قریش کے لوگ رسول اللہ(ص) کی دوسرے لوگوں سے بات چیت کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں تھے۔

ج۔تبلیغی، سیاسی اور فوجی حوالے سے رسول اللہ(ص) کی فعالیت میں اضافہ ہوا جیسا کہ اس صلح کے بعد آپ(ص) نے خیبر کو فتح کیا۔ نیز اپنے سفیروں کے ذریعے دوسری سلطنتوں کے بادشاہوں اور امیروں کو اسلام کی دعوت دی۔

د۔مسلمان حج کی ادائیگی کے زریعے عرب کی دوسری اقوام سے قریب ہوئے، اس لئے کہ حج کے مراسم عرب میں بہت پہلے سے رائج تھے آخرکار یہی نزدیکی باعث بنی کہ عربوں کے دل اسلام کی طرف مائل ہوئے۔

قابل ذکر ہے کہ آخرمیں قریش نے خود رسول اللہ(ص) سے درخواست کی کہ مکہ سے مدینہ جانے والوں کو واپس کرنے کی شرط کو ختم کر دیا جائے اور ان کو مدینہ میں پناہ دے دی جائے۔ اسی طرح ٧ہجری میں مسلمان مکہ میں داخل ہوئے اور عمرة القضا ادا کیا۔ اس کے بعد صلح کو صرف ٢٢ ماہ گزرے تھے کہ قریش نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کر ڈالی اور رسول اللہ(ص) کے اتحادی بنی خزاعہ سے لڑنے کے لئے ان کے دشمنوں کی مدد کی اور بنوخزاعہ پر شب خون مارا۔ یہی امر باعث بنا کہ مسلمان رسول اللہ(ص) کے فرمان کے مطابق مکہ کو فتح کریں اسی طرح مکہ شہر میں مشرکین کی حاکمیت اختتام کو پہنچی۔

               ٣۔ بعد ازحدیبیہ صلح کے معاہدے

صلح غزوہ خیبر

خیبر جزیرة العرب میں مضبوط ترین یہودی علاقہ تھا ایک طرف اس کے رہائشی مدینہ پر حملہ کے منصوبے میں شامل تھے تو دوسری طرف مدینہ سے نکالے گئے یہودیوں کے لئے خیبر مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا مرکز بن چکا تھا۔ اسی وجہ سے خیبر مسلمانوں کے لئے بہت بڑا ”باالقوة” خطرہ تھا کہ اس خطرے کو بھی مسلمانوں نے ٧ہجری میں ختم کر دیا۔ خیبر میں متعدد قلعے تھے جو تین حصوں پر مشتمل تھے۔ ”نطاق”، ”شق” اور ”کتیبہ”۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کے فوجی غلبے کی وجہ سے نطق اور شق مسلمانوں کے تصرف میں آئے لیکن جب جنگ کا دائرہ کتیبہ تک بڑھا تو خیبریوں نے اپنی حتمی شکست کو دیکھتے ہوئے صلح کی پیشکش کی اورصلح کا معاہدہ عمل میں آیا۔ اس صلح کے معاہدہ کی بنیاد پر اہل ِخیبر امان میں تھے قتل و اسارت سے بھی بری تھے، لیکن انہیں ہرصورت خیبر کو چھوڑنا تھا لیکن یہودیوں نے حضرت رسول خدا(ص) سے درخواست کی کہ انہیں خیبر کے نخلستانوں میں کام پر لگا دیا جائے۔ آپ(ص) نے قبول فرمایا اور یہ طے پایا کہ یہ لوگ وہاں کام کریں اور نصف محصول کا حصہ وصول کریں۔

ب:فدک کے یہودیوں سے صلح

ہرطرح کی ممکنہ جنگ سے پہلے فدک کے لوگوں نے بھی ایک مرحلہ میں درخواست کی کہ اس سرزمین کو چھوڑ دیں گے لیکن دوسرے مرحلہ میں درخواست کی کہ انہیں بھی خیبریوں کی طرح کام پر لگا دیا جائے۔ یوں حضرت رسول اللہ(ص) اور ان کے درمیان کام کی قرارداد وجود میں آئی جس کے مطابق محصول کا آدھا حصہ فدک کے یہودیوں کا جبکہ آدھا حصہ رسول خداﷺ کا تھا۔

ج:وادی القری کے یہودیوں سے صلح

اس کے بعد جب وادی القری مسلمانوں کے فوجی غلبہ کی وجہ سے ان کے تصرف میں آئی تو رسول اللہ(ص) نے یہودیوں کے نخلستانوں کو خود انہی کے سپرد کر دیا اور انہیں کام پر لگا دیا۔ بنابرایں وادی القری میں سیاسی اور فوجی معاہدہ نہ تھا بلکہ یہ صرف کام کا ایک معاہدہ تھا۔

د:جزیہ کی بنیاد پر صلح

جزیہ سالانہ مالی ادائیگی ہے جو اسلامی حاکم اہل کتاب (مسیحی، یہودی، زرتشتی) پر مقرر کرتا ہے۔ اس مال کی ادائیگی کے عوض اسلامی حکومت کے ذمہ اہل کتاب کے جان و مال کی حفاظت ہوتی ہے جزیہ کی بناء پر صلح ٩ہجری سے شروع ہوئی اس کے بعد رسول اللہﷺ نے درج ذیل موارد میں جزیہ کی بنیاد پر صلح کے معاہدے کئے:

١۔غزوہ تبوک میں صلح کے معاہدے

مسلمان جو روم کے لشکر سے مقابلے کے لئے تبوک تک آئے ہوئے تھے ،کو سنہری موقع ملا کہ اس سرزمین کے یہودی اور عیسائی لوگوں کے لئے اسلام بیان کر سکیں البتہ ان لوگوں نے اسلام قبول نہ کیااور جزیہ کی بنیاد پر آپ(ص) سے صلح کا معاہدہ کیا ۔ مذکورہ گروہ درج ذیل تھے:

١۔تبوک کے اردگرد کے لوگ

٢۔ایلہ کے عیسائی

٣۔اذرح اور جربا کے یہودی

٤۔مقنا کے یہودی

٥۔دومة الجندل کے عیسائی

٦۔تیماء کے یہودی

٢۔نجران کے عیسائیوں سے صلح

نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد پیغمبر اکرمﷺ کے پاس آیا پہلے انہوں نے کہا کہ آپ (ص)سے مباہلہ کریں گے لیکن جب انہوں نے اپنے مقام سے حضرت امام علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا، حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کو رسول خدا(ص) کے ہمراہ تشریف لاتے دیکھا تو مباہلہ سے دستبردار ہو گئے اور جزیہ کی بنیاد پر صلح کی۔

٣۔بحرین، ہجر اور عمان کے زرتشتیوں سے صلح

رسول اللہ(ص) نے ان علاقوں کے لوگوں سے بھی جزیہ کی بناء پر صلح کی۔ یہاں پر توجہ رہے کہ گو کہ جزیہ یکطرفہ طور پر مال کی ادائیگی تھی لیکن اس ادائیگی کے عوض اہل کتاب کو اختیار تھا کہ اپنے دین پر باقی رہیں جبکہ ان کے جان و مال بھی امان میں تھے۔

مختصر یہ کہ رسول اللہ(ص) کا اصلی ہدف و مقصد اسلام کی دعوت اور انسانیت کو گمراہی سے نجات دلانا تھا۔ اس کے باوجود آپ (ص) نے مذکورہ اہداف تک رسائی کے لئے ہمیشہ صلح کو جنگ پر اور دوستی کو دشمنی پر ترجیح دی۔ یہ انتخاب اور ترجیح حقیقی تھی صرف ظاہری نہ تھی۔

               تجویز

اس تحریر میں رسول اکرمﷺ کے صلح کے معاہدوں کا تجزیہ ہوا اس میں صرف صدر اسلام کا دور شامل تھا۔ درج ذیل موارد میں تکمیلی تحقیقات انجام دینے کی تجویزدی جاتی ہے۔

١۔ صدر اسلام کے دوسرے حصے میں ہونے والے صلح کے معاہدوں کی تاریخی تحقیق (کم از کم عصر خلافت سے صلح امام حسن ؑتک)

٢۔ مشرکین کے ساتھ کئے گئے صلح کے معاہدوں کے دوام کے بارے میں تحقیق ، اس بارے قرآن کریم کی سورئہ برائت کی ابتدائی آیات کو مد نظر رکھا جائے۔

٣۔ اسی طرح جن گروہوں سے صلح کی گئی، کے سیاسی مقام کی بھی تحقیق ہونی چاہیے۔

٤۔ صدر اسلام کے صلح کے معاہدوں کےفقہی اور قانونی نظریات پر اثرات کے بارے تحقیق، اور صلح کے ان معاہدوں کے حوالے سے مسلمان فقہاء اور قانون دانوں کے نقاط ضعف و قوت کی وضاحت۔

امید ہے کہ محققین کی محنت سے اسلام میں صلح جوئی اور صلح قبول کرنے کی روش، نیز اس روش پر حاکم قوانین کی وضاحت ہو گی۔

صلح کے معاہدوں کا چارٹ

نمبرشمار تاریخ مقام قوم صلح کی شقیں
1 1ہجری مدینہ یہودِ انصار(وہ انصاری جو یہودی ہو گئے تھے۔) جان و مال کی امان ( ہر دو طرف) یہودیوں کو اپنے دین پر باقی رہنے میں آزادی؛مدینہ پر حملہ کی صورت میں دفاع کے لیے یہودیوں کی مسلمانوں کی مدد۔
2تا4 1ہجری مدینہ یہودی قبائل؛ بنی قینقاع، بنی نضیر و بنی قریظہ(مختلف تین موارد میں) جان و مال کی امان (ہر دو طرف) یہودیوں کو اپنے دین پر باقی رہنے میں آزادی؛مسلمانوں کے معاملے میں یہودیوں کی غیر جانبداری (یہودی اسلام کے دشمنوں کی مدد نہیں کریں)
5 2ہجری ابواء و ودّان بنی ضمرہ جان و مال کی امان (ہر دو طرف (جنگی شرائط میں) ایک دوسرے کی مدد۔
6 2ہجری ذوالعشیرہ بنی مدلج ایک دوسرے سے دشمنی کرنے سے پرہیز
7 6ہجری حدیبیہ مشرکین ِقریش دس سال کے لیے جنگ بندی؛جان و مال کی امان (ہر دو طرف) فریقین کی طرف سے دوسرے قبیلوں سے کیے گئے معاہدے طرفین کے لئے قابلِ اعتبار؛اِسی سال مسلمانوں کی مدینہ واپسی (٦ہجری) اگلے سال مکہ آنے کی اجازت
8 7ہجری خیبر یہود ِخیبر ان لوگوں نے اپنی حتمی شکست کو دیکھتے ہوئے، اس شرط پر صلح کی کہ خیبر کو چھوڑ دیں گے؛ لیکن اس کے بعد ”مساقاة” کے معاہدہ کے انعقاد سے اپنی جگہ رہے اور کام کرتے رہے۔
9 7ہجری فدک یہودِ فدک انہوں نے پہلے اس بنیاد پر صلح کی کہ فدک کو چھوڑ دیں گے؛ لیکن اس کے بعد ”مساقاة” کے معاہدہ کے انعقادکی بدولت کام پر لگا دیئے گئے۔
10 7ہجری وادی القری یہودِوادی القری یہ لوگ مکمل فوجی شکست کے بعد ، ”مساقاة کے معاہدہ کی بنا پر کام پر لگا دیئے گئے۔
11تا16 9ہجری تبوک، ایلہ، اُذرح وجرباء مقنا، دومة الجندل و تیماء جزیہ کی بنیاد پر صلح
17 9یا10ہجری نجران نجران کے عیسائی جزیہ کی بنیاد پر صلح ہوئی
18،19 11ہجری بحرین ،عمان بحرین و عمان کے زرتشتی(دو مختلف موارد میں) جزیہ کی بنیاد پر صلح ہوئی

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

حواشی

[i] ۔ 11ستمبر 2001ء کے حادثہ کے بعد امریکا نے (دہشت گردی سے نبٹنے) کا بہانہ کرکے کئی ایک ممالک کو فوجی حملے کے ذریعے دھمکایا ہے، اور کئی دوسرے مواردمیں (منجملہ افغانستان و عراق) اس دھمکی کو عملی جامہ بھی پہنایا ہے۔ بدون تردید اگر یہ روش جاری رہی تو وسیع جنگ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

[ii] ۔ تافلر؛جنگ وصلح؛ص۷؛ارفعی و مسائل جنگ و صلح ازدید گاہ حقوق و روابط بین الملل ص ۱۷۱

[iii] ۔ ابن منظور، لسان العرب، مادہ ”صلح”۔ جو کچھ یہاں زیر بحث ہے پر مستزاد ”صلح” اسی آشتی کے معنی میں انفرادی مناسبات (منجملہ معاملات) میں بھی زیر بحث ہے۔ تفصیلات کے لیئے فقہی منابع کی طرف رجوع کریں۔حقوق بین الملل، ج٣، ص ١٣٠ و ١٣٢؛ ضیائی بیگدلی، حقوق بین الملل عمومی، ص ٢٨٢)

[iv] ۔ معین فرھنگ فارسی مادہ آشتی ،یہاں پرلغوی مفہوم مورد نظر ہے بین الاقوامی حقوق میں ایک اصطلاح کی بنا پر آشتی جھگڑے کے حل کے لیے ایک خاص ڈپلماٹک روش ہے ۔ صفدری حقوق بین الملل ج۳ص۱۲؛۱۳ضیائی بیگدلی حقوق بین الملل عمومی ص۳۸۳۔

[v] ۔ ابن منظور، لسان العرب، مادہ ”ودع”۔

[vi] ۔ ایضاً، مادہ ”ہدن”۔

[7] ۔تاریخی روایات میں، عربوں کی جہالت پر مبنی جنگوں کے بارے میں حیرت انگیز نکات ذکر ہوئے ہیں مثال کے طور پر جنگ ”بسوس” جو دو قبیلوں ”بنی بکر” اور ”بنی تغلب” کے درمیان لڑی گئی کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ اس شدید اور سخت جنگ کی وجہ صرف یہ تھی کہ ایک دن اتفاقاً بنی بکر کی اونٹنی اس چراگاہ میں داخل ہو گئی جس چراگاہ میں بنی تغلب کے رئیس ”کلیب” نے اپنے اونٹ کو چھوڑرکھا تھا۔ کلیب نے بنی بکر کی ”متجاوز”(!)اونٹنی کو زخمی کردیا۔ اس طرح یہ لڑائی ایک نامعلوم شخص کی بسوس نامی خالہ کی اونٹنی کے زخمی ہونے پر شروع ہوئی۔

دوسرے نمونہ میں قبیلہ عبس اور ذبیان کے درمیان گھڑ دوڑ کے مقابلہ کے مسئلہ پر جنگ چھڑی جو ایک طویل مدت تک جاری رہی یہ مقابلہ اس طرح برپا ہوا کہ قبیلہ ذبیان کے رئیس حذیفہ سے کہا گیا: اے کاش قیس کے گھوڑوں میں سے ایک نر گھوڑے کو اپنے گھوڑوں کے لئے قرار دیتے۔ایک اور مورد میں قبیلہ اوس کاسمیر نامی شخص قبیلہ خزرج کے ایک شخص کی مدح کی تاب نہ لایا اس جملے ”مالک بن العجلان خزرجی اہل یثرب میں سے افضل ہے” کا سننا تھا کہ اس نے اس جملے کے کہنے والے کو موت کے گھاٹ اتار دیا اس کے بعد اوس و خزرج کے درمیان ایک طویل جنگ چھڑ گئی۔ ( جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج٥، ص ٣٥٦ و ٣٦٠؛ عمر فروخ، تاریخ الجاہلیہ، ص ١٢٣ و ١٢٤ و ١٢٧ و ١٢٨۔ : معمر بن المثنی، ایام العرب قبل الاسلام، ص ١٦٥ ، ١٧١، ١٧٧۔ ٢٩١

[8] ۔ جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام؛ ج٥، ص ٣٣٣۔

[9] ۔ محمد احمد جاد المولی بک و دیگران، ایام العرب فی الجاہلیہ، ص ٧٧۔

[10] ۔ تافلر، جنگ و ضد جنگ، ص ٣١٧ و ٣١٨۔

[11] ۔ مکہ کو خدا نے حضرت ابراہیم ع کے دور سے ہی امن و سلامتی کا شہر قرار دیا تھا۔ قرآن کریم، بقرہ (٢)، ١٢٥، ١٢٦ و ابراہیم (١٤)، (٣٥)۔ اس شہر کے ناموں میں سے ایک نام ”صلاح” تھا۔ ر۔ ک: بکری اندلسی، معجم ما استعجم من اسماء البلاد و المواضع، ج٣، ص ١١٥، یاقوت حموی معجم البلدان، ج٣، ص ٤٧٦۔

[12] ۔ رجب، ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم حرمت کے مہینے تھے۔ ( ابن ہشام، السیرة النبوة، ج١، ص ٢٧٥)

[13] ۔ مسعودی، مروج الذہب، ج٢، ص ٢٧٥۔

[14] ۔ جرجی زیدان، العرب قبل الاسلام، ص ٢٨٢۔

[15] ۔ ”ایام العرب” ان واقعات اور لڑائیوں کو کہا جاتا ہے جو قدیم تاریخ عرب میں واقع ہوئیں، ان واقعات کی دقیق تاریخ دسترس میں نہیں ہے اس طرح کے واقعات سے مربوط کتابیں اور منابع ایام العرب کے نام سے معروف ہیں؛ مثلاً کتاب ایام العرب قبل الاسلام بہ خامہ ابو عبیدہ معمر بن المثنی (متوفی ٢٠٩ ق) ۔ ر۔ک: عمر فروخ تاریخ الجاہلیہ، ص ٧٩۔ ٨١۔ ۔

[16] ۔ محمد احمد جاد المولی بک و دیگران ایام العرب فی الجاہلیة ص ٥٩، ٢٢٨ ۔

[17] ۔ معمر بن المثنی، ایام العرب قبل الاسلام، ص ٢٧٥، ٢٨١، ٥٩٣، ٤٦١۔

[18] ۔ کہا جاتا ہے کہ مکہ کا محل وقوع ایسا تھا کہ اس کے ساکنین صلح جوئی اورجنگ سے پرہیز پر مجبور تھے: جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج٢، ص ٢۔

[19] ۔ اس واقعہ کی تاریخ قطعاً دسترس میں نہیں ہے؛ صرف اتنا کہا جاتاہے کہ جرہم کے بعد خزاعہ کی مکہ پر پانچ سو سال تک حکومت رہی اس کے بعد یزدگردساسانی کے بیٹے فیروز کے دور میں مکہ کی زمام حکومت ”قصی” کے ہاتھ لگی، (پانچویں صدی عیسوی کے آخری پچاس سالوں میں) اس حساب سے ممکن ہے مذکورہ واقعہ پہلی صدی عیسوی کے اوائل میں ہوا ہو۔ اس بارے دیکھیں: ارزقی، اخبار مکہ ج١، ص ١٠١؛ حمزہ اصفہانی، تاریخ سنی ملوک الارض و الانبیاء ص ١٢٠۔

[20] ۔ خزاعہ یمنی الاصل قبیلہ ہے کہ جس کے افراد دوسرے یمنی قبیلوں سے جدا ہونے کے بعد اپنے اصلی وطن سے ہجرت کرنے کے بعد مکہ کے نزدیک ایک مقام (بطن مرّ) میں سکونت پذیر ہوئے اور ”سدانہ” یعنی (پردہ داری و کلید داری مکہ) اور کعبہ کی حاکمیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ابن سعید اندلسی، نشوة الطرب، ج١، ص ٢٠٩۔

[21] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویة، ج١، ص ١١٣۔

[22] ۔ ایضاً، ص ١١٧۔

[23] ۔ خزاعہ کا دور حکومت پانچ سو سال تک ذکر کیا گیا ہے ۔ : اذرقی، اخبار مکہ ج١، ص ١٠١۔

[24] ۔ قبیلہ قریش کے افراد نسبی حوالے سے فہر بن مالک بن النضر بن کنانہ کے بیٹوں میں سے ہیں۔

[25] ۔ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج١، ص ٥٥۔

[26] ۔ حمزہ اصفہانی، تاریخ سنی ملوک الارض و الانبیائی، ص ١٢٠۔

[27] ۔ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج١، ص ٥٥؛ ازرقی، اخبار مکہ، ج١، ص ١٠٤۔

[28] ۔ ابن ہشام السیرة النبویہ، ج١، ص ١١٨۔

[29] ۔ صوفہ غوث بن مُرّ اور اس کے بیٹوں کا لقب تھا جن کے ہاتھ حج کے کچھ امور کی باگ دوڑ تھی؛ البتہ ان کے نام کی شہرت کی چند وجوہات بیان ہوئی ہیں مثلاً یہ کہ ”غوث” روئی کا پاجامہ پہنتا تھا۔( ابن ہشام السیرة النبویہ، ج١، ص ١١٩۔

[30] ۔ اسلام سے پہلے عرب کے لوگ کعبہ کی زیارت اور حج و عمرہ کی ادائیگی کے لئے کافی اہتمام کرتے تھے وہ سات مرتبہ کعبہ کا طواف جبکہ سات مرتبہ حجر الاسود کو مس کرتے تھے۔ صفا و مروہ کے درمیان سعی بھی کرتے تھے اسی طرح تلبیہ بھی کہتے تھے۔ اس بارے دیکھیں: محمد بن حبیب بغدادی المخبر، ص ٣١١)۔ قابل ذکر ہے کہ ”صوفہ” کی مناسک حج میں دخالت ”اضافہ” کی صورت میں یا ”اجازہ” کی صورت زیر بحث رہی ہے رسم یہ تھی کہ عرفہ کے دن حاجیوں کے امور صوفہ کے اختیار میں ہوں جیسا کہ منیٰ سےحاجیوں کو لے جانے کا کام ان کے ذمہ تھا۔ رمی جمرات کے مراسم کے لئے لازم تھا کہ ان میں سے کوئی شخص اقدام کرے اس کے بعد دوسرے اس کام کو انجام دیتے تھے۔ ( ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ١١٩، ١٢٠)۔

[31] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ١١٧۔

[32] ۔ قبیلۂ کنانہ عدنان کی نسل سے اور قریش کے ساتھ نسبی تعلق رکھتا تھا۔ ( ابن حزم اندلسی، جمھرة انساب العرب ص ١١ و ١٢)۔

[33] ۔ قبیلۂ ”قضاعہ” کی اصل میں اختلاف ہے کہ آیا یہ ”عدنانی” نسل (جزیرة العرب کے شمالی عرب) تھے؛ یا بعد میں حجاز کی طرف کوچ کرنے کی وجہ سے عدنانی شمار ہوتے تھے۔ ( ابن سعید اندلسی، نشوة الطرب، ج١، ص ١٧١۔

[34] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ ج١، ص ١١٧ و ١١٨۔

[35] ۔ قابل ذکر ہے کہ مذکورہ مؤرخ تاریخ ِعرب قبل از اسلام کا ماہر مانا گیا ہے۔

[36] ۔ محمد بن حبیب بغدادی، المنمق فی اخبار قریش، ص ٨١۔

[37] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ١٢٣، ١٢٤۔

[38] ۔ ”فقضی بینہم بان قصیا اولی بالکعبة و امر مکة من خزاعة؛ و ان کل دم اصابہ قصی من خزاعة و بنی بکر، موضوع یشدخہ تحت قدمیہ، و ان ما اصابت خزاعة و بنوبکر من قریش و کنانة وقضاعة ففیہ الدیة مؤدّاة؛ و ان یخلی بین قصی و بین الکعبة و مکة” ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ١٢٤۔

اس بیان کے متن میں صادر شدہ احکام نمبر کی ترتیب کے ساتھ ذکر نہیں ہوئے ہم نے ان احکام کو نمبر کی ترتیب میں لکھا ہے۔

[39] ۔ الکمائم دسترس میں نہیں ہے اس کتاب کے مطالب سے آگاہی ، کتاب نشوة الطرب کےذریعے ہوتی ہے۔ ابن سعید اندلسی، نشوة الطب، ج١، ص ٣٤، پاورقی ٥٤)

[40] ۔ ابن سعید اندلسی، نشوة الطرب، ج١، ص ٣٢٤۔

[41] ۔ ازرقی، اخبا رمکہ، ج١، ص ١٠۳ و ١٠٧۔

[42] ۔ ”فقضی بینہم۔۔۔”۔ (ابن ہشام ، السیرة النبویہ، ج١، ص ١٢٤۔

[43] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ١٢٤ و ١٢٥۔

[44] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص۱۲۴و ١٢٥۔

[45] ۔ محمد بن حبیب بغدادی نے ان امور کے علاوہ چھٹا امر بعنوان ”ریاست” ذکر کیا ہے۔ لیکن اس کے بارے میں کوئی خاص وضاحت نہیں کی ہے۔ محمد بن حبیب بغدادی المحبر، ص ١٦٥) اسی طرح ابن سعید اندسلی نے چھٹا امر ”امازہ الجیوش و الکتائب” (لشکر کی فرمانروی اور فوجی پرچم داری) کا ذکر کیا ہے۔ ابن سعید اندلسی، نشوة الطرف، ج١ ، ص ٢٢٣۔

[46] ۔ ابن ھشام؛السیرہ النبویہ؛ج۱؛ص۱۲۵۔

[47] ۔ ایضاً، ص ١٣٠۔

[48] ۔ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج١، ص ٦٠؛ ابن سعید اندلسی، نشوةلطرب ج۱ص۳۲۳۔

[49] ۔ ابن سعد اندلسی، نشوة الطرب، ج١، ص ٣٢٣۔

[50] ۔ ازرقی، اخبار مکہ، ج١، ص ١١٠۔ قابل ذکر ہے کہ بعض ”سقایہ” کو آب زمزم سے شربت بنانے اورپھر حاجیوں کو پلانے کی تفسیر کرتے ہیں۔ ( ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ١٢٥، پاورقی ٢۔ ازرقی، اخبار مکہ، ج١، ص ١١٠۔ ١١٤۔

[51] ۔ ”۔۔۔ فاتفقوا علی الریاسة بأنتظارھا المعلومة عندھم ۔۔۔” (ابن سعید اندلسی، نشوة الطرب، ج١، ص ٣٢٣۔

[52] ۔ ایضاً۔

[53] ۔ ایضاً؛ص۳۲۵۔

[54] ۔ ایضاً، ص ٣٢٢۔

[55] ۔ ابن ہشام ، السیرة النبویہ، ج١، ص ١٢٥۔

[56] ۔ ازرقی، اخبار مکہ ، ج١، ص ١٠٩۔

[57] ۔ مذکورہ اختلاف تاریخی روایات میں کافی معروف ہے۔ فقط ”احمد بن واضح یعقوبی” (متوفی اواخر تیسری صدی ہجری) کے ایک بیان کے مطابق، قصی نے اپنے چار بیٹوں کے درمیان امور مکہ کو تقسیم کیا۔ ( یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج١، ص ٢٤١)۔

[58] ۔ ”ازرقی” نے اپنے اس نظریہ کو دو روایات (ایک ابن جریح اور دوسرے ابن اسحاق) سے لیا ہے۔ ( ازرقی، اخبار مکہ، ج١، ص ١٠٩، ١١٠۔

[59] ۔ ”ابن سعد اندلسی” نے اپنے نظریہ کے بعض کو بیہقی اورکچھ حصے کو ازرقی سے استناد کیا ہے۔

[60] ۔ ابن اسحاق کی روایت سے آگاہی کے لئے، : ابن ہشام ، السیرة النبویہ، ج١، ص ١٢٩ و ١٣٠؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک (تاریخ طبری)، ج١، ص ٢٦٠۔

[61] ۔ ”ابن کلبی” کے بیان سے آگاہی کے لئے، : محمد بن حبیب بغدادی، المنمق فی اخبار قریش، ص ١٨٩ و ۱٩۰۔

[62] ۔ ”واقدی” کے بیان سے آگاہی کے لئے، : ابن سعد، الطبقات الکبری، ج١، ص ٦٠۔

[63] ۔ معاصر ”جواد علی” نے اسلام سے پہلے عرب میں رئیس قبیلہ کی جانشینی کے لئے تین مختلف اصول ذکر کئے ہیں ”وراثت”، ”نص و تعیین” ”شورا اور رائے” پھر ہر ایک کے لیے شواہد ذکر کئے ہیں۔ المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام،ج۴،ص۳۴۹و۳۵۰۔

[64] ۔ اس ماجرے کا دور تقریباً ٥٠٣ و ٥٠٥ عیسوی یا وسط چھٹی صدی عیسوی تعیین ہوا ہے۔ ( عمر فروخ، تاریخ الجاہلیة، ص ١٢٠؛ فکتور سحاب، ایلاف قریش، رحلة الشتاء و الصیف، ص ٣٢٣ و ٣٢٤ ؛ اسی طرح؛ جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج٤، ص ٦٢، ٦٣۔

[65] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ١٣١؛ ایک بیان کے مطابق، ان کا مطالبہ صرف ”سقایہ” اور ”رفادہ” کے امور میں تھا۔ (نہ تمام امور مکہ) (ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج١، ص ٤٦١؛ اسی طرح ، ر۔ک: جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج٤، ص ٦٠۔

[66] ۔ اس جھگڑے میں دو خاندان ”عامر بن لوئی” اور ”محار بن فہر” غیر جانبدار رہے۔ ( ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ١٣١۔

[67] ۔ ”عبد المطلب” کی بیٹی ”عاتکہ” ”طیب” سے پر برتن لے کر آئی۔ محمد بن حبیب بغدادی، المنمق فی اخبار قریش، ص ١٩٠۔

[68] ۔ ایک بیان کے مطابق بنی عدی سے ایک شخص نے اسی خون سے تھوڑے سے خون کو اپنی زبان سے لگایا دوسروں نے بھی نیز ایسا ہی کیا۔ یہ لوگ اسی مناسب سے ”لعقة الدم” (خون زبان کو لگانے والے) معروف ہوئے۔ (محمد بن حبیب بغدادی، المحبر، ص ١٦٦)۔

[69] ۔ محمد بن حبیب بغدادی، المحبر، ص ١٦٧۔

[70] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ١٣٢۔

[71] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ١٣٢۔

[72] ۔ ابن قتیبہ، المعارف، ہ٧؛ ایک بیان کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے ان کو کلید عطا کرتے وقت فرمایا اسے تم سے کوئی واپس نہیں لے گا مگر ظالم۔ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج٣، ص ٥٧٩۔

[73] ۔ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج١، ص ٤٦١۔

[74] ۔ ۶۔ ابن ہشام، السیرة النبویة، ج١، ص ١٣٢۔

[75] ۔ ابن منظور، لسان العرط، مادئہ ”حلف”۔ جواد لی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج٤، ص ٣۸۷۔

[76] ۔ ابن منظور، لسان العرب؛ مادئہ ”حلف”۔

[77] ۔ پیامبر اکرم (ص) کے دور میں مسلمانوں کی جنگوں اور فوجی کاروائیوں کے لیے ”غزوہ” اور ”سریہ” کی اصطلاحیں استعمال ہوتی تھیں۔ مشہور تعریف کے مطابق ”غزوہ” کی اصطلاح کا اطلاق اس جنگ پر ہوتا تھا جس میں پیامبر اکرم (ص) بنفس نفیس شریک ہوئے ہوں، جبکہ سریہ سے مراد وہ جنگ تھی جس میں آپ (ص) شریک نہ ہوئے ہوں بلکہ آپ (ص) کے کسی صحابی کی سرکردگی میں لڑی گئی ہو۔ (معین، فرہنگ فارسی، مادئہ ”غزوہ” و”سریت”۔ یاد رہے کہ جنگ ”موتہ” جس میں حضور اکرم (ص) شریک نہیں تھے پر مذکورہ اصطلاح کا اطلاق نہیں ہوتا۔

[78] ۔ واقدی، المغازی، ج١، ص ١١ و ١٢۔

[79] ۔ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٣٤٣۔

[80] ۔ آیندہ بحث میں ان مقامات کے بارے میں بات ہو گی۔

[81] ۔ زیادہ تر تاریخی منابع میں ”مخشی بن عمرو” ذکر ہوا ہے۔ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج٢، ص ٥؛ ابن ہشام، السیرة النبویة، ج١، ص ٥٩١؛ بیہقی، دلائل النبوہ، ج٣، ص ١٠؛ ابن سید الناس، عیون الاثر، ج١، ص ٣٥٤؛ ذہبی، سیر اعلام النبلائی، ج١، ص ٢٩٧؛ ابن قیم جوزیہ، زاد المعاد، ج٣، ص ١٦٤؛ صالحی شامی، سبل الھدی والرشاد، ج٤، ص ١٤) کچھ منابع میں ”مجدی بن عمر” ذکر ہوا ہے ( مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص ٦٧، پاورقی٨؛ حلبی، انسان العیون، ج٢، ص ٣٤٧) اس بارے بعض نے کہا ہے ”مخثی” درست ہے۔ (زرقانی، شرح المواہب اللّدینہ، ج٢، ص ٢٣٠)

[82] ۔ اکْثَرَ: اَتٰی بکثیرٍ ابن منظور ، لسان العرب ، مادہ ”کثر”

[83] ۔ بلاذری انساب الاشراف، ج١، ص ٣٤٣؛ اسی طرح ، واقدی، المغازلی، ج١، ص ١١ و ١٢؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٥٩١۔

[84] ۔ واقدی، المغازلی، ج١، ص ١١ و ١٢؛ مقریزی ، امتاع الاسماع، ج١، ص ٦٧۔

[85] ۔ جملہ ”ما بلّ بحر صوفةً” ”یعنی اس وقت تک جب دریا ذرہ بھر روئی کو گیلا کرے” کہ ایسا صرف پانی کے ایک قطرے سے بھی ممکن ہے) یہ عبارت پیمان ناموں کے لیے استعمال ہوتی تھی اور پیمان کی ہمیشگی کے لیے کنایہ تھی۔( صالحی شامی، سبل الہدی و الرشاد، ج٢، ص ١٥٥)

[86] ۔ سہیلی، الرّوض الاُنف، ج٥، ص ٧٨؛ حلبی، انسان العیون، ج٢، ٣٤٧؛ محمد حمید اللہ، الوثائق السیاسیّة، ص ٢٦٧۔

[87] ۔ واقدی، المغازی، ج١، ص ١١ و ١٢؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٣٤٣۔

[88] ۔ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٣٤٣۔

[89] ۔ ایضاً۔

[90] ۔ قسطلانی، المواہب الدنیہ، ج١، ص ١٧٣۔

[91] ۔ صالح احمد العلی، حجاز در صدر اسلام، ص ٢٠٨ و ٢١٣۔

[92] ۔ ذہبی ، سیر اعلام النبلاء ج١، ص ٢٩٧۔

[93] ۔ عاتق بن عیث البلادی، معجم معالم الحجاز، ج١، ص ٣٧۔

[94] ۔ ایضاً، ج٩، ص ١٣٢۔

[95] ۔ ابن سعد، الطبقات الکبریِ ج٢، ص ٥؛ عاتق بن عیث البلادی، معجم قبائل الحجاز، ص ٢٧٥۔

[96] ۔ واقدی، المغازی، ج١، ص ١١؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٣٤٣؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج٢، ص ٥؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص ٦٧۔

[97] ۔ ابن ہشام السیرة النبویة، ج١، ص ٥٩١؛ بیہقی، دلائل النبوہ، ج٣، ص ١٠؛ ابن سید الناس، عیون الاثر، ج١، ص ٣٥٤؛ ذہبی سیر اعلام النبلائی، ج١، ص ٢٩٧۔ بعض نے نیز دونوں وجوہات کا ذکر کیا ہے؛ لیکن کسی ایک وجہ کو بھی واضح طور پر ترجیح نہیں دی ہے۔ (حلبی، انسان العیون، ج٢، ص ٣٤٧)

[98] ۔ یہاں پر اس سے مراد بنی ضمرہ سے جنگ کا قصد ہے۔

[99] ۔ مناز عہ کی وضاحت کی جا چکی ہے۔

[100] ۔ ”زرقانی” (متوفی ١١٢٢ ہجری) کا نظریہ ہے کہ اس غزوہ میں پیامبر اکرم (ص) کا ”اصلی مقصود” قریش کا قافلہ ہی تھا۔ (زرقانی، شرح المواہب اللدنیّہ، ج٢، ص ٢٣٠۔

[101] ۔ واقدی ، المغازی، ج٢، ص ٤٤٣۔

[102] ۔ علی بن ابراہیم قمی، تفسیر القمی، ج١، س ١٥٣۔

[103] ۔ واقدی، المغازی، ج١، ص ٣٨٤۔

[104] ۔ ایضاً، ص ٣٨٨؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٣، ص ٢٢٠۔

[105] ۔ علی بن ابراہیم قمی، تفسیر القمی، ج١، ص ١٥٣۔

[106] ۔ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج٢، ص ٦٩۔

[107] ۔ ایضاً، ص ٧٣۔

[108] ۔ ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج١، ص ٥٩٩؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص ٦٨۔

[109] ۔ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج٢، ص ٦٦۔

[110] ۔ قسطلانی، المواہب اللدنیّہ، ج١، ص ١٧٤۔

[111] ۔ حلبی، انسان العیون، ج٢، ص ٣٥۔

[112] ۔ واقدی المغازی، ج١، ص ١٢؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج٢، ص ٤٦؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج٢، ص ٦؛ ابن قیم جوزیہ، زاد المعاد، ج٣، ص ١٦٦؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص ٦٨۔

[113] ۔ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج٢، ص ٤٠٨۔

[114] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٢٤١؛ ابن حزم اندسلی، جوامع السیرة النبویہ، ص ٨١؛ بیہقی، دلائل النبوہ، ج٣، ص ١١؛ ذہبی، سیر اعلام النبلائی، ج١، ص ٢٩٨؛ حلبی، انسان العیون، ج٢، ص ٣٤٩؛ البتہ اس طرح کا اختصار درست نہیں ہے؛ کیونکہ ”عشیرہ” تین مختلف علاقوں کا نام ہے یہ ہر تین ”ذو العشیرہ” سے مختلف ہیں۔ اس بارے ، ر۔ک: عاتق بن غیث البلادی، معجم معالم الحجاز، ج٦، ص ١٠٩ و ١١٠)

[115] ۔ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج٢، ص ٦۔

[116] ۔ قسطلانی، المواہب اللدنیہ، ج١، ص ١٧٣ و ١٧٤؛ عاتق بن غیث البلادی، معجم معالم الحجاز، ج١٠، ص ٣٧۔ ٣٩۔

[117] ۔ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٣٤٤۔

[118] ۔ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج٢، ص ٦٦۔

[119] ۔ زرقانی، شرح المواہب اللدنیہ، ج٢، س ٢٣٤۔

[120] ۔ عرب کے لوگ ایک دوسرے کی مدد حاصل کرنے کے لیے ”حلف” پیمان منعقد کرتے تھے اور اس کے لیے قسم اٹھاتے تھے کہ ایک دوسرے سے وفادار رہیں گے۔ اس طرح کے پیمان انفرادی اور مجموعی دونوں حوالوں سے ہوتے تھے۔ (ر۔ک: ابن منظور، لسان العرب، مادئہ ”حلف”؛ جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج٤، ص ٣٧٢)

[121] ۔ زرقانی، شرح المواہب اللدنیہ، ج٢، ص ٢٣٤۔

[122] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٥٩٩؛ زرقانی، شرح المواہب اللدنیہ، ج٢، ص ٢٣٤۔

[123] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص ٧٨٣۔

[124] ۔ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج٢، ص ٧٣۔

[125] ۔ مناسب تھا کہ یہ فصل پہلی فصل قرار دی جاتی؛لیکن اس فصل کی تاخیر کی دو وجوہات ہیں

أ۔ مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ پیامبر (ص) کی مصالحت کی اہمیت اور مطالب کی زیادتی اس چیز کا باعث ہوئی کہ اسے بعد میں لایا جائے

ب۔ مدینہ کے یہود کے ساتھ صلح کے نتائج بنی قینقاع،بنی النظیر،اوربنی قریظہ سے جنگ کے بعد ظاہر ہوئےیہ حادثات پچھلی دو فصلوں کے مقابلہ میں بعد میں وقوع پزیر ہوئے۔

[126] ۔ یہاں پر ”منافقین” کا گروہ بطور مستقل ذکر نہیں ہوا؛ اس لیے کہ ایک طرف یہ گروہ ظاہر نہیں تھا دوسری طرف ان سے ہمبستگی بے معنی تھی۔ نیز ان کا بھی جداگانہ ذکر نہیں ہوا، کیوں کہ یہ تعداد میں انتہائی کم تھے۔ (ر۔ک: احمدی میانجی، مکاتیب الرسول (ص)، ج٣، ص ٣٦)

[127] ۔ ر۔ک: محمد اسید الوکیل، یثرب قبل الاسلام، ص ١٨٣۔ ١٨٦۔

[128] ۔ ر۔ ک: ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٥٤٠؛ جعفر مرتضی عاملی الصحیح من سیرة النبی الاعظم (ص) ،ج٦، ص ٦٨۔

[129] ۔ ر۔ک: ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٥١٦۔ ٥١٨؛ بیہقی، دلائل النبوہ، ج٢، ص ٥٣٦۔ ٥٣١۔

[130] ۔ بیشتر آگاہی کے لیے، ر۔ک: ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٥١٣؛ بیہقی، دلائل النبوہ، ج٢، ص ٥٣٢، ٥٣٧؛ ابن جوزی، الوفاء باحوال المصطفیٰ   ، ج٢، ص ٩٣۔ ٩٠؛ ہاشم معروف الحسنی، سیرة المصطفیٰ ، ص ٢٨٥۔ ٢٩٢۔؛ جعفر مرتضی عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم ، ج٦، ص ٢٧۔ ٣٤۔

[131] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٥٠١؛ ابن سلام، الاموال، ١٨٤ و ٢٩١۔

[132] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٥٠١؛ ابن سلام، الاموال،٢٩٠۔

[133] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٥٠١۔ ٥٠٤؛ اسی طرح ر۔ک: ابن سلام، الاموال، ص ٢٩١۔ ٢٧؛ البتہ صلح کے اصلی متن میں مادہ ہای صلح کو جدا نہیں کیا گیا۔

[134] ۔ ”و انہ من تبعنا من یھود فان لہ النصر ولا سوة، غیر مظلومین ولا متناصرین علیہم”۔

[135] ۔ ”و ان الیہود ینفقون مع المومنین ماداموا محاربین”۔ مذکورہ جملے کا نیز ا س طرح ترجمہ کیا گیا ہے: ایسے یہودی جو مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں حصہ لیں، کے ساتھ انفاق کیا جائے گا” (شہیدی، تاریخ تحلیلی صدر اسلام، ص ٦٥) یہ ترجمہ قبول نہیں کیا گیا؛ کیونکہ مذکورہ مادہ صلح یہودیوں کو متعہد کرتا تھا کہ جنگ کی حالت میں مسلمانوں کی مالی مدد کریں (ر۔ک: ابن سلام، الاموال، ص ٢٩٦)

[136] ۔ ”ان یھود بنی عوف امة مع المومنین، للیھود دینھم، و للمسلمین دینھم، موالیھم و انفسھم، الا من ظلم و اثم، فانہ لا یوتغ الا نفسہ و اھل بیتہ”

[137] ۔ ”و ان لیھود بنی النجار مثل ما لیھود بنی عوف”

[138] ۔ اصلی متن میں مذکورہ خاندان جداجداذکر ہوئے ہیں؛ اسی طرح: و ان لیھود بنی النجار مثل ما لیھود بنی عوف؛ و ان لیھود بنی الحارث ۔۔۔؛ لیکن یہاں پر اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلسل بیان کیا ہے۔

[139] ۔ ”الا من ظلم و اثم فانہ لا یوتغ الا نفسہ و اھل بیتہ”

[140] ۔ ”و ان جعنہ بطن من ثعلبہ کأنفسھم۔ و ان لبنی الشطیبة مثل ما لیھود بنی عوف”

[141] ۔ متنِ اصلی میں مذکور ہے: ”و ان البرّ دون الاثم” جس کی اس طرح تفسیر ہوتی ہے: ”ان الوفاء بما جعل علی نفسہ دون الغدر و النکث” ابن منظور، لسان العرب، مادہ”برر”)۔ یہاں پر یہی معنی (تھوڑے تصرف کے ساتھ) فارسی میں ہوا؛ لیکن ایک دوسری تعبیر میں معنی اس طرح ہے: ”ان البرّ و الوفاء ینبغی ان یکون حاجزاً عن الاثم” یعنی (بے شک سچائی اور وفاداری پیمان شکنی میں مانع ہے)۔ (سہیل، لروض الانف، ج٤، ص ٢٩٥۔)

[142] ۔ یہاں پر ثعلبہ کے یہودی مورد نظر ہیں۔

[143] ۔ ”و ان موالی ثعلبة کا نفسھم”

[144] ۔ ”و ان بطانة یھود کانفسھم”

[145] ۔ ”و انہ لا یخرج منھم احد الا باذن محمد(ص)”۔ اس جملے کے ایک اور طرح سے معنی ہوئے ہیں۔ یعنی ”محمد (ص)کی اجازت کے بغیر کسی کو اختیار نہیں ہے کہ ان کو معاہدے سے خارج کرے” (شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص ٦٥۔

[146] ۔ اصلی متن میں مذکور ہے: ”و انہ لا ینحجز علی ثار جُرح” جس کی اس طرح تفسیر ہوتی ہے: ”لا یمنع مطالبة مکافاة الجرح و ان کان قلیلاً کارش الحذش”۔ ”احمدی میانجی، مکاتیب الرسول (ص)، ج٣، ص ٣٩، حاشیہ2)

[147] ۔ ”و انہ من فتک فبنفسہ فتک، و اھل بیتہ، الا من ظُلم”

[148] ۔ ”و انّ اللّٰہ علی أبرّ ھذا”

[149] ۔ ”و ان علی الیہود نفقتھم و علی المسلمین نفقتھم”

[150] ۔ وان بینھم علی من ھارب اھل ھذہ الصحیفہ وان نینھم النصح و الصحیفہ و البر دون الاثم۔

[151] ۔ وان الیہود ینفقون مع المومنین ما داموا محاربین یہ مادہ تاکید کی وجہ سے تکرار ہوا ہے۔

[152] ۔ اذادعوا الی صلح یصالحونہ و یلبسونہ وان بینھم یصالحونہ و یلبسونہ،و انھم اذادعوا الی مثل ذلک فانہ لھم علی المومنینالا من حارب فی الدین

[153] ۔ متن اصلی میں اس طرح مذکور ہے: ”و انہ لم یأثم امرو بحلفیہ” جس کا اس طرح معنی کیا گیا ہے۔ ”لا یوخذ الجار بذنب الجار” (احمدی میانجی، مکاتیب الرسول ، ج٣، ص ٤٥)۔

[154] ۔ متن اصلی میں اس طرح مذکورہ ہے : ”و ان النصر للمظلوم” جس کا اس طرح معنی ہوا ہے: ”لا یجب لأھل الصحیفة نصر المظلوم منھم”۔ (احمدی میانجی، مکاتیب الرسول ، ج٣، ص ٤٥)۔

[155] ۔ ” و ان یثرب حرام جوفھا لأھل ھذہ الصحیفہ”۔

[156] ۔ ”و ان الجار کالنفس غیر مضارّ ولا آثم”۔ یہاں پر ”جار” سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے سے پناہ طلب کرے (مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ١٦٩)؛ لیکن بعض نے غلطی سے اس کا معنی ہمسایہ کیا ہے۔ ر۔ک: شہیدی، تاریخ تحلیل اسلام، ص ٦٦)

[157] ۔ متن اصلی میں مذکور ہے: ”و انہ لا تجار حرمة الا باذن اھلھا” جس کی اس طرح تفسیر ہوئی ہے: ”لا ینبغی ان تجار حرمة کافر الّا باذن اھل الفازیة: ای لا یجیر احداً الا بمصلحة سائر الجیش” مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ١٦٧۔ ١٦٩؛ احمدی میانجی، مکاتیب الرسول ، ج٣، ص ٤٦ و ٤٧)۔ قابل ذکر ہے کہ پناہ کے طلب گار کو پناہ دینا عرب میں ایک رسم تھی ، پیامبر ﷺ نے اٹھارویں مادے اور اکیسویں مادے میں اس رسم کو باقی رکھا ہے۔

[158] ۔ ”و انہ کان بین اھل ھذہ الصحیفة من حَدَث او اشتجار یخاف فسادہ، فان مردہ الی اللّٰہ عزّوجلّ و الی محمد رسول اللہ ”

[159] ۔ ”لا و انہ لا تجار قریش ولا من نصرھا” یہاں پر قریش کے قبیلہ کے کافر مورد نظر ہیں۔

[160] ۔ ”و انّ بینھم النصر علی من دھم یثرب”

[161] ۔ ”و انہ لا یحول ھذا الکتاب دون ظالم و اثم”

[162] ۔ عون اشریف قاسم، نشأة الدولة الاسلامیة علی عہد رسول   ، ص ٢٥ و ٢٦۔

[163] ۔ جعفر مرتضیٰ عاملی ، الصحیح من سیرة النبی الاعظم   ، ج٤، ص ٢٥٤؛ احمدی میانجی، مکاتیب الرسول ، ج٣، ص ١٤ و ١٥۔

[164] ۔ مذکورہ اسماء ، مواد نمبر تین، چار اور پانچ میں ذکر ہوئے ہیں۔

[165] ۔ یہاں پر "پیمان عمومی یثرب” مورد نظر ہے۔

[166] ۔ ابن سلام، الاموال، ص ٢٩٧۔

[167] ۔ ابن کثیر، البدایہ و النھایہ، ج٣، ص ٢٧٢۔ اسی طرح ر۔ک: احمد بنی زینی دحلان،السیرة النبویہ و الآژار المحمدیہ، ج١، ص ١٧٥۔

[168] ۔ واقدی، المغازی، ج١، ص ١٧٦؛ بلاذری، انساب الاشراط، ج١، ص ٣٧١؛ حلبی، انسان العیون، ج٢، ص ٤٧٤؛ زرقانی، شرح المواہب اللدنیہ؛ ج٢، ص ٣٤٨۔

[169] ۔ حلبی، انسان العیون، ج٢، ص ٤٧٤ و ٤٧٥؛ زرقانی، شرح المواہب اللدنی، ج٢، ص ٣٤٨۔

[170] ۔ طبرسی، اعلام الوری، ج١، ص ١٥٧ و ١٥٨؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ١١٠ و ١١١؛ احمدی میانجی، مکاتیب الرسول ، ج ٣، ص ١١؛ جعفر مرتضیٰ عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم ، ج٤، ص ٢٦٣۔

[171] ۔ یہود انصار کی اصطلاح میں انصار صفت نہیں  بلکہ مضاف الیہ ہے۔

[172] ۔ ر۔ک: احمدی میانجی، مکاتیب الرسول ﷺ، ج٣، ص ١٢؛ جعفر مرتضیٰ عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم ﷺ، ج٤، ص ٢٥٥۔

[173] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص ٦٣٤۔ ٦٣٧۔

[174] ۔ احمدی میانجی، مکاتیب الرسول (ص)، ج٣، ص ١٢۔

[175] ۔ ابن اسلام، الاموال، ص ٢٩٧۔

[176] ۔ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٣٧١۔

[177] ۔ دیار بکری، تاریخ الخمیس، ج١، ص ٣٥٣۔

[178] ۔ اس سے پہلے تیئسویں مادہ میں اس معاہدہ کی دفعات کا ذکر ہوا ہے اور اب اس کا تجزیہ کیا جاتاہے ۔

[179] ۔ احمدی میانجی، مکاتیب الرسول ﷺ، ج٣، ص ١٤۔

[180] ۔ ایضاً، ص ٣٧۔

[181] ۔ ایضاً۔

[182] ۔ ایضاً۔

[183] ۔ ایضاً، ص ٢٩۔

[184] ۔ قابل ذکر ہے کہ پیامبر ﷺ مسلمان قبیلوں سے معاہدہ کے وقت ”امة من المسلمین” (مسلمانوں میں سے ایک امت” کی تعبیر سے کام لیتے تھے۔ ”ثقیف” کے اسلام لانے کے بعد ان کے لیے یہی تعبیر استعمال ہوئی۔ (ر۔ک: ابن سلام، الاموال، ٢٢٧؛ احمدی میانجی، مکاتیب الرسول ﷺ، ج٣، ص ٥٧)۔

[185] ۔ دورِجہالت کی رسوم میں قبیلے کی ”عصبیت” اس چیز کا باعث بنتی کہ ستمکار شخص کا قبیلہ اس کی مدد کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا اور خو دکو ہلاکت میں ڈال دیتا (احمدی میانجی، مکاتیب الرسول ﷺ، ج٣، ص ٣٧)

[186] ۔ ابن سلام، الاموال، ص ٢٩٧؛ سہیل، الروض الانف، ج٤، ص ٢٩٥ و٢٩٦۔

[187] ۔ طبرسی، اعلام الوری، ج١، ص ١٥٧ و ١٥٨؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ١١٠ و ١١١؛ احمدی میانجی، مکاتیب الرسول ﷺ، ج٣، ص ١١، جعفر مرتضی عاملی ، الصحیح من سیرة النبی الاعظم ، ج٤، ص ٢٦٣۔

[188] ۔ طبرسی، اعلام الوری، ج١، ص ١٥٨؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ١١١۔

[189] ۔ اس بارے ، اس طرح، ر۔ک: ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٥٠١؛ دیار بکری، تاریخ الخمیس، ص ٣٥٣۔

[190] ۔ طبرسی، اعلام الوری، ج١، ص ١٥٨؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ١١١۔

[191] ۔ طبرسی، اعلام الوری، ج١، ص ١٥٨؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، س ١١١؛ اسی طرح، ر۔ک: ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٥١٦ و ٥١٨۔

[192] ۔ واقدی، المغازلی، ج١، ص ١٧٦؛ ابن جوزی، الوفاء باحوال المصطفیٰ ، ج٢، ص ٣٩٦۔

[193] ۔ بنی قینقاع کے لوگ ”زرگری” کے پیشہ سے منسلک تھے۔ (احمد بن زینی دحلان ، السیرہ النبویہ، ج١، ص ٢٢٠)

[194] ۔ واقدی، المغازی، ج١، ص ١٧٦ و١٨٠؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٤٧؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٣٧١؛ ابن اثیر الکامل فی التاریخ، ج١، ص ٥٤٠۔

[195] ۔ واقدی، المغازی، ج١، ص ١٧٦؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٤٨؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٣٧١؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج١، ص ٥٤٠؛ احمد بن زینی دحلان، السیرة النبویہ، ج١، ص ٢٢٠۔

[196] ۔ واقدی، المغازی، ج١، ص ١٧٧؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٣٧٢؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج١، ص ٥٤٠؛ احمد بن زینی دحلان، السیرة النبویہ، ج١، ص ٢٢٠۔

[197] ۔ ر۔ک: ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٤٨؛ بیہقی، دلائل النبوہ، ج٣، ص ١٧٤؛ ابن کثیر، البدایة و النھایہ، ج٤، ص ٥۔

[198] ۔ حلبی، انسان العیون، ج٢، ص ٤٧٦؛ احمد بن زینی دحلان، السیرة النبویہ، ج١، ص ٢٢٠؛ اسی طرح، ر۔ک: واقدی، المغازی، ج١، ص ١٧٨؛ ابن جوزی الوفاء باحوال المصطفیٰ ، ج٢، ص ٣٩٦؛ ابن سید الناس، عیون الاثر، ج١، ص ٤٤٥۔

[199] ۔ ر۔ک: واقدی، المغازی، ج١، ص ١٧٩ و ١٨٠۔

[200] ۔ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج٢، ص ٤٨٧۔

[201] ۔ واقدی، المغازی، ج١، ص ١٨٤۔ ١٩١؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٥١۔ ٥٨۔ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص ١٠٤ و ١٠٥۔

[202] ۔ واقدی، المغازی، ج١، ص ١٩٢؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص ١٠٦؛ احمدی میانجی، مکاتیب الرسول ﷺ ج١، ص ٢٦١ و ٢٦٢؛ محمد حمید اللہ، الوثائق السیاسیہ، ص ٩٢۔

[203] ۔ بیہقی، دلائل النبوہ، ج٣، ص ٣٥٤؛ ذہبی، تاریخ الاسلام، ج٢، ص ٢٤٣؛ ابن کثیر، البدایة و النھایہ، ج٤، ص ٨٥ و ٨٦؛ قسطلانی، المواہب اللدنیہ، ج١، ص ٢٢٧؛ احمد بن زینی دحلان، السیرة النبویہ، ج١، ص ٢٦٠ و ٢٦١۔

[204] ۔ البتہ ”زہری” نے خود بنی النضیر کے غزوہ کو دو طریقوں (مرجع) سے بیان کیا ہے کہ ایک طریقے میں اس غزوہ کے وقوع کی کوئی بھی دلیل ذکر نہیں کی اور دوسرے طریقے کی بنا پر ، اس کتاب کے متن میں اس کا ماجرا موجود ہے۔ (بیہقی، دلائل النبوہ، ج٣، ص ١٧٩؛ حلبی، انسان العیون، ج٢، ص ٥٦٠؛ دیار بکری، تاریخ الخمیس، ج١، ص ٤٦٢؛ محمد حمید اللہ، الوثائق السیایسة، ص ٦٦و ٦٧)

[205] ۔ بیشتر آگاہی کے لئے، ر۔ک: واقدی، المغازی، ج١، ص ٣٤٦۔ ٣٥٣۔

[206] ۔ ایضاً، ج١، ص ٣٦٥۔

[207] ۔ ایضاً، ص ٣٦٣۔ ٣٦٦، ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ١٩٠؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٤١٥؛ ابن حزم اندلسی، جوامع السیرہ النبویہ، ص ١٤٥؛ بیہقی، دلائل النبوہ، ج٣، ص ٣٥٣ و ٣٥٥۔ سید جعفر مرتضیٰ نے (معاصر) ابن اسحاق کی روایت اور مذکورہ واقعہ کے بارے مناقشات اور ابہامات ذکر کئے ہیں۔ اس بارے جاننے کے لیے ، ر۔ک: جعفر مرتضیٰ عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم ، ج٨، ص (٣٥۔ ٥١)

[208] ۔ واقدی، المغازی، ج١، ص ٣٧٤؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ١٩١؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٤١٥؛ احمد بن زینی دحلان، السیرة النبویہ، ج١، ص ٢٦١۔

[209] ۔ ر۔ک: واقدی، المغازی، ج١، ص ٣٦٨؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ١٩١؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج٢، ص ٤٩۔

[210] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص ٤٤٥؛ دیار بکری، تاریخ الخمیس، ج١، ص ٤٨۱۔

[211] ۔ واقدی، المغازلی، ج٢، ص ٤٥٥ و ٤٥٦؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٢٢٠ و ٢٢١۔

[212] ۔ واقدی، المغازلی، ج٢، ص ٤٥٤۔

[213] ۔ ایضاً، ص ٤٥٧۔

[214] ۔ کعب بن اسد یہ جملہ کہہ رہا تھا اور ساتھ ہی اپنی جوتی کے بند کو توڑ کو رسول اللہ ﷺ کے بھیجے گئے مامورین کو دکھا رہا تھا۔

[215] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٢٢١ و ٢٢٢۔

[216] ۔ ر۔ک: محمد السید الوکیل، یثرب قبل الاسلام، ص ٤٤ و ٤٥۔

[217] ۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابی جابر بن عبد اللہ انصاری اس بارے میں کہتے ہیں کہ جنگِ خندق میں ہم قریش کی نسبت بنی قریظہ سے زیادہ ڈر رہے تھے کہ مبادا بنی قریظہ مدینہ کے اندر ہمارے بچوں اور عورتوں پر حملہ کردیں۔ اسی طرح زوجۂ پیامبر خدا ام سلمہ کہتی ہیں: ”میں مختلف جنگوں میں رسول اللہ ص کے ساتھ تھی۔ان جنگوں میں سے کچھ میں قتل و غارت بھی ہوئی اور دشمن سے خوف کا سامنا تھا؛ مثلاً ، خیبر، حدیبیہ، فتح مکہ اور حنین میں؛ لیکن ان سب میں سے ایک جنگ بھی رسول خدا   کے لیے جنگ خندق کی طرح سخت نہ تھی اس جنگ میں مسلمانوں کے سروں پر مسلسل خوف کے بادل منڈلا رہے تھے۔۔۔ ہم اپنے بچوں اور عورتوں کے معاملے میں بنی قریظہ سے امان میں نہیں تھے مدینہ کا صبح تک پہرہ دیا جاتا رہا” (واقدی، المغازی، ج٢، ص ٤٦٧ و ٤٦٨)

[218] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص ٤٥٩؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٢٢٢۔

[219] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص ٤٥٩؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٢٣٣۔ ٢٣٥۔

[220] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٥٠٤؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٢٣٨۔

[221] ۔ اس بارے، ر۔ک: واقدی، المغازی، ج٢، ص ٥٠١۔ ٥٠٣۔

[222] ۔ ر۔ک: ایضاً، ج٢، ص ٥١٠؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٢٣٩۔

[223] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٥١٢؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٢٤٠ و ٢٤١۔

[224] ۔ نمونہ کے لئے، ر۔ک: شہیدی، تاریخ تحلیل اسلام، ٨٧۔ ٨٩۔

[225] ۔ نمونہ کے لئے، ر۔ک: مونتگمری وات، محمد فی المدینہ، ص ٣٢٧ و ٣٩٩؛ جعفر مرتضیٰ عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم ، ج٩، ص ٢٠٢ و ٢٠٣۔

[226] ۔ مطلب یہ ہے کہ اس صورت میں تمہاری بجائے عرب کے رہزن مجھ سے جنگ کریں گے۔

[227] ۔ ”و ان جنحوا للسم فاجنع لھا ۔۔۔”۔

[228] ۔ علی بن ابراہیم قمی، ج١، ص ٤٦٢ و ٢٦٣؛ مجلسی، بحار الانوار ، ج١٩، ص ٢٢٤۔

[229] ۔ حکیم بن حزام نے عتبہ کو تجویز کیا کہ وہ مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے عمرو بن حضرمی کے خون کا مطالبہ کرے تاکہ جنگ کے شعلے ٹھنڈے ہوسکیں۔ عتبہ نے نیز اسے قبول کیا۔ (ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٦٢٢)

[230] ۔ ر۔ک: واقدی، المغازی، ج١، ص ٦٣ و ٦٤؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٦٢٣۔

[231] ۔ اس مطلب کی طرف کنایہ ہے کہ ان کے ذہن میں صرف جنگ اور دشمنی ہے۔

[232] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٣٠٩۔

[233] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص ٤٤٠؛ ابن سعد، الطبقات الکبری؛ ج٢، ص ٥٤؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج٢، ص ٤٣٠؛ البتہ محاصرہ کی مدت کے بارے ایک اور قول بھی ہے مثلاً بعض نے پانچ دن اور بعض نے تقریباً ایک ماہ ذکر کیا ہے (ر۔ک: یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج٢، ص ٥٠؛طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج٢، ص ٥٧٢)

[234] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص ٤٦٨۔

[235] ۔ جنگ خندق میں جب علی ؑابن ابی طالبؑ ـ عمرو بن عبدود کے مقابلے کے لیے نکلے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کل اسلام یا کل ایمان کل کفر کے مقابلہ کے لیے جا رہا ہے”۔ طبرسی، اعلام الوری، ج١، ص ٣٨١؛ جعفر مرتضیٰ عاملی، الصحیح من سیرة النبی ، ج٩، ص ٣٣٥)

[236] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص ٤٤١ و ٤٤٢۔

[237] ۔ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٤٢٧۔

[238] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص ٤٤٣؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٤٣٧۔

[239] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص ٤٤٣۔

[240] ۔ محمد حمید اللہ، الوثائق السیاسہ، ص ٧٢ (نقل از محمد بن جریر طبری، السیرة، روایت شیخ ابو الحسن بکری، نسخۂ خطی آیا صوفیا)۔

[241] ۔ محمد حمید اللہ، الوثائق السیاسہ، ص ٧٢۔

[242] ۔ احمدی میانجی، مکاتیب الرسول ، ج٣، ص ٥٩٨ و ٥٩٧۔

[243] ۔ ر۔ک: واقدی، المغازی، ج٢، ص ٤٤٣؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج٢، ص ٤٢٧۔

[244] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص ٤٤٤۔

[245] ۔ صالح احمد العلی، حجاز در صدر اسلام، ص ١٥٧۔

[246] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص ٤٧٧۔

[247] ۔ ایضاً، حلبی، انسان العیون، ج٢، ص ٦٤٠۔

[248] ۔ حلبی، انسان العیون، ج٢، ص ٦٤٠۔

[249] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص ٤٧٧ و ٤٧٨۔

[250] ۔ ر۔ک: ایضاً، ص ٤٧٩۔

[251] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٢٢٣۔

[252] ۔ ایضاً، ص ٢٦٣۔

[253] ۔ جعفر مرتضیٰ عاملی، الصحیح من سیرة الاعظم ، ج٩، ص ٢٤٦۔ ٢٥٢؛ اسی طرح ، ر۔ک: جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام ، ج١، ص ٥٦٠۔

[254] ۔ جعفر مرتضیٰ عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم ، ج٢، ص ٢٦٠، ٢٦١ (نقل از سبل الہدیٰ و الرشاد، ج٤، ص ٥٤٣ و ٥٤٤)

[255] ۔ عاتق بن غیث البلادی، معجم قبائل الحجاز، ص ١٣٧۔

[256] ۔ واقدی، المفازی، ج١، ص٣٣٨ و ٣٣٩۔

[257] ۔ ر۔ک: ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ١٠٢۔

[258] ۔ محمد حمیداللہ، الوثائق السیاسیہ، ص٢٧٣و٢۷٤۔

[259] ۔ ر۔ک: محمد بن حبیب بغدادی، المنطق فی اخبار قریش، ص ٨٦۔٩٠۔ البتہ اس سے پہلے تاریخی پس منظر کے عنوان کے تحت عصر جاہلیت کے پیمانوں کے دوام اور بقا پر بات ہو چکی ہے۔

[260] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٥۔

[261] ۔ ایضا، ص١٢٨۔

[262] ۔ ایضا، ص٢٨٩۔

[263] ۔ ابن سلام۔ الاموال، ص٢٧٢ و ٢٨٧۔

[264] ۔ واقدی، المغازی، ج١، ص٥٣٢۔

[265] ۔ ر ک ابن ھشام،السیرہ النبویہ ،ج۲،ص۳۱۱۔

[266] ۔ واقدی، المغازی، ج۲، ص۷۴۹۔

[267] ۔ ایضا،۷۳۰۔

[268] ۔ تہامہ جزیرة العرب کا ایک حصہ تھا جو ایک نظریئے کے مطابق دریائے سرخ کے ساحلی علاقے پر مشتمل تھا(بشمولِ مکہ ) اس بارے اور بھی نظریات ہیں۔ یاقوت حمودی، معجم البلدان، ج٢، ص٢٤

[269] ۔ واقدی ،المغازی،ج۲ص۷۴۹و۷۵۰۔ابن سلام۔ الاموال، ص٢۸٧ و ٢٨۸۔

[270] ۔ پیامبر اکرم (ص) کے حدیبیہ کی طرف سفر کے لئے قدیم مورخین نے ”غزوہ” کے عنوان کا انتخاب کیا ہے ( واقدی، المغازی، ج٢، ص٥٧١؛ ابن سعد، الطبقات اکبری، ج٢، ص٧٢؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج٢، ص٥٤) بعص نے ”عمرہ” کا لفظ استعمال کیا ہے (: ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج١، ص٥٨٢) اسی طرح ایک بیان کے مطابق یہ سفر عمرہ کے نام سے معروف تھا (ر۔ک: مسعودی، مروج الذھب، ج٢، ص٢٩٦)۔ بعض نے ”امرالحدیبیہ”، ”قصہ الحدیبیہ” یا ”یوم الحدیبیہ” کی تعبیروں سے کام لیا ہے(ر۔ک: ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٠٨؛ طبری، تاریخ الامم ولملوک، ج٢، ص٦٢٠ و ٦٢١؛ ابن سلام، الاموال، ص٢٣٢ و ٢٣٣) اسی طرح ان کے بعد کے ادوار میں ”صلح الحدیبیہ” کی تعبیر سے کام لیا گیا ہے (ر۔ک: قسطلانی، المواھب اللدنیہ، ج١، ص٢٦٦)۔

[271] ۔ بیہقی، دلائل النبوہ، ج٣، ص٤٥٨؛ ابن سیدالناس، عیون الاثیر، ج٢، ص٩٩؛ حلبی، انسان العیون، ج٣، ص٦٥٤۔

[272] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٠٨؛ بیہقی، دلائل النبوہ ج٤، ص٩١۔

[273] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٥٧٢؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص١٢١۔

[274] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٥٧٣۔

[275] ۔ ایضا، ص٥٧٤۔

[276] ۔ حلیفہ مدینہ کے شہر سے چھ یا سات میل کے فاصلے پر ایک گاؤں تھا۔ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٢، ص٣٣٩ و ٣٤٠۔

[277] ۔ ابن شباب زھری، المغازی النبویہ، ص٥٠؛ بیہقی، دلائل النبوہ، ج٤، ص٩٩؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص ٢١٣۔

[278] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٥٧٣ و ٥٧٤۔

[279] ۔ مزید معلومات کے لیے رجوع کریں: واقدی ، المغازی، ج۱، ص ۱۳۔ ۱۹۔

[280] ۔ ر۔ک: جواد علی، المفعل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج٧، ص٢٨٧ و ٢٨٨؛ جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ج١، ص٥٧٩؛ محمد بحرالعلوم، صلح الحدیبیہ بین التکشیک و الاستراتیجیہ، ص۱۲۔

[281] ۔ ر۔ک: واقدی، المغازی، ص٥٧٩ و ٥٨٠، ج٢۔

[282] ۔ شہرستانی، الملل النحل، ج٢، ص٢٤٨۔

[283] ۔ ثقیف طائف میں رہائش پزیرایک قبیلہ تھا۔ (ر۔ک: سعاتق بن غیث البلادی، معجم قبال الحجاز، ص٦٧۔٦٩)

[284] ۔ لفظ احابیش تحابش سے ہے جس کا معنی تجمع ہے۔ یہ لفظ مکہ کے علاقے میں رہنے والے ان چند خاندانو ں   کے لیے بولا جاتا تھا جو باہمی طور پر ایک دوسرے کے اتحادی تھے نیز جداگانہ طور پر بھی قریش کے ساتھ ان کا معاہدہ تھا۔ (ر۔ک: عاتق بن غیث البلادی، معجم قبائل الحجاز، ص١٢ و ١٣۔

[285] ۔ غمیم مکہ اور مدینہ کی راہ میں رابغ اور حجفہ کے درمیان ایک جگہ تھی۔ آجکل اس جگہ کو برقاء الغمیم کہتے ہیں۔ (ر۔ک: عاتق بن غیث البلادی، معجم معالم الحجاز، ج٦، ص ٢٦٣۔٢٦٦)

[286] ۔ عاتق بن غیث البلادی، معجم معلم الحجاز، ج١، ص٢٥٠)

[287] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٥٧٩؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ٢١٦۔

[288] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٠٩۔

[289] ۔ واقدی المغازی، ج٢، ص٥٨٠؛ دلائل النبوہ، ج٤، ص١٠٠؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص٢١٦۔

[290] ۔ عسقان مکہ سے ٣٦ میل کے فاصلے پر قبیلہ خزاعہ کا ایک بڑا گاؤں تھا۔ (عاتق بن غعث البلادی، معجم معلم الحجاز، ج٦، ص١٠٠)

[291] ۔ واقدی المغازی، ج٢، ص٥٨٠؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج٢، ص٩٥؛ بیہقی، دلائل الن،

[292] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٠٩۔ بوہ، ج٤، ص١٠٠)

[293] ۔ جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ج١، ص٥٨٢۔

[294] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣١٠؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١ ص٢١٨ و ٢١٩۔

[295] ۔ ر۔ک: یاقوت حمی، معجم البلدان، ج٢، ص٢٦٥۔

[296] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٥٨٢ ٥٨٣۔ نماز خوف ایک مخصوص نماز ہےجو جنگی حالات میں پڑھی جاتی ہے۔ اس بارے فقہی منابع کی طرف رجوع کیا جائے۔

[297] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٥٨٣۔٥٨٧۔

[298] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣١٠۔

[299] ۔ واقدی۔ المغازی، ج٢، ص٥٨٩ و ٥٩٠؛ بیقہی، دلائل النبوہ، ج٤، ص١١٠ و ١٣١؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص٢٣٠۔

[300] ۔ ر۔ک: واقدی۔ المغازی، ج٢، ص٥٩٠ و ٥٩١؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص٢١٩ و ٢٢٠۔

[301] ۔ یہاں پر منصفی اور گفتگو کا مفہوم تاریخی روش اور دونوں طرف کے لوگوں کی آمدورفت کی صورت میں منصفی کے لئے پیغام رسانی ہے۔

[302] ۔ اس تحریر میں تھوڑا پہلے حدیبیہ سے پہلے کے صلح کے معاہدوں کی تحقیق میں مذکورہ شخص کی منصفی کے سلسلہ میں کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔۔

[303] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٥٩٣ و ٥٩٤؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص ٢٢٠ و ٢٢١۔

[304] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٥٩٥؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص ٢٢١۔

[305] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٥٩٨؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص٢٢١؛ جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ج١، ص٥٨٤۔

[306] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٥٩٩؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص٢٢١۔٢٢٢۔

[307] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٥٩٩؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص٢٢٢۔

[308] ۔ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج٢، ص٥٤۔

[309] ۔ ابن شھاب زھری (٥١۔١٢٥ق) کی روایت کے مطابق مکرزبن حفص آخری مرحلے میں پیامبر اکرم (ص)کے پاس آیا[اسی سے آپ(ص) کی گفتگو کے وقت قریش کے بزرگوں میں سے سہیل بن عمرو آپ کے پاس آیا اور اسی وقت صلح ہوئی (ابن شھاب زہری، المغازی النبویہ، ص٥٤) تاریخ یعقوبی میں اس طرح ہے کہ مکرز شروع میں پیامبر اکرم (ص) کے پاس آیا (یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج٢، ص٥٤)۔ البتہ یہ تو واضح ہے کہ اس طرح کا اختلاف اصل واقعہ پر اثرانداز نہیں ہو سکتا۔

[310] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٥٩٩؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص٢٢١۔

[311] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٠٠؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص٢٢٢؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص١٤۶۔

[312] ۔ واقدی، المغازی، ج١، ص٦٠١۔٦٠٢؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص٢٢٣۔

[313] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣١٥۔

[314] ۔ جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ج١، ص٣١٥۔

[315] ۔ واقدی، المغازی، ج١، ص٦٠٢۔٦٠٣۔

[316] ۔ ایضا، ص٦٠٢؛ ابن کثیر البدایہ النہایہ، ج٤، ص١٩١۔

[317] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٠١۔

[318] ۔ ایضا، ص٦٠٢ و ٦٠٣۔

[319] ۔ ”لقد رضی اللہ” (فتح٤٨، ١٨)

[320] ۔ ذھبی، سیراعلام النبلاء، ج٢، ص٥٥۔

[321] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣١٥۔

[322] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٠٣؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص٢٢٣۔

[323] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٠٤۔

[324] ۔ سہیل بن عمرو قریش کے بزرگوں میں سے تھا، گفتگو میں بہت مہارت رکھتا تھا وہ آٹھ ہجری میں فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوا۔ (اس کے بارے میں جاننے کے لئے ملاحظہ فرمائیے: : ابن اثیر، ادالغابہ، ج٢، ص٤٨٠۔٤٨١) یہاں پر توجہ رہے کہ اجمالا ذکر کیا گیا ہے کہ سہیل بن عمرو نے بھانپ لیا کہ حالات قریش کے حق میں نہیں اس لئے صلح پر آمادہ ہوا۔(ر۔ک: شیض مفید، الارشاد، ج١، ص١١٩)

[325] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٠٤؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص٢٢٤۔

[326] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٠٢۔

[327] ۔ ایضا، ص٦٠٤، مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص٢٢٤۔

[328] ۔ بیہقی، دلائل النبوہ، ج٤، ص١٤٨۔

[329] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٢٠٥۔

[330] ۔ ایضا، ص٦٠٦و ٦٠٧؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣١٦؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ٢٢٥۔

[331] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٠٧ و ٦٠٩؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣١٨؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص٢٢٥ و ٢٢٦۔

[332] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص ٦٠٩۔

[333] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢ اسی طرح ر۔ک: واقدی، المغازی، ج٢، ص ٦١٠۔

[334] ۔”مشرکین رحمن کے عنوان کی نسبت حساس تھے۔”(ر۔ک: قرآن کریم، فرقان٢٥، ٦٠) ۔

[335] ۔ ر۔ک: علی بن ابراہیم قمی، تفسیرالقمی، ص٢٨٨۔

[336] ۔ ایضا، ص٢٨٩۔

[337] ۔ نادر روایات کے مطابق صلح کی مدت چار یا دو سال تھی۔ (مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص٢٢٨)

[338] ۔ متن میں ایسے آیا ہے:”لا اسلال ولا اغلال”(ترجمہ کے لئے: ر۔ک: احمد بن ذینی دحلان، السیرة النبویہ، ج٢، ص٤٤؛ احمدی میانجی، مکاتیب الرسول ، ج٣، ص٨٣)

[339] ۔ متن میں ایسے آیا ہے:”ان بیننا و بینھم عیبة مکفوفة” اس طرح معنی کیا گیا ہے”امرا مطویة فی صدرو سلیمة؛ اشارة الی ترل المؤخذة بما تقدم منھا من اسباب الحرب” (احمد بن ذینی دحلان، السیرة النبویہ، ج٢، ص٤٤)

[340] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦١١ و ٦١٢؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣١٧ و ٣١٨؛ طبری، تاریخ الامم والملوک، ج٢، ص٦٣٥؛ علی بن ابراہیم قمی، تفسیرالقمی، ج٢، ص٢٨٩؛ دلائل النبوہ، ج٤، ص١٤٥؛ ابن جوزی، ص٥٨٦؛ ابن کثیر، البدایہ والنھایہ، ج٤، ص١٩٢؛ زرقانی، شرح المواھب اللدنیہ، ج٣، ص٢٢١؛ دیاربکری، تاریخ الخمیس، ج٢، ص٢١۔

[341] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦١٢۔

[342] ۔ ابن ہشام، سیرة النبویہ ، ج٢، ص٣١٩۔

[343] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦١٢۔

[344] ۔ ایضاً۔

[345] ۔ علی ابن ابراہیم قمی، تفسیر القمی، ج٢، ص٢٨٩؛ طبرسی، اعلام الوری، ج٢، ص٢٠٥؛ احمد میانجی، مکاتیب الرسول، ج٣، ص٥۔

[346] ۔ طبرسی، مجمع البیان، ج٩، ص١٧٩؛ احمد میانجی، مکاتیب الرسول، ج٣، ص٧٧؛ محمد حمید اللہ، الوثاق السیاسیہ، ص٧٧؛ اسی طرح ر۔ک: بلاذری، انصاب الاشراف، ج١، ص٤٤١۔

[347] ۔ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج٢، ص٥٤؛ مسعودی، التبسیہ والاشراف، ص٢٢١؛ اسی طرح ر۔ک: بیہقی، دلائل النبوہ، ج٤، ص١٤٥؛ احمد بن زینی دحلان، السیرة النبویہ، ج٢، ص٤٢۔

[348] ۔ مقصد یہ تھا کہ قریش مکہ کو خالی کرنے پر مجبور نہ ہوں، اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ نکتہ”ج” میں مکہ کو خالی کرنا لازم نہ تھا۔

[349] ۔ ابن السلام، الاموال، ص٢٣٣؛ مجلسی، بحارالانوار، ج٢، ص٣٧٢؛ احمد بن زینی دحلان، السیرة النبویہ، ج٢، ص٤٤۔ گمان کی بناء پر آخری نکتے کا بیان یہ تھا کہ پیغمبراسلام کے بجائے ان کے ساتھی تین دن سے زیادہ مکہ میں ٹھہر سکتے تھے۔

[350] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦١٢؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣١٨۔ قابل ذکر ہے کہ بعض حوادث کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ، جن کا ذکربعد میں کیا جائے گا، یہی اتحاد اور معاہدہ مسلمانوں کے لئے فتح مکہ کا باعث بنا۔

[351] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦١٣؛بیہقی، دلائل النبوہ، ج٤، ص١٥٠۔

[352] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦١٣۔٦١٥؛ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢،ص٣١٩۔

[353] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦١٧؛ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢،ص٣٢٠۔

[354] ۔ احمد بن زینی دحلان، السیرة النبویہ، ج٢، ص٤٦۔

[355] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٠٧۔٦٠٩؛ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢،ص٣١٨؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص٢٢٥۔٢٢٦۔

[356] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٠٩؛مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص٢٢٦۔

[357] ۔ کنایہ ہے کہ قریش کی طرف جانے والے شخص کو ہم سے دور ہی رہنا چاہئے کیونکہ ایسے شخص کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔

[358] ۔ احمد بن زینی دحلان، السیرة النبویہ، ج٢، ص٤٤۔ اس کے بعد ہم دیکھیں گے کہ پیغمبراکرم(ص)   کی گشائش کے سلسلے میں پیشگوئی کس طرح تحقق پذیر ہوئی۔

[359] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٠٩؛مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص٢٢٦۔٢٢٧۔

[360] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٠٥؛ بیہقی، دلائل النبوہ، ج٤، ص١٤٥۔

[361] ۔ ر۔ک: واقدی، المغازی، ج٢، ص٦١٢۔

[362] ۔ ایضاً، ص٦٠٨؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص٢٢٦۔

[363] ۔ واضح ہے کہ صلح کے ذریعے مذکورہ اہداف سے مدمقابل بھی یکساں طور پر مستفید ہو رہے تھے۔

[364] ۔ صلح نامے کا یہ نکتہ خود قریش کے مطالبے پر تھا کہ مسلمان اس سال مکہ میں داخل نہ ہوں۔ جبکہ اس نکتے میں واضح کیا گیا پیغمبراکرم (ص) اور آپ کے اصحاب آئندہ سال مکہ آ سکتے ہیں۔ یہ نکتہ آئندہ سال یعنی ٧ہجری کے بعدکے سالوں کے بارے میں خاموش تھا، ایسےحوادث پیش آئے کہ ٨ہجری میں قریش نے صلح کو توڑ دیا اور اس کے جواب میں مسلمانوں نے مکہ فتح کر لیا۔

[365] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٠٩۔

[366] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦١٢؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣١٨۔

[367] ۔ واضح رہے کہ اس صلح کا نکتہ ”ب” مدمقابل کے لئے بھی یکساں اہمیت کا حامل تھا۔ اسی طرح قابل ذکر ہے کہ صلح کا مذکورہ نکتہ صرف رسول خدا کے اصحاب کو شامل تھا، اس لحاظ سے خود آپ(ص) ایام حج کے علاوہ عام دنوں میں مکہ میں نہیں آ سکتے تھے۔

[368] ۔ احمد بن زینی دحلان، السیرة النبویہ، ج٢، ص٤٦ و ٤٥۔ اس کے بعد صلح کے نتائج میں اس بارے بات ہو گی۔

[369] ۔ ر۔ک: طبری، تاریخ الامم والملوک، ج٢، ص٦٤٨۔

[370] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦١٨؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٣، ص٣٢٢۔ تفسیری منابع میں مذکورہ مصداق کے علاوہ فتح مکہ اور فتح خیبر بھی ذکر ہوئے ہیں۔ ر۔ک:طبرسی، مجمع البیان، ج٩، ص١٦٦ و ١٦٧۔

[371] ۔ حلبی، انسان العیون، ج٢، ص٧١٥؛ احمدی میانجی، مکاتیب الرسول، ج٣، ص٩٦۔

[372] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٢٤۔

[373] ۔ ایضا؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٢٢۔

[374] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٢٢۔

[375] ۔ طبرسی، اعلام الوری، ج١، ص٢٠٥۔

[376] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٢٤۔

[377] ۔ قبیلۂ قریش نےصلح کو اس طرح توڑا کہ رسول اللہ ﷺکے اتحادی قبیلہ خزاعہ کے خلاف اس کے دشمن کا ساتھ دیا۔ اس واقعہ کی تفصیل آئندہ صفحات میں بیان کی گئی ہے۔

[378] ۔ احمد بن زینی دحلان، السیرة النبویہ، ج٢، ص٤٤ و ٤٥۔

[379] ۔ ر۔ک: طبرسی، تاریخ الامم والملوک، ج٢، ص٦٤٤۔٤٥٧۔

[380] ۔ ر۔ک: واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٣٣۔٦٩٣؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٢٨۔٣٣٨۔

[381] ۔ ر۔ک: واقدی۔ المغازی، ج٢، ص٧٢٢۔٧٨٠۔

[382] ۔ ر۔ک: شہرستانی، الملل والنحل، ج٢، ص٢٤٧۔

[383] ۔ واقدی المغازی،ج۲،ص۶۲۴۔

[384] ۔ ابن ھشام السیرہ اللنبویہ،ج۲ص۳۲۳۔

[385] ۔ واقدی المغازی،ج۲ص۶۲۴،۶۲۵؛ابن ھشام،السیرہ النبویہ،ج۲ص۳۲۳۔

[386] ۔ واقدی المغازی،ج۲،ص۶۲۴،۶۲۵۔

[387] ۔ ایضا، ص٦٢٥ و ٦٢٦؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٢٣ و ٣٢٤۔

[388] ۔ واقدی المغازی، ج٢، ص٦٢٧؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٢٤۔

[389] ۔ ذھبی، سیراعلام النبلائ،ج٢، ص٥٩۔

[390] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٢٧؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٢٤۔

[391] ۔ واقدی المغازی، ج٢، ص٦٢٧۔٦٢٩؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٢٤۔

[392] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٣٤؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٢٣۔

[393] ۔ ر۔ک: قرآن مجید، ممحنہ(٦٠)، ١٠۔

[394] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٣١؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٢٦۔

[395] ۔ واقدی، ال١مغازی، ج٢، ص٧٣١۔

[396] ۔ ایضاص۷۳۴۔

[397] ۔ ایضا، ص٧٣٤۔

[398] ۔ ایضا، ص٧٣٥ و ٧٤٠۔

[399] ۔ ایضا، ص٧٣٤۔

[400] ۔ ایضا، ص٧٣٨۔

[401] ۔ یہ رسول اللہ (ص) کی ازواج میں سے ہیں۔

[402] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٧٣٩ و ٧٤٠۔

[403] ۔ حدیبیہ سے پہلے کے صلح کے معاہدوں کی تحقیق میں خزاعہ کے ساتھ معاہدے کے عنوان کے تحت تفصیل سے ذکر ہوا کہ قبیلۂ خزاعہ بہت دیر سے رسول اللہ کے جدِ اعلی عبدالمطلب کا اتحادی تھا اور انہوں نے ہمیشہ غیراعلانیہ طور پر آپ(ص) کی حمایت میں جانبداری سے کام لیا۔ لیکن صلح حدیبیہ کے بعد ان کو یہ موقع ملا کہ اپنے روابط کو آپ ﷺ کے ساتھ علانیہ طور پر مضبوط کر سکیں۔

[404] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦١٢۔

[405] ۔ ایضا، ص٧٨٣۔

[406] ۔ ایضا؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٩٠۔

[407] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٧٨٤ و ٧٨٧۔

[408] ۔ ایضا، ص٧٨٤ و ٧٨٨۔

[409] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٩٥۔

[410] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٧٩٢؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٩٦۔

[411] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٧٩٢۔٧٩٤۔

[412] ۔ ایضا، ص٨٠١۔

[413] ۔ یہاں پر ان صلح کے معاہدوں کا جائزہ لیا جائے گا جو صلح حدیبیہ کے بعد وقوع پذیر ہوئے۔ اگرچہ ممکن ہے کہ ان صلح کے معاہدوں میں سے بعض زمانی اعتبار سے صلح حدیبیہ کے بعد کے واقعات جو اس سے پہلے حصے میں گزرے ،سے مقدم ہوں۔

[414] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٩٣٤۔

[415] ۔ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٢، ص٤٦٨۔

[416] ۔ محمد حسن شراب، المعالم الثیرہ، ص١٠٩۔

[417] ۔ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٢، ص٤٦٨۔

[418] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٧٠١۔

[419] ۔ ایضا، ص٥٦٦ و ٥٦٧؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٦١٨۔ اخیر منبع میں اسیر بن زارم کے نام کے بجائے یسیربن رزام اور ابن رازم ذکر ہوا ہے۔

[420] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٦١٨۔

[421] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٥٦٧؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٦١٨ و ٦١٩۔

[422] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٥٦٦۔

[423] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٢٨۔

[424] ۔ کہا جاتا ہےکہ خیبر سات قلعوں پر مشتمل تھا (ر۔ک:یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٢، ص٤٦٨، لیکن اس کے باوجود مذکورہ تین حصوں کو خیبر کے اصلی حصے سمجھا جا سکتا ہے(اس کے متعلق: ر۔ک: واقدی۔ المغازی، ج٢، ص٦٤٧، ٦٦٧، ٦٦٩، ٦٩٢ و ٧١٣؛ ابن ہشام۔ السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٣٧)۔

[425] ۔ ر۔ک: واقدی، المغازی، ج١، ص٦٣٧، ٦٤٠ و ٦٤٧۔

[426] ۔ کچھ پہلے، دوسرے حصہ میں گزرا کہ پانچ ہجری میں جنگ خندق میں بھی غطفان کے لوگ مسلمانوں سے لڑے تھے۔

[427] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٤٢ و ٦٥١۔

[428] ۔ ایضا، ص ٦٥٠۔

[429] ۔ مذکورہ جگہ کے لئے حنیعاء کا نام بیان ہوا ہے(واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٥١ و ٦٥٢؛ البتہ منابع میں واضح طور پر اس مقام کی نشاندہی نہیں ہوئی ہے۔

[430] ۔یہ احتمال بھی دیا گیا ہے کہ یہ صدا غیب سے امداد الہی کے ساتھ تھی(واقدی،المغازی، ج٢، ص٦٥١)

[431] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٤٥٢؛ اسی طرح ر۔ک:ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٣٠۔

[432] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٥١۔

[433] ۔ ر۔ک: ایضا، ص٦٥٢۔٦٥٥؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٣٠ و ٣٣٤۔

[434] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٦٩۔

[435] ۔ ایضا، ص٦٧٠ و ٦٧١۔

[436] ۔ ایضا، ص٦٦٩ و٦٧٠؛ ابن کثیر البدایہ النہایہ، ج٤، ص٢٢٦؛ اسی طرح: ر۔ک: ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص۳٣٧۔

[437] ۔ ر۔ک: واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٧٠؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٣٧۔

[438] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٩٠۔

[439] ۔ ایضا؛ ابن سلام، الاموال، ص١٠٨؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٣٧۔ (مساقاة بمعنی مالی بنانا) ایک ایسی قرارداد ہے کہ جس کی بنیاد پر ایک شخص یا بہت سے اشخاص سے باغبانی کا کام لیا جائے اور اس کے عوض ان کو پھل کا کچھ حصہ دیا جائے۔ اس بارے بیشتر آگاہی کے لئے تفصیلی فقہی منابع کی طرف رجوع کریں۔

[440] ۔ ابن ہشام، السیرة لنبویہ، ج٢، ص٣٣٧؛ ابن کثیرل البدایہ الہدایہ، ج٤، ص٢٢٥ و ٢٢٧۔ توجہ رہے کہ مذکورہ شرط مساقاة کی ماہیت سے مطابقت رکھتی ہے کہ کام کرنےکی قرارداد ہے۔

[441] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٩٠ و ٦٩١؛ حمید بن زنجویہ، الاموال، ج١، ص٣٨٠۔

[442] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٧١٤ و ٧١٥۔

[443] ۔ فقہی مباحث میں سے ایک قسامہ کی بحث ہے (بمعنی ایک دوسرے کے سامنے قسم کھانا) کہ مذکورہ ماجرے کی تحقیق اس بحث میں ہی ہو سکتی ہے۔

[444] ۔ ر۔ک: واقدی، المغازی، ج٢، ص٧١٦ و ٧١٧۔

[445] ۔ ابن یعقوب ہمدانی، صفة جزیرة العرب، ص٢٤٤۔ قوی احتمال کی بناء پر مذکوہ بیان میں اعراب سے مراد عرب کے مسلمان ہیں۔

[446] ۔ ابن کثیر، البدایہ والنھایہ، ج٤، ص٢٤٩ و ٢٥٠۔ جزیہ کے بارے آگے چل کر بات ہو گی۔

[447] ۔ یاقوت حموی۷۔واقدی، المغازی، ج٢، ص٧٠٦۔

[448] ۔ واقدی، معجم البلدان، ج٤، ص٢٧٠۔

[449] ۔ ایضاً، ص٧٠٦ و ٧٠٧؛ ابن شبہ نمیری، تاریخ المدینہ المنورہ، ج١، ص١٩٤ و ١٩٥۔

[450] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٧٠٧۔

[451] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٣٧ و ٣٥٣؛ اس بیان کی مذکورہ شرط کے متعلق یاد رہے کہ یہ معاہدہ رسول خدا (ص)کے خیبر کے یہودیوں سے معاہدہ کی طرح ہے جو کام کی قرارداد(مساقاة) سے موسوم تھا۔ اس معاہدہ کی نوعیت ایسی تھی کہ یہ ہمیشہ کے لئے نہیں تھا۔

[452] ۔ حضرت عمربن خطاب نے رسول خدا (ص)کی ایک روایت سے استناد کرتے ہوئے غیرمسلموں کو حجاز سے نکال دیا(اس بارے میں ر۔ک: ابن سلام، الاموال، ص١٤٢ تا ١٤٥۔

[453] ۔ حمید بن زنجویہ، الاموال، ج١، ص٩٤۔

[454] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٥٣؛ ابن شبہ نمیری، تاریخ المدینہ المنورہ، ج١، ص١٩٤؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٤، ص٢٧٠۔

[455] ۔ اقوت حموی، معجم البلدان، ج٥، ص٢٧٢ و ٢٧٣؛ جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ج١، ص٦٠٩؛ اس سے متعلق مزید آشنائی کے لئے کتاب ”فدک فی التاریخ” (السید محمد باقر الصدر) کی طرف رجوع کیجئے۔

[456] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٧٠٧؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٣٧؛ بلاذری، انصاب الاشراف، ج١، ص٤٤٥؛ ابن سیدالناس، عیون الاثر، ج٢، ص١٩٧؛ زرقانی، شرح المواحب الدنیہ،ج٣، ص٣٠١۔

[457] ۔ محمد حسن شراب، المعالم الاثیرہ، ص٢٤٤۔

[458] ۔ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٥، ص٣٩٧؛ ابن سید الناس، اعیون الاثر، ج٢، ص١٩٧۔

[459] ۔ اس بارے میں ر۔ک: واقدی، المغازی، ج٢، ص٧١٠۔

[460] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٧١٠؛ بیہقی، دلائل النبویہ، ج٤، ص٢٧١؛ ابن قیم جوزیہ، زادالمعاد، ج٣، ص٣٥٥۔

[461] ۔ یاقوت حموی نے تصریح کی ہے کہ یہ ماجرا سات ہجری میں پیش آیا۔ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٥، ص٢٩٧۔

[462] ۔ (حتی یعطوا الجزیہ…) جزیہ کے بارے اور اس کے مقرر ہونے کے دور کے بارے آنے والی فصل میں توضیح دی جائے گی۔

[463] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٥٤٨؛ ابن سلام، الاموال، ص٢٨ و ٢٩؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٥، ص٣٤؛ اسی طرح ،ر۔ک: ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ج٤، ص۲۵۰۔

[464] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٧١١؛ بیہقی، دلائل النبوہ، ج٤، ص٢٧١؛ ابن قیم جوزیہ، زاد المعاد، ج٣، ص٣٥٥؛ حلبی، انسان العیون، ج٢، ص٧٧٥۔

[465] ۔ ابن سیدالناس، عیون الاشر، ج٢، ص١٩٧؛ صالحی شافی، سبل الہدی الارشاد، ج٥، ص١٤٩۔

[466] ۔ ابن سید الناس، عیون الاشر، ج٢، ص١٩٧۔

[467] ۔ ایضا۔

[468] ۔ اس بارے، ر۔ک: ابن سلام، الاموال، ص١٤٢۔١٤٥۔ دوسرے خلیفہ المسلمین کے دعوی کے بارے میں تحقیق کی ضرورت ہے۔

[469] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٣٣٨۔

[470] ۔ اس بارے، ر۔ک: ابن سید الناس، عیون الاشر، ج٢، ص١٩٧؛ حلبی، انسان العیون، ج٢، ص٧٧٥۔

[471] ۔ ر۔ک: صبحی صالح، النظم الاسلامیہ۔نشاتہا و تطورہا، ص٣٦٢ و ٣٦٣؛ وھبہ زحیلی، آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی، دراسة مقارنہ، ص٦٩٢۔

[472] ۔ قابل ذکر ہے کہ تاریخی منابع میں اس طرح کے اتفاق کے لئے صلح کی تعبیر استعمال ہوئی ہے۔ جیسے ”صالحوا علی الجزیہ” یا ”صولحوا علی الجزیہ” (نمونے کی لئے: ر۔ک: واقدی، المغازی، ج٢، ص٧١١ و ج٣، ص١٠٢٧، ١٠٣١ و ١٠٣٢؛ علی بن ابراہیم قمی، تفسیر القمی، ج١، ص١١٢؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٢، ص٧٨ وج ٥، ص٣٩٧؛ اسی طرح: ر۔ک: وھبہ زحیلی، آثار الحرب فی فقہ الاسلامی، دراة مقارنہ، ص٧٧٩)

[473] ۔ ”…حتی یعطوا الجزیہ…”

[474] ۔ ابن سلام، الاموال، ص٢٨ و ٢٩؛ حمید بن زنجویہ، الاموال، ج١، ص١١٧ و ١١٨؛ طبرسی، جامع البیان، ج٦(جز١٠) ص١٣٩؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٥، ص٣٤، ابوالفتوح رازی، روض الجنان…(تفسیر ابوالفتوح رازی)، ج٩، ص٢١٤؛ اسی طرح؛ ر۔ک: ابن ہشام، السیرة اصنبویہ، ج٢، ص٥٤٨۔

[475] ۔ طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج٩، ص٢٥٣۔

[476] ۔ مسعودی، التنبیہ والاشراف، ص٢٣٩؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج١، ص٦٤٦؛ ذہبی، سیر اعلام النبلائ، ج٢، ص٢٨٥؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص٣٦١؛ لوی ماسینیون، مباہلہ در مدینہ، ص٧١۔

[477] ۔ ابن کثیر، البدایہ النہایہ، ج٤، ص٢٥٠ و ج٥، ص٦٧۔

[478] ۔ واقدی، المغازی، ج٣، ص٩٩٠؛ ابن قتیبہ، المعارف، ص١٦٤؛ بلاذری، فتوح البلدان، ص٧١؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج١، ص٦٣٥۔

[479] ۔ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٢، ص١٧۔

[480] ۔ محمد حسن شراب، المعالم الاثیرہ، ص٦٩۔

[481] ۔ واقدی، المغازی، ج٣، ص١٠١٥ و ١٠١٩؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٥٢٧۔

[482] ۔ بلاذری، فتوح البلدان، ص٧١؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٢، ص١٧۔

[483] ۔ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج١، ص٣٤٧؛ آجکل ایلہ شہر (عقبہ) اردن میں ہے(محمد حسن شراب، المعالم الاثیرہ، ص٤٠)۔

[484] ۔ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج١، ص٣٤٧۔

[485] ۔ زرقانی، شرح المواھب اللدنیہ، ج٤، ص٩١۔

[486] ۔ واقدی، المغازی، ج٣، ص١٠٣١۔

[487] ۔ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج٢، ص٦٨۔

[488] ۔ ابن منظور مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر، ج١، ص١٦٨۔

[489] ۔ ابن سعد الطبقات الکبری، ج١، ص٢١٢؛احمدی میانجی، مکاتیب الرسول، ج٢، ص٤٧٣؛ محمد حمید اللہ، الوثائق السیاسیہ، ص ١١٦۔

[490] ۔ اس تحریر میں آگے چل کر واضح ہو جائے گا کہ رسول خدا (ص) نے دومة الجندل کے فرمانروا کی طرف فوج بھیجی۔ اس لحاظ سے ایک روایت میں آیا ہے کہ اہل ایلہ بھی خوفزدہ ہو گئے کہ مبادا اسی طرح آپ(ص)ان کی طرف بھی فوج بھیجیں۔ اس لئے وہ آپ (ص)کے پاس آئے اور صلح کی (واقدی المغازی، ج٣، ص١٠٣١) اس کے باوجود بعض نے تصریح کی ہے کہ اہل ایلہ کے ساتھ صلح دومة الجندل کی طرف فوج بھیجنے سے پہلے ہوئی تھی۔ (ابن قیم جوزیہ، زاد المعاد، ج٣، ص٥٣٧۔٥٣٩)

[491] ۔ واقدی، المغازی، ج٣، ص١٠٣١

[492] ۔ ابن قیم جوزیہ، زادالمعاد، ج٣، ص٥٣٩؛ حلبی، انسان العیون، ج٣، ص ١١٧۔

[493] ۔ واقدی، المغازی، ج٣، ص٣١۔١؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٥٢٥؛ ابن سلام الاموال، ص٤٦؛ بلاذری، فتوح البلدان، ص٧١؛ ابن قیم جوزیہ، زاد المعاد، ج٣، ص٥٣٩؛ حلبی، انسان العیون، ج٣، ص١١٧۔

[494] ۔ اصلی متن میں ”حالم” ذکر ہوا ہے جس کا مطلب بالغ مرد ہے۔ (ر۔ک: ابن منظور، لسان العرب) ”مادہ حلم”

[495] ۔ واقدی، المغازی، ج٣، ص٣١۔١؛ بلاذری، فتوح البلدان، ص٧١؛زرقانی، شرح المواھب اللدنیہ، ج٤، ص٩١۔

[496] ۔ یہاں پر دریائےسرخ مقصود ہے ،ایلہ کی سرزمین اس دریا کے شمالی ساحل پر واقع تھی۔

[497] ۔ اس معنی میں کہ معاہدہ شکنی کی صورت میں معاہدہ شکن کا جان و مال ضائع جائے گا اور کسی بھی طرح سے قابل احترم نہ رہے گا۔ (ابن قیم جوزیہ، زاد المعاد، ج٣، ص٥٦٩)۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاہدہ شکن کو موردنظر رکھا ہے نہ اسکے خاندان کو۔

[498] ۔ واقدی، المغازی، ج٣، ص٣١۔١؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٥٢٥ و ٥٢٦؛ ابن منظور، مختصر تاریخ دمشق، ج١، ص١٦٨؛ ابن قیم جوزیہ، زاد المعاد، ج٣، ص٥٣٧؛احمد میانجی، مکاتیب الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ج٣، ص٩٧۔

[499] ۔ جزیہ کی معین مقدار وہی ایک دینار (ہر ایک مرد کے لئے) تھی کہ زبانی طور پر آپ (ص)کے سفیروں نے جس کا ایلہ کے لوگوں میں اعلان کیا۔

[500] ۔ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج١، ص٢١٢؛احمد میانجی، مکاتیب الرسول ، ج٢، ص٤٧٣ و ج٣، ص٩٩؛ محمد حمید اللہ، الوثائق السیاسیہ، ص ١١٦۔

[501] ۔ قابل توجہ ہے کہ عمربن عبدالعزیز ایلہ کے لوگوں سے (تین سو دینارسے) زیادہ جزیہ نہیں لیتے تھے اور یہ وہی مقدار تھی جو وہ حضوراکرم (ص) کو دیتے چلے آتے تھے۔(ر۔ک:بلاذری، فتوح البلدان، ص٧١)

[502] ۔ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج١، ص١٥٧ و ج٢، ص١٣٧۔ آجکل اذرح اور جربا کے گاؤں ایک دوسرے کے ہمسائے میں اردن کے مشرق میں واقع ہیں۔ محمد حسن شراب، المعالم الاثیرہ، ص٨٩۔

[503] ۔ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج٢، ص٩٥۔

[504] ۔ واقدی، المغازی، ج٣، ص٣١۔١؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٥٢٥؛ ابن قیم جوزیہ، زاد المعاد، ج٣، ص٥٣٧؛ زرقانی، شرح المواھب اللدنیہ، ج٤، ص٩١۔

[505] ۔ ایک روایت کے مطابق جزیہ کی اس مقدار کے علاوہ ”ایک سو اوقیہ” بھی تھی۔(ابن کثیرل البدایہ النہایہ، ج٥، ص٢١) اوقیہ وزن کے لئے ایک مقیاس ہے جو ٤٠ درہم کے برابر تھی۔ (ر۔ک: ابن منظور، السان العرب؛ مادہ ”وقی”)

[506] ۔ ابن منظور مختصر تاریخ دمشق، ج١، ص١٦٨؛ ابن کثیرل البدایہ النہایہ، ج٥، ص٢١؛ حلبی، انسان العیون، ج٣، ص١١٨؛ احمدی میانجی، مکاتیب الرسول ، ج٣، ص١١٣ اسی طرح ر۔ک: ابن سعد، الطبقات الکبری، ج١، ص٢٢١۔

[507] ۔ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٥٢٥؛ ابن قیم جوزیہ، زاد المعاد، ج٣، ص٣٧؛ ابن کثیرل البدایہ النہایہ، ج٥، ص٢١۔

[508] ۔ واقدی، المغازی، ج٣، ص٣٢؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٥٢٥؛ ابن قیم جوزیہ، زاد المعاد، ج٣، ص٥٣٧؛ ابن کثیر البدایہ النہایہ، ج٥، ص٢١؛ حلبی، انسان العیون، ج٣، ص١١٨۔

[509] ۔ زرقانی، شرح المواھب اللدنیہ، ج٤، ص٩١۔

[510] ۔ واقدی، المغازی، ج٣، ص١٠٣٢؛ اسی طرح: ر،ک: ابن سلام۔ الاموال، ص٤٢۔

[511] ۔ اس بارے: ر۔ک: یاقوت حمودی، معجم البلدان، ج٢، ص١٣٧ ۔

[512] ۔ یہاں پر دو صلح ناموں کے وجود کا احتمال ہے۔ طبری کی ظاہری عبارت (…کتب رسول اللہ ﷺ…لکل کتابا)دیکھنے کی وجہ سے زیر بحث آیا ہے۔ (احمدی میانجی، مکاتیب الرسول ، ج٣، ص١١٦)؛ لیکن یاد رہنا چاہئے کہ اسی جگہ پر طبری اس طرح جاری رکھتا ہے:

”فھو عندھم” طبری کی یہ عبارت اس بات پر دلالت ہے کہ آپ نے اذرح و جربا کے لوگوں کے لئے ایک ہی صلح نامہ لکھا اور وہ صلح نامہ ان کے پاس ہے، اسی طرح اگرچہ بلاذری اور پھر ابن اثیر نے اپنی تعبیر کے ذریعے ذکر کیا کہ ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺنے اذرح اور جربا کے لئے علیحدہ علیحدہ معاہدہ لکھا۔لیکن اس کے بعد انہوں نے تصریح کی ہے کہ ”لا کتب لھم کتابا”کہ یہ بھی معروف بیان کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔(ر۔ک: طبری، تاریخ الامم ولملوک، ج٣، ص١٠٨؛ بلاذری، فتوح البلدان، ص٧١؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج١، ص٦٣٨) ۔

[513] ۔ یاقوت حمودی، معجم البلدان، ج٥، ص٢٠٦؛ محمد حسن شراب، المعالم الثیرہ، ص٢٢٧۔

[514] ۔ ابن سعد، الطبقات اکبری، ج١، ص٢٢١؛ بلاذری، فتوح البلدان، ص٧١؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٥، ص٣٠٦؛ ایک روایت کے مطابق مقنا میں رہنے والے طایفہ کا نام ”بنی جنبہ” یا بنی ”حبیبہ” تھا۔ (ابن سعد، الطبقات اکبری، ج١، ص٢١٢؛ بلاذری، فتوح البلدان، ص٧١۔

[515] ۔ ابن سعد، الطبقات اکبری، ج١، ص٢١٢؛ بلاذری، فتوح البلدان، ص٧١؛احمد میانجی، مکاتیب الرسول ، ج٣، ص١٠٠۔١٠٥۔

[516] ۔ احمد میانجی، مکاتیب الرسول ، ج٣، ص١٠٢

[517] ۔ ایضاً، ص ١٠٤ْ۔

[518] ۔ بلاذری، فتوح البلدان، ص٧١؛

[519] ۔ احمد میانجی، مکاتیب الرسول ، ج٣، ص١٠٦و١٠٩۔

[520] ۔ واقدی، المغازی، ج٣، ص١٠٣٢؛ ابن سعد، الطبقات اکبری، ج١، ص٢٢١؛ احمد میانجی، مکاتیب الرسول ، ج٣، ص١١٣؛ اسی طری ر۔ک: یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٢، ص٢٠٦؛

[521] ۔ محمد حمید اللہ، الوثائق السیاسیہ، ص ١٢١۔١٢٤۔

[522] ۔ ان شواہد میں سے ایک یہ ہے کہ معاہدہ کے متن میں تاریخ نگارش ٥ ہجری ذکر ہوئی ہے اور اہل مقنا کے ساتھ اہل خیبر کا بھی تذکرہ ہے، جبکہ اہل خیبر کے ساتھ آپ(ص) کی صلح ٧ہجری کو ہوئی تھی(ر۔ک: احمد میانجی، مکاتیب الرسول ، ج٣، ص١١٢)

[523] ۔ یاقوت حمودی، معجم البلدان، ج٢، ص٥٥٤؛ دیاربکری، تاریخ الخمیس، ج٢، ص١٢٨۔

[524] ۔ یاقوت حمودی، معجم البلدان، ج٢، ص٥٥٤؛

[525] ۔ واقدی، المغازی، ج٣، ص١٠٢٧؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص٥٢٢؛ ابن قیم جوزیہ، زاد المعاد، ج٣، ص٥٣٧۔٥٣٩۔دیاربکری، تاریخ الخمیس، ج٢، ص١٢٨۔

[526] ۔ واقدی، المغازی، ج٣، ص١٠٢٧؛ ابن قیم جوزیہ، زاد المعاد، ج٣، ص٥٣٩؛دیاربکری، تاریخ الخمیس، ج٢، ص١٢٨؛ احمد میانجی، مکاتیب الرسول ، ج١، ص٢٢٩ و ٢٣٠۔

[527] ۔ ان معنوں میں: ”اکیدر نے اسلام کو قبول کیا اور خدایان اور شمائل کو رد کیا” اکیدر کے عیسائی ہونے کی وجہ سے انداد و اصنام کا ترجمہ صنم خدایان و شمائل ہو گا۔ ر۔ک:احمد میانجی، مکاتیب الرسول ، ج٣، ص٣٠٤۔

[528] ۔ واقدی، المغازی، ج٣، ص١٠٣٠؛ احمد میانجی، مکاتیب الرسول ، ج٣، ص٣٠٣ و ٣٠٤؛ بلاذری، فتوح البلدان، ص٧٣؛احمدی میانجی،مکاتیب الرسول ص ج۳،ص۳۰۳،۳۰۴۔

[529] ۔ احمد میانجی، مکاتیب الرسول(ص)، ج٣، ص٣١٣ و ٣١٤؛ابن قیم جوزیہ، زاد المعاد، ج٣، ص٥٣٩۔

[530] ۔ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج١، ص١٣٥۔

[531] ۔ واقدی، المغازی، ج٣، ص١٠٢٧؛ دیاربکری، تاریخ الخمیس، ج٢، ص١٢٨۔

[532] ۔ ر۔ک: واقدی، المغازی، ج٣، ص١٠٢٧؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٢، ص٥٥٤؛

[533] ۔ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٢، ص٥٥٤؛ واضح نہیں ہے کہ دومة الجندل کے ساکنین یعنی اکیدر کی رعایا کا انجام کس حد تک اکیدر جیسا ہوا۔ لیکن اس طرح کےمعاملات میں رعایا کا انجام اپنے فرمانروا کی طرح ہی ہوتا ہے۔

[534] ۔ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٢، ص٧٨؛ احمد میانجی، مکاتیب الرسول(ص)، ج٣، ص٤٢٢۔

[535] ۔ ابن حزم اندلسی، جمہرة الانساب العرب، ص٣٧٢؛ مسعودی، النسبیہ والاشراف، ص٢٢٤ و ٢٢٥۔

[536] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٧١١؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٢، ص٧٨؛ بیہقی، دلائل النبوہ، ج٤، ص٢٧١؛ ابن قیم جوزیہ، زاد المعاد، ج٣، ص٣٥٥؛ حلبی، انسان العیون، ج٢، ص٧٧٥۔ اسی طرح ر۔ک: بلاذری، فتوح البلدان، ص٤٨؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٢، ص٧٨؛ ابن سیدالناس، عیون الاثیر، ج٢، ص٩٩؛ زرقانی، شرح المواھب اللدنیہ، ج٣، ص٣٠٣؛

[537] ۔ بلاذری، فتوح البلدان، ص٤٨؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٢، ص٧٨؛ ابن سیدالناس، عیون الاثیر، ج٢، ص٩٩؛ حلبی، انسان العیون، ج٢، ص٧٧٥۔

[538] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٧١١؛ بیہقی، دلائل النبوہ، ج٤، ص٢٧١؛ ابن قیم جوزیہ، زاد المعاد، ج٣،ص٣٥٥۔

[539] ۔ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٢، ص٧٨۔

[540] ۔ بلاذری، فتوح البلدان، ص٤٨؛ ابن سیدالناس، عیون الاثیر، ج٢، ص٩٩؛زرقانی، شرح المواھب اللدنیہ، ج٣، ص٣٠٣؛

[541] ۔ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج٥، ص٤٩١؛ ابن حجر عسقلانی، الاصابة فی تمیز الصحابہ، ج٢، ٦٥٨، بلاذری کا نظریہ ہے کہ یزید بن ابی سفیان بنی تیما سے صلح کے وقت ہی ایمان لایا(بلاذری، فتوح البلدان، ص٤٨؛ اسی طرح ر۔ک۔: ابن سیدالناس، عیون الاثیر، ج٢، ص٩٩)؛ زرقانی، شرح المواھب اللدنیہ، ج٣، ص٣٠٣۔

[542] ۔ واقدی، المغازی، ج٣، ص١٠٣١؛ ابن سعد، الطبقات اکبری، ج١، ص٢٢٠؛ ابن منظور مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر، ج٥، ص٢١؛ اسی طرح ر۔ک: ابن قیم جوزیہ، زاد المعاد، ج٣، ص٥٣٩۔

[543] ۔ صلح نامہ کی اس عبارت میں بنی غادیہ غ کے ساتھ ذکر ہوئی ہے جس کا مقصود وہی بنی عادیہ ہے ع کے ساتھ جو تیماء میں رہتے تھے، اس بارے میں ر۔ک: احمد میانجی، مکاتیب الرسول(ص)، ج٣، ص٤٢٢۔

[544] ۔ ابن سعد، الطبقات اکبری، ج١، ص٢١٣؛ محمد بن طولون دمشقی، اعلام السائلین عن کتب سید المرسلین، ص١٥٢؛۔۔احمد میانجی، مکاتیب الرسول(ص)، ج٣، ص٤٢٢؛ محمد حمید اللہ، الوثائق السیاسیہ، ص ٩٨۔

[545] ۔ ر۔ک: مسعودی، التنبیہ والاشراف، ص٢٢٤۔

[546] ۔ واقدی، المغازی، ج٢، ص٧١١؛بیہقی، دلائل النبوہ، ج٢، ص٢٧١؛ ابن قیم جوزیہ، زاد المعاد، ج٣، ص٣٥٥؛ لیکن بعض کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے یہودیوں کو جزیرة العرب سے نکال دیا، نیز بنی تیماء کے یہودیوں کو بھی نکالا۔ بلاذری، فتوح البلدان، ص٤٨؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٢، ص٧٨؛ ابن سیدالناس، عیون الاثیر، ج٢، ص١٩٩۔

[547] ۔ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٥، ص٣٠٨۔

[548] ۔ محمد حسن شراب، المعالم الثیرہ، ص٢٨۶۔

[549] ۔ عمر رضا کحالہ، معجم قبائل العرب، ج١، ص٢٣١، قابل ذکر ہے کہ ربیع الآخر یا جمادی الاول ١٠ہجری میں آپ (ص)نے خالد بن ولید کو نجران میں بنی الحارث کو اسلام کی دعوت کے لئے بھیجا جسے انہوں نے قبول کیا لیکن یہ گروہ عیسائیوں کے علاوہ تھا۔ کیونکہ نجران کے عیسائیوں کے بارے میں شک نہیں ہے کہ انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا اور جزیہ کی ادائیگی کی بنیاد پر آپ سے صلح کی تھی۔(ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج١، ص٦٤٥۔٦٤٦؛ احمد میانجی، مکاتیب الرسول (ص)، ج٢، ص٣ و ٤، پاورقی٢، اسی طرح ر۔ک: ابن سلام۔ الاموال، ص٣٩، ٤٦ و ١٤٦؛ قدامہ ابن جعفر، الخراج وصناعة الکتابہ، ص٢٢٤، ابن کثیر البدایہ النہایہ، ج٤، ص٢٥٠۔

[550] ۔ مسعودی، التنبیہ والاشراف، ص٢٣٦؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج١، ص٦٤٦؛ ذھبی، سیراعلام النبلا، ج٢، ص٢٨٥؛ ۔مقریزی، امتاع الاسماع، ج١، ص٣٦١؛ لوی ماسینیون، مباہلہ در مدینہ، ص٧١۔

[551] ۔ ابن کثیر البدایہ النہایہ، ج٢، ص٢٥٠، ٥، ٦٧۔

[552] ۔ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج٢، ص١٨١؛ بیہقی، دلائل النبوہ، ج٥، ص٣٨٢؛ ابن قیم جوزیہ، زاد المعاد، ج٣، ص٦٣١؛ ابن کثیر البدایہ النہایہ، ج٥، ص٦٤؛ احمد میانجی، مکاتیب الرسول(ص)، ج٢، ص٤٨٩ و ۴۹۰

[553] ۔ ”…ثم نبتل فنجعل لعنة اللہ علی الکاذبین”

[554] ۔ بیہقی، دلائل النبوہ، ج٥، ص٣٨٨؛ ابن قیم جوزیہ، زاد المعاد، ج٣، ص٦٣٤؛ ابن کثیر البدایہ النہایہ، ج٢،ص١٦٥۔

[555] ۔ ر۔ک:ابن منظور،لسان العرب۔

[556] ۔ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج٢، ص٨٢ و ٨٣؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج١، ص٦٤٦؛ حلبی، انسان العیون، ج٣، ص٢٣٦؛ احمد میانجی، مکاتیب الرسول(ص)، ج٢، ص٤٩٣۔٦٩٦ و ٥٠١۔٥٠٧۔

[557] ۔ عربی متن میں ”امثلہ” کا لفظ ذکر ہوا ہے۔ اس بارے میں: ر۔ک: احمد میانجی، مکاتیب الرسول (ص)، ج٣، ص١٦٣ و ١٦٤۔

[558] ۔ بلاذری، فتوح البلدان، ص٧٦؛ احمد میانجی، مکاتیب الرسول (ص)، ج٣، ص١٥٢ ۔ ١٥٦۔ اسی طرح ر۔ک: بیہقی، دلائل النبوہ، ج٥، ص٣٨٩؛ ابن قیم جوزیہ، زاد المعاد، ج٣، ص٦٣٤ و ٣٤٥؛ ابن کثیر البدایہ النہایہ، ج٥، ص٦٦ و ٦٧؛

[559] ۔ ر۔ک: ابن شبہ نمیری، تاریخ المدینة المنورة، ج٢، ص٥٨٥؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج٢، ص٥٣؛ شیخ مفید، الارشاد،ص١٦٩؛

[560] ۔ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج٢، ص٨٣۔

[561] ۔ بلاذری، فتوح البلدان، ص٧٧؛

[562] ۔ ابن سلام۔ الاموال، ص١٤٣ و ١٤٤؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج١، ص٦٤٦۔

[563] ۔ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج١، ص ٦٤٦ و ٦٤٧۔

[564] ۔ ر۔ک: ابن سلام۔ الاموال، ص١٤٥؛ ابن شبہ نمیری، تاریخ المدینة المنورة، ج٢، ص٥٨٤؛ بلاذری، فتوح البلدان،٢۔ص٧٥۔٧٦؛ شیخ مفید، الارشاد، ج١، ص١٦٨؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج١، ص٤٤٦۔

[565] ۔ ر۔ک: ابن سلام۔ الاموال، ص ١٤٤؛

[566] ۔ یاقوت حمودی، معجم البلدان، ج١، ص۴۱۲۔

[567] ۔ ایضا، ج٥، ص٢٥٢۔

[568] ۔ ایضا، ج٤، ١٦٩۔

[569] ۔ بلاذری، فتوح البلدان، ص٨٩؛

[570] ۔ محمد علی خان، سدید السلطنہ، تاریخ مسقط و عمان و بحرین و قطر و روابط آنھا بہ ایران، ص٣٢٠ و ٣٢١۔

[571] ۔ ر۔ک: بلاذری، فتوح البلدان، ص٨٩؛ ابن سعد، الطبقات اکبری، ج١، ص٢٠٢؛

[572] ۔ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج١، ص٦٣٢۔

[573] ۔ ابن سلام۔ الاموال، ص٤٤؛ حمید بن زنجویہ، الاموال، ج١، ص١٤٣؛ قدامة ابن جعفر، الخراج والصناعة الکابہ، ص٢٢٥؛

[574] ۔ طبری، تاریخ الامم ولملوک، ج٣، ص٢٩؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج١، ص٦٣٢۔

[575] ۔ ابن سلام، الاموال، ٤٨۔

[576] ۔ بلاذری، فتوح البلدان، ص٨٩۔

[577] ۔ ایضا، طبری، تاریخ الامم ولملوک، ج٣، ص٢٩۔

[578] ۔ ابن سعد، الطبقات اکبری، ج١، ص٢٠٢۔

[579] ۔ بلاذری، فتوح البلدان، ص٩١؛ ابن سلام۔ الاموال، ص٤٤؛ حمید بن زنجویہ، الاموال، ج١، ص١٣٧؛ احمد میانجی، مکاتیب الرسول (ص) ، ج٢، ص٣٨٨و٣٨٩۔

[580] ۔ بلاذری، فتوح البلدان، ص٨٩۔

[581] ۔ احمد میانجی، مکاتیب الرسول ، ج٣، ص٢٨٢۔

[582] ۔ محمد بن حبیب بغدادی، المحبد، ص٧٧؛ ابن سعد، الطبقات اکبری، ج١، ص٢٠١۔ طبری، تاریخ الامم ولملوک، ج٣، ص٢٩۔

[583] ۔ اس بارے میں بیشر آگاہی کے لئے: ر۔ک: عبدالرحمن بن عافی، عمان فی العصور الاسلامیہ الاولی، ص٧١۔٧٥۔

[584] ۔ طبری، تاریخ الامم ولملوک، ج٣، ص٢٩؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج١، ص٦٣٢؛ احمد میانجی، مکاتیب الرسول ، ج٢، ص٣٤٢و٣٤٣۔

[585] ۔ طبری، تاریخ الامم ولملوک، ج٢، ص٦٤٥۔

[586] ۔ ابن سعد، الطبقات اکبری، ج١، ص٢٠١؛ طبری، تاریخ الامم ولملوک، ج٣، ص٢٩۔

[587] ۔ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج١، ص٦٠٤؛ اس بارے میں بلاذری کا نظریہ ہے کہ ٦ہجری میں آپ (ص) نے ابوزید نامی شخص کو عمان کے لوگوں کی طرف بھجوایا تاکہ انہیں اسلام کی دعوت دے. بلاذری، فتوح البلدان، ص٨٨۔

[588] ۔ ر۔ک: ابن سعد، الطبقات الکبری،ج١، ص٢٠٢۔

[589][589] ۔ ر۔ک: واقدی، المغازی، ج٣، ص٩٥٨۔

[590] ۔ ر۔ک: ابن سعد، الطبقات اکبری، ج١، ص٢٠۔

[591] ۔ مذکورہ تاریخی عرصہ اس بناء پرواضح ہوتاہےکہ مشرکین کا اسلام لانا ،جیسا کہ متن میں گزرا،۔ آپ کے مکاتبہ کے بعد ٨ہجری میں ہوا ہے۔ اس بنیاد پرحوادث کی ترتیب یہ ہو گی۔ ١ مکاتبہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٨ہجری، ٢مشرکین کا اسلام لانا، ٣ زرتشتیوں سے مصالحت۔

[592] ۔ ان میں سے عمان بہت جلد اپنی سابقہ حالت پر پلٹا، اس جگہ کے زرتشتیوں نے دوبارہ سے جزیہ دینا شروع کر دیا۔ بلاذری، فتوح البلدان، ص٨٨؛